Rise of Judaeo-Christian Traditions in first 100 years
Category Archives: حدیث – Rules of Hadith
قرن اول میں اسرائیلیات کا فروغ
قرن اول میں اسرائیلیات کا فروغ جلد ١
قرن اول میں اسرائیلیات کا فروغ جلد ٢
قرن اول میں اسرائیلیات کا فروغ جلد ٣
قرن اول میں اسرائیلیات کا فروغ جلد ٤
قرن اول میں اسرائیلیات کا فروغ جلد ٥
جزیرہ العرب میں موجود بہت سے نصرانی اور یہودی مسلمان ہوئے أور إن لوگوں نے احادیث پر صحائف لکھے- ان میں مشہور کعب احبار ہیں جن کے پاس کوئی کتاب دانیال تھی – ان کی بیشتر روایات فتن کے باب میں ہیں – ان کے علاوہ ایک نو مسلم هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهِ بْنِ كَامِلِ بْنِ سَيْجٍ الصَّنْعَانِيِّ تھے جو یمن سے مدینہ پہنچے اور ان کی نظر انتخاب صرف ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر پڑی جبکہ اصحاب رسول کی کثیر تعداد وہاں موجود تھی – ہمام بن منبہ نے صرف ابو ہریرہ کو استاد و شیخ سمجھا باقی کسی کی روایت تک نہیں لکھی جتنا راقم کو علم ہوا ہے
اہل تشیع نے ایک نو مسلم یمنی یہود ی ابن سبا سے اپنے عقائد اخذ کیے جو صوفیانہ قسم کے ہیں
اس کے علاوہ بعض دیگر روایات ہیں جن کا متن پکار کر کہہ رہا ہوتا ہے کہ یہ اسرائیلیات ہیں لیکن ان کو صحیح سمجھا جاتا ہے – اس وجہ سے ان پر تنقید مناسب نہیں ہوتی – البتہ جو ان روایات کو صحیح سمجھتا ہو اس کو یہ معلومات معلوم ہونی چاہیے ہیں جو راقم نے ان اجزاء میں اب جمع کر دی ہیں
اس کاوش کو صحیحین پر تنقید نہ سمجھا جائے – امام بخاری و مسلم کا جو درجہ ہے وہ مسلمہ ہے – راقم کا مقصد اپنے علم کو ضائع ہونے سے بچانا ہے کیونکہ جب اتنا جان لیا تو اس سب کو بتانا ضروری ہے – موت کا دور دورہ ہے
ہر صدی میں مجدد آئے گا ؟
سنن ابو داود میں ہے
حدَّثنا سليمانُ بنُ داودَ المَهْريُّ، حدَّثنا ابنُ وهْبٍ، أخبرني سعيدُ ابنُ أبي أيوبَ، عن شَرَاحِيلَ بنِ يزيدَ المَعافِريِّ، عن أبي علقمةَ عن أبي هريرةَ -فيما أعلمُ- عن رسول الله -صلَّى الله عليه وسلم- قال: “إن الله عز وجل يبعث لهذه الأمة على رأس كلِّ مِئة سنةٍ من يُجَدِّدُ لها دينَها
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک ہر سو سال کے پورے ہونے پر، اللہ تعالی اس امت پر بھیجے گا اس کو جو اس کے دین کی تجدید کرے گا
قال العراقي: سنده صحيح الفيض 2/ 282 عراقی کا قول ہے کہ اس کی سند صحیح ہے
قال الحافظ: سنده قوي لثقة رجاله توالي التأسيس ص 49 ابن حجر کا قول ہے کہ سند قوی ہے، راوی ثقہ ہیں
قال السخاوي: سنده صحيح رجاله كلهم ثقات سخاوی نے کہا اس کی سند صحیح ہے رجال سب ثقہ ہیں[1]
ابن عدی کے بقول أبو علقمة کا نام مسلم بن يسار ہے-
قَالَ الشَّيْخُ: وَهَذَا الْحَدِيثُ لا أَعْلَمُ يَرْوِيهِ غَيْرَ ابْنُ وَهب، عَنْ سَعِيد بْنِ أَبِي أَيُّوبَ، ولاَ عَنِ ابْنِ وَهْبٍ غَيْرَ هَؤُلاءِ الثَّلاثَةِ، لأَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ فِي كِتَابِ الرِّجَالِ لابْنِ وَهْبٍ، ولاَ يَرْوِيهِ عَنِ ابْنِ وَهْبٍ إلاَّ هَؤُلاءِ، وأَبُو عَلْقَمَةَ اسْمُهُ مسلم بن يسار
امام بخاری کی رائے الگ ہے – تاریخ الکبیر میں امام بخاری کا کہنا ہے کہ شَراحِيل بْن يزيد، المَعافريّ. نے مُسلم بْن يَسارسے سنا تھا – یہ أَبِي عَلقَمة. سے روایت کرتا ہے
شَراحِيل بْن يزيد، المَعافريّ سَمِعَ مُسلم بْن يَسار، عَنْ أَبِي عَلقَمة
امام بخاری کا انداز تحریر بتا رہا ہے کہ ان کے نزدیک مسلم بن یسار اور ابو علقمہ ایک راوی نہیں ہیں – البتہ محدثین متاخرین نے ان دونوں کو ملا کر ایک راوی کر دیا ہے
راقم کہتا ہے امام بخاری نے جس طرف اشارہ کیا ہے وہ صحیح ہے – مسلم بن یسار مصری و افریقی ہے اور اس کی کنیت ابو عثمان ہے نہ کہ ابو علقمہ – اکمال از مغلطاي میں اس کا مکمل نام ہے
مسلم بن يسار المصري، أبو عثمان الطنبذي، ويقال: الإفريقي، مولى الأنصار
جامع بیان العلم میں ابن عبد البر کا قول ہے
قَالَ أَبُو عُمَرَ: «اسْمُ أَبِي عُثْمَانَ الطُّنْبُذِيِّ مُسْلِمُ بْنُ يَسَارٍ»
مسلم بن یسار جس سے عبدالرحمان بن زیاد بن انعم مصری افریقی روایت کرتے ہیں اس پر امام احمد کا قول ہے یہ مجہول ہے
وقال أبو طالب: قال أحمد بن حنبل: مسلم بن يسار الذي يروي عنه الإفريقي لا أعرفه. «الجرح والتعديل» 8/ (870) .
ابو طالب نے کہا : احمد نے کہا مسلم بن یسار جس سے (عبدالرحمان بن زیاد بن انعم) افریقی روایت کرتا ہے اس کو میں نہیں جانتا [2]
الاستغناء في معرفة المشهورين من حملة العلم بالكنى «وهو مشتمل على ثلاثة كتب في الكنى از ابن عبد البر النمري القرطبي (368 – 463 هـ) میں ہے
أبو علقمة. روى عنه عبد الرحمن بن زياد المعافرى ضعفه يحيى ابن معين وقال: ليس بشئ
ابو علقمہ جس سے عبد الرحمان بن زیاد روایت کرتا ہے بقول امام ابن معین کوئی چیز نہیں ہے[3]
ميزان الاعتدال في نقد الرجال از الذھبی میں راوی مسلم بن يسار [د، ت، ق] المصري، أبو عثمان کے ترجمہ میں ہے
ولا يبلغ حديثه درجة الصحة اس کی حدیث صحت کے درجہ پر نہیں پہنچتی
عجیب بات ہے کہ امام الذھبی کی کتاب تاریخ الاسلام میں اسی راوی کے دو ترجمے رقم ٢٠٦ اور رقم ٢٣٩ پر قائم کیے گئے ہیں ان میں سے ایک میں اس راوی کو صدوق قرار دے دیا گیا ہے جبکہ دوسرے مقام پر نہ کلمہ جرح ہے نہ تعدیل ہے –
کتاب أنِيسُ السَّاري في تخريج وَتحقيق الأحاديث التي ذكرها الحَافظ ابن حَجر العسقلاني في فَتح البَاري از أبو حذيفة، نبيل بن منصور بن يعقوب بن سلطان البصارة الكويتي ، محقق: نبيل بن مَنصور بن يَعقوب البصارة کی تحقیق ہے کہ
قلت: مسلم بن يسار الذي يروي عن أبي هريرة وعنه شراحيل بن يزيد هو المصري أبو عثمان الطنبذي ويقال الأفريقي مولى الأنصار، وأما أبو علقمة المذكور هنا في إسناد هذا الحديث فهو غيره وهو مصري مولى بني هاشم ويقال حليفهم ويقال حليف الأنصار، وقد اتفقا في الرواية عن أبي هريرة ويروي عنهما شراحيل بن يزيد، واختلفا في الكنية.
میں کہتا ہوں : مسلم بن یسار جو ابو ہریرہ سے روایت کرتا ہے اور اس سے أبو عثمان شراحيل بن يزيد المصري روایت کرتا ہے اور اس کو لأفريقي مولى الأنصار کہا جاتا ہے اور جہاں تک ابو علقمہ ہے جو اس سند میں مذکور ہے وہ میرے نزدیک کوئی اور ہے یہ شخص ہے جو مصری ہے اور یہ بنو ہاشم کا آزاد کردہ ہے یا بنو ہاشم کا حلیف و مددگار ہے اس کو انصار کا حلیف بھی کہا جاتا ہے[4]
راقم کہتا ہے کہ راوی مسلم بن یسار پر بہت سے مسائل ہیں –
اول : مسلم بن یسار کا سماع ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے
الزهد والرقائق لابن المبارك میں ہے
أنا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو هَانِئٍ الْخَوْلَانِيُّ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ عُثْمَانَ، سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: «إِنَّ فِي الْجَنَّةِ سُفُنًا مَقَاذِفُهَا مِنْ ذَهَبٍ
یہاں مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ کا سماع ابو ہریرہ سے نہیں ہے اگر سند میں تحریف نہیں ہے
دوم : محققین کا اس میں بھی اختلاف ہے کہ روایت ہر صدی کے آخر میں مجدد یہ ایک راوی ہے یا اس الگ ہیں
مسلم بن يسار المصري، أبو عثمان الطنبذي (بقول البانی ، ابن حجر یہ راوی ہے )
أبي علقمة، مسلم بن يسار الهاشمي مولی بنو ہاشم (بقول سخاوی یہ راوی ہے )
أبي علقمة، مولی بنو ہاشم یا مولی انصار (بقول نبیل بن منصور یہ راوی ہے )
سوم محدثین میں امام احمد کے نزدیک مسلم بن یسار جس سے عبد الرحمان بن زیاد افریقی روایت کرتا ہے وہ مجہول ہے اور ابن معین کا کہنا ہے وہ کوئی چیز نہیں ہے
مصریوں نے جس مسلم بن یسار سے روایت کیا اس کی کنیت انہوں نے ابو عثمان ذکر کی ہے حُمَيْدُ بْنُ هَانِئ، أَبُو هَانِئ الْخَوْلانِيُّ المتوفی ١٤٢ ھ نے ابی عثمان مسلم بن یسار سے روایت کیا ہے – ابن ماجہ میں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي أَيُّوبَ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو هَانِئٍ حُمَيْدُ بْنُ هَانِئٍ الْخَوْلَانِيُّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “مَنْ أُفْتِيَ بِفُتْيَا غَيْرَ ثَبَتٍ، فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى مَنْ أَفْتَاهُ
مسند احمد میں مصری عَمْرِو بْنِ أَبِي نَعِيمَةَ نے ابو عثمان مسلم بن یسار سے روایت کیا ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، مِنْ كِتَابِهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ يَعْنِي ابْنَ أَبِي أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي بَكْرُ بْنُ عَمْرِو الْمَعَافِرِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي نُعَيْمَةَ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ تَقَوَّلَ عَلَيَّ مَا لَمْ أَقُلْ، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ
اور عبد الرحمان بن زیاد افریقی مصری نے بھی مسلم بن یسار سے روایت کیا ہے
عبد الرحمان بن زیاد افریقی مصری ، عَمْرِو بْنِ أَبِي نَعِيمَةَ ، حُمَيْدُ بْنُ هَانِئ، أَبُو هَانِئ الْخَوْلانِيُّ، شَراحِيل بْن يزيد المَعافريّ سب راوی ایک طبقہ کے ہیں اور مصری ہیں لہذا اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم بن یسار کی کنیت ابو علقمہ نہیں ہے بلکہ ابو عثمان ہے اور امام احمد کے نزدیک یہ مجہول ہے -ابن معین کے نزدیک ابو علقمہ کوئی چیز نہیں ہے
حاصل کلام ہوا کہ ابو عثمان مسلم بن یسار اور ابو علقمہ ایک راوی نہیں ہے جیسا بعض نے دعوی کیا ہے نتیجہ یہ نکلا کہ سنن ابو داود کی روایت راوی أبي علقمةَ کی مجہولیت کی وجہ سے ضعیف ہے
حدَّثنا سليمانُ بنُ داودَ المَهْريُّ، حدَّثنا ابنُ وهْبٍ، أخبرني سعيدُ ابنُ أبي أيوبَ، عن شَرَاحِيلَ بنِ يزيدَ المَعافِريِّ، عن أبي علقمةَ عن أبي هريرةَ -فيما أعلمُ- عن رسول الله -صلَّى الله عليه وسلم- قال: “إن الله عز وجل يبعث لهذه الأمة على رأس كلِّ مِئة سنةٍ من يُجَدِّدُ لها دينَها
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک ہر سو سال کے پورے ہونے پر، اللہ تعالی اس امت پر بھیجے گا اس کو جو اس کے دین کی تجدید کرے گا
آراء
طبقات الفقهاء الشافعية از ابن الصلاح (المتوفى: 643هـ) میں ہے کہ پہلے مجدد عمر بن عبد العزیز ، پھر امام شافعی ، پھر ابو العباس بن سریج ، پھر الإِسْفِرَايِينِيّ
قَالَ الشَّيْخ تَقِيّ الدّين: وعَلى الشَّيْخ أبي حَامِد تَأَول بعض الْعلمَاء حَدِيث أبي هُرَيْرَة، عَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: ” إِن الله عز وَجل يبْعَث لهَذِهِ الْأمة على رَأس كل مئة سنة من يجدد لَهَا دينهَا “.
وَكَانَ على رَأس المئة الأولى عمر بن عبد الْعَزِيز، وَفِي الثَّانِيَة الشَّافِعِي، قَالَ هَذَا الْقَائِل: وَفِي رَأس الثَّالِثَة أَبُو الْعَبَّاس ابْن سُرَيج، وَفِي رَأس الرَّابِعَة أَبُو حَامِد الإِسْفِرَايِينِيّ
وروى الشَّيْخ بِإِسْنَادِهِ أَن ابْن الْمحَامِلِي لما عمل ” الْمقنع ” أنكرهُ عَلَيْهِ شَيْخه الشَّيْخ أَبُو حَامِد من جِهَة أَنه جرد فِيهِ الْمَذْهَب، وأفرده عَن الْخلاف، وَذهب إِلَى أَن ذَلِك مِمَّا يقصر الهمم عَن تَحْصِيل الفنين، وَيَدْعُو إِلَى الِاكْتِفَاء بِأَحَدِهِمَا، وَمنعه من حُضُور مَجْلِسه، فاحتال لسَمَاع درسه من حَيْثُ لَا يحضر الْمجْلس.
طبقات علماء الحديث از ابن عبد الهادي الدمشقي الصالحي (المتوفى: 744 هـ) میں ہے کہ پہلے مجدد عمر بن عبد العزیز ہیں پھر شافعی پھر ابن خزیمہ
وقال: سمعتُ المشايخ في القديم يقولون: إنَّ رأسَ المئة السَّنة في التاريخ من الهجرة قام عمرُ بنُ عبد العزيز، ورأس المئتين محمدُ بنُ إدريسَ الشَّافعي، ورأس الثَّلاثِ مئة محمدُ بنُ إسحاقَ بن خُزيمة.
سير أعلام النبلاء از الذھبی میں ہے کہ ابن صلاح کا قول ہے کہ مجددین میں ہیں شافعی ، ابن سریج ، ابو حامد
قَالَ ابْنُ الصَّلاَح: وَعَلَى الشَّيْخ أَبِي حَامِدٍ تَأَوَّلَ بَعْضُ العُلَمَاء حَدِيْثَ: (إِنَّ اللهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مائَة سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا) فَكَانَ الشَّافِعِيُّ عَلَى رَأْس المائَتَيْنِ، وَابْنُ سُرَيْجٍ عَلَى رَأْس الثَّلاَث مائَة، وَأَبُو حَامِدٍ عَلَى رَأْس الأَرْبَع مائَة
ابن کثیر کا کتاب النهاية في الفتن والملاحم میں قول ہے
أن هذا الحديث يعُمُّ جملة أهل العلم من كل طائفة، وكل صنف من. أصناف العلماء من مفسرين ومحدثين وفقهاء ونحاة ولغويين إلى غير ذلك من الأصناف، والله أعلم.
اس حدیث میں ہر طائفہ میں ہر صنف کے اہل علم شامل ہیں جن اصناف میں مفسرین ہیں ، محدثین ہیں ، فقہاء ہیں ، لغوی و نحوی ہیں اور اسی طرح کی اور صنفوں کے علماء و اللہ ا علم
البانی نے کتاب (الصَّحِيحَة: 599) میں امام احمد کا قول نقل کیا
قال الإمام أحمد بن حنبل: إن الله يُقَيِّضُ للناس في رأس كل مائة من يعلِّمُهم السُّنن , ويَنفي عن رسولِ الله – صلى الله عليه وسلم – الكذب , قال: فنظرنا , فإذا في رأس المائة: عمر بن عبد العزيز , وفي رأس المائتين: الشافعي.
احمد بن حنبل نے کہا بے شک اللہ تعالی لوگوں کے لئے کسی کو لائے گا جو ہر سو سال پر سنت کی تعلیم دیں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کے نام سے بولے گئے ) جھوٹ کی نکیر کریں گے – احمد نے کہا ہم دیکھتے تھے کہ یہ عمر بن عبد العزیز ہیں اور دو سو سال پر (سن ٢٠٠ ہجری میں ) امام شافعی ہیں
معرفة السنن والآثار از بیہقی میں ہے کہ یہ قول امام احمد سے روایت کیا گیا ہے
قَالَ الشَّيْخُ أَحْمَدُ: وَرُوِّينَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ أَنَّهُ قَالَ: فَكَانَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَلَى رَأْسِ الْمِائَةِ. وَأَرْجُو أَنْ يَكُونَ الشَّافِعِيُّ عَلَى رَأْسِ الْمِائَةِ الْأُخْرَى
راقم کہتا ہے امام احمد سے یہ منسوب قول صحیح سند سے معلوم نہیں ہے اور احمد کے نزدیک مصری راوی مسلم بن یسار مجہول ہے – اگر ابو علقمہ کوئی اور ہے اور مسلم بن یسار نہیں ہے تو پھر یہ بھی معلوم نہیں ابو علقمہ کون ہے – لہذا یہاں امام بخاری کی رائے درست معلوم ہوتی ہے کہ مسلم بن یسار کی کنیت ابو علقمہ نہیں ہے بلکہ دو الگ الگ راوی ہیں
طبقات الشافعيين از ابن کثیر میں امام احمد سے منسوب قول کی سند ہے
قال البيهقي: أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، حدثني أبو الفضل بن أبي نصر العدل، أخبرنا أبو الحسن، محمد بن أيوب بن يحيى بن حبيب، بمصر: سمعت أحمد بن عمرو بن عبد الخالق البزاز، يقول: سمعت عبد الملك الميموني، يقول: كنت عند أحمد بن حنبل، وجرى ذكر الشافعي، فرأيت أحمد يرفعه، وقال: يروى عن النبي، صلى الله عليه وسلم: «إن الله يبعث لهذه الأمة على رأس كل مائة سنة من يقرر لها دينها» ، فكان عمر بن عبد العزيز، رضي الله عنه: على رأس المائة، وأرجو أن يكون الشافعي عل رأس المائة الأخرى.
سند میں أحمد بن عمرو بن عبد الخالق البزاز مجہول ہے
تذهيب تهذيب الكمال في أسماء الرجال از الذھبی اور تاریخ دمشق از ابن عساکر میں ہے
قال أبو محمد بن الورد: ثنا أبو سعيد الفريابي قال: قال أحمد بن حنبل
: إن الله يقيض للناس في رأس كل مائة من يعلمهم السنن، وينفي عن رسول الله
-صلى الله عليه وسلم- الكذب. فنظرنا فإذا في رأس المائة عمر بن عبد العزيز وفي رأس المائتين الشافعي
سند میں محمد بن عقيل الفريابي أبو سعيد المتوفی ٢٨٥ ھ ہے اور یہ شوافع میں سے ہے – حنابلہ کی کتب میں اس کا ذکر نہیں ملا ان کا سماع امام احمد سے مشکوک ہے – امام شافعی سے متعلق بہت سے مبالغہ امیز اقوال میں سے ایک یہ بھی ہے
امام شافعی یا عمر بن عبد العزیز کا کوئی علمی کام معلوم نہیں جس کو تجدید دین قرار دیا جا سکے
============================================
المقاصد الحسنة في بيان كثير من الأحاديث المشتهرة على الألسنة میں سخاوی کا کہنا ہے کہ سند میں أبي علقمة، مسلم بن يسار الهاشمي ہے
حَدِيث: إِنَّ اللَّه يَبْعَثُ لِهَذِهِ الأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا، أبو داود في الملاحم من سننه من حديث ابن وهب، أخبرني سعيد بن أبي أيوب عن شراحيل بن يزيد المعافري عن أبي علقمة، واسمه مسلم بن يسار الهاشمي عن أبي هريرة
تجريد الأسماء والكنى المذكورة في كتاب المتفق والمفترق للخطيب البغدادي از عُبَيْد الله بن علي بن محمد بن محمد بن الحسين ابن الفرّاء الحنبلي ( المتوفى: 580هـ) میں ہے
روى عنه: أبو هانئ حميد بن هاني، وبكر بن عمرو، وشراحيل بن يزيد، وعبد الرحمن بن زياد بن أنعم وغيرهم
مسلم بن یسار سے أبو هانئ حميد بن هاني، وبكر بن عمرو، وشراحيل بن يزيد، وعبد الرحمن بن زياد بن أنعم اور دیگر روایت کرتے ہیں
راقم کہتا ہے مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، مِنْ كِتَابِهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ يَعْنِي ابْنَ أَبِي أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي بَكْرُ بْنُ عَمْرِو الْمَعَافِرِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي نُعَيْمَةَ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ تَقَوَّلَ عَلَيَّ مَا لَمْ أَقُلْ، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ، وَمَنِ اسْتَشَارَهُ أَخُوهُ الْمُسْلِمُ، فَأَشَارَ عَلَيْهِ بِغَيْرِ رُشْدٍ، فَقَدْ خَانَهُ، وَمَنْ أَفْتَى بِفُتْيَا غَيْرِ ثَبْتٍ، فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى مَنْ أَفْتَاهُ
اس سند سے ظاہر ہے کہ بَكْرُ بْنُ عَمْرِو الْمَعَافِرِيُّ اور أَبِي عُثْمَانَ مُسْلِمِ بْنِ يَسَار کا سماع نہیں ہے بلکہ بیچ میں ایک راوی عمرو بن أبي نَعيمة مصري مجهول ہے ہے –
سنن ابو داود ح ٣٦٥٧ میں ابو داود نے سند ذکر کی کہ بكرِ بن عَمرو اور أبي عثمانَ الطُّنْبُذِيّ کے درمیان عَمرو بن أبي نُعيمة ہے
حدَّثنا الحسنُ بنُ علي، حدَّثنا أبو عبد الرحمن المُقرئ، حدَّثنا سعيد -يعني ابن أبي أيوبَ- عن بكر بن عمرٍو، عن مسلمِ بن يسارٍ أبي عثمان، عن أبي هريرة، قال: قال رسولُ الله – صلَّى الله عليه وسلم -: “من أُفتِيَ”.
وحدَّثنا سليمانُ بنُ داود، أخبرنا ابنُ وهب، حدَّثني يحيى بن أيوبَ، عن بكرِ بن عَمرو، عن عَمرو بن أبي نُعيمةَ، عن أبي عثمانَ الطُّنْبُذِيّ رضيعِ عبدِ الملك بن مروان قال:
سمعت أبا هريرة يقولُ: قالَ رسولُ الله – صلَّى الله عليه وسلم -: “مَن أُفتيَ بغيرِ عِلمٍ كان إثمُهُ على مَن أفتاهُ -زاد سليمانُ المَهريُّ في حديثه:- ومَن أشارَ على أخيه بأمرٍ يَعلمُ أنَّ الرُشْدَ في غَيرِهِ فَقَد خَانَه” وهذا لفظ سليمان
مسلم بن یسار کی کنیت ابو عثمان ہے – امام بخاری نے تاریخ الکبیر میں مُسلم بْن يَسار، مَولَى الأَنصار سَمِعَ سَعِيد بْن المُسَيَّب اور مُسلم بْن يَسار، أَبو عُثمان الطُّنبُذِيُّ رَضِيعُ عَبد الْمَلِكِ بْنِ مَروان کے دو الگ ترجمے قائم کیے ہیں – امام ابی حاتم نے امام بخاری کی تائید کی ہے
یعنی امام بخاری کے نزدیک یہ دو الگ راوی ہیں البتہ خطیب بغدادی و دیگر کے نزدیک ایک ہی ہیں
اس راوی مسلم بن یسار کو أبي علقمة الهاشمي بھی لکھا گیا ہے- المقاصد الحسنة في بيان كثير من الأحاديث المشتهرة على الألسنة میں سخاوی کا کہنا ہے کہ سند میں أبي علقمة، مسلم بن يسار الهاشمي ہے
حَدِيث: إِنَّ اللَّه يَبْعَثُ لِهَذِهِ الأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا، أبو داود في الملاحم من سننه من حديث ابن وهب، أخبرني سعيد بن أبي أيوب عن شراحيل بن يزيد المعافري عن أبي علقمة، واسمه مسلم بن يسار الهاشمي عن أبي هريرة
: الشريعة از الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) میں ہے
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ هَارُونَ أَبُو عِمْرَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ [ص:2139] عَبْدِ الْحَمِيدِ الْحِمَّانِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ , عَنِ الْإِفْرِيقِيِّ وَهُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زِيَادِ بْنِ أَنْعَمَ , عَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ»
مسلم بن یسار یہ بنو عباس کا حلیف ہے اس کی منکرات میں سے ہیں
کتاب الفتن از نعیم بن حماد میں ہے
حَدَّثَنَا محمد بن عبدالله أبو عبدالله التيهِرْتي، عَن عبدالرحمن بن زياد بن أَنعم، عن مُسلم بن يَسار، عن سعيد بن المسيّب، قالَ: قالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم: (يخْرُجُ مِنَ الْمَشْرِقِ رَايَاتٌ سُودٌ لِبَنِي الْعَبَّاسِ، ثُمَّ يَمْكُثُونَ مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ تَخْرُجُ رَايَاتٌ سُودٌ صِغَارٌ تُقَاتِلُ رَجُلا مِنْ وَلَدِ أَبِي سُفْيَانَ وَأَصْحَابِهِ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ، يُؤَدُّونَ الطَّاعَةَ لِلْمَهْدِيِّ
مسلم بن یسار نے سعید بن المسیب سے روایت کے کہا رسول اللہ نے فرمایا بنو عباس کے کالے جھنڈے مشرق سے نکلیں گے
یہ سند منقطع ہے لیکن یہ دلیل ہے کہ مسلم بن یسار بنو عباس کا حمایتی ہے ان کے لئے حدیث گھڑنے والا ہے- یہ مسلم بن یسار ہاشمی ہے
سنن الکبری بیہقی میں ہے
وَرَوَاهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ فِي الْجَامِعِ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادِ بْنِ أَنْعَمَ , عَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ قَالَ: سَأَلْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ عَنْ عِتْقِ أُمَّهَاتِ الْأَوْلَادِ , فَقَالَ: إِنَّ النَّاسَ يَقُولُونَ: إِنَّ أَوَّلَ مَنْ أَمَرَ بِعِتْقِ أُمَّهَاتِ الْأَوْلَادِ عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ , وَلَيْسَ كَذَلِكَ , وَلَكِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوَّلُ مَنْ أَعْتَقَهُنَّ , وَلَا يُجْعَلْنَ فِي ثُلُثٍ , وَلَا يُبَعْنَ فِي دَيْنٍ. .
اس سند سے معلوم ہوا کہ مسلم بن یسار خود سعید بن المسیب سے بھی روایت کرتا ہے
دوسری طرف یہی راوی مسلم بن یسار ہاشمی کہا گیا ہے جو منکرات بیان کرتا ہے
احمد اور جوتوں کی چاپ
فرقے یہ ثابت کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں کہ مردہ قبر میں سنتا ہے اس کے لئے صحیح البخاری کی حدیث قرع النعال پیش کی جاتی ہے یعنی چاپ کی گونج – قرع کا مطلب عربی میں وہ آواز ہے جو ہتھوڑے کی ضرب سے پیدا ہو – ظاہر ہے یہ اس عالم کا معاملہ نہیں تھا لیکن ان لوگوں نے اس کو زمین پر انسانی قدموں کی چاپ بنا دیا –
بہر حال ہونا تو یہ چاہیے تھا اس حدیث کی بنیاد پر قبرستان میں جوتے پہن کر چلا جاتا لیکن امام احمد باوجود یہ کہ قرع النعال والی روایت کو مسند میں روایت کرتے ہیں لیکن جوتیوں کی چاپ سننے والی روایت پر عمل نہیں کرتے اور قبرستان میں داخل ہونے سے پہلے جوتیاں اتارنے کا حکم کرتے تھے ظاہر ہے نہ جوتیاں ہوں گی نہ ان کی چاپ کا سوال اٹھے گا
کتاب مسائل أحمد بن حنبل رواية ابنه عبد الله کے مطابق
وَقَالَ أبي يخلع نَعْلَيْه فِي الْمَقَابِر
میرے باپ (احمد ) کہتے ہیں قبرستان میں نعل اتار دو
وَكَانَ يَأْمر بخلع النِّعَال فِي الْمَقَابِر
امام احمد حکم دیتےتھے کہ قبرستان میں نعل اتار دو
رَأَيْت ابي اذا اراد ان يدْخل الْمَقَابِر خلع نَعْلَيْه وَرُبمَا رَأَيْته يُرِيد ان يذهب الى الْجِنَازَة وَرُبمَا لبس خفيه اكثر ذَلِك وَينْزع نَعْلَيْه
میں نے اپنے باپ کو دیکھا کہ جب قبرستان میں داخل ہوتے تو جوتے اتار دیتے
امام احمد کے بیٹے کتاب العلل ومعرفة الرجال میں لکھتے ہیں
رَأَيْت أبي إِذا دخل الْمَقَابِر يخلع نَعْلَيْه فَقلت لَهُ إِلَى أَي شَيْء تذْهب فَقَالَ إِلَى حَدِيث بشير بن الخصاصية
میں نے اپنے باپ کو دیکھا کہ قبرستان میں اتے تو جوتے اتارتے پس میں نے کہا کس بنا پر اس کو کیا؟ انہوں نے کہا حدیث بشیر بن الخصاصية سے لیا
ابی داود کتاب میں لکھتے ہیں
رَأَيْتُ أَحْمَدَ إِذَا تَبِعَ جِنَازَةً فَقَرِبَ مِنَ الْمَقَابِرِ خَلَعَ نَعْلَيْهِ
میں نے احمد کو دیکھا جب وہ جنازہ کے پیچھے قبرستان کے پاس پہنچتے تو جوتے اتار دیتے
کتاب مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه کے مطابق امام احمد
فلما سلم خلع نعليه ودخل المقابر في طريق [عامية] 2 مشياً على القبور حتى بلغ القبر
پس جب (نماز جنازہ سے) سلام پھرنے کے بعد جوتے اتارتے اور قبرستان میں داخل ہوتے حتی کہ قبر تک پہنچتے
امام احمد کا عمل قرع النعال والی روایت پر نہیں بلکہ بشیر بن الخصاصية کی روایت پر تھا جو ابو داود نے بَابُ الْمَشْيِ فِي النَّعْلِ بَيْنَ الْقُبُورِ میں روایت کی ہے جس سے واضح ہے کہ ان کے نزدیک یہ قرع النعال سے زیادہ صحیح روایت تھی ورنہ اعلی کو چھوڑ کر ادنی پر عمل کیوں تھا
ابن قدامة المغني ج 2 ص ٤٢١ میں کہتے ہیں
قال الإمام أحمد رحمه الله إسناد حديث بشير بن الخصاصية جيد أَذْهَبُ إلَيْهِ، إلَّا مِنْ عِلَّةٍ
امام احمد کہتے ہیں بشير بن الخصاصية والی حدیث کی اسناد جید ہیں اسی پر مذھب ہے سوائے اس کے کہ کوئی علت ہو
اتنے سارے حوالے واضح کرتے ہیں کہ امام احمد نے سرے سے اس روایت پر عمل ہی نہیں کیا کہ جوتیاں پہن کر مردے کو دفناتے وقت چلے ہوں- احمد تو اس قدر روایت پسند تھے کہ صحیح حدیث اگر نہ ہو تو ضعیف پر ہی عمل کے قائل تھے – امام احمد جس قسم کے روایت پسند شخص تھے ان سے اس قرع النعال روایت پر عمل کرنا سرے سے بیان ہی نہیں ہوا کیوں ؟ اس کی وجہ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ بشير بن الخصاصية رضی الله عنہ کی روایت پر مذھب ہے
معاذ (رض) کا سجدہ
ایک حدیث بیان کی جاتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے “اگر” کے انداز میں ایک ایسے عمل کا حکم کا ذکر کیا جو ممنوع رہا ہے
ابن ابی اوفی کی حدیث
سنن أبن ماجة ١٨٥٣ میں حدیث ہے
حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ مَرْوَانَ، حَدّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ الْقَاسِمِ الشَّيْبَانِي
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ مُعَاذٌ مِنْ الشَّامِ سَجَدَ لِلنَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -. فقَالَ: “مَا هَذَا يَا مُعَاذُ؟ ” قَالَ: أَتَيْتُ الشَّامَ فَوَافَقْتُهُمْ يَسْجُدُونَ لِأَسَاقِفَتِهِمْ وَبَطَارِقَتِهِمْ، فَوَدِدْتُ فِي نَفْسِي أَنْ نَفْعَلَ ذَلِكَ بِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: “فَلَا تَفْعَلُوا، فَإِنِّي لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِغَيْرِ اللَّهِ، لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَا تُؤَدِّي الْمَرْأَةُ حَقَّ رَبِّهَا حَتَّى تُؤَدِّيَ حَقَّ زَوْجِهَا، وَلَوْ سَأَلَهَا نَفْسَهَا، وَهِيَ عَلَى قَتَبٍ، لَمْ تَمْنَعْهُ
ابن ابی اوفی نے بیان کیا کہ معاذ شام سے آئے اور رسول اللہ کے پاس مسجد پہنچے ان کو سجدہ کیا – آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کیا کیا معاذ ؟ معاذ بن جبل نے کہا میں شام گیا تو دیکھا کہ وہ لوگ اپنے پادریوں اور سرداروں کو سجدہ کرتے ہیں، تو میری دلی تمنا ہوئی کہ ہم بھی آپ کے ساتھ ایسا ہی کریں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، ایسا نہ کرنا، اگر میں کسی کو سجدہ کا حکم کرتا تو بیوی کو کہتا شوہر کو کرے-
یہ روایت مسند احمد 19403 میں بھی ہے
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنِ القَاسِمِ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى قَالَ: قَدِمَ مُعَاذٌ الْيَمَنَ، أَوْ قَالَ: الشَّامَ، فَرَأَى النَّصَارَى تَسْجُدُ لِبَطَارِقَتِهَا وَأَسَاقِفَتِهَا، فَرَوَّى فِي نَفْسِهِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَقُّ أَنْ يُعَظَّمَ، فَلَمَّا قَدِمَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، رَأَيْتُ النَّصَارَى تَسْجُدُ لِبَطَارِقَتِهَا وَأَسَاقِفَتِهَا، فَرَوَّأْتُ فِي نَفْسِي أَنَّكَ أَحَقُّ أَنْ تُعَظَّمَ، فَقَالَ: ” لَوْ كُنْتُ آمُرُ أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ، لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا،
ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب معاذ رضی اللہ عنہ یمن پہنچے تو وہاں کے عیسائیوں کو دیکھا کہ وہ اپنے پادریوں اور مذہبی رہنماؤں کوسجدہ کرتے ہیں ان کے دل میں خیال آیا کہ نبی تو ان سے بھی زیادہ تعظیم کے مستحق ہیں لہٰذا یمن سے واپس آکر انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں نے عیسائیوں کو اپنے پادریوں اور مذہبی رہنماؤں کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہوئے دیکھاہے میرے دل میں خیال آتا ہے کہ ان سے زیادہ تعظیم کے مستحق تو آپ ہیں – نبی کریم نے فرمایا اگر میں کسی کو کسی کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ اپنے شوہرکوسجدہ کرے-
محدث ابن ابی حاتم نے اس سند پر باپ سے کلام کیا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ حدیث مضطرب ہے اور راوی القاسم بن عوف الشيبانى البكرى الكوفى مضطربُ الْحَدِيثِ ہے-
کتاب العلل میں ابن ابی حاتم لکھتے ہیں:
وسألتُ أَبِي عَنْ حديثٍ رَوَاهُ أيُّوب ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَوْف، عَنِ ابْنِ أَبِي أَوْفى: أنَّ مُعاذً قَدِمَ على النبيِّ (ص) ، فسَجد له، فنهاه النبيُّ (ص) وَقَالَ: لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا يَسْجُدُ لأِ حَدٍ؛ لأَمَرْتُ المَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا … ، الحديثَ؟
فقال أبي: يُخالَفُ أيُّوبُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ؛ فَقَالَ هشامٌ
الدَّسْتوائِي إِسْنَادًا سِوَى [ذَا].
وَرَوَاهُ النَّهَّاسُ بنُ قَهْم ، عَنِ [الْقَاسِمِ] بإسنادٍ آخَرَ، والدَّسْتوائِي حافظٌ مُتْقِنٌ، وَالْقَاسِمُ بْنُ عَوْف مضطربُ الْحَدِيثِ، وأخافُ أَنْ يكونَ الاضطرابُ مِنَ الْقَاسِمِ.
اس روایت پر ابی حاتم نے کہا کہ قاسم بن عون کی سند میں اضطراب ہے
شام دور نبوی میں فتح نہ ہوا تھا اور معاذ رضی اللہ عنہ کو بھی یمن بھیجا گیا تھا – لہذا اس روایت کے متن میں اضطراب ہے کبھی راوی شام کہتا ہے کبھی یمن کہتا ہے۔
معاذ رضی اللہ عنہ کی روایت
یہ روایت أبو ظَبيان کی سند سے بھی ہے لیکن ابو ظَبيان نے معاذ سے نہیں سنا۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت
الترمذي (1159) ، وابن حبان (4162) میں اس کی ایک اور سند بھی ہے
حدثنا محمود بن غيلان حدثنا النضر بن شميل أخبرنا محمد بن عمرو عن أبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال لو كنت آمرا أحدا أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها
اس سند کو البانی نے حسن قرار دیا ہے یعنی یہ ضعیف ہے صرف تعدد طرق کی بنا پر حسن ہوئی یہاں سند میں محمد بن عمرو بن علقمة بن وقاص الليثي ہے جس کو امام الجوزجاني نے ليس بقوي قرار دیا ہے- الخليلي کہتے ہیں يكتب حديثه ولا يحتج به اس کی حدیث لکھو لیکن دلیل مت لینا اور أبو أحمد الحاكم کہتے ہیں ليس بالحافظ عندهم محدثین کے نزدیک مضبوط نہیں-
کتاب ذخيرة الحفاظ میں ابن القيسراني کہتے ہیں اس کی ابوہریرہ والی سند بھی سُلَيْمَان بن دَاوُد اليمامي کی وجہ سے ضعیف ہے-
رَوَاهُ سُلَيْمَان بن دَاوُد اليمامي: عَن يحيى بن أبي كثير، عَن أبي سَلمَة، عَن أبي هُرَيْرَة. وَسليمَان هَذَا لَيْسَ بِشَيْء فِي الحَدِيث.
رَوَاهُ نعيم بن حَمَّاد: عَن رشدين بن سعد، عَن عقيل، عَن ابْن شهَاب، أَبِيه، عَن أبي هُرَيْرَة. وَهَذَا بِهَذَا الْإِسْنَاد عَن رشدين لم يروه عَنهُ غير نعيم. قَالَ الْمُؤلف: وَلَا نعلم لِابْنِ شهَاب عَن أَبِيه. رَوَاهُ عَنهُ أحد
اس کی دوسری سند میں مجھول ہے-
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی روایت
اس کی ایک اور سند ہے لیکن اس میں بھی ضعیف راوی ہے-
رَوَاهُ صَدَقَة بن عبد الله السمين: عَن سعيد بن أبي عرُوبَة، عَن قَتَادَة، عَن الْقَاسِم الشَّيْبَانِيّ، عَن زيد بن أَرقم. وَصدقَة ضَعِيف.
قيسِ بنِ سعد کی حدیث
سنن ابو داود ٢١٤٠ میں ہے
حدَّثنا عمرو بنُ عون، أخبرنا اسحاق بنُ يوسفَ، عن شريكٍ، عن حُصينٍ، عن الشعبيِّ عن قيسِ بنِ سعد، قال: أتيتُ الحِيرةَ فرأيتُهم يسجدون لِمرْزُبانٍ لهم، فقلتُ: رسولُ الله أحقُّ أن يُسجدَ له، قال: فأتيتُ النبي – صلَّى الله عليه وسلم – فقلت: إني أتيتُ الحِيرَةَ فرأيتُهم يَسجُدُونَ لمرزبانٍ لَهُمْ، فأنت يا رسولَ الله أحقُّ أن نسجُدَ لك، قال: “أرأيتَ لو مررتَ بقبري أكنتَ تَسجُدُ له؟ ” قال: قلت: لا، قال: “فلا تَفْعَلُوا، لو كنتُ آمراً أحداً أن يَسجُدَ لأحدٍ لأمرتُ النِّساءَ أن يسجُدْنَ لأزواجِهِنَّ، لِمَا جَعَل الله لهم عليهنَّ من الحق
قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حیرہ آیا، تو دیکھا کہ لوگ اپنے سردار کو سجدہ کر رہے ہیں تو میں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ انہیں سجدہ کیا جائے، میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ سے کہا کہ میں حیرہ شہر آیا تو میں نے وہاں لوگوں کو اپنے سردار کے لیے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تو اللہ کے رسول! آپ اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کریں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “بتاؤ کیا اگر تم میری قبر کے پاس سے گزرو گے، تو اسے بھی سجدہ کرو گے؟” وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “تم ایسا نہ کرنا، اگر میں کسی کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں اس وجہ سے کہ شوہروں کا حق اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے”۔
اس میں حصين بن عبد الرحمن السلمي ہے جو نسائی کے بقول تغیر کا شکار ہوئے اور شريك بن عبد الله النخعي ہے – شریک خود مختلط تھا
بہر حال یہ سند شکوک سے خالی نہیں-
انس بن مالک کی روایت
مسند احمد 12614 میں ہے:
حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ، حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ خَلِيفَةَ، عَنْ حَفْصٍ، عَنْ عَمِّهِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ أَهْلُ بَيْتٍ مِنَ الْأَنْصَارِ …. فَقَالَ: «لَا يَصْلُحُ لِبَشَرٍ أَنْ يَسْجُدَ لِبَشَرٍ، وَلَوْ صَلَحَ لِبَشَرٍ أَنْ يَسْجُدَ لِبَشَرٍ، لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا، مِنْ عِظَمِ حَقِّهِ عَلَيْهَا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ كَانَ مِنْ قَدَمِهِ إِلَى مَفْرِقِ رَأْسِهِ قُرْحَةٌ تَنْبَجِسُ بِالْقَيْحِ وَالصَّدِيدِ، ثُمَّ اسْتَقْبَلَتْهُ تَلْحَسُهُ مَا أَدَّتْ حَقَّهُ»
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((لا يصلح لبشر أن يسجد لبشر، ولو صلح أن يسجد بشر لبشر لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها من عظم حقه عليها، والذي نفسي بيده لو أن من قدمه إلى مفرق رأسه قرحة تنبجس بالقيح والصديد ثم أقبلت تلحسه ما أدت حقه))
. یعنی کسی بشر کے لیے جائز نہیں کہ کسی دوسرے بشر کو سجدہ کرے، اگر ایسا کرنا درست ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر آدمی کے قدم سے لے کر سر کی چوٹی تک سب پیپ سے بھرا ہوا اور عورت اس سب کو اپنے منہ سے چوس لے تب بھی مرد کا حق نہیں ادا کر سکتی
[مسند أحمد:12614 صحیح ابن حبان(4164) سنن دارقطنی(3571) وغیرھا من الکتب]
اس کی اسناد میں
خَلَفُ بْنُ خَلِيفَةَ ہے اور خلف مظبوط راوی نہیں ہے-
امام احمد نے اس کو اختلاط کے عالم میں دیکھا – وہ کہتے ہیں:
فَسُئِلَ عَنْ حَدِيْثٍ، فَلَمْ أَفْهَمْ كَلاَمَهُ.
میں نے اس سے حدیث پوچھی لیکن اس کا کلام سمجھ نہ سکا
قال ابن عيينة: يكذب
ابن عيينة کہتے تھے جھوٹ بولتا ہے۔
سنن اربع والوں اور مسلم نے روایت لی ہے۔
امام مسلم نے تین روایت لکھی ہیں جن میں خلف نے حفص سے کچھ روایت نہیں کیا۔
بعض محدثین نے روایت میں حفص کو حفص بن عبيد الله ابْن أخي أنس بولا ہے لیکن امام احمد کے مطابق اس کی سند میں حفص سے سوائے خلف کے کوئی راویات نہیں لیتا-
کتاب سؤالات أبي داود للإمام أحمد بن حنبل في جرح الرواة وتعديلهم کے مطابق
سَمِعت أَحْمد يَقُول حَفْص بن عبيد الله الَّذِي روى عَنهُ ابْن إِسْحَاق وَيحيى بن أبي كثير لَيْسَ هُوَ الَّذِي يحدث عَنهُ خلف بن خَليفَة الَّذِي يحدث عَنهُ خلف مَا أعلم أحدا حدث عَنهُ غَيره
لہذا یہ خفص مجھول ہو گیا کیونکہ اس کا صرف خلف کو پتا ہے کسی اور کو نہیں-
دارقطنی کے بقول حفص بن عمر بن عبد الله بن أبي طلحة ہے لیکن اس روایت کو علل میں معاذ بن جبل کی سند سے رد کرتے ہیں-
أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ کی روایت
سنن دارقطنی سنن الکبری البیہقی سنن الکبری نسائی مصنف ابن أبي شيبة مسند البزار میں یہ ایک اور سند سے بھی ہے:
نا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ , وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْوَرَّاقُ , قَالَا: نا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ زَنْجُوَيْهِ , نا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ , نا رَبِيعَةُ بْنُ عُثْمَانَ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ , عَنْ نَهَارٍ الْعَبْدِيِّ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ , أَنَّ رَجُلًا جَاءَ بِابْنَتِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: هَذِهِ ابْنَتِي أَبَتْ أَنْ تَزَوَّجَ , فَقَالَ: «أَطِيعِي أَبَاكِ أَتَدْرِينَ مَا حَقَّ الزَّوْجُ عَلَى الزَّوْجَةِ؟ , لَوْ كَانَ بِأَنْفِهِ قُرْحَةٌ تَسِيلُ قَيْحًا وَصَدِيدًا لَحَسَتْهُ مَا أَدَّتْ حَقَّهُ» , فَقَالَتْ: وَالَّذِي بَعَثَكَ لَا نَكَحْتُ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُنْكِحُوهُنَّ إِلَّا بِإِذْنِهِنَّ»۔
اس کی سند میں نَهار بْن عَبد اللهِ، العَبديُّ جن کو ابن خراش نے صدوق کہا ہے۔
اس کی سند میں ربيعة بن عثمان بھی ہے اور مستدرک حاکم میں اسی سند سے ہے جس پر الذھبی لکھتے ہیں:
بل منكر قال أبو حاتم ربيعة منكر الحديث
یہ منکر ہے ابو حاتم نے ربيعة بن عثمان کو منکر الحدیث کہا أبو زرعة: ليس بذاك القوى.
ابن معین نے کہا کوئی برائی نہیں
الغرض روایت ضعیف ہے اور اس کی ایک سند کا راوی مجھول ہے اور باقی سندوں میں مختلف فیہ راوی ہے
قارئین آپ نے دیکھا کوئی اس واقعہ کو حیرہ عراق کا قرار دیتا ہے کوئی شام کا کوئی یمن کا جبکہ دور نبوی میں نہ شام فتح ہوا نہ عراق – رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ قرآن معاذ بن جبل سے سیکھو۔
حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا شعبة، عن عمرو بن مرة، عن إبراهيم، عن مسروق، قال: ذكر عبد الله عند عبد الله بن عمرو، فقال: ذاك رجل لا ازال احبه بعد ما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: “استقرئوا القرآن من اربعة من عبد الله بن مسعود فبدا به وسالم مولى ابي حذيفة، وابي بن كعب، ومعاذ بن جبل”، قال: لا ادري بدا بابي او بمعاذ بن جبل.
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن مرہ نے، ان سے ابراہیم نے اور ان سے مسروق نے کہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے یہاں عبداللہ بن مسعود کا ذکر ہوا تو انہوں نے کہا میں ان سے ہمیشہ محبت رکھوں گا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ چار اشخاص سے قرآن سیکھو۔ عبداللہ بن مسعود، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ہی کی اور ابوحذیفہ کے مولیٰ سالم، ابی بن کعب اور معاذ بن جبل سے، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے پوری طرح یاد نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ابی بن کعب کا ذکر کیا یا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا۔
کیا معاذ بن جبل اہل کتاب کی دیکھا دیکھی ایسا کوئی کام کر سکتے ہیں یقینا یہ ان پر تہمت ہے۔۔
حدیث سورہ الملک میں تحریف
احادیث میں بعض سورتوں کی فضیلت بیان ہوئی ہے اور ان میں سے ایک سورہ الملک بھی ہے البتہ یہ تمام روایتین صحیح نہیں ہیں – محدثین نے فضائل پر روایات جمع کیں کیونکہ ان کا مقصد فضائل کو رد کرنا نہیں تھا لیکن ان روایات میں جو عقائد بیان ہوئے ہیں ان کی تائید کرنا بھی ان کا مدعا نہیں تھا
محدثین کے اقوال موجود ہیں کہ جب زہد و فضائل پر روایت ہو تو وہ تساہل برتتے ہیں لیکن جب حلال و حرام کی بات ہو تو اس میں احتیاط کرتے ہیں
اس طرح کی ایک روایت سورہ الملک کے حوالے سے امام ترمذی نے سنن میں نقل کی ہے
باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ سُورَةِ الْمُلْكِ
باب : سورۃ الملک کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 2890
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَمْرِو بْنِ مَالِكٍ النُّكْرِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: ضَرَبَ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خِبَاءَهُ عَلَى قَبْرٍ، وَهُوَ لَا يَحْسِبُ أَنَّهُ قَبْرٌ، فَإِذَا فِيهِ إِنْسَانٌ يَقْرَأُ سُورَةَ تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ حَتَّى خَتَمَهَا، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي ضَرَبْتُ خِبَائِي عَلَى قَبْرٍ، وَأَنَا لَا أَحْسِبُ أَنَّهُ قَبْرٌ فَإِذَا فِيهِ إِنْسَانٌ يَقْرَأُ سُورَةَ تَبَارَكَ الْمُلْكُ حَتَّى خَتَمَهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” هِيَ الْمَانِعَةُ هِيَ الْمُنْجِيَةُ تُنْجِيهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ “، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ صحابہ میں سے کسی نے اپنا خیمہ ایک قبر پر نصب کر دیا اور انہیں گمان نہیں تھا کہ وہاں قبر ہے، پس اس قبر میں انسان سورۃ «تبارك الذي بيده الملك» کی قرات کر رہا تھا، یہاں تک کہ اس نے پوری سورۃ ختم کر دی۔ وہ صحابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے کہا: اللہ کے رسول میں نے اپنا خیمہ ایک قبر پر نصب کر دیا، مجھے گمان نہیں تھا کہ اس جگہ پر قبر ہے۔ مگر اچانک کیا سنتا ہوں کہ اس میں ایک انسان سورۃ «تبارك الملك» پڑھ رہا ہے اور پڑھتے ہوئے اس نے پوری سورۃ ختم کر دی۔ آپ نے فرمایا: «هي المانعة» “یہ سورۃ مانعہ ہے، یہ نجات دینے والی ہے، اپنے پڑھنے والے کو عذاب قبر سے بچاتی ہے”۔
اس روایت کا ترجمہ دار السلام والے کرتے ہیں اور مترجمین نے اردو میں اس کا ترجمہ اس طرح کیا
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ صحابہ میں سے کسی نے اپنا خیمہ ایک قبر پر نصب کر دیا اور انہیں معلوم نہیں ہوا کہ وہاں قبر ہے، (انہوں نے آواز سنی) اس قبر میں کوئی انسان سورۃ «تبارك الذي بيده الملك» پڑھ رہا تھا، یہاں تک کہ اس نے پوری سورۃ ختم کر دی۔ وہ صحابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے پھر آپ سے کہا: اللہ کے رسول! میں نے اپنا خیمہ ایک قبر پر نصب کر دیا، مجھے گمان نہیں تھا کہ اس جگہ پر قبر ہے۔ مگر اچانک کیا سنتا ہوں کہ اس جگہ ایک انسان سورۃ «تبارك الملك» پڑھ رہا ہے اور پڑھتے ہوئے اس نے پوری سورۃ ختم کر دی۔ آپ نے فرمایا: «هي المانعة» “یہ سورۃ مانعہ ہے، یہ نجات دینے والی ہے، اپنے پڑھنے والے کو عذاب قبر سے بچاتی ہے”۔
لیکن اس روایت کا ترجمہ دار السلام والے کرتے ہیں اور مترجمین نے انگلش میں اس کا ترجمہ اس طرح کیا
اس چیز کو بریلوی عالم فضل اللہ چشتی نے نوٹ کیا اور کتاب تحریفات میں پیش کیا
راقم کہتا ہے فضل اللہ چشتی صاحب کی بات صحیح ہے کہ انگریزی ترجمہ سراسر غلط ہے اور تحریف ہے کیونکہ اس میں کر دیا گیا ہے کہ خیمہ لگانے والے صحابی نے قرآن کی قرات کی
شاتم رسول کی سزا کا اختلاف
مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں
ایک مومن کا ایمان مکمل نہیں ہوتا جب تک وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے اپنے ماں باپ سے بھی بڑھ کر محبت نہ کرے – رسول الله صلی الله علیہ وسلم اعلیٰ اخلاق اور ظرف کا نمونہ تھے اور کسی کو بھی آپ نے اپنی زندگی میں آیذآ نہ دی-
سن ٢٠٠ ہجری کے آس پاس فقہاء میں ایک بحث نے جنم لیا کہ ذمی یا اہل کتاب جو اہل اسلام کے ساتھ ہوں اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کریں ان کی کیا سزا ہے – اس پر فقہاء کا اختلاف ہوا
صحيح بخاري حدیث ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَبُو الحَسَنِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: مَرَّ يَهُودِيٌّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: السَّامُ عَلَيْكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَعَلَيْكَ» فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” أَتَدْرُونَ مَا يَقُولُ؟ قَالَ: السَّامُ عَلَيْكَ ” قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلاَ نَقْتُلُهُ؟ قَالَ: ” لاَ، إِذَا سَلَّمَ عَلَيْكُمْ أَهْلُ الكِتَابِ، فَقُولُوا: وَعَلَيْكُمْ
انس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ایک یہودی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس گزرا بولا تم پر موت ہو پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہا تم پر بھی
لوگوں نے کہا یا رسول الله اس کو قتل کر دیں آپ نے کہا نہیں
اگر تم کو اہل کتاب سلام کہیں تو بولو تم پر بھی
امام بخاری نے اس روایت کو باب بَابُ قَتْلِ الخَوَارِجِ وَالمُلْحِدِينَ بَعْدَ إِقَامَةِ الحُجَّةِ عَلَيْهِمْ میں بیان کیا ہے یعنی خوارج اور ملحدوں کا قتل اتمام حجت کے بعد
اسی طرح اس کا بَابُ إِذَا عَرَّضَ الذِّمِّيُّ وَغَيْرُهُ بِسَبِّ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يُصَرِّحْ میں ذکر کیا باب جب ذمی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو گالی دے
امام الشافعی کی رائے میں اگر کوئی اہل کتاب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو گالی دے تو وہ عہد توڑتا ہے اس کا خون مباح ہو جاتا ہے – امام بخاری کی رائے اس کے خلاف ہے-
کتاب رد المحتار على الدر المختار از ابن عابدين الدمشقي الحنفي (المتوفى: 1252هـ) کے مطابق قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ لَا يُنْقَضُ
عَهْدُهُ ابو حنیفہ کہتے ہیں اس سے عہد نہیں ٹوٹتا
کتاب مسائل أحمد بن حنبل رواية ابنه عبد الله کے مطابق
سَمِعت ابي يَقُول فِيمَن سبّ النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَالَ تضرب عُنُقه
میں نے اپنے باپ کو سنا کہ جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو گالی دے اس کی گردن مار دو
کتاب مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه کے مطابق أبو يعقوب المروزي کہتے ہیں إسحاق بن راهويه کہتے ہیں شاتم رسول کو
قال إسحاق: إذا عرض بعيب النبي صلى الله عليه وسلم قام مقام الشتم، يُقتل، إذا لم يكن ذاك منه سهواً
قتل کیا جائے گا – اگر غلطی سے نہیں ہوا
یعنی اسحاق بن رهویہ نے گنجائش رکھی ہے کہ شاتم رسول اگر غلطی سے کر بیٹھا ہے تو اس کو قتل نہیں کیا جائے گا
غیر مقلدین اور وہابیوں کے امام ابن تیمیہ نے کتاب الصارم المسلول على شاتم الرسول ج ١ ص ٥٥٨ میں امام احمد کی رائے کو ترجیح دی جو أحكام أهل الملل میں ابو بکر الخلال سے نقل کی گئی ہے کہ امام احمد نے کہا
كل من شتم النبي صلى الله عليه وسلم مسلما كان أو كافرا فعليه القتل
ہر کوئی جو نبی صلی الله علیہ وسلم کو گالی دے چاہے مسلمان ہو یا کافر اس پر قتل ہے
احناف کی فقہ کی کتاب البحر الرائق شرح كنز الدقائق از ابن نجيم المصري (المتوفى: 970هـ) کے مطابق
وَمِمَّنْ صَرَّحَ بِقَبُولِ تَوْبَتِهِ عِنْدَنَا الْإِمَامُ السُّبْكِيُّ فِي السَّيْفِ الْمَسْلُولِ وَقَالَ إنَّهُ لَمْ يَجِدْ لِلْحَنَفِيَّةِ إلَّا قَبُولَ التَّوْبَةِ تُقْبَلُ تَوْبَتُهُ فِي إسْقَاطِهِ الْقَتْلَ قَالُوا هَذَا مَذْهَبُ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَمَالِكٍ وَنُقِلَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
اور ہم میں سے جنہوں نے اس کی صرآحت کی ہے کہ (شاتم رسول کی) توبہ قبول ہوتی ہے ان میں امام سبکی ہیں کتاب السَّيْفِ الْمَسْلُولِ میں اور کہا ہے کہ ان کو احناف میں کوئی نہ ملا سوائے توبہ کی قبولیت کے کہ قبول توبہ سے شاتم النبی کے قتل کا حکم ختم ہو جاتا ہے جو اہل کوفہ اور امام مالک کا مذھب ہے اور ابو بکر رضی الله عنہ سے نقل کیا گیا ہے
احناف کی فقہ کی کتاب مختصر القدوري في الفقه الحنفي از أحمد بن محمد بن أحمد بن جعفر بن حمدان أبو الحسين القدوري (المتوفى: 428هـ) کے مطابق
ومن امتنع من أداء الجزية أو قتل مسلما أو سب النبي عليه الصلاة والسلام أو زنى بمسلمة لم ينقض عهده ولا ينتقض العهد إلا بأن يلحق بدار الحرب أو يغلبوا على موضع فيحاربونا
اور جو جزیہ نہ دے اور مسلمان کا قتل کرے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو گالی دے یا مسلمان سے زنا کرے تو اس سے عہد ختم نہیں ہوتا اور یہ عہد نہیں ٹوٹتا سوائے اس کے کہ وہ دار الحرب سے مل جائے اور کسی مقام پر غلبہ پا کر مسلمانوں سے جنگ کرے
اسی طرح کا قول حنفی فقہ کی کتاب العناية شرح الهداية میں ہے
امت میں شتم رسول کی سزا کا اختلاف شروع سے چلا آ رہا ہے اس میں کسی ایک رائے کو ہی مرجوع قرار نہیں دیا جا سکتا اور عجیب بات ہے کہ آج لوگوں نے قرآن کی آیات تک اس کے حوالے سے بیان کرنا شروع کر دی ہیں
جن سے ظاہر ہے کہ سیاق و سباق سے نکال کر آیات کو اپنے مدعآ میں پیش کیا گیا ہے ورنہ فقہاء کا اختلاف کیوں ہے
شتم رسول یا سب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم پر قتل کرنے کے لئے جو روایات پیش کی جاتی ہیں وہ یہ ہیں
کعب بن اشرف کا قتل
دلائل النبوه البیہقی، سنن ابی داود کی روایت ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، أَنَّ الْحَكَمَ بْنَ نَافِعٍ، حَدَّثَهُمْ قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، وَكَانَ أَحَدَ الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ تِيبَ عَلَيْهِمْ، وَكَانَ كَعْبُ بْنُ الْأَشْرَفِ يَهْجُو النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيُحَرِّضُ عَلَيْهِ كُفَّارَ قُرَيْشٍ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ، وَأَهْلُهَا أَخْلَاطٌ، مِنْهُمُ الْمُسْلِمُونَ، وَالْمُشْرِكُونَ يَعْبُدُونَ الْأَوْثَانَ، وَالْيَهُودُ وَكَانُوا يُؤْذُونَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابَهُ، فَأَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ نَبِيَّهُ بِالصَّبْرِ وَالْعَفْوِ، فَفِيهِمْ أَنْزَلَ اللَّهُ: {وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ} [آل عمران: 186] الْآيَةَ، فَلَمَّا أَبَى كَعْبُ بْنُ الْأَشْرَفِ أَنْ يَنْزِعَ عَنْ أَذَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ أَنْ يَبْعَثَ رَهْطًا يَقْتُلُونَهُ،
کعب بن اشرف یہودی شاعر تھا اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی ہجو کرتا تھا۔ اور اپنے شعروں میں قریش کے کافروں کو آپ صلی الله علیہ وسلم کے خلاف بھڑکاتا تھا۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ ملے جلے لوگ تھے۔ ان میں مسلمان بھی تھے جنہیں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی دعوت نے جمع کردیا تھا
اور مشرکین بھی تھے جو بت پرست تھے اور اُن میں یہودی بھی تھے جو ہتھیاروں او رقلعوں کے مالک تھے اور وہ اوس و خزرج قبائل کے حلیف تھے۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی جب مدینہ تشریف آوری ہوئی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے سب لوگوں کی اصلاح کا ارادہ فرمایا۔ایک آدمی مسلمان ہوتا تو اس کا باپ مشرک ہوتا۔ کوئی دوسرا مسلمان ہوتا تو اس کابھائی مشرک ہوتا اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی آمد مبارک پرمشرکین اور یہودانِ مدینہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو اور آپ کے صحابہ کرام کو شدید قسم کی اذیت سے دوچار کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی الله علیہ وسلم اور مسلمانوں کو اس پر صبر و تحمل اور ان سے درگزر کرنے کا حکم دیا۔
ان کے بارے میں آیت نازل ہوئی وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ} [آل عمران: 186] الْآيَةَ
اور بلاشبہ آپ ضرور ان سے سنیں گے جن کو آپ سے پہلے کتاب دی گئی
پھر جب کعب بن اشرف نے بغاوت کی تو آپ نے سعد بن معاذ کو حکم دیا کہ کسی کو بھیجیں جو اسکو قتل کرے
اسکی سند میں أبو اليمان الحكم بن نافع البهرانى الحمصى جو شُعَيْبِ بنِ أَبِي حَمْزَةَ سے روایت کر رہے ہیں جن کے لئے الذھبی کتاب سير أعلام النبلاء میں لکھتے ہیں
سَعِيْدُ بنُ عَمْرٍو البَرْذَعِيُّ: عَنْ أَبِي زُرْعَةَ الرَّازِيِّ، قَالَ: لَمْ يَسْمَعْ أَبُو اليَمَانِ مِنْ شُعَيْبٍ إِلاَّ حَدِيْثاً وَاحِداً، وَالبَاقِي إِجَازَةً
سَعِيْدُ بنُ عَمْرٍو البَرْذَعِيُّ نے أَبِي زُرْعَةَ الرَّازِيِّ سے روایت کیا انہوں نے کہا ابو اليَمَانِ نے شُعَيْبٍ سے صرف ایک ہی حدیث روایت کی اور باقی اجازہ ہے
تهذيب الكمال کے مطابق احمد کہتے ہیں
فَكَانَ وَلَدُ شُعَيْبٍ يَقُوْلُ: إِنَّ أَبَا اليَمَانِ جَاءنِي، فَأَخَذَ كُتُبَ شُعَيْبٍ مِنِّي بَعْدُ، وَهُوَ يَقُوْلُ: أَخْبَرَنَا. فَكَأَنَّهُ اسْتَحَلَّ ذَلِكَ، بِأَنْ سَمِعَ شُعَيْباً يَقُوْلُ لِقَوْمٍ: ارْوُوْهُ عَنِّي.
قَالَ إِبْرَاهِيْمُ بنُ دَيْزِيْلَ: سَمِعْتُ أَبَا اليَمَانِ يَقُوْلُ: قَالَ لِي أَحْمَدُ بنُ حَنْبَلٍ: كَيْفَ سَمِعْتَ الكُتُبَ مِنْ شُعَيْبٍ؟ قُلْتُ: قَرَأْتُ عَلَيْهِ بَعْضَهُ، وَبَعْضُهُ قَرَأَهُ عَلَيَّ، وَبَعْضُهُ أَجَازَ لِي، وَبَعْضُهُ مُنَاوَلَةً. قَالَ: فَقَالَ فِي كُلِّهِ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ
شُعَيْبٍ کے بیٹے کہتے تھے کہ أَبَا اليَمَانِ میرے پاس آیا اور مجھ سے والد کی کتب لیں اور کہنے لگا اخبرنا! پس اس نے اس کو جائز سمجھا اور میرے والد ایک قوم سے کہتے یہ مجھ سے روایت (کیسے) کرتا ہے
إِبْرَاهِيْمُ بنُ دَيْزِيْلَ نے کہا میں نے أَبَا اليَمَانِ کو کہتے سنا وہ کہتے مجھ سے امام احمد نے کہا تم شُعَيْبٍ سے کتاب کیسے سنتے ہو ؟ میں نے کہا بعض میں اس پر پڑھتا ہوں اور بعض وہ مجھ کو سناتا ہے اور بعض کی اس نے اجازت دی اور بعض کا مناولہ کہا میں نے اس سب پر کہا اخبرنا شُعَيْبٌ
یعنی أَبَا اليَمَانِ الحكم بن نافع اس کا کھلم کھلا اقرار کرتے تھے کہ ہر بات جس پر وہ اخبرنا شُعَيْبٌ کہتے ہیں اس میں سے ہر حدیث ان کی سنی ہوئی نہیں ہے
روایت تاریخ کے مطابق غلط ہے – صحیحین میں کعب کی قتل کی وجوہات نہیں بیان ہوئیں – ابن اسحاق کی سیرت کے مطابق کعب مدینہ کا باسی نہ تھا اس کی ننھیال مدینہ میں تھی اور اس کے ہمدرد اس کے ساتھ تھے کعب کا باپ قبیلہ بنی طی کا تھا جو مدینہ کے شمال میں تھا لیکن کعب ایک یہودی سیٹھ تھا اور عرب میں سفر کرتا اور قبائل کو مدینہ پر حملہ کے لئے اکساتا یہاں تک کہ اس نے عباس رضی الله عنہ کی بیوی نبی صلی الله علیہ وسلم کی مومنہ چچی لبابہ الکبری رضی الله عنہآ کے لئے بیہودہ شاعری کی
لہذا کعب کا قتل رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ہجو پر نہیں بلکہ فتنہ پردازی کرنے پر ہوا تھا
کعب کے واقعہ کا شتم رسول سے کوئی تعلق نہیں یہ ایک خاص حکم تھا جو فتنہ اور مدینہ کی سلامتی کے لئے لیا گیا تھا
ابو رافع کا قتل
محمد بن اسحٰق سیرت میں لکھتے ہیں
ولما انقضی شأن الخندق وأمر بنی قریظة وکان سلام بن أبي الحقیق وهو أبو رافع فیمن حزب الأحزاب علی رسول الله صلی الله علیہ وسلم وکانت الأوس قبل أحد قتلت کعب بن الأشرف في عداوته لرسول اللہ صلی الله علیہ وسلم وتحریضه علیه استأذنت الخزرج رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم في قتل سلام بن أبي الحقیق وھو بخیبر فأذن لھم.
جب غزوۂ خندق اور بنو قریظہ کے یہود کامعاملہ پورا ہوگیا – ابو رافع سلام بن ابی الحقیق یہودی ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے خلاف اتحادیوں کو جمع کیا تھا۔ اُحد سے پہلے اَوس قبیلے کےلوگوں نے کعب بن اشرف کو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی عداوت اور لوگوں کی وجہ سےقتل کیا تھا توخزرج والوں نے ابورافع یہودی کے قتل کی اجازت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے طلب کی اور اس وقت ابو رافع خیبر میں تھا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کے قتل کی اجازت دی۔
اس واقعہ کا بھی سب و شتم کرنے سے تعلق نہیں ہے یہ بھی ایک خاص حکم ہے جو بطور حاکم نبی صلی الله علیہ وسلم نے مدینہ کی سلامتی کے لئے دیا
ایک ام ولد کا قتل
عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ ایک نابینا کی اُمّ ولد تھی جو نبی صلی الله علیہ وسلم کو گالیاں دیتی تھی اور آپ کی شان میں گستاخی کرتی تھی۔ وہ نابینا صحابی اسے منع کرتے لیکن وہ باز نہ آتی تھی۔…. ایک رات جب وہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی بدگوئی کرنے لگی تو اُس نے برچھا پکڑا تو اسے اس کے پیٹ پر رکھ دیا اور اُس پر اپنا بوجھ ڈالا اور اسےقتل کردیا۔ جب یہ بات نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو معلوم ہوئی تو آپ صلی الله علیہ وسلمنے فرمایا:
ألا اشهدوا إن دمها هدر
خبردار، گواہ ہوجاؤ اس لونڈی کا خون ضائع و رائیگاں ہے
سنن أبي داود (4361)، سنن النسائي (4075)،سنن الدارقطني المطالب العالیة (2046)، إتحاف الخيرة المھرة للبوصیری
البانی اس حدیث کے بارے میں إرواء الغلیل میں کہتے ہیں: إسنادہ صحیح علی شرط مسلم اس کی سند مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔ امام حاکم کہتے ہیں هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے مسلم کی شرط پر لیکن انہوں نے اس کی تخریج نہیں کی –
امام حاکم تصحیح حدیث میں غلطیاں کرنے پر مشھور و معروف ہیں یہاں تک کہ انبیاء پر وسیلہ کی وسیلہ کی تہمت لگاتے اور رفض میں علی کو تمام صحابہ سے افضل قرار دینے والی روایات کو بھی صحیح کہتے تھے
إس كي سند میں عثمان الشحام العدوى ہے – جس کے لئے امام یحییٰ القطان کہتے ہیں
يعرف وينكر ولم يكن عندي بذاك
اس کو پہچانا اور انکار کیا جاتا ہے اور میرے نزدیک ایسا (مظبوط) نہیں
میزان الاعتدال از الذھبی میں ہے : نسائی خود کہتے ہیں قال النسائي: ليس بالقوى. میرے نزدیک قوی نہیں
جس راوی کی روایت نسائی خود کہیں مظبوط نہیں اس کو علماء آج انکی ہی کتاب سے نقل کر کے کیسے صحیح قرار دے سکتے ہیں
کتاب إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال کے مطابق
قال أبو أحمد الحاكم: عثمان بن مسلم أبو سلمة الشحام ليس بالمتين عندهم.
أبو أحمد الحاكم کہتے ہیں : عثمان محدثین کے نزدیک مظبوط نہیں ہے
الغرض بعض محدثین اس کو ثقہ کہتے ہیں لیکن حلال و حرام میں اس کی روایت مظبوط نہیں وہ بھی جب اس بنیاد پر قتل کا فتوی دیا جا رہا ہو- عصر حاضر کے علماء میں سے شعَيب الأرنؤوط ، سنن ابو داود پر اپنی تحقیق میں کہتے ہیں
إسناده قوي من أجل عثمان الشحام، فهو صدوق لا بأس به وباقي رجاله ثقات.
عثمان الشحام کی وجہ سے اس روایت کی اسناد قوی ہیں کیونکہ وہ صدوق ہے اس میں کوئی برائی نہیں اور باقی رجال ثقہ ہیں
یعنی جو راوی متقدمین محدثین کے نزدیک مظبوط نہیں تھا وہ آج معتبر ہو چلا ہے
ایک صحابی کا بہن کو قتل کرنا
معرفہ صحابہ از ابو نعیم کی روایت ہے
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرٍو الْخَلَّالُ، ثنا ابْنُ كَاسِبٍ، ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، ثنا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، أَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، حَدَّثَهُ أَنَّ السَّلَمَ بْنَ يَزِيدَ، وَيَزِيدَ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَاهُ عَنْ عُمَيْرِ بْنِ أُمَيَّةَ، أَنَّهُ كَانَتْ لَهُ أُخْتٌ، فَكَانَ إِذَا خَرَجَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آذَتْهُ فِيهِ وَشَتَمَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَتْ مُشْرِكَةً، فَاشْتَمَلَ لَهَا يَوْمًا عَلَى السَّيْفِ، ثُمَّ أَتَاهَا فَوَضَعَهُ عَلَيْهَا فَقَتَلَهَا، فَقَامَ بَنُوهَا وَصَاحُوا وَقَالُوا: قَدْ عَلِمْنَا مَنْ قَتَلَهَا، أَفَيَقْتُلُ أَمَّنَا وَهَؤُلَاءِ قَوْمٌ لَهُمْ آبَاءٌ، وَأُمَّهَاتٌ مُشْرِكُونَ؟ فَلَمَّا خَافَ عُمَيْرٌ أَنْ يَقْتُلُوا غَيْرَ قَاتِلِهَا ذَهَبَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ: «أَقَتَلْتَ أُخْتَكَ؟» ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: «وَلِمَ؟» ، قَالَ: إِنَّهَا كَانَتْ تُؤْذِينِي فِيكَ، فَأَرْسَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى بَنِيهَا فَسَأَلَهُمْ، فَسَمَّوْا غَيْرَ قَاتِلِهَا، فَأَخْبَرَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهِ، وَأَهْدَرَ دَمَهَا، قَالُوا: سَمْعًا وَطَاعَةً
عمیر بن اُمیہ کی ایک بہن تھی اور عمیر جب نبی صلی الله علیہ وسلم کی طرف جاتے تو وہ اُنہیں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے حوالے سے تکلیف دیتی اور نبی صلی الله علیہ وسلم کو گالیاں دیتی اور وہ مشرکہ تھی۔ اُنہوں نے ایک دن تلوار اُٹھائی پھر اپنی بہن کے پاس آئے، اسے تلوار کا وار کرکے قتل کردیا۔ اس کے بیٹے اُٹھے، اُنہوں نے چیخ و پکار کی اور کہنے لگے کہ ہمیں معلوم ہے، کس نے اسے قتل کیا ہے؟ کیا ہمیں امن و امان دے کرقتل کیا گیا ہے؟ اور اس قوم کے آباء و اجداد اور مائیں مشرک ہیں۔ جب عمیر کو یہ خوف لاحق ہوا کہ وہ اپنی ماں کے بدلے میں کسی کو ناجائز قتل کردیں گے تو وہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے پاس گئے اور آپ کوخبر دی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
أقتلت أختك
کیا تم نے اپنی بہن کوقتل کیا ہے۔
انہوں نے کہا ہاں۔آپ صلی الله علیہ وسلمنے کہا: ولم؟ تم نے اسے کیوں قتل کیا
تو اُنہوں نے کہا: إنها کانت تؤذینی فیك یہ مجھے آپ کے بارے میں تکلیف دیتی تھی۔
تو نبی صلی الله علیہ وسلمنےاس کے بیٹوں کی طرف پیغام بھیجا اور ان سے پوچھا تو اُنہوں نے کسی اور کو قاتل بنایا۔ پھر آپ صلی الله علیہ وسلمنے ان کو خبر دی اور اس کا خون رائیگاں قراردیا تو اُنہوں نے کہا: ہم نے سنا اور مان لیا
الإصابة ، المعجم الکبیر از طبرانی، مجمع الزوائد, أسد الغابة
اسکی سند میں يَعْقُوب بْن حميد بن كاسب کا تفرد ہے – کتاب الكامل في ضعفاء الرجال از ا بن عدي الجرجاني (المتوفى: 365هـ) کے مطابق
قال النسائي يَعْقُوب بْن حميد بن كاسب ليس بشَيْءٍ
نسائی کہتے ہیں يَعْقُوب بْن حميد بن كاسب کوئی چیز نہیں
کتاب سیر الاعلام النبلاء از الذھبی کے مطابق
أَبُو حَاتِمٍ کہتے ہیں ضَعِيْفُ الحَدِيْثِ
بخاری نے صحیح میں ایک یعقوب سے روایت لی اور لوگوں کا گمان ہے کہ یہ يَعْقُوب غير مَنْسُوب اصل میں ابْن حميد بن كاسب ہے دیکھئے الهداية والإرشاد في معرفة أهل الثقة والسداد از أحمد بن محمد بن الحسين بن الحسن، أبو نصر البخاري الكلاباذي – اس بنیاد پر یعقوب ابْن حميد بن كاسب کو صحیح بخاری کا راوی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ائمہ حدیث اس پر متفق نہیں ہیں
اس روایت میں عُمَيْرِ بْنِ أُمَيَّةَ نامی ایک صحابی کا ذکر ہے جو صرف اسی روایت سے جانے جاتے ہیں- یہ واقعی صحابی بھی تھے یا نہیں کسی اور دلیل سے ثابت نہیں-
ایک یہودیہ کا قتل
سنن ابو داود اور سنن الکبری البیہقی کی روایت ہے
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْجَرَّاحِ، عَنْ جَرِيرٍ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، «أَنَّ يَهُودِيَّةً كَانَتْ تَشْتُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَقَعُ فِيهِ، فَخَنَقَهَا رَجُلٌ حَتَّى مَاتَتْ، فَأَبْطَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَمَهَا
ایک یہودیہ عورت نبی صلی الله علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی اور آپ کے بارے میں نازیبا کلمات کہا کرتی تھی۔ ایک آدمی نے اس کا گلا گھونٹ دیا یہاں تک کہ وہ مرگئی تو اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے اس کا خون باطل قرار دیا۔
اس روایت کے بارے میں إرواء الغلیل میں البانی کہتے ہیں إسناده صحیح علی شرط الشیخین اس کی سند بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح ہے لیکن بعد میں اس قول سے رجوع کرتے ہیں اور کتاب صحيح وضعيف سنن أبي داود
میں کہتے ہیں ضعيف الإسناد
کتاب الأحاديث المختارة أو المستخرج من الأحاديث المختارة مما لم يخرجه البخاري ومسلم في صحيحيهما از ضياء الدين أبو عبد الله محمد بن عبد الواحد المقدسي (المتوفى: 643هـ) کے مطابق كَذَا رَوَاهُ أَبُو دَاوُد إِسْنَاده مُنْقَطع اسطرح ابو داود نے روایت کیا ہے اسناد منقطع ہیں
حد قتل صرف مرتکب ِتوہین رسالت کے لیے
سنن الکبری البیہقی کی روایت ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَرْزُوقٍ، نا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، نا شُعْبَةُ، عَنْ تَوْبَةَ الْعَنْبَرِيِّ، عَنْ أَبِي السَّوَّارِ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ، أَنَّ رَجُلًا، سَبَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَقُلْتُ: ” أَلَا أَضْرِبُ عُنُقَهُ يَا خَلِيفَةَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: لَا لَيْسَتْ هَذِهِ لِأَحَدٍ بَعْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ابو برزہ کہتے ہیں ایک شخص نے ابو بکر رضی الله عنہ کو گالی دی -میں نے کہا یا خلیفہ رسول آپ کی اجازت ہو تو گردن مار دوں؟ ابو بکر رضی الله عنہ نے کہا لَا لَيْسَتْ هَذِهِ لِأَحَدٍ بَعْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ یہ حد رسول الله کے بعد کسی کے لئے نہیں
ایک اور روایت میں ہے لا والله ما کانت لبشر بعد محمد صلی الله علیہ وسلم
الله کی قسم رسول الله کے بعد یہ کسی بشر کے لئے نہیں
سنن أبي داؤد سنن النسائي السنن الکبری للنسائي
میزان الاعتدال از الذھبی کے مطابق ابن معین اس کی سند میں توبہ العنبری کی تضعیف کرتے ہیں
یہ روایت مستدرک الحاکم میں بھی ہے لیکن الذھبی تلخيص میں اس پر سکوت کرتے ہیں جس سے ظاہر سے وہ اس کی صحت پر مطمئن نہ تھے
یہ روایت مبہم ہے- ابو بکر رضی الله عنہ کس بات پر ناراض تھے واضح نہیں- اور کسی کا اسطرح دخل در معقولات کرنا بے ادبی ہے – الفاظ لَا لَيْسَتْ هَذِهِ لِأَحَدٍ بَعْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کا مطلب ہے ایسا حکم دینا صرف رسول الله کا حق ہے – صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے یہودی جو کہتا تھا تم پر موت ہو اس کو قتل کرنے سے منع کیا
ایک عیسائی کو سزا
سنن الکبری بیہقی کی روایت ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْفَارِسِيُّ , أنبأ إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْأَصْفَهَانِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ فَارِسٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: قَالَ نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ: ثنا الْمُبَارَكُ، أنبأ حَرْمَلَةُ بْنُ عِمْرَانَ، حَدَّثَنِي كَعْبُ بْنُ عَلْقَمَةَ، أَنَّ عَرَفَةَ بْنَ الْحَارِثِ الْكِنْدِيَّ مَرَّ بِهِ نَصْرَانِيٌّ فَدَعَاهُ إِلَى الْإِسْلَامِ , فَتَنَاوَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَكَرَهُ , فَرَفَعَ عَرَفَةُ يَدَهُ فَدَقَّ أَنْفَهُ , فَرُفِعَ إِلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ , فَقَالَ عَمْرٌو: أَعْطَيْنَاهُمُ الْعَهْدَ. فَقَالَ عَرَفَةُ: مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَكُونَ أَعْطَيْنَاهُمْ عَلَى أَنْ يُظْهِرُوا شَتْمَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , إِنَّمَا أَعْطَيْنَاهُمْ عَلَى أَنْ نُخَلِّيَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ كَنَائِسِهِمْ , يَقُولُونَ فِيهَا مَا بَدَا لَهُمْ , وَأَنْ لَا نُحَمِّلَهُمْ مَا لَا يَطِيقُونَ , وَإِنْ أَرَادَهُمْ عَدُوٌّ قَاتَلْنَاهُمْ مِنْ وَرَائِهِمْ , وَنُخَلِّيَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ أَحْكَامِهِمْ , إِلَّا أَنْ يَأْتُوا رَاضِينَ بِأَحْكَامِنَا , فَنَحْكُمَ بَيْنَهُمْ بِحُكْمِ اللهِ وَحُكْمِ رَسُولِهِ , وَإِنْ غَيَّبُوا عَنَّا لَمْ نَعْرِضْ لَهُمْ فِيهَا. قَالَ عَمْرٌو: صَدَقْتَ وَكَانَ عَرَفَةُ لَهُ صُحْبَةٌ
كَعْبُ بْنُ عَلْقَمَةَ کہتے ہیں کہ َعرَفَةَ بْنَ الْحَارِثِ الْكِنْدِيَّ کے پاس سے ایک عیسائی گزرا تو اُنہوں نے اسے اسلام کی دعوت پیش کی تو اُس عیسائی نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی اہانت کی۔ َعرَفَةَ بْنَ الْحَارِثِ الْكِنْدِيَّ نے اپنا ہاتھ اُٹھایا اور اس کی ناک پھوڑ دی ۔ یہ مقدمه عمرو بن العاص کے پاس لایا گیا تو عمرو نے کہا ہم نے ان کو عہد و پیمان دیا ہے (یعنی ان کی حفاظت ہم پر لازم ہے) َعرَفَةَ بْنَ الْحَارِثِ الْكِنْدِيَّ نے کہا اللہ کی پناہ! ہم ان کو اس بات پر عہد و پیمان دیں کہ وہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم پر سب و شتم کا اظہار کریں۔ ہم نے ان کو اس بات کا عہد دیا ہے کہ ہم اُنہیں ان کے گرجا گھروں میں چھوڑ دیں وہ اپنے گرجا گھروں میں جو کہنا ہے کہیں اور ان کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہ ڈالیں اوراگر کوئی دشمن ان کا قصد کرے تو ہم ان کے پیچھے ان سے لڑائی لڑیں اور اُنہیں ان کے احکامات پر چھوڑ دیں، اِلا یہ کہ وہ ہمارے احکامات پر راضی ہوکر آئیں تو ہم ان کے درمیان اللہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے حکم کے مطابق فیصلہ کریں اوراگر وہ ہم سے غائب ہوں تو ہم ان کے پیچھے نہ پڑیں۔ عمرو بن العاص نے فرمایا: صدقتَ تم نے سچ کہا – (بیہقی نے کہا) اور عَرَفَةُ صحابی ہیں
سند میں كعب بن علقمة بن كعب التنوخى المصری ہیں – بخاری نے تاریخ الکبیر میں نام لکھا ہے نہ جرح کی نہ تعدیل – صرف ابن حبان نے ثقآت میں ذکر کیا ہے – بخاری نے الأدب المفرد میں روایت لکھی ہے ایسے رویوں کا مجھول سمجھا جاتا ہے جن پر نہ جرح ہو نہ تعدیل ہو
عرَفَةَ بْنَ الْحَارِثِ الْكِنْدِيَّ کا صحابی ہونا واضح نہیں – لہذا دونوں مجھول راوی ہیں –روایت کے آخر میں بیہقی نے کہا ہے عَرَفَةُ صحابی ہیں لیکن ابن حجر الإصابة في تمييز الصحابة میں کہتے ہیں ذكره ابن قانع، وابن حبّان ان کا ابن قانع اور ابن حبان نے ذکر کیا ہے – آبن قانِع المتوفی ٣٥١ ھ کتاب معجم الصحابة میں ان کا ذکر کرتے ہیں – اس سے قبل کسی نے ان کو صحابی قرار نہ دیا – بہت سے لوگوں کو اس بنیاد پر صحابی نہیں کہا گیا کہ انہوں نے صرف رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا دور دیکھا ان سے کچھ سنا نہیں- عرَفَةَ بْنَ الْحَارِثِ الْكِنْدِيَّ کے بارے میں تو یہ بھی نہیں پتا کہ واقعی دور نبوی بھی پایا تھا یا نہیں- ایک روایت کے مطابق جو جمع الفوائد من جامع الأصول ومجمع الزَّوائِد
میں ہے عرفہ نے حجہ الوداع کے وقت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا لیکن اس کو البانی ضعیف کہتے ہیں
علی رضی الله عنہ کی روایت
ایک اور روایت ہے جو مجمع الزوائد ،میں ہے
عَنْ عَلِيٍّ – يَعْنِي ابْنَ أَبِي طَالِبٍ – قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: ” «مَنْ سَبَّ الْأَنْبِيَاءَ قُتِلَ، وَمَنْ سَبَّ أَصْحَابِي جُلِدَ
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الصَّغِيرِ وَالْأَوْسَطِ عَنْ شَيْخِهِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْعُمَرِيِّ رَمَاهُ النَّسَائِيُّ بِالْكَذِبِ.
علی رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جو انبیاء کو گالی دے قتل کر دو اور جو میرے اصحاب کو گالی دے اسے کوڑے مارو
اس کو طبرانی نے الصغیر اور الاوسط میں اپنے شیخ عبید الله سے روایت کیا جن کو نسائی نے جھوٹ بولنے پر پھینک دیا ہے
عمیر بن عدی رضی الله عنہ کی روایت
مسند الشهاب از أبو عبد الله محمد بن سلامة بن جعفر بن علي بن حكمون القضاعي المصري (المتوفى: 454هـ) کی روایت ہے
أَخْبَرَنَا الشَّيْخُ أَبُو طَاهِرٍ، مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدُونٍ الْمَوْصِلِيُّ، قَدِمَ عَلَيْنَا، أبنا أَبُو الْحَسَنِ، عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ الْحَرْبِيُّ الْحَنْبَلِيُّ السُّكَّرِيُّ، ثنا أَبُو الْفَضْلِ، جَعْفَرُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّبَّاحِ الْجُرْجَرَائِيُّ بِهَا، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْعَلَاءِ الشَّامِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَجَّاجِ اللَّخْمِيُّ أَبُو إِبْرَاهِيمَ الْوَاسِطِيُّ، عَنْ مُجَالِدِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: هَجَتِ امْرَأَةٌ مِنْ بَنِي خَطْمَةَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهِجَاءٍ لَهَا، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاشْتَدَّ عَلَيْهِ ذَلِكَ، وَقَالَ: «مَنْ لِي بِهَا؟» فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهَا: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَانَتْ تَمَّارَةٌ تَبِيعُ التَّمْرَ، قَالَ: فَأَتَاهَا أَجْوَدَ مِنْ هَذَا قَالَ: فَدَخَلَتِ التُّرْبَةَ، قَالَ: وَدَخَلَ خَلْفَهَا، فَنَظَرَ يَمِينًا وَشِمَالًا، فَلَمْ يَرَ إِلَّا خِوَانًا، قَالَ: فَعَلَا بِهِ رَأْسَهَا حَتَّى دَمَغَهَا بِهِ، قَالَ: ثُمَّ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ كَفَيْتُكَهَا، قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَا إِنَّهُ لَا يَنْتَطِحُ فِيهَا عَنْزَانِ» ، فَأَرْسَلَهَا مَثَلًا
اس سند میں مجالد بن سعید ہے جو ضعیف ہے – ابن عدی ، ابن جوزی اور البانی کے مطابق روایت موضوع ہے جس کو محمد بن الحجاج اللَّخمي نے گھڑا ہے
دوسری سند ہے
أنا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْأَصْبَهَانِيُّ، نا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ التُّسْتَرِيُّ، وَذُو النُّونِ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَا نا الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعَسْكَرِيُّ، نا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدٍ، مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، نا بَكْرُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، أنا الْوَاقِدِيُّ، نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ فَضْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَتْ عَصْمَاءُ بِنْتُ مَرْوَانَ مِنْ بَنِي أُمَيَّةَ بْنِ زَيْدٍ، وَكَانَ زَوْجُهَا يَزِيدُ بْنُ زَيْدِ بْنِ حِصْنٍ الْخَطْمِيُّ، وَكَانَتْ تُحَرِّضُ عَلَى الْمُسْلِمِينَ وَتُؤْذِيهِمْ، وَتَقُولُ الشِّعْرَ، فَجَعَلَ عُمَيْرُ بْنُ عَدِيٍّ نَذْرًا أَنَّهُ لَئِنْ رَدَّ اللَّهُ رَسُولَهُ سَالِمًا مِنْ بَدْرٍ لَيَقْتُلَنَّهَا، قَالَ: فَعَدَا عَلَيْهَا عُمَيْرٌ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ فَقَتَلَهَا، ثُمَّ لَحِقَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى مَعَهُ الصُّبْحَ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَصَفَّحُهُمْ إِذَا قَامَ يَدْخُلُ مَنْزِلَهُ، فَقَالَ لِعُمَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ: «قَتَلْتَ عَصْمَاءَ؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَقُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ هَلْ عَلَيَّ فِي قَتْلِهَا شَيْءٌ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَنْتَطِحُ فِيهَا عَنْزَانِ» ، فَهِيَ أَوَّلُ مَا سَمِعْتُ هَذِهِ الْكَلِمَةَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
اس کی سند میں َعبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ فَضْلٍ اور ان کا باپ دونوں مجھول ہیں ، لگتا ہے یہ غلطی ہے، کیونکہ ایک راوی عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ الْفُضَيْلِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عُمَيْرِ بْنِ عَدِيِّ کے نام کا ہے
سند میں واقدی ہے جو ضعیف ہے
تہذیب التہذیب از ابن حجر کے مطابق امام احمد کہتے ہیں الْحَارِثِ بْنِ الْفُضَيْلِ
ليس بمحفوظ الحديث حدیث میں محفوظ نہیں
ليس بمحمود الحديث حدیث میں قابل تعریف نہیں
عمیر بن عدی نے ایک گستاخ عورت کو قتل کیا اسکی خبر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو ہوئی
آپ نے فرمایا
لا ينتطح فيها عنزان
اس میں دو بکریوں کے سینگ بھی نہیں الجھیں گے
یعنی اس میں کسی کو اختلاف نہ ہو گا
لیکن جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں محدثین اس کو ایک موضوع روایت کہتے ہیں
بنی قریظہ کی عورت کا قتل
مسند احمد کی راویت ہے
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ: لَمْ يَقْتُلْ مِنْ نِسَائِهِمْ إِلَّا امْرَأَةً وَاحِدَةً. قَالَتْ: وَاللَّهِ إِنَّهَا لَعِنْدِي تَحَدَّثُ مَعِي، تَضْحَكُ ظَهْرًا وَبَطْنًا، «وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْتُلُ رِجَالَهُمْ بِالسُّوقِ» ، إِذْ هَتَفَ هَاتِفٌ بِاسْمِهَا: أَيْنَ فُلَانَةُ؟ قَالَتْ: أَنَا وَاللَّهِ، قَالَتْ: قُلْتُ: وَيْلَكِ، وَمَا لَكِ؟ قَالَتْ: أُقْتَلُ. قَالَتْ: قُلْتُ: وَلِمَ؟ قَالَتْ: حَدَثٌ أَحْدَثْتُهُ. قَالَتْ: فَانْطُلِقَ بِهَا، فَضُرِبَتْ عُنُقُهَا وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَقُولُ: وَاللَّهِ مَا أَنْسَى عَجَبِي مِنْ طِيبِ نَفْسِهَا، وَكَثْرَةِ ضَحِكِهَا وَقَدْ عَرَفَتْ أَنَّهَا تُقْتَلُ
عائشہ رضی الله عنہا سے مروی ہے کہ عورتوں میں سے کسی کا قتل نہ ہوا سوائے ایک عورت کے جو گستاخ تھی
اسکی تمام اسناد میں محمّد بن اسحاق ہے جو ضعیف ہے اور احمد کہتے ہیں اس سے حلال و حرام کی روایت نہیں لینی چاہیے
مصنف عبد الرزاق کی روایت
عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ الْفَضْلِ قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ. . . أَوْ قَالَ: أَلْفَيْنِ أَنَّ امْرَأَةً كَانَتْ تَسُبُّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ يَكْفِينِي عَدُوِّي؟» فَخَرَجَ إِلَيْهَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ فَقَتَلَهَا
مصنف عبد الرزاق کے نسخہ میں الفاظ مکمل نقل نہیں ہوئے أبو نعيم نے معرفة الصحابة (6/ 3162) میں اس کا مکمل متن و سند نقل کیا ہے :
حدثنا أحمد بن محمد بن يوسف، ثنا عبد الله بن محمد البغوي، ثنا زهير بن محمد، ثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن سماك بن الفضل، عن عروة بن محمد، عن رجل من بلقين، قال: كانت امرأة تسب النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: «من يكفيني عدوتي، فخرج خالد بن الوليد فقتلها
سماك بن الفضل روایت کرتے ہیں عروة بن محمد سے وہ بلقين میں سے ایک شخص سے کہ ایک عورت تھی جو نبی صلی الله علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کون میری مدد کرتا ہے میری دشمن کے لئے پس خالد بن ولید نکلے اور اس کو قتل کر دیا
اسکی سند میں عروة بْن مُحَمَّد بْن عطية السعدي الجشمي ہیں جن کو سُلَيْمان بن عبد الملك اور عُمَر بْن عبد العزيز اور يزيد بن عبد الملك نے يمن پر عامل مقرر کیا تھا – عروہ ایک مجھول سے روایت نقل کر رہے ہیں جس کا نام و نسب نہیں پتا
لیکن پانچویں صدی کی کتاب المحلی از ابن حزم کی روایت ہے
وَحَدَّثَنَا حُمَامٌ نا عَبَّاسُ بْنُ أَصْبَغَ نا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَيْمَنَ نا أَبُو مُحَمَّدٍ حَبِيبٌ الْبُخَارِيُّ – هُوَ صَاحِبُ أَبِي ثَوْرٍ ثِقَةٌ مَشْهُورٌ – نا مُحَمَّدُ بْنُ سَهْلٍ سَمِعْت عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيِّ يَقُولُ: ” دَخَلْت عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ فَقَالَ لِي: أَتَعْرِفُ حَدِيثًا مُسْنَدًا فِيمَنْ سَبَّ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ – فَيُقْتَلُ؟ قُلْت: نَعَمْ، فَذَكَرْت لَهُ حَدِيثَ عَبْدِ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ سِمَاكِ بْنِ الْفَضْلِ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ ” رَجُلٍ ” مِنْ بُلْقِينَ قَالَ «كَانَ رَجُلٌ يَشْتُمُ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ – فَقَالَ النَّبِيُّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ -: مَنْ يَكْفِينِي عَدُوًّا لِي؟ فَقَالَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ: أَنَا فَبَعَثَهُ النَّبِيُّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ – إلَيْهِ فَقَتَلَهُ، فَقَالَ لَهُ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ: لَيْسَ هَذَا مُسْنَدًا، هُوَ عَنْ رَجُلٍ؟ فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ بِهَذَا يُعْرَفُ هَذَا الرَّجُلُ وَهُوَ اسْمُهُ، قَدْ أَتَى النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَبَايَعَهُ، وَهُوَ مَشْهُورٌ مَعْرُوفٌ؟ قَالَ: فَأَمَرَ لِي بِأَلْفِ دِينَارٍ؟»
علی المدینی کو کہتے محمد بن سہل نے سنا کہ میں (علی المدینی) امیر المومنین (المامون) کے پاس داخل ہوا انہوں نے پوچھا :کیا آپ کو کوئی مسند روایت پتا ہے جس میں نبی کی گستاخی پر قتل کی سزا ہو؟ میں نے کہا جی ؛ پس ان سے حدیث ذکر کی کہ عبد الرزاق نے معمر سے انہوں نے سماک سے انہوں نے عروہ سے انہوں نے بلقین کے رجل سے روایت کیا کہ … امیر المومنین نے کہا اس میں تو روایت عن رجل سے ہے مسند کیسے ہوئی؟ میں نے کہا اے امیر المومنین اس رجل کا نام ہی ایسے لیا جاتا تھا اور یہی اسکا نام ہے یہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور انکی بیعت کی اور یہ مشھور و معروف ہیں پس امیر المومنین نے ہزار دینار عطا کیے
ابن حزم کہتے ہیں
هَذَا حَدِيثٌ مُسْنَدٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ عَنْ عَبْدُ الرَّزَّاقِ كَمَا ذَكَرَهُ، وَهَذَا رَجُلٌ مِنْ الصَّحَابَةِ مَعْرُوفٌ اسْمُهُ الَّذِي سَمَّاهُ بِهِ أَهْلُهُ ” رَجُلٌ ” مِنْ بُلْقِينَ.
یہ حدیث مسند ہے صحیح ہے اس کو علی بن المدینی نے روایت کیا ہے عبد الرزاق سے جیسا کہ ذکر کیا اور یہ رجل صحابہ میں سے ہے جن کو انکے گھر والوں نے ایسا نام دیا کہ بلقین کا آدمی
یہ سب اگر آپ نے پڑھ لیا ہے تو سنئے یہ سب غلط ہے اور اس کی وجوہ یہ ہیں
اول محدثین اور عباسی خلفاء میں باپ مارے کا بیر تھا وہ ایک دوسرے کو پسند نہ کرتے تھے اور معتزلی عقائد رکھتے تھے
دوم محدثین کی خلق قرآن کے مسئلہ پر سخت جانچ پڑتال کی جاتی – امام احمد کو علی المدینی کے دور کے ہیں ان کو کوڑے بھی لگے
سوم عبّاسی خلفاء نے اہل رائے والے علماء کو قاضی کے منصب دیے – محدثین کی عزت افزائی کا ان کو کوئی شوق نہ تھا یہی وجہ تھی کہ محدثین اور اہل رائے میں ایک مخاصمت جنم لے چکی تھی
لہذا عباسی خلفاء کے اہل رائے والے قاضی امام ابو حنیفہ ، امام یوسف اور امام محمد کا فتوی یہ تھا کہ ذمی شاتم کو قتل نہیں کیا جائے گا – امیر المومنین المأمون نے انعام سے نوازا اور حدیث کو ایک طرح علی المدینی نے بیچ دیا – ایسا ممکن نہیں محدثین حدیث سنانے کے پیسے نہ لیتے تھے
اب رجل من بلقین کا قبول کرنا بھی ایک فرضی داستان ہے اس کے لئے کہا جاتا ہے کہ رجل من بلقین ایک صحابی ہے اور صحابہ کلھم عدول ہیں لہذا روایت درست ہے لیکن اس بنیاد پر تو ہر وہ روایت درست مان لینی چاہیے جس میں دور نبوی کے لوگوں کا لقاء ثابت نہ ہو
اب غور سے پڑھیں اسی کتاب المحلی میں ابن حزم ایک دوسرے مسئلہ پر لکھتے ہیں
رُوِّينَاهُ مِنْ طَرِيقِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ «عَنْ رَجُلٍ مِنْ بُلْقِينَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ أَحَدٌ أَحَقُّ بِشَيْءٍ مِنْ الْمَغْنَمِ مِنْ أَحَدٍ؟ قَالَ: لَا، حَتَّى السَّهْمُ يَأْخُذُهُ أَحَدُكُمْ مِنْ جَنْبِهِ فَلَيْسَ أَحَقَّ مِنْ أَخِيهِ بِهِ» . قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: هَذَا عَنْ رَجُلٍ مَجْهُولٍ لَا يُدْرَى أَصَدَقَ فِي ادِّعَائِهِ الصُّحْبَةَ أَمْ لَا؟
اور ہم سے روایت کیا گیا ہے حماد بن سلمہ عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ «عَنْ رَجُلٍ مِنْ بُلْقِينَ کے طرق سے …. ابن حزم کہتے ہیں یہ رجل مجھول ہے – نہیں پتا کہ اس کا دعوی صحابی ہونا سچا بھی ہے یا نہیں
یعنی ایک ہی کتاب میں رجل من بلقین کو مجھول کہہ کر رد کیا اور جب اس کی شاتم رسول کی روایت آئی تو سب بھول بھال گئے
یہ روایت ان علماء میں چلتی رہی جو قتل کا فتوی دیتے تھے یہاں تک کہ ابن حجر نے الإصابة في تمييز الصحابة
میں لکھا کہ اوپر امیر المومنین المامون والآ قصہ جس کو ابن حزم صحیح کہہ گئے ہیں کذب ہے کتاب میں ابن حجر نے لکھآ
قلت: محمد بن سهل ما عرفته، وفي طبقته محمد بن سهل العطار رماه الدارقطنيّ بالوضع وقال: ناقض ابن حزم
میں کہتا ہوں کہ محمد بن سہل نہیں جانا جاتا اور اس طبقہ میں محمد بن سهل العطار ہے جس کو دارقطنی نے حدیث وضع کرنے پر پھینک دیا ہے اور یہ ابن حزم کی غلطی ہے
الغرض روایات مظبوط نہیں اور فقہاء باوجود قرآن پڑھنے کے اس مسئلہ میں ایک رائے نہیں لہذا آج یہ کہنا کہ اس عمل کی سزا پر اجماع ہے غلط قول ہے
عمر بغیر پوچھے قتل کرتے رهتے
تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے
أخبرنا يونس بن عبد الأعلى قراءة، أنبأ ابن وهب، أخبرني عبد الله بن لهيعة عن أبي الأسود قال: اختصم رجلان إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقضى بينهما، فقال الذي قضى عليه: ردنا إلى عمر بن الخطاب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: نعم، انطلقا إلى عمر، فلما أتيا عمر قال الرجل: يا ابن الخطاب قضى لي رسول الله صلى الله عليه وسلم على هذا، فقال: ردنا إلى عمر حتى أخرج إليكما فأقضي بينكما، فخرج إليهما، مشتملا على سيفه فضرب الذي قال: ردنا إلى عمر فقتله، وأدبر الآخر فارا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، قتل عمر والله صاحبي ولو ما أني أعجزته لقتلني، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما كنت أظن أن يجترئ عمر على قتل مؤمنين، فأنزل الله تعالى فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم ثم لا يجدوا في أنفسهم حرجا مما قضيت ويسلموا تسليما فهدر دم ذلك الرجل وبرئ عمر من قتله، فكره الله أن يسن ذلك بعد، فقال: «ولو أنا كتبنا عليهم أن اقتلوا أنفسكم أو اخرجوا من دياركم ما فعلوه إلا قليل منهم» إلى قوله: وأشد تثبيتا
یونس بن عبد الاعلیٰ عبدللہ بن وھب سے روایت کرتے ہیں کہ ابن الہیعہ نے انہیں ابو الاسود سے نقل کرتے ہوئے خبر دی: دو آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس جھگڑا لے گئے آپ نے ان کے درمیان فیصلہ فرمایا جس کے خلاف فیصلہ ہوا اس نے کہا ہم کو حضرت عمر ؓ کے پاس بھیج دو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہاں ٹھیک ہے؟ دونوں عمر ؓکے پاس چلے جب عمر ؓ کے پاس آئے تو ایک آدمی نے کہا اے ابن خطاب میرے لئے رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرما دیا ہے اس معاملہ میں اس نے کہا ہم عمر ؓ کے پاس جائیں گے تو ہم آپ کے پاس آگئے عمر ؓ نے پوچھا (اس آدمی سے) کہا ایسے ہی ہے؟ اس نے کہا ہاں عمر ؓ نے فرمایا اپنی جگہ پر رہو یہاں تک کہ میں تمہارے پاس آؤں تمہارے درمیان فیصلہ کروں حضرت عمر اپنی تلوار لے کر آئے اس پر تلوار سے وار کیا جس نے کہا تھا کہ ہم عمر کے پاس جائیں گے اور اس کو قتل کردیا اور دوسرا پیٹھ پھیر کر بھاگا اور رسول اللہ ﷺ سے آکر کہا یا رسول اللہ اللہ کی قسم عمر ؓ نے میرے ساتھی کو قتل کردیا اگر میں بھی وہاں رکا رہتا تو وہ مجھے بھی قتل کردیتے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرا گمان یہ نہیں تھا۔ کہ عمر ؓ ایمان والوں کو قتل کی جرات کریں گے تو اس پر یہ آیت اتری لفظ آیت ’’ فلا وربک لا یؤمنون‘‘ تو اس آدمی کا خون باطل ہوگیا اور عمر ؓ اس کے قتل سے بری ہوگئے اللہ تعالیٰ نے بعد میں اس طریقہ کو ناپسند کیا تو بعد والی آیات نازل فرمائیں اور فرمایا لفظ آیت ’’ ولو انا کتبنا علیہم ان اقتلوا انفسکم‘‘ سے لے کر ’’واشد تثبیتا‘‘ تک
وَلَوْ أَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ أَنِ اقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ أَوِ اخْرُجُوا مِنْ دِيَارِكُمْ مَا فَعَلُوهُ إِلَّا قَلِيلٌ مِنْهُمْ وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتًا (66)
جواب
یہ روایت منکر ہے
تعزیری احکام صرف حاکم کا حق ہے اور دور نبوی میں قتل کا حکم صرف نبی صلی الله علیہ وسلم کر سکتے ہیں – کوئی اور نہیں
محمد الأمين بن عبد الله الأرمي العلوي الهرري الشافعی کتاب تفسير حدائق الروح والريحان في روابي علوم القرآن میں کہتے ہیں
وهذا مرسل غريب في إسناده ابن لهيعة.
یہ روایت مرسل ہے عجیب و منفرد ہے اس کی سند میں ابن لهيعة ہے
ابن کثیر تفسیر میں اس قصے کو نقل کر کے کہتے ہیں
وَهُوَ أثر غريب مُرْسَلٌ، وَابْنُ لَهِيعَةَ ضَعِيفٌ
یہ اثر عجیب ہے مرسل ہے اور ابْنُ لَهِيعَةَ ضعیف ہے
محاسن التأويل میں المؤلف: محمد جمال الدين بن محمد سعيد بن قاسم الحلاق القاسمي (المتوفى: 1332هـ) کہتے ہیں
وهو أثر غريب مرسل. وابن لهيعة ضعيف
اس راوی پر محدثین کا اختلاف رہا ہے – بعض نے مطلقا ضعیف کہا ہے بعض نے کہا کہ اگر ابن المبارك وابن وهب والمقري اس سے روایت کریں تو لکھ لو
اس طرح اس قصے کو قبول کرنے والے کہتے ہیں ابن وھب نے روایت کیا ہے لہذا قبول کیا جائے گا
لیکن یہ قول اس وقت لیا جاتا ہے جب اختلاط کا خطرہ ہو کیونکہ عبد الله بن لهيعة آخری عمر میں مختلط تھا اور اس نے اپنی کتابیں بھی جلا دیں تھیں
——
موصوف مدلس بھی ہیں اور یہ جرح اس سند پر بھی ہے اس کو کوئی رد نہیں کر سکتا
ابن سعد نے طبقات میں بحث کو سمیٹا ہے کہ
إنه كان ضعيفاً
یہ ضعیف ہی ہے
ابن ابی حاتم جن کی تفسیر میں یہ قصہ ہے ان کے باپ کا کہنا تھا
وأبو حاتم: أمره مضطرب،
عبد الله بن لهيعة کا کام مضطرب ہے
روایت میں شیعیت ہے
اس کو رافضی الکلبی نے بھی روایت کیا ہے
قال الكلبي عن أبي صالح عن ابن عباس: نزلت في رجل من المنافقين يقال له بشر كان بينه وبين يهودي خصومة، فقال اليهودي: انطلق بنا إلى محمد، وقال المنافق: بل نأتي كعب بن الأشرف -وهو الذي سماه الله تعالى الطاغوت- فأبى اليهودي إلا أن يخاصمه إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما رأى المنافق ذلك “أتى معه” النبي صلى الله عليه وسلم واختصما إليه فقضى رسول الله صلى الله عليه وسلم لليهودي فلما خرجا من عنده لزمه المنافق وقال: ننطلق إلى عمر بن الخطاب فأقبلا إلى عمر، فقال اليهودي: اختصمت أنا وهذا إلى محمد فقضى لي عليه فلم يرض بقضائه وزعم أنه مخاصم إليك وتعلق بي فجئت معه، فقال عمر للمنافق: أكذلك؟ فقال: نعم فقال لهما: رويدكما حتى أخرج إليكما فدخل عمر البيت وأخذ السيف فاشتمل عليه ثم خرج إليهما فضرب به المنافق حتى برد وقال: هكذا أقضي بين من لم يرض بقضاء رسول الله صلى الله عليه وسلم وهرب اليهودي، ونزلت هذه الآية وقال جبريل عليه السلام: إن عمر فرق بين الحق والباطل فسمي الفاروق.
الکلبی ابو صالح سے اور ابو صالح ابن عبّاسؓ سے روایت کرتے ہیں: یہ آیت بشر نامی ایک منافق کے بارے میں نازل ہوئی۔ بشر اور ایک یہودی کے مابین جھگڑا ہوا۔ یہودی نے کہا چلو آؤ محمد کے پاس فیصلہ کے لئے چلیں۔ منافق نے کہا نہیں بلکہ ہم کعب بن اشرف یہودی – جسے اللہ تعالی نے طاغوت کا نام دیا – کے پاس چلیں۔ یہودی نے فیصلہ کروانے سے ہی انکار کیا مگر یہ کہ جھگڑے کا فیصلہ رسول اللہ سے کروایا جائے۔ جب منافق نے یہ دیکھا تو وہ اس کے ساتھ نبی ﷺ کے کی طرف چل دیا اور دونوں نے اپنا اپنا مؤقف پیش کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے یہودی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ وہ دونوں جب آپ کے پاس سے نکلے تو منافق نے عمر بن خطابؓ کے پاس چلنے پر اصرار کیا اور وہ دونوں عمر ؓکے پاس پہنچے۔ یہودی نے کہا، میں اور یہ شخص اپنا جھگڑا محمد کے پاس لے کر گئے اور محمد نے میرے حق میں اور اس کے خلاف فیصلہ دے دیا۔ چنانچہ یہ ان کے فیصلہ پر راضی نہ ہوا اور آپ کے پاس آنے کا کہا تو میں آپ اس کے ساتھ آپ کی طرف آیا۔ عمر ؓنے منافق سے پوچھا، ‘کیا یہی معاملہ ہے؟’ اس نے کہا، ‘جی ہاں۔’ عمرؓ نے ان دونوں سے کہا تم دونوں میری واپسی کا انتظار کرو۔ عمر ؓ اپنے گھر گئے، اپنی تلوار اٹھائی اور واپس ان دونوں کے پاس لوٹے اور منافق پر وار کیا یہاں تک کہ وہ مر گیا۔ اس پر آپ نے فرمایا: “جو رسول اللہ ﷺ کے فیصلے کو نہیں مانتا اس کے لئے میرا یہی فیصلہ ہے۔” یہ دیکھ کر یہودی بھاگ گیا۔ اس پر یہ آیت (النساء ٦٥) نازل ہوئی اور جبریل علیہ السلام نے کہا: بے شک عمر ؓنے حق اور باطل کے درمیان فرق کر دیا اور انہوں نے آپ کا نام “الفاروق” رکھا
اور ابن الہیعہ نے اغلبا تدلیس کی ہے کیونکہ ابی الاسود سے لے کر عمر رضی الله عنہ یا کسی صحابی تک سند نہیں ہے
الكَلْبِيُّ مُحَمَّدُ بنُ السَّائِبِ بنِ بِشْرٍ المتوفي ١٤٦ اور ابن الہیعہ المتوفی ١٧٤ کے ہیں دونوں پر شیعت کا اثر تھا – روایت کو عمر رضی الله عنہ کی تنقیص میں بیان کیا گیا کہ وہ حکم نبوی انے سے قبل ہی اپنی چلاتے تھے
ابن خطل کا قتل
حدیث میں ہے کہ فتح مکہ کے دن رسول الله صلی الله علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو ابن خطل کعبہ کے پردے میں چھپ گیا آپ نے حکم دیا اس کو وہیں قتل کر دیا جائے
ابو داود کہتے ہیں أَبُو بَرْزَةَ رضی الله عنہ نے اس کا قتل کیا اور امام مالک کا قول ہے کہ اس روز رسول الله احرام میں نہ تھے اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے کالا عمامہ باندھا ہوا تھا یعنی سر بھی ڈھکا ہوا تھا
کیونکہ احرام کی حالت میں قتل حرام ہے اس لئے فقہاء میں اس پر بحث ہوتی ہے کہ کیا حرم میں بغیر احرام داخل ہو سکتے ہیں یا نہیں ؟ یہ عمل الله کی خاص اجازت سے ہوا
اب بحث یہ ہے کہ ابن خطل کا قتل کیوں ہوا ؟ کتاب الشريعة از الآجُرِّيُّ کے مطابق علی رضی الله عنہ کا قول ہے
كَانَ ابْنُ خَطَلٍ يَكْتُبُ بَيْنَ يَدَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ابن خطل رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے لئے لکھتا تھا
یعنی ابن خطل ایک کاتب تھا جو مرتد ہو گیا تھا اور چونکہ مرتد کا قتل ہوتا ہے اس لئے اس کا قتل ہوا یہ گناہ تمام دیگر گناہوں پر سبقت لے گیا ورنہ مکہ میں تو سب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے مخالف تھے
کتاب شرح السنة از البغوي کے مطابق
أَنَّ ابْنَ خَطْلٍ كَانَ بَعَثَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَجْهٍ مَعَ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، وَأَمَّرَ الْأَنْصَارِيَّ عَلَيْهِ، فَلَمَّا كَانَ بِبَعْضِ الطَّرِيقِ، وَثَبَ عَلَى الْأَنْصَارِيِّ، فَقَتَلَهُ، وَذَهَبَ بِمَالِهِ، فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَتْلِهِ لِخِيَانَتِهِ.
ابن خطل کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک کام سے ایک انصاری صحابی کے ساتھ بھیجا اور انصاری کو امیر کیا پس جب وہ رستہ میں تھے ابن خطل نے انصاری پر قابو پایا اور ان کو قتل کر کے مال لے بھاگا پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس کا قتل خیانت کرنے پر کیا
اہل مکہ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے نام رکھے ہوئے تھے بعض ان کو
ابن ابی کبشہ کہتے (سیرت ابن اسحاق) یعنی ابی کبشہ کا بیٹا جو ایک ستارہ پرست تھا اور الشعری کا پجاری تھا یعنی عربوں کے نزدیک لا دین تھا
بعض اہل مکہ ان کو مذمم کہتے (مسند احمد، صحیح بخاری) یعنی وہ جو قابل مذمت ہو
صحیح بخاری کی ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث ہے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
أَلاَ تَعْجَبُونَ كَيْفَ يَصْرِفُ اللَّهُ عَنِّي شَتْمَ قُرَيْشٍ وَلَعْنَهُمْ، يَشْتِمُونَ مُذَمَّمًا، وَيَلْعَنُونَ مُذَمَّمًا وَأَنَا مُحَمَّدٌ
کیا تم کو حیرت نہیں ہوتی کہ کس طرح الله نے قریش کی گالیوں کو ہٹایا اور ان کی لعنت کو؟ کہ وہ ایک مذمم کو گالی دیتے ہیں اور مذمم پر لعنت کرتے ہیں اور میں محمد ہوں
یعنی الله میری تعریف کر رہا ہے اور قریش الله سے دعائیں کر رہے ہیں کہ مجھ پر لعنت ہو
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن ان تمام گالی دینے والوں کو معاف کر دیا
—-
معالم السنن میں خطابی کہتے ہیں
وحكي، عَن أبي حنيفة أنه قاله لا يقتل الذمي بشتم النبي صلى الله عليه وسلم ما هم عليه من الشرك أعظم.
اور امام ابو حنیفہ سے حکایت کیا گیا ہے کہ ذمی کو گالی دینے پر قتل نہیں کیا جائے گا ان پر پہلے سے شرک (کا گناہ) ہے جو بڑا ہے
یعنی جب شرک جسے گناہ پر ان کو قتل نہیں کیا جاتا تو نبی صلی الله علیہ وسلم کو گالی دینے پر کیسے کیا جا سکتا ہے؟
امام ابو حنیفہ کی رائے کی تائید صحیح البخاری کی حدیث سے ہوتی ہے
ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قَالَ اللَّهُ: «كَذَّبَنِي ابْنُ آدَمَ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ ذَلِكَ، وَشَتَمَنِي، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ ذَلِكَ، فَأَمَّا تَكْذِيبُهُ [ص:20] إِيَّايَ فَزَعَمَ أَنِّي لاَ أَقْدِرُ أَنْ أُعِيدَهُ كَمَا كَانَ، وَأَمَّا شَتْمُهُ إِيَّايَ، فَقَوْلُهُ لِي وَلَدٌ، فَسُبْحَانِي أَنْ أَتَّخِذَ صَاحِبَةً أَوْ وَلَدًا»
ابن عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله تعالی کہتا ہے
ابن آدم نے میری تکذیب کی اور اس کے لئے یہ مقام نہیں
اور مجھ کو گالی دی …. یہ کہہ کر کہ میرا بیٹا ہے جبکہ میں پاک ہوں کہ کسی کو بیٹے کے طور پر لوں
آجکل بعض جھلا کہتے پھرتے ہیں کہ شاتم رسول ذمی کی سزا پر بحث نہ کی جائے کیونکہ یہ دین دار اور دنیا پرست لوگوں کا جھگڑا ہے لیکن ان جھلا نے امام ابو حنیفہ رحمہ الله علیہ تک کو دنیا دار طبقہ میں ملا دیا ہے
ناطقہ سربہ گریباں خامہ انگشت
گانے والیوں کو سزا
ابن تیمیہ نے اپنی کتاب الصارم المسلول على شاتم الرسول میں ایک قصہ نقل کیا ہے
فمن ذلك ما ذكره سيف بن عمر التميمي في كتاب “الردة والفتوح” عن شيوخه قال: “ورفع إلى المهاجر يعني المهاجر بن أبي أمية وكان أميرا على اليمامة ونواحيها امرأتان مغنيتان غنت إحداهما بشتم النبي صلى الله عليه وسلم فقطع يدها ونزع ثنيتيها وغنت الأخرى بهجاء المسلمين فقطع يدها ونزع ثنيتيها فكتب إليه أبو بكر: بلغني الذي سرت به في المرأة التي تغنت وزمرت بشتم النبي صلى الله عليه وسلم فلولا ما قد سبقتني لأمرتك بقتلها لأن حد الأنبياء ليس يشبه الحدود فمن تعاطى ذلك من مسلم فهو مرتد أو معاهد فهو محارب غادر”.
سيف بن عمر التميمی نے اپنی کتاب “الردة والفتوح” میں اپنے شیوخ سے نقل کیا ہے کہ المهاجر بن أبي أمية جو یمامہ پر امیر تھے وہاں دو عورتیں ان پر پیش مقدمے میں ہوئیں جو گاتی اور ہجو رسول کرتی تھیں – المهاجر بن أبي أمية نے اس کے ہاتھ کاٹ دیئے اور اس کے اگلے دانت نکال دیئے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر تم نے اسے یہ سزانہ دی ہوتی تو تمہیں حکم دیتاکہ اس عورت کو قتل کردو۔کیونکہ انبیاء کرام کی گستاخی کی حددوسرے لوگوں کی(گستاخی کی) حدود کے مشابہ نہیں ہوتی ۔
سيف بن عمر التميمي سے تعزیری احکام نہیں لئے جا سکتے یہ حدیث میں متروک ہے البتہ تاریخ میں قبول کیا جاتا ہے – دوم اس کی کتب معدوم ہیں اور سیف کے شیوخ بھی پارسا نہیں کہ اس قسم کی سخت سزا اس کی سند سے لی جائے
راہب کا قتل
ابن تیمیہ نے اپنی کتاب الصارم المسلول على شاتم الرسول میں ایک قصہ نقل کیا ہے
ومن ذلك ما استدل به الإمام أحمد ورواه عنه هشيم: ثنا حصين عمن حدثه عن ابن عمر قال: مر به راهب فقيل له: هذا يسب النبي صلى الله عليه وسلم فقال ابن عمر: “لو سمعته لقتلته إنا لم نعطهم الذمة على أن يسبوا نبينا صلى الله عليه وسلم”.
ورواه أيضا من حديث الثوري عن حصين عن الشيخ أن ابن عمر أصلت على راهب سب النبي صلى الله عليه وسلم بالسيف وقال: “إنا لم نصالحهم على سب النبي صلى الله عليه وسلم”.
اور اسی سے استدلال امام احمد نے کیا ہے جو انہوں نے هشيم: ثنا حصين عمن حدثه عن ابن عمر کی سند سے روایت کیا کہ عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے پاس ایک (عیسائی) راہب گزرا جس کے بارے میں لوگوں نے کہا کہ یہ حضوراکرمﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرتاہے – عبداللہ ابن عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر میں اس سے گستاخانہ کلمات سن لیتاتو اس کی گردن اڑادیتا۔ ہم گستاخ رسول کی تعظیم نہیں کرتے – اور ایسا ہی روایت کیا گیا ہے حديث الثوري عن حصين عن الشيخ أن ابن عمر
راقم کہتا ہے دونوں سندیں مخدوش ہیں مجہول لوگوں کی خبریں ہیں
علی کا حکم قتل کر دو
اہل سنت کہتے ہیں علی کا حکم تھا کہ شاتم رسول کو قتل کر دو – اس پر روایت پیش کرتے ہیں
مصنف عبد الرزاق میں ہے
عَبْدُ الرَّزَّاقِ، 9708 – عَنِ ابْنِ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ عَلِيًّا قَالَ: فِيمَنْ كَذَبَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يُضْرَبُ عُنُقُهُ»
عبدالرزاق ، ابْنِ التَّيْمِيِّ سے روایت کرتے ہیں وہ باپ سے کہ علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا جو شخص رسول الله کی طرف جھوٹ منسوب کرے اسے قتل کردیاجائے گا۔
(مصنف عبدالرزاق حدیث ٩٧٠٨ نمبر)
محدثین نے اس حکم پر عمل نہیں کیا اور متروک اور وضاع یعنی حدیث گھڑنے والوں کی روایات جمع کی ہیں ان میں کسی کو بھی قتل نہیں کیا گیا
سوال یہ ہے کہ جھوٹی احادیث بنانے والا تو معتوب ہے تو سنانے والا کیوں نہیں جیسا کہ آجکل عام ہو چکا ہے
نصرانی کا قتل
مصنف عبد الرزاق میں ہے
عَبْدُ الرَّزَّاقِ، وَأَخْبَرَنِي أَبِي: أَنَّ أَيُّوبَ بْنَ يَحْيَى خَرَجَ إِلَى عَدَنٍ فَرَفَعَ إِلَيْهِ رَجُلٌ مِنَ النَّصَارَى سَبَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَشَارَ فِيهِ فَأَشَارَ عَلَيْهِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ الصَّنَعَانِيُّ أَنْ يَقْتُلَهُ “، فَقَتَلَهُ، وَرَوَى لَهُ فِي ذَلِكَ حَدِيثًا قَالَ: وَكَانَ قَدْ لَقِيَ عُمَرَ وَسَمِعَ مِنْهُ عِلْمًا كَثِيرًا قَالَ: فَكَتَبَ فِي ذَلِكَ أَيُّوبُ إِلَى عَبْدِ الْمَلِكِ، أَوْ إِلَى الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ، فَكَتَبَ يُحَسِّنُ ذَلِكَ
عبد الرزاق نے کہا ان کو ان کے باپ نے خبر دی کہ َيُّوبَ بْنَ يَحْيَى عدن کے لئے نکلے تو ان پر پیش ہوا کہ آدمی نصرانی جو نبی صلی الله علیہ وسلم کو گالی دیتا تھا پس انہوں نے اس پر اشارہ طلب کیا اور عبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ الصَّنَعَانِيُّ نے کہا اس کو قتل کر دو پس وہ قتل کیا گیا اور اس حدیث میں روایت کیا گیا ہے کہا ان کو عمر سے ملاقات ہے اور ان سے کثیر علم لیا کہا پس َ أَيُّوبَ بْنَ يَحْيَى نے عبد الملک بن مروان کو خط لکھا یا الولید کی طرف اور اس نے کہا اچھا کیا
راقم کہتا ہے أَيُّوبَ بْنَ يَحْيَى مجہول ہے
علی نے گستاخِ رسولؐ کی زبان کاٹ دی
اہل تشیع کی کتب میں ایک دلچسپ واقعہ بیان ہوا ہے
رسول الله کے مدنی دور میں کسی گستاخ شاعر نے نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان کے خلاف گستاخانہ اشعار لکھے۔ اصحاب نے اس گستاخ شاعر کو پکڑ کر بوری میں بند کر کے رسول الله کے سامنے پھینک دیا- رسول اللہ نے حکم دیا: اس کی زبان کاٹ دو۔ بعض صحابہ کرام نے عرض کی: یا رسول اللہ میں اس کی زبان کاٹنے کی سعادت حاصل کروں؟ رسول الله نے فرمایا: نہیں، تم نہیں اور علی کو حکم دیا اس کی زبان کاٹ دو – علی بوری اٹھا کر شہر سے باہر نکلے اور قنبر کو حکم دیا: جا کر میرا اونٹ لے آئیں اونٹ آیا علی نے اونٹ کے پیروں سے رسی کھول دی اور شاعر کو بھی کھولا اور 2000 درہم اس کے ہاتھ میں دیے اور اس کو اونٹ پہ بیٹھایا، پھر فرمایا: تم بھاگ جاؤ ان کو میں دیکھ لونگا- اب جو لوگ تماشا دیکھنے آئے تھے حیران رہ گئے کہ یا اللہ، علی نے تو رسول اللہ کی نافرمانی کی – رسول الله کے پاس شکایت لے کر پہنچ گئے: یا رسول اللہ آپ نے کہا تھا زبان کاٹ دو، اور علی نے اس گستاخ شاعر کو 2000 درہم دیے اور آزاد کر دیا رسول الله مسکرائے اور فرمایا علی میری بات سمجھ گئے – افسوس ہے کہ تمہاری سمجھ میں نہیں آئی – وہ لوگ پریشان ہوکر یہ کہتے چل دیے کہ: یہی تو کہا تھا کہ زبان کاٹ دو ،علی نے تو کاٹی ہی نہیں – اگلے دن صبح، فجر کی نماز کو جب گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ شاعر وضو کررہا ہے- پھر وہ مسجد میں جا کر جیب سے ایک پرچہ نکال کر کہتا ہے: یا رسول الله آپ کی شان میں نعت لکھ کر لایا ہوں اور یوں ہوا کہ علی نے گستاخ رسول کی گستاخ زبان کو کاٹ کر اسے مدحتِ رسالت والی زبان میں تبدیل کردیا۔
مختصرا یہ واقعہ کتاب دعائم الإسلام – القاضي النعمان المغربي – ج 2 – ص 323 میں بیان ہوا ہے
وعنه ( ع ) أنه قال : جاء شاعر إلى النبي ( صلع ) فسأله
وأطرأه ( 1 ) ، فقال بعض أصحابه : قم معه فاقطع لسانه . فخرج ثم رجع
فقال : يا رسول الله ، أقطع لسانه ؟ قال : إنما أمرتك أن تقطع لسانه
بالعطاء .
کتاب شرح أصول الكافي از مولي محمد صالح المازندراني میں پر لکھا ہے
ويختلف الناس في فهم القرآن ومثاله ما روي أن شاعرا مدح النبي (صلى الله عليه وآله) فقال لبعض أصحابه: إقطع لسانه. والظاهر منه قطع اللسان بالسكين لكن القرينة العقلية تدل على عدم كونه مرادا ولم يفهمه الصحابي حتى دله غيره بأن المراد الإحسان إلى الشاعر فان الإحسان يقطع اللسان إذ لا يأمر النبي (صلى الله عليه وآله) بقطع اللسان
اور لوگوں کا فہم قرآن پر اختلاف ہوا اور اس کی مثال ہے جو روایت کیا جاتا ہے کہ ایک شاعر نے (گستاخانہ) مدح النبی صلی الله علیہ و اله کی پس بعض اصحاب نے کہا اس کی زبان کاٹ دو اور ظاہر مفہوم ہے کہ چھری سے زبان کاٹ دو لیکن عقلی قرینہ دلالت کرتا ہے کہ یھاں اس سے یہ مراد نہیں ہے اور صحابی اس کو سمجھ نہ سکے یہاں تک کہ دوسروں نے دلیل دی کہ اس سے مراد شاعر پر احسان ہے کیونکہ احسان زبان کاٹ دیتا ہے کیونکہ نبی صلی الله علیہ و اله نے قطع زبان کا حکم نہیں کیا تھا
الغرض شاتم رسول اگر غیر مسلم ہے تو اس کے قتل پر کوئی صحیح حدیث نہیں اور جن لوگوں کا ذکر کیا جاتا ہے مثلا کعب بن اشرف وغیرہ ان کا قتل اس تناظر میں نہیں ہوا بلکہ مدینہ کی سلامتی لے لئے کیا گیا تھا
خبر واحد کی عقائد میں حجیت
وہ احادیث جو متواتر نہ ہوں ان کو اخبار احاد یا خبر واحد کہا جاتا ہے – اس طرح ٩٩% احادیث خبر واحد کے درجے میں ہیں – خبر واحد سے سنت النبی اور سنت اصحاب رسول کو جانا جاتا ہے اور اصلا یہی واحد مصدر ہے – البتہ اس پر عقیدہ لیا جا سکتا ہے یا نہیں اس میں اختلاف چلا آ رہا ہے- بعض علمائے احناف کے نزدیک خبر واحد سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا البتہ حنابلہ اور مالکیہ میں ثابت ہوتا ہے –
اصول کی کتب میں دلالة قطعية یا قطعية الثبوت کی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں جن سے مراد دین کی یقینی دلیلں ہیں اور ان میں ظاہر ہے قرآن سب سے اول ہے پھر حدیث متواتر پھربعض کے نزدیک اخبار احاد– جہاں تک متواتر احادیث ہیں تو ذخیرہ احادیث میں ان کا شمار بہت کم ہے اندازا صرف ایک فی صد ہیں – باقی ٩٩ فی صد اخبار احاد ہیں
ایک فاتر العقل شخص نے جس کی ملاقات تک ڈاکٹر صاحب سے نہیں ہے اس نے راقم سے کچھ سوالات کے جوابات طلب کیے- جواب ملنے پر اس نے اپنے جھل مرکب کا اظہار شروع کیا جس کا اندازہ آپ کو پڑھتے ہوئے ہو جائے گا – ان سوال و جواب کو افادہ عامہ کی غرض سے یہاں لگایا جا رہا ہے
اس نام نہاد مقلد ڈاکٹر عثمانی معترض نے کہا کہ عثمانی نے ایمان خالص ص ٢٤ پر لکھا ہے
اصحاب حدیث کا اتفاق ہے کہ خبر واحد صحیح تک سے عمل تو ثابت ہوتا ہے عقیدہ نہیں
لہذا میرے نزدیک برزخی جسم کی خبر خبر واحد ہونے کی بنا پر عقیدہ کا درجہ نہیں رکھتی بلکہ نظریہ کا درجہ رکھتی ہے
اس پر راقم نے کہا : یہ قول لکھنا مسعود الدین عثمانی کی خطا ہے کیونکہ اصحاب حدیث کا اس پر اتفاق ثابت نہیں بلکہ یہ قول احناف متاخرین، بعض شوافع (ابن حجر و النووی وغیرہم ) اور متکلمین کا ہے – امام ابو حنیفہ سے منسوب چند اقوال ہیں کہ چند اصحاب رسول غیر فقیہ ہیں ان کی روایات یا اخبار احاد کو نہیں لیا جائے گا – یہ قول تمام اصحاب رسول کے لئے نہ تھا – فقہ حنفی کی بنیاد فقہائے عراق کا مذھب ہے جو علقمہ سے ابراہیم النخعی سے اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے آیا ہے- کیا فقہ میں احکام نہیں ہیں ؟ احکام تو کتاب اللہ سے خبر واحد سے لئے جاتے ہیں – چور کا ہاتھ کاٹ دو قرآن میں ہے لیکن کتنا یہ خبر واحد سے ہے – اللہ کے حکم پر عمل انسان کے عقیدے کا حصہ ہے کیونکہ اللہ نے فرمایا جو میرا حکم نافذ نہ کرے کافر ہے- اگر ہم ہاتھ کاٹنے کی مقدار میں اضافہ کریں تو یہ ظلم ہوا اگر کم کریں تو حکم مکمل نافذ نہ ہوا –دونوں صورتوں ہم نے ظلم کیا-
اصحاب حدیث میں امام مالک کی موطا میں خبر واحد جمع کی گئی ہیں جو حدیث کی کتاب ہے اور ان احادیث میں عقائد بھی بیان ہوئے ہیں جن میں خروج دجال کی بھی خبر ہے – احناف میں امام طحاوی نے عقیدہ طحاویہ میں ان مسائل کا ذکر کیا ہے جن کی بنیاد ہی خبر واحد ہے – یعنی مطلقا خبر واحد کو عقیدہ میں نہ احناف نے رد کیا ہے نہ ڈاکٹر عثمانی نے-
یہ اصول کہ خبر واحد سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا اصل میں مکمل بات نہیں ہے – فقہ حنفی میں جو بات کہی گئی تھی وہ یہ تھی کہ امام ابوحنیفہ کا کہنا تھا کہ غیر فقیہ اصحاب رسول کی حدیث سے دلیل نہ لی جائے – ایک ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی دوسری انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی اور تیسری جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی – اس کی انہوں نے الگ الگ وجوہات گنوائیں
قال أبو حنيفة اترك قولي بقول الصحابة الّا بقول ثلثة منهم أبو هريرة وانس بن مالك وسمرة بن جندب رضی الله عنهم
روضة العلماء ونزهة الفضلاء (المخطوطة) – علي بن يحيى بن محمد، أبو الحسن الزندويستي الحنفي (المتوفى: 382هـ)
امام ابو حنیفہ نے کہا میرا قول صحابہ کے قول کے مقابل ہو تو اس کو ترک کر دو سوائے تین اصحاب کے ایک ابو ہریرہ دوسرے انس بن مالک اور تیسرے سمرہ بن جندب
اس کی وجہ ابو حنیفہ بتاتے ہیں
فقيل له في ذلك، فقال:
أما انس: فقد بلغني أنه اختلط عقله في آخر عمره، فكان يستفی من علقمة، وأنا لا أقلد علقمة، فكيف اقلد من يستفی من علقمة.
واما أبو هريرة فكان يروي كل ما بلغه وسمعه من غير أن يتأمل في المعنی ومن غير أن يعرف الناسخ والمنسوخ.
واما سمرة بن جندب، فقد بلغني عنه أمر ساءني، والذي بلغه عنه أنه كان يتوسع في الاشربة المسكرة سوی الخمر فلم يقلدهم في فتواهم.
اما في ما رووا عن رسول الله صلی الله عليه وسلم، فياخذ برواتهم؛ لأن كل واحد منهم موثوق به في ما يروي.
https://archive.org/stream/hanafi_04_201507/01#page/n181/mode/2up
صفحه 183 – 186 جلد 01 شرح أدب القاضي للخصاف الحنفي (المتوفى: 261هـ) عمر بن عبد العزيز ابن مازة الحنفي المعروف بالصدر الشهيد (المتوفى: 536هـ)- وزارة الأوقاف العراقية – مطبعة الإرشاد، بغداد
ان سے اس پر پوچھا گیا تو ابو حنیفہ نے کہا : جہاں تک انس ہیں تو مجھ تک پہنچا ہے کہ آخری عمر میں وہ اختلاط کا شکار تھے پس علقمہ سے پوچھتے اور میں علقمہ کی تقلید نہیں کرتا تو پھر اس کی کیوں کروں جو علقمہ سے پوچھے اور جہاں تک ابو ہریرہ ہیں تو یہ ہر چیز بیان کر دیتے ہیں جو پہنچی اور سنی ہو اس کے معنی پر غور کیے بغیر اور نہ ناسخ و منسوخ کو سمجھتے ہوئے
یہی انداز ابراھیم النخعي کا تھا احمد العلل میں کہتے ہیں
وقال عبد الله: حدثني أبي. قال: حدثنا أبو أسامة، عن الأعمش. قال: كان إبراهيم صيرفيا في الحديث، أجيئه بالحديث. قال: فكتب مما أخذته عن أبي صالح، عن أبي هريرة. قال: كانوا يتركون أشياء من أحاديث أبي هريرة. «العلل» (946) .
احمد نے کہا ابو اسامہ نے کہا اعمش نے کہا کہ ابراھیم النخعي حدیث کے بدلے حدیث لیتے – وہ حدیث لاتے – اعمش نے کہا : پس انہوں نے لکھا جو میں نے ابو صالح عن ابو ہریرہ سے روایت کیا – اعمش نے کہا : ابراھیم النخعي، ابوہریرہ کی احادیث میں چیزوں کو ترک کر دیتے
ابن عساکر نے تاریخ الدمشق میں روایت دی کہ
الثوري، عن منصور، عن إبراهيم، قال: ما كانوا يأخذون من حديث أبي هريرة إلا ما كان حديث جنة أو نار
ابراھیم النخعي نے کہا ہم ابو ہریرہ کی احادیث کو نہیں لیتے سوائے اس کے جس میں جنت جہنم کا ذکر ہو
بہر حال ان احتیاطوں کا مقصد مطلق خبر واحد کا انکار نہیں تھا بلکہ صرف چند اصحاب رسول تک اس کو محدود رکھا گیا تھا اس کی دلیل یہ ہے کہ امام محمد اور امام ابو یوسف نے فقہ میں اخبار احاد کو لیا ہے اور بعض اوقات کہتے ہیں یہ ہمارا موقف ہے یا یہ امام ابو حنیفہ کا موقف ہے – جب وہ موقف کہتے ہیں اور حدیث میں عقیدہ کا بیان بھی ہو تو یہی سمجھا جائے گا کہ وہ اس حدیث کو صحیح سمجھ کر اس میں بیان کردہ عقیدہ کو بھی قبول کر رہے ہیں
لیکن بعض متاخرین احناف نے بیان کیا کہ خبر واحد کو عقیدے میں نہ لیا جائے جو اصلا غلطی ہے کیونکہ یہ امام ابو حنیفہ کا مقصد نہیں تھا – بعد میں احناف نے اس کو خود محسوس کیا کیونکہ مسئلہ یہ آتا کہ متواتر احادیث کی تعداد تو اٹے میں نمک کے برابر ہے تو انہوں نے امداد زما نہ کے ساتھ اس اصول کو خود عملا خیر باد کہہ دیا – لہذا یہ اصول صرف اس وقت بیان ہوتا ہے جب کسی عقیدے کو رد کرنا ہو اور سرسری انداز میں لکھ دیا جاتا ہے – ڈاکٹر عثمانی کا لکھنا بھی ایسا ہی ہے
احناف میں بہت سے گروہ ہیں – کوئی ایک قسم کے احناف نہیں ہیں – تصوف کے دلداہ احناف بھی ہیں – اس کو ناپسند کرنے والے بھی ہیں – ان سب میں فقہ کے اصول بھی بدل رہے ہیں اور خبر احاد پر موقف بھی بدل جاتا ہے – ہند و پاک کے حنفی تو اصلا صوفی ہیںجو کشف تک سے خبریں ثابت کرتے ہیں
اپنی کتب میں جا بجا اخبار احاد کو ڈاکٹر عثمانی نے عقیدہ پر پیش کیا ہے مثلا تعویذ پر کتاب میں صرف حسن روایات سے تعویذ کو رد کیا ہے اور راقم کہتا ہے کہ ڈاکٹر عثمانی کی کتب میں جو احادیث متواتر بیان ہوئیں ہیں وہ جو چاہے جمع کر کے دیکھ لے بمشکل تمام پانچ چھ ہوں گی –
فرقہ اہل حدیث اور حنابلہ میں خبر واحد سے عقیدہ ثابت ہوتا ہے نہ صرف صحیح سے بلکہ البانی کہتے ہیں حسن تک سے – البانی ڈاکٹر عثمانی کے ہم عصر تھے – یہ ڈاکٹر صاحب کی علم کی کمی ہوئی اگر انہوں نے یہ سب کے لئے لکھا – میں اس کا قائل نہیں کہ ان میں علم کی کمی تھی – میرے نزدیک عثمانی صاحب نے اس کو چلتے چلتے ہی فرقوں کے لئے لکھا ہے کہ دیکھو تمہارا اپنا اصول کہتا ہے کہ خبر واحد سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا
میں اس میں آپ پر افسوس ہی کر سکتا ہوں کہ (عثمانی صاحب کے چند جملوں پر اپنی غلط سمجھ بوجھ کی وجہ سے ) آپ اپنی جان نا حق ان باتوں میں صرف کر رہے ہیں جن کا وجود ہی نہیں
مقلد معترض نے کہا کہ خبر واحد سے عقائد نہیں صرف نظریات ثابت ہوتے ہیں
اس کی دلیل ہے کہ نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر میں أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) نے کہا
في أَخْبارِ الآحادِ المُنْقَسِمَة إِلى مَشْهورٍ وعَزيزٍ وغَريبٍ؛ مَا يُفيدُ العِلْمَ النَّظريَّ بالقَرائِنِ؛ عَلى المُختارِ؛ خِلافاً لِمَنْ أَبى ذلك.والخِلافُ في التَّحْقيقِ لَفْظيٌّ؛ لأنَّ مَنْ جَوَّزَ إِطلاقَ العِلْمِ قَيَّدَهُ بِكونِهِ نَظَريّاً، وهُو الحاصِلُ عن الاسْتِدلالِ، ومَنْ أَبى الإِطلاقَ؛ خَصَّ لَفْظ العِلْمِ بالمُتواتِرِ، وما عَداهُ عِنْدَهُ [كُلُّهُ] ظَنِّيٌّ، لكنَّهُ لا يَنْفِي أَنَّ ما احْتفَّ «منه» بالقرائِنِ أَرْجَحُ ممَّا خَلا عَنها.
یعنی خبر واحد محض ناظریات ہیں
راقم نے جوابا کہا
یہاں عربی لفظ نَظَريّاً کا مطلب اردو کا نظریہ نہیں ہے بلکہ علم نظری مراد ہے یعنی خبر واحد اعتبار کرنے کے لئے ظنية الثُّبُوت کے درجے پر ہیں یعنی پہلا قرآن پھر متواتر پھر اخبار احاد
ابن حجر نے اصل میں یہ کہا ہے
اخبار احاد کی تقسیم مشہور اور عزیز اور غریب میں کی گئی ہے جس سے (مذھب ) مختار (اختیار کردہ) کو علم نظری میں قرائن کے ساتھ فائدہ ہوتا ہے بر خلاف اس کے جو اس کا انکار کرے اور یہ اختلاف لفظی ہے کیونکہ جس نے خبر واحد پر علم کے جواز کا اطلاق کیا اس نے خبر واحد کو مقید کیا کہ یہ (علم ) نظری ہے اور یہ (ان کے ) استدلال کا حاصل ہے اور وہ جو خبر واحد (پر لفظ علم کے) اطلاق کا انکار کرے (یعنی خبر واحد کا علم میں مفید ہونے کا ) تو وہ علم کے لئے لفظ متواتر کو خاص کرتے ہیں اور اس کے سوا سب روایات کو ظنی کے طور پر شمار کرتے ہیں لیکن وہ بھی کہتے ہیں کہ جو خبر قرائن پر اتر رہی ہو وہ راجح ہے
راقم کے ترجمہ کی تائید اس ترجمہ سے ہوتی ہے
تأويل مختلف الحديث میں أبو محمد عبد الله بن مسلم بن قتيبة الدينوري (المتوفى: 276هـ) لکھتے ہیں
وانقسمت الأحادیث بِاعْتِبَار رواتها إِلَى قَطْعِيَّة الثُّبُوت وظنية الثُّبُوت
اور اعتبار کرنے کے لئے احادیث کو قَطْعِيَّة الثُّبُوت اور ظنی ثبوت میں تقسیم کیا گیا ہے
عقائد میں اپنے اپنے نظریات یا تھیوری پیش نہیں کی جاتیں جو خبروں میں آیا ہے ان کو سامنے رکھ کر کچھ ثابت کیا جاتا ہے- اور ڈاکٹر عثمانی نے سبز پرندوں والی حدیث، ابراہیم کو دودھ پلانے والی حدیث سے جسم ثابت کیا ہے ان کے الفاظ ہیں
یعنی عثمانی صاحب نے خبر واحد سے ثابت کیا ہے اور ثابت شدہ نصوص ہوتے ہیں نظریات تو تھیوریز ہیں جن میں بات بدلتی رہتی ہے –
خبر واحد کے حوالے سے نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر (مطبوع ملحقا بكتاب سبل السلام) میں أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) کی وضاحت موجود ہے
الخبر إما أن يكون له: * طرق بلا عدد معين. * أو مع حصر بما فوق الاثنتين. * أو بهما. * أو بواحد.
فالأول: المتواتر المفيد للعلم اليقيني بشروطه [وهي عدد كثير أحالت العادة تواطؤهم على الكذاب رووا ذلك عن مثلهم من الابتداء إلى الانتهاء وكان مستند انتهائم الحسن وانضاف إلى ذلك أن يصحب خبرهم إفادة العلم لسامعه] .والثاني: المشهور وهو المستفيض على رأي. [ويطلق المشهور على ما اشتهر على الألسنة]
والثالث: العزيز، وليس شرطاً للصحيح خلافاً لمن زعمه.
والرابع: الغريب.
وكلها – سوى الأول – آحاد.
وفيها المقبول [وهو ما يجب العمل به عند الجمهور] والمردود لتوقف الاستدلال بها على البحث عن أحوال رواتها دون الأول، وقد يقع فيها ما يفيد العلم النظري بالقرائن على المختار [كأن يخرج الخبر الشيخان في صحيحهما أو يكون مشهورا وله طرق متباينة سالمة من ضعف الرواة والعلل أو يكون مسلسلا بالأئمة الحفاظ المتقنين حيث لا يكون غريبا] .
خبر ہو سکتی ہے ایک طرق سے جس میں عدد معین نہ ہو (یعنی راوی کثیر تعداد ہو) یا دو سے زائد راوی ہوں یا ایک ہو – پس پہلی ہے متواتر … دوسری المشہور … تیسری العزیز … چو تھی الغریب اور سوائے متواتر کے یہ سب خبر واحد ہیں- اور ان میں مقبول بھی ہے جس پر جمہور کے نزدیک عمل واجب ہے اور مردود وہ ہے جس پر راویوں کے احوال کی وجہ سے استدلال لینے میں توقف کیا جاتا ہے – اور خبر واحد میں واقع ہوئی ہیں وہ احادیث جو علم نظری میں مفید ہیں قرائن (مذھب ) مختار کو دیکھتے ہوئے (مثلا) وہ جن کی شیخین (بخاری و مسلم ) نے اپنی صحیح میں تخریج کی ہے یا وہ مشہور ہیں اور ان کے طرق ضعیف راویوں ، علل سے الگ ہیں اور یہ تسلسل کے ساتھ احتیاط کرنے والے حفاظ نے روایت کی ہیں اور غریب نہیں ہیں
مزید یہ کہ علم حدیث کی کتب کی شرح اور لوگوں نے بھی کی ہے – النكت على مقدمة ابن الصلاح میں الزركشي (المتوفى: 794هـ) کا کہنا ہے
وَذَلِكَ يُفِيد الْعلم النظري َهُوَ فِي إِفَادَة الْعلم كالمتواتر إِلَّا أَن الْمُتَوَاتر يُفِيد الْعلم الضَّرُورِيّ وتلقي الْأمة بِالْقبُولِ يُفِيد الْعلم النظري
اخبار احاد مفید علم نظری میں فائدہ کرتی ہے اور یہ افادہ علم میں متواتر ہی کی طرح ہے سوائے اس کے کہ متواتر سے مفید علم ضروری حاصل ہوتا ہے اور امت نے مفید علم نظری کو تلقیہا بالقبول کا درجہ دیا ہے
مزید لکھا ہے
وَنَقله بَعضهم عَن السَّرخسِيّ من الْحَنَفِيَّة وَجَمَاعَة من الْحَنَابِلَة كَأبي يعلى وَأبي الْخطاب وَابْن حَامِد وَابْن الزَّاغُونِيّ وَأكْثر أهل الْكَلَام من الأشعرية وَغَيرهم وَأهل الحَدِيث قاطبة وَمذهب السّلف عَامَّة وَقد تبين مُوَافقَة ابْن الصّلاح لِلْجُمْهُورِ وَهُوَ لَازم للمتأخرين فَإِنَّهُم صححوا أَن خبر الْوَاحِد إِذا احتفت بِهِ الْقَرَائِن أَفَادَ الْقطع
اور بعض احناف نے السَّرخسِيّ سے نقل کیا ہے اور حنابلہ کی ایک جماعت جسے ابو یعلی اور ابو الخطاب اور ابن حامد اور ابْن الزَّاغُونِيّ اور اہل کلام میں الأشعرية اور دوسروں نے اور اہل حدیث قاطبة نے اور مذھب سلف عام نے اور اس پر ابن صلاح نے جمہور کی موافقت واضح کی ہے اور یہ متاخرین کے لئے لازم کیا ہے کہ اگر خبر واحد پر قرائن ہوں تو یہ قطعی (علم ) میں فائدہ مند ہیں
البحر المحيط في أصول الفقه میں الزركشي (المتوفى: 794هـ) لکھتے ہیں
سَبَقَ مَنْعُ بَعْضِ الْمُتَكَلِّمِينَ مِنْ التَّمَسُّكِ بِأَخْبَارِ الْآحَادِ فِيمَا طَرِيقُهُ الْقَطْعُ مِنْ الْعَقَائِدِ؛ لِأَنَّهُ لَا يُفِيدُ إلَّا الظَّنَّ، وَالْعَقِيدَةُ قَطْعِيَّةٌ، وَالْحَقُّ الْجَوَازُ، وَالِاحْتِجَاجُ إنَّمَا هُوَ بِالْمَجْمُوعِ مِنْهَا وربما بلغ مبلغ القطع، ولهذا أثبتنا المعجزات المروية بالآحاد
یہ گزرا ہے کہ بعض متکلمین نے عقائد میں اخبار احاد سے قطعی (علم ) کے طور پر تمسک کرنے سے روکا ہے کہ ان سے ظن میں فائدہ ہوتا ہے اور عقیدہ قطعی ہوتا ہے اور حق ہے جواز پر اور ان دونوں کے مجموع سے دلیل لینے پر اور بعض اوقات (خبر) پہنچانے والا قطعی خبر لاتا ہے اور اس بنا پر ہم ان معجزات کا اثبات کرتے ہیں جو اخبار احاد میں آئے ہیں
ابن حزم کتاب الإحكام في أصول الأحكام میں کہتے ہیں
قال أبو سليمان والحسين عن أبي علي الكرابيسي والحارث بن أسد المحاسبي وغيرهم أن خبر الواحد العدل عن مثله إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم يوجب العلم والعمل معا وبهذا نقول وقد ذكر هذا القول أحمد بن إسحاق المعروف بابن خويز منداد عن مالك بن أنس وقال الحنفيون والشافعيون وجمهور المالكيين وجميع المعتزلة والخوارج إن خبر الواحد لا يوجب العلم
ابن حزم نے کہا ابو سلیمان اور حسین نے امام کرابیسی سے روایت کیا اور حارث محاسبی اور دیگر سے کہ خبر واحد جو رسول اللہ سے ملے تو یہ علم اور عمل میں واجب ہے اور یہی ہمارا قول ہے اور اس قول کا ذکر أحمد بن إسحاق المعروف ابن خويز منداد نے امام مالک کے لئے کیا ہے – اور احناف اور شوافع اور جمہور مالکیہ اور تمام المعتزلة والخوارج کہتے ہیں کہ خبر واحد سے علم واجب نہیں ہے
فتح الباری میں ابن رجب نے کہا
أن خبر الواحد يفيد العلم إذا احتفت به القرائن
بے شک خبر واحد علم میں فائدہ دیتی ہے جب قرائن سے مل جائے
متکلمین میں اشاعرہ اس کے قائل ہیں کہ خبر واحد سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا- وہابی علماء کے مطابق نووی اور ابن حجر دونوں عقیدے میں اشعری ہیں
لہذا عثمانی صاحب کو لکھنا چاہیے تھا
اشاعرہ کا اتفاق ہے کہ خبر واحد صحیح تک سے عمل تو ثابت ہوتا ہے عقیدہ نہیں
اس طرح یہ جملہ صرف دیو بندی اور بریلوی فرقے سے کہا گیا ہے – اہل حدیث فرقہ اور حنبلی وہابی خبر واحد پر عقیدہ لینے کے قائل ہیں
راقم کہتا ہے کہ یہ جملہ بھی صرف ان مسائل میں چلتا ہے جن کا تعلق اسماء و صفات سے ہے
مقلد عثمانی معترض نے کہا کہ آپ کا کہنے کا مقصد ہوا کہ ڈاکٹر عثمانی نے اصول سمجھا نہیں اور فرقوں پر لگا دیا
راقم نے جواب میں کہا
عثمانی بشر تھے اور غلطی بھی کرتے تھے اور اپنی کتب میں تصحیح و تبدیلی بھی کرتے رہے ہیں اپنے موقف کی وضاحت میں انہوں نے خبر واحد کو دلیل بنایا ہے اور اگر وہ ان کو عقائد میں دلیل نہیں سمجھتے تو لکھتے نہیں
یہاں انہوں نے اصحاب حدیث کا جو اتفاق نقل کیا ہے یہ صرف ان محدثین کا اتفاق ہے جو مذھب میں اشاعرہ کے منہج پر ہیں یعنی ابن حجر یا النووی وغیرہ – اغلبا ان کو یہ مغالطہ اسی بنا پر ہوا کہ انہوں نے ابن حجر کا حوالہ دیا ہے جو عقیدے میں اشاعرہ کے منہج پر ہیں لیکن محدث بھی مشہور ہیں – اس کے بر خلاف حنابلہ محدثین خبر واحد کو عقیدے میں لیتے ہیں
وہابی مفتی عبد العزيز بن عبد الله بن باز (المتوفى: 1420هـ) فتوی میں کہتا ہے
وأن خبر الآحاد إذا استقام سنده حجة يجب العمل به عند جميع أهل العلم في العقائد وغيرها
اور خبر واحد اگر اس کی سند قائم ہو – حجت ہے – اس پر تمام اہل علم کے ہاں اس پر عمل واجب ہے عقائد میں اور دوسرں میں
وہابی دائمی کمیٹی کا فتوی ہے
والآحاد يحتج به في الفروع بإجماع، ويحتج به في العقائد على الصحيح من قولي العلماء الإمام ابن عبد البر والخطيب البغدادي إجماعا في العقيدة والفروع، ومن رأى أن لا يحتج به في العقائد قد خالف فعله رأيه فاحتج به في العقائد والأصول، بل احتج بالضعيف منه في ذلك.
فروع میں اخبار احاد سے دلیل لینے پر اجماع ہے اور ان میں جو صحیح ہوں ان سے عقائد میں بقول علماء کےدلیل لی جائے جن میں ہیں امام ابن عبد البر اور خطیب بغدادی کہ اجماع ہے اخبار احاد سے عقائد اور فروع میں دلیل لینے پر اور جس نے یہ رائے رکھی کہ ان سے عقیدہ میں دلیل نہیں لی جائے گی اس نے مخالفت کی اپنی ہی رائے کی کہ اس نے رائے سے عقائد میں اور اصول میں دلیل لی بلکہ اس سے جو اس سے بھی ضعیف ہے
ابن عبد البر نے کہا
كلهم يدين بخبر الواحد العدل في الاعتقادات، ويعادي ويوالي عليها، ويجعلها شرعاً وديناً في معتقده، على ذلك جميع أهل السنة). (التمهيد لابن عبد البر1/8).
یہ فتوی سلفی عقائد رکھنے والے حنابلہ کے منہج کے عین مطابق ہے
مقلد عثمانی معترض نے کہا کہ اگر میں خروج دجال، شفاعت، محشر میں رویت باری تعالی ، حوض کوثر وغیرہ کی احادیث کا خبر واحد کا انکار کروں تو کیا میں کافر ہوں؟
راقم نے جوابا کہا تواتر کا شمار ادلہ قطعیہ میں کیا گیا ہے اس کا منکر کافر ہے جب ان اجزاء کو عقائد میں بیان کیا جاتا ہے تو اہلسنت کی جانب سے ان کو تواتر قرار دیا جاتا ہے اور اس بنا پر اہل سنت کا ان کا عقائد میں شامل ہونے پر اجماع ہے
مسئلہ عذاب قبر ، خروج دجال، شفاعت، محشر میں رویت باری تعالی ، حوض کوثر وغیرہ متواتر احادیث سے معلوم ہے
عثمانی مقلد معترض نے کہا ابن حزم برزخی جسم کے قائل نہیں کیا ڈاکٹرصاحب رح نے اس بات پر ابن حزم کی تکفیر کی
راقم کہتا ہے
قرآن و احادیث کے تفسیری اختلاف پر کفر کا فتوی نہیں دیا جاتا الا یہ کہ ادلہ قطعیہ کا رد ہو رہا ہو – مثلا بعض مسائل میں اصحاب رسول تک کی اختلافی و تفسیری آراء ملتی ہیں لیکن ان سے قرآن کا یا تواتر کا رد نہیں ہوتا – برزخی جسم کا منکر کافر نہیں لیکن اس شخص سے سوال کیا جائے گا کہ مجرد روح نعمت و راحت کیسے حاصل کرتی ہے ؟ جس کا یہ شخص جواب نہ دے سکے گا کیونکہ اس کو جو علم پہنچا اس نے اس کو جھٹلا دیا
عثمانی مقلد معترض نے کہا عقیدے میں ایک صحیح اور ایک کفر ہوتا ہے – بدعقیدہ شخص کو صرف گمراہ، بدعتی، فاسق و فاجر ہی نہیں کہا جاتا بلکہ اسکی واضح طور پر تکفیر کی جاتی ہے
راقم نے جوابا کہا
اگر ادلہ قطعیہ یعنی قرآن و متواتر حدیث کا انکار ہو تو بدعقیدہ شخص کی تکفیر کی جاتی ہے بصورت دیگر اس کو مضل یا گمراہ یا زایغ قرار دے کر اس کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے
مقلد عثمانی معترض نے کہا : امام بخاری رح نے روایت کیا ہے کہ عذاب قبر مویشی سنتے ہیں تو کیا وہ کافر ہیں؟ کیا خود بخاری کی اس حدیث سے ہی برزخ میں جانوروں کا ہونا ثابت نہیں ہوتا؟ کیونکہ جنت میں بیل ،بکری، اونٹنی کا ذکر توصحیح مسلم میں ہے
راقم نے جوابا کہا
صحیح بخاری کی یہ خبر واحد منکر ہے
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا ، ان سے ابووائل نے ، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ مدینہ کے یہودیوں کی دو بوڑھی عورتیں میرے پاس آئیں اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ قبر والوں کو ان کی قبر میں عذاب ہو گا ۔ لیکن میں نے انہیں جھٹلایا اور ان کی ( بات کی ) تصدیق نہیں کر سکی ۔ پھر وہ دونوں عورتیں چلی گئیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! دو بوڑھی عورتیں تھیں ، پھر میں آپ سے واقعہ کا ذکر کیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے صحیح کہا ، قبر والوں کو عذاب ہو گا اور ان کے عذاب کو تمام چوپائے سنیں گے ۔ پھر میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز میں قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگنے لگے تھے ۔
یہ روایت واقعہ کسوف کی باقی روایات سے متصادم ہے اس وجہ سے قابل رد ہے – قرائن اس کے خلاف ہیں اس بنا پر یہ متن منکر ہے – ہم اس کو اور باقی کسوف کی روایات کو ایک ساتھ صحیح نہیں کہہ سکتے – امام بخاری سے یہاں تصحیح میں غلطی ہوئی ہے – زیادہ توجہ اس پر ہونی چاہیے کہ اگر صحیح حدیث میں علت موجود ہے تو اس کو رد کریں نہ کہ معلول حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کرتے رہیں – اللہ تعالی نے ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا حکم کیا ہے کسی عثمانی یا بخاری کی اتباع کا حکم نہیں کیا –
اس حدیث کو اگر صحیح تصور کریں تو اس میں مویشی کہاں کے ہیں ؟ یہ ہم کو معلوم نہیں ہے
کیونکہ جہنم میں مویشی کی خبر نہیں ہے – جب جہنم میں مویشی ہیں ہی نہیں اور عذاب برزخ وہاں ہو رہا ہے تو میت کی یہ چیخ سات آسمانوں میں زمیں میں سب میں گونج نہیں سکتی ؟ ایسی بات حماقت سے کم نہیں ہے کیونکہ اس سے میت مزید پاور فل ہو گئی کہ اس کی آواز زمین و آسمانوں میں سب جگہ ہے
اب ایک امکان ہی رہ جاتا ہے کہ ممکن ہے امام بخاری نے اس کو جہنم میں مویشی سمجھا ہو اگر وہ ہمارا جیسا عقیدہ رکھتے تھے – اور ممکن ہے انہوں نے اس عذاب کو زمین پر ہی سمجھا ہو اگر وہ فرقوں جیسا عقیدہ رکھتے تھے – امام بخاری کا عقیدہ اس حوالے سے کیا ہے راقم کو علم نہیں ہے اور اس میں اشکال رہا ہے ابن حجر نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ امام بخاری نے واضح نہیں لکھا کہ عذاب روح کو ہے یا جسم کو ہے – یعنی فرقوں کو بھی اعتراف ہے کہ صرف الصحیح میں احادیث نقل کرنے سے عذاب قبر کے حوالے سے امام بخاری کا کیا عقیدہ تھا واضح نہیں ہوتا – اس بنا پر میں کہتا ہوں مجھ کو عذاب قبر کے باب میں بخاری کے عقیدہ کا صحیح علم نہیں ہےاور اس بنا پر ان پر فتوی نہیں لگا سکتا
یہ اصرار کیوں ہے کہ اس خبر واحد کو مان لیا جائے تاویل کی جائے جبکہ آپ کا قول ہے خبر واحد کو عقیدہ میں نہ لو – اب جب ہم کو علم آ گیا ہے کہ کسوف کی باقی روایات سے یہ متصادم ہے اور متن میں غلطی ہے پھر بھی اس حدیث کی تاویل کی بات کرنا مسلک پرستی کی نشانی ہے
امام بخاری نے کیا سمجھا یا ڈاکٹر عثمانی نے کیا کہا اس سے زیادہ ضرورت اس کی ہے کہ دیکھا جائے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ایسا عقیدہ بیان کیا یا راوی بھول گیا یا غلطی کر گیا یا مختلط ہوا یا وہم کا شکار ہوا
عثمانی مقلد معترض نے کہا کیا ڈاکٹر عثمانی صاحب زمین پر چوپایوں کے سننے کے قائل تھے؟
راقم نے جوابا کہا
ڈاکٹر عثمانی صاحب چوپایوں کے سننے کے قائل نہیں کیونکہ انہوں نے مسلم کی ایک حدیث پر تبصرہ کر کے اپنا موقف وہاں واضح کر دیا ہے – ڈاکٹر عثمانی کا طریقہ متکلم اہل رائے جیسا یا اشاعرہ جیسا ہے وہ حدیث پر رائے زنی کرتے ہیں ، تاویل کرتے ہیں – لیکن تاویل میں کوئی اصول نہیں ہوتا کوئی کوئی بھی تاویل کر سکتا ہے جو روایت کی تطبیق قرآن سے کر دے – اچھی تاویل کر دینے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ تاویل بالکل وہی ہے جو امام بخاری نے بھی کی ہو گی – امام بخاری نصوص کی تاویل کرتے تھے –
امام بخاری کے مقابلے پر وہ محدثین تھے جو قرن ثلاثہ میں عقائد میں خبر مرسل تک کو لیتے تھے مثلا امام احمد سے لے کر دارقطنی تک ، تابعی مجاہد کے مرسل قول پر اس عقیدہ کے حامل تھے کہ عرش پر روز محشر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو بیٹھا دیا جائے گا- اس کی مخالفت کرنے والے کو وہ جھمی کہتے تھے اور آج تک یہ عقیدہ وہابیوں میں موجود ہے – لہذا بعض محدثین کے نزدیک خبر واحد مرسل بھی یقینی ہوتی تھی اور اس پر عقیدہ استوار بالکل کیا جا سکتا تھا – اس مثال سے واضح ہو جاتا ہے کہ عقائد میں ہمارا یا ڈاکٹر عثمانی کا منہج ان محدثین جیسا بالکل نہیں ہے- دوسری طرف امام بخاری اور امام ترمذی اور بہت سے اور محدثین تھے جو حدیث کی تاویل بھی کرتے تھے- اس کی دلیل ہے کہ مسئلہ اسماء و صفات میں امام بخاری اور امام ترمذی دونوں نے اپنی کتب میں احادیث یا آیات صفات کی بعض مقام پر تاویل کی ہے
عثمانی مقلد معترض نے کہا
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: دَخَلَتْ عَلَيَّ عَجُوزَانِ مِنْ عُجُزِ يَهُودِ المَدِينَةِ، فَقَالَتَا لِي: إِنَّ أَهْلَ القُبُورِ يُعَذَّبُونَ فِي قُبُورِهِمْ، فَكَذَّبْتُهُمَا، وَلَمْ أُنْعِمْ أَنْ [ص:79] أُصَدِّقَهُمَا، فَخَرَجَتَا، وَدَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ عَجُوزَيْنِ، وَذَكَرْتُ لَهُ، فَقَالَ: «صَدَقَتَا، إِنَّهُمْ يُعَذَّبُونَ عَذَابًا تَسْمَعُهُ البَهَائِمُ كُلُّهَا» فَمَا رَأَيْتُهُ بَعْدُ فِي صَلاَةٍ إِلَّا تَعَوَّذَ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ
صحیح بخاری کی إس حدیث میں مویشی عذاب سن رہے ہیں جس طرح مرغ فرشتے کو دیکھ سکتا ہے
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا ، ان سے ابووائل نے ، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ مدینہ کے یہودیوں کی دو بوڑھی عورتیں میرے پاس آئیں اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ قبر والوں کو ان کی قبر میں عذاب ہو گا ۔ لیکن میں نے انہیں جھٹلایا اور ان کی ( بات کی ) تصدیق نہیں کر سکی ۔ پھر وہ دونوں عورتیں چلی گئیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! دو بوڑھی عورتیں تھیں ، پھر میں آپ سے واقعہ کا ذکر کیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے صحیح کہا ، قبر والوں کو عذاب ہو گا اور ان کے عذاب کو تمام مویشی سنیں گے ۔ پھر میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز میں قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگنے لگے تھے ۔
راقم نے کہا
سب سے پہلے یہ جان لیں کہ اس حدیث میں البَهَائِمُ کا لفظ ہے جس کا مطلب وہ چوپائے ہیں جو مویشی ہیں جن کو پالا جاتا ہے یہ خچر یا گھوڑا نہیں ہیں بلکہ یہاں روایت میں مویشی مراد ہیں
برزخ میرے نزدیک بھینسوں کا باڑا نہیں ہے مجھے نہیں معلوم امام بخاری کیا تاویل کرتے تھے
قرآن میں کہاں لکھا ہے کہ مرغا فرشتے کو دیکھتا ہے یا مویشی عذاب قبر سنتا ہے
صحیح بخاری میں ہے
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِذَا سَمِعْتُمْ صِيَاحَ الدِّيَكَةِ فَاسْأَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ، فَإِنَّهَا رَأَتْ مَلَكًا، وَإِذَا سَمِعْتُمْ نَهِيقَالحِمَارِ فَتَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَإِنَّهُ رَأَى شَيْطَانًا»
أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، نے فرمایا بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم مرغ کو چختے یا بانگ دیتے سنو تو اللہ سے رزق طلب کرو کیونکہ اس نے فرشتے کو دیکھا ہے اور جب گدھے کی آواز سنو تو اللہ سے شیطان کی پناہ طلب کرو کیونکہ اس نے شیطان کو دیکھا ہے
راقم کہتا ہے یہ روایت تو امام بخاری سے بڑے محدث ابن معین نے ہی رد کی ہوئی ہے
وفي «كتاب» الساجي: قال يحيى بن معين: جعفر بن ربيعة ليس بشيء ضعيف.
دوسری سنن ابی داود میں ہے
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ عَبْدَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “إِذَا سَمِعْتُمْ نُبَاحَ الْكِلَابِ، وَنَهِيقَ الْحُمُرِ بِاللَّيْلِ، فَتَعَوَّذُوا بِاللَّهِ فَإِنَّهُنَّ يَرَيْنَ مَا لَا تَرَوْنَ” ,
جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا جب کتے کا بھوکنا سنو اور گدھے کی آواز رات میں تو اللہ سے پناہ طلب کرو کیونکہ وہ وہ دیکھتے ہیں جو تم نہیں دیکھتے
راقم کہتا ہے اس کی سند تو خود عثمانی صاحب کے اصول پر صحیح نہیں کیونکہ اس میں ابن اسحاق ہے جس کو انہوں نے دجال قرار دیا ہے مزید یہ کہ امام احمد نے اس کے راوی محمد بن إبراهيم التيمي کو رد کیا ہے
قال أحمد في حديثه شيء روى مناكير
لہذا یہ دونوں سندیں ضعیف ہیں
کتا بلی مرغا گدھا خچر فرشتوں کو جنات کو نہیں دیکھتے نہ سنتے ہیں ؟ سوال عثمانی صاحب کی تاویلات کا نہیں ہے – سوال حقائق کا ہے کہ کیا یہ حقیقت ہے کہ جانور غیب میں دیکھتا ہے ؟ معلوم ہوا اس کی بودی دلیلیں ہیں اور بقول آپ کے خبر واحد پر عقیدہ بھی نہیں بنتا پھر اس دلیل کو آپ کیسے پیش کر رہے ہیں
عثمانی مقلد معترض نے کہا
مرغ والی حدیث بخاری میں دوسری سند سے بھی ہے جس سے امام بخاری رح نے احتجاج کیا ہے حدیث کی سند یہ ہے (حدثنا محمد بن سلام: اخبرنا مخلد بن یزید: اخبرنا ابن جریج: قال ابن شهاب: اخبرني يحي بن عروة: انه سمع عروة يقول: قالت عائشة:۔۔۔۔)۔
نبی علیہ السلام نے جنات کے فرشتوں سے لی گئی بات کو کاھن کے کان میں ڈالنے کو مرغ کے آواز کی طرح ڈالنے سے تشبیہ کیوں دی
راقم کہتا ہے
حدیث جس کا آپ نے ذکر کیا وہ یہ ہے
حدیث نمبر: 6213
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ ، أَخْبَرَنَا مَخْلَدُ بْنُ يَزِيدَ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : ، أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ عُرْوَةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ عُرْوَةَ ، يَقُولُ: قَالَتْ عَائِشَةُ : سَأَلَ أُنَاسٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْكُهَّانِ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “لَيْسُوا بِشَيْءٍ”، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَإِنَّهُمْ يُحَدِّثُونَ أَحْيَانًا بِالشَّيْءِ يَكُونُ حَقًّا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “تِلْكَ الْكَلِمَةُ مِنَ الْحَقِّ يَخْطَفُهَا الْجِنِّيُّ، فَيَقُرُّهَا فِي أُذُنِ وَلِيِّهِ قَرَّ الدَّجَاجَةِ، فَيَخْلِطُونَ فِيهَا أَكْثَرَ مِنْ مِائَةِ كَذْبَةٍ”.
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو مخلد بن یزید نے خبر دی، کہا ہم کو ابن جریج نے خبر دی کہ ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھ کو یحییٰ بن عروہ نے خبر دی، انہوں نے عروہ سے سنا، کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کاہنوں کے بارے میں پوچھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ ان کی (پیشین گوئیوں کی) کوئی حیثیت نہیں۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! لیکن وہ بعض اوقات ایسی باتیں کرتے ہیں جو صحیح ثابت ہوتی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ بات، سچی بات ہوتی ہے جسے جِن فرشتوں سے سن کر اڑا لیتا ہے اور پھر اسے اپنے ولی (کاہن) کے کان میں مرغ کی آواز کی طرح ڈالتا ہے۔ اس کے بعد کاہن اس (ایک سچی بات میں) سو سے زیادہ جھوٹ ملا دیتے ہیں۔
اس میں کہاں لکھا ہے کہ مرغ نے فرشتے کو یا جن کو دیکھا؟ جس طرح مرغ بانگ دیتا ہے جن اسی طرح کاہن کے دماغ میں اس کو ڈالتا ہے- مرغ کی بانگ تو سب سنتے ہیں اس میں دیکھنا کہاں ثابت ہوا کہ مرغے نے جن کو یا فرشتے کو دیکھا – آپ جس حدیث کو لائے ہیں اس میں آپ کے مدعا کا ذکر نہیں ہے
اب جب یہ ثابت ہی نہیں ہوا کہ جانور غیب میں جھانک سکتے ہیں تو ان روایات سے ہم دلیل نہیں لیں گے
عثمانی مقلد معترض نے کہا : امام بخاری رحمهما الله کے متعلق یہ کہنا کہ یہ خبر واحد صحیح پر عقیدہ بنانے کے قائل تھے ان پر کھلا بہتان ہے
راقم نے جوابا کہا : اگر ہم صحیح بخاری کھول کر دیکھیں تو امام بخاری کا جامع الصحیح کا مقصد ظاہر ہو جاتا ہے – اس کا مقصد صحیح حدیث دینا ہے جس سے دین میں دلیل لی جا سکتی ہو –
لیکن آپ کے بقول وہ جن احادیث کو صحیح کہتے تھے ان پر خود ایمان نہیں رکھتے تھے جو ظاہر ہے کھلا جھوٹ ہے
راقم بعض روایات کی تصحیح پر امام بخاری سے اختلاف کرتا ہے کیونکہ روایت کو صحیح کہنا محدث کا اجتہاد ہے جو صحیح یا غلط ہو سکتا ہے – افسوس آپ کا مطمح نظر ہے کہ ہر وقت امام صاحب کا دفاع کیا جائے – لیکن امام بخاری کا دفاع کرنا میرا مذھب نہیں ہے – میرا مقصد صحیح حدیث کو جاننا ہے – امام بخاری نے ان روایات تک کو صحیح کہا ہے جن کو امام مالک نے رد کرنے کا حکم دیا- لیکن امام بخاری نے ان کو صحیح میں لکھا ہے لہذا ان پر اور انکی لائی گئی روایات پر محققین تنقید کرتے رہے ہیں – امام اابن بی حاتم نے باقاعدہ بيان خطأ البخاري کے نام سے کتاب لکھی ہے جس میں تاریخ الکبیر و تاریخ الاوسط میں امام بخاری کی راویوں پر غلطیاں جمع کی ہیں اور اس میں ٧٦٦ غلطیاں اندارج کی ہیں
عثمانی مقلد معترض نے کہا : آپ کا امام بخاری رح پر اعتراض ہے کہ وہ خبر واحد سے بھی عقیدہ لیتے ہیں یقینا یہ قول تنقیص پر محمول ہے
راقم نے جوابا کہا
امام بخاری اہل رائے میں سے نہیں ہیں -بلا شبہ امام بخاری نے خبر واحد کو عقیدہ میں لیا ہے اور اس پر دال ان کی مسئلہ خلق قرآن پر تالیف خلق افعال العباد ہے جس میں جا بجا خبر واحد سے عقیدہ کا اثبات کیا گیا ہے، پھر مزید یہ کہ جامع الصحیح کی ٣٠٠٠ ہزار سے اوپر روایات ہیں – کوئی یہ قیامت تک ثابت نہیں کر سکتا کہ امام بخاری نے خبر واحد پر عقیدہ نہیں لیا بلکہ اس کا الٹ ثابت ہوتا ہے
امام بخاری خبر واحد پر عقیدہ لیتے تھے ان کی کتابیں پکار رہی ہیں – امام بخاری محدث ہیں کوئی حنفی فقیہ نہیں جو خبر واحد سے عقیدہ نہ لو کی بات کرتے
خبر واحد پر وضاحت
راقم وضاحتا کہتا ہے کہ قرآن میں دلائل موجود ہیں کہ خبر واحد علم یقینی کا درجہ رکھتی ہے
نبا الیقین
خبر واحد کو قرآن میں نبا الیقین یعنی یقینی خبر کہا گیا ہے- مثلا ہدہد نے سلیمان علیہ السلام کو آ کر مملکت سبا پر خبر واحد دی – سلیمان نے خط لکھ کر اس کی تصدیق کی یعنی قرائن دیکھ کر اس خبر کو قبول کیا- ہدہد نے خبر کو یقینی خبر کہا اور قرآن میں اس کا رد نہیں بلکہ اثبات ہے وہ خبر واحد سچی تھی اور تمام مومن بنی اسرائیل نے اس خبر واحد کو قبول کیا – اس وقت قرآن اور انجیل نازل نہیں ہوئے تھے اور توریت زبور نازل ہو چکی تھیں – قرآن میں ہے کہ ملکہ سبا کی خبر کی صداقت کو راوی یعنی ہدہد کی عدالت کے علاوہ زمینی قرائن سے جانچا گیا نہ کہ وحی الہی کا انتظار کیا گیا- اس طرح ہمیں علم دیا گیا کہ اگر قرائن و شواھد مل جائیں تو خبر واحد سے علم ظنی نہیں خبر یقین مل جاتی ہے اور ظاہر ہے خبر یقینی ، عقائد میں لی جائے گی-
اہل ذکر سے دلیل لینا
حنبلی عالم ابن عقیل خبر واحد پر کتاب الفنون ص ٦٦٣ اور ٦٣٨ میں کہتے ہیں
حنبلی (یعنی ابن عقیل) نے استدلال کیا کہ خبر واحد سے علم واجب ہے اور اعتقادات کا اثبات ہوتا ہے اس پر تین آیات ہیں
قُلْ كَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِندَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ سوره ألرعد
کہو میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی شہادت کافی ہے اور وہ جس کے پاس کتاب کا علم ہے
اور اللہ کا قول ہے
سوره الشعراء أَوَلَمْ يَكُن لَّهُمْ آيَةً أَن يَعْلَمَهُ عُلَمَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ
کیا ان کے لئے نشانی نہیں ہے کہ اسے بنی اسرائیل کے علماء بھی جانتے ہیں
فَإِن كُنتَ فِي شَكٍّ مِّمَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ سورہ یونس
تو اگر ان کو شک ہے جو نازل ہوا ہے تمہاری طرف تو ان سے سوال کرو جن پر تم سے پہلے کتاب نازل ہوئی
اور مراد ہے اور اشارہ ہے ان کی طرف جو اسلام لائے اور تصدیق کی اور ان میں ہیں کعب احبار اور وھب بن منبہ اور عبد اللہ بن سلام اور جو اسلام لائے اور یہ تمام احاد ہیں احاد سے اوپر نہیں جا سکتے
رجم کا حکم
قرآن میں ہے جو ایسا حکم کرے جو اللہ نے نہ دیا ہو تو کافر ہے ۔ رجم کرنا یا تو اللہ کا حکم ہے یا نہیں ہے – امت نے اس
کو خبر واحد کی بنیاد پر لیا ہے اور کسی سے منقول نہیں کہ امام ابو حنیفہ نے اس کا انکار کیا ہو-
ابن عقیل نے مزید وضاحت کی
ان دلائل کی روشنی میں واضح ہے کہ خبر واحد ( صحیح المتن و سند جو نکارت و شذوذ سے پاک ہو، چاہے بنی اسرائیل کی روایت ہو ) اس سے مفید علم یقینی حاصل ہو سکتا ہے
واضح رہے کہ جب قرائن ساتھ نہ دیں تو خبر واحد کو رد بھی کیا جاتا ہے جس کی تفصیل راقم کی علم حدیث کی کتاب میں ہے
دوم متواتر میں بھی سند میں ضعیف راوی ہوتے ہیں -مثلا کہنے والے کہہ تو دیتے ہیں قرآن تواتر سے ملا ہے لیکن ان کو یہ علم نہیں کہ اس کی سند ہوتی ہے جس عاصم بن ابی النجود سے آ رہی ہے اور عاصم ضعیف ہیں
اور قرآن کی قرات ہیں جو دس متواتر کہی جاتی ہیں لیکن ان میں قرات میں الفاظ بدل بھی جاتے ہیں اگرچہ مفہوم نہیں بدلتا
تفصیل اس بلاگ میں ہے
ابو ہریرہ رض کی چند احادیث
قرآن کہتا ہے
قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْأَرْضُ مِنْهُمْ وَعِنْدَنَا كِتَابٌ حَفِيظٌ
بلا شبہ ہم جانتے ہیں جو زمین ان کے جسموں میں سے کم کرتی ہے اور ہمارے پاس محفوظ کتاب ہے
سنن ابن ماجہ میں ہے
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، عن ابي صالح ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “ليس شيء من الإنسان إلا يبلى، إلا عظما واحدا، وهو عجب الذنب، ومنه يركب الخلق يوم القيامة”.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انسان کے جسم کی ہر چیز سڑ گل جاتی ہے، سوائے ایک ہڈی کے اور وہ عجب الذنب (ریڑھ کی آخری ہڈی) ہے، اور اسی سے قیامت کے دن انسان کی پیدائش ہو گی“۔
حدیث میں ہے کہ انسان کا جسم زمین کھا جاتی ہے سوائے عجب الذنب کے-
اس میں کوئی دلیل نہیں کہ یہ عجب الذنب زندہ ہوتی ہے بلکہ اللہ تعالی قرآن میں خاص طور پر ذکر کرتے ہیں کہ وہ ہڈی کو زندہ کریں گے
رسول الله صلي الله عليہ وسلم کے قول کہ جو مرا فقد قَامَت قِيَامَته اس پر اسکي قيامت قائم ہوئي پر بحث کرتے ہوئے ابن حزم (المتوفى: 456هـ) کتاب الفصل في الملل والأهواء والنحل ميں لکھتے ہيں
قَالَ أَبُو مُحَمَّد وَإِنَّمَا عَنى رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم بِهَذَا الْقيام الْمَوْت فَقَط بعد ذَلِك إِلَى يَوْم الْبَعْث كَمَا قَالَ عز وَجل {ثمَّ إِنَّكُم يَوْم الْقِيَامَة تبعثون} فنص تَعَالَى على أَن الْبَعْث يَوْم الْقِيَامَة بعد الْمَوْت بِلَفْظَة ثمَّ الَّتِي هِيَ للمهلة وَهَكَذَا أخبر عز وَجل عَن قَوْلهم يَوْم الْقِيَامَة {يا ويلنا من بعثنَا من مرقدنا هَذَا} وَأَنه يَوْم مِقْدَاره خَمْسُونَ ألف سنة وَأَنه يحيي الْعِظَام وَيبْعَث من فِي الْقُبُور فِي مَوَاضِع كَثِيرَة من الْقُرْآن وبرهان ضَرُورِيّ وَهُوَ أَن الْجنَّة وَالنَّار موضعان ومكانان وكل مَوضِع وَمَكَان ومساحة متناهية بِحُدُودِهِ وبالبرهان الَّذِي قدمْنَاهُ على وجوب تناهي الإجسام وتناهى كل مَا لَهُ عدد وَيَقُول الله تَعَالَى {وجنة عرضهَا السَّمَاوَات وَالْأَرْض} فَلَو لم يكن لتولد الْخلق نِهَايَة لكانوا أبدا يحدثُونَ بِلَا آخر وَقد علمنَا أَن مصيرهم الْجنَّة أَو النَّار ومحال مُمْتَنع غير مُمكن أَن يسع مَا لَا نِهَايَة لَهُ فيماله نِهَايَة من الماكن فَوَجَبَ ضَرُورَة أَن لِلْخلقِ نِهَايَة فَإِذا ذَلِك وَاجِب فقد وَجب تناهى عَالم الذَّر والتناسل ضَرُورَة وَإِنَّمَا كلامنا هَذَا مَعَ من يُؤمن بِالْقُرْآنِ وبنبوة مُحَمَّد صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَادّعى الْإِسْلَام وَأما من أنكر الْإِسْلَام فكلامنا مَعَه على مَا رتبناه فِي ديواننا هَذَا من النَّقْض على أهل الْإِلْحَاد حَتَّى تثبت نبوة مُحَمَّد صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَصِحَّة مَا جَاءَ بِهِ فنرجع إِلَيْهِ بعد التَّنَازُع وَبِاللَّهِ تَعَالَى التَّوْفِيق وَقد نَص الله تَعَالَى على أَن الْعِظَام يُعِيدهَا ويحيها كَمَا كَانَت أول مرّة وَأما اللَّحْم فَإِنَّمَا هُوَ كسْوَة كَمَا قَالَ {وَلَقَد خلقنَا الْإِنْسَان من سلالة من طين ثمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَة فِي قَرَار مكين}
امام ابن حزم نے کہا کہ بے شک رسول الله صلي الله عليہ وسلم نے خبر دي قيام سے مراد فقط موت ہے کيونکہ اب اس کو يوم بعث پر اٹھايا جائے گا جيسا الله تعالي نے کہا {ثمَّ إِنَّكُم يَوْم الْقِيَامَة تبعثون} پھر تم کو قيامت کے دن اٹھايا جائے گا پس نص کي الله تعالي نے ان الفاظ سے کہ زندہ ہونا ہو گا قيامت کے دن موت کے بعد يعني يہ ايک ڈيڈ لائن ہے اور اسي طرح الله نے خبر دي قيامت پر اپنے قول سے {يَا ويلنا من بعثنَا من مرقدنا هَذَا} ہائے بربادي کس نے ہميں اس نيند کي جگہ سے اٹھايا اور اس دن کي مقدار پچاس ہزار سال کي ہے اور بے شک اس نے خبر دي قرآن ميں اور برہان ضروري سے کثير مقامات پر کہ وہ ہڈيوں کو زندہ کرے گا اور جو قبروں ميں ہيں انکو جي بخشے گا – جنت و جہنم دو جگہيں ہيں اور مکان ہيں اور ہر مکان کي ايک حدود اور انتھي ہوتي ہے اور وہ برہان جس کا ہم نے ذکر کيا واجب کرتا ہے کہ اس ميں اجسام لا متناہي نہ ہوں اور گنے جا سکتے ہوں اور الله کا قول ہے {وجنة عرضهَا السَّمَاوَات وَالْأَرْض} وہ جنت جس کي چوڑائي آسمانوں اور زمين کے برابر ہے اور …. پس ضروري ہے کہ مخلوق کي انتھي ہو … اور بے شک اللہ تعالي نے نص دي کہ ہڈيوں کو واپس شروع کيا جائے گا اور انکو زندہ کيا جائے گا جيسا پہلي دفعہ تھا اور جو گوشت ہے تو وہ تو اس ہڈي پر غلاف ہے جيسا الله نے کہا {وَلَقَد خلقنَا الْإِنْسَان من سلالة من طين ثمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَة فِي قَرَار مكين} اور بے شک ہم نے انسان کو خلق کيا مٹي سے پھر اس کا نطفہ ايک ٹہرنے والي جگہ کيا
ابن حزم بار بار الله تعالي کے قول کي ياد دہاني کرا رہے ہيں کہ موت کے بعد اجسام ہڈيوں ميں بدل جائيں گے اور زندہ بھي ہڈي کو کيا جائے گا پھر اس پر گوشت کا غلاف آئے گا لہذا يہ ظاہر ہے کان يا آلات سماعت تو گوشت کے ھوتے ہيں جب وہ ہي معدوم ہو جائيں تو انسان کيسے سنے گا- عجب الذنب ایک ہڈی ہے جو باقی رہے گی لیکن بے جان و بے روح رہے گی جس طرح ایک بیج بے جان ہوتا ہے- یہ الله کا فعل ہے جو بے جان میں سے زندہ کو نکآلتا ہے-
دوسری حدیث
صحیح مسلم کی روایت ہے جو ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا بُدَيْلٌ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: «إِذَا خَرَجَتْ رُوحُ الْمُؤْمِنِ تَلَقَّاهَا مَلَكَانِ يُصْعِدَانِهَا» – قَالَ حَمَّادٌ: فَذَكَرَ مِنْ طِيبِ رِيحِهَا وَذَكَرَ الْمِسْكَ – قَالَ: ” وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَاءِ: رُوحٌ طَيِّبَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ، صَلَّى الله عَلَيْكِ وَعَلَى جَسَدٍ كُنْتِ تَعْمُرِينَهُ، فَيُنْطَلَقُ بِهِ إِلَى رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ يَقُولُ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ “، قَالَ: ” وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا خَرَجَتْ رُوحُهُ – قَالَ حَمَّادٌ وَذَكَرَ مِنْ نَتْنِهَا، وَذَكَرَ لَعْنًا – وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَاءِ رُوحٌ: خَبِيثَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ. قَالَ فَيُقَالُ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ “، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَرَدَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَيْطَةً كَانَتْ عَلَيْهِ، عَلَى أَنْفِهِ، هَكَذَا
: عبیداللہ بن عمر قواریری حماد بن زید بدیل عبداللہ بن شقیق ، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ جب کسی مومن کی روح نکلتی ہے تو دو فرشتے اسے لے کر اوپر چڑھتے ہیں تو آسمان والے کہتے ہیں کہ پاکیزہ روح زمین کی طرف سے آئی ہے اللہ تعالیٰ تجھ پر اور اس جسم پر کہ جسے تو آباد رکھتی تھی رحمت نازل فرمائے پھر اس روح کو اللہ عزوجل کی طرف لے جایا جاتا ہے پھر اللہ فرماتا ہے کہ تم اسے آخری وقت کے لئے لے چلو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کافر کی روح جب نکلتی ہے تو آسمان والے کہتے ہیں کہ خبیث روح زمین کی طرف سے آئی ہے پھر اسے کہا جاتا ہے کہ تم اسے آخری وقت کے لئے لے چلو – ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی چادر اپنی ناک مبارک پر اس طرح لگالی تھی
اس روایت کے مطابق کافر کی روح بھی آسمان میں جاتی ہے اور اس کو واپس جسد میں لوٹانے کا ذکر نہیں اس کی سند بھی صحیح ہے –
تیسری حدیث
مسند احمد کی سند ہے
حَدَّثَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: حِينَ حَضَرَهُ الْمَوْتُ: لَا تَضْرِبُوا عَلَيَّ فُسْطَاطًا، وَلَا تَتْبَعُونِي بِمِجْمَرٍ، وَأَسْرِعُوا بِي، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” إِذَا وُضِعَ الرَّجُلُ الصَّالِحُ عَلَى سَرِيرِهِ قَالَ: قَدِّمُونِي قَدِّمُونِي، وَإِذَا وُضِعَ الرَّجُلُ السُّوءُ عَلَى سَرِيرِهِ قَالَ: يَا وَيْلَهُ أَيْنَ تَذْهَبُونَ بِي؟ “
المقبری نے عبد الرحمان مولی ابو ہریرہ سے انہوں نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے کہ بے شک ابو ہریرہ جب ان کی وفات کا وقت آیا کہا نہ میرے اوپر خیمہ لگانا نہ اگ ساتھ لے کر چلنا اور میرا جنازہ تیزی سے لے جانا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے انہوں نے کہا جب صالح بندے کو جنازہ پر رکھا جاتا ہے یا مومن بندے کو تو کہتا ہے مجھے لے چلو اور کافر کو جنازہ پر رکھا جاتا ہے تو کہتا ہے بربادی کہاں جا رہے ہو
حَدَّثَنَا يُونُسُ، وَحَجَّاجٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا لَيْثٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِذَا وُضِعَتِ الْجَنَازَةُ وَاحْتَمَلَهَا الرِّجَالُ عَلَى أَعْنَاقِهِمْ، فَإِنْ كَانَتْ صَالِحَةً [ص:466] قَالَتْ: قَدِّمُونِي، وَإِنْ كَانَتْ غَيْرَ صَالِحَةٍ قَالَتْ: يَا وَيْلَهَا أَيْنَ تَذْهَبُونَ بِهَا؟ يَسْمَعُ صَوْتَهَا كُلُّ شَيْءٍ إِلَّا الْإِنْسَانَ، وَلَوْ سَمِعَهَا الْإِنْسَانُ لَصُعِقَ ” قَالَ حَجَّاجٌ: لَصُعِقَ
سعید المقبری نے اپنے باپ سے روایت کیا انہوں نے ابو سعید الخدری سے سنا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جب جنازہ کورکھتے ہیں اور مرد اس کو گردنوں پر اٹھاتے ہیں تو اگر یہ نیک ہے تو کہتا ہے مجھے لے چلو اور اگر بد ہے تو کہتا ہے بربادی کہاں جا رہے ہو اس آواز کو ہر چیز سنتی ہے اور انسان سنے تو بے ہوش ہو جائے
المزی تہذیب الکمال میں عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ مَوْلَى أَبِي هُرَيْرة کے ترجمہ میں یہ روایت لکھ کر کہتے ہیں
هكذا رواه ابن أَبي ذئب، وخالفه الليث بْن سعد (س) فرواه عَنْ سَعِيد الْمَقْبُرِيِّ، عَن أَبِيهِ، عَن أَبِي سَعِيد الخُدْرِيّ
ایسا ابن أَبي ذئب نے روایت کیا ہے (یعنی ابن أَبي ذئب عَن سَعِيد الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ مَوْلَى أَبِي هُرَيْرة ) اور ان کی مخالفت کی ہے الليث بْن سعد نے انہوں نے اس کو سَعِيد الْمَقْبُرِيِّ، عَن أَبِيهِ، عَن أَبِي سَعِيد الخُدْرِيّ کی سند سے روایت کیا ہے
راقم کے خیال میں یہ روایت دور اختلاط کی ہے جس کی بنا پر اسناد میں یہ گھپلا پیدا ہو رہا ہے اور چونکہ لیث کا حجاز پہنچنا بھی اسی دور کے پاس کا ہے جس میں المقبری کو مختلط کہا گیا ہے گمان غالب ہے کہ اسناد میں یہ تضاد اس کیفیت کی بنا پر پیدا ہوا ہے
عض لوگوں کا عقیدہ بن رہا ہے کہ مرنے پر انسانی روح کو جسم میں عجب الذنب میں قید کر دیا جاتا ہے جبکہ یہ ابو ہریرہ رضی الله عنہ کا عقیدہ نہیں وہ تو حدیث بیان کر رہے ہیں کہ روح نکال کر فرشتے آسمان پر لے جاتے ہیں ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے منسوب تیسری روایت جس میں میت کے کھاٹ پر بولنے کا ذکر ہے اس کی تاویل ہر وقت الگ کی جاتی رہی ہے اور معمہ رہی ہے
اس روایت پر ایک دور تک کہا جاتا تھا کہ یہ زبان مقال ہے
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح کے مطابق یہ بِلِسَانِ الْحَالِ أَوْ بِلِسَانِ الْمَقَالِ زبان حال یا مقال ہے
اگرچہ امام بخاری نے بَابُ كَلاَمِ المَيِّتِ عَلَى الجَنَازَةِ یعنی میت کا جنازہ پر کلام میں اس کو بیان کیا ہے لیکن محدثین کے مطابق اس دور کی المقبری کی روایات صحیح نہیں ہیں
قال الْبُخَارِيّ : مات بعد نَافِع.
نافع کی موت ١١٩ یا ١٢٠ میں ہوئی ہے بحوالہ سیر الاعلام النبلاء
امام بخاری نے تاريخ الصغير یا التاريخ الأوسط میں صرف یہ لکھا ہے کہ سعید المقبری کی وفات نافع کے بعد ہوئی کوئی سال بیان نہیں کیا جبکہ اختلاط کا علم ہونا ضروری ہے- امام بخاری نے یھاں سعید المقبری کے حوالے سے اللیث پر اعتماد کرتے ہوئے اس روایت کو صحیح سمجھا ہے
الذھبی میزان میں لکھتے ہیں کہ سفیان بن عُيَيْنَة، سعید المقبری کے پاس پہنچے لیکن
فإن ابن عُيَيْنَة أتاه فرأى لعابه يسيل فلم يحمل عنه، وحدث عنه مالك والليث
اس کا لعاب اس کے منہ سے بہہ رہا تھا لہذا نہیں لکھا
کتاب سیر الاعلام النبلاء از الذھبی کے مطابق
سمع في سنة تسع عشرة ومائة ، وسنة عشرين ، وبعد ذلك
سفيان بن عيينة نے سن ١١٩ اور ١٢٠ اور اس کے بعد سنا ہے
سفيان بن عيينة کوفہ میں پیدا ہوئے اس کے بعد حجاز کا سفر کیا جہاں ١١٩ کے بعد لوگوں سے سنا اس دور میں انہوں نے سعید المقبری کو دیکھا جن کے منہ سے لعاب بہہ رہا تھا
ان قرائن کی روشنی میں واضح ہے کہ یہ آخری روایت جس سے کلام المیت ثابت کیا جاتا ہے عالم الاختلاط کی ہے المقبری
نے بعض اوقات اس کو ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث کہا ہے اور بعض اوقات سعید الخدری رضی الله عنہ کی
شعبہ نے بھی احتیاط کی ہے اور کہا ہے کہ سعید بوڑھے ہو چکے تھے
وَقَال يَعْقُوب بْن شَيْبَة: قد كَانَ تغير وكبر واختلط قبل موته، يقال: بأربع سنين، حَتَّى استثنى بعض المحدثين عنه ما كتب عنه فِي كبره مما كتب قبله، فَكَانَ شعبة يَقُول: حَدَّثَنَا سَعِيد الْمَقْبُرِيّ بعدما كبر.
يَعْقُوب بْن شَيْبَة نے کہا کہ یہ بدل گئے اور بوڑھے ہوئے اور مرنے سے پہلے مختلط ہو چکے تھے کہا جاتا ہے ٤ سال یہاں تک کہ بعض محدثین نے اس کو الگ کیا ہے جو ان کے بڑھاپے سے پہلے لکھا یہاں تک کہ شعبہ کہتے کہ سعید المقبری نے روایت کیا بوڑھا ہونے کے بعد
البتہ بعض محدثین نے ان روایات کو لیا بعض نے رد کیا ہے مثلا امام ابن معین کا کہنا ہے
تاریخ الدوری میں ہے
سمعت عليا يقول ابن ابى ذئب اثبت فى سعيد من ابن عجلان
ابن معین نے کہا میں نے على بن المدينى کو کہتے سنا کہ سعید المقبری کے حوالے سے ابن ابى ذئب ، ابن عجلان کے مقابلے میں بہتر ہے
العلل لابن أبي حاتم از محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ) کے مطابق ایک روایت کو انہوں نے اپنے باپ ابی حاتم پر پیش کیا اور سوال کیا کہ ابْنِ أَبِي ذئبٍ روایت کرتے ہیں
عَنِ ابْنِ أَبِي ذئبٍ ، عَنْ سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قال: قال رسولُ الله (ص) : إِذَا بَلغَكُمْ عَنِّي حَدِيثًا يَحْسُنُ بِي أَنْ أَقُولَهُ ، فَأَنَا قُلْتُهُ، وَإِذَا بَلغَكُمْ عَنِّي حَدِيثًا لاَ يَحْسُنُ بِي أَنْ أَقُولَهُ، فَلَيْسَ مِنِّي وَلَمْ أَقُلْهُ.
قَالَ أَبِي: هَذَا حديثٌ مُنكَرٌ؛ الثقاتُ لا يَرْفَعُونَهُ
ابْنِ أَبِي ذئبٍ روایت کرتے سعید المقبری سے وہ اپنے باپ سے وہ ابو ہریرہ سے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جب تم کو کوئی حدیث پہنچے جو اچھی لگے کہ میں نے کہی ہو تو اس کو میں نے ہی کہا ہے اور اگر تم کو حدیث پہنچے جو اچھی نہ لگے کہ میں نے کہی ہو تو وہ مجھ سے نہیں نہ میں نے اس کو کہا ہے
ابی حاتم نے کہا یہ حدیث منکر ہے – ثقات اس کو نہیں پہچانتے
جبکہ یہ ابن أبي ذئب کی سعید المقبری سے روایت ہے – ابن معین نے کہا تھا کہ ابن أبي ذئب کی سعید المقبری سے روایت سب سے مناسب ہے
یعنی محدثین میں سعید المقبری کی روایات پر اپس میں اختلاف ہے بعض قبول کر رہے تھے بعض رد کر رہے تھے
کتب احادیث و اصول الحدیث
مباحث
برائے
کتب احادیث و اصول الحدیث
از
ابو شہر یار
[wpdm_package id=’8864′]
زبیر علی زئی اپنی تحقیقات کی روشنی میں
اہل حدیث فرقہ کے ایک سر خیل ضلع اٹک کے غیر مقلد عالم ( جو ابن تیمیہ کے مقلد تھے ) اور نام حافظ زبیر علی زئی رکھتے تھے گزرے ہیں – یہ ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ کے کٹر دشمن تھے اور خط و کتابت سے دشمن حق ابو جابر دامانوی کو خام مال مہیا کرتے کہ لوگ ڈاکٹر عثمانی کا رد لکھ سکیں
افسوس حافظ زبیر علی زئی اب ہمارے درمیان نہیں ان کی ایک زندگی اور دو موتیں ہو چکی ہیں اور بلا توبہ کے ان جہانی ہو چکے ہیں -البتہ ہم احقاق حق کے لئے اور تبین کے لئے حیات فی القبر کی دو مشہور روایات پر ان کی بدلتی آراء کا ذکر کرنا چاہیں گے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم میں روح کا آنا
سنن ابو داود کی حدیث ٢٠٤١ ہے کہ
باب في الصلاة على النبي – صلَّى الله عليه وسلم – وزيارة قبره (1)
– حدَّثنا محمدُ بنُ عوفٍ، حدَّثنا المقرئ، حدَّثنا حيوةُ، عن أبي صَخْرٍ حميدِ بنِ زياد، عن يزيدَ بنِ عبد الله بن قُسيطٍ عن أبي هريرة أن رسولَ اللهِ – صلَّى الله عليه وسلم – قال: “ما مِنْ أحَدٍ يُسلِّمُ علي إلا ردَّ اللهُ عليَّ رُوحي حتى أردَّ عليه السَّلامَ
ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تم میں کوئی ایسا نہیں جو مجھ پرسلام کہے تو اللہ میری روح نہ لوٹا دے
سن ٨٠ کی دہانی میں رجل مومن ڈاکٹر عثمانی نے سب سے پہلے اس روایت کو ضعیف کہا – ان سے قبل علماء کا جمہور اس روایت کو صحیح کہتا آیا تھا لیکن حق کو حق کہنا جوان مردوں کا کام ہے جس کی ہمت ڈاکٹر صاحب میں پیدا ہوئی اور اس کا بطلان انہوں نے واضح کیا – پھر خواجہ محمد قاسم اہل حدیث نے بھی اس کو ضعیف کہا – لیکن زبیر علی اور ان کے شاگرد رشید ابو جابر اس پر قائم رہے کہ یہ روایت صحیح ہے
زبیر علی کے ذہن میں یقینا یہ روایت ایک الجھن بن گئی اور وہ اس پر تحقیق کرتے رہے اور بالاخر مرنے سے قبل انہوں نے اس روایت پر جو کلام کیا وہ حاضر خدمت ہے
زبیر علی زئی کا موقف : زبیر علی کتاب توضیح الاحکام میں لکھتے ہیں
یو ٹیوب پر موجود ١٧ جون ٢٠٠٩ کی ایک ویڈیو ہے
اس ویڈیو میں ١٠:٣٠ منٹ پر جناب زبیر زئی بیان کرتے ہیں کہ یہ فتوی مقالات جلد اول میں صفحہ ١٩ پر چھپا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی زندگی برزخی ہے –
یو ٹیوب پر موجود اسی سلسلے کی ایک دوسری ویڈیو (٥٣:٣٠ منٹ)میں سوال ہواکہ کیا قبروں میں انبیاء نماز پڑھتے ہیں- ؟
زبیر علی زئی کے مطابق یہ روایت ضعیف ہے
اسی ویڈیو میں ٥٤:٣٤ منٹ پر قبر میں روح لوٹائے جانے والی روایت پر سوال ہوا
ما من یسلم کی وضاحت فرمائیں کہ صحیح ہے یا نہیں ؟
اس پر زبیر علی تفصیلی جواب میں کہتے ہیں
اس میں آتا ہے کہ کوئی مجھ پر سلام پڑھتا ہے تو الله تعالی میری روح کو لوٹا دیتا ہے – یہ بھی بڑی مشکل روایتوں میں سے ہے – اس کو بھی کچھ لوگ ، البانی وغیرہ صحیح کہتے ہیں – تو ہم یہ کہتے ہیں کہ بھئی روح کو لوٹانے سے مراد کیا ہے ؟ پہلی تو یہ بات ہے روح تو نکلی پھر آئی – نکلی پھر آئی – نکلی آئی – نکلی آئی – (ہاتھ سے اشارات کیے) – یہ کیا ہوا ؟ یہ تو مسئلہ عجیب ہوا ! پھر یہ بھی اس وقت لوٹانی جائے گی جب قبر پر کوئی درود پڑھے گا نا – علماء تو اس کو قبر کے باب میں لے کر آئیں ہیں – تو قبر پر تو درود پڑھتا ہی کوئی نہیں سارے حجرہ کے باہر پڑھتے ہیں – قبر پر تو پرویز (مشرف ) نے پڑھا ہو گا ، جو بادشاہ بیٹھا ہوا تھا ڈکٹیٹر – اس (پرویز مشرف) کے لئے جب جاتے ہیں تو (وہابی)کھولتے ہیں نا حجرہ – اندر چلا جاتا ہے یا کوئی اور – زرداری جا کر پڑھتا ہو گا – ہمارے لئے تو قبر، کدھر دروازہ کھلتا ہے جی – (سائل نے دخل در مقولات کی، مرزا : لیکن علمائے عرب تو قائل ہیں؟ ) – زبیر: مجھے بات کرنے دیں – ہم قبر پر نہیں جا سکتے ہم باہر کھڑے ہوتے ہیں ، باہر سے تو کوئی ثبوت نہیں ہے – یہ لوگ دروازہ کھولیں ، قبر پر کوئی جائے گا تو پھر روح لوٹائی جائے گی – اچھا ! تو قبر پر بادشاہوں کے لئے سعودی عرب والے دروازہ کھولتے ہیں، عام لوگوں کے لئے نہیں کھولتے – .. ابن عبد الہادی اور دوسرے علماء نے اس سے یہی مراد لیا ہے کہ یہ قبر پر مراد ہے – یہ حدیث میری تحقیق میں ضعیف ہے – صحیح نہیں- عالم اس کو صحیح کہتے ہیں نا ، وہ تو بعد میں بات کریں گے – جلال الدین سیوطی نام کے ایک مولوی صاحب گزرے تھے وہ حیات النبی کے قائل تھے ان کے لئے یہ حدیث بڑی پکی تھی انہوں نے اٹھارہ جواب دیے کبھی یہ کبھی وہ – لیکن ہے تو بڑی عجیب بات – اگر باہر سے بھی روح لوٹائی جاتی ہے تو لاکھوں آدمی باہر سے سلام دے رہے ہیں تو لاکھوں بار لوٹائی جائے گی – ایک دفعہ نہیں ہے کہ روح لوٹائی گئی اور قیامت تک کے لئے لوٹائی گئی – … تو یہ تو بڑی عجیب بات ہے ، امت میں اس کا کوئی قائل نہیں – (سائل نے دخل در مقولات کی ) زبیر : برزخی معاملہ ہے ، یہ حدیث بھی ضعیف ہے – اس میں یزید بن عبد الله بن قسیط جو ہے جو یہ روایت کرتا ہے تابعین سے ، اسکی تو عام روایتیں تابعین سے ہیں تو اس نے نہیں بتایا کہ یہ حدیث ابو ہریرہ سے سنی ہے – جس روایت میں آتا ہے کہ اس نے ابو صالح سے سنی ہے، ان کے شاگروں سے اس کی سند ضعیف ہے
یعنی زبیر علی زئی زبانی جوابات اور تحریری مقالات میں روح لوٹائے جانے والی روایت کو ضعیف کہتے رہے لیکن ٢٠٠٤ میں جب عربوں کے لئے انوار الصحیفہ فی الاحادیث الضعیفہ مرتب کی تو ارض و سماء حیران تھے اس میں سے روح لوٹائے جانے والی روایت موجود نہیں تھی [1]– اور اس کتاب میں مقدمہ میں یہ لکھا
تنبیہ: سنن الاربعہ کی ہر وہ حدیث جس کا ذکر یہاں نہ ہو وہ ہمارے نزدیک صحیح یا حسن ہے قابل احتجاج ہے و الله اعلم
اس کتاب میں زبیر علی نے روح لوٹانے والی روایت شامل نہیں کی یعنی چار ماہ کے اندر (توضیح الاحکام میں شعبان ھ١٤٢٤ سے انوار الصحیفہ محرم ١٤٢٥ ھ ) انہوں نے اس روایت کی تضعیف سے رجوع کیا ؟ زبیر علی زئی پر اکتوبر ٢٠٠٣ (شعبان ١٤٢٤ ھ ) میں یہ واضح ہو چکا تھا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی روح لوٹائے جانے والی روایت صحیح نہیں ہے لیکن محرم ٥ سن ١٤٢٥ ھ بمطابق ٢٥ فروری ٢٠٠٤ عیسوی میں انوار الصحیفہ میں اس ضعیف روایت کو شامل نہیں کیا – پھر ٢٠٠٩ میں ویڈیو میں اس کو پھر ضعیف کہا[2]
پھر اگلے سال زبیر علی زئی نے سنن ابوداود دارالسلام (جس پر زبیر علی زئی نے مقدمہ تحقیق میں مارچ ٢٠٠٥ کی تاریخ ڈالی ہے ) میں حدیث( ٢٠٤١ ) اس کی تحقیق میں اپنے منفرد گول مول انداز میں لکھا ہے
اسنادہ ضعیف ، اخرجہ احمد عن المقریء وصححہ ابن الملقن فی تحفۃ المحتاج ، یزید بن عبد بن قسیط ثبت سماعہ من ابی ھریرۃ عند البیہقی ، ولکنہ یروی عن التابعین عن الصحابۃ ، ولم یصرح ھاھنا بالسماع ،فالسند شبہ الانقطاع
اسکی سند ضعیف ہے ، اس کی تخریج احمد نے المقریء سے کی ہے اور ابن ملقن نے اگرچ اسے تحفۃ المحتاج میں صحیح کہا ہے ، یزید بن عبداللہ کا سماع ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیہقی کی ایک روایت میں ثابت ہوتا ہے ، لیکن وہ تابعین کی سند سے صحابہ کی روایات بیان کرتا ہے ،اور یہاں اس سند میں اس نے سماع کی تصریح نہیں کی جس سے سند میں انقطاع کا شبہ ہے
یعنی عربی تحقیق میں اس حدیث کو ضعیف نہیں کہا لیکن جو اردو میں تحقیق لکھی اس میں اس کو ضعیف کہا – اس قدر تضاد بیانی اس لئے کی گئی کیونکہ انوار الصحیفہ فی الاحادیث الضعیفہ عربی میں تھی – عرب علماء دیکھتے کہ زبیر علی نے روح لوٹائی جانے والی روایت ضعیف قرار دے دی ہے تو اس کتاب کو پذیرائی نہیں مل پاتی لہذا سنن اربعہ کی ضعیف روایات کے مجموعہ میں اس روایت کو شامل نہیں کیا گیا-
زبیر علی کے حوالے سے اس روایت کی تصحیح آج تک فورمز پر پیش کی جا رہی ہے- مثلا کہا جاتا ہے کہ زبیر علی زئی نے،ریاض الصالحین کی تخریج میں اس حدیث کو ’’ حسن ‘‘ کہا ہے اور ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ اسے عراقی نے ’’ جید ‘‘ کہا ہے
معلوم ہوا کہ زبیر علی زئی اس روایت کی تصحیح پر پینترے بدلتے رہے اور اپنی ناقص تحقیق کی بنیاد پر ڈاکٹر عثمانی کی بے جا مخالفت پر جمے رہے کبھی رد روح النبی والی روایت کو صحیح کہا تو کبھی حسن اور یہاں تک کہ آخر میں ضعیف لکھا تو اردو میں لکھا لیکن عربی میں یہ لکھنے کی ہمت نہ ہوئی
http://www.urdumajlis.net/threads/انوار-الصحيفة-في-الاحاديث-الضعيفة-من-السنن-الاربعة-مع-ادلة-طبعة-ثالثة.31/
حالیہ اڈیشن چونکہ کتاب کا تیسرا اڈیشن ہے جس کوزبیر علی زئی اپنی زندگی میں مکمل کر چکے تھے مگر یہ اڈیشن طبع نہ ہوسکا۔اس اڈیشن کے صفحہ اول پر ایسی احادیث کی فہرست مرتب کر دی گئی ہے جن کے بارے میں ان کی تحقیق تبدیل ہو گئی تھی اور انہوں نے اس کتاب کے سابقہ اڈیشنوں میں درج شدہ احکامات سے رجوع کر لیا تھا۔لہذا کتاب سے استفادہ کرتے وقت اس بات کو بھی مد نظر رکھنا جائے۔ یہاں آسانی کے لئے یہ لسٹ پیش خذمت ہے جس میں سنن ابو داود کی روایات لی لسٹ ہے
روح لوٹائے جانے والی روایت رقم ٢٠٤١ سے ہے دیکھا جا سکتا ہے کہ جن روایات سے زبیر علی نے حکم پر رجوع کیا ان میں رقم ٢٠٤١ موجود نہیں-
انبیاء کے اجسام باقی رہتے ہیں ؟
رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے منسوب ایک روایت پیش کی جاتی ہے
إن من أفضل أيامكم يوم الجمعة فأكثروا علي من الصلاة فيه فإن صلاتكم معروضة علي قال فقالوا يا رسول اللهِ وكيف تعرض صلاتنا عليك وقد أرمت قال يقولون بليت قال إن الله تبًارك وتعالى حرم على الأرض أجساد الأنبياء صلى الله عليهم
بے شک تمہارے دنوں میں جمعہ سب سے افضل ہے پس اس میں کثرت سے درود پڑھو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش ہوتا ہے – صحابہ نے پوچھا یا رسول الله یہ کیسے جبکہ اپ تو مٹی ہوں گے … رسول الله نے فرمایا بے شک الله تبارک و تعالی نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ انبیاء کے جسموں کو کھائے
زبیر علی زئی کتاب فضائل درود و سلام (جس کی اشاعت فروری ٢٠١٠ کی ہے) میں تعلیق میں ص ٦٥ اور ٦٦ پر لکھتے ہیں
ابن کثیر کتاب البداية والنهاية میں لکھتے ہیں
وَقَالَ يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ عن أبى خلد بْنِ دِينَارٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَالِيَةِ قَالَ لَمَّا افْتَتَحْنَا تُسْتَرَ وَجَدْنَا فِي مَالِ بَيْتِ الْهُرْمُزَانِ سَرِيرًا عَلَيْهِ رَجُلٌ مَيِّتٌ عِنْدَ رَأْسِهِ مُصْحَفٌ .. قُلْتُ مَنْ كُنْتُمْ تَظُنُّونَ الرَّجُلَ قَالَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ دَانْيَالُ قُلْتُ مُنْذُ كَمْ وَجَدْتُمُوهُ قَدْ مَاتَ قَالَ مُنْذُ ثَلَاثِمِائَةِ سَنَةٍ قُلْتُ مَا تَغَيَّرَ مِنْهُ شَيْءٌ قَالَ لَا إِلَّا شَعَرَاتٌ مِنْ قَفَاهُ إِنَّ لُحُومَ الْأَنْبِيَاءِ لَا تُبْلِيهَا الْأَرْضُ وَلَا تَأْكُلُهَا السِّبَاعُ. وَهَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ إِلَى أَبِي الْعَالِيَةِ وَلَكِنْ إِنْ كَانَ تَارِيخُ وَفَاتِهِ مَحْفُوظًا مِنْ ثَلَاثِمِائَةِ سَنَةٍ فَلَيْسَ بِنَبِيٍّ بَلْ هو رجل صالح لأن عيسى بن مَرْيَمَ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيٌّ بِنَصِّ الْحَدِيثِ الَّذِي فِي الْبُخَارِيِّ
جب تستر فتح ہوا تو ایک لاش ملی جس کے اوپر مصحف رکھا تھا … ظن و گمان ہوا کہ یہ لاش دانیال کی ہے لوگوں سے پتہ کیا کہ یہ کب مرا کہا تین سو سال پہلے .. ابن کثیر کہتے ہیں کہ میں کہتا ہوں اسکی سند أَبِي الْعَالِيَةِ تک صحیح ہے لیکن اگر یہ تاریخ ٣٠٠ سال صحیح ہے تو یہ نبی نہیں ہو سکتا… ہمارے نبی اور عیسیٰ کے ردمیان ٦٠٠ سال کا فاصلہ ہے جیسا بخاری نے روایت کیاہے
معلوم ہوا کہ شخص نبی نہیں تھا کیونکہ اس کی موت میں اور نبی صلی الله علیہ وسلم میں صرف ٣٠٠ سال کا فرق تھا
عود روح کی روایت
زاذان کی مشہور عود روح والی روایت کو زبیر علی ساری زندگی صحیح کہتے رہے اس کے شیعہ راویوں کا دفاع کرنے میں انہوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی-لیکن یہ روایت بھی ان کی ذہنی الجھن میں اضافہ کرتی رہی-
سن ٢٠٠٢ میں زبیر علی نے اثبات عذاب قبر از بیہقی کا اردو میں ترجمہ کیا
اس میں زاذان والی روایت کو حسن قرار دیا اور اس کے آخر میں ایک اضافہ کو بھی حسن کہا
یہان تک کہ سن ٢٠٠٩ میں شائع کردہ کتاب المسند فی عذاب القبر از ارشد کمال سے معلوم ہوا کہ زبیر اس میں بھی اب شک کرنے لگے ہیں لہذا ارشد کمال نے لکھا
زاذان کی روایت جس کے کسی بھی حصے کو جمہور علماء نے مشکوک نہیں کہا تھا تحقیق سے ثابت ہوا کہ اس کا بعض حصہ مشکوک ہے-
و للہ الحمد
اس اضافہ کو ان علماء نے صحیح قرار دیا ہے
بیہقی اثبات عذاب القبر ص ٣٩ پر
ابن تیمیہ مجموع الفتاوی ج ١ ص ٣٤٩ اور ج ٤ ص ٢٨٩ پر
ابن قیم کتاب الروح ص ٤٨ پر
ناصر الدین البانی صحیح ترغیب و ترھیب ص ٢١٩ ج ٣ پر اور احکام الجنائز ص ١٥٩ پر اور مشکاة المصابيح ص ٢٨
راقم کہتا ہے زبیر علی کا قول صحیح نہیں کہ اس میں اعمش کی تدلیس ہے کیونکہ اعمش نے سماع کی تصریح کر دی ہے – سنن ابو داود ٤٧٥٤ میں ہے
حدثنا هناد بن السري حدثنا عبد الله بن نمير حدثنا الأعمش حدثنا المنهال عن أبي عمر زاذان قال سمعت البراء عن النبي صلى الله عليه وسلم قال فذكر نحوه.
یعنی اس متن پر اعمش کی تدلیس کہنا سرے سے ہی غلط ہے
بہر کیف زبیر میں کچھ صلاحیت پیدا ہوئی کہ وہ اس روایت کی تحقیق کر سکیں اور اس کو صحیح کہنے کی بجائے اب وہ نیچے حسن کے درجہ پر لے آئے – یہ ارتقاء کی منزلیں چل رہی تھیں اور وہ حق کی طرف جا رہے تھے افسوس وہ مکمل تحقیق نہ کر پائے لیکن حیات فی القبر کی دو اہم روایات کو رد کر گئے اور ایک میں شک پیدا کر گئے
زبیر علی زئی کا عقیدہ تھا کہ مردہ میں روح رہتی ہے یہں تک کہ قبر سے باہر بھی اتا ہے لہذا کتاب میں اس روایت کو حسن کا درجہ دیا
قال الامام ابوبكر البيهقي
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، وأبو عبد الرحمن السلمي، وأبو سعيد بن أبي عمرو قالوا: ثنا أبو العباس محمد بن يعقوب، ثنا الحسن بن علي، يعني ابن عفان العامري، ثنا عباءة بن كليب الليثي، عن جويرية بن أسماء، عن نافع، عن ابن عمر قال: ” بينا أنا صادر عن غزوة الأبواء، إذ مررت بقبور فخرج علي رجل من قبر يلتهب نارا وفي عنقه سلسلة يجرها، وهو يقول يا عبد الله اسقني سقاك الله قال: فوالله ما أدري، باسمي يدعوني أو كما يقول الرجل للرجل: يا عبد الله، إذ خرج على أثره أسود بيده ضغث من شوك وهو يقول: يا عبد الله لا تسقه، فإنه كافر فأدركه فأخذ بطرف السلسلة، ثم ضربه بذلك الضغث ثم اقتحما في القبر، وأنا أنظر إليهما، حتى التأم عليهما وروي في ذلك قصة عن عمرو بن دينار قهرمان آل الزبير، عن سالم بن عبد الله بن عمر عن أبيه وفي الآثار الصحيحة غنية “
زبیر کی موت اس عقیدے پر نہ ہوئی جو آجکل جمہور اہل حدیث کا ہے کہ عود روح استثنائی ہے بلکہ ان کے ہاں مردے قبروں سے باہر چھلانگ بھی لگاتے ہیں
اس روایت کی بنیاد پر زبیر علی منکر عقیدے کا پرچار کرتا رہا کہ قبر میں روح انے کے بعد نکلتی یا نہیں نکلتی معلوم ہی نہیں
گویا اس کے نزدیک روح کا واپس نکلنا معلوم ہی نہیں دوسری طرف ابو جابر دامانوی یہ عقیدہ ہے کہ روح نکل کر جنت یا جہنم میں چلی جاتی ہے
ہمارے نزدیک تو یہ شروع سے ہی منکر روایات ہیں
الغرض ڈاکٹر صاحب کی رد کردہ احادیث کو غیر مقلد عالم ان کی وفات کے کئی سال بعد ضعیف کہنے پر مجبور ہوئے
السلام علينا و على عباد الله الصالحين
فرشتہ کا خواب میں آنا
مناقب امام احمد میں ابن جوزی نے امام ابو داود کے خواب کا ذکر کیا
أخبرنا محمد بن أبي منصور، قال: اخبرنا عبد القادر بن محمد؛ قال: أنبأنا إبراهيم بن عمر، قال: أنبأنا عبد العزيز بن جعفر، قال: أخبرنا أبو بكر أحمد بن محمد الخلال، قال: حدثنا أبو داود السجستاني، قال: رأيت في المنام سنة ثمان وعشرين ومئتين كأني في المسجد الجامع، فأقبل رجل شبه الخصي من ناحية المقصورة وهو يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اقتدوا باللذين من بعدي أحمد بن حنبل وفلان- قال أبو داود: لا أحفظ اسمه- فجعلت أقول في نفسي، هذا حديث غريب، ففسرته على رجل، فقال: الخصي ملك.
ابو داود نے کہا میں نے خواب میں دیکھا سن ٢٢٨ ھ میں کہ میں مسجد الجامع میں ہوں تو ایک شخص ہیجڑے جیسا آیا مقصورہ کی طرف سے اور وہ کہہ رہا تھا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے ان کی اقتداء کرنا میرے بعد – احمد بن حنبل کی اور فلاں کی – ابو داود نے کہا اس کا نام یاد نہیں رہا تو میں نے اپنے دل میں کہا یہ حدیث غریب ہے پس ایک شخص نے اس کی تفسیر کی کہ یہ فرشتہ ہیجڑا تھا
زبیر علی زئی شمارہ الحدیث نمبر ٢٦ میں اس کی سند کو صحیح کہتے ہیں اور ایک انوکھا تبصرہ کرتے ہیں
کیسا دجل ہے ایک ثقہ محدث کو خواب میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تلقین پیش کی گئی لیکن اس بار اس تلقین رسول کا دین کو کوئی فائدہ نہیں ہے-
حدیث قرع النعال پر ایک اور نظر
حدیث قرع النعال جو راقم کے نزدیک صحیح سند سے نہیں ہے اور اپنے متن میں عربی کی غلطی کی وجہ سے معلول ہے اس کے شواہد کے طور پر کچھ روایات پیش کی جاتی ہیں
موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان کی روایت
أخبرنا أحمد بن يحيى بن زهير بتستر، حدثنا محمد بن عبد الله المُخرَّمِيّ، حدثنا وكيع، عن سفيان الثوري، عن السدي، عن أبيه عَنْ أبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ -صلى الله عليه وسلم-: “إِنَّ الْمَيِّتَ لَيَسْمَعُ خفق نِعَالِهِمْ إذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ
عبد الرحمن بن أبي كريمة نے ابو ہریرہ سے روایت کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بے شک میت ان کے جوتوں کی چاپ سنتی ہے جب یہ پلٹتے ہیں
میزان الاعتدال میں الذھبی عبد الرحمن بن أبي كريمة کے لئے کہتے ہیں
ذكره العقيلي في كتابه متعلقا بقول إبراهيم النخعي فيه: كان صاحب أمراء.وبمثل هذا لا يلين الثقة.
اس کا ذکر عقیلی نے اپنی کتاب میں کیا ہے اور اس کے متعلق إبراهيم النخعي کا قول بیان کیا کہ یہ امراء کا مصاحب تھا اور اس طرح سے ثقہ سے نہیں ملایا
موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان کے محققین حسين سليم أسد الدّاراني – عبده علي الكوشك نے اس کو إسناده جيد قرار دیا ہے جبکہ سند میں إسماعيل بن عبد الرحمن بن أبى كريمة السدى مختلف فیہ ہے اس کو ضعیف اور ثقہ دونوں کہا گیا ہے- اکمال از مغلطاي کے مطابق المعتمر بن سليمان نے اس کو کذاب قرار دیا ہے
مسند احمد کی تعلیق میں شعيب الأرنؤوط نے اس کو اگرچہ صحیح لغیرہ قرار دیا ہے لیکن لکھا ہے
وهذا إسناد ضعيف، والد السدي -وهو عبد الرحمن بن أبي كريمة- لم يرو عنه غير ابنه إسماعيل، ولم يوثقه سوى ابن حبان، فهو مجهول الحال كما قال الحافظ في “التقريب
یہ سند ضعیف ہے – والد السدي عبد الرحمن بن أبي كريمة ہے جس سے کوئی روایت نہیں کرتا سوائے عبد الرحمن بن أبي كريمة کا بیٹا اسمعیل – اس کی توثیق صرف ابن حبان نے کی ہے یہ مجہول الحال ہے جیسا ابن حجر نے تقریب میں کہا ہے
صحیح ابن حبان کی تعلیق میں شعيب الأرنؤوط نے اسی سند کو ضعیف کہا ہے
إسناده ضعيف. والد إسماعيل السدي- وهو عبد الرحمن بن أبي كريمة- لم يرو عنه غير ابنه، ولم يوثقه غير المؤلف، فهو مجهول الحال كما قال الحافظ في “التقريب”، وباقي رجال ثقات، وله طرق يتقوى بها الحديث.
مسند البزار میں ہے
حَدَّثَنا مُحَمَّد بن عبد الله المخرمي حَدَّثَنا وكيع بن الجراح , حَدَّثَنا سفيان الثوري , عن السدي , عن أبيه , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إن الميت ليسمع خفق نعالهم إذا ولوا عنه يعني مدبر
اس کی سند وہی صحیح ابن حبان جیسی ہے اور اس کو شعیب نے ضعیف قرار دیا ہے
شرح السنہ از بغوی کی روایت
امام البغوی الشافعي (المتوفى: 516هـ) کتاب شرح السنہ میں حدیث پیش کرتے ہیں
أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَرَجِ الْمُظَفَّرُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ التَّمِيمِيُّ، أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ حَمْزَةُ بْنُ يُوسُفَ السَّهْمِيُّ، أَنا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَدِيٍّ الْحَافِظُ، نَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، نَا أَسَدُ بْنُ مُوسَى، نَا عَنْبَسَةُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي جَدِّي، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِنَّ الْمَيِّتَ يَسْمَعُ حِسَّ النِّعَالِ إِذَا وَلَّوْا عَنْهُ النَّاسُ مُدْبِرِينَ، ثُمَّ يُجْلَسُ وَيُوضَعُ كَفَنُهُ فِي عُنُقِهِ، ثُمَّ يُسْأَلُ»
كَثِيرٌ جَدُّ عَنْبَسَةَ: هُوَ كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ رَضِيعُ عَائِشَةَ مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ.
قَالَ رَحِمَهُ اللَّهُ: قَوْلُهُ «إِنَّ الْمَيِّتَ يَسْمَعُ حِسَّ النِّعَالِ» فِيهِ دَلِيلٌ عَلَى جَوَازِ الْمَشْيِ فِي النِّعَالِ بِحَضْرَةِ الْقُبُورِ، وَبَيْنَ ظَهْرَانَيْهَا.
عَنْبَسَةُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرٍ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں وہ ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بے شک میت چاپ محسوس کرتی ہے جب لوگ پلٹتے ہیں پھر وہ بیٹھتی ہے اور کفن اس کی گردن تک رکھا جاتا ہے پھر سوال ہوتا ہے
کثیر یہ عنسبہ کے دادا ہیں اور یہ کثیر بن عبید ہیں
بغوی کہتے ہیں کہ قول بے شک میت چاپ محسوس کرتی ہے اس میں دلیل ہے چپل پہن کر قبروں کے پاس چلنے کے جواز کی اور ان کے درمیان
بغوی نے چاپ محسوس کرنے کی روایت کو استثنا نہیں کہا بلکہ قبرستان میں کبھی بھی قبروں پر چلنے کی اس سے دلیل لی – یاد رہے کہ صحیح عقیدہ ہے کہ المیت لا یحس و لا یسمع میت نہ سنتی ہے نہ محسوس کرتی ہے
راقم کہتا ہے کثیر بن عبید مجہول الحال ہے اس پر نہ جرح ہے نہ تعدیل ہے – اس کا ترجمہ كثير ابن عبيد رضيع عائشة کے نام سے امام البخاري نے تاریخ الكبير میں قائم کیا ہے ابن أبي حاتم نے الجرح والتعديل” 7/ 155 میں اس کا ذکر کیا ہے لیکن کوئی تعدیل نہیں کی ہے – ابن حبان نے حسب روایت اس مجہول کو ثقہ قرار دے دیا ہے
کلام المیت علی الجنازة
ایک مشھور روایت ہے کہ مردہ کو جب کھاٹ پر رکھا جاتا ہے وہ کلام کرتا ہے – اس بلاگ میں اس کی اسناد پر بحث کی گئی ہے
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز – باب کلام المیت علی الجنازۃ
باب : میت کا چارپائی پر بات کرنا
حدیث نمبر : 1380
حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن سعيد بن أبي سعيد، عن أبيه، أنه سمع أبا سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ” إذا وضعت الجنازة فاحتملها الرجال على أعناقهم، فإن كانت صالحة قالت قدموني قدموني. وإن كانت غير صالحة قالت يا ويلها أين يذهبون بها. يسمع صوتها كل شىء إلا الإنسان، ولو سمعها الإنسان لصعق”.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا‘ ان سے سعید بن ابی سعید نے بیان کیا‘ ان سے ان کے باپ نے بیان کیا‘ ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب جنازہ تیار ہو جاتا ہے پھر مرد اس کو اپنی گردنوں پر اٹھا لیتے ہیں تو اگر وہ مردہ نیک ہو تو کہتا ہے کہ ہاں آگے لیے چلو مجھے بڑھائے چلو اور اگر نیک نہیں ہوتا تو کہتا ہے۔ ہائے رے خرابی! میرا جنازہ کہاں لیے جارہے ہو۔ اس آواز کو انسان کے سوا تمام مخلوق سنتی ہے اگر انسان سنے تو بے ہوش ہو جائے
الطبقات الكبرى از المؤلف: أبو عبد الله محمد بن سعد بن منيع الهاشمي بالولاء، البصري، البغدادي المعروف بابن سعد (المتوفى: 230هـ) اور مسند احمد میں ہے کہ یہ قول ابو ہریرہ کا تھا
قَالَ: أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ عَمْرٍو، وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي فُدَيْكٍ، وَمَعْنُ بْنُ عِيسَى قَالُوا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ مَوْلَى أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ لَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ قَالَ: لَا تَضْرِبُوا عَلَيَّ فُسْطَاطًا وَلَا تَتَّبِعُونِي بِنَارٍ، وَأَسْرِعُوا بِي إِسْرَاعًا , فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلّى الله عليه وسلم يَقُولُ: ” إِذَا وُضِعَ الرَّجُلُ الصَّالِحُ أَوِ الْمُؤْمِنُ عَلَى سَرِيرِهِ قَالَ: قَدِّمُونِي. وَإِذَا وُضِعَ الْكَافِرُ أَوِ الْفَاجِرُ عَلَى سَرِيرِهِ قَالَ: يَا وَيْلَتِي أَيْنَ تَذْهَبُونَ بِي “
ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، نے المقبری سے روایت کیا انہوں نے عبد الرحمان مولی ابو ہریرہ سے انہوں نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے کہ بے شک ابو ہریرہ جب ان کی وفات کا وقت آیا کہا نہ میرے اوپر خیمہ لگانا نہ اگ ساتھ لے کر چلنا اور میرا جنازہ تیزی سے لے جانا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے انہوں نے کہا جب صالح بندے کو بستر پر رکھا جاتا ہے یا مومن بندے کو تو کہتا ہے مجھے لے چلو اور کافر کو بستر پر رکھا جاتا ہے تو کہتا ہے بربادی کہاں جا رہے ہو
طبقات الکبری از ابن سعد میں ہے کہ ابو ہریرہ کا قول تھا
قَالَ: أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ، عَنْ سَعِيدٍ قَالَ: لَمَّا نَزَلَ بِأَبِي هُرَيْرَةَ الْمَوْتُ قَالَ: لَا تَضْرِبُوا عَلَى قَبْرِي فُسْطَاطًا , وَلَا تَتَّبِعُونِي بِنَارٍ، فَإِذَا حَمَلْتُمُونِي , فَأَسْرِعُوا , فَإِنْ أَكُنْ صَالِحًا تَأْتُونَ بِيِ إِلَى رَبِّي، وَإِنْ أَكُنْ غَيْرَ ذَلِكَ , فَإِنَّمَا هُوَ شَيْءٌ تَطْرَحُونَهُ عَنْ رِقَابِكُمْ
ابو معشر نے کہا سعید المقبری نے کہا جب ابو ہریرہ کی وفات کا وقت آیا کہا میری قبر پر خیمہ نہ لگانا نہ میرے پیچھے اگ لے کر جانا پس جب مجھے اٹھانا جلدی کرنا کیونکہ اگر میں نیک ہوں تو تم مجھے میرے رب کی طرف لے جا رہے ہو اور اگر اس کے علاوہ ہوں تو تم ایک چیز اپنے کندھوں سے پھینک رہے ہو
مسند احمد کی سند ہے
حَدَّثَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: حِينَ حَضَرَهُ الْمَوْتُ: لَا تَضْرِبُوا عَلَيَّ فُسْطَاطًا، وَلَا تَتْبَعُونِي بِمِجْمَرٍ، وَأَسْرِعُوا بِي، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” إِذَا وُضِعَ الرَّجُلُ الصَّالِحُ عَلَى سَرِيرِهِ قَالَ: قَدِّمُونِي قَدِّمُونِي، وَإِذَا وُضِعَ الرَّجُلُ السُّوءُ عَلَى سَرِيرِهِ قَالَ: يَا وَيْلَهُ أَيْنَ تَذْهَبُونَ بِي؟ “
المقبری نے عبد الرحمان مولی ابو ہریرہ سے انہوں نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے کہ بے شک ابو ہریرہ جب ان کی وفات کا وقت آیا کہا نہ میرے اوپر خیمہ لگانا نہ اگ ساتھ لے کر چلنا اور میرا جنازہ تیزی سے لے جانا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے انہوں نے کہا جب صالح بندے کو جنازہ پر رکھا جاتا ہے یا مومن بندے کو تو کہتا ہے مجھے لے چلو اور کافر کو جنازہ پر رکھا جاتا ہے تو کہتا ہے بربادی کہاں جا رہے ہو
حَدَّثَنَا يُونُسُ، وَحَجَّاجٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا لَيْثٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِذَا وُضِعَتِ الْجَنَازَةُ وَاحْتَمَلَهَا الرِّجَالُ عَلَى أَعْنَاقِهِمْ، فَإِنْ كَانَتْ صَالِحَةً [ص:466] قَالَتْ: قَدِّمُونِي، وَإِنْ كَانَتْ غَيْرَ صَالِحَةٍ قَالَتْ: يَا وَيْلَهَا أَيْنَ تَذْهَبُونَ بِهَا؟ يَسْمَعُ صَوْتَهَا كُلُّ شَيْءٍ إِلَّا الْإِنْسَانَ، وَلَوْ سَمِعَهَا الْإِنْسَانُ لَصُعِقَ ” قَالَ حَجَّاجٌ: لَصُعِقَ
سعید المقبری نے اپنے باپ سے روایت کیا انہوں نے ابو سعید الخدری سے سنا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جب جنازہ کورکھتے ہیں اور مرد اس کو گردنوں پر اٹھاتے ہیں تو اگر یہ نیک ہے تو کہتا ہے مجھے لے چلو اور اگر بد ہے تو کہتا ہے بربادی کہاں جا رہے ہو اس آواز کو ہر چیز سنتی ہے اور انسان سنے تو بے ہوش ہو جائے
سعید بن ابی سعید ( أَبُو سَعْدٍ بنُ كَيْسَانَ) ایک ہی روایت تین سندوں سے بیان کر رہا ہے
ایک سعید المقبری عنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ کی سند سے
دوسری سَعِيدُ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا هُرَيْرَةَ کی سند سے
تیسری سعید المقبری عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، کی سند سے
سعید المقبری سے تین لوگوں نے اس روایت کو لیا أبي معشر الْمَدِينِيّ ، دوسرے لَيْثٌ بن سعد ، تیسرے ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ مُحَمَّدُ بنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ العَامِرِيُّ
سعيد بن أبي سعيد المَقْبُرِي المدني کا تفرد ہے
ابی معشر ضعیف ہے – العلل ومعرفة الرجال از احمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ) کے مطابق
سَأَلت يحيى بن معِين عَن أبي معشر الْمَدِينِيّ الَّذِي يحدث عَن سعيد المَقْبُري وَمُحَمّد بن كَعْب فَقَالَ لَيْسَ بِقَوي فِي الحَدِيث
ابن معین کہتے ہیں کہ أبي معشر الْمَدِينِيّ جو سعید المقبری سے روایت کرتا ہے … یہ حدیث میں قوی نہیں ہے
ابی معشر کے مطابق یہ الفاظ ابو ہریرہ کے ہیں اس کو حدیث نبوی نہیں کہا ہے یعنی موقوف عن ابو ہریرہ ہے
یہ بات کہ میت کے اس قول کو انسان کے سوا سب سنتے ہیں یہ صرف ابو سعید الخدری کی سند سے ہیں
لہذا محدثین اس کو صرف دو سندوں سے قبول کرتے ہیں جو لیث اور ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ کی اسناد ہیں
سعيد بن أبي سعيد المَقْبُرِي اختلاط کا شکار تھے
المختلطين از صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق
سعيد بن أبي سعيد المَقْبُرِي المدني:
قال شعبة: ساء بعد ما كبر.
وقال محمد بن سعد: ثقة إلا أنه اختلط قبل موته بأربع سنين.
شعبہ کہتے ہیں یہ بوڑھے ہوئے تو خراب ہوئے
ابن سعد نے کہا یہ ثقہ ہیں لیکن یہ مرنے سے ٤ سال قبل اختلاط کا شکار ہوئے
قال الواقدى: كبُر واختلط قبل موته بأربع سنين – واقدی نے کہا بوڑھے ہوئے اور مرنے سے ٤ سال قبل مختلط ہوئے
إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي بن قليج بن عبد الله البكجري المصري الحكري الحنفي، أبو عبد الله، علاء الدين (المتوفى: 762هـ) کے مطابق ١٢٥ ھ میں وفات ہوئی
إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال کے مطابق
وفي كتاب الباجي عن ابن المديني: قال ابن عجلان: كانت عنده أحاديث سندها عن رجال عن أبي هريرة فاختلطت عليه فجعلها كلها عن أبي هريرة.
اور الباجی کی کتاب میں ابن المدینی سے روایت ہے کہ ابن عجلان نے کہا ان کے پاس احادیث تھیں جو عن رجال عن ابو ہریرہ سے تھیں ان کو جب اختلاط ہوا تو انہوں نے تمام کو ابو ہریرہ سے روایت کر دیا
شعبہ نے بھی احتیاط کی ہے اور کہا ہے کہ سعید بوڑھے ہو چکے تھے
وَقَال يَعْقُوب بْن شَيْبَة: قد كَانَ تغير وكبر واختلط قبل موته، يقال: بأربع سنين، حَتَّى استثنى بعض المحدثين عنه ما كتب عنه فِي كبره مما كتب قبله، فَكَانَ شعبة يَقُول: حَدَّثَنَا سَعِيد الْمَقْبُرِيّ بعدما كبر.
يَعْقُوب بْن شَيْبَة نے کہا کہ یہ بدل گئے اور بوڑھے ہوئے اور مرنے سے پہلے مختلط ہو چکے تھے کہا جاتا ہے ٤ سال یہاں تک کہ بعض محدثین نے اس کو الگ کیا ہے جو ان کے بڑھاپے سے پہلے لکھا یہاں تک کہ شعبہ کہتے کہ سعید المقبری نے روایت کیا بوڑھا ہونے کے بعد
قال يحيى القطان: “سمعتُ محمد بن عجلان يقولُ: كان سعيدٌ المقبري يُحَدِّث عن أبيه عن أبي هريرة، وعن رجل عن أبي هريرة، فاختلط عليَّ فجعلتها كلها عن أبي هريرة الميزان: (3/645)
یحیی القطان کہتے ہیں میں نے ابن عجلان کو سنا کہ سعید المقبری اپنے باپ سے اور وہ ابو ہریرہ سے روایت کرتے اور سعید ایک آدمی سے اور وہ ابو ہریرہ سے روایت کرتا لیکن جب سعید کو اختلاط ہوا تو سعید المقبری نے ان تمام روایات کو ابو ہریرہ سے روایت کر دیا
جامع التحصيل في أحكام المراسيل از صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق
سعيدا المقبري سمع من أبي هريرة ومن أبيه عن أبي هريرة وأنه اختلف عليه في أحاديث وقالوا أنه اختلط قبل موته وأثبت الناس فيه الليث بن سعد يميز ما روى عن أبي هريرة مما روى عن أبيه عنه وتقدم أن ما كان من حديثه مرسلا عن أبي هريرة فإنه لا يضر لأن أباه الواسطة
سعید المقبری نے ابو ہریرہ سے سنا اور اپنے باپ سے انہوں نے ابو ہریرہ سے اور ان کی احادیث پر اختلاف ہوا اور کہا کہ یہ مرنے سے قبل مختلط ہوئے اور لوگوں میں سب سے ثابت ان سے روایت کرنے میں اللیث ہیں جو اس کی تمیز کر سکتے ہیں کہ یہ ابو ہریرہ سے کیا روایت کرتے ہیں اور کیا اپنے باپ سے کرتے ہیں اور جیسا کہ گزرا ان کا ابو ہریرہ سے روایت کرنا مرسل ہے اگرچہ اس میں کوئی نقصان نہیں کیونکہ انہوں نے اپنے باپ کے واسطہ سے سنا ہے
سعید المقبری کو اختلاط تھا الذھبی نے اس کا انکار کیا اس پر ابن الكيال (المتوفى: 929هـ) نے کتاب الكواكب النيرات في معرفة من الرواة الثقات میں لکھا
والعجب من الذهبي انكار اختلاطه وقد أقر باختلاطه الواقدي وابن سعد ويعقوب بن شيبة وابن حبان
اور الذھبی کی عجیب بات ہے کہ اس کا انکار کیا اور اس اختلاط کا ذکر کیا ہے واقدی نے ابن سعد نے یعقوب نے اور ابن حبان نے
اگرچہ ابن معین نے کہا تھا کہ ابن أبي ذئب کی سعید المقبری سے روایت سب سے مناسب ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ محدثین اس کو بھی منکر کہتے ہیں – العلل لابن أبي حاتم از محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ) کے مطابق ایک روایت اس کو انہوں نے اپنے باپ ابی حاتم پر پیش کیا اور سوال کیا کہ ابْنِ أَبِي ذئبٍ روایت کرتے ہیں
عَنِ ابْنِ أَبِي ذئبٍ ، عَنْ سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قال: قال رسولُ الله (ص) : إِذَا بَلغَكُمْ عَنِّي حَدِيثًا يَحْسُنُ بِي أَنْ أَقُولَهُ ، فَأَنَا قُلْتُهُ، وَإِذَا بَلغَكُمْ عَنِّي حَدِيثًا لاَ يَحْسُنُ بِي أَنْ أَقُولَهُ، فَلَيْسَ مِنِّي وَلَمْ أَقُلْهُ.
قَالَ أَبِي: هَذَا حديثٌ مُنكَرٌ؛ الثقاتُ لا يَرْفَعُونَهُ
ابْنِ أَبِي ذئبٍ روایت کرتے سعید المقبری سے وہ اپنے باپ سے وہ ابو ہریرہ سے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جب تم کو کوئی حدیث پہنچے جو اچھی لگے کہ میں نے کہی ہو تو اس کو میں نے ہی کہا ہے اور اگر تم کو حدیث پہنچے جو اچھی نہ لگے کہ میں نے کہی ہو تو وہ مجھ سے نہیں نہ میں نے اس کو کہا ہے
ابی حاتم نے کہا یہ حدیث منکر ہے – ثقات اس کو نہیں پہچانتے
یعنی سعید المقبری کی باپ سے ان کی ابو ہریرہ سے روایت منکر بھی کہی گئی ہے
امام بخاری نے تاریخ الکبیر میں ایک اور روایت کا حوالہ دیا
وَقال ابْنُ طَهمان، عَنِ ابْنِ أَبي ذِئب، عَنْ سَعِيدٍ المَقبُريّ، عَنِ النَّبيِّ صَلى اللَّهُ عَلَيه وسَلم؛ مَا سَمِعتُم عَنِّي مِن حَدِيثٍ تَعرِفُونَهُ فَصَدِّقُوهُ. وَقال يَحيى: عَنْ أَبي هُرَيرةَ، وَهُوَ وهمٌ، لَيْسَ فِيهِ أَبو هُرَيرةَ.
ابْنِ أَبي ذِئب نے سعید المقبری سے روایت کیا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تم میری جو حدیث سنو اس کو پہچانو تصدیق کرو اور یحیی نے کہا یہ عن ابو ہریرہ ہے – لیکن یہ وہم ہے اس میں ابو ہریرہ نہیں ہے
یعنی امام بخاری کے نزدیک ابْنِ أَبي ذِئب کی روایت میں سعید المقبری نے براہ راست نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کی ہے
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عَنِ ابْنِ أَبي ذِئب نے دور اختلاط میں سنا ہے
یاد رہے کہ ابن أبي ذئب مدلس بھی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ یہ رجال کے حوالے سے احتیاط سے بھی کام نہیں لیتے تھے
اس سند میں عبد الرحمن بن مهران بھی ہے – جس کے بارے میں محدثین کی معلومات کم ہیں
قال البَرْقانِيّ: قلتُ للدَّارَقُطْنِيِّ عبد الرحمن بن مهران، عن أبي هريرة، فقال: شيخ مدني، يعتبر به
البرقانی کہتے ہیں میں دارقطنی سے کے بارے میں پوچھا کہا مدنی بوڑھا اعتبار کیا جاتا ہے
یہاں اعتبار محدثین کی اصطلاح ہے کہ روایت لکھ لی جائے حتی کہ شاہد ملے
ابن حجر نے صرف مقبول من الثالثة تسرے درجے کا مقبول کہا ہے – اس کی وضاحت خود تقریب میں اس طرح کی
من ليس له من الحديث إلا القليل، ولم يثبت فيه ما يترك حديثه من أجله، وإليه الاشارة بلفظ ” مقبول ” حيث يتابع، وإلا فلين الحديث.
جس کی احادیث بہت کم ہوں اور اس پر کوئی بات ثابت نہیں کہ اس کی حدیث ترک کی جائے تو اس کے لئے مقبول کا لفظ سے اشارہ کیا ہے جب متابعت ہو ورنہ یہ لین الحدیث ہو گا
یعنی ایسا راوی جس پر کوئی جرح کا خاص کلمہ نہ ہو اس کی احادیث بھی کم ہوں تو اس کی روایت لکھی جائے گی جسکی روایت کی متابعت ملنے پر یہ مقبول کہلائے گا وگرنہ لین الحدیث (کمزور ) ہے
ان وجوہات کی بنا پر اس طرق کو قابل قبول نہیں کہا جا سکتا
اب کس کی روایت سعید المقبری سے لیں؟
وقال الساجي: حدثني أحمد بن محمد قال: قلت ليحيى بن معين: من أثبت الناس في سعيد المقبري؟ قال: ابن أبي ذئب
ابن معین نے کہا اس سے روایت کرنے میں اثبت ابن أبي ذئب ہے
ابن حراش: جليل، أثبت الناس فيه الليث بْن سَعْد – ابن خراش نے کہا اثبت لیث ہے
دارقطنی کہتے ہیں
لأنَّ الليث بن سعد ضبط عن المقبري ما رواه عن أبي هريرة، وما رواه عن أبيه عن أبي هريرة
لیث بن سعد یاد رکھتے تھے المقبری کی روایت جو انہوں نے ابو ہریرہ سے روایت کی اور جو انہوں نے اپنے باپ سے اور انہوں نے ابو ہریرہ سے روایت کی
وقال عبد الله: سَمِعتُهُ يقول (يعني أَباه) : أصح الناس حديثًا عن سعيد بن أبي سعيد المقبري ليث بن سعد، يفصل ما روى عن أبي هريرة، وما (روى) عن أبيه، عن أبي هريرة، هو ثبت في حديثه جدًا. «العلل» (659) .
عبد الله نے کہا میں نے باپ سے سنا کہ سعید المقبری سے روایت کرنے میں سب سے صحیح ليث بن سعد ہے جو واضح کرتے ہیں جو یہ اپنے باپ سے وہ ابو ہریرہ سے روایت کر دیتے ہیں اور جو یہ صرف اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں
محدثین میں بعض نے لیث کی سند پسند کی اور بعض نے ابن أبي ذئب کی سند – لیکن جیسا واضح کیا اس میں ابن أبي ذئب بھی قابل اعتماد نہیں ہیں کیونکہ محدثین کی اس طرق سے روایت کردہ متن کو رد کرتے ہیں- لیث کو اس لیے پسند کیا جاتا تھا کہ وہ تمیز کر لیتے تھے کہ سعید المقبری نے اختلاط میں جو روایات اپنے باپ سے اور ابو ہریرہ سے روایت کی ہیں ان میں کون سی صحیح ہیں گویا یہ ایک طرح کا لیث کا اندازہ ہے جس کی بنیاد پر سعید المقبری کے اختلاط والی روایات کو لیا گیا ہے
الليث بن سعد بن عبد الرحمن بن عقبة مصری ہیں سن ٩٤ میں پیدا ہوئے اور سن ١١٣ میں حج کیا اور ١٧٥ میں وفات ہوئی
قال ابن بكير سَمِعْتُ اللَّيْثَ يَقُوْلُ: سَمِعْتُ بِمَكَّةَ سَنَةَ ثَلاَثَ عَشْرَةَ وَمائَةٍ مِنَ الزُّهْرِيِّ وَأَنَا ابْنُ عِشْرِيْنَ سَنَةً
ابن بکیر نے کہا میں نے اللَّيْثَ سے سنا کہ انہوں نے امام الزہری سے مکہ میں سن ١١٣ میں سنا
سعید المقبری سن ١١٩ ھ سے ١٢٣ ھ تک مختلط تھے- محدثین کا یہ کہنا کہ لیث کے اندر صلاحیت تھی کہ وہ سعید المقبری کی سند میں علت کو جان لیتے تھے ظاہر کرتا ہے کہ سعید المقبری میں اختلاط کی کیفیت شروع ہی ہوئی تھی کہ لیث نے ان سے سنا
عجیب بات یہ ہے کہ لیث کو جب سعید یہ روایت سناتے ہیں تو اس کو سعید الخدری رضی الله عنہ کی حدیث کہتے ہیں اور جب ابن ابِي ذئبٍ کو یہ سناتے ہیں تو اس کو ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث قرار دیتے ہیں
اس اشکال کو اپ مندرجہ ذیل جدول میں دیکھ سکتے ہیں
ابن ابِي ذئبٍ کی سند
قال البَرْقانِيّ: قلتُ للدَّارَقُطْنِيِّ عبد الرحمن بن مهران، عن أبي هريرة، فقال: شيخ مدني، يعتبر به |
لیث کی سند | کتاب |
حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، حَدَّثَنِي سَعِيدٌ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يَقُولُ | مسند أبي يعلى
|
|
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يَقُولُ | سنن نسائی | |
حَدَّثَنَا يُونُسُ، وَحَجَّاجٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا لَيْثٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ | مسند احمد | |
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يَقُولُ | مسند احمد | |
حَدَّثَنا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: | صحیح بخاری | |
حَدَّثَنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ | صحیح بخاری | |
حَدَّثَنَا يُونُسُ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، مَوْلَى أَبِي هُرَيْرَةَ | مسند أبو داود الطيالسي | |
حَدَّثَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، | مسند أحمد | |
حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، وَحَجَّاجٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، الْمَعْنَى، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنِ أَبِي هُرَيْرَةَ | مسند أحمد | |
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ | سنن نسائی | |
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَزْدِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،
|
صحیح ابن حبان |
المزی تہذیب الکمال میں عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ مَوْلَى أَبِي هُرَيْرة کے ترجمہ میں یہ روایت لکھ کر کہتے ہیں
هكذا رواه ابن أَبي ذئب، وخالفه الليث بْن سعد (س) فرواه عَنْ سَعِيد الْمَقْبُرِيِّ، عَن أَبِيهِ، عَن أَبِي سَعِيد الخُدْرِيّ
ایسا ابن أَبي ذئب نے روایت کیا ہے (یعنی ابن أَبي ذئب عَن سَعِيد الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ مَوْلَى أَبِي هُرَيْرة ) اور ان کی مخالفت کی ہے الليث بْن سعد نے انہوں نے اس کو سَعِيد الْمَقْبُرِيِّ، عَن أَبِيهِ، عَن أَبِي سَعِيد الخُدْرِيّ کی سند سے روایت کیا ہے
راقم کے خیال میں یہ روایت دور اختلاط کی ہے جس کی بنا پر اسناد میں یہ گھپلا پیدا ہو رہا ہے اور چونکہ لیث کا حجاز پہنچنا بھی اسی دور کے پاس کا ہے جس میں لیث کو مختلط کہا گیا ہے گمان غالب ہے کہ اسناد میں یہ تضاد اس کیفیت کی بنا پر پیدا ہوا ہے
الذھبی میزان میں لکھتے ہیں کہ سفیان بن عُيَيْنَة، سعید المقبری کے پاس پہنچے لیکن
فإن ابن عُيَيْنَة أتاه فرأى لعابه يسيل فلم يحمل عنه، وحدث عنه مالك والليث
اس کا لعاب اس کے منہ سے بہہ رہا تھا لہذا نہیں لکھا
سفيان بن عيينة بن أبي عمران ميمون سن ١٠٧ میں پیدا ہوئے
کتاب سیر الاعلام النبلاء از الذھبی کے مطابق
سمع في سنة تسع عشرة ومائة ، وسنة عشرين ، وبعد ذلك
سفيان بن عيينة نے سن ١١٩ اور ١٢٠ اور اس کے بعد سنا ہے
سفيان بن عيينة کوفہ میں پیدا ہوئے اس کے بعد حجاز کا سفر کیا جہاں ١١٩ کے بعد لوگوں سے سنا اس دور میں انہوں نے سعید المقبری کو دیکھا جن کے منہ سے لعاب بہہ رہا تھا
تہذیب الکمال کے مطابق
وَقَال نوح بْن حبيب القومسي: سَعِيد بْن أَبي سَعِيد، وابن أَبي مليكة، وقيس بْن سَعْد، ماتوا سنة سبع عشرة ومئة.
نوح بْن حبيب نے کہا کہ سعید بن ابی سعید کی موت سن ١١٧ میں ہوئی
خليفة بْن خياط کے بقول ١٢٦ میں ہوئی
أَبُو بَكْر بْن أَبي خَيْثَمَة اور ابن سعد کے مطابق ١٢٣ میں ہوئی
وَقَال الواقدي، ويعقوب بْن شَيْبَة، وغير واحد: مات فِي أول خلافة هشام بن عبد الملك.
الواقدي اور يعقوب بْن شَيْبَة اور ایک سے زائد محدثین کہتے ہیں هشام بن عبد الملك (١٠٥ سے ١٢٥ تک خلیفہ) کی خلافت کے شروع میں ہوئی
اس طرح دیکھا جائے تو زیادہ ترمحدثین سعید المقبری کی موت کو ١١٧ ہجری کے پاس لے اتے ہیں جس میں اللیث نے مکہ جا کر حج کیا گویا اللیث نے سعید المقبری کو عالم اختلاط میں پایا ہے یہ قول کہ وفات ١٢٠ کے بعد ہوئی یہ ہشام بن عبد الملک کی خلافت کا آخری دور بن جاتا ہے لہذا یہ صحیح نہیں ہے- ہشام نے ٢٠ سال حکومت کی ہے تو تاریخ وفات میں یہ کوئی معمولی فرق نہیں رہتا
اختلاط کا دورانیہ ٤ سال کا تھا لیکن تاریخ وفات میں اختلاف کی بنا پر واضح نہیں رہا کہ یہ کب شروع ہوا
اگر ١١٧ وفات لی جائے تو اس کا مطلب ہے اختلاط سن ١١٣ میں شروع ہوا
قال الْبُخَارِيّ : مات بعد نَافِع.
نافع کی موت ١١٩ یا ١٢٠ میں ہوئی ہے بحوالہ سیر الاعلام النبلاء
امام بخاری نے تاريخ الصغير یا التاريخ الأوسط میں صرف یہ لکھا ہے کہ سعید المقبری کی وفات نافع کے بعد ہوئی کوئی سال بیان نہیں کیا جبکہ اختلاط کا علم ہونا ضروری ہے- امام بخاری نے یھاں سعید المقبری کے حوالے سے اللیث پر اعتماد کرتے ہوئے اس روایت کو صحیح سمجھا ہے
امام مالک نے بھی سعید المقبری سے روایت لی ہے لیکن یہ نہیں لکھی بلکہ روایت بیان کی
موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني کی سند ہے
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا هُرَيْرَةَ كَيْفَ يُصَلِّي عَلَى الْجِنَازَةِ، فَقَالَ: ” أَنَا لَعَمْرِ اللَّهِ أُخْبِرُكَ، أَتْبَعُهَا مِنْ أَهْلِهَا، فَإِذَا وُضِعَتْ كَبَّرْتُ، فَحَمِدْتُ اللَّهَ وَصَلَّيْتُ عَلَى نَبِيِّهِ، ثُمَّ قُلْتُ: اللَّهُمَّ، عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَابْنُ أَمَتِكَ، كَانَ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُكَ، وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ، إِنْ كَانَ مُحْسِنًا فَزِدْ فِي إِحْسَانِهِ، وَإِنْ كَانَ مُسِيئًا فَتَجَاوَزْ عَنْهُ، اللَّهُمَّ لا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ، وَلا تَفْتِنَّا بَعْدَهُ “، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا قِرَاءَةَ عَلَى الْجِنَازَةِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
امام مالک نے سعید المقبری سے انہوں نے اپنے باپ سے روایت کیا انہوں نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے کہ جنازہ پر نماز کیسے پڑھیں؟ ابو ہریرہ نے کہا لعمر الله میں اس کی خبر دیتا ہوں میت کے اہل کے ساتھ ہوں گے پس جب رکھیں تو الله کی تکبیر و حمد کہیں اور نبی پر درود پھر کہیں
اللَّهُمَّ، عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَابْنُ أَمَتِكَ، كَانَ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُكَ، وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ، إِنْ كَانَ مُحْسِنًا فَزِدْ فِي إِحْسَانِهِ، وَإِنْ كَانَ مُسِيئًا فَتَجَاوَزْ عَنْهُ، اللَّهُمَّ لا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ، وَلا تَفْتِنَّا بَعْدَهُ
امام محمد نے کہا یہ قول ہم لیتے ہیں کہ جنازہ پر قرات نہیں ہے اور یہی قول ابو حنیفہ رَحِمَهُ اللَّهُ کا ہے
قابل غور ہے کہ امام مالک تو مدینہ کے ہی تھے انہوں نے یہ قدمونی والی روایت نہ لکھی جبکہ اللیث جو ١١٧ میں مصر سے آئے ان کو اختلاط کی کیفیت میں سعید المقبری ملے اور انہوں نے اس کو روایت کیا
الإصابة في تمييز الصحابة از ابن حجر میں ہے
قال الحاكم: مالك هو الحكم في حديث المدنيين
امام حاکم نے کہا – امام مالک حکم ہیں اہل مدینہ کی حدیث پر
مستدرک میں حاکم کہتے ہیں
مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ أَنَّهُ الْحَكَمُ فِي حَدِيثِ الْمَدَنِيِّينَ….. وَاحْتَجَّ بِهِ فِي الْمُوَطَّأِ
اہل مدینہ کی احادیث پر امام مالک فیصلہ کرنے والے ہیں یہ وہ حدیث ہے جس سے امام مالک نے موطا میں دلیل لی ہے
لہذا سعید المقبری کی روایت جو امام مالک نے نہ لکھی ہو اس کی کوئی نہ کوئی تو وجہ ضرور ہے جس میں یہ کلام المیت والی روایت بھی ہے
قیصر روم کے بعد
ایک روایت بیان کی جاتی ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ قیصر روم کے بعد کوئی اور قیصر نہ ہو گا – اس کو تین اصحاب رسول سے منسوب کیا گیا ہے جابر بن سمرہ رضی الله عنہ سے ابوہریرہ رضی الله عنہ سے اور ابو سعید الخدری رضی الله عنہ سے
کسری شاہ فارس تھا اور قیصر بازنیطی رومی سلطنت کا حاکم کا ٹائٹل تھا
Heraclius (Herakleios) was emperor of the Byzantine Empire from 610 to 641 CE.
مسئلہ : اس روایت کا متن شاذ و منکر ہے – قیصر روم ہرقل کے بعد بھی متعدد قیصر آئے ہیں البتہ كسرى بن هرمز دور نبوی میں مر گیا پھر کوئی کسری نہ ہوا بلکہ اس کی بیٹی ملکہ بنی پھر وہاں بغاوت ہوئی اور ایک جنرل ان کا حاکم بنا- دور عمر میں اصحاب رسول نے فارس فتح کیا اور ان کے خزانے مسلمانوں نے لئے – قیصر روم ہرقل کا خزانہ مسلمانوں کو نہ ملا قیصر زندہ رہا اور طبعی موت مرا اس کے بعد بھی متعدد قیصر حاکم ہوئے
جابر بن سمرہ رضی الله کی سند
صحيح بخاري اور مسند احمد ہے
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، سَمِعَ جَرِيرًا، عَنْ عَبْدِ المَلِكِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا هَلَكَ كِسْرَى فَلاَ كِسْرَى بَعْدَهُ، وَإِذَا هَلَكَ قَيْصَرُ فَلاَ قَيْصَرَ بَعْدَهُ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتُنْفَقَنَّ كُنُوزُهُمَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ
عبد الملک بن عمير کہتا ہے جابر رضي الله عنہ نے کہا نبي صلي الله عليہ وسلم نے فرمايا : جب کسري ہلاک ہو گا تو اس کے بعد کوئي کسري نہيں ہو گا اور جب قيصر ہلاک ہو گا تو اس کے بعد کوئي قيصر نہ ہو گا – اور وہ جس کے ہاتھ ميں ميري جان ہے تم ان کے خزانے نکالو گے
اس طرق میں عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ کا تفرد ہے اور یہ مختلط ہو گئے تھے لہذا اس میں احتمال ہے کہ یہ دور اختلاط کا ذکر ہے
ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی سند
صحيح بخاري ميں ابو ہريرہ رضي الله عنہ کي سند سے ہے
حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِذَا هَلَكَ كِسْرَى فَلاَ كِسْرَى بَعْدَهُ، وَإِذَا هَلَكَ قَيْصَرُ فَلاَ قَيْصَرَ بَعْدَهُ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتُنْفَقَنَّ كُنُوزُهُمَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ»
مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا هَلَكَ كِسْرَى، فَلَا كِسْرَى بَعْدَهُ، وَإِذَا هَلَكَ قَيْصَرُ، فَلَا قَيْصَرَ بَعْدَهُ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَتُنْفِقُنَّ كُنُوزَهُمَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ»
مسند إسحاق بن راهويه میں ہے
أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، نا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ زِيَادٍ، مَوْلَى بَنِي مَخْزُومٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «هَلَكَ كِسْرَى فَلَا كِسْرَى بَعْدَهُ، وَهَلَكَ قَيْصَرُ فَلَا قَيْصَرَ بَعْدَهُ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَيُنْفَقَنَّ كُنُوزُهُمَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ»
ابو داود طیالسی میں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَعْلَى، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَلْقَمَةَ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا هَلَكَ كِسْرَى فَلَا كِسْرَى بَعْدَهُ، وَإِذَا هَلَكَ قَيْصَرُ فَلَا قَيْصَرَ بَعْدَهُ»
مسند البزار میں ہے
وحَدَّثَنا إبراهيم بن نصر حَدَّثَنا عمرو أَخْبَرنا شعبة , عن يعلى بن عطاء , عن أبي علقمة , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ , عَنِ النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا هلك كسرى فلا كسرى , وإذا هلك قيصر فلا قيصر بعده.
ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے اس روایت کو ان راویوں نے نقل کیا ہے
الأَعْرَجِ
سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ
زِيَادٍ مَوْلَى بَنِي مَخْزُومٍ
أبي علقمة
ابو ہریرہ رضی الله عنہ بعض اوقات کعب الاحبار کی خبر کو بھی اس طرح بیان کرتے تھے کہ سننے والا سمجھ بیٹھتا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی دی گئی خبر ہے
کتاب التمييز( ص /175 ) کے مطابق امام مسلم نے بسر بن سعيد کا قول بیان کیا
حَدثنَا عبد الله بن عبد الرَّحْمَن الدَّارمِيّ ثَنَا مَرْوَان الدِّمَشْقِي عَن اللَّيْث بن سعد حَدثنِي بكير بن الاشج قَالَ قَالَ لنا بسر بن سعيد اتَّقوا الله وتحفظوا من الحَدِيث فوَاللَّه لقد رَأَيْتنَا نجالس أَبَا هُرَيْرَة فَيحدث عَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم عَن كَعْب وَحَدِيث كَعْب عَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم
بكير بن الاشج نے کہا ہم سے بسر بن سعيد نے کہا : الله سے ڈرو اور حدیث میں حفاظت کرو – الله کی قسم ! ہم دیکھتے ابو ہریرہ کی مجالس میں کہ وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے اور وہ (باتیں) کعب ( کی ہوتیں) اور ہم سے کعب الاحبار ( کے اقوال) کو روایت کرتے جو حدیثیں رسول الله سے ہوتیں
احمد العلل میں کہتے ہیں
وقال عبد الله: حدثني أبي. قال: حدثنا أبو أسامة، عن الأعمش. قال: كان إبراهيم صيرفيا في الحديث، أجيئه بالحديث. قال: فكتب مما أخذته عن أبي صالح، عن أبي هريرة. قال: كانوا يتركون أشياء من أحاديث أبي هريرة. «العلل» (946) .
احمد نے کہا ابو اسامہ نے کہا اعمش نے کہا کہ ابراھیم النخعي حدیث کے بدلے حدیث لیتے – وہ حدیث لاتے – اعمش نے کہا : پس انہوں نے لکھا جو میں نے ابو صالح عن ابو ہریرہ سے
روایت کیا – اعمش نے کہا : ابراھیم النخعي، ابوہریرہ کی احادیث میں چیزوں کو ترک کر دیتے
ابن عساکر نے تاریخ الدمشق میں روایت دی کہ
الثوري، عن منصور، عن إبراهيم، قال: ما كانوا يأخذون من حديث أبي هريرة إلا ما كان حديث جنة أو نار
ابراھیم النخعي نے کہا ہم ابو ہریرہ کی احادیث کو نہیں لیتے سوائے اس کے جس میں جنت جہنم کا ذکر ہو
ابو سعید الخدری کی سند
المعجم الصغير از طبرانی میں ہے
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ كَثِيرٍ التَّمَّارُ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا مِنْجَابُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْأَجْلَحِ، عَنْ أَبَانَ بْنِ تَغْلِبَ، عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا هَلَكَ كِسْرَى فَلَا كِسْرَى , وَإِذَا هَلَكَ قَيْصَرُ فَلَا قَيْصَرَ , وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِي، لَتُنْفَقَنَّ كُنُوزُهُمَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ» لَمْ يَرْوِهِ عَنْ أَبَانَ إِلَّا ابْنُ الْأَجْلَحِ تَفَرَّدَ بِهِ مِنْجَابٌ
اس کی سند عطیہ العوفی کی وجہ سے ضعیف ہے
راقم کا گمان ہے کہ روایت ابو ہریرہ نے سب سے پہلے بیان کی جو کعب الاحبار کا قول تھا لوگ اس کو حدیث نبوی سمجھ بیٹھے اور پھر عبد الملک بن عمیر نے اختلاط کے عالم میں اس کو جابر بن سمرہ سے منسوب کر دیا
کعب الاحبار ایک سابقہ یہودی تھے اور کعب کی زندگی میں ہرقل کے خلاف یہود نے بغاوت کر دی تھی اس تناظر میں یہ معمہ حل ہو جاتا ہے کہ اس بغاوت پر کلام ہوا ہو گا اور اس کو حدیث رسول سمجھا جانے لگا –
نحمیاہ اور بن یامین نام کا دو یہودی جنرل فارسی لشکر کو لے کر ہرقل سے لڑ رہے تھے
Nehemiah ben Hushiel
Benjamin of Tiberias
روایت کی تاویل
نووي نے شرح صحيح مسلم ميں لکھا ہے
قَالَ الشَّافِعِيُّ وَسَائِرُ الْعُلَمَاء: مَعْنَاهُ لَا يَكُونُ كِسْرَى بِالْعِرَاقِ، وَلَا قَيْصَرُ بِالشَّامِ كَمَا كَانَ فِي زَمَنِهِ – صلى الله عليه وسلم – فَعَلَّمَنَا – صلى الله عليه وسلم – بِانْقِطَاعِ مُلْكِهِمَا فِي هَذَيْنِ الْإِقْلِيمَيْنِ
امام الشافعي اور تمام علماء کہتے ہيں کہ رسول الله صلي الله عليہ وسلم کا مطلب تھا کہ کسري عراق پر نہ ہو گا اور قيصر شام پر نہ ہو گا وہ جو رسول الله کے دور ميں تھے – پس ہم کو علم ديا کہ ان دونوں کي آقاليم کا انقطاع ہو جائے گا
ابن حبان صحيح ميں کہتے ہيں
قَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا هَلَكَ كِسْرَى، فَلَا كِسْرَى بَعْدَهُ» أَرَادَ بِهِ بِأَرْضِهِ، وَهِيَ الْعِرَاقُ، وَقَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَإِذَا هَلَكَ قَيْصَرُ فَلَا قَيْصَرُ بَعْدَهُ» يُرِيدُ بِهِ بِأَرْضِهِ وَهِيَ الشَّامُ، لَا أَنَّهُ لَا يَكُونُ كِسْرَى بَعْدَهُ، وَلَا قَيْصَرُ
رسول اللہ صلي الله عليہ وسلم کے قول کہ جب کسري ہلاگ ہو گا تو کوئي کسري بعد ميں نہ ہو گا ان کا مقصد عراق کي زمين تھا اور رسول الله کا قول کہ جب قيصر ہلاک ہو گا تو کوئي اور نہ ہو گا تو اس سے مراد ارض شام تھي نہ کہ يہ کہ کسري يا قيصر ہي نہ ہوں گے
مشکل الاثار ميں امام طحاوي کہتے ہيں
قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: وَسَأَلْتُ أَحْمَدَ بْنَ أَبِي عِمْرَانَ عَنْ تَأْوِيلِ هَذَا الْحَدِيثِ فَأَجَابَنِي بِخِلَافِ هَذَا الْقَوْلِ وَذَكَرَ أَنَّ مَعْنَى قَوْلِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ: ” إذَا هَلَكَ كِسْرَى فَلَا كِسْرَى بَعْدَهُ “، قَالَ فَهَلَكَ كِسْرَى كَمَا أَعْلَمَنَا أَنَّهُ سَيَهْلِكُ فَلَمْ يَكُنْ بَعْدَهُ كِسْرَى، وَلَا يَكُونُ بَعْدَهُ كِسْرَى إلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَكَانَ مَعْنَى قَوْلِهِ: ” إذَا هَلَكَ قَيْصَرُ فَلَا قَيْصَرَ بَعْدَهُ ” إعْلَامًا مِنْهُ إيَّاهُمْ أَنَّهُ سَيَهْلِكُ وَلَمْ يَهْلِكْ إلَى الْآنَ , وَلَكِنَّهُ هَالِكٌ قَبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَخُولِفَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ كِسْرَى فِي تَعْجِيلِ هَلَاكِ كِسْرَى وَتَأْخِيرِ هَلَاكِ قَيْصَرَ لِاخْتِلَافِ مَا كَانَ مِنْهُمَا عِنْدَ وُرُودِ كِتَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا. قَالَ لَنَا ابْنُ أَبِي عِمْرَانَ وَرُوِيَ فِي ذَلِكَ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ميں نے احمد بن ابي عمران سے اس حديث کي تاويل پوچھي تو جواب ديا … ہميں معلوم ہے کہ کسري ہلاک ہوا تو اس کے بعد کوئي کسري نہ ہوا اور نہ قيامت تک ہو گا اور ہو سکتا ہے کہ اس قول کہ جب قيصر ہلاک ہو گا تو کوئي قيصر نہ ہو گا کا مطلب ہے کہ يہ علامت ہے کہ يہ ہلاک ہو گا اور يہ ابھي تک نہيں مرا ہے ليکن يہ ہلاک ہو گا قيامت سے پہلے اور اس کے اور کسري کے درميان خلاف کيا کہ کسري پہلے ہلاک ہو گا اور قيصر کي ہلاکت دير سے ہو گي
قال الخطابي: معناه: فلا قيصر بعده يملك مثل ما يملك
خطابی نے کہا کہ قیصر ایسی حکومت نہ کر پائے گا جیسی کرتا تھا
امام ابو حنیفہ کی آراء
قال أبو حنيفة اترك قولي بقول الصحابة الّا بقول ثلثة منهم أبو هريرة وانس بن مالك وسمرة بن جندب رضی الله عنهم
روضة العلماء ونزهة الفضلاء (المخطوطة) – علي بن يحيى بن محمد، أبو الحسن الزندويستي الحنفي (المتوفى: 382هـ) میں
امام ابو حنیفہ نے کہا میرا قول صحابہ کے قول کے مقابل ہو تو اس کو ترک کر دو سوائے تین اصحاب کے ایک ابو ہریرہ دوسرے انس بن مالک اور تیسرے سمرہ بن جندب
اس کی وجہ ابو حنیفہ بتاتے ہیں
فقيل له في ذلك، فقال: أما انس: فقد بلغني أنه اختلط عقله في آخر عمره، فكان يستفی من علقمة، وأنا لا أقلد علقمة، فكيف اقلد من يستفی من علقمة. واما أبو هريرة فكان يروي كل ما بلغه وسمعه من غير أن يتأمل في المعنی ومن غير أن يعرف الناسخ والمنسوخ. واما سمرة بن جندب، فقد بلغني عنه أمر ساءني، والذي بلغه عنه أنه كان يتوسع في الاشربة المسكرة سوی الخمر فلم يقلدهم في فتواهم. اما في ما رووا عن رسول الله صلی الله عليه وسلم، فياخذ برواتهم؛ لأن كل واحد منهم موثوق به في ما يروي.
https://archive.org/stream/hanafi_04_201507/01#page/n181/mode/2up
صفحه 183 – 186 جلد 01 شرح أدب القاضي للخصاف الحنفي (المتوفى: 261هـ) عمر بن عبد العزيز ابن مازة الحنفي المعروف بالصدر الشهيد (المتوفى: 536هـ)- وزارة الأوقاف العراقية – مطبعة الإرشاد، بغداد
ان سے اس پر پوچھا گیا تو ابو حنیفہ نے کہا : جہاں تک انس ہیں تو مجھ تک پہنچا ہے کہ آخری عمر میں وہ اختلاط کا شکار تھے پس علقمہ سے پوچھتے اور میں علقمہ کی تقلید نہیں کرتا تو پھر اس کی کیوں کروں جو علقمہ سے پوچھے اور جہاں تک ابو ہریرہ ہیں تو یہ ہر چیز بیان کر دیتے ہیں جو پہنچی اور سنی ہو اس کے معنی پر غور کیے بغیر اور نہ ناسخ و منسوخ کو سمجھتے ہوئے
المحيط البرهاني في الفقه النعماني فقه الإمام أبي حنيفة رضي الله عنه از أبو المعالي برهان الدين محمود بن أحمد بن عبد العزيز بن عمر بن مَازَةَ البخاري الحنفي (المتوفى: 616هـ) میں ہے
ابو حنیفہ نے کہا .. اصحاب رسول کی تقلید ہو گی سوائے انس اور ابو ہریرہ اور سمرہ کے کہ … انس آخری عمر میں مختلط تھے اور علقمہ سے پوچھتے تھے
اس بحث سے معلوم ہوا کہ روایت متنا صحیح نہیں
لوگوں نے اس روایت کی تاویل کی ناکام کوشش کی ہے اور قیصر کی حکومت کو شام تک محدود کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ اس کی حکومت بابل شام اور قسطنطنیہ ترکی سے لے کر یورپ تک تھی – صرف دور نبوی میں فارسیوں کو ایلیا یا بیت المقدس یا یروشلم پر مختصر مدت کے لئے غلبہ ملا جس کا ذکر سورہ روم میں ہے لیکن رومی چند سال میں غالب ہوئے اور ایلیا بیت المقدس میں قیصر روم ہرقل جنگی معاملات کو دیکھنے آیا اور اسی دور میں ابو سفیان رضی الله عنہ سے اس نے نبی صلی الله علیہ وسلم کے حوالے سے سوالات کیے – مسلمانوں نے شام میں اس کی مملکت کو کم کیا لیکن ترکی اور یورپ تک قیصر ہرقل کی حکومت بر قرار رہی اور اس کے خزانے مسلمانوں کو نہ ملے
علم حدیث ٤
[محدثین نے ابوعوانہ کی کتب کو جلا دیا ؟ ]
جواب
کوفہ میں اعمش بعض روایات بیان کرتا تھا جن کو محدثین رد کر چکے تھے ان میں سے ایک تھیحَدِيثُ عَلِيٍّ: «أَنَا قَسِيمُ النَّارِعلی نے کہا میں جہنم کی اگ کی تقسیم کرنے والا ہوں
ان روایات کو ابو عوانہ نے ایک جگہ جمع کیا –
باب التَّغْلِيظُ عَلَى مَنْ كَتَبَ الْأَحَادِيثَ الَّتِي فِيهَا طَعْنٌ عَلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
818 – أَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ حَمْدُونَ، قَالَ: ثَنَا حَنْبَلٌ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: كَانَ سَلَّامُ بْنُ أَبِي مُطِيعٍ أَخَذَ كِتَابَ أَبِي عَوَانَةَ الَّذِي فِيهِ ذِكْرُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَحْرَقَ أَحَادِيثَ الْأَعْمَشِ تِلْكَ
http://shamela.ws/browse.php/book-1077#page-859
819 – وَأَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: ثَنَا مُهَنَّى، قَالَ: سَأَلْتُ أَحْمَدَ، قُلْتُ: حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ خِدَاشٍ، قَالَ: قَالَ سَلَّامٌ: وَأَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: ثَنَا يَحْيَى، قَالَ: سَمِعْتُ خَالِدَ بْنَ خِدَاشٍ، قَالَ: جَاءَ سَلَّامُ بْنُ أَبِي مُطِيعٍ إِلَى أَبِي عَوَانَةَ، فَقَالَ: هَاتِ هَذِهِ الْبِدَعَ الَّتِي قَدْ جِئْتَنَا بِهَا مِنَ الْكُوفَةِ، قَالَ: فَأَخْرَجَ إِلَيْهِ أَبُو عَوَانَةَ كُتَبَهُ، فَأَلْقَاهَا فِي التَّنَّورِ، فَسَأَلْتُ خَالِدًا مَا كَانَ فِيهَا؟ قَالَ: حَدِيثُ الْأَعْمَشِ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اسْتَقِيمُوا لِقُرَيْشٍ» ، وَأَشْبَاهِهِ، قُلْتُ لِخَالِدٍ: وَأَيْشِ؟ قَالَ: حَدِيثُ عَلِيٍّ: «أَنَا قَسِيمُ النَّارِ» ، قُلْتُ لِخَالِدٍ: حَدَّثَكُمْ بِهِ أَبُو عَوَانَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ؟ قَالَ: نَعَمْ.
820 – وَأَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: سَلَّامُ بْنُ أَبِي مُطِيعٍ مِنَ الثِّقَاتِ مِنْ أَصْحَابِ أَيُّوبَ، وَكَانَ رَجُلًا صَالِحًا، حَدَّثَنَا عَنْهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، ثُمَّ قَالَ أَبِي: كَانَ أَبُو عَوَانَةَ وَضَعَ كِتَابًا فِيهِ مَعَايِبُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِيهِ بَلَايَا، فَجَاءَ إِلَيْهِ سَلَّامُ بْنُ أَبِي مُطِيعٍ، فَقَالَ: يَا أَبَا عَوَانَةَ، أَعْطِنِي ذَلِكَ الْكِتَابَ، فَأَعْطَاهُ، فَأَخَذَهُ سَلَّامٌ فَأَحْرَقَهُ
http://shamela.ws/browse.php/book-1077#page-860
21 – أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ الْمَرُّوذِيُّ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: اسْتَعرْتُ مِنْ صَاحِبِ حَدِيثٍ كِتَابًا، يَعْنِي فِيهِ الْأَحَادِيثَ الرَّدِيئَةَ، تَرَى أَنْ أُحَرِّقَهُ، أَوْ أُخَرِّقُهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، لَقَدِ اسْتَعَارَ سَلَّامُ بْنُ أَبِي مُطِيعٍ مِنْ أَبِي عَوَانَةَ كِتَابًا، فِيهِ هَذِهِ الْأَحَادِيثُ، فَأَحْرَقَ سَلَّامٌ الْكِتَابَ، قُلْتُ: ” فَأَحْرِقُهُ؟ قَالَ: نَعَمْ
822 – أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، قَالَ: ثَنَا الْفَضْلُ بْنُ زِيَادٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ وَدَفَعَ إِلَيْهِ رَجُلٌ كِتَابًا فِيهِ أَحَادِيثُ مُجْتَمِعَةٌ، مَا يُنْكَرُ فِي أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْوَهُ، فَنَظَرَ فِيهِ، ثُمَّ قَالَ: «مَا يَجْمَعُ هَذِهِ إِلَّا رَجُلُ سُوءٍ» ، وَسَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: بَلَغَنِي عَنْ سَلَّامِ بْنِ أَبِي مُطِيعٍ أَنَّهُ جَاءَ إِلَى أَبِي عَوَانَةَ، فَاسْتَعَارَ مِنْهُ كِتَابًا كَانَ عِنْدَهُ فِيهِ بَلَايَا، مِمَّا رَوَاهُ الْأَعْمَشُ، فَدَفَعَهُ إِلَى أَبِي عَوَانَةَ، فَذَهَبَ سَلَّامٌ بِهِ فَأَحْرَقَهُ، فَقَالَ رَجُلٌ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: أَرْجُو أَنْ لَا يَضُرَّهُ ذَلِكَ شَيْئًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ؟ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: يَضُرُّهُ؟ بَلْ يُؤْجَرُ عَلَيْهِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ
823 – أَخْبَرَنِي حَرْبُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْكَرْمَانِيُّ، قَالَ: سَأَلْتُ إِسْحَاقَ يَعْنِي ابْنَ رَاهَوَيْهِ، قُلْتُ: رَجُلٌ سَرَقَ كِتَابًا مِنْ رَجُلٍ فِيهِ رَأْيُ جَهْمٍ أَوْ رَأْيُ الْقَدَرِ؟ قَالَ: ” يَرْمِي بِهِ، قُلْتُ: إِنَّهُ أُخِذَ قَبْلَ أَنْ يُحَرِّقَهُ أَوْ يَرْمِيَ بِهِ، هَلْ عَلَيْهِ قَطْعٌ؟ قَالَ: لَا قَطْعَ عَلَيْهِ، قُلْتُ لِإِسْحَاقَ: رَجُلٌ عِنْدَهُ كِتَابٌ فِيهِ رَأْيُ الْإِرْجَاءِ أَوِ الْقَدَرِ أَوْ بِدْعَةٌ، فَاسْتَعَرْتُهُ مِنْهُ، فَلَمَّا صَارَ فِي يَدِي أَحْرَقْتُهُ أَوْ مَزَّقْتُهُ؟ قَالَ: لَيْسَ عَلَيْكَ شَيْءٌ
824 – أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ الْمَرُّوذِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: «لَا نَقُولُ فِي أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا الْحُسْنَى»
827 – أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَاضِرَ، وَرَأَيْتُ، فِي كُتُبِهِ أَحَادِيثَ مَضْرُوبٌ عَلَيْهَا، فَقُلْتُ: مَا هَذِهِ الْأَحَادِيثُ الْمَضْرُوبُ عَلَيْهَا؟ فَقَالَ: هَذِهِ الْعَقَارِبُ، نَهَانِي ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ أَنْ أُحَدِّثَ بِهَا
اس پر محدثین نے اعتراض کیا کہ اس قسم کی بے سروپا روایات کیوں اکٹھی کی ہیںلہذا اس کتاب میں اعمش کی روایات ایک محدث کی طرف سے جلا دی گئیں اور بعض نے اس کتاب کو دیکھ کر صرف أستغفر الله کہا
معلوم ہوا کہ یہ روایت کرنا ہی معیوب تھا اس بنا پر محدثین نے دوسروں کی احادیث کی کتب کو جلا دیا
[/EXPAND]
[کیا رسول الله آیات بھول جاتے تھے پھر کوئی اور تلاوت کرتا تو ان کو یاد اتا ؟]
صحيح البخاري: كِتَابُ فَضَائِلِ القُرْآنِ (بَابُ اسْتِذْكَارِ القُرْآنِ وَتَعَاهُدِهِ) صحیح بخاری: کتاب: قرآن کے فضائل کا بیان (باب: قرآن مجید کو ہمیشہ پڑھتے اور یاد کرتے رہنا)
5032
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَرْعَرَةَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِئْسَ مَا لِأَحَدِهِمْ أَنْ يَقُولَ نَسِيتُ آيَةَ كَيْتَ وَكَيْتَ بَلْ نُسِّيَ وَاسْتَذْكِرُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ أَشَدُّ تَفَصِّيًا مِنْ صُدُورِ الرِّجَالِ مِنْ النَّعَمِ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ مِثْلَهُ تَابَعَهُ بِشْرٌ عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ عَنْ شُعْبَةَ وَتَابَعَهُ ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَبْدَةَ عَنْ شَقِيقٍ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
حکم : صحیح 5032
ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے منصور نے ، ان سے ابو وائل نے اور ان سے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت برا ہے کسی شخص کا یہ کہنا کہ میں فلاں فلاں آیت بھول گیا بلکہ یوں ( کہنا چاہیے ) کہ مجھے بھلادیا گیا اور قرآن مجید کا پڑھنا جاری رکھو کیونکہ انسانوں کے دلوں سے دور ہوجانے میں وہ اونٹ کے بھاگنے سے بھی بڑھ کر ہے ۔ ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے جریر بن عبد الحمید نے ، اوران سے منصور بن معتمر نے پچھلی حدیث کی طرح ۔ محمد بن عرعرہ کے ساتھ اس کو بشر بن عبد اللہ نے بھی عبد اللہ بن مبارک سے ، انہوں نے شعبہ سے روایت کیا ہے اور محمد بن عرعرہ کے ساتھ اس کو ابن جریج نے بھی عبد ہ سے ، انہوں نے شقیق بن مسلمہ سے ، انہوں نے عبد اللہ بن مسعود سے ایسا ہی روایت کیا ہے ۔
جواب
بھول جانا انبیاء کی بشریت ہے مثلا موسی مچھلی کو بھول گئے جب خضر سے ملاقات کرنے نکلے
فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهُ إِلَّا الشَّيْطَانُ} [الكهف مچھلی کو تو میں بھول ہی گیا اور اس کو شیطان نے ہی بھلایا ہے
صحیح بخاری میں ہے رسول الله نے فرمایاإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ، أَنْسَى كَمَا تَنْسَوْنَ، فَإِذَا نَسِيتُ فَذَكِّرُونِي،بے شک میں تمہارے جیسا بشر ہوں ، بھول جاتا ہوں جیسے تم بھولتے ہو ، جب میں بھولوں تو یاد دلا دو
قَاضِى عِيَاض صحیح مسلم کی شرح میں کہتے ہیں يجوز على النبى – عليه السلام – من النسيان یہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے لئے جائز ہے کہ بھول جائیں اس کی مثال قَاضِى عِيَاض نے دی کہ نماز میں بھول گئے بھر سجدہ سہو کیا
قاضی کے مطابق صوفیاء اورالْأُصُولِيِّينَ میں أَبَا المظفر الاسفرايني کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے بھول و نسیان کو منسوب نہیں کیا جا سکتا – ابن حجر نے فتح الباری میں اس رائے کو قَوْلٌ ضَعِيفٌ قرار دیا ہے
بدر الدين العينى نے عمدة القاري شرح صحيح البخاري میں لکھا ہےقيل: كَيفَ جَازَ نِسْيَان الْقُرْآن عَلَيْهِ. وَأجِيب: بِأَن النسْيَان لَيْسَ بِاخْتِيَارِهِ.کہا جاتا ہے : کیسے جائز ہے قرآن میں بھول جانا ؟ اور جواب دیا گیا : کہ بھول جانے پر اختیار نہیں ہوتا
راقم کہتا ہے یہاں معاملہ الوحی کے بھول جانے کا ہے جو معمولی بات نہیں ہے – الوحی تو قلب محمد صلی الله علیہ وسلم پر آئی ہے جس کو صرف الله ہی بھلا سکتا ہے
سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسَى إِلَّا مَا شَاءَ الله
ہم اپ پر پڑھیں گے تو اپ بھول نہ سکیں گے سوائے وہ جو اللہ چاہےالأعلى
الله چاہے تو اپنے نبی کو آیات بھلا سکتا ہے لیکن اس آیت کا اس حدیث سے کیا جوڑ ہے ؟ الله جو آیات بھلا دیتا ہے وہ آیات وہ ہیں جو منسوخ کی گئی ہیں اور اس کے بدلے اس جیسی یا اس سے بہتر آیات دی گئی ہیں
ہشام بن عروہ کی روایت کوفہ عراق والوں نے لی ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم آیات بھول جاتے تھےاس روایت کو ہشام سے ان لوگوں نے لیا ہے
أَبُو الصَّلْت زَائِدَة بن قدامَة الثَّقَفِيّ الکوفی – عِيسَى بن يُونُس بن أبي إِسْحَاق عَمْرو السبيعِي الْهَمدَانِي الْكُوفِي – أبو أسامة حماد بن أسامة الكوفى – أبو الحسن على بن مسهر القرشى الكوفى – أبو محمد عبدة بن سليمان الكلابى الكوفى – أبو سفيان وكيع بن الجراح بن مليح الكوفى – أَبُو مُعَاوِيَة مُحَمَّد بن حَازِم الضَّرِير التَّمِيمِي السَّعْدِيّ الْكُوفِي – ابُو هِشَامٍ عَبْدُ اللهِ بنُ نُمَيْرٍ أ الهَمْدَانِيُّ الکوفی
عراق میں ہشام نے بعض روایات بیان کیں جن پر امام مالک کو بھی اعتراض رہا اگرچہ معلوم نہیں ان میں کون کون سی روایات تھیں
روایت کے الفاظ ہیں يرحمه الله لقد اذكرني كذا وكذا آية كنت انسيتها من سورة كذا وكذا
االله اس پر رحم کرے اس نے یاد کرا دیں وہ اور وہ آیات جن کو میں بھول گیا تھا اس اس سورت میں سے
المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم میں أبو العبَّاس لکھتے ہیں
قال ابن السيِّد البطليوسي : كذا وكذا : كناية عن الأعداد المعطوف بعضها على بعض ؛ من أحد وعشرين إلى تسعة وتسعين
ابن السيِّد البطليوسي نے کہا كذا وكذا یہ کنایہ ہے اعداد کی طرف گیارہ سے لے کر ننانوے تک
مزید لکھا
وإذا قال : له عندي كذا كذا درهمًا ؛ فهي كناية عن الأعداد ؛ من أحد عشر إلى تسعة عشر ، هذا اتفاق من الكوفيين والبصريين . وقال الكوفيون خاصة
اگر کہے میرے پاس كذا كذا درہم ہیں تو یہ اعداد پر کنایہ ہے اس میں گیارہ سے لے کر انیس تک ہے اس پر کوفیوں بصریوں کا اتفاق ہے اور یہ کہا ہے خاص کر کوفیوں نے
مزید کہا
فيكون قوله ـ صلى الله عليه وسلم ـ : (( كذا وكذا آية )) ؛ [ أنه ] أقل ما يحمل عليه إحدى وعشرون
رسول اللہ کا کہنا كذا وكذا آية تو یہ کم از کم گیارہ آیات تھیں
عربی ادب کی اس بحث کا حاصل یہ ہوا کہ روایت کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم کم از کم گیارہ آیات بھول گئے تھے اور یہ روایت کوفیوں کی بیان کردہ ہے
شارحین کی اس روایت پر نکتہ سنجی ہے کہ یہ آیات رسول الله صلی الله علیہ وسلم جان بوجھ کر نہیں نسیان کی وجہ سے بھولے ایسا متعدد نے کہا مثلافتح المنعم شرح صحيح مسلم المؤلف: الأستاذ الدكتور موسى شاهين لاشين: كنت أسقطتها من سورة كذا أي كنت أسقطتها نسيانًا لا عمدًا،
صحیح بخاری میں ہے
حَدَّثَنا بِشْرُ بْنُ آدَمَ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَارِئًا يَقْرَأُ مِنَ اللَّيْلِ فِي المَسْجِدِ، فَقَالَ: «يَرْحَمُهُ اللَّهُ لَقَدْ أَذْكَرَنِي كَذَا وَكَذَا آيَةً أَسْقَطْتُهَا مِنْ سُورَةِ كَذَا وَكَذَا
االله رحم کرے اس پر اس نے یاد دلا دیں وہ اور وہ آیات جو اس سورہ میں اور اس سورہ میں سے گر گئیں تھیں
گر گئیں یعنی منسوخ ہو گئیں تھیں – اگرچہ اس صریح بات کو تمام شارحین نے منسوخ آیات یا قرات قرار نہیں دیا ہے البتہ مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ملا علی القاری نے کہا
وَيَكُونُ مَعْنَى قَوْلِهِ نَسِيَ، أَيْ نُسِخَتْ تِلَاوَتُهُ
اور ممکن ہے کہ قول نبوی میں بھول گیا یعنی ان کی تلاوت منسوخ ہوئی تھا
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو بعض آیات بھلا دی گئیں اس کا مطلب ہے کہ اس کے جیسی دوسری آیت دی یا حکم منسوخ ہوا
بعض آیات ہیں جن کی قرات منسوخ ہوئی اور حکم باقی رہا مثلا رجم-بعض آیات ہیں جن کا حکم منسوخ ہوا اور قرآن میں موجود ہیں مثلا روزے کی چند آیات
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا فرمان کہ ان صحابی نے گر جانے والی آیات کی قرات کی سے معلوم ہوا کہ یہ شخص جس کا قرآن رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سنا اس کی قرات باطل تھی کیونکہ وہ منسوخ آیات کی قرات کر رہا تھا جو رسول الله بھول چکے تھے – اس شخص کو اصلاح کی ضرورت تھی – اس کو خبر کی جاتی کہ تو منسوخ آیات کی قرات کیوں کر رہا ہے ؟ لیکن ایسا روایت میں بیان نہیں ہوا کہ رسول الله نے اس کو طلب کر کے نئی آیات قرات کرنے کا حکم دیا یا خبر دی ہو کہ یہ قرات اب منسوخ ہوئی – دوسری طرف اگر یہ وہ آیات تھیں جن کا حکم منسوخ ہوا لیکن قرات باقی رہی تو ایسا ممکن نہیں کہ یہ آیات رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو بھلا دی گئی ہوں
ابن حجر نے فتح الباری میں کہا لَمْ أَقِفْ عَلَى تَعْيِينِ الْآيَاتِ الْمَذْكُورَةِ
کون سی آیات تھیں ان کا تَعْيِينِ نہیں ہو سکا
اس روایت کی تہہ میں عجیب بات ہے جو غور کرے اس پر اس کی نکارت ظاہر ہو سکتی ہے
[/EXPAND]
[سورج غروب ہونے پر کہاں جاتا ہے ؟]
صحيح البخاري: كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ (بَابُ صِفَةِ الشَّمْسِ وَالقَمَرِ بِحُسْبَانٍ) صحیح بخاری: کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیوں کر شروع ہوئی (باب : سورہ رحمن کی اس آیت کی تفسیر کہ سورج اور چاند دونوں حسا ب سے چلتے ہیں ۔)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لِأَبِي ذَرٍّ حِينَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ: «أَتَدْرِي أَيْنَ تَذْهَبُ؟»، قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّهَا تَذْهَبُ حَتَّى تَسْجُدَ تَحْتَ العَرْشِ، فَتَسْتَأْذِنَ فَيُؤْذَنُ لَهَا وَيُوشِكُ أَنْ تَسْجُدَ، فَلاَ يُقْبَلَ مِنْهَا، وَتَسْتَأْذِنَ فَلاَ يُؤْذَنَ لَهَا يُقَالُ لَهَا: ارْجِعِي مِنْ حَيْثُ جِئْتِ، فَتَطْلُعُ مِنْ مَغْرِبِهَا، فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى: {وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ العَزِيزِ العَلِيمِ} [يس: 38]
حکم : صحیح 3199
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ، ان سے اعمش نے ، ان سے ابراہیم تیمی نے ، ان سے ان کے باپ یزید بن شریک نے اور ان سے ابو ذرغفاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سورج غروب ہوا تو ان سے پوچھا کہ تم کو معلوم ہے یہ سورج کہاں جاتا ہے ؟ میں نے عرض کی کہ اللہ اور اس کے رسول ہی کو علم ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جاتا ہے اور عرش کے نیچے پہنچ کر پہلے سجدہ کرتا ہے ۔ پھر ( دوبارہ آنے ) کی اجازت چاہتا ہے اور اسے اجازت دی جاتی ہے اور وہ دن بھی قریب ہے ، جب یہ سجدہ کرے گا تو اس کا سجدہ قبول نہ ہو گا اور اجازت چاہے گا لیکن اجازت نہ ملے گی ۔ بلکہ اس سے کہا جائے گا کہ جہاں سے آیا تھا وہیں واپس چلا جا ۔ چنانچہ اس دن وہ مغربی ہی سے نکلے گا ۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴾ وَالشَّمسُ تَجرِی لِمُستَقَرٍّ لَّہَا ذٰلِک َتَقدِیرُ العَزِیزِ العَلِیم﴿ ( یٰس ٓ : ۸۳ ) میں اسی طرف اشارہ ہے ۔
اس کے حاشیہ میں یہ لکھا ہے سلفی علماء نے
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں منکرین حدیث نے کئی اشکال پیدا کئے ہیں، ایک یہ کہ سورج زمین کے نیچے جاتا ہے نہ عرش کے نیچے۔ اور دوسری روایت میں یہ مضمون موجود ہے تغرب فی عین حمئۃ دوسرے یہ کہ زمین اور آسمان گول کرے ہیں تو سورج ہر وقت عرش کے نیچے ہے۔ پھر خاص غروب کے وقت جانے کے کیا معنی؟ تیسرے سورج ایک بے روح اور بے عقل جسم ہے اس کا سجدہ کرنا اور اس کو اجازت ہونے کے کیا معنی؟ چوتھے اکثر حکیموں نے مشاہدہ سے معلوم کیا ہے کہ زمین متحرک اور سورج ساکن ہے تو سورج کے چلنے کے کیا معنے؟ پہلے اشکال کا جواب یہ ہے کہ جب زمین کروی ہوئی تو ہر طرح سے عرش کے نیچے ہوئی اس لیے غروب کے وقت یہ کہہ سکتے ہیں کہ سورج زمین کے نچیے گیا اور عرش کے نیچے گیا۔ دوسرے اشکال کا جواب یہ ہے کہ بے شک ہر نقطے اور ہر مقام پر سورج عرش کے نیچے ہے اور وہ ہر وقت اپنے مالک کے لیے سجدہ کررہا ہے اور اس کے آگے بڑھنے کی اجازت مانگ رہا ہے لیکن چونکہ ہر ملک والوں کا مغرب اور مشرق مختلف ہے اس لیے طلوع اور غروب کے وقت کو خاص کیا۔ تیسرے اشکال کا جواب یہ کہ کہاں سے معلوم ہوا کہ سورج بے جان اور بے عقل ہے۔ بہت سی آیات و احادیث سے سورج اور چاند اور زمین اور آسمان سب کا اپنے اپنے درجہ میں صاحب روح ہونا ثابت ہے۔ چوتھے اشکال کا جواب یہ ہے کہ بہت سے حکیم اس امر کے بھی قائل ہیں کہ زمین ساکن ہے اورسورج اس کے گرد گھومتا ہے اور اس بارے میںطرفین کے دلائل متعارض ہیں۔ اور ظاہر قرآن و حدیث سے تو سورج اور چاند اور تاروں ہی کی حرکت نکلتی ہے۔ ( مختصر از وحیدی ) آیت شریفہ والشمس تجري لمستقرلہا ( یٰس: 38 ) میں مستقر سے مراد بقائے عالم کا انقطاع ہے یعنی الی انقطلاع بقاءمدۃ العالم اماقولہ مستقرلہا تحت العرش فلا ینکران یکون لہا استقراءتحت العرش من حیث لاندرکہ ولا نشاہدہ و انما اخبر عن غیب فلا نکذبہ ولا نکیفہ لان علمنا لا یحیط بہ۔ انتہیٰ کلام الطیبی
شیعہ حضرت کا یہ اعترض ہے
http://www.imgrum.org/media/977427206680765884_1742540152
جواب
یہ روایت بلا جرح محمد باقر المجلسيى نے بھی کتاب بحار الأنوار ج ٥٥ ص ٢١٠ میں نقل کی ہے
وعن أبى ذر – ره – قال: كنت مع النبي صلى الله عليه وآله في المسجد عند غروب الشمس، فقال: يا باذر (9) أتدري أين تغرب الشمس ؟ قلت: الله ورسوله أعلم، فقال: إنها تذهب حتى تسجد تحت العرش فتستأذن في الرجوع، فيؤذن لها، فذلك قوله (والشمس تجري لمستقر لها
مجلسی نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا
آج کے دور میں ہم پر واضح ہوا ہے کہ زمین ، سورج کے گرد کھوم رہی ہے اور محور پر بھی گھوم رہی ہے آج سے ٢٠٠ سال پہلے لوگوں کو اس کا علم نہیں تھا
لہذا قدیم شیعوں نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا
لیکن سورج کا مغرب کے طلوع ہونا بطور قیامت کی نشانی اہل تشیع اور اہل سنت میں معروف ہے
الخصال – از الصدوق – ص 431 – 432 کی روایت ہے
عن أبي الطفيل ( 2 ) ، عن حذيفة بن أسيد قال : اطلع علينا رسول الله صلى الله عليه وآله من غرفة له ونحن نتذاكر الساعة ، قال رسول الله صلى الله عليه وآله : لا تقوم الساعة حتى تكون عشر آيات : الدجال ، والدخان ، وطلوع الشمس من مغربها ، ودابة الأرض ، و يأجوع ومأجوج ، وثلاث خسوف : خسف بالمشرق وخسف بالمغرب وخسف بجزيرة ‹ صفحة 432 › العرب ، ونار تخرج من قعر عدن تسوق الناس إلى المحشر ، تنزل معهم إذا نزلوا وتقيل معهم إذا قالوا . عشر خصال جمعها الله عز وجل لنبيه وأهل بيته صلوات الله عليهم
حذيفة بن أسيد کہتے ہیں ان کو رسول الله صلى الله عليه وآله نے خبر دی اپنے غرفة میں اور ہم وہاں قیامت کا ذکر کر رہے تھے رسول الله صلى الله عليه وآله نے فرمایا قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ دس نشانیاں ہوں دجال دھواں سورج کا مغرب سے طلوع ہونا دابه الارض یاجوج اور ماجوج تین خسوف مغرب مشرق اور عرب میں اور اگ جو عدن کی تہہ سے نکلے گی اور لوگوں کو محشر کی طرف جمع کرے گی
یہی روایت صحیح مسلم میں بھی ہے
مصطفى البغا صحیح بخاری کی تعلیق میں کہتے ہیں
السموات والأرض وغيرهما من العوالم كلها تحت العرش ففي أي موضع سقطت وغربت فهو تحت العرش
آسمان ہوں یا زمین اور دیگر ان عالموں میں سب عرش کے نیچے ہیں جو جہاں سے بھی سورج طلوع ہو یا غروب وہ عرش کے نیچے ہی ہوا
یہ روایت ایک ہی سند سے ہے
عَنْ الْأَعْمَشِ, عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ, عَنْ أَبِيهِ, عَنْ أبِي ذَرٍّ
اس میں اعمش مدلس ہے
اس میں اعمش کا تفرد ہے جو مدلس ہے اور ذخیرہ احادیث میں اس مخصوص روایت کی ہر سند میں اس نے عن سے ہی روایت کیا ہے
کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق
وقال سفيان الثوري لم يسمع الأعمش حديث إبراهيم في الوضوء من القهقهة منه
سفيان الثوري کہتے ہیں کہ الأعمش نے ابراہیم کی حدیث وضو میں قہقہہ پر نہیں سنی
احمد یہ بات العلل میں کہتے ہیں
قال سفيان: لم يسمع الأعمش حديث إبراهيم في الضحك.
کتاب المعرفة والتاريخ کے مطابق امام احمد کہتے تھے کہ ابراہیم سے روایت کرنے میں اگر اعمش یا منصور غلطی کریں تو فوقیت منصور کودو
وقال الفضل بن زياد: سمعت أبا عبد الله أحمد بن حنبل، وقيل له: إذا اختلف
منصور، والأعمش، عن إبراهيم فبقول من تأخذ؟ قال: بقول منصور، فإنه أقل سقطاً
تدليس الإسناد کے حوالے سے علم حدیث کی کتابوں میں یہ بات موجود ہے کہ اسناد میں گڑبڑ ہوئی ہے مثلا أبو عوانة نے عن الأعمش عن إبراهيم التيمي، عن أبيه، عن أبي ذر کی سند سے روایت کیا ہے
أن النبي – صلى الله عليه وسلم – قال: فلان في النار ينادي، يا حنان يا منان.
قال أبو عوانة: قلت للأعمش سمعت هذا من إبراهيم؟ قال: لا، حدثني به حكيم بن جبير عنه.
ابو عوانة کہتے ہیں میں نے اعمش سے پوچھا تم نے یہ روایت ابراہیم سے سنی ہے ؟ بولے نہیں اس کو حكيم بن جبير نے ان سے روایت کیا ہے دیکھئے معرفة علوم الحديث ص: 105 پر
اسی طرح العلل دارقطنی میں ہے
وَسُئِلَ عَنْ حَدِيثِ شُعْبَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاتَيْنِ تَنْتِطَحَانِ.
فَقَالَ: تَفَرَّدَ بِهِ أَبُو دَاوُدَ، عَنْ شُعْبَةَ، وَلَا يَثْبُتُ عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الحديث.
الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ کی سند سے روایت ہے اس کو دارقطنی کہتے ہیں اعمش سے ثابت نہیں ہے
اب مثالیں موجود ہیں کہ اعمش جب عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ کی سند سے روایت کرتے ہیں تو بعض اوقات انہوں نے تدلیس کی ہے
اگر روایت سندا صحیح ہے تو قرآن مين ہے
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَسْجُدُ لَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَكَثِيرٌ مِّنَ النَّاسِ ۖ وَكَثِيرٌ حَقَّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ ۗ وَمَن يُهِنِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِن مُّكْرِمٍ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ
سوره الحج
سورج الله کو سجدہ کرتا ہے اس کی ماہیت و کیفیت الله کے علم میں ہے حدیث میں اغلبا کہا گیا کہ سورج کا غروب ہونا اس کا سجدہ کرنا ہے
و الله اعلم
وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ العَزِيزِ العَلِيمِ} [يس: 38]
اور سورج چل رہا ہے اپنے مستقر کی طرف یہ مقدر ہے (الله) زبردست جاننے والے کی طرف ہے
[/EXPAND]
[حیض کی حالت ميں امہات المومنین سے رسول صلی الله علیہ وسلم مباشرت کرتے]
بخاری کتاب الحیض جلد 1 صفحہ 44 ۔۔عائشہ رضی فرماتی ہیں کہ حیض کی حالت ميں آپ صلی الله علیہ وسلم مجھے تہ پوش پہننے کا حکم دیتے ۔اور اس کے بعد مجھ سے مباشرت کرتے ۔۔۔صفحہ نمبر 662… آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھ کر اپنی ازواج کے بوسے لیتے اور ان سے مباشرت فرمایا کرتے
جواب
قرآن سوره البقرۃ ٢٢٢ میں ہےوَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَلوگ آپ سے حیض کے متعلق پوچھتے ہیں کہہ دیجئے کہ حیض ایک قسم کی اذیت ہے، اس لیے دوران حیض میں بیویوں سے دور رہیے اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ان کے قریب مت جائیے اور پاک ہونے کے بعد ان کے پاس جائیے جیسا کہ الله نے حکم کیا ہے
آیت میں جیسا کہ الله نے حکم کیا ہے اور قرب کے الفاظ کنایہ ہیں جماع کے لئے – آیت میں حالت حیض میں جماع کی ممانعت ہے – بوسہ لینے پر پابندی نہیں ہے
صحیح بخاری حدیث ٣٠٠ میں عائشہ رضی الله عنہا نے فرمایاوَكَانَ يَأْمُرُنِي، فَأَتَّزِرُ، فَيُبَاشِرُنِي وَأَنَا حَائِضٌرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے تہ پوش پہننے کا حکم دیتے اور اس کے بعد مجھے چھوتے تھے اور میں حائضہ ہوتی
مباشرت کا مطلب عربی میں اصل میں ملامس کرنا ، چھونا ہے جماع کرنا ہمیشہ اس کا مطلب نہیں ہے بلکہ جماع کرنا اب اس لفظ کا فقہی مفہوم ہے جو قرآن و حدیث سے استنباط کر کے لیا گیا ہے
شرح الطيبي على مشكاة المصابيح المسمى میں ہےفيباشرني)) أي يضاجعني، ويواصل بشرته بشرتي دون جماعفيباشرني یعنی ساتھ لیٹتے اور چھوتے ، جماع کے بغیر
قسطلانی شرح بخاری میں لکھتے ہیں(فيباشرني) عليه الصلاة والسلام أي تلامس بشرته بشرتيیعنی چھوتے
شارحین کا ایسا ہی کہنا ہے
قرآن نے جب کہا عورتوں سے دور رہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کو گھر سے نکال دیا جائے – کہنے کا مقصد ہے قرب کا تعین کیسے ہو گا کہ یہ قرب ہے یہ قرب نہیں ہے؟ آیت میں قرب کہنا کنایہ ہے کہ فرج کو استعمال نہیں کیا جائے گا کیونکہ وہاں سے خون اتا ہے غور طلب ہے کہ کیا مباشرت کا مطلب عربی میں اصلا چھونا ہے یا جماع کرنا ؟
قرآن میں ہےوَلا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِاور عورتوں کو مت چھونا جب تم مسجدوں میں معتکف ہو
اردو میں مباشرت کنایہ نہیں ہے یہ بطور لفظ جماع کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے لہذا اردو میں ترجمہ کرتے ہیںاور عورتوں سے جماع مت کرنا جب تم مسجدوں میں معتکف ہومقصد کے حساب سے ترجمہ درست ہے لیکن یہ عربی الفاظ کا ترجمہ نہیں ہے الفاظ کا فقہی مطلب سمجھ کر اردو میں کیا گیا ترجمہ ہے
لسان عرب از ابن منظور میں ہےأَراد بالمباشَرَةِ المُلامَسَةَ وأَصله مِنْ لَمْس بَشَرَةِ الرَّجُلِ بَشَرَةَ المرأَة،مباشرت سے ارادہ ملامس کرنا (چھونا) ہے اور اس کا اصل ہے کہ مرد عورت کی جلد کو چھوتا ہے
والبَشَرَةُ والبَشَرُ: ظَاهِرُ جِلْدِ الإِنسانانسان کی ظاہر جلد کو البشر یا البشرہ کہا جاتا ہے
عربي لغت لمطلع على ألفاظ المقنع میں ہےقال الجوهري: مباشرة المرأة: ملامستها.لغوی الجوهري نے کہا عورت سے مباشرت ہے اس کو چھونا
لب لباب ہے کہ عربی میں مباشرت کا لفظی مطلب چھونا ہے لیکن اس کا اب فقہی مطلب ہوا ہے جماع کرنا کیونکہ قرآن میں جب مباشرت یا چھونے سے منع کیا تو اصل میں یہ کنایہ تھا جماع کرنے پر – لیکن یہ عربی کا ارتقاء ہے دور نبوی کی عربی میں مباشرت لغوا چھونا ہی تھا جس میں لوگ جانتے تھے کہ کہاں کہاں آیات میں اس کو کس مقصد کے تحت بولا گیا ہے – جب مسلمانوں نے یہ سمجھ لیا کہ الله تعالی جب قرآن مجامعت یا وطی کے عربی الفاظ کی بجائے صرف چھونا کہتا ہے تو وہاں مباشرت سے اس کی مراد جماع کرنا ہوتا ہے تو لفظ مباشرت کے مفہوم میں جماع کرنا بھی آ گیا – واضح رہے کہ یہ مطلب اصحاب رسول نے سمجھا تھا جو ان کو قرآن پر غور سے ملا
[/EXPAND]
[لا يحمدونه کا کیا مطلب ہے ؟]
١.
محدیثین جب اپنی حدیث کی کتاب میں کسی راوی کے اوپر جرح کرتے ہے۔ جب ہم ان کی کتب ضعفاء دیکھتے ہے۔ تو وہ اس راوی کا نام نہیں رہتا ہے-مثال مصعب بن شیبہ جو صحیح مسلم کے راوی ہے امام دارقطنی نے اپنی سنن میں جرح کی ہے۔ مگر جب امام دارقطنی کی کتاب الضعفاء کو دیکھتے ہے تو مصعب بن شیبہ کا نام نہیں ہے۔ تو ایسی صورت حال میں محدث کی کس بات کا اعتبار ہوگا۔
٢
-لا يحمدونه کے اصطلاحی معنی کیا ہے کیا اسکو جرح میں شمار کیا جائے یا تعدیل میں؟ ازراہ کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
جواب
تاریخ الاسلام از الذھبی میں ہے
مُصْعَب بْن شَيْبة بن جبير بن شيبة2 -م4- بن عثمان الحجبي المكي القرشي العبدري، عَن صفيّة بنت شَيْبة عمّه أَبِيهِ، وطَلْق بْن حبيب. وعَنْه ابنه زُرَارة وزكريّا بْن أَبِي زائدة، وابن جُرَيْج، ومِسْعَر، وآخرون، قَالَ أبو حاتم، لا يحمدونه. وقَالَ الدارَقُطْنيُّ: لَيْسَ بالقويّ، احتجّ بِهِ مُسْلِم وغيره.
اس میں مُصْعَب بْن شَيْبة کا ذکر ہے اس پر ابی حاتم کا کہنا ہے لا يحمدونه اس کی تعریف نہیں کی جاتی لہذا جرح ہےالجرح والتعديل المؤلف: أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ) میں ان الفاظ کی شرح خود ابی حاتم نے کر دی ہےنا عبد الرحمن قال سألت ابى عن مصعب بن شيبة فقال لا يحمدونه، وليس بقوىعبد الرحمان نے کہا میں نے ابی حاتم سے مصعب بن شيبة پر پوچھا کہا اس کی تعریف نہیں کرتے اور یہ قوی نہیں ہے لا يحمدونه کی اور مثالیں بھی ہیں مثلا میزان از الذھبی میں مسهر بن عبد الملك بن سلع الهمداني کے ترجمہ میں ہے ابو داود نے کہا أصحابنا لا يحمدونه ہمارے اصحاب حدیث اس کی تعریف نہیں کرتے
دارقطنی نے اس کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہےقال الدارقطنى: ليس بالقوى ولا بالحافظ. وقال فى موضع آخر: ضعيف، وقال: منكر الحديثمُصْعَبُ بْنُ شَيْبَةَ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ وَلَا بِالْحَافِظِ یہ سنن دارقطنی میں ہےمُصْعَبُ بْنُ شَيْبَةَ ضَعِيفٌ یہ بھی سنن دارقطنی میں ہےمصعب منكر الحديث یہ قول الإلزامات والتتبع میں ہےیہ کتب دارقطنی کی معروف ہیں ان اقوال کا بھی اعتبار ہو گا اور کیا گیا ہے
دارقطنی کی کتاب الضعفاء الضعفاء والمتروكون میں تمام راوی نہیں ہیں جن کو انہوں نے ضعیف قرار دیا ہے
[/EXPAND]
[عائشہ رضی الله عنہا نے کلام نبوی پر اعتراض کیا ؟]
رقم الحديث: 23987
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا صَفْوَانُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا رَاشِدُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” لَا يَقْطَعُ صَلَاةَ الْمُسْلِمِ شَيْءٌ إِلَّا الْحِمَارُ ، وَالْكَافِرُ ، وَالْكَلْبُ ، وَالْمَرْأَةُ ” فَقَالَتْ عَائِشَةُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، لَقَدْ قُرِنَّا بِدَوَابِّ سُوءٍ .عائشہ رضی الله عنہا نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا نماز نہ ٹوٹے گی الا یہ کہ گدھا یا کافر یا کتا یا عورت گزر جائے – پس عائشہ نے کہا میں نے کہا یا رسول الله اپ نے تو ہمیں بد چوپایوں میں کر دیا
نيل الأوطار میں محمد بن علي بن محمد بن عبد الله الشوكاني اليمنيالمتوفى: 1250هـ لکھتے ہیں کہ
وَعَنْ عَائِشَةَ عِنْدَ أَحْمَدَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «لَا يَقْطَعُ صَلَاةَ الْمُسْلِمِ شَيْءٌ إلَّا الْحِمَارُ وَالْكَافِرُ وَالْكَلْبُ وَالْمَرْأَةُ، لَقَدْ قُرِنَّا بِدَوَابِّ السُّوءِ» . قَالَ الْعِرَاقِيُّ: وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ
http://shamela.ws/browse.php/book-9242/page-793
جواب
مسند احمد کی روایت صحیح نہیں ہے
شعيب الأرنؤوط کہتے ہیںإسناده ضعيف وفي متنه نكارة، راشد بن سعد – وهو المَقْرَئي الحُبْراني الحمصي – قد عنعن في روايته عن عائشة، وقد قال الحافظ في “التقريب”: كثير الإرسال، وذكر الحاكم فيما نقل مغلطاي وابن حجر أن الدارقطني ضعفه.—–سند کے رجال ثقہ بھی ہوں تو ان کا ارسال و تدلیس کا معاملہ رہتا ہے
فتح الباری ابن رجب میں ہےوخرج الإمام أحمد ثنا أبو المغيرة: ثنا صفوان: ثنا راشد بن سعد، عن عائشة، قالت: قال رسول الله – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – ((لا يقطع صلاة المسلم شيء، إلا الحمار والكافر والكلب والمرأة)) . قالت عائشة: يا رسول الله، لقد قرنا بدواب سوء.هذا منقطع؛ راشد لَمْ يسمع من عَائِشَة بغير شك.
یہ روایت منقطع ہے اس میں کوئی شک نہیں راشد کا سماع عائشہ سے نہیں ہے
[/EXPAND]
[امام احمد کو رحمہ الله لکھا گیا ؟]
ایک اقتباس میں کہا گیا ہے
میں نے ڈاکٹر مسعودالدین عثمانی کی تنظیم اور مبالغہ آمیز کتابچو سے یہ حاصل لیا ہے کہ وہ امام احمد بن حنبل کو کافر،مشرک اور سب سے بڑا طاغوت سمجھتاہے حالانکہ وہ اس فتوے پر احمدبن حنبل کے ہم عصرمیں سے اور انکے بعد آنے والے آج تک کے جید علماء میں سے کوئی تائید یا حمایت پیش نہیں کرسکتے-
یہ مبالغہ تو ایک طرف رکھ دے مگر اس سے زیادہ غلو کی انتہاء یہ ہے کہ مذکورہ تنظیم والے انکو بھی کافر اور مرتد سمجھتے ہیں جو احمد بن حنبل یا انکو مسلم سمجھنے والے کو مسلم سمجھتا ہو یا احمد بن حنبل کو مسلم سمجھنے والے کو “رحمہ اللہ” لکھتا ہو- العیاذ بااللہ
عرض ہے کہ مسلم صرف مسلم ہی کو دعا دیتا ہے جیسا کہ مذکورہ تنظیم میں بھی یہ بات اٹل ہے اور مذکورہ تنظیم انکو اپنی تنظیم سے نکال کر مرتد کا فتوی دیتے ہیں جو احمد بن حنبل کو مسلم سمجھنے والے کیلئے “رحمہ اللہ” جیسے دعائیہ کلمات اپنی تحریروں میں ارقام کرتے ہیں-
لھذا ہم ذیل میں چند ان شخصیات کے حوالے درج کرتے ہیں جنہوں نے ڈائرکٹ احمد بن حنبل کو ہی “رحمہ اللہ” جیسے دعائیہ الفاظ سے دعا دے کر انکے مسلم ہونے کی گواہی دی ہے۔جو مذکورہ تنظیم کیلئے انکی انتہائے جہالت پرسوالیہ نشان ہے اور جس سے انکا احمد بن حنبل اور انکے اس تار عنکبوت جیسے دعوے میں پھنسے کچھ نا سمجھ لوگوں کیلئے تحقیق کے دروازے پر دستک کے مترادف ہے-
1)امام بخاری نے احمد بن حنبل کو الضعفاء الصغیر میں رحمہ اللہ کہاہے 32/1،صحیح بخاری 85/1،رقم:377،
2)امام بخاری کے استاد علی ابن المدینی بھی احمد بن حنبل کو رحمہ اللہ کہہ کر دعادیتے تھے (مشیخة ابن البخاری ص110)
3)سنن ابی داود کا مؤلف امام ابوداود السجستانی بھی احمد بن حنبل کو “رحمہ اللہ علیہ” جیسے دعائیہ الفاظ سے یاد کرتے تھے
دیکھئیے: مسائل الامام احمد لابی داودالسجستانی 214،92/1،السنن الکبری للبیھقی رقم 18333
4)جامع الترمذی کا مولف امام محمد بن عیسی الترمذی(المتوفی:256ھ) بھی احمد بن حنبل کو رحمہ اللہ جیسے دعائیہ الفاظ سے یاد کرتے تھے دیکھئے:ترمذی ،کتاب الطھارہ-باب فی النھی عن استقبال القبلة یغائط او بول،رقم:8-بیروت
5)مشہور امام حافظ ثقہ ابوزرعة الرازی (المتوفی:264)جیسے لوگ جسکو رحمہ اللہ کہے اسے کون ٹال سکتا ہے (العلل لابن ابی حاتم ص 506)
جواب
میں… نے ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی کی تنظیم اور مبالغہ آمیز کتابچو سے یہ حاصل لیا ہے کہ وہ امام احمد بن حنبل کو کافر، مشرک اور سب سے بڑا طاغوت سمجھتاہے
یہ تین فتوی ہیں – یہ تین ڈاکٹر عثمانی کی کس کتاب میں موجود ہیں ؟
میرے علم میں کہیں بھی اس طرح نہیں لکھا
یہ لکھا ہے کہ عقیدہ عود روح رکھنا کفر ہے کتاب عذاب البرزخ میں – اس سے بات نکلی تھی کہ یہ عقیدہ عود روح احمد کی کتاب الصلوہ میں لکھا ہے
⇓ کیا کتاب الصلوۃ امام احمد کی نہیں ہے اور المدونه کیا امام مالک کی کتاب ہے ؟
اس کو ڈاکٹر عثمانی نے بطور عکس پیش کیا کہ احمد کا یہ عقیدہ تھا
اس پر زبیر علی ہے اس کے چمچہ دامانوی نے لکھا کہ یہ کتاب ثابت نہیں ہے اور دوسری طرف شور کرتے رہے احمد کو کافر کہہ دیا گیا ہے
اس پر دلیل دی گئی کہ امام احمد کے دیگر عقائد بھی ہیں جو اہل حدیث کے نزدیک صحیح نہیں
مثلا انبیاء کا قبروں سے زائر کو پہچاننا امام بیہقی نے بیان کیا ہے
اس ویب سائٹ پر احمد کا عقیدہ موجود ہے کہ ان کے نزدیک رسول الله کو عرش عظیم پر بیٹھا دیا جائے گا
اور احمد تعویذ کرتے
وسیلہ انبیاء لیتے
تعویذ کلمات دھو دھو کر پیتے
یہ بدعات و بد عقیدہ باتیں احمد کے بیٹوں اور ابو داود نے بیان کی ہیں
لہذا گھر کے چراغوں کی خبر کو چھپا کر ادھر ادھر کی بات نہ کریں
اصل مدعا پر بات کی جائے کہ عقیدہ کی خرابی امام احمد سے آئی ہے جو فرقوں میں پھیلی ہے
=======
امام بخاری نے احمد بن حنبل کو الضعفاء الصغیر میں رحمہ اللہ کہاہے 32/1،صحیح بخاری 85/1،رقم:377،
تبصرہ
امام بخاری کی کتاب الضعفاء الصغیر ہے جس کے دو ایڈیشن ہیں ایک برصغیر کا نسخہ ہے جو حلب سے بہ چھپا ہے اور دوسرا عرب ملک سے
صرف بر صغیر کے نسخہ میں تحریف ہے کہ بے شمار ائمہ کے نام ہیں لیکن صرف امام احمد کو کتاب میں حفص بن سليمان الأسدي کے ترجمہ میں رحمہ الله لکھا گیا ہے
الضعفاء الصغير
المؤلف: محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري، أبو عبد الله (المتوفى: 256هـ)
المحقق: محمود إبراهيم زايد
الناشر: دار الوعي – حلب
الطبعة: الأولى، 1396 هـ
حَفْص بن سُلَيْمَان الْأَسدي أَبُو عمر عَن عَلْقَمَة بن مرقد تَرَكُوهُ وَقَالَ أَحْمد بن حَنْبَل رَحمَه الله تَعَالَى قَالَ يحيى
—
كتاب الضعفاء
المؤلف: محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري، أبو عبد الله (المتوفى: 256هـ)
المحقق: أبو عبد الله أحمد بن إبراهيم بن أبي العينين
الناشر: مكتبة ابن عباس
الطبعة: الأولى 1426هـ/2005مـ
عدد الأجزاء: 1
حفص بن سليمان الأسدي: أبو عمر، عن علقمة بن مرثد، تركوه، قال أحمد بن حنبل وعلي: قال يحيى
http://al-maktaba.org/book/8632/41#p2
اصل میں الفاظ تھے قال أحمد بن حنبل وعلي: لیکن کسی کاتب کی غلطی سے برصغیر کے نسخہ میں ہو گیا وَقَالَ أَحْمد بن حَنْبَل رَحمَه الله تَعَالَى اور امام علی المدینی کا نام غائب ہو گیا جس کو بعد میں دار الوعي والوں نے چھاپا
================
2)امام بخاری کے استاد علی ابن المدینی بھی احمد بن حنبل کو رحمہ اللہ کہہ کر دعادیتے تھے (مشیخة ابن البخاری ص110)
تبصرہ
اس قول کے متعدد راویوں کی توثیق ممکن نہیں ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو حَفْصٍ عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَعْمَرٍ الْمُؤَدِّبُ، قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَضِيَاءُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ الْخَرِيفِ إِجَازَةً مِنْ بَغْدَادَ، قَالَا: أَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْبَاقِي بْنِ مُحَمَّدٍ الْأَنْصَارِيُّ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَنَحْنُ نَسْمَعُ، أَنَا أَبُو الْغَنَائِمِ بْنُ الدَّجَاجِيِّ، أَنَا أَبُو نَصْرٍ أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ شَاهْ الْمَرْوَرُوذِيُّ قَدِمَ عَلَيْنَا لِلْحَجِّ فِي ربيع الأول سنة ثَمَان وَثَلَاثِينَ سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ سَعِيدِ ِبْنِ مَعْدَانَ يَقُولُ سَمِعْتُ شُعَيْبَ بْنَ الْحَسَنِ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا شُعَيْبٍ يَقُولُ سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيَّ يَقُولُ: قَالَ لِي سَيِّدِي أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ – رَحِمَهُ اللَّهُ ” لَا تُحَدِّثْ إِلَّا مِنْ كِتَابٍ
عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيَّ نے کہا مجھ سے میرے سردار احمد بن حنبل الله رحم کرے نے کہا صرف کتاب سے روایت کرو
سند میں نہ صرف ابو شعیب مجہول ہے بلکہ سند میں بیشتر افراد کی توثیق بھی نہیں ملی
=====================
3)سنن ابی داود کا مؤلف امام ابوداود السجستانی بھی احمد بن حنبل کو “رحمہ اللہ علیہ” جیسے دعائیہ الفاظ سے یاد کرتے تھے
دیکھئیے: مسائل الامام احمد لابی داودالسجستانی 214،92/1،السنن الکبری للبیھقی رقم 18333
تبصره:
الكتاب: مسائل الإمام أحمد رواية أبي داود السجستاني
المؤلف: أبو داود سليمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشير بن شداد بن عمرو الأزدي السِّجِسْتاني (المتوفى: 275هـ)
تحقيق: أبي معاذ طارق بن عوض الله بن محمد
الناشر: مكتبة ابن تيمية، مصر
الطبعة: الأولى، 1420 هـ – 1999 م
سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ رَحِمَهُ اللَّهُ، قِيلَ لَهُ» لَا يُصَلِّي الْإِمَامُ بَيْنَ التَّرَاوِيحِ، وَلَا النَّاسُ؟ قَالَ: لَا يُصَلِّي الْإِمَامُ وَلَا النَّاسُ
سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ رَحِمَهُ اللَّهُ، وَقِيلَ لَهُ» قَمِيصُ الْمَرْأَةِ؟ قَالَ: يُخَيَّطُ، قِيلَ: يُكَفُّ وَيُزَرَّرُ؟ قَالَ: نَعَمْ، وَلَا يُزَرَّرُ عَلَيْهَا «.
اس کتاب میں ابو داود نے امام احمد کے اقوال لا تعداد مرتبہ لکھے ہیں مگر صرف دو مقام پر احمد کے نام کے ساتھ ٍ رَحِمَهُ اللَّهُ کا لاحقہ لگا ہے
یہ کسی کاتب کا کمال ہے
یہی الفاظ اور لوگوں نے بھی نقل کیے ہیں کہ ابو داود نے مسائل احمد میں اس کا ذکر کیا لیکن وہ رحمہ الله کے الفاظ نقل نہیں کرتے
الكتاب: الجامع لعلوم الإمام أحمد – الفقه
الإمام: أبو عبد الله أحمد بن حنبل
المؤلف: خالد الرباط، سيد عزت عيد [بمشاركة الباحثين بدار الفلاح]
الناشر: دار الفلاح للبحث العلمي وتحقيق التراث، الفيوم – جمهورية مصر العربية
الطبعة: الأولى، 1430 هـ – 2009 م
قال أبو داود: سمعت أحمد بن حنبل، قيل له: لا يصلي الإمام بين التراويح ولا الناس؟
قال: لا يصلي الإمام، ولا الناس.
“مسائل أبي داود” (446)
خالد الرباط اور سيد عزت عيد کے مطابق اصل الفاظ میں رحمہ الله کا اضافہ مشکوک تھا لہذا انہوں نے ان کو حذف کیا
اسی طرح یہ دونوں لکھتے ہیں
قال أبو داود: سمعت أحمد بن حنبل، وقيل له: قميص المرأة؟
قال: يخيط.
قيل: يكف ويزرر؟
قال: نعم، ولا يزرر عليها.
“مسائل أبي داود” (1003)
اس میں بھی رحمہ الله کے الفاظ حذف کر دیےہیں – معلوم ہوا رحمہ الله کا اضافہ محفوط نہیں تھا
کیا یہ لوگ ڈاکٹر عثمانی سے متاثر ہیں؟
==========
4)جامع الترمذی کا مولف امام محمد بن عیسی الترمذی(المتوفی:256ھ) بھی احمد بن حنبل کو رحمہ اللہ جیسے دعائیہ الفاظ سے یاد کرتے تھے دیکھئے:ترمذی ،کتاب الطھارہ-باب فی النھی عن استقبال القبلة یغائط او بول،رقم:8-بیروت
سنن ترمذی کے الفاظ ہیں
وهكذا قال إسحق بن إبراهيم وقال أحمد بن حنبل رحمه الله إنما الرخصة من النبي صلى الله عليه وسلم في استدبار القبلة بغائط أو بول وأما استقبال القبلة فلا يستقبلها كأنه لم ير في الصح راء ولا في الكنف أن يستقبل القبلة.
یہ الفاظ ایک نسخہ میں ہیں
لیکن محققین مثلا احمد شاکر اور بشار عواد وغیرہ نے رحمہ الله کے الفاظ اپنے اپنے نسخوں میں نقل نہیں کیے
الكتاب: سنن الترمذي
المؤلف: محمد بن عيسى بن سَوْرة بن موسى بن الضحاك، الترمذي، أبو عيسى (المتوفى: 279هـ)
تحقيق وتعليق:
أحمد محمد شاكر (جـ 1، 2)
ومحمد فؤاد عبد الباقي (جـ 3)
وإبراهيم عطوة عوض المدرس في الأزهر الشريف (جـ 4، 5)
الناشر: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي – مصر
الطبعة: الثانية، 1395 هـ – 1975 م
عدد الأجزاء: 5 أجزاء
وَهَكَذَا قَالَ إِسْحَاقُ، وقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: إِنَّمَا الرُّخْصَةُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي اسْتِدْبَارِ الْقِبْلَةِ بِغَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ، فَأَمَّا اسْتِقْبَالُ الْقِبْلَةِ فَلَا يَسْتَقْبِلُهَا، كَأَنَّهُ لَمْ يَرَ فِي الصَّحْرَاءِ وَلَا فِي الْكُنُفِ أَنْ يَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ
یہاں رحمہ الله کے الفاظ موجود نہیں ہیں
—
الكتاب: الجامع الكبير – سنن الترمذي
المؤلف: محمد بن عيسى بن سَوْرة بن موسى بن الضحاك، الترمذي، أبو عيسى (المتوفى: 279هـ)
المحقق: بشار عواد معروف
الناشر: دار الغرب الإسلامي – بيروت
سنة النشر: 1998 م
عدد الأجزاء: 6
وقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: إِنَّمَا الرُّخْصَةُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي اسْتِدْبَارِ الْقِبْلَةِ بِغَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ، فَأَمَّا اسْتِقْبَالُ الْقِبْلَةِ فَلاَ يَسْتَقْبِلُهَا، كَأَنَّهُ لَمْ يَرَ فِي الصَّحْرَاءِ وَلاَ فِي الْكُنُفِ أَنْ يَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ.
بشار عواد معروف اور احمد شاکر نے امام احمد کے نام کے ساتھ رحمہ الله کے الفاظ نقل نہیں کیے
کیا یہ دونوں ڈاکٹر عثمانی سے متاثر ہیں؟
========
5)مشہور امام حافظ ثقہ ابوزرعة الرازی (المتوفی:264)جیسے لوگ جسکو رحمہ اللہ کہے اسے کون ٹال سکتا ہے (العلل لابن ابی حاتم ص 506)
تبصرہ
الكتاب: العلل لابن أبي حاتم
المؤلف: أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ)
تحقيق: فريق من الباحثين بإشراف وعناية د/ سعد بن عبد الله الحميد و د/ خالد بن عبد الرحمن الجريسي
الناشر: مطابع الحميضي
الطبعة: الأولى، 1427 هـ – 2006 م
عدد الأجزاء: 7 (6 أجزاء ومجلد فهارس)
وسمعتُ (7) أَبَا زُرْعَةَ (8) يَقُولُ: سمعتُ أَحْمَدَ بْنَ حنبل ح (1) يَقُولُ: حديثُ أَبِي الأَحْوَص (2) ، عَنْ سِماك (3) ، عن القاسم ابن عبد الرحمن، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي بُرْدَة: خطأٌ؛ الإسنادُ والكلامُ:
فَأَمَّا الإسنادُ: فإنَّ شَرِيكً (4) وأيُّوبَ ومحمدً (5) ابني جابرٍ رَوَوْهُ (6) عَنْ سِمَاك، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عبد الرحمن، عَنِ ابْنِ بُرَيْدة (7) ، عَنْ أَبِيهِ، عن النبيِّ (ص) كما روى (8) الناسُ: فَانْتَبِذُوا فِي كُلِّ وِعَاءٍ، وَلا تَشْرَبُوا مُسْكِرًا (9) .
قَالَ أَبُو زُرْعَةَ: كَذَا أَقُولُ: هَذَا خطأٌ! أمَّا (10) الصَّحيحُ:
یہاں احمد کے نام کے ساتھ رحمہ الله ایک نسخہ میں تھا محقق نے وضاحت کی
في (ف) : «رضي الله عنه» بدل: «رحمه الله»
نسخہ ف میں «رضي الله عنه کی بجائے رحمہ الله لکھا ہے
کتاب العلل از ابی حاتم میں ساٹھ مرتبہ احمد بن حنبل لکھا ہوا ہے لیکن صرف ایک مقام پر کسی کاتب نے رحمہ الله کر دیا اور کسی دوسرے نے رضی الله عنہ کر دیا
اہل سنت کے آج بقول رضی الله عنہ صرف اصحاب رسول کے لئے ہے – جبکہ جب یہ کاتب لکھتے تھے تو ائمہ تک کو رضی الله عنہ لکھ دیتے تھے
عجیب بات یہ ہے کہ اصحاب رسول میں سے کسی پر بھی نہ رحم کی دعا ہوتی ہے نہ ان کو رضی الله عنہ لکھا گیا لیکن امام احمد کو رضی الله عنہ لکھا گیا
=====
باقی حوالے بے کار ہیں کیونکہ یہ متاخرین متاثرین ہیں احمد کے ہم عصر لوگ نہیں ہیں
امام احمد اور امام بخاری میں اختلاف تھا
⇓ صحیح بخاری اور امام احمد سے رو گردانی
⇓ مسئلہ لفظ احمد اور بخاری
https://www.islamic-belief.net/history/
امام ترمذی اور حنبلی ائمہ دشمن تھے
⇓ کیا نبی صلی الله علیہ وسلم کو روز محشر عرش عظیم پر بٹھایا جائے گا ؟
[/EXPAND]
[دین میں اہل کتاب سے سوال کرنا ؟]
قرآن سورہ النحل آیت ٤٣ میں موجود ہے
فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ
اہل ذکر سے پوچھو اگر تم کو معلوم نہیں ہے
اس میں مشرکوں کو کہا جا رہا ہے کہ تمام انبیاء مرد تھے اگر معلوم کرنا ہے تو اہل کتاب سے پوچھ لو
دوسری طرف صحیح بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اہل کتاب سے سوال مت کرو
حدیث نمبر: 7522
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حاتم بن وردان نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ایوب نے بیا کیا ‘ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ تم اہل کتاب سے ان کی کتابوں کے مسائل کے بارے میں کیونکر سوال کرتے ہو ‘ تمہارے پاس خود اللہ کی کتاب موجود ہے جو زمانہ کے اعتبار سے بھی تم سے سب سے زیادہ قریب ہے ‘ تم اسے پڑھتے ہو ‘ وہ خالص ہے اس میں کوئی ملاوٹ نہیں۔
حدیث نمبر: 7523
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ‘ انہیں زہری نے ‘ انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ اے مسلمانو! تم اہل کتاب سے کسی مسئلہ میں کیوں پوچھتے ہو۔ تمہاری کتاب جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی ہے وہ اللہ کے یہاں سے بالکل تازہ آئی ہے ‘ خالص ‘ ہے اس میں کوئی ملاوٹ نہیں ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے خود تمہیں بتا دیا ہے کہ اہل کتاب نے اللہ کی کتابوں کو بد ل ڈالا۔ وہ ہاتھ سے ایک کتاب لکھتے اور دعویٰ کرتے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے تھوڑی پونچی حاصل کریں ‘ تم کو جو خدا نے قرآن و حدیث کا علم دیا ہے کیا وہ تم کو اس سے منع نہیں کرتاکہ تم دین کی باتیں اہل کتاب سے پوچھو۔ خدا کی قسم ہم تو ان کے کسی آدمی کو نہیں دیکھتے کہ جو کچھ تمہارے اوپر نازل ہوا ہے اس کے متعلق وہ تم سے پوچھتے ہوں۔
جواب
صحیح احادیث میں موجود ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دی ہے کہ اہل کتاب کی بات دین میں بیان کی جا سکتی ہے جو اسلام سے مطابقت رکھتی ہو حدیث میں ہے
رواه أحمد وأبو داود عن أبي هريرة بلفظ: “حدثوا عن بني إسرائيل ولا حرج”.
ورواه البخاري من حديث عبد الله بن عمرو بلفظ: “بلغوا عني ولو آية، وحدثوا عن بني إسرائيل ولا حرج، ومن كذب علي متعمداً، فليتبوأ مقعده من النار”.
ابن عبّاس کا قول ان اسرائیلیات کے رد میں ہے جو متشابھات ہیں مثلا اللہ تعالی سے متعلق اہل کتاب کی روایات جن کی اسلام میں تائید نہیں ہے
كتاب السنة از أبو بكر بن أبي عاصم وهو أحمد بن عمرو بن الضحاك بن مخلد الشيباني (المتوفى: 287هـ) کے مطابق ایک روایت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی رد کی اور البانی سمجھتے ہیں زیر بحث روایت ہو گی
ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ثنا ابْنُ ثَوْرٍ عَنْ مَعْمَرٍ عن ابن طاووس عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: حَدَّثَ رَجُلٌ بِحَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ فَانْتَفَضَ: قال ابن عباس ما بال هؤلاء يجدّون (يحيدون) عند محكمه ويهلكون عند متشابهه.
البانی کے مطابق اغلبا الفاظ يحيدون ہیں اور يجدّون غیر محفوظ ہیں
ابن عباس رضی الله عنہ نے فرمایا يحيدون جھٹک دو (رد کرو) جب کوئی شخص ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث روایت کرے – ابن عباس نے کہا ان جیسوں کو کیا ہوا ہے کہ محکمات سے ہٹ گئے اور متشابھات سے ہلاک ہوئے
البانی کتاب ظِلال الجنة في تخريج السنة میں کہتے ہیں
يعني استنكارا لما سمع من حديث أبي هريرة, ولم أقف على من نبه على المراد بهذا الحديث, ويغلب على الظن أنه حديث “إن اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ” وهو حديث صحيح, مخرج في “سلسلة الأحاديث الصحيحة” 860.
یعنی انکار کیا جب ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث سنی اور میں نہیں جان سکا کہ کون سی حدیث مراد تھی جس کی خبر دی اور جو گمان غالب ہے وہ یہ کہ یہ حدیث ہے کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا اور یہ حدیث صحیح ہے اس کی تخریج الصحیحہ ٨٦٠ میں کی ہے
[/EXPAND]
[اہل حدیث کے مطابق قرآن میں شبھات ہیں ]
سنن الدارمی میں ہے
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ ابْنُ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْأَشَجِّ: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: ” إِنَّهُ [ص:241] سَيَأْتِي نَاسٌ يُجَادِلُونَكُمْ بِشُبُهَاتِ الْقُرْآنِ، فَخُذُوهُمْ بِالسُّنَنِ، فَإِنَّ أَصْحَابَ السُّنَنِ أَعْلَمُ بِكِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ
تعليق المحقق حسين سليم أسد الداراني : إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح وباقي رجاله ثقات
امير المومنين عمر رضي اللہ عنہ فرماتے ہيں عنقريب کچھ لوگ پيدا ہوں گے جو قرآن کے شبھات پر تم سے جھگڑا کريں گے انہيں سنن (سنتوں) سے پکڑو کيوں کہ سنت سے واقف حضرات کتاب اللہ (کے صحيح مفہوم) کو خوب جانتے ہيں
جواب
راقم کہتا ہے اس کی سند منقطع ہے عمر بن الاشج راوي جو عمر رضي اللہ عنہ سے روايت کرنے والے ہيں ان کا سماع عمر سے ثابت نہیں ہے
الإبانة الكبرى لابن بطة میں اس کو بكير بن عبد الله بن الأشج سے بھی روایت کیا گیا ہے یہ بھی منقطع ہے – اس اثر کی تائيد میں ایک دوسرا اثر پیش کیا جاتا ہے جو علي رضي اللہ عنہ سے روايت کیا گیا ہے جس کو لالکائي نے شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة ميں روايت کيا ہے
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَلِيٍّ الْمُقْرِئُ , قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ , قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ الْمَرْوَزِيُّ , قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْمَرْوَزِيُّ , قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ , قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ: «سَيَأْتِي قَوْمٌ يُجَادِلُونَكُمْ فَخُذُوهُمْ بِالسُّنَنِ؛ فَإِنَّ أَصْحَابَ السُّنَنِ أَعْلَمُ بِكِتَابِ اللَّهِ»
یہاں امام موسى الكاظم بن جعفر الصادق اپنے پڑ پڑ دادا علی رضی اللہ عنہ کی بات نقل کر رہے ہیں سند منقطع ہے
اس روایت کو انکارِ حديث کے فتنہ کے حوالے سے پیش کرنے والے احمق ہیں – جب یہ اثر منقطع ہے تو اس کے عیب کو چھپا کر ہر قسم کا منطقع السند متن حلق سے اتروانا محدثین کا شیوا نہیں ہے
قرآن میں اللہ تعالی نے مشابھات کا ذکر کیا ہے جس کا انکار کوئی فرقہ نہیں کرتا البتہ اس میں کیا محکمات میں شبھات رہ گئے ہیں ؟ ایسا قول باطل ہے قرآن میں موجود ہے
مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ
ہم نے اس کتاب میں کچھ نہیں چھوڑا ہے
جو حديث کا علم رکھتے ہيں ان کو چاہيے کہ وہ اس قسم کی منقطع روایات کو پیش نہ کریں ورنہ وہ اپنا مقدمہ خود کمزور کریں گے
[/EXPAND]
[نبی صلی اللہ علیہ وسلم جذبات میں آ کر تنقید کرتے تھے ؟ ]
سنن ابو داود ٤٦٥٩ میں ہے
حدَّثنا أحمدُ بنُ يونس، حدَّثنا زائدةُ بن قُدامة الثَّقفيُّ، حدَّثنا عمر ابن قيس الماصِرُ، عن عمرو بن أبي قُرَّة، قال:
كان حذيفةُ بالمَدَائن، فكانَ يَذْكُرُ أشياءَ قالها رسولُ الله-صلى الله عليه وسلم- لأناسِ من أصحابه في الغضب، فينطلق ناسٌ مِمن سَمعَ ذلك مِنْ حذيفة فيأتون سلمان، فيذكرون له قولَ حذيفة، فيقول سلمانُ: حذيفةُ أعلم بما يقول، فيرجِعُون إلى حذيفة، فيقولون له: قد ذكرنا قولَك لسلمانَ فما صدَّقَكَ ولا كَذَّبكَ، فأتى حذيفةُ سلمانَ، وهو في مَبْقَلةِ فقال: يا سلمان، ما يمنعكَ أن تُصَدِّقني بما سمعتُ من رسول الله-صلى الله عليه وسلم-؟ فقال سلمان: إن رسولَ الله -صلى الله عليه وسلم – كان يَغْضَبُ، فيقول في الغضب لناس من أصحابه، ويَرضَى، فيقول في الرِّضا لناسٍ من أصحابه، أما تنتهي حتى تورِّثَ رجالاً حبَّ رجالٍ ورجالاً بُغْضَ رجال، وحتى تَوقِعَ اختلافاً وفُرقةً؟ ولقد علمتَ أن رسولَ الله -صلى الله عليه وسلم – خطب، فقال: “أيُّما رجُلِ من أمتى سببتُه سَبّةً أو لعنته لَعنةً في غضبي، فإنما أنا مِنْ ولدِ آدمَ أغضبُ كما يغضَبون، وإنما بعثني رحمةً للعالمين، فاجْعَلْها عليهم صلاةً يومَ القيامة” والله لتنتهينَ أو لأكتبنَّ إلى عُمَرَ
عمرو بن ابی قرہ کہتے ہیں کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ مدائن میں تھے اور وہ ان باتوں کا ذکر کیا کرتے تھے ، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب میں سے بعض لوگوں سے غصہ کی حالت میں فرمائی تھیں ، پھر ان میں سے کچھ لوگ جو حذیفہ سے باتیں سنتے چل کر سلمان رضی اللہ عنہ کے پاس آتے اور ان سے حذیفہ رضی اللہ عنہ کی باتوں کا تذکرہ کرتے تو سلمان رضی اللہ عنہ کہتے : حذیفہ ہی اپنی کہی باتوں کو بہتر جانتے ہیں ، تو وہ لوگ حذیفہ کے پاس لوٹ کر آتے اور ان سے کہتے : ہم نے آپ کی باتوں کا تذکرہ سلمان سے کیا تو انہوں نے نہ آپ کی تصدیق کی اور نہ تکذیب ، یہ سن کر حذیفہ سلمان کے پاس آئے ، وہ اپنی ترکاری کے کھیت میں تھے کہنے لگے : اے سلمان ! ان باتوں میں میری تصدیق کرنے سے آپ کو کون سی چیز روک رہی ہے جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہیں ؟ تو سلمان نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلاشبہ کبھی غصے میں اپنے بعض اصحاب سے کچھ باتیں کہہ دیتے اور کبھی خوش ہوتے تو خوشی میں اپنے بعض اصحاب سے کچھ باتیں کہہ دیتے ، تو کیا آپ اس وقت تک باز نہ آئیں گے جب تک کہ بعض لوگوں کے دلوں میں بعض لوگوں کی محبت اور بعض دوسروں کے دلوں میں بعض کی دشمنی نہ ڈال دیں اور ان کو اختلاف میں مبتلا نہ کر دیں ، حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا : ” میں نے اپنی امت کے کسی فرد کو غصے کی حالت میں اگر برا بھلا کہا یا اسے لعن طعن کی تو میں بھی تو آدم کی اولاد میں سے ہوں ، مجھے بھی غصہ آتا ہے جیسے انہیں آتا ہے ، لیکن اللہ نے مجھے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے تو ( اے اللہ ) میرے برا بھلا کہنے اور لعن طعن کو ان لوگوں کے لیے قیامت کے روز رحمت بنا دے “ اللہ کی قسم یا تو آپ اپنی اس حرکت سے باز آ جائیں ورنہ میں عمر بن الخطاب ( امیر المؤمنین ) کو لکھ بھیجوں گا ۔
اس سند کو صحیح کہا گیا ہے البتہ راقم کے نزدیک یہ روایت اشکال سے خالی نہیں ہے – اس کی سند میں راوی عمر بن قيس الماصر مختلف فیہ ہے اس پر جرح بھی ہے اور اس متن میں اس کا تفرد ہے –
تاريخ أسماء الضعفاء والكذابين از ابن شاهين میں ہے
قال عثمان بن أبي شيبة: عمر بن قيس الماصر: ضعيف في الحديث مرجئ
اجری نے ابو داود کا قول ذکر کیا
قال الأوزاعي: أول من تكلم في الإرجاء رجلٌ من أهل الكوفة يقال له: قيس الماصر.
ذكر من اختلف العلماء ونقاد الحديث فيه از ابن شاهين (المتوفى: 385هـ) کے مطابق
روى ابْن شاهين عَن يحيى بن معِين من رِوَايَة الْعَبَّاس بن مُحَمَّد عَنهُ أَنه قَالَ عمر بن قيس الْمَكِّيّ لقبه سندل وَهُوَ ضَعِيف
وَكَذَا قَالَ الْمفضل عَن يحيى
ابن حبان نے عمر بْن قيس الماصر اور عمر بن قيس سندل کو دو الگ الگ راوی گردانا ہے
تہذیب میں ابن حجر کا قول ہے
قال ابن حزم: عمر بن قيس مجهول
اس کی سند میں مجہول راوی بھی ہے لیکن یہاں سنن ابو داود میں راوی نے تدلیس کی ہے – امام علی المدینی نے اپنی کتاب العلل میں ذکر کیا ہے
قَالَ عَلِيٌّ حَدِيثُ سَلْمَانَ أَيُّمَا رَجُلٍ سَبَبْتُهُ أولعنته رَوَاهُ زَائِدَةُ عَنْ عُمَرَ بْنِ قَيْسٍ الْمَاصِرِ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي قُرَّةَ عَنْ رَجُلٍ عَنْ سلمَان فأفسده
امام علی کے بقول یہاں سند میں زَائِدَةُ نے عن رجل کہا تھا
راقم کہتا ہے کہ اغلبا ابو داود نے اس سند میں خود ہی تصحیح کر دی ہے اور اس میں عن رجل حذف کر دیا
ارجاء کا قول تھا کہ اصحاب رسول کے گناہ کبیرہ پر وہ کافر نہیں ہیں – اس روایت میں ذکر ہے کہ سلمان کو اعتراض ہوا کہ اگر نبی نے بعض اصحاب پر تنقید کی تو اس کو حذیفہ نے چھپا کیوں نہیں دیا – اس طرح اس سے ثابت ہوا کہ کتم علم جائز ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جذبات کے تحت تنقید کرتے تھے اس کو سنجیدگی سے نہ لیا جائے
راقم کہتا ہے یہ روایت منکر ہے اور سند میں راوی کا تفرد ہے جس پر جرح بھی ہے
[/EXPAND]
عمرو بن العاص کی وصیت پر تیسری نظر
فرقہ اہل حدیث جن کا دعوی ہے کہ وہ کتب احادیث کو جانتے ہیں – ان کی علمی سطحیت کا عالم یہ ہوا ہے کہ عصر حاضر کے ان کے چند محققین کی جانب سے ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ کے خلاف باطل پروپیگنڈا جاری ہے کہ ڈاکٹر مرحوم نے صحیح مسلم کی روایت میں مطلب براری کے لئے اس کا متن تبدیل کیا اور روایت کے وہ الفاظ نقل کیے جو درحقیقت اس کے نہیں – اس سلسلے میں ان کو جو ” ناریل” ہاتھ لگا ہے وہ یہ ہے کہ عثمانی صاحب نے عمرو بن العاص رضی الله عنہ کی وہ روایت جس میں ان کی جان کنی کے عالم کا ذکر ہے – اس میں الفاظ کو تبدیل کیا لہذا کہا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے سیاقتہ الموت کو سیاق الموت اور تنحر کو ینحر کر دیا تاکہ اپنا مدعا ثابت کر سکیں
سیاقتہ الموت یا سیاق الموت
یہ الفاظ کتاب مشكاة المصابيح از محمد بن عبد الله الخطيب العمري، أبو عبد الله، ولي الدين، التبريزي (المتوفى: 741هـ) میں ہیں
وَعَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ لِابْنِهِ وَهُوَ فِي سِيَاقِ الْمَوْتِ: إِذَا أَنَا مُتُّ فَلَا تَصْحَبْنِي نَائِحَةٌ وَلَا نَارٌ فَإِذَا دَفَنْتُمُونِي فَشُنُّوا عَلَيَّ التُّرَابَ شَنًّا ثُمَّ أَقِيمُوا حَوْلَ قَبْرِي قَدْرَ مَا يُنْحَرُ جَزُورٌ وَيُقَسَّمُ لَحْمُهَا حَتَّى أَسْتَأْنِسَ بِكُمْ وَأَعْلَمَ مَاذَا أُرَاجِعُ بِهِ رُسُلَ رَبِّي. رَوَاهُ مُسلم
احادیث کی تخریج کی کتاب جامع الأصول في أحاديث الرسول از مجد الدين أبو السعادات المبارك بن محمد بن محمد بن محمد ابن عبد الكريم الشيباني الجزري ابن الأثير (المتوفى : 606هـ) میں ہے کہ صحیح مسلم کے الفاظ ہیں
–عبد الرحمن بن شماسة المهدي – رحمه الله -: قال: «حضرنا عمرو بن العاص [وهو] في سِياقِ الموت، فبكى طويلاً، وحول وجهه إلى الجدار
ابن اثیر کے مطابق بھی صحیح مسلم میں الفاظ ہیں سیاق الموت
کتاب جمع الفوائد من جامع الأصول ومجمع الزَّوائِد از محمد بن محمد بن سليمان بن الفاسي بن طاهر السوسي الردواني المغربي المالكي (المتوفى: 1094هـ) کے مطابق صحیح مسلم کی اس حدیث کے الفاظ ہیں
عبد الله بن شماسة المهري: حضرنا عمرو بن العاص وهو في سياق الموت فبكى طويلًا وحوَّل وجهه إلى الجدار فجعل ابنه يقول: ما يبكيك يا أبتاه؟ أما بشرك
معلوم ہوا کہ ہے قدیم نسخوں سیاقه الموت کی بجائے سیاق الموت بھی لکھا تھا
سیاق الموت یا سیاقه الموت میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے
شرح صحیح مسلم از النووی میں ہے
وَأَمَّا أَلْفَاظُ مَتْنِهِ فَقَوْلُهُ (فِي سِيَاقَةِ الْمَوْتِ) هُوَ بِكَسْرِ السين أى حال حضور الموت
اور متن کے الفاظ فِي سِيَاقَةِ الْمَوْتِ … یعنی موت کے حاضر ہونے کے حال پر تھے
مبارکپوری اہل حدیث کتاب مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں لکھتے ہیں
يقال: ساق المريض نفسه وسيق إذا شرع في نزع الروح.
یہ نزع الروح کا وقت ہے
یہی مفہوم عربی لغت میں لکھا ہے جس کا ذکر الدكتور موسى شاهين لاشين کتاب فتح المنعم شرح صحيح مسلم میں کرتے ہیں
وفي القاموس: ساق المريض شرع في نزع الروح.
محمد الأمين بن عبد الله الأُرَمي العَلَوي الهَرَري الشافعي کتاب الكوكب الوهاج شرح صحيح مسلم میں کہتے ہیں
أن عمرًا (في سياقة الموت) أي في سكرة الموت وحضور مقدماته
عمرو سیاق الموت میں تھے یعنی سکرات الموت میں تھے اس کے مقدمات کی حاضری پر
اس حال میں زبان صحابی سے جو کلام ادا ہوا اس کو علماء نے بدعت قرار دیا ہے جس میں محمد بن صالح العثيمين بھی ہیں
خواجہ محمد قاسم کراچی کا عثمانی مذھب میں لکھتے ہیں عمرو بن العاص کا خیال صحیح نہیں تھا
تنحر یا ینحر
شرح السنة از البغوي الشافعي (المتوفى: 516هـ) میں اس روایت میں ہے
وَقَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ فِي سِيَاقَةِ الْمَوْتِ، وَهُوَ يَبْكِي: أَنَا مِتُّ فَلا يَصْحَبْنِي نَائِحَةٌ وَلا نَارٌ، فَإِذَا دَفَنْتُمُونِي، فَسُنُّوا عَلَيَّ التُّرَابَ سَنًّا، ثُمَّ أَقِيمُوا حَوْلَ قَبْرِي قَدْرَ مَا يُنْحَرُ جَزُورٌ، وَيُقَسَّمُ لَحْمُهَا حَتَّى أَسْتَأْنِسَ بِكُمْ، وَأَنْظُرَ مَاذَا أُرَاجِعُ بِهِ رُسُلَ رَبِّي
یہاں بھی يُنْحَرُ ہے
ایمان ابن مندہ المتوفي ٣٩٥ ھ میں ہے
أَنْبَأَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْمُقْرِي، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى الزُّجَاجُ، ح، وَأَنْبَأَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ، ثَنَا هَارُونُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: ثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، ثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِمَاسَةَ الْمَهْرِيِّ، قَالَ: حَضَرْنَا عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ وَهُوَ فِي سِيَاقَةِ الْمَوْتِ فَحَوَّلَ وَجْهَهُ إِلَى الْحَائِطِ يَبْكِي طَوِيلًا وَابْنُهُ يَقُول….. فَإِذَا مُتُّ فَلَا تَصْحَبْنِي نَائِحَةٌ، وَلَا نَارٌ، فَإِذَا دَفَنْتُمُونِي فَشُنُّوا عَلَيَّ التُّرَابَ شَنًّا، فَإِذَا فَرَغْتُمْ مِنْ دَفْنِي، فَامْكُثُوا حَوْلِي قَدْرَ مَا يُنْحَرُ جَزُورٌ، وَيُقْسَمُ لَحْمُهَا فَإِنِّي آنَسُ بِكُمْ حَتَّى أَعْلَمَ مَاذَا أُرَاجِعُ بِهِ رُسُلَ رَبِّي
ابن مندہ کے مطابق متن میں یہاں يُنْحَرُ ہے
التلخيص الحبير في تخريج أحاديث الرافعي الكبيراز أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) میں ہے
وَفِي صَحِيحِ مُسْلِمٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّهُ قَالَ لَهُمْ فِي حَدِيثٍ عِنْدَ مَوْتِهِ “إذَا دَفَنْتُمُونِي أَقِيمُوا حَوْلَ قَبْرِي قَدْرَ مَا يُنْحَرُ جَزُورٍ وَيُقَسَّمُ لَحْمُهَا حَتَّى أَسْتَأْنِسَ بِكُمْ وَأَعْلَمَ مَاذَا أُرَاجِعُ رُسُلَ رَبِّي”
اور صحیح مسلم میں ہے کہ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ نے اپنی موت کے وقت ان سے کہا … “إذَا دَفَنْتُمُونِي أَقِيمُوا حَوْلَ قَبْرِي قَدْرَ مَا يُنْحَرُ جَزُورٍ وَيُقَسَّمُ لَحْمُهَا حَتَّى أَسْتَأْنِسَ بِكُمْ وَأَعْلَمَ مَاذَا أُرَاجِعُ رُسُلَ رَبِّي”
یہاں بھی يُنْحَرُ ہے
البدر المنير في تخريج الأحاديث والأثار الواقعة في الشرح الكبير از ابن الملقن الشافعي المصري (المتوفى: 804هـ) کے مطابق
وَمِنْهَا: حَدِيث عَمْرو بن الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْه أَنه قَالَ: «إِذا دفنتموني فسنوا عَلّي التُّرَاب سنّا، ثمَّ أقِيمُوا حول قَبْرِي قدر مَا ينْحَر جزور وَيقسم لَحمهَا؛ حَتَّى أستأنس بكم، وَأعلم مَاذَا أراجع رسل رَبِّي» . رَوَاهُ مُسلم فِي «صَحِيحه» فِي كتاب الْإِيمَان، وَهُوَ بعض من حَدِيث طَوِيل.
حَدِيث عَمْرو بن الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْه میں ينْحَر ہے جس کو امام مسلم نے صحیح میں روایت کیا ہے
ڈاکٹر عثمانی سے پہلے بھی لوگ اس روایت میں سیاق الموت اور ینحر کے الفاظ نقل کرتے رہے ہیں اور کہتے رہے ہیں یہ صحیح مسلم کے ہیں
معلوم ہوا فرقہ پرستوں کا پروپیگنڈا بالکل باطل ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے الفاظ اپنا مدعا ثابت کرنے کے لئے تبدیل کیے
روایات کے الفاظ مختلف نسخوں میں الگ الگ ہوئے اس وجہ سے یہ اختلاف پیدا ہوا چونکہ صحیح مسلم کا وہ نسخہ جو برصغیر میں ہے اس میں وہ الفاظ نہیں تھے جو اوپر دیے گئے ہیں طاغوت پرستوں نے عوام کے لئے شوشہ چھوڑا کہ یہ ڈاکٹر نے اپنے مقصد حاصل کرنے کے لئے تبدیل کیے ہیں جبکہ ان درس حدیث دینے والوں کو تو خوب معلوم ہو گا کہ یہ تبدیلی کیوں اور کیسے ہوتی ہے – یہ حال ہوا ہے امت کے علماء کا
یاد رہے کہ الله کا حکم ہے
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
اے ایمان والوں الله کے لئے عدل کے گواہ بن کر کھڑے ہو اور ایسا نہ ہو کہ کسی قوم کی دشنمی تم کو اکسائے کہ عدل نہ کرو عدل کرو یہ تقوی کے قریب ہے اور الله سے ڈرو بے شک الله جانتا ہے جو تم کرتے ہو
علم حدیث ٣
صحيح البخاري: كِتَابُ الرِّقَاقِ (بَابُ رَفْعِ الأَمَانَةِ) صحیح بخاری: کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں (باب: ( آخر زمانہ میں ) دنیا سے امانت داری کا اٹھ جانا)
6497 .
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا حُذَيْفَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثَيْنِ، رَأَيْتُ أَحَدَهُمَا وَأَنَا أَنْتَظِرُ الآخَرَ: حَدَّثَنَا: «أَنَّ الأَمَانَةَ نَزَلَتْ فِي جَذْرِ قُلُوبِ الرِّجَالِ، ثُمَّ عَلِمُوا مِنَ القُرْآنِ، ثُمَّ عَلِمُوا مِنَ السُّنَّةِ» وَحَدَّثَنَا عَنْ رَفْعِهَا قَالَ: يَنَامُ الرَّجُلُ النَّوْمَةَ، فَتُقْبَضُ الأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِهِ، فَيَظَلُّ أَثَرُهَا مِثْلَ أَثَرِ الوَكْتِ، ثُمَّ يَنَامُ النَّوْمَةَ فَتُقْبَضُ فَيَبْقَى أَثَرُهَا مِثْلَ المَجْلِ، كَجَمْرٍ دَحْرَجْتَهُ عَلَى رِجْلِكَ فَنَفِطَ، فَتَرَاهُ مُنْتَبِرًا وَلَيْسَ فِيهِ شَيْءٌ، فَيُصْبِحُ النَّاسُ يَتَبَايَعُونَ، فَلاَ يَكَادُ أَحَدٌ يُؤَدِّي الأَمَانَةَ، فَيُقَالُ: إِنَّ فِي بَنِي فُلاَنٍ رَجُلًا أَمِينًا، وَيُقَالُ لِلرَّجُلِ: مَا أَعْقَلَهُ وَمَا أَظْرَفَهُ وَمَا أَجْلَدَهُ، وَمَا فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةِ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ وَلَقَدْ أَتَى عَلَيَّ زَمَانٌ وَمَا أُبَالِي أَيَّكُمْ بَايَعْتُ، لَئِنْ كَانَ مُسْلِمًا رَدَّهُ عَلَيَّ الإِسْلاَمُ، وَإِنْ كَانَ نَصْرَانِيًّا رَدَّهُ عَلَيَّ سَاعِيهِ، فَأَمَّا اليَوْمَ: فَمَا كُنْتُ أُبَايِعُ إِلَّا فُلاَنًا وَفُلاَنًا
حکم : صحیح 6497 .
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا ، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبردی، کہاہم سے اعمش نے بیان کیا، کہاان سے زید بن وہب نے ، کہا ہم سے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوحدیثیں ارشاد فرمائیں ۔ ایک کا ظہور تو میں دیکھ چکا ہوں اور دوسری کا منتظر ہوں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا کہ امانت لوگوں کے دلوں کی گہرائیوں میں اترتی ہے ۔ پھر قرآن شریف سے۔ پھر حدیث شریف سے اس کی مضبوطی ہوتی جاتی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے اس کے اٹھ جانے کے متعلق ارشاد فرمایا کہ ” آدمی ایک نیند سوئے گا اور ( اسی میں ) امانت اس کے دل سے ختم ہوئے گی اور اس بے ایمانی کا ہلکا نشان پڑجائے گا ۔ پھر ایک اور نیند لے گا اب اس کا نشان چھالے کی طرح ہوجائے گاجیسے تو پاؤں پر ایک چنگاری لڑھکائے تو ظاہر میں ایک چھالا پھول آتا ہے اس کو پھولا دیکھتا ہے ، پر اندر کچھ نہیں ہوتا۔ پھر حال یہ ہوجائے گا کہ صبح اٹھ کر لوگ خرید وفروخت کریں گے اور کوئی شخص امانت دار نہیں ہوگا۔ کہا جائے گا کہ بنی فلاں میں ایک امانت دار شخص ہے ۔ کسی شخص کے متعلق کہا جائے گا کہ کتنا عقل مند ہے، کتنا بلند حوصلہ ہے اور کتنا بہادر ہے۔ حالانکہ اس کے دل میں رائی برابر بھی ایمان ( امانت ) نہیں ہوگا ۔ “ ( حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ) میں نے ایک ایسا وقت بھی گذارا ہے کہ میں اس کی پروا نہیں کرتا تھاکہ کس سے خرید وفروخت کرتا ہوں ۔ اگر وہ مسلمان ہوتا تو اس کو اسلام ( بے ایمانی سے ) روکتا تھا۔ اگر وہ نصرانی ہوتا تو اس کا مددگار اسے روکتا تھا لیکن اب میں فلاں اور فلاں کے سوا کسی سے خرید وفروخت ہی نہیں کرتا۔
—
کے بعد یہ لکھا ہوا ہے
قَالَ الْفِرَبْرِىُّ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ حَدَّثْنا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ فَقَالَ سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ عَاصِمٍ یَقُولُ سَمِعْتُ أَبَا عُبَیْدٍ یَقُولُ قَالَ الأَصْمَعِىُّ وَأَبُو عَمْرٍو وَغَیْرُهُمَا جَذْرُ قُلُوبِ الرِّجَالِ الْجَذْرُ الأَصْلُ مِنْ کُلِّ شَىْءٍ ، وَالْوَکْتُ أَثَرُ الشَّىْءِ الْیَسِیرُ مِنْهُ ، وَالْمَجْلُ أَثَرُ الْعَمَلِ فِى الْکَفِّ إِذَا غَلُظَ
ابن حجر اس پر کہتے ہیں کہ
قوله قال الفربری ثبت ذلک فی روایة المستملی وحده وأبو جعفر الذی روى عنه هنا هو محمد بن أبی حاتم البخاری وراق البخاری أی ناسخ کتبه وقوله حدثت أبا عبد الله یرید البخاری
جواب
امام بخاری کے کئی شاگرد تھے اس میں دو کا یہاں ذکر ہے
محمد بن أبی حاتم البخاری وراق البخاری
اور فربری کا
دونوں نے امام بخاری سے صحیح کو لیا لیکن فربری نے اپنے نسخے پر محمد بن أبی حاتم البخاری وراق البخاری کے بھی بعض جملے لکھے جو امام بخاری نے ان محمد بن أبی حاتم البخاری وراق البخاری سے کہے تھے یہ کچھ نوٹ یا تبصرہ کی مانند ہیں
یعنی الف کے دو شاگرد ہیں ب اور ج
ب نے الف سے لکھا
ج نے الف سے لکھا
پھر الف کا انتقال ہوا اور ب نے ج کے نوٹ بھی اپنے نسخے میں شامل کیے
صحيح البخاري: كِتَابُ العِلْمِ (بَابٌ كَيْفَ يُقْبَضُ العِلْمُ) صحیح بخاری: کتاب: علم کے بیان میں (باب: علم کس طرح اٹھا لیا جائےگا)
100 .
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ العَاصِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ اللَّهَ لاَ يَقْبِضُ العِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ العِبَادِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ العِلْمَ بِقَبْضِ العُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا»
قَالَ الفِرَبْرِيُّ: حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ هِشَامٍ نَحْوَهُ
حکم : صحیح 100 .
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، ان سے مالک نے ہشام بن عروہ سے، انھوں نے اپنے باپ سے نقل کیا، انھوں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے نقل کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے۔ بلکہ وہ ( پختہ کار ) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔
فربری نے کہا ہم سے عباس نے بیان کیا، کہا ہم سے قتیبہ نے، کہا ہم سے جریر نے، انھوں نے ہشام سے مانند اس حدیث کے۔
—-
ابن حجر عسقلانی اس روایت پر کہتے ہیں
قوله «قال الفربری»
هذا من زیادات الراوی عن البخاری فی بعض الأسانید وهی قلیلة
اور بدر الدین عینی عمدة القاری شرح صحیح البخاری میں کہتے ہیں کہ
قال الفِرَبْرِیُّ : حدّثنا عبَّاسٌ قالَ : حدّثنا قُتیْبَةُ ، حدّثنا جَریرٌ عنْ هِشَامٍ نحْوَهُ
هذا من زیادات الراوی عن البخاری فی بعض الأسانید وهی قلیلة . والفربری ، بکسر الفاء وفتحها وفتح الراء وإسکان الباء الموحدة : نسبة إلى فربر ، وهی قریة من قرى بخارى على طرف جیحون ، وهو أبو عبد اللَّه محمد بن یوسف بن مطر بن صالح بن بشر . وقال الکلاباذی : کان سماع الفربری من البخاری ( صحیحه ) مرتین : مرة بفربر سنة ثمان وأربعین ومائتین ، ومرة ببخارى سنة ثنتین وخمسین ومائتین . ولد سنة إحدى وثلاثین ومائتین ، ومات سنة عشرین وثلثمائة
اس کا مطلب ہے فربری نے بخاری کے نسخہ میں تین مقام پر اپنی سند سے روایت بیان کی
[صحیح بخاری کے ایک راوی مُحَمَّدُ بْنُ یُوسُفَ الْفِرَبْرِىُّ اپنی سند ڈائریکٹ امام بخاری سے دیتے ہیں]
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یُوسُفَ الْفِرَبْرِىُّ وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ الْبُخَارِىُّ قَالَ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ سُفْیَانَ قَالَ إِذَا قُرِئَ عَلَى الْمُحَدِّثِ فَلاَ بَأْسَ أَنْ یَقُولَ حَدَّثَنِى . قَالَ وَسَمِعْتُ أَبَا عَاصِمٍ یَقُولُ عَنْ مَالِکٍ وَسُفْیَانَ الْقِرَاءَةُ عَلَى الْعَالِمِ وَقِرَاءَتُهُ سَوَاءٌ.
لنک
http://library.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?idfrom=63&idto=63&bk_no=0&ID=51
http://hadith.al-islam.com/Page.aspx?pageid=192&BookID=24&PID=63
https://sunnah.com/bukhari/3/5#!
جب وہ ڈائریکٹ امام بخاری سے سن رہے ہیں تو بچ میں دوسرے راوی ڈالنے کی کیا ضرورت ہے ان کو بعض اوقات تو بغیر نام لئے کہہ دیتے ہیں کہ
قلت لِأَبِی عبد اللَّهِ من یقول سمعت رَسُولَ اللَّهِ صلى الله علیه وسلم جُنْدَبٌ قال نعم جُنْدَبٌ
جیسا کہ اس حدیث میں ہے
لنک
http://islamicurdubooks.com/Sahih-Bukhari/Sahih-Bukhari-.php?hadith_number=7152
یہ ایسا کیوں کرتے ہیں
ابن حجر اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ
وأبو عبد الله المذکور هو المصنف والسائل له الفربری وقد خلت روایة النسفی عن ذلک
اور بدر الدین عینی عمدة القاری شرح صحیح البخاری میں لکھتے ہیں کہ
قوله : قلت لأبی عبد الله أبو عبد الله هو البخاری ، والقائل له هو الفربری ، ولیس هذا فی روایة النسفی
آپ سے وضاحت چاہیے – امید ہے کہ آپ ضررور جواب دیں گے
جواب
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یُوسُفَ الْفِرَبْرِىُّ وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ الْبُخَارِىُّ
یہ فربری کی سند نہیں عبيد الله کی سند ہے جو فربری کے شاگرد ہیں یہ ان کا اس مقام پر اضافہ ہے
فيض الباري على صحيح البخاری اور التوشيح شرح الجامع الصحيح میں اس ایسا ہی ہے
حَدَّثَنَا عبيد الله وَأَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ الْفِرَبْرِىُّ وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْبُخَارِىُّ قَالَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ سُفْيَانَ قَالَ إِذَا قُرِئَ عَلَى الْمُحَدِّثِ
یہ الصَّغانّي کے نسخہ میں ہے اور اس کی سند بھی فربری تک جاتی ہے
باقی عینی اور ابن حجر نے ایسا کچھ نہیں کہا جس سے اختلاف ہو
فربری کبھی امام بخاری کو ابو عبد الله کنیت سے بھی کہتے ہیں
قال محمد بن يوسف الفربري: ذكر عن أبي عبد الله،
——–
یہ اسناد چند مقام پر ناقل کتاب کی سند کی وجہ سے ہیں
[/EXPAND]
[امام بخاری کہتے ہیں تقیہ قیامت تک جاری رہے گا۔؟]
صحیح بخاری کی روایت ہے کہ حضرت حسن بصری سے۔ التقیت الله یوم القیامه۔ تقیہ قیامت تک جاری رہے گا۔ اب کیا کہیں گے
جواب
وَقَالَ الحَسَنُ: «التَّقِيَّةُ إِلَى يَوْمِ القِيَامَةِ
فتح الباری میں اس پر ہے
مِنْ رِوَايَةِ عَوْفٍ الْأَعْرَابِيِّ عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ قَالَ التَّقِيَّةُ جَائِزَةٌ لِلْمُؤْمِنِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ إِلَّا أَنَّهُ كَانَ لَا يَجْعَلُ فِي الْقَتْلِ تَقِيَّةً
اس کی سند میں عَوْفٍ الْأَعْرَابِيِّ ہے جو بصرہ کا شیعہ ہے اس پر جرح بھی ہے
[/EXPAND]
[امام بخاری اپنی کتاب میں اپنی تاریخ وفات لکھ کر مرے ؟]
امام بخاری اپنی کتاب التاریخ الأوسط (الصغیر) للبخاری جلد ٢ صفحہ ٣٦٧ میں لکھتے ہیں کہ
مَاتَ أَبُو عبد الله مُحَمَّد بن إِسْمَاعِیل البُخَارِیّ رَحمَه الله فِی سنة سِتّ وَخمسین وَمِائَتَیْنِ لَیْلَة الْفطر من یَوْم الْجُمُعَة عِنْد صَلَاة الْعشَاء وَدفن یَوْم الْفطر بعد صَلَاة الظّهْر وَمَات بسمرقند فِی قَرْیَة یُقَال لَهَا خرتنک وَدفن بهَا رَحْمَة الله عَلَیْهِ ورضوانه
جواب
یہ ناقل کتاب کے الفاظ ہیں
اس کا علم میں ہونا چاہیے کہ دور قدیم میں کتب پبلشر سے نہیں لی جاتی تھیں- آدمی اعلان کرتا تھا کہ اس نے کتاب لکھی ہے اس سے جا کر لوگ اس کی کتاب سنتے اور لکھتے تھے
ایسا تمام کتب میں ہے
[/EXPAND]
[خلف بن سالم المخرمى کی کتاب الجمل و صفین پر سوال ہے]
تحقیق چاہیے
أَخْبَرَنِي عِصْمَةُ بْنُ عَاصِمٍ، قَالَ: قَالَ حَنْبَلٌ: أَرَدْتُ أَنْ أَكْتُبَ كِتَابَ صِفِّينَ وَالْجَمَلَ عَنْ خَلَفِ بْنِ سَالِمٍ، فَأَتَيْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ أُكَلِّمُهُ فِي ذَاكَ وَأَسْأَلُهُ، فَقَالَ: «وَمَا تَصْنَعُ بِذَاكَ وَلَيْسَ فِيهِ حَلَالٌ وَلَا حَرَامٌ؟ وَقَدْ كَتَبْتُ مَعَ خَلَفٍ حَيْثُ كَتَبَهُ، فَكَتَبْتُ الْأَسَانِيدَ وَتَرَكْتُ الْكَلَامَ، وَكَتَبَهَا خَلَفٌ، وَحَضَرْتُ عِنْدَ غُنْدَرٍ وَاجْتَمَعْنَا عِنْدَهُ، فَكَتَبْتُ أَسَانِيدَ حَدِيثِ شُعْبَةَ وَكَتَبَهَا خَلَفٌ عَلَى وَجْهِهَا» ، قُلْتُ لَهُ: وَلِمَ كَتَبْتَ الْأَسَانِيدَ وَتَرَكْتَ الْكَلَامَ؟ قَالَ: أَرَدْتُ أَنْ أَعْرِفَ مَا رَوَى شُعْبَةُ مِنْهَا. قَالَ حَنْبَلٌ: فَأَتَيْتُ خَلَفًا فَكَتَبْتُهَا، فَبَلَغَ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ فَقَالَ لِأَبِي: خُذِ الْكِتَابَ فَاحْبِسْهُ عَنْهُ، وَلَا تَدَعْهُ يَنْظُرُ فِيهِ ”
السنة لأبي بكر بن الخلال جلد ٤ صفحہ ٤٦٤
جواب
حنبل بن اسحاق نے کہا میں نے ارادہ کیا کہ خلف بن سالم المخرمى أبو محمد المهلبى (المتوفی ٢٣١ ھ) سے کتاب صفین و جمل لکھوں پس میں امام احمد کے پاس گیا اس پر ان سے کلام کیا اور سوال کیا- پس احمد نے کہا :تم نے یہ کیا (بتنگڑ) بنا دیا ہے اس (کتاب) میں کیا حلال و حرام (کا مسئلہ) ہے ؟ (یعنی لکھ لو) – میں نے خلف سے لکھا جیسا اس نے لکھا پس اسناد لکھیں اور کلام ترک کر دیا اور اس کو پیچھے لکھا اور غُنْدَرٌ مُحَمَّدُ بنُ جَعْفَرٍ الهُذَلِيُّ کے پاس پہنچا اور ہم ان کے پاس جمع ہوئے پس ہم نے شعبہ کی احادیث کی اسناد لکھ لیں اور اس (خلف کے) نسخہ کے پیچھے (غندر کے نسخہ کی اسناد کو) بھی لکھا – میں نے غندر سے کہا اپ نے اسناد لکھیں کلام چھوڑ دیا تھا؟ غندر نے کہا میں نے ارادہ کیا کہ میں دیکھوں شعبہ نے ان (راویوں) سے کیا روایت کیا ہے – حنبل بن اسحاق نے کہا میں نے کتاب کے پیچھے دیکھا کیا لکھا ہے اس کو امام احمد کے پاس لایا ان سے کہا اس کتاب کو لیں اور یہ چھپا دیں اور اس پر نظر نہ ڈالیں
قَالَ أَحْمَدُ بنُ حَنْبَلٍ: قَالَ غُنْدَرٌ: لَزِمْتُ شُعْبَةَ عِشْرِيْنَ سَنَةً.
أحمد نے کہا غندر نے کہا میں نے ٢٠ سال شعبہ کو لازم رکھا یعنی ساتھ رہا
غندر شعبہ کی احادیث کو جانتے تھے اور خلف بن سالم نے اسناد میں شعبہ سے روایت کیا تھا لہذا کتاب حنبل لے کر غندر کے پاس پہنچے اس کی اسناد کا ان لوگوں نے غندر کی اسناد سے تقابل کیا ان کو چیک کرنے کے لئے اور متن دونوں غندر اور حنبل نے چھوڑ دیا جو ظاہر کرتا ہے ان کو اسناد پر شک تھا – پھر خلف کی کتاب کو احمد کے پاس لائے اور کہا یہ چھپا دیں یعنی یہ پہلے اپ نے جو کہا تھا کہ اس میں کیا حلال و حرام ہے اس میں تو یہ کچھ ہے
الذھبی نے مُحَمَّدُ بنُ جَعْفَرٍ غُنْدَرٌ کا ذکر خلف بن سالم کے مشائخ میں سے کیا ہے
امام احمد نے خلف کی تعریف کی ہے کہ یہ کذاب نہیں تھے
قال ابن أبي خيثمة: قلت ليحيى رجل وجب عليه الحد في قرية يزعم أنه ثقة. قال من هو؟ قلت: خلف بن سالم، قال: ذاك إنما شتم بنت حاتم مرة واحدة.
ابن أبي خيثمة:نے کہا : میں نے یحیی سے کہا ایک مرد ہے جو دعوی کرتا ہے ثقہ ہے اس قریہ میں اس پر حد واجب ہے – بولے کون؟ میں نے کہا خلف بن سالم- یحیی نے کہا اس نے بنت حاتم کو ایک بار گالی دی تھی
[/EXPAND]
[معجم الشيوخ الكبير للذهبي میں امام ذھبی نے اپنی تاریخ وفات کے بعد مرنے والوں کی وفات کا ذکر کیا ہے ]
معجم الشيوخ الكبير للذهبي امام ذھبی کی ایک مشہور کتاب ہے
امام ذہبی خود ٧٤٨ھ میں اس دنیا سے چلے گئے اور اس کتاب میں لکھ رہے ہیں کہ
١.
مُحَمَّدُ بْنُ جَابِرِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْفَقِیهُ الْمُقْرِئُ الْمُحَدِّثُ الرَّحَّالُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْوَادِی آشِی ثُمَّ التُّونُسِیُّ الْمَالِکِیُّ
تُوُفِّیَ مُحَمَّدُ بْنُ جَابِرٍ فِی رَبِیعٍ الأَوَّلِ سَنَةَ تِسْعٍ وَأَرْبَعِینَ وَسَبْعِ مِائَةٍ.
لنک
http://shamela.ws/browse.php/book-12531/page-592
٢.
عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الْکَافِی بْنِ عَلِیِّ بْنِ تَمَّامٍ قَاضِی الْقُضَاةِ الْحَافِظُ الْعَلامَةُ الْبَارِعُ عَالِمُ الدِّیَارِ الْمِصْرِیَّةِ تَقِیُّ الدِّینِ أَبُو الْحَسَنِ الْقَاضِی زَیْدُ الدِّینِ السُّبْکِیُّ الْمِصْرِیُّ الشَّافِعِیُّ الْمُحَدِّثُ :
تُوُفِّیَ قَاضِی الْقُضَاةِ سَنَةَ سِتٍّ وَخَمْسِینَ وَسَبْعِ مِائَةٍ بِالْقَاهِرَةِ
لنک
http://shamela.ws/browse.php/book-12531/page-447
خود امام ذھبی اس دنیا سے چلے گئے تو پھر انہوں نے اپنی موت کے بعد مرنے والے کی تاریخ وفات کیسے لکھ دی؟؟؟؟
حیرت ہے کہ کتاب کے محقق نے بھی اس بارے میں کوئی حاشیہ آرائی نہیں کی ہے واضح رہے کہ اصل مخطوطہ میں بھی یہی عبارت موجود ہے
ایسی غلطیاں اگر ہوتی رہتی ہیں تو ان غلطیوں کا ثبوت چاہیے ، جس نے غلطی کی نشاندہی کی ہے وہ اصل متن میں نہ کہ حاشیہ پر ؟ کتاب کے محقق نے اس مقام پر کوئی حاشیہ آرائی نہیں کی ہے، لہٰذا یہ کسی اور کی غلطی ہے اس کا ثبوت چاہئے، نیز جب اس طرح کی خلاف واقعہ بات اصل متن میں درج ہے تو اس بات کی کیا گیارنٹی ہے کہ یہ کتاب صحیح ہے
جواب ضرور دیں پلیز پلیز
جواب
اس کتاب کا نسخہ جو مکتبہ الصدیق سے محقق محمد حبيب ألهيلة کی تحقیق کے ساتھ ہے اس میں ان دونوں مقامات پر موجود ہے کہ یہ الفاظ ایک دوسرے خط سے حاشیہ میں نسخہ میں اصل متن کے ساتھ لکھے تھے
جو ظاہر ہے کہ الذہبی کے بعد اس میں ناقل نے شامل کیے
عکس یہاں دیکھ سکتے ہیں
https://www.islamic-belief.net/wp-content/uploads/2017/08/معجم-شیوخ-میں-اضافہ٢.png
https://www.islamic-belief.net/wp-content/uploads/2017/08/معجم-شیوخ-میں-اضافہ١.png
[/EXPAND]
[مُحَمَّد بن يُونُس الْجمال کون ہے اور امام مسلم نے اس کا نام اپنی صحیح میں کیوں حذف کیا ]
جواب
امام حاکم نے تسمية من أخرجهم البخاري ومسلم میں
المزی نے تہذیب الکمال میں
الذھبی نے سیر الاعلام النبلاء اور تاریخ الاسلام میں اور روایت بھی دی جو صحیح مسلم میں نہیں
اور راقم کو صحیح مسلم کی شروحات میں بھی یہ روایت نہیں ملی
یہ روایت متاخرین کو نہیں ملی ایسا کہا
بشار عواد معروف نے تہذیب الکمال کے حاشیہ میں
ابن حجر نے : و لم يثبت أن مسلما روى عنه یہ ثابت نہیں مسلم نے اس سے روایت کیا لیکن لسان المیزان میں کہا قيل: إن مسلما روى عنه کہا جاتا ہے مسلم نے اس سے روایت کیا ہے
=========
اغلبا اس سے مسلم نے صحیح سے باہر کسی کتاب میں روایت کیا ہے جو اب موجود نہیں ہے
[/EXPAND]
[صحیح مسلم کی وہ اسناد جن میں حدثني غير واحد من اصحابنا ہے ان کا کیا کریں؟]
مثلا
فواد عبدالباقی حدیث نمبر: 1557
وحدثني غير واحد من اصحابنا، قالوا: حدثنا إسماعيل بن ابي اويس ، حدثني اخي ، عن سليمان وهو ابن بلال ، عن يحيى بن سعيد ، عن ابي الرجال محمد بن عبد الرحمن ، ان امه عمرة بنت عبد الرحمن ، قالت: سمعت عائشة ، تقول: سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، صوت خصوم بالباب عالية اصواتهما، وإذا احدهما يستوضع الآخر، ويسترفقه في شيء، وهو يقول: والله لا افعل، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم عليهما، فقال: ” اين المتالي على الله لا يفعل المعروف؟ قال: انا يا رسول الله، فله اي ذلك احب ”
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دروازے پر جھگڑنے کی آواز سنی، دونوں آوزیں بلند تھیں۔ ایک کہتا تھا: مجھے کچھ معاف کر دے اور میرے ساتھ رعایت کر۔ دوسرا کہتا تھا: قسم اللہ کی! میں کبھی معاف نہیں کروں گا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا: ”وہ کہاں ہے جو اللہ کی قسم کھاتا تھا نیکی نہ کرنے پر۔“ ایک شخص بولا: میں ہوں یا رسول اللہ! اس کو اختیار ہے جیسا چاہے۔
جواب
اس طرح کی بارہ روایات صحیح مسلم میں ہیں
یہ روایات سندا ضعیف سمجھی جائیں گی کیونکہ یہ مجہولین سے ہیں لیکن ان کا متن دیگر صحیح اسناد سے معلوم ہے لہذا ان روایات کو متنا صحیح سمجھا جاتا ہے
———-
اصول حدیث کی نظر میں اس قسم کی سند صحیح نہیں ہے
قال القاضي إذا قال الراوي حدثني غير واحد أو حدثني الثقة أو حدثني بعض أصحابنا فليس هو من المقطوع ولا هو من المرسل ولا من المعضل عند أهل الفن بل هو من باب الرواية عن المجهول وهذا الذي قاله القاضي هو الصواب
اہل فن کے نزدیک یہ روایت مجہول سے ہے
قال الحافظ ابن حجر: “ولا يقبل حديث المبهم ما لم يسم؛ لأن شرط قبول الخبر عدالة راويه، ومن أبهم اسمه لا يعرف، فكيف تعرف عدالته؟
حدیث میں نام نہ ہو تو اس ابہام والی روایت کو نہیں لیا جا سکتا کیونکہ عدالت راوی کا علم نہیں ہے
http://shamela.ws/browse.php/book-25955/page-200
============
راقم کا گمان ہے کہ یہ امام بخاری کا نام چھپایا جا رہا ہے صحیح بخاری میں حدیث 2705 ہے
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَخِي، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي الرِّجَالِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أُمَّهُ عَمْرَةَ بِنْتَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَتْ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، تَ
اور صحیح مسلم کی سند ہے
وحَدَّثَنِي غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِنَا، قَالُوا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، حَدَّثَنِي أَخِي، عَنْ سُلَيْمَانَ وَهُوَ ابْنُ بِلَالٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي الرِّجَالِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أُمَّهُ عَمْرَةَ بِنْتَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَتْ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ
[/EXPAND]
[قران کے علاوہ پیغمبر پر کوئی دوسری چھپی ہوئی چیز نازل نہی ہوئی]
قران کے علاوہ پیغمبر پر کوئی دوسری چھپی ہوئی چیز نازل نہی ہوئی۔ …. محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اللہ کے طرف سے صرف قران نازل ہوا تھا اور قران کے علاوہ کوئی اور چیز نازل نہی ہوئی تھی لہازا قران کے علاوہ کسی اور کتاب کو حجت ماننا شرک ہے
جواب
یہ قول جاہلانہ ہے – آیات سے مطلب کشید کیا گیا ہے اور ایسا کرنے والے کو عذاب ہو گا کیونکہ اس نے کلام الله کو بدلنے کی کوشش کی ہے
انبیاء کو حکم کس طرح ہوتا ہے ؟ کیا صرف قرآن سے ہوتا ہے کوئی اور القا یا الوحی نہیں ہوتی؟ یہ شخص کہنا چاہتا ہے کہ دور نبوی میں الوحی صرف قرآن تھا
افسوس یہ جاہل ہے
جبگ بدر میں تین ہزار فرشتے نازل ہوئے یہ بعد میں سوره الانفعال میں تبصرے میں خبر دی گئی جبکہ واقعہ پہلے ہوا تھا
نبی صلی الله علیہ وسلم کو حج کا حکم ہوا – اپ مدینہ سے نکلے لیکن اپ کو مشرکین نے حدیبیہ میں روک لیا- خواب الوحی ہے
ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں اسمعیل علیہ السلام کی قربانی کا حکم ہوا جو الوحی یا من جانب الله سمجھا گیا
بنو قریظہ کے محاصرے کے وقت درخت کاٹ دیے گئے بعد میں سوره الحشر میں اس پر تبصرہ ہوا کہا گیا یہ الله کا حکم تھا
قرآن میں خود موجود ہے کہ انبیاء پر تحریری الوحی کے علاوہ بھی الوحی ہوئی ہے
یہ شخص کہنا چاہتا ہے کہ صرف وہ لوگ ہی نبی ہیں جن پر کتب نازل ہوئیں جن کو صحف یا کتب نہیں ملیں وہ انبیاء و رسل نہیں ہیں
قرآن میں بے شمار مثالیں ہیں
موسی علیہ السلام کو توریت طور پر خروج مصر کے بعد ملی لیکن الله کا حکم تو مصر میں بھی آ رہا تھا وہ کیا الوحی نہیں تھا
اگر اصول بنے گا تو تمام انبیاء پر لاگو کرنا ہو گا
——-
⇓ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو شارع مجاز کہا جا سکتا ہے ؟ کہا جاتا ہے
⇓ کچھ لوگ یہ عیقدہ رکھتے ہیں کہ حضور صلی الله وسلم کو چیزوں کو حرام اور حلال کرنے کا اختیار تھا
[/EXPAND]
جواب
جواب
جواب
جواب
جواب
جواب
جواب
کتاب رد عقیدہ عرض اعمال
مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں
فہرست
عقیدہ عرض اعمال قرآن میں
عقیدہ عرض اعمال اہل تشیع کے مطابق
عقیدہ عرض اعمال اہل سنت کے مطابق
حرف آخر
سلام اسلامی معاشرت کا شعار ہے. مسلم کی حدیث ہے کہ
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرةَ رَضِی اللّٰہ تعالیٰ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَا تَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حتّٰی تُوٴْمِنُوْا وَلَا تُوٴْمِنُوْا حتّٰی تَحَابُّوا، اَولَا اَدُلُّکُمْ عَلٰی شيءٍ اِذَا فَعَلْتُمُوْہُ تَحَابَبْتُمْ؟ اَفْشُوا السَّلَامَ بَیْنَکُمْ․ (روا ہ مسلم
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ جب تک تم ایمان نہ لاؤ جنت میں داخل نہیں ہو سکتے اور تم ایمان نہیں لاؤ گے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرو‘کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتلاؤں کہ جب تم وہ کرو تو آپس میں محبت کرنے لگو؟ فرمایا کہ تم اپنے درمیان سلام کو پھیلاؤ
معلوم ہوا کہ سلام کا تعلق ادب سے ہے اور ایک دوسرے کے لئے دعائیہ کلمات ہیں. ہم براہ راست الله سے دوسرے شخص کے لئے دعا کر سکتے ہیں لیکن اس صورت میں دوسرے شخص کو ہمارے خلوص کا پتا نہیں چلے گا لہذا معاشرت میں خلوص کی وجہ سے اس کی تلقین کی گئی ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے لئے دعا کریں . ہم خط لکھ کر دوسرے شخص کو بھیجتے ہیں اس میں بھی یہی خلوص مقصد ہوتا ہے . لیکن جب کوئی شخص انتقال کر جائے تو اس کی نماز جنازہ ادا کی جاتی ہے اور دعائیہ کلمات میت کو سنانا مقصد نہیں ہوتا، نہ ہی اس میت سے واپس جواب کی امید کی جاتی ہے. میت کو تو پتا بھی نہیں ہوتا کہ کس نے اس کی تعریف کی اور کس نے برائی ، کس نے نماز جنازہ پڑھی اور کس نے نہیں، کس نے غسل دیا اور کس نے کفن دیا- اسلامی معاشرت کے تحت نبی صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کو سلام کیا اور صحابہ نے آپ کو. پھر نبی کے لئے درود یعنی رحمت کی دعا کرنے کا الله نے حکم دیا
اِنَّ اللّـٰهَ وَمَلَآئِكَـتَه يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا (56)
بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں، اے ایمان والو تم بھی اس پر رحمت اور سلام بھیجو۔
جب ہم الله کے نبی پر درود پڑھتے ہیں تو ہمارا مقصد نبی صلی الله علیہ وسلم کو سنانا نہیں ہوتا بلکہ الله کی بارگاہ میں نبی کے لئے دعائے رحمت مقصود ہوتی ہے. نبی صلی الله علیہ وسلم نے نماز میں درود جھر (بلند آواز) سے پڑھنے کا حکم نہیں دیا ورنہ کسی کا خیال ہو سکتا تھا کہ صحابہ ، نبی صلی الله علیہ وسلم کو درود سناتے تھے- اگر درود پیش ہونا ہی حقیقت ہوتا تو نماز کا درود جھر سے پڑھا جاتا تاکہ نبی صلی الله علیہ وسلم سن سکیں کہ کون امتی درود پڑھ رہا ہے اور کون منافق ہے- صحیح مسلم کے مطابق نبی صلی الله علیہ وسلم پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتے کہ اس دن اعمال الله کے پاس پیش ہوتے ہیں
عُرِضَتْ عَلَيَّ أَعْمَالُ أُمَّتِي حَسَنُهَا وَسَيِّئُهَا، فَوَجَدْتُ فِي مَحَاسِنِ أَعْمَالِهَا الْأَذَى يُمَاطُ عَنِ الطَّرِيقِ، وَوَجَدْتُ فِي مَسَاوِي أَعْمَالِهَا النُّخَاعَةَ تَكُونُ فِي الْمَسْجِدِ، لَا تُدْفَنُ
ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ میری امت کے اچھے اور برے تمام اعمال میرے سامنے لائے گئے تو راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا میں نے اچھے اعمال میں پایا اور برے اعمال میں میں نے وہ تھوک اور بلغم دیکھا جو مسجد سے صاف نہ کیا گیا ہو
نبی صلی الله علیہ وسلم کو امت کے ان اعمال کی خبر زندگی میں ہی دی گئی تاکہ نیک اور برے اعمال سے امت کو باخبر کر سکیں لیکن وفات کے بعد اعمال پیش ہونے کا فائدہ کیا ہے کسی صحیح حدیث میں بیان نہیں ہوا- بئر معونہ کا واقعہ ہمارے سامنے ہے کفّار نے اصحاب رسول کو گھیر لیا اور قتل کرنا شروع کیا صحابہ نے اللہ سے دعا کی کہ ہمارے قتل کی خبر نبی کو دے دے اگر درود پیش ہونے کا عقیدہ ہوتا تو اس کی ضرورت ہی نہیں تھی. ایک ہی روز میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو پتا چل جاتا کہ درود پیش نہیں ہو رہا. اسی طرح عثمان رضی الله تعالی عنہ کی شہادت کی خبر پر نبی صلی الله علیہ وسلم نے بیعت رضوان لے لی -اب تو امت میں درود تاج، درود تنجینا جسے درود بھی ہیں یہ بھی نبی صلی الله علیہ وسلم پر پیش ہوتے ہونگے تو پھرقیامت کے دن الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم سے ان کی امت کے گمراہ لوگوں کے لئے کیسے کہا جائے گا
مَا تَدْرِي مَا أَحْدَثَتْ بَعْدَكَ
آپ کونہیں پتا کہ انہوں نے آپ کےبعد کیا باتیں نکالیں
درود سلام الله تک جاتا ہے نبی صلی الله علیہ وسلم تک اس کو پہنچانا اصل میں علم غیب کا دعوی کرنا ہے اپ صلی الله علیہ وسلم کو ان کی زندگی ہی میں معلوم تھا کہ کون مومن ہے اور کون منافق ہے جبکہ قرآن میں ہے تم ان کو نہیں جانتے ہم جانتے ہیں-
ایک اہل حدیث عالم اسی تفریق کو نہ سمجھتے ہوئے نبی صلی الله علیہ وسلم پر امت کے درود و سلام کا عقیدہ اختیار کئی ہوئے ہیں اور اس کا دفاع اس انداز میں کرتے ہیں
میت کے لیے ہم دعائیں کرتے ہیں نمازِ جنازہ میں بھی اور نمازِ جنازہ کے علاوہ بھی وقتا فوقتا فوت شدہ مسلمانوں کے لیے دعائیں کی جاتی ہیں تو یہ دعائیں اللہ کے فضل و کرم سے ان کو پہنچتی ہیں۔ پھر ہم بذریعہ خط و کتابت یا بذریعہ دوست و احباب دوسروں کو سلام دعاء پہنچاتے رہتے ہیں تو یہ سلام دعاء بھی ان تک پہنچ جاتے ہیں۔ دیکھئے آپ اپنا یہ مکتوب جس میں آپ کا میری طرف سلام بھی درج ہے، مجھ پر پیش کیا تو وہ مجھ پر پیش ہوگیا ہے تو آپ غور فرمائیں اگر کوئی فرمائے: ’’ بقول آپ کے کسی بھائی یا دوست کو بھیجے ہوئے سلام دعاء اس پر پیش کیے جاتے ہیں تو اس کو پہنچ جاتے ہیں۔ دعاء و سلام ایک عبادت ، دعائیہ عمل ہے سورۂ الشوریٰ آیت نمبر: ۵۳ کے تحت تمام امور اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں۔ دعاو سلام کسی کو بھیجتے وقت بھی ہم دعاء اللہ کے حضور کرتے ہیں کہ اے اللہ! ہمارے فلاں بھائی یا دوست پر سلامتی نازل فرما تو سننے والے اس دعاء کو اللہ کی بارگاہ کی بجائے ہمارے فلاں دوست یا بھائی کے حضور پیش کردیتے ہیں۔ کیا یہ ہمارے دعائیہ کلمات سلام ودعاء سننے والے ہمارے بھائی دعاء سلام دوسروں تک پہنچانے والے عربی، اُردو، انگریزی وغیرہ سے ناواقف ہیں یا آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ کچھ اعمال ہمارے دوستوں اور بھائیوں کے حضور پیش ہوتے ہیں اور کچھ اللہ کے حضور یا آپ اپنے دوستوں اور بھائیوں کو معبود سمجھ کر ان کے حضور اعمال پیش ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔‘‘ تو آپ کا کیا جواب ہوگا؟
ان عالم کا قول سراسر غلط ہے – میت کے لئے ہم دعا کرتے ہیں تو اگر دعا قبول ہوئی تو ان کے نتیجے میں الله تعالی میت پر رحمت کرتے ہیں – یہ عقیدہ کہ میت کو خبر دی جاتی ہے کہ کس رشتہ دار نے اس کے لئے دعا کی گمراہی ہے- سلام کا مقصد سنانا نہیں ایک دوسرے کے حق میں الله سے رحمت طلب کرنا ہے اب چاہے یہ خط میں لکھا جائے یا نہ لکھا جائے – دنیا میں ایک دوسرے کو خط و کتابت سے یا پھر ای میل سے جو دعا بھیجی جائے ان سب کا مقصد الله سے دعا کرنا ہے
ہمارے تمام اعمال کی تفصیل فرشتے لکھتے ہیں اور الله تک پہنچاتے ہیں اس سے کسی کو انکار نہیں لیکن دنیا میں جو بھی کام ہوتے ہیں کیا وہ الله تک نہیں جاتے اس میں تعمق فرماتے ہوئے عالم لکھتے ہیں
پھر سورۂ الشوریٰ کی محولہ بالا آیت کریمہ کے الفاظ: ﴿أَلَا إِلَى اللَّـهِ تَصِيرُ الْأُمُورُ (٥٣)﴾اس کا ترجمہ و مطلب آپ نے لکھا ہے: ’’ تمام امور اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں۔‘‘ جبکہ قرآنِ مجید کی اس آیت کریمہ کی ہم معنی و مطلب دیگر آیات کے الفاظ ہیں: ﴿وَإِلَى اللَّـهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ (١٠٩)﴾’’ اللہ ہی کی طرف تمام کام لوٹائے جاتے ہیں۔‘‘ ﴿ وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ﴾آپ ذرا مزید غور فرمالیں- پھر ان آیات کریمہ میں اعمال کی کوئی تخصیص نہیں۔ آخرت کی بھی کوئی تخصیص نہیں تو اگر کوئی صاحب ان آیات کریمہ کے عموم کو سامنے رکھتے ہوئے فرمادیں کہ جج صاحبان کے ہاں جو کاغذات پیش کیے جاتے ہیں یا دوسرے محکموں میں کاغذات وغیرہ کی جو پیشیاں ہوتی ہیں یہ سب سورۂ الشوریٰ کی آیت نمبر ۵۳ کہ: ’’ تمام امور اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں۔‘‘ کے منافی و مخالف ہیں تو کیا خیال ہے آپ کی تحقیق کی رو سے ان کی یہ بات درست ہوگی؟
آیت اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہے. دینا کیا چیز ہے، اس کے جج، حاکم، شہنشاہ سب کے اعمال الله کے حضور پیش ہو رہے ہیں- موصوف کہنا چاہتے ہیں کہ جس طرح جج و احکام کے سامنے کاغذات پیش ہو سکتے ہیں اسی طرح الله تعالی کے حضور بھی پیش ہوتے ہیں – دنیا میں جب دستاویزات پیش کی جاتی ہیں تو ان کا مقصد عرض اعمال نہیں بلکہ متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں- دستاویزات جعلی بھی ہوتے ہیں انسان ان کو بھی قبول کر لیتے ہیں لیکن مالک الملک کے سامنے جب عمل اتا ہے تو وہ اس کو جانتا ہے کہ کون خلوص سے کر رہا ہے اس بظاہر انسان کے عمل کے پیچھے کیا کارفرما ہے اس کو سب خبر ہے
اس کتاب میں اسی عرض اعمال کے گمراہ کن عقیدہ یعنی نبی صلی الله علیہ وسلم پر درود پیش ہونے والی روایات اور رشتہ داروں پر عمل پیش ہونے والی روایات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے تاکہ اپ اس عقیدہ سے متعلق روایات میں ضعیف راویوں کی حثیت کو جان سکیں – یاد رہے کہ جو الله کا حق ہے وہ اسی کا ہے جو اس کو چھیننے کی کوشش کرے گا وہ جواب دہ ہو گا
ابو شہر یار
٢٠١٧
قدمونی قدمونی پر ایک نظر
ایک مشھور روایت ہے کہ مردہ کو جب کھاٹ پر رکھا جاتا ہے وہ کلام کرتا ہے – اس بلاگ میں اس کی اسناد پر بحث کی گئی ہے
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز – باب کلام المیت علی الجنازۃ
باب : میت کا چارپائی پر بات کرنا
حدیث نمبر : 1380
حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن سعيد بن أبي سعيد، عن أبيه، أنه سمع أبا سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ” إذا وضعت الجنازة فاحتملها الرجال على أعناقهم، فإن كانت صالحة قالت قدموني قدموني. وإن كانت غير صالحة قالت يا ويلها أين يذهبون بها. يسمع صوتها كل شىء إلا الإنسان، ولو سمعها الإنسان لصعق”.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا‘ ان سے سعید بن ابی سعید نے بیان کیا‘ ان سے ان کے باپ نے بیان کیا‘ ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب جنازہ تیار ہو جاتا ہے پھر مرد اس کو اپنی گردنوں پر اٹھا لیتے ہیں تو اگر وہ مردہ نیک ہو تو کہتا ہے کہ ہاں آگے لیے چلو مجھے بڑھائے چلو اور اگر نیک نہیں ہوتا تو کہتا ہے۔ ہائے رے خرابی! میرا جنازہ کہاں لیے جارہے ہو۔ اس آواز کو انسان کے سوا تمام مخلوق سنتی ہے اگر انسان سنے تو بے ہوش ہو جائے
الطبقات الكبرى از المؤلف: أبو عبد الله محمد بن سعد بن منيع الهاشمي بالولاء، البصري، البغدادي المعروف بابن سعد (المتوفى: 230هـ) اور مسند احمد میں ہے کہ یہ قول ابو ہریرہ کا تھا
قَالَ: أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ عَمْرٍو، وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي فُدَيْكٍ، وَمَعْنُ بْنُ عِيسَى قَالُوا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ مَوْلَى أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ لَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ قَالَ: لَا تَضْرِبُوا عَلَيَّ فُسْطَاطًا وَلَا تَتَّبِعُونِي بِنَارٍ، وَأَسْرِعُوا بِي إِسْرَاعًا , فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلّى الله عليه وسلم يَقُولُ: ” إِذَا وُضِعَ الرَّجُلُ الصَّالِحُ أَوِ الْمُؤْمِنُ عَلَى سَرِيرِهِ قَالَ: قَدِّمُونِي. وَإِذَا وُضِعَ الْكَافِرُ أَوِ الْفَاجِرُ عَلَى سَرِيرِهِ قَالَ: يَا وَيْلَتِي أَيْنَ تَذْهَبُونَ بِي “
ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، نے المقبری سے روایت کیا انہوں نے عبد الرحمان مولی ابو ہریرہ سے انہوں نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے کہ بے شک ابو ہریرہ جب ان کی وفات کا وقت آیا کہا نہ میرے اوپر خیمہ لگانا نہ اگ ساتھ لے کر چلنا اور میرا جنازہ تیزی سے لے جانا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے انہوں نے کہا جب صالح بندے کو بستر پر رکھا جاتا ہے یا مومن بندے کو تو کہتا ہے مجھے لے چلو اور کافر کو بستر پر رکھا جاتا ہے تو کہتا ہے بربادی کہاں جا رہے ہو
طبقات الکبری از ابن سعد میں ہے کہ ابو ہریرہ کا قول تھا
قَالَ: أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ، عَنْ سَعِيدٍ قَالَ: لَمَّا نَزَلَ بِأَبِي هُرَيْرَةَ الْمَوْتُ قَالَ: لَا تَضْرِبُوا عَلَى قَبْرِي فُسْطَاطًا , وَلَا تَتَّبِعُونِي بِنَارٍ، فَإِذَا حَمَلْتُمُونِي , فَأَسْرِعُوا , فَإِنْ أَكُنْ صَالِحًا تَأْتُونَ بِيِ إِلَى رَبِّي، وَإِنْ أَكُنْ غَيْرَ ذَلِكَ , فَإِنَّمَا هُوَ شَيْءٌ تَطْرَحُونَهُ عَنْ رِقَابِكُمْ
ابو معشر نے کہا سعید المقبری نے کہا جب ابو ہریرہ کی وفات کا وقت آیا کہا میری قبر پر خیمہ نہ لگانا نہ میرے پیچھے اگ لے کر جانا پس جب مجھے اٹھانا جلدی کرنا کیونکہ اگر میں نیک ہوں تو تم مجھے میرے رب کی طرف لے جا رہے ہو اور اگر اس کے علاوہ ہوں تو تم ایک چیز اپنے کندھوں سے پھینک رہے ہو
مسند احمد کی سند ہے
حَدَّثَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: حِينَ حَضَرَهُ الْمَوْتُ: لَا تَضْرِبُوا عَلَيَّ فُسْطَاطًا، وَلَا تَتْبَعُونِي بِمِجْمَرٍ، وَأَسْرِعُوا بِي، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” إِذَا وُضِعَ الرَّجُلُ الصَّالِحُ عَلَى سَرِيرِهِ قَالَ: قَدِّمُونِي قَدِّمُونِي، وَإِذَا وُضِعَ الرَّجُلُ السُّوءُ عَلَى سَرِيرِهِ قَالَ: يَا وَيْلَهُ أَيْنَ تَذْهَبُونَ بِي؟ “
المقبری نے عبد الرحمان مولی ابو ہریرہ سے انہوں نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے کہ بے شک ابو ہریرہ جب ان کی وفات کا وقت آیا کہا نہ میرے اوپر خیمہ لگانا نہ اگ ساتھ لے کر چلنا اور میرا جنازہ تیزی سے لے جانا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے انہوں نے کہا جب صالح بندے کو جنازہ پر رکھا جاتا ہے یا مومن بندے کو تو کہتا ہے مجھے لے چلو اور کافر کو جنازہ پر رکھا جاتا ہے تو کہتا ہے بربادی کہاں جا رہے ہو
حَدَّثَنَا يُونُسُ، وَحَجَّاجٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا لَيْثٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِذَا وُضِعَتِ الْجَنَازَةُ وَاحْتَمَلَهَا الرِّجَالُ عَلَى أَعْنَاقِهِمْ، فَإِنْ كَانَتْ صَالِحَةً [ص:466] قَالَتْ: قَدِّمُونِي، وَإِنْ كَانَتْ غَيْرَ صَالِحَةٍ قَالَتْ: يَا وَيْلَهَا أَيْنَ تَذْهَبُونَ بِهَا؟ يَسْمَعُ صَوْتَهَا كُلُّ شَيْءٍ إِلَّا الْإِنْسَانَ، وَلَوْ سَمِعَهَا الْإِنْسَانُ لَصُعِقَ ” قَالَ حَجَّاجٌ: لَصُعِقَ
سعید المقبری نے اپنے باپ سے روایت کیا انہوں نے ابو سعید الخدری سے سنا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جب جنازہ کورکھتے ہیں اور مرد اس کو گردنوں پر اٹھاتے ہیں تو اگر یہ نیک ہے تو کہتا ہے مجھے لے چلو اور اگر بد ہے تو کہتا ہے بربادی کہاں جا رہے ہو اس آواز کو ہر چیز سنتی ہے اور انسان سنے تو بے ہوش ہو جائے
سعید بن ابی سعید ( أَبُو سَعْدٍ بنُ كَيْسَانَ) ایک ہی روایت تین سندوں سے بیان کر رہا ہے
ایک سعید المقبری عنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ کی سند سے
دوسری سَعِيدُ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا هُرَيْرَةَ کی سند سے
تیسری سعید المقبری عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، کی سند سے
سعید المقبری سے تین لوگوں نے اس روایت کو لیا أبي معشر الْمَدِينِيّ ، دوسرے لَيْثٌ بن سعد ، تیسرے ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ مُحَمَّدُ بنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ العَامِرِيُّ
سعيد بن أبي سعيد المَقْبُرِي المدني کا تفرد ہے
ابی معشر ضعیف ہے – العلل ومعرفة الرجال از احمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ) کے مطابق
سَأَلت يحيى بن معِين عَن أبي معشر الْمَدِينِيّ الَّذِي يحدث عَن سعيد المَقْبُري وَمُحَمّد بن كَعْب فَقَالَ لَيْسَ بِقَوي فِي الحَدِيث
ابن معین کہتے ہیں کہ أبي معشر الْمَدِينِيّ جو سعید المقبری سے روایت کرتا ہے … یہ حدیث میں قوی نہیں ہے
ابی معشر کے مطابق یہ الفاظ ابو ہریرہ کے ہیں اس کو حدیث نبوی نہیں کہا ہے یعنی موقوف عن ابو ہریرہ ہے
یہ بات کہ میت کے اس قول کو انسان کے سوا سب سنتے ہیں یہ صرف ابو سعید الخدری کی سند سے ہیں
لہذا محدثین اس کو صرف دو سندوں سے قبول کرتے ہیں جو لیث اور ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ کی اسناد ہیں
سعيد بن أبي سعيد المَقْبُرِي اختلاط کا شکار تھے
المختلطين از صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق
سعيد بن أبي سعيد المَقْبُرِي المدني:
قال شعبة: ساء بعد ما كبر.
وقال محمد بن سعد: ثقة إلا أنه اختلط قبل موته بأربع سنين.
شعبہ کہتے ہیں یہ بوڑھے ہوئے تو خراب ہوئے
ابن سعد نے کہا یہ ثقہ ہیں لیکن یہ مرنے سے ٤ سال قبل اختلاط کا شکار ہوئے
قال الواقدى: كبُر واختلط قبل موته بأربع سنين – واقدی نے کہا بوڑھے ہوئے اور مرنے سے ٤ سال قبل مختلط ہوئے
إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي بن قليج بن عبد الله البكجري المصري الحكري الحنفي، أبو عبد الله، علاء الدين (المتوفى: 762هـ) کے مطابق ١٢٥ ھ میں وفات ہوئی
إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال کے مطابق
وفي كتاب الباجي عن ابن المديني: قال ابن عجلان: كانت عنده أحاديث سندها عن رجال عن أبي هريرة فاختلطت عليه فجعلها كلها عن أبي هريرة.
اور الباجی کی کتاب میں ابن المدینی سے روایت ہے کہ ابن عجلان نے کہا ان کے پاس احادیث تھیں جو عن رجال عن ابو ہریرہ سے تھیں ان کو جب اختلاط ہوا تو انہوں نے تمام کو ابو ہریرہ سے روایت کر دیا
شعبہ نے بھی احتیاط کی ہے اور کہا ہے کہ سعید بوڑھے ہو چکے تھے
وَقَال يَعْقُوب بْن شَيْبَة: قد كَانَ تغير وكبر واختلط قبل موته، يقال: بأربع سنين، حَتَّى استثنى بعض المحدثين عنه ما كتب عنه فِي كبره مما كتب قبله، فَكَانَ شعبة يَقُول: حَدَّثَنَا سَعِيد الْمَقْبُرِيّ بعدما كبر.
يَعْقُوب بْن شَيْبَة نے کہا کہ یہ بدل گئے اور بوڑھے ہوئے اور مرنے سے پہلے مختلط ہو چکے تھے کہا جاتا ہے ٤ سال یہاں تک کہ بعض محدثین نے اس کو الگ کیا ہے جو ان کے بڑھاپے سے پہلے لکھا یہاں تک کہ شعبہ کہتے کہ سعید المقبری نے روایت کیا بوڑھا ہونے کے بعد
قال يحيى القطان: “سمعتُ محمد بن عجلان يقولُ: كان سعيدٌ المقبري يُحَدِّث عن أبيه عن أبي هريرة، وعن رجل عن أبي هريرة، فاختلط عليَّ فجعلتها كلها عن أبي هريرة الميزان: (3/645)
یحیی القطان کہتے ہیں میں نے ابن عجلان کو سنا کہ سعید المقبری اپنے باپ سے اور وہ ابو ہریرہ سے روایت کرتے اور سعید ایک آدمی سے اور وہ ابو ہریرہ سے روایت کرتا لیکن جب سعید کو اختلاط ہوا تو سعید المقبری نے ان تمام روایات کو ابو ہریرہ سے روایت کر دیا
جامع التحصيل في أحكام المراسيل از صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق
سعيدا المقبري سمع من أبي هريرة ومن أبيه عن أبي هريرة وأنه اختلف عليه في أحاديث وقالوا أنه اختلط قبل موته وأثبت الناس فيه الليث بن سعد يميز ما روى عن أبي هريرة مما روى عن أبيه عنه وتقدم أن ما كان من حديثه مرسلا عن أبي هريرة فإنه لا يضر لأن أباه الواسطة
سعید المقبری نے ابو ہریرہ سے سنا اور اپنے باپ سے انہوں نے ابو ہریرہ سے اور ان کی احادیث پر اختلاف ہوا اور کہا کہ یہ مرنے سے قبل مختلط ہوئے اور لوگوں میں سب سے ثابت ان سے روایت کرنے میں اللیث ہیں جو اس کی تمیز کر سکتے ہیں کہ یہ ابو ہریرہ سے کیا روایت کرتے ہیں اور کیا اپنے باپ سے کرتے ہیں اور جیسا کہ گزرا ان کا ابو ہریرہ سے روایت کرنا مرسل ہے اگرچہ اس میں کوئی نقصان نہیں کیونکہ انہوں نے اپنے باپ کے واسطہ سے سنا ہے
سعید المقبری کو اختلاط تھا الذھبی نے اس کا انکار کیا اس پر ابن الكيال (المتوفى: 929هـ) نے کتاب الكواكب النيرات في معرفة من الرواة الثقات میں لکھا
والعجب من الذهبي انكار اختلاطه وقد أقر باختلاطه الواقدي وابن سعد ويعقوب بن شيبة وابن حبان
اور الذھبی کی عجیب بات ہے کہ اس کا انکار کیا اور اس اختلاط کا ذکر کیا ہے واقدی نے ابن سعد نے یعقوب نے اور ابن حبان نے
اگرچہ ابن معین نے کہا تھا کہ ابن أبي ذئب کی سعید المقبری سے روایت سب سے مناسب ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ محدثین اس کو بھی منکر کہتے ہیں – العلل لابن أبي حاتم از محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ) کے مطابق ایک روایت اس کو انہوں نے اپنے باپ ابی حاتم پر پیش کیا اور سوال کیا کہ ابْنِ أَبِي ذئبٍ روایت کرتے ہیں
عَنِ ابْنِ أَبِي ذئبٍ ، عَنْ سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قال: قال رسولُ الله (ص) : إِذَا بَلغَكُمْ عَنِّي حَدِيثًا يَحْسُنُ بِي أَنْ أَقُولَهُ ، فَأَنَا قُلْتُهُ، وَإِذَا بَلغَكُمْ عَنِّي حَدِيثًا لاَ يَحْسُنُ بِي أَنْ أَقُولَهُ، فَلَيْسَ مِنِّي وَلَمْ أَقُلْهُ.
قَالَ أَبِي: هَذَا حديثٌ مُنكَرٌ؛ الثقاتُ لا يَرْفَعُونَهُ
ابْنِ أَبِي ذئبٍ روایت کرتے سعید المقبری سے وہ اپنے باپ سے وہ ابو ہریرہ سے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جب تم کو کوئی حدیث پہنچے جو اچھی لگے کہ میں نے کہی ہو تو اس کو میں نے ہی کہا ہے اور اگر تم کو حدیث پہنچے جو اچھی نہ لگے کہ میں نے کہی ہو تو وہ مجھ سے نہیں نہ میں نے اس کو کہا ہے
ابی حاتم نے کہا یہ حدیث منکر ہے – ثقات اس کو نہیں پہچانتے
یعنی سعید المقبری کی باپ سے ان کی ابو ہریرہ سے روایت منکر بھی کہی گئی ہے
امام بخاری نے تاریخ الکبیر میں ایک اور روایت کا حوالہ دیا
وَقال ابْنُ طَهمان، عَنِ ابْنِ أَبي ذِئب، عَنْ سَعِيدٍ المَقبُريّ، عَنِ النَّبيِّ صَلى اللَّهُ عَلَيه وسَلم؛ مَا سَمِعتُم عَنِّي مِن حَدِيثٍ تَعرِفُونَهُ فَصَدِّقُوهُ. وَقال يَحيى: عَنْ أَبي هُرَيرةَ، وَهُوَ وهمٌ، لَيْسَ فِيهِ أَبو هُرَيرةَ.
ابْنِ أَبي ذِئب نے سعید المقبری سے روایت کیا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تم میری جو حدیث سنو اس کو پہچانو تصدیق کرو اور یحیی نے کہا یہ عن ابو ہریرہ ہے – لیکن یہ وہم ہے اس میں ابو ہریرہ نہیں ہے
یعنی امام بخاری کے نزدیک ابْنِ أَبي ذِئب کی روایت میں سعید المقبری نے براہ راست نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کی ہے
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عَنِ ابْنِ أَبي ذِئب نے دور اختلاط میں سنا ہے
یاد رہے کہ ابن أبي ذئب مدلس بھی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ یہ رجال کے حوالے سے احتیاط سے بھی کام نہیں لیتے تھے
اس سند میں عبد الرحمن بن مهران بھی ہے – جس کے بارے میں محدثین کی معلومات کم ہیں
قال البَرْقانِيّ: قلتُ للدَّارَقُطْنِيِّ عبد الرحمن بن مهران، عن أبي هريرة، فقال: شيخ مدني، يعتبر به
البرقانی کہتے ہیں میں دارقطنی سے کے بارے میں پوچھا کہا مدنی بوڑھا اعتبار کیا جاتا ہے
یہاں اعتبار محدثین کی اصطلاح ہے کہ روایت لکھ لی جائے حتی کہ شاہد ملے
ابن حجر نے صرف مقبول من الثالثة تسرے درجے کا مقبول کہا ہے – اس کی وضاحت خود تقریب میں اس طرح کی
من ليس له من الحديث إلا القليل، ولم يثبت فيه ما يترك حديثه من أجله، وإليه الاشارة بلفظ ” مقبول ” حيث يتابع، وإلا فلين الحديث.
جس کی احادیث بہت کم ہوں اور اس پر کوئی بات ثابت نہیں کہ اس کی حدیث ترک کی جائے تو اس کے لئے مقبول کا لفظ سے اشارہ کیا ہے جب متابعت ہو ورنہ یہ لین الحدیث ہو گا
یعنی ایسا راوی جس پر کوئی جرح کا خاص کلمہ نہ ہو اس کی احادیث بھی کم ہوں تو اس کی روایت لکھی جائے گی جسکی روایت کی متابعت ملنے پر یہ مقبول کہلائے گا وگرنہ لین الحدیث (کمزور ) ہے
ان وجوہات کی بنا پر اس طرق کو قابل قبول نہیں کہا جا سکتا
اب کس کی روایت سعید المقبری سے لیں؟
وقال الساجي: حدثني أحمد بن محمد قال: قلت ليحيى بن معين: من أثبت الناس في سعيد المقبري؟ قال: ابن أبي ذئب
ابن معین نے کہا اس سے روایت کرنے میں اثبت ابن أبي ذئب ہے
ابن حراش: جليل، أثبت الناس فيه الليث بْن سَعْد – ابن خراش نے کہا اثبت لیث ہے
دارقطنی کہتے ہیں
لأنَّ الليث بن سعد ضبط عن المقبري ما رواه عن أبي هريرة، وما رواه عن أبيه عن أبي هريرة
لیث بن سعد یاد رکھتے تھے المقبری کی روایت جو انہوں نے ابو ہریرہ سے روایت کی اور جو انہوں نے اپنے باپ سے اور انہوں نے ابو ہریرہ سے روایت کی
وقال عبد الله: سَمِعتُهُ يقول (يعني أَباه) : أصح الناس حديثًا عن سعيد بن أبي سعيد المقبري ليث بن سعد، يفصل ما روى عن أبي هريرة، وما (روى) عن أبيه، عن أبي هريرة، هو ثبت في حديثه جدًا. «العلل» (659) .
عبد الله نے کہا میں نے باپ سے سنا کہ سعید المقبری سے روایت کرنے میں سب سے صحیح ليث بن سعد ہے جو واضح کرتے ہیں جو یہ اپنے باپ سے وہ ابو ہریرہ سے روایت کر دیتے ہیں اور جو یہ صرف اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں
محدثین میں بعض نے لیث کی سند پسند کی اور بعض نے ابن أبي ذئب کی سند – لیکن جیسا واضح کیا اس میں ابن أبي ذئب بھی قابل اعتماد نہیں ہیں کیونکہ محدثین کی اس طرق سے روایت کردہ متن کو رد کرتے ہیں- لیث کو اس لیے پسند کیا جاتا تھا کہ وہ تمیز کر لیتے تھے کہ سعید المقبری نے اختلاط میں جو روایات اپنے باپ سے اور ابو ہریرہ سے روایت کی ہیں ان میں کون سی صحیح ہیں گویا یہ ایک طرح کا لیث کا اندازہ ہے جس کی بنیاد پر سعید المقبری کے اختلاط والی روایات کو لیا گیا ہے
الليث بن سعد بن عبد الرحمن بن عقبة مصری ہیں سن ٩٤ میں پیدا ہوئے اور سن ١١٣ میں حج کیا اور ١٧٥ میں وفات ہوئی
قال ابن بكير سَمِعْتُ اللَّيْثَ يَقُوْلُ: سَمِعْتُ بِمَكَّةَ سَنَةَ ثَلاَثَ عَشْرَةَ وَمائَةٍ مِنَ الزُّهْرِيِّ وَأَنَا ابْنُ عِشْرِيْنَ سَنَةً
ابن بکیر نے کہا میں نے اللَّيْثَ سے سنا کہ انہوں نے امام الزہری سے مکہ میں سن ١١٣ میں سنا
سعید المقبری سن ١١٩ ھ سے ١٢٣ ھ تک مختلط تھے- محدثین کا یہ کہنا کہ لیث کے اندر صلاحیت تھی کہ وہ سعید المقبری کی سند میں علت کو جان لیتے تھے ظاہر کرتا ہے کہ سعید المقبری میں اختلاط کی کیفیت شروع ہی ہوئی تھی کہ لیث نے ان سے سنا
عجیب بات یہ ہے کہ لیث کو جب سعید یہ روایت سناتے ہیں تو اس کو سعید الخدری رضی الله عنہ کی حدیث کہتے ہیں اور جب ابن ابِي ذئبٍ کو یہ سناتے ہیں تو اس کو ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث قرار دیتے ہیں
اس اشکال کو اپ مندرجہ ذیل جدول میں دیکھ سکتے ہیں
ابن ابِي ذئبٍ کی سند
قال البَرْقانِيّ: قلتُ للدَّارَقُطْنِيِّ عبد الرحمن بن مهران، عن أبي هريرة، فقال: شيخ مدني، يعتبر به |
لیث کی سند | کتاب |
حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، حَدَّثَنِي سَعِيدٌ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يَقُولُ | مسند أبي يعلى
|
|
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يَقُولُ | سنن نسائی | |
حَدَّثَنَا يُونُسُ، وَحَجَّاجٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا لَيْثٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ | مسند احمد | |
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يَقُولُ | مسند احمد | |
حَدَّثَنا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: | صحیح بخاری | |
حَدَّثَنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ | صحیح بخاری | |
حَدَّثَنَا يُونُسُ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، مَوْلَى أَبِي هُرَيْرَةَ | مسند أبو داود الطيالسي | |
حَدَّثَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، | مسند أحمد | |
حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، وَحَجَّاجٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، الْمَعْنَى، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنِ أَبِي هُرَيْرَةَ | مسند أحمد | |
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ | سنن نسائی | |
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَزْدِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،
|
صحیح ابن حبان |
المزی تہذیب الکمال میں عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ مَوْلَى أَبِي هُرَيْرة کے ترجمہ میں یہ روایت لکھ کر کہتے ہیں
هكذا رواه ابن أَبي ذئب، وخالفه الليث بْن سعد (س) فرواه عَنْ سَعِيد الْمَقْبُرِيِّ، عَن أَبِيهِ، عَن أَبِي سَعِيد الخُدْرِيّ
ایسا ابن أَبي ذئب نے روایت کیا ہے (یعنی ابن أَبي ذئب عَن سَعِيد الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ مَوْلَى أَبِي هُرَيْرة ) اور ان کی مخالفت کی ہے الليث بْن سعد نے انہوں نے اس کو سَعِيد الْمَقْبُرِيِّ، عَن أَبِيهِ، عَن أَبِي سَعِيد الخُدْرِيّ کی سند سے روایت کیا ہے
راقم کے خیال میں یہ روایت دور اختلاط کی ہے جس کی بنا پر اسناد میں یہ گھپلا پیدا ہو رہا ہے اور چونکہ لیث کا حجاز پہنچنا بھی اسی دور کے پاس کا ہے جس میں لیث کو مختلط کہا گیا ہے گمان غالب ہے کہ اسناد میں یہ تضاد اس کیفیت کی بنا پر پیدا ہوا ہے
الذھبی میزان میں لکھتے ہیں کہ سفیان بن عُيَيْنَة، سعید المقبری کے پاس پہنچے لیکن
فإن ابن عُيَيْنَة أتاه فرأى لعابه يسيل فلم يحمل عنه، وحدث عنه مالك والليث
اس کا لعاب اس کے منہ سے بہہ رہا تھا لہذا نہیں لکھا
سفيان بن عيينة بن أبي عمران ميمون سن ١٠٧ میں پیدا ہوئے
کتاب سیر الاعلام النبلاء از الذھبی کے مطابق
سمع في سنة تسع عشرة ومائة ، وسنة عشرين ، وبعد ذلك
سفيان بن عيينة نے سن ١١٩ اور ١٢٠ اور اس کے بعد سنا ہے
سفيان بن عيينة کوفہ میں پیدا ہوئے اس کے بعد حجاز کا سفر کیا جہاں ١١٩ کے بعد لوگوں سے سنا اس دور میں انہوں نے سعید المقبری کو دیکھا جن کے منہ سے لعاب بہہ رہا تھا
تہذیب الکمال کے مطابق
وَقَال نوح بْن حبيب القومسي: سَعِيد بْن أَبي سَعِيد، وابن أَبي مليكة، وقيس بْن سَعْد، ماتوا سنة سبع عشرة ومئة.
نوح بْن حبيب نے کہا کہ سعید بن ابی سعید کی موت سن ١١٧ میں ہوئی
خليفة بْن خياط کے بقول ١٢٦ میں ہوئی
أَبُو بَكْر بْن أَبي خَيْثَمَة اور ابن سعد کے مطابق ١٢٣ میں ہوئی
وَقَال الواقدي، ويعقوب بْن شَيْبَة، وغير واحد: مات فِي أول خلافة هشام بن عبد الملك.
الواقدي اور يعقوب بْن شَيْبَة اور ایک سے زائد محدثین کہتے ہیں هشام بن عبد الملك (١٠٥ سے ١٢٥ تک خلیفہ) کی خلافت کے شروع میں ہوئی
اس طرح دیکھا جائے تو زیادہ ترمحدثین سعید المقبری کی موت کو ١١٧ ہجری کے پاس لے اتے ہیں جس میں اللیث نے مکہ جا کر حج کیا گویا اللیث نے سعید المقبری کو عالم اختلاط میں پایا ہے یہ قول کہ وفات ١٢٠ کے بعد ہوئی یہ ہشام بن عبد الملک کی خلافت کا آخری دور بن جاتا ہے لہذا یہ صحیح نہیں ہے- ہشام نے ٢٠ سال حکومت کی ہے تو تاریخ وفات میں یہ کوئی معمولی فرق نہیں رہتا
اختلاط کا دورانیہ ٤ سال کا تھا لیکن تاریخ وفات میں اختلاف کی بنا پر واضح نہیں رہا کہ یہ کب شروع ہوا
اگر ١١٧ وفات لی جائے تو اس کا مطلب ہے اختلاط سن ١١٣ میں شروع ہوا
قال الْبُخَارِيّ : مات بعد نَافِع.
نافع کی موت ١١٩ یا ١٢٠ میں ہوئی ہے بحوالہ سیر الاعلام النبلاء
امام بخاری نے تاريخ الصغير یا التاريخ الأوسط میں صرف یہ لکھا ہے کہ سعید المقبری کی وفات نافع کے بعد ہوئی کوئی سال بیان نہیں کیا جبکہ اختلاط کا علم ہونا ضروری ہے- امام بخاری نے یھاں سعید المقبری کے حوالے سے اللیث پر اعتماد کرتے ہوئے اس روایت کو صحیح سمجھا ہے
امام مالک نے بھی سعید المقبری سے روایت لی ہے لیکن یہ نہیں لکھی بلکہ روایت بیان کی
موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني کی سند ہے
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا هُرَيْرَةَ كَيْفَ يُصَلِّي عَلَى الْجِنَازَةِ، فَقَالَ: ” أَنَا لَعَمْرِ اللَّهِ أُخْبِرُكَ، أَتْبَعُهَا مِنْ أَهْلِهَا، فَإِذَا وُضِعَتْ كَبَّرْتُ، فَحَمِدْتُ اللَّهَ وَصَلَّيْتُ عَلَى نَبِيِّهِ، ثُمَّ قُلْتُ: اللَّهُمَّ، عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَابْنُ أَمَتِكَ، كَانَ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُكَ، وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ، إِنْ كَانَ مُحْسِنًا فَزِدْ فِي إِحْسَانِهِ، وَإِنْ كَانَ مُسِيئًا فَتَجَاوَزْ عَنْهُ، اللَّهُمَّ لا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ، وَلا تَفْتِنَّا بَعْدَهُ “، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا قِرَاءَةَ عَلَى الْجِنَازَةِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ
امام مالک نے سعید المقبری سے انہوں نے اپنے باپ سے روایت کیا انہوں نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے کہ جنازہ پر نماز کیسے پڑھیں؟ ابو ہریرہ نے کہا لعمر الله میں اس کی خبر دیتا ہوں میت کے اہل کے ساتھ ہوں گے پس جب رکھیں تو الله کی تکبیر و حمد کہیں اور نبی پر درود پھر کہیں
اللَّهُمَّ، عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَابْنُ أَمَتِكَ، كَانَ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُكَ، وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ، إِنْ كَانَ مُحْسِنًا فَزِدْ فِي إِحْسَانِهِ، وَإِنْ كَانَ مُسِيئًا فَتَجَاوَزْ عَنْهُ، اللَّهُمَّ لا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ، وَلا تَفْتِنَّا بَعْدَهُ
امام محمد نے کہا یہ قول ہم لیتے ہیں کہ جنازہ پر قرات نہیں ہے اور یہی قول ابو حنیفہ رَحِمَهُ اللَّهُ کا ہے
قابل غور ہے کہ امام مالک تو مدینہ کے ہی تھے انہوں نے یہ قدمونی والی روایت نہ لکھی جبکہ اللیث جو ١١٧ میں مصر سے آئے ان کو اختلاط کی کیفیت میں سعید المقبری ملے اور انہوں نے اس کو روایت کیا
الإصابة في تمييز الصحابة از ابن حجر میں ہے
قال الحاكم: مالك هو الحكم في حديث المدنيين
امام حاکم نے کہا – امام مالک حکم ہیں اہل مدینہ کی حدیث پر
مستدرک میں حاکم کہتے ہیں
مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ أَنَّهُ الْحَكَمُ فِي حَدِيثِ الْمَدَنِيِّينَ….. وَاحْتَجَّ بِهِ فِي الْمُوَطَّأِ
اہل مدینہ کی احادیث پر امام مالک فیصلہ کرنے والے ہیں یہ وہ حدیث ہے جس سے امام مالک نے موطا میں دلیل لی ہے
لہذا سعید المقبری کی روایت جو امام مالک نے نہ لکھی ہو اس کی کوئی نہ کوئی تو وجہ ضرور ہے جس میں یہ کلام المیت والی روایت بھی ہے
علم حدیث ٢
اسلام علیکم
ایک روایت بخاری اور مسلم میں ھے کہ: موسی علیه سلام کے کپڑے پتھر لے کر بھاگ گیا اور موسی علیہ سلام کا ننگا جسم لوگوں نے دیکھ لیا.
پلیز اس روایت کی وضاحت کر دیں
جزاکم الله خیرا
جواب
قرآن کی ایک آیت الأحزاب: 69 کی ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَكَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِيهًا
اے ایمان والوں ان کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے موسی کو تکلیف دی پس الله نے اس سے اس قول کو دور کیا اور وہ الله کے نزدیک وجیہہ تھے
امام بخاری نے صحیح میں ہی ایک دوسرے مقام پر یحیی علیہ السلام کے حوالے سے وجیہا کے الفاظ کی شرح کی ہے
{وَجِيهًا} [آل عمران: 45]: شَرِيفًا
یعنی شریف
اس کے علاوہ سوره الاحزاب کی آیت کی شرح ایک روایت سے کی
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنِ الحَسَنِ، وَمُحَمَّدٍ، وَخِلاَسٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ مُوسَى كَانَ رَجُلًا حَيِيًّا سِتِّيرًا، لاَ يُرَى مِنْ جِلْدِهِ شَيْءٌ اسْتِحْيَاءً مِنْهُ، فَآذَاهُ مَنْ آذَاهُ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ فَقَالُوا: مَا يَسْتَتِرُ هَذَا التَّسَتُّرَ، إِلَّا مِنْ عَيْبٍ بِجِلْدِهِ: إِمَّا بَرَصٌ وَإِمَّا أُدْرَةٌ: وَإِمَّا آفَةٌ، وَإِنَّ اللَّهَ أَرَادَ أَنْ يُبَرِّئَهُ مِمَّا قَالُوا لِمُوسَى، فَخَلاَ يَوْمًا وَحْدَهُ، فَوَضَعَ ثِيَابَهُ عَلَى الحَجَرِ، ثُمَّ اغْتَسَلَ، فَلَمَّا فَرَغَ أَقْبَلَ إِلَى ثِيَابِهِ لِيَأْخُذَهَا، وَإِنَّ الحَجَرَ عَدَا بِثَوْبِهِ، فَأَخَذَ مُوسَى عَصَاهُ وَطَلَبَ الحَجَرَ، فَجَعَلَ يَقُولُ: ثَوْبِي حَجَرُ، ثَوْبِي حَجَرُ، حَتَّى انْتَهَى إِلَى مَلَإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَرَأَوْهُ عُرْيَانًا أَحْسَنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ، وَأَبْرَأَهُ مِمَّا يَقُولُونَ، وَقَامَ الحَجَرُ، فَأَخَذَ ثَوْبَهُ فَلَبِسَهُ، وَطَفِقَ بِالحَجَرِ ضَرْبًا بِعَصَاهُ، فَوَاللَّهِ إِنَّ بِالحَجَرِ لَنَدَبًا مِنْ أَثَرِ ضَرْبِهِ، ثَلاَثًا أَوْ أَرْبَعًا أَوْ خَمْسًا، فَذَلِكَ قَوْلُهُ: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا [ص:157] لاَ تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَكَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِيهًا ”
مجھ سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے روح بن عبادہ نے بیان کیا ‘ ان سے عوف بن ابوجمیلہ نے بیان کیا ‘ ان سے امام حسن بصری اور محمد بن سیرین اور خلاس بن عمرو نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام بڑے ہی شرم والے اور بدن ڈھانپنے والے تھے۔ ان کی حیاء کی وجہ سے ان کے بدن کو کوئی حصہ بھی نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔ بنی اسرائیل کے جو لوگ انہیں اذیت پہنچانے کے درپے تھے ‘ وہ کیوں باز رہ سکتے تھے ‘ ان لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ اس درجہ بدن چھپانے کا اہتمام صرف اس لیے ہے کہ ان کے جسم میں عیب ہے یا کوڑھ ہے یا ان کے خصیتین بڑھے ہوئے ہیں یا پھر کوئی اور بیماری ہے۔ ادھر اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام کی ان کی ہفوات سے پاکی دکھلائے۔ ایک دن موسیٰ علیہ السلام اکیلے غسل کرنے کے لیے آئے ایک پتھر پر اپنے کپڑے (اتار کر) رکھ دیئے۔ پھر غسل شروع کیا۔ جب فارغ ہوئے تو کپڑے اٹھانے کے لیے بڑھے لیکن پتھر ان کے کپڑوں سمیت بھاگنے لگا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا اٹھایا اور پتھر کے پیچھے دوڑے۔ یہ کہتے ہوئے کہ پتھر! میرا کپڑا دیدے۔ آخر بنی اسرائیل کی ایک جماعت تک پہنچ گئے اور ان سب نے آپ کو ننگا دیکھ لیا ‘ اللہ کی مخلوق میں سب سے بہتر حالت میں اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کی تہمت سے ان کی برات کر دی۔ اب پتھر بھی رک گیا اور آپ نے کپڑا اٹھا کر پہنا۔ پھر پتھر کو اپنے عصا سے مارنے لگے۔ اللہ کی قسم اس پتھر پر موسیٰ علیہ السلام کے مارنے کی وجہ سے تین یا چار یا پانچ جگہ نشان پڑ گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان «يا أيها الذين آمنوا لا تكونوا كالذين آذوا موسى فبرأه الله مما قالوا وكان عند الله وجيها» تم ان کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو اذیت دی تھی ‘ پھر ان کی تہمت سے اللہ تعالیٰ نے انہیں بری قرار دیا اور وہ اللہ کی بارگاہ میں بڑی شان والے اور عزت والے تھے۔ میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔
امام مسلم نے بھی اس کو روایت کیا ہے
وَحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ الْحَارِثِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ، قَالَ: ” كَانَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ رَجُلًا حَيِيًّا، قَالَ فَكَانَ لَا يُرَى مُتَجَرِّدًا، قَالَ فَقَالَ: بَنُو إِسْرَائِيلَ: إِنَّهُ آدَرُ، قَالَ: فَاغْتَسَلَ عِنْدَ مُوَيْهٍ، فَوَضَعَ ثَوْبهُ عَلَى حَجَرٍ، فَانْطَلَقَ الْحَجَرُ يَسْعَى، وَاتَّبَعَهُ بِعَصَاهُ يَضْرِبُهُ: ثَوْبِي، حَجَرُ ثَوْبِي، حَجَرُ حَتَّى وَقَفَ عَلَى مَلَأٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَنَزَلَتْ {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى فَبَرَّأَهُ اللهُ مِمَّا قَالُوا وَكَانَ عِنْدَ اللهِ وَجِيهًا} [الأحزاب: 69]
یعنی ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے اس کو چار بصریوں نے روایت کیا ہے
بصری عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ
خلاس ابن عمرو البصري
محمد ابن سيرين بصری
حسن بصری
ابو داود کہتے ہیں خلاس نے ابو ہریرہ سے نہیں سنا
أنه لم يسمع من أبي هريرة
عینی کتاب عمدة القاري شرح صحيح البخاري میں کہتے ہیں
وَأما الْحسن فَلم يسمع من أبي هُرَيْرَة عِنْد الْمُحَقِّقين من الْحفاظ، وَيَقُولُونَ: مَا وَقع فِي بعض الرِّوَايَات من سَمَاعه عَنهُ فَهُوَ وهم
حسن بصری نے ابو ہریرہ سے نہیں سنا
ابن سیرین کے لئے کہا جاتا ہے انہوں نے ابو ہریرہ سے سنا ہے اور عبد الله بن شقیق کی سند ہے کہ اس کو قبول کیا جاتا ہے
متنا یہ روایت مبہم ہے – موسی علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام ساتھ ساتھ رہے – روایت میں صرف موسی کا ذکر ہے ہارون کا ذکر نہیں یہ معلوم ہے کہ ہارون (١٢٣ سال عمر)، موسی سے پہلے انتقال کر گئے تھے لیکن اس وقت موسی علیہ السلام بوڑھے تھے – بائبل کے مطابق فرعون سے اس مطالبہ کے وقت کہ نبی اسرئیل کو چھوڑ دے موسی ٨٠ سال کے تھے اور ہارون ٨٣ سال کے تھے – ظاہر ہے یہ دونوں جوان نہ تھے جب نبی اسرائیل کو لے کر نکلے
موسی علیہ السلام چھپ کر نہاتے تھے تو ہارون علیہ السلام کیا سب کے ساتھ نہاتے تھے ؟ یقینا وہ بھی چھپ کر نہاتے ہوں گے تو نبی اسرائیل کا الزام ہارون پر کیوں نہیں؟
روایت میں اس ابہام کی وجہ سے اس کو قبول نہیں کیا جا سکتا
روایت میں ہے کہ بنواسرائیل تمام برہنہ نہاتے تھے جبکہ حیا ایمان میں سے ہے تو یقینا تمام بنو اسرائیل برہنہ نہیں نہا سکتے – کیونکہ قرآن کے مطابق خروج سے پہلے ایسے مومن موسی کے ساتھ تھے جنہوں نے گھروں کو قبلہ بنایا ہوا تھا وہ یقینا موسی کی طرح چھپ کر ہی نہاتے ہوں گے
الغرض راقم کو یہ روایت سمجھ نہیں آئی کہ اس کو موسی علیہ السلام کے لئے خاص کر سکے
قرآن میں بنی اسرائیل کے کسی قول کا ذکر ہے جس سے انہوں نے موسی علیہ السلام کو الزام دیا لیکن الله نے اس کو ان سے دور کیا قرآن میں اس کی تفصیل نہیں کہ وہ الزام کیا تھا –
حقیقت الله کو پتا ہے
عصر حاضر کے بعض شیعہ کہتے ہیں کہ یہ ابو ہریرہ نے بیان کی جبکہ یہ ابی عبد الله سے بھی منسوب ہے
شیعہ تفسیر قمی میں آیت يا ايها الذين آمنوا لا تكونوا كالذين آذوا موسى فبراه الله مما قالوا وكان عند الله وجيها میں سند کے ساتھ اس کی وضاحت کی گئی ہے ہے
وحدثني أبي عن النضر بن سويد عن صفوان عن ابي بصير عن ابي عبدالله عليه السلام ان بني إسرائيل كانوا يقولون ليس لموسى ما للرجال وكان موسى إذا أراد الاغتسال يذهب إلى موضع لا يراه فيه أحد من الناس وكان يوما يغتسل على شط نهر وقد وضع ثيابه على صخرة فأمر الله الصخرة فتباعدت عنه حتى نظر بنو إسرائيل اليه فعلموا انه ليس كما قالوا فانزل الله (يا ايها الذين آمنوا لا تكونوا …الخ
ابی عبد الله علیہ السلام نے کہا کہ بنی اسرائیل کہا کرتے کہ موسی میں وہ نہیں جو مردوں میں ہے اور موسی جب غسل کا ارادہ کرتے تو اس جگہ جاتے جہاں کوئی ان کو دیکھ نہ سکتا تھا اور وہ نہر کنارے غسل کر رہے تھے اور کپڑے پتھر پر رکھے تھے پس الله نے چٹان کو حکم کیا انہوں نے پیچھا کیا یہاں تک کہ بنی اسرائیل نے دیکھا
شیعہ تفسیر مجمع البیان از مجلسی میں ہے
و اختلفوا فيما أوذي به موسى على أقوال … أن موسى كان حييا ستيرا يغتسل وحده فقالوا ما يستتر منا إلا لعيب بجلده إما برص و إما أدرة فذهب مرة يغتسل فوضع ثوبه على حجر فمر الحجر بثوبه فطلبه موسى فرآه بنو إسرائيل عريانا كأحسن الرجال خلقا فبرأه الله مما قالوا رواه أبو هريرة مرفوعا
تفسیر قمی شروع کی تفاسیر میں سے ہے
[امام بخاری نے جامع الصحیح میں صیغہ تمریض سے صحیح روایات کو بیان کیا ہے؟]
جواب
امام بخاری نے ابواب میں اور تبصروں میں اس صیغہ کو استعمال کیا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے دور میں یہ صیغہ صرف ضعیف کے لئے نہیں بولا جاتا تھا جیسا کہ متاخرین النووی وغیرہ کا قول ہے
بخاری کی معلق روایات پر ابن حجر فتح الباری میں کہتے ہیں
والحق أن هذه الصيغة لا تختص بالضعيف، بل قد تستعمل في الصحيح أيضًا ، بخلاف صيغة الجزم فإنها لا تستعمل إلا في الصحيح
اور حق یہ ہے کہ یہ صيغة ضعیف کے لئے خاص نہیں ہے بلکہ صحیح کے لئے بھی استعمالہوتا ہے بخلاف صيغة جزم کے جو صرف صحیح کے لئے استعمالہوتا ہے
امام بخاری صحیح میں کہتے ہیں
باب الجمع بين السورتين في الركعة .. ويُذكر عن عبد الله بن السائب : ( قرأ النبي صلى الله عليه وسلم المؤمنون في الصبح، حتى إذا جاء ذكر موسى، وهارون – أو ذكر عيسى – أخذته سعلة فركع
باب ایک رکعت میں سورتیں جمع کرنا اور (صيغة تمريض يذكر) ذکر کیا جاتا ہے
اس روایت کی سند امام مسلم اور ابن خزیمہ کے نزدیک صحیح ہے اور انہوں نے اس کو صحیح میں بیان کیا ہے
امام بخاری نے اس طرح ایک دوسرے مقام پر صيغة تمريض مين کہا ويُذكر عن أبي موسى
باب ذكر العشاء والعتمة .. ويُذكر عن أبي موسى، قال: «كنا نتناوب النبي صلى الله عليه وسلم عند صلاة العشاء فأعتم بها
لیکن یہ روایت صحیح ہی میں ٨٩ ، ٢٤٦٨ رقم سے بیان بھی ہے
فتح الباری میں اس پر ابن حجر نے کہا
قوله ويذكر عن أبي موسى سيأتي موصولًا عند المصنف مطولا بعد باب واحد وكأنه لم يجزم به لأنه اختصر لفظه نبه على ذلك شيخنا الحافظ أبو الفضل .
اور ان کا قول ويذكر عن أبي موسى تو یہ موصول ہے مصنف کے نزدیک … اور یہاں جزم سے نہیں کہا کیونکہ انہوں نے اس کو مختصر کر دیا ہے
اسی طرح باب میں امام بخاری نے کہا
باب الرقى بفاتحة الكتاب ويُذكر عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم
یہاں بھی صيغة تمريض يذكر ہے
یہ روایت صحیح بخاری میں موجود ہے لیکن باب میں اختصار کی بنا پر صیغہ تمرض ہے
ان امثال سے ظاہر ہے کہ امام بخاری صيغة تمريض صحیح روایات پر بھی استعمال کرتے تھے
امام بخاری جب صيغة تمريض استعمال کرتے ہیں تو بعض اوقات ان کی مراد ضعیف روایت بھی ہوتی ہے لیکن وہ فورا اس کے بعد اس کے ضعف کی طرف اشارہ کرتے ہیں مثلا
امام البخاري نے صحیح میں ( 1 / 169 ) کہا
ويُذكر عن أبي هريرة، رفعه « لا يتطوع الإمام في مكانه ولم يصح
اور ابو ہریرہ سے ذکر کیا جاتا ہے … جو صحیح نہیں
صحیح میں امام بخاری نے کہا
ويُذكر عن ابن عباس: « أن جلساءه شركاء » ولم يصح
ایسا ابن عباس سے ذکر کیا جاتا ہے .. جو صحیح نہیں
یہاں امام بخاری نے صيغة تمريض استعمال کیا ہے لیکن ساتھ ہی اس کے ضعف کا حوالہ دیا ہے
النكت الوفية بما في شرح الألفية از البقاعی کے مطابق
قولهُ: (استعمالها في الضعيفِ أكثرُ) (5) وكذا تعبيرُ ابنِ الصلاحِ بقولهِ: ((لأنَّ مثلَ هذهِ العباراتِ تستعملُ في الحديثِ الضعيفِ أيضاً)) (6) يدفعُ الاعتراضَ بأنَّ البخاريَّ قد يخرجُ ما صحَّ بصيغةِ التمريضِ، كقولهِ في بابِ الرُّقَى بفاتحةِ الكتابِ: ((ويذكرُ عنِ ابنِ عباسٍ، عن النبي – صلى الله عليه وسلم -)) (7) في الرقى بفاتحةِ الكتابِ معَ أنَّهُ أسندَ
قول اس صیغہ کا استعمال اکثر ضعیف کے لئے ہوتا ہے اور یہ ابن الصلاح کی تعبیر ہے قول سے کہ اس قسم کی عبارات کا استعمال حدیث میں ضعیف پر بھی ہوتا ہے یہ اس اعتراض کو دفع کرتا ہے کہ بےشک امام بخاری نے صحیح روایت کی تخریج کی ہے صیغہ تمریض سے جیسا کہ باب فاتحہ سے دم کرنے میں ہے یذکر عن ابن عباس اور یہ ان کی کتاب میں سندا بھی ہے
کتاب النكت على مقدمة ابن الصلاح از الزركشي الشافعي (المتوفى: 794هـ) کے مطابق
كَذَلِكَ نَازع فِيهِ الشَّيْخ عَلَاء الدّين مغلطاي – رَحمَه الله تَعَالَى -[قَالَ] فَإنَّا نجد البُخَارِيّ فِي مواضيع يَأْتِي بِصِيغَة الْجَزْم وَهِي ضَعِيفَة من خَارج وَيَأْتِي بِصِيغَة التمريض وَهِي صَحِيحَة مخرجة فِي كِتَابه
اسی طرح نزاع کیا ہے مغلطاي نے الله رحم کرے کہا ہم صحیح بخاری میں پاتے ہیں بعض مقام پر کہ صیغہ جزم ہے اور روایت صحیح سے باہر کی کتب میں ضعیف ہے اور صیغہ تمریض بخاری نے استعمال کیا ہے اور روایت صحیح ہے جو ان کی کتاب میں موجود نہیں ہے
یعنی امام بخاری تو صیغہ جزم تک سے ضعیف روایت بیان کرتے تھے جس کے لئے النووی اور سیوطی کا دعوی ہے کہ یہ صرف صحیح روایت پر استعمال ہوتا ہے
[/EXPAND]
[معلمی کے مطابق امام بخاری نے اپنی تاریخ کی کتاب میں غلطیاں کی ہیں؟]
اپنی کتاب، التنكيل بما في تأنيب الكوثري من الأباطيل، جلد ۲، صفحہ ٦٦٦-٦٦۷،میں فرماتے ہیں
لنک
http://shamela.ws/browse.php/book-12767/page-647
وأما التنديد بابن حبان فذكر الأستاذ أمورا:
منها أن ابن الصلاح وصفه بأنه غلط الغلط الفاحش في تصرفه.
أقول: ابن الصلاح ليس منزلته أن يقبل كلامه في مثل ابن حبان بلا تفسير،والمعروف مما ينسب ابن حبان فيه إلى الغلط أنه يذكر بعض الرواة في (الثقات) ثم يذكرهم في (الضعفاء) ، أو يذكر الرجل مرتين أو يذكره في طبقتين ونحو ذلك. وليس بالكثير وهو معذور في عامة ذلك وكثير من ذلك أو ما يشبهه قد وقع لغيره كابن معين والبخاري.
جہاں تک ابن حبان کی مذمت میں جو باتیں استاد کوثری نے کی ہیں، ان میں ایک یہ ہے کہ ابن صلاح نے ان کے بارے میں کہا ہے کہ وہ شدید ترین غلطیاں کرتے ہیں
میں یہ کہتا ہوں: کہ ابن صلاح ایسی منزلت کے حامل نہیں کہ ان کی بات بغیر وجہ بتائے مان لی جائے۔ اور جو مشہور بات ابن حبان سے منسوب ہے، وہ یہ ہے کہ وہ اس طرح کی غلطی کرتے ہیں کہ ایک راوی کو الثقات میں درج کرتے، اور پھر اس کا تذکرہ الضعفاء میں کرتے ۔ یا پھر ایک راوی کا ۲ بار ذکر کر دیتے یا پھر ۲ طبقوں میں ذکر کر دیتے۔ یہ کثیر مواقع پر نہیں ہے، اور عمومی طور پر انہیں معذور سمجھا جائے گا- اور اس معاملے میں (یعنی علم الرجال میں غلطیوں کے ضمن میں) کثیر مواقع پر یہ کام دیگر لوگوں سے ہوا ہے جیسا کہ ابن معین یا بخاری
جواب
معلمی ایک اچھے محقق تھے – راقم کے نزدیک ان کی تحقیق میں بعض باتیں صحیح ہیں مثلا یہ جوزجانی کے قدر دان ہیں اور ان کے مطابق شیعہ راویوں پر جوزجانی کی رائے صحیح ہے لہذا راقم نے اس کا ذکر اپنی تحقیق میں کیا ہے
رہی یہ بات کہ امام بخاری نے تاریخ میں غلطیاں کی ہیں تو اس میں المعلمی منفرد نہیں ہیں یہ بات ابن ابی حاتم نے بھی کی ہے
بیان خطا البخاری نام کی کتاب موجود ہے
http://waqfeya.com/book.php?bid=7454
ابن أبي حاتم الرازي – أبو زرعة الرازي نے امام بخاری کی غلطیاں گنوائی ہیں کیونکہ ان کے نزدیک امام صاحب اس علم میں پکے نہیں تھے
البتہ راقم سمجھتا ہے کہ تاریخ کی امام بخاری کی کتب میں غلطیاں ، اس وجہ سے ہیں کہ انہوں نے اس پر کام چھوڑ کر صحیح پر اپنی توجہ کر دی تھی مثلا لا تعداد راویوں پر امام بخاری نے نہ جرح کی ہے نہ تعدیل صرف نام لکھ دیے ہیں یعنی لسٹ بنا لی تھی اس پر کام کر رہے تھے پھر چھوڑ کر صحیح پر کام شروع کر دیا
اور عمر نے وفا نہ کی کہ اس ادھورے کام کو مکمل کرتے اور جرح و تعدیل بیان کرتے
یہ راقم کی رائے ہے
[/EXPAND]
[المعلمی کے مطابق امام بخاری نے اپنی تاریخ کی کتب میں غلطیاں کی ہیں ؟]
اپنی کتاب، التنكيل بما في تأنيب الكوثري من الأباطيل، جلد ۲، صفحہ ٦٦٦-٦٦۷،میں فرماتے ہیں
لنک
http://shamela.ws/browse.php/book-12767/page-647
وأما التنديد بابن حبان فذكر الأستاذ أمورا:
منها أن ابن الصلاح وصفه بأنه غلط الغلط الفاحش في تصرفه.
أقول: ابن الصلاح ليس منزلته أن يقبل كلامه في مثل ابن حبان بلا تفسير،والمعروف مما ينسب ابن حبان فيه إلى الغلط أنه يذكر بعض الرواة في (الثقات) ثم يذكرهم في (الضعفاء) ، أو يذكر الرجل مرتين أو يذكره في طبقتين ونحو ذلك. وليس بالكثير وهو معذور في عامة ذلك وكثير من ذلك أو ما يشبهه قد وقع لغيره كابن معين والبخاري.
جہاں تک ابن حبان کی مذمت میں جو باتیں استاد کوثری نے کی ہیں، ان میں ایک یہ ہے کہ ابن صلاح نے ان کے بارے میں کہا ہے کہ وہ شدید ترین غلطیاں کرتے ہیں
میں یہ کہتا ہوں: کہ ابن صلاح ایسی منزلت کے حامل نہیں کہ ان کی بات بغیر وجہ بتائے مان لی جائے۔ اور جو مشہور بات ابن حبان سے منسوب ہے، وہ یہ ہے کہ وہ اس طرح کی غلطی کرتے ہیں کہ ایک راوی کو الثقات میں درج کرتے، اور پھر اس کا تذکرہ الضعفاء میں کرتے ۔ یا پھر ایک راوی کا ۲ بار ذکر کر دیتے یا پھر ۲ طبقوں میں ذکر کر دیتے۔ یہ کثیر مواقع پر نہیں ہے، اور عمومی طور پر انہیں معذور سمجھا جائے گا- اور اس معاملے میں (یعنی علم الرجال میں غلطیوں کے ضمن میں) کثیر مواقع پر یہ کام دیگر لوگوں سے ہوا ہے جیسا کہ ابن معین یا بخاری
جواب
معلمی ایک اچھے محقق تھے – راقم کے نزدیک ان کی تحقیق میں بعض باتیں صحیح ہیں مثلا یہ جوزجانی کے قدر دان ہیں اور ان کے مطابق شیعہ راویوں پر جوزجانی کی رائے صحیح ہے لہذا راقم نے اس کا ذکر اپنی تحقیق میں کیا ہے
رہی یہ بات کہ امام بخاری نے تاریخ میں غلطیاں کی ہیں تو اس میں المعلمی منفرد نہیں ہیں یہ بات ابن ابی حاتم نے بھی کی ہے
بیان خطا البخاری نام کی کتاب موجود ہے
http://waqfeya.com/book.php?bid=7454
ابن أبي حاتم الرازي – أبو زرعة الرازي نے امام بخاری کی غلطیاں گنوائی ہیں کیونکہ ان کے نزدیک امام صاحب اس علم میں پکے نہیں تھے
اس کی تفصیل اپ کو میں پہلے دے چکا ہوں
البتہ راقم سمجھتا ہے کہ تاریخ کی امام بخاری کی کتب میں غلطیاں ، اس وجہ سے ہیں کہ انہوں نے اس پر کام چھوڑ کر صحیح پر اپنی توجہ کر دی تھی مثلا لا تعداد راویوں پر امام بخاری نے نہ جرح کی ہے نہ تعدیل صرف نام لکھ دیے ہیں یعنی لسٹ بنا لی تھی اس پر کام کر رہے تھے پھر چھوڑ کر صحیح پر کام شروع کر دیا
اور عمر نے وفا نہ کی کہ اس ادھورے کام کو مکمل کرتے اور جرح و تعدیل بیان کرتے
یہ راقم کی رائے ہے
[/EXPAND]
[امام بخاری روایت میں نام غائب کر دیتے ہیں ؟ ]
ایک اور بات کہ امام بخاری رحمہ الله نے کئی احادیث کا متن مختصر کیا اور کچھ جگہ ناموں کی جگہ فلاں فلاں لکھا
===========
مثال نمبر ١
===========
صحيح مسلم: كِتَابُ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِؓ (بَابُ مِنْ فَضَائِلِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍؓ) صحیح مسلم:
کتاب: صحابہ کرامؓ کے فضائل ومناقب
(باب: حضرت علی ؓ کے فضائل)
6229 . حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: اسْتُعْمِلَ عَلَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ مِنْ آلِ مَرْوَانَ قَالَ: فَدَعَا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَشْتِمَ عَلِيًّا قَالَ: فَأَبَى سَهْلٌ فَقَالَ لَهُ: أَمَّا إِذْ أَبَيْتَ فَقُلْ: لَعَنَ اللهُ أَبَا التُّرَابِ فَقَالَ سَهْلٌ: مَا كَانَ لِعَلِيٍّ اسْمٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَبِي التُّرَابِ، وَإِنْ كَانَ لَيَفْرَحُ إِذَا دُعِيَ بِهَا، فَقَالَ لَهُ: أَخْبِرْنَا عَنْ قِصَّتِهِ، لِمَ سُمِّيَ أَبَا تُرَابٍ؟ قَالَ: جَاءَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتَ فَاطِمَةَ، فَلَمْ يَجِدْ عَلِيًّا فِي الْبَيْتِ، فَقَالَ «أَيْنَ ابْنُ عَمِّكِ؟» فَقَالَتْ: كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ شَيْءٌ، فَغَاضَبَنِي فَخَرَجَ، فَلَمْ يَقِلْ عِنْدِي، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِإِنْسَانٍ «انْظُرْ، أَيْنَ هُوَ؟» فَجَاءَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ هُوَ فِي الْمَسْجِدِ رَاقِدٌ، فَجَاءَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ، قَدْ سَقَطَ رِدَاؤُهُ عَنْ شِقِّهِ، فَأَصَابَهُ تُرَابٌ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُهُ عَنْهُ وَيَقُولُ «قُمْ أَبَا التُّرَابِ قُمْ أَبَا التُّرَابِ»
حکم : صحیح
ابو حازم نے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی،کہا: کہ مدینہ میں مروان کی اولاد میں سے ایک شخص حاکم ہوا تو اس نے سیدنا سہل رضی اللہ عنہ کو بلایا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو گالی دینے کا حکم دیا۔ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے انکار کیا تو وہ شخص بولا کہ اگر تو گالی دینے سے انکار کرتا ہے تو کہہ کہ ابوتراب پر اللہ کی لعنت ہو۔ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ابوتراب سے زیادہ کوئی نام پسند نہ تھا اور وہ اس نام کے ساتھ پکارنے والے شخص سے خوش ہوتے تھے۔ وہ شخص بولا کہ اس کا قصہ بیان کرو کہ ان کا نام ابوتراب کیوں ہوا؟ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو گھر میں نہ پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تیرے چچا کا بیٹا کہاں ہے؟ وہ بولیں کہ مجھ میں اور ان میں کچھ باتیں ہوئیں اور وہ غصہ ہو کر چلے گئے اور یہاں نہیں سوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے فرمایا کہ دیکھو وہ کہاں ہیں؟ وہ آیا اور بولا کہ یا رسول اللہ! علی مسجد میں سو رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے، وہ لیٹے ہوئے تھے اور چادر ان کے پہلو سے الگ ہو گئی تھی اور (ان کے بدن سے) مٹی لگ گئی تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مٹی پونچھنا شروع کی اور فرمانے لگے کہ اے ابوتراب! اٹھ۔ اے ابوتراب! اٹھ۔
صحيح البخاري: كِتَابُ الِاسْتِئْذَانِ (بَابُ القَائِلَةِ فِي المَسْجِدِ)
صحیح بخاری: کتاب: اجازت لینے کے بیان میں
(باب: مسجد میں بھی قیلولہ کرنا جائز ہے)
6280 . حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: مَا كَانَ لِعَلِيٍّ اسْمٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَبِي تُرَابٍ، وَإِنْ كَانَ لَيَفْرَحُ بِهِ إِذَا دُعِيَ بِهَا، جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتَ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلاَمُ، فَلَمْ يَجِدْ عَلِيًّا فِي البَيْتِ، فَقَالَ: «أَيْنَ ابْنُ عَمِّكِ» فَقَالَتْ: كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ شَيْءٌ، فَغَاضَبَنِي فَخَرَجَ فَلَمْ يَقِلْ عِنْدِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِإِنْسَانٍ: «انْظُرْ أَيْنَ هُوَ» فَجَاءَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هُوَ فِي المَسْجِدِ رَاقِدٌ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ، قَدْ سَقَطَ رِدَاؤُهُ عَنْ شِقِّهِ فَأَصَابَهُ تُرَابٌ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُهُ عَنْهُ وَهُوَ يَقُولُ: «قُمْ أَبَا تُرَابٍ، قُمْ أَبَا تُرَابٍ»
حکم : صحیح
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبد العزیز بن حازم نے بیان کیا، ان سے حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کوئی نام ” ابو تراب “ سے زیادہ محبوب نہیں تھا۔ جب ان کو اس نام سے بلایا جاتا تو وہ خوش ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ علیہا السلام کے گھر تشریف لائے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو گھر میں نہیں پایا تو فرمایا کہ بیٹی تمہارے چچا کے لڑکے ( اور شوہر ) کہا ں گئے ہیں ؟ انہوں نے کہا میرے اور ان کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہوگئی تھی وہ مجھ پر غصہ ہوکر باہر چلے گئے اور میرے یہاں ( گھر میں ) قیلولہ نہیں کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے کہاکہ دیکھو وہ کہاں ہیں ۔ وہ صحابی واپس آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ تو مسجد میں سوئے ہوئے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ لیٹے ہوئے تھے اور چادر آپ کے پہلو سے گرگئی تھی اور گرد آلود ہوگئی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس سے مٹی صاف کرنے لگے اور فرمانے لگے ، ابو تراب ! ( مٹی والے ) اٹھو، ابو تراب ! اٹھو۔
اب ان دونوں احادیث کا سارا متن ایک جیسا ہی ہے، صرف فرق یہ ہے کہ ان جملوں کو امام بخاری نے نہیں لکھا
قال استعمل على المدينة رجل من آل مروان قال فدعا سهل بن سعد فأمره أن يشتم عليا قال فأبى سهل فقال له أما إذ أبيت فقل لعن الله أبا التراب فقال سهل ما كان لعلي اسم أحب إليه
شاید قیتبہ بن سعید نے یہ روایت بخاری و مسلم سے الگ الگ بیان کی ہو؟
لیکن بیہقی نے سنن کبری، جلد ۲، صفحہ ۴۴٦؛ میں اس روایت کو قتیبہ سے نقل کیا، اور ان الفاظ کو نقل کیا
لنک
http://islamport.com/w/mtn/Web/969/917.htm
ابن عساکر اپنی تاریخ میں یہی روایت نقل کرتے ہیں اور وہاں بھی یہ الفاظ ہیں
لنک
http://shamela.ws/browse.php/book-71/page-19003
===============
مثال نمبر ٢
===============
ًبخاری نے اپنی صحیح میں ایک روایت درج کی ہے کہ
صحيح البخاري: كِتَابُ البُيُوعِ (بَابٌ: لاَ يُذَابُ شَحْمُ المَيْتَةِ وَلاَ يُبَاعُ وَدَكُهُ) صحیح بخاری:
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
(باب : مردار کی چربی گلانا اور اس کا بیچنا جائز نہیں)
2223 . حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ قَالَ أَخْبَرَنِي طَاوُسٌ أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ بَلَغَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَنَّ فُلَانًا بَاعَ خَمْرًا فَقَالَ قَاتَلَ اللَّهُ فُلَانًا أَلَمْ يَعْلَمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَاتَلَ اللَّهُ الْيَهُودَ حُرِّمَتْ عَلَيْهِمْ الشُّحُومُ فَجَمَلُوهَا فَبَاعُوهَا
حکم : صحیح
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، کہا کہ مجھے طاؤس نے خبر دی، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، آپ فرماتے تھے کہ عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ فلاں شخص نے شراب فروخت کی ہے، تو آپ نے فرمایا کہ اسے اللہ تعالیٰ تباہ و برباد کردے۔ کیا اسے معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، اللہ تعالیٰ یہود کو برباد کرے کہ چربی ان پر حرام کی گئی تھی لیکن ان لوگوں نے اسے پگھلا کر فروخت کیا۔
اب یہ روایت مسند حمیدی میں موجود ہے، مگر انہوں نے فلاں نہیں کہا، بلکہ نام لیا ہے
13 – حدثنا الحميدي ثنا سفيان ثنا عمرو بن دينار قال أخبرني طاوس سمع بن عباس يقول بلغ عمر بن الخطاب أن سمرة باع خمرا فقال قاتل الله سمرة ألم يعلم أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : لعن الله اليهود حرمت عليهم الشحوم فجملوها فباعوها
(1/9)
لنک
http://islamport.com/d/1/mtn/1/98/3619.html
ابن عبدالبر نے اپنی کتاب، التمہید میں یہ سند درج کی ہے
لنک
http://islamport.com/d/1/srh/1/8/136.html
=============
مثال نمبر ٣
=============
صحيح مسلم: كِتَابُ اللِّبَاسِ وَالزِّينَةِ
بَاب تَحْرِيمِ تَصْوِيرِ صُورَةِ الْحَيَوَانِ وَتَحْرِيمِ اتِّخَاذِ مَا فِيهِ صُورَةٌ غَيْرُ مُمْتَهَنَةٍ بِالْفَرْشِ وَنَحْوِهِ وَأَنَّ الْمَلَائِكَةَ عَلَيْهِمْ السَّلَام لَا يَدْخُلُونَ بَيْتًا فِيهِ صُورَةٌ وَلَا كَلْبٌ
صحیح مسلم: کتاب: لباس اور زینت کے احکام
(باب: جاندار کی تصویر بنا نے اور جوفرش پر روندی نہ جا رہی ہو ں ان تصویروں کو استعمال کرنے کی ممانعت نیز یہ کہ جس گھر میں تصویر یا کتاہوا ہو اس میں ملا ئیکہ علیہ السلام دا خل نہیں ہو تے)
5543 . حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَأَبُو كُرَيْبٍ وَأَلْفَاظُهُمْ مُتَقَارِبَةٌ قَالُوا حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ عَنْ عُمَارَةَ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ قَالَ دَخَلْتُ مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ فِي دَارِ مَرْوَانَ فَرَأَى فِيهَا تَصَاوِيرَ فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذَهَبَ يَخْلُقُ خَلْقًا كَخَلْقِي فَلْيَخْلُقُوا ذَرَّةً أَوْ لِيَخْلُقُوا حَبَّةً أَوْ لِيَخْلُقُوا شَعِيرَةً
حکم : صحیح
ابن فضیل نے عمارہ سے،انھوں نے ابو زرعہ سے روایت کی،انھوں نے کہا : میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ مروان کے گھر گیا نھوں نے اس گھر میں تصوریں دیکھیں تو کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ،آپ نے فرما یا :” اللہ عزوجل نے فر ما یا اس شخص سے بڑا ظالم کو ن ہوگا جو میری مخلوق کی طرح مخلوق بنا نے چلا ہو۔وہ ایک ذرہ تو بنا ئیں یا ایک دانہ تو بنا ئیں یا ایک جو تو بنا ئیں !”
صحيح البخاري: كِتَابُ التَّوْحِيدِ وَالرَدُّ عَلَی الجَهمِيَةِ وَغَيرٌهُم
(بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ} [الصافات: 96])
صحیح بخاری: کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ الصافات میں )
(ارشاد اور اللہ نے پیدا کیا تمہیں اور جو کچھ تم کرتے ہو)
7559 . حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ عَنْ عُمَارَةَ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذَهَبَ يَخْلُقُ كَخَلْقِي فَلْيَخْلُقُوا ذَرَّةً أَوْ لِيَخْلُقُوا حَبَّةً أَوْ شَعِيرَةً
حکم : صحیح
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، ان سے ابن فضیل نے بیان کیا، ان سے عمارہ نے، ان سے ابوزرعہ نے اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ اس شخص سے بڑھ کر حد سے تجاوز کرنے والا اور کون ہے جو میری مخلوق کی طرح مخلوق بناتا ہے، ذرا وہ چنے کا دانہ پیدا کر کے تو دیکھیں یا گیہوں کا ایک دانہ یا جَو کا ایک دانہ پیدا کر کے تو دیکھیں۔
اب یہاں یہ الفاظ نہیں ہیں صحیح بخاری میں
—
مروان کے گھر گیا نھوں نے اس گھر میں تصوریں دیکھیں تو کہا
—
یہ روایت یہاں یہاں بھی آئ ہے
سنن کبری بیہقی
14345 – أخبرنا محمد بن عبد الله الحافظ ثنا أبو بكر بن إسحاق ثنا موسى بن إسحاق الأنصاري ثنا عبد الله بن أبي شيبة ح وأخبرنا محمد أنبأ أبو عبد الله محمد بن يعقوب ثنا إبراهيم بن أبي طالب وعبد الله بن محمد قالا ثنا أبو كريب قالا ثنا محمد بن فضيل ثنا عمارة بن القعقاع عن أبي زرعة قال : دخلت مع أبي هريرة رضي الله عنه دار مروان فرأى فيها تصاوير فقال سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول ومن أظلم ممن ذهب يخلق خلقا كخلقي فليخلقوا ذرة أو ليخلقوا حبة أو ليخلقوا شعيرة رواه البخاري في الصحيح عن أبي كريب ورواه مسلم عن أبي بكر بن أبي شيبة
(7/268)
لنک
http://islamport.com/d/1/mtn/1/52/1906.html
——
مسند امام احمد بن حنبل
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عُمَارَةَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ، دَارَ مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ، فَرَأَى فِيهَا تَصَاوِيرَ، وَهِيَ تُبْنَى، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” يَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذَهَبَ يَخْلُقُ خَلْقًا كَخَلْقِي، فَلْيَخْلُقُوا ذَرَّةً، أَوْ فَلْيَخْلُقُوا حَبَّةً، أَوْ لِيَخْلُقُوا شَعِيرَةً
لنک
http://shamela.ws/browse.php/book-25794/page-5661
جواب
امام بخاری واقعی ایسا کرتے ہیں کہ نام غائب کر دیتے ہیں
راقم نے یہ بات خود بھی نوٹ کی ہے
[/EXPAND]
[قاتلین حسین سے روایت لی گئی ہے ؟]
ائمہ نے اس بات کو واضح لکھا ہے کہ قاتلین امام حسین کی روایتوں رد کی جائیں۔ ابن ابی خیثمہ نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ یحیی ابن معین نے کہا کہ عمر بن سعد کوفی ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا وہ ثقہ ہے؟ انہوں نے کہا کہ کیسے ثقہ ہو سکتا ہے جب اس نے امام حسین کو قتل کیا
عمر ابن سعد کے کئی روایات اہلسنت کے کتب میں موجود ہیں
ایک روایت مسند احمد، ج 3، ص 105 سے پیش خدمت ہے
1519 – حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” قِتَالُ المسلم كُفْرٌ وَسِبَابُهُ فُسُوقٌ، وَلا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ
عمر بن سعد اپنے والد سے، اور وہ نبی اکرم سے نقل کرتے ہیں کہ نبی پاک نے کہا کہ مسلمان سے لڑنا کفر ہے، اور اس کی توہین کرنا گناہ۔ اور مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ وہ 3 دن سے زیادہ اپنے بھائی سے دوری رکھے
کتاب کے محقق، شیخ شعیب، نے سند کو حسن قرار دیا
مسند احمد کے دوسرے محقق، شیخ احمد شاکر نے اپنی تحقیق کے ج 2، ص 243 پر سند کو صحیح قرار دیا
جواب
عُمَر بن سعد بن أَبي وقاص القرشي الزُّهْرِيّ سے نسائی نے روایت سنن میں لی ہے
أخبرنا إسحق بن إبراهيم قال أنبأنا عبد الرزاق قال حدثنا معمر عن أبي إسحق عن عمر بن سعد قال حدثنا سعد بن أبي وقاص أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال قتال المسلم كفر وسبابه فسوق.
مسند احمد میں بھی ہے
بعض محدثین مثلا ابن معین نے اس سے منع کیا لیکن ظاہر ہے اس پر اجماع نہیں ہے
عمر سے اہل سنت اور شیعہ دونوں روایت کرتے تھے
رَوَى عَنه: ابنه إِبْرَاهِيم بْن عُمَر بن سعد، ويزيد بن أَبي مريم السلولي، وسعد بْن عُبَيدة، والعيزار بْن حريث (سي) ، وقتادة، ومحمد بْن عَبْد الرَّحْمَنِ بْن أَبي لبيبة، ومحمد بن مسلم ابن شهاب الزُّهْرِيّ، والمطلب بْن عَبد اللَّه بْن حنطب، ويزيد بْن أَبي حبيب المِصْرِي، وأبو إسحاق السبيعي (س) ، وابن ابنه أَبُو بكر بْن حفص بْن عُمَر بْن سعد.
اس میں أبو إسحاق السبيعي کوفی شیعہ ہیں جو عمر سے روایت کرتے رہے ہیں
دارقطنی نے کہا عمر سے ما خرجوا عنه في الصحيح
صحیح میں کوئی روایت نہیں لی گئی
———
راقم کی رائے
عمر بن سعد نے ہی قتل حسین کیا اس پر کوئی صریح دلیل نہیں ہے
یہ بات مختار ثقفی کذاب کی مشہور کردہ ہے جو تاریخ میں چلی آ رہی ہے
[/EXPAND]
[امام جعفر کی علم حدیث میں کیا حیثیت ہے ؟]
الشيخ عبد الرحمن المعلمي اليماني وہ یہ لکھ کر کیا ثابت کرنا چاہ رہے ہیں
التنكيل بما في تأنيب الكوثري من الأباطيل، ج1، ص677
وكان بنو فاطمة في عصر تأسيس المذاهب مضطهدين مروعين لا يكاد أحد يتصل بهم إلا وهو خائف على نفسه فلم يتمكنوا من نشر علمهم كما ينبغي
جواب
جعفر بن محمد بن على بن الحسين بن على بن أبى طالب القرشى الهاشمى ، أبو عبد الله المدنى الصادق پیدائش ٨٠ ہجری- المتوفی ١٤٨ ھ سے کتب ستہ میں پانچ میں روایات لی گئی ہیں
البخاري في الأدب المفرد – مسلم – أبو داود – الترمذي – النسائي – ابن ماجه
امام بخاری نے صحیح میں ان سے کچھ روایت نہیں کیا ہے
امام مسلم نے ان کی روایت الْوضُوء وَالصَّلَاة وَالصَّوْم وَالْحج وَالْجهَاد والزهد میں نقل کی ہے
امام یحیی بن سعید القطان کے نزدیک یہ مضبوط نہیں تھے
قَالَ عَلِيٌّ: عَنْ يَحْيَى بنِ سَعِيْدٍ، قَالَ: أَملَى عَلَيَّ جَعْفَرُ بنُ مُحَمَّدٍ الحَدِيْثَ الطَّوِيْلَ -يَعْنِي: فِي الحَجِّ (1) – ثُمَّ قَالَ: وَفِي نَفْسِي مِنْهُ شَيْءٌ (2) ، مُجَالِدٌ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُ.
یحیی بن سعید نے کہا – امام جعفر نے حج سے متعلق ایک طویل حدیث مجھے املاء کرائی پھر یحیی نے کہا میرے دل میں اس پر کچھ ہے اور مجالد مجھ کو ان سے زیادہ پسند ہے
حج والی یہ روایت کہا جاتا ہے
أخرجه مسلم (1218) في الحج، باب حجة النبي، عليه السلام، میں ہے
راقم کہتا ہے مجالد تو ضعیف ہے اور امام شافعی کے مطابق مجالد روایت کو کوڑے مارتا ہے یہ تقابل بہت سخت ہے اس وجہ سے الذھبی نے امام القطان پر جرح کی ہے
ابن معین ، شافعی نے امام جعفر کو ثقہ کہا ہے – امام احمد نے امام جعفر کو ضعیف کہا ہے
قال الميموني: قال أبو عبد الله: جعفر بن محمد، ضعيف الحديث، مضطرب. «سؤالاته» (360) .
جعفر کی احادیث جو ان کی اولاد سے ہوں ان کو بھی رد کیا گیا ہے – کتاب إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي میں ہے
وقد اعتبرت حديثه من حديث الثقات عنه مثل: ابن جريج والثوري ومالك وشعبة وابن عيينة ووهب بن خالد وذويهم فرأيت أحاديث مستقيمة ليس فيها شيء يخالف حديث الأثبات، ورأيت في رواية ولده عنه أشياء ليس من حديثه ولا من حديث أبيه ولا من حديث جده،
[/EXPAND]
[عبد الرزاق مختلط اور شیعہ تھے ؟]
ایک صاحب کہتے ہیں تقریب تہذیب کے مولف یعنی ابن حجر نے کہا
عبد الرزاق کا شیعہ ہونا ثابت نہیں کیونکہ ہم کو شیعوں کے پاس ان کی کوئی روایت نہیں ملی اگر شیعہ ہوتے تو ان سے وہ روایت کرتے
جواب
تقریب میں یہ الفاظ ہیں
عبد الرزاق ابن همام ابن نافع الحميري مولاهم أبو بكر الصنعاني ثقة حافظ مصنف شهير عمي في آخر عمره فتغير وكان يتشيع من التاسعة مات سنة إحدى عشرة وله خمس وثمانون
اس میں عبد الرزاق کو شیعہ لکھا گیا ہے
یہ مختلط تھے ابن صلاح کا قول ہے
حافظ عراقی نے لکھا ہے
لم يذكر المصنف أحدا ممن سمع من عبد الرزاق بعد تغيره إلا إسحق بن إبراهيم الدبرى فقط وممن سمع منه بعد ما عمى أحمد بن محمد بن شبوية قاله أحمد بن حنبل وسمع منه أيضا بعد التغير محمد بن حماد الطهرانى والظاهر أن الذين سمع منهم الطبرانى فى رحلته إلى صنعاء من أصحاب عبد الرزاق كلهم سمع منه بعد التغير وهم أربعة أحدهم الدبرى الذى ذكره المصنف وكان سماعه من عبد الرزاق سنة عشر ومائتين
مصنف ( ابن الصلاح) نے ذکر نہیں کیا کہ عبد الرزاق سے کس نے تغیر کے بعد سنا صرف اسحاق بن ابراہیم کے اور جس نے سنا ان کے نابینا ہونے کے بعد ان میں ہیں احمد بن محمد یہ امام احمد نے کہا اور ان سے اس حالت میں سنا محمد بن حماد نے اور ان سے سنا طبرانی نے جب صنعاء کا سفر کیا – ان سب نے بعد میں سنا اور یہ چار ہوئے جن میں الدبری ایک ہیں
ان سب نے ١٢٠ میں سنا
——-
تقریب تہذیب کے مولف یعنی ابن حجر نے کہا
ان کا شیعہ ہونا ثابت نہیں کیونکہ ہم کو شیعوں کے پاس ان کی کوئی روایت نہیں ملی اگر شیعہ ہوتے تو ان سے وہ روایت کرتے
راقم کہتا ہے ابن حجر کی تحقیق میں نقص ہے اگر ایسا کہا
قال الذهبي: عبد الرزاق بن همام ابن نافع، الحافظ الكبير، عالم اليمن، أبو بكر الحميري الصنعاني الثقة الشيعي
امام الذھبی نے ان کو شیعی کہا ہے
رجال الطوسي جو شیعوں کی کتاب ہے اس میں عبد الرزاق کا شمار شیعوں میں کیا گیا ہے
اور امام جعفر کے اصحاب میں شمار کیا گیا ہے
کتاب نقد الرجال از السيد مصطفى بن الحسين الحسيني التفرشي کے مطابق
عبد الرزاق بن همام اليماني: من أصحاب الباقر والصادق عليهما السلام، رجال الشيخ
امام احمد نے کہا
العلل ومعرفة الرجال: 2 / 59 الرقم 1545
قال عبد الله بن أحمد بن حنبل: سألت أبي، قلت له: عبد الرزاق كان يتشيع ويفرط في التشيع ؟ فقال: أما أنا فلم أسمع منه في هذا شيئا، ولكن كان رجلا تعجبه أخبار الناس – أو الأخبار
عبد الله نے احمد سے سوال کیا : کیا شیعہ تھے اور مفرط تھے ؟ احمد نے کہا جہاں تک میرا تعلق ہے میں نے ان سے ایسا کچھ نہیں سنا لیکن یہ ایک آدمی تھے جن کی خبروں پر لوگوں کو تعجب ہوتا
ابن عدی نے کہا
وقد روى أحاديث في الفضائل مما لا يوافقه عليها أحد من الثقات
یہ فضائل علی میں وہ روایت کرتے جن کی ثقات موافقت نہیں کرتے
یعنی اہل تشیع کے پاس یہ شیعہ تھے اور امام جعفر سے اور امام صادق سے روایت کرتے تھے
——–
اہل تشیع کی کتب میں ان کی سند سے بہت سی روایات ہیں جو فضائل علی سے متعلق ہیں جو اہل سنت روایت نہیں کرتے
غیر مقلد عالم ابو جابر دامانوی کتاب دین الخالص میں لکھتے ہیں
[/EXPAND]
[البانی اور صحیح بخاری کی روایت کا ایک رد پر سوال ہے]
کان للنبی فی حائطنا فرش له اللحیف
بخاری2855
ضعیف الجامع الصغیر/والضعیفه حدیث
قال الله تعالی ثلاثة انا خصمهم یوم القیامه رجل اعطی ثم غدر..الخ
بخاری ومسلم
ضعیف الجامع الصغیر 4054
اے دو روایت مثال ہے بہت ایسے احادیث جو بخاری اور مسلم کا ہے البانی انکو ضعیف کہا ہے،سوال اے ہے کیا واقعی اے روایات ضعیف ہے؟یا البانی صاحب کا تحقیق صحیح نہے ہے؟
پلیز وضاحت کردے
جزاکم الله خیرا
جواب
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ عَبَّاسِ بْنِ سَهْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: «كَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَائِطِنَا فَرَسٌ يُقَالُ لَهُ اللُّحَيْفُ»، قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: ” وَقَالَ بَعْضُهُمُ: اللُّخَيْفُ ”
صحیح بخاری کی اس حدیث کو البانی نے “الضعيفة” (4226) میں رد کیا ہے
البانی نے اس کی وجہ نقل کی
وأخوه أبي بن عباس؛ ضعيف كما في “التقريب”، مع أنه من رجال البخاري كما يأتي، وقد اتفقوا على تضعيفه، منهم البخاري نفسه؛ فقد قال:
“ليس بالقوي”! فالعجب منه كيف أخرج له هذا الحديث؟!
اس میں ابی بن عباس ضعیف ہے جیسا التقریب میں ہے اس کے ساتھ کہ یہ صحیح بخاری کے رجال میں سے ہے جیسا آئے گا اور اس کی تضعیف پر اجماع ہے جس میں بخاری خود بھی ہیں (یعنی اس کو مجروح کہتے ہیں ) پس بخاری نے کہا قوی نہیں لیکن تعجب ہے کہ اس حدیث کی تخریج کیسے الصحیح میں کر دی
راقم کے نزدیک البانی نے صحیح کہا ہے امام بخاری سے غلطی ہوئی
اس قسم کی بعض روایات جن میں انہوں نے راوی کو تاریخ صغیر و کبیر میں ضعیف کہا اور پھر صحیح میں اس سے روایت لی چند ہیں ، ان پر کہا جاتا ہے کہ صحیح البخاری ایک غیر مکلمل کتاب تھی اس پر کام جاری تھا لیکن عمر نے وفا نہ کی
[/EXPAND]
[عکرمہ مولی ابن عباس پر یہ تبصرہ ضحی الاسلام میں کیا گیا ہے کیا یہ صحیح ہے ؟]
ایک کتاب جس کا نام ضحى الإسلام ہے
لنک
http://www.hindawi.org/books/30536269/
جو مصر سے چھپی ہے – ایک شیعہ اس کے بارے میں لکھتا ہے کہ
——-
حفاظ نے صحیح بخاری کے اسی 80 رجال کو ضعیف قرار دیا ہے, اس طرح انہوں نے صحیح بخاری کیلئے سب سے بڑی مشکل پیدا کر دی ہے- کیونکہ ان میں بعض رجال کاذب اور غیر معتبر ہونا اس قدر مسلم ہے جن میں شک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں چنانچہ ان کا حال معلوم ہے- لیکن بعض رجال ایسے بھی ہیں جن کا حال مجہول ہے- لہذا اس قسم کے افراد حدیث کی اسناد میں آئے ہیں- ان کے بارے میں ہمارے لئے حدیث کی تشخیص بڑا مشکل مسئلہ ہے- ان مجہول الحال راویوں میں ہی حضرت ابن عباس کا غلام عکرمہ ہے- اس نے قدر حدیثیں نقل کی ہیں جس کی حد و انتہا نہیں- چناچہ اس کی جھوٹی حدیثوں سے حدیث و تفسیر کی دنیا مّملو نظر آتی ہے- حالانکہ بعض رجال نے اسے مجہول الحال ، کاذب اور خوارج کہ پیرو بتلایا ہے- یہ امراء سے انعام حاصل کر کے حدیثیں گڑھتا تھا- علمائے رجال نے اس جھوٹ کے متعدد شواہد نقل کئے ہیں
ضحى الإسلام ـ الجزء ۲ صفحہ 117-
جواب
أحمد أمين إبراهيم الطباخ مصر کے ہیں سن ١٩٥٤ میں انتقال ہوا
عکرمہ حصين بْن أبي الحر کے غلام تھے انہوں نے ان کو تحفہ میں ابن عباس کو دیا
الکامل از ابن عدی میں ان پر سخت جرح ہے
ان کو كَانَ يرى رأي الخوارج رأي الصفرية کہا گیا یعنی گمراہ
ان کو ابن سیرین نے کذاب کہا
ان کا جنازہ اکثریت نے چھوڑ دیا
أبي الشعثاء (خوارج کے مطابق یہ ان کے امیر ہیں) کہتے عکرمہ عالم ہیں
عَن عَمْرو بن دينار، قَالَ: سَمِعْتُ أبا الشعثاء يَقُولُ هَذَا مولى ابن عباس هَذَا أعلم الناس
وكان جابر بْن زيد يقول، حَدَّثَنا العين يعني عِكرمَة.
أبي الشعثاء جابر بْن زيد ان کو العين کہتا
جابر بْن زيد اہل سنت کے مطابق خارجی نہیں لیکن خوارج کے مطابق خارجی ہیں
امام بخاری نے عکرمہ سے حدیث لی ہے اور ان پر جرح کو نقل نہیں کیا اس میں وہ مشھور حدیث بھی ہے کہ عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا
[/EXPAND]
[ڈاکٹر عثمانی نے مزار یا میلے میں غلط حوالہ دیا ہے یا علمی خیانت کی ہے ؟]
بعض لوگوں کا اعتراض ہے کہ ضعیف حدیث کا آدھا حصہ بیان کر دیا اور آدھا حصہ صحیح قرار دیا ڈاکٹر صاحب نے. اور انہوں نے خیانت کی آدھا حصہ وہ اس حدیث کو کہتے ہیں کہ یہ بھی ضعیف ہے لا تجعلوا قبری او بیتی عیدا جبکہ ڈاکٹر صاحب نے اسے صحیح قرار دیا پلیز آپ حقیقت واضح کر دیجیے کہ کونسی خیانت کی گی ہے یا بہتان ہے؟ ؟؟ جزاک اللہ
جواب
ڈاکٹر عثماني رحمہ الله عليہ نے مزار يا ميلے ص 29 پر لکھا
لا تجلوأ قبري أو بيتي عيدا
ميري قبر يا گھر کو ميلہ کي جکہ نہ بناو
رواه ابو يعلي و سعيد بن منصور
ڈاکٹر صاحب نے جو حديث پيش کي ہے اس کے الفاظ ہیں
لا تجعلوا قبري او بيتي عيدا
ان الفاظ کے ساتھ يہ روايت کتب ميں نہيں ہے
اغلبا عثماني صاحب نے کسي اور کتاب ميں يہ حوالہ ديکھا اور بيان کيا – اصلا يہ دو الگ روايات ہيں جن کو غلطي سے انہوں نے ملا ديا ہے
ايک صحيح اور ايک ضعيف ہے
تتخذوا کا مطلب ہے اختيار کرنا
تجعلوا مطلب بنانا
قبر کو بت کرنا
موطا ميں ہے
وَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِي وَثَنًا يُعْبَدُ. اشْتَدَّ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى قَوْمٍ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ»
رسول الله نے دعا کي اے الله ميري قبر کو بت نہ کريے گا
اس کي سند صحيح ہے
عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ نے کہا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے کہا اے الله ميري قبر کو بت مت بنا – الله کا غضب پڑھتا ہے اس قوم پر جو اپنے انبياء کي قبروں کو مسجد بنا دے
اس ميں عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ کو بعض نے صحابي تسليم نہيں کيا ہے ليکن کتاب الاستذكار از ابن عبد البر ج 2 ص 359 پر ہے
وَلَمْ يَنْفَرِدْ بِهِ مَالِكٌ كَمَا زَعَمَ بَعْضُ النَّاسِ
اس روايت ميں امام مالک کا تفرد نہيں جيسا بعض لوگوں کا دعوي ہے
پھر ابن عبد البر نے اس کے طرق کا ذکر کيا ہے اور اسکو ثابت قرار ديا ہے
التمہيد ميں ابن عبد البر نے اس روايت پر کہا ہے
وَلَا خِلَافَ بن عُلَمَاءِ أَهْلِ الْأَثَرِ وَالْفِقْهِ أَنَّ الْحَدِيثَ إِذَا رَوَاهُ ثِقَةٌ عَنْ ثِقَةٍ حَتَّى يَتَّصِلَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ حُجَّةٌ يُعْمَلُ بِهَا إِلَّا أَنْ يَنْسَخَهُ غَيْرُهُ وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عِنْدَ جَمِيعِهِمْ حُجَّةٌ فِيمَا نَقَلَ وَقَدْ أَسْنَدَ حَدِيثَهُ هَذَا عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ وَهُوَ مِنْ ثِقَاتِ أَشْرَافِ أَهْلِ الْمَدِينَةِ
اور علماء اثر اور فقہاء ميں اس پر کوئي اختلاف نہيں کہ اگر ثقہ کي ثقہ سے روايت ہو يہاں تک کہ رسول الله صلي الله عليہ وسلم تک جائے تو وہ حجت ہے قابل عمل ہے سوائے اس کے منسوخ ہو کسي دوسري روايت سے اور مالک سب کے نزديک حجت ہيں جو بھي وہ نقل کريں اور اس حديث کو مسند روايت کيا ہے عمر بن محمد بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ نے جو ثقات ميں سے ہيں اہل مدينہ کے اشرافيہ ميں سے ہيں
اس طرح يہ روايت مسند بھي روايت ہوئي ہے
راقم کو يہ سنن سعيد بن منصور ميں نہيں ملي
ليکن ابن تيميہ نے اپني کتابوں ميں اس کا حوالہ سنن سعيد بن منصور ديا ہے
وہاں وہ جو سند ديتے ہيں وہ وہي مسند ابو يعلي والي ہے جو مندرجہ ذيل ہے
گھر کو عيد کا مقام کرنا
کتاب حديث علي بن حجر السعدي عن إسماعيل بن جعفر المدني از إسماعيل بن جعفر بن أبي كثير الأنصاري الزرقي مولاهم، أبو إسحاق المدني – ويكني أيضا: أبا إبراهيم (المتوفى: 180هـ) ميں ہے
حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، ثنا إِسْمَاعِيلُ، ثنا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ أَنَّهُ رَأَى قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَالْتَزَمَهُ، وَمَسَحَ قَالَ: فَحَصَبَنِي حَسَنُ بْنُ حَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ فَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: [ص:492] «لَا تَتَّخِذُوا بَيْتِي عِيدًا، وَلَا تَتَّخِذُوا بُيُوتَكُمْ مَقَابِرَ»
حسن بن حسن بن ابي طالب نے کہا کہ رسول الله صلي الله عليہ وسلم نے فرمايا ميرے گھر کو ميلہ کي جگہ مت کرو اور نہ اپنے گھروں کو قبريں بنائو
اس کي سند ميں مجھول ہے لہذا ضعيف ہے
اسي متن سے مسند ابو يعلي ميں ہے يعني ابو يعلي کي سند ضعيف ہے
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَيَّانَ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نَافِعٍ، أَخْبَرَنِي الْعَلَاءُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «صَلُّوا فِي بُيُوتِكُمْ، لَا تَتَّخِذُوهَا قُبُورًا، وَلَا تَتَّخِذُوا بَيْتِي عِيدًا، صَلُّوا عَلَيَّ وَسَلِّمُوا، فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ وَسَلَامَكُمْ يَبْلُغُنِي أَيْنَمَا كُنْتُمْ»
[حكم حسين سليم أسد] : إسناده ضعيف
اس کي سند ميں عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نَافِعٍ ضعيف ہے
مسند احمد، مصنف عبد الرزاق ميں ہے
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِي وَثَنًا، لَعَنَ اللَّهُ قَوْمًا اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ»
اس کي سند صحيح ہے
ابو ہريرہ رضي الله عنہ سے مروي ہے کہ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فريا : اے الله ميري قبر کو بت نہ کرنا الله کي لعنت ہو اس قوم پر جو اپنے انبياء کي قبروں کو مسجد بنا دے
ڈاکٹر عثماني اصلا قبر کو بت بنانے سے منع کر رہے ہيں اس تناظر ميں ان کي بات صحيح ہے ليکن ان کا حوالہ درست نہيں ہے
التَّنويرُ شَرْحُ الجَامِع الصَّغِيرِ
المؤلف: محمد بن إسماعيل بن صلاح بن محمد الحسني، الكحلاني ثم الصنعاني، أبو إبراهيم، عز الدين، المعروف كأسلافه بالأمير (المتوفى: 1182هـ)
کے مطابق
روايت کے الفاظ صلوا في بيوتكم ولا تتخذوها قبورًا، ولا تتخذوا بيتي عيداً) کا مطلب ہے
فأظهر معانيه هنا لا تجعلوا قبري مجمعاً لكم ومنه ويرشد إليه قوله – صلى الله عليه وسلم – “اللهم لا
تجعل قبري وثنا يعبد” لأن العبادة لازمة للاجتماع فالنهي عن اتخاذه عيدا نهى عن ذريعة عبادته فلا يتخذ قبره كذلك
پس ظاہري معنوں ميں يہاں ہے کہ قبر کو مجمع کي جگہ مت کرنا اور اس کي طرف ہدايت کا قول ہے صلي الله عليہ وسلم کا کہ اے الله ميري قبر کو بت مت کريو – کيونکہ عبادت کے لئے اجتماع لازم ہے پس ميلہ سے منع کيا جو نہي عن ذريعہ ہے عبادت کا
عثماني صاحب نے غلط حوالہ ديا کيونکہ انہوں نے اغلبا شروحات سے اس کو ليا ہے جہاں وہ غلط تھا اور يہ خيانت نہيں بلکہ تسامح ہے بعض اوقات اصل مصدر سے نہيں بلکہ شروحات سے بات لے لي جاتي ہے مثلا فتح الباري ميں شرح ميں احاديث ہيں اگر کسي کے پاس اصل کتب نہيں تو وہ اصل کي تلاش کي بجائے نقل سے لے ليتا ہے
لہذا اعتراض بظاہر درست ہے ليکن اس سے ڈاکٹر صاحب کے موقف پر کوئي فرق نہيں پڑتا کيونکہ يہ روايت دوسري کتابوں ميں صحيح سند سے ہے
اصلا يہ شوشہ چھوڑا گيا تھا کہ ڈاکٹر عثماني نے قبر کو بت يا ميلہ کا مقام نہ بنا والي روايت جو دي ہے اس کے آگے کے حصہ ميں ہے کہ تم جہاں بھي ہو درود و سلام مجھ تک آ جاتا ہے چنانچہ مسعود احمد امير جماعت المسلمين نے يہ چيلنج ديا تھا کہ جس روايت ميں بھي ہو کہ قبر کو بت نہ بنا اس ميں درود والا حصہ ضرور ہے بعد ميں اس کو لوگ نقل کرتے رہے
ڈاکٹر عثماني صاحب کے آخري دور کي بات ہے ان کا انتقال ہوا اور جواب نہيں ديا جا سکا نہ تبديلي کي جا سکتي تھي کيونکہ يہ ان کي تحرير تھي
جو لوگ اعتراض کر رہے ہيں انہوں نے بھي نہيں ديکھا کہ يہ روايت اس طرح بھي ہے کہ اس ميں درود کا ذکر نہيں اتا لہذا ابھي ميں نے وہي يہاں بيان کي ہيں
ڈاکٹر عثماني سے غلطي ممکن ہے اور اس طرح مخالفين کي بات صحيح ہے کہ انہوں نے غلطي کي ليکن يہ تسامح کہلاتا ہے خيانت نہيں
اگر ہم اس طرح اعتراض کريں تو ہم بھي اس طرح کئي غلطياں متقدمين و متاخرين ميں دکھا سکتے ہيں
[/EXPAND]
[حدثنا أخبرنا أنبأنا کا فرق کیا ہے ؟]
جواب
حدثنا فلاں
اخبرنا فلاں
انبانا فلاں
http://fatwa.islamweb.net/fatwa/index.php?page=showfatwa&Option=FatwaId&Id=226357
حدثنا مطلب جو شیخ سے سنا
اخبرنا مطلب جو شیخ نے پڑھ کر سنایا
انبانا مطلب جو شیخ نے پڑھا یا سنایا متقدمین کے مطابق لیکن متاخرین کے نزدیک اس کا مطلب اجازہ ہے کہ انہوں نے اجازت دی کہ ان کی کتاب سے پڑھ دیا جائے
[/EXPAND]
[تدلیس کیا ہے ؟ کیا صحیحین میں مدلس راوی کی روایت ہے ؟]
جواب
ایک دور میں روایت بیان کرنا بہت خوبی کی بات تھی خاص کر عراق میں لوگ ثقہ غیر ثقہ سب سے سن رہے تھے اور جب دوسرے سے روایت بیان کرتے تو اس کو چھپا لیتے کہ کس سے سنا ہے کیونکہ اس طرح ان کی اہمیت کم ہونے کا اندیشہ تھا
اس میں بہت سے مشھور لوگ یا راوی مبتلا تھے کوئی زیادہ کرتا تو کوئی کم
دلس کہتے ہیں دھوکہ کو
http://www.almaany.com/ar/dict/ar-en/دلس/
کہ یہ راوی دھوکہ دیتا ہے مدلس ہے لہذا جب کہے عن اس سے تو چوکنہ ہو جاؤ یہ نام چھپا لیتا ہے
تحصیل علم کیسے ہوا اس کو اخبرنا یا اخبرنی یا حدثنی وغیرہ نہ کہا ہو تو یہ شک بڑھ جاتا ہے اس لئے اس میں اختلاف تھا کہ ان کی روایت مطلقا چھوڑ دی جائیں یا بعض لی جائیں
صحیحین میں لی گئی ہے اور تحدیث کی تحقیق ہوئی یا نہیں واضح نہیں ہے
زبیر علی مقالات حدیث میں لکھتے ہیں
یہ دعوی بلا دلیل ہے اور صحیحین کی تمام روایات جن میں مدلس ہوں ان کی تحقیق ابھی تک نہیں کی گئی ہے ان کو سماع پر محمول کیا جا سکے- بلکہ یہ بات علم حدیث میں معروف ہے کہ امام مسلم صرف امکان لقاء پر روایت لیتے ہیں نہ صرف یہ بلکہ بعض لوگوں سے امام مسلم نے روایت لے لی ہے جبکہ امام بخاری نے نزدیک ان کا سماع نہیں ہے
[/EXPAND]
[توریت میں نبی صلی الله علیہ وسلم کی صفت کا بیان پر مبنی حدیث ہے]
صحیح بخاری میں ہے
حدیث نمبر: 2125 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ ، حَدَّثَنَا هِلَالٌ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، قَالَ: لَقِيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قُلْتُ: “أَخْبِرْنِي عَنْ صِفَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي التَّوْرَاةِ ؟ قَالَ: أَجَلْ، وَاللَّهِ إِنَّهُ لَمَوْصُوفٌ فِي التَّوْرَاةِ بِبَعْضِ صِفَتِهِ فِي الْقُرْآنِ، يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ، إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا وَحِرْزًا لِلْأُمِّيِّينَ أَنْتَ عَبْدِي وَرَسُولِي سَمَّيْتُكَ المتَوَكِّلَ، لَيْسَ بِفَظٍّ، وَلَا غَلِيظٍ، وَلَا سَخَّابٍ فِي الْأَسْوَاقِ، وَلَا يَدْفَعُ بِالسَّيِّئَةِ السَّيِّئَةَ، وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَغْفِرُ، وَلَنْ يَقْبِضَهُ اللَّهُ حَتَّى يُقِيمَ بِهِ الْمِلَّةَ الْعَوْجَاءَ بِأَنْ يَقُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَيَفْتَحُ بِهَا أَعْيُنًا عُمْيًا، وَآذَانًا صُمًّا، وَقُلُوبًا غُلْفًا”، تَابَعَهُ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ هِلَالٍ ، وَقَالَ سَعِيدٌ ، عَنْ هِلَالٍ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنِ ابْنِ سَلَامٍ ، غُلْفٌ كُلُّ شَيْءٍ فِي غِلَافٍ سَيْفٌ أَغْلَفُ، وَقَوْسٌ غَلْفَاءُ، وَرَجُلٌ أَغْلَفُ إِذَا لَمْ يَكُنْ مَخْتُونًا.
ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے فلیح نے بیان کیا، ان سے ہلال بن علی نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار نے کہ میں عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے ملا اور عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو صفات توریت میں آئی ہیں ان کے متعلق مجھے کچھ بتائیے۔ انہوں نے کہا کہ ہاں! قسم اللہ کی! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تورات میں بالکل بعض وہی صفات آئی ہیں جو قرآن شریف میں مذکور ہیں۔ جیسے کہ اے نبی! ہم نے تمہیں گواہ، خوشخبری دینے والا، ڈرانے والا، اور ان پڑھ قوم کی حفاظت کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔ تم میرے بندے اور میرے رسول ہو۔ میں نے تمہارا نام متوکل رکھا ہے۔ تم نہ بدخو ہو، نہ سخت دل اور نہ بازاروں میں شور غل مچانے والے، (اور تورات میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ) وہ (میرا بندہ اور رسول) برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لے گا۔ بلکہ معاف اور درگزر کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس وقت تک اس کی روح قبض نہیں کرے گا جب تک ٹیڑھی شریعت کو اس سے سیدھی نہ کرا لے، یعنی لوگ «لا إله إلا الله» نہ کہنے لگیں اور اس کے ذریعہ وہ اندھی آنکھوں کو بینا، بہرے کانوں کو شنوا اور پردہ پڑے ہوئے دلوں کو پردے کھول دے گا۔ اس حدیث کی متابعت عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے ہلال سے کی ہے۔ اور سعید نے بیان کیا کہ ان سے ہلال نے، ان سے عطاء نے کہ «غلف» ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو پردے میں ہو۔ «سيف أغلف، وقوس غلفاء» اسی سے ہے اور «رجل أغلف» اس شخص کو کہتے ہیں جس کا ختنہ نہ ہوا ہو۔
جواب
یہ روایت صحیح نہیں ہے
ایسا توریت کے کسی نسخہ میں نہیں ملا یہاں تک کہ بحر مردار کے طومار میں بھی نہیں ملا
سند میں فليح بن سليمان المدني بھی ہے جس کی روایت لینے سے محدثین ابن معین ، النسائي نے منع کیا ہے
مسند دارمی میں ہے
أَخْبَرَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا مَعْنٌ (2) – هُوَ ابْنُ عِيسَى -، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ أَبِي فَرْوَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ سَأَلَ كَعْبَ الأَحْبَارِ: كَيْفَ تَجِدُ نَعْتَ رَسُولِ اللهِ صَلى الله عَليهِ وسَلم فِي التَّوْرَاةِ؟ فَقَالَ كَعْبٌ: نَجِدُهُ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللهِ، يُولَدُ بِمَكَّةَ، وَيُهَاجِرُ إِلَى طَابَةَ وَيَكُونُ مُلْكُهُ بِالشَّامِ، وَلَيْسَ بِفَحَّاشٍ، وَلَا بِسَخَّابٍ فِي الأَسْوَاقِ، وَلَا يُكَافِئُ بِالسَّيِّئَةِ السَّيِّئَةَ، وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَغْفِرُ، أُمَّتُهُ الْحَمَّادُونَ، يَحْمَدُونَ اللَّهَ فِي كُلِّ سَرَّاءٍ، وَيُكَبِّرُونَ اللَّهَ عَلَى كُلِّ نَجْدٍ، يُوَضِّؤُونَ أَطْرَافَهُمْ، وَيَأتَزِرُونَ فِي أَوْسَاطِهِمْ، يَصُفُّونَ فِي صَلَاتِهِمْ كَمَا يَصُفُّونَ فِي قِتَالِهِمْ، دَوِيُّهُمْ فِي مَسَاجِدِهِمْ كَدَوِيِّ النَّحْلِ، يُسْمَعُ مُنَادِيهِمْ فِي جَوِّ السَّمَاءِ.
ابن عباس نے کعب الاحبار سے پوچھا کہ توریت میں رسول الله کی کیا صفت ہے ؟ کعب نے کہا محمد مکہ میں پیدا ہوں گے ہجرت کر کے طابہ جائیں گے جہاں اپ کی حکمرانی شام تک ہو گی نہ بدکلام کریں گے نہ بازار میں شور نہ برائی کا بدلہ برائی سے لیں گے بلکہ معاف کریں گے اپ کے امتی اپ کی تعریف کریں گے جو پریشانی و خوشی میں الله کی حمد کریں گے ہر ٹیلے و اونچائی سے الله کی تکبیر کہیں گے اپنے ہاتھ پیر کا وضو کریں گے اور کمر پر آزار باندھیں گے نماز میں جنگ جیسی صف بنائیں گے اور مسجد میں شہد کی مکھی کی طرح بھبھنائیں گے جس کی آواز آسمان تک جائے گی
اس کی سند میں معاوية بن صالح بن حدير ہے جس سے عبد الرحمان بن المہدی کو وحشت ہوتی تھی اور ابن القطان اس سے خوش نہ تھے ابی حاتم کہتے اس سے دلیل مت لو
مسند دارمی میں اس کی دو اور اسناد ہیں
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ صَالِحٍ، قال: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، قال: حَدَّثَنِي خَالِدٌ – هُوَ ابْنُ يَزِيدَ (1) -، عَنْ سَعِيدٍ – هُوَ ابْنُ أَبِي هِلَالٍ -، عَنْ هِلَالِ بْنِ أُسَامَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنِ ابْنِ سَلَامٍ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: إِنَّا لَنَجِدُ صِفَةَ رَسُولِ اللهِ صَلى الله عَليهِ وسَلم: إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا وَحِرْزًا لِلأُمِّيِّينَ، أَنْتَ عَبْدِي وَرَسُولِي، سَمَّيْتُهُ الْمُتَوَكِّلَ، لَيْسَ بِفَظٍّ وَلَا غَلِيظٍ وَلَا سَخَّابٍ بِالأَسْوَاقِ، وَلَا يَجْزِي بِالسَّيِّئَةِ مِثْلَهَا وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَتَجَاوَزُ، وَلَنْ أَقْبِضَهُ حَتْى يُقِيمَ الْمِلَّةَ الْمُتَعَوِّجَةَ، بِأَنْ يُشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلاَّ اللهُ، نَفْتَحُ بِهِ أَعْيُنًا عُمْيًا، وَآذَانًا صُمًّا، وَقُلُوبًا غُلْفًا. [الإتحاف:7182]
عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ نے اس قول کو عبد الله بن سلام رضی الله عنہ سے بھی منسوب کیا ہے
اس کو سعيد بن أبى هلال نے روایت کیا ہے جو مختلط تھے
سنن دارمی کے مطابق یہ قول کعب الاحبار کا تھا
– قَالَ عَطَاءُ بْنُ يَسَارٍ: وَأَخْبَرَنِي أَبُو وَاقِدٍ اللَّيْثِيُّ: أَنَّهُ سَمِعَ كَعْبًا يَقُولُ: مِثْلَ مَا قَالَ ابْنُ سَلَامٍ.
أَبُو وَاقِدٍ اللَّيْثِيُّ نے کہا ایسا ہی کعب الاحبار نے کہا جیسا ابن سلام نے کہا
کعب الاحبار یا ابن سلام رضی الله عنہ کے حوالے سے کہا گیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم بازار میں شور نہ کریں گے – یہ آیات توریت میں نہیں بلکہ انبیاء سے منسوب کتاب یسعیاہ باب ٤٢ میں انے والے مسیح سے متعلق ہے
Is. 42:1 See my servant, whom I am supporting, my loved one, in whom I take delight: I have put my spirit on him; he will give the knowledge of the true God to the nations.
Is. 42:2 He will make no cry, his voice will not be loud: his words will not come to men’s ears in the streets.
میرا بندہ جس کی میں مدد کر رہا ہوں میرا محبوب جس سے میں راضی ہوں اس میں میں نے اپنی روح ڈالی ہے یہ اقوام کو اصل رب کا علم دے گا
یہ شور و غوغہ نہ کرے گا اور اس کی آواز بلند نہ ہو گی اور لوگوں کو سڑکوں پر اس کی آواز سنائی نہ دے گی
جبکہ ہم کو معلوم ہے کہ مکی زندگی میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی دعوت الی الله بازاروں میں ہی تھی جہاں بلند آواز سے اپ الله کی طرف سب کو پکارتے تھے
صحیح بخاری کی روایت کے مطابق
وَيَفْتَحُ بِهَا أَعْيُنًا عُمْيًا، وَآذَانًا صُمًّا، وَقُلُوبًا غُلْفًا
رسول الله اس سے اندھے کی آنکھ کھولے گا اور بہرے کے کان اور دلوں کے تالے
جبکہ یہ بھی کتاب یسعیاہ سے لیا گیا گے
Book of Isaiah chapter 35
Say to those who have an anxious heart,
“Be strong; fear not!
Behold, your God
will come with vengeance,
with the recompense of God.
He will come and save you.”
Then the eyes of the blind shall be opened,
and the ears of the deaf unstopped;
then shall the lame man leap like a deer,
and the tongue of the mute sing for joy.
For waters break forth in the wilderness,
and streams in the desert;
the burning sand shall become a pool,
and the thirsty ground springs of water;
کہو ان سے جن کے دل متذذب ہیں
ڈرو مت مظبوط رہو
خبردار تمہارا رب
انتقام کے ساتھ نمودار ہو گا
الله کی جانب سے بدلہ
وہ آ کر تم کو بچائے گا
اندھے کی اس وقت آنکھ کھل جائے گی
بہرے کے کان بند نہ رہیں گے
لنگڑا ہرن کی طرح دوڑے گا
اور گونگے کی زبان اس وقت گنگنائے گی
پس ویرانے میں پانی بہے گا
اور نہریں صحرا میں
اور جلتی ریت ، ایک حوض ہو گی
اور سوکھی زمین ، پانی کا چشمہ
یسعیاہ باب ٣٥ آیات 4 سے 7 تک
یہود میں ان آیات کی بنیاد پر ایک مسیح کا انتظار تھا جو جنم کے اندھے کو بینا کرے، بہرے کو سامع الصوت کرے، لنگڑے کو ٹھیک کر دے، گونگے کو زبان دے دے –
راویوں کا کتاب یسعیاہ کی آیات کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر منطبق کرنا عجیب بات ہے کیونکہ اول یہ توریت نہیں دوم یہ مسیح سے متعلق آیات ہیں نہ کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے متعلق
[/EXPAND]
[امام ابوزرعہ نے صحیح مسلم کی اعترضات کیے اس پر تحقیق پر سوال ہے]
صحیح مسلم پر امام ابوزرعہ رازی کے اعتراضات کا جائزہ
لنک
جواب
محمد خبیب احمد مضمون صحیح مسلم پر امام ابوزرعہ رازی کے اعتراضات کا جائزہ (ہفتہ روزہ الاعتصام 1438ھ) میں لکھتے ہیں
“امام مسلم نے صحیح مسلم میں ان سے صرف ایک روایت لی ہے۔(ملاحظہ ہو صحیح مسلم، حدیث: ۲۷۳۹) اور امام ابوزرعہ امام مسلم کے شاگرد بھی ہیں۔ (سؤالات البرذعي: ۵۲۵/۲، ۵۹۱)یا پھر یہ روایۃ الأقران کی صورت ہے۔”
تبصرہ: کتاب رجال صحیح مسلم از ابن منجویہ کے مطابق
عبيد الله بن عبد الكريم أَبُو زرْعَة الرَّازِيّ وَهُوَ ابْن عبد الكريم بن يزِيد بن فروخ مولى عَبَّاس بن مطرف الْقرشِي
روى عَن يحيى بن عبد الله بن بكير فِي الدُّعَاء
امام ابو زرْعَة سے ایک روایت الدعا میں لی گئی ہے
صحیح مسلم کی روایت ہے
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ الْكَرِيمِ أَبُو زُرْعَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنِي يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: كَانَ مِنْ دُعَاءِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِكَ، وَتَحَوُّلِ عَافِيَتِكَ، وَفُجَاءَةِ نِقْمَتِكَ، وَجَمِيعِ سَخَطِكَ
اس سے امام ابو زرْعَة، امام مسلم کے شیخ ہوئے
إمام أبو زرعه كه إمام مسلم كا شاگرد ثابت کرنے کے جوش میں انہوں نے أبو زرعة الرازي وجهوده في السنة النبوية کا بھی حوالہ دیا ہے جس کو سؤالات البرذعي: ۵۲۵/۲، ۵۹۱) بھی کہا جاتا ہے جو البرذعي روایت ہے اس میں کا کہنا ہے
حدثني مسلم بن الحجاج قال: سمعت إسحاق بن راهويه (4) قال: أتيت أبا داود سليمان بن عمرو فقلت في نفسي لأسألنه عن شيء لا أعرف فيه من قول المتقدمين شيئاً فقلت له: يا أبا داود ما عندك في التوقيت بين دَمي المرأة في
یہاں حدثنی اصل میں البرذعي نے کہا ہے نہ کہ أبو زرعة الرازي نے
——-
امام ابو زرعہ کے الفاظ کا ترجمہ کیا گیا ہے
///////
میں ابوزرعہ کی مجلس میں تھا کہ صحیح مسلم کا تذکرہ چھڑ گیا، پھر فضل الصائغ(امام فضل بن عباس جو حافظ و ناقد ہیں اور فضلک الرازی کے نام سے شہرت یافتہ ہیں) کی کتاب کا ذکر ہوا تو ابوزرعہ مجھے فرمانے لگے: ان لوگوں نے قبل از وقت پیش رفت کی ہے۔ انھوں نے ایسا کام کیا ہے جس کے ذریعے سے وہ سربلند ہونا چاہتے ہیں۔ انھوں نے ایسی کتاب لکھی جو ان سے پہلے نہیں لکھی گئی تاکہ وہ قبل از وقت اپنی علمی دھاک بٹھا سکیں۔
ایک روز امام ابوزرعہ کے پاس ایک آدمی صحیح مسلم لایا۔ میں بھی وہیں موجود تھا۔ ابوزرعہ اسے دیکھنے لگے تو یکایک اسباط بن نصر کی حدیث نظر سے گزری۔ مجھے ابوزرعہ نے کہا: یہ صحیح سے کس قدر دُور ہے،
/////////
اب ظاہر ہے کہ امام ابو زرعہ کو صرف تین راویون پر اعتراض نہیں ہے بلکہ یہ اجمالا کہا گیا ہے کہ دیکھو اس قسم کے راویوں سے روایت لی گئی ہے
اس پر فاضل محقق کو سمجھ آیا وہ لکھتے ہیں
////
مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ابوزرعہ نے صحیح مسلم پر دو قسم کے اعتراضات وارد کیے ہیں:
اولًا: امام مسلم نے بعض متکلم فیہ راویوں کی روایات تو ذکر کی ہیں، جب کہ بعض ثقہ راویوں کی احادیث اصالتاً بیان کرنا تو کجا متابعتاً اور شاہداً بھی بیان نہیں کیں!
ثانیاً: انھوں نے اپنی کتاب کا نام ’’الجامع الصحیح‘‘ رکھا ہے جس کا تقاضہ ہے کہ سبھی یا اکثر صحیح احادیث اس میں موجود ہوں، جب کہ امرِ واقع ایسا نہیں ہے۔ اس لیے جب بدعتیوں کی تردید میں صحیح حدیث پیش کی جائیں گی تو وہ اس پر اعتراض کرتے ہوئے چلااُٹھیں گے کہ یہ صحیح مسلم میں موجود نہیں، لہٰذا صحیح کیوں کر ہو گی؟
//////
امام ابو زرعہ نے کہا کہ ابن عجلان جیسوں کی روایت نہیں لی اور اہل بدعت کی روایت لے لی ہے
دوم امام مسلم نے کذاب راویوں تک سے روایت لے لی ہے یہاں ان کا مقصد صرف ایک راوی پر جرح کرنا نہیں ہے جس کا دفاع کرنے یہ محقق صاحب بیٹھ گئے ہیں
پھر فرماتے ہیں کہ امام ابو زرعہ نے یہ اعتراضات صحیح البخاری پر کیوں نہ کیے
راقم کہتا ہے امام ابو زرعہ نے تو صحیح بخاری مکمل ہونے سے پہلے ہی امام بخاری کا بائیکاٹ کر دیا تھا جیسا الکلابازی نے خبر دی
ابن ابی حاتم کتاب الجرح و التعدیل میں لکھتے ہیں کہ میرے باپ اور امام ابو زرعہ نے امام بخاری کی روایات ترک کر دیں ان کے خلق القرآن کے مسئلہ میں عقیدے کی بنا پر
سمع منه أبي وأبو زرعة ثم تركا حديثه عندما كتب اليهما محمد ابن يحيى النيسابوري انه اظهر عندهم ان لفظه بالقرآن مخلوق.
إن سے میرے باپ اور ابو زرعہ المتوفی ٢٧٤ ھ نے سنا پھر ترک کیا جب امام الذھلی نے لکھا کہ یہ ان پر امام بخاری کا لفظه بالقرآن مخلوق (کا عقیدہ) ظاہر ہوا
کتاب المعلم بشيوخ البخاري ومسلم از أبو بكر محمد بن إسماعيل بن خلفون (المتوفى 636 هـ) کے مطابق
وقال أبو الفضل صالح بن أحمد بن محمد الحافظ: لما وافى محمد بن إسماعيل البخاري صاحب الجامع المعروف بالصحيح إلى الري قصد أبا زرعة عبيد الله ابن عبد الكريم بن فروخ وأبا حاتم محمد بن إدريس وكانا إمامي المسلمين في وقتهما وزمانهما والمرجوع إليهما في الحديث وعلم ما اختلف فيه الرواة، فاحتجبا عنه فعاود ولم يأذنا له بالدخول عليهما، فعاود أبا زرعة فأبى وشدد في ذلك وقال: لا أحب أن أراه ولا يراني، فبلغ بعض العلماء أن أبا زرعة منع محمد بن إسماعيل أن يدخل عليه، وتحدث الناس بذلك فقصد أبا زرعة وسأله عن ذلك وذكر الحديث.
أبو الفضل صالح بن أحمد بن محمد الحافظ کہتے ہیں کہ جب امام بخاری صاحب جامع المعروف الصحیح نے الری کا قصد کیا کہ امام ابوزرعہ اور ابی حاتم سے ملیں جو مسلمانوں کے اپنے زمانے کے امام تھے اور حدیث میں ان کی طرف رجوع کیا جاتا تھا اور ان کو راویوں کے اختلاف کا علم تھا تو یہ دونوں ، امام بخاری سے چھپ گئے اور امام بخاری کا اپنے پاس داخلہ بند کر دیا اور ابو زرعہ….. نے کہا مجھے پسند نہیں کہ اس کو دیکھوں یا یہ (بخاری) مجھے- پس یہ بات علماء تک پہنچی کہ امام ابو زرعہ امام بخاری کو منع کرتے ہیں کہ وہ داخل ہوں
لہذا یہ بھی فاضل محقق کی ناقص تحقیق ہے
——–
صحیحین میں ضعیف راویوں سے روایت لی گئی ہے جس پر امام ابو زرعہ کو اعتراض ہے لیکن متاخرین نے اسی سے متابعت اور شواہد وغیرہ کی اصطلاحات ایجاد کی ہیں ان کو ملا کر محمد خبیب احمد امام ابو زرعہ کو سمجھا رہے ہیں کہ یہ روایات کیوں لکھی گئی ہیں
یہ متاخرین کی رائے ہوئی جو امام مسلم کے ہم عصر ہیں ان کے نزدیک نہ متابعات کوئی شی ہے نہ شاہد کوئی بلا ہے اگر ایسا کسی کتاب میں کیا جائے تو کم از کم اس کو الصحیح نہیں کہنا چاہیے
مثلا امام ترمذی نے بھی ہر صحیح و ضعیف نقل کی ہیں لیکن کتاب میں روایت کو حسن کہہ کر اس کا مرتبہ بلند نہیں کیا – امام مسلم نے صحیح میں ان اس قسم کے متکلم فیہ رواة کی روایت بھی لی اور اس کو صحیح بھی کہا
—
کذاب کی روایت کا دفاع
امام ابو زرعہ نے فرمایا
کہا: مسلم، احمد بن عیسیٰ مصری کی روایت صحیح مسلم میں ذکر کرتے ہیں! مجھے ابوزرعہ نے کہا: میں نے مصریوں کو احمد بن عیسیٰ کے بارے میں شک کرتے ہوئے نہیں دیکھا (انھیں یقین تھا)۔ ابوزرعہ نے اپنے ہاتھ سے اپنی زبان کی طرف اشارہ کیا، گویا وہ کہنا چاہتے تھے: وہ جھوٹ بولتا ہے۔
فاضل محقق یہاں بھی متقدمیں محدثین کا منہج سمجنے میں ٹھوکر کھا گئے ہیں اور چلے ایک کذاب کا دفاع کرنے – جو شخص اپنے محلہ میں ہی کذاب مشہور ہو وہ نیشاپور پہنچ کر صحیح مسلم کا عالی مقام راوی بن گیا امام ابو زرعہ جو خود نیشا پوری ہیں ان کو امام مسلم کی اس حرکت پر سخت افسوس ہوا اور امام مسلم کی سخت سست کہا
محقق خود بھی مان گئے ہیں کہ
امام ابن معین نے حلفاً کہا ہے کہ وہ کذاب ہے
امام ابی حاتم نے کہا
مجھے بتلایا گیا کہ وہ مصر گیا، وہاں سے ابن وہب اور مفضل بن فضالہ کی کتب خریدیں۔ پھر میں بغداد آیا، پوچھا: کیا احمد، مفضل سے بیان کرتا ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں۔ میں نے اس پر نکیر کی کیوں کہ ابن وہب اور مفضل کی روایت برابر نہیں ہو سکتی۔ لوگوں نے اس پر تنقید کی ہے۔‘‘(الجرح و التعدیل: ۶۴/۲(
مصیبت یہ ہوئی کہ محقق کہتے ہیں احمد بن عیسی امام بخاری و مسلم کے استاد ہیں لہذا ان پر اس کا دفاع فرض ہو گیا
یہاں تک کہ ابن حبان جیسے متساھل شخص کا حوالہ لکھا
امام ابن حبان:
’’و کان متقنا․‘‘ ’’وہ متقن تھے۔‘‘ (الثقات: ۱۵/۸(
امام ابن حبان کا ایسے الفاظ سے توثیق کرنا اس راوی کی زبردست ثقاہت پر دلالت کرتا ہے
راقم کہتا ہے خوب ہے ابن حبان کا کسی کو ثقہ قرار دینا کب سے زبردست ثقات کی دلیل ہوا؟
صحیح مسلم میں اس کذاب احمد بن عیسیٰ کی ایک دو نہیں یہ روایات ہیں
صحیح مسلم میں احمد کی مرویات حسب ذیل ۳۲ ہیں:
۲۱، ۲۴۰، ۲۸۳، ۲۹۵، ۳۰۳، ۳۵۵، ۳۵۸، ۵۳۳، ۵۶۶، ۶۱۵، ۶۲۴، ۸۴۷، ۸۵۳، ۹۸۲، ۱۱۴۷، ۱۱۸۸، ۱۱۹۸، ۱۲۱۱)۳۲۲۳(، ۱۲۳۷، ۱۳۴۸، ۱۴۴۸، ۱۵۳۶)۳۹۲۵(، ۱۵۸۵، ۱۶۲۲، ۱۶۴۵، ۱۶۸۴، ۱۷۰۸، ۲۱۱۸، ۲۲۰۴، ۲۲۵۴، ۲۶۵۸، ۵۳۳)۷۴۷۰(
ان روایات میں سے ایک روایت (حدیث: ۱۷۰۸) اصالتاً، ایک روایت (حدیث: ۷۹۳/۳۵۵) متابعتاً، ایک روایت (حدیث: ۲۱۱۸) شاہداً، جب کہ باقی انتیس مرویات مقروناً ہیں
لیکن کذاب لوگوں نے بیان کیا مثلا امام مسلم کے قول کی توضیح ابوبکر بن غزرہ نے بیان کی کہ مکی بن عبدان ابوحاتم کا بیان ہے کہ میں نے امام مسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
’’میں نے یہ مسند کتاب امام ابوزرعہ رازی کی خدمت میں پیش کی۔ انھوں نے اس کتاب میں جس جس حدیث کے بارے میں مجھے اشارہ کیا کہ اس میں علّت (اور ضعف کا سبب) ہے، میں نے اسے چھوڑ دیا۔ ان کی رائے کی روشنی میں جو صحیح تھی اور اس میں کوئی علت نہ تھی اسے میں نے بیان کیا ہے۔‘‘ (فوائد أبي بکر بن عقال الصقلي عن أبي بکر بن غزرۃ قال: ذکر مکي بن عبدان …… بہ حوالہ ضعیف بخاری و مسلم․ تقیید المہمل للغساني الجیاني: ۶۷/۱ و السیاق لہ․ مقدمۃ إکمال المعلم للقاضي عیاض، ص: ۱۱۰․ المفہم للقرطبي: ۳۹/۱․ صیانۃ صحیح مسلم لابن الصلاح، ص: ۶۷․ فہرسۃ ابن الخیر، ص: ۸۷․ سیر أعلام النبلاء: ۵۶۸/۱۲)
اس قول کے راوی ابوبکر بن غزرہ کا ترجمہ نہیں ملا۔
یعنی جب کذاب کی روایت صحیح مسلم سے نکلی ہی نہیں آج تک ہے تو پھر یہ بات ایک اور جھوٹ ہوئی جو کسی مجھول نے نقل کی
لیکن فاضل محقق نے اس کو بھی بیان کر دیا ہے-
ایک جھوٹے کو بچانے کے لئے ایک مجہول کی مدد حاصل کی گئی ہے
——-
راقم کہتا ہے کہ امام بخاری و مسلم نے اس کذاب کی روایت لکھی ہے
امام بخاری: (صحیح بخاری، حدیث:۶۸۴۸، ۶۸۴۹، ۶۸۵۰
اور ان دو کے علاوہ کوئی اور اس دور میں نہیں جو اس راوی کی روایت کو صحیح کہتا ہو کذاب کی روایت کو صحیح کہنا تھا کہ امام ابو زرعہ نے کہا
انہوں نے کتابیں تالیف کیں جس کو ان سے پہلے کسی نے نہیں کیا تاکہ اپنے تئیں دوسروں پر سردار بنیں وقت سے پہلے
——–
بہر حال یہ تو ثابت ہوا کہ امام ابو زرعہ اور امام ابی حاتم کتاب صحیح مسلم کو صحیح نہیں قرار دیتے تھے اس کی روایات پر جرح کرتے تھے
امثال
امام ابوزرعہ سے ربیعہ بن ابی عبدالرحمان کی حدیث کے بارے میں سوال کیا گیا جس میں ربیعہ پر اختلاف ہوا۔ بشر بن مفضل نے یوں بیان کیا:
’’عن عمارۃ بن غزیۃ عن ربیعۃ عن عبدالملک بن سعید بن سوید الأنصاري عن أبي حُمید الساعدي أو عن أبي أسید الساعدي عن النبيﷺ أنہ قال: ((إذا دخل أحدکم المسجد فلیسلم و لیقل: اﷲم افتح لي أبواب رحمتک․ و إذا خرج فلیقل: اللّٰہم إني أسألک من فضلک․))‘‘
اسے سلیمان بن بلال یوں بیان کرتے ہیں:
’’عن ربیعۃ عن عبدالملک بن سعید بن سُوید عن أبي حمید و أبي أسید عن النبيﷺ․‘‘
امام ابوزرعہ نے فرمایا:
’’عن أبي حمید و أبي أسید کلاہما عن النبيﷺ أصح․‘‘(العلل لابن أبي حاتم، رقم: ۵۰۹)
امام ابن ابی حاتم رقم طراز ہیں:
’’سألت أبازرعۃ عن حدیث رواہ ابن عیینۃ عن عمر بن سعید بن مسروق عن أبیہ عن عبایۃ بن رفاعۃ بن رافع بن خدیج عن رافع بن خدیج، قال: أعطی النبيﷺ أبا سفیان -یوم حنین- و صفوان بن أمیۃ و عیینۃ بن حصن و الأقرع بن حابس مائۃ من الإبل …… إلخ․فقال أبو زرعۃ: ہذا خطأ،رواہ الثوري، فقال: عن أبیہ عن ابن أبي نعم عن أبي سعید الخدري عن النبيﷺ․ و ہذا الصحیح․ قلت لأبي زرعۃ: ممن الوہم؟ قال: من عمر․‘‘ (العلل، رقم: ۹۱۶)
امام ابن ابی حاتم فرماتے ہیں:
’’سألت أبي و أبا زرعۃ عن حدیث رواہ أبوعوانۃ عن الأعمش عن إبراہیم عن الأسود عن عائشۃ قالت: ما رأیت النبيﷺ صام العشر من ذي الحجۃ قط․و رواہ أبوالأحوص فقال: عن منصور عن إبراہیم عن عائشۃ؟ فقالا: ہذا خطأ․ و رواہ الثوري عن الأعمش و منصور عن إبراہیم قال: حدثت عن النبيﷺ․‘‘ (العلل، رقم: ۷۸۱)
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس حدیث کا مرسل ہونا صحیح ہے۔
جبکہ اس کو مرفوع امام مسلم نے روایت کیا ہے
امام ابن ابی حاتم رقم طراز ہیں:
’’سألت أبازرعۃ عن حدیث النبيﷺ في تختمہ، أفي یمینہ أصح أم في یسارہ؟ فقال: في یمینہ الحدیث أکثر، و لم یصح ہذا و لا ہذا․‘‘ (کتاب العلل، رقم: ۱۴۳۹)
’’میں نے امام ابوزرعہ سے نبی کریمﷺ کی انگوٹھی والی حدیث کے بارے میں سوال کیا کہ دائیں ہاتھ کے بارے میں زیادہ صحیح ہے یا بائیں ہاتھ کے بارے میں؟ فرمایا: اکثر احادیث میں دائیں ہاتھ کا ذکر ہے۔ نہ دائیں ہاتھ کی تصریح والی حدیث صحیح ہے اور نہ بائیں ہاتھ والی حدیث۔‘‘
امام مسلم فرماتے ہیں:
1۔ ’’و حدثنا عثمان بن أبي شیبۃ و عباد بن موسی قالا: حدثنا طلحۃ بن یحیی – و ہو الأنصاري ثم الزرقي- عن یونس عن ابن شہاب عن أنس بن مالک أن رسول اللّٰہﷺ لبس خاتم فضۃ في یمینہ، فیہ فص حبشي، کان یجعل مما یلي کفہ․‘‘
2۔ ’’و حدثني زہیر بن حرب حدثني إسماعیل بن أبي أویس حدثني سلیمان بن بلال عن یونس بن یزید بہذا الإسناد مثل حدیث طلحۃ بن یحیی․‘‘ (صحیح مسلم، رقم: ۵۴۸۷، ۵۴۸۸․ دارالسلام)
امام ابن ابی حاتم فرماتے ہیں:
’’و سئل أبو زرعۃ عن حدیث رواہ الأوزاعي و حسین المعلم عن یحي بن أبي کثیر عن سالم الدوسي، قال: دخلت مع عبدالرحمان بن أبي بکر علی عائشۃ فدعا بوضوء فقالت: یا عبدالرحمان! أسبغ الوضوء، فإني سمعت رسول اللّٰہﷺ یقول: ((ویل للأعقاب من النار․)) و رواہ عکرمۃ بن عمار عن یحي بن أبي کثیر عن أبي سلمۃ بن عبدالرحمان عن أبي سالم مولی المہریین، قال: دخلت مع عبدالرحمان بن أبي بکر علی عائشۃ …… فذکر الحدیث․ فقال أبو زرعۃ: الحدیث حدیث الأوزاعي و حسین المعلم․ وحدیث شیبان وہم، وہم فیہ أبو نعیم․‘‘ (العلل، رقم: ۱۴۸)
امام ابوزرعہ کا مقصود یہ ہے کہ اوزاعی اور حسین المعلم کی سند راجح ہے کیوں کہ اس میں ابوسلمہ بن عبدالرحمان کا واسطہ نہیں برعکس روایت عکرمہ بن عمار کے۔عکرمہ کی حدیث صحیح مسلم (حدیث: ۵۶۸) میں ابوسلمہ بن عبدالرحمان کے اضافی واسطے کے ساتھ موجود ہے۔
نویں روایت:
امام ابن ابی حاتم نے امام ابوحاتم اور امام ابوزرعہ سے درج ذیل حدیث کی بابت دریافت کیا:
’’محمد بن عباد عن عبدالعزیز الدرواردي عن حمید عن أنس أن النبيﷺ قال: ((إن لم یثمرہا اللّٰہ فبم یستحل أحدکم مال أخیہ!))‘‘
یعنی رسول اﷲﷺ نے فرمایا: ’’اگر اﷲ تعالیٰ اسے پھل دار نہ کرے تو تم میں سے کوئی اپنے بھائی کا مال کیسے حلال قرار دیتا ہے!‘‘
’’امام ابوحاتم اور امام ابوزرعہ فرمانے لگے: یہ (مرفوع بیان کرنا) غلطی ہے، وہ تو حضرت انس کا کلام ہے۔ امام ابوزرعہ نے مزید فرمایا: دراوردی (عبدالعزیز بن محمد) اور مالک بن انس اسے مرفوع بیان کرتے ہیں، جب کہ دیگر رواۃ موقوف بیان کرتے ہوئے حضرت انس کا کلام ذکر کرتے ہیں۔‘‘ (کتاب العلل، رقم: ۱۱۲۹)
محمد بن عباد بن زبرقان مکی کی روایت صحیح مسلم (حدیث: ۱۵۵۵، دار السلام ترقیم: ۳۹۷۹) میں شاہد میں بہ طورِ متابعت ہے۔
یعنی نیشاپور کے محدثین میں ہی اپس میں روایات کی تصحیح پر اختلافات تھے تو یہ کہنا کہ صحیح مسلم پر اجماع ہو گیا کہ اس کی سب روایات صحیح ہیں کیسے درست ہو سکتا ہے
محقق نے خود نقل کیا ہے
صحیح مسلم میں اصول میں ذکر کردہ پانچ روایات کی تحقیق کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
پہلی حدیث: ’’کان یذکر اللّٰہ علی کل أحیانہ․‘‘
اس روایت کو امام ابوزرعہ اور امام ابو حاتم نے ضعیف کہا ہے، جب کہ امام بخاری، امام مسلم، امام ترمذی، امام ابوعوانہ، امام ابونعیم، امام ابن خزیمہ، امام ابن حبان، حافظ ابن حجر اور محدث البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔ اور یہی راجح ہے۔
تبصرہ : امام ترمذی نے صحیح نہیں حسن صحیح کہا ہے اور امام بخاری و مسلم کا اس کو صحیح کہنا ان کا ہم عصر محدثین سے اختلاف ہے باقی جتنے نام ہیں یہ سب متاخر ہیں
دوسری حدیث: ((من نفس عن مؤمن کربۃ……․إلخ))
اس روایت کو امام ابوزرعہ، امام ابن عمار، امام ترمذی اور حافظ ابن رجب نے ضعیف قرار دیا ہے، جب کہ امام مسلم، امام ابن جارود، امام حاکم، امام ابوموسیٰ مدینی، حافظ ابن حبان، حافظ ابن قیم، حافظ ابن حجر، محدث البانی، محدث حوینی، الشیخ علی حسن حلبی، ڈاکٹر خالد بن منصور الدریس وغیرہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ اور یہی موقف درست ہے۔
تیسری حدیث: ’’عن رافع بن خدیج قال: أعلی النبيﷺ أبا سفیان …… مئۃ من الإبل ……إلخ․‘‘
امام مسلم، امام ابو عوانہ اور حافظ ابن حبان کے نزدیک صحیح حدیث ہے، جب کہ امام ابوزرعہ کے نزدیک یہ حدیث حضرت ابوسعید خدری سے صحیح ہے۔ اسے مسند رافع بن خدیج سے بیان کرنا عمر بن سعید بن مسروق کی غلطی ہے۔ اس بابت امام مسلم وغیرہ کا موقف درست ہے۔
تبصرہ : اس میں امام مسلم کے سوا ان کے دور کا کوئی شخص نہیں جو اس کو صحیح کہے جو نام ہیں وہ سب متاخر ہیں
چوتھی حدیث: ’’عن أبي حمید الساعدي أو عن أبي أسید الساعدي مرفوعا: ((الدعاء عند دخول المسجد و خروجہ……إلخ․))
امام ابوزرعہ کے نزدیک یہ روایت دونوں صحابہ کرام سے مروی ہے۔ ان کی تائید امام ابن ابی حاتم اور امام بزار نے کی ہے، جب کہ اس کی تصحیح کرنے والے امام مسلم کے علاوہ امام ابونعیم، امام ابن حبان، امام نووی، حافظ ابن حجر اور محدث البانی وغیرہ ہیں۔
تبصرہ : اس روایت کی تصحیح میں بھی امام مسلم کا ہم عصر محدثین سے اختلاف ہے
پانچویں حدیث: حدیثِ عائشہ: ’’ما رأیت النبيﷺ صام العشر من ذي الحجۃ قط․‘‘
امام ابوزرعہ اور امام ابو حاتم کے نزدیک اس حدیث کا موصول ہونا غلط ہے، مرسل ہونا صحیح ہے۔جب کہ امام مسلم، امام ابوعوانہ، امام ابونعیم، امام ابن خزیمہ اور حافظ ابن حبان کے نزدیک اس کا موصول ہونا بھی درست ہے۔ اور یہ موقف صحیح ہے کہ یہ روایت موصولاً اور مرسلاً دونوں طرح مروی ہے اودونوں طرح صحیح ہے۔
تبصرہ اس روایت کی تصحیح نہیں بھی امام مسلم کا ہم عصر محدثین سے اختلاف ہے
یعنی یہ تو معلوم ہوا کہ امام مسلم کے ہم عصر محدثین ان سے تصحیح احادیث پر متفق نہیں تھے البتہ متاخرین نے جن میں ابن حبان یا ابن خزیمہ یا ابوعوانہ ہیں انہوں نے ان کو صحیح کہا ہے
[/EXPAND]
[روایت افطر الحاجم و المحجوم کیا صحیح ہے ؟]
جواب
اس روایت کو ابن معین نے رد کیا ہے اور سوالات الجنید میں ہے
قيل ليحيى: حديث داود بن عبد الرحمن العطار، عن ابن جريج، عن عطاء، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «أفطر الحاجم والمحجوم» ؟ قال يحيى: «ليس هذا بشيء، إنما هو موقوف عن أبي هريرة
یہ ابو ہریرہ رضی الله کا قول ہے جو ابن جریج مدلس نے بیان کیا ہے
فتح الباری میں ابن حجر کا قول ہے
وقال المروزي: قلت لأحمد: إن يحيى بن معين قال: ليس فيه شيء يثبت! فقال: هذه مجازفة
المروزی نے کہا میں نے امام احمد سے کہا کہ ابن معین نے کہا اس میں کوئی چیز ثابت نہیں ہے- احمد نے کہا یہ بد احتیاطی ہے
——-
الضعفاء الكبير از عقیلی کے مطابق امام بخاری اس کو موقوف قول کہتے ہیں
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ: حَدَّثَنَا رَوْحٌ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: «أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ» قَالَ: قَالَ: وَهَذَا، أَيِ الْمَوْقُوفُ، أَوْلَى
عقیلی خود کہتے ہیں
حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ فِي هَذَا الْبَابِ مَعْلُولٌ، فِيهِ اخْتِلَافٌ، وَأَصْلَحُ الْأَحَادِيثِ فِي هَذَا الْبَابِ حَدِيثُ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ الْأَنْصَارِيِّ
ابو ہریرہ کی حدیث معلول ہے اور اس میں اصح وہ ہے جو شداد کی سند سے ہے
کتاب العلل ترمذی میں ہے
وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ: لَيْسَ فِي هَذَا الْبَابِ شَيْءٌ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ
امام بخاری نے کہا اصح وہ ہے جو شداد کی سند سے ہے
یہ سند مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ زَيْدٍ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ الرَّحَبِيِّ، عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ، قَالَ: مَرَرْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ثَمَانِ عَشْرَةَ لَيْلَةً خَلَتْ مِنْ رَمَضَانَ، فَأَبْصَرَ رَجُلًا يَحْتَجِمُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ ” (1)
یہ صحیح نہیں ہے ابو قلابہ مدلس ہے
البانی نے اس سند کو صحيح لغيره قرار دیا ہے
“الإرواء” (4/ 68 – 70)، “الصحيحة” (2050 – 2051)، “المشكاة” (2012).
قال الزيلعي في “نصب الراية” 3/ 52 – 53: وبالجملة فهذا الحديث -أعني حديث: “أفطر الحاجم”- روي من طرق كثيرة وبأسانيد مختلفة كثيرة الاضطراب،
الزيلعي نے کہا ہے اس میں اضطراب بہت ہے
بعض نے اس کو منسوخ بھی قرار دیا ہے
ترمذی سنن میں کہتے ہیں
وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: الحِجَامَةَ لِلصَّائِمِ حَتَّى أَنَّ بَعْضَ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ احْتَجَمَ بِاللَّيْلِ
اہل علم کی اصحاب رسول میں سے میں سے ایک قوم نے کراہت کی ہے کہ وہ حجامہ کرائیں اور روزہ سے ہوں یہاں تک وہ رات میں اس کو کرتے
طحاوی مشکل الاثار میں سند دیتے ہیں
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ قَالَ: ثنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ قَالَ: ثنا شُعْبَةُ عَنْ حُمَيْدٍ قَالَ: سَأَلَ ثَابِتُ الْبُنَانِيُّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ هَلْ كُنْتُمْ تَكْرَهُونَ الْحِجَامَةَ لِلصَّائِمِ؟ قَالَ لَا إِلَّا مِنْ أَجْلِ الضَّعْفِ
انس رضی الله عنہ نے کہا ہم صرف اس لئے روزہ میں حجامہ نہیں کرتے کہ کمزوری ہوتی ہے
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ شَيْبَةَ , قَالَ: ثنا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , قَالَ: أنا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ , قَالَ: سُئِلَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ عَنِ الْحِجَامَةِ , لِلصَّائِمِ فَقَالَ: ” مَا كُنْتُ أَرَى الْحِجَامَةَ تُكْرَهُ لِلصَّائِمِ إِلَّا مِنَ الْجَهْدِ
انس نے کہا ہم نہیں کرتے کیونکہ اس میں محنت ہوتی ہے
ابراہیم النخعی نے کہا روزے میں کمزوری کی وجہ سے اس کو مکروہ سمجھتے ہیں
حَدَّثَنَا يَزِيدُ هُوَ ابْنُ سِنَانٍ قَالَ: ثنا يَحْيَى الْقَطَّانُ قَالَ: ثنا الْأَعْمَشُ قَالَ: سَأَلْتُ إِبْرَاهِيمَ عَنِ الْحِجَامَةِ لِلصَّائِمِ , فَقَالَ: «إِنَّمَا كُرِهَتْ مِنْ أَجْلِ الضَّعْفِ»
ابن عباس سے مروی نے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے روزے میں حجامہ کرایا ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَيْمَةَ قَالَ: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْأَنْصَارِيُّ عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: «احْتَجَمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُحْرِمٌ صَائِمٌ»
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ شَيْبَةَ , قَالَ: ثنا أَبُو غَسَّانَ , قَالَ: ثنا مَسْعُودُ بْنُ سَعْدٍ الْجُعْفِيُّ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ , عَنْ مِقْسَمٍ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: «احْتَجَمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ وَهُوَ صَائِمٌ مُحْرِمٌ»
وَقَدْ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَيْمَةَ قَالَ: ثنا حَجَّاجٌ قَالَ: ثنا حَمَّادٌ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ أَنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللهِ وَالْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ كَانَا لَا يَرَيَانِ بِالْحِجَامَةِ لِلصَّائِمِ بَأْسًا وَقَالَا: أَرَأَيْتَ لَوِ احْتَجَمَ عَلَى ظَهْرِ كَفِّهِ أَكَانَ ذَلِكَ يُفْطِرُهُ؟
قاسم بن محمد فقیہ مدینہ کہتے تھے کہ روزے میں حجامہ میں کوئی برائی نہیں ہے اور کہتے کہ جو چیز پشت پر ہو اس سے کیا روزہ ٹوٹ جائے گا ؟
یعنی فقہاء میں اختلاف ہوا بہت سے اس طرف گئے ہیں مثلا اہل شام کہتے ہیں روزہ ٹوٹ جائے گا اور اہل حجاز میں عکرمہ اور محمد بن قاسم کا کہنا ہے کہ کوئی نہیں ٹوٹے گا یہ قول ابو ہریرہ کا ہے اور نبی صلی الله علیہ وسلم کا روزہ میں حجامہ کرانا معلوم ہے
محدثین میں ابن معین نے سختی سے اس روایت کو رد کر دیا اور امام احمداور امام بخاری نے صحیح قرار دیا ہے
[/EXPAND]
[حدیث کہ تم دنیا کے امور مجھ سے بہتر جانتے ہو]
جواب
حدیث کہ تم دنیا کے امور مجھ سے بہتر جانتے ہو
یہ روایت مرسل صحیح ہے
علل دارقطنی میں ہے
وَسُئِلَ عَنْ حَدِيثِ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ سَمِعَ تَأَبُّرَ النَّخْلِ , فَقَالَ : ” لَوْ لَمْ تَفْعَلُوا لَصَلُحَ ” . فَلَمْ يُوبِّرُوا , فَصَارَ شَيْصًا , فَقِيلَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ : ” إِذَا كَانَ شَيْءٌ مِنْ أَمْرِ دُنْيَاكُمْ فَشَأْنَكُمْ بِهِ ” . فَقَالَ : رَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , عَنْ هِشَامٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ . وَخَالَفَهُ خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ , وَمُحَاضِرٌ , وَغَيْرُهُمَا , رَوَوْهُ عَنْ هِشَامٍ , عَنْ أَبِيهِ , مُرْسَلا , وَهُوَ الصَّوَابُ
دارقطنی کے بقول اس کو عروہ نے مرسل روایت کیا ہے جو ٹھیک ہے
———
اس روایت کو انس اور عائشہ رضی الله عنہما سے مروی کیا گیا ہے لیکن دونوں اسناد میں اس حماد بن سلمة کا تفرد ہے
حماد بن سلمة آخری عمر میں مختلط ہوئے اس لئے یہ طرق مشکوک ہے
—–
اس روایت کو طلحة بن عبيد الله رضی الله عنہ سے بھی روایت کیا گیا ہے
سماك بن حرب عن موسى بن طلحة عن أبيه طلحة بن عبيد الله رضي الله عنه
سند میں سماک ضعیف ہے
—–
جابر بن عبد الله رضی الله عنہ کی سند سے مسند البزار میں ہے
عياش بن أبان ، حَدَّثَنا محمد بن فُضَيل ، عَن مجالد عن الشعبي عن جابر
اس میں مجالد ضعیف ہے
——
صحیح مسلم میں رافع بن خديج رضی الله عنہ کی سند سے ہے
عكرمة بن عمار عن أبو النجاشي عطاء بن صهيب مولى رافع عن رافع بن خديج قَالَ : ” قَدِمَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ ، وَهُمْ يَأْبُرُونَ النَّخْلَ ، يَقُولُونَ يُلَقِّحُونَ النَّخْلَ ، فَقَالَ : مَا تَصْنَعُونَ ؟ قَالُوا : كُنَّا نَصْنَعُهُ ، قَالَ : لَعَلَّكُمْ لَوْ لَمْ تَفْعَلُوا كَانَ خَيْرًا ، فَتَرَكُوهُ ، فَنَفَضَتْ أَوْ فَنَقَصَتْ ، قَالَ : فَذَكَرُوا ذَلِكَ لَهُ ، فَقَالَ : إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ ، إِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ مِنْ دِينِكُمْ ، فَخُذُوا بِهِ ، وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ مِنْ رَأْيٍ ، فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ ”
سند میں عكرمة بن عمار اليمامي کا عنعنہ ہے اور عكرمة بن عمار اليمامي ایک مدلس ہے
—-
لہذا اس کی تمام اسناد میں کلام ہے
——-
باقی جو اقتباس سے اس میں ایسی کوئی چیز نہیں جس سے اختلاف ہو
زمینی مسائل بدلتے رہتے ہیں اوررہیں گے اس کا حل قیاس و رائے کی طرف جانا ہے جس کے سلف میں امام الشافعی قائل تھے اور امام ابو حنیفہ بھی کرتے تھے باقی جن مسلکوں میں قیاس ممنوع ہے ان کے پاس ضعیف روایات بھی نہیں ہیں کہ وہ ان سے جدید مسائل پر استنباط کر سکیں اور روایات گھڑنے کا دور بھی گزر چکا لہذا انھے اپنے موقف سے رجوع کرنا چاہئے
[/EXPAND]
[دو قسم کے مردار مچھلی اور ٹڈی اور دو قسم کے خون جگر اور تلی حلال ہیں مسند احمد کیا یہ حدیث صحیح ہے؟؟]
جواب
سمندری جانور جو اس پانی سے نکلنے پر مر جائیں حلال ہیں
أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ مَتَاعاً لَّكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُماً وَاتَّقُواْ اللّهَ الَّذِيَ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ [المائدة : 96]
اس کو الله نے حلال کیا ہے
لہذا مچھلی حلال ہے مردار نہیں- مردار وہ جانور ہوتا ہے جس کو ذبح کیا جاتا ہے جبکہ مچھلی کو ذبح نہیں کیا جاتا لہذا اس پر المیتہ کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا
قرآن کے مطابق موسی نے مچھلی کھائی اور صحیح بخاری کے مطابق موسی و خضر والا واقعہ نزول توریت کے بعد ہوا
جو کھانے توریت میں حلال ہیں وہ مسلمانوں پر بھی حلال ہیں
توریت میں ٹڈی حلال ہے اور یہ مردار نہیں کیونکہ اس کو بھی ذبح نہیں کیا جا سکتا
حلال جانور میں سے اندر سے جو پاک چیز نکلے وہ حلال ہے لہذا بول و بزار کے علاوہ جانور کو بحکم قرآن کھا سکتے ہیں
=============
اب روایت ہے
احلت لنا ميتتان ودمان:الجراد وايحستان والکبيروالطحال۔ (البيهقی ، رقم ١١٢٨ )
”ہمارے لیے دو مری ہوئی چیزیں اور دو خون حلال ہیں: مری ہوئی چیزیں مچھلی اور ٹڈی ہیں اور دو خون جگر اور تلی ہیں
اس کی سند ضعیف ہے سند میں عبد الرحمن بن زيد بن أسلم ہے جس پر جرح ہے اور یہ وہی راوی ہے جو کہتا ہے کہ آدم علیہ السلام کی دعا نبی کے وسیلہ سے پوری ہوئی
اس کے ایک طرق میں عبد الله بن زيد ہے جس کو ابن معین اور نسائی نے رد کیا ہے
ایک طرق میں إسماعيل بن أبي أويس ہے یہ بھی مجروح ہے
کہا جاتا ہے یہ روایت موقوف صحیح ہے
معرفہ سنن میں بیہقی کہتے ہیں
وَرَوَاهُ سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ قَالَ: «أُحِلَّتْ لَنَا مَيْتَتَانِ»
18856 – وَهَذَا أَصَحُّ، وَهُوَ فِي مَعْنَى الْمَرْفُوعِ
اس کو سلیمان بن بلال نے بھی روایت کیا ہے جو اصح ہے اور مرفوع کے معنوں میں ہے
سنن الکبری میں بیہقی کہتے ہیں
هَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ وَهُوَ فِي مَعْنَى الْمُسْنَدِ وَقَدْ رَفَعَهُ أَوْلَادُ زَيْدٍ عَنْ أَبِيهِمْ
یعنی اگرچہ یہ صحابی کا موقوف قول ہے لیکن ان کو حلال و حرام کا نبی صلی الله علیہ وسلم سے ہی پتا چلا ہو گا لہذا یہ مرفوع سمجھ لی گئی ہے
لیکن راقم کہتا ہے اس روایت کی ضرورت کیا ہے؟ حلال و حرام تو قرانی اور توریت کی آیات پر استنباط کرنے سے معلوم ہو گئے ہیں
موطا کی روایت ہے
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سَلَمَةَ بْنِ الأَزْرَقِ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَجُلا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: إِنَّا رَكْبُ الْبَحْرَ وَنَحْمِلُ مَعَنَا الْقَلِيلَ مِنَ الْمَاءِ، فَإِنْ تَوَضَّأْنَا بِهِ عَطِشْنَا ” أَفَنَتَوَضَّأُ بِمَاءِ الْبَحْرِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هُوَ الطَّهُورُ مَاؤُهُ الْحَلالُ مَيْتَتُهُ ” , قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ مَاءُ الْبَحْرِ طَهُورٌ كَغَيْرِهِ مِنَ الْمِيَاهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ وَالْعَامَّةِ
سعيد بن سلمة المدني صاحب حديث: هو الطهور ماؤه کو الذھبی نے میزان میں صدوق کہا ہے اور نسائی نے ثقہ لیکن کسی اور محدث نے اس پر کوئی رائے نہیں دی ہے
دارقطنی نے علل میں اس کی اسناد جمع کی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسناد میں اضطراب ہے
مشکل آثار میں طحاوی نے اس کی اسناد جمع کی ہیں پھر کہا
وَكَانَ هَذَا الْحَدِيثُ مِمَّا قَدِ اضْطَرَبَ عَلَيْنَا إِسْنَادُهُ الِاضْطِرَابَ الَّذِي لَا يَصْلُحُ مَعَهُ الِاحْتِجَاجُ بِمِثْلِهِ
اور اس حدیث میں اسناد میں اضطراب ہے جس سے دلیل نہیں لی جا سکتی
طحاوی ایک روایت پیش کرتے ہیں
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ شَيْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي بَشِيرٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَشْهَدُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ: ” إِنَّ السَّمَكَةَ الطَّافِيَةَ حَلَالٌ لِمَنْ أَرَادَ أَكْلَهَا
ابن عباس نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ ابو بکر رضی الله عنہ نے کہا کہ تازہ مچھلی حلال ہے جو کھانا چاہے
اور روایت دی
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَيْمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَقُولُ: ” لَيْسَ فِي الْبَحْرِ شَيْءٌ إِلَّا قَدْ ذَبَحَهُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ لَكُمْ “
ابن عمر نے کہا میں نے ابو بکر سے سنا کہ سمندر میں کوئی چیز ایسی نہیں جس کو الله تمہارے لئے ذبح نہ کرے
[/EXPAND]
[حدیث کو قرآن پر پیش کرنا کیا یہ روایت صحیح ہے ؟]
ابن عبدالبر نے [جامع بیان العلم،۲؍۳۳] میں اس حدیث کو روایت کیا ہے.
إذَا جَائَ کُمْ عَنِّیْ حَدِیْثٌ فَأَعْرِضُوہُ عَلَی کِتَابِ اللّٰہِ فَمَا وَافَقَ فَخُذُوْہُ وَمَا خَالَفَ فَاتْرُکُوْہُ۔
جب تمہارے پاس میری کوئی حدیث پہنچے تو اسے قرآن پر پیش کیا کرو۔ جو اس کے مطابق ہو اسے قبول کرلو اور جو مخالف ہو اسے چھوڑ دو۔
الأصول لِلْبَزْدَوِی میں کسی بھی حدیث کے صحیح ہونے کا یہ قاعدہ بتایا گیا ہے.
قاَلَ النَّبِیُّ ﷺ تَکْثُرُ لَکُمُ الْاَحَادِیْثُ مِنْ بَعْدِیْ فَإِذَا رُوِیَ لَکُمْ عَنِّیْ حَدِیْثٌ فَأَعْرِضُوْہُ عَلَی کِتَابِ اللّٰہِ تَعَالٰی ، فَمَا وَافَقَ کِتَابَ اللّٰہِ تَعَالٰی فَاقْبَلُوہُ وَمَا خَالَفَہُ فَرَدُّوْہُ۔
٭۔ تمہارے سامنے میرے بعد بکثرت احادیث روایت کی جائیں گی تو انہیں کتاب اللہ پر پیش کرنا جو اس کے موافق ہو اسے لے لینا او رجو مخالف ہو اسے ترک کردینا۔۔۔۔۔۔۔۔
بھائی اس کی کیا حیثیت ہے ۔۔ کیا یہ صحیح ہے
جواب
اس کتاب جامع بیان العلم میں جس کا اپ نے حوالہ دیا ہے اس میں اس قول پر جرح ہے
قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ: ” الزَّنَادِقَةُ وَالْخَوَارِجُ وَضَعُوا ذَلِكَ الْحَدِيثَ، يَعْنِي مَا رُوِيَ عَنْهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «مَا أَتَاكُمْ عَنِّي فَاعْرِضُوهُ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ فَإِنْ وَافَقَ كِتَابَ اللَّهِ فَأَنَا قُلْتُهُ وَإِنْ خَالَفَ كِتَابَ اللَّهِ فَلَمْ أَقُلْهُ أَنَا، وَكَيْفَ أُخَالِفُ كِتَابَ اللَّهِ، وَبِهِ هَدَانِي اللَّهُ» وَهَذِهِ الْأَلْفَاظُ لَا تَصِحُّ عَنْهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ
عبد الرحمان بن مہدی نے کہا کہ زنادقه اور خوارج نے اس روایت کو گھڑا یعنی جو نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کی گئی ہے کہ جو میں دوں اس کو کتاب الله پر پیش کرو اگر اس کے موافق ہو تو میں نے اس کو کہا ہے اور میں کیسے کتاب الله کی مخالفت کر سکتا ہوں اور الله نے اس سے ہدایت دی ہے .. اور یہ الفاظ اہل علم کے نزدیک نبی صلی الله علیہ وسلم سے صحیح نہیں ہیں
——-
دوسری روایت کا حوالہ امام الشافعی نے اپنی کتاب الام میں دیا ہے اور تنقید کی ہے
قَالَ فَإِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَالَ «مَا جَاءَكُمْ عَنِّي فَاعْرِضُوهُ عَلَى الْقُرْآنِ فَإِنْ وَافَقَهُ، فَأَنَا قُلْته وَإِنْ خَالَفَهُ فَلَمْ أَقُلْهُ» فَقُلْت لَهُ فَهَذَا غَيْرُ مَعْرُوفٍ عِنْدَنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – وَالْمَعْرُوفُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – عِنْدَنَا خِلَافُ هَذَا وَلَيْسَ يُعْرَفُ مَا أَرَادَ خَاصًّا وَعَامًّا وَفَرْضًا وَأَدَبًا وَنَاسِخًا وَمَنْسُوخًا إلَّا بِسُنَّتِهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
کہتے ہیں پہنچا ہے کہ رسول الله نے فرمایا میری طرف سے تم تک جو پہنچے اس کو قرآن پر پیش کرو اگر موافق ہو تو میں نے کہا ہے اگر اگر مخالف تو میں نے نہیں کہا لیکن یہ قول نبوی غیر معروف ہے ہمارے نزدیک اور جو معروف ہے رسول الله کی طرف سے وہ اس کے خلاف ہے اور خاص و عام اور فرض اور نسخ و منسوخ کا پتا نہیں چلتا سوائے سنت رسول سے
علی بن محمد بن عبد الكريم بن موسى البزدوی المتوفی ٤٨٢ ھ نے اس حدیث کو اصول الفقہ مشہور اصول البزدوی میں لکھا ہے لیکن یہ ان کی غلطی ہے کیونکہ یہ روایت محدثین کے نزدیک اور امام شافعی کے نزدیک صحیح نہیں ہے
خوارج قرآن میں ناسخ و منسوخ کو نہیں مانتے لہذا ان کی کتاب مسند الربيع بن حبيب بن عمر الأزدي البصري (المتوفى حوالي سنة: 170هـ) میں اس کی سند ہے
أَبُو عُبَيْدَةَ عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيءِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّكُمْ سَتَخْتَلِفُونَ مِنْ بَعْدِي فَمَا جَاءَكُمْ عَنِّي فَاعْرِضُوهُ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ فَمَا وَافَقَهُ فَعَنِّي وَمَا خَالَفَهُ فَلَيْسَ عَنِّي
اہل سنت کے نزدیک جابر بن زید کا نام لے کر خوارج نے روایات گھڑی ہیں
قال السّخاوي: وقد سئل شيخنا عن هذا الحديث فقال: إنّه جاء من طرق لا تخلو من مقال
سخاوی نے کہا میں نے ابن حجر سے اس روایت کے بارے میں پوچھا تو کہا اس کے تمام طرق میں کلام ہے
كتاب المدخل میں بیہقی نے اس کے طرق جمع کیے ہیں
[/EXPAND]
[موسی علیہ السلام نے ملک الموت کی آنکھ پھوڑ دی تھی ؟]
جواب
موسی والی روایت کے متن میں ابہام ہے
اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حالت ِ صحت میں فرماتے تھے: ’’ہر نبی اپنی موت سے پہلے جنت میں اپنا ٹھکانہ دیکھ لیتا ہے۔ پھر اسے دنیا اور آخر کے بارے میں اختیار دیا جاتا ہے (کہ آپ دنیا میں دائمی زندگی کو پسند کرتے ہیں یا آخرت کی زندگی)۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر میری ران پر تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غشی طاری ہو گئی۔ افاقہ ہوا تو اپنی نظر چھت کی طرف اٹھائی پھر کہا: ’’اَللّٰھُمَّ الرَّفِیْقَ اللاعلیٰ‘‘ ’’میں رفیق اعلی اللہ تعالیٰ کی رفاقت چاہتا ہوں‘‘۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں رہنا پسند نہیں کریں گے‘‘۔ وہ کہتی ہیں: میں نے سمجھ لیا کہ صحتمندی کی حالت میں جو حدیث بیان کرتے تھے، یہ حالت اس کی تعبیر ہے۔ (متفق علیہ)۔
جب ہر نبی پر ملک الموت اسی وقت بھیجا جاتا جب اس کو اختیار دے دیا جاتا ہے کہ دنیا کو لے یا آخرت کو تو اس میں موسی علیہ السلام کے ساتھ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انہوں نے آخرت کی بجآنے دینا کی زندگی کو پسند کیا ہو؟
کہا گیا کہ موسی نے ملک الموت کو پہچانا نہیں گھر میں دیکھا مارا اس سے پہلے کہ فرشتہ کچھ بول پاتا
: الأسماء والصفات للبيهقي
المؤلف: أحمد بن الحسين بن علي بن موسى الخُسْرَوْجِردي الخراساني، أبو بكر البيهقي (المتوفى: 458هـ)
وَأَمَرَهُ بِالتَّعَرُّضِ لَهُ عَلَى سَبِيلِ الِامْتِحَانِ فِي صُورَةِ بَشَرٍ، فَلَمَّا رَآهُ مُوسَى اسْتَنْكَرَ شَأْنَهُ، وَاسْتَوْعَرَ مَكَانَهُ، فَاحْتَجَرَ مِنْهُ دَفْعًا عَنْ نَفْسِهِ بِمَا كَانَ مِنْ صَكِّهِ إِيَّاهُ، فَأَتَى ذَلِكَ عَلَى عَيْنِهِ الَّتِي رُكِّبَتْ فِي الصُّورَةِ الْبَشَرِّيَّةِ الَّتِي جَاءَهُ فِيهَا دُونَ الصُّورَةِ الْمَلَكِيَّةِ الَّتِي هُوَ مَجْبُولُ الْخِلْقَةِ عَلَيْهَا،
شرح السنہ از بغوی
وَأَمَرَهُ بِالتَّعَرُّضِ لَهُ عَلَى سَبِيلِ الامْتِحَانِ فِي صُورَةِ بَشَرٍ، فَلَمَّا رَآهُ مُوسَى اسْتَنْكَرَ شَأْنَهُ، وَاسْتَوْعَرَ مَكَانَهُ، فَاحْتَجَزَ مِنْهُ دَفْعًا عَنْ نَفْسِهِ، بِمَا كَانَ مِنْ صَكِّهِ إِيَّاهُ، فَأَتَى ذَلِكَ عَلَى عَيْنِهِ الَّتِي رُكِّبَتْ فِي الصُّورَةِ الْبَشَرِيَّةِ الَّتِي جَاءَهُ فِيهَا، دُونَ صُورَةِ الْمَلَكِيَّةِ الَّتِي هُوَ مَجْبُولٌ عَلَيْهَا،
ان تاویلات میں جان نہیں ہے کیونکہ کسی روایت میں نہیں کہ یہ واقعہ گھر میں یا خلوت گاہ میں پیش آیا
یہ تاویل بعید ہے اگر ایسا ہے تو جنگ بدر و احد میں فرشتے مشرکین کے ہاتھوں زخمی ہوتے اور ان کا خون بہتا
قَالَ اِبْنُ خُزَيْمَةَ: أَنْكَرَ بَعْضُ الْمُبْتَدَعَةِ هَذَا الْحَدِيثَ , وَقَالُوا: إِنْ كَانَ مُوسَى عَرَفَهُ , فَقَدْ اِسْتَخَفَّ بِهِ، وَإِنْ كَانَ لَمْ يَعْرِفْهُ فَكَيْفَ لَمْ يُقْتَصَّ لَهُ مِنْ فَقْءِ عَيْنِهِ؟ , وَالْجَوَابُ: أَنَّ اللهَ لَمْ يَبْعَثْ مَلَكَ الْمَوْتِ لِمُوسَى وَهُوَ يُرِيدُ قَبْضَ رُوحِهِ حِينَئِذٍ، وَإِنَّمَا بَعَثَهُ إِلَيْهِ اِخْتِبَارًا , وَإِنَّمَا لَطَمَ مُوسَى مَلَكَ الْمَوْتِ لِأَنَّهُ رَأَى آدَمِيًّا دَخَلَ دَارَهُ بِغَيْرِ إِذْنِهِ , وَلَمْ يَعْلَمْ أَنَّهُ مَلَكُ الْمَوْتِ، وَقَدْ أَبَاحَ الشَّارِعُ فَقْءَ عَيْنِ النَّاظِرِ فِي دَارِ الْمُسْلِمِ بِغَيْرِ إِذْنٍ
ابن خزیمہ کہتے ہیں : بعض بدعتییوں نے اس روایت کا انکار کیا اور کہا اگر موسی جانتے تو ہونے دیتے اور اگر نہیں پہچان سکے تو کیسے آنکھ نکالی؟ اور جواب ہے کہ الله تعالی نے تو اس لئے نہیں فرشتے کو بھیجا تھا کہ وہ ان کی اس وقت روح قبض کرے بلکہ ان کو اختیار بتانے کے لئے بھیجا تھا اور موسی نے ملک الموت کو تھپڑ مارا کیونکہ انہوں نے دیکھا کہ آدمی بلا اجازت گھر میں داخل ہو گیا ہے ان کے اذن کے بغیر اور وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ ملک الموت ہے اور شارع نے یہ مباح کیا ہے دار مسلم میں بغیر اجازت دیکھنے والے کی آنکھ پھوڑ دی جائے
راقم کو اس روایت کے متن میں نہیں ملا کہ یہ گھر میں واقعہ پیش آیا ہو لہذا ابن خزیمہ کی تاویل دور کی کوڑی ہے
صحیح مسلم میں ہے
جَاءَ مَلَكُ الْمَوْتِ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ. فَقَالَ لَهُ: أَجِبْ رَبَّكَ قَالَ فَلَطَمَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ عَيْنَ مَلَكِ الْمَوْتِ فَفَقَأَهَا
ملک الموت موسی کے پاس پہنچا اور کہا اپنے رب کو جواب دو- پس موسی نے تھپڑ مارا اور ملک الموت کی آنکھ نکل آئی
یھاں پر واضح ہے کہ اپنے رب کو جواب دو سے موسی سمجھ گئے ہوں گے کہ کیا کہا جا رہا ہے
اس روایت کو ابو ہریرہ سے یہ لوگ نقل کرتے ہیں
اول ھمام بن منبہ
دوم عمار بن ابی عمار
سوم أبي يونس سُليم ابن جبير
چہارم طاووس بن كيسان
———–
یہ روایت هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهِ بْنِ كَامِلِ بْنِ سَيْجٍ الصَّنْعَانِيِّ کی سند سے ہے جو یمنی تھے اور ١٤٠ احادیث ابو ہریرہ سے انہوں نے روایت کی ہیں
ان کی روایات کا محور موسی علیہ السلام ہوتے ہیں اور ان کے غیر معروف فضائل بیان کرتے ہیں
جو باقی اصحاب رسول بیان نہیں کرتے
هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهِ بْنِ كَامِلِ بْنِ سَيْجٍ الصَّنْعَانِيِّ ایک مسٹری مین ہیں ان کے بارے میں ہے کہ انہوں نے صرف تین لوگوں کو روایات سنائی ہیں
امام بخاری نے اس کو مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ کی سند سے روایت کیا ہے إس میں معمر بن راشد ہیں جو مدلس ہیں لیکن محدثین کی ایک جماعت ان کی ہمام بن منبہ والی روایات قبول کرتی ہے – ہمام بن منبہ یمن سے مدینہ پہنچے اور ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے ١٤٠ روایات لیں ان میں اپنی باتیں بھی شامل کر دیں اور ان کا نسخہ بقول امام احمد اسی وجہ سے معدوم ہوا کہ لوگ یہ تمیز ہی نہیں کر پائے کیا قول نبی اور کیا ان کا اپنا قول ہے – ہمام سوڈان گئے وہاں معمر بن راشد ملے اور ان کو روایت سنائیں اس کے بعد حجاز میں ابن زبیر رضی الله عنہ کی فوج نے ہمام کو پکڑا اور یہ عباسیوں کے خروج تک زندہ تھے سن ١٣٢ هجري میں فوت ہوئے – الذھبی کے مطابق ممکن ہے سو سال انکی زندگی ہو لیکن اس دوران انہوں نے بہت کم لوگوں کو روایات سنائی ہیں ان سے صرف ان کے بھائی وھب بن منبہ صَاحِبُ القَصَصِ ، ان کے بھتیجے عَقِيْلُ بنُ مَعْقِلٍ اور معمر بن راشد اور ایک یمنی عَلِيُّ بنُ الحَسَنِ بنِ أَنَسٍ الصَّنْعَانِيُّ روایت کرتے ہیں – الذھبی سیر الآعلام النبلاء میں کہتے ہیں وَمَا رَأَينَا مَنْ رَوَى الصَّحِيْفَةَ عَنْ هَمَّامٍ إِلاَّ مَعْمَرٌ اور ہم نہیں دیکھتے کہ اس الصَّحِيْفَةَ کو ہمام سے کوئی روایت کرتا ہو سوائے معمر کے- امام احمد کے مطابق معمر نے یہ صحیفہ سوڈان میں سنا- معمر خود کوفی ہیں وہاں سے یمن گئے اور پھر سوڈان – سوڈان علم حدیث کے لئے کوئی مشھور مقام نہ تھا – خود معمر روایت کرتے ہیں کہ ابن عباس رضی الله عنہ سختی سے ابوہریرہ رضی الله عنہ کی کوئی ایک روایت کو رد کرتے
—–
ابو یونس کی سند میں مسند احمد میں ہے کہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، [قَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ أَحْمَدَ] : قَالَ أَبِي: ” لَمْ يَرْفَعْهُ
احمد نے کہا ابو ہریرہ نے اس کو مرفوع نہیں کیا
یعنی یہ تمام روایت ابو ہریرہ کا قول ہے حدیث نہیں ہے
کتاب سیر الآعلام النبلاء از الذھبی کے مطابق
وَقَالَ أَبُو زُرْعَةَ: لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
ابو زرعہ کہتے ہیں سليم بن جبير ابو یونس نے ابو ہریرہ سے نہیں سنا
یعنی یہ منقطع سند ہے
—–
اس کی ایک سند
حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
سے بھی ہے
یہ صحیح بخاری میں ہے
طاووس بن كيسان کے لئے الكرابيسي کہتے ہیں اس نے عکرمہ سے لیا ہے اور ابن عباس سے ارسال کیا ہے
طاووس بن كيسان کا سماع ابن عباس سے نہیں جبکہ یہ مکہ کے ہیں
لیکن ابو ہریرہ سے ہے جو ابن عباس سے بھی پہلے معاویہ کی خلافت میں مدینہ میں فوت ہوئے؟
ابو ہریرہ المتوفی ٥٧ کے اس پاس وفات پانے والی ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا المتوفی ٥٧ سے بھی اس کا سماع نہیں ہے
بعض مورخین کے مطابق عائشہ اور ابو ہریرہ کی ایک سال وفات ہوئی سن ٥٧ میں
یہاں تک کہ هِشام بْن عُروَة کے حوالے سے یہ سن وفات امام بخاری نے تاریخ الکبیر میں بھی لکھا ہے
عَنْ هِشام بْن عُروَة، قَالَ: مات أَبو هُرَيرةَ، وعَائِشَة، رَضِيَ الله عَنْهُمَا، سَنَة سبع وخمسين
تعريف اهل التقديس بمراتب الموصوفين بالتدليس از ابن حجر کے مطابق
ثم كان بعد ذلك يرسل عن بن عباس وروى عن عائشة فقال بن معين لا أراه سمع منها وقال أبو داود لا أعلمه سمع منها
یہ ابن عباس سے ارسال کرتے ہیں اور عائشہ سے روایت کرتے ہیں ابن معین کہتے ہیں میں نہیں دیکھتا ان کا عائشہ سے سماع ہوا ہو اور ابو داؤد نے کہا ہم کو ان کے سماع کا علم نہیں ہے
——-
اس کی ایک سند عمار سے بھی ہے
حَدَّثَنَا أُمَيَّةُ بْنُ خَالِدٍ، وَيُونُسُ، قَالاَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِى عَمَّارٍ، عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم، قَالَ يُونُسُ: رَفَعَ الْحَدِيثَ إِلَى النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم
لیکن عمار ایک ضعیف راوی ہے
حماد بن سلمہ مختلط ہے
یہ مسند احمد میں ہے اس میں ہے
“كان ملك الموت يأتي الناس عِياناً
ملک الموت لوگوں کے پاس ظاہری اتے ہیں
لہذا
اس کو منکر کہا جاتا ہے
شعيب الأرنؤوط کہتے ہیں
رجاله رجال الصحيح، وفي أوله نكارة، وهي قوله: “كان ملك الموت يأتي الناس عِياناً”، وهذه اللفظة تفرد بها عمار بن أبي عمار، وعنه حماد بن سلمة، ولكل منهما بعض المناكير، ثم إن الحديث قد اختُلِفَ في رفعه ووقفه،
اس کے رجال صحیح کے ہیں لیکن اس میں شروع میں نکارت ہے کہ وہ یہ قول ہے کہ ملک الموت ظاہری اتے ہیں اور ان الفاظ میں عمار کا تفرد ہے اور ان سے حماد نے روایت کیا ہے اور اس سب میں یہ منکر میں سے ہے پھر اس میں بھی اختلاف ہے کہ یہ مرفوع ہے یا نہیں
=====================
Legends of the Jews
BY LOUIS GINZBERG
کے مطابق جب سمائیل فرشتہ کو بھیجا گیا کہ جا کر موسی کو وفات دے تو موسی نے تقریر کی اور مرنے سے انکار کر دیا
Moses: “Dost thou not know that I am the son of Amram, that came circumcised out of my mother’s womb, that at the age of three days not only walked, but even talked with my parents, that took no milk from my mother until she received her pay from Pharaoh’s daughter? When I was three months old, my wisdom was so great that I made prophecies and said, ‘I shall hereafter from God’s right hand receive the Torah.’ At the age of six months I entered Pharaoh’s palace and took off the crown from his head. When I was eighty years old, I brought the ten plagues upon Pharaoh and the Egyptians, slew their guardian angel, and led the sixty myriads of Israel out of Egypt. I then clove the sea into twelve parts, led Israel through the midst of them, and drowned the Egyptians in the same, and it was not thou that took their souls, but I. It was I, too, that turned the bitter water into sweet, that mounted into heaven, and there spoke face to face with God! I hewed out two tables of stone, upon which God at my request wrote the Torah. One hundred and twenty days and as many nights did I dwell in heaven, where I dwelled under the Throne of Glory; like an angel during all this time I ate no bread and drank no water. I conquered the inhabitants of heaven, made known there secrets to mankind, received the Torah from God’s right hand, and at His command wrote six hundred and thirteen commandments, which I then taught to Israel. I furthermore waged war against the heroes of Sihon and Og, that had been created before the flood and were so tall that the waters of the flood did not even reach their ankles. In battle with them I bade sun and moon to stand still, and with my staff slew the two heroes. Where, perchance, is there in the world a mortal who could do all this? How darest thou, wicked one, presume to wish to seize my pure soul that was given me in holiness and purity by the Lord of holiness and purity? Thou hast no power to sit where I sit, or to stand where I stand. Get thee hence, I will not give thee my soul.”
فرشتہ واپس الله کے پاس گیا اور خبر دی کہ یہ بندہ مرنا نہیں چاہتا- الله نے حکم کیا کہ واپس جاو روح قبض کرو- سمائیل واپس گیا لیکن اس بار
Samael now drew his sword out of its sheath and in a towering fury betook himself to Moses, saying, “Either I shall kill him or he shall kill me.” When Moses perceived him he arose in anger, and with his staff in his hand, upon which was engraved the Ineffable Name, set about to drive Samael away. Samael fled in fear, but Moses pursued him, and when he reached him, he struck him with his staff, blinded him with the radiance of his face, and then let him run on, covered with shame and confusion. He was not far from killing him, but a voice resounded from heaven and said, “Let him live, Moses, for the world is in need of him,” so Moses had to content himself with Samael’s chastisement.
سمائیل نے اپنی تلوار نکالی اور غصے سے موسی کی طرف پڑھا کہتا ہوا یا تو یہ مرے گا یا میں- جب موسی نے اس کو محسوس کیا وہ غصے میں کھڑے ہوئے اور عصا لیا جس پر اسم اعظم کدا ہوا تھا انہوں نے سمائیل کو اپنے نور الوجہہ سے اندھا کر دیا اور فرشتہ بھاگا موسی اس کو قتل ہی کر دیتے کہ الله نے پکارا اس کو چھوڑ دو دنیا کو اس کی ضرورت ہے
http://www.answering-islam.org/Books/Legends/v3_7.htm
——
معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی اسرائیلی روایت تھی جو اغلبا کعب الاحبار سے آئی ہو گی اور ابو ہریرہ رضی الله عنہ نے اس کو بیان کیا تو لوگ سمجھے یہ حدیث نبوی ہے
کتاب التمييز( ص /175 ) کے مطابق امام مسلم نے بسر بن سعيد کا قول بیان کیا
حَدثنَا عبد الله بن عبد الرَّحْمَن الدَّارمِيّ ثَنَا مَرْوَان الدِّمَشْقِي عَن اللَّيْث بن سعد حَدثنِي بكير بن الاشج قَالَ قَالَ لنا بسر بن سعيد اتَّقوا الله وتحفظوا من الحَدِيث فوَاللَّه لقد رَأَيْتنَا نجالس أَبَا هُرَيْرَة فَيحدث عَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم عَن كَعْب وَحَدِيث كَعْب عَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم
بكير بن الاشج نے کہا ہم سے بسر بن سعيد نے کہا : الله سے ڈرو اور حدیث میں حفاظت کرو – الله کی قسم ! ہم دیکھتے ابو ہریرہ کی مجالس میں کہ وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے اور وہ (باتیں) کعب ( کی ہوتیں) اور ہم سے کعب الاحبار ( کے اقوال) کو روایت کرتے جو حدیثیں رسول الله سے ہوتیں
صحیح مسلم میں ہے
و حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَی التُّجِيبِيُّ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ أَلَا يُعْجِبُکَ أَبُو هُرَيْرَةَ جَائَ فَجَلَسَ إِلَی جَنْبِ حُجْرَتِي يُحَدِّثُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْمِعُنِي ذَلِکَ وَکُنْتُ أُسَبِّحُ فَقَامَ قَبْلَ أَنْ أَقْضِيَ سُبْحَتِي وَلَوْ أَدْرَکْتُهُ لَرَدَدْتُ عَلَيْهِ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَکُنْ يَسْرُدُ الْحَدِيثَ کَسَرْدِکُمْ
حرملہ بن یحیی تجیبی ابن وہب، یونس ابن شہاب عروہ بن زبیر عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ کیا تم ابوہریرہ (رض) پر تعجب نہیں کرتے وہ آئے اور میرے حجرہ کے ایک طرف بیٹھ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرنے لگے اور میں سن رہی تھی اور میں تسبیح کر رہی تھی اور میری تسبیح پوری ہونے سے پہلے ہی وہ اٹھ کر چلے گئے اور اگر میں ان کو پا لیتی تو تردید کرتی کہ رسول اللہ تمہاری طرح احادیث کی فہرستیں نہیں بیان کرتے تھے جس طرح تم
فہرستیں بیان کرتے ہو
یعنی ابو ہریرہ رضی الله عنہ ایک کے بعد ایک حدیث سناتے چلے جاتے کہ گویا ہو فہرست ہو – اس میں ان کا کلام بھی شامل ہوا جیسا امام مسلم نے التمییز میں بیان کیا ہے
صحیح بخاری ٣٥٦٨ میں البتہ امام بخاری نے نام غائب کر دیا ہے جو علمی خیانت ہے
وَقَالَ اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّهُ قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: «أَلاَ يُعْجِبُكَ أَبُو فُلاَنٍ، جَاءَ فَجَلَسَ إِلَى جَانِبِ حُجْرَتِي، يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُسْمِعُنِي ذَلِكَ وَكُنْتُ أُسَبِّحُ فَقَامَ قَبْلَ أَنْ أَقْضِيَ سُبْحَتِي، وَلَوْ أَدْرَكْتُهُ لَرَدَدْتُ عَلَيْهِ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يَسْرُدُ الحَدِيثَ كَسَرْدِكُمْ»
یہاں ابو فلاں کون ہے ؟ ابو ہریرہ رضی الله عنہ ہیں
تاریخ دمشق میں ہے
قال بسر بن سعيد: كان يقوم فينا أبو هريرة فيقول: سمعت النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يقول كذا وكذا، سمعت كعباً يقول كذا. فعمد الناس إلى ما روى عن كعب فجعلوه عن النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وبعض ما روي عن النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فجعلوه عن كعب فمن ثم أنفي حديث أبي هريرة. قال ابن لهيعة: هو من الناس ليس من أبي هريرة. قال إبراهيم النخعي: ما كانوا يأخذون من حديث أبي هريرة إلا ما كان من حديث جنة أو نار. وقال إبراهيم: ما كانوا يأخذون بكل حديث أبي هريرة. وقال شعبة: كان أبو هريرة يدلس. قالوا: وقول إبراهيم النخعي هذا غير مقبول منه.
بسر بن سعید نے کہا ہمارے پاس ابو ہریرہ رکے انہوں نے کہا میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ایسا ایسا سنا- اور کعب الاحبار سے ایسا ایسا سنا- تو لوگوں نے جو ابو ہریرہ نے کعب سے روایت کیا تھا اس کو قول نبی صلی الله علیہ وسلم سمجھ لیا اور بعض احادیث نبوی کو کعب کا قول پھر لوگوں نے ابو ہریرہ کی احادیث کا انکار کیا- ابن لھعیہ نے کہا یہ لوگوں سے ہوا نہ کہ ابو ہریرہ سے – اور ابراہیم النخعی نے کہا ابو ہریرہ صرف وہ حدیث لو جس میں جنت جہنم کا ذکر ہو اور انہوں نے کہا میں ابو ہریرہ کی ہر حدیث نہیں لیتا اور شعبہ نے کہا ابو ہریرہ تدلیس کرتے ہیں اور کہتے ہیں ابراھیم النخعی کا قول غیر مقبول ہوا
راقم کہتا ہے ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی جنت جہنم سے متعلق احادیث کو غور سے دیکھا جائے ان سے راویوں نے بہت سی متضاد روایات منسوب کی ہیں
========
شیعہ علماء کے مطابق یہ روایت صحیح ہے
كتاب: لئالى الاخبار
تأليف: الشيخ محمد نبي بن احمد التوسيركاني
الناشر: انتشارات جيهان
الطبعة: الاولى
جلد اول ص ٩١ پر ہے
في سلوك موسى عليه السلام في دار الدنيا وزهدها فيها، وفي قصة لطمه ملك الموت حين أراد قبض روحه، واحتياله له في قبضها …. وقد كان موسى عليه السلام أشدّ الأنبياء كراهة للموت ، قد روى إنه لم جاء ملك الموت، ليقبض روحه، فلطمه فأعور ، فقال يارب إنك أرسلتني إلى عبد لا يحب الموت، فأوحى الله إليه أن ضع يدك على متن ثور ولك بكل شعرة دارتها يدك سنة ، فقال: ثم ماذا ؟ فقال الموت، فقال الموتة ، فقال أنته إلى أمر ربك.
موسی انبیاء میں موت سے کراہت کرنے میں سب سے متشدد تھے روایت کیا گیا ہے کہ فرشتہ ان کی روح قبض کرنے آیا تو انہوں نے اس کی آنکھ پھوڑ دی
اسی کتاب میں ہے
عن الصادق (ع)، قال: إن ملك الموت أتى موسى بن عمران ، فسلّم عليه، فقال: من أنت ؟ قال: أنا ملك الموت، قال: ما حاجتك ؟ قال له: جئت أقبض روحك من لسانك، قال كيف وقد تكلمت به ربي ؟ قال فمن يدك فقال له موسى: كيف وقد حملت بهما التورية ؟ فقال: من رجليك، فقال له وكيف وقد وطأت بهما طور سيناء ! قال: وعدّ أشياء غير هذا ، قال: فقال له ملك الموت : فإني أمرت أن أتركك حتى تكون أنت الذي تريد ذلك، فمكث موسى ما شاء الله، ثم مرّ برجل وهو يحفر قبراً فقال له موسى: ألا أعينك على حفر هذا القبر؟ فقال له الرجل: بلى. قال: فأعانه حتى حفر القبر ولحد اللحد وأراد الرجل أن يضطجع في اللحد لينظر كيف هو؟ فقال موسى عليه السلام: أنا اضطجع فيه، فاضطجع موسىفرأى مكانه من الجنة، فقال: يا رب اقبضني إليك فقبض ملك الموت روحه ودفته في القبر واستوى عليه التراب قال: وكان الذي يحفر القبر ملك بصورة آدمي ، فلذلك لا يعرف قبر موسى .
امام صادق سے روایت ہے کہ ملک الموت موسی کے پاس آیا سلام کیا پوچھا تو کون ؟ کہا موت کا فرشتہ – کہا کس لئے آئے؟ بولا اپ کی زبان پر روح قبض کرنے موسی نے کہا میں نے تو رب سے کلام کیا ہے .. میرے پاس توریت ہے … میں اس پاؤں سے کوہ طور پر چڑھا …
راقم کہتا ہے یہ بیان
legends of Jews
کا چربہ ہے
نعمت الله الجزائرى سنة 1050 ه کی کتاب الأنوار النعمانية 4 /148 في نور الأجل والموت میں بھی موسی کا فرشتے کی آنکھ نکالنے کا قصہ ہے
http://ia600502.us.archive.org/4/items/89748920389/12746198181.pdf
[/EXPAND]
[پل صراط والی روایت پر تحقیق درکار ہے ]
جواب
صحیح بخاری میں روایت کے متن میں اس کو جسر جہنم کہا گیا ہے لیکن دیگر مرفوع حدیث میں اس کو صراط کہا گیا – امام بخاری نے باب قائم کیا ہے
باب الصِّرَاطُ جِسْرُ جَهَنَّمَ
باب الصِّرَاطُ جہنم کا پل
صحیح ابن حبان کی ایک روایت میں متن میں ہے کہ ابو سعید الخدری نے اس پل کے ذکر میں کہا
: وَعَلَى الصِّرَاطِ ثَلَاثُ شَجَرَاتٍ
الصِّرَاطِ پر تین طرق ہوں گے
ایک روایت ابن ماجہ میں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ: حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ بْنِ الْعُتْوَارِيِّ، أَحَدِ بَنِي لَيْثٍ، قَالَ: – وَكَانَ فِي حَجْرِ أَبِي سَعِيدٍ – قَالَ: سَمِعْتُهُ يَعْنِي أَبَا سَعِيدٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: “يُوضَعُ الصِّرَاطُ بَيْنَ ظَهْرَانَيْ جَهَنَّمَ، عَلَى حَسَكٍ كَحَسَكِ السَّعْدَانِ، ثُمَّ يَسْتَجِيزُ النَّاسُ، فَنَاجٍ مُسَلَّمٌ، وَمَخْدُوجٌ بِهِ، ثُمَّ نَاجٍ، وَمُحْتَبَسٌ بِهِ، وَمَنْكُوسٌ فِيهَا” , (جة) 4280 [قال الألباني]: صحيح
اس میں اس کو صراط کہا گیا ہے البانی نے صحیح کہا ہے
————–
عرف عام میں پل صراط مشہور ہے
اس کا ذکر روایات میں ان اصحاب رسول سے مروی ہے
مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ الْجُهَنِيِّ – روایت ابو داود میں ہے شعَيب الأرنؤوط کہتے ہیں سند ضعیف ہے سند میں إسماعيل بن يحيى المعافري مجھول ہے یہی سند مسند احمد میں ہے
أَبِي أُمَامَةَ
عَائِشَةُ – مسند احمد میں ہے سند میں إبراهيم بن إسحاق أبو إسحاق بن عيسى الطالقاني ہے جو ابن مبارک سے محدثین کے مطابق غرائب روایت کرتا ہے اس سند میں ابن مبارک ہی ہیں البتہ اس کا متن دیگر صحیح سند سے معلوم ہے
أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ – مسند احمد میں ہے اس سند میں المنذر بن مالك العبْدي ہے ابن سعد کا کہنا ہے وليس كل أحد يحتج به. اس کی ہر روایت سے دلیل نہیں لی جا سکتی
جَابِرً بن عبد الله – مسند احمد میں ہے لیکن سند میں أَبُو الزُّبَيْرِ المکی ہے جس کی جابر بن عبد الله سے روایت پر بعض محدثین کو اعتراض ہے
أَبِي ذَرٍّ – مسند احمد میں ہے سند میں دو مدلسین عمرو بن مرثد الرحبي اور عبد الله بن زيد الجرمي ہیں
أَبِي هُرَيْرَةَ – صحیح بخاری میں ہے سند أَبُو اليَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ سے شروع ہوتی ہے جو بعض محدثین کے نزدیک سماع نہیں ہے اجازہ ہے
ابْنُ عَبَّاسٍ – مسند احمد میں ہے روایت سندا حسن ہے
الغرض اس کی اسناد اتنی ہیں یعنی اس کا اصل ہے یہ روایت قبول کی جائے گی سندا یہ صحیح و حسن ہیں
اس میں ابن عبّاس یا عائشہ رضی الله عنہما کی روایت کی سند سب سے بہتر لگی ہے
———-
مسند احمد میں ہے کہ ابن عباس نے کہا
حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ أَنَّهَا سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَوْلِهِ: {وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ} [الزمر: 67] فَأَيْنَ النَّاسُ يَوْمَئِذٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «هُمْ عَلَى جِسْرِ جَهَنَّمَ»
عائشہ رضی الله عنہا نے مجھ سے روایت کیا کہ انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا کہ الله کا قول زمین تمام اس کے قبضہ میں ہو گی اور آسمان دائیں پر لپٹے ہوں گے تو اس وقت لوگ کہاں ہوں گے ؟ رسول الله نے فرمایا جہنم کے پل پر
حدیث کے مطابق زمین ایک چپٹی روٹی جیسی ہو گی اور جہنم اس روز لائی جائے گی
وَجِيءَ يَوْمَئِذٍ بِجَهَنَّمَ ۚ
الفجر
اور جنت آسمان سے الگ ایک وسیع جگہ ہے کیونکہ جنت کا عرض آسمانون اور زمین کے برابر ہے
وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ
أل عمران
يعني تين مقام ہوئے ایک زمین – دوسرا جہنم- تیسری جنت
زمین سے جنت تک جو رستہ ہو گا اس پر یہ پل ہو گا
——-
قرآن میں محشر کے بہت سے منظر ہیں
بعض میں ہے کہ زمرا کی صورت کفار کو جہنم کی طرف بھگایا جائے گا جب جہنم پر پہنچیں گے تو دروازہ بند ہو گا کھولا جائے گا
وَسِيقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ جَهَنَّمَ زُمَرًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوهَا فُتِحَتْ أَبْوَابُهَا –
وَنَسُوقُ الْمُجْرِمِينَ إِلَى جَهَنَّمَ وِرْدًا
اور مجرموں کو جہنم کی طرف ہانکیں گے
سوره مریم
یہ بڑے کفار ہوں گے
——–
قرآن میں ہے منافق و مومن کو اندھیرا کر کے الگ کیا جائے گا یہاں تک کہ محشر میں اندھیرا ہو جائے گا منافق نور مانگیں گے
يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ يَسْعَى نُورُهُمْ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ بُشْرَاكُمُ الْيَوْمَ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (12) يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِينَ آمَنُوا انْظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُورِكُمْ قِيلَ ارْجِعُوا وَرَاءَكُمْ فَالْتَمِسُوا نُورًا فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ لَهُ بَابٌ بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذَابُ (13) يُنَادُونَهُمْ أَلَمْ نَكُنْ مَعَكُمْ قَالُوا بَلَى وَلَكِنَّكُمْ فَتَنْتُمْ أَنْفُسَكُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ وَغَرَّتْكُمُ الْأَمَانِيُّ حَتَّى جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ وَغَرَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ (14) فَالْيَوْمَ لَا يُؤْخَذُ مِنْكُمْ فِدْيَةٌ وَلَا مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مَأْوَاكُمُ النَّارُ هِيَ مَوْلَاكُمْ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (15)
——
مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ دَاوُدَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: أَنَا أَوَّلُ النَّاسِ سَأَلَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ: {يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَوَاتُ وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ} قَالَتْ: فَقُلْتُ: أَيْنَ النَّاسُ يَوْمَئِذٍ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: ” عَلَى الصِّرَاطِ
مسروق نے کہا عائشہ نے کہا میں نے رسول اللہ سے سب سے پہلے اس آیت يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَوَاتُ وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ پر سوال کیا پوچھا اس روز لوگ کہاں ہوں گے فرمایا صراط پر
سند صحیح ہے
شعيب الأرنؤوط کہتے ہیں إسناده صحيح على شرط مسلم
اب آخر میں جب مالک الملک تمام آسمانوں کو لپیٹ دے گا اس سے پہلے جو محشر میں رہ جائیں گے ان کو جسر جہنم پر جانے کا حکم ہو گا گویا زمیں و آسمان لپیٹ دیے جائیں گے اور انسان جسر جہنم پر ہوں گے
جب زمین و ساتوں آسمان مالک الملک لپیٹے گا تو ظاہر ہے نہ زمیں میں نہ سات آسمانوں میں کوئی مخلوق باقی نہ رہے گی اور چونکہ اس کو دکھایا جائے گا لہذا اس وقت مخلوق اس کو دیکھے کی جنت والے جنت سے جہنم والے جہنم سے اور جو رہ گئے وہ جسر جہنم پر سے
و الله اعلم
———
نوٹ
جسر جہنم کا ذکر کتب شیعہ میں بھی ہے
کتاب : عيون أخبار الرضا از صدوق
وعن علي بن محمد قال: حدثنا أبو القاسم محمد بن العباس بن موسى بن جعفر العلوي ودارم بن قبيصة النهشلي قالا: حدثنا علي بن موسى الرضا عليه السلام قال: سمعت أبي يحدث، عن أبيه عن جده محمد بن علي، عن علي بن الحسين، عن أبيه ومحمد بن الحنفيه عن علي بن أبي طالب عليه السلام، قال: سمعت رسول الله (ص): يقول تختموا بالعقيق، فانه أول جبل أقر لله تعالى بالوحدانية ولي بالنبوة ولك يا علي بالوصية ولشيعتك بالجنة. 325 – وبهذا الاسناد، قال: قال رسول الله (ص): اكثروا من ذكر هادم اللذات. 326 – وبهذا الاسناد، قال: قال رسول الله (ص): من أذل مؤمنا أو حقره لفقره وقلة ذات يده شهره الله على جسر جهنم يوم القيامة
کتاب وسائل الشيعة ج ٢٠ میں
أبي عمير ، عن أبي بكر الحضرمي ، عن أبي عبدالله ( عليه السلام ) ـ في حديث ـ قال : قال رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) : وان الرجل ليؤتى في حقبه فيحبسه الله على جسر جهنم حتى يفرغ الله من حساب الخلائق ، ثم يؤمر به إلى جهنم فيعذب بطبقاتها طبقة طبقة حتى يرد إلى أسفلها ولا يخرج منها
کتاب وسائل الشيعة ج ٦ میں
وعنه ، عن أبان بن عبد الملك ، عن كرام الخثعميّ ، عن أبي عبد الله ( عليه السلام ) قال : من قرأ ( إذا جاء نصر الله والفتح ) في نافلة أو فريضة نصره الله على جميع أعدائه وجاء يوم القيامة ومعه كتاب ينطق قد أخرجه الله من جوف قبره فيه أمان من جسر جهنّم ومن النار ومن زفير جهنّم ، فلا يمرّ على شيء يوم القيامة إلاّ بشّره وأخبره بكل خير حتىّ يدخل الجنّة ويفتح له في الدنيا من أسباب الخير ما لم يتمنّ ولم يخطر على قلبه.
کتاب مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول – العلامة المجلسي کے مطابق
روى الصدوق في معاني الأخبار بإسناده عن المفضل قال: سألت أبا عبد الله عليه السلام عن الصراط فقال: هو الطريق إلى معرفة الله عز و جل، و هما صراطان صراط في الدنيا و صراط في الآخرة فأما الصراط الذي في الدنيا فهو الإمام المفروض الطاعة، من عرفه في الدنيا و اقتدى بهداه مر على الصراط الذي هو جسر جهنم في الآخرة، و من لم يعرفه في الدنيا زلت قدمه عن الصراط في الآخرة فتردى في نار جهنم، فقوله تعالى:
” فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ”
بحار الانور از مجلسی
القطان عن عبد الرحمن بن
محمد الحسني عن أحمد بن عيسى العجلي عن محمد بن أحمد بن عبد الله العرزمي عن علي بن
حاتم عن المفضل قال: سألت أبا عبد الله عليه السلام عن الصراط فقال: هو الطريق إلى
معرفة الله عزوجل، وهما صراطان: صراط في الدنيا وصراط في الآخرة، فأما الصراط الذي
في الدنيا فهو الامام المفروض الطاعة، من عرفه في الدنيا واقتدى بهداه مر على
الصراط الذي هو جسر جهنم في الآخرة، ومن لم يعرفه في الدنيا زلت قدمه عن الصراط في
الآخرة فتردى في نار جهنم
لیکن عصر حاضر کے شیعہ محققین دھوکہ دیتے ہیں اور اس صراط کی خبر کو ابو ہریرہ کا قول قرار دیتے ہیں
[/EXPAND]
[عقل کے خلاف حدیث کو رد کرنا کیا معتزلہ کا اصول تھا یا محدثین کا ؟]
جواب
علوم الحديث ومصطلحه – عرضٌ ودراسة
المؤلف: د. صبحي إبراهيم الصالح (المتوفى: 1407هـ)
أن يكون المروي مخالفًا للعقل أو الحس والمشاهدة، غير قابل للتأويل (2). قِيلَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ: حَدَّثَكَ أَبُوكَ عَنْ جَدِّكَ أَن رَسُول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ سَفِينَةَ نُوحٍ طَافَتْ بِالْبَيْتِ سَبْعًا وَصَلَّتْ خَلْفَ المَقَامِ رَكْعَتَيْنِ؟ قَالَ: نَعَمْ. (3). وواضع هذا الخبر، عبد الرحمن بن زيد بن أسلم، مشهور بكذبه وافترائه، ففي ” التهذيب ” نقلاً عن
الإمام الشافعي: «ذَكَرَ رَجُلٌ لِمَالِكٍ حَدِيثًا، مُنْقَطِعًا، فَقَالَ: اذْهَبْ إِلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدٍ يُحَدِّثْكَ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ نُوحٍ!
اگر حدیث خلاف عقل ہو تو رد ہو گی اس کی مثال ہے کہ عبد الرحمان بن زید نے اپنے باپ سے پھر دادا سے روایت کیا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ نوح کی کشتی نے کعبہ کا طواف کیا
—-
کتاب الموضوعات کے مقدمہ میں ابن جوزی نے کہا
أَلا ترى أَنه لَو اجْتمع خلق من الثِّقَات فَأخْبرُوا أَن الْجمل قد دخل فِي سم الْخياط لما نفعننا ثقتهم وَلَا أثرت فِي خبرهم، لأَنهم أخبروا بمستحيل، فَكل حَدِيث رَأَيْته يُخَالف الْمَعْقُول، أَو يُنَاقض الْأُصُول، فَاعْلَم أَنه مَوْضُوع فَلَا تتكلف اعْتِبَاره.
کیا تم دیکھتے نہیں کہ اگر مخلوق کے تمام ثقات جمع ہوں اور خبر دیں کہ اونٹ سوئی کے ناکے سے گزر گیا تو ان کی ثقاہت کا کوئی فائدہ ہم کو اس خبر سے نہیں کیونکہ انہوں نے وہ خبر دی جو ممکن نہیں – پس ہر وہ حدیث جو عقل والے کی مخالفت کرے اور اصول (عقائد) سے متصادم ہو تو جان لو وہ گھڑی ہوئی ہے پس اس کے اعتبار کی تکلیف نہ کرو
ابن جوزی نے مزید کہا
وَاعْلَم أَنه قد يجِئ فِي كتَابنَا هَذَا من الْأَحَادِيث مَا لَا يشك فِي وَضعه، غير أَنه لَا يتَعَيَّن لنا الْوَاضِع من الروَاة، وَقد يتَّفق رجال الحَدِيث كلهم ثقاة والْحَدِيث مَوْضُوع أَو مقلوب أَو مُدَلّس، وَهَذَا أشكل الْأُمُور، وَقد تكلمنا فِي هَذَا فِي الْبَاب الْمُتَقَدّم.
اور جان لو کہ اس کتاب میں آئیں گی روایات جن پر کوئی شک نہیں کہ وہ گھڑی ہوئی ہیں لیکن اس میں یہ تعین نہیں کیا جا سکتا کہ کس راوی نے گھڑی ہے اور اس میں اتفاق بھی ہو گا کہ تمام رجال ثقہ ہیں جبکہ یہ حدیث یا تو گھڑی ہوئی ہے یا مقلوب ہے یا تدلیس ہے اور یہ مشکل کاموں میں ہے
: الوسيط في علوم ومصطلح الحديث
المؤلف: محمد بن محمد بن سويلم أبو شُهبة (المتوفى: 1403هـ) میں ہے
قال الإمام ابن الجوزي: “ما أحسن قول القائل: كل حديث رأيته تخالفه العقول وتباينه النقول وتناقضه الأصول فاعلم أنه موضوع
امام ابن جوزی نے کہا کتنا اچھا ہے یہ قائل کا قول کہ ہر حدیث جو دیکھو عقلوں کی مخالف ہو اور نقلا بیان کی اور اصول سے متصادم ہو تو جان لو یہ گھڑی ہوئی ہے
اسی کتاب میں ابن جوزی نے کہا
وَاعْلَم أَن حَدِيث الْمُنكر يقشعر لَهُ جلد طَالب الْعلم مِنْهُ
اور جان لو کہ حدیث منکر سنتے ہی طالب علم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں
گویا علم حدیث کا دارومدار صرف سند اور رجال ہی نہیں اس کا متن بھی ہے
غیر مقلدین اور وہابی علماء کا ایک گروپ کہتے ہیں کہ اگر راوی ثقہ ہوں تو روایت آٹومیٹک صحیح ہوتی ہے اس طرح یہ سلف کے منہج پر نہیں اپنے ہی کسی خود ساختہ منہج پر ہیں
اصل میں ابن جوزی کا یہ ذکر نہیں کرتے کیونکہ ابن جوزی اسماء و صفات میں وہابییوں سے الگ عقیدہ رکھتے ہیں اور علم حدیث میں بھی ابن جوزی کی آراء کو نہیں لیتے
——–
معتزلہ عقل نہیں فلسفہ کو مقدم رکھتے تھے – عقل الگ چیز ہے ہر انسان میں ہے فلسفہ ہر انسان کو نہیں اتا
اس کی شقیں ہیں
افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے معتزلہ کی کتب کی تاریخی دستاویز کے طور پر حفاظت نہیں کی- لہذا ان کے دلائل ان کی کتب سے معلوم نہیں ہیں بلکہ مخالفین کی کتب میں سرسری تبصروں سے ان کے بارے میں پتا چلا ہے
[/EXPAND]
[نبی صلی الله علیہ وسلم کا ایک رات میں ازواج کے پاس جانے والی روایت پر سوال ہے ]
* انس بن مالک ر۔ع۔ فرماتے ہیں کہ محمدﷺ اپنی سب بیویوں کے پاس ایک گھنٹے کےاندر دورہ فرما لیا کرتے تھے اور وہ گیارہ تھیں۔ (کتاب الغسل میں امام بخاری کے نام سے اس حدیث کا عنوان لکھا گیا ہے “ایک ہی غسل سے جماع کےبعد جماع تمام بیویوں کے ساتھ کرنا” صفحہ ٩٨١، صحیح بخاری، جلد دوم۔)۔۔۔۔بھائی اس کی تحقیق چاہئے
جواب
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ: «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدُورُ عَلَى نِسَائِهِ فِي السَّاعَةِ الوَاحِدَةِ، مِنَ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ، وَهُنَّ إِحْدَى عَشْرَةَ»
——–
اس کی سند میں معاذ بن هشام الدستوائي ہے جو بعض محدثین کے نزدیک حجت نہیں
قال ابن معين وليس بحجة وقال غيره له غرائب
ابن معین نے کہا اس سے دلیل مت لو اور دوسرے محدثین نے کہا عجیب انوکھی باتیں کرتا ہے
قَالَ أَبُو عُبَيْدٍ الآجُرِّيُّ: قُلْتُ لأَبِي دَاوُدَ: مُعَاذُ بنُ هِشَامٍ عِنْدَكَ حُجَّةٌ؟
فَقَالَ: أَكْرَهُ أَنْ أَقُوْلَ شَيْئاً، كَانَ يَحْيَى لاَ يَرْضَاهُ.
الاجری نے ابو داود سے پوچھا کہ کیا یہ حجت ہے ؟ ابو داود نے کراہت کی کہ کچھ کہیں اور کہا یحیی اس سے خوش نہ تھے
علی المدینی کہتے ہیں کہ یہ اپنے باپ سے ١٢٠٠٠ روایات بیان کرتا جس پر ہم نے اس کا انکار کیا پھر بصرہ میں اس نے ہم کو بتایا کہ کون سی سنی ہے اور کون سی نہیں سنی
اور زیر بحث روایت کو علی المدینی نے اس سے روایت کیا ہے
وقال ابن أبي خيثمة: سئل يحيى بن معين عن معاذ بن هشام فقال: ليس بذاك القوي.
ابن معین نے اس راوی کو اتنا بھی قوی نہیں قرار دیا ہے
معلوم ہوتا ہے اس راوی پر محدثین کا اختلاف رہا ہے بعض نے اس کو قبول کیا اور بعض نے چھوڑ دیا
اگر صحیح ہے تو وہ معجزہ نبوی ہے ایک عام آدمی کے لئے ہے بھی نہیں تو اس سے باب میں ہم لوگوں کے لئے دلیل نہیں لی جا سکتی لیکن امام بخاری نے لی ہے – ہم کو اس روایت سے کیا فائدہ ہے ؟
اور اصحاب رسول کیا یہ دیکھتے رہتے تھے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کس حجرہ سے نکل کر اب کس حجرہ میں جا رہے رہے جیسا اس میں قول بھی بیان ہوا کہ ہے کہ انس رضی الله عنہ کہتے کہ ہم کہتے ان کو ٣٠ مردوں کی قوت دی گئی ہے
راقم سمجھتا ہے اس روایت میں کچھ غریب باتیں ہیں جیسا ابن معین نے کہا یہ راوی عجائب بیان کرتا ہے
[/EXPAND]
[رسول الله نے عثمان کو انکی بیوی کو دفن کرنے کو اجازت نہیں دی ؟]
جواب
لَا يَدْخُلِ الْقَبْرَ أَحَدٌ قَارَفَ أَهْلَهُ اللَّيْلَةَ
قبر میں داخل نہ ہو رات جس نے اپنے اہل کے ساتھ ارتکاب کیا ہو
یہ الفاظ مبہم ہیں مسند احمد میں ہے
فَلَمْ يَدْخُلْ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ الْقَبْرَ
پس عثمان قبر میں نہیں اترے
———–
مسند احمد 13383 میں ایک راوی نے کہا
قَالَ سُرَيْجٌ: يَعْنِي ذَنْبًا،
قَالَ سُرَيْجٌ بنُ النُّعْمَانِ بنِ مَرْوَانَ الجَوْهَرِيُّ: يَعْنِي گناہ
یعنی کوئی بھی گناہ اہل کے حوالے سے کیا ہو وہ قبر میں نہ اترے
قرآن سوره الانعام آیت ١١٣ میں ہے
وليقترفوا ما هم مقترفون
اور گناہ کا ارتکاب کریں انہی کی طرح افترا
پردازی کرنے لگیں
امام بخاری نے اس رائے کو ترجیح دی ہے صحیح میں کہا
قَالَ ابْنُ مُبَارَكٍ: قَالَ فُلَيْحٌ: «أُرَاهُ يَعْنِي الذَّنْبَ» قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: {لِيَقْتَرِفُوا} [الأنعام: 113]: أَيْ لِيَكْتَسِبُوا , (خ) 1342
————
لغوا اس سے مراد مقارفة المرأة: مجامعتها عورت سے جماع کرنا ہے
من قارف: قارب.
* مقارفةء الاثم: ارتكابه … Perpetration of a sin * مقارفة المرأة: مجامعتها … (Sexual Intercourse) with a woman
: معجم لغة الفقهاء
المؤلف: محمد رواس قلعجي – حامد صادق قنيبي
—–
کتاب : شمس العلوم ودواء كلام العرب من الكلوم
المؤلف: نشوان بن سعيد الحميرى اليمني (المتوفى: 573هـ)
میں ہے کہ
حدیث میں ہے
كان النبي عليه السلام يصبح جنبا في شهر رمضان من قرافٍ غير احتلام
یعنی جماع کرنا
ابن حزم نے اس رائے کو ترجیح دی ہے
——–
امام طحاوی مشکل الاثار میں کہتے ہیں
قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: فَابْنَةُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ هِيَ أُمُّ كُلْثُومٍ، تُوُفِّيَتْ وَكَانَتْ وَفَاتُهَا رَضِيَ اللهُ عَنْهَا فِي سَنَةِ تِسْعٍ مِنَ الْهِجْرَةِ
یہ ام کلثوم رضی الله عنہا ہیں جنکی وفات ٩ ہجری میں ہوئی
جبکہ مسند احمد میں ہے
رُقَيَّةَ تھیں یعنی ٢ ہجری میں
===========================================
اسنادی حیثیت
روایت کی سند میں مسائل ہیں
اس کو امام بخاری نے فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا هِلاَلُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ کی سند سے روایت کیا ہے
فليح بن سليمان المدني پر جرح ہے
قال ابن معين والنسائي وغيرهما ليس بقوي وقال الدارقطني يختلفون فيه ولا بأس به وقال عباس عن ابن معين فليح وابن عقيل وعاصم بن عبد الله لا يحتج بحديثهم
ابن معين والنسائي کے نزدیک ضعیف ہے اور ابو داود کہتے ہیں لا يحتج بفليح. اس سے دلیل مت لو
ميزان الاعتدال في نقد الرجال میں ہے الساجی کہتے ہیں
كنا نتهمه، لانه كان يتناول من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم.
ہم اس کو الزام دیتے کیونکہ یہ اصحاب رسول کو برا کہتا
دوسرا طرق مسند احمد کا ہے
حَدَّثَنَا يُونُسُ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رُقَيَّةَ لَمَّا مَاتَتْ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَدْخُلِ الْقَبْرَ رَجُلٌ قَارَفَ أَهْلَهُ». فَلَمْ يَدْخُلْ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ الْقَبْر.
اس میں حماد بن سلمہ مختلط ہے
احد ائمة المسلمين إلا أنه لما كبر ساء حفظه فلدا تركه البخاري
امام بخاری نے حماد سے کوئی روایت نہیں لی امام مسلم نے لی ہے لیکن اس روایت کو صحیح میں نہیں لکھا
یعنی اس روایت کو مضبوط نہیں کہا جا سکتا
——–
مسند احمد میں ا گیا کہ یہ رقیہ رضی الله عنہا کی وفات اور تدفین پر ہوا تو اگر عثمان رضی الله عنہ نے کچھ ایسا غلط کیا تھا تو دوسری بیٹی ام کلثوم رضی الله عنہا ان سے کیوں بیاہ دی ؟ یہ عقل سلیم کے خلاف ہے
یہ روایت فقہاء نے پسند کی کیونکہ اس میں پہلی بیوی کے لئے مرد کو روکا جا رہا ہے سوره النساء میں ہے
وأن تجمعوا بين الأختين إلا ما قد سلف إن الله كان غفورا رحيما
اور تم دو بہنوں کو جمع نہ کرو
چونکہ ام کلثوم اور رقیہ رضی الله عنہا بہن ہیں تو یہ ثابت کرنے کے لئے کہ مرد کا نکاح پہلی بیوی کی موت پر اس سے ختم ہو جاتا ہے اس روایت کو پیش کیا جاتا ہے
سوره نساء سن ٣ سے ٤ ہجری میں نازل ہوئی
اور رقیہ رضی الله عنہا کی وفات ٢ ہجری میں ہوئی اور اس کے بعد ام کلثوم رضی الله عنہا سے نکاح ہوا یعنی سوره نساء کی آیت کے نازل ہونے سے قبل عثمان رضی الله عنہ اور ام کلثوم رضی الله عنہا کا نکاح ہوا لہذا اس آیت کی شرح اس روایت سے ممکن نہیں ہے
[/EXPAND]
[بدعتی کی روایت پر محدثین کا کیا نقطۂ نظر تھا؟ امام بخاری کے دور کے رافضی کا عقیدہ کیا تھا؟]
سکی بدعت کی تائید نہ کر رہی ہو دونوں صورتوں میں امام بخاری کے دور میں بدعتی کو کیا سمجھا جاتا تھا کافر یا مسلم؟ امام بخاری کے دور میں رافضیوں کا مسلک کیا تھا اس دور کے رافضی اور آج کے دور کے رافضی کے عقیدہ میں کیا فرق تھا؟؟؟
جواب
بدعت کا لفظ صحیح منہج یا عقیدہ سے الگ ہونے پر استمعال ہوتا تھا – اس میں شیعہ ہو یا رافضی ہو یا قدری ہو یا جھمی یا خارجی ہو یا معتزلی ان سب کو بدعتی سمجھا جاتا تھا اور ظاہر ہے یہ سب اہل قبلہ ہیں ان کو عرف عام میں مسلمانوں میں سے سمجھا جاتا تھا
اب اس میں بدعت مکفرہ یا غیر مکفرہ کی بحث تھی کہ بعض محدثین مثلا امام احمد اور امام بخاری جھمی کو کافر کہتے ہیں-
سؤالات محمد بن عثمان بن أبي شيبة لعلي بن المديني کے مطابق
وَحدثنَا مُحَمَّد بن عُثْمَان قَالَ سَمِعت عليا على الْمِنْبَر يَقُول من زعم أَن الْقُرْآن مَخْلُوق فقد كفر وَمن زعم أَن الله عز وَجل لَا يرى فَهُوَ كَافِر وَمن زعم أَن الله عز وَجل لم يكلم مُوسَى على الحقيقه فَهُوَ كَافِر
محمد بن عثمان نے کہا میں نے منبر پر امام علی المدینی کو کہتے سنا
جس نے دعوی کیا قرآن مخلوق ہے وہ کافر
جس نے دعوی کیا کہ الله کو نہیں دیکھا جا سکتا وہ کافر
جس نے دعوی کیا کہ الله نے فی الحقیقت موسی سے کلام نہ کیا وہ کافر
شیعہ اور خوارج کا عقیدہ ہے کہ محشر میں الله کو نہیں دیکھا جا سکتا – باقی اقوال معتزلہ کے لئے ہیں
علی المدینی کے فتوی کی چوٹ ان فرقوں پر ہے
——
تہذیب التہذیب میں ہے
قال عبد الواحد بن غياث عن ابن مهدي: جلس إلينا أبو جزء على باب أبي عمرو بن العلاء فقال: “أشهد أن الكلبي كافر
ابن مہدی نے کہا کہ أبو جزء نے کہا کہ الکلبی کافر ہے
یعنی محدثین میں سے بعض کے نزدیک یہ راوی ( اہل قبلہ میں سے ہیں مسلمان کہلاتے ہیں لیکن) یہ راوی کافر ہیں
لیکن مورخین و محدثین نے الکلبی کی روایت لکھی ہے – خیال رہے اس سے دلیل لینا ثابت نہیں ہوتا
——-
أبي عبيد الآجري نے ابو داود سے سوال کیا
سألت أبا دَاوُد عَن عَمرو بْن ثَابت فَقَالَ: “كَانَ رَجُلَ سَوءٍ. قال هناد ولم أصلِّ عَلَيْهِ”. قَالَ: “لما مَات النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كفر الناس إلاّ خمسة
میں نے ابو داود سے عمرو بن ثابت ابن أبي المقدام الكوفي کے بارے میں پوچھا کہا برا آدمی ہے هناد بن السّري نے کہا اس کا جنازہ مت پڑھنا یہ کہتا ہے کہ جب النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کی وفات ہوئی تو سب کافر ہوئے سوائے پانچ کے
قال عبد الله، عن أبيه: كان يشتم عثمان، ترك ابن المبارك حديثه. «تهذيب التهذيب» 8/ (11) .
احمد نے کہا یہ عثمان (رضی الله عنہ ) کو گالی دیتا تھا ابن مبارک نے اس کی احادیث ترک کر دیں
اور کہتے
لا تحدثوا عن عمرو بن ثابت، فإنه يسب السلف
اس سے روایت نہ کرو سلف کو گالی دیتا ہے
میزان میں الذھبی کے مطابق ابو داود نے اس کو رافضي بھی کہا ہے
راوی عبد الله بن شريك العامري، الكوفي کے لئے ابن حبان لکھتے ہیں
قال ابن حبان: “كان – يعني عبد الله بن شريك – غاليا في التشيع
یہ غالی تھا
لہذا یہ معلوم ہوا کہ رافضی آج کل کا ہو یا امام بخاری کے دور کا ایک ہی جیسے عقیدہ رکھتے تھے- بعض محدثین اس بنا پر روایت ترک کرتے تھے اور بعض لکھتے تھے لیکن لکھنے کا مطلب دلیل لینا نہیں ہوتا
———
اپ نے جو عبارت پیش کی ہے
“اس میں علم حدیث کا اصول تھا کہ بدعتی کی روایت لی جائے گی الا یہ کہ وہ اس کی بدعت کے حق میں ہو اس کو کافر نہیں سمجھا جاتا تھا”
وہ صحیحین کے راویوں کے لئے ہے کہ جو بد عقیدہ ہیں یا بدعتی لیکن ان کو کافر نہیں سمجھا گیا
صحیح بات ہے کہ بدعتی سے روایت لی گئی ہے البتہ صحیح میں اس کی بدعت کی تقویت نہیں ہے
مزید دیکھیں
⇑ صحیح بخاری میں کیا رافضیوں سے روایت لی گئی ہے ؟ جبکہ آج بعض علماء کہتے ہیں رافضی کافر ہیں
https://www.islamic-belief.net/q-a/علم-الحدیث/
========================
نوٹ
خیال رہے کہ فرقہ پرست مثلا اہل حدیث اپنی کتابوں میں آج کل لکھ رہے ہیں کہ بدعتی راوی کی روایت رد کرو کا اصول امام جوزجانی کا تھا جبکہ یہ اصول جوزجانی سے پرانا ہے – محدثین کا کتاب میں روایت لکھنا اس کو قبول کرنا نہیں ہے ، اس کو بیان کرنا ہے – قبول اس وقت تصور ہو گا جب اس کے اوپر عقیدہ کی بنیاد رکھی جائے
اس قسم کا فراڈ ابو جابر دامانوی نے اپنی کتابوں میں دیا ہے جس میں ابن حجر کے قول پر جرح کی جو نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر
میں ہے
نعمْ، الأكثرُ على قَبولِ غيرِ الدَّاعيةِ، إلا أنْ يَروي ما يُقَوِّي بِدْعَتَهُ فَيُرَدُّ، على المذهَبِ المُخْتارِ،
“ہاں یہ بات درست ہے کہ غیر داعی بدعتی کی اکثر نے روایت قبول کی ہے – لیکن اگر وہ روایت کرے جس سے اس کی بدعت کی تقویت ہو تو المذهَبِ المُخْتارِ کی طرف رد ہو گی”
اور یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ صحیح بخاری میں بدعتوں کی روایت موجود ہے جبکہ یہ حماقت ہے کیونکہ کہا یہ گیا ہے کہ اگر بدعتی اپنی بدعت کے حق میں روایت کرے تو رد ہو گی اور ایسا صحیح میں ہے کہ رافضی سے روایت لی گئی ہے اس کی بدعت کی موید روایت نہیں لی گئی
بعض کبار محدثین اس کے بھی خلاف تھے مثلا امام ابو زرعہ جو امام مسلم کے استاد ہیں انہوں نے نے صحیح مسلم کے لئے کہا
! ويُطرِّق لأهل البدع علينا، فيجدون السبيل بأن يقولوا لحديثٍ إذا احتُجَّ عليهم به
مسلم بن حجاج نے اہل بدعت کو اس طرح رستہ بنا کر دیا ہے کہ اہل بدعت اب ہم پر سبیل پائیں گے کہ جرح کریں اور کہیں گے کہ اس کی حدیث سے دلیل لی گئی ہے
أبو زرعة الرازي وجهوده في السنة النبوية
[/EXPAND]
[خبر واحد سے کیا عقیدہ میں دلیل لی جا سکتی ہے؟]
صحیح منهج قرآن اور حدیث اور صحابه کا قول اور عمل کے رو سے کانسا ہے
۱/خبر واحد عقیده میں حجت ہے
۲/خبر واحد عقیده میں حجت نہیں ہے
جواب
خبر واحد پر اختلاف چلا آ رہا ہے
اسلام سے پہلے اور بعد میں بھی جب تک نشر و اشاعت کے ادارے نہیں تھے ایک سچے شخص کی بات قبول کی جاتی تھی
قیصر نے ابو سفیان کو طلب کیا ان سے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات پوچھی اور ہم تک پہنچا وہ متاثر ہوا
قیصر نصرانی تھا اور ابو سفیان رضی الله عنہ اس وقت مشرک تھے
اسی طرح نجاشی جو نصرانی تھا اس نے بھی اصحاب رسول اور قریش مکہ کا مقدمہ سنا
اسی طرح سفیروں کو بھیجا جاتا تھا وہ حکمرانوں کو بات ایک دوسرے کو بتاتے تھے یہ مسلم و مشرک و اہل کتاب بھی کرتے تھے
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا کسی مشرک یا اہل کتاب کو خط لکھنا خبر واحد کی دلیل نہیں کیونکہ یہ تو دنیا کا رواج ہے- خیال رہے کہ ان خطوط کی بنا پر کوئی ایمان بھی نہیں لایا
تو اس کو بطور دلیل پیش کرنا ہی صحیح نہیں
یوسف علیہ السلام نے جو مصر میں ملازم تھے انہوں نے ایک مصری کو بھیجا کہ قمیص جا کر یعقوب علیہ السلام پر ڈالو
فَلَمّا أَن جاءَ البَشيرُ أَلقىٰهُ عَلىٰ وَجهِهِ فَارتَدَّ بَصيرًا﴾ [9]
جب خوشخبری دینے والے نے پہنچ کر ان کے منہ پر کرتہ ڈالا اسی وقت وہ پھر بینا ہو گئے۔
یہ خوشخبری دینے والا مومن تھا یا نہیں اس کا کوئی ذکر نہیں لیکن چونکہ بینائی انے سے اس کی خبر کا سچ ظاہر ہوا اس بات کی اہمیت ختم ہوئی کہ یہ کون تھا
اس آیت کو خبر واحد کی حجیت کی دلیل پر پیش نہیں کیا جا سکتا
قرآن میں ہے کہ سلیمان علیہ السلام کو ہدہد کی خبر واحد کا یقین نہیں تھا کہا جا کر خط ملکہ کو دو تاکہ یہ اگر سچ ہے تو سامنے آئے
قرآن میں ہے
فَلَولا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرقَةٍ مِنهُم طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهوا فِى الدّينِ وَلِيُنذِروا قَومَهُم إِذا رَجَعوا إِلَيهِم لَعَلَّهُم يَحذَرونَ ﴿١٢٢﴾ [12]
’’ سو ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جایا کرے تاکہ وه دین کی سمجھ بوجھ حاصل کریں اور تاکہ یہ لوگ اپنی قوم کو جب کہ وه ان کے پاس آئیں، ڈرائیں تاکہ وه ڈر جائیں۔‘‘
یہ خبر واحد کی دلیل نہیں کیونکہ طائِفَةٌ کا مقصد یھاں تبلیغ دین ہے جو صرف قرآن سے بھی ممکن ہے الله کا قول ہے
فذكر بالقرآن من يخاف وعيد
قرآن سے اس کو نصحت کرو جو وعيد سے ڈر جائے
یعنی خبر واحد اگر ثقہ بیان کرے تو “مخبر کے مقام و مرتبہ کی وجہ سے” اس کو سب قبول کرتے ہیں اس میں اسلام کا کوئی کمال نہیں ہے- رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی زندگی سے متعلق بہت سی خبریں امہات المومنین کی دی ہوئی ہیں جو ظاہر ہے یہ خبر واحد کی دلیل نہیں ہے یہ تو میاں بیوی کی خبر ہے
کہا جاتا ہے راغب ا الصفهانی کا کہنا ہے (طائفة)ایک اور زیاده پر اطلاق ہوسکتا ہے
یہ آیت خبر واحد کی حجیت پر قطعی دلیل نہیں ہے
طائفة والی آیت کا حکم تبلیغ کے لئے ہے کہ ایک یا زیادہ کر سکتا ہے
حدیث رسول کے قبول و رد کا حکم نہیں ہے
کیونکہ تبلیغ صرف قرآن سے ممکن ہے
فذكر بالقرآن من يخاف وعيد
اسی طرح بعض نے کہا قرآن میں ہے
یاایهاالذین آمنو جاءکم فاسق بنبأ فتبینو….الایة
آیت کا مفهم ان کے نزدیک یہ ہے کہ اگر عادل شخص خبر دے تو تحقیق کے ضرورت پھرنہیں ہے
راقم کہتا ہے
آیات میں تلقین ہے کہ خبر کی تحقیق کرو – فسق والے کی اس لئے کہ کہیں اس سے جنگ ہی نہ شروع ہو جائے پھر شرمندہ ہونا پڑے
یہ انسان کے معاملات کے حوالے سے حکم ہے حدیث نبوی کے قبول و رد پر حکم نہیں ہے
کیونکہ اگر رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے منسوب موضوع روایت لے لی تو اس پر آخرت میں ہی شرمندگی ہو گی دنیا میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا
عمر رضی الله عنہ نے خبر واحد کو مطلقا قبول نہیں کیا
مثلا
سعيد بن عبد العزيز عن إسماعيل بن عبيد الله عن السائب بن يزيد قال سمعت عمر بن الخطاب يقول لأبي هريرة لتتركن الحديث عن رسول الله (صلى الله عليه وسلم) أو لألحقنك بأرض دوس وانقطع من كتاب أبي بكر كلمة معناها دوس وقال لكعب لتتركن الحديث أو لألحقنك بأرض القردة
سعید بن عبد العزیز کہتے ہیں اسمعیل نے السائب بن يزيد رضی الله عنہ سے کہ انہوں نے عمررضی الله عنہ کو ابو بریرہ رضی الله عنہ سے کہتے سنا کہ رسول الله سے حدیث روایت کرنا چھوڑو ورنہ تم کو ارض دوس اور کعب الاحبار کو کہا کہ تم کو بندروں کی زمین میں بدر کروں گا
الذھبی نے خود تبصرہ کیا
قُلْتُ: هَكَذَا هُوَ كَانَ عُمَرُ -رَضِيَ اللهُ عَنْهُ- يَقُوْلُ: أَقِلُّوا الحَدِيْثَ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-. وَزَجَرَ غَيْرَ وَاحِدٍ مِنَ الصَّحَابَةِ عَنْ بَثِّ الحَدِيْثِ، وَهَذَا مَذْهَبٌ لِعُمَرَ وَلِغَيْرِهِ
میں کہتا ہوں یہ عمر ایسے ہی تھے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے کم روایت کرو- انہوں نے ایک سےزیادہ اصحاب رسول کو ڈانٹا حدیث بیان کرنے پر اور یہ ان کا مذھب ہے اور دوسروں کا
اسی طرح عمر رضی الله عنہ نے فاطمہ بیت قیس کی حدیث کو رد کر دیا کہ ایک عورت کے قول پر ہم بھروسہ نہیں کر سکتے جس کا معلوم نہیں کہ بھول گئی ہو
عمر رضی اللہ عنہ نے اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور فرمایا :
ما کنا لندع کتاب ربنا وسنۃ نبینا لقول امراۃ لا ندری احفظت ام لا ۔(سنن ابی داؤد:کتاب الطلاق، حدیث ۲۲۹۱)
’’ہم کتاب اللہ اور رسول اللہ کی سنت کو ایک عورت کی بات پر نہیں چھوڑ سکتے جس کو پتہ نہیں بات یاد بھی رہی یا نہیں۔
یعنی خبر واحد کو عمر رضی الله عنہ نے تسلیم نہیں کیا اگر کتاب الله کی مخالف ہو یہی عمر دور نبوی میں اس کے قائل تھے
عمرؓ فرماتے ہیں میں نے اپنے ایک انصاری پڑوسی سے باری مقرر کررکھی تھی جو مدینہ کے بالائی علاقہ میں بنو اُمیہ میں رہتا تھا، او رہم باری باری نبی اکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوا کرتے تھے۔ ایک دن میں آتا (وہ اپنا کام کاج کرتا) او رایک دن وہ آپ کے پاس حاضر ہوتا اور میں اپنے گھریلو کام کاج کرتا رہتا۔ اور ہم میں ہر ایک، نبی اکرم ﷺ پر جو وحی نازل ہوتی یا کوئی دیگر مسئلہ ہوتا تو ،اپنے ساتھی کو آکربتا دیتے تھے۔ ” اس طرح گویا دونوں علم نبوت حاصل کیا کرتے تھے۔
یہاں ایک آدمی کی خبر یہ قبول کر لیتے ہیں کیونکہ جب نبی صلی الله علیہ وسلم سے ملتے تو تصدیق کر لیتے یا دیگر اصحاب سے پوچھ لیتے ہوں گے – وفات النبی کے بعد عمر کا رویہ بدل گیا ابو ہریرہ کی احادیث کو نہیں لیا اسی طرح فاطمہ بیت قیس کی حدیث کو قبول نہیں کیا
ابن عمر رضی الله عنہ کی روایت ہے
بینما الناس بقباء في صلوٰة الصبح إذ جاءهم اٰتٍ فقال إن رسول الله ﷺ قد أنزل علیه اللیلة قرآن وقد أمر أن یستقبل الکعبة فاستقبلوها وکانت وجوههم إلىٰ الشام فاستداروا إلىٰ الکعبة»13
” قبا والے فجر کی نماز بیتُ المقدس کی طرف متوجہ ہوکر پڑھ رہے تھے کہ ایک آنے والےنے آکر اُنہیں بتایا کہ نبی اکرم ﷺ پر قرآن نازل ہوچکا ہے اور آپ کو خانہ کعبہ کی طرف متوجہ ہوکر نماز پڑھنےکا حکم دے دیا گیا ہے لہٰذا تم بھی کعبہ کی طرف منہ کرلو، جبکہ ان کے چہرے سے شام (یعنی بیت المقدس)کی طرف تھے تو (وہ ایک آدمی کے خبر دینے سےبیت المقدس سے)بیت اللہ (خانہ کعبہ)کی طرف متوجہ ہوگئے۔”
یہاں نماز میں لوگوں نے ایک آواز سنی اس کو قبول کیا اور عمل کیا لیکن ظاہر ہے جو آواز سنی وہ ان کے نزدیک ثقہ شخص کی تھی انہوں نے اس خبر کو لیا
کیونکہ اس دور میں یہ سمجھا جا رہا تھا کہ عنقریب تحویل قبلہ کا حکم آ جائے گا لوگ اس کے منتظر تھے
عمر رضی الله عنہ نے ایک شخص کو قرآن پڑھتے سنا جو اس قرات پر تھا جس کا ان کو علم نہیں تھا اس شخص نے کہا میں نے رسول الله سے اس کو سیکھا ہے – عمر نے اس خبر واحد کو رد کر دیا اور نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس لائے کہ تصدیق ہو یعنی کتاب الله کے خلاف جو بھی روایت پہنچی اس کو عمر رضی الله عنہ نے قبول نہیں کیا یہاں تک کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے دھن مبارک سے اس کی تصدیق ہوئی
معلوم ہوا خبر واحد عقیدہ میں حجت نہیں عمل میں لیا جا سکتا ہے اگر خبر مشھور ہو
مثلا استسقاء کی نماز کی نماز کا ایک راوی ہے احناف نے اس کو قبول نہیں کیا ہے
السنَّة” أي العمل بهذا الحديث في الحجاز
سنت کا مفہوم امام محمد کے نزدیک یہ ہے کہ حجاز میں اس پر عمل ہو اور اصحاب رسول سے ثابت ہو اس کے مقابلے پر اگر کوئی خبر واحد یا حدیث واحد آئے گی تو رد ہو گی
الأَصْلُ از أبو عبد الله محمد بن الحسن بن فرقد الشيباني (المتوفى: 189 هـ) میں اس کی امثال ہیں
⇑ کیا نماز استسقاء بدعت ہے ؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/عبادت/
یعنی عقیدے میں اگر قرآن مخالف ہے تو رد ہو گی- عمل مشہور کو خبر واحد سے رد نہیں کیا جائے گا
شوال کے روزے خبر واحد سے معلوم ہیں
وقال مَالِك: فِي صِيَامِ سِتَّةِ أَيَّامٍ بَعْدَ الْفِطْرِ مِنْ رَمَضَانَ: إِنَّهُ لَمْ يَرَ أَحَدًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالْفِقْهِ يَصُومُهَا، وَلَمْ يَبْلُغْه ذَلِكَ عَنْ أَحَدٍ مِنَ السَّلَفِ، وَإِنَّ أَهْلَ الْعِلْمِ يَكْرَهُونَ ذَلِكَ، وَيَخَافُونَ بِدْعَتَهُ، وَأَنْ يُلْحِقَ بِرَمَضَانَ أهل الْجَفَاءِ وَأَهْلُ الْجَهَالَةِ، مَا لَيْسَ فيهُ لَوْ رَأَوْا فِي ذَلِكَ رُخْصَةً من أَهْلِ الْعِلْمِ، وَرَأَوْهُمْ يَعْمَلُونَ ذَلِكَ.
امام مالک بن انس رمضان کے بعد شوال کے چھ روزوں کے بارے میں فرماتے ہیں:’’ میں نے کسی اہل علم یا فقیہ کو نہیں دیکھا جو یہ روزے رکھتا ہو اور نہ سلف (صحابہ و تابعین) سے مجھے یہ پہنچا، بلکہ اہل علم اسے مکروہ سمجھتے ہیں
امام مالک اور مدینہ کے اہل علم نہیں رکھتے تھے
بہر حال لوگوں میں اس پر اختلاف ہوا اور امام ابو حنیفہ نے خبر واحد کی بنیاد پر نماز استسقاء کو نہیں لیا
امام مالک نے تعامل کی بنیاد پر شوال کے روزوں کو نہیں لیا
امام احمد اور شافعی نے خبر واحد کو لیا یہاں تک کہ احمد نے ضعیف تک کو حجت قرار دیا
عبد اللہ بن احمد اپنے باپ احمد سے کتاب السننہ میں نقل کرتے ہیں
سَأَلْتُ أَبِي رَحِمَهُ الله عَنِ الرَّجُلِ، يُرِيدُ أَنْ يَسْأَلَ، عَنِ الشَّيْءِ، مِنْ أَمْرِ دِينِهِ مَا يُبْتَلَى بِهِ مِنَ الْأَيْمَانِ فِي الطَّلَاقِ وَغَيْرِهِ فِي حَضْرَةِ قَوْمٍ مِنْ أَصْحَابِ الرَّأْي وَمِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ لَا يَحْفَظُونَ وَلَا يَعْرِفُونَ الْحَدِيثَ الضَّعِيفَ الْإِسْنَادِ وَالْقَوِيَّ الْإِسْنَادِ فَلِمَنْ يَسْأَلُ، أَصْحَابَ الرَّأْي أَوْ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ عَلَى مَا كَانَ مِنْ قِلَّةَ مَعْرِفَتِهِمْ؟ [ص:181] قَالَ: يَسْأَلُ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ وَلَا يَسْأَلُ أَصْحَابَ الرَّأْي، الضَّعِيفُ الْحَدِيثِ خَيْرٌ مِنْ رَأْي أَبِي حَنِيفَةَ
میں نے اپنے باپ سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا جو دین کے کسی کام پر جس سے ایمان برباد نہ ہو جسے طلاق یا دیگر پر اصحاب رائے کے پاس جائے یا ان اصحاب حدیث کے پاس جائے جو حدیث کو صحیح طرح یاد نہیں رکھتے اور قوی الاسناد کو ضعیف الاسناد سے جدا نہیں کر پاتے تو ان دونوں میں سے کس سے سوال کرے اصحاب رائے سے یا قلت معرفت والے اصحاب حدیث سے امام احمد نے کہا اصحاب حدیث سے سوال کرے اور اصحاب رائے سے نہیں ایک ضعیف حدیث ابو حنیفہ کی رائے سے بہتر ہے
ترمذی کہتے ہیں کان میں اذان دینے پر عمل چلا آ رہا ہے – ہم کو معلوم ہے اس کی روایت کی سند ضعیف ہے جس سے دلیل لی گئی اس کو حسن کہہ کر قبول کیا گیا
معلوم ہوا کہ فقہاء میں امام احمد کے نزدیک خبر واحد تو رہنے دیں ضعیف حدیث بھی حجت بن گئی تھی اور دوسری طرف محتاط فقہاء تھے جو تعامل اہل حجاز یا خبر مشھور لیتے خبر واحد کو عمل میں رد کر دیتے تھے
یہ اختلاف تو عمل میں تھا
عقیدہ تو مزید احتیاط کا متقاضی ہے لہذا خبر واحد کی بنیاد پر عقیدہ نہیں لیا جائے گا الا یہ کہ قرآن سے اس کی تائید ہو یا کہہ لیں قرآن میں اس کے شواہد ہوں
اصحاب رسول میں ابن عباس ہر خبر واحد کو عقیدے میں نہیں لیتے
صحیح مسلم میں ہے
وحدثني أبو أيوب سليمان بن عبيد الله الغيلاني، حدثنا أبو عامر يعني العقدي، حدثنا رباح، عن قيس بن سعد، عن مجاهد، قال: جاء بشير العدوي إلى ابن عباس، فجعل يحدث، ويقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجعل ابن عباس لا يأذن لحديثه، ولا ينظر إليه، فقال: يا ابن عباس، مالي لا أراك تسمع لحديثي، أحدثك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا تسمع، فقال ابن عباس: ” إنا كنا مرة إذا سمعنا رجلا يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، ابتدرته أبصارنا، وأصغينا إليه بآذاننا، فلما ركب الناس الصعب، والذلول، لم نأخذ من الناس إلا ما نعرف
بشیر العدوی، ابن عباس کے پاس آیا اور روایت کرنے لگا اور بولا رسول الله نے کہا ،رسول الله نے کہا ،پس ابن عباس نے اس کی حدیث کی اجازت نہیں دی اور نہ اس کی طرف دیکھا. اس پر وہ ابن عبّاس سے مخاطب ہوا کیا وجہ ہے کہ اپ میری حدیث نہیں سنتے جبکہ میں رسول الله کی حدیث سنا رہاہوں؟ پس ابن عباس نے کہا ایک وقت تھا جب ہم سنتے کسی نے کہا قال رسول الله ہم نگاہ رکھتے اور اپنے کان اس (حدیث) پر لگاتے . لیکن جب سے لوگوں نے الصعب اور الذلول کی سواری کی تو ہم روایات نہیں لیتے مگر صرف اس سے جس کو جانتے ہوں
كتاب السنة از أبو بكر بن أبي عاصم وهو أحمد بن عمرو بن الضحاك بن مخلد الشيباني (المتوفى: 287هـ) کے مطابق
ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ثنا ابْنُ ثَوْرٍ عَنْ مَعْمَرٍ عن ابن طاووس عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: حَدَّثَ رَجُلٌ بِحَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ فَانْتَفَضَ: قال ابن عباس ما بال هؤلاء يجدّون (يحيدون) عند محكمه ويهلكون عند متشابهه.
البانی کے مطابق اغلبا الفاظ يحيدون ہیں اور يجدّون غیر محفوظ ہیں
ابن عباس رضی الله عنہ نے فرمایا يحيدون جھٹک دو (رد کرو) جب کوئی شخص ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث روایت کرے – ابن عباس نے کہا ان جیسوں کو کیا ہوا ہے کہ محکمات سے ہٹ گئے اور متشابھات سے ہلاک ہوئے
البانی کتاب ظِلال الجنة في تخريج السنة میں کہتے ہیں
يعني استنكارا لما سمع من حديث أبي هريرة, ولم أقف على من نبه على المراد بهذا الحديث, ويغلب على الظن أنه حديث “إن اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ” وهو حديث صحيح, مخرج في “سلسلة الأحاديث الصحيحة” 860.
یعنی انکار کیا جب ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث سنی اور میں نہیں جان سکا کہ کون سی حدیث مراد تھی جس کی خبر دی اور جو گمان غالب ہے وہ یہ کہ یہ حدیث ہے کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا اور یہ حدیث صحیح ہے اس کی تخریج الصحیحہ ٨٦٠ میں کی ہے
محدثین میں امام مالک خبر واحد کو عقیدے میں نہیں لیتے
کتاب الضعفاء الكبير از امام العقيلي المكي (المتوفى: 322هـ) کے مطابق
حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدٍ أَحْمَدُ بْنُ أَبِي الْغِمْرِ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ قَالَ: سَأَلْتُ مَالِكًا عَمَّنْ يُحَدِّثُ بِالْحَدِيثِ الَّذِي قَالُوا: إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ، فَأَنْكَرَ ذَلِكَ مَالِكٌ إِنْكَارًا شَدِيدًا، وَنَهَى أَنْ يَتَحَدَّثَ بِهِ أَحَدٌ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ نَاسًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ يَتَحَدَّثُونَ بِهِ؟ فَقَالَ: مَنْ هُمْ، فَقِيلَ: مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، فَقَالَ: لَمْ يَكُنْ يَعْرِفُ ابْنُ عَجْلَانَ هَذِهِ الْأَشْيَاءَ، وَلَمْ يَكُنْ عَالِمًا، وَذُكِرَ أَبُو الزِّنَادِ فَقَالَ: إِنَّهُ لَمْ يَزَلْ عَامِلًا لِهَؤُلَاءِ حَتَّى مَاتَ، وَكَانَ صَاحِبَ عُمَّالٍ يَتَّبِعُهُمْ
عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ کہتے ہیں میں نے امام مالک سے حدیث کے متعلق پوچھا کہ کس نے اس کو روایت کیا ہے جس میں ہے کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا ؟ پس امام مالک نے اس حدیث کا شدت سے انکار کیا اور منع کیا کہ کوئی اس کو روایت کرے تو میں نے ان سے کہا کہ یہ اہل علم میں سے لوگ اس کو روایت کر رہے ہیں – امام مالک نے کہا کون ہیں وہ ؟ میں نے کہا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ اس پر امام مالک نے کہا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ کو ان چیزوں کا اتا پتا نہیں ہے اور نہ ہی کوئی عالم ہے اور أَبُو الزِّنَاد کا ذکر کیا کہ یہ تو ان کا (حکومت کا) عامل تھا – یہاں تک کہ مرا اور عمال کے لوگ اسکی اتباع کرتے ہیں
اس میں ابہام آج کل لوگ پیدا کرتے ہیں کہ امام مالک راوی پر طعن کر رہے ہیں جبکہ امام مالک راوی سے زیادہ اس کا متن بھی دیکھ رہے ہیں
اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم نے خبر واحد مطلقا قبول نہیں کیا ہے تحقیق کی ہے یا رد کیا ہے مثلا بشیر عدوی یا ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی روایات کو ابن عباس رضی الله عنہ نے رد کیا ہے
محدثین اولین مثلا امام مالک نے بعض خبر واحد کو عقیدہ میں نہیں لیا ہے
محدثین متاخرین جن میں صحاح ستہ کے مولفین ہیں انہوں نے خبر واحد کو عمل و عقیدہ دونوں میں لیا ہے
[/EXPAND]
[فرقوں میں بٹنے والی روایت افترقت الیهود علی احدی و سبعین فرقه, دکتر یوسف قرضاوی کے نزدیک ضعیف ہے ]
جواب
صحیح ابن حبان نے ہے
خْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ سُرَيْجٍ النَّقَّالُ، أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «افْتَرَقَتِ الْيَهُودُ عَلَى إِحْدَى وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، وَافْتَرَقَتِ النَّصَارَى عَلَى اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً»
شعيب الأرنؤوط نے حسن کہا ہے البانی نے حسن صحیح کہا ہے – امام حاکم نے صحیح سمجھا ہے
ابن ماجہ میں شعیب نے اس کو صحيح لغيره بھی کہا ہے
احمد شاکر نے اس کو مسند احمد پر تحقیق میں إسناده صحيح، کہا ہے
منذری وغیرہ نے اس سے دلیل لی ہے
کتاب التيسير بشرح الجامع الصغير از المناوی میں
وَهَذَا من معجزاته لِأَنَّهُ إِخْبَار عَن غيب وَقع وَالْكل متفقون على إِثْبَات الصَّانِع وأنّ لَهُ الْكَمَال الْمُطلق (4 عَن أبي هُرَيْرَة) بأسانيد جَيِّدَة
اس کو سند جید کہا ہے اور روایت کو معجزہ قرار دیا
ابن تیمیہ نے اس کو صحیح کہا ہے
الحديث صحيح مشهور في السنن والمسانيد، كسنن أبي داود، والترمذيّ، والنسائيّ، وغيرهم، ولفظه: “افترقت اليهود على إحدى وسبعين فرقةً كلها في النار إلا واحدةً، وافترقت النصارى على اثنتين وسبعين فرقة كلها في النار إلا واحدةً، وستفترق هذه الأمة على ثلاث وسبعين فرقةً كلها في النار إلا واحدة”، وفي لفظ: “على ثلاث وسبعين ملّةً
[/EXPAND]
[علی رضی الله عنہ کے وضو سے متعلق روایت کو امام بخاری نے بدلا؟]
مسند أبي داود الطيالسي ج1، ص 125، رقم الحديث 141، تحقيق: محمد بن عبد المحسن التركي، الناشر: دار هجر میں ایک حدیث اس طرح ہے
لنک
http://shamela.ws/browse.php/book-1456#page-147
141 – حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَيْسَرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّزَّالَ بْنَ سَبْرَةَ، يَقُولُ: صَلَّى عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ الظُّهْرَ فِي الرَّحَبَةِ ثُمَّ جَلَسَ فِي حَوَائِجِ النَّاسِ حَتَّى حَضَرَتِ الْعَصْرُ ثُمَّ أُتِيَ بِكُوزٍ مِنْ مَاءٍ فَصَبَّ مِنْهُ كَفًّا فَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ وَمَسَحَ عَلَى رَأْسِهِ وَرِجْلَيْهِ ثُمَّ قَامَ فَشَرِبَ فَضْلَ الْمَاءِ وَهُوَ قَائِمٌ ثُمَّ قَالَ: إِنَّ نَاسًا يَكْرَهُونَ أَنْ يَشْرَبُوا وَهُمْ قِيَامٌ وَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ مِثْلَ الَّذِي فَعَلْتُ وَقَالَ: «هَذَا وُضُوءُ مَنْ لَمْ يُحْدِثْ»
اس حدیث میں الفاظ ہیں کہ
فَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ وَمَسَحَ عَلَى رَأْسِهِ وَرِجْلَيْهِ
لیکن دوسری طرف یہی حدیث صحیح بخاری میں بھی بیان ہوئی ہے
صحيح البخاري: كِتَابُ الأَشْرِبَةِ (بَابُ الشُّرْبِ قَائِمًا) صحیح بخاری: کتاب: مشروبات کے بیان میں (باب: کھڑے کھڑے پانی پینا)
5616 .
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ المَلِكِ بْنُ مَيْسَرَةَ، سَمِعْتُ النَّزَّالَ بْنَ سَبْرَةَ، يُحَدِّثُ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّهُ صَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ قَعَدَ فِي حَوَائِجِ النَّاسِ فِي رَحَبَةِ الكُوفَةِ، حَتَّى حَضَرَتْ صَلاَةُ العَصْرِ، ثُمَّ أُتِيَ بِمَاءٍ، فَشَرِبَ وَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ، وَذَكَرَ رَأْسَهُ وَرِجْلَيْهِ، ثُمَّ قَامَ «فَشَرِبَ فَضْلَهُ وَهُوَ قَائِمٌ» ثُمَّ قَالَ: إِنَّ نَاسًا يَكْرَهُونَ الشُّرْبَ قِيَامًا، «وَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَنَعَ مِثْلَ مَا صَنَعْتُ»
حکم : صحیح 5616 . ہم سے آدم نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالملک بن میسرہ نے بیان کیا ، انہوں نے نزال بن سبرہ سے سنا ، وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے تھے کہ انہوں نے ظہر کی نماز پڑھی پھر مسجد کوفہ کے صحن میں لوگوں کی ضرورتوں کے لیے بیٹھ گئے ۔ اس عرصہ میں عصر کی نماز کا وقت آگیا پھر ان کے پاس پانی لایا گیا ۔ انہوں نے پانی پیا اور اپنا چہرہ اور ہاتھ دھوئے ، ان کے سر اور پاؤں ( کے دھونے کا بھی ) ذکر کیا ۔ پھر انہوں نے کھڑے ہوکر وضو کا بچا ہو اپانی پیا ، اس کے بعد کہا کہ کچھ لوگ کھڑے ہوکر پانی پینے کو برا سمجھتے ہیں حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یو نہی کیا تھا جس طرح میں نے کیا ۔ وضو کا پانی کھڑے ہو کر پیا ۔
اس حدیث میں الفاظ ہیں کہ
وَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ، وَذَكَرَ رَأْسَهُ وَرِجْلَيْهِ
اب سند تقریباً ایک جیسی ہے لیکن الفاظ الگ الگ ہیں
صحیح بات کیا ہے
جواب
مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا بَهْزٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَيْسَرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّزَّالَ بْنَ سَبْرَةَ، قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ صَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ قَعَدَ لِحَوَائِجِ النَّاسِ، فَلَمَّا حَضَرَتِ الْعَصْرُ “أُتِيَ بِتَوْرٍ مِنْ مَاءٍ، فَأَخَذَ مِنْهُ كَفًّا فَمَسَحَ وَجْهَهُ وَذِرَاعَيْهِ وَرَأْسَهُ وَرِجْلَيْهِ، ثُمَّ أَخَذَ فَضْلَهُ فَشَرِبَ قَائِمًا”، وَقَالَ: “إِنَّ نَاسًا يَكْرَهُونَ هَذَا وَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُهُ”، وَهَذَا وُضُوءُ مَنْ لَمْ يُحْدِث
علی نے سر اور پیر کا مسح کیا
شعيب الأرنؤوط نے اس کو صحیح کہا ہے
یہ روایت صحیح ابن خزیمہ میں بھی ہے
============
ساتھ ہی علی نے کہا
هَذَا وُضُوءُ مَنْ لَمْ يُحْدِثْ
یہ وضو ہے جس کا کوئی ذکر نہیں کرتا
علی رضی الله عنہ کے نزدیک پیر کے مسح سے بھی وضو ہو جاتا ہے باقی اصحاب رسول اس کو دھونے کا ذکر کرتے ہیں
[/EXPAND]
[کیا صحیح بخاری میں حدیث گھڑنے والوں سے روایت لی گئی ہے ؟]
جواب
امام بخاری نے نعیم بن حماد سے مقرؤنا روایت لی ہے جن کے لئے الذھبی کتاب ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين میں لکھتے ہیں
قال الأزدي: قالوا: كان يضع الحديث، وقال أبو داود: عنده نحو من عشرين حديثاً ليس لها أصل
الأزدي: نے کہا یہ حدیث گھڑتے تھے اور ابو داود نے کہا انہوں نے ٢٠ احادیث بیان کیں جن کا اصل نہیں ہے
صحیح بخاری کی مشہور بندروں کے رجم والی روایت بھی انہی کی بیان کردہ ہے اور البانی نے خاص نعیم پر اس وجہ سے جرح کی ہے
[/EXPAND]
[وہ محدثین جو احادیث بیچتے تھے ان کی احادیث کیا رد کی جائیں]
سنن النسائي: کِتَابُ ذِكْرِ الْفِطْرَةِ (بَابُ الْمَاءِ الدَّائِمِ) سنن نسائی: کتاب: امور فطرت کا بیان (باب: کھڑے پانی کا حکم)
58
أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ عَنْ يَحْيَى بْنِ عَتِيقٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَبُولَنَّ أَحَدُكُمْ فِي الْمَاءِ الدَّائِمِ ثُمَّ يَغْتَسِلُ مِنْهُ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ كَانَ يَعْقُوبُ لَا يُحَدِّثُ بِهَذَا الْحَدِيثِ إِلَّا بِدِينَارٍ
حکم : صحیح 58
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی ٹھہرے پانی میں بالکل پیشاب نہ کرے (ہوسکتا ہے) کہ پھر بعد میں اس سے غسل کرے۔‘‘ ابو عبدالرحمٰن (امام نسائی) رحمہ اللہ نے فرمایا: (میرے استاذ) یعقوب بن ابراہیم یہ حدیث دینار لیے بغیر بیان نہیں کرتے تھے
جواب
روایت سند سے لی جاتی ہے – راوی با شرع کام کرتا ہے یا نہیں اس پر حدیث کے قبول و رد پر اختلاف ہے
احمد اور ابو حاتم کے نزدیک صحیح نہیں ہے لیکن نسائی نے لی ہے
————-
مثال
توریت اور انجیل اپ کو کس سے ملی؟ انہی لوگوں سے ملی ہے جو اس کی آیات کو بیچ دیتے تھے
لیکن قرآن میں توریت کا حوالہ ہے سوره مائدہ میں اس کے احکام کو نافذ کرنے کا حکم ہے
یعنی جو ثابت ہے اس کو لیا جائے گا پہنچانے والے چاہے یہودی ہوں یا نصرانی
[/EXPAND]
[اگر ایک محدث کسی روایت یا راوی پر خاموشی اختیار کرے تو اس کا کیا مطلب ہوتا ہے مثلا الذھبی]
جواب
ذھبی جس پر سکوت کریں وہ ان کے نزدیک ضعیف بھی ہو سکتی ہے اور اس پر ابہام بھی ہو سکتا ہے
تقریبا ٩٣١ روایات پر الذھبی نے سکوت کیا ہے
کتاب نصب الراية میں الزيلعي (المتوفى: 762هـ) لکھتے ہیں
وَأَخْرَجَهُ الْحَاكِمُ فِي “الْمُسْتَدْرَكِ” 5 – فِي تَفْسِيرِ آلِ عِمْرَانَ”، وَسَكَتَ عَنْهُ، وَلَمْ يَتَعَقَّبْهُ الذَّهَبِيُّ فِي “مُخْتَصَرِهِ” بِالِانْقِطَاعِ
حاکم نے اس روایت کی تخریج مستدرک میں تفسیر سوره ال عمران میں کی ہے اور اس پر سکوت کیا ہے اور الذھبی نے تعقب نہیں کیا ہے مختصرہ میں اس کے انقطاع کی وجہ سے
وَرَوَاهُ الْحَاكِمُ فِي “الْمُسْتَدْرَكِ”، وَقَالَ: حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ، وَلَمْ يَتَعَقَّبْهُ الذَّهَبِيُّ فِي “مُخْتَصَرِهِ” وَلَكِنَّهُ فِي “مِيزَانِهِ” أَعَلَّهُ بِمُحَمَّدِ بْنِ عَوْنٍ
حاکم نے مستدرک میں اس کو روایت کر کے کہا ہے حدیث صحیح الاسناد ہے اور انہوں نے تخریج نہیں کی ہے اور امام الذھبی نے اس کا تعقب نہیں کیا ہے مختصرہ میں لیکن میزان میں اس پر علت بیان کی ہے کہ اس میں محمد بن عون ہے
الزيلعي (المتوفى: 762هـ) امام الذھبی کے شاگرد تھے لہذا یہ اقوال قابل غور ہیں
یعنی الذھبی نے جن روایات پر سکوت کیا ہے دیگر کتب میں ان کو ضعیف بھی کہا ہے اور دروس میں شاگردوں کو مطلع کیا
کہا جاتا ہے تلخیص مستدرک الذھبی کی شروع کی کتب میں سے ہے اس وجہ سے ایسا ہوا ہے
[/EXPAND]
[ابرا ہیم علیہ السلام نے اَسی سا ل کی عمر میں تیشے سے ختنہ کیا۔]
تحقیق چاہیے
صحيح مسلم: كِتَابُ الْفَضَائِلِ (بَابُ مِنْ فَضَائِلِ إِبْرَاهِيمِ الْخَلِيلِ) صحیح مسلم: کتاب: أنبیاء کرامؑ کے فضائل کا بیان (باب: حضرت ابرا ہیم خلیل کے فضائل)
6141
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِزَامِيَّ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اخْتَتَنَ إِبْرَاهِيمُ النَّبِيُّ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَهُوَ ابْنُ ثَمَانِينَ سَنَةً بِالْقَدُومِ»
حکم : صحیح 6141
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : حضرت ابرا ہیم علیہ السلام نبی علیہ السلام نے اَسی سا ل کی عمر میں قدوم (مقام پر تیشے یا بسولے کے ذریعے )سے ختنہ کیا۔”
جواب
یہ روایت ادب المفرد میں بھی ہےأَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «اخْتَتَنَ إِبْرَاهِيمُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ثَمَانِينَ سَنَةً، وَاخْتَتَنَ بِالْقَدُومِ» قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: يَعْنِي مَوْضِعًا
امام بخاری کہتے ہیں یہ مقام ہےترجمہ ہو گاابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : حضرت ابراہیم علیہ السلام نبی علیہ السلام نے اَسی سا ل کی عمر میں قدوم میں ختنہ کیا
قدووم آج کل اسرائیل میں ہے
https://en.wikipedia.org/wiki/Kafr_Qaddum
قدوم عربی میں تیشہ کو بھی کہتے ہیں
http://www.almaany.com/en/dict/ar-en/home.php?lang_name=ar-en&servicategoryces=All&service=dict&word=قدوم
بائبل کے مطابق ٩٩ سال کی عمر میں ختنہ کرایا
http://biblehub.com/genesis/17-24.htm
یہ قول ابو ہریرہ سے کئی سندوں سے آیا ہےحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا مُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ القُرَشِيُّ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اخْتَتَنَ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ وَهُوَ ابْنُ ثَمَانِينَ سَنَةً بِالقَدُّومِ»، حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، وَقَالَ «بِالقَدُومِ مُخَفَّفَةً»،تَابَعَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ،تَابَعَهُ عَجْلاَنُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،وَرَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ
یہ روایت اسرائیلایات میں سے ہے اس کو چھوڑ دیا جائےانبیاء کا ختنہ کرانا ایک بنی اسرائیلی گھڑنت ہےکیونکہ ختنہ فطرت میں سے ہے جس پر انبیاء کا قدرتی عمل ہے ایسا نہیں کہ ٨٠ سال کی عمر میں خیال آئےابراہیم کا خاص ذکر کرتے ہیں کیونکہ وہ بابل سے تھے اور بنی اسرائیل والوں نے یہ کہانی گھڑی کہ دنیا میں ان کے سوا کوئی ختنہ نہیں کراتا تھا جبکہ انبیاء قدیم عربوں میں بھی آئے ہیں مثلا ھود اور صالح علیھما السلام
[/EXPAND]
الْخِلَافَةُ عَلَى مَنَهَاجِ النُّبُوَّةِ کا انتظار
سن ٩٣ ہجری کا دور ہے مدینہ پر عمر بن عبد العزیز گورنر ہیں – عمر کو امیر المومنین الولید کی طرف سے حکم ملتا ہے
امام بخاری تاریخ الکبیر میں بتاتے ہیں
قَالَ عَبد اللهِ بْن مُحَمد الجُعفي، حدَّثنا هِشام بْن يُوسُف، أَخبرنا مَعمَر، عَنْ أَخي الزُّهري، قَالَ: كتب الوليد إلى عُمر، وهو على المدينة، أن يضرب خُبَيب بْن عَبد اللهِ بْن الزُّبَير، فضربه أسواطا، فأقامه، فمات
اخی الزہری نے کہا الولید نے عمر بن عبد العزیز کو لکھا اور وہ اس کی طرف سے مدینہ کے عامل تھے کہ خبیب بن عبد الله بن زبیر کو کوڑے لگائے جائیں پس ان کو درے مارے گئے جس میں ان کی وفات ہوئی
شیعہ مورخ أحمد بن أبي يعقوب بن جعفر بن وهب کتاب تاریخ الیعقوبی کے مطابق
وكتب إلى عمر بن عبد العزيز أن يهدم مسجد رسول الله، ويدخل فيه المنازل التي حوله، ويدخل فيه حجرات أزواج النبي، وهدم الحجرات، وأدخل ذلك في المسجد. ولما بدأ بهدم الحجرات قام خبيب بن عبد الله بن الزبير إلى عمر والحجرات تهدم، فقال: نشدتك الله يا عمر أن تذهب باية من كتاب الله، يقول: إن الذين ينادونك من وراء الحجرات، فأمر به، فضرب مائة سوط، ونضح بالماء البارد، فمات، وكان يوماً بارداً. فكان عمر لما ولي الخلافة، وصار إلى ما صار إليه من الزهد، يقول: من لي بخبيب
اور الولید نے عمر بن عبد العزیز کو حکم دیا کہ مسجد النبی کو منہدم کیا جائے اور اس میں اس کے گرد کی منزلوں کو شامل کیا جائے اور حجرات ازواج النبی کو بھی پس حجرات کو گرایا گیا اور مسجد میں شامل کیا گیا پس خبیب ، عمر بن عبد العزیز کے خلاف کھڑے ہوئے اور حجرات گرائے جا رہے تھے انہوں نے کہا میں شہادت دیتا ہوں اے عمر کہ تو کتاب الله کی آیات سے ہٹ گیا – جس میں ہے إن الذين ينادونك من وراء الحجرات – پس عمر نے حکم دیا اس کو سو کوڑے مارو اور ٹھنڈا پانی ڈالو پس اس میں خبیب مر گئے پس جب عمر خلیفہ ہوا اور اس پر زہد کا اثر ہوا کہا میرے لیے خبیب کے حوالے سے کیا ہے
حجرات ازواج النبی صلی الله علیہ وسلم کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جاتا تو اچھا تھا لیکن مسجد النبي کو وسیع کرنا بھی ضروری تھا
اہل سنت کی کتب میں خبیب کو کوڑنے مارنے کی وجہ الگ ہے – ابن سعد طبقات میں لکھتے ہیں
وكان عالما فبلغ الوليد بن عبد الملك عنه أحاديث كرهها. فكتب إلى عامله على المدينة. أن يضربه مائة سوط. فضربه مائة سوط. وصب عليه قربة من ماء بارد بيتت بالليل. فمكث أياما ثم مات.
خبیب ایک عالم تھے پس الولید کو ان کی احادیث پہنچیں جن سے الولید کو کراہت ہوئی پس اپنے گورنر کو مدینہ میں حکم دیا کہ اس کو سو کوڑے لگاؤ پس سو کوڑے لگائے گئے اور ٹھنڈا پانی ڈالا گیا اور رات میں پس کچھ دن بعد یہ مر گئے
الذھبی تاریخ الاسلام میں لکھتے ہیں
قَالَ ابْنُ جَرِيرٍ الطَّبَرِيُّ: ضَرَبَهُ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ إِذْ كَانَ أَمِيرَ الْمَدِينَةِ بِأَمْرِ الْخَلِيفَةِ الْوَلِيدِ خَمْسِينَ سَوْطًا، وَصَبَّ عَلَى رَأْسِهِ قِرْبَةً فِي يومٍ بَارِدٍ، وَأَوْقَفَهُ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ يَوْمًا، فَمَاتَ رَحِمَهُ اللَّهُ.
ابن جریر الطبری نے کہا عمر بن عبد العزیز نے خبیب کو خلیفہ الولید کے حکم پر پچاس کوڑے مارے جب وہ مدینہ کے امیر تھے اور ان کے سر پر ٹھنڈا پانی ڈالا اور مسجد کے دروازے پر (عبرت نگاہی کے لئے) ڈال دیا
ابن سعد کے مطابق خبیب کو روایت بیان کرنے پر لگے جو الولید کے نزدیک صحیح نہیں تھیں اور عمر بن عبد العزیز نے بھی اس میں موافقت کی اور کوئی انکار نہ کیا
الذھبی تاریخ الاسلام میں لکھتے ہیں
قال الزبير بن بكار: أدركت أصحابنا يذكرون أَنَّهُ كَانَ يَعْلَمُ عِلْمًا كَثِيرًا لا يَعْرِفُونَ وَجْهَهُ وَلا مَذْهَبَهُ فِيهِ، يُشْبِهُ مَا يَدَّعِي النَّاسُ مِنْ عِلْمِ النُّجُومِ
الزبیر بن بکار نے کہا میں بہت سے اصحاب سے ملا وہ ذکر کرتے ہیں کہ یہ بہت عالم تھے جس کا منبع وہ اصحاب نہیں جانتے نہ ان کا اس پر مذھب تھا ، وہ اس علم نجوم سے ملتا جلتا تھا جس کی طرف لوگ بلاتے ہیں
جمهرة نسب قريش وأخبارها از الزبير بن بكار بن عبد الله القرشي الأسدي المكي (المتوفى: 256هـ) میں ہے
حدثنا الزبير قال، وحدثني عمي مصعب بن عبد الله قال: كان خبيب قد لقي كعب الأحبار، ولقي العلماء، وقرأ الكتب، وكان من النساك، وأدركت أصحابنا وغيرهم يذكرون أنه كان يعلم علماً كثيراً لا يعرفون وجهه ولا مذهبه فيه، يشبه ما يدعي الناس من علم النجوم.
الزبير نے کہا کہ میرے چچا مصعب بن عبد الله بن زبیر نے روایت کیا کہ خبیب ، کعب الاحبار سے ملا اور علماء سے ملاقات کی اور کتابیں پڑھیں اور وہ نساک (راہب صفت) تھے اور وہ ہمارے اصحاب اور دوسروں سے ملے ذکر کیا جاتا ہے کہ ان کو بہت علم تھا جس کے رخ (اصل) کا پتا نہیں تھا نہ ان کا مذھب تھا – یہ اس کے مشابہ تھا جس کی طرف لوگ بلاتے ہیں علم نجوم میں سے
الزبير بن بكار بن عبد الله القرشي ، خبیب کے رشتہ دار ہیں- صحاح ستہ میں سنن نسائی میں خبیب کی ایک روایت ہے
الزبیر بن بکار کے مطابق وَلَمَّا مَاتَ نَدِمَ عُمَرُ وَسُقِطَ فِي يَدِهِ وَاسْتَعْفَى مِنَ الْمَدِينَةِ جب خبیب کی وفات ہوئی عمر نادم ہوئے اور
گورنر مدینہ کے عہدے سے اسْتَعْفَى دے دیا
یعنی ان سزا کا مقصد سبق سکھانا تھا نہ کہ خبیب کا قتل
صحاح ستہ کے مولفین نے خبیب سے کوئی روایت نہیں لی صرف سنن نسائی میں ایک روایت پر ابن حجر کا کہنا ہے کہ وہ خبیب کی ہے لھذا تہذیب التہذیب میں ہے روى له النسائي حديثا واحدا في صبغ الثياب بالزعفران ولم يسمه في روايته ان سے النسائي نے ایک روایت لی کپڑوں کو زعفران سے رنگنے والی جس روایت میں ان کا نام نہ لیا
محدثین خبیب کو ثقہ کہنے کے باوجود ان کی کوئی روایت کیوں نہیں لکھتے یہ ایک معمہ ہے اغلبا ان کی روایات کا متن عجیب و غریب ہو گا جس کی بنا پر خلیفہ مسلمین نے ان کو کوڑے مارے اور عمر بن عبد العزیز نے بھی ساتھ دیا
امام احمد العلل میں کہتے ہیں عمر بن عبد العزیز کو الولید نے معزول کیا
وقال عبد الله: حدثني أبي. قال: حدثنا سفيان، قال: قال الماجشون، لما عزله الوليد -يعني عمر بن عبد العزيز
یعنی اسْتَعْفَى نہیں دیا بلکہ خود الولید نے ان کو معزول کیا
البتہ الولید نے ان کو امیر حج مقرر کیا
تاریخ دمشق کے مطابق
قال خليفة: سنة سبع وثمانين أقام الحجّ عمر بن عبد العزيز.
وقال: سنة تسع وثمانين أقام الحجّ عمر بن عبد العزيز.
وقال: سنة تسعين أقام الحجّ عمر بن عبد العزيز.
وقال: سنة اثنيتين وتسعين أقام الحجّ عمر بن عبد العزيز
سن ٨٧ سے سن ٩٢ میں چار مواقع پر سن ٨٧ ، ٨٩ ، ٩٠ ، ٩٢ ہجری میں امیر حج رہے
بنو امیہ کے ” ظلم” کے پیچھے کیا وجوہات کارفرما تھیں ان کی تحقیق غیر جانب انداز میں کرنے کی ضرورت ہے جو ابھی تک امت میں نہیں کی گئی ہے
مسند امام احمد میں مالك بن دينار کہتے ہیں
إنما الزاهد عمر بن عبد العزيز، الذي أتته الدنيا فتركها. «المسند» 5/249 (22495)
بے شک عمر بن عبد العزیز ایک زاہد تھے جن کو دنیا پہنچی لیکن انہوں نے اسکو ترک کیا
سیر الاعلام النبلاء از امام الذھبی کے مطابق
وَقَالَ أَبُو مُسْهِرٍ: وَلِيَ عُمَرُ المَدِيْنَةَ فِي إِمْرَةِ الوَلِيْدِ مِنْ سَنَةِ سِتٍّ وَثَمَانِيْنَ إِلَى سَنَةِ ثَلاَثٍ وَتِسْعِيْنَ.
ابو مسهر نے کہا عمر مدینہ کے والی الولید کے حکم پر ہوئے سن ٨٦ ہجری سے لے کر سن ٩٣ ہجری تک
امام الذھبی کہتے ہیں سن ٧٢ ہجری تک عمر بن عبد العزیز کے مدینہ میں کوئی آثار نہیں ملتے کیونکہ وہاں جابر بن عبد الله رضی الله عنہ تھے اگر یہ ٧٢ سے پہلے وہاں ہوتے تو ان سے روایت کرتے
لَيْسَ لَهُ آثَارٌ سَنَةَ ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِيْنَ بِالمَدِيْنَةِ، وَلاَ سَمَاعٌ مِنْ جَابِرِ بنِ عَبْدِ اللهِ، وَلَوْ كَانَ بِهَا وَهُوَ حَدَثٌ، لأَخَذَ عَنْ جَابِرٍ.
جابر بن عبد الله رضی الله عنہ سب سے آخر میں فوت ہوئے جن سے عمر بن عبد العزیز کا سماع نہیں ہے لیکن یار دوستوں نے ایک روایت بیان کی جو سیر از امام الذھبی میں ہی ہے
العَطَّافُ بنُ خَالِدٍ: حَدَّثَنَا زَيْدُ بنُ أَسْلَمَ، قَالَ لَنَا أَنَسٌ: مَا صَلَّيْتُ وَرَاءَ إِمَامٍ بَعْدَ رَسُوْلِ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- أَشْبَهَ صَلاَةً بِرَسُوْلِ اللهِ مِنْ إِمَامِكُم هَذَا -يَعْنِي: عُمَرَ بنَ عَبْدِ العَزِيْزِ-.
زید بن اسلم نے کہا انس رضی الله عنہ نے ہم سے کہا میں نے کسی کے پیچھے نماز نہ پڑھی جس کی نماز رسول الله صلی الله علیہ وسلم جیسی ہو سوائے اس امام کے یعنی عمر بن عبد العزیز
محدثین اس قول کے راوی زید بن اسلم کے لئے کہتے ہیں
قال علي بن الحسين بن الجنيد زيد بن أسلم عن جابر مرسل
زید بن اسلم کی روایت جابر سے مرسل ہے
لہذا جب جابر سے ہی سماع نہیں تو زید کا سماع انس بن مالک سے کیسے ہو سکتا ہے ؟ معلوم ہوا انس بن مالک رضی الله عنہ نے عمر بن عبد العزیز کے پیچھے کوئی نماز نہیں پڑھی
اس تمہید کے بعد اب ہم بات کرتے ہیں الْخِلَافَةُ عَلَى مَنَهَاجِ النُّبُوَّة والی روایت پر – کہا جاتا ہے کہ صحیح خلافت صرف تیس سال ہو گی اس کے بعد دور آئے گا جس میں ملک عضوض بھنبھوڑنے والی بادشاہت ہو گی – ہمارے روایت پسند علماء (مثلا امام احمد، امام ابن تیمیہ، ابن حجر اور ایک جم غفیر) اس کا آغاز معاویہ رضی الله عنہ کے دور سے کرتے ہیں اس طرح ان تمام اصحاب رسول بشمول حسن رضی الله عنہ کو مورد الزام دیتے ہیں جو امت پر ایک بادشاہ (یعنی معاویہ) کو مسلط کر گئے – ان علماء کے مطابق اس معاویہ رضی عنہ سے لے کر پورا دور بنو امیہ دور ظلم تھا
اس سلسلے میں امام احمد مسند میں ایک روایت پیش کرتے ہیں
عن النعمان بن بشير عن حذيفة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم تكون النبوة فيكم ما شاء الله أن تكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون خلافة على منهاج النبوة ما شاء الله أن تكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون ملكا عاضا فتكون ما شاء الله أن تكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون ملكا جبرية فيكون ما شاء الله أن يكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون خلافة على منهاج نبوة ثم سكت قال حبيب فلما قام عمر بن عبد العزيز كتبت إليه بهذا الحديث أذكره إياه وقلت أرجو أن تكون أمير المؤمنين بعد الملك العاض والجبرية فسر به وأعجبه يعني عمر بن عبد العزيز . رواه أحمد والبيهقي في دلائل النبوة .
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 1309 مکررات 0 متفق علیہ 0
نعمان بن بشیر حضرت حذیفہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تمہارے درمیان، نبوت موجود رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر اللہ نبی کو اپنے پاس بلا لینے کے ذریعہ نبوت کو اٹھا لے گا اس کے بعد نبوت کے طریقہ پر خلافت قائم ہوگی اور وہ اس وقت تک قائم رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ (یعنی تیس سال تک) پھر اللہ تعالیٰ خلافت کو بھی اٹھا لے گا اس کے بعد کاٹ کھانے والی بادشاہت کی حکومت قائم ہوگی وہ بادشاہت اس وقت تک قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس بادشاہت کو بھی اس دنیا سے اٹھا لے گا اس کے بعد قہر وتکبر اور زور زبردستی والی بادشاہت کی حکومت قائم ہوگی اور وہ اس وقت تک باقی رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس بادشاہت کو بھی اٹھا لے گا، اس کے بعد پھر نبوت کے طریقہ پر خلافت قائم ہوگی اتنا فرما کر آپ خاموش ہو گئے۔ حضرت حبیب بن سالم نے بیان کیا کہ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز مقرر ہوئے اور حکومت قائم کی تو میں نے یہ حدیث لکھ کر ان کے پاس بھیجی اور اپنے اس احساس کا اظہار کیا کہ مجھ کو امید ہے کہ آپ وہی امیرالمومنین یعنی خلیفہ ہیں جس کا ذکر اس حدیث میں کاٹ کھانے والی بادشاہت اور قہر وتکبر اور زور زبردستی والی بادشاہت کے بعد آیا ہے۔ عمر بن عبدالعزیز اس تشریح سے (حیرانی سے) خوش ہوئے
خلافة على منهاج نبوة کی اصطلاح زبان زد عام ہے لیکن امام بخاری اس روایت کے سخت مخالف ہیں اس روایت کا دارومدار ایک راوی حَبِيبُ بْنُ سَالِمٍ پر ہے
مسند احمد میں سند ہے
– حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنِي دَاوُدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنِي حَبِيبُ بْنُ سَالِمٍ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ
حَبِيبُ بْنُ سَالِمٍ کے لئے امام بخاری فیه نظر کہتے ہیں اور ان سے صحیح میں کوئی روایت نہیں لی
امام مسلم نے صرف ایک روایت لی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم جمعہ کے دن نماز میں سوره الغاشیہ پڑھتے تھے
کتاب من قال فيه البخاري فيه نظراز أبو ذر عبد القادر بن مصطفى بن عبد الرزاق المحمدي کے مطابق
حبيب بن سالم الأنصاري مولى النعمان بن بشير: قال البخاري: “فيه نظر”. وقال ابن عدي: ليس في متون أحاديثه حديث منكر بل اضطرب في أسانيد ما يروى عنه، ووثقه أبو حاتم وأبو داود، وأورده ابن حبّان في الثقات، وقال عنه ابن حجر: لا بأس به. قلت: له عند مسلم حديثٌ واحدٌ متابعةً، وروى له أحمد والدارمي والأربعة ما مجموعه أربعة أحاديث دون المكرر.
بخاری اس راوی (حبيب بن سالم الأنصاري مولى النعمان بن بشير) کو فیہ نظر کہتے ہیں ابن عدی کہتے ہیں حدیثوں میں توازن نہیں اس کی حدیث منکر ہے بلکہ اسناد میں اضطراب بھی کرتا ہے .ابو حاتم اور ابو داود ثقہ کہتے ہیں اور ابن حبان ثقات میں لائے ہیں اور اس کو ابن حجر کہتے ہیں کوئی برائی نہیں. میں ( أبو ذر عبد القادر) کہتا ہوں مسلم نے متابعت میں صرف ایک حدیث نقل کی ہے اور اس سے احمد ،دارمی اور چاروں سنن والوں نےبلا تکرار حدیث لی ہے
السیوطی کتاب تدريب الراوي میں وضاحت کرتے ہیں
تنبيهات الأول البخاري يطلق فيه نظر وسكتوا عنه فيمن تركوا حديثه
پہلی تنبیہ بخاری اگرکسی راوی پر فیه نظر کا اطلاق کریں اور سكتوا عنه کہیں تو مراد حدیث ترک کرنا ہے
کتاب التنكيل از الشيخ المعلمي کے مطابق
وكلمة فيه نظر معدودة من أشد الجرح في اصطلاح البخاري
اور کلمہ فیہ نظر بخاری کی شدید جرح کی چند اصطلاح میں سے ہے
اللكنوي کتاب الرفع والتكميل في الجرح والتعديل میں اس پر کہتے ہیں
فيه نظر: يدل على أنه متهم عنده ولا كذلك عند غيره
فیہ نظر دلالت کرتا ہے کہ راوی بخاری کے نزدیک متہم ہے اور دوسروں کے نزدیک ایسا نہیں
افسوس بخاری کی شدید جرح کو نظر انداز کردیا گیا
اس روایت کو صحیح ماننے والے عوام کے سامنے تقرر میں اس روایت کو پورا نہیں سناتے کہ راوی خود الْخِلَافَةُ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ کے دور کو بتاتا ہے کہ وہ گذر چکا ہے جو سن ٩٩ ہجری میں عمر بن عبد العزیز کا دور تھا
دوسری طرف آج الْخِلَافَةُ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ والی روایت قادیانیوں ، جہادی تنظیموں اور معتدل لیکن معجزات کی منتظر مذہبی تنظیموں کی نہایت پسندیدہ ہے – لیکن اگر غیر جانب داری کے ساتھ اوپر دی گئی صورت حال کو دیکھیں تو عقل سلیم رکھنے والوں جان سکتے ہیں کہ روایت صحیح نہیں ہے
حدیث قرع النعال پر ایک نظر ٢
قرع النعال والی روایت صحیحین میں جن سندوں سے آئی ہے وہ یہ ہیں- اس روایت کو دنیا میں صرف ایک صحابی انس بن مالک رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں ان سے دنیا میں صرف بصرہ ایک مشھور مدلس قتادہ روایت کرتے ہیں قتادہ بصری سے اس کو دو اور بصری روایت کرتے ہیں – جن میں ایک عبد الرحمان بن شیبان بصری ہیں اور دوسرے سعید بن ابی عروبہ بصری ہیں- امام مسلم صحیح میں اس کو شیبان کی سند سے لکھتے ہیں اور امام بخاری اس کو سعید بن ابی عروبہ المتوفی ١٥٦ ھ کی سند سے لکھتے ہیں
روایت میں عربی کی غلطی پر محققین کی آراء
قرع النعال کی روایت ان الفاظ سے نہیں آئی جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بولے تھے یہ روایت بالمعنی ہے اور اس میں دلیل یہ ہے کہ عربی کی غلطی ہے
کتاب الميسر في شرح مصابيح السنة میں فضل الله بن حسن التُّورِبِشْتِي (المتوفى: 661 هـ) حدیث قرع النعال پر لکھتے ہیں
لما أشرنا إليه من دقيق المعنى وفصيح الكلام، وهو الأحق والأجدر ببلاغة الرسول – صلى الله عليه وسلم – ولعل الاختلاف وقع في اللفظين من بعض من روى الحديث بالمعنى، فظن أنهما ينزلان في هذا الموضع من المعنى بمنزلة واحدة.
ومن هذا الوجه أنكر كثير من السلف رواية الحديث بالمعنى خشية أن يزل في الألفاظ المشتركة، فيذهب عن المعنى المراد جانبا.
قوله – صلى الله عليه وسلم – (لا دريت ولا تليت) هكذا يرويه المحدثون، والمحققون منهم على أنه غلط، والصواب مختلف فيه، فمنهم من قال: صوابه: لا أتليت- ساكنة التاء، دعا عليه بأن لا تتلى إبله. أي: لا يكون لها أولاد تتلوها، فهذا اللفظ على هذه الصيغة مستعمل في كلامهم، لا يكاد يخفى على الخبير باللغة العربية، فإن قيل: هذا الدعاء لا يناسب حال المقبور؛ قلنا: الوجه أن يصرف معناه إلى أنه مستعار في الدعاء عليه بأن لا يكون لعمله نماء وبركة. وقال بعضهم: أتلي: إذا أحال على غيره، وأتلى: إذا عقد الذمة والعهد لغيره. أي: ولا ضمنت وأحلت بحق على غيرك، لقوله: (سمعت الناس) ومنهم من قال: (لا ائتليت) على أنه افتعلت، من قولك: ما ألوت هذا، فكأنه يقول: لا استطعت، ومنهم من قال: (تليت) أصله: تلوت، فحول الواو ياء لتعاقب الياء في دريت.
قوله – صلى الله عليه وسلم – (يسمعها من يليه غير الثقلين) إنما صار الثقلان/ 19 ب عن سماع ذلك بمعزل لقيام التكليف ومكان الابتلاء، ولو سمعوا ذلك
جب ہم معنی کی گہرائی اور کلام کی فصاحت دیکھتے ہیں جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بلاغت کلام کے لئے احق ہو – تو دو الفاظ میں بالمعنی روایت کی وجہ سے اختلاف ہو جاتا ہے پس گمان ہوتا ہے کہ یہ دونوں معنی میں اپنے مقام سے گر گئے اور اسی وجہ سے سلف میں سے بہت سوں نے روایت بالمعنی کا انکار کیا اس خوف سے کہ مشترک الفاظ معنی میں ایک ہو جائیں جن کا معنی الگ ہوں – رسول الله کا قول ہے (لا دريت ولا تليت) اور ایسا محدثین نے روایت کیا ہے اور جو (عربی زبان کے) محقق ہیں ان کے نزدیک یہ غلط ہیں ، ٹھیک یا صحیح ہے لا أتليت- ساكنة التاء، جو پکارتا ہے اس پر نہیں پڑھا گیا یعنی اس کی اولاد نہیں تھی جو اس پر پڑھتی پس یہ لفظ ہے جو اس صیغہ پر ہے جو کلام میں استمعال ہوتا ہے اور یہ عربی زبان جاننے والے سے مخفی نہیں ہے پس اگر کہے یہ پکار ہے جو قبر والے کے لئے مناسب نہیں ہے تو ہم کہیں گے اگر معنی پلٹ جائیں کہ وہ اس پر استعارہ ہیں پکار کے لئے کیونکہ اس کے لئے عمل نہیں ہے جس میں بڑھنا اور برکت ہو – اور بعض نے کہا أتلي جب اس کو کسی اور سے تبدیل کر دیا جائے اور أتلي جب ذمی سے عقد کرے اور عھد دوسرے سے کرے یعنی اس میں کسی اور کا حق حلال یا شامل نہ کرے … اور کہا لا ائتليت کہ اس نے کیا اس قول سے ما ألوت هذا یعنی میں نے نہیں کیا اور ان میں ہے تليت اس کی اصل تلوت ہے پس واو کو تبدیل کیا ی سے
کتاب غریب الحدیث میں خطابی (المتوفى: 388 هـ) کہتے ہیں
في حديث سؤال القبر: “لا دريت ولا تليت” . هكذا يقول المحدثون، والصواب: ولا ائْتَلَيت، تقديره: افتعلت، أي لا استطعت, من قولك: ما ألوت هذا الأمر, ولا استطعت.
بغوی شرح السنہ میں لکھتے ہیں
قَوْلُهُ: «وَلا تَلَيْتَ»، قَالَ أَبُو سُلَيْمَانَ الْخَطَّابِيُّ: هَكَذَا يَقُولُ الْمُحَدِّثُونَ، وَهُوَ غَلَطٌ
خطابی نے کہا محدثین نے کہا ہے وَلا تَلَيْتَ جو غلط ہے
اور قبر میں سوال والی حدیث میں ہے “لا دريت ولا تليت” ایسا محدثین نے کہا ہے اور ٹھیک ہے ولا ائْتَلَيت
مجمع بحار الأنوار في غرائب التنزيل ولطائف الأخبار میں جمال الدين الهندي الفَتَّنِي الكجراتي (المتوفى: 986هـ) کہتے ہیں
ومنه حديث منكر ونكير: لا دريت ولا “ائتليت” أي ولا استطعت أن تدري يقال: ما ألوه أي ما استطيعه، وهو افتعلت منه، وعند المحدثين ولا تليت والصواب الأول
اور حدیث منکر نکیر میں ہے لا دريت ولا “ائتليت” … اور محدثین کے نزدیک ہے ولا تليت اور ٹھیک وہ ہے جو پہلا ہے
لسان العرب میں ابن منظور المتوفی ٧١١ کہتے ہیں
لَا دَرَيْتَ وَلَا ائْتَلَيْتَ
، وَالْمُحَدِّثُونَ يَرْوُونَهُ:
لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ
، وَالصَّوَابُ الأَول.
لَا دَرَيْتَ وَلَا ائْتَلَيْتَ اور یہ محدثین ہیں جو اس کو روایت کرتے ہیں لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ اور ٹھیک پہلا والا ہے
پروفیسر ڈاکٹر عبد الکبیر محسن کتاب توفیق الباری جلد سوم میں لکھتے ہیں
یعنی اس میں بصرہ کے محدثین نے غلطی کی اور روایت میں عربی کی فحش غلطی واقع ہوئی جو کلام نبوی کے لئے احق نہیں ہے کہ اس میں عربی کی غلطی ہو
عربی کی اس غلطی سے ظاہر ہوا کہ یہ روایت اس متن سے نہیں ملی جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہے
ڈاکٹر عثمانی کا کہنا تھا کہ اس میں یسمع مجھول کا صیغہ ہے اس پر امیر جماعت المسلمین مسعود احمد نے ذہن پرستی میں لکھا تھا
مسعود احمد کا یہ دعوی کہ یہ روایت تلفظا وہی ہے جو نبی صلی الله علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ادا ہوئے عربی نحویوں اور شارحین حدیث کے موقف کے خلاف ہے کہ یہ روایت عربی کی غلطی رکھتی ہے
رواة پر محدثین کی آراء
شَيبَان بن عبد الرحمن التَّمِيمِي بصره کے محدث ہیں – امام مسلم نے اس روایت کو ان کی سند سے نقل کیا ہے انکے لئے امام ابن ابی حاتم کتاب الجرح و التعدیل میں کہتے ہیں میرے باپ نے کہا
يكتب حديثه ولا يحتج به
اس کی حدیث لکھ لو دلیل مت لینا
اسی کتاب میں ابی حاتم اپنے الفاظ لا یحتج بہ کا مفہوم واضح کرتے ہیں
کتاب الجرح و تعدیل میں لکھتے ہیں
قال عبد الرحمن بن أبي حاتم: قلت لأبي: ما معنى (لا يحتج به) ؟ قال: كانوا قوما لا يحفظون، فيحدثون بما لا يحفظون، فيغلطون، ترى في أحاديثهم اضطرابا ما شئت “. انتهى.
فبين أبوحاتم في إجابته لابنه: السبب في أنه لا يحتج بحديثهم، وهو ضعف حفظهم، واضطراب حديثهم.
عبد الرحمن بن أبي حاتم کہتے ہیں میں نے اپنے باپ سے پوچھا کہ لا يحتج به کیا مطلب ہے انہوں نے کہا ایک قوم ہے رجال کی جو یاد نہیں رکھتے تھے اور حدیثیں بیان کرتے ہیں جو انکو یاد نہیں ہوتیں پس ان میں غلطیاں کرتے ہیں پس تم دیکھو گے کہ انکی حدیثوں میں اضطراب کثرت کے ساتھ پایا جاتا ہے
ابن ابی حاتم نے بالکل واضح کر دیا ہے کہ لا يحتج به کا کیا مطلب ہے
امام بخاری نے قرع النعال کو سعید بن ابی عروبہ کی سند سے لکھا ہے اور ان سے دو لوگ روایت کرتے ہیں
یزید بن زریع اور عبد الاعلی بن عبد الاعلی
مسئلہ یہ ہے کہ سعید بن ابی عروبہ آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوئے اور ان کی اس کیفیت پر محدثین میں اختلاف ہے کہ یہ کب واقع ہوا
امام البزار کہتے ہیں ١٣٣ ہجری میں ہوا تہذیب التہذیب از ابن حجر
قال أبو بكر البزار أنه ابتدأ به الاختلاط سنة “133” میں
یحیی ابن معین کہتے ہیں ١٤٢ ھ میں ہوا
یحیی بن سعید کہتے ہیں ١٤٥ ھ میں ہوا
يزيد بن زريع
ابن حجر تہذیب میں کہتے ہیں
وقال ابن السكن كان يزيد بن زريع يقول اختلط سعيد في الطاعون يعني سنة 132 وكان القطان ينكر ذلك ويقول إنما اختلط قبل الهزيمة قلت والجمع بين القولين ما قال أبو بكر البزار أنه ابتدأ به الاختلاط سنة “133” ولم يستحكم ولم يطبق به وأستمر على ذلك ثم استحكم به أخيرا
اور ابن السکن کہتے ہیں یزید بن زریع نے کہا سعید بن ابی عروبہ کو اختلاط طاعون پر سن ١٣٢ میں ہوا اور القطان نے اس کا انکار کیا اور کہا ہزیمت پر ہوا اور ان اقوال میں اس طرح جمع ممکن ہے جو البزار نے کہا کہ ان کے اختلاط کی ابتداء سن ١٣٣ میں ہوئی لیکن مستحکم نہ تھی اور اس میں استحکام ہوتا گیا یہاں تک کہ آخر میں مستحکم ہو گیا
ابن حجر کے مطابق سن ١٣٣ میں سعید کو اختلاط شروع ہو چکا تھا اور کلابازی کے مطابق سن ١٣٩ ھ میں ابن زریع نے سنا
الهداية والإرشاد في معرفة أهل الثقة والسداد از أبو نصر البخاري الكلاباذي (المتوفى: 398هـ) کے مطابق
وَقَالَ الْغلابِي نَا ابْن حَنْبَل قَالَ نَا يزِيد قَالَ مر بِنَا سعيد بن أبي عرُوبَة قبل سنة 39 فسمعنا مِنْهُ
الْغلابِي کہتے ہیں ابن حنبل نے کہا ہم سے یزید نے بیان کیا کہ سعید ہمارے پاس ١٣٩ ھ سے پہلے گزرے جب ہم نے سنا
امام احمد کے مطابق سعید سے یزید کا سماع صحیح ہے کیونکہ انہوں نے ١٤٥ ھ میں اختلاط والی رائے کو ترجیح دی ہے
عبد الأعلى بن عبد الأعلى السامي
امام بخاری نے اس روایت کو عبد الأعلى بن عبد الأعلى السامي کی سند سے بھی نقل کیا ہے اس میں بھی سماع پر محدثین کا اختلاف ہے
تهذيب التهذيب از ابن حجر کے مطابق
وقال ابن القطان حديث عبد الأعلى عنه مشتبه لا يدري هو قبل الاختلاط أو بعده
اور ابن القطان نے کہا عبد الأعلى بن عبد الأعلى السامي کی سعید بن ابی عروبہ سے روایت مشتبہ ہے – نہیں پتا کہ اختلاط سے قبل سنا یا بعد میں
عبد الأعلى بن عبد الأعلى السامي تمام محدثین کے نزدیک ثقہ بھی نہیں ہیں
وقال ابن سعد: “لم يكن بالقوي
ابن سعد کہتے ہیں یہ قوی نہیں تھے
سنن اربعہ اور مسند احمد میں یہ روایت عبد الوھاب بن عطا اور روح بن عبادہ کی سند سے ہے- یہ دونوں راوی بھی تمام محدثین کے نزدیک ثقہ نہیں مثلا عبد الوہاب ، امام بخاری کے نزدیک ضعیف ہیں اور روح بن عبادہ، امام النسائی اور ابی حاتم کے نزدیک ضعیف ہیں
روایت پر علماء کا عمل
محدثین کا ایک گروہ اس روایت سے دلیل نہیں لیتا جن میں امام احمد ہیں
امام احمد باوجود یہ کہ قر ع النعال والی روایت کو مسند میں روایت کرتے ہیں لیکن جوتیوں کی چاپ سننے والی روایت پر عمل نہیں کرتے اور قبرستان میں داخل ہونے سے پہلے جوتیاں اتارنے کا حکم کرتے تھے ظاہر ہے نہ جوتیاں ہوں گی نہ ان کی چاپ کا سوال اٹھے گا
کتاب مسائل أحمد بن حنبل رواية ابنه عبد الله کے مطابق
وَقَالَ أبي يخلع نَعْلَيْه فِي الْمَقَابِر
میرے باپ (احمد ) کہتے ہیں قبرستان میں نعل اتار دو
وَكَانَ يَأْمر بخلع النِّعَال فِي الْمَقَابِر
امام احمد حکم دیتےتھے کہ قبرستان میں نعل اتار دو
رَأَيْت ابي اذا اراد ان يدْخل الْمَقَابِر خلع نَعْلَيْه وَرُبمَا رَأَيْته يُرِيد ان يذهب الى الْجِنَازَة وَرُبمَا لبس خفيه اكثر ذَلِك وَينْزع نَعْلَيْه
میں نے اپنے باپ کو دیکھا کہ جب قبرستان میں داخل ہوتے تو جوتے اتار دیتے
امام احمد کے بیٹے کتاب العلل ومعرفة الرجال میں لکھتے ہیں
رَأَيْت أبي إِذا دخل الْمَقَابِر يخلع نَعْلَيْه فَقلت لَهُ إِلَى أَي شَيْء تذْهب فَقَالَ إِلَى حَدِيث بشير بن الخصاصية
میں نے اپنے باپ کو دیکھا کہ قبرستان میں اتے تو جوتے اتارتے پس میں نے کہا کس بنا پر اس کو کیا؟ انہوں نے کہا حدیث بشیر بن الخصاصية سے لیا
ابی داود کتاب میں لکھتے ہیں
رَأَيْتُ أَحْمَدَ إِذَا تَبِعَ جِنَازَةً فَقَرِبَ مِنَ الْمَقَابِرِ خَلَعَ نَعْلَيْهِ
میں نے احمد کو دیکھا جب وہ جنازہ کے پیچھے قبرستان کے پاس پہنچتے تو جوتے اتار دیتے
کتاب مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه کے مطابق امام احمد
فلما سلم خلع نعليه ودخل المقابر في طريق [عامية] 2 مشياً على القبور حتى بلغ القبر
پس جب (نماز جنازہ سے) سلام پھرنے کے بعد جوتے اتارتے اور قبرستان میں داخل ہوتے حتی کہ قبر تک پہنچتے
امام احمد کا عمل قرع النعال والی روایت پر نہیں بلکہ بشیر بن الخصاصية کی روایت پر تھا جو ابو داود نے بَابُ الْمَشْيِ فِي النَّعْلِ بَيْنَ الْقُبُورِ میں روایت کی ہے جس سے واضح ہے کہ ان کے نزدیک یہ قرع النعال سے زیادہ صحیح روایت تھی ورنہ اعلی کو چھوڑ کر ادنی پر عمل کیوں تھا
ابن قدامة المغني ج 2 ص ٤٢١ میں کہتے ہیں
قال الإمام أحمد رحمه الله إسناد حديث بشير بن الخصاصية جيد أَذْهَبُ إلَيْهِ، إلَّا مِنْ عِلَّةٍ
امام احمد کہتے ہیں بشير بن الخصاصية والی حدیث کی اسناد جید ہیں اسی پر مذھب ہے سوائے اس کے کہ کوئی علت ہو
اتنے سارے حوالے واضح کرتے ہیں کہ امام احمد نے سرے سے اس روایت پر عمل ہی نہیں کیا کہ جوتیاں پہن کر مردے کو دفناتے وقت چلے ہوں امام احمد جس قسم کے روایت پسند سخص تھے ان سے اس روایت پر عمل کرنا سرے سے بیان ہی نہیں ہوا کیوں ؟ اس کی وجہ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ بشير بن الخصاصية رضی الله عنہ کی روایت پر مذھب ہے
الغرض قارئین اپنے ذھن میں رکھیں کہ اس حدیث پر اجماع خود امام بخاری کے دور میں نہیں ملتا اس پر بعض محدثین خود عمل نہیں کرتے اس میں بعض محدثین کے نزدیک سماع فی اختلاط کا مسئلہ ہے خود امام بخاری نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا- روایت پر باب باندھنا تبصرہ نہیں ہے جس کی مثال ہے کہ ادب المفرد میں بھی امام بخاری باب باندھتے ہیں جبکہ اس کی تمام راویات صحیح نہیں ہیں
اس روایت کی بنیاد پر ارضی قبر میں سوال و جواب کا عقیدہ بنانے والے دیکھ سکتے ہیں اس میں کیا آراء ہیں
حدیث قرع النعال پر ایک نظر
صحیح بخاری کی حدیث ہے
عن أنس بن مالك رضي الله عنه، أنه حدثهم: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ” إن العبد إذا وضع في قبره وتولى عنه أصحابه، وإنه ليسمع قرع نعالهم أتاه ملكان فيقعدانه، فيقولان: ما كنت تقول في هذا الرجل لمحمد صلى الله عليه وسلم، فأما المؤمن، فيقول: أشهد أنه عبد الله ورسوله، فيقال له: انظر إلى مقعدك من النار قد أبدلك الله به مقعدا من الجنة، فيراهما جميعا – قال قتادة: وذكر لنا: أنه يفسح له في قبره، ثم رجع إلى حديث أنس – قال: وأما المنافق والكافر فيقال له: ما كنت تقول في هذا الرجل؟ فيقول: لا أدري كنت أقول ما يقول الناس، فيقال: لا دريت ولا تليت، ويضرب بمطارق من حديد ضربة، فيصيح صيحة يسمعها من يليه غير الثقلي
بخاری ح1374کتاب الجنائز باب ماجاء عذاب القبر
۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جب بندہ اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے اصحاب اس سے پلٹ چکے تو بلاشبہ وہ جوتوں کی آوز سنتا ہے کہ اس کے پاس دو فرشتے آ جاتے ہیں جو اسے اٹھا کر بٹھا دیتے ہیں اور کہتے ہیں: “تو اس شخص یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا اعتقاد رکھتا تھا؟” اب اگر وہ ایماندار ہے تو کہتا ہے کہ “میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں” پھر اس سے کہا جاتا ہے “تو دوزخ میں اپنا ٹھکانہ دیکھ لے، اللہ تعالیٰ نے اس کے بدل تجھ کو جنت میں ٹھکانا دیا۔” تو وہ ان دونوں کو ایک ساتھ دیکھے گا۔ قتادہ کہتے ہیں “اور ہم سے یہ بھی بیان کیا گیا کہ اس کی قبر کشادہ کر دی جاتی ہے” پھر انس کی حدیث بیان کرتے ہوئے کہا۔ اور اگر وہ منافق یا کافر ہے تو اس سے پوچھا جاتا ہے کہ تو اس شخص کے بارے میں کیا اعتقاد رکھتا ہے؟” تو وہ کہتا ہے “میں نہیں جانتا۔ میں تو وہی کچھ کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے۔” پھر اس سے کہا جائے گا کہ “نہ تو تُو خود سمجھا اور نہ ہی خود پڑھا۔” اور لوہے کے ہنٹروں سے اسے ایسی مار پڑے گی کہ وہ بلبلا اٹھے گا۔ اور اس کی یہ چیخ جن و انسان کے سوا تمام آس پاس کی چیزیں سنتی ہیں۔”
اس روایت پر عثمانی صاحب کی رائے ہے کہ یہ قبر برزخی مقام ہے جہاں بندہ فرشتوں کے جوتیوں کی چاپ سنتا ہے اور یہی رائے امام ابن حزم کی بھی ہے
اس پر عبد الرحمن کیلانی نے کتاب روح عذاب قبر اور سماع الموتی میں عثمانی صاحب کی تطبیق کو رد کرنے کو کوشش ناکام کی – عبد الرحمان کیلانی لکھتے ہیں
روایت میں نعالهم ہے جس میں “ھم” جمع کی ضمیر ہے۔ اگر اس سے مراد فرشتے ہیں تو مخالفین کی طرف سے کہا گیا کہ تثنیہ کی ضمیر “ھما” آنا چاہئے تھی۔اس کا جواب عثمانی صاحب یہ دیتے ہیں کہ “عربی زبان میں دونون طریقے رائج ہیں۔ تثنیہ کے لیے جمع کا استعمال عام ہے۔ جیسے قرآن کی آیت ہے:(قَالَ كَلَّا فَاذْهَبَا بِآيَاتِنَا إِنَّا مَعَكُمْ مُسْتَمِعُونَ ( سورۃ شعرا15 ))”فرمایا، تم دونوں جاؤ ہماری نشانیاں لے کر۔ ہم تمہارے ساتھ سب کچھ سنتے رہیں گے۔””(فاذهبا)” میں تثنیہ کی ضمیر ہے اور “(معكم)” میں جمع کی۔اس طرح بخاری کی حدیثِ خضر میں یہ الفاظ ہیں:(فمرت بهما سفينة فكلموهم ان يحملو هما)”پس گزری ان دونوں (موسی علیہ السلام و خضر علیہ السلام) کے پاس سے ایک کشتی، پس انہوں نے (جمع کا صیغہ) کشتی والوں سے بات کی کہ وہ ان دونوں کو کشتی میں سوار کر لیں۔” (بخاری عربی جلد 1 ص23، سطر 15،16)”(فكلموهم)” کے ساتھ ساتھ “(فكلماهم)” بھی بخاری کی روایت میں ہے مگر حاشیہ پر اور نسخہ کے طور پر تین میں “(كلموهم)” کو ہی ترجیح دی گئی ہے جو تثنیہ کے بجائے جمع کا صیغہ ہے۔”
عبد الرحمان کیلانی کا جواب :عربی زبان میں تثنیہ کے لیے جمع کا صیغہ عام نہیں۔ اگر عام ہوتا تو گرائمر کی کتابوں میں اس کا ضرور ذکر پایا جاتا۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ تثنیہ کی صورت میں جمع کا استعمال شاذ ہے اور اس کی بھی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔ مثلا:پہلی مثال میں “کم” کی ضمیر “مع” وجہ سے آتی ہے۔ گویا فرعون کی طرف جانے والے تو صرف دو تھے مگر سننے والوں میں اللہ بھی ساتھ شامل ہو گیا ور ضمیر جمع بدل گئی۔
دوسری مثال میں ایک مقام پر “(كلموهم)” اس لیے آیا ہے کہ موسی علیہ السلام کے ساتھ ان کا ایک ساتھی (یوشع بن نون) بھی تھا۔ جس کا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے۔ لیکن قابل ذکر چونکہ دو ہی ہستیاں تھیں یعنی موسی علیہ السلام اور خضر علیہ السلام، اس لیے اکثر تثنیہ کا ضمیر آیا اور ایک جگہ اشتباہ کی وجہ سے جمع کا ضمیر بھی آیا۔ اگرچہ اس کی حاشیہ میں تصحیح کر دی گئی۔
جواب در جواب
لیکن کہا گیا
تثنیہ کے لیے جمع کا صیغہ
|
ہونا چاہیے تھا
عربی زبان میں تثنیہ کے لیے تثنیہ کا صیغہ
|
قرآن سے مثال
|
معكم | معكما
ہونا چاہیے تھا فاذهبا بآياتنا إنا معكمآ مستمعون
|
فاذهبا بآياتنا إنا معكم مستمعون
(الشعراء:15)، پس تم دونوں جاؤ ہماری آیات کے ساتھ ہم تمہارے ساتھ سنیں گے |
يختصمون | فإذا هم فريقان يختصمان
|
فإذا هم فريقان يختصمون} (النمل:45)،
پس جب دو فریق لڑ پڑے
|
اقتتلوا | وإن طائفتان من المؤمنين اقتتلتا |
{وإن طائفتان من المؤمنين اقتتلوا} (الحجرات:9) اور جب مومنوں میں دو گروہ قتال کریں
|
تسوروا | وهل أتاك نبأ الخصم إذ تسورا المحراب
خصمان بغى بعضنا على بعض} (ص:22) قرآن میں ان کو دو جھگڑنے والے کہا گیا لہذا یھاں تثنیہ کا صغیہ ہونا چاہیے |
{وهل أتاك نبأ الخصم إذ تسوروا المحراب} (ص:21)
اور کیا تم کو خبر پہنچی جھگڑے گی جب وہ محراب میں چڑھ آئے |
ابن عاشور التحریر و التنویر میں لکھتے ہیں
وأكثر استعمال العرب وأفصحه في ذلك أن يعبروا بلفظ الجمع مضافاً إلى اسم المثنى لأن صيغة الجمع قد تطلق على الاثنين في الكلام فهما يتعاوران
اور عرب اکثر استمعال میں اور فصاحت کرتے ہوئے عبارت کرتے ہیں لفظ جمع سے جو مضاف ہوتا ہے اسم المثنی پر کیونکہ جمع کا صیغہ کا اطلاق تثنیہ پر کلام میں ہوتا ہے
مخالفین نے اعتراض کیا “ھم” کی ضمیر اگر “(ملكان)” فرشتوں سے متعلق ہے تو یہ پہلے کیسے آ گئی؟ اس کا جواب عثمانی صاحب یوں دیتے ہیں کہ:”عربی ادب کا یہ قاعدہ ہے کہ اگر بات بالکل صاف ہو اور سننے والے سے غلطی کرنے کا کوئی اندیشہ نہ ہو تو پہلے اسم کا ذکر نہیں کیا جاتا جیسے قرآن میں ہے:إِنَّا أَنْشَأْنَاهُنَّ إِنْشَاءً (35) فَجَعَلْنَاهُنَّ أَبْكَارًا(سورة الواقعه:35تا36)”ہم نے ان کو (ان کی بیویوں کو) ایک خاص اٹھان سے اٹھایا ہے اور ہم ان کو رکھیں گے کنواریاں۔”سورۃ یس میں:(وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ”اور ہم نے اس (پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم) کو شعر کی تعلیم نہیں دی۔”
عبد الرحمان کیلانی کا جواب نمبر 1: پہلی مثال اس لحاظ سے غلط ہے کہ “( إِنَّا أَنْشَأْنَاهُنَّ إِنْشَاءً)” سے چند آیات پہلے “(وَحُورٌ عِينٌ (22) كَأَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَكْنُونِ(سورة الواقعه 22تا23)” کا ذکر آ چکا ہے۔ بعد میں جنت کی چند صفات بیان کر کے “( وَحُورٌ عِين أَنْشَأْنَاهُنَّ ٌ)” کی ضمیر “( وَحُورٌ عِينٌ کی طرف پھیری گئی ہے جو درست ہے۔ لیکن عثمانی صاحب اسے خواہ مخواہ “( أَبْكَارًا)” کی طرف پھیرنا چاہتے ہیں۔ صرف اس لیے کہ یہ لفظ بعد میں آیا ہے۔
جواب نمبر 2: مثال تو ایسی درکار تھی کہ ضمیر پہلے آئے اور اس کا مرجع اسم بعد میں ہو۔ پہلی مثال میں آپ نے بعد میں مرجع “( أَبْكَارًا)” جو بتلایا ہے وہ ویسے ہی غلط ہے اور دوسری مثال میں ضمیر کا مرجع اسم مذکور ہی نہیں۔تو ڈاکٹر صاحب کا جواب درست کیسے سمجھا جائے؟
جواب در جواب : تفسیر ابن کثیر کے مطابق
قال الأخفش في قوله انا أنشأناهن إنشاء أضمرهن ولم يذكرهن قبل ذلك
الأخفش نے کہا اس قول میں انا أنشأناهن إنشاء ضمیر بیان کی ہے اور ان کا ذکر اس سے قبل نہیں کیا
یعنی یہ وہی بات ہے جو ڈاکٹر عثمانی نے کی ہے – الأخفش عربی زبان کے مشھور نحوی ہیں
اس بحث کو عود الضمير على متأخر کہا جاتا ہے
المقاصد النحوية في شرح شواهد شروح الألفية المشهور میں العيني (المتوفى 855 هـ) پر تعلیق میں دکتور علي محمد فاخر، دکتور أحمد محمد توفيق السوداني، دکتور عبد العزيز محمد فاخر لکھتے ہیں
قال ابن الناظم: “فلو كان ملتبسًا بضمير المفعول وجب عند أكثر البصريين تأخيره عن المفعول؛ نحو: زان الشجر نوره، وقوله تعالى: {وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ} [البقرة: 124] لأنه لو تأخر المفعول عاد الضمير على متأخر لفظًا ورتبة.
ابن ناظم کہتے ہیں پس اگر مفعول کی ضمیر ملتبس ہو تو اکثر بصریوں کے نزدیک مفعول کی تاخیر واجب ہے جیسے زان الشجر نوره سج گیا درخت اس کی روشنی سے . اور الله تعالی کا قول ہے اور جب مبتلا کیا ابراہیم کو تمہارے رب نے پس بے شک اگر مفعول کو متاخر کیا جائے تو اس کی ضمیر اسی لفظ اور مرتبہ کے ساتھ پلٹے گی
ایسا عربی میں کم ہوتا ہے لیکن یہ نا ممکنات میں سے نہیں المسوغأت (جو قاعدة میں ممکن ہوں اگرچہ کم ہوں) میں سے ہے جیسا کہ قرآن میں اسکی مثال بھی ہے اور عربی بلاغت کی کتب میں اس پر بحث بھی موجود ہے
سورة طه الآية 67 میں بھی اس کی مثال ہے
فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً مُوسَى
پس محسوس کیا اپنے نفس میں خوف موسی نے
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ – کہو وہ – الله احد ہے – ھو ضمیر ہے الله بعد میں ہے
فَإِنَّها لا تَعْمَى الْأَبْصارُ، وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ
پس بے شک یہ آنکھیں اندھی نہیں لیکن دل اندھے ہیں – جو دلوں میں ہیں
فَإِنَّها کی ضمیر پہلے ہے اور یہ الْقُلُوبُ کی طرف ہے جو بعد میں آیا ہے
إِنَّهُ لا يُفْلِحُ الْكَافِرُون
بے شک فلاح نہیں پاتے کفار
إِنَّهُ میں الھا کی ضمیر الْكَافِرُون کی طرف ہے جو بعد میں آیا ہے
یہ انداز قرآن میں ہے اور بصرہ کے نحویوں نے اس کو بیان کیا ہے واضح رہے کہ قرع النعال والی روایت میں بھی بصریوں کا تفرد ہے
کتاب عروس الأفراح في شرح تلخيص المفتاح از أحمد بن علي بن عبد الكافي، أبو حامد، بهاء الدين السبكي (المتوفى: 773 هـ) کے مطابق
وقوله: (هو أو هى زيد عالم) يريد ضمير الشأن مثل قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ (3) أصله الشأن الله أحد وقوله: أو هى زيد عالم صحيح على رأى البصريين، أما الكوفيون فعندهم أن تذكير هذا الضمير لازم، ووافقهم ابن مالك واستثنى ما إذا وليه مؤنث أو مذكر شبه به مؤنث أو فعل بعلامة تأنيث فيرجح تأنيثه باعتبار القصة على تذكيره باعتبار الشأن، والمقصود من ذلك أن يتمكن من ذهن السامع ما يعقب الضمير لأنه بالضمير يتهيأ له ويتشوق، ويقال فى معنى ذلك: الحاصل بعد الطلب أعز من المنساق بلا تعب، وسيأتى مثله فى باب التشبيه.
قاعدہ یہ ہے کہ ضمیر سے پہلے اس کا مفعول ہونا چاہیے لیکن قرآن میں ہی ضمیریں بعض اوقات پہلے آ جاتی ہیں اور اسم کا ذکر ہی نہیں ہوتا جیسے
إنا أنزلناه في ليلة القدر – ہم نے اس کو نازل کیا القدر کی رات کو — کس کو یھاں بیان ہی نہیں ہوا- آگے کا سیاق بتا رہا ہے قرآن کی بات ہے
عبس وتولى – منہ موڑا اور پلٹ گیا – کون ؟ بیان نہیں ہوا تفسیری روایات کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی نصیحت کی گئی
المستشرقين قرآن پر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ عربی ادب نہیں ہے – اس کا جواب علماء نحوی دیتے رہے ہیں کہ یہ قرآن کا خلاف قاعدہ انداز بلاغت ہے
الغرض ڈاکٹر عثمانی کی بات عربی نحویوں نے بیان کی ہے اور اس میں بصریوں کا انداز رہا ہے کہ وہ ضمیر کو مفعول یا اسم سے پہلے بیان کر دیتے ہیں جیسا کہ قرع النعال والی روایت میں ہے
اس طرح اس روایت کی قرآن سے تطبیق ممکن ہے جو عربی قوائد کے اندر رہتے ہوئے کی گئی ہے
خوارج سے متعلق روایات
مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں
عصر حاضر میں البانی ، شعیب الآرنوط ، احمد شاکر صاحبان نے احادیث کی تصحیح و تضعیف وغیرہ پر کافی محنت کی ہے جو سنن اور مسانید تک ہی محدود ہے- بطور مسلم تاریخ کے حوالے سے ہمارا منہج صحیح نہیں رہا – ہمارے مورخین نے ہر طرح کا رطب و یابس اپنی کتابوں میں نقل کر دیا اور محدثین نے روایات کو فضائل سمجھتے ہوئے یا علامات النبوه میں لکھ دیا – اس طرح انسانی شخصیات بشری جامے سے نکل کر غیر بشری تصورات میں تبدیل ہو گئیں – راویوں کی چھان پھٹک کافی بعد میں شروع ہوئی جب فتنے پورے جوبن پر آ گئے اور محدثین کہنے لگے کہ اسناد دین ہیں اور برملا اعتراف کرنے لگے کہ یہ تب احساس ہوا جب فتنوں نے سر اٹھا لیا- ابن سيرين بتاتے ہیں
كَانُوا لَا يسْأَلُون عَن الْإِسْنَاد فَلَمَّا وَقعت الْفِتْنَة قَالُوا سموا لنا رجالكم
ہم تو اسناد پوچھتے تک نہیں تھے پس جب فتنہ ہوا پھر ہم نے کہنا شروع کیا اپنے رجال کے نام لو
بحوالہ النكت على مقدمة ابن الصلاح از الزرکشی
قرن اول میں ہی جعلی حدیثیں گھڑی گئیں اور ان گھڑنے والوں کی نگاہ انتخاب علی اور ان کی اولاد پر تھی جن کو مافوق الفطرت سمجھا جا رہا تھا- علی کی موت کا انکار کیا جاتا ، علی کو بادلوں میں بتایا جاتا اور ان کی خلافت کو من جانب الله ثابت کرنے کے لئے علی ہی کے اصحاب عجیب و غریب اقوال لوگ بیان کر رہے تھے جن سے اصحاب رسول نا واقف تھے
اس قسم کا ایک واقعہ خوارج کے حوالے سے بیان کیا جاتا ہے کہ علی رضی الله عنہ نے جب خوارج سے قتال کیا تو انہوں نے اس کے بعد کہا ان کی لاشوں میں ایک پستان جیسے ہاتھ والا شخص تلاش کرو لہذا خارجیوں کی لاشیں کھنگالی گئیں اور ایک ایسا شخص مل گیا – اس پر علی نے کہا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ میری جنگ ہو گی اور ان کی نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک ایسا آدمی ہوگا جس کے بازو ہو گا ، لیکن ہاتھ نہ ہو گا، اس کے بازو پر پستان کی گھنڈی کی طرح ایک گھنڈی ہو گی، اس کے اوپر کچھ سفید بال ہوں گے – اس روایت کو بہت سے محدثین نے نقل کیا ہے (سوائے امام بخاری کے ) لیکن اس روایت کے مخالف روایت بھی ہے اسکو پیش نہیں کیا جاتا اور خود جو الفاظ ہم تک پہنچے ہیں وہ بھی دلیل رکھتے ہیں کہ یہ روایت صحیح مفھوم سے منقول نہیں ہوئی
اب ہم ان روایات کو دیکھتے ہیں
زید بن وھب الجھنی کی روایت
صحیح مسلم میں ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ بْنُ هَمَّامٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ، حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ الْجُهَنِيُّ، أَنَّهُ كَانَ فِي الْجَيْشِ الَّذِينَ كَانُوا مَعَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، الَّذِينَ سَارُوا إِلَى الْخَوَارِجِ، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «يَخْرُجُ قَوْمٌ مِنْ أُمَّتِي يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، لَيْسَ قِرَاءَتُكُمْ إِلَى قِرَاءَتِهِمْ بِشَيْءٍ، وَلَا صَلَاتُكُمْ إِلَى صَلَاتِهِمْ بِشَيْءٍ، وَلَا صِيَامُكُمْ إِلَى صِيَامِهِمْ بِشَيْءٍ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ يَحْسِبُونَ أَنَّهُ لَهُمْ وَهُوَ عَلَيْهِمْ، لَا تُجَاوِزُ صَلَاتُهُمْ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ»، لَوْ يَعْلَمُ الْجَيْشُ الَّذِينَ يُصِيبُونَهُمْ، مَا قُضِيَ لَهُمْ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَاتَّكَلُوا عَنِ الْعَمَلِ، «وَآيَةُ ذَلِكَ أَنَّ فِيهِمْ رَجُلًا لَهُ عَضُدٌ، وَلَيْسَ لَهُ ذِرَاعٌ، عَلَى رَأْسِ عَضُدِهِ مِثْلُ حَلَمَةِ الثَّدْيِ، عَلَيْهِ شَعَرَاتٌ بِيضٌ» فَتَذْهَبُونَ إِلَى مُعَاوِيَةَ وَأَهْلِ الشَّامِ وَتَتْرُكُونَ هَؤُلَاءِ يَخْلُفُونَكُمْ فِي ذَرَارِيِّكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ، وَاللهِ، إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يَكُونُوا هَؤُلَاءِ الْقَوْمَ، فَإِنَّهُمْ قَدْ سَفَكُوا الدَّمَ الْحَرَامَ، وَأَغَارُوا فِي سَرْحِ النَّاسِ، فَسِيرُوا عَلَى اسْمِ اللهِ. قَالَ سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ: فَنَزَّلَنِي زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ مَنْزِلًا، حَتَّى قَالَ: مَرَرْنَا عَلَى قَنْطَرَةٍ، فَلَمَّا الْتَقَيْنَا وَعَلَى الْخَوَارِجِ يَوْمَئِذٍ عَبْدُ اللهِ بْنُ وَهْبٍ الرَّاسِبِيُّ، فَقَالَ: لَهُمْ أَلْقُوا الرِّمَاحَ، وَسُلُّوا سُيُوفَكُمْ مِنْ جُفُونِهَا، فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يُنَاشِدُوكُمْ كَمَا نَاشَدُوكُمْ يَوْمَ حَرُورَاءَ، فَرَجَعُوا فَوَحَّشُوا بِرِمَاحِهِمْ، وَسَلُّوا السُّيُوفَ، وَشَجَرَهُمُ النَّاسُ بِرِمَاحِهِمْ، قَالَ: وَقُتِلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ، وَمَا أُصِيبَ مِنَ النَّاسِ يَوْمَئِذٍ إِلَّا رَجُلَانِ، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: الْتَمِسُوا فِيهِمُ الْمُخْدَجَ، فَالْتَمَسُوهُ فَلَمْ يَجِدُوهُ، فَقَامَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ بِنَفْسِهِ حَتَّى أَتَى نَاسًا قَدْ قُتِلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ، قَالَ: أَخِّرُوهُمْ، فَوَجَدُوهُ مِمَّا يَلِي الْأَرْضَ، فَكَبَّرَ، ثُمَّ قَالَ: صَدَقَ اللهُ، وَبَلَّغَ رَسُولُهُ، قَالَ: فَقَامَ إِلَيْهِ عَبِيدَةُ السَّلْمَانِيُّ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أَلِلَّهَ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، لَسَمِعْتَ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: إِي، وَاللهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، حَتَّى اسْتَحْلَفَهُ ثَلَاثًا، وَهُوَ يَحْلِفُ لَهُ “
عبد بن حمید، عبدالرزاق بن ہمام، عبدالملک بن ابی سلیمان، سلمہ بن کہیل، زید بن وہب جہنی سے روایت ہے کہ وہ اس لشکر میں شریک تھا جو سیدنا علی (رض) کی معیت میں خوارج سے جنگ کے لئے چلا۔ تو حضرت علی (رض) نے فرمایا اے لوگو! میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ ایک قوم میری امت سے نکلے گی وہ قرآن اس طرح پڑھیں گے کہ تم ان کی قرأت سے مقابلہ نہ کرسکو گے اور نہ تمہاری نماز ان کی نماز کا مقابلہ کرسکے گی اور نہ تمہارے روزے ان کے روزوں جیسے ہوں گے وہ قرآن پڑھتے ہوئے گمان کریں گے کہ وہ ان کے لئے مفید ہے حالانکہ وہ ان کے خلاف ہوگا اور ان کی نماز ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گی وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر نشانہ سے نکل جاتا ہے ان سے قتال کرنے والے لشکر کو اگر یہ معلوم ہوجائے جو نبی کریم کی زبانی ان کے لئے فیصلہ کیا گیا ہے اسی عمل پر بھروسہ کرلیں اور نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک آدمی کے بازو کی بانہہ نہ ہوگی اور اس کے بازو کی نوک عورت کے پستان کی طرح لوتھڑا ہوگی اس پر سفید بال ہونگے فرمایا تم معاویہ (رض) اور اہل شام سے مقابلہ کے لئے جاتے ہوئے ان کو چھوڑ جاتے ہو کہ یہ تمہارےپیچھے تمہاری اولادوں اور تمہارے اموال کو نقصان پہنچائیں۔ اللہ کی قسم میں امید کرتا ہوں کہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے حرام خون بہایا اور ان کے مویشی وغیرہ لوٹ لئے تم اور لوگوں کو چھوڑو اور ان کی طرف اللہ کے نام پر چلو سلمہ بن کہیل کہتے ہیں پھر مجھے زید بن و ہب نے ایک منزل کے متعلق بیان کیا۔ یہاں تک کہ ہم ایک پل سے گزرے اور جب ہمارا خوارج سے مقابلہ ہوا تو عبداللہ بن و ہب راسبی انکا سردار تھا۔ اس نے اپنے لشکر سے کہا تیر پھینک دو اور اپنی تلواریں میانوں سے کھینچ لو میں خوف کرتا ہوں کہ تمہارے ساتھ وہی معاملہ نہ ہو جو تمہارے ساتھ حروراء کے دن ہوا تھا تو وہ لوٹے اور انہوں نے نیزوں کو دور پھینک دیا اور تلواروں کو میان سے نکالا۔ لوگوں نے ان سے نیزوں کے ساتھ مقابلہ کیا اور یہ ایک دوسرے پر قتل کئے گئے ہم میں صرف دو آدمی کام آئے علی (رض) نے فرمایا ان میں سے ناقص ہاتھ والے کو تلاش کرو تلاش کرنے پر نہ ملا تو علی (رض) خود کھڑے ہوئے یہاں تک کہ ان لوگوں پر آئے جو ایک دوسرے پر قتل ہوچکے تھے آپ نے فرمایا ان کو ہٹاؤ پھر اس کو زمین کے ساتھ ملا ہوا پایا آپ نے اَللَّهُ أَکْبَرُ کہہ کر فرمایا اللہ نے سچ فرمایا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہنچایا تو پھر عبیدہ سلمانی نے کھڑے ہو کر کہا اے امیرالمومنین اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ آپ نے خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ حدیث سنی۔ تو علی (رض) نے فرمایا ہاں اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں مگر وہی یہاں تک عبیدہ نے تین بار قسم کا مطالبہ کیا اور آپ نے تین بار ہی اس کے لئے قسم کھائی۔
سنن ابوداود ۴۷۶۸ میں بھی ہے
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ الْجُهَنِيُّ، أَنَّهُ كَانَ فِي الْجَيْشِ الَّذِينَ كَانُوا مَعَ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلام الَّذِينَ سَارُوا إِلَى الْخَوَارِجِ، فَقَالَ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلام: أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < يَخْرُجُ قَوْمٌ مِنْ أُمَّتِي يَقْرَئُونَ الْقُرْآنَ لَيْسَتْ قِرَائَتُكُمْ إِلَى قِرَائَتِهِمْ شَيْئًا، وَلا صَلاتُكُمْ إِلَى صَلاتِهِمْ شَيْئًا، وَلاصِيَامُكُمْ إِلَى صِيَامِهِمْ شَيْئًا، يَقْرَئُونَ الْقُرْآنَ يَحْسِبُونَ أَنَّهُ لَهُمْ وَهُوَ عَلَيْهِمْ، لاتُجَاوِزُ صَلاتُهُمْ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الإِسْلامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، لَوْ يَعْلَمُ الْجَيْشُ الَّذِينَ يُصِيبُونَهُمْ مَا قُضِيَ لَهُمْ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِمْ ﷺ لَنَكَلُوا عَنِ الْعَمَلِ، وَآيَةُ ذَلِكَ أَنَّ فِيهِمْ رَجُلا لَهُ عَضُدٌ وَلَيْسَتْ لَهُ ذِرَاعٌ، عَلَى عَضُدِهِ مِثْلُ حَلَمَةِ الثَّدْيِ، عَلَيْهِ شَعَرَاتٌ بِيضٌ > أَفَتَذْهَبُونَ إِلَى مُعَاوِيَةَ وَأَهْلِ الشَّامِ وَتَتْرُكُونَ هَؤُلاءِ يَخْلُفُونَكُمْ فِي ذَرَارِيِّكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ؟ وَاللَّهِ إِنِّي لأَرْجُو أَنْ يَكُونُوا هَؤُلاءِ الْقَوْمَ؛ فَإِنَّهُمْ قَدْ سَفَكُوا الدَّمَ الْحَرَامَ، وَأَغَارُوا فِي سَرْحِ النَّاسِ، فَسِيرُوا عَلَى اسْمِ اللَّهِ، قَالَ سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ: فَنَزَّلَنِي زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ مَنْزِلا مَنْزِلا، حَتَّى مَرَّ بِنَا عَلَى قَنْطَرَةٍ، قَالَ: فَلَمَّا الْتَقَيْنَا وَعَلَى الْخَوَارِجِ عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ الرَّاسِبِيُّ فَقَالَ لَهُمْ: أَلْقُوا الرِّمَاحَ وَسُلُّوا السُّيُوفَ مِنْ جُفُونِهَا، فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يُنَاشِدُوكُمْ كَمَا نَاشَدُوكُمْ يَوْمَ حَرُورَاءَ، قَالَ: فَوَحَّشُوا بِرِمَاحِهِمْ، وَاسْتَلُّوا السُّيُوفَ، وَشَجَرَهُمُ النَّاسُ بِرِمَاحِهِمْ، قَالَ: وَقَتَلُوا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضِهِمْ، قَالَ: وَمَا أُصِيبَ مِنَ النَّاسِ يَوْمَئِذٍ إِلا رَجُلانِ، فَقَالَ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلامُ: الْتَمِسُوا فِيهِمُ الْمُخْدَجَ، فَلَمْ يَجِدُوا، قَالَ: فَقَامَ عَلِيٌّ رَضِي اللَّه عَنْه بِنَفْسِهِ، حَتَّى أَتَى نَاسًا قَدْ قُتِلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ، فَقَالَ: أَخْرِجُوهُمْ، فَوَجَدُوهُ مِمَّا يَلِي الأَرْضَ، فَكَبَّرَ، وَقَالَ: صَدَقَ اللَّهُ، وَبَلَّغَ رَسُولُهُ، فَقَامَ إِلَيْهِ عَبِيدَةُ السَّلْمَانِيُّ فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ! [وَ] اللَّهِ الَّذِي لا إِلَهَ إِلا هُوَ لَقَدْ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ؟ فَقَالَ: إِي وَاللَّهِ الَّذِي لاإِلَهَ إِلا هُوَ، حَتَّى اسْتَحْلَفَهُ ثَلاثًا، وَهُوَ يَحْلِفُ ۔
* تخريج: م/ الزکاۃ ۴۸ (۱۰۶۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۰۰)، وقد أخرجہ: حم (۱/۹۰) (صحیح)
زید بن وہب جہنی بیان کرتے ہیں کہ وہ اس فوج میں شامل تھے جو علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھی، اور جو خوارج کی طرف گئی تھی، علی نے کہا: اے لوگو! میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے:” میری امت میں کچھ لوگ ایسے نکلیں گے کہ وہ قر آن پڑھیں گے، تمہارا پڑھنا ان کے پڑھنے کے مقابلے کچھ نہ ہو گا ، نہ تمہاری صلاۃ ان کی صلاۃ کے مقابلے کچھ ہو گی، اور نہ ہی تمہارا صیام ان کے روزے کے مقابلے کچھ ہو گا، وہ قرآن پڑھیں گے ، اور سمجھیں گے کہ وہ ان کے لئے ( ثواب) ہے حالاں کہ وہ ان پر (عذاب ) ہو گا ، ان کی صلاۃ ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گی ، وہ اسلام سے نکل جائیں گے ، جس طرح تیرشکار سے نکل جاتا ہے ، اگر ان لوگوں کو جو انہیں قتل کر یں گے ، یہ معلوم ہو جائے کہ ان کے لئے ان کے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی زبا نی کس چیز کا فیصلہ کیا گیا ہے ، تو وہ ضر ور اسی عمل پر بھروسا کرلیں گے -ان کی نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک ایسا آدمی ہوگا جس کے بازو ہو گا ، لیکن ہاتھ نہ ہو گا، اس کے بازو پر پستان کی گھنڈی کی طرح ایک گھنڈی ہو گی، اس کے اوپر کچھ سفید بال ہوں گے”، تو کیا تم لوگ معاویہ اور ہل شام سے لڑ نے جائوگے ، اور انہیں اپنی اولاد اور اسباب پر چھو ڑدو گے (کہ وہ ان پر قبضہ کریں اور انہیں برباد کریں) اللہ کی قسم مجھے امید ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں ( جن کے بارے میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے ) اس لئے کہ انہوں نے ناحق خون بہایا ہے، لوگوں کی چراگاہوں پر شب خون مارا ہے ، چلو اللہ کے نام پر ۔ سلمہ بن کہیل کہتے ہیں : پھر زید بن وہب نے مجھے ایک ایک مقام بتا یا ( جہاں سے ہو کر وہ خارجیوں سے لڑ نے گئے تھے) یہاں تک کہ وہ ہمیں لے کر ایک پل سے گزرے۔ وہ کہتے ہیں: جب ہماری مڈ بھیڑ ہوئی تو خارجیوں کا سردا رعبداللہ بن وہب راسبی تھا اس نے ان سے کہا : نیزے پھینک دو اور تلواروں کو میان سے کھینچ لو، مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں وہ تم سے اسی طرح صلح کا مطالبہ نہ کریں جس طرح انہوں نے تم سے حروراء کے دن کیا تھا ، چنانچہ انہوں نے اپنے نیز ے پھینک دئیے ،تلواریں کھینچ لیں، لوگوں (مسلمانوں ) نے انہیں اپنے نیزوں سے روکا اور انہوں نے انہیں ایک پر ایک کر کے قتل کیا اور ( مسلمانوں میں سے) اس دن صرف دو آدمی شہید ہوئے ، علی رضی اللہ عنہ نے کہا: ان میں مخدج یعنی لنجے کو تلاش کرو، لیکن وہ نہ پاسکے، تو آپ خود اٹھے اور ان لوگوں کے پاس آئے جو ایک پر ایک کرکے مارے گئے تھے ، آپ نے کہا: انہیں نکالو ، تو انہوں نے اسے دیکھا کہ وہ سب سے نیچے زمین پر پڑا ہے ،آپ نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور بولے: اللہ نے سچ فرمایا اور اس کے رسول نے سا ری باتیں پہنچا دیں ۔ پھر عبیدہ سلمانی آپ کی طرف اٹھ کر آئے کہنے لگے: اے امیر المو منین ! قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں کیا آپ نے اسے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے ؟ وہ بولے : ہاں، اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں ، یہاں تک کہ انہوں نے انہیں تین بار قسم دلائی اور وہ (تینوں با ر) قسم کھاتے رہے
زيد بن وهب ایک بد مذھب شخص تھا – امام يعقوب الفسوي کے مطابق فی حديثه خلل كثير اسکی روایات میں خلل ہوتا ہے اور
یہ کہا کرتا إن خرج الدجال تبعه من كان يحب عثمان. اگر دجال نکلے تو اس کے ساتھ وہ لوگ ہوں گے جو عثمان (رضی الله عنہ) سے محبت کرتے ہوں – الذہبی، ذيل ديوان الضعفاء والمتروكين میں بتاتے ہیں کہ اسکی ایک حدیث عمر (رضی الله عنہ) کے حوالے سے کہ انہوں نے حذیفہ (رضی الله عنہ) سے کہا بالله أنا منافق الله کی قسم میں منافق ہوں- ان روایات کو امام يعقوب الفسوي رد کرتے اور اس کی روایات کا خلل کہتے – علی رضی الله عنہ پر بھی موصوف نے ہاتھ صاف کیا اور اس کو مسلم نے صحیح میں روایت 2071 بیان کر دیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے علی (رضی الله عنہ) کو ایک چادر دی اور وہ علی رضی الله عنہ نے اوڑھ لی اور رسول الله کے پاس گئے جس پر اپ صلی الله علیہ وسلم کے چہرے پر غضب آیا اور فرمایا کہ فَشَقَقْتُهَا بَيْنَ نِسَائِي اپنی عورتوں میں اس کو بانٹ دو- یعنی چادر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فاطمہ رضی الله عنہا یا علی کی لونڈیوں کے لئے دی تھی لیکن علی اس قدر معصوم تھے یہ سب سمجھ نہ سکے اور ایسی زنانہ چادر اوڑھ بھی لی- حیرت ہے کہ امام مسلم نے اس کو صحیح میں روایت بھی کر دیا
عبيدة السلماني المرادي الهمداني کی روایت
صحیح مسلم میں روایت ہے
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، وَحَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، – وَاللَّفْظُ لَهُمَا – قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: ذَكَرَ الْخَوَارِجَ فَقَالَ: «فِيهِمْ رَجُلٌ مُخْدَجُ الْيَدِ، أَوْ مُودَنُ الْيَدِ، أَوْ مَثْدُونُ الْيَدِ»، لَوْلَا أَنْ تَبْطَرُوا لَحَدَّثْتُكُمْ بِمَا وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ يَقْتُلُونَهُمْ، عَلَى لِسَانِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ قُلْتُ: آنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: إِي، وَرَبِّ الْكَعْبَةِ، إِي، وَرَبِّ الْكَعْبَةِ، إِي، وَرَبِّ الْكَعْبَةِ
عبيدة السلماني المرادي الهمداني سے اس روایت کو امام ابن سیرین روایت کرتے ہیں اور ان سے ایوب السختیانی جو مدلس ہیں اور عن سے روایت کرتے ہیں-
ابن سیرین اور ایوب دونوں بصری ہیں مدلس ہیں- ابن سيرين خود تو دوسروں سے کہتے رجال بتاؤ لیکن یہ خود تدلیس کر کے رجال چھپاتے ہیں
عُبَيْدِ اللهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، مَوْلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کی روایت
صحیح مسلم کی روایت ہے عُبَيْدِ اللهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ قبیلہ مضر کے تھے علی کے کاتب تھے بتاتے ہیں
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ، وَيُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَا: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، مَوْلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْحَرُورِيَّةَ لَمَّا خَرَجَتْ، وَهُوَ مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالُوا: لَا حُكْمَ إِلَّا لِلَّهِ، قَالَ عَلِيٌّ: كَلِمَةُ حَقٍّ أُرِيدَ بِهَا بَاطِلٌ، إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَفَ نَاسًا، إِنِّي لَأَعْرِفُ صِفَتَهُمْ فِي هَؤُلَاءِ، «يَقُولُونَ الْحَقَّ بِأَلْسِنَتِهِمْ لَا يَجُوزُ هَذَا، مِنْهُمْ، – وَأَشَارَ إِلَى حَلْقِهِ – مِنْ أَبْغَضِ خَلْقِ اللهِ إِلَيْهِ مِنْهُمْ أَسْوَدُ، إِحْدَى يَدَيْهِ طُبْيُ شَاةٍ أَوْ حَلَمَةُ ثَدْيٍ» فَلَمَّا قَتَلَهُمْ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: انْظُرُوا، فَنَظَرُوا فَلَمْ يَجِدُوا شَيْئًا، فَقَالَ: ارْجِعُوا فَوَاللهِ، مَا كَذَبْتُ وَلَا كُذِبْتُ، مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، ثُمَّ وَجَدُوهُ فِي خَرِبَةٍ، فَأَتَوْا بِهِ حَتَّى وَضَعُوهُ بَيْنَ يَدَيْهِ، قَالَ عُبَيْدُ اللهِ: وَأَنَا حَاضِرُ ذَلِكَ مِنْ أَمْرِهِمْ، وَقَوْلِ عَلِيٍّ فِيهِمْ “، زَادَ يُونُسُ فِي رِوَايَتِهِ: قَالَ بُكَيْرٌ: وَحَدَّثَنِي رَجُلٌ عَنِ ابْنِ حُنَيْنٍ أَنَّهُ، قَالَ: رَأَيْتُ ذَلِكَ الْأَسْوَدَ
عُبَيْدِ اللهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ روایت کرتے ہیں کہ الْحَرُورِيَّةَ نے جب خروج کیا اور وہ علی بن ابی طالب کے ساتھ تھے تو الْحَرُورِيَّةَ نے کہا حکم نہیں صرف الله کے لئے علی نے کہا یہ کلمہ حق ہے یہ اس سے باطل چاہتے ہیں بے شک رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان لوگوں کی صفت بیان کی تھی اور میں انکو انکی صفت سے جانتا ہوں یہ اپنی زبانوں پر حق کہتے ہیں جو ان کے لئے جائز نہیں ہے پھر حلق کی طرف اشارہ کیا اور ان میں سب سے برا جو اللہ نے خلق کیا ہے وہ ، وہ کالا ہے جس کا ہاتھ ایک بکری کے پستان جیسا ہے پس جب ان کا قتل ہوا تو علی نے کہا دیکھو پر نہ پایا پھر کہا واپس جاؤ دیکھو نہ میں نے جھوٹ کہا نہ انہوں نے دو یا تین دفعہ کہا پھر اس کو پایا اور ہاتھ میں اس کو دیکھا عبد الله نے کہا میں بھی ان میں تھا
اس روایت میں دو مختلف اقوال مبہم انداز میں مل گئے ہیں ایک یہ کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے صفت بتائی تھی کہ وہ جو بولیں گے وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں جائے گا – علی رضی الله عنہ نے اس حدیث نبوی کو الْحَرُورِيَّةَ پر منطبق کیا پھر علی نے کہا ان میں ایک کالا ہے جس کا ہاتھ پستان جیسا ہے پھر ڈھندوایا گیا کہ وہ مر گیا یا نہیں
اغلبا اصحاب علی کو اشتباہ ہوا اور انہوں نے حدیث نبوی اور قول علی کو ملا کر اس کو ایک مکمل حدیث بنوی بنا دیا
أَبُو الْوَضِيئِ کی روایت
سنن ابو داود ۴۷۶۹ کی روایت ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ جَمِيلِ بْنِ مُرَّةَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْوَضِيئِ قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلام: اطْلُبُوا الْمُخْدَجَ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، فَاسْتَخْرَجُوهُ مِنْ تَحْتِ الْقَتْلَى فِي طِينٍ، قَالَ أَبُو الْوَضِيئِ: فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ حَبَشِيٌّ عَلَيْهِ قُرَيْطِقٌ لَهُ إِحْدَى يَدَيْنِ مِثْلُ ثَدْيِ الْمَرْأَةِ عَلَيْهَا شُعَيْرَاتٌ مِثْلُ شُعَيْرَاتِ الَّتِي تَكُونُ عَلَى ذَنَبِ الْيَرْبُوعِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۵۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۳۹، ۱۴۰، ۱۴۱)
– ابو الوضی کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: مخدج ( لنجے ) کو تلاش کرو ، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی ، اس میں ہے: لوگوں نے اسے مٹی میں پڑے ہوئے مقتولین کے نیچے سے ڈھونڈ نکالا ،گویا میں اس کی طرف دیکھ رہا ہوں ، وہ ایک حبشی ہے چھوٹا سا کرتا پہنے ہوئے ہے، اس کا ایک ہاتھ عورت کے پستان کی طرح ہے ، جس پر ایسے چھوٹے چھوٹے بال ہیں ، جیسے جنگلی چوہے کی دم پر ہوتے ہیں
عباد بن نسيب کا حال مجھول ہے ابن خلفون نے اس کو ثقات میں شمار کیا ہے اس سے قبل کسی نے توثیق نہیں کی
أَبِي مَرْيَمَ کی روایت
سنن ابوداود کی روایت ہے
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ: إِنْ كَانَ ذَلِكَ الْمُخْدَجُ لَمَعَنَا يَوْمَئِذٍ فِي الْمَسْجِدِ، نُجَالِسُهُ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ، وَكَانَ فَقِيرًا، وَرَأَيْتُهُ مَعَ الْمَسَاكِينِ يَشْهَدُ طَعَامَ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلام مَعَ النَّاسِ وَقَدْ كَسَوْتُهُ بُرْنُسًا لِي.
قَالَ أَبُو مَرْيَمَ: وَكَانَ الْمُخْدَجُ يُسَمَّى نَافِعًا ذَا الثُّدَيَّةِ، وَكَانَ فِي يَدِهِ مِثْلُ ثَدْيِ الْمَرْأَةِ، عَلَى رَأْسِهِ حَلَمَةٌ مِثْلُ حَلَمَةِ الثَّدْيِ، عَلَيْهِ شُعَيْرَاتٌ مِثْلُ سِبَالَةِ السِّنَّوْرِ.
[قَالَ أَبو دَاود: وَهُوَ عِنْدَ النَّاسِ اسْمُهُ حَرْقُوسُ] ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۳۳) (ضعیف الإسناد)
أبي مريم قيس الثقفي المدائني کہتے ہیں کہ یہ مخدج( لنجا) مسجد میں اس دن ہمارے ساتھ تھا ہم اس کے ساتھ رات دن بیٹھا کرتے تھے ، وہ فقیر تھا، میں نے اسے دیکھا کہ وہ مسکینو ں کے ساتھ آکر علی رضی اللہ عنہ کے کھانے پر لوگوں کے ساتھ شریک ہوتا تھا اور میں نے اسے اپنا ایک کپڑا دیا تھا۔ ابو مریم کہتے ہیں : لوگ مخدج ( لنجے ) کو نا فع ذوالثدیہ ( پستان والا) کا نام دیتے تھے، اس کے ہاتھ میں عورت کے پستان کی طرح گوشت ابھرا ہوا تھا، اس کے سرے پر ایک گھنڈی تھی جیسے پستان میں ہوتی ہے اس پر بلی کی مونچھوں کی طرح چھوٹے چھوٹے بال تھے ۔ ابو داود کہتے ہیں:لوگوں کے نزدیک اس کا نام حرقوس تھا۔
البلاذري الأنساب میں کہتے ہیں نہروان میں حرقوص بن زهير کا قتل ہوا- لہذا پہلا خیال یہ اتا ہے کہ اس روایت میں حَرْقُوسُ غلط ہے کتابت کی غلطی ہے لیکن مزید تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ نام مسلسل حَرْقُوسُ لکھا گیا ہے دیگر کتب میں بھی – یہ کوئی فرضی کردار ہے یا حقیقی ہے یہ بھی نہیں پتا – مسند ابی یعلی کی روایت ہے
هَذَا حُرْقُوسٌ وَأُمُّهُ هَاهُنَا، قَالَ: فَأَرْسَلَ عَلِيٌّ إِلَى أُمِّهِ فَقَالَ لَهَا: مَنْ هَذَا؟ فَقَالَتْ: مَا أَدْرِي يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِلَّا أَنِّي كُنْتُ أَرْعَى غَنَمًا لِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ بِالرَّبَذَةِ، فَغَشِيَنِي شَيْءٌ كَهَيْئَةِ الظُّلَّةِ فَحَمَلْتُ مِنْهُ فَوَلَدْتُ هَذَا
لوگوں نے کہا یہ حُرْقُوسٌ ہے اس کی ماں ادھر کی ہے پس علی نے اس کی ماں کے پاس بھیجا اور پوچھا یہ حُرْقُوسٌ کیا شی ہے ؟ بولی مجھے نہیں پتا امیر الْمُؤْمِنِينَ سوائے اس کے کہ ایام جاہلیت میں میں زبده میں بکریاں چرا رہی تھی کہ غشی آ گئی اور ایک سایہ کی طرح چیز سے میں حآملہ ہوئی اور اس کو جنا
أَبِي بَرَكَةَ الصَّائِدِيِّ کی روایت
مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ہے
حَدَّثَنَا 37899 – يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ أَخْبَرَنَا أَبُو شَيْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي بَرَكَةَ الصَّائِدِيِّ، قَالَ: لَمَّا قَتَلَ عَلِيٌّ ذَا الثُّدَيَّةِ قَالَ سَعْدٌ: «لَقَدْ قَتَلَ ابْنُ أَبِي طَالِبٍ جَانَّ الرَّدْهَةِ»
جب اس پستان جیسے شخص کا قتل ہوا تو سعد نے کہا علی نے الرَّدْهَةِ کے جن کا قتل کر دیا
سند میں أَبِي بَرَكَةَ الصَّائِدِيِّ ہے جس کا حال مجھول ہے
الرَّيَّانُ بْنُ صَبِرة کی روایت
مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ہے
حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ زَرْبِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنِي الرَّيَّانُ بْنُ صَبِرَةَ الْحَنَفِيُّ، أَنَّهُ شَهِدَ يَوْمَ النَّهْرَوَانِ، قَالَ: وَكُنْتُ فِيمَنِ اسْتَخْرَجَ ذَا الثِّدْيَةِ فَبَشَّرَ بِهِ عَلِيٌّ قَبْلَ أَنْ يَنْتَهِيَ إِلَيْهِ قَالَ: فَانْتَهَى إِلَيْهِ وَهُوَ سَاجِدٌ فَرَحًا
علی خوشی سے سجدہ میں گر گئے
الرَّيَّانُ بْنُ صَبِرة مجهول ہے
بکر بن قرواش کی روایت
مصنف ابن ابی شیبہ اور مسند احمد کی روایت ہے
يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، قَالَ حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ أَبِي الْعَبَّاسِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَيْلِ، يُخْبِرُ عَنْ بَكْرِ بْنِ قِرْوَاشٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَكَرَ ذَا الثُّدَيَّةِ الَّذِي كَانَ مَعَ أَصْحَابِ النَّهْرِ فَقَالَ: شَيْطَانُ الرَّدْهَةِ يَحْتَدِرُهُ رَجُلٌ مِنْ بَجِيلَةَ يُقَالُ لَهُ الْأَشْهَبُ أَوِ ابْنُ الْأَشْهَبِ عَلَامَةُ سُوءٍ فِي قَوْمٍ ظَلَمَةٍ , فَقَالَ عَمَّارٌ الدُّهْنِيُّ حِينَ كَذَّبَ بِهِ جَاءَ رَجُلٌ مِنْ بَجِيلَةَ , قَالَ: وَأَرَاهُ قَالَ: مِنْ دُهْنٍ , يُقَالُ لَهُ الْأَشْهَبُ أَوِ ابْنُ الْأَشْهَبِ
بَكْرِ بْنِ قِرْوَاشٍ نے سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ سے روایت کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ذکر کیا پستان جیسے ہاتھ والے شخص کا جو اصحاب النہر میں سے تھا اور کہا یہ تو الرَّدْهَةِ (پہاڑ میں بسنے والا) شیطان ہے
اس روایت کا ذکر الكامل في ضعفاء الرجال از ابن عدي الجرجاني (المتوفى: 365هـ) میں ہے
حَدَّثَنَا الفضل بن عَبد اللَّه بْنِ سُلَيْمَانَ الأَنْطَاكِيُّ، حَدَّثَنا لُوَيْنٌ، حَدَّثَنا سُفيان، عَن الْعَلاءِ بْنِ أَبِي الْعَبَّاسِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَيْلِ يُحَدِّثُ عَنْ بَكْرِ بْنِ قِرْوَاشٍ عَنْ سَعْدٍ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسلَّمَ شَيْطَانُ الرَّدْهَةِ يَحْتَدِرُهُ رَجُلٌ مِنْ بُجَيْلَةَ، يُقَال لَهُ: الأَشْهَبُ، أَوِ ابْنُ الأشهب راعي الخيل أو راعي الْخَيْلِ عَلامَةٌ فِي قَوْمٍ ظَلَمَةٍ.
قَالَ الشَّيْخُ: وَهَذَا الْحَدِيثُ لا يُعْرَفُ إلاَّ بِبَكْرِ بْنِ قِرْوَاشٍ عَنْ سَعْدٍ وَبَكْرِ بْنِ قِرْوَاشٍ ما أقل ما له من الرِّوَايَاتِ.
ابن عدی کہتے ہیں اس حدیث کو صرف بکر بن قرواش روایت کرتا ہے اور … اس کی تھوڑی سی روایات ہیں
ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين میں الذهبي (المتوفى: 748هـ) لکھتے ہیں
بكر بن قرواش: عن سعد بن مالك، لا يعرف. کو میں نہیں جانتا
میزان از الذھبی میں ہے بكر بن قرواش. ..الحديث منكر، رواه عنه أبو الطفيل. قال ابن المديني: لم أسمع بذكره إلا في هذا الحديث – يعنى في ذكر ذي الثدية.
بكر بن قرواش اس کی حدیث منکر ہے جو اس سے ابو طفیل روایت کرتا ہے اور امام علی المدینی کہتے ہیں میں نے اس کے حوالے سے صرف یہی حدیث سنی ہے جس میں پستان جیسے ہاتھ کا ذکر ہے
الضَّحَّاكُ بْنُ مُزَاحِمٍ کی روایت
کتاب السنة از أبو بكر الخَلَّال البغدادي الحنبلي (المتوفى: 311هـ) کی روایت ہے
أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَدَقَةَ، قَالَ: ثَنَا الْعَبَّاسُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ: ثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ، وَالضَّحَّاكُ بْنُ مُزَاحِمٍ، كَذَا قَالَ، وَإِنَّمَا هُوَ الضَّحَّاكُ الْمِشْرَقِيُّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، الْحَدِيثُ طَوِيلٌ فِيهِ قِصَّةُ ذِي الثُّدَيَّةِ، وَقَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: أَشْهَدُ لَسَمِعْتُ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ، وَأَشْهَدُ أَنِّي كُنْتُ مَعَ عَلِيٍّ حِينَ قَتَلَهُمْ، وَالْتُمِسَ فِي الْقَتْلَى فَأُتِيَ بِهِ عَلَى النَّعْتِ الَّذِي نَعَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ “
الْأَوْزَاعِيُّ کہتے ہیں الزُّهْرِيُّ نے مجھ سے کہا کہ الضَّحَّاكُ بْنُ مُزَاحِم نے روایت کیا ، میں سمجھتا ہوں یہ الضَّحَّاكُ الْمِشْرَقِيّ ہے کہ ابو سعید الخدری نے روایت کیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ایک طویل قصہ پستان جیسے ہاتھ والے کا … ابو سعید نے کہا میں شہادت دیتا ہوں کہ اس کو میں نے رسول الله سے سنا اور میں شہادت دیتا ہوں کہ جب ان کا قتل ہوا میں ساتھ تھا اور اس صفت تک پہنچا جو رسول الله نے بیان کی
الضَّحَّاكُ بْنُ مُزَاحِمٍ کے لئے ابی حاتم کہتے ہیں لم يدرك أبا سعيد رضي الله عنهم
جامع التحصيل في أحكام المراسيل
اس کا مطلب ہے کہ الضَّحَّاكُ بْنُ مُزَاحِمٍ، صحابی ابو سعید سے بھی روایت کرتا ہے
امام الْأَوْزَاعِيُّ کی رائے میں بھی یہ الضَّحَّاكُ بْنُ مُزَاحِمٍ نہیں ہو سکتا ان کی رائے میں یہ اغلبا الضَّحَّاكُ الْمِشْرَقِيُّ، ہے لیکن اس میں ظاہر ہے کہ یہ صرف رائے ہے امام الزہری نے دوسرا نام لیا ہے
رَبِيعَةَ بْنِ نَاجِدٍ کی روایت
امام بخاری تاریخ الکبیر میں روایت پیش کرتے ہیں
قَالَ مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ: حدَّثنا الْحَكَمُ بْنُ عَبد الْمَلِكِ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ حَصِيرة، عَنْ أَبي صَادِقٍ، عَن رَبِيعَةَ بنِ ناجِدٍ، عَن عَلِيٍّ: دَعانِي النَّبيُّ صَلى اللَّهُ عَلَيه وسَلم، فَقال: يَا عَلِيٌّ، إِنَّ لَكَ مِن عِيسَى مَثَلاً، أَبغَضَتهُ اليَهُودُ حَتَّى بَهَتُوا أُمَّهُ، وأَحَبَّتهُ النَّصارَى حَتَّى أَنزَلُوهُ بِالمَنزِلِ الَّذِي لَيسَ به.
رَبِيعَةَ بْنِ نَاجِدٍ ، علی سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور کہا اے علی تمہاری مثال تو عیسیٰ جیسی ہے جن سے یہود نے بغض کیا یہاں تک کہ انکی ماں پر بہتان لگا دیا اور نصاری نے محبت کی اور اس منزل پر لے گیر جو ان کے لئے نہیں تھی
المعجم الأوسط از طبرانی کی روایت ہے
حَدَّثَنَا حَمْدَانُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْعَامِرِيُّ قَالَ: نا يَحْيَى بْنُ الْحَسَنِ بْنِ فُرَاتٍ الْقَزَّازُ قَالَ: نا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَسْعُودِيُّ قَالَ: نا الْحَارِثُ بْنُ حَصِيرَةَ، عَنْ أَبِي صَادِقٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ نَاجِدٍ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: «لَقَدْ عَلِمَ أُولُو الْعِلْمِ مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وعَائِشَةُ بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ فَسَلُوهَا، أَنَّ أَصْحَابَ الْأَسْوَدِ ذِي الثُّدَيَّةِ مَلْعُونُونَ عَلَى لِسَانِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ، وقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرَى»
رَبِيعَةَ بْنِ نَاجِدٍ ، علی سے روایت کرتا ہے یقینا ال محمد صلی الله علیہ وسلم کے اہل علم جانتے ہیں اور عائشہ سے پوچھ لو کہ اس کالے پستان جیسے ہاتھ والا کے اصحاب ان پر زبان نبی سے لعنت کی گئی ہے اور برباد ہوا وہ جس نے جھوٹ گھڑا
ان دونوں کی سند میں رَبِيعَةَ بْنِ نَاجِدٍ ہے
الذھبی میزان میں لکھتے ہیں
ربيعة بن ناجد [ق] عن علي، لا يكاد يعرف.
رَبِيعَةَ بْنِ نَاجِدٍ ، علی سے روایت کرتا ہے میں اس کو نہیں جانتا
یہ مجھول شخص روایت کرتا ہے اور خاص ام المومنین کا حوالہ دے رہا ہے کیونکہ اس واقعہ پر ام المومنین کو اعتراض تھا جس کی ان عراقیوں کو خبر تھی تفصیل نیچے ا رہی ہے
عبد الله بن شداد کی روایت
اب ہم جو روایت پیش کر رہے ہیں وہ مسند احمد کی ہے اور علی رضی الله عنہ کے خاص ساتھی عبد الله بن شداد بیان کرتے ہیں
پہلے محققین کی آراء پیش کی جاتی ہیں
احمد شاکر تعلیق میں کہتے ہیں
إسناده صحيح، عبيد الله بن عياض: تابعي ثقة. عبد الله بن شداد بن الهاد: تابعي ثقة أيضاً. “خثيم” بالتصغير وتقديم المثلثة، وفي ح “خيثم” وهو تصحيف. والحديث ذكره ابن كثير في تاريخه 7/ 279 – 280 وقال: “تفرد به أحمد، وإسناده صحيح، واختاره الضياء” يعني في المختارة. وهو في مجمع الزوائد 6/ 235 – 237 وقال: “رواه أبو يعلى ورواته ثقات”، وفي هذا خطأ يقيناً، فلا أدري أصحته “رواه أحمدل” أم “رواه أحمد وأبو يعلى”. قوله “لا تواضعوه كتاب الله” و”والله لنواضعنه كتاب الله” أصل المواضعة المراهنة، فهو يريد تحكيم كتاب الله في المجادلة، فكأنهم وضعوه حكماً بينهم. الثبت، بفتح الثاء والباء: الحجة والبينة. وانظر 626. وقد رواه الحاكم 2: 152 من طريق محمد بن كثير العبدي “حدثنا يحيى بن سليم وعبد الله بن واقد عن عبد الله بن عثمان بن خثيم عن عبد الله بن شداد بن الهاد. قال: قدمت على عائشة .. ” الخ، وصححه على شرط الشيخين ووافقه الذهبي، وانظر 1378 و 1379.
اس کی اسناد صحیح ہیں
شعيب الأرنؤوط مسند احمد کی تعلیق میں کہتے ہیں
إسناده حسن، يحمى بن سُليم- وهو الطائفي- مختلف فيه يتقاصر عن رتبة الصحيح له في البخاري حديث واحد، واحتجّ به مسلم والباقون، وباقي رجاله ثقات رجال الصحيح غيرَ عبيد الله بن عياض بن عمرو، فقد روى له البخاري في “الأدب المفرد” وهو ثقة، وقال ابنُ كثير في “تاريخه” 7/292 بعد أن ذكر من رواية أحمد: تَفَرد به أحمد وإسناده صحيح، واختاره الضياء (يعني في “المختارة”) .
وأخرجه أبو يعلى (474) عن إسحاق بنِ أبي إسرائيل، عن يحيى بنِ سُليم، بهذا الإسناد. وأورده الهيثمي في “المجمع” 6/235-237 ونسبه إلى أبي يعلى، ولم ينسبه إلى أحمد مع أنَّه من شرطه! وقال: رجاله ثقات.
اس کی اسناد حسن ہیں … ابن کثیر اس روایت کو صحیح کہتے ہیں اور اسی کو الضياء نے اختیار کیا ہے
یہ روایت مسند ابو یعلی میں بھی ہے جس پر محقق حسين سليم أسد کہتے ہیں : إسناده صحيح
اب مسند احمد کی یہ روایت ہے
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى الطَّبَّاعُ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عِيَاضِ بْنِ عَمْرٍو الْقَارِيِّ قَالَ: جَاءَ عَبْدُ اللهِ بْنُ شَدَّادٍ، فَدَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ، وَنَحْنُ عِنْدَهَا جُلُوسٌ، مَرْجِعَهُ مِنَ الْعِرَاقِ لَيَالِيَ قُتِلَ عَلِيٌّ، فَقَالَتْ لَهُ: يَا عَبْدَ اللهِ بْنَ شَدَّادٍ، هَلْ أَنْتَ صَادِقِي عَمَّا أَسْأَلُكَ عَنْهُ؟ تُحَدِّثُنِي عَنْ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ الَّذِينَ قَتَلَهُمْ عَلِيٌّ، قَالَ: وَمَا لِي لَا أَصْدُقُكِ؟ قَالَتْ: فَحَدِّثْنِي عَنْ قِصَّتِهِمْ قَالَ: فَإِنَّ عَلِيًّا لَمَّا كَاتَبَ مُعَاوِيَةَ، وَحَكَّمَ الْحَكَمَيْنِ (1) ، خَرَجَ عَلَيْهِ ثَمَانِيَةُ آلافٍ مِنْ قُرَّاءِ النَّاسِ، فَنَزَلُوا بِأَرْضٍ يُقَالُ لَهَا: حَرُورَاءُ، مِنْ جَانِبِ الْكُوفَةِ، وَإِنَّهُمْ عَتَبُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا: انْسَلَخْتَ مِنْ قَمِيصٍ أَلْبَسَكَهُ اللهُ تَعَالَى، وَاسْمٍ سَمَّاكَ اللهُ تَعَالَى بِهِ، ثُمَّ انْطَلَقْتَ فَحَكَّمْتَ فِي دِينِ اللهِ، فَلا حُكْمَ إِلا لِلَّهِ تَعَالَى. فَلَمَّا أَنْ بَلَغَ عَلِيًّا مَا عَتَبُوا عَلَيْهِ، وَفَارَقُوهُ عَلَيْهِ، فَأَمَرَ مُؤَذِّنًا فَأَذَّنَ: أَنْ لَا يَدْخُلَ عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ إِلا رَجُلٌ قَدْ حَمَلَ الْقُرْآنَ. فَلَمَّا أَنِ امْتَلاتِ الدَّارُ مِنْ قُرَّاءِ النَّاسِ، دَعَا بِمُصْحَفٍ إِمَامٍ عَظِيمٍ، فَوَضَعَهُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَجَعَلَ يَصُكُّهُ بِيَدِهِ وَيَقُولُ: أَيُّهَا الْمُصْحَفُ، حَدِّثِ النَّاسَ، فَنَادَاهُ النَّاسُ فَقَالُوا: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مَا تَسْأَلُ عَنْهُ إِنَّمَا هُوَ مِدَادٌ فِي وَرَقٍ، وَنَحْنُ نَتَكَلَّمُ بِمَا رُوِينَا مِنْهُ، فَمَاذَا تُرِيدُ؟ قَالَ: أَصْحَابُكُمْ هَؤُلاءِ الَّذِينَ خَرَجُوا، بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ كِتَابُ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، يَقُولُ اللهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ فِي امْرَأَةٍ وَرَجُلٍ: وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلاحًا يُوَفِّقِ اللهُ بَيْنَهُمَا فَأُمَّةُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْظَمُ دَمًا وَحُرْمَةً مِنَ امْرَأَةٍ وَرَجُلٍ وَنَقَمُوا عَلَيَّ أَنْ كَاتَبْتُ مُعَاوِيَةَ: كَتَبَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، وَقَدْ جَاءَنَا سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو، وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحُدَيْبِيَةِ، حِينَ صَالَحَ قَوْمَهُ قُرَيْشًا، فَكَتَبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ “. فَقَالَ: سُهَيْلٌ لَا تَكْتُبْ (1) : بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ. فَقَالَ: ” كَيْفَ نَكْتُبُ (2) ؟ ” فَقَالَ: اكْتُبْ بِاسْمِكَ اللهُمَّ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” فَاكْتُبْ: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ ” فَقَالَ: لَوْ أَعْلَمُ أَنَّكَ رَسُولُ اللهِ لَمْ أُخَالِفْكَ. فَكَتَبَ: هَذَا مَا صَالَحَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ قُرَيْشًا. يَقُولُ: اللهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ ” فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ عَلِيٌّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَبَّاسٍ، فَخَرَجْتُ مَعَهُ، حَتَّى إِذَا تَوَسَّطْنَا عَسْكَرَهُمْ، قَامَ ابْنُ الْكَوَّاءِ يَخْطُبُ النَّاسَ، فَقَالَ: يَا حَمَلَةَ الْقُرْآنِ، إِنَّ هَذَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبَّاسٍ، فَمَنْ لَمْ يَكُنْ يَعْرِفُهُ فَأَنَا أُعَرِّفُهُ مِنْ كِتَابِ اللهِ مَا يَعْرِفُهُ بِهِ، هَذَا مِمَّنْ نَزَلَ فِيهِ وَفِي قَوْمِهِ: قَوْمٌ خَصِمُونَ
فَرُدُّوهُ إِلَى صَاحِبِهِ، وَلا تُوَاضِعُوهُ كِتَابَ اللهِ. فَقَامَ خُطَبَاؤُهُمْ فَقَالُوا: وَاللهِ لَنُوَاضِعَنَّهُ كِتَابَ اللهِ، فَإِنْ جَاءَ بِحَقٍّ نَعْرِفُهُ لَنَتَّبِعَنَّهُ، وَإِنْ جَاءَ بِبَاطِلٍ لَنُبَكِّتَنَّهُ بِبَاطِلِهِ. فَوَاضَعُوا عَبْدَ اللهِ الْكِتَابَ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ، فَرَجَعَ مِنْهُمْ أَرْبَعَةُ آلافٍ كُلُّهُمْ تَائِبٌ، فِيهِمُ ابْنُ الْكَوَّاءِ، حَتَّى أَدْخَلَهُمْ عَلَى عَلِيٍّ الْكُوفَةَ، فَبَعَثَ عَلِيٌّ، إِلَى بَقِيَّتِهِمْ، فَقَالَ: قَدْ كَانَ مِنْ أَمْرِنَا وَأَمْرِ النَّاسِ مَا قَدْ رَأَيْتُمْ، فَقِفُوا حَيْثُ شِئْتُمْ، حَتَّى تَجْتَمِعَ أُمَّةُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَنْ لَا تَسْفِكُوا دَمًا حَرَامًا، أَوْ تَقْطَعُوا سَبِيلًا، أَوْ تَظْلِمُوا ذِمَّةً، فَإِنَّكُمْ إِنْ فَعَلْتُمْ فَقَدْ نَبَذْنَا إِلَيْكُمِ الْحَرْبَ عَلَى سَوَاءٍ، إِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ. فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ: يَا ابْنَ شَدَّادٍ، فَقَدْ قَتَلَهُمْ فَقَالَ: وَاللهِ مَا بَعَثَ إِلَيْهِمْ حَتَّى قَطَعُوا السَّبِيلَ، وَسَفَكُوا الدَّمَ، وَاسْتَحَلُّوا أَهْلَ الذِّمَّةِ. فَقَالَتْ: آَللَّهُ؟ قَالَ: آللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَقَدْ كَانَ. قَالَتْ: فَمَا شَيْءٌ بَلَغَنِي عَنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ يَتَحَدَّثُونَهُ؟ يَقُولُونَ: ذُو الثُّدَيِّ، وَذُو الثُّدَيِّ. قَالَ: قَدْ رَأَيْتُهُ، وَقُمْتُ مَعَ عَلِيٍّ عَلَيْهِ فِي الْقَتْلَى، فَدَعَا النَّاسَ فَقَالَ: أَتَعْرِفُونَ هَذَا؟ فَمَا أَكْثَرَ مَنْ جَاءَ يَقُولُ: قَدْ رَأَيْتُهُ فِي مَسْجِدِ بَنِي فُلَانٍ يُصَلِّي، وَرَأَيْتُهُ فِي مَسْجِدِ بَنِي فُلَانٍ يُصَلِّي، وَلَمْ يَأْتُوا فِيهِ بِثَبَتٍ يُعْرَفُ إِلَّا ذَلِكَ. قَالَتْ: فَمَا قَوْلُ عَلِيٍّ حِينَ قَامَ عَلَيْهِ كَمَا يَزْعُمُ أَهْلُ الْعِرَاقِ؟ قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: صَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ قَالَتْ: هَلْ سَمِعْتَ مِنْهُ أَنَّهُ قَالَ غَيْرَ ذَلِكَ؟ قَالَ: اللهُمَّ لَا. قَالَتْ: أَجَلْ، صَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ، يَرْحَمُ اللهُ عَلِيًّا إِنَّهُ كَانَ مِنْ كَلَامِهِ لَا يَرَى شَيْئًا يُعْجِبُهُ إِلَّا قَالَ: صَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ، فَيَذْهَبُ أَهْلُ الْعِرَاقِ يَكْذِبُونَ عَلَيْهِ، وَيَزِيدُونَ عَلَيْهِ فِي الْحَدِيثِ
عِيَاضِ بْنِ عَمْرٍو کہتے ہیں عبد الله بن شداد عائشہ رضی الله عنہا کے پاس آئے اور ہم ان کے پاس بیٹھے تھے وہ عراق سے لوٹے تھے جس رات علی کا قتل ہوا پس عائشہ رضی الله عنہا نے عبد الله بن شداد سے کہا کیا تم سچ سچ بتاؤ گے جو میں تم سے پوچھوں؟ مجھے ان کے بارے میں بتاؤ جنہوں نے علی کو قتل کیا عبد الله نے کہا اور میں سچ کیوں نہ بولوں – ام المومنین نے کہا ان کا قصہ بیان کرو عبد الله نے کہا جب علی نے معاویہ کے لئے (صلح نامہ) لکھ دیا اور حکم الحکمیں ہوا تو علی کی اطاعت سے ٨٠ ہزار قاری نکل پڑے اور ایک مقام جس کو حَرُورَاءُ کہا جاتا ہے کوفہ کی جانب اس میں انہوں نے پڑاؤ کیا
اور انہوں نے علی پر عتاب نکالا اور کہا اس کی قمیص میں سے خلافت جو الله نے دی نکل گئی اور وہ نام جو الله نے اسکو دیا پھر یہ (علی) چلا اور دین الله میں خود حکم دینے لگا اور جبکہ حکم نہیں سوائے الله کے لئے- پس جب یہ باتیں جن پر ان کا عتاب ہوا علی تک پہنچیں اور وہ الگ ہوئے تو علی نے حکم دیا ان کو واپس انے کا لیکن وہ نہیں پلٹے – اور کہا ہم امیر المومنین کی طرف داخل نہیں ہوں گے سوائے ایک شخص قرآن اٹھائے ہو … پس مصحف آگے رکھا گیا پس علی نے اس کو اپنے ہاتھوں میں تھاما اور کہا اے مصحف! لوگوں کو بتاؤ پس لوگوں کو پکارا گیا اوراصحاب علی نے کہا اے امیر المومنین اپ مصحف سے کیسے کلام کر رہے ہیں؟ یہ تو کاغذ پر سیاہی ہے اور ہم اپ سے بات کر رہے جو اس میں روایت ہے پس اپ کیا چاہتے ہیں؟ علی نے کہا تمہارے یہ اصحاب جنہوں نے خروج کیا ہے ان کے اور میرے بیچ کتاب الله ہے – الله اس کتاب میں کہتا ہے ایک مرد و عورت کے لئے
وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلاحًا يُوَفِّقِ اللهُ بَيْنَهُمَا
پس اے امت محمد خون و حرمت ہے مرد اور عورت کے لئے اور تم مجھے الزام دیتے ہو کہ میں نے معاویہ سے (صلح نامہ) لکھ لیا – علی بن ابی طالب نے کہا اور ہمارے پاس سہیل (مشرکین مکہ کی طرف سے) آیا اور ہم رسول الله کے ساتھ حدیبیہ میں تھے … پس رسول الله نے لکھا بسم الله الرحمان الرحیم اس پر سہیل نے کہا یہ مت لکھو پوچھا پھر کیا لکھیں بولا لکھو باسم اللھم پس رسول الله نے کہا لکھو محمد رسول الله انہوں نے کہا اگر ہم تم کو رسول الله جانتے تو مخالفت نہ کرتے پس لکھا یہ وہ صلح ہے جو محمد بن عبد الله قریشی نے کی- الله تعالی نے کتاب میں کہا
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ
پس علی نے ان لوگوں پر عبد الله ابن عباس کو بھیجا- اور جو ان کو جانتا نہ ہو، تو میں ان کو جانتا ہوں کتاب الله سے جو یہ نہیں جانتے یہ اس میں نازل ہوا ہے یہ قوم ہے ایک جھگڑالو قوم ہے – پس علی نے اپنے اصحاب کو خوارج پر بھیجا (انہوں نے کہا) کیا تم کتاب الله کو پیش نہیں رکھتے؟ خوارج نے کہا ہم رکھتے ہیں پس اگر حق ہو تو ہم اس کو پہچان لیں گے اور اگر باطل ہوا تو اس کو بھی – پس عبد الله بن عباس نے کتاب الله تین دن تک آگے رکھی پھر وہ ٤ ہزار کے ساتھ واپس لوٹے جو تائب ہوئے ان میں ابْنُ الْكَوَّاءِ تھا حتی کہ یہ علی کے پاس کوفہ میں داخل ہوئے
پس علی نے باقی پر لوگ بھیجے اور ان سے کہا کہ ہمارا تمہارا معاملہ امت محمد کے سامنے ہے لہذا جو چاہے کرو لیکن خون نہ بہانا نہ راستہ روکنا نہ ذمی پر ظلم کرنا اور اگر یہ کیا تو ہماری تم سے جنگ شروع ہو جائے گی الله خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا
پس عائشہ رضی الله عنہا نے کہا
اے ابن شداد تو کیا انہوں نے قتل کیا؟ کہا و الله انہوں نے نہیں بھیجا کسی کو سوائے اس کے کہ خوارج نے رستہ روکا اور خون گرایا اور اہل ذمہ کو نقصان دیا پس ام المومنین نے فرمایا الله ! آللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ یہ ہوا
اور وہ کیا چیز ہے جو اہل عراق کی مجھ تک پہنچی جس کی یہ روایت کر رہے ہیں؟
کہتے ہیں پستان والا تھا
ابن شداد نے کہا میں نے اسکو دیکھا اور علی کے ساتھ اس کے قتل گاہ پر بھی کھڑا ہوا اور لوگوں کو پکارا اور پوچھا تم اس کو پہچانتے ہو؟ تو اکثر نے کہا ہاں ہم نے اسکو مسجد فلاں میں دیکھا تھا نماز پڑھتے ہوئے اور اس مسجد بنی فلاں میں نماز پڑھتے ہوئے اور کوئی نہیں تھا جو اثبات سے اس کو جانتا ہو سوائے اس کے
ام المومنین نے فرمایا اور علی نے کیا کہا جب وہ اس پر کھڑے ہوئے جیسا کہ اہل عراق دعوی کر رہے ہیں؟ ابن شداد نے کہا میں نے سنا کہتے ہیں سچ کہا الله اور رسول الله نے –
ام المومنین نے فرمایا
کیا تم نے ان سے سنا کہ انہوں نے اس کے علاوہ کہا
ابن شداد نے کہا اللھم نہیں
ام المومنین نے فرمایا ٹھیک ہے سچ کہا الله اور اس کے رسول نے -الله رحم کرے علی پر – بے شک ان کے کلام میں کوئی چیز ایسی نہیں جو حیران کرے سوائے اس کے کہا سچ کہا الله اور اس کے رسول نے- پس اہل عراق چلے ان پر جھوٹ بولنے اور ان کی بات میں اضافہ کرنے
یعنی اس پستان والے خارجی کو کوئی جانتا تک نہیں تھا سوائے اس کے کہ یہ مسجد میں نماز پڑھتا تھا اور نہ علی نے اس موقعہ پر اس کو کوئی نشانی قرار دیا نہ اس میں ہے کہ علی نے کوئی سجدہ کیا اور کوئی حدیث سنائی کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس پستان والے کی خبر دی نہ اس کو سب سے برا خارجی قرار دیا – ایک نامعلوم لاش ملی اس کی بابت سوال کیا کہ کون ہے اور لوگ بھی اس سے لا علم تھے کون ہے
سنن الکبری البیہقی میں اس روایت پر امام بیہقی کہتے ہیں
حَدِيثُ الثُّدَيَّةِ حَدِيثٌ صَحِيحٌ , قَدْ ذَكَرْنَاهُ فِيمَا مَضَى , وَيَجُوزُ أَنْ لَا يَسْمَعَهُ ابْنُ شَدَّادٍ , وَسَمِعَهُ غَيْرُهُ , وَاللهُ أَعْلَمُ
پستان والی حدیث صحیح ہے اس کا ہم نے ذکر کیا جو گزرا ہے اور یہ جائز ہے کہ ابن شداد نے اس کو نہ سنا ہو اوروں نے سنا ہو و الله اعلم
راقم کہتا ہے امام بیہقی کی تاویل باطل ہے ابن شداد کوئی نابالغ بچہ نہیں علی کے اصحاب میں سے ہے اور وہ وہ بیان کر رہے ہیں جو ان کو پتا ہے کہ لوگوں نے علی کی بات میں اضافہ کیا
قول نبوی کے مطابق یہ آخری دور میں ہو گا
صحیح بخاری کی حدیث ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ خَيْثَمَةَ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِذَا حَدَّثْتُكُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَأَنْ أَخِرَّ مِنَ السَّمَاءِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَكْذِبَ عَلَيْهِ، وَإِذَا حَدَّثْتُكُمْ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ، فَإِنَّ الحَرْبَ خَدْعَةٌ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «يَأْتِي فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ، حُدَثَاءُ [ص:201] الأَسْنَانِ، سُفَهَاءُ الأَحْلاَمِ، يَقُولُونَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ البَرِيَّةِ، يَمْرُقُونَ مِنَ الإِسْلاَمِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، لاَ يُجَاوِزُ إِيمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ، فَأَيْنَمَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ، فَإِنَّ قَتْلَهُمْ أَجْرٌ لِمَنْ قَتَلَهُمْ يَوْمَ القِيَامَةِ»
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے خیثمہ بن عبدالرحمٰن کوفی نے، ان سے سوید بن غفلہ نے اور ان سے علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آخری زمانہ میں ایک قوم پیدا ہو گی نوجوانوں اور کم عقلوں کی۔ یہ لوگ ایسا بہترین کلام پڑھیں گے جو بہترین خلق کا (پیغمبر کا) ہے یا ایسا کلام پڑھیں گے جو سارے خلق کے کلاموں سے افضل ہے۔ (یعنی حدیث یا آیت پڑھیں گے اس سے سند لائیں گے) لیکن اسلام سے وہ اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار کو پار کر کے نکل جاتا ہے ان کا ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا تم انہیں جہاں بھی پاؤ قتل کر دو۔ کیونکہ ان کا قتل قیامت میں اس شخص کے لیے باعث اجر ہو گا جو انہیں قتل کر دے گا
مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” يَكُونُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الإِسْلامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، قِتَالُهُمْ حَقٌّ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ “
صحیح مسلم میں ہے
حديث:2455حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الْأَشَجُّ جَمِيعًا عَنْ وَکِيعٍ قَالَ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ خَيْثَمَةَ عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ قَالَ قَالَ عَلِيٌّ إِذَا حَدَّثْتُکُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَأَنْ أَخِرَّ مِنْ السَّمَائِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَقُولَ عَلَيْهِ مَا لَمْ يَقُلْ وَإِذَا حَدَّثْتُکُمْ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَکُمْ فَإِنَّ الْحَرْبَ خَدْعَةٌ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ سَيَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ سُفَهَائُ الْأَحْلَامِ يَقُولُونَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ يَقْرَئُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنْ الدِّينِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنْ الرَّمِيَّةِ فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ فَإِنَّ فِي قَتْلِهِمْ أَجْرًا لِمَنْ قَتَلَهُمْ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ
ترجمہ : محمد بن عبداللہ بن نمیر، عبداللہ بن سعید اشج، وکیع، اعمش، خیثمہ، حضرت سو ید بن غفلہ سے روایت ہے کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا اگر میں تم سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وہ حدیث بیان کروں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہیں فرمائی تو مجھے آسمان سے گر پڑنا زیادہ محبوب ہے اس سے کہ میں وہ بات کہوں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہیں بیان فرمائی اور جب وہ بات بیان کروں جو میرے اور تمہارے درمیان ہے تو جان لو کہ جنگ دھوکہ بازی کا نام ہے میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے تھے عنقریب اخیر زمانہ میں ایک قوم نکلے گی نوعمر اور ان کے عقل والے بیوقوف ہونگے بات تو سب مخلوق سے اچھی کریں گے قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے گلوں سے نہ اترے گا دین سے وہ اسطرح نکل جائیں گے جیسا کہ تیر نشانہ سے نکل جاتا ہے جب تم ان سے ملو تو ان کو قتل کردینا کیونکہ ان کو قتل کرنے والے کو اللہ کے ہاں قیامت کے دن ثواب ہوگا۔
التنقيح کے مطابق دارقطنی کہتے ہیں
ليس لسويد بن غفلةَ عن علي صحيحٌ مرفوعٌ إلى النبي – صلى الله عليه وسلم – غيرُ هذا
سوید کی علی سے روایت کردہ کوئی صحیح مرفوع حدیث نہیں سوائے اس روایت کے
التوشيح شرح الجامع الصحيح از امام السيوطي کے مطابق
قال حمزة الكتاني: ليس يصح له عن عليّ غير هذا الحديث
حمزة الكتاني کہتے ہیں اس کی علی سے کوئی صحیح حدیث نہیں سوائے اس کے
راقم کہتا ہے یہ روایت قرن اول کے لئے نہیں ہے – اس روایت میں اس واقعہ کا ہونا آخری زمانہ یا قرب قیامت میں بتایا گیا ہے سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ کی سند سے اسی طرح مسند ابن ابی شیبہ کی روایت ہے
نا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ، سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ، يَقُولُونَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ النَّاسِ، يَقْرَأُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، فَمَنْ لَقِيَهُمْ فَلْيَقْتُلْهُمْ، فَإِنَّ لِمَنْ قَتَلَهُمْ أَجْرًا عِنْدَ اللَّهِ»
یہاں یہ عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ سے مروی ہے جس میں زر بن حبیش اس کو روایت کرتے ہیں اور یہ وقوعہ آخری دور کا ہے
سند میں أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ اور عاصم بن ابی النجود دو مختلط ہیں
باوجود تلاش کے کوئی شارح نہیں ملا جو يَأْتِي فِي آخِرِ الزَّمَانِ آخری زمانے کے الفاظ کو قرن اول سے ملانے پر کوئی بحث کرے سب اس سے کترا گئے
یہ روایت علی رضی الله عنہ کی ہی روایت کردہ ہے
قول نبوی : ان کو پاتا تو قتل کرتا
صحیح بخاری میں روایت ہے جس میں ایک شخص عَبْدُ اللَّهِ بْنُ ذِي الخُوَيْصِرَةِ التَّمِيمِيُّ اتا ہے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تقسیم مال پر جرح کرتا ہے – اپ صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں اس کی نسل میں سے ایک قوم نکلے گی جو دین سے ایسا نکلے گی جیسے تیر کمان سے –
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف نے اور ان سے ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تقسیم فرما رہے تھے کہ عبداللہ بن ذی الخویصرہ تمیمی آیا اور کہا: یا رسول اللہ! انصاف کیجئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ افسوس اگر میں انصاف نہیں کروں گا تو اور کون کرے گا۔ اس پر عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے اجازت دیجئیے کہ میں اس کی گردن مار دوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں اس کے کچھ ایسے ساتھی ہوں گے کہ ان کی نماز اور روزے کے سامنے تم اپنی نماز اور روزے کو حقیر سمجھو گے لیکن وہ دین سے اس طرح باہر ہو جائیں گے جس طرح تیر جانور میں سے باہر نکل جاتا ہے۔ تیر کے پر کو دیکھا جائے لیکن اس پر کوئی نشان نہیں
راوی کہتا ہے وَأَظُنُّهُ قَالَ: «لَئِنْ أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُودَ میں گمان کرتا ہوں انہوں نے کہا میں ان کو پاتا تو ثمود کی طرح قتل کرتا بعض اوقات راویوں نے قوم عاد کے الفاظ استمعال کیے ہیں
یہ الفاظ بہت شدید ہیں – لیکن اس روایت پر عبد الله بن زبیر اور ابن عباس رضی الله عنہم عمل نہیں کرتے وہ خوارج کو حج کرنے دیتے ہیں ان کے سوالات کے جواب دیتے ہیں یہاں تک کہ امام بخاری جو اس روایت کو نقل کر رہے ہیں وہ خوارج سے روایت لیتے ہیں صحیح میں لکھتے ہیں
ظاہر ہے عبداللہ بن ذی الخویصرہ تمیمی کی نسل تو علی رضی الله عنہ کے دور میں قوم بنی بھی نہیں ہو گی- اس سے بھی ظاہر ہے کہ یہ قرن اول میں نہیں ہو گا
سمت و جہت کی اہمیت
صحیح بخاری کی روایت ہے
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ، سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ سِيرِينَ، يُحَدِّثُ عَنْ مَعْبَدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «يَخْرُجُ نَاسٌ مِنْ قِبَلِ المَشْرِقِ، وَيَقْرَءُونَ القُرْآنَ لاَ يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، ثُمَّ لاَ يَعُودُونَ فِيهِ حَتَّى يَعُودَ السَّهْمُ إِلَى فُوقِهِ»، قِيلَ مَا سِيمَاهُمْ؟ قَالَ: ” سِيمَاهُمْ التَّحْلِيقُ – أَوْ قَالَ: التَّسْبِيدُ –
مَعْبَدِ بْنِ سِيرِينَ ، أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سے روایت کرتے ہیں کہ مشرق سے لوگ نکلیں گے جو قرآن پڑھیں گے جو ان کے حلق سے نیچے نہیں جائے گا اور دین سے ایسا نکلیں ہے جیسے تیر کمان سے پھر واپس اس دین میں نہیں آئیں گے یہاں تک کہ تیر سر کے اوپر سے گزرے پوچھا ان کی کیا نشانی ہے فرمایا : سر کا حلق کرانا
اس روایت کے مطابق یہ گروہ مدینہ کے مشرق سے نکلے گا نہ کہ عراق سے جو شمال میں ہے دوم وہ دین سے نکلیں گے یہاں تک کہ جب جنگ ہو گی تو واپس اسلام میں آئیں گے سوم سر مونڈھ دیں گے
اس میں سے کوئی بھی نشانی حروریہ پر فٹ نہیں بیٹھتی- شروع کے خوارج یمنی قحطانی اور مصری تھے جو مغرب اور جنوب ہے وہاں سے مدینہ کے شمال میں عراق میں گئے
خوارج کی اکثریت علی کی شہادت کے بعد قبیلہ ازد کی ہوئی جو مدینہ کے مشرق میں ہے اور عَبْدُ اللَّهِ بْنُ ذِي الخُوَيْصِرَةِ التَّمِيمِيُّ جو قبیلہ بنو تمیم کا تھا ، مدینہ کے مشرق کا تھا اس پر اس روایت کو منطبق کیا جا سکتا ہے لیکن دور علی میں خوارج یمنی اور مصری تھے- قاتل علی ، ابن ملجم المرادی خود ایک قحطانی تھا جو مصر منتقل ہوا اور وہاں سے کوفہ
اس روایت میں اضافہ ہے کہ خوارج واپس رجوع کر لیں گے جب تیر سروں پر سے گزرے گا
جو فرقہ عبادت میں سختی کرتا ہو اور ایک سخت موقف اپنا لے اس کو جنگ کر کے واپس قائل کرنا ناممکن ہے یہ دلائل سے ہی کیا جا سکتا ہے جیسا علی رضی الله عنہ نے کیا کہ انہوں نے عباس رضی الله عنہ کو ان کے پاس بھیجا تاکہ وہ قرآن سے ہی دلائل دے کر ان کو سمجھائیں
صحیح بخاری کی حدیث ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ المُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَهَّابِ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، وَعَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ: أَنَّهُمَا أَتَيَا أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ، فَسَأَلاَهُ عَنْ الحَرُورِيَّةِ: أَسَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: لاَ أَدْرِي مَا الحَرُورِيَّةُ؟ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «يَخْرُجُ فِي هَذِهِ الأُمَّةِ – وَلَمْ يَقُلْ مِنْهَا – قَوْمٌ تَحْقِرُونَ صَلاَتَكُمْ مَعَ صَلاَتِهِمْ، يَقْرَءُونَ القُرْآنَ لاَ يُجَاوِزُ حُلُوقَهُمْ، – أَوْ حَنَاجِرَهُمْ – يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ، فَيَنْظُرُ [ص:17] الرَّامِي إِلَى سَهْمِهِ، إِلَى نَصْلِهِ، إِلَى رِصَافِهِ، فَيَتَمَارَى فِي الفُوقَةِ، هَلْ عَلِقَ بِهَا مِنَ الدَّمِ شَيْءٌ
ابی سلمہ اور عطا بن یسار کہتے ہیں وہ ابی سعید الخدری کے پاس پہنچے اور ان سے حروریہ پر سوال کیا کہ انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے حروریہ کے متعلق کچھ سنا تھا ؟ ابو سعید رضی الله عنہ نے کہا ان کو نہیں پتا کہ حروریہ کیا ہے- میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا کہ اس امت میں اور انہوں نے نہیں کہا اس میں سے ایک قوم نکلے گی جو اپنی نماز کو تمہاری نماز سے حقیر سمجھیں گے قرآن پڑھیں گے جو حلق سے نیچے نہیں جائے گا ۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر جانور میں سے پار نکل جاتا ہے اور پھر تیر پھینکنے والا اپنے تیر کو دیکھتا ہے اس کے بعد جڑ میں (جو کمان سے لگی رہتی ہے) اس کو شک ہوتا ہے شاید اس میں خون لگا ہو مگر وہ بھی صاف
ابو سعید الخدری رضی الله عنہ نے حروریہ پر براہ راست اس روایت کو ثبت نہیں کیا بلکہ کہا اس امت میں ایک قوم نکلے گی – اوپر دی گئی دونوں روایات ایک ہی صحابی سے ہیں ایک میں وہ حروریہ سے لا علم ہیں دوسری میں وہ کہتے ہیں قتال پر یہ گروہ واپس آ جائے گا یہ قابل غور ہے حروریہ مشرق میں نہیں شمال میں سے نکلے اور شاید اسی وجہ سے ابو سعید رضی الله عنہ نے جو سنا تھا اس کے مطابق کہا
یہ عربی النسل ہوں گے
صحيح البخاري كي روایت ہے
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا الوَلِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ جَابِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي بُسْرُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الحَضْرَمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو إِدْرِيسَ الخَوْلاَنِيُّ، أَنَّهُ سَمِعَ حُذَيْفَةَ بْنَ اليَمَانِ يَقُولُ: كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الخَيْرِ، وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِكَنِي، فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا فِي جَاهِلِيَّةٍ وَشَرٍّ، فَجَاءَنَا اللَّهُ بِهَذَا الخَيْرِ، فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟ قَالَ: «نَعَمْ» قُلْتُ: وَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الشَّرِّ مِنْ خَيْرٍ؟ قَالَ: «نَعَمْ، وَفِيهِ دَخَنٌ» قُلْتُ: وَمَا دَخَنُهُ؟ قَالَ: «قَوْمٌ يَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْيِي، تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ» قُلْتُ: فَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟ قَالَ: «نَعَمْ، دُعَاةٌ إِلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ، مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا» قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، صِفْهُمْ لَنَا؟ فَقَالَ: «هُمْ مِنْ جِلْدَتِنَا، وَيَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا» قُلْتُ: فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ؟ قَالَ: تَلْزَمُ جَمَاعَةَ المُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ، قُلْتُ: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلاَ إِمَامٌ؟ قَالَ «فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الفِرَقَ كُلَّهَا، وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ، حَتَّى يُدْرِكَكَ المَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى [ص:200] ذَلِكَ
حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ لوگ تو اکثر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خیر ونیکی اور بھلائی کے بارے میں پوچھا کرتے تھے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شر و برائی کے بارے میں دریافت کیا کرتا تھا اس خوف کی وجہ سے کہ کہیں میں کسی فتنہ میں مبتلا نہ ہو جاؤ حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم لوگ اسلام سے قبل جاہلیت اور برائی میں مبتلا تھے پھر الله نے اس خیر کو بھیجا پس کیا اس خیر کے بعد شر ہے ؟ رسول الله نے فرمایا ہاں -میں نے پوچھا اور کیا شر کے بعد پھر خیر ہو گا؟ فرمایا ہاں لیکن اس میں دخن ہو گا میں نے پوچھا دخن ؟ فرمایا قوم ہو گی جو بغیر ہدایت ، ہدایت کی بات کریں گے تم ان کو جانو پہچانو گے میں نے کہا اس کے بعد کیا شرہو گا ؟ فرمایا ہاں داعی ہوں گے جو جہنم کے دروازوں پر کھڑے لوگوں کو پکاریں گے جو ان کو جواب دے اس کو اس میں جھونک دیں گے میں نے کہا ان کی نشانی بیان کر دیں – آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا وہ ہماری کھال جیسے اور ہماری زبان بولتے ہوں گے – میں نے پوچھا ان کو پاؤ تو کیا اس پر میں کیا کروں ؟ فرمایا مسلمانوں کی جماعت کو لازم کرو اور ان کے امام کو میں نے پوچھا اگر نہ جماعت ہو نہ امام اپ نے فرمایا تو درخت کی جڑ چبا لو یہاں تک کہ موت ا جائے اور تم اسی پر رہو
الغرض ان روایات کو یہاں جمع کیا گیا ہے تاکہ ان کا تجزیہ کیا جا سکے- مختلف کتابوں میں الگ الگ سندووں سے اس واقعہ کوپڑھنے سے قاری پر اس کا تضاد ظاہر نہیں ہوتا اور نہ ہی ان میں جو مافوق الفطرت بات کہی گئی ہے کہ علی نے ایک جن کا قتل کرا دیا اس کو بیان کیا جاتا ہے- روایت صحیح متن سے منقول نہیں ہوئی اور اس میں راویوں کا اختلاف ہے خود اصحاب علی سے ہی نقل ہوا ہے جس کا مطلب ہے کہ علی رضی الله عنہ کا قول سمجھنے میں لوگوں کو غلطی ہوئی اور بات کچھ سے کچھ ہوتی چلی گئی- بعض روایات میں ہے علی مقتل گاہ تک گئے بعض میں ہے اپنے مقام پر ہی رہے لوگوں سے کھوج کرواتے رہے
یہ روایات اہل سنت کی کتب میں ہیں حیرت ہے اہل تشیع کی معتمد علیہ کتاب الکافی از کلینی میں اس قسم کی ایک بھی روایت نہیں ہے جبکہ یہ روایات علی رضی الله عنہ کے فضائل میں سے ہے
حروریہ سے علی کی جنگ ان کی خلافت سے خروج کی وجہ سے ہوئی کیونکہ وہ بیعت دے کر علی کو چھوڑ چکے تھے اور اولوالامر کی اطاعت کے منکر ہو گئے تھے – معاویہ یا عمرو بن العاص رضی الله عنہم نے علی رضی الله عنہ کی بیعت ہی نہیں کی لہذا ان پر خارجی کا حکم نہیں لگایا گیا- معاویہ رضی الله عنہ نے علی رضی الله عنہ کو خلیفہ تسلیم نہیں کیا یہاں تک کہ حسن رضی الله عنہ نے الٹا خلافت چھوڑ کر معاویہ رضی الله عنہ کو مسند خلافت دے دی
حروریہ علی رضی الله عنہ کے اجتھاد کے خلاف تھے کہ معاویہ رضی الله عنہ سے صلح ہو وہ کسی بھی طرح یہ قبول نہیں کر پائے اور علی رضی الله عنہ سے ہی حجت کرنے لگے ان سے قتال کا علی نے کوئی حکم نہیں دیا جب تک انہوں نے خود فساد فی الارض کا مظاہرہ نہیں کیا نہ فورا ان کو عاد و ثمود کہا بلکہ ابن عبّاس رضی الله عنہ کو بھیجا کہ ان کو سمجھائیں – لہذا علی کا ان خوارج سے قتال بطور حاکم حد شرعی کا نفاذ تھا نہ کہ کسی حدیث رسول کی روشنی میں ان کا قتل عام
اصحاب علی میں سے مفرط لوگوں نے علی کی ابن ملجم کے ہاتھوں شہادت کے بعد علی کا حروریہ سے متعلق موقف اتنا مسخ کر دیا کہ ان کا تاریخی و شرعی پہلو ہی غیر واضح ہو کر رہ گیا
انے والے دور میں اصحاب رسول نے حروریہ کو خوارج کا نام دیا اور خوارج نے بہت سے متواتر مسائل کا انکار کیا یہاں تک کہ ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کسی پر جرح کرتیں تو کہتیں کیا تو حروریہ ہے
نتائج
ان روایات میں تطبیق اس طرح ممکن ہے ایسے گمراہ گروہ نکلیں گے
جو بنو تمیم سے عبداللہ بن ذی الخویصرہ تمیمی کی نسل سے ہوں گے
مدینہ کے مشرق میں ہوں گے
عرب نسل اور زبان والے ہوں گے
حذیفہ اور ابو سعید الخدری رضی الله عنہم کے مطابق یہ لوگ قرن اول میں نہیں ہیں اسی طرح علی رضی الله عنہ بھی ان کو آخری زمانے میں بتاتے ہیں
احادیث میں ان گمراہ گروہوں کو خاص حروریہ یا خوارج نہیں کہا گیا بلکہ خوارج ، اہل سنت اور اہل تشیع کے گمراہ فرقے بھی ان میں سے ہو سکتے ہیں جو قرآن پڑھ رہے ہیں لیکن حلق سے نیچے نہیں جا رہا
روایت کی سب سے اہم بات نہ تو اس کی جرح تعدیل ہوتی ہے نہ راوی کی بحث بلکہ اس کا متن سب سے اہم ہوتا ہے کہ آخر ایسا کہا ہی کیوں گیا – راوی پر جرح کر کے اس کو رد کرنا آسان ہے لیکن اس کے متن میں چھپی بات تک پہنچنا اسی وقت ممکن ہے جب تمام روایات کو دیکھا اور ان کی جانچ کی جائے –- تاریخ کے حوالے سے علم الحدیث میں متن کی صنف میں اتنا کام نہیں ہوا جتنا درکار ہے
علم الحدیث
ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ کے جوابات
[مسند احمد کس کی کتاب ہے ]
: جواب بات یہ ہے کہ مسند احمد نے نہ صرف عقیدے کو خراب کیا بلکہ شیعت کو بھی پھیلایا ہے.شیعوں سےعقائد ہی نہیں لائے بلکہ پوری تاریخ وہاں سے لیکر مسند کے ذریعہ سے پھیلائی ہے.صحابہ کرام پر شیعوں کے عائد کردہ الزمات دہرائیں ہیں.ان تمام وجوہات کی بنا پر جب انکی گرفت کی گئی اور واضح کیا گیا کہ دیکھو! اس کتاب میں شعیوں کی منکرروایتوں کے ذریعہ زہر بھر دیا گیا ہے.اور اس کتاب میں بربادی کا سامان ہے تو اب یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ انکی(احمد بن حنبل) کتاب نہیں ہے.حالانکہ ان سے پہلے جتنے بھی مفسرین شارح حدیث اور مسالک کے لوگ گزرے ہیں سب نے اپنی تحریروں، تفسیروں اور شروحات میں بخاری کی حدیثیں موجود ہونے کے باوجود سب سے پہلے احمد بن حنبل اور انکی مسند کا حوالہ پیش کیا ہے.تاریخ اور رجال کی کتابوں میں ہر جگہ احمد بن حنبل کی مسند کا ذکر ہے.اور یہ سلسلہ ساڑھے گیارہ سو برس سے چلا آرہا ہے.مگر اب جبکہ انکی گرفت ہوئی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ انکی کتاب نہیں ہے.بتاؤ وہ کون ہے جسکی یہ کتاب ہے کل یہ کہو گے کہ امام احمد بن حنبل کوئی گزرے ہی نہیں ہیں
[/EXPAND]
Questions answered by Abu Shahiryar
[کیا مسند احمد، امام احمد بن حنبل کی کتاب نہیں ہے ؟]
محمود احمد غازی وہ اپنی کتاب، محاضرات حدیث، صفحہ ۳۸۴؛ پر لکھتے ہیں
جب امام احمد کا انتقال ہو گیا تو ان کے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن احمد نے ( جو ان کے شاگرد اور خود بھی بہت بڑے محدث تھے) اس کتاب کی تہذیب و تکمیل کی۔ انہوں نے اس کتاب میں تقریبا دس ہزار احادیث کا مزید اضافہ کیا۔ یہ دس ہزار نئی احادیث پانچ اقسام میں تقسیم ہیں۔ ایک قسم وہ ہے جس کی روایت عبداللہ بن احمد بن حنبل براہ راست اپنے والد سے کرتے ہین۔ یہ تو اسی درجہ کی مستند ہیں جس درجہ کی امام احمد کی اصل مرویات ہیں۔ بقیہ جو چار درجے ہیں ان کے بارے میں محدثین میں مختلف انداز کے تبصرے اور خیالات کا اظہار ہوتا رہا۔ کچھ احادیث وہ ہیں جو عبداللہ بن احمد نے اپنے والد کے علاوہ دوسرے اسادذہ سے حاصل کیں، وہ بھی انہوں نے اس میں شامل کر دیں۔ پھر عبداللہ کے ایک رفیق کار تھے جن کا لقب قطیعی تھا (پورا نام مجھے اس وقت یاد نہیں آ رہا) انہوں نے کچھ احادیث کا اضافہ کیا۔ قطیعی کی احادیث کا درجہ نسبتا کم ہے اور گرا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج جو مسند ہمارے پاس موجود ہے جس میں کم و بیش چالیس ہزار احادیث ہیں، ان میں تیس ہزار براہ راست امام احمد کی مرتب کی ہوئی ہیں اور دس ہزار عبداللہ کا اضافہ کی ہوئی ہیں جن کی پانچ قسمیں ہیں
جواب
مسند احمد امام احمد کی ہی تالیف ہے البتہ اس میں ان کے بیٹے عبد الله نے اضافے کیے ہیں اور بعض روایات پر اپنے باپ کی آراء بھی لکھی ہیں
: شعيب الأرنؤوط کہتے ہیں
ثم روى المسندَ عن عبدِ الله بن أحمد أبو بكرٍ القَطِيعيُّ، وزاد فيه زيادات في مسند الأنصار
پھر مسند احمد کو عبد الله بن احمد سے روایت کیا أبو بكرٍ القَطِيعيُّ، نے اور اس میں مسند الانصار میں انہوں نے اضافہ کیا
الذھبی کے مطابق
فأما الراوي عن عبد الله: فهو أبو بكرٍ أحمدُ بن جعفر بن حمدان بن مالك القَطِيعيُّ، ولد سنة (274 هـ) ، سمع ” المسند ” مع عمِّ أمه عبد الله بن الجصَّاص، وكان لأبيه جعفر اتصالٌ بالدولة، وكان عبدُ الله يقرأ ” المسنَدَ ” لابن ذلك السلطان، فحضر القطيعيُّ أيضاً، وسَمِعه منه
أبو بكرٍ أحمدُ بن جعفر بن حمدان بن مالك القَطِيعيُّ نے مسند احمد کو عبد الله سے سنا
مسند احمد کی موضوع روایات کا ملبہ ابن تیمیہ نے الْقطيعِي پر گرایا کتاب القول المسدد في الذب عن المسند للإمام أحمد میں ابن حجر کہتے ہیں
وَنقل عَن الشَّيْخ تَقِيّ الدَّين ابْن تَيْمِية أَن الَّذِي وَقع فِيهِ من هَذَا هُوَ من زيادات الْقطيعِي لَا من رِوَايَة الإِمَام أَحْمد وَلَا من رِوَايَة ابْنه عبد الله عَنهُ
موضوع روایات الْقطيعِي نے شامل کیں
منهاج السّنة میں ابن تیمیہ نے کہا: … ثمَّ زَاد ابْنه عبد الله على مُسْند أَحْمد زيادات، وَزَاد أَبُو بكر القَطِيعي زيادات، وَفِي زيادات القَطِيعي أَحَادِيث كَثِيرَة مَوْضُوعَة
القَطِيعي کی زوائد کی تعداد بہت نہیں ہے چند روایات ہیں اور معلوم ہے کہ کون سی روایات ہیں
البتہ تحقیق سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ مسند احمد میں موضوع روایات صرف القَطِيعي نے ہی روایت نہیں کیں جیسا ابن تیمیہ نے دعوی کیا ہے بلکہ عبد الله اور خود امام احمد نے بھی لکھی ہیں
شُعَيب الأرنَؤوط – عادل مُرْشِد کی تحقیق کے مطابق مسند میں موضوع روایات ہیں جن پر وہ کہتے ہیں شبه موضوع، موضوع ہونے کا شبہ ہے
جن پر کہتے ہیں إسناده ضعيف جداً ان کی تعداد ١٣٩ ہے
اس قدر ضعیف روایات امام احمد کی سند سے ہیں جس میں وہ اپنے مشایخ سے روایت کرتے ہیں
[/EXPAND]
[موطا میں بعض اہل مدینہ سے امام مالک نے روایت نہیں لی لیکن صحیحین میں روایت لی گئی ہے ؟]
جواب
کتاب الجامع في العلل ومعرفة الرجال لأحمد بن حنبل کے مطابق
حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ سُفْيَانَ الْفَارِسِيُّ، بِفَسَا، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ أَبُو الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَعْنُ بْنُ عِيسَى، قَالَ: كَانَ مَالِكٌ يَقُولُ: لَا يُؤْخَذُ الْعِلْمُ مِنْ أَرْبَعَةٍ، وَيُؤْخَذُ مِمَّنْ سِوى ذَلِكَ لَا يُؤْخَذُ مِنْ سَفِيهٍ مُعْلِنٍ بِالسَّفَهِ , وَإِنْ كَانَ أَرْوَى النَّاسِ، وَلَا يُؤْخَذُ مِنْ كَذَّابٍ يَكْذِبُ فِي أَحَادِيثِ النَّاسِ، إِذَا جُرِّبَ ذَلِكَ عَلَيْهِ , وَإِنْ كَانَ لَا يُتَّهَمُ أَنْ يَكْذِبَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا مِنْ صَاحِبِ هَوَى يَدْعُو النَّاسَ إِلَى هَوَاهُ، وَلَا مِنْ شَيْخٍ لَهُ فَضْلٌ وَعِبَادَةٌ إِذَا كَانَ لَا يَعْرِفُ مَا يُحَدِّثُ بِهِ.
قَالَ إِبْرَاهِيمُ: فَذَكَرْتُ هَذَا الْحَدِيثَ لِمُطَّرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْيَسَارِيِّ، فَقَالَ: لَا أَدْرِي مَا هَذَا , وَلَكِنْ أَشْهَدُ لَسَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ , يَقُولُ: لَقَدْ أَدْرَكْتُ بِهَذَا الْبَلَدِ , يَعْنِي الْمَدِينَةَ , مَشْيَخَةً لَهُمْ فَضْلٌ , وَصَلَاحٌ , وَعِبَادَةٌ، يُحَدِّثُونَ، مَا سَمِعْتُ مِنْ وَاحِدٍ مِنْهُمْ حَدِيثًا قَطُّ، فَقِيلَ لَهُ: وَلِمَ يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ؟ قَالَ: لَمْ يَكُونُوا يَعْرِفُونَ مَا يُحَدِّثُونَ
إِبْرَاهِيمُ أَبُو الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ کہتے ہیں کہ نے بیان کیا کہ امام مالک نے کہا کرتے ان چار سے علم مت لو جو اسراف کرے چاہے لوگ اس سے روایت کریں اور نہ جھوٹے سے روایت لو … اور خواہش کے پیچھے جانے والے سے روایت مت لو اور بڈھے سے روایت نہ لو جو حدیث کو نہیں جانتا ہو لیکن عبادت والا ہو – ابو منذر نے کہا میں نے مطرف سے اس کا ذکر کیا انہوں نے کہا میں اس کو نہیں جانتا لیکن میں نے امام مالک سے سنا میں نے اپنے اس شہر یعنی مدینہ میں بہت سارے اہل فضل،نیکوکاراورعبادت گزار بزرگوں کو پایا جو حدیث بیان کرتے ہیں لیکن میں نے ان میں سے کسی سے بھی کبھی کوئی حدیث نہیں لی (نہیں لکھی)،مطرف نے سوال کیا :اے ابو عبداللہ ایسا کیوں? تو امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا :اس لے کہ وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کیا بیان کر رہے ہیں.
[/EXPAND]
[صیغہ تمریض سے کیا مراد ہے ؟]
جواب
یہ تحقیق أحمد بن محمد بن خليل العماني کی ہے جو ملتقی اہل الحدیث سے لی گئی ہے
http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?t=336390
یہاں اس کے چیدہ نکات اور اختصار پیش خدمت ہے
صيغة التمريض سے مراد (رُوِيَ ) ، ( يُروى ) ، ( ذُكِر ) ، (بلغنا) ، ( ورد) ،( جاء) ، (نقل) وغیرہ کے الفاظ ہیں
صيغة تمريض متقدمين کے نزدیک استنباط احکام میں استمعال ہوتا ہے اور اس سے مراد صحیح حدیث بھی ہو سکتی ہے
مثلا امام الشافعی کتاب الام میں کہتے ہیں
وكل سهو في الصلاة نقصا كان، أو زيادة سهوًا واحدًا كان أم اثنين أم ثلاثة فسجدتا السهو تجزئ من ذلك كله قبل السلام وفيهما تشهد وسلام وقد روي عن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – : (( أنه قام من اثنتين فسجد قبل السلام )) وهذا نقصان
اور ہر سہو نماز میں نقص پر ہے … اور بلاشبہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا گیا ہے کہ وہ دو رکعت پڑھ کر کھڑے ہوئے پس سلام سے پہلے سجدہ کیا اور یہ نماز میں نقص تھا
یہاں امام الشافعی نے قد روی کے الفاظ سے صيغة تمريض استمعال کیا ہے
اسی طرح کتاب الام میں امام الشافعی کہتے ہیں
قال: وإذا كان غرمه على المرتهن فهو من المرتهن لا من الراهن وهذا القول خلاف ما رُوي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
اس قول کے خلاف نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا جاتا ہے
یہاں بھی روی روایت کیا جاتا ہے
کتاب الام میں کہتے ہیں
وقد رُوِيَ عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال : (( لأقضين بينكما بكتاب الله عز وجل )) ثم قضى بالنفي والجلد على البكر والنفي
اور نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا جاتا ہے کہ اپ نے فرمایا میں تمھارے درمیان کتاب الله سے فیصلہ کروں گا
یہ روایت صحیح بخاری و مسلم میں امام الشافعی کے نزدیک بھی ثابت ہیں لیکن انہوں نے صيغة تمريض استمعال کیا ہے
کتاب الام میں ہے
وظاهر القرآن يدل على أن كل ماء طاهر ، ماء بحر وغيره ، وقد روي فيه عن النبي صلى الله عليه وسلم حديث يوافق ظاهر القرآن في إسناده من لا أعرفه
کتاب الام ” ( 6 / 157 ) :” فلما رُوي أن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – كان يعلمهم التشهد في الصلاة ، ورُوي أن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – علمهم كيف يصلون عليه في الصلاة لم يجز والله تعالى أعلم أن نقول: التشهد واجب والصلاة على النبي – صلى الله عليه وسلم – غير واجبة …” اهـ .
پس جب روایت کیا گیا ہے …
اور یہ روایت صحیح بخاری کی ہے
کتاب الام میں ہے
وقد بلغنا أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لمعاذ حين بعثه إلى اليمن مصدقًا : (( إياكم وكرائم أموالهم )) وفي كل هذا دلالة على أن لا يؤخذ خيار المال في الصدقة
اور ہم تک پہنچا ہے
یہ روایت صحیح بخاری و مسلم کی ہے
امام ترمذی کہتے ہیں
وقد رُوِيَ عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه : « قرأ في الظهر قدر تنزيل السجدة
یہاں بھی تمریض ہے جبکہ یہ روایت صحیح مسلم ٤٥٢ رقم کی ہے
حزرنا قيامه في الركعتين الأوليين من الظهر قدر قراءة الم تنزيل السجدة
اسی طرح امام ترمذی صيغة تمريض میں ذکر کرتے ہیں
حديث أم الفضل في القراءة بالمرسلات في صلاة المغرب ( 308 ) : ” ورُوي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه : (( قرأ في المغرب بالطور )) ” اهـ .
جبکہ یہ حدیث صحیح ہے صحیح بخاری و مسلم کی ہے
مسند امام احمد میں امام احمد ایک روایت کو صيغة تمريض میں بیان کرتے ہیں پھر کہتے ہیں صحیح ہے
فقام رجل من أهل اليمن يقال له أبو شاه فقال يا رسول الله اكتبوا لي، فقال اكتبوا له .. ” الحديث . قال أبو عبد الرحمن ليس يُروى في كتابة الحديث شيء أصح من هذا الحديث؛ لأن النبي صلى الله عليه وسلم أمرهم، قال : ( اكتبوا لأبي شاه ) ما سمع النبي صلى الله عليه وسلم خطبته
پس اہل یمن کا ایک شخص کھڑا ہوا جس کو ابو شاہ کہا جاتا تھا اس نے کہا اے رسول الله یہ میرے لئے لکھ دیں اپ نے حکم کیا اس کے لئے لکھ دو .. حدیث ابو عبد الرحمن نے کہا لیس یروی …. (یروی صيغة تمريض ہے) اس سے زیادہ صحیح حدیث کتاب میں نہیں
المسند احمد میں ہے ( 30 / 416 ) برقم ( 18470 ) : ” عن البراء بن عازب : ” أن نبي الله صلى الله عليه وسلم كان يقنت في صلاة الصبح والمغرب ” ، قال أبو عبد الرحمن : ليس يُروى عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قنت في المغرب إلا في هذا الحديث
ابو عبد الرحمان نے یروی بول کر صيغة تمريض میں کہا مغرب کی نماز میں قنوت پر صرف یہی روایت ہے
اور یہ قنوت کی روایت صحیح مسلم کی ہے – یعنی صحیح روایت کو صيغة تمريض میں بیان کیا گیا ہے
کتاب اصول السنہ میں امام احمد کہتے ہیں
والإيمان بالرؤية يوم القيامة كما رُوي عن النبي صلى الله عليه وسلم من الأحاديث الصحاح
اور روز محشر رویت الباری پر ایمان لاو (صيغة تمريض كما روي) جیسا نبی صلی الله علیہ وسلم سے صحیح احادیث میں آیا ہے
مسند احمد میں ایک روایت کو امام احمد رد کرتے ہیں جو نبی صلی الله علیہ وسلم کی بیٹی زینب رضی الله عنہا کے نکاح کے حوالے سے ہے اس پر کہتے ہیں
والحديث الصحيح الذي رُوي أن النبي صلى الله عليه وسلم أقرهما على النكاح الأول
اور صحیح حدیث میں ہے (صيغة تمريض روي) روایت کیا جاتا ہے نبی سے کہ انہوں نے نکاح اول باقی رکھا
یعنی صحیح روایت کو بھی محدثین صيغة تمريض میں بیان کرتے تھے اور جب ضعیف کو بیان کرتے تو اس کی نشاندھی کر دیتے
بخاری کی معلق روایات پر ابن حجر فتح الباری میں کہتے ہیں
والحق أن هذه الصيغة لا تختص بالضعيف، بل قد تستعمل في الصحيح أيضًا ، بخلاف صيغة الجزم فإنها لا تستعمل إلا في الصحيح
اور حق یہ ہے کہ یہ صيغة ضعیف کے لئے خاص نہیں ہے بلکہ صحیح کے لئے بھی استمعال ہوتا ہے بخلاف صيغة جزم کے جو صرف صحیح کے لئے استمعال ہوتا ہے
امام بخاری صحیح میں کہتے ہیں
باب الجمع بين السورتين في الركعة .. ويُذكر عن عبد الله بن السائب : ( قرأ النبي صلى الله عليه وسلم المؤمنون في الصبح، حتى إذا جاء ذكر موسى، وهارون – أو ذكر عيسى – أخذته سعلة فركع
باب ایک رکعت میں سورتیں جمع کرنا اور (صيغة تمريض يذكر) ذکر کیا جاتا ہے
اس روایت کی سند امام مسلم اور ابن خزیمہ کے نزدیک صحیح ہے اور انہوں نے اس کو صحیح میں بیان کیا ہے
امام بخاری نے اس طرح ایک دوسرے مقام پر صيغة تمريض مين کہا ويُذكر عن أبي موسى
باب ذكر العشاء والعتمة .. ويُذكر عن أبي موسى، قال: «كنا نتناوب النبي صلى الله عليه وسلم عند صلاة العشاء فأعتم بها
لیکن یہ روایت صحیح ہی میں ٨٩ ، ٢٤٦٨ رقم سے بیان بھی ہے
فتح الباری میں اس پر ابن حجر نے کہا
قوله ويذكر عن أبي موسى سيأتي موصولًا عند المصنف مطولا بعد باب واحد وكأنه لم يجزم به لأنه اختصر لفظه نبه على ذلك شيخنا الحافظ أبو الفضل .
اور ان کا قول ويذكر عن أبي موسى تو یہ موصول ہے مصنف کے نزدیک … اور یہاں جزم سے نہیں کہا کیونکہ انہوں نے اس کو مختصر کر دیا ہے
اسی طرح باب میں امام بخاری نے کہا
باب الرقى بفاتحة الكتاب ويُذكر عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم
یہاں بھی صيغة تمريض يذكر ہے
یہ روایت صحیح بخاری میں موجود ہے لیکن باب میں اختصار کی بنا پر صیغہ تمرض ہے
ان امثال سے ظاہر ہے کہ متقدمین صيغة تمريض صحیح روایات پر بھی استمعال کرتے تھے
متقدمین جب صيغة تمريض استمعال کرتے ہیں تو بعض اوقات ان کی مراد ضعیف روایت بھی ہوتی ہے لیکن وہ فورا اس کے بعد اس کے ضعف کی طرف اشارہ کرتے ہیں مثلا
ابو داود نے سنن ١٤٨٥ میں کہا
روي هذا الحديث من غير وجه عن محمد بن كعب كلها واهية، وهذا الطريق أمثلها وهو ضعيف أيضًا ”
اس طرح روایت کیا جاتا ہے محمد بن کعب سے جو تمام واہیات طرق ہیں اور یہ طرق ایسا ہی ہے اور یہ بھی ضعیف ہے
اور امام البخاري نے صحیح میں ( 1 / 169 ) کہا
ويُذكر عن أبي هريرة، رفعه « لا يتطوع الإمام في مكانه ولم يصح
اور ابو ہریرہ سے ذکر کیا جاتا ہے … جو صحیح نہیں
صحیح میں امام بخاری نے کہا
ويُذكر عن ابن عباس: « أن جلساءه شركاء » ولم يصح
ایسا ابن عباس سے ذکر کیا جاتا ہے .. جو صحیح نہیں
یہاں محدثین نے صيغة تمريض استمعال کیا ہے لیکن ساتھ ہی اس کے ضعف کا حوالہ دیا ہے اور اوپر کتاب الام کے حوالہ جات ہیں جن میں امام الشافعی نے
صحیح روایت کو بھی صيغة تمريض میں بیان کیا ہے
النكت الوفية بما في شرح الألفية از البقاعی کے مطابق
قولهُ: (استعمالها في الضعيفِ أكثرُ) (5) وكذا تعبيرُ ابنِ الصلاحِ بقولهِ: ((لأنَّ مثلَ هذهِ العباراتِ تستعملُ في الحديثِ الضعيفِ أيضاً)) (6) يدفعُ الاعتراضَ بأنَّ البخاريَّ قد يخرجُ ما صحَّ بصيغةِ التمريضِ، كقولهِ في بابِ الرُّقَى بفاتحةِ الكتابِ: ((ويذكرُ عنِ ابنِ عباسٍ، عن النبي – صلى الله عليه وسلم -)) (7) في الرقى بفاتحةِ الكتابِ معَ أنَّهُ أسندَ
قول اس صیغہ کا استمعال اکثر ضعیف کے لئے ہوتا ہے اور یہ ابن الصلاح کی تعبیر ہے قول سے کہ اس قسم کی عبارات کا استمعال حدیث میں ضعیف پر بھی ہوتا ہے یہ اس اعتراض کو دفع کرتا ہے کہ بےشک امام بخاری نے صحیح روایت کی تخریج کی ہے صیغہ تمریض سے جیسا کہ باب فاتحہ سے دم کرنے میں ہے بذکر عن ابن عباس اور یہ ان کی کتاب میں سندا بھی ہے
کتاب النكت على مقدمة ابن الصلاح از الزركشي الشافعي (المتوفى: 794هـ) کے مطابق
كَذَلِكَ نَازع فِيهِ الشَّيْخ عَلَاء الدّين مغلطاي – رَحمَه الله تَعَالَى -[قَالَ] فَإنَّا نجد البُخَارِيّ فِي مواضيع يَأْتِي بِصِيغَة الْجَزْم وَهِي ضَعِيفَة من خَارج وَيَأْتِي بِصِيغَة التمريض وَهِي صَحِيحَة مخرجة فِي كِتَابه
اسی طرح نزاع کیا ہے مغلطاي نے الله رحم کرے کہا ہم صحیح بخاری میں پاتے ہیں بعض مقام پر کہ صیغہ جزم ہے اور روایت صحیح سے باہر کی کتب میں ضعیف ہے اور صیغہ تمریض بخاری نے استمعال کیا ہے اور روایت صحیح ہے جو ان کی کتاب میں موجود نہیں ہے
متاخرین کے نزدیک تدریب الراوی از السيوطي کے مطابق صيغة تمريض ضعیف روایت کے صیغہ ادا کے حوالے سے استمعال ہوتا ہے
وإذا أردت رواية الضعيف بغير إسناد، فلا تقل: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – كذا، وما أشبهه من صيغ الجزم) بأن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – قاله، (بل قل: روي) عنه (كذا، أو بلغنا) عنه (كذا، أو ورد) عنه (، أو جاء) عنه كذا (، أو نقل) عنه كذا
جب کوئی ضعیف روایت بغیر اسناد نقل کرنا ہو تو بالجزم یوں نہیں کہنا چاہیئے کہ رسول اللہ ﷺ ( یا فلاں نے ) یوں کہا ، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ روایت کیا گیا یا ہمیں یہ بات پہنچی یا یوں وارد ہے یا ایسے نقل کیا جاتا ہے جیسے صیغے استعمال کرنا لازم ہیں (تدریب جلد اول ص۳۵۰ )
نووی مجموع میں کہتے ہیں
قال العلماء المحققون من أهل الحديث وغيرهم : إذا كان الحديث ضعيفاً لا يقال فيه قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أو فعل أو أمر أو نهى أو حكم ، وما أشبه ذلك من صيغ الجزم ، وكذا لا يقال فيه رَوى أبو هريرة أو قال أو ذكر أو أخبر أو حدث أو نقل أو أفتى وما أشبهه ، وكذا لا يقال ذلك في التابعين ومن بعدهم فيما كان ضعيفاً فلا يقال في شيء من ذلك بصيغة الجزم .
وإنما يقال في هذا كله رُوِيَ عنه أو نُقل عنه أو حُكي عنه أو جاء عنه أو بلغنا عنه أو يقال أو يذكر أو يحكى أو يروى أو يرفع أو يعزى ، وما أشبه ذلك من صيغ التمريض وليست من صيغ الجزم . قالوا فصيغ الجزم موضوعة للصحيح أو الحسن ، وصيغ التمريض لما سواهما .
وذلك أن صيغة الجزم تقتضي صحته عن المضاف إليه ، فلا ينبغي أن يطلق إلا فيما صح وإلا فيكون الإنسان في معنى الكاذب عليه . وهذا الأدب أخل به المصنف ، وجماهير الفقهاء من أصحابنا وغيرهم ، بل جماهير أصحاب العلوم مطلقاً ما عدا حذاق المحدثين؛ وذلك تساهل قبيح، فإنهم يقولون كثيراً في الصحيح : رُوِيَ عنه ، وفي الضعيف : قال وروى فلان ، وهذا حيد عن الصواب ” اهـ .
اہل حدیث کے علماء محققین اور دیگر کہتے ہیں کہ جب حدیث ضعیف ہو تو اس میں نہیں کہا جاۓ گا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے کہا یا کیا یا امر دیا یا منع کیا یا حکم کیا اور اسی طرح کے جزم کے صیغے- اور اسی طرح نہیں کہا جائے گا کہ ابو ہریرہ نے روایت کیا یا کہا یا ذکر کیا یا خبر دی یا روایت کیا یا نقل کیا یا فتوی دیا اور اسی طرح ، اور نہیں کہا جائے گا کہ تابعین اور ان کے بعد والوں نے ایسا کہا اس میں جو ضعیف روایت ہو پس اس میں کسی چیز پر جزم کا صیغہ نہیں کہا جائے گا اور یہ صیغہ ان تمام پر کہا جائے گا جو ان سے روایت کیا گیا یا نقل کیا گیا یا حکایات کیا گیا یا ان سے آیا یا ہم تک پہنچا ان سے یا کہا جاتا ہے یا ذکر کیا جاتا ہے یا حکایت کیا جاتا ہے یا روایت کیا جاتا ہے یا رفع کیا جاتا ہے اور اسی طرح اور جو صیغہ تمریض سے ہوں نہ کہ صیغہ جزم سے- کہتے ہیں صحیح اور حسن پر صیغہ جزم لگے اور ان سے سوا جو ہوں ان پر صیغہ تمریض اور یہ اس لیے کہ صیغہ جزم تقاضی کرتا ہے مضاف الیہ کی صحت ہو پس ہونا چاہیے کہ اس کا اطلاق سوائے اس کے جو صحیح ہو
ابن المنذر کے حوالے سے النووی نے کتاب تهذيب الأسماء واللغات میں دعوی کیا کہ
وله عادات جميلة فى كتابه الإشراف، أنه إن كان فى المسألة حديث صحيح، قال: ثبت عن النبى – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – كذا، أو صح عنه كذا، وإن كان فيها حديث ضعيف قال: روينا، أو يروى عن النبى – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ –
أبو بكر محمد بن إبراهيم بن المنذر النيسابوري (المتوفى: 319هـ) کی اچھی عادتوں میں سے ہے کہ اگر کسی مسئلہ میں حدیث صحیح ہو تو کہتے ہیں یہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے اس طرح یا صحیح ہے ان سے اس طرح اور اگر حدیث ضعیف ہو تو کہتے ہیں ہم سے روایت کیا گیا ہے یا نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا گیا ہے
جبکہ النووی کی بات صحیح نہیں ہے کتاب الإشراف على مذاهب العلماء میں ابن المنذر ایک مقام پر کہتے ہیں
روينا عن النبى – صلى الله عليه وسلم – أنه نهى عن الاختصار في الصلاة. وكره ذلك ابن عباس، وعائشة، ومجاهد، والنخعى، وأبو مجلز، ومالك، والأوزاعى، وإسحاق، وأصحاب الرأي.
نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا جاتا ہے کہ انہوں نے نماز میں اختصار سے منع کیا اور اس سے کراہت کی ابن عباس، وعائشة، ومجاهد، والنخعى، وأبو مجلز، ومالك، والأوزاعى، وإسحاق، وأصحاب الرأي نے
اس طرح کتاب میں کہا
روينا عن النبي- صلى الله عليه وسلم – أنه أمر بقتل الأسودين في الصلاة الحية والعقرب
نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا جاتا ہے کہ اپ نے نماز میں بچھو اور سانپ قتل کرنے کا حکم کیا
عصر کی نماز کے لئے ابن المنذر نے کہا
وقد روينا عن النبي- صلى الله عليه وسلم – أخباراً تدل على صحة هذا القول
اور نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا گیا ہے خبریں جو اس قول کی صحت پر دلالت کرتی ہیں
واختلفوا فيما يقرأ به في صلاة الجمعة، فكان الشافعي، وأبو ثور، يقولان بحديث: (ح 331) أبي هريرة رضي الله عنه أنه كان يقرأ سورة الجمعة، وإذا جاءك المنافقون، ويروى ذلك عن النبي – صلى الله عليه وسلم –
نبی صلی الله علیہ وسلم جمعہ کی نماز میں سوره المنافقون پڑھتے تھے ایسا ان سے روایت کیا جاتا ہے
یہ حدیث صحیح ہے
ابن المنذر نے اپنی کتاب میں کہا
روي عن ابن عباس أن رسول الله- صلى الله عليه وسلم – جمع بين الظهر والعصر وبين المغرب والعشاء في غير خوف ولا مطر، قيل لابن عباس: لم فعل ذلك، قال أراد أن لا يحرج أمته.
ابن عباس سے روایت کیا گیا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مدینہ میں ظہر عصر کو جمع کیا اور مغرب و عشاء کو جمع کیا بغیر خوف اور سفر اور بارش کے
لیکن یہ بھی کہا
ثبت عن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – أنه جمع بالمدينة بين الظهر والعصر وبين
المغرب والعشاء في غير خوف ولا سفر
اور نبی صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ یہ بغیر خوف اور سفر ہوا
یعنی ثابت اس وقت بولا جب تحقیق سے ایک بات صحیح ثابت ہو گئی
جبکہ صحیح مسلم میں ہے
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَبُو كُرَيْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، ح وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، وَأَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، وَاللَّفْظُ لِأَبِي كُرَيْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، كِلَاهُمَا عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «جَمَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِالْمَدِينَةِ، فِي غَيْرِ خَوْفٍ، وَلَا مَطَرٍ
یہ کام بغیر خوف اور بارش کیا گیا
معلوم ہوا کہ ابن المنذر کے نزدیک صحیح مسلم کی یہ حدیث ثابت ہی نہیں ہے کیونکہ اس میں بارش کا لفظ ہے
امام بیہقی نے بھی صیغہ تمریض میں روایت کو صحیح کہا ہے مثلا کتاب مختصر خلافيات البيهقي
از أحمد بن فَرح کے مطابق امام بیہقی سے علی رضی الله عنہ نے فاتحہ خلف الامام پر کہا چپ رہو اس پر بیہقی نے کہا
وَقد روينَا عَن عَليّ رَضِي الله عَنهُ ضد هَذَا، وَأما الْمَوْقُوف الَّذِي رُوِيَ عَن عَليّ رَضِي الله عَنهُ فَإِنَّمَا رُوِيَ بأسانيد واهية لَا يَصح شَيْء من ذَلِك فقد صَحَّ عَن عَليّ رَضِي الله عَنهُ ” أَنه كَانَ يَأْمر بِالْقِرَاءَةِ خلف الإِمَام
اور علی سے اس کے بر خلاف روایت کیا گیا ہے …. انہوں نے امام کے پیچھے قرات کا حکم دیا
یعنی النووی کی بات مطلقا صحیح نہیں
یعنی متاخرین کے نزدیک صیغہ تمریض صرف ضعیف پر استمعال ہونا چاہیے
جبکہ جیسا تحقیق سے ثابت ہوا تین قرون میں اس کی مثال موجود ہے کہ صحیح روایت کو بھی صیغہ تمریض میں بیان کیا جاتا تھا
[/EXPAND]
[البانی صاحب کا حسن روایت کو صحیح کہنا؟]
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.
کئی دفعہ علامہ البانی رحمہ اللہ ضعیف حدیث کے متن کو متعدد طرق کی بنا پر صحیح کہتے ھیں. انکا منہج کیا ھے؟ کیا انکی ایسی احادیث قابل اعتماد ھیں جن میں انھوں نے ایسا منہج اختیار کیا ھے؟
جواب
ناصر الدین البانی کا منہج ہے کہ ضعیف ضعیف کو تقویت دیتی ہے یہاں تک کہ صحیح ہو جاتی ہے ان کی کتب میں حسن کو بھی صحیح لکھ دیا گیا ہے
مثلا ترمذی کی جامع کی بہت سی روایات جو صرف حسن درجے کی تھیں ان کو صحیح کا درجہ البانی صاحب نے دے دیا ہے اور ١١٠٠ سال کا یہ ایک اہم واقعہ ہے کہ جو حدیث متقدمین کی نگاہ میں صحت کے درجے پر نہ تھی وہ اب صحیح ہو چلی ہے
البانی متضاد باتیں بھی کرتے تھے لہذا ان پر کتاب تناقضآت البانی از حسن بن على سقاف شافعى کے نام سے تین جلدوں میں کتاب موجود ہے
[/EXPAND]
[محدثین جب ضعیف روایات پر ابواب قائم کرتے ہیں تو کیا وہ صحیح ہوتی ہیں اور ابواب کا کیا کوئی مقصد تھا ؟]
جواب
صحاح ستہ کی کتب میں چار مولفین نے ضعیف حسن اور صحیح کی اقسام کی روایات اپنی کتب میں جمع کیں یعنی امام ابی داود ، امام الترمذی، امام ابن ماجہ اور امام النسائی- ان ضعیف روایات پر انہوں نے ابواب بھی قائم کیے- کہا جا سکتا ہے کہ ان محدثین کے نزدیک یہ تمام روایات صحیح تھیں تبھی تو ابواب قائم کیے- لیکن ایسا وہی کہہ سکتا ہے جب نے ان کی کتب کے منہج کو نہ سمجھا ہو- مولفین صحاح ستہ کا مقصد اپنے فہم کے مطابق کتب کو ترتیب دینا اور ان میں موجود فقہی استنباط کو پیش کرنا تھا لہذا ایک روایت کو چاہے وہ ضعیف ہی کیوں نہ ہو اس سے بھی کچھ نتائج نکل سکتے ہیں اور وہ ان مسائل میں کار آمد ہو سکتی ہیں جن میں کوئی صحیح حدیث موجود نہ ہو
محدثین نے جو حدیث کی کتب تالیف کیں ان میں اپنی رائے کو بہت کم نقل کیا ہے اور بعد والوں نے راویوں پر محدثین کی رائے دیکھ کر فیصلہ کیا ہے کہ آیا یہ مخصوص روایت صحیح بھی سمجھی جائے یا نہیں مثلا عصر حاضر میں البانی صاحب نے سنن اربع کو سنن الثمانیہ کر دیا ہے یعنی
ضعیف سنن ابی داود، صحیح سنن ابی داود
ضعیف سنن الترمذی، صحیح سنن الترمذی
ضعیف سنن ابن ماجہ، صحیح سنن ابن ماجہ
ضعیف سنن النسائی، صحیح سنن النسائی
امام مسلم نے اپنی صحیح میں کوئی باب قائم نہیں کیے – کتاب منهاج المحدثين في القرن الأول الهجري وحتى عصرنا
الحاضر از على عبد الباسط مزيد کے مطابق
ولكن مسلمًا لم يذكر تراجم لأبوابه، ويعلل ذلك الإمام النووي بأنه ربما أراد ألا يزيد حجم الكتاب
لیکن مسلم نے ابواب قائم نہیں کیے اور اس کی وجہ امام النووی کی رائے میں یہ ہے کہ کتاب کا حجم نہ بڑھ جائے
امام مسلم نے شاید اس ڈر سے باب قائم نہیں کیے کہ کہیں بعد میں آنے والے ان کے قائم کردہ ابواب سے احادیث کا مفھوم مقید نہ کر دیں
امام بخاری نے بھی اپنی کتاب ادب المفرد میں روایات پر باب قائم کیے اور اس کتاب میں ضعیف روایات بھی لکھیں
امام بخاری نے صحیح میں ابواب قائم کے اور اس باب کے شروع میں تعلیقا ضعیف روایات بھی پیش کیں تاکہ اس سلسلے میں پائی جانے والی آراء کا ذکر ہو سکے
امام بخاری ادب المفرد میں باب قائم کرتے ہیں
بَابُ إِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ
باب کہ جب تجھے شرم نہیں تو جو جی میں آئے کر
بعض عامی ذہن قسم کے لوگ کہہ سکتے ہیں کہ یہ باب قائم کرنا اس کی دلیل ہے کہ امام بخاری اس بات کی تائید کر رہے ہیں لیکن یہ حدیث کے الفاظ ہیں جو منع کا انداز ہے
ابواب بخاری پر نور الدين محمد عتر الحلبي کتاب الإمام البخاري وفقه التراجم في جامعه الصحيح میں لکھتے ہیں کہ امام بخاری مختلف ابواب قائم کیے ہیں مثلا
الترجمة بصيغة خبرية عامة
باب خبر کے انداز میں
الترجمة بصيغة خبرية خاصة بمسألة الباب
باب خبر کے انداز میں خاص مسئلہ پر
الترجمة بصيغة الاستفهام , جسے بَابُ هَلْ عَلَى مَنْ لَمْ يَشْهَدْ الجُمُعَةَ استفہامی باب
امام بخاری باب كَلاَمِ الْمَيِّتِ عَلَى الْجَنَازَةِ کا باب قائم کرتے ہیں کہ مردہ جنازہ کلام کرتا ہے اس میں کافی بحث ہے کہ اس حدیث کا اصل مفھوم کیا ہے
ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں
وَاسْتُدِلَّ بِهِ عَلَى أَنَّ كَلَامَ الْمَيِّتِ يَسْمَعُهُ كُلُّ حَيَوَانٍ نَاطِقٍ وَغَيْرِ نَاطِقٍ
اور اس سے استدلال کیا جاتا ہے کہ میت کلام کرتی ہے جس کو ہر حیوان بولنے والا اور نہ بولنے والا سنتا ہے
ابن بطال کہتے ہیں
قَالَ بن بَطَّالٍ هُوَ عَامٌّ أُرِيدَ بِهِ الْخُصُوصُ وَإِنَّ الْمَعْنَى يَسْمَعهُ مَنْ لَهُ عَقْلٌ كَالْمَلَائِكَةِ وَالْجِنِّ وَالْإِنْسِ
یہ عام ہے … معنی ہے کہ ہر ذی عقل سنتا ہے یعنی فرشتے جن اور انسان
ابن الملقن کتاب التوضيح لشرح الجامع الصحيح ج ١٠ ص ٤١ میں کہتے ہیں
لأن كلام الميت حين يحمل إلى قبره فيه حكم الدنيا، وليس فيه شيء من الجزاء والعقوبة لأن الجزاء لا يكون إلا في الآخرة، وإنما كلامه اعتبار لمن سمعه وموعظة فأسمعها الله الجن؛ لأنه جعل فيهم قوة يثبتون بها عند سماعه، ولا يصعقون، بخلاف الإنسان الذي كان يصعق لو سمعه.
میت کا کلام جبکہ اس کو قبر کی طرف لے جا رہے ہوتے ہیں وہ دنیا کے حکم میں ہے اور اس میں جزا و عقوبت نہیں ہے کیونکہ جزا تو آخرت میں ہے اور یہ کلام اعتبار کے لئے ہے جو سنے اور نصیحت کے لئے پس الله اس کو جن کو سنواتا ہے کیونکہ اس میں قوت ہے کہ اس کو سن سکیں اور بے ہوش نہ ہوں بخلاف انسان کے جو سنے تو ہوش کھو دے
کلام المیت اہل حدیث علماء کے مطابق آخرت کا حصہ ہے جبکہ ابن مقلن کے مطابق دنیا کا
أسامة علي محمد سليمان درس بخاری میں کہتے ہیں
معناه: أن الميت يتكلم، ولكن يتكلم بلسان الحال أم بلسان المقال؟ هذا اختلاف بين العلماء، هل يتكلم بكلام حقيقي دون أن يسمع؟ فهناك من يتكلم ولا نسمعه، كحديث: (ما من يوم ينشق فجره إلا وينادي ملكان: اللهم أعط منفقاً خلفاً، اللهم أعط ممسكاً تلفاً)، فهل تسمع هذا النداء؟! وحينما ينادي في القبر لا تسمعه، فهناك كلام لا نفقهه، ولذلك هل كلام الميت بلسان الحال أم بلسان المقال وبالفعل؟ خلاف بين العلماء.
منهم من قال: يتكلم لكن الحي لا يسمعه.
مطلب یہ ہے کہ میت کلام کرتی ہے لیکن حال کی زبان سے یا کہنے والے کی زبان سے اس میں اختلاف ہے علماء کا کہ کیا حقیقی کلام ہے سماع کے بغیر کہ کلام کرتی ہے کوئی نہیں سنتا جیسا حدیث میں ہے کوئی دن ایسا نہیں جس میں فجر پھوٹے اور فرشتے بولیں کہ اے الله … پس یہ ندا کون سنتا ہے ؟ اور قبر سے جب پکارتا ہے تو کون سنتا ہے پس یہ کلام سمجھ نہیں اتا اور اسی لئے (بحث ہوتی ہے کہ) میت کیا زبان حال سے یا زبان مقال یا با لفعل بولتی ہے ؟ علماء کا اختلاف ہے- ان میں سے کچھ کہتے ہیں بولتی ہے لیکن زندہ نہیں سنتا
ڈاکٹر عثمانی کی رائے میں امام بخاری نے اس پر کلام المیت کا باب قائم کیا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ وہ مردہ کو زندہ نہیں جانتے مردہ میت ہی کہتے ہیں
الله تعالی نے قرآن میں فرمایا
وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتَىٰ “الخ ،سورہ انعام
اور اگر ہم ان پر فرشتے بھی اتار دیتے اور مردے بھی ان سے گفتگو کرنے لگتے
اسی طرح کا مضمون سورہ رعد میں بھی بیان ہوا ہے
أَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتَىٰ ۔سورہ رعد
یا اس سے مردے بول اٹھتے
ان دونوں آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ مردے بول نہیں سکتے ورنہ اس بات کو ایک عظیم نشانی کے طور پر پیش نہ کیا جاتا
محدثین کے قائم کردہ ابواب صرف روایت میں آنے والے الفاظ ہوتے ہیں جس میں وہ اپنی رائے پر اصرار نہیں کرتے مبادہ کہ حدیث کا مطلب کچھ اور ہو- دوم ضعیف روایت پر بھی باب قائم کرنے کا مقصد ان کو صحیح کہنا نہیں ہوتا بلکہ صرف نفس مضمون بیان کیا جاتا ہے لہذا ابواب سے استنباط نہیں کیا جا سکتا
[/EXPAND]
[اگر دو محققین حدیث پر اختلاف کریں تو کیا کیا جائے]
جواب
مسائل دو طرح کے ہوتے ہیں عقائد میں یا فقہ و عمل میں
عمل میں دو محدثین میں اجتہاد کا اختلاف ہو اور ایک غلط اور ایک صحیح ہو تو حدیث کے مطابق اس میں دونوں کو ثواب ہو گا اور اس طرح کے فقہی معاملات میں صحابہ رضوان الله علیھم اجمین میں بھی اختلاف تھا اور اس کو ختم نہیں کیا گیا کیونکہ دونوں کے پاس سند رسول تھی لیکن فہم میں فرق ہوتا ہے
عقائد میں اختلاف دین کا تفرقہ ہے اور اس پر حدیث میں ہے کہ فرقے جہنم میں جائیں گے
لہذا عقائد میں احتیاط ضروری ہے عام آدمی کے لئے قرآن کافی ہے وہ اس سے اپنے عقائد کا فیصلہ کرے اور دیکھے کہ علماء کے کہیں خلاف قرآن عقیدہ تو نہیں دے دیا
[/EXPAND]
[ائمہ جرح و تعدیل جب کسی راوی کو شیعہ کہتے ہیں اس سے کیا ان کی مراد علی کا خاص ساتھی ہوتی ہے ؟]
جواب یہ مفروضہ زمانہ حال کے کچھ غیر مقلدین کا ہے
دامانوی صاحب کتاب عذاب القبر میں ابن حجر کے حوالے سے لکھتے ہیں
محدثین کی اصطلاح میں شیعہ اسے کہتے ہیں جو علی رضی اللہ عنہ سے محبت رکھتا ہو اور (دیگر) صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے انہیں افضل سمجھتا ہواور جو انہیں ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بھی افضل مانتا ہو تو وہ ’’ غالی شیعہ‘‘ ہے اور اس پر رافضی کا اطلاق ہو گا اور اگر ایسا نہ ہو تو اس پر شیعہ کا اطلاق ہو گا‘‘(ھدی الساری مقدمۃ فتح الباری ص۴۵۹
ھدی الساری مقدمۃ فتح الباری از ابن حجر |
تہذیب التہذیب از ابن حجر ترجمہ ابان بن تغلب |
والتشيع محبَّة على وتقديمه علی الصحابة فَمن قدمه على أبي بكر وَعمر فَهُوَ غال فِي تشيعه وَيُطلق عَلَيْهِ رَافِضِي وَإِلَّا فشيعي فَإِن انضاف إِلَى ذَلِك السب أَو التَّصْرِيح بالبغض فغال فِي الرَّفْض وَإِن اعْتقد الرّجْعَة إِلَى الدُّنْيَا فأشد فِي الغلو اور تشیع (شیعیت) کا مطلب ہے جو علی سے محبت کرتا ھواور ان کواور (دیگر) صحابہ کرام سے افضل سمجھتا ہواور جو انہیں ابو بکر اور عمر سے بھی افضل مانتا ہو تو وہ غالی شیعہ ہے اور اس پر رافضی کا اطلاق ہو گا اور اگر ایسا نہ ہو تو اس پر شیعہ کا اطلاق ہو گا پس جب اس پر اسکا اضافہ کیا جائے یا بعض پر اس کی تصریح کی جائے تو رفض میں غالی ھو گا اور اگر رجعت کا عقیدہ رکھے تو یہ غلو میں تشدد ہے |
فالتشيع في عرف المتقدمين هو اعتقاد تفضيل علي على عثمان, وأن عليا كان مصيبا في حروبه وأن مخالفه مخطئ مع تقديم الشيخين وتفضيلهما, وربما اعتقد بعضهم أن عليا أفضل الخلق بعد رسول الله -صلى الله عليه آله وسلم-, وإذا كان معتقد ذلك ورعا دينا صادقا مجتهدا فلا ترد روايته بهذا, لا سيما إن كان غير داعية, وأما التشيع في عرف المتأخرين فهو الرفض المحض فلا تقبل رواية الرافضي الغالي ولا كرامة پس تشیع (شیعیت) کا مطلب متقدمین کے نزدیک علی کی عثمان پر فضیلت کا اعتقاد رکھنا ہے، اور یہ کہ بے شک علی اپنی جنگوں میں حق پر تھے اور انکے مخالف غلطی پر، ساتھ ہی شیخین (ابو بکر اور عمر) کی فضیلت کا اعتقاد رکھنا، اور ان میں سے بعض کا کبھی یہ اعتقاد رکھنا کہ علی، نبی صلی الله علیہ وسلم کے بعد افضل مخلوق ہیں اور اگر یہ عقیدہ ھو اور وہ شیعہ راوی مجتہد، دین میں صادق ھو تو اس وجہ سے اس کی روایت رد نہیں کی جائے گی، خاص طور سے اگر داعی نہ ھو، اور تشیع متاخرین کے نزدیک محض رفض ہے پس اس رافضی ، غالی کی نہ روایت لی جائے اور نہ کوئی عزت کی جائے |
نتیجہ:جو علی سے محبت کرے وہ شیعہ ہے اورغالی شیعہ یا رافضی وہ ہے جو ابو بکر اور عمر پر علی کی فضلیت کا اعتقاد رکھے |
نتیجہ: شیعہ وہ ہے جو عثمان پر علی کی فضلیت کا اعتقاد رکھے |
دامانوی صاحب، ابن حجر کی بات سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ التابعين میں غالی شیعہ نہ تھے. حالانکہ خود متقدمین شیعہ کے لئے ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں غالی کا اطلاق کیا ہے
الذہبی کے نزدیک التابعين میں بھی غالی شیعہ تھے. الذہبی سیر الاعلام النبلاء میں کہتے ہیں
ان البدعة على ضربين: فبدعة صغرى كغلو التشيع، أو كالتشيع بلا غلو ولا تحرف، فهذا كثير في التابعين وتابعيهم مع الدين والورع والصدق. فلو رد حديث هؤلاء لذهب جملة من الآثار النبوية، وهذه مفسدة بينة. ثم بدعة كبرى، كالرفض الكامل والغلو فيه، والحط على أبي بكر وعمر رضي الله عنهما، والدعاء إلى ذلك، فهذا النوع لا يحتج بهم ولا كرامة.
بدعت دو طرح کی ہیں: بدعت صغری جیسے تشیع میں غلو یا تشیع بغیر غلو اور انحراف، پس ایسے بہت سے التابعين اور تبہ التابعين ہیں اپنے صدق اور پرہیزگاری اور دینداری کے ساتھ پس ان کی روایت رد کی جائے تو بہت سا سرمایہ حدیث ضائع ہونے کا اندیشہ ہے، اوربدعت کبریٰ ہے جسے رفض کامل اور اس میں غلو، اور ابوبکر اور عمر کو (علی سے) کم کرنا اور اس کی طرف دعوت دینا پس ایسے راویوں کی روایت سے دلیل نہ لی جائےاور نہ عزت کی جائے
نتیجہ:غالی شیعہ یا رافضی وہ ہے جو ابو بکر اور عمر پر علی کی فضلیت کا اعتقاد رکھے
تاریخ ابن خلدون ج ٢ ص ٢٩٩ کے مطابق رفض کا لفظ زید بن علی (المتوفی ١٢٢ ھ) نے سب سے پہلے شیعوں کے لئے استعمال کیا. شیعوں نے زید بن علی سے پوچھا کہ آپ کی ابو بکر اور عمر کے بارے میں کیا رائے ہے. انہوں نے کہا کہ ہم ان سے زیادہ امارت کے حقدار تھے لیکن انہوں نے یہ حق ہم سے چھین لیا لیکن یہ کام کفر تک نہیں پہنچتا. اس پر شیعوں نے ان کو برا بھلا کہا اور جانے لگے. زید نے کہا
رفضونی تم نے مجھے چھوڑ دیا
اسی وقت سے شیعہ رافضیہ کے نام سے موصوف ہوۓ
زید بن علی سے پہلے شیعہ چاہے سبائی ھو یا غالی یا غیر غالی سب کو شیعہ ہی بولا جاتا رہا اور یہ انداز جرح و تعدیل کے ائمہ کا ہے اس کی متعدد مثالیں ہیں مثلا
عبد الله بن شريك العامري الكوفي کے لئے ابن حجر تہذیب التہذیب میں لکھتے ہیں
وقال ابن حبان في الضعفاء كان غاليا في التشيع: ابن حبان کہتے ہیں ضیف راویوں میں ہیں اور تشیع میں غالی تھے
وقال أبو الفتح الأزدي من أصحاب المختار: اور أبو الفتح الأزدي انکو اصحاب مختار (الثقفی) کہتے ہیں
مختار الثقفی ایک غالی شیعہ تھا اور اس کے اصحاب کو متقدمین شیعہ غالی میں شمار کیا جاتا ہے. لہذا دامانوی صاحب کا یہ کہنا کہ متقدمین میں غیر غالی شیعہ کوصرف شیعہ بولا جاتا تھا سراسر غلط ہے
عمرو بن ثابت کے لئے جو سنن ابی داود کے راوی ہیں ابی داود، سنن میں کہتے ہیں
قال أبو داود: كان عمرُو بن ثابث رافضياً، وذكره عن يحيى بن معين، ولكنه كان صدوقاً في الحديث
أبو داود کہتے ہیں : عمرو بن ثابت رافضی ہے اور يحيى بن معين نے اسکا ذکر کیا ہے لیکن حدیث میں صدوق ہے
سؤالات أبي عبيد الآجري أبا داود السجستاني في الجرح والتعديل میں الاجری ، ابی داود سے پوچھتے ہیں
سألت أبا دَاوُد عَن عَمرو بْن ثَابت فَقَالَ: “كَانَ رَجُلَ سَوءٍ: عمروبن ثابت برا آدمی تھا
مخول بن راشد جو سنن ابی داود کے راوی ہیں ، کے لئےالاجری کہتے ہیں کہ ابی داود نے کہا
مخول، سمعت أبا داود يقول: كان حربيا یہ حربیہ فرقے کا تھا
علامہ ابو الحسن الشعری کے مطابق یہ شیعوں کا غالی فرقہ تھا
إسماعيل بن موسى، الفزاري، ابن بنت السديکے لئےالاجری کہتے ہیں کہ ابی داود نے کہا
عن أبي داود: صدوق في الحديث، وكان يتشيع، سُمع يقول: قتل الزبير خمسين ألف مسلم
ابی داود نے کہا: حدیث میں صدوق ہیں اور شیعہ تھے سنا کہتے تھے (صحابی رسول) زبیر نے پچاس ہزار مسلموں کو قتل کیا
سنن ابی داود کے راوی ہیں
معلوم ہوا کہ غالی شیعہ راوی کو بھی صرف شیعہ بولا گیا ہے اور اس کی بدعت کا اندازہ اس کی بیان کردہ روایت دیکھ کر کیا جائے گا
زاذن کو ابن حجر نے ہی شیعہ کہا ہے اس کے علاوہ امام دولابی نے بھی شیعہ کہا ہے لہذا اسکی
شیعیت کا ذکر ہر دور میں رہا ہے
ارشد کمال المسند فی عذاب القبر ص ١٥٧ پر لکھتے ہیں
محمد بن عمر الواقدی کا حوالہ ابن حجر نے ٢٠٠ سے اوپر دفعہ تہذیب التہذیب میں دیا ہے اس کی وجہ ہے کہ الواقدی حدیث کی روایت میں قابل اعتبار نہیں لیکن تاریخ میں ان کے اقوال کو ئمہ جرح و تعدیل نے لیا ہے
ابن تیمیہ کتاب رأس الحسين میں الواقدی کا دفاع کرتے ہوئے لکھتے ہیں
ومعلوم أن الواقدي نفسه خير عند الناس من مثل هشام بن الكلبي وأبيه محمد بن السائب وأمثالها، وقد علم كلام الناس في الواقدي، فإن ما يذكره هو وأمثاله يعتضد به، ويستأنس به. وأما الاعتماد عليه بمجرده في العلم: فهذا لا يصلح.
اور معلوم ہے کہ واقدی فی نفسہ ہشام بن الکلبی اور اس کے باپ محمّد بن السا ئب اور اس کے جیسوں سے تو اچّھا ہے. اور لوگوں کے الواقدی کے بارے میں کلام کا پتا ہے پس وہ اور اس کے جیسے کوئی بات بیان کریں تو اس سے وہ بات قوی ہو گی اور ٹھہرے گی اور جہاں تک واقدی پر مجرد اعتماد کا تعلّق ہے تو وہ صحیح نہیں
ابن تیمیہ نے واقدی کا دفاع اپنی دیگر کتب میں بھی کیا ہے
واقدی کی زاذان کے بارے میں رائے کے علاوہ ابن حجر کی اپنی تحقیق بھی یہی ہے کہ وہ شیعہ ہے کیونکہ ابن حجر نے یہ بات واقدی کے حوالے سے نہیں لکھی.
الواقدی جو خود متشدد شیعہ ہے جب وہ خود شیعہ ہے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ زاذان خود کتنا بڑا شیعہ ھو گا
مزید یہ کہ کیا واقدی جرح کر رہا ہے؟ نہیں بلکہ وہ تو تعریف کر رہا ہے کیونکہ اس کے نزدیک شیعہ ہونا خوبی نے نہ کہ عیب
داعی شیعہ راوی؟
دامانوی صاحب یہ بھی لکھتے ہیں
کسی راوی کا شیعہ‘ مرجیہ وغیرہ ہونا کوئی جرح نہیں جب تک کہ وہ اس کی طرف دعوت نہ دیتا ہو۔
ہم اس سے اتفاق کرتے ہیں
بخاری کا منہج یہی ہے کہ راوی کی ایسی روایت جو بدعت کے حق میں نہ ھو وہ لی جائے گی ،القسطلاني ، إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري میں لکھتے ہیں
عدي بن ثابت الأنصاري الكوفي التابعي، المشهور. وثقه أحمد، والنسائي، والعجلي، والدارقطني إلا أنه كان يغلو في التشيع، لكن احتج به الجماعة، ولم يخرج له في الصحيح شيئًا مما يقوي بدعته
عدي بن ثابت الأنصاري الكوفي التابعي مشھور ہیں … بے شک یہ تشیع میں غلو کرتے ہیں لیکن ان سے ایک جماعت نے احتجاج کیا ہے اور بخاری نے صحیح میں ان سے کوئی روایت نہ لی جس سے انکی بدعت کو تقویت پہنچے
زبیر علی زئی کتاب توضیح الاحکام میں مثال دیتے ہیں کہ صحیحین میں بھی بدعتی راوی موجود ہیں
اب سوچنے کا مقام ہے کہ عود روح والی روایت جس کے لئے دامانوی صاحب انتے بے چین ھو جاتے ہیں آخر بخاری مسلم میں کیوں نہیں؟ وجہ صرف یہ ہے کہ زاذان سے بخاری نے کوئی روایت نہیں لی اور مسلم نے زاذان کی ابن عمر سے روایت کردہ تین روایتں لکھی ہیں وہ بھی عقیدے کے بارے میں نہیں اور جہاں تک زاذان کی براء بن عازب رضی الله تعالی عنہ سے بیان کردہ روایت کا تعلّق ہے تو وہ تو لکھی ہی نہیں. عدی بن ثابت بھی عود روح والی روایت کا راوی ہے. بخاری نے اور روایات لکھیں لیکن اس کی عود روح والی روایت نہیں لی
معلوم ہوا کہ راوی کی تحقیق کی جائے گی اوراس کی روایت صرف شیعہ ہونے پر رد نہیں ہوتی. لیکن اگروہ شیعہ ہے تو اس کی روایت کا متن دیکھا جائے گا کہ کہیں دعوت بدعت تو نہیں دے رہا
اسی اصول پر ہمارے نزدیک زازن ایک بدعتی شیعہ راوی ہے اور اس کی صحیح مسلم والی روایت یا منہال بن عمرو کی بخاری میں ایک روایت پر ہمیں اعتراض نہیں ہے ہم کو عود روح والی روایت پر اعتراض ہے کہ خود بخاری و مسلم نے اس کو نہیں لکھا لہذا یہ عود روح والی روایت صحیح و حسن نہیں
اہل حدیث علماء کے نزدیک راوی کی بدعت کی بحث بے کار ہے اگر وہ بدعتی بھی ہو تو بھی روایت صحیح ہے
زبیر علی زئی کتاب توضیح الاحکام میں لکھتے ہیں
اسمعیل سلفی کتاب مقالات حدیث میں لکھتے ہیں
جی ہاں روایات کی وضع سازی کا اسی دور میں آغاز ہوا جب صحابہ کے مناقشات پر سب سے پہلے روایات گھڑی گئیں مختار الثقفی اور سبائی فتنوں نے شیعیاں علی بن کر اہل بیت کے فضائل گھڑے اور ان کو ایک ما فوق الفطرت مخلوق بنا دیا گیا ، پھر وہ امام اور معصوم کہلائے ، اسی دور میں زاذان اور منہال بن عمرو نے عود روح کی روایت بیان کی .اسمعیل سلفی کی بات سے ظاہر ہے یہ ابھی صحابہ کا دور ہے کہ روایات سازی شروع ہو چکی ہے
قارئیں اب فیصلہ آپ کے ہاتھوں میں ہے. شوق گل بوسی میں کانٹوں پر لب رکھئے یا اللہ اور اس کی کتاب جو تقاضہ کرتی ہے اس کو مانیے
[/EXPAND]
[کیا زاذان اور المنھال بن عمرو پر جرح غلط کی گئی ہے؟]
جواب
ابن حجر اپنی کتاب تقریب التہذیب میں اس راوی کے لئے لکھتے ہیں فیه شیعیۃ اس میں شیعیت ہے
قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل، جلد 02 ص 396محدث فتویٰ ویب سائٹ پر موجود ہے اس میں ابن حجر کے ان الفاظ کا مفہوم اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ
رہا زاذان کو شیعہ قرار دینا تو وہ درست نہیں۔ حافظ ابن حجر نے تقریب میں صرف اتنا فرمایا ہے کہ اس میں کچھ شیعیت ہے۔ جیسا کہ آپ نے خود ترجمہ فرمایا: ’’ فیہ شیعیۃ ‘‘( اس میں شیعیت ہے۔) تو اب کے شیعیت کو شیعہ بنانے والوں کو کچھ نہ کچھ تو ضرور حاصل ہوگا، کیونکہ یہ بھی تو ایک کارنامہ ہی ہے نا۔
شیعیت سے شیعہ ہی بنتا ہے اس کی متعدد امثال ہیں مثلا
کتاب التَّكْميل في الجَرْح والتَّعْدِيل ومَعْرِفة الثِّقَات والضُّعفاء والمجَاهِيل کے مطابق
يونس بن خَبَّاب الأسيدي، جو عود روح والی روایت کا راوی ہے اس کے لئے امام دارقطنی کہتے ہیں
رجل سوء فيه شيعية مفرطة
برا آدمی ہے اس میں بڑھی ہوئی شیعیت ہے
البزاز ایک راوی أسيد بن زيد بن نجيح الجمال الهاشمي کے لئے کہتے ہیں
قد احتمل حديثه مع شيعية شديدة فيه
بے شک اس کی حدیثیں شدید شیعیت کے ساتھ ہوتی ہیں
لسان المیزان کے مطابق راوی إبراهيم بن محمد بن عرفة النحوي کے لئے مسلمہ کہتے ہیں
وقال مسلمة وكانت فيه شيعية اور اس میں شیعیت تھی
کتاب إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال کے مطابق البزاز راوی جعفر بن زياد الأحمر أبو عبد الله الكوفي کے لئے کہتے ہیں کہ
وقال البزار في كتاب «السنن» تأليفه: فيه شيعية متجاوزة
اور البزاز اپنی تالیف السنن میں کہتے ہیں کہ اس میں متجاوز شیعیت تھی
کتاب کے مطابق راوی يونس بن أرقم الكندي البصري کے لئے البزاز کہتے ہیں
أَنَّ فيه شيعية شديدة
بے شک اس میں شدید شیعیت ہے
معلوم ہوا کہ ابن حجر کے الفاظ زاذان کے شیعہ ہونے پر ہی اشارہ کرتے ہیں
مفتی صاحب یہ بھی فرماتے ہیں
شیعہ ہونا بھی باعث ضعف نہیں، جبکہ اس میں اور کوئی سبب ضعف موجود نہ ہو، کیونکہ اہل بدعت غیر مکفرہ میں صحیح بات یہی ہے ، وہ اگر داعیہ نہ ہوں ، تو ان کی روایت بوجہ ان کی بدعت کے ضعیف نہیں بنے گی۔ مقدمہ فتح الباری ، شرح نخبہ، مقدمہ ابن صلاح ، تدریب الراوی ، ارشاد الفحول وغیرہ۔
رفیق طاہر صاحب زاذان کا دفاع کرتے ہوئے لکھتے ہیں
احمد بن حجر جنہوں نے زازان پر شیعہ ہونے کی تہمت لگائی ہےاور یہ بھی نہیں کہا کہ وہ شیعہ ہے بلکہ یہ کہا ہے : ’فیہ تشیع قلیل‘ اس کے اندر تھوڑا سا تشیع ہے ، تھوڑی سی شیعیت ہے
http://www.urduvb.com/forum/showthread.php?t=18614
ابن حجر نے کس کتاب میں لکھا ہے کہ زاذان میں فیه تشیع قلیل یہ مل نہیں سکا؟ اصل میں ایسا کسی نے کہا بھی نہیں ہے
بخاری نے زاذان سے صحیح بخاری میں کوئی روایت نہیں لی
منہال بن عمرو کی حیثیت
یحییٰ بن سعید القطان اس راوی کے خلاف تھے
مفتی صاحب اس کا دفاع کرتے ہیں کہ
حاکم نے کہا کہ یحییٰ القطان اس کو ضعیف گردانتے تھے۔‘‘ اس میں بھی آپ لوگوں نے تلبیس ہی سے کام لیا ہے، کیونکہ تہذیب التہذیب میں الفاظ اس طرح ہیں: (( قال الحاکم: المنہال بن عمرو غمزہ یحیی القطان )) جس کا ترجمہ آپ نے فرمایا:’’ یحییٰ القطان اس کو ضعیف گردانتے تھے۔‘‘ جبکہ اس عبارت کا ترجمہ آپ والا نہیں بنتا۔ ….. غمز تضعیف میں نص نہیں۔ تضعیف کے علاوہ کسی اور چیز کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے
الذہبی کتاب المقتنى في سرد الكنى میں لکھتے ہیں
أبو طالوت، عن أبي المليح، غمزه البخاري
أبو طالوت، أبي المليح سے البخاري اس کو غمز کیا
ایک راوی الْهَيثم بن عبد الرحمن کے لئے خطیب تاريخ بغداد میں لکھتے ہیں
وجاءوا إلى عَبْد الرَّحْمَن بْن مهدي بأحاديث حَدَّث بِهَا، فأنكرها عَبْد الرَّحْمَن، وتكلم فِيهِ بشيء غمزه بِهِ فسقط وذهب حديثه
اورعبدالرحمن بن مہدی کے پاس گیا اور روایات بیان کیں ، عبدرحمان نے انکار کیا اور اس سے کی بات پر کلام کیا اور اس کو غمز کیا
الذہبی کتاب ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين میں کئی راویوں
کے لئے لکھتے ہیں
سليمان بن الفضل: عن عبد الله بن المبارك، غمزه ابن عدي.
حريث بن أبي حريث: عن ابن عمر، غمزه الأوزاعي
ابن حجر میں راوی إبراهيم” بن مهاجر بن جابر البجلي أبو إسحاق الكوفي کے لئے لکھتے ہیں
بلى حدث بأحاديث لا يتابع عليها وقد غمزه شعبة أيضا
الذهبی تاریخ الاسلام میں راوی حَبِيبُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ يَزِيدُ الْجَرْمِيُّ الْبَصْرِيُّ الأَنْمَاطِيُّ کے لئے بتاتے ہیں کہ
قَدْ غَمَزَهُ أَحْمَدُ، وَقَدَحَ فِيهِ يَحْيَى الْقَطَّانُ. وَنَهَى يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ عَنْ كِتَابَةِ حَدِيثِهِ.
لسان المیزان میں ایک راوی کے لئے لکھتے ہیں
أحمد بن حاتم السعدي. روى عنه محمود بن حكيم المستملي حديثا منكرا غمزه الإدريسي
إسحاق بن أبي يزيد. عن الثوري. لا يدرى من هو. والحديث باطل وقد غمزه أبو سعيد النقاش.
سهل بن قرين وهو بصري غمزه ابن حبان، وَابن عَدِي وكذبه الأزدي.
ان مثالوں سے واضح ہے کہ غمزه کے الفاظ کسی کی حیثیت کم کرنے کے لئے ہی استمعال ہوتے ہیں
مفتی صاحب لکھتے ہیں
اور منہال بن عمرو بھی ثقہ اور رجال شیخین میں شامل ہیں
امام مسلم نے منہال بن عمرو سے صحیح مسلم میں کوئی روایت نقل نہیں کی تو رجال شیخین میں سے کیسے ھو گیا؟
حاکم مستدرک میں لکھتے ہیں
هذا حديث صحيح على شرط الشيخين فقد احتجا جميعا بالمنهال بن عمرو و زاذان أبي عمر الكندي
یہ حدیث شیخین کی شرط پر صحیح ہے، بے شک انہوں نے منہال بن عمرو اور زاذان ابو عمر الکندی سے احتجاج کیا ہے
لیکن حاکم کی یہ بات درست نہیں. امام مسلم نے منہال بن عمرو سے کوئی روایت نہیں لی
اس غلطی کو ذھبی نے بھی تلخیص مستدرک میں دہرایا اور کہا
تعليق الذهبي قي التلخيص : على شرطهما فقد احتجا بالمنهال
ان دونوں کی شرط پر بے شک انہوں نے منہال سے احتجاج کیا ہے
یہ بات ذھبی نے اس وقت لکھی تھی جب انہوں نے اپنی کتاب سیر الاعلام النبلاء اور تاریخ الاسلام نہیں لکھیں تھیں
ذھبی تاریخ الاسلام ج ١ میں کہتے ہیں
وفي بعض ذلك موضوعات قد أعلمت بها لما اختصرت هذا ” المستدرك ” ونبهت على ذلك
اور ان کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے جب میں نے مستدرک کا اختصار کیا ہے
سیر الاعلام النبلاء ج ١٧ میں حاکم کے بارے میں لکھتے ہیں
وبكل حال فهو كتاب مفيد قد اختصرته
اور یہ مفید کتاب ہے میں نے اس کو مختصر کیا ہے
معلوم ہوا کہ مستدرک پر تلخیص سیر اور تاریخ جیسے ضخیم کام سے پہلے ہوئی. ذھبی نے اپنے اس تحقیقی کام میں اپنی ہی تصحیح کا رد کر دیا
الذهبی کتاب تاریخ الاسلام میں منہال کے لئے لکھتے ہیں
قلت : تفرد بحديث منكر ونكير عن زاذان عن البراء
میں کہتا ہوں: منکر نکیر والی حدیث جو زاذان عن البراء سے ہے اس میں اس کا تفرد ہے
ذھبی کتاب سیر لاعلم النبلاء میں منہال کے لئے لکھتے ہیں
حَدِيْثُهُ فِي شَأْنِ القَبْرِ بِطُوْلِهِ فِيْهِ نَكَارَةٌ وَغَرَابَةٌ
المنھال بن عمرو کی قبر کے بارے میں طویل روایت میں نکارت اور غرابت ہے
لہذا قائلین عود روح کا ذھبی کی تلخیص مستدرک میں اس روایت کی تصحیح پیش کرنا اصولا سراسر دجل ہے
حیرت کی بات ہے کہ اسی محدث فورم ویب سائٹ پر امام حاکم پر حدیث لولاک لما خلقت الافلاک کے حوالے سے جرح بھی کی گئی ہے
نیز امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کا تساہل بھی محدثین کے نزدیک ایک مسلمہ امر ہے۔علامہ بدر الدین عینی حنفی رحمۃ اللہ علیہ اور امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حقیقت کی نشاندہی ان الفاظ میں کی ہے:
لاریب أن في المستدرک أحادیث کثیرة لیست علی شرط الصحة بل فیہ أحادیث موضوعة شان المستدرک بـإخراجہا فیہ 17
”بلاشبہ المستدرک میں بکثرت ایسی احادیث موجود ہیں جوصحیح حدیث کی شرط کے مطابق نہیں بلکہ اس میں موضوع احادیث بھی ہیں جن کا تذکرہ مستدرک پر ایک دھبہ ہے۔”
ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے عبد الرحمن بن زید کے بارے خود امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول نقل کیا ہے جس سے امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کا اس سلسلہ میں تساہل اور تناقض واضح ہوتا ہے، فرماتے ہیں :
” یہ شخص اپنے باپ سے موضوع احادیث بیان کیا کرتا تھا۔ ” 18
شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول کو متناقض قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ خود امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت میں موجود راوی عبدالرحمن کی ایک دوسری روایت کو غیر صحیح کہا ہے اور فرمایا ہے کہ شیخین نے عبدالرحمن بن زید کو ناقابل حجت قرار دیا ہے۔ نیزخود امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے عبدالرحمن بن زید کو اپنی کتاب الضعفاء میں ذکر کیا ہے۔
امام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کے اس تساہل اور تناقض کی وجہ یہ ذکر کی ہے کہ
” مستدرک کی تصنیف کے وقت ان کے حافظے میں فرق آگیا تھا، اس کی دلیل یہ ہے کہ اُنہوں نے رواة کی ایک کثیر تعداد کو اپنی کتاب الضعفاء میں ذکر کیا ہے اور ان سے استدلال کو ممنوع قرار دیا ہے ، لیکن اپنی کتاب مستدرک میں خود اُنہیں سے روایات نقل کی ہیں اور اُنہیں صحیح قرار دیا ہے۔ ”
مفتی صاحب لکھتے ہیں
آپ نے دیکھ لیا کہ براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی رد روح والی حدیث کو کتنے بڑے بڑے محدثین عظام نے صحیح و حسن قرار دیا ہے، اس کے بعد اس کی سند میں وارد راوی منہال بن عمرو اور زاذان کی توثیق و تثبیت کی چنداں ضرورت تو نہ تھی،
مفتی صاحب یہ بھی لکھتے ہیں
زاذان اور منہال بن عمرو پر مغالطہ و تلبیس کے ذریعہ بنائی ہوئی جرح کو بڑی وقعت دے رہے ہیں
ذھبی کے علاوہ ابن حبان اور ابن حزم بھی اس روایت کو رد کرتے ہیں
قارئیں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جرح و تعدیل پر کتابیں لکھنے والے امام الذهبی بھی اس روایت کورد کرتےہیں حالانکہ راویوں کی ثقاہت کا ان کو بھی پتہ ہے
کیا الذهبی نے مغالطہ اور تلبیس سے کام لیا ہے جو راویوں کے ثقاہت کے الفاظ کو درخوراعتناء نہ سمجھا اور عود روح کی روایت کو رد کر دیا ذرا سوچئے
[/EXPAND]
سوال میری نظر سے صحیح بخاری کی ایک حدیث گزری جو کچھ یوں ہے
حکم بن نافع شعیب زہری حمید بن عبدالرحمن بن عوف عبداللہ بن عتبہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن خطاب سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگوں کا مواخذہ وحی کے ذریعہ ہوتا تھا اور اب وحی موقوف ہوگئی اس لیے اب ہم تمہارے صرف تمہارے ظاہری اعمال پر مواخذہ کریں گے جو شخص اچھا عمل ظاہر کرے گا تو ہم اسے امن دیں گے اور مقرب بنائیں گے ہمیں اس کے باطن سے کوئی غرض نہیں اس کے باطن کا محاسبہ اللہ تعالیٰ کرے گا اور جس نے برے اعمال ظاہر کیے ہم اسے امن نہیں دیں گے اور نہ اس کی تصدیق کیں گے اگرچہ وہ کہتا ہو کہ اس کا باطن اچھا ہے۔ صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 2466 حدیث موقوف مکررات 1
یہ حدیث میں نے اس پوائینٹ پر سنائی کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ سبحان و تعالٰی وحی کے ذریعے کسی بھی شخص کے بارے میں خبر کر سکتے تھے کہ وہ غلط کہہ رہا ہے یا صحیح مگر مجھے اسکا جواب یہ دیا گیا کہ یہ موقوف حدیث ہے یعنی اسکی سند ایک صحابی (رض) پر جا رکتی ہے اس لئے اسے دلیل نہیں بنایا جاسکتا ۔
تو کیا یہ بات درست ہے کہ اس کی سند ٹھیک نہیں؟
میں نے یہ بھی پڑھا ہے کہ اگر موقوف حدیث، صحت کے اعتبار سے صحیح کے درجے پر تب بھی اس سے حکم اخذ نہیں کیا جاسکتا۔ مگر کیا ایسی احادیث سے معلومات تو لی جاسکتی ہیں نا؟ جیسےاوپر والی حدیث سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کا مواخذہ وحی کے ذریعے کیا جاتا تھا؟
جزاک اللہِ خیر
جواب موقوف حدیث کا مطلب ہے کہ یہ صحابی کا قول فعل یا عمل ہے چونکہ اس میں یہ گمان آ سکتا ہے کہ ہو سکتا ہے یہ صحابی کی اپنی رائے ہواس وجہ سے اس کا درجہ مرفوع سے کم ہے
اگر سند متصل ہو اور راوی ہم عصر اور ثقہ ہوں اور کوئی اور علت نہ ہو تو اس کی سند صحیح ہے
اپ نے جو حدیث حدیث پیش کی ہے وہ بخاری کی ہے اور سندآ صحیح ہے
عموما کسی نہ کسی معاملہ میں کوئی نہ کوئی مرفوع حدیث بھی ہوتی ہے اور موقوف کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے .
جی معلومات لی جا سکتی ہے
[کیا فضائل میں ضعیف پر عمل ہو سکتا ہے؟ ]
نہیں یہ غلطی لوگ کرتے رہے ہیں
بعض لوگوں نے قیاس کے مقابلے میں ضعیف کو فوقیت دی تھی لیکن بعد میں ان ضعیف روایات نے عقائد میں ایک اضطراب برپا کیا ہے لہذا ان کو چھوڑنا چاہیے
[/EXPAND]
[امام بخاری نے الصحیح میں اللات کے بارے میں ان رآویوں سے روایت لکھی ہے جو خود ان کے نزدیک ضعیف ہیں ؟]
جواب
لات عزی اور منات قرآن کے مطابق دیویاں تھیں
قرآن کہتا ہے
أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الأُخْرَى أَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الأُنْثَى تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزَى إِنْ هِيَ إِلا أَسْمَاءٌ سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بهَا من سُلْطَان
کیا تم نے اللَّاتَ، َالْعُزَّى اور ایک اور تیسری مَنَاةَ کو دیکھا؟ کیا تمہارے لئے تو ہوں لڑکے اور اس کے لئے لڑکیاں؟ یہ تو بڑی غیر منصفانہ تقسیم ہوئی! یہ تو صرف چند نام ہیں، جو تم نے اور تمہارے اباؤ اجداد نے رکھ دیے ہیں، الله کی طرف سے ان پر کوئی سند نہیں اتری
اللات طائف میں، العُزَّى مکہ میں اور مَنَاة مدینہ میں عربوں کی خاص دیویاں تھیں
تاریخ کی کتب کے مطابق عرب طواف میں پکارتے
وَاللاتِ وَالْعُزَّى وَمَنَاةَ الثَّالِثَةِ الأُخْرَى … فَإِنَّهُنَّ الْغَرَانِيقُ الْعُلَى وَإِنَّ شفاعتهن لَتُرْتَجَى
اور اللاتِ اور الْعُزَّى اور ایک اور تیسری مَنَاةَ
یہ تو بلند پرند نما حسین (دیویاں) ہیں اور بے شک ان کی شفاعت گونجتی ( قبول کی جاتی) ہے
صحیح بخاری کی حدیث ہے
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَشْهَبِ، حَدَّثَنَا أَبُو الجَوْزَاءِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فِي قَوْلِهِ: {اللَّاتَ وَالعُزَّى} [النجم: 19] «كَانَ اللَّاتُ رَجُلًا يَلُتُّ سَوِيقَ الحَاجِّ
أَبُو الجَوْزَاءِ کہتا ہے کہ ابن عباس رضی الله عنہ نے کہا {اللَّاتَ وَالعُزَّى} [النجم: 19] الله کے قول پر کہا کہ اللَّاتُ ایک شخص تھا جو حاجیوں کو ستو پلاتا تھا
اس کی سند میں أَبُو الجَوْزَاءِ ہے جس کا نام أَوْس بن عبد الله یا أَوْس بن خَالِد لیا جاتا ہے
الکامل از ابن عدی کے مطابق
سَمِعْتُ مُحَمد بْنَ أَحْمَدَ بْنِ حَمَّادٍ يَقُولُ: قَالَ البُخارِيّ أوس بْن عَبد الله الربعي أبو الجوزاء البصري فِي إسناده نظر
محمد بن احمد بن حماد کہتے ہیں بخاری نے کہا أوس بْن عَبد الله الربعي أبو الجوزاء البصري کی اسناد پر نظر ہے
بخاری تاریخ الکبیر میں کہتے ہیں
وَقَالَ لَنَا مُسَدد: عَنْ جَعفَر بْنِ سُليمان، عَنْ عَمرو بْنِ مَالِكٍ النُّكرِي، عَنْ أَبي الْجَوْزَاءِ، قَالَ: أَقَمْتُ مَعَ ابْنِ عَبّاس، وَعَائِشَةَ، اثْنَتَيْ عَشَرَةَ سَنَةً، لَيْسَ مِنَ الْقُرْآنِ آيَةٌ إلاَّ سألتُهم عَنْها. قَالَ مُحَمد: فِي إِسْنَادِهِ نَظَرٌ.
مسدد نے جعفر سے انہوں نے َعمرو بْنِ مَالِكٍ النُّكرِي سے انھوں نے أَبي الْجَوْزَاءِ سے روایت کیا کہ میں ابن عباس اور عائشہ رضی الله عنہما کے ساتھ ١٢ سال رہا قرآن کی کوئی ایسی آیت نہیں جس پر ان سے سوال نہ کیا ہو – امام بخاری نے کہا اس کی اسناد پر نظر ہے
لگتا ہے بخاری سے تسامح ہوا اور أَبُو الجَوْزَاءِ کی روایت صحیح بخاری میں نقل ہوئی کیونکہ صحیح میں أَبُو الجَوْزَاءِ کی یہ واحد روایت ہے
ابن حجر تہذیب التہذیب میں کہتے ہیں
” وقول البخاري في إسناده نظر ويختلفون فيه إنما قاله عقب حديث رواه له في التاريخ من رواية عمرو بن مالك البكري, والبكري “ضعيف عنده” وقال ابن عدي: “حدث عنه عمرو بن مالك قدر عشرة أحاديث غير محفوظة وأبو الجوزاء روى عن الصحابة وأرجو أنه لا بأس به ولا يصح روايته عنهم أنه سمع منهم وقول البخاري في إسناده نظر يريد أنه لم يسمع من مثل بن مسعود وعائشة وغيرهما إلا أنه ضعيف عنده وأحاديثه مستقيمة”.
اور بخاری کا قول اس کی اسناد میں نظر ہے اور اس پر اختلاف کیا ہے بے شک انہوں نے تاریخ الکبیر میں اس کی روایت جو عمرو بن البکری سے ہے اس کے بعد کہا یہ کہا ہے اور البکری ہی ضعیف ہے اور ابن عدی نے کہا ہے کہ ان سے البکری نے دس روایات بیان کی ہیں جو محفوظ نہیں اور ابو الجوزاء صحابہ سے روایت کرتے ہیں اور امید ہے کہ ان میں کوئی برائی نہیں اور ان کی روایت ان سے صحیح نہیں اور بخاری کا کہنا ان کی اسناد پر نظر ہے تو اس سے مراد ہے کہ انہوں نے ابن مسعود اور عائشہ اور دیگر سے نہیں سنا
لیکن بخاری نے تاریخ الکبیر میں ابن عباس سے اور عائشہ رضی الله عنہما سے سنے پر اسنادہ نظر کہا ہے لہذا معاملہ واضح نہیں رہا کیونکہ لات والی روایت ابن عباس سے ابو الجوزاء نے بیان کی ہے
ابن عدی نے الکامل میں ابو الجوزاء کو ضعیف راویوں میں شمار کیا اور لکھا
ويقول البُخارِيّ فِي إسناده نظر أَنَّهُ لم يسمع من مثل بن مسعود وعائشة وغيرهما إلا أَنَّهُ ضعيف عنده
اور بخاری نے کہا ان کی اسناد پر نظر ہے انہوں نے ابن مسعود اور عائشہ سے نہیں سنا خبردار یہ ان کے نزدیک ضعیف ہے
ابو الجوزاء ہی وہ راوی ہے جو عائشہ رضی الله عنہا سے روایت کرتا ہے کہ قحط پر انہوں نے لوگوں کو حکم دیا کہ حجرہ کی چھت ہٹا دی جائے حتی کہ قبر نبی اور آسمان میں کوئی چیز نہ ہو اور اس عمل پر خوب بارش ہوئی
تفسیر کی کتابوں یہ ستو پلانے والے کا قول مجاہد سے بھی منسوب کیا گیا ہے جو ابن عباس کے شاگرد تھے ممکن ہے لات ایک شخص ہو جس کی روح صخرہ یا چٹان میں سما جانے کا تصور ہو اور چونکہ صخرہ یا چٹان مونث ہے تو یہ وقت کے ساتھ ایک دیوی بن گئی ہو
[/EXPAND]
[ کیا صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین حدیث رسول کی تصدیق کے معاملے میں کم از کم دو گواہیاں طلب کرتے تھے ]
جیسا کہ اس حدیث میں بیان ہوا ہے
صحیح حدیث میں ہے کہ حضرت ابو موسیٰ (رض) ، حضرت عمر فاروق (رض) کے پاس گئے ۔ تین دفعہ اجازت مانگی ، جب کوئی نہ بولا تو آپ واپس لوٹ گئے ۔ تھوڑی دیر میں حضرت عمر نے لوگوں سے کہا ! دیکھو عبداللہ بن قیس (رض) آنا چاہتے ہیں ، انہیں بلا لو لوگ گئے ، دیکھا تو وہ چلے گئے ہیں ۔ واپس آکر حضرت عمر (رض) کو خبر دی ۔ دوبارہ جب حضرت ابو موسیٰ (رض) اور حضرت عمر (رض) کی ملاقات ہوئی تو حضرت عمر (رض) نے پوچھا آپ واپس کیوں چلے گئے تھے ؟ جواب دیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کا حکم ہے کہ تین دفعہ اجازت چاہنے کے بعد بھی اگر اجازت نہ ملے تو واپس لوٹ جاؤ ۔ میں نے تین بار اجازت چاہی جب جواب نہ آیا تو میں اس حدیث پر عمل کر کے واپس لوٹ گیا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا اس پر کسی گواہ کو پیش کرو ورنہ میں تمہیں سزا دوں گا ۔ آپ وہاں سے اٹھ کر انصار کے ایک مجمع میں پہنچے اور سارا واقعہ ان سے بیان کیا اور فرمایا کہ تم میں سے کسی نے اگر حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کا یہ حکم سنا ہو تو میرے ساتھ چل کر عمر (رض) سے کہہ دے ۔ انصار نے کہا یہ مسئلہ تو عام ہے بیشک حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ہے ہم سب نے سنا ہے ہم اپنے سب سے نو عمر لڑکے کو تیرے ساتھ کر دیتے ہیں ، یہی گواہی دے آئیں گے۔ چنانچہ حضرت ابو سعید خدری (رض) گئے اور حضرت عمر (رض) سے جاکر کہا کہ میں نے بھی حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) سے یہی سنا ہے ۔ حضرت عمر (رض) اس وقت افسوس کرنے لگے کہ بازاروں کے لین دین نے مجھے اس مسئلہ سے غافل رکھا
جواب
حدیث کو تواتر اور خبر واحد میں تقسیم کیا گیا ہے تواتر کی روایات ایک ہجوم پیش کرتا ہے جس کا کذب پر جمع ہونا نہ ممکن لگتا ہے اس میں راوی ضعیف بھی ہوتے ہیں ثقہ بھی اور ایسی روایات صرف چند روایات ہی ہیں – دوسری نوع خبر واحد کی ہے جس کو ایک صحابی بیان کرے ایسی روایات پر اختلاف رہا ہے کہ ان سے کیا کیا ثابت ہوتا ہے اہل رائے کے نزدیک یعنی احناف کے نزدیک اس سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا جبکہ متقدمین اہل حدیث اس کو قابل اعتماد سمجھتے رہے ہیں
آپ نے جو حدیث پیش کی ہے وہ خود ایک خبر واحد ہے اور اس میں صرف یہ ہے کہ عمر رضی الله عنہ کو شک ہوا کہ ابو موسی رضی الله عنہ صحیح بات پیش نہیں کر رہے یہ عمر رضی الله عنہ کا مخصوص عمل ہے جو انہوں نے دیگر اصحاب کے ساتھ نہیں کیا اور بہت سے موقعہ پر صرف ایک صحابی یا تابعی کی بات کو قبول کر لیا لیکن یہ تمام قبول رد عمل میں تھا عقیدے میں اس کی مثال نہیں ملتی
امام شافعی نے بھی اس پر بحث کی لیکن وہ بھی فقہی مسائل کی بحث میں ہے نہ کہ عقائد میں متاخرین اہل حدیث نے اخبار احاد سے عقائد کا اثبات کیا ہے
اب اس تمہید کے بعد یہ بات کہ صحابہ، قول رسول پر دو گواہیاں طلب کرتے تھے درست نہیں – عمر اور ابو موسی کی اس خبر واحد کے علاوہ کوئی اور دلیل نہیں ہے- اگر ایسا ہوتا تو یہ بات تواتر سے نقل ہوئی چاہیے تھی
[/EXPAND]
[کیا عمر رضی الله عنہ نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ کو حدیث رسول سنانے پر مدینہ بدر کی دھمکی دی]
جواب یہ روایت تاریخ دمشق اور تاریخ ابو زرعہ میں ہے
سعيد بن عبد العزيز عن إسماعيل بن عبيد الله عن السائب بن يزيد قال سمعت عمر بن الخطاب يقول لأبي هريرة لتتركن الحديث عن رسول الله (صلى الله عليه وسلم) أو لألحقنك بأرض دوس وانقطع من كتاب أبي بكر كلمة معناها دوس وقال لكعب لتتركن الحديث أو لألحقنك بأرض القردة
سعید بن عبد العزیز کہتے ہیں اسمعیل نے السائب بن يزيد رضی الله عنہ سے کہ انہوں نے عمررضی الله عنہ کو ابو بریرہ رضی الله عنہ سے کہتے سنا کہ رسول الله سے حدیث روایت کرنا چھوڑو ورنہ تم کو ارض دوس اور کعب الاحبار کو کہا کہ تم کو بندروں کی زمین میں بدر کروں گا
اس قول کی سند میں سعيد بن عبد العزيز ہیں جو اختلاط کا شکار ہو گئے تھے البتہ شعيب الأرناؤوط نے اس کو سير أعلام النبلاء پر تعلیق میں صحیح قرار دیا ہے
الذھبی نے خود تبصرہ کیا
قُلْتُ: هَكَذَا هُوَ كَانَ عُمَرُ -رَضِيَ اللهُ عَنْهُ- يَقُوْلُ: أَقِلُّوا الحَدِيْثَ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-. وَزَجَرَ غَيْرَ وَاحِدٍ مِنَ الصَّحَابَةِ عَنْ بَثِّ الحَدِيْثِ، وَهَذَا مَذْهَبٌ لِعُمَرَ وَلِغَيْرِهِ
مصنف عبد الرزاق میں ایک اثر ہے کہ ابو ہریرہ رضی الله عنہ نے کہا
أخبرنا عبد الرزاق، عن معمر، عن الزهري قال: قال أبو هريرة لما ولي عمر، قال: أقلوا الرواية عن رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا فيما يعمل به، قال: ثم يقول أبو هريرة: أفإن كنت محدثكم بهذه الأحاديث وعمر حي؟ أما والله إذا لالفيت المخفقة ستباشر ظهري.
اگر میں جو کچھ بھی اب روایت کرتا ہوں اگر عمر زندہ ہوتے اور میں روایت کرتا تو وہ میری پیٹھ پر مارتے
ابن کثیر البدایہ و النہایہ میں روایت پیش کرتے ہیں
يَحْيَى بنُ أَيُّوْبَ: عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ:
أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ كَانَ يَقُوْلُ: إِنِّي لأُحَدِّثُ أَحَادِيْثَ، لَوْ تَكَلَّمْتُ بِهَا فِي زَمَنِ عُمَرَ، لَشَجَّ رَأْسِي
ابو ہریرہ کہتے کہ میں جو حدیثیں روایت کرتا ہوں اگر عمر کے زمانے میں کرتا تو وہ سر مونڈھ دیتے
لیکن یہ روایت بھی منقطع ہے
ابن عجلان لم يسمع من أبي هريرة
ابن عجلان کا سماع ابو ہریرہ سے نہیں
کتاب معرف الصحابه از ابو نعیم میں ہے
سَمَّاهُ مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ قَالَ: اسْمُ أَبِي هُرَيْرَةَ بَرِيرٌ. وَلَمْ يُتَابَعْ عَلَيْهِ. إِنَّمَا هُوَ وَهْمٌ
مروان بن محمد الطاطری نے سعید بن عبد العزیز سے سنا کہ ابو ہریرہ کا نام بریر تھا اس قول کی کوئی متابعت نہیں کرتا اور یہ وہم ہے
[/EXPAND]
[کیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے خواب میں سنی گئی بات حدیث ہے ؟]
جواب
مسند علي بن الجَعْد بن عبيد الجَوْهَري البغدادي (المتوفى: 230هـ) میں ہے
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: نا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَنَا وَحَمْزَةُ الزَّيَّاتُ، مِنْ أَبَانَ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ خَمْسَ مِائَةِ حَدِيثٍ، أَوْ ذَكَرَ أَكْثَرَ، فَأَخْبَرَنِي حَمْزَةُ قَالَ: «رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَنَامِ، فَعَرَضْتُهَا عَلَيْهِ، فَمَا عَرَفَ مِنْهَا إِلَّا الْيَسِيرَ خَمْسَةَ أَوْ سِتَّةَ أَحَادِيثَ، فَتَرَكْتُ الْحَدِيثَ عَنْهُ»
ھم کو عبد الله بن محمد بن عبد العزيز البغوي نے خبر دی کہ سوید نے بیان کیا کہ علی نے بیان کیا انہوں نے اور حمزہ نے ابان سے سنیں ہزار احادیث یا کہا اس سے زیادہ پس حمزہ نے خبر دی کہ میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا ان پر وہ ہزار روایات پیش کیں تو رسول الله صرف پانچ یا چھ کو پہچان پائے پس اس پر میں نے ابان بن ابی عیاش کی احادیث ترک کیں
امام مسلم نے صحیح کے مقدمہ میں اس قول کو نقل کیا ہے
ابان بن ابی عیاش کو محدثین منکر الحدیث ، متروک ، کذاب کہتے ہیں اور امام ابو داود سنن میں روایت لیتے ہیں
ابان سے متعلق قول کا دارومدار سوید بن سعيد الحَدَثاني پر ہے جو امام بخاری کے نزدیک منكر الحديث ہے اور يحيى بن معين کہتے حلال الدم اس کا خون حلال ہے
یعنی یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا خواب اور اس میں جرح کا قول خود ضعیف ہے جو امام مسلم نے پیش کیا ہے
سوید بن سعيد اختلاط کا شکآر ہوئے اور اغلبا یہ روایت بھی اسی وقت کی ہے
لہذا خواب میں سن کر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بات بیان کرنا حدیث نہیں اور یہ قول بھی جرح کے لئے نا قابل قبول ہے
لیکن ظاہر ہے محدثین کا ایک گروہ جرح و تعدیل میں خواب سے دلیل لے رہا تھا جبکہ اس کی ضرورت نہ تھی
[/EXPAND]
[ امام بخاری نے جارجی عمران القطان تک کی روایت صحیح میں لکھی ہے جو علی رضی الله عنہ کے قاتل کی تعریف کرتا تھا]
صحیح بخاری کے راوی عمران بن حطان کا بن ملجم کی شان میں قیصدہ
عمران بن حطان خارجی صحیح بخاری کا راوی ہے جس نے ابن ملجم ملعون کی شان میں قصیدہ لکھا۔
قصیدہ کا ترجمہ
ایک متقی شخص کی کیسی اچھی ضرب تھی جس کو لگانے سے اس کی نیت صرف یہ تھی کہ اللہ صاحب عرش کی رضا حاصل کرے۔ میں جب اس کو یاد کرتا ہوں تو یہ گمان کرتا ہوں کہ اس کا عمل اللہ کی تمام مخلوق سے زیادہ بھاری ہے۔ کیسی بزرگ قوم تھی جن کی قبریں زمین کے پیٹ میں بنی ہوئی ہیں جن لوگوں نے اپنے دین کی بغاوت اور سرکشی سے مخلوط نہ ہونے دیا۔
لطائف علمیہ ترجمہ کتاب الاذکیا تالیف امام ابن جوزی ترجمہ مولانا اشتیاق احمد صفحہ 308-309 طبع اسلامی کتب خانہ
جواب
کتاب النجوم الزاهرة في ملوك مصر والقاهرة از آبن تغري میں تاریخ الاسلام الذھبی میں اسی طرح ابن الجوزی کی الاذکیا میں اس کا ذکر ہے
وفيها توفي عمران بن حطان «3» السدوسي الخارجي، كان شاعر الخوارج؛ وروى عن أبي موسى وعائشة رضي الله عنهما، وكان عمران فصيحاً قبيح الشكل، وكانت زوجته جميلة، فدخل عليها يوماً وهي بزينتها فأعجبته وعلمت منه ذلك، فقالت: أبشر فإني وإياك في الجنة؛ قال: ومن أين علمت؟ قالت: لأنك أعطيت مثلي فشكرت، وأنا ابتليت بمثلك فصبرت، والصابر والشاكر في الجنة. ومن شعره فى عبد الرحمن ابن ملجم وقومه:
يا ضربةً من تقي ما أراد بها … إلا ليبلغ من ذي العرش رضوانا
إنّى لأذكره يوما فأحسبه … أو فى البرية عند الله ميزانا
أكرم بقومٍ بطون الطير أقبرهم … لم يخلطوا دينهم بغياً وعدوانا
یہ بات صحیح ہے کہ عمران خارجی ہے اور اس سے صحیح بخاری میں روایت لکھی گئی ہے
بخاری نے يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حِطَّانَ سے روایت لی ہے اور اس کی دو روایات ہیں
پہلی حدیث
إِنَّمَا يَلْبَسُ الحَرِيرَ فِي الدُّنْيَا مَنْ لاَ خَلاَقَ لَهُ فِي الآخِرَةِ
جس نے دنیا میں ریشم پہنا اس کو یہ آخرت میں اسکا حصہ نہ ملے گا
دوسری حدیث
لَمْ يَكُنْ يَتْرُكُ فِي بَيْتِهِ شَيْئًا فِيهِ تَصَالِيبُ إِلَّا نَقَضَهُ
رسول الله گھر میں کوئی ایسی چیز جس پر صلیب ہو اس میں نقص کیے بغیر نہیں چھوڑتے
ان دو روایات کی تصحیح میں اہل تشیع ، اہل سنت اور خوارج سب یک زبان ہیں تو اس میں کیا قباحت ہے
بخاری نے عمران کی کوئی ایسی روایت نہیں لکھی جس سے علی کی یا اہل بیت کی تنقیص ہوتی ہو
واضح رہے کہ ایسی روایات جن میں شیعہ کو یا خوارج کو جہنم کے کتے کہا گیا ہو وہ سب بعد کی پیدا وار معلول روایات ہیں
[/EXPAND]
[صحیح البخاری میں بندروں کے رجم کا واقعہ نقل ہوا ہے ؟]
جواب
صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں ایک مقام پر ایک راوی عمرو بن میمون کہتا ہے کہ اس نے دیکھا کہ بندروں نے ایک زانی بندر کو رجم کیا – عمرو بن میمون دور نبوی میں معآذ رضی الله عنہ کے ہاتھ پر ایمان لایا لیکن نبی صلی الله علیہ وسلم سے ملاقات نہ ہوئی اور یمن سے کوفہ منتقل ہوا
صحیح بخاری کا اثر ہے
حَدَّثَنا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، قَالَ: «رَأَيْتُ فِي الجَاهِلِيَّةِ قِرْدَةً اجْتَمَعَ عَلَيْهَا قِرَدَةٌ، قَدْ زَنَتْ، فَرَجَمُوهَا، فَرَجَمْتُهَا مَعَهُمْ» , (خ) 3849
ہم سے نعیم بن حماد نے روایت کیا اس سے ہشیم نے اس نے عمرو بن میمون سے کہ عمرو نے کہا میں نے جاہلیت میں بندروں کو دیکھا جو جمع ہوئے اور بندر کو دیکھا جس نے زنا کیا تھا پس اس کو رجم کیا اور میں نے بھی انکے ساتھ رجم کیا
کتاب الاستيعاب في معرفة الأصحاب از ابن عبد البر میں عمرو بْن مَيْمُون الأودي کے ترجمہ میں اس پر تبصرہ ہے
وَهُوَ الَّذِي رأى الرجم فِي الجاهلية من القردة إن صح ذَلِكَ، لأن رواته مجهولون. وَقَدْ ذَكَرَ الْبُخَارِيُّ عَنْ نُعَيْمٍ، عَنْ هُشَيْمٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونَ الأَوْدِيِّ مُخْتَصَرًا، قَالَ: رَأَيْتُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ قِرْدَةً زَنَتْ فَرَجَمُوهَا- يَعْنِي الْقِرَدَةَ- فَرَجَمْتُهَا مَعَهُمْ. ورواه عباد بْن العوام، عَنْ حُصَيْن، كما رواه هشيم مختصرا، وأما القصة بطولها فإنها تدور على عبد الملك بن مسلم، عن عيسى ابن حطان، وليسا ممن يحتج بهما، وَهَذَا عِنْدَ جماعة أهل العلم منكر إضافة الزنا إِلَى غير مكلف، وإقامة الحدود فِي البهائم، ولو صح لكانوا من الجن، لأن العبادات فِي الجن والإنس دون غيرهما، وقد كَانَ الرجم في التوراة.
اور یہی وہی راوی ہے جس نے ایام جاہلیت میں بندروں کے رجم کا واقعہ دیکھا اگر یہ صحیح ہے لیکن اس میں مجھول راوی ہیں اور بے شک امام بخاری نے عَنْ نُعَيْمٍ، عَنْ هُشَيْمٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونَ الأَوْدِيِّ کی سند سے اس کو مختصرا نقل کیا ہے کہا میں عمرو نے جاہلیت میں ایک بندر دیکھا جس نے زنا کیا تھا پس رجم کیا گیا اور میں نے ان کے ساتھ رجم کیا اور اسکو روایت کیا ہے عباد بْن العوام، عَنْ حُصَيْن سے جیسا هشيم نے کیا مختصر اور جہاں تک قصہ کا تعلق ہے تو اس کو تفصیلا عبد الملك بن مسلم، عن عيسى ابن حطان سے روایت کیا ہے جو نا قابل دلیل ہیں اور ایک اہل علم کی جماعت کے نزدیک (یہ تمام واقعہ) منکر ہے غیر مکلف پر زنا کی اضافت کے لئے اور چوپایوں پر اقامت حدود کے لئے اور اگر صحیح بھی ہوتا تو ممکن ہے یہ جنات ہوں کیونکہ عبادت جن و انس پر ہے دوسروں پر نہیں ہے اور بے شک رجم کا ذکر توریت میں ہے
البانی کتاب مُخْتَصَر صَحِيحُ الإِمَامِ البُخَارِي مكتَبة المَعارف للنَّشْر والتوزيع، الرياض میں صحیح بخاری کے اس اثر پر لکھتے ہیں
قلت: هذا أثر منكر؛ إذ كيف يمكن لإنسان أن يعلم أن القردة تتزوج، وأن من خلقهم المحافظة على العرض، فمن خان قتلوه؟ ثم هب أن ذلك أمر واقع بينها، فمن أين علم عمرو بن ميمون أن رجم القردة إنما كان لأنها زنت؟! وأنا أظنُّ أن الآفة من شيخ المصنف نعيم بن حماد؛ فإنه ضعيف متهم، أو من عنعنة هشيم؛ فإنه كان مدلسًا، لكن ذكر ابن عبد البر في” الاستيعاب” (3/ 1205) أنه رواه عباد بن العوام أيضاً عن حصين كما رواه هشيم مختصراً. قلتُ: وعباد هذا ثقة من رجال الشيخين، وتابعه عيسى بن حطان عن عمرو بن ميمون به مطولاً. أخرجه الإسماعيلي. وعيسى هذا وثقه العجلي، وابن حبان، وروايته مفصلة تبعد النكارة الظاهرة من رواية نعيم المختصرة، وقد مال الحافظ إلى تقويتها؛ خلافاً لابن عبد البر. والله أعلم
میں البانی کہتا ہوں : یہ اثر منکر ہے ایک انسان کیسے پتا کر سکتا ہے کہ بندر شادی شدہ تھا …… اور کیسے عمرو بن میمون کو پتا چلا کہ بندر زانی تھا اور میں سمجھتا ہوں اس میں آفت مصنف کے شیخ نعيم بن حماد کی وجہ سے ہے جو ضعیف متهم (قابل الزام) ہے یا پھر ہشیم کا عنعنہ ہے کیونکہ وہ مدلس ہے جس کا ذکر ابن عبد البر نے الاستيعاب میں کیا ہے اس کو عباد بن العوام نے حصين بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ سے روایت کیا ہے جیسا ہشیم نے کیا مختصرا کیا ہے میں البانی کہتا ہوں عباد ثقہ ہے صحیحین کے رجال میں سے ہے اور اس کی متابعت کی ہے عيسى بن حطان عن عمرو بن ميمون نے اس کی تخریج الاسماعیلی نے کی ہے اور یہ عیسیٰ ثقہ ہے عجلی اور ابن حبان کے مطابق اور جو روایت مفصل ہے وہ اس سے الگ ہے جو نعیم کی مختصر روایت ہے اور اسی طرف حافظ عسقلانی کا میلان ہوا ہے ابن عبد البر کی بات کے خلاف و اللہ اعلم
البانی کے مطابق ابن حجر سے غلطی ہوئی ہے جنہوں نے ابن عبد البر کی مخالفت کی جو اس اثر کو منکر کہتے تھے اور البانی نے نزدیک روایت میں یا تو تدلیس ہوئی ہے یا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ (ضعیف) کی وجہ ہے لہذا البانی اس اثر کو رد کرتے ہیں
ابن جوزی کتاب كشف المشكل من حديث الصحيحين میں کہتے ہیں
وَهَذَا فِي بعض النّسخ بالبخاري لَا فِي كلهَا، وَلَيْسَ فِي رِوَايَة النعيمي عَن الْفربرِي
یہ رجم کا واقعہ بخاری کے کچھ نسخوں میں ہے سب میں نہیں ہے اور نہ ہی النعيمي کی الْفربرِي سے روایت والے نسخے میں یہ ہے
الْفربرِي کا نسخہ تمام نسخوں میں سب سے بہتر سمجھا جاتا ہے
اسی طرح بخاری کے شارح الکرمانی (بحوالہ منحة الباري) کہتے ہیں
أن هذه الحكاية لم توجد في بعض نسخ البخاري
یہ حکایت بخاری کے بعض نسخوں میں نہیں ملی
ابن قتیبہ کتاب : تأويل مختلف الحديث میں کہتے ہیں
قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: وَقَدْ يُمْكِنُ أَنْ يَكُونَ رَأَى الْقُرُودَ تَرْجُمَ قِرْدَةً، فَظَنَّ أَنَّهَا تَرْجُمُهَا لِأَنَّهَا زَنَتْ، وَهَذَا لَا يَعْلَمُهُ أَحَدٌ إِلَّا ظَنًّا لِأَنَّ الْقُرُودَ لَا تُنْبِئُ عَنْ أَنْفُسِهَا وَالَّذِي يَرَاهَا تَتَسَافَدُ، لَا يَعْلَمُ أَزَنَتْ، أَمْ لَمْ تَزْنِ؟ هَذَا ظَنٌّ.
ابن قتیبہ کہتے ہیں : ممکن ہے عمرو نے بندروں کو ایک بندر کو رجم کرتے دیکھا ہو پس اس نے گمان کیا کہ یہ اس کو رجم کر رہے ہیں کیونکہ یہ زانی ہے اور یہ کوئی نہیں جان سکتا سوائے اس کے وہ ظن کرے یہ کوئی اپنے آپ نہیں جان سکتا اور جو اس نے دیکھا اس میں الجھ گیا نہیں جان سکا کہ بندر نے زنا کیا تھا یا نہیں سو یہ (عمرو کا) گمان ہے
الغرض یہ آوٹ پٹانگ اثر ہے اور بخاری کے کاتبوں کی غلطی ہے کہ مولف امام بخاری کوئی بات انہوں نے صحیح کا حصہ سمجھ کر لکھ دی اسکی دلیل ہے کہ صحیح بخاری کے باقی نسخوں میں یہ موجود نہیں
رجم کا حکم توریت کا ہے – یمن میں یہود کا اثر تھا اور عمرو بن میمون نے جو یمنی تھا اس کے بقول اس نے یہ ہوتے ہوئے دیکھا یعنی توریت کا حکم بندروں میں بھی رواج پذیر تھا ممکن ہے عمرو کا مقصد ہو کہ بندروں کو یہود کے ان مسخ ہو جانے والے گروہوں میں بتائے لیکن قرآن کے مطابق جو قومیں بھی مسخ ہوئیں ان کی نسل نہ چلی
وَحَرَامٌ عَلَى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا أَنَّهُمْ لا يَرْجِعُونَ
أور حرام ہے بستی پر جس کو ہم ہلاک کر دیں کہ وہ واپس پلٹ سکیں
سوره الانبیاء
یعنی تمام مسخ شدہ قوموں کی نسل معدوم ہو گئی
روایت پرست علماء نے ان تمام علماء کو منکرین حدیث قرار دے دیا ہے جنہوں نے اس روایت پر اعتراض کیا ہے مثلا البانی جو اس کو منکر کہتے ہیں ان پر بھی زبیر علی زئی نے منکر حدیث کا فتوی لگا دیا ہے
زبیر علی کے مطابق بندر جن تھے جو توریت کا حکم نافذ کر رہے تھے! جنوں کا جانور کی شکل میں ٹھوس جسم اختیار کرنا خود محتاج دلیل ہے
[/EXPAND]
[صحیح بخاری و مسلم کی روایات میں ابراہیم علیہ السلام کے لئے کذب کا کہا گیا ہے ؟ روایت کے الفاظ غیر مناسب ہیں ؟]
جواب
توریہ کہتے ہیں زبان دانی میں الفاظ کے کھیل کو کہ آپ بات بدل دیں ایسے کہ سننے والا مفھوم کچھ اور سمجھے
) التورية (أو الإِيهام أو التخييل) هى أن يذكر المتكلم لفظًا مفردًا له معنيان، قريب ظاهر غير مراد، وبعيد خفىّ هو المراد.
توریہ یا الإِيهام یا التخييل یہ یہ ہے کہ متکلم ایک لفظ کا ذکر کرے جو ذو معنی ہوں جو ظاہری ہو وہ مراد نہ ہو بلکہ جو بعید ہوں وہ مراد ہو
غریب الحدیث میں قاسم بن سلام (المتوفى: 224هـ) کہتے ہیں
قَالَ أَبُو عُبَيْدٍ: وَلَا أرَاهُ مأخوذًا إِلَّا من وَرَاء الْإِنْسَان لِأَنَّهُ إِذا قَالَ: وريته – فَكَأَنَّهُ إِنَّمَا جعله وَرَاءه حَيْثُ لَا يظْهر
میں نہیں دیکھتا کہ یہ ماخوذ ہو وَرَاء الْإِنْسَان سے (انسان کے پیچھے سے) ابو عبید نے کہا وريته بلاشبہ کہا گیا ہے پس اس کو کر دیا پیچھے کیونکہ یہ ظاہر نہیں ہوا
اس کو قرآن نے ابراہیم کے لئے بیان کیا دو مقام پر کہ انہوں نے قوم کو دھوکہ دیا اور کہا
{بل فعله كبيرهم هذا}
بلکہ یہ اس بڑے (صنم) نے کیا ہے
{فنظر نظرة في النجوم فقال إني سقيم}
پس اس نے ستاروں پر نظر ڈالی اور کہا میں بیمار ہوں
تیسرا ان کا توریہ حدیث میں مذکور ہے کہ انہوں نے بیوی کو بہن کہا کہ مشرک بادشاہ دھوکہ کھا جائے
روایت میں اسکو کذب کہا گیا ہے تَوْرِيَة نہیں کہا گیا
لَمْ يَكْذِبْ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ إِلَّا ثَلَاثًا
اس کو وجہ یہ ہے کہ دور نبوی میں یہ لفظ عربی میں مستعمل نہیں تھا
یہ الفاظ کے مفھوم میں معمولی فرق ہے ایک مثبت لیا جاتا ہے ایک منفی لیکن جب تَوْرِيَة کا لفظ نہیں تھا اس وقت سیاق و سباق سے کذب کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جاتا تھا
اس لئے یہ وہ مثبت کذب ہے یا توریہ ہے جو دروغ گوئی کے مفھوم پر نہیں ہے کیونکہ ابراہیم کو قوم پر چوٹ لگانی تھی اور ہجرت کے دوران کسی غیر ضروری مسئلہ میں نہیں الجھنا تھا کیونکہ ان کو حکم تھا کہ ارض مقدس کی طرف کوچ کریں
کہا جا سکتا ہے کہ جو الله کا رسول ہو جو اللہ سے ہی ڈرتا ہو وہ چھپ کر کیوں بت توڑے گا اور کیوں ستاروں کو دیکھے گا ؟ جامد سوچ والے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انبیاء اپنے معاشروں سے کٹے ہوئے لوگ تھے ان کا عام لوگوں سے کوئی تعلق نہیں تھا نہ وہ بازار جاتے نہ معاش کا سوچتے تھے – اس کے برعکس ابراہیم یہ بہانہ کرتے ہیں وہ بیمار ہونے کا بہانہ کرتے ہیں وہ ستاروں کو دیکھتے ہیں اور ستارہ پرستوں کو دھوکہ دیتے ہیں وہ بت توڑ کر معصوم بننے کی حرکت کرتے ہیں – ہم سب اس پر ایمان لاتے ہیں یہ دعوت کا انداز ہے جو معاشرہ کی کیفیت دیکھ کر بالاخر کرنا پڑا
قرآن نے ابراہیم کے عمل پر کوئی تبصرہ نہیں کیا صرف واقعہ بیان کیا ہے – ابراہیم کی قوم کے نزدیک وہ جھوٹ بولتے تھے کہ انہوں نے بت نہیں توڑے یا وہ بیمار تھے اسی لئے ان کو نذر آتش کیا – ابراہیم علیہ السلام الله پر بھروسہ کرنے والے تھے انہوں نے اپنی بیوی ہاجرہ علیہ السلام کو بے آباد مقام پر چھوڑ دیا- کیا خبر کوئی ڈاکو اتا اور قتل کرتا – (أور ایسا ہوا بھی کہ ابراہیم کے جاتے ہی قبیلہ جرھم کا قافلہ وہاں سے گزرا ) ابراہیم کو اسکا خیال نہیں آیا – انہوں نے سارہ علیہ آلسلام کو بھی ایک مشرک بادشاہ کے حوالے کیا لیکن الله کے بھروسے پر نہ کہ بادشاہ کے خوف ہے ڈر کر – تدبیر اور تقیہ کی اپنی ایک مصلحت ہوتی ہے – حدیث پر تنقید سے پہلے قرآن میں کیا بتاتا جا رہا ہے اس کو مخالف مشرک کی نظر سے سمجھنا ضروری ہے تاکہ دعوت کے اندز میں فرق کو سمجھا جا سکے
اعتراض اول
بعض لوگوں نے حدیث پر اعتراض کیا ہے کہ ابراہیم تو بوڑھے تھے سارہ بھی بوڑھی ہوں گی – پتا نہیں یہ ان کو کیسے معلوم ہوا
جواب
یہ واقعہ ہجرت کے وقت پیش آیا جب ابراہیم بابل سے ارض مقدس کی طرف جا رہے تھے ابراہیم اس وقت جوان تھے جیسا کہ قرآن میں ہے کفار نے کہا ہم نے ایک جوان (فتی) کو جس کو ابراہیم کہا جاتا ہے معبودوں پر جرح کرتے سنا ہے
لہذا اس وقت سارہ اور ابرہیم عالم شباب میں تھے نہ کہ بوڑھے
اعتراض دوم
نام میں ھاجر کہا گیا ہے جو کافر کے ساتھ تک بندی ہے
یہ فن استعارہ اور کنایہ کا ایک شاہکار استعمال ہے اور وہ بھی اس انداز سے کہ تلک امکم یعنی یہ کہنا کہ یہ ہے تمہاری ماں
جواب
ھاجر ہی اصل نام ہے جو عربی کا لفظ نہیں ہے ابراہیم کی زبان کا یا اس علاقے کی زبان کا لفظ ہے جس طرح سارہ اور ابراہیم اس کا عربی سے کوئی تعلق ہی نہیں
اسلام کے بعد ھاجرة کہا گیا کیونکہ عربی میں جو ابراہیم سے بھی پرانی زبان ہے اس میں ھاجر ہجرت کرنے والے کے لئے کہا جاتا ہے لہذا اس نام کو معرب کیا گیا تائے تانث لگا کر
اعتراض سوم
روایت کے الفاظ غلیظ ہیں ابو ہریرہ نے کہا
قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ فَتِلْكَ أُمُّكُمْ يَا بَنِي مَاءِ السَّمَاءِ
یہ ہے تمہاری ماں، اے اوپر سے گرنے والے پانی کی اولاد ۔
اے آسمانی پانی کی اولاد ! یہ بہت گہرے مفہوم کی گالی اور تبرا ہے۔
جواب
اے آسمان کے پانی کی نسل
اس کا صحیح ترجمہ ہے
ابن حبان صحیح میں کہتے ہیں
قَالَ أَبُو حَاتِمٍ: كُلُّ مَنْ كَانَ مِنْ وَلَدِ هَاجَرَ يُقَالُ لَهُ: وَلَدُ مَاءِ السَّمَاءِ، لِأَنَّ إِسْمَاعِيلَ مِنْ هَاجَرَ، وَقَدْ رُبِّيَ بِمَاءِ زَمْزَمَ وَهُوَ مَاءُ السَّمَاءِ الَّذِي أَكْرَمَ اللَّهُ بِهِ إِسْمَاعِيلَ حَيْثُ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ هَاجَرُ، فَأَوْلَادُهَا أولاد ماء من السماء.
ہر وہ شخص جو هَاجَرَ کی نسل سے ہے اس کو آسمان کے پانی کی اولاد کہا گیا ہے کیونکہ اسماعیل وہ ہیں جنہوں نے ہجرت کی اور ان کی پرورش زمزم کے پانی پر ہوئی جو آسمان کا پانی ہے جس سے الله نے انکی تکریم کی اسماعیل کی اور انکی ماں کی پس انکی اولاد آسمانی پانی کی نسل ہے
لہذا یہ کوئی غلیظ زبان نہیں بلکہ تکریم ہے سوچ سوچ کا فرق ہے
[/EXPAND]
[ کیا روایت میری امت کے کچھ لوگ ہمیشہ غالب رہیں گے ، یہاں تک کہ قیامت یا موت آئے گی اس وقت بھی وہ غالب ہی ہوں گے ۔ صحیح ہے ؟ ]
اس کا یہ ترجمہ غلط ہے روایت ہے
سَمِعْتُ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ “ لاَ يَزَالُ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ ظَاهِرُونَ ”
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
میری امت کے لوگ غالب رہیں گے یہاں تک کہ الله کا حکم آ جائے اور یہ غالب ہوں گے
اس کو إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ کی سند سے روایت کیا گیا ہے
روایت صحیح نہیں معلول ہے قیس کوفہ میں آخری عمر میں اختلاط کا شکار تھے اس میں انہوں نے عجیب و غریب روایات بیان کین مثلا یہ اس حالت میں حواب کے کتوں والی روایت بھی بیان کرتے تھے
سنن ابو داود میں ہے
حدَّثنا موسى بن إسماعيلَ، حدَّثنا حماد، عن قتادةَ، عن مُطَرِّفٍ عن عمران بن حصين، قال: قال رسول الله -صلَّى الله عليه وسلم-: “لا تزال طائفةٌ من أُمتي يقاتِلون على الحق ظاهرين على من ناوأَهم حتى يُقاتِل آخرُهُم المسيحَ الدجّالَ
یہاں سند میں قتادہ مدلس عن سے روایت کر رہے ہیں قتال کرنے والے مراد لئے گئے ہیں یہ نکتہ ذہن میں رکھیں اس پر بحث ہو گی
ابن ماجہ کی سند ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي مَنْصُورِينَ، لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ»
اس کی سند میں شعبہ ہیں جو اس کے انکاری تھے کہ قرہ کوئی صحابی تھے دیکھئے العلل امام احمد
ابن ماجہ کی دوسری سند ہے
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَلْقَمَةَ نَصْرُ بْنُ عَلْقَمَةَ، عَنْ عُمَيْرِ بْنِ الْأَسْوَدِ، وَكَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ: «لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي قَوَّامَةً عَلَى أَمْرِ اللَّهِ، لَا يَضُرُّهَا مَنْ خَالَفَهَا
البانی اس کو حسن کہتے ہیں اس میں ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا میری امت میں ایک گروہ کو زوال نہ ہو گا جو الله کے امر کو قائم رہیں گے انکو کوئی مخالف نقصان نہ دے سکے گا
حدیث کی کتب میں یہ روایت أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ کی سند سے بھی ہے لیکن ان کا سماع مشکوک ہے اور وہی روایت لی جاتی ہے جو لیث کی سند سے ہوں اس مخصوص روایت کو لیث بیان نہیں کرتے
مسند احمد اور صحیح مسلم کی روایت ہے
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، أَنَّ عُمَيْرَ بْنَ هَانِئٍ، حَدَّثَهُ، قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ، عَلَى هَذَا الْمِنْبَرِ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي قَائِمَةً بِأَمْرِ اللَّهِ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ أَوْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَهُمْ [ص:129] ظَاهِرُونَ عَلَى النَّاسِ» فَقَامَ مَالِكُ بْنُ يَخَامِرٍ السَّكْسَكِيُّ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ سَمِعْتُ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، يَقُولُ: «وَهُمْ أَهْلُ الشَّامِ» فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: وَرَفَعَ صَوْتَهُ هَذَا مَالِكٌ، يَزْعُمُ أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاذًا، يَقُولُ: «وَهُمْ أَهْلُ الشَّامِ»
عُمَيْرَ بْنَ هَانِئٍ کہتا ہے اس نے معاویہ رضی الله عنہ کو منبر پر سنا کہ انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا میری امت کا گروہ زوال کا شکار نہ ہو گا الله کے امر پر قائم رہے گا ان کو دھوکہ دینے والا نقصان نہ دے سکے گا اور یا مخالفت نہ کر سکیا گا یہاں تک کہ الله کا امر آ جائے اور وہ لوگوں پر غالب رہیں گے پس مالک بْنُ يَخَامِرٍ السَّكْسَكِيُّ کھڑے ہوئے انھوں نے کہا میں نے معآذ بن جبل کو سنا وہ کہتے یہ اہل شام ہیں اور معاویہ نے کہا اور آواز بلند کی یہ مالک ہیں اور ان کا دعوی ہے کہ انہوں نے معآذ سے وہ اہل شام ہیں
محدث أحمد بن أبي الحَواري عبد الله بن مَيمون اس کے راوی عُمَيْرَ بْنَ هَانِئٍ کے لیے کہتے : إني لأبغضه میں اس سے نفرت کرتا ہوں اسی طرح محدث سعيد بن عبد العزيز اس کی روایت نہیں لیتے تھے
روایت کے مطابق معاویہ رضی الله عنہ کومعآذ بن جبل کی بات جو مالک بْنُ يَخَامِرٍ السَّكْسَكِيُّ تابعي نے بیان کی پسند آئی جو خود ایک عجیب بات ہے کہ ایک صحابی کو تائید میں تابعي کی بات پیش کرنی پڑ رہی ہے ورنہ شاید کوئی مانتا نہیں؟
روایت میں طائفہ منصورہ سے مراد اہل شام ہیں! معلوم نہیں امام احمد نے اس کو مسند میں کیا سوچ کر لکھا کیونکہ ان سے منسوب ایک قول ہے کہ یہ طائفہ اہل حدیث ہیں (جو فن حدیث و علل کی بحث کرتے ہیں )جبکہ امام احمد کی یہ تاویل غلط ہے روایت کی شرح جو معآذ رضی الله عنہ سے منسوب ہے اس کے مطابق یہ صرف اہل شام ہیں
صحیح بخاری میں بھی یہی روایت ہے
حَدَّثَنَا الحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا الوَلِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ جَابِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَيْرُ بْنُ هَانِئٍ، أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاوِيَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «لاَ يَزَالُ مِنْ أُمَّتِي أُمَّةٌ قَائِمَةٌ بِأَمْرِ اللَّهِ، لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ، وَلاَ مَنْ خَالَفَهُمْ، حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ عَلَى ذَلِكَ» قَالَ عُمَيْرٌ: فَقَالَ مَالِكُ بْنُ يُخَامِرَ: قَالَ مُعَاذٌ: وَهُمْ بِالشَّأْمِ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: هَذَا مَالِكٌ يَزْعُمُ أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاذًا يَقُولُ: وَهُمْ بِالشَّأْمِ
اس میں بھی اس طائفہ سے مراد اہل شام لئے گیے ہیں نہ کہ اہل علم- خود بخاری میں ایک باب ہے جس میں امام بخاری نے اس سے مراد اہل علم لئے ہیں کیا علم صرف شام میں ہے ؟
مسند احمد کی روایت ہے
حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: ” لَا يَزَالُ لِهَذَا الْأَمْرِ – أَوْ عَلَى هَذَا الْأَمْرِ – عِصَابَةٌ عَلَى الْحَقِّ، وَلَا يَضُرُّهُمْ خِلَافُ مَنْ خَالَفَهُمْ، حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللهِ
سند میں مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ مدلس ہیں عن سے روایت کر رہے ہیں
کتاب ميزان الاعتدال في نقد الرجال از الذھبی کے مطابق
وقال عبد الرحمن بن القاسم: قيل لمالك: إن ناسا من أهل العلم يحدثون.
قال: من هم؟ فقيل له: ابن عجلان.
فقال: لم يكن ابن عجلان يعرف هذه الأشياء، ولم يكن عالما
امام مالک ابن عجلان کے بارے میں کہتے اس کو احادیث کا نہیں پتا اور عالم نہیں ہے
مستدرک الحاکم کی روایت ہے
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحِ بْنِ هَانِئٍ، ثَنَا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى، ثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، ثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ الرَّبِيعِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخْرِجَاهُ ” وَقَدْ رَوَاهُ ثَوْبَانُ، وَعِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
سند میں قتادہ مدلس اور سُلَيْمَانَ بْنِ الرَّبِيعِ ضعیف ہے امام بخاری کہتے ہیں لا يُعرَف سماع قتادة من ابن بُرَيدة، ولا ابن بُرَيدة من سليمان بن الرَّبيع قتادہ کا سماع ابن بریدہ سے نہیں اور نہ ابن بریدہ کا سلیمان سے ہے
حیرت ہے امام حاکم اور الذھبی دونوں اس کو صحیح کہتے ہیں
صحیح مسلم کی حدیث ہے
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، وَأَبُو الرَّبِيعِ الْعَتَكِيُّ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ وَهُوَ ابْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ، لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ، حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللهِ وَهُمْ كَذَلِكَ»، وَلَيْسَ فِي حَدِيثِ قُتَيْبَةَ: وَهُمْ كَذَلِكَ
سند میں أبو قلابة عبد اللبن زيد الجرمي ہیں جن کا ذكر الذهبي نے ميزان میں کیا ہے کہ
انه كان يدلس عمن لحقهم وعمن لم يلحقهم وكان له صحف يحدث منها ويدلس.
جس سے ملے ہوں اس سے اور جس نے نہ ملے ہوں ان سب سے تدلیس کرتے ہیں
کتابوں میں یہ روایت عن قتادة، عن أبي الأسود الدِّيلي قال: خَطَب عمرُ بن الخطاب کی سند سے بھی ہے
کتاب الجامع التحصیل از العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق
ظالم بن عمرو أبو الأسود الدؤلي ويقال عمرو بن ظالم وقيل غير ذلك وهو بكنيته أشهر قال الواقدي أسلم على عهد النبي صلى الله عليه وسلم قلت لم يره فروايته عنه مرسلة وكذلك عن أبي بكر الصديق رضي الله عنه وفي حديثه عن عمر رضي الله عنه تردد
أبو الأسود الدؤلي کی عمر رضی الله عنہ سے روایات پر تردد ہے
وقت نے ثابت کر دیا ہے یہ روایت صحیح نہیں ہے امت پر ایک وقت تھا تمام عالم میں ملغوبیت تھی
اور کفار کا ہر اسلامی ملک پر قبضہ تھا لہذا یہ کسی سیاسی غلبہ سے مراد نہیں ہے کیونکہ ایسا رہا نہیں
اس حدیث کی شروحات میں اقوال ہیں
امام بخاری خود صحیح میں باب میں لکھتے ہیں
باب قَوْلِ النبيِّ – صلى الله عليه وسلم -: “لاَ تَزَالُ طَائفَةٌ مِنْ أُمَّتي ظَاهِرينَ عَلَى الحَقِّ يُقَاتِلُونَ”، وَهُمْ أهْلُ العِلْمِ
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا قول کہ ایک میری امت میں گروہ زوال کا شکار نہ ہو گا غالب رہیں گے حق پر اور قتال کریں گے اور اس سے مراد اہل علم ہیں
اس کے تحت یہ حدیث لکھتے ہیں جو آپ نے پیش کی ہے
امام بخاری نے اس کو علمی جہاد قرار دے دیا خود امام بخاری کسی جہاد کا حصہ نہ بنے بلکہ قلمی و علمی جہاد کرتے تھے
کتاب تهذيب الأسماء واللغات از امام النووی میں ہے النووی کہتے ہیں
ففى الصحيحين أن النبى – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قال: “لا تزال طائفة من أمتى ظاهرين على الحق لا يضرهم خذلان من خذلهم” (2) . وجملة العلماء أو جمهورهم على أنهم حملة العلم
اس حدیث سے مراد اہل علم ہیں
اب صحیح مسلم کی ایک حدیث دیکھئے
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَزَالُ أَهْلُ الْغَرْبِ ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ، حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ»
سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اہل مغرب حق پر غالب رہیں گے انکو زوال نہ ہو گا یہاں تک کہ قیامت قائم ہو
آج اہل مغرب کون ہیں جو غالب ہیں
اس کی سند میں داود بن ابی ہند ہیں جو مختلف فیہ ہیں احمد ثقہ کہتے ہیں اور كان كثير الاضطراب والخلاف بھی کہتے ہیں
کتاب موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله
کے مطابق امام احمد سے سوال ہوا
وسئل عن: حديث النبي – صلى الله عليه وسلم -: «لا تزال طائفة من أمتي ظاهرين على الحق لا يضرهم من خالفهم حتى يأتي أمر الله. وهم على ذلك» .
• قال: هم أهل المغرب، إنهم هم الذين يقاتلون الروم. كل من قاتل المشركين، فهو على الحق. «سؤالاته» (2041)
حدیث رسول کہ میری امت کا گروہ حق پر غالب رہے گا انکو مخالفین نقصان نہ دے سکیں گے یہاں تک کہ الله کا حکم آ جائے تو یہ کون ہیں ؟ امام احمد نے کہا یہ اہل مغرب ہیں جو روم سے قتال کر رہے ہیں جو بھی مشرکین سے قتال کرے وہ حق پر ہے
لیکن امام احمد نے خود اس طائفہ منصورہ کا حصہ بننا پسند نہ کیا بلکہ بغداد میں ہی بیٹھے رہے ان کو چاہیے تھا کہ روم جاتے اور قتال کرتے
محقق محمد فؤاد عبد الباقي کتاب المسند الصحيح المختصر بنقل العدل عن العدل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم میں صحیح مسلم کی تعلیق پی لکھتے ہیں
قال علي بن المديني المراد بأهل الغرب العرب
امام علی المدینی نے کہ اہل مغرب سے مراد عرب کے مغرب والے ہیں
یعنی یہ تیسرا قول ہے جو اس بحث کو کم کرنے کی بجائے بڑھا رہا ہے
آپ دیکھ سکتے ہیں امام احمد کہتے تھے یہ اہل مغرب ہیں اور امام بخاری کہتے یہ اہل علم ہیں اور امام علی کہتے یہ عرب کے مغرب کے لوگ ہیں
ترمذی نے کہا
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ الرَّحَبِيِّ، عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّمَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي الأَئِمَّةَ المُضِلِّينَ»، قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى الحَقِّ ظَاهِرِينَ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ يَخْذُلُهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ»: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ [ص:505] يَقُولُ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ المَدِينِيِّ يَقُولُ: _ وَذَكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ _ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ عَلَى الحَقِّ» فَقَالَ عَلِيٌّ: هُمْ أَهْلُ الحَدِيثِ
امام بخاری نے کہا میں نے امام علی کو کہتے سنا کہ یہ لوگ اہل حدیث ( محدثین) ہیں
محدثین یا اہل حدیث سے مراد وہ لوگ تھے جو حدیث کی روایت کرتے تھے اور اس کی علت کی بحث کرتے تھے – یہ اب معدوم ہیں لہذا اس روایت کا تعلق ان سے بھی نہیں
متضاد آراء | ائمہ |
شام میں ایک گروہ وَهُمْ أَهْلُ الشَّامِ |
معاویہ رضی الله عنہ –
صحیح مسلم صحیح بخاری |
قتال کرنے والے / اہل علم =
ظَاهِرينَ عَلَى الحَقِّ يُقَاتِلُونَ”، وَهُمْ أهْلُ العِلْمِ |
امام بخاری |
روم سے قتال کرنے والے – هم أهل المغرب، إنهم هم الذين يقاتلون الروم. | امام احمد |
اہل مغرب / اہل حدیث / أهل الغرب العرب | امام علی المدینی |
شام میں سکونت کرنے والے راویوں نے اس کو شام کے لئے خاص کرنے کی کوشش کی ہے اور بعض نے اس کو سیاسی غلبہ سے یا قتال سے مخصوص کیا ہے
احادیث میں ہے
ایمان اجنبی ہو جائے گا
امت ٧٢ فرقوں میں بٹ جائے گی
اس دین کی اصل زمین پر یعنی عرب میں ذوالخلصہ کی پوجا ہو گی
دجال عرب پر غلبہ پا جائے گا سوائے مدینہ کے یہاں تک کہ کعبه کا طواف کرے گا
صحیح سند سے بخاری کی روایت ہے
حَدَّثَنا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: قَالَ حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ، خَطِيبًا يَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ يُعْطِي، وَلَنْ تَزَالَ هَذِهِ الأُمَّةُ قَائِمَةً عَلَى أَمْرِ اللَّهِ، لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ، حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ» ,
حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ کہتے ہیں انہوں نے معاویہ رضی الله عنہ کو سنا انہوں نے ہم کو خطبہ دیا اور کہا میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا انہوں نے فرمایا الله جس کو خیر دینا چاہتا ہے اس کو دین میں سمجھ کا علم دیتا ہے اور بے شک میں (علم) باٹنے والا ہوں اور الله (علم) عطا کرنے والا ہے اور یہ امت الله کے کام سے نہیں ہٹے گی الله کے امر پر قائم رہے گی اس کو اس کی مخالفت کرنے والے نقصان نہ دے سکیں گے یہاں تک کہ الله کا امر آ جائے
یہ روایت صحیح ہے اور اس امت میں علم پر شام والوں کی اجارہ داری نہیں ہے نہ ہی اس میں مطلقا قتال کرنے والوں کا ذکر ہے نہ اہل مغرب کا ذکر ہے بلکہ الله کسی بھی علاقے کے شخص پر الله رحم کر سکتا ہے- یہاں روایت میں امت سے مراد بھی صحیح العقیدہ لوگ ہیں نہ کہ قبر پرست اولیاء پرست اور اکابر پرست
معاویہ رضی الله عنہ ایک اور حدیث بھی بیان کرتے تھے کہ اس امت میں بارہ خلفاء آئیں گے اور ان کو کوئی نقصان نہ دے سکے گا
طائفہ منصورہ والی روایت کو میں بارہ خلفاء سے جوڑتا ہوں میرے نزدیک یہ وقت گزر چکا
[/EXPAND]
[کیا صحیح بخاری مکمل کرنے کے بعد امام بخاری نے اس کو امام احمد پر پیش کیا اور انہوں نے تحسین کی؟]
جواب
یہ سب جھوٹی کہانیاں ہیں جو لوگوں نے اپنے اماموں کے غلو میں گھڑی ہیں
اس کی مثال ہے صحيح بخاري کی روایت ہے
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يُهْلِكُ النَّاسَ هَذَا الحَيُّ مِنْ قُرَيْشٍ» قَالُوا: فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: «لَوْ أَنَّ النَّاسَ اعْتَزَلُوهُمْ» قَالَ: مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، سَمِعْتُ أَبَا زُرْعَةَ
مجھ سے محمد بن عبدالرحيم نے بيان کيا ، کہاہم سے ابومعمر اسماعيل بن ابراہيم نے بيان کيا ، کہاہم سے ابواسامہ نے بيان کيا ، کہا ہم سے شعبہ نے بيان کيا ، ان سے ابوالتياح نے ، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہريرہ رضي اللہ عنہ نے بيان کيا کہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا : اس قريش کا یہ محلہ لوگوں کو ہلاک وبرباد کردے گا ? صحابہ نے عرض کيا : اس وقت کے ليے آپ ہميں کيا حکم کرتے ہيں ؟ نبی صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا : کاش لوگ ان سے الگ رہتے ? محمود بن غيلان نے بيان کيا کہ ہم سے ابوداود طيالسي نے بيان کيا ، کہا ہم کو شعبہ نے خبردي ، انہيں ابوالتياح نے ، انہوں نے ابوزرعہ سے سنا
مسند احمد میں امام احمد اس کو منکر کہتے ہیں
حدثنا محمَّد بن جعفر، حدثنا شُعبة، عن أبي التَّيَّاح، قال: سمعت أبا زُرعة، يحدث عن أبي هريرة، عن النبي – صلى الله عليه وسلم -، قال: “يُهلكُ أمتي هذا الحيُّ من قريبٌ”، قالوا: في تأمُرُنا يا رسول الله؟، قال: “لو أن الناس اعتزلوهم”. [قال عبد الله بن أحمد]: وقال أبي- في مرضه الذي مات فيه: اضرب على هذا الحديث، فإنه خلافُ الأحاديث عن النبي – صلى الله عليه وسلم -، يعني قوله: “اسمعوا وأطيعوا واصبروا”.
ابو ہریرہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میری امت کو یہ محلہ جلد ہی ہلاک کرے گا ہم نے پوچھا آپ ہم کو کیا حکم کرتے ہیں اے رسول الله ! فرمایا کاش کہ لوگ ان سے الگ رہتے عبد الله بن احمد کہتے ہیں میں نے اپنے باپ سے اس حالت مرض میں (اس روایت کے بارے میں) پوچھا جس میں ان کی وفات ہوئی احمد نے کہا اس حدیث کو مارو کیونکہ یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی احادیث کے خلاف ہے یعنی سمع و اطاعت کرو اور صبر کرو
امام احمد کا اضرب على هذا الحديث کہنا روایت کی شدید تضعیف ہے اور یہ الفاظ جرح کے لئے امام احمد اور امام أبو زرعة نے کئی راویوں کے لئے بھی استمعال کیے ہیں دیکھینے کتاب الجرح و التعدیل از ابن ابی حاتم
حدثنا عبد الرحمن قال سئل أبو زرعة عن الحسين بن عبد الله بن ضميرة فقال: ليس بشئ ضعيف الحديث، اضرب على حديثه
ابو زرعة نے ایک ضعیف راوی پر کہا اضرب على حديثه
امام احمد نے کہا أني أضرب على حديث سعيد بن سلام
أبو جعفر المدائني کی احادیث پر امام احمد نے کہا اضرب على حديثه، أحاديثه موضوعة
اس کی حدیث موضوعات ہے
عبد العزيز بن عبد الرحمن المدينى پر امام احمد نے کہا اضرب على احاديثه هي كذب أو قال موضوعة
اس کی حدیث کو مارو یہ کذب ہے
يوسف بن خالد پر امام ابو زرعہ نے کہا
ذاهب الحديث، ضعيف الحديث، اضرب على حديثه
الغرض اضرب على هذا الحديث کہنا روایت کی شدید تضعیف ہے
ظاہر ہے ایک صحیح حدیث کو پھینکنے کا حکم امام احمد کیوں کریں گے
دوسری دلیل ہے کہ امام بخاری نے ایک روایت صحیح میں نقل کی ہے کہ عمار کو باغی قتل کریں گے
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الوَهَّابِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ لَهُ وَلِعَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ائْتِيَا أَبَا سَعِيدٍ فَاسْمَعَا مِنْ حَدِيثِهِ، فَأَتَيْنَاهُ وَهُوَ وَأَخُوهُ فِي حَائِطٍ لَهُمَا يَسْقِيَانِهِ، فَلَمَّا رَآنَا جَاءَ، فَاحْتَبَى وَجَلَسَ، فَقَالَ: كُنَّا نَنْقُلُ لَبِنَ المَسْجِدِ لَبِنَةً لَبِنَةً، وَكَانَ عَمَّارٌ يَنْقُلُ لَبِنَتَيْنِ لَبِنَتَيْنِ، فَمَرَّ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَسَحَ عَنْ رَأْسِهِ الغُبَارَ، وَقَالَ: «وَيْحَ عَمَّارٍ تَقْتُلُهُ الفِئَةُ البَاغِيَةُ، عَمَّارٌ يَدْعُوهُمْ إِلَى اللَّهِ، وَيَدْعُونَهُ إِلَى النَّارِ»
امام احمد بھی اسی طرق کو مسند میں نقل کرتے ہیں
حَدَّثَنَا مَحْبُوبُ بْنُ الْحَسَنِ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ لَهُ وَلِابْنِهِ عَلِيٍّ: انْطَلِقَا إِلَى أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ فَاسْمَعَا مِنْ حَدِيثِهِ قَالَ: فَانْطَلَقْنَا فَإِذَا هُوَ فِي حَائِطٍ [ص:368] لَهُ، فَلَمَّا رَآنَا أَخَذَ رِدَاءَهُ فَجَاءَنَا فَقَعَدَ، فَأَنْشَأَ يُحَدِّثُنَا، حَتَّى أَتَى عَلَى ذِكْرِ بِنَاءِ الْمَسْجِدِ، قَالَ: كُنَّا نَحْمِلُ لَبِنَةً لَبِنَةً وَعَمَّارُ بْنُ يَاسرٍ يَحْمِلُ لَبِنَتَيْنِ لَبِنَتَيْنِ، قَالَ: فَرَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ يَنْفُضُ التُّرَابَ عَنْهُ، وَيَقُولُ: «يَا عَمَّارُ أَلَا تَحْمِلُ لَبِنَةً كَمَا يَحْمِلُ أَصْحَابُكَ؟» ، قَالَ: إِنِّي أُرِيدُ الْأَجْرَ مِنَ اللَّهِ، قَالَ: فَجَعَلَ يَنْفُضُ التُّرَابَ عَنْهُ، وَيَقُولُ: «وَيْحَ عَمَّارٍ تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ، يَدْعُوهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ، وَيَدْعُونَهُ إِلَى النَّارِ» قَالَ: فَجَعَلَ عَمَّارٌ يَقُولُ أَعُوذُ بِالرَّحْمَنِ مِنَ الْفِتَنِ
لیکن ابو بکر الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں کہ امام احمد اس روایت پر کہتے تھے
سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ، يَقُولُ: رُوِيَ فِي: «تَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» ثَمَانِيَةٌ وَعِشْرُونَ حَدِيثًا، لَيْسَ فِيهَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ
میں نے محمّد بن عبد الله بن ابراہیم سے سنا کہا میں نے اپنے باپ سے سنا کہتے تھے میں نے امام احمد بن حنبل سے سنا
عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا کو ٢٨ طرقوں سے روایت کیا ایک بھی صحیح نہیں
الخلال کہتے ہیں امام احمد کہتے اس پر بات تک نہ کرو
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَازِمٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَبَّاسِ الطَّيَالِسِيُّ، أَنَّ إِسْحَاقَ بْنَ مَنْصُورٍ حَدَّثَهُمْ، أَنَّهُ قَالَ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: قَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَمَّارٍ: «تَقْتُلُكَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» . قَالَ: «لَا أَتَكَلَّمُ فِيهِ»
الخلال کے مطابق بغداد کے دیگر محدثین کہتے
أَخْبَرَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ الْفَضْلِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَيَّةَ مُحَمَّدَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ يَقُولُ: سَمِعْتُ فِي حَلْقَةٍ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ وَيَحْيَى بْنَ مَعِينٍ وَأَبَا خَيْثَمَةَ وَالْمُعَيْطِيَّ ذَكَرُوا: «يَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» فَقَالُوا: مَا فِيهِ حَدِيثٌ صَحِيحٌ
اس سلسلے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے
امام احمد یہ بھی کہتے
قَالَ ابْنُ الْفَرَّاءِ: وَذَكَرَ يَعْقُوبُ بْنُ شَيْبَةَ فِي الْجُزْءِ الْأَوَّلِ مِنْ مُسْنَدِ عَمَّارٍ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ سُئِلَ عَنْ حَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَمَّارٍ: «تَقْتُلُكَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» . فَقَالَ أَحْمَدُ: كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَتَلَتْهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ. وَقَالَ: فِي هَذَا غَيْرُ حَدِيثٍ [ص:464] صَحِيحٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَرِهَ أَنْ يَتَكَلَّمَ فِي هَذَا بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا “، فَهَذَا الْكِتَابُ يَرْوِيهِ أَبُو الْقَاسِمِ عَبْدُ الْعَزِيزِ الْأَزَجِيُّ عَنِ ابْنِ حَمَّةَ الْخَلَّالِ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ يَعْقُوبَ بْنِ شَيْبَةَ، عَنْ جَدِّهِ يَعْقُوبَ
اس سلسلے میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے مروی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے اور احمد اس پر کلام کرنے پر کراہت کرتے
کہا جاتا ہے کہ امام احمد اس روایت کو صحیح سمجھتے تھے اس لئے مسند میں نقل کیا جبکہ مسند میں یہی روایت لکھ کر امام احمد اس کو منقطع قرار دیتے ہیںاور کہتے ہیں اس میں گڑبڑ جسن کی والدہ نے کی ہے
علم رجال کے ماہر ابن الجوزی کتاب العلل المتناهية في الأحاديث الواهية میں لکھتے ہیں
وأما قوله عليه السلام لعمار تقتلك الفيئة الباغية وقد أَخْرَجَهُ الْبُخَارِيّ من حديث أَبِي قَتَادَة وأم سلمة إلا أن أَبَا بَكْر الخلال ذكر أن أَحْمَد بْن حنبل ويحيى بْن معين وأبا خيثمة والمعيطي ذكروا هَذَا الحديث تقتل عمارًا الفيئة الباغية فقال فِيهِ ما فِيهِ حديث صحيح وأن أَحْمَد قال قد روى فِي عمار تقتله الفيئة الباغية ثمانية وعشرون حديثًا ليس فيها حديث صحيح”.
اور جہاں تک اس قول کا تعلق ہے کہ عمار کو با غی گروہ قتل کرے گا اس کی تخریج بخاری نے ابی قتادہ اور ام سلمہ کی حدیث سے کی ہے. بے شک ابو بکر الخلال نے ذکر کیا ہے کہ أَحْمَد بْن حنبل ويحيى بْن معين وأبا خيثمة والمعيطي نے اس باغی گروہ والی روایت کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے ایک بھی روایت صحیح نہیں. اور احمد نے ٢٨ روایات سے عمار تقتله الفيئة الباغية کو روایت کیا جن میں ایک بھی صحیح نہیں ہے
بالفرض مان لیتے ہیں کہ امام احمد کے سامنے صحیح بخاری رکھی گئی تو ظاہر ہے انہوں نے اس میں سے قابل اعتراض مواد نکلالنے کا کہا ہو گا امام بخاری نے انکار کیا ہو گا اس پر اختلاف رائے ہوا اور سند تائید نہ مل سکی
راقم کے نزدیک اس قسم کے تمام اقوال فرضی ہیں سب سے بڑھ کر بات یہ ہے خود امام احمد سے کوئی روایت براہ راست نہیں لی گئی بلکہ علی المدینی اور امام احمد کا مکالمہ وغیرہ دکھا کر انکی تنقیص کی گئی ہے
باب الصلوٰۃ فی السطوح والمنبرا (صحیح بخاری جلد او صفحہ۔ ۵۵۔۵۴
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ، قَالَ: سَأَلُوا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ: مِنْ أَيِّ شَيْءٍ المِنْبَرُ؟ فَقَالَ: مَا بَقِيَ بِالنَّاسِ أَعْلَمُ مِنِّي، هُوَ مِنْ أَثْلِ الغَابَةِ عَمِلَهُ فُلاَنٌ مَوْلَى فُلاَنَةَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، «وَقَامَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ عُمِلَ وَوُضِعَ، فَاسْتَقْبَلَ القِبْلَةَ، كَبَّرَ وَقَامَ النَّاسُ خَلْفَهُ، فَقَرَأَ وَرَكَعَ وَرَكَعَ النَّاسُ، خَلْفَهُ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ ثُمَّ رَجَعَ القَهْقَرَى، فَسَجَدَ عَلَى الأَرْضِ، ثُمَّ عَادَ إِلَى المِنْبَرِ، ثُمَّ رَكَعَ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، ثُمَّ رَجَعَ القَهْقَرَى حَتَّى سَجَدَ بِالأَرْضِ»، فَهَذَا شَأْنُهُ، قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: قَالَ عَلِيُّ بْنُ المَدِينِيِّ: ” سَأَلَنِي أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ رَحِمَهُ اللَّهُ عَنْ هَذَا الحَدِيثِ، قَالَ: فَإِنَّمَا أَرَدْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ أَعْلَى مِنَ النَّاسِ فَلاَ بَأْسَ أَنْ يَكُونَ الإِمَامُ أَعْلَى مِنَ النَّاسِ بِهَذَا الحَدِيثِ، قَالَ: فَقُلْتُ: إِنَّ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ كَانَ يُسْأَلُ عَنْ هَذَا كَثِيرًا فَلَمْ تَسْمَعْهُ مِنْهُ قَالَ: لاَ “
علی بن عبداللہ (المدینی) سفیان ے اور وہ ابو حازم سے روایت کرتے ہیں کہ سہیل بن سعد سے پوچھا گیا کہ منبر (نبوی) کس چیز کا تھا انہوں نے فرمایا اس بات کا جاننے والا لوگوں میں مجھ سے زیادہ (اب) کوئی باقی نہیں۔ وہ مقام (غابہ) کے جھاؤ کا تھا۔ فلاں عورت کے فلاں غلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بنایا تھا۔ جب وہ بنا کر رکھا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر کھڑے ہوئے اور قبلہ رو ہو کر تکبیر (تحریمہ) کہی اور لوگ آپﷺ کے پیچھے کھڑے ہوئے پھر آپﷺ نے قرأت کی اوررکوع فرمایا اور لوگوں نے آپﷺ کے پیچھے رکوع کیا پھر آپ ﷺ نے اپنا سر اٹھایا اس کے بعد پیچھے ہٹے یہاں تک کہ زمین پر سجدہ کیا۔ امام بخاری کہتے ہیں (حالانکہ یہ کہنے کی ضرورت نہ تھی) علی بن عبداللہ (المدینی) نے کہا کہ احمد بن حنبل نے مجھ سے یہ حدیث پوچھی تو میں نے کہا کہ میرا مقصود یہ ہے کہ نبی ﷺ لوگوں سے اوپر تھے تو یہ حدیث اس کی دلیل ہے کہ کچھ مضائقہ نہیں اگر امام لوگوں سے اوپر ہو۔ علی بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ (میرے اور تمہارے استاد) سفیان بن عیبنہ سے تو اکثریہ حدیث پوچھی جاتی تھی کہ کیا تم نے ان سے اس حدیث کو نہیں سنا احمد بن حنبل نے کہا نہیں۔
امام بخاری نے یہ بات لاکر ثابت کیا ہے کہ احمد بن حنبل ایسے شاگرد تھے کہ ان کے استادایک حدیث بار بار ذکر کرتے ہیں لیکن پھر بھی اسے نہ سُن پاتے تھے۔ امام احمد نے جب یہ متن اپنے حوالے سے پڑھا ہو گآ تو کیا انہوں نے اس کو پسند کیا ہو گا ؟ ظاہر ہے امام احمد پر صحیح بخاری پیش کیا جانا محض افسانہ ہے
بعض غالیوں نے الفاظ پیش کیے ہیں کہ امام علی المدینی نے امام احمدکو رحمہ الله کہا
جبکہ غور طلب ہے کہ علی الدینی کی وفات امام احمد سے پہلے ہوئی اور ایک زندہ شخص پر رحمہ الله کا لاحقہ کوئی نہیں لگاتا
دوسری جگہ امام بخاری باب شھرا عید لاینقصان میں امام احمد بن حنبل کا خاص ذکر کیا حالانکہ یہاں بھی ان کا ذکر کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی مگر محض انکی کی علمیت کو دکھایا گیا
طبع نول کشور لکهنو
ترجمہ: عید کے دونوں مہینے ناقص نہیں ہوتے۔
عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ اپنے والد ابوبکرہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دو مہینے ایسے ہیں کہ کم نہیں ہوتے یعنی عید کے دونوں مہینے رمضان اور ذی الحجہ۔
امام بخاری فرماتے ہیں کہ احمد بن حنبل نے کہا کہ اس کے معنیٰ یہ ہیں یعنی اگر رمضان کم دنوں کا (یعنی ۲۹ کا ہو تو ذی الحجہ پورا (تیس دنوں کا) ہوگا اور اگر ذی الحجہ کم دنوں کا (یعنی ۲۹ دنوں کا) تو رمضان پورا (یعنی ۳۰ دنوں کا) ہوگا۔
یہاں امام بخاری نے یہ ثابت کیا ہے کہ دیکھو امام احمد بن حنبل اس حدیث کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ رمضان اگر ۲۹ کا ہوگا تو ذی الحجہ ضرور تیس ہوگا۔ دونوں مہینے ۲۹ کے نہیں ہوتے حالانکہ بے حساب سال ایسے گزرے ہیں کہ جن میں دونوں مہینے ۲۹ کے ہوئے ہیں اسی لیے امام بخاری آگے (اپنے استاد) اسحاق بن راہویہ کی بات لے آئے کہ ابوالحسن بیان کرتے ہیں کہ اسحاق بن راہویہ کا کہنا ہے کہ اگر یہ مہینے چاہے ۲۹ کے ہوں یا تیس کے ان کی فضلیت میں کمی نہیں آتی۔
یہ متن اب جو صحیح بخاری چھپ رہی ہے اس سے نکال دیا گیا لیکن یہ انڈیا طبع نور کشور لکهنو سے چھپنے والی صحیح بخاری میں ہے اور جامع ترمذی میں ابھی تک ہے
قَالَ أَحْمَدُ: ” مَعْنَى هَذَا الحَدِيثِ: شَهْرَا عِيدٍ لَا يَنْقُصَانِ، يَقُولُ: لَا يَنْقُصَانِ مَعًا فِي سَنَةٍ وَاحِدَةٍ شَهْرُ رَمَضَانَ، وَذُو الحِجَّةِ، إِنْ نَقَصَ أَحَدُهُمَا تَمَّ الآخَرُ “، وقَالَ إِسْحَاقُ: ” مَعْنَاهُ لَا يَنْقُصَانِ يَقُولُ: وَإِنْ كَانَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ فَهُوَ تَمَامٌ غَيْرُ نُقْصَانٍ “،” وَعَلَى مَذْهَبِ إِسْحَاقَ يَكُونُ يَنْقُصُ الشَّهْرَانِ مَعًا فِي سَنَةٍ وَاحِدَةٍ
اسی طرح فتح الباری میں ابن حجر نے لکھا ہے
ثُمَّ وَجَدْتُ فِي نُسْخَةِ الصَّغَانِيِّ مَا نَصُّهُ عَقِبَ الْحَدِيثِ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ قَالَ إِسْحَاقُ تِسْعَةٌ وَعِشْرُونَ يَوْمًا تَامٌّ وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ إِنْ نَقَصَ رَمَضَانُ تَمَّ ذُو الْحِجَّةِ وَإِنَّ نَقَصَ ذُو الْحِجَّةِ تَمَّ رَمَضَانُ وَقَالَ إِسْحَاقُ مَعْنَاهُ وَإِنْ كَانَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ فَهُوَ تَمَامٌ غَيْرَ نُقْصَانٍ قَالَ وَعَلَى مَذْهَبِ إِسْحَاقَ يَجُوزُ أَنْ يَنْقُصَا مَعًا فِي سَنَةٍ وَاحِدَةٍ
پھر میں نے الصَّغَانِيِّ کے نسخے میں اس حدیث کے بعد یہ پایا کہ امام بخاری نے کہا کہ اسحاق نے کہا ٢٩ ہوں تو(بھی) پورا (ماہ) ہے اور احمد بن حنبل نے کہا اگر رمضان کم ہو تو ذو الحجہ مکمل ہو گا اور اگر ذو الحجہ کم ہو تو رمضان مکمل ہوگا
یعنی الصَّغَانِيِّ کے مطابق امام بخاری نے یہ بھی صحیح میں لکھا تھا لیکن جب لوگوں نے اس کو پڑھا تو اس کو امام احمد کی وجہ سے حذف کر دیا
ابن حجر سے بھی پہلے کتاب الكوثر الجاري إلى رياض أحاديث البخاري میںأحمد بن إسماعيل بن عثمان بن محمد الكوراني الشافعي ثم الحنفي المتوفى 893 هـ اسی متن کا صحیح بخاری کے حوالے سے ذکر کرتے ہیں
وقال أحمد: إن نقص رمضان تم ذو الحجة، وإن نقص ذو الحجة تم رمضان (وقال أبو الحسن: الظاهر أنه محمد بن مقاتل شيخ البخاري) (كان إسحاق بن راهويه يقول: لا ينقصان في الفضيلة).
القسطلانی ٩٢٣ ھ کتاب إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري میں اس کا ذکر کرتے ہیں کہ امام بخاری نے امام احمد کا ے قول نقل کیا
(قال أبو عبد الله) البخاري (إسحاق): هو ابن راهويه أو ابن سويد بن هبيرة العدوي (وإن كان) كل واحد من شهري العيد (ناقصًا) في العدد والحساب (فهو تام). في الأجر والثواب. (وقال محمد) هو ابن سيرين أو المؤلّف نفسه (لا يجتمعان كلاهما ناقص) كلاهما مبتدأ وناقص خبره والجملة حال من ضمير الاثنين. قال أحمد بن حنبل: إن نقص رمضان تم ذو الحجة وإن نقص ذو الحجة تم رمضان
اس بھی ظاہر ہوتا ہے کہ صحیح بخاری امام احمد پر پیش کی گئی محض افسانہ ہے
ابن کثیر کتاب البداية والنهاية میں ایک بے سند قول پیش کرتے ہیں
وَقَدْ أَثْنَى عَلَيْهِ عُلَمَاءُ زَمَانِهِ مِنْ شُيُوخِهِ وَأَقْرَانِهِ. فَقَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ: مَا أَخْرَجَتْ خُرَاسَانُ مِثْلَهُ.
امام احمد نے امام بخاری کے لئے کہا خراسان سے ان کی مثل کوئی نہیں نکلا
یہ ابن کثیر کی غلطی ہے الذھبی تذکرہ الحفاظ میں اس قول کو يحيى بن يحيى الإمام الحافظ شيخ خراسان کے لئے بتاتے ہیں
وقال عبد الله بن أحمد: سمعت أبي يثني على يحيى بن يحيى ويقول: ما أخرجت خراسان مثله
عبد الله بن احمد نے کہا میں نے اپنے باپ کو سنا وہ یحیی بن یحیی کی تعریف کرتے تھے اور کہتے کہ خراسان سے ان کی مثل کوئی نہ نکلا
یعنی خراسان سے يحيى بن يحيى الإمام الحافظ شيخ خراسان کی مثل کوئی نہیں نکلا تو پھر یہ امام بخاری کے لئے کیسے کہہ سکتے ہیں
امام احمد کے اقوال اور جرح و تعدیل میں ان کی رائے کا اپنا مقام ہے لیکن یہ کہنا کہ امام بخاری یا امام احمد میں اختلاف رائے نہ تھا تاریخ کو مسخ کرنا ہے
[/EXPAND]
[ کیا چوہے مسخ شدہ یہودی ہیں ؟ ]
جواب
صحیح بخاری کی روایت ہے
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ (وهيب بن خالد)، عَنْ خَالِدٍ (ابن مهران الحذاء)، عَنْ مُحَمَّدٍ (بْنِ سِيرِينَ)، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «فُقِدَتْ أُمَّةٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ لاَ يُدْرَى مَا فَعَلَتْ، وَإِنِّي لاَ أُرَاهَا إِلَّا الفَارَ، إِذَا وُضِعَ لَهَا أَلْبَانُ الإِبِلِ لَمْ تَشْرَبْ، وَإِذَا وُضِعَ لَهَا أَلْبَانُ الشَّاءِ شَرِبَتْ» فَحَدَّثْتُ كَعْبًا فَقَالَ: أَنْتَ سَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُهُ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ لِي مِرَارًا، فَقُلْتُ: أَفَأَقْرَأُ التَّوْرَاةَ؟
ابن سیرین ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل کی ایک امت غائب ہو گئی نہیں معلوم ان کے ساتھ کیا ہوا؟ اور بے شک میں دیکھتا ہوں کسی کو نہیں سوائے چوہے کے کہ جب اس کو اونٹ کا دودھ رکھا جائے تو نہیں پیتا اور جب بکری کا رکھا جائے تو پیتا ہے – ابو ہریرہ کہتے ہیں میں نے اس کو کعب الاحبار سے بیان کیا تو انہوں نے کہا کیا تم نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا ؟ میں نے کہا ہاں – پھر کعب نے دوبارہ پوچھا میں نے کہا کیا تو نے توریت پڑھی؟
اس روایت میں متنا بہت مسائل و اشکال ہیں
اول مدینہ میں معتوب علیہ اور مسخ شدہ قوم چوہوں کی شکل میں بھی تھی جو توریت کے حکم پر عمل کرتی تھی
دوم توریت میں مسخ شدہ اقوام کا کوئی ذکر نہیں
سوم اونٹ کا گوشت حرام ٹہرانا بنی اسرائیل کا خود ساختہ عمل تھا- یہود مدینہ کا رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر اعتراض تھا کہ یہ نبی تو حرام جانور کا گوشت یعنی اونٹ کا گوشت بھی کھاتا ہے
قرآن میں اس پر جواب دیا گیا ہے
كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِبَنِي إِسْرَائِيلَ إِلَّا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِيلُ عَلَى نَفْسِهِ مِنْ قَبْلِ أَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرَاةُ قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ
سارے کھانے بنی اسرائیل کے لئے حلال تھے سوائے وہ جو یعقوب نے اپنے اوپر حرام کیے ، توریت کے نازل ہونے سے پہلے پس توریت لاو اس کو پڑھو اگر تم سچے ہو
اس کی تفسیر میں جو روایات ہیں ان کے مطابق یعقوب علیہ السلام بیمار ہوئے تو انہوں نے منت مانی کہ جب وہ ٹھیک ہو جائیں گے تو اپنی مرغوب چیز اونٹ کا گوشت نہیں کھائیں گے – یعقوب علیہ السلام کے بعد اس پر بنی اسرائیل نے بھی عمل کیا
اب سوال یہ اتا ہے کیا توریت میں اس رسم و منت کو باقی رکھا گیا تو قرآن اشارہ کر رہا ہے کہ نہیں ایسا کوئی حکم توریت میں نہ تھا- یہ یہود کا ادخال ہے – توریت کے مطابق وہ جانور جن کا کھر بیچ میں سے ٹوٹا ہو وہ حلال ہیں اس بنیاد پر اونٹ بھی حلال ہے
اونٹ کا کھر
یہودی علماء کے مطابق اونٹ کا کھر نہیں ہوتا بلکہ اس کا پیر ناخن ہے یہ غیر سائنسی بات ہے – توریت میں تضاد بھی ہے کتاب الاستثنا میں ہے اونٹ کا کھر نہیں جبکہ کتاب لاوی میں ہے اونٹ کا کھر پیچ سے ٹوٹآ نہیں گویا کھر تو ہے پر جڑآ ہے – اس تضاد سے ظاہر ہے کہ یہودی حلقوں میں توریت تبدیل کرتے وقت اونٹ کا کھر ہی سمجھا جاتا تھا نہ کہ ناخن
روایت میں اس کے بر خلاف یہ بیان ہوا ہے کہ ابو ہریرہ رضی الله عنہ ان نکات سے واقف نہ تھے اور کعب الاحبار سے اس پر الجھتے تھے
چہارم صحیح روایات کے مطابق جو قومیں مسخ ہوئیں ان کی نسل نہ چلی – مشکل الاثار میں طحاوی کہتے ہیں
قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: فَكَانَ فِيمَا رُوِّينَا فِي الْبَابِ الَّذِي قَبْلَ هَذَا الْبَابِ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ قَوْلِهِ: ” إنَّ اللهَ لَمْ يُهْلِكْ قَوْمًا فَيَجْعَلَ لَهُمْ نَسْلًا وَلَا عَقِبًا ” مَا قَدْ دَلَّ أَنَّ مَا قَالَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْفَأْرِ وَفِي الْفَأْرَةِ [ص:327] عَلَى مَا فِي الْحَدِيثَيْنِ اللَّذَيْنِ رُوِّينَاهُمَا فِي هَذَا الْبَابِ، كَانَ مِنْهُ قَبْلَ أَنْ يُعْلِمَهُ اللهُ مَا أَعْلَمَهُ، مِنْ أَنَّهُ لَا يَجْعَلُ لِمَنْ أَهْلَكَ نَسْلًا وَلَا عَقِبًا. فَذَهَبَ بِذَلِكَ مَا كَانَ يَخْشَاهُ، وَحَدَّثَ بِمَا فِي هَذَا الْبَابِ عَنْهُ مَنْ لَمْ يَعْلَمْ مَا كَانَ مِنْهُ بَعْدَ ذَلِكَ مِمَّا قَدْ ذَكَرْنَاهُ فِي الْبَابِ الَّذِي قَبْلَ هَذَا الْبَابِ، وَثَبَتَ بِذَلِكَ لَمَّا كَانَ الْفَأْرُ مِنْ ذَوِي التَّنَاسُلِ , وَمِنْ ذَوِي الْأَعْقَابِ أَنَّهَا مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي قَدْ تَقَدَّمَ خَلْقُ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ إيَّاهُ مَسْخَهُ مِنْ مَسْخِهِ مِمَّنْ لَعَنَهُ مِنْ عِبَادِهِ إلَى مَا مَسَخَهُ إلَيْهِ , وَبِاللهِ عَزَّ وَجَلَّ التَّوْفِيقُ.
امام طحاوی کہتے ہیں … رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا گیا ہے بے شک الله نے جس قوم کو ہلاک کیا اس کی نسل اور کوئی باقی نہ چھوڑا … دوسری روایت میں ہے رسول الله نے خدشہ ظاہر کیا کہ چوہے ہیں … اور چوہے نسل والے ہوتے ہیں
طحاوی اس پر باب باندھتے ہیں
بَابُ بَيَانِ مُشْكِلِ مَا رُوِيَ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خَشْيَتِهِ أَنْ تَكُونَ الْفَأْرَةُ مِنَ الْمَمْسُوخِ وَهَلْ كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ مَأ رَفَعَ تِلْكَ الْخَشْيَةَ وَبَانَ بِهِ لَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا لَيْسَتْ مِنَ الْمَسُوخِ
باب إس مشکل کا بیان کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا گیا ہے کہ خوف ہے کہ چوہے مسخ شدہ ہیں اور پھر اس کے بعد اس خوف کو دور کیا گیا یہ بتا کر کہ یہ مسخ شدہ نہیں ہیں
یعنی اگر چوہے مسخ شدہ ہوتے تو انکی نسل ہی نہیں چلتی
اس روایت کی تمام اسناد میں خَالِدٍ (ابن مهران الحذاء) بصری اور ہشام بن حسان بصری کا تفرد ہے
کتاب الكواكب النيرات في معرفة من الرواة الثقات از ابن الكيال (المتوفى: 929هـ) کے مطابق خَالِدٍ (ابن مهران الحذاء) بصری کو ثقہ کہا گیا ہے لیکن ابو حاتم کہتے ہیں اس کی حدیث لکھ لو دلیل نہ لو
وقال الحافظ في التقريب: ثقة يرسل وقد أشار حماد بن زيد إلى أن حفظه تغير لما قدم من الشام
ابن حجر کہتے ہیں یہ ارسال کرتے ہیں اور ان میں شام جا کر تغیر آیا
العلل الواردة في الأحاديث النبوية. کے مطابق أبو الحسن علي بن عمر بن أحمد بن مهدي بن مسعود بن النعمان بن دينار البغدادي الدارقطني (المتوفى: 385هـ) نے اس روایت کی اسناد کا ذکر کیا ہے
وَسُئِلَ عَنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ: فُقِدَتْ أُمَّةٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا يُدْرَى مَا فَعَلَتْ، لَا أُرَاهَا إِلَّا الْفَأْرَ، أَلَا تَرَوْنَ أَنَّهَا إِذَا وَجَدَتْ أَلْبَانَ الْإِبِلِ لَمْ تَشْرَبْهَا فَإِذَا وَجَدَتْ أَلْبَانَ الْغَنَمِ شَرِبَتْهَا.
فَقَالَ: اخْتُلِفَ فِي رَفْعِهِ، فَرَفَعَهُ خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، وَهِشَامُ بْنُ حَسَّانٍ، وَأَشْعَثُ عن ابن سيرين، عن أبي هريرة.
واختلف عَنْ أَيُّوبَ، فَرُوِيَ عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى بْنِ حَمَّادٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ أَيُّوبَ وَحَبِيبٍ وَهِشَامٍ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مَرْفُوعًا.
وَرَوَاهُ الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ وَهِشَامٍ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ موقوفا.
دارقطنی کے بقول اس روایت کو موقوف اور مرفوع دونوں طرح بیان کیا گیا ہے
مسند ابو یعلی کی روایت ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ حَبِيبٍ، وَهِشَامٍ، وَأَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَحْسَبُهُ قَالَ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْفَأْرَةُ يَهُودِيَّةٌ، وَإِنَّهَا لَا تَشْرَبُ أَلْبَانَ الْإِبِلِ»
اس روایت میں ہے بصریوں کا تفرد ہے حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ ، ایوب سختیانی ، ہشام بن حسان تینوں بصرہ کے ہیں اور ان کے مطابق ابن سیرین نے کہا أَحْسَبُهُ میں گمان کرتا ہوں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
یعنی راویوں کے بقول ابن سیرین خود اس پر جزم نہیں رکھتے تھے کہ یہ قول نبوی یا قول صحابی ہے اور بعض نے اس کو موقوف بیان کیا یعنی ابو ہریرہ کے قول کے طور پر
میزان از الذھبی میں ہے شعبہ کہتے ہیں بصرہ کے خالد الْحَذَّاءُ اور ہشام بْنُ حَسَّانٍ کی روایات سے بچو
قال شعبة: واكتم على عند البصريين في هشام، وخالد
شعبہ نے کہا مجھ پر چھپا لو دو بصریوں (کی روایات) کو ہشام اور خالد کو
راقم کے نزدیک امام شعبہ کی رائے صحیح ہے کہ اس روایت سے بچو
[/EXPAND]
[شیعہ کہتے ہیں امام بخاری نے آیات تراشیں]
امام بخاری کی یہ حدیث کہاں ہے – اس کا نمبر کیا ہے پلیز یہ پوری حدیث لکھ دیں
قرآن کی آیت 97سورۃ نساء سے لکھتے ہیں :
اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰھُمُ الْمَآٰءِکَۃ’‘ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِھِمْ قَالُوا فِیْمَ کُنْتُمْ قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ الی قولہٖ وَجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا ۔
جس کا ذکر ایک شیعہ یہاں بھی کر رہا ہے
لنک
http://studyhadithbyquran.blogspot.com/2012/08/blog-post.html#.WWYJPISGN0w
کیا إنما الأعمال بالنيات گھڑی ہوئی ہے ؟
جواب
یہ حدیث نہیں باب میں ایک آیت لکھی ہے
إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ ۖ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ ۚ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا ۚ فَأُولَٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا
یہ آیت ہے
جبکہ امام بخاری نے یا کاتب نے یہ دوسری طرح شرحا لکھا ہے
اس میں شیعہ محقق کا کہنا ہے کہ یہ آیت امام بخاری نے تراشی ہے
إن الذين توفاهم الملائكة ظالمي أنفسهم قالوا فيم كنتم قالوا كنا مستضعفين في الأرض إلى قوله واجعل لنا من لدنك نصيرا
اصلا یہ نسخہ سلطانیہ ہے اور اسی مقام پر حاشیہ میں موجود ہے کہ یہ الاصیلی کے نسخہ میں ایسا ہے اور حاشیہ میں یہ بھی ہے کہ ابی ذر الھروی کے نسخہ میں آیات اس طرح لکھی ہیں یعنی
وَقَالَ: {إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ المَلاَئِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنْتُمْ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الأَرْضِ} [النساء: 97]- إِلَى قَوْلِهِ – {عَفُوًّا غَفُورًا} [النساء: 43] وَقَالَ: {وَالمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ القَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيرًا} [النساء: 75]
اس میں بیچ میں سوره النساء کی آیات ٤٣ ہے جس کا بحث سے کوئی تعلق نہیں ہے جو وضو پر ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ حَتَّىٰ تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّىٰ تَغْتَسِلُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا
یعنی الھروی کے نسخہ میں کسی کاتب کی غلطی سے ٩٧ اور ٧٥ کے بیچ میں یہ ٤٣ آیت آگئی ہے کیونکہ ٩٧ والی آیت ٧٥ سے شرح ہو رہی ہے
إِلَى قَوْلِهِ سے مراد یہ نہیں کہ آگے تک آیت ہے بلکہ مطلب اس کی شرح ہے
فتح الباری ابن حجر میں اس پر بحث بھی ہے
وَقَالَ إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنْتُمْ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ إِلَى قَوْلِهِ عَفُوًّا غَفُورًا وَقَالَ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيرًا هَكَذَا فِي رِوَايَةِ أَبِي ذَرٍّ وَهُوَ صَوَابٌ وَإِنَّمَا أَوْرَدْتُهُ بِلَفْظِهِ لِلْتَنْبِيهِ عَلَى مَا وَقَعَ مِنَ الِاخْتِلَافِ عِنْدَ الشُّرَّاحِ وَوَقَعَ فِي رِوَايَةِ كَرِيمَة والأصيلي والقابسي أَن الَّذين تَوَفَّاهُم فَسَاقَ إِلَى قَوْلِهِ فِي الْأَرْضِ وَقَالَ بَعْدَهَا إِلَى قَوْلِهِ وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيرًا وَفِيهِ تَغْيِيرٌ وَوَقَعَ فِي رِوَايَةِ النَّسَفِيِّ إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنْتُم الْآيَات قَالَ ومالكم لَا تقاتلون فِي سَبِيل الله إِلَى قَوْلِهِ نَصِيرًا وَهُوَ صَوَابٌ وَإِنْ كَانَتِ الْآيَاتُ الْأُولَى مُتَرَاخِيَةً فِي السُّورَةِ عَنِ الْآيَةِ الْأَخِيرَةِ فَلَيْسَ فِيهِ شَيْءٌ مِنَ التَّغْيِيرِ
0——
عمل کا دارومدار نیت پر ہے – یہ اہل تشیع کا بھی قول ہے لہذا نا معلوم اس پر جرح کیوں کی گئی ہے
وما له في الاخرة من نصيب إذا الأعمال بالنيات
تفسیر الصافی
—
قد ظهر من الآية: أن قبول العمل يحتاج إلى نية الإخلاص و قصد وجه الله، و قد روى الفريقان عن النبي (صلى الله عليه وآله وسلم): أنه قال: إنما الأعمال بالنيات.
تفسير الميزان
المؤلف : العلامة الطباطبائي
—
وقد أشار النّبي(صلى الله عليه وآله) إلى ذلك إذ قال: «لا عمل إلاّ بالنيّة وإنّما الأعمال بالنيات
الامثل في تفسير كتابِ اللهِ المُنزَل
نَاصِر مَكارم الشِيرازي
—
إنما الاعمال بالنيات
بحار الأنوار از مجلسی کے مطابق حدیث نبوی ہے
[/EXPAND]
[احادیث میں ذکر ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اونٹ کا پیشاب پینے کا حکم دیا؟]
صحیح حدیث میں مذکور ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے قبیلہ عرینہ اور عکل کے کچھ لوگوں کو اونٹ کا پیشاب پینے کا حکم دیا تھا ۔
عن أنس أن ناسًا اجتَوَوا في المدينةِ، فأمَرهمُ النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم أن يَلحَقوا براعِيْه، يعني الإبلَ، فيَشرَبوا من ألبانِها وأبوالِها، فلَحِقوا براعِيْه، فشَرِبوا من ألبانِها وأبوالِها، حتى صلَحَتْ أبدانُهم.(صحیح بخاری: 5686 )
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ مدینے کی آب وہوا موافق نہ آنے پر وہ لوگ بیمار ہوگئے ۔(ان کو استسقاء یعنی پیٹ میں یا پھیپھڑوں میں پانی بھرنے والی بیماری ہوگئی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے اونٹنی کے دودھ اور پیشاب کو ملاکر پینے کی دوا تجویز فرمائی ۔یہاں تک کہ اسے پی کروہ لوگ تندرست ہوگئے ۔
جواب
یہ روایت چار بصریوں حمید الطویل ، أَبِي قِلَابَةَ ، قتادہ، مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ اور ایک مدنی يحيى بن سعيد بن قيس نے انس رضی الله عنہ سے روایت کی ہے
تمام مدلسین ہیں- اس کے ایک راوی حمید الطویل نے پیشاب پینے کا ذکر نہیں کیا بلکہ وہ کہتے ہیں نبی صلی الله علیہ وسلم نے صرف دودھ پینے کا حکم دیا تھا اور وہ خاص قتادہ پر جرح کرتے ہیں کہ قتادہ نے پیشاب پینے کا اضافہ کر دیا جبکہ اس روز جب انس نے یہ روایت سنائی تو یہ وہاں تھے بھی نہیں
المسنَد الصَّحيح المُخَرّج عَلى صَحِيح مُسلم از أبو عَوانة الإسفرَايينيّ (المتوفى 316 هـ) کے مطابق
حدثنا محمد بن عبد الملك الواسطي الدَّقِيقي، قال: حدثنا يزيد بن هارون ، قال: أخبرنا حُميد الطويل، عن أنس بن مالك قال: قدم
ص:204] رهط من عرينة إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- فاجتووا المدينة فقال لهم النبي -صلى الله عليه وسلم-: “لو خرجتم إلى إبل الصدقة فشربتم من ألبانها”.-قال حميد: فحدث قتادة في هذا الحديث: “وأبوالها”، ولم أسمعه يومئذ من أنس– قال: ففعلوا. فلما صحوا ارتدوا عن الإسلام وقتلوا راعي النبي -صلى الله عليه وسلم- واستاقوا الإبل وخانوا / (2) وحاربوا الله ورسوله. فبعث رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في آثارهم فأُخذوا. فقطع أيديهم وأرجلهم وسمر أعينهم (3).
یزید بن ہارون نے کہا ہم کو حمید الطویل نے خبر دی کہ انس بن مالک رضی الله عنہ نے کہا عرینہ کا ایک وفد نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا اور مدینہ پہنچا پس نبی صلی الله علیہ وسلم نے ان سے کہا اگر تم اونٹوں پر نکلو تو ان کا دودھ پیو حمید نے کہا قتادہ نے بھی یہ حدیث بیان کی اور اس نے کہا ان کا پیشاب اور اس نے تو یہ حدیث انس سے اس دن سنی بھی نہیں تھی حمید نے کہا ان لوگوں نے غفلت دکھائی اور صحیح ہونے کے بعد ارتاد کیا اسلام سے اور چرواہے کو قتل کیا اور اونٹوں کو لوٹا اور خیانت کی اور الله اور اس کے رسول سے جنگ کی پس رسول الله صلی اللهعلیہ وسلم نے ان کے آثار پر لوگ بھیجے یہ پکڑے گئے ان کے ہاتھ پیر کاٹ دیے گئے اور آنکھوں کو پھوڑا گیا
مسند احمد میں بھی حمید کا یہ قول ہے کہ پیشاب کا اضافہ قتادہ نے کیا
حَدَّثَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَدِمَ رَهْطٌ مِنْ عُرَيْنَةَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاجْتَوَوْا الْمَدِينَةَ، فَذَكَرَ مَعْنَاهُ، وَذَكَرَ أَيْضًا فِي حَدِيثِهِ قَالَ حُمَيْدٌ: فَحَدَّثَ قَتَادَةُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: «وَأَبْوَالِهَا»
مصنف ابن ابی شیبه کے مطابق وَذُكِرَ أَنَّ أَبَا حَنِيفَةَ كَرِهَ شُرْبَ أَبْوَالِ الْإِبِلِ اور ذکر کیا گیا ہے کہ امام ابو حنیفہ اس سے کراہت کرتے کہ اونٹ کا پیشاب پیا جائے
یہ روایت ابن ماجہ میں بھی ہے جس میں أَبِي قِلَابَةَ اس کو انس سے روایت کرتے ہیں اور پیشاب کا ذکر ہے
تاریخ بغداد کے مطابق
وقال الدارقطني: هو صدوق، كثير الخطإ في الأسانيد والمتون، وكان يحدث من حفظه، فكثرت الأوهام منه.
دارقطنی کہتے ہیں یہ متن اور اسناد میں کثرت سے غلطیاں کرتے ہیں اور اپنے حافظہ سے روایت کرتے اس وجہ سے انکی روایات میں وہم بہت ہے
پیشاب کا ذکر يحيى بن سعيد بن قيس الأَنْصَارِيُّ (مدلس) نے بھی انس رضی الله عنہ کی روایت میں کیا ہےمحدثین کے مطابق ذكر علي بن المديني أنه كان يدلس امام علی المدینی کہتے ہیں یہ تدلیس کرتے ہیں
پیشاب کے علاوہ اس میں یہ کیا حد لگائی گئی ہے بعض اہل علم اس کو حد غیر واضح ہونے کی بنا پر رد کرتے ہیں اور روایت کو منکر کہتے ہیں
یہ ارتاد کی حد تھی ؟
سنن نسائی کی يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ المدنی کی روایت میں (جس کو البانی صحیح کہتے ہیں میں) ہے
قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عَبْدُ الْمَلِكِ لِأَنَسٍ وَهُوَ يُحَدِّثُهُ هَذَا الْحَدِيثَ: بِكُفْرٍ أَمْ بِذَنْبٍ؟ قَالَ: بِكُفْرٍ. قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ: “لَا نَعْلَمُ أَحَدًا قَالَ عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَنَسٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ غَيْرَ طَلْحَةَ،
امیر المومنین عبد الملک نے انس سے پوچھا وہ اس حدیث کو بیان کر رہے تھے کہ ان کا کفر تھا یا گناہ تھا ؟ انس نے کہا کفر تھا – امام نسائی نے کہا ہم نہیں جانتے کہ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ کی انس سے روایت کے سوا کسی اور نے یہ بیان کیا ہو
یعنی سزا ارتاد کے زمرے میں دی گئی
یہ حربی کفاز کی حد تھی ؟
ابو داود میں روایت (جس کو البانی صحیح کہتے ہیں میں) اور صحیح بخاری میں ہے
قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: “فَهَؤُلَاءِ قَوْمٌ سَرَقُوا، وَقَتَلُوا، وَكَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ، وَحَارَبُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ
ابو قلابہ نے کہا ان لوگوں نے چوری کی قتل کیا کفر کیا ایمان کے بعد اور الله اور اس کے رسول سے جنگ کی
ابو قلابہ یہ بھی کہتے ہیں
“فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي طَلَبِهِمْ قَافَةً، فَأُتِيَ بِهِمْ”، قَالَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي ذَلِكَ: {إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا} [المائدة] الْآيَةَ
پس رسول الله نے ان کے پیچھے لوگ بھیجے اور ان کے لئے آیا الله تعالی نے نازل کی المائدہ کی آیات کہ جو جو الله اور اس کے رسول سے جنگ کریں اور اس میں فساد کریں
یعنی یہ حکم ان آیات کے نزول کے بعد بطور حد لگایا گیا
قتادہ بھی مسند احمد میں کہتے ہیں
قَالَ قَتَادَةُ: «فَبَلَغَنَا أَنَّ هَذِهِ الْآيَةَ نَزَلَتْ فِيهِمْ»: {إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ} [المائدة: 33]
یہ حدود نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے؟
صحیح بخاری کے مطابق
قَالَ قَتَادَةُ: فَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ: «أَنَّ ذَلِكَ كَانَ قَبْلَ أَنْ تَنْزِلَ الحُدُودُ
قتادہ نے کہا ابن سیرین نے بیان کیا کہ یہ حدود نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے
یعنی یہ حربی کفار پر حد یا قصاص کی حد یا ارتاد کی حد نہیں تھی
یہ ہو ہی نہیں سکتا؟
مصنف عبد الرزاق کی روایت ہے کہ جب یہ حدیث حسن البصری کو پتا چلی تو
وَذَكَرَ أَنَّ أَنَسًا، ذَكَرَ ذَلِكَ لِلْحَجَّاجِ فَقَالَ الْحَسَنُ: عَمِدَ أَنَسٌ إِلَى شَيْطَانٍ فَحَدَّثَهَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَطَعَ وَسَمَلَ، يَعِيبُ ذَلِكَ عَلَى أَنَسٍ
اور ذکر کیا کہ انس رضی الله عنہ نے اس کو حجاج بن یوسف سے ذکر کیا اس پر حسن نے کہا انس کو اس شیطان نے مجبور کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر کاٹنے اور پھوڑنے کی روایت کریں اور انہوں نے اس میں انس کو عیب دیا
مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ کی انس سے نقل کردہ روایت کے مطابق کئی چرواہے تھے جو قتل ہوئے جن میں سے ایک بچا جس نے آ کر رسول الله کو اس کی خبر دی
فَقَتَلُوا أَحَدَ الرَّاعِيَيْنِ، وَذَهَبُوا بِالْإِبِلِ، وَجَاءَ الْآخَرُ قَدْ جُرِحَ , فَقَالَ: قَدْ قَتَلُوا صَاحِبِي وَذَهَبُوا بِالْإِبِلِ
طحاوي مشکل الآثار بَيَانُ مُشْكِلِ مَا رُوِيَ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي كَيْفِيَّةِ عُقُوبَاتِ أَهْلِ اللِّقَاحِ ميں اس روايت پر کہتے ہيں
وَهَذَا الْحَدِيثُ عَنْدَنَا مُنْكَرٌ؛ لِأَنَّ فِيمَا قَدْ تَقَدَّمَتْ رِوَايَتُنَا لَهُ فِي هَذَا الْبَابِ أَنَّ أَحَدَ رَاعِيَيْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي كَانَ فِي تِلْكَ الْإِبِلِ لَمَّا جَاءَهُ قَالَ: قَدْ قَتَلُوا صَاحِبِي , وَفِي ذَلِكَ مَا يَنْفِي أَنْ يَكُونَ كَانَ مَسْمُولَ الْعَيْنِ , وَلَا اخْتِلَافَ بَيْنَ أَهْلِ الْعِلْمِ فِيمَا يُقَامُ عَلَى مَنْ كَانَ مِنْهُ مِثْلُ الَّذِي كَانَ مِنْ أُولَئِكَ الْقَوْمِ أَنَّهُ حَدُّ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ لِلْمُحَارَبَةِ الَّتِي كَانَتْ لَا حَقٌّ لِلَّذِينَ حُورِبُوا بِهَا , وَأَنَّ الَّذِينَ حُورِبُوا بِهَا لَوْ عَفَا أَوْلِيَاؤُهُمْ عَمَّا كَانَ أَتَى إِلَى أَصْحَابِهِمْ أَنَّ عَفْوَهُمْ بَاطِلٌ. وَفِي ذَلِكَ مَا يَدُلُّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ فَعَلَ فِي أُولَئِكَ الْقَوْمِ مَا قَدْ فَعَلَ قِصَاصًا بِمَا فَعَلُوا , وَأَنَّهُ إِنَّمَا كَانَ فَعَلَهُ بِهِمْ لِمَا أَوْجَبَتْهُ عَلَيْهِمُ الْمُحَارَبَةُ لَا لِمَا سِوَاهُ , وَلَا اخْتِلَافَ بَيْنَ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلِمْنَاهُ فِي الْمُحَارِبِينَ: لَوْ قَطَعُوا الْآذَانَ , وَالْأَيْدِيَ وَالْأَرْجُلَ , حَتَّى لَمْ يُبْقُوا لِمَنْ حَارَبَ أُذُنًا , وَلَا يَدًا , وَلَا رِجْلًا , أَنَّهُ لَا يُفْعَلُ بِهِمْ مِثْلُ ذَلِكَ , وَأَنَّهُ يُقْتَصَرُ بِهِمْ عَلَى مَا فِي الْآيَةِ الَّتِي أَنْزَلَهَا اللهُ فِي الْمُحَارَبَةِ الَّتِي قَدْ تَقَدَّمَتْ تِلَاوَتُنَا لَهَا فِي هَذَا الْبَابِ , وَفِيمَا ذَكَرْنَا مِنْ ذَلِكَ مَا قَدْ دَلَّ عَلَى فَسَادِ هَذَا الْحَدِيثِ الَّذِي رَوَيْنَا وَبِاللهِ التَّوْفِيقُ
يہ حديث ہمارے نزديک منکر ہے کيونکہ اس باب میں ہم نے جو روايت بیان کي ہے اس ميں ہے کہ ايک نبي صلي الله عليہ وسلم کا چرواہا تھا جو اونٹوں پر مامور تھا جب وہ آپ کے پاس آیا اور کہا کہ انہوں نے میرے ساتھی کو قتل کر دیا ہے اس میں اس بات کی نفی ہے کہ وہ آنکھیں پھوٹا ہوا تھا اور اس پر اہل علم کا اختلاف نہيں ہے ان پر جو قیام (حدود) کیا گیا وہ انہی جیسوں پر کیا جائے گا کیونکہ بے شک اللہ تعالی کی حد ان جنگجوں کے لئے ہے جن کو کوئی حق نہیں کہ جنگ کریں – اور وہ جو ان میں جنگ کریں اور ان کے دوست ان کو معاف بھی کر دیں تو ایسی معافی بھی باطل ہے – اور اس پر دلیل ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم اس قسم کے لوگوں پر کوئی ایسا کام نہیں کیا جو قصاص سے الگ ہو – اور بے شک ان پر یہ (قصاص لینے کا) فعل کیا گیا جب یہ ان پر واجب ہو گیا کہ یہ جنگجو تھے نہ کہ اس کے سوا کچھ اور – اور اس پر اہل علم کا اتفاق ہے کہ ہمیں جنگجوؤں کے بارے میں پتا ہے کہ اگر کان کاٹیں يا ہاتھ يا پير يہاں تک کہ حربي کا کوئي عضو نہ رہے نہ کان نہ ہاتھ نہ پير تو وہ (اہل علم) ايسا نہيں کرتے اور وہ اس (قسم کی سزا کو) محدود کرتے ہیں اس آیت سے جو الله نے جنگجوؤں کے سلسلے (الله اور اس کے رسول ل کے خلاف الْمُحَارَبَةِ کے تناظر) میں نازل کی ہے جس کی تلاوت اس باب کے شروع میں گزری ہے اور ہم نے جو یہ سب ذکر کیا وہ اس حدیث کے فساد پر دلالت کرتا ہے جو ہم نے روایت کی وَبِاللهِ التَّوْفِيقُ
طحاوی کہتے ہیں کہ حربی کافر میں اور ایک ڈاکو میں فرق ہے کیونکہ وہ جنہوں نےصحابی کو قتل کیا ان پر قصاص کی سزا لگے گی نہ کہ حربی کفار والی سزا – اور یہ ہی عمل رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ہم تک آیا ہے جس کی بنا پر یہ روایت منکر ہے
[/EXPAND]
[صحیح بخاری کے کون کون سے نسخے ہیں اور کون سا پرنٹ ہوتا ہے؟]
جواب
اصل نسخہ جو امام بخاری کا تھا وہ ان کے شاگردوں نے ان سے نقل کیا اس میں ان کے شاگرد الفربری کا نسخہ سب سے بہتر سمجھا جاتا ہے اس کے علاوہ ان کے شاگردوں إبراهيم بن مَعْقِل بن الحجاج النسفي المتوفی ٢٩٥ ھ اور نسوی المتوفی ٢٩٠ ھ اور بزدوی ٣٢٩ھ کا نسخہ بھی تھا
پھر ان کی سندیں چلتیں ہیں جو صغانی ، ابو ذر، أبو الهيثم محمد بن مكي بن محمد کشمیھنی المتوفی ٣٨٩ ھ ،أبو محمد عبد الله بن احمد بن حمُّويه حموی المتوفی ٣٨١ ھ ، مستملی المتوفی ٣٧٦ ھ سے ہیں
أَبُو مُحَمَّد الْحَمَوِيّ ،أَبُو إِسْحَاق الْمُسْتَمْلِي ، أَبُو الْهَيْثَم الْكشميهني تینوں إمام الفربری کے شاگرد ہیں
اور ابوذر ان تینوں کے شاگرد ہیں
کچھ نسخنے علاقوں کے اور لوگوں کے نام سے مشھور ہوے ان میں دو نسخے ہیں ایک البغدادية کہلاتا ہے اور دوسرا الیونینیہ کہلاتا ہے
انڈیا میں نور کشور سے چھپنے والا نسخہ البغدادیہ سے الگ ہے
وہ نسخہ ہے جو فتح الباری از ابن حجر میں ہے اس میں متن ابوذر عبد بن أحمد بن محمد بن عبد الله الهروي کی سند پر ہے اور یہ دیگر نسخوں سے تضاد بھی رکھتا ہے مثلا اس میں بسا اوقات ابن حجر کہتے ہیں کہ یہ بات اس میں نہیں لیکن الصغاني یا کشمیھنی کے نسخے میں ہے
أبي الوقت کی سند سے الصغاني کی سند سے الفربری تک جو نسخہ جاتا ہے اس کو البغدادية کہا جاتا ہے یہ اصلا رضي الدين الصغاني المتوفی ٦٥٠ ھ کا نسخہ ہے
الیونینیہ جو أبي الحسين اليونيني المتوفي ٧٠١ هجري کا نسخہ ہے اس کو عثمانی خلیفہ عبد المجید نے حکومتی سطح چھپوایا تھا اور یہ اصلا ایک اچھا جامع نسخہ ہے جس میں اس دور میں موجود پچھلے نسخون سے تصحیح کی گئی ہیں اور اب اس کو السلطانیہ کہا جاتا ہے
السلطانیہ میں الاصیلی، ابن عساکر ، ابی الوقت ،کشمھینی، حموی ، مستملی، کریمہ ، محمد بن محمد بن يوسف جرجانی المتوفی ٣٧٤ھ کے نسخہ جات سے تقابل کیا گیا ہے
القسطلاني نے اليونينيِّ کے نسخہ پر اعتماد کیا ہے
أنور الكشميري نے فیض الباری میں الصَّغانّي کا نسخہ لیا ہے
الكوثر الجاري إلى رياض أحاديث البخاري میں أحمد بن إسماعيل الكوراني الحنفي المتوفى 893 هـ نے فربری کا متن ابوذر کی سند سے لیا ہے
الصَّغانّي ، إبراهيم بن معقل النسفي اور حماد بن شاكر تین حنفی ہیں جو صحیح بخاری کی کتاب کے کاتب راوی ہیں – غیر مقلدین کو اپنے جھوٹے پروپگنڈے پر شرم انی چاہیے کہ احناف صحیح بخاری کے دشمن تھے اور اثر رسول کے خلاف تھے
عيني نے عمدہ القاری میں أبي الْوَقْت کی سند سے متن لیا ہے جو الفربری تک جاتی ہے
التعديل والتجريح میں الباجی نے ابوذر کی سند سے متن لیا ہے
یعنی جو چھپ رہا ہے اس کی کوئی ایک سند نہیں ہے آپ کو دیکھنا پڑتا ہے کیا سند ہے
[/EXPAND]
[صحیح بخاری کو کیا اصح الکتاب بعد کتاب الله کہا جا سکتا ہے ؟]
جواب
راقم کو اس سے اختلاف ہے یہ کتاب شروع میں بہت سے محدثین کی نکتہ چینی کی نذر ہوئی مثلا بخاری کے ہم عصر محدثین نے بعض روایات کو ضعیف قرار دیا جبکہ امام بخاری نے ان کو صحیح سمجھتے ہوئے صحیح میں نقل کیا
امام کرابیسی المتوفی ٢٤٨ھ اور صحیح کی روایت کی تضعیف
صحیح بخاری کی بعض روایات ہم عصر محدثین کی نگاہ میں صحیح نہیں ہیں مثلا عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا والی روایت پر ابن تیمیہ کتاب منہاج السنہ میں لکھتے ہیں
مختصر منهاج السنة از ابن تیمیہ
فيقال: الذي في الصحيح: ((تقتل عمّار الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ)) وَطَائِفَةٌ مِنَ الْعُلَمَاءِ ضَعَّفُوا هَذَا الْحَدِيثَ، مِنْهُمُ الْحُسَيْنُ الْكَرَابِيسِيُّ وَغَيْرُهُ، وَنُقِلَ ذَلِكَ عَنْ أَحْمَدَ أَيْضًا.
صحیح میں ہے عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا – اور اہل علم کا ایک گروہ اس کی تضعیف کرتا ہے جس میں حسین کرابیسی ہیں اور دیگر ہیں ہے ایسا ہی امام احمد کے حوالے سے نقل کیا جاتا ہے
امام کرابیسی ، امام بخاری کے ہم عصر ہیں
امام ابی حاتم المتوفی ٢٧٧ ھ اور صحیح کی روایت کی تضعیف
العلل أز ابن أبي حاتم میں ہے کہ ابن ابی حاتم نے اپنے باپ سے سوال کیا
وسألتُ أَبِي عَنْ حديثٍ رَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ حُمَيد ، عَنْ أَنَسٍ، عن النبيِّ (ص) قَالَ: غَدْوَةٌ فِي سَبيلِ اللهِ أَوْ رَوْحَةٌ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيها، وَلَوْ أنَّ امرَأةً مِنْ نِساءِ أهلِ الجَنَّةِ اطَّلَعَتْ إلَى الأَرضِ، لأَضَاءَتْ مَا بَيْنَهُمَا … الحديثَ؟ قَالَ أَبِي: حدَّثنا الأَنْصَارِيُّ ، عَنْ حُمَيد، عَنْ أَنَسٍ، مَوْقُوفٌ قَالَ أَبِي: حديثُ حُمَيد فِيهِ مِثْلُ ذا كثيرٌ؛ واحدٌ عَنْهُ يُسنِدُ، وآخَرُ يُوقِفُ
میں نے باپ سے سوال کیا حدیث جس کو روایت کیا ہے مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ حُمَيد ، عَنْ أَنَسٍ نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے کہ الله کی راہ میں سفر دنیا اور جو اس میں سے سے بہتر ہے اور اگر جنت کی کوئی عورت زمین کی طرف جھانک بھی لے تو زمین و آسمان اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ منور ہو جائیں …. حدیث؟ میرے باپ نے کہا … یہ انس پر موقوف ہے اور کہا حمید کی اس طرح کی (غلطیوں کی) اور مثالیں (بھی) ہیں اس (روایت) کا ایک (حصہ)مسند ہے اور دوسرا موقوف ہے
اسی طرح دوسرے مقام پر العلل میں ابن ابی حاتم کہتے ہیں
وسألتُ أَبِي عَنْ حديثٍ رَوَاهُ حُجَين اليَمَاميُّ ، عن عبد العزيز المَاجِشُونِ ، عَنْ حُمَيدٍ الطَّوِيل ، عَنْ أنس ابن مَالِكٍ؛ قَالَ: قَالَ رسولُ اللَّهِ (ص) : والَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ ، لَوِ اطَّلَعَتِ امْرَأَةٌ مِنْ نِسَاءِ الجَنَّةِ عَلَى أَهْلِ الأَرْضِ، لَأَضَاءَتْ مَا بَيْنَهُمَا، ولَمَلَأَتْ مَا بَيْنَهُمَا رِيحًا، ولَنَصِيفُهَا عَلَى رَأْسِهَا خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا؟ قَالَ أَبِي: هَذَا خطأٌ؛ الصَّحيحُ: عَنْ أنسٍ، مَوْقُوفٌ
اور میں نے اپنے باپ سے سوال کیا حدیث حُجَين اليَمَاميُّ ، عن عبد العزيز المَاجِشُونِ ، عَنْ حُمَيدٍ الطَّوِيل ، عَنْ أنس ابن مَالِكٍ کی سند سے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اگر جنت کی کوئی عورت زمین کی طرف جھانک بھی لے تو زمین و آسمان اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ منور ہو ج اور خوشبو سے معطر ہو جائیں۔ اس کے سر کا دوپٹہ بھی دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے بڑھ کر ہے۔ میرے باپ نے کہا یہ غلطی ہے یہ انس پر موقوف ہے
امام بخاری صحيح ميں روایت کرتے ہیں
حدیث نمبر: 2796وَسَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ”لَرَوْحَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَوْ غَدْوَةٌ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، وَلَقَابُ قَوْسِ أَحَدِكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ، أَوْ مَوْضِعُ قِيدٍ يَعْنِي سَوْطَهُ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، وَلَوْ أَنَّ امْرَأَةً مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ اطَّلَعَتْ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ لَأَضَاءَتْ مَا بَيْنَهُمَا، وَلَمَلَأَتْهُ رِيحًا وَلَنَصِيفُهَا عَلَى رَأْسِهَا خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا”
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے معاویہ بن عمرو نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابواسحاق نے بیان کیا ‘ ان سے حمید نے بیان کیا اور میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان کرتے تھے کہ اللہ کے راستے میں ایک صبح یا ایک شام بھی گزار دینا دنیا اور جو کچھ اس میں ہے، سب سے بہتر ہے اور اگر جنت کی کوئی عورت زمین کی طرف جھانک بھی لے تو زمین و آسمان اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ منور ہو جائیں اور خوشبو سے معطر ہو جائیں۔ اس کے سر کا دوپٹہ بھی دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے بڑھ کر ہے
یعنی ابی حاتم کے نزدیک اس روایت میں ایک مسند اور ایک موقوف روایت مل گئی ہے ایک نبی صلی الله علیہ وسلم کا قول ہے دوسرا انس کا
ابن ابی حاتم کتاب الجرح و التعدیل میں لکھتے ہیں کہ میرے باپ اور امام ابو زرعہ نے امام بخاری کی روایات ترک کر دیں ان کے خلق القرآن کے مسئلہ میں عقیدے کی بنا پر
سمع منه أبي وأبو زرعة ثم تركا حديثه عندما كتب اليهما محمد ابن يحيى النيسابوري انه اظهر عندهم ان لفظه بالقرآن مخلوق.
إن سے میرے باپ اور ابو زرعہ المتوفی ٢٧٤ ھ نے سنا پھر ترک کیا جب امام الذھلی نے لکھا کہ یہ ان پر امام بخاری کا لفظه بالقرآن مخلوق (کا عقیدہ) ظاہر ہوا
کتاب المعلم بشيوخ البخاري ومسلم از أبو بكر محمد بن إسماعيل بن خلفون (المتوفى 636 هـ) کے مطابق
وقال أبو الفضل صالح بن أحمد بن محمد الحافظ: لما وافى محمد بن إسماعيل البخاري صاحب الجامع المعروف بالصحيح إلى الري قصد أبا زرعة عبيد الله ابن عبد الكريم بن فروخ وأبا حاتم محمد بن إدريس وكانا إمامي المسلمين في وقتهما وزمانهما والمرجوع إليهما في الحديث وعلم ما اختلف فيه الرواة، فاحتجبا عنه فعاود ولم يأذنا له بالدخول عليهما، فعاود أبا زرعة فأبى وشدد في ذلك وقال: لا أحب أن أراه ولا يراني، فبلغ بعض العلماء أن أبا زرعة منع محمد بن إسماعيل أن يدخل عليه، وتحدث الناس بذلك فقصد أبا زرعة وسأله عن ذلك وذكر الحديث.
أبو الفضل صالح بن أحمد بن محمد الحافظ کہتے ہیں کہ جب امام بخاری صاحب جامع المعروف الصحیح نے الری کا قصد کیا کہ امام ابوزرعہ اور ابی حاتم سے ملیں جو مسلمانوں کے اپنے زمانے کے امام تھے اور حدیث میں ان کی طرف رجوع کیا جاتا تھا اور ان کو راویوں کے اختلاف کا علم تھا تو یہ دونوں ، امام بخاری سے چھپ گئے اور امام بخاری کا اپنے پاس داخلہ بند کر دیا اور ابو زرعہ….. نے کہا مجھے پسند نہیں کہ اس کو دیکھوں یا یہ (بخاری) مجھے- پس یہ بات علماء تک پہنچی کہ امام ابو زرعہ امام بخاری کو منع کرتے ہیں کہ وہ داخل ہوں
إسی کتاب کے مطابق
وروى البخاري أيضًا عن محمد غير منسوب عنه في كتاب المحصر، في باب: إذا أحصر المعتمر.
واختلف في محمد هذا فقيل: هو محمد بن يحيى الذهلي النيسابوري قاله: أبو عبد الله الحاكم. … وقيل: هو محمد بن إدريس أبو حاتم الرازي، قاله: أبو نصر الكلاباذي
اور امام بخاری ایک محمد غیر منسوب سے بھی روایت کرتے ہیں … اس میں اختلاف ہے کہ یہ کون ہے کہا جاتا ہے الذھلی ہیں یہ امام حاکم کہتے ہیں اور کہا جاتا ہے ابی حاتم ہیں یہ کلابازی کا قول ہے
یعنی شیخ کا نام امام بخاری نے چھپایا ہے
امام الفسوی المتوفی ٢٧٧ ھ اور صحیح کی روایت کی تضعیف
صحيح بخاري كي بعض روایات امام بخاری کے ہم عصر محدثین کی نگاہ میں صحیح نہیں تھیں کی ایک اور مثال ہے کہ کتاب المعرفة والتاريخ از يعقوب بن سفيان بن جوان الفارسي الفسوي، أبو يوسف (المتوفى: 277هـ) ایک راوی زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ پر کہتے ہیں
قَالَ أَبُو يُوسُفَ: وَمِنْ خَلَلِ رِوَايَةِ زَيْدٍ ما حدثنا به عمر بن حفص ابن غِيَاثٍ حَدَّثَنَا أَبِي ثنا الْأَعْمَشُ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ حَدَّثَنَا- وَاللَّهِ- أَبُو ذَرٍّ بِالرَّبْذَةِ قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْشِي فِي حَرَّةِ الْمَدِينَةِ عِشَاءً فَلَمَّا اسْتَقْبَلَنَا أُحُدٌ فَقَالَ: يَا أَبَا ذَرٍّ مَا أحب أن أحدا ذلك لي ذهبا يَأْتِي عَلَيْهِ لَيْلَةٌ وَعِنْدِي مِنْهُ دِينَارٌ إِلَّا دِينَارًا أَرْصُدُهُ لِدَيْنٍ إِلَّا أَنْ أَقُولَ بِهِ فِي عِبَادِ اللَّهِ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا- وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ-، ثُمَّ قَالَ: يَا أَبَا ذَرٍّ. قُلْتُ: لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ: إِنَّ الْأَكْثَرِينَ هُمُ الْأَقَلُّونَ إِلَّا مَنْ قَالَ بِالْمَالِ هَكَذَا وَهَكَذَا، ثُمَّ قَالَ: مَكَانَكَ لَا تَبْرَحْ حَتَّى أَرْجِعَ إِلَيْكَ. وَانْطَلَقَ حَتَّى غَابَ عَنِّي فَسَمِعْتُ صَوْتًا فَتَخَوَّفْتُ أَنْ يَكُونَ قَدْ عَرَضَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَذْهَبَ، ثُمَّ تَذَكَّرْتُ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «لَا تَبْرَحْ» فَمَكَثْتُ، فَأَقْبَلَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ سَمِعْتُ صَوْتًا فَخَشِيتُ أَنْ يَكُونَ عَرَضَ لَكَ، فَأَرَدْتُ أَنْ آتِيَكَ، ذَكَرْتُ قَوْلَكَ «لَا تَبْرَحْ» فَقُمْتُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ذَلِكَ جِبْرِيلُ أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِي لَا يُشْرِكْ باللَّه شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ؟ قَالَ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ. قَالَ الْأَعْمَشُ: قُلْتُ لِزَيْدِ بْنِ وَهْبٍ: بَلَغَنِي أَنَّهُ أَبُو الدَّرْدَاءِ. قَالَ: أَشْهَدُ لَحَدَّثَنِيهِ أَبُو ذَرٍّ بِالرَّبْذَةِ.
الفسوي کہتے ہیں کہ زید بن وھب کی خلل زدہ روایات میں سے ہے جو ہم سے عمر بن حفص ابن غِيَاثٍ اپنے باپ سے انہوں نے الْأَعْمَشُ سے انہوں نے زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ سے روایت کیا ہے
صحيح بخاري کي روايت اسي سند سے ہے
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا وَاللَّهِ أَبُو ذَرٍّ، بِالرَّبَذَةِ قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرَّةِ المَدِينَةِ عِشَاءً، اسْتَقْبَلَنَا أُحُدٌ، فَقَالَ: «يَا أَبَا ذَرٍّ، مَا أُحِبُّ أَنَّ أُحُدًا لِي ذَهَبًا، يَأْتِي عَلَيَّ لَيْلَةٌ أَوْ ثَلاَثٌ، عِنْدِي مِنْهُ دِينَارٌ إِلَّا أَرْصُدُهُ لِدَيْنٍ، إِلَّا أَنْ أَقُولَ بِهِ فِي عِبَادِ اللَّهِ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا» وَأَرَانَا بِيَدِهِ، ثُمَّ قَالَ: «يَا أَبَا ذَرٍّ» قُلْتُ: لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «الأَكْثَرُونَ هُمُ الأَقَلُّونَ، إِلَّا مَنْ قَالَ هَكَذَا وَهَكَذَا» ثُمَّ قَالَ لِي: «مَكَانَكَ لاَ تَبْرَحْ يَا أَبَا ذَرٍّ حَتَّى أَرْجِعَ» فَانْطَلَقَ حَتَّى غَابَ عَنِّي، فَسَمِعْتُ صَوْتًا، فَخَشِيتُ أَنْ يَكُونَ عُرِضَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَذْهَبَ، ثُمَّ ذَكَرْتُ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَبْرَحْ» فَمَكُثْتُ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، سَمِعْتُ صَوْتًا، خَشِيتُ أَنْ يَكُونَ عُرِضَ لَكَ، ثُمَّ ذَكَرْتُ قَوْلَكَ فَقُمْتُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ذَاكَ جِبْرِيلُ، أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِي لاَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الجَنَّةَ» قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ، قَالَ [ص:61]: «وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ» قُلْتُ لِزَيْدٍ: إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّهُ أَبُو الدَّرْدَاءِ، فَقَالَ: أَشْهَدُ لَحَدَّثَنِيهِ أَبُو ذَرٍّ بِالرَّبَذَةِ. قَالَ الأَعْمَشُ، وَحَدَّثَنِي أَبُو صَالِحٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، نَحْوَهُ، وَقَالَ أَبُو شِهَابٍ، عَنِ الأَعْمَشِ: «يَمْكُثُ عِنْدِي فَوْقَ ثَلاَثٍ»
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا ہم سے زید بن وہب نے بیان کیا (کہا کہ) واللہ ہم سے ابوذر رضی اللہ عنہ نے مقام ربذہ میں بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رات کے وقت مدینہ منورہ کی کالی پتھروں والی زمین پر چل رہا تھا کہ احد پہاڑ دکھائی دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابوذر! مجھے پسند نہیں کہ اگر احد پہاڑ کے برابر بھی میرے پاس سونا ہو اور مجھ پر ایک رات بھی اس طرح گزر جائے یا تین رات کہ اس میں سے ایک دینار بھی میرے پاس باقی بچے۔ سوائے اس کے جو میں قرض کی ادائیگی کے لیے محفوظ رکھ لوں میں اس سارے سونے کو اللہ کی مخلوق میں اس اس طرح تقسیم کر دوں گا۔ ابوذر رضی اللہ عنہ نے اس کی کیفیت ہمیں اپنے ہاتھ سے لپ بھر کر دکھائی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابوذر! میں نے عرض کیا «لبيك وسعديك.» یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زیادہ جمع کرنے والے ہی (ثواب کی حیثیت سے) کم حاصل کرنے والے ہوں گے۔ سوائے اس کے جو اللہ کے بندوں پر مال اس اس طرح یعنی کثرت کے ساتھ خرچ کرے۔ پھر فرمایا یہیں ٹھہرے رہو ابوذر! یہاں سے اس وقت تک نہ ہٹنا جب تک میں واپس نہ آ جاؤں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے اور نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ اس کے بعد میں نے آواز سنی اور مجھے خطرہ ہوا کہ کہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی پریشانی نہ پیش آ گئی ہو۔ اس لیے میں نے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کے لیے) جانا چاہا لیکن فوراً ہی نبی آئے اور کہا یہ جبریل تھے آئے اور خبر دی کہ میری امت میں جو شرک نہ کرتا ہو جنت میں جائے گا میں نے کہا یا رسول اللہ چاہے زنا کرے اور چوری؟ فرمایا : چاہے زنا کرے اور چوری
امام الفسوي کے نزدیک یہ روایت خلل زدہ ہے اور اس میں غلطی زید بن وھب کی ہے –اسی سند اور متن سے امام بخاری نے اس کو لکھا ہے
بخاری میں الضعفاء سے بھی روایت لی گئی ہے اس پر علماء نے اصول اور شواہد اور متابعت وغیرہ کی آصطلاحات استمعال کی ہیں – امام بخاری سے ان کے ہم عصر تمام اہل علم کا اتفاق نہیں تھا اس کی مثال یہ ہے کہ الصحیح میں منکر الحدیث راویوں سے روایت لی گئی ہے جن پر یہ حکم دوسرے محدث لگاتے ہیں مثلا
مُحَمَّد بن عبد الرَّحْمَن أَبُو الْمُنْذر الطفَاوِي الْبَصْرِيّ پر منکر الحدیث کا حکم أَبُو زرْعَة الرَّازِيّ لگاتے ہیں
مُحَمَّد بن كثير أَبُو عبد الله الْعَبْدي الْبَصْرِيّ پر منکر الحدیث کا حکم عَليّ بن الْحُسَيْن بن الْجُنَيْد لگاتے ہیں
حسان أَبُو عَليّ الْبَصْرِيّ پر أَبُو حَاتِم الرَّازِيّ نے منکر الحدیث کا حکم لگایا ہے
أسيد بن زيد أَبُو يحيى بر نسائی متروک الحدیث کا فتوی دیتے ہیں
یہ چاروں صحیح بخاری کے راوی ہیں اور منکر الحدیث ایک انتہائی سخت جرح ہے – جن پر دیگر محدثین کی جانب سے ضعیف کو فتوی لگا ہے وہ تو تعداد میں بہت ہیں
صحیح بخاری کی بعض روایات امام بخاری کے ہم عصر محدثین کی نظر میں صحیح نہیں لہذا یہ دعوی کہ صحیح بخاری پر امام بخاری کے دور میں ہی اجماع ہو گیا تھا دعوی بلا دلیل ہے – کہا جاتا ہے کہ ابن حجر نے کہا ہے کہ امام بخاری نے اس کتاب کو محدثین پر پیش کیا آور انہوں نے پسند کیا
لما صنف البخاری کتاب الصحیح عرضہ علی ابن المدینی و أحمد بن حنبل و یحی بن معین و غیرھم فاستحسنوہ و شھدوا لہ بالصحة الا أربعة أحادیث۔(ھدی الساری مقدمہ فتح الباری
جب امام بخاری نے کتاب الصحیح کی تصنیف کی تو اس کو علی المدینی پر امام احمد پر امام ابن معین پر اور دیگر پر پیش کیا اور انہوں نے تحسین کی اور گواہی دی کہ کتاب کی صحت صحیح ہے الا چار روایات کے
یہ قول امام أَبُو جَعْفَر الْعقيلِيّ کے حوالے سے ابن حجر نے لکھا ہے لیکن اس کی سند نہیں دی ظاہر ہے اس قسم کے بے سند اقوال سے یہ قول ثابت نہیں ہو سکتا – امام علی کی وفات امام الذھلی سے پہلے ہوئی- امام بخاری نے الذھلی کا نام صحیح میں چھپایا ہے لہذا یہ امام علی پر تو پیش ہی نہیں ہوئی -امام الزھلی سے امام بخاری کا اختلاف سن ٢٥٠ ہجری میں ہوا اس سے قبل ان دونوں کے اچھے تعلقات تھے ظاہر ہے سن ٢٥٠ ھ کے بعد ہی امام بخاری نے امام الذھلی کے نام کو صحیح میں چھپانا شروع کیا ہے
اسی طرح کہا جاتا ہے کہ امام نسائی فرماتے ہیں :
اجتمعت الامۃ علی صحۃ ھذین الکتابین
بخاری و مسلم کی صحت پر امت کا اجماع ہے۔
حوالہ : نصرۃ الباری
نسائی ٣٠٣ میں شہید ہوئے امام ابو زرعہ بھی اسی دور کے ہیں جس سے ظاہر ہے امت کا اجماع نہ تھا
امام أبو إسحق الإسفراييني المتوفی ٤١٨ ھ پہلے شخص ہیں جنہوں نے صحیح بخاری کے صحیح ہونے پر أهل الصنعة کا اجماع کا دعوی کیا-
أهل الصنعة مجمعون على أن الأخبار التي اشتمل عليها ” الصحيحان ” مقطوع بصحة أصولها ومتونها ، ولا يحصل الخلاف فيها بحال ، وإن حصل فذاك اختلاف في طرقها ورواتها . قال: فمن خالف حكمه خبرا منها وليس له تأويل سائغ للخبر نقضنا حكمه؛ لأن هذه الأخبار تلقتها الأمة بالقبول
یعنی پانچویں صدی ہجری میں یہ اجماع اہل فن کا تھا کہ اس صنف میں سب سے بہتر کتاب صحیح بخاری ہےاس کو اصح الکتاب بعد کتاب الله نہیں کہا گیا تھا- امداد زمانہ کے ساتھ اہل سنت میں غلو کی اصطلاح (اصح الکتاب بعد کتاب الله) مشھور ہوئی
پانچویں صدی کے ابو عبد الله الحَمِيدي (المتوفى: 488هـ) نے کتاب الجمع بين الصحيحين البخاري ومسلم میں لکھا
وَلم نجد من الْأَئِمَّة الماضين – رَضِي الله عَنْهُم أَجْمَعِينَ – من أفْصح لنا فِي جَمِيع مَا جمعه بِالصِّحَّةِ إِلَّا هذَيْن الْإِمَامَيْنِ، وَإِن كَانَ من سواهُمَا من الْأَئِمَّة قد أفْصح بالتصحيح فِي بعض، فقد علل فِي بعض، فَوَجَبَ البدار إِلَى الِاشْتِغَال بالمجموع الْمَشْهُور على صِحَة جَمِيعه
ہم نے پچھلے ائمہ رَضِي الله عَنْهُم أَجْمَعِينَ میں سے، امام بخاری و امام مسلم کے علاوہ کسی ایک کو بھی ایسا نہیں پایا کہ جس نے یہ وضاحت کی ہو کہ ان کی تمام جمع کردہ روایات صحیح ہیں سوائے ان دو اماموں کے اور ان کے دو کے سوا دیگر نے بعض نے وضاحت کی ہے کہ ان میں روایات صحیح ہیں اور بعض نے ان میں علت کا ذکر کیا ہے پس جلد بازی سے یہ واجب (ممکن) ہوا کہ (ان) مشھور مجموعات (صحیح بخاری و مسلم) کی صحت پر(علماء) جمع ہوں ان میں مشغول ہوں
حمیدی کے قریب دو سو سال بعد أبوعمرو تقي الدين المعروف بابن الصلاح (المتوفى: 643 ھ) اپنی کتاب معرفة أنواع علوم الحديث میں لکھا
وكتاباهما أصح الكتب بعد كتاب الله العزيز
ان دو کی کتابیں (صحیح بخاری و صحیح مسلم ) كتاب الله العزيز کے بعد سب سے زیادہ صحیح ہیں
لہذا صحیح البخاری ایک کتاب ہے اس کی اپنی اہمیت ہے اور یہ امام بخاری کا اجتہاد ہے کہ یہ روایات صحیح کی تعریف پر اترتی ہیں کہ راوی حافظ و ضابط ہیں اور سند “اغلبا” متصل ہے اور ان پر جرح “اتنی” نہیں کہ ان کی ہر بات رد کی جائے لہذا اس میں مدلسین کی روایات بھی ہیں اور ایسے رآویوں کی روایات بھی ہیں جن پر جرح ہے
راقم کے نزدیک امام بخاری کی الجامع الصحيح کو أصح الكتب المصنفة في الحديث النبوي کہنا چاہیے کہ حدیث نبوی کی صنف میں اس سے اصح کتاب نہیں ہے – اس کا تقابل کتاب الله سے کرنا غلو ہے
[/EXPAND]
[امام الذھلی اور امام بخاری کا مناقشہ کب اور کس بات پر ہوا؟ ]
جواب
امام الذھلی اور امام بخاری کا مناقشہ ہوا تھا جس پر واتقوا الله میں لکھا گیا تھا
[/EXPAND]
[امام البخاری نے صحیح میں چار فقہاء میں سے کس کس سے روایت لی ہے ؟]
جواب
چار فقہاء یعنی امام مالک، امام الشافعی ، امام ابو حنیفہ اور امام احمد بن حنبل میں سے امام بخاری نے سب سے زیادہ امام مالک کی سند سے روایت نقل کی ہیں – امام الشافعی ، امام ابو حنیفہ سے کوئی روایت نہیں لی – اور امام احمد سے صرف ایک روایت سندا نقل کی ہے
امام بخاری جب ان فقہاء سے اختلاف کرتے ہیں تو قال بعض الناس کے الفاظ استمعال کرتے ہیں
کتاب سیر الاعلام النبلاء میں الذھبی لکھتے ہیں
فَتَرْكُ البُخَارِيِّ الاحْتِجَاجَ بِالشَّافِعِيِّ، إِنَّمَا هُوَ لاَ لِمَعْنَى يُوْجِبُ ضَعْفَهُ، لَكِن غَنِيَ عَنْهُ بِمَا هُوَ أَعْلَى مِنْهُ، إِذْ أَقدَمُ شُيُوْخِ الشَّافِعِيِّ: مَالِكٌ، وَالدَّرَاوَرْدِيُّ، وَدَاوُدُ العَطَّارُ، وَابْنُ عُيَيْنَةَ، وَالبُخَارِيُّ لَمْ يُدْرِكِ الشَّافِعِيَّ
پس بخاری نے ترک کیا امام شافعی سے دلیل لینا اس لئے نہیں کہ وہ ضعیف ہیں لیکن ان سے بے پرواہ ہوئے کیونکہ حدیث کے لئے ان کو امام شافعی سے اعلی (راوی) ملے جب وہ شیوخ شافعی کو آگے رکھتے ہیں جیسے امام مالک اور الدَّرَاوَرْدِيُّ اور دَاوُدُ العَطَّارُ، امام ابْنُ عُيَيْنَةَ اور امام بخاری نے امام شافعی کو نہ پایا
امام بخاری نے امام شافعی کے شاگرد ربیع سے بھی کوئی روایت نہیں لی
[/EXPAND]
[صحیح مسلم کی تخلیق کائنات سے متعلق روایت پر سوال ہے]
حَدَّثَنِي سُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ أُمَيَّةَ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ رَافِعٍ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: أَخَذَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِي فَقَالَ: «خَلَقَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ التُّرْبَةَ يَوْمَ السَّبْتِ، وَخَلَقَ فِيهَا الْجِبَالَ يَوْمَ الْأَحَدِ، وَخَلَقَ الشَّجَرَ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ، وَخَلَقَ الْمَكْرُوهَ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ، وَخَلَقَ النُّورَ يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ، وَبَثَّ فِيهَا الدَّوَابَّ يَوْمَ الْخَمِيسِ، وَخَلَقَ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ بَعْدَ الْعَصْرِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ، فِي آخِرِ الْخَلْقِ، فِي آخِرِ سَاعَةٍ مِنْ سَاعَاتِ الْجُمُعَةِ، فِيمَا بَيْنَ الْعَصْرِ إِلَى اللَّيْلِ»، قَالَ إِبْرَاهِيمُ: حَدَّثَنَا الْبِسْطَامِيُّ وَهُوَ الْحُسَيْنُ بْنُ عِيسَى، وَسَهْلُ بْنُ عَمَّارٍ، وَإِبْرَاهِيمُ ابْنُ بِنْتِ حَفْصٍ وَغَيْرُهُمْ، عَنْ حَجَّاجٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ
عَبْدِ اللهِ بْنِ رَافِعٍ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ صحابی ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا الله تعالی نے
مٹی کو ہفتہ کے دن خلق کیا
اور اس میں پہاڑوں کو اتوار کو
اور درختوں کو پیر کو
اور مکروہات کو منگل کو
اور نور کو بدھ کو
اور اس میں جانور پھیلائے جمعرات کو
اور آدم کو عصر و رات کے درمیان کے بعد بروز جمعہ آخری ساعت میں خلق کیا
جواب
اس کی تمام اسناد میں ایوب بن خالد اور عَبْدِ اللهِ بْنِ رَافِعٍ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ کا تفرد ہے
ابن تیمیہ فتاوی ج 17 س 236 پر کہتے ہیں
وأم الحديث الذي رواه مسلم في قوله (( خلق الله التربة يوم السبت )) فهو حديث معلول، قدح فيه أئمة الحديث كالبخاري وغيره، قال البخاري: الصحيح أنه موقوف على كعب. وقد ذكر تعليله البيهقي أيضا، وبينوا أنه غلط ليس مما رواه أبو هريرة عن النبي – صلى الله عليه وسلم – وهو مما أنكر الحذاق على مسلم إخراجه إياه كَمَا أَنْكَرُوا عَلَيْهِ إخْرَاجَ أَشْيَاءَ يَسِيرَةٍ
اور جہاں تک حدیث کا تعلق ہے جو امام مسلم نے روایت کی ہے کہ خلق الله التربة يوم السبت تو وہ حدیث معلول ہے اس پر ائمہ کی جرح ہے جسے امام بخاری کی اور دیگر کی اور بخاری نے کہا صحیح یہ ہے کہ یہ کعب کا قول ہے موقوف ہے اور اس کا ذکر تعلیقا بیہقی نے کیا ہے اور وضاحت کی ہے کہ یہ غلط ہے جو ابو ہریرہ نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا ہے اور اس کو روایت کرنے سے امام مسلم کی صلاحیت و قابلیت کا انکار ہویا ہے جیسا کہ ان کا انکار کیا گیا ہے کچھ چیزوں کی تخریج پر
ابن کثیر تفسیر ج ١ ص ٩٩ میں کہتے ہیں
هذا الحديث من غرائب صحيح مسلم، وقد تكلم عليه ابن المديني والبخاري وغير واحد من الحفاظ، وجعلوه من كلام كعب الأحبار، وأن أبا هريرة إنما سمعه من كلام كعب الأحبار
اوریہ حدیث صحیح مسلم کے غرائب میں سے ہے اور اس پر کلام کیا ہے امام علی المدینی نے بخاری نے اور ایک سے زیادہ حفاظ نے اور اس کو کعب الاحبار کا کلام بنا دیا ہے اور ابو ہریرہ نے اسکو کعب سے سنا ہے
بخاری کے مطابق اسکی سند میں أيوب بن خالد بن أبي أيوب الأنصاري ہے اور یہ کعب الاحبار کا قول ہے- امام بخاری کا یہ دعوی کہ یہ کعب الاحبار کا قول ہے بلا دلیل ہے پہلے اس کو کوئی سند پیش کی جاتی اور پھر یہ دعوی کیا جائے تو قابل قبول ہے- کعب الاحبار توریت کے عالم تھے اور اس میں تخلیق کے مراحل روایت سے الگ ہیں
إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي کے مطابق اس کی سند میں ہے
أيوب بن خالد بن صفوان – يعني الذي روى له من عند مسلم: خلق الله التربة يوم السبت
مغلطاي کہتے ہیں راوی کے حوالے سے وإن كنا نحاجج البخاري في ذلك اور ہم امام بخاری سے اس پر اختلاف کرتے ہیں
تہذیب الکمال میں المزي کی اور تاريخ الإسلام میں الذھبی کی بھی یہی رائے ہے کہ اس کی سند میں أَيُّوب بن خَالِد بن صفوان بن أوس بن جَابِر بن قرط میں ہے
ابن حجر تہذیب التہذیب میں کہتے ہیں الأزدي نے اس پر کہا ہے
أيوب بن خالد ليس حديثه بذاك، تكلم فيه أهل العلم بالحديث، وكان يحيى بن سعيد ونظراؤه لا يكتبون حديثه
أيوب بن خالد حدیث میں کوئی ایسا مناسب نہیں ہے اس پر اہل علم حدیث کا کلام ہے اور یحیی بن سعید اور ان کے جیسے اس کی حدیث نہیں لکھتے
البیہقی کتاب الاسماء و الصفات میں کہتے ہیں
وَزَعَمَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ بِالْحَدِيثِ أَنَّهُ غَيْرُ مَحْفُوظٍ لِمُخَالَفَتِهِ مَا عَلَيْهِ أَهْلُ التَّفْسِيرِ وَأَهْلُ التَّوَارِيخِ
اور بعض اہل علم حدیث کا دعوی ہے کہ یہ حدیث غیر محفوظ ہے مخالفت کرنے پر جو اہل تفسیر اور اہل تواریخ کے پاس ہے
الذھبی العلو میں اس کی ایک دوسری سند دیتے ہیں
قال النسائي في تفسير السجدة: حدثنا إبراهيم بن يعقوب: حدثني محمد بن الصبَّاح: حدثنا أبو عبيدة الحداد: حدثنا أخضر بن عجلان عن ابن جريح عن عطاء عن أبي هريرة: أن النبي – صلى الله عليه وآله وسلم – أخذ بيدي فقال: «يا أبا هريرة إن الله خلق السموات والأرضين وما بينهما في ستة أيام، ثم استوى على العرش يوم السابع، وخلق التربة يوم السبت، والجبال يوم الأحد، والشجر يوم الإثنين، والشر يوم الثلاثاء، والنور يوم الأربعاء والدواب يوم الخميس، وآدم يوم الجمعة في آخر ساعة من النهار بعد العصر، خلقه من أديم الأرض بأحمرها وأسودها وطيبها وخبيثها، من أجل ذلك جعل الله من آدم الطيب والخبيث
یہاں اسکی سند میں ابن جریج ہیں جو مدلس ہیں اور عن سے روایت کر رہے ہیں اور أخضر بن عجلان ہے جس کو ابن معین اور نسائی ثقہ کہتے ہیں اور الأزدي ضعیف کہتے ہیں
البانی اس روایت کو صحیح کہتے ہیں ( موسوعة العلامة الإمام مجدد العصر محمد ناصر الدين الألباني) اور اس کا بھر پور دفاع کرتے ہیں اور کہتے ہیں
أن الأيام السبعة في الحديث هي غير الأيام الستة في القرآن
اس روایت میں جو سات دن ہیں وہ قرآن کے چھ دنوں سے الگ ہیں
البانی اپنے پروگرام “الهدى والنور” (259/ 54: 23: 00) میں اس حدیث کا جواب دیتے ہیں
لأن هذا الحديث فقط يتحدث عما خلق الله عز وجل وأوجد من مخلوقات وتصرفات جديدة في الأرض فقط
اس حدیث میں صرف یہ بیان ہوا کہ الله تعالی نے کس کو خلق کیا اور مخلوقات کو ایجاد کیا اور نیے تصرفات فقط اس زمین پر کیے
اب ہم اس روایت کا تقابل قرآن سے کرتے ہیں
ایام | قرآن
|
روایت |
پہلا | دو دن میں زمین اور اس کے پہاڑ سوره فصلت ٩ سے ١٠
(یعنی مٹی اور پہاڑ) |
مٹی کو ہفتہ کے دن خلق کیا |
دوسرا | اور اس میں پہاڑوں کو اتوار کو | |
تیسرا |
اگلے چار دن میں زمین کا سب سامان معیشت سوره فصلت ١٠ دو دن میں سات آسمان بنائے سوره فصلت ١١ (یعنی افلاک اور زمینی نباتات جو سورج پر منحصر ہیں یہ سب ملا کر چار دن میں بنے) |
اور درختوں کو پیر کو |
چوتھا | اور مکروہات کو منگل کو | |
پانچواں | اور نور کو بدھ کو | |
چھٹا
|
اور اس میں جانور پھیلائے جمعرات کو | |
ساتواں | اور آدم کو عصر و رات کے درمیان کے بعد بروز جمعہ آخری ساعت میں خلق کیا |
اس تقابل سے ظاہر ہوتا ہے کہ البانی کی رائے صحیح ہے روایت خلاف قرآن نہیں ہے
قرآن کے مطابق پہلے دو دنوں میں زمین اور پہاڑ بنے یہی روایت میں ہے کہ مٹی اور پہاڑ بنے
اگلے چار دن میں سات آسمان اور زمین سب سامان معیشت بنائی گئیں ایسا ہی روایت میں ہے
اس طرح ٦ دنوں میں زمین و آسمان خلق ہوئے قرآن میں تخلیق آدم کو ان ٦ دنوں میں شمار نہیں کیا گیا
[/EXPAND]
[صحیح مسلم پر کیا اعتراضات ہوئے ہیں؟]
جواب
امام مسلم نے صحیح میں ایک مقام پر کہا ہے
قَالَ لَيْسَ کُلُّ شَيْئٍ عِنْدِي صَحِيحٍ وَضَعْتُهُ هَا هُنَا إِنَّمَا وَضَعْتُ هَا هُنَا مَا أَجْمَعُوا عَلَيْهِ
میں نے اس کتاب میں ہر اس حدیث کو نقل کیا جو میرے نزدیک صحیح ہو بلکہ اس میں نے ان احادیث کو بھی نقل کیا ہے جس کی صحت پر سب کا اجماع ہو۔
یعنی بعض احادیث امام مسلم کی اپنی شرط پر نہیں بلکہ دوسروں کے صحیح سمجھنے کی بنا پر لکھی ہیں
البلقيني کہتے ہیں ( محاسن الاصطلاح (ص:91)میں) اس میں ائمہ سے مراد يحيى بن معين، وأحمد بن حنبل، وعثمان بن أبي شيبة، وسعيد بن منصور ہیں
الميانجي کہتے ہیں (ما لا يسع المحدث جهله (ص:27)) اس سے مراد ہیں مالك، والثوري، وشعبة، وأحمد بن حنبل، وغيرهم ہیں
کتاب صيانة صحيح مسلم میں ابن الصلاح (المتوفى: 643هـ) کہتے ہیں امام مسلم نے جو یہ کہہ دیا ہے
قد اشْتَمَل كِتَابه على أَحَادِيث اخْتلفُوا فِي إسنادها أَو متنها عَن هَذَا الشَّرْط لصحتها عِنْده وَفِي ذَلِك ذُهُول مِنْهُ رحمنا الله
بلا شبہ انہوں نے اپنی کتاب میں احادیث شامل کر دیں جن کی اسناد یا متن میں اختلاف تھا اپنی صحت کی شرط کے مطابق اور یہ الله رحم کرے انکی بد احتیاطی ہے
کہ امام مسلم نے اپنی کتاب میں احادیث شامل کیں جن کی اسناد میں اختلاف تھا یا متن میں ان کی اپنی شرط کے مطابق جو صحت تک جاتیں تو یہ امام مسلم کا ذھول (بد احتیاطی) ہے الله رحم کرے
ابن الصلاح اسی کتاب میں اس کو ایک بہت مشکل بات کہتے ہیں
وَهَذَا مُشكل جدا فَإِنَّهُ قد وضع فِيهِ أَحَادِيث قد اخْتلفُوا فِي صِحَّتهَا لكَونهَا من حَدِيث من ذَكرْنَاهُ وَمن لم تذكره مِمَّن اخْتلفُوا فِي صِحَة حَدِيثه وَلم يجمعوا عَلَيْهِ
یہ بہت مشکل ہے کہ امام مسلم نے احادیث اس میں لیں جن کی صحت پر اختلاف تھا … اور ان پر اجماع نہ تھا
یعنی امام مسلم خود اس کتاب کو صحیح کہتے ہیں لیکن اپنی شرط پر نہیں دوسرووں کی شرط پر جن کا نام بھی انہوں نے نہیں لیااور یہ دعوی کہ جن احادیث کی صحت و قبولیت پر ائمہ محدثین کا اجماع تھا ان کو انہوں نے نقل کیا پھر اختلاف شدہ کو بھی ملا دیا تو یہ امام مسلم کی بد احتیاطی ہے
امام ابی حاتم امام مسلم کو ثقہ کی بجائے صدوق کہا کرتے
أبا حاتم قال: مسلم بن الحجاج صدوق
الجرح والتعديل از ابن ابی حاتم
ابن ابی حاتم کہتے ہیں
وإذا قيل له إنه صدوق أو محله الصدق أو لا بأس به: فهو ممن يكتب حديثه وينظر فيه
اگر کسی کو صدوق یا محلہ صدق کہا جائے یا اس میں برائی نہیں تو یہ وہ ہے جس کی حدیث لکھ لی جائے اور دیکھی جائے
واضح ہو کہ صدوق ثقاہت کا سب سے ادنی درجہ ہے
امام مسلم صحیح کے مقدمہ میں اپنا منہج لکھتے ہیں
فَأَمَّا الْقِسْمُ الْأَوَّلُ، فَإِنَّا نَتَوَخَّى أَنْ نُقَدِّمَ الْأَخْبَارَ الَّتِي هِيَ أَسْلَمُ مِنَ الْعُيُوبِ مِنْ غَيْرِهَا، وَأَنْقَى مِنْ أَنْ يَكُونَ نَاقِلُوهَا أَهْلَ اسْتِقَامَةٍ فِي الْحَدِيثِ، وَإِتْقَانٍ لِمَا نَقَلُوا، لَمْ يُوجَدْ فِي رِوَايَتِهِمْ اخْتِلَافٌ شَدِيدٌ، وَلَا تَخْلِيطٌ فَاحِشٌ، كَمَا قَدْ عُثِرَ فِيهِ عَلَى كَثِيرٍ مِنَ الْمُحَدِّثِينَ، وَبَانَ ذَلِكَ فِي حَدِيثِهِمْ فَإِذَا نَحْنُ تَقَصَّيْنَا أَخْبَارَ هَذَا الصِّنْفِ مِنَ النَّاسِ، أَتْبَعْنَاهَا أَخْبَارًا يَقَعُ فِي أَسَانِيدِهَا بَعْضُ مَنْ لَيْسَ بِالْمَوْصُوفِ بِالْحِفْظِ وَالْإِتْقَانِ، كَالصِّنْفِ الْمُقَدَّمِ قَبْلَهُمْ، عَلَى أَنَّهُمْ وَإِنْ كَانُوا فِيمَا وَصَفْنَا دُونَهُمْ، فَإِنَّ اسْمَ السَّتْرِ، وَالصِّدْقِ، وَتَعَاطِي الْعِلْمِ يَشْمَلُهُمْ
قسم اول میں ہم ان احادیث مبارکہ کو بیان کریں گے جن کی اسانید دوسری احادیث کی اسانید اور عیوب ونقائص سے محفوظ ہوں گی اور ان کے راوی زیادہ معتبر اور قوی وثقہ ہوں گے حدیث میں کیونکہ نہ تو ان کی روایت میں سخت اختلاف ہے اور نہ فاحش اختلاط جیسا کہ کثیر محدیثن کی کیفیت معلوم ہوگئی ہے اور یہ بات ان احادیث کی روایت سے پائے ثبوت تک پہنچ چکی ہے پھر ہم اس قسم کے لوگوں کی مرویات کا ذکر کرنے کے بعد ایسی احادیث لائیں گے جن کی اسانید میں وہ لوگ ہوں جو اس درجہ اتقان اور حفظ سے موصوف نہ ہوں جو اوپر ذکر ہوا لیکن تقوی پرہیزگاری اور صداقت وامانت میں ان کا مرتبہ ان سے کم نہ ہوگا کیونکہ ان کا عیب ڈھکا ہوا ہے اور ان کی روایت بھی محدیثن کے ہاں مقبول ہے
امام مسلم صاف لکھ رہے ہیں کہ ان کے صحیح کا معیار یہ ہے کہ اس راوی سے بھی لکھیں گے جو حافظہ میں بہت اچھے نہیں ہیں
امام ابو زرعہ بڑے پائے کے محدث ہیں امام بخاری و مسلم کے استاد ہیں یہاں ان کا تبصرہ صحیح مسلم پر پیش خدمت ہے
قال البرذعي في سؤالاته ( أبو زرعة الرازي وجهوده في السنة النبوية ترجمہ ٦٧٤ ج ٢ ص 674): ((شهدتُ أبا زرعة ذكر كتاب الصحيح الذي ألفه مسلم بن الحجاج، ثم الفضل الصائغ على مثاله، فقال لي أبو زرعة: “هؤلاء قومٌ أرادوا التقدم قبل أوانه، فعملوا شيئاً يتشوفون به. ألفوا كتاباً لم يُسبقوا إليه، ليقيموا لأنفسهم رياسةً قبل وقتها”. وأتاه ذات يومٍ – وأنا شاهدٌ – رجلٌ بكتاب الصحيح مِن رواية مسلم، فجعل ينظر فيه. فإذا حديثٌ عن إسباط بن نصر، فقال لي أبو زرعة: “ما أبعد هذا من الصحيح! يُدخل في كتابه أسباط بن نصر!” ثم رأى في الكتاب قطن بن نسير، فقال لي: “وهذا أطمُّ مِن الأول! قطن بن نسير وصل أحاديث عن ثابت جعلها عن أنس”. ثم نظر فقال: “يروي عن أحمد بن عيسى المصري في كتابه الصحيح”. قال لي أبو زرعة: “ما رأيت أهل مصرٍ يَشُكُّون في أنَّ أحمد بن عيسى” وأشار أبو زرعة بيده إلى لسانه كأنه يقول: الكذب. ثم قال لي: “يُحدِّث عن أمثال هؤلاء، ويترك عن محمد بن عجلان ونظرائه! ويُطرِّق لأهل البدع علينا، فيجدون السبيل بأن يقولوا لحديثٍ إذا احتُجَّ عليهم به: ليس هذا في كتاب الصحيح”. ورأيته يذمُّ وَضْعَ هذا الكتاب ويؤنِّبه. فلما رجعتُ إلى نيسابور في المرة الثانية، ذكرت لمسلم بن الحجاج إنكار أبي زرعة عليه روايته في هذا الكتاب عن أسباط بن نصر وقطن بن نسير وأحمد بن عيسى. فقال لي مسلم: “إنما قلتُ: صحيح، وإنما أدخلتُ مِن حديث أسبط وقطن وأحمد ما قد رواه الثقات عن شيوخهم. إلا أنه ربما وقع إليَّ عنهم بارتفاعٍ، ويكون عندي مِن رواية مَن هو أوثق منهم بنزولٍ، فأقتصر على أولئك. وأصل الحديث معروفٌ مِن رواية الثقات)). اهـ
البرذعي کہتے ہیں میں نے ابو زرعہ کو دیکھا اور ان سے الصحیح کا ذکر کیا جس کی تالیف مسلم بن حجاج نے کی … پس ابو زرعہ نے کہا یہ محدثین کی ایک قوم ہے جو وقت سے پہلے پہلے کام کرنا چاھتے ہیں … لہذا انہوں نے کتابیں تالیف کیں جس کو ان سے پہلے کسی نے نہیں کیا تاکہ اپنے تئیں دوسروں پر سردار بنیں وقت سے پہلے اور وہ دن ا ہی گیا جسے میں دیکھ رہا تھا کہ ایک آدمی کتاب صحیح مسلم لایا – ابو زرعہ نے مسلم کی کتاب پر نظر ڈالی تو اس میں اسباط سے روایت کرتا ہے پس ابو زرعہ نے کہا یہ کتاب تو صحیح سے بہت دور ہے اپنی کتاب میں اسباط بن نصر سے روایت کر ڈالی ! پھر انہوں نے دیکھا کتاب میں قطن بن نسیر بھی ہے پس انہوں نے کہا یہ تو اس سے بھی خراب ہے قطن نے ثابت سے اور پھر انس سے روایت ملا دی ہیں پھر ابو زرعہ نے دیکھا احمد بن عیسیٰ المصری پس انہوں نے کہا میں نے نہیں دیکھا کہ اہل مصر اس کے بارے میں شکایت کرتے ہوں سوائے اس کے ، پھر انہوں نے زبان کی طرف اشارہ کیا، کہ یہ جھوٹا ہے پھر کہا اس قسم کے لوگوں سے روایت لے لی ہے اور محمد بن عجلان اور ان کے جیسوں کو چھوڑ دیا ہے اور اہل بدعت کو ہمارے لئے ایک رستہ بنا کر دے دیا ہے پس وہ اس پر ہم سے سبیل پائیں گے اس روایت سے دلیل لی گئی ہے کیا یہ صحیح میں نہیں ؟ اور ان کو دیکھا وہ اس کتاب کو بنانے پر مذمت کرتے پس جب دوسری دفعہ نیشا پور لوٹے پھر امام مسلم کا ذکر ہوا تو ابو زرعہ نے ان کا انکار کیا اور ان کی اسباط بن نصر سے اور قطن سے اور احمد بن عیسیٰ سے روایت کا پس امام مسلم نے مجھ سے کہا میں ان روایات کو صحیح کہا کیونکہ ان راویوں سے شیوخ نے روایت کیا ہے بلاشہ کبھی کبھی میرا (ایمان) ان سے اٹھ جاتا ہے اور میرے پاس ان سے زیادہ ثقہ کی روایت ہوتی ہے تو میں اس کو چھوٹا کر دیتا ہوں اور اصل حدیث تو معروف ہوتی ہے ثقات کی روایت سے
یعنی امام ابو زرعہ کے مطابق امام مسلم نے جلدی جلدی صحیح پر کتب لکھ دیں قبل اس کے ان کا علم ان پر پختہ ہوتا لوگوں نے امام ابو زرعہ کی رائے کو تعصب یا تنگ نظری کہا ہے لیکن یہ ان کا منہج ہے اس کی اپنی اہمیت ہے اور ان کا نکتہ نظر نہ صرف ایک استاد کا ہے بلکہ دیکھا جائے تو صحیح بھی ہے
اس کے برعکس ایک قول پیش کیا جاتا ہے جو الذھبی نے سیر الاعلام النبلاء ج ١٠ ص پر پیش کیا ہے
وَقَالَ مَكِّيّ بن عبدَان: سَمِعْتُ مسلماً يَقُوْلُ: عرضت كِتَابِي هَذَا (المُسْنَد) عَلَى أَبِي زُرْعَةَ، فُكُلُّ مَا أَشَار عليّ فِي هَذَا الكِتَاب أَن لَهُ عِلَّة وَسبباً تركته، وَكُلّ مَا قَالَ: إِنَّهُ صَحِيْح لَيْسَ لَهُ علَّة، فَهُوَ الَّذِي أَخرجت. وَلَوْ أَنَّ أَهْل الحَدِيْث يَكْتُبُوْنَ الحَدِيْث مَائَتَي سنَة، فمدَارهُم عَلَى هَذَا
میں نے اپنی کتاب (معروف نقاد محدث) ابو زرعہ رحمة اللہ علیہ پر پیش کی تو اُنہوں نے میری اس کتاب میں جس حدیث کی طرف بھی اشارہ کیا کہ اس میں کوئی ضعف کا سبب یا علت ہے تو میں نے اس حدیث کو چھوڑ دیا اور جس کے بارے میں بھی اُنہوں نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے اور اس میں کوئی علت (خفی کمزوری) نہیں ہے تو اسکو میں نے اپنی اس کتاب میں بیان کیا ہے
یہ قول کذب ہے کیونکہ ہم نے ثابت کر دیا ہے امام ابو زرعہ کو امام مسلم نے صحیح نہیں دکھائی بلکہ البرزعی نے اس کا ایک نسخہ دکھآیا اور انہوں نے دیکھ کر جن راویوں کی نشان دھی کی ان کی روایات آج تک صحیح مسلم میں موجود ہیں مثلا اسباط بن نصر واحمد بن عیسیٰ المصری کی روایت
تاریخ بغداد کے مطابق سعید بْن عَمْرو البرذعي کہتے ہیں کہ
وقدم مسلم بعد ذلك الري، فبلغني أنه خرج إِلَى أَبِي عَبد اللَّهِ مُحَمَّد بْن مسلم بْن وارة، فجفاه، وعاتبه على هذا الكتاب، وَقَال لَهُ نحوا مما قاله لي أَبُو زُرْعَة: إن هذا يطرق لأهل البدع علينا، فاعتذر إليه مسلم وَقَال: إنما أخرجت هذا الكتاب وقلت هو صحاح، ولم أقل أن ما لم أخرجه من الحديث فِي هذا الكتاب ضعيف، ولكن إنما أخرجت هذا من الحديث الصحيح، ليكون مجموعا عندي وعند من يكتبه عني، فلا يرتاب فِي صحتها، ولم أقل: إن ما سواه ضعيف، أو نحو ذلك مما اعتذر به مسلم إِلَى مُحَمَّد بْن مسلم فقبل عذره وحدثه.
اور امام مسلم اس کے بعد الري آئے پس مجھے پتا چلا کہ یہ أَبِي عَبد اللَّهِ مُحَمَّد بْن مسلم بْن وارة سے تخریج کرتے ہیں پس میں خفا ہوا اور اس کتاب الصحیح کی بنا پر ان پر برسا اور وہی کہا جو امام ابو زرعہ نے کہا تھا کہ اس نے اہل بدعت کو ہم پر رستہ بنا کر دے دیا ہے پس مسلم نےجواز پیش کیا اور کہا میں نے تو یہ کتاب لکھی اورمیں کہتا ہوں یہ صحاح ہیں اور میں یہ نہیں کہتا کہ جس حدیث کو میں نے اپنی اس کتاب میں بیان نہیں کیا، وہ ضعیف ہے۔ میں نے تو اس کتاب میں صحیح احادیث کی تخریج کی ہے تاکہ خود میرے لئے مجموعہ ہو یا ان کے لئے جنہوں نے مجھ سے لکھا پس ان کی صحت میں شک نہ ہو اور میں یہ نہیں کہتا کہ ان کے سوا جو روایتین ہیں وہ ضعیف ہیں یا اسی طرح تو یہ امام مسلم کا جواز ہے محمد بن مسلم کے حوالے سے پس اس کو قبول کیا اور روایت کیا
اول اس قول کو لوگوں نے عموم بنا دیا ہے سب سے پہلے یہ قول خاص مجروحین سے امام مسلم کی روایت کرنے پر ائمہ کی جرح کے حوالے سے ان کی وضاحت پر مبنی ہے
دوم امام مسلم پر امام ابو زرعہ کا جو اعتراض ہے اس پر امام مسلم نے کوئی بات نہیں کی بلکہ بات کو اس طرف پلٹ دیا گیا کہ صحیح مسلم کے علاوہ بھی صحیح احادیث ہیں جبکہ ان سے اس پر پوچھا نہیں گیا تھا
سوم البرزعی کے امام مسلم سے کلام نیشاپور میں کیا یا الري میں کیا کیونکہ سوالات جو زیادہ معتبر کتاب ہے اس میں البرزعی نے امام مسلم سے وضاحت نیشاپور میں ہی لی تھی
امام مسلم مقدمہ میں نام لئے بغیر ہم عصر محدثین پر جرح کرتے ہیں
: امام مسلم فرماتے ہیں کہ ہمارے بعض ہمعصر محدثین نے سند حدیث کی صحت اور سقم کے بارے میں ایک ایسی غلط شرط عائد کی ہے جس کا اگر ہم ذکر نہ کرتے اور اس کا ابطال نہ کرتے تو یہی زیادہ مناسب اور عمدہ تجویز ہوتی …..اور اس شخص نے جس کے قول سے ہم نے بات مذکور شروع کی ہے اور جس کے فکر وخیال کو ہم نے باطل قرار دیا ہے یوں گمان اور خیال کیا ہے کہ جس حدیث کی سند میں فلاں عن فلاں ہو اور ہم کو یہ بھی معلوم ہو کہ وہ دونوں معاصر ہیں اس لئے کہ ان دونوں کی ملاقات ممکن ہے اور حدیث کا سماع بھی البتہ ہمارے پاس کوئی دلیل یا روایت ایسی موجود نہ ہو جس سے قطعی طور پر یہ بات ثابت ہو سکے کہ ان دونوں کی ایک دوسرے سے ملاقات ہو اور ایک نے دوسرے سے بالمشافہ اور بلاواسطہ حدیث سنی تو ایسی اسناد سے جو حدیث روایت کی جائے وہ حدیث ان لوگوں کے ہاں اس وقت تک قابل اعتبار اور حجت نہ ہوگی
امکان لقاء پر حدیث کو صحیح کہنا امام بخاری کی شرط نہیں ہے لہذا صحیح بخاری کا معیار صحیح مسلم سے بہتر ہے اور یہ اقتباس ثابت کرتا ہے کہ امام مسلم اور امام بخاری کا اس پر مسئلہ پر اختلاف تھا
امام ابو زرعہ اور ابن ابی حاتم کے مطابق صحیح مسلم کی یہ روایات معلول ہیں
1- حديث المسح على الخفين والخمار (275
2- حديث كان يذكر الله على كل أحيانه (373
3- حديث ويلٌ للأعقاب مِن النار (240
4- حديث مَن نفَّس عن مؤمنٍ كربةً مِن كرب الدنيا (2699
اس کے علاوہ اوپر تین راویوں کے نام ہیں جن کو ابو زرعہ ضعیف کہتے ہیں اور ایک کو کذاب کہتے ہیں اور امام مسلم روایت کرتے ہیں
————
نوٹ
اس اقتباس میں ایک چیز ہے کہ امام مسلم نے روایت کا متن کم کیا کیونکہ وہ روایات مطول مشھور تھیں
اس کی مثال صحيح مسلم بَابُ عَرْضِ مَقْعَدِ الْمَيِّتِ مِنَ الْجَنَّةِ أَوِ النَّارِ عَلَيْهِ، وَإِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ وَالتَّعَوُّذِ مِنْهُ مين ہے قرع النعال والی روایت جس کو مختصرا بیان کیا
إِنَّ الْمَيِّتَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ، إِنَّهُ لَيَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ إِذَا انْصَرَفُوا
[/EXPAND]
[صحاح الستہ کی اصطلاح کب شروع ہوئی ؟]
جواب
صحاح ستہ ایک غلط اصطلاح ہے لیکن یہ چل نکلی
صحاح ستہ کے بجائے انکو الكتب الستة کہا جاتا تھا – میں ایک دور میں بحث ہوئی کون سی کتابیں ہیں
جامع الترمذی
سنن النسائی
سنن ابو داود
کو تو لوگوں نے قبول کر لیا لیکن اب چوتھی کتاب پر اختلاف ہوا
متقدمین مو طا کی طرف گئے اور متاخرین ابن ماجہ کی طرف
زرین بن معاویہ المتوفی ٥٣٥ ھ کے مطابق اس میں ابن ماجہ کی بجآئے موطا ہے
ابن اثیر کے مطابق چھٹی کتاب موطا ہے
ابن صلاح النكت مين لکھتے ہیں کہ کافی عرصہ مغرب میں یعنی اندلس اور شمالی افریقہ میں موطا چھٹی کتاب رہی حتی کہ وہ ابن ماجہ پر متفق ہوئے
وعند المغاربة موطأ مالك عوضا عن سنن ابن ماجه قبل أن يقفوا عليه
النکت کے مطابق العلائی دمشقی کے مطابق چھٹی کتاب سنن دارمی ہونی چاہیے
ابن حجر کے مطابق متاخرین میں أبو الفضل ابن طاهر المتوفی ٥٠٧ھ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے ابن ماجہ کو شامل کیا
وحكى ابن عساكر أن أول من أضاف كتاب ابن ماجه إلى الأصول أبو الفضل ابن طاهر وهو كما قال
[/EXPAND]
[حسن روایت پر کیا حکم ہے ؟ کیا اس سے استدلال ہو سکتا ہے ؟]
حسن روایت ضعیف کی صنف سے ہے اس کو امام ترمذی کی اختراع کہنا چاہیے
ان سے قبل یہ کسی اور نے لفظ نہیں بولا محدثین روایت کو صحیح یا ضعیف کہتے تھے
امام علی المدینی نے کتاب العلل میں حسن الاسناد کا لفظ بولا ہے
قَالَ عَلِيٌّ فِي حَدِيثِ عُمَرَ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنِّي مُمْسِكٌ بِحُجَزِكُمْ عَن النَّار قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنُ الْإِسْنَادِ
وَحَفْصُ بْنُ حُمَيْدٍ مَجْهُولٌ لَا أَعْلَمُ أَحَدًا رَوَى عَنْهُ إِلَّا يَعْقُوبُ
اس بنا پر کہا جاتا ہے کہ یہ امام علی کی ایجاد ہے اور ان کے امام بخاری نے یہ اصطلاح لی اور پھر امام ترمذی نے اس کو استمعال کثرت سے کیا
بحر الحال علماء نے حسن میں دو قسمیں بیان کی ہیں امام ترمذی کے کام کو دیکھتے ہوئے
حسن لذاتہ یعنی وہ روایت جس کی سند میں ضعیف ہو لیکن اس کا متن کسی اور صحیح السند روایت سے معلوم ہو
دوسری قسم حسن لغیرہ ہے یعنی ایک متن کو بہت سے ضعیف روایت کریں تو وہ ضعیف روایت بلند ہو کر حسن لغیرہ کے مرتبہ پر ا جائے گی
حسن روایت چونکہ ضعیف کی مد سے ہے اس پر عقیدہ نہیں بیانا جا سکتا لیکن اس بات کو متاخرین نے بدل دیا ہے
ابتداء میں محدثین کہتے تھے کہ حلال و حرام اور اصول و عقائد میں صحیح سے کام لیا جائے گا لیکن اگر ڈرانا ہو یا فضائل ہوں تو ضعیف کو لیا جا سکتا ہے
امام احمد نے کہا کہ رائے کے مقابلے میں ایک ضعیف روایت کو ترجیح حاصل ہے اس بنیاد پر محدثین نے ملغوبہ کتب لکھیں جن میں صحیح و ضعیف دونوں تھیں ان کے ابواب قائم کیے کہ کسی مسئلہ میں کوئی صحیح روایت نہ ملے تو ضعیف کو رائے پر ترجیح دیں گے
اس طرح فقہ میں ضعیف کا دخول ہو گیا اور صرف فضائل تک بات محدود نہیں رہی آہستہ آہستہ ضعیف روایت حسن بن کر فقہ میں اور پھر عقیدہ میں بھی اب پیش ہو رہی ہیں
اس پر متاخرین نے مزید اصطلاحات ایجاد کیں مثلا حدیث کو جید کہنا بھی حسن نما بات ہے
ابن کثیر اور ابن حجر جید کا لفظ بہت بولتے ہیں ان سے قبل اس کا اتنا استمعال نہیں ملتا
—-
راقم کی رائے میں ضعیف ضعیف ہے حسن کوئی چیز نہیں ہے یا تو روایت ضعیف ہے یا صحیح
حسن پر عقیدہ نہیں بنایا جا سکتا ہاں فقہ میں دلیل لی جا سکتی ہے اگر صحیح روایت نہ ہو وہ بھی اس طرح کہ کوئی صحیح عقیدہ خراب نہ ہو جائے
مثلا درود پڑھنا نیکی ہے لیکن کیا یہ نبی صلی الله علیہ وسلم پر پیش ہوتا ہے؟
محدثین کی ایک جماعت اس روایت کو صحیح کہتی ہے کیونکہ نیکی پر ابھارنا اچھا ہے
لیکن یہ روایت عقیدہ میں غلط ہے عمل الله پر پیش ہوتا ہے
درود الله سے دعا ہے جو انبیاء پر پیش نہیں ہوتا
[/EXPAND]
[کیا امام بخاری نے کتاب الصحیح کو مشھور محدثین پر پیش کیا ؟ مثلا ابن حجر کہتے ہیں]
لما صنف البخاری کتاب الصحیح عرضہ علی ابن المدینی و أحمد بن حنبل و یحی بن معین و غیرھم فاستحسنوہ و شھدوا لہ بالصحة الا أربعة أحادیث۔(ھدی الساری مقدمہ فتح الباری)
جب امام بخاری نے کتاب الصحیح کی تصنیف کی تو اس کو علی المدینی پر امام احمد پر امام ابن معین پر اور دیگر پر پیش کیا اور انہوں نے تحسین کی اور گواہی دی کہ کتاب کی صحت صحیح ہے الا چار روایات کے
جواب
یہ بات ایک عجیب قول ہے کیونکہ یہ ابن حجر نے امام عقیلی کے حوالے سے نقل کیا ہے پر سند نہیں دی
اس میں امام احمد کا نام ہے جن سے صحیح میں صرف ایک روایت واسطہ ڈالنے کے بعد لکھی گئی ہے جو غزوات کی تعداد پر ہے
اس میں امام ابن معین کا نام ہے جن سے صحیح میں صرف تین یا چار روایات لی گئی ہیں ایک سوره توبہ کے حوالے سے ایک اہل بیت کے حوالے سے اور ایک تاریخ اسلام کے ابتدائی مکی دور پر ہے لہذا ابن خلفون کتاب المعلم بشيوخ البخاري ومسلم کہتے ہیں ان سے مقرونا روایت لی ہے
روى عنه البخاري وعن صدقة بن الفضل مقرونًا به عن محمد بن جعفر غندر في مناقب الحسن والحسين.
وروى البخاري أيضًا عن عبد الله بن محمد المسندي عنه عن حجاج بن محمد الأعور في تفسير سورة براءة.
وروى عن عبد الله غير منسوب عنه، عن إسماعيل بن مجالد في ذكر أيام الجاهلية في باب: إسلام أبي بكر الصديق ـ رضي الله عنه
امام یحیی ابن معین کے نزدیک أحمد بن عيسى بن حسان المصرى کذاب ہے – الذہبی کہتے ہیں ابن معین الله کی قسم کھا کر اس کو کذاب کہتے
إلا أن أبا داود روى عن يحيى بن معين أنه حلف بالله أنه كذاب
یہ شخص امام بخاری کے شیوخ میں سے ہے اور اس کی روایت یھاں صحیح میں ہے
٩٤٩ ، ١٥٢٨ ، ١٦٤١ ، ١٧٩٦ ، ٤٨٢٨
اگر امام یحیی ابن معین اس پر متفق ہوئے کہ ایک کذاب کی روایت کو صحیح کہا جائے؟ ایسا ممکن نہیں جس سے ظاہر ہے کہ ابن معین پر صحیح کو پیش کر کے امام بخاری کو پھنسنا نہیں تھا
امام علي بن عبد الله المدینی سے امام بخاری نے صحیح میں ١٥٤ روایات لکھی ہیں
لہذا امام بخاری کو اگر صحیح کو پیش کرنا ہوتا تو وہ صرف امام علی پر پیش کرتے باقی دیکھتے کہ ان سے ایک دو روایات لی ہیں تو وہ شاگرد رشید کے حوالے سے کیا سوچتے
امام بخاری نے صحیح میں امام ابی حاتم یا امام الزھلی کا نام ٢٥٠ ہجری کے بعد چھپایا ہے یعنی ہمارے پاس جو صحیح ہے اس میں نام کی تدلیس ہے ظاہر ہے اس کو اگر ٢٥٠ ہجری سے پہلے انتقال کرنے والوں پر پیش کیا گیا تو یہی کہا جائے گا کہ صحیح میں اس کے بعد بھی تبدیلی اتی رہی
امام احمد کی وفات سن ہجری ٢٤١ کی ہے
امام علی کی سن ٢٣٤ ہجری میں ہے
امام ابن معین کی سن ٢٣٣ ہجری میں ہے
جبکہ امام الذہلی سے امام بخاری کا مناقشہ ابھی ہوا ہی نہیں وہ جب ہو گا تو صحیح میں ان کا نام چھپایا جائے گا
اب یہ ممکن نہیں کہ پہلے نام لکھا جائے اور بعد میں چھپایا جائے کیونکہ اس کو چھپانے کا پھر کوئی فائدہ نہیں
اس سے ظاہر ہے صحیح ان ائمہ کی وفات کے بعد تک مکمل نہ تھی اس پر کام جاری تھا
اس کی ایک دلیل صحیح کی روایت ہے
613 قَالَ يَحْيَى : وَحَدَّثَنِي بَعْضُ إِخْوَانِنَا أَنَّهُ قَالَ : لَمَّا قَالَ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ قَالَ : لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، وَقَالَ : هَكَذَا سَمِعْنَا نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ.
اس میں امام بخاری سند دیتے ہیں کہ یحیی نے کہا بَعْضُ إِخْوَانِنَا (ہمارے بعض بھائیوں نے) کہا – اس سند کو صحیح کہنا مشکل ہے کیونکہ یہ امام بخاری کی شرط پر نہیں بلکہ اس کی سند میں إِخْوَانِنَا کو مجھول کہا جائے گا ( اگرچہ ہمیں پتا ہے کہ دوسری کتابوں میں اس روایت کی سند میں نام موجود ہے) – جامع الصحیح میں اس قسم کی روایت کا رہ جانا اشارہ کر رہا ہے کہ اس کو یاد دھانی کے لئے اشارتا لکھا گیا تھا – لیکن عمر نے وفا نہ کی اور امام بخاری اس کی وہ سند نہ دے سکے جو وہ چاھتے تھے یا وہ سند جو ان کی صحیح کی شرط ہے
دیگر کتب میں اس سند میں نام ہیں مثلا
أمالي ابن سمعون الواعظ میں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْهَيْثَمِ، مِنْ أَصْلِهِ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ مُوسَى بْنِ أَبِي حَرْبٍ الصَّفَّارُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ” كَانَ إِذَا سَمِعَ الْمُؤَذِّنَ، قَالَ كَمَا يَقُولُ، قَالَ: فَإِذَا قَالَ: حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، قَالَ: لا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ
مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، قَالَ أَبِي: وَأَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ، قَالَ أَبُو عَامِرٍ، فِي حَدِيثِهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي عِيسَى بْنُ طَلْحَةَ، قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى مُعَاوِيَةَ، فَنَادَى الْمُنَادِي بِالصَّلَاةِ، فَقَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: «اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ» ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، قَالَ مُعَاوِيَةُ: «وَأَنَا أَشْهَدُ» – قَالَ أَبُو عَامِرٍ: أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ – قَالَ: أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ مُعَاوِيَةُ: «وَأَنَا أَشْهَدُ» – قَالَ أَبُو عَامِرٍ: أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ يَحْيَى: فَحَدَّثَنَا رَجُلٌ أَنَّهُ لَمَّا – قَالَ: حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، قَالَ: «لَا حَوْلَ [ص:37] وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ» ، قَالَ مُعَاوِيَةُ: «هَكَذَا سَمِعْتُ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ»
یہ يَحْيَى بنُ أَبِي كَثِيْرٍ أَبُو نَصْرٍ الطَّائِيُّ مَوْلاَهُم ہیں
[/EXPAND]
[کیا محدث البانی کے نزدیک صحیح مسلم کی بعض روایات ضعیف ہیں ؟]
جواب
البانی نے صحیح مسلم کی روایات کو بھی ضعیف کہا ہے
http://halsat.blogspot.com/2013/04/blog-post_7539.html
لا يشربن أحد منكم قائما ، فمن نسي فليستقئ )) رواه
مسلم 116 (2026) .
قال الألباني في الضعيفة ( 2 / 326 ) : ( منكر بهذا اللفظ ،
أخرجه مسلم في صحيحه من طريق عمر بن حمزة ) .
5- (( إن من شر الناس عند الله منزلة يوم القيامة الرجل يفضي
إلى امرأته وتفضي إليه ثم ينشر سرها))
رواه مسلم 123 (1437) ،
قال الألباني في ضعيف الجامع ( 2/192 ) : ( ضعيف ، رواه مسلم )
وكذا ضعفه في إرواء الغليل ( 7/74 – 75 ) ،
وفي غاية المرام ( ص150 ) ،
وكذلك في مختصر صحيح مسلم تعليق ( 150 ) ،
و في آداب الزفاف ( 142 ) .
6- حديث (( إني لأفعل ذلك أنا وهذه ثم نغتسل ))
يعني الجماع دون إنزال رواه مسلم 89 (350) .
قال في الضعيفة ( 2/406 – 407 ) : ( ضعيف مرفوعا ) .
إلى أن قال :( وهذا سند ضعيف له علتان : الأولى عنعنة أبي
الزبير ؛ فقد كان مدلسا … إلخ ،
الثانية ضعف عياض بن عبدالرحمن الفهري المدني …) إلخ .
7- (( لا تذبحوا إلا مسنة إلا أن تتعسر عليكم فتذبحوا جذعة من
الضأن ))رواه مسلم رقم 13 (1963) .
قال الألباني : ( رواه أحمد ومسلم و… و… ضعيف )
انظر ضعيف الجامع ( 6/64 ) .
وكذلك ضعفه في إرواء الغليل برقم ( 1131 ) ،
وكذلك في الأحاديث الضعيفة ( 1/91 ) . وقال هناك بعد كلام : (
ثم بدا لي أني كنت واهما في ذلك تبعا للحافظ ، وأن هذا الحديث
الذي صححه هووأخرجه مسلم كان الأحرى به أن يحشر في زمرة
الأحاديث الضعيفة … إلخ ) .
8- (( إذا قام أحدكم من الليل فليفتتح صلاته بركعتين خفيفتين )
رواه مسلم198 (768) .
قال الألباني في ضعيف الجامع ( 1/213 ) :( رواه أحمد ومسلم ،
ضعيف ) .
9- (( لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا تماثيل ))رواه مسلم 87
(2106) .
قال الألباني في غاية المرام ( ص104 ) :( صحيح دون قول عائشة
( لا) فإنه شاذ أو منكر ).
10- حديث : ( أنتم الغر المحجلون يوم القيامة ، من إسباغ الوضوء ،
فمن استطاع منكم فليطل غرته وتحجيله )
رواه مسلم
قال الالباني في ( ضعيف الجامع وزيادته )
( 14 / 2 برقم 1425 ) : رواه مسلم عن أبي هريرة ( ضعيف بهذا
التمام ) .12- حديث :
( من قرأ العشر الاواخر من سورة الكهف عصم من فتنة الدجال ) .
قال الالباني في ( ضعيف الجامع وزيادته ) ( 5 / 233 برقم 5772 ) :
رواه أحمد ومسلم والنسائي عن أبي الدرداء( ضعيف )
حديث ” إن النبي صلى الله عليه وسلم صلى في كسوف
ثماني ركعات في أربع سجدات …”
اخرجه مسلم
قال الألباني في إرواء الغليل (3/129) ما نصه : ضعيف وإن أخرجه
مسلم ومن ذكره معه وغيرهم .
[/EXPAND]
[کیا محدث البانی کے نزدیک صحیح بخاری کی بعض روایات ضعیف ہیں ؟ ]
جواب
البانی کے نزدیک صحیح البخاری کی ١٥ روایات ضعیف ہیں
پہلی حدیث ٦٤٧٨ ہے
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ، سَمِعَ أَبَا النَّضْرِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ يَعْني ابْنَ دِينَارٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ العَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالكَلِمَةِ مِنْ رِضْوَانِ اللَّهِ، لاَ يُلْقِي لَهَا بَالًا، يَرْفَعُهُ اللَّهُ بِهَا دَرَجَاتٍ، وَإِنَّ العَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالكَلِمَةِ مِنْ سَخَطِ اللَّهِ، لاَ يُلْقِي لَهَا بَالًا، يَهْوِي بِهَا فِي جَهَنَّمَ»
مجھ سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا، انہوں نے ابوالنضر سے سنا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ یعنی ابن دینار نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے ابوصالح نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بندہ اللہ کی رضا مندی کے لیے ایک بات زبان سے نکالتا ہے اسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا مگر اسی کی وجہ سے اللہ اس کے درجے بلند کر دیتا ہے اور ایک دوسرا بندہ ایک ایسا کلمہ زبان سے نکالتا ہے جو اللہ کی ناراضگی کا باعث ہوتا ہے اسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا لیکن اس کی وجہ سے وہ جہنم میں چلا جاتا ہے۔
البانی نے صحیح بخاری کی دو روایات کو الضعیفہ میں بیان کیا ہے ایک کو ح ١٢٩٩ میں بیان کرتے ہیں
إن العبد ليتكلم بالكلمة لا يلقي لها بالا يرفعه الله بها درجات
( 3/463 )
ضعيف اخرجه البخاري ( 6478 فتح )
قلت : و هذا إسناد ضعيف ، و له علتان
الأولى : سوء حفظ عبد الرحمن هذا مع كونه قد احتج به البخاري
یہ اسناد ضعیف ہیں اور اس میں علتیں ہیں اس میں عبدالرحمان کا خراب حافظہ ہے باوجود یہ کہ امام بخاری نے اس سے دلیل لی ہے
اسی طرح دوسری ح ٤٨٣٥ میں لکھتے ہیں
إن هاتين الصلاتين حولنا عن وقتهما في هذا المكان (يعني : المزدلفة) : المغرب والعشاء ، فلا يقدم الناس جمعاً حتى يعتموا ، وصلاة الفجر هذه الساعة ) .
ضعيف أخرجه البخاري
صحیح بخاری کی یہ حدیث ح ١٦٨٣ ہے
حدثنا عبد الله بن رجاء: حدثنا إسرائيل عن أبي إسحاق عن عبد الرحمن بن يزيد قال: خرجت مع عبد الله رضي الله عنه إلى مكة، ثم قدمنا جمعاً، فصلى الصلاتين، كل صلاة وحدها بأذان وإقامة، والعشاء بينهما، ثم صلى الفجر حين طلع الفجر، قائل يقول: طلع الفجر، وقائل يقول: لم يطلع الفجر، ثم قال … (فذكره) . ثم وقف حتى أسفر، ثم قال: لو أن أمير المؤمنين أفاض الآن أصاب السنة، فما أدري أقوله كان أسرع، أم دفع عثمان رضي الله عنه؟! فلم يزل يلبي حتى رمى جمرة العقبة يوم النحر.
ہم سے عبداللہ بن رجاء نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابواسحٰق نے، ان سے عبدالرحمٰن بن یزید نے کہ ہم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ کی طرف نکلے (حج شروع کیا) پھر جب ہم مزدلفہ آئے تو آپ نے دو نمازیں (اس طرح ایک ساتھ) پڑھیں کہ ہر نماز ایک الگ اذان اور ایک الگ اقامت کے ساتھ تھی اور رات کا کھانا دونوں کے درمیان میں کھایا، پھر طلوع صبح کے ساتھ ہی آپ نے نماز فجر پڑھی، کوئی کہتا تھا کہ ابھی صبح صادق نہیں ہوئی اور کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ ہو گئی۔ اس کے بعد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا یہ دونوں نمازیں اس مقام سے ہٹا دی
البانی الضعیفہ میں کہتے ہیں
قلت: وهذا الحديث – مع كونه في “الصحيح” -؛ ففي ثبوته عندي شك كبير،
البانی کہتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ یہ حدیث صحیح میں ہے میرے پاس ثبوت ہے اور مجھے اس حدیث پر شک ہے
البانی اس پر بحث کرتے ہیں اور ان کے مطابق صحیح البخاری کی یہ روایات الضعیفہ کا حصہ ہیں
اس طرح کل ١٥ روایات جو صحیح بخاری کی ہیں البانی ان کو سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة
میں ضعیف قرار دیتے ہیں گویا کہ ان صحیح بخاری کی ١٥ روایات کے (أثرها السيئ في الأمة) امت پر برے اثرات ہوئے
.الضعيفة حديث رقم ) …. ( 1030من استطاع منكم أن يطيل غرته
.الضعيفة حديث رقم )…( 1052لما نـزل عليـه الـوحي يريـد أن يلقـي بنفـسه
.الضعيفة حديث رقم)..(1299إن العبد ليتكلم بالكلمة
. الضعيفة حديث رقم)…(3364إذا أعتق الرجل أمته
. الضعيفة حديث رقم)..(4226كان له فرس الظرب
. الضعيفة حديث رقم) (4835إن هاتين الصلاتين
. الضعيفة حديث رقم) (4839قضى في ابن الملاعنة
. الضعيفة حديث رقم)(4992نعم وأبيك لتنبأن
الضعيفة حديث رقم) (5036لا يسبغ عبد الوضوء
– الضعيفة حديث رقم)(6763ثلاثة أنا خصمهم
– الضعيفة حديث رقم)(6945بينما أنا قائم خرج رجل همل النعم
– الضعيفة حديث رقم)(6947إذا وسد الأمر فانتظر الساعة
– الضعيفة حديث رقم)(6949إن كان عندك ماء بات في شنة
– الضعيفة حديث رقم)(6950أن رجلا من أهل الجنة استأذن ربه
– الضعيفة حديث رقم) ( 6959لا عقوبة فـوق عـشر ضـربات
بعض کے بقول صحیح بخاری اصح الکتاب بعد کتاب الله ہے اور اس پر اجماع امت ہے
یہ کیسا اجماع ہے جس کا انکار بھی ہے ؟
البانی الضعیفہ ج ٣ ص ٤٦٥ پر کہتے ہیں کہ کوئی معترض کہے
إن الألباني قد طعن في ” صحيح البخاري ” وضعف حديثه، فقد تبين لكل ذي بصيرة
أنني لم أحكم عقلي أورأيي كما يفعل أهل الأهواء قديما وحديثا، وإنما تمسكت
بما قاله العلماء في هذا الراوي وما تقتضيه قواعدهم في هذا العلم الشريف
ومصطلحه من رد حديث الضعيف، وبخاصة إذا خالف الثقة. والله ولي التوفيق.
بے شک البانی نے صحیح البخاری پر طعن کیا ہے اور اسکی احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے تو پس ہر دیدہ بینا پر واضح ہے کہ میں نے عقل اور رائے سے یہ حکم نہیں لگآیا جیسا کہ قدیم و جدید اہل الهواء کا عمل ہے میں نے تو اس پر تمسک کیا ہے جو علماء نے اس راوی پر کہا ہے اور جو اس علم حدیث اور اس کے مصطلح کے قواعد کا رد حدیث ضعیف کے حوالے سے تقاضہ ہے ، خاص کر جب ثقہ کی مخالف ہوں والله الولی التوفیق
ایک غیر مقلد عالم محمد زبیر مضمون کیا صحیحین کی صحت پر اجماع ہے جو محدث شمارہ ٣١٩ میں ٢٠٠٨ میں چھپا اس میں لکھتے ہیں
۔اب عصر حاضر میں کسی بھی عالم کے لیے یہ گنجائش باقی نہیں رہی کہ وہ صحیحین کی کسی ایسی روایت پر کلام کرے جس پر سلف نے کلام نہ کیا ہو،کیونکہ حافظ دارقطنی رحمة اللہ علیہ وغیرہ کے کام سے یہ متعین ہو گیا کہ صحیحین میں صرف یہ مقامات ایسے ہیں جن میں کلام کی گنجائش موجود ہے۔ اب اگر کوئی شخص امام دارقطنی رحمة اللہ علیہ یاائمہ سلف میں سے کسی اور محدث کی بیان کردہ تحقیقات کی روشنی میں صحیح بخاری یا صحیح مسلم کی کسی حدیث پر نقد کرتا ہے تو اس کی یہ تنقید صحیحین پر کوئی مستقل بالذات تنقید شمار نہ ہو گی اور ایسی تنقید کاائمہ سلف ہی میں سے بہت سے ائمہ نے کافی و شافی جواب دے دیا ہے ۔اور اگر کوئی شخص صحیحین کی کسی ایسی روایت پر تنقید کرتا ہے جس پر ائمہ سلف میں سے کسی نے بھی کلام نہ کیا ہو تو ایسا شخص اجماعِ محدثین کی مخالفت کر رہا ہے، کیونکہ جن روایات پر محدثین نے تنقید نہ کی تو اس سے یہ طے ہو گیا کہ تمام محدثین کے نزدیک یہ روایات صحیح ہیں لہٰذا ان روایات پر کلام کرنا جمیع محدثین کے دعوی صحت کو چیلنج کرنا ہے اور ایسا دعویٰ مردود ہے چہ جائیکہ اس کی تحقیق کی جائے۔
الله رحم کرے ایک غیر مقلد البانی کہتے ہیں احادیث ضعیف بھی ہیں دوسری طرح یہ عالم ہیں جو کہتے ہیں ایسا دعوی مردود ہے
[/EXPAND]
[صحیح مسلم میں ابی الزبیر المکی کی وہ روایات جن میں عنعنہ ہو اور وہ اللیث بن سعد کی سند سے نہ ہوں کا کیا حکم ہے؟ ]
جواب
امام مسلم نے ٨٠ کے قریب روایات ابی الزبیر المکی کی سند سے دیں ہیں جو اللیث کی سند سے نہیں ہیں
امام الذھبی کتاب المیزان میں محمد بن مسلم [عو، م، خ] بن تدرس، أبو الزبير المكي کے ترجمہ میں کہتے ہیں
وفي صحيح مسلم عدة أحاديث مما لم يوضح فيها أبو الزبير السماع عن جابر، وهى من غير طريق الليث عنه، ففى القلب منها شئ
اور صحیح مسلم میں چند احادیث ہیں جن میں ابو الزبیر کے جابر رضی الله عنہ سے سماع کی وضاحت نہیں ہے اور یہ وہ ہیں جو اللیث کے طرق سے نہیں ہیں پس ان پر دل میں چیز (کھٹکتی) ہے
البانی ألضيفة ج ١ ص ١٦٢ کہتے ہیں
أن كل حديث يرويه أبو الزبير عن جابر أو غيره بصيغة عن ونحوها وليس من رواية الليث بن سعد عنه، فينبغي التوقف عن الاحتجاج به، حتى يتبين سماعه، أو ما يشهد له، ويعتضد به.
هذه حقيقة يجب أن يعرفها كل محب للحق
ہر وہ حدیث جس کو ابو الزبیر ، جابر سے روایت کرے یا اس کو صغیہ عن سے بدلے یا اسی طرح اور وہ اللیث بن سعد کا طرق نہ ہو پس اس پر توقف ہونا چاہیے یہاں تک کہ سماع واضح ہو … اور یہ حقیقت ہے جس کا اعتراف ہر حق سے محبت کرنے والے کو کرنا چاہیے
صحیح مسلم میں اصول و متابعات میں ایسی ٨٠ روایات ہیں جن میں عنعنہ بھی ہے اور وہ امام اللیث کے طرق سے نہیں ہیں اور ان میں ہر ایک کا شاہد بھی نہیں ہے
[/EXPAND]
[صحیح بخاری کی حدیث پر سوال ہے کہ لوگ حشر پر جانوروں پر سوار ہوں گے]
»یحشر الناس علی ثلاث طرائق راغبين راهبين واثنان علي بعير وثلاثة على بعير واربعة على بعير وعشرة على بعير ويحشر بقيتهم النار ثقيل معهم حيث اصبحوا وتمسى معهم حيث امسوا«بخاری
پلیز اس روایت کا وضاحت کردے
جزاکم الله خیرا
ہم سے معلیٰ بن اسد نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن طاؤس نے، ان سے ان کے والد طاؤس نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں کا حشر تین فرقوں میں ہو گا (ایک فرقہ والے) لوگ رغبت کرنے نیز ڈرنے والے ہوں گے۔ (دوسرا فرقہ ایسے لوگوں کا ہو گا کہ) ایک اونٹ پر دو آدمی سوار ہوں گے کسی اونٹ پر تین ہوں گے، کسی اونٹ پر چار ہوں گے اور کسی پر دس ہوں گے۔ اور باقی لوگوں کو آگ جمع کرے گی (اہل شرک کا یہ تیسرا فرقہ ہو گا) جب وہ قیلولہ کریں گے تو آگ بھی ان کے ساتھ ٹھہری ہو گی جب وہ رات گزاریں گے تو آگ بھی ان کے ساتھ وہاں ٹھہری ہو گی جب وہ صبح کریں گے تو آگ بھی صبح کے وقت وہاں موجود ہو گی اور جب وہ شام کریں گے تو آگ بھی شام کے وقت ان کے ساتھ موجود ہو گی۔
یہ روایت صحیح مسلم میں بھی ہے
البغوي في “شرح السنة” 15/125: میں کہتے ہیں
هذا الحشر قبل قيام الساعة
یہ وہ حشر ہے جو قیامت سے قبل ہے
ایک دوسری روایت میں ہے
نَارٌ تَخْرُجُ مِنْ قَعْرِ عَدَنَ تُرَحِّلُ النَّاسَ
عدن کے بیچ سے اگ نکلے گی جو محشر کی طرف ہانکے گی
لہذا عمومی رائے ہے کہ یہ روایت میدان حشر سے متعلق نہیں بلکہ اس سے قبل زمین پر جو واقعات ہوں گے ان کی وجہ سے لوگ ایک جگہ جمع ہونے لگیں گے
——-
سندا اس میں وهيب بن خالد بن عجلان بصری کا تفرد ہے جو اختلاط کا شکار ہوئے
ابن حجر کہتے ہیں
ثقة ثبت لكنه تغير قليلا بأخرة
ثقہ ثبت ہیں لیکن آخر میں متغیر ہو چکے تھے
ابن العجمي اور ابن الكيال نے ان کا نام کو اپنی مختلط راویوں پر کتب میں بیان کیا ہے
ان کے اس اختلاط میں کس کس کا سماع ہوا محدثین نے بیان نہیں کیا
[/EXPAND]
[کیا امت میں تکفیر محدثین سے شروع ہوئی ]
جواب
وہ بنیادی چیزیں جن کا انکار کیا جائے تو اسلام سے خارج ہو جانا ہے ان میں
توحید کا اقرار ہے کہ الله ایک ہے اس کی بیوی بیٹی اور بیٹا نہیں ہے
نبی صلی الله علیہ وسلم آخری رسول ہیں
قرآن جو ہاتھوں میں ہے آخری کتاب ہے
اسلام کے ارکان دین کا ظاہر ہیں ان کا انکار بھی کفر سمجھا گیا ہے
لہذا اہل سنت کی کتب میں شیعہ پر کفر کا فتوی نہیں لگایا گیا کیونکہ باوجود غلو کے انہوں نے بنیاد کا انکار نہیں کیا ہے اور رافضی کی روایت محدثین نے صحیح بخاری و مسلم میں لکھی ہے یعنی عدالت ساقط نہیں ہوتی جھمی کو کافر کہا گیا کیونکہ انہوں نے صفات الہی کا انکار کیا اور ان کی حدیث بھی چھوڑ دی گئی
تکفیر یعنی کسی کو کافر کہنا ہے میں اہل اسلام کا اختلاف ہے کہ اہل قبلہ کو کیا کافر کہا جا سکتا ہے یا نہیں
کافر قرار دینے کی امثال : ابو بکر رضی الله عنہ نے زکواة نہ دینے والے قبائل کی تکفیر کی حالآنکہ وہ اہل قبلہ تھے
محدثین نے خلق قرآن کے قائل خلفاء کی تکفیر کی مثلا امام احمد نہ جگہ جگہ خلق قرآن کے قائلین کو کافر کہا ہے لیکن خروج نہیں کیا
ختم نبوت کے انکار پر کفر کا فتوی : ختم نبوت کا انکار بھی ابو بکر رضی الله عنہ کے نزدیک کفر ہے اور اسی پر صحابہ کا عمل تھا
کافر قرار نہ دینے کی مثال: خوارج کو امت میں سے کسی نے کافر نہیں کہا خوارج علی اور عثمان رضی الله عنہم کو گناہ کبیرہ کا مرتکب کہتے ہیں لیکن ان کی تکفیر نہیں کی گئی یہاں تک کہ محدثین نے اور ابن عباس رضی الله عنہ نے ان کو شاگرد بنایا اور صحیح بخاری میں خارجی سے روایت لی گئی ہے ظاہر ہے کفر سے عدالت ساقط ہوتی ہے جبکہ آج خارجی کا لفظ بہت غلط طریقہ سے مخالف کو کافر قرار دینے کے لئے استمعال ہوتا ہے
تکفیر کا حکم : تکفیر محدثین کے کنفیوژن سے شروع ہوئی – سب سے پہلے انہوں نے اولو الامر کا مفھوم بدلا
امام بخاری نے جماعت کے مفھوم کو اہل اقتدار کی اطاعت سے نکال کر اہل علم کی طرف کیا لہذا امام بخاری صحیح میں باب قائم کرتے ہیں
باب قوله تعالى: {وكذلك جعلناكم أمة وسطا} [البقرة: 143] وما أمر النبي صلى الله عليه وسلم بلزوم الجماعة، وهم أهل العلم
اور الله کا قول {وكذلك جعلناكم أمة وسطا} [البقرة: 143] اور نبی صلی الله علیہ وسلم کا حکم کہ جماعت کو
پکڑو اور وہ اہل علم ہیں
یعنی اہل اقتدار یا اولوالامر کی اطاعت سے نکال کر اس کو علماء کی اطاعت قرار دیا
اس کی دوسری مثال صحیح میں ہی ہے جہاں امام بخاری باب قائم کرتے ہیں
باب إذا اجتهد العامل أو الحاكم، فأخطأ خلاف الرسول من غير علم، فحكمه مردود لقول النبي صلى الله عليه وسلم: «من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد
باب کہ جب گورنر یا حاکم اجتہاد کرے اور اس میں خطا کرے خلاف رسول بغیر علم کہے تو وہ قول مردود ہے نبی صلی الله علیہ وسلم کے قول کی بنا پر کہ جس نے ایسا عمل کیا جس کا ہم نے حکم نہیں دیا تو وہ رد ہے
امام بخاری صحیح میں باب قول الله تعالى: {وأمرهم شورى بينهم میں لکھتے ہیں
ورأى أبو بكر قتال من منع الزكاة، فقال عمر: كيف تقاتل الناس وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله، فإذا قالوا: لا إله إلا الله عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا بحقها وحسابهم على الله ” فقال أبو بكر: والله لأقاتلن من فرق بين ما جمع رسول الله صلى الله عليه وسلم «ثم تابعه بعد عمر فلم يلتفت أبو بكر إلى مشورة إذ كان عنده حكم رسول الله صلى الله عليه وسلم في الذين فرقوا بين الصلاة والزكاة وأرادوا تبديل الدين وأحكامه» وقال النبي صلى الله عليه وسلم: «من بدل دينه فاقتلوه
اور ابو بکر نے زکات کے انکاریوں سے قتال کیا اور عمر نے کہا آپ کیسے قتال کر سکتے ہیں لوگوں سے اور بے شک رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہا ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے قتال کروں جب تک وہ لا
الہ الا اللہ نہ کہہ دیں اور جب کہہ دیں تو ان کا خوں اور مال مجھ سے بچ گئے سوائے حق کے اور ان کا حساب الله کے ذمے ہے پس ابو بکر نے کہا کہ الله کی قسم میں قتال کروں گا جو اس چیز میں فرق کرے جس پر رسول للہ نے جمع کیا پھر عمر ان کے تابع ہوئے اور ابو بکر نے ان سے مشورہ نہیں کیا کیونکہ ان کے پاس رسول الله کا حکم تھا ان کے لئے جو فرق کریں نماز اور زکات میں اور دین کو تبدیل کریں اور اس کے احکام کو اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جو دین بدلے اس کو قتل کرو
امام بخاری کے نزدیک ان قبائل نے دین کو تبدیل کیا اور اس وجہ سے مرتد قرار پائے
امام بخاری نے یہ موقف اس لئے اختیار کیا کیونکہ ان کے نزدیک عباسی خلفاء کا عقیدہ خلق قرآن غلط تھا انہوں نے اس پر کتاب خلق الافعال العباد بھی لکھی اور کہا جو خلق قرآن کا موقف رکھے وہ جھمی ہے اس کے پیچھے نماز نہیں ہو گی
یعنی کافر قرار دینا حکومت کا کام تھا جیسا ابو بکر رضی الله عنہ نے کیا – محدثین نے اس کوبدل کر اپنے لئے کر لیا جب دیکھا کہ عباسی خلفاء کا عقیدہ صحیح نہیں اس کے بعد تکفیر کا باب کھل گیا ہر عالم دوسرے مخالف کو کافر کہنے لگا
یہاں تک کہ خوارج و شیعہ کو بھی کافر کہا گیا جبکہ یہ جملہ محدثین خود رافضی کی روایت صحیح میں لکھتے تھے
یہ تکفیر بازی کا امت میں ارتقاء ہے اس سے نکلنے کی سبیل نہیں ہے
[/EXPAND]
[صحیح بخاری میں کیا رافضیوں سے روایت لی گئی ہے ؟ جبکہ آج بعض علماء کہتے ہیں رافضی کافر ہیں]
جواب
صحیح بخاری میں کٹر رافضی سے روایت لی گئی ہے آج اس کو بدلا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ شیعہ اور تھے آج کے اور ہیں جبکہ یہ سب ان لوگوں کی خرافات ہیں رافضی کو کافر نہیں سمجھا جاتا تھا اس کو بد مذھب کہا جاتا تھا ان لوگوں سے سوال ہے کہ کیا کافر کی روایت حدیث میں لی جاتی تھی ؟
عباد بن یعقوب امام بخاری کے استاد ہیں کٹر رافضی ہیں
صَالِحٍ جَزَرَةَ، قَالَ: كَانَ عَبَّادٌ يَشْتِمُ عُثْمَان -رَضِيَ اللهُ عَنْهُ
صَالِحٍ جَزَرَةَ، کہتے ہیں یہ عثمان رضی الله عنہ کو گالیاں دیتے تھے
اب سنیے ان کا حال سير أعلام النبلاء میں الذھبی لکھتے ہیں
القَاسِمُ المُطَرِّز، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَبَّادٍ بِالْكُوْفَةِ، وَكَانَ يَمْتَحِنُ الطَّلَبَةَ، فَقَالَ: مَنْ حَفَرَ البَحْرَ؟ قُلْتُ: اللهُ. قَالَ: هُوَ كَذَاكَ، وَلَكِنْ مَنْ حَفَرَهُ؟ قُلْتُ: يَذْكُرُ الشَّيْخُ، قَالَ: حَفرَهُ عَلِيٌّ، فَمَنْ أَجْرَاهُ؟ قُلْتُ: اللهُ. قَالَ: هُوَ كَذَلِكَ، وَلَكِن مَنْ أَجْرَاهُ؟ قُلْتُ: يُفِيْدُنِي الشَّيْخُ. قَالَ: أَجْرَاهُ الحُسَيْنُ، وَكَانَ ضَرِيْراً، فَرَأَيْتُ سَيْفاً وَحَجَفَةً (1) . فَقُلْتُ: لِمَنْ هَذَا؟ قَالَ: أَعْدَدْتُهُ لأُقَاتِلَ بِهِ مَعَ المَهْدِيِّ. فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنْ سَمَاعِ مَا أَرَدْتُ، دَخَلْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَنْ حَفَرَ البَحْرَ؟
قُلْتُ: حَفَرَهُ مُعَاوِيَةُ -رَضِيَ اللهُ عَنْهُ- وَأَجْرَاهُ عَمْرُو بنُ العَاصِ.
القَاسِمُ المُطَرِّز نے کہا میں عباد کے پاس کوفہ گیا اور یہ طلبہ کا امتحان لیتے تھے پس پوچھا کس نے سمندر کو گہرا کیا ؟ میں نے کہا الله نے – بولے یہ تو ہے لیکن کس نے گہرا کیا؟ میں نے کہا شیخ بتائیں بولے اس کو علی نے کھودا – کس نے سمندر کو جاری کیا ؟ میں نے کہا الله نے – بولے یہ تو ہے لیکن کس نے جاری کیا ؟ میں نے کہا شیخ ہی فائدہ دیں بولے اس کو حسین نے جاری کیا اور عباد نابینا تھے میں نے ان کے پاس تلوار دیکھی تو پوچھا یہ کس لئے؟ بولے کہ امام مہدی کے ساتھ مل کر قتال کرنے کے لئے پس جب ان سے احادیث کا سماع کر لیا جن کے لئے ان کے پاس گیا تھا ان کے پاس گیا تو انہوں نے پھر پوچھا کس نے سمندر گہرا کیا ؟
میں نے کہا اس کو معاویہ نے کھودا اور عمرو بن العاص نے جاری کیا
امام الذہبی اس قصہ کے بعد کہتے ہیں إِسْنَادُهَا صَحِيْحٌ. اس کی اسناد صحیح ہیں – امام بخاری نے بھی کیا یہ ٹیسٹ پاس کیا یا نہیں معلوم نہیں کیونکہ صحیح میں ان سے حدیث لی گئی ہے
ابن خلفون المعلم میں لکھتے ہیں ابن حبان نے کہا
قال أبو حاتم البستي: عباد بن يعقوب أبو سعيد كوفي، كان رافضيًا داعية يروي المناكير.
عباد بن یعقوب ابو سعید الکوفی رافضی تھے داعی تھے اور مناکیر روایت کرتے تھے
ابو فتح کہتے ہیں
داعية إلى الرفض، وقد حمل عنه الناس على سوء مذهبه.
یہ رافضی داعی تھے اور لوگ ان کو بد مذھب لیتے تھے
الذهبي کہتے ہیں
وعنه البخاري حديثا في الصحيح مقرونا بآخر
بخاری نے اس سے اپنی صحیح میں ایک حدیث قرؤنا روایت کی ہے ميزان الاعتدال : 379/2
مقرونا روایت کرنے سے مراد ہے کہ اس کا ایک دوسرا طرق تھا لہذا اس راوی کی ضرروت نہیں رہی تھی لیکن پھر بھی امام بخاری نے اس کا ذکر کر دیا تاکہ دنیا جان لے کہ ان کے نزدیک بدعتی کی روایت جائز ہے الا کہ اس کی بدعت کے حق میں ہو
عدی بن ثابت کٹر رافضی ہیں ان سے صحیح بخاری میں ٢٨ روایات لی گئی ہیں
روى السلمي عن الدارقطني أنه رافضي
دارقطنی کہتے ہیں یہ رافضی تھے
ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق
وَقَالَ أَبُو حَاتِمٍ: صَدُوْقٌ، كَانَ إِمَامَ مَسْجِدِ الشِّيْعَةِ، وَقَاصَّهُم.
ابو حاتم کہتے ہیں صدوق ہیں شیعہ کی مسجد کے امام تھے ان کے قصہ گو تھے
سير أعلام النبلاء
اس میں علم حدیث کا اصول تھا کہ بدعتی کی روایت لی جائے گی الا یہ کہ وہ اس کی بدعت کے حق میں ہو اس کو کافر نہیں سمجھا جاتا تھا
ساتھ ہی معلوم ہوا کہ بعض کا یہ دعوی کہ صحیحین میں بدعت کبریٰ، یعنی بدعت مکفرہ کے مرتکب راوی کی کوئی روایت موجود نہیں باطل ہے – صحیح بات ہے کہ بدعتی سے روایت لی گئی ہے البتہ صحیح میں اس کی بدعت کی تقویت نہیں ہے
کتاب خلق أفعال العباد میں امام بخاری کا قول ناقل لکھتے ہیں
قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: «مَا أُبَالِي صَلَّيْتُ خَلْفَ الْجَهْمِيِّ الرَّافِضِيِّ أَمْ صَلَّيْتُ خَلْفَ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى، وَلَا يُسَلَّمُ عَلَيْهِمْ، وَلَا يُعَادُونَ، وَلَا يُنَاكَحُونَ، وَلَا يَشْهَدُونَ، وَلَا تُؤْكَلُ ذَبَائِحُهُمْ
ابو عبد الله نے کہا میں بے پرواہ ہوا اگر میں جھمی یا رافضی کے پیچھے نماز پڑھوں کہ میں یہودی و نصرانی کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہوں اور نہ میں ان کو سلام کروں نہ ان کی طرف جاؤں نہ ان سے نکاح کروں نہ ان کی شہادت لوں نہ ان کے ذبح پر توکل کروں
اس قول میں ہے کہ امام بخاری ایک رافضی کی شہادت قبول نہیں کریں گے لیکن جامع الصحیح جو ان کی آخری کتاب ہے اس میں انہوں نے روافض کی شہادت حدیث رسول کے لئے لی ہے ان کو ثقہ سمجھا ہے جس سے ظاہر ہے انہوں نے اس قول سے رجوع کیا
[/EXPAND]
[محدثین ناصبی راویوں سے بھی روایت کرتے ہیں ؟ مثلا امام بخاری وغیرہ]
حریز بن عثمان علی رضی الله سے سخت بغض رکھتا تھا یہاں تک کہ سب و شتم بھی کرتا تھا۔ بشار عواد کتاب سیر الاعلام النبلاء میں ج 5، ص 579 کے حاشیے میں علامہ الذھبی کے قول پر لکھتے ہیں
وَقَال الذهبي في “الميزان”: كان متقنا ثبتا، لكنه مبتدع”، وَقَال في “الكاشف”: ثقة..وهو ناصبي”، وَقَال في “المغني”: ثبت لكنه ناصبي”، وَقَال في “الديوان”: ثقة لكنه ناصبي مبغض”
قال أفقر العباد أبو محمد بشار بن عواد محقق هذا الكتاب: لا نقبل هذا الكلام من شيخ النقاد أبي عَبد الله الذهبي، إذ كيف يكون الناصبي ثقة، وكيف يكون”المبغض”ثقة؟ فهل النصب وبغض أمير المؤمنين علي بن أَبي طالب بدعة صغرى أم كبرى؟ والذهبي نفسه يقول في “الميزان: 1 / 6″في وصف البدعة الكبرى: الرفض الكامل والغلو فيه، والحط على أبي بكر وعُمَر رضي الله عنهما، والدعاء إلى ذلك، فهذا النوع لا يحتج بهم ولا كرامة”أو ليس الحط على علي و”النصب”من هذا القبيل؟ وقد ثبت من نقل الثقات أن هذا الرجل كان يبغض عليا، وقد قيل: إنه رجع عن ذلك فإن صح رجوعه فما الذي يدرينا إنه ما حدث في حال بغضه وقبل توبته؟ وعندي أن حريز بن عثمان لا يحتج به ومثله مثل الذي يحط على الشيخين، والله أعلم.
الذہبی نے میزان الاعتدال میں کہا: یہ ثقہ و ثبت ہے، مگر بدعتی ہے۔ اور اپنی کتاب الکاشف میں کہا کہ یہ ثقہ ہے، اور ناصبی ہے۔ اور المغنی میں کہا کہ ثقہ ہے مگر ناصبی ہے۔ اور الدیوان یں کہا کہ ثقہ ہے مگر ناصبی اور بغض رکھتا ہے علی سے
اس پر أبو محمد بشار بن عواد نے تعلیق میں لکھا: میں فقیر بندہ ابو محمد بشار بن عواد، اس کتاب کا محقق، یہ کہتا ہوں: ناقدین کے شیخ الذہبی کا یہ کلام قابل قبول نہیں۔ کیسے ایک ناصبی ثقہ ہو سکتا ہے اور کیسے ایک بغض رکھنے والا ثقہ ہو سکتا ہے؟ کیا ناصبیت اور أمير المؤمنين علی سے بغض رکھنا بدعۃ صغری ہے یا کبری ؟ خود الذھبی نے الميزان: 1 / 6 میں لکھا ہے کہ بدعت کبری کیا ہے: وہ یہ ہے کہ کامل رفض اور اور اس میں غلو کرنا، اور ابو بکر اور عمر رضی الله عنہما کی توہین کرنا، اور اس کی طرف بلانا۔ اس قسم کے لوگوں سے آپ استدلال قائم نہیں کر سکتے اور ان کے لیے کوئی عزت نہیں- کیا علی کی توہین کرنا، اور اس میں ناصبی بن جانا اس قسم سے نہیں؟ یہ بات تو ثقہ لوگوں سے ثابت ہے کہ یہ شخص علی سے بغض رکھتا تھا۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ اس نے اس سے رجوع کر لیا تھا، اور بالفرض ہم یہ مان لیں، تو ان روایات کا کیا جو اس نے بغض کی حالت میں توبہ سے پہلے روایت کی تھیں؟ میری نظر میں اس شخص سے استدلال قائم نہیں کیا جا سکتا، اور یہ اسی شخص کی طرح ہے جو کہ ابو بکر اور عمر کی توہین کرے
ابن حجر اپنی کتاب تقریب التہذیب ،ج 1، ص 464 پر یوں درج کرتے ہیں
5681- لمازة بكسر اللام وتخفيف الميم وبالزاي ابن زباد بفتح الزاي وتثقيل الموحدة وآخره راء الأزدي الجهضمي أبو لبيد البصري صدوق ناصبي من الثالثة د ت ق
یعنی لمازة صدوق تھے اور ناصبی تھے
بشار عواد مشہور محقیقین میں سے ہیں۔ کئی کتابوں پر تحقیق بھی کی۔ ان میں سے ایک کا نام ہے، تهذيب الكمال في أسماء الرجال۔ اس کتاب کے ج 24، ص 252 پر اسی راوی کے بارے میں اپنے حاشیہ میں تحریر کرتے ہیں
“قلت: كيف يكون من ينصب العداء ويشتم علي بن أَبي طالب رضي الله عنه متدينا ومتمسكا بإمور الديانة وكيف يكون بغض علي بن أَبي طالب وسبه ديانة، هذا كلام لا يليق بالحافظ ابن حجر، إن كل من سب أحدا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم
فهو مبتدع ضال لا يحتج به ولا كرامة
میں یہ کہتا ہوں: کہ ایک شخص جو حضرت علی کی عداوت میں گھڑا ہوا ہو، اور ان کا سب و شتم کرے، وہ کیسے دینی امور کے ساتھ تمسک رکھ رہا ہے؟ کیسے ہو سکتا ہے کہ حضرت علی سے بغض رکھنا اور ان کی سب و شتم کرتا دین ہو؟ یہ کلام حافظ ابن حجر کے ساتھ جچتا نہیں۔ جو کسی ایک بھی صحابی کی توہین کرے، وہ بدعتی اور گمراہ ہے۔ اس سے دلیل نہیں لی جا سکتی اور نہ ہی اس کی کوئی عزت ہے
آگے اسی صفحے پر ہے
وَقَال ابن حجر في “التقريب”: صدوق ناصبي. قال بشار: لا يكون الناصبي صدوقا، بل هو ضعيف إن شاء الله.
ابن حجر نے اسے تقریب میں صدوق اور ناصبی کہا۔ بشار کہتے ہیں کہ ناصبی صدوق/سچے نہیں، بلکہ ضعیف ہیں
جواب
محدثین میں بدعتی کی روایت کو قبول و رد پر سن ٢٠٠ ہجری تک یہ بات معروف و مقبول ہوئی کہ اگر بدعتی اپنی بدعت کے حق میں روایت کرے تو رد کیا جائے گا
حَرِيزُ بْنُ عُثْمَانَ سے امام بخاری نے روایت نقل کی ہے
حَدَّثَنَا عِصَامُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا حَرِيزُ بْنُ عُثْمَانَ، أَنَّهُ سَأَلَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ بُسْرٍ صَاحِبَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَرَأَيْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ شَيْخًا؟ قَالَ: «كَانَ فِي عَنْفَقَتِهِ شَعَرَاتٌ بِيضٌ»
اس روایت میں نبی صلی الله علیہ وسلم کے بالوں کا ذکر ہے کہ چند سفید تھے
صحیح مسلم میں کوئی روایت نہیں ملی
الکامل از ابن عدی اور التاريخ الكبير از امام البخاری کے مطابق
قال أبو اليمان كان حريز يتناول رجلا يعني عليا ثم ترك
ابو الیمان نے کہا کہ یہ ایک شخص یعنی علی پر بھڑاس نکالتے پھر اس کو ترک کیا
لہذا حَرِيزُ بْنُ عُثْمَانَ کی ایسی روایت جس میں ناصبیت ہو رد ہو گی لیکن جس میں نہ ہو اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا صحیح بخاری میں خارجی سے بھی روایت لی گئی ہے اور شیعہ و رافضی سے بھی لیکن وہ ان کے بدعتی مذھب کے حق میں نہیں ہیں
معلوم ہوا کہ محدثین کے نزدیک اصول بن گیا تھا کہ بدعت کے حق میں روایت نہ لی جائے محض کسی بدعتی مذھب کا حصہ ہونے کی وجہ سے راوی کی مرویات رد نہیں ہوتیں
بشار عواد آج کے مورخ ہیں ان کی یہ رائے کہ ناصبی (یا رافضی اور خارجی بدعتی) کی روایت مطلقا رد کی جائے صحیح نہیں ہے
جو اصول جو ہم نے بیان کیا ہے وہ قدیم ہے اور اس طرح کے بہت سے اقوال امام احمد اور امام جوزجانی سے ثابت ہیں
اہل سنت اور محدثین میں ابو بکر اور عمر رضی الله عنہما کی فضیلت سب سے زیادہ ہے اس کے بعد باقی اصحاب رسول سب برابر ہیں
خود علی رضی الله عنہ ان دونوں کی فضیلت کے قائل تھے
اس بنا پر رفض کو عیب سمجھا جاتا ہے جو نصب سے بڑھ کر ہے اس بات کو بشار عواد سمجھ نہیں پائے اور تمام اصحاب رسول میں مراتب ختم کر کے سب کے ساتھ ایک سا رویہ اختیار کرنے کا کہہ رہے ہیں یہ بات اچھی ہے لیکن اصول حدیث کے قوانین آجکل نہیں بنائے جا سکتے یہ قدماء سے ملے ہیں- اس میں سب سے زیادہ شیعہ راویوں کا مسئلہ ہے جن کی تعداد بہت ہے ناصبی تو چند ہیں
بشار صاحب سے یہاں غلطی بھی ہوئی ہے ثقاہت کا تعلق حافظہ اور ضبط سے ہے بدعت سے نہیں ہے – ایک ثقہ راوی بھی بدعتی ہو سکتا ہے لہذا اگر وہ بدعت کی بات کرے تو رد ہو گی
اس سلسلے میں ایسی کوئی روایت پیش کی جائے جس میں علی کی تنقیص ہو راوی ناصبی ثقہ ہو اور کسی محدث نے اس روایت کو صحیح کہا ہو ورنہ بشار کی بات ہوا میں تیر چلانے اور باسی کڑی میں ابال کے مترادف ہے
امام احمد نے لمازہ کے لئے کہا صالح الحدیث ہے
وقال حرب بن إسماعيل الكرماني: سمعت أحمد بن حنبل يقول: كان أبو لبيد، صالح الحديث، وأثنى عليه ثناءً حسنًا. «الجرح والتعديل» 7/ (1033) .
ابن سعد نے کہا
قَالَ ابن سعد: سَمِعَ مِنْ عَلِيٍّ وَلَهُ أَحَادِيثُ صَالِحَةٌ، وَكَانَ ثِقَةٌ.
اس نے علی سے سنا ہے اور ان سے صالح راویات کرتا ہے اور یہ ثقہ ہے
یعنی باوجود علی پر سب و شتم کے اس نے علی رضی الله عنہ پر جو روایات منسوب کی ہیں وہ صالح ہیں ان میں ناصبیت نہیں ہے
تہذیب الکمال میں ہے کہ لمازہ کو علی سے بغض اس لئے تھا کہ علی اور ان کے لشکر نے اس کے رفقاء و اہل بیت کا قتل کیا
قَال موسى بْن إِسْمَاعِيل عن مطر بْن حمران: كنا عند أَبِي لبيد فقيل له: أتحب عليا؟ فَقَالَ: أحب عليا وقد قتل من قومي في غداة واحدة ستة آلاف
مطر بْن حمران نے کہا ہم لمازہ کے پاس تھے اس سے کہا تو علی سے محبت کرتا ہے ؟ اس نے کہا علی سے محبت اور اس نے میری قوم کے ٦٠٠٠ قتل کیے
قال الدَّارَقُطْنِيّ: كان منحرفًا عن علي عليه السلام، يقول كيف أحبه وقد قتل من أهلي في غزاة واحدة كذا وكذا؟. «المؤتلف والمختلف»
دارقطنی نے کہا لمازہ ، علی سے منحرف تھا کہتا تھا میں اس سے کیسے محبت کروں جس نے ایک غزوہ میں میرے اہل کا قتل ایسے ایسے کیا
بشتر ناصبییوں میں یہ بات مشترک ہے کہ ان کو علی رضی الله عنہ سے بغض ان کے بے مہار قتل پر تھا جس میں ان کے اہل عیال کا علی کے لشکر نے قتل کیا
ناصبی رآویوں کی خوبی یہ رہی ہے کہ باوجود علی سے بغض کے ان کی روایات میں اس کی جھلک نہیں ملتی اور ایسا ابھی تک نہیں دیکھا گیا کہ علی کی تنقیص کی روایت کو صحیح کہا گیا ہو
رافضی راویوں کی یہ برائی رہی کہ یہ اپنے اپ پر کنٹرول نہیں رکھ پاتے تھے اور اپنی بھڑاس روایت کی صورت نکالتے تھے
الذھبی میزان میں محمد بن زياد الالهانى الحمصي کے ترجمہ میں کہتے ہیں جن پر نصب کا الزام ہے
بلى غالب الشاميين فيهم توقف عن أمير المؤمنين علي رضي الله عنه من يوم صفين، ويرون أنهم وسلفهم أولى الطائفتين بالحق، كما أن الكوفيين – إلا من شاء ربك – فيهم انحراف عن عثمان وموالاة لعلى، وسلفهم شيعته وأنصاره، ونحن – معشر أهل السنة – أولو محبة وموالاة للخلفاء الاربعة، ثم خلق من شيعة العراق يحبون عثمان وعليا، لكن يفضلون عليا على عثمان، ولا يحبون من حارب عليا من الاستغفار لهم.فهذا تشيع خفيف.
بلا شبہ شامیوں پر غلبہ اس کا رہا کہ علی کے حوالے سے يوم صفين میں توقف کیا جائے اور وہ ان کو اور پچھلے سلف کو حق پر دیکھتے ہیں اور کوفی جو ہیں- اگر الله نے چاہا- تو ان میں عثمان سے انحراف ہے اور علی سے دوستی … اور ہم اہل سنت ہیں جو چار خلفاء سے محبت کرتے ہیں – پھر ایک خلق ہے عراق میں جو عثمان و علی دونوں سے محبت کرتی ہے لیکن علی کو عثمان پر فضلیت دیتی ہے اور ان سے محبت نہیں کرتی جنہوں نے علی سے جنگ کی کہ ان کی مغفرت طلب کرے اور یہ شیعیت خفیف ہے
یعنی نصب والے اتنا علی کو برا نہیں کہتے جتنا شیعہ اصحاب رسول کو کہتے ہیں ان میں شیعہ خفیف بھی تھے رافضی بھی تھے غالی بھی تھے اس تمام مجموعہ پر شیعہ بولا جاتا رہا ہے
[/EXPAND]
[انکار حدیث سے متعلق ایک روایت ہے]
المقدام بن معدي كرب سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا خبردار ہو سکتا ہے کہ ایک شخص ٹیک لگائے بیٹھا ہو اور میری حدیث سنے تو کہے الله کی کتاب ہمارے تمھارے درمیان ہے اس میں ہم حلال کو حلال مانیں گے اور جو اس میں حرام ہو گا اس کو حرام مانیں گے اور جو چیز رسول الله نے حرام کی وہ ایسی ہی ہے جسے الله نے حرام کی
کیا یہ صحیح روایت ہے
جواب
اس روایت کو، حاکم ، ابن ماجہ اور ترمذی نے اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے – ان سب کی اسناد میں ان راویوں کا تفرد ہے
معاوية بن صالح عن الحسن بن جابر اللخمي عن المقدام بن معدي كرب
اس کی سند میں راوی الْحَسَن بْن جَابِر أَبُو عَبْد الرَّحْمَن الكندي الشامي ہے جو مجھول ہے ابن حبان نے حسب روایت ثقات میں ذکر کیا ہے لیکن ان پر نہ جرح ہے نہ متقدمین کی تعدیل ہے ایسے راوی کو مجھول کہا جاتآ ہے
تہذیب الکمال کے محقق دکتور بشار عواد معروف اس راوی پر تعلیق میں لکھتے ہیں
وَقَال الذهبي في “المجرد”: حمصي مستور
الذہبی نے المجرد في أسماء رجال سنن ابن ماجه میں کہا ہے یہ حمص کا مستور ہے
یعنی مجھول راوی ہے
اس کی سند میں مُعَاوِيَةَ بنِ صَالِحٍ بھی ہیں سیر الآعلام النبلاء از الذھبی ج ٧ ص ١٦٠ کے مطابق امام علی المدینی کہتے ہیں
قَالَ عَلِيُّ بنُ المَدِيْنِيِّ: سَأَلْتُ يَحْيَى بنَ سَعِيْدٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ بنِ صَالِحٍ، فَقَالَ: مَا كُنَّا نَأخُذُ عَنْهُ ذَلِكَ الزَّمَانَ وَلاَ حَرفاً.
میں نے يَحْيَى بنَ سَعِيْدٍ سے مُعَاوِيَةَ بنِ صَالِحٍ پر سوال کیا انہوں نے کہا ہم اس سے روایت نہیں لیتے اس دور میں ایک حرف بھی نہیں
میزان الآعتدال از الذھبی کے مطابق
قال الليث بن عبدة، قال يحيى بن معين: كان ابن مهدي إذا حدث بحديث معاوية بن صالح زجره يحيى بن سعيد.
الليث بن عبدة کہتے ہیں يحيى بن معين کہتے ہیں جیسے ہی ابن مہدی، معاوية بن صالح کی حدیث روایت کرتے ، يحيى بن سعيد ان کو ڈانٹتے
تاریخ الاسلام از الذھبی میں ہے قَالَ ابْن أَبِي حاتم: قَالَ أَبُو زرعة: ثقة محدّث.
وقال لِي أَبِي: حسن الحديث غير حُجّة
ابن ابی حاتم نے کہا أَبُو زرعة نے اس کو ثقہ محدث کہا لیکن میرے باپ نے کہا حسن الحدیث ہے حجت نہیں ہے
یعنی دلیل نہیں لی جا سکتی
ان علتوں کی بنا پر روایت اس طرق سے ضعیف ہے اور متقدمین محدثین ان راویوں کی روایت نا قابل استدلال سمجھتے تھے
عصر حاضر میں البانی، بن باز اور اہل حدیث علماء نے اس طرق کو بہت پسند کیا ہے
اس روایت کا ایک دوسرا طرق ہے جس کی سند مناسب ہے اور مسند احمد میں بیان ہوئی ہے
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حَرِيزٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَوْفٍ الْجُرَشِيِّ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ الْكِنْدِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” أَلَا إِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ، أَلَا إِنِّي أُوتِيتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ، أَلَا يُوشِكُ رَجُلٌ يَنْثَنِي شَبْعَانًا عَلَى أَرِيكَتِهِ يَقُولُ: عَلَيْكُمْ بِالْقُرْآنِ، فَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَلَالٍ فَأَحِلُّوهُ، وَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوهُ، أَلَا لَا يَحِلُّ لَكُمْ لَحْمُ الْحِمَارِ الْأَهْلِيِّ، وَلَا كُلُّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ، أَلَا وَلَا لُقَطَةٌ مِنْ مَالِ مُعَاهَدٍ إِلَّا أَنْ يَسْتَغْنِيَ عَنْهَا صَاحِبُهَا، وَمَنْ نَزَلَ بِقَوْمٍ، فَعَلَيْهِمْ أَنْ يَقْرُوهُمْ ، فَإِنْ لَمْ يَقْرُوهُمْ، فَلَهُمْ أَنْ يُعْقِبُوهُمْ بِمِثْلِ قِرَاهُمْ
الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ الْكِنْدِيِّ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
خبردار مجھ کو کتاب اور اس کے مثل دیا گیا ہے خبردار مجھ کو کتاب اور اس کے مثل دیا گیا ہے
ممکن ہے کہ کوئی مال و دولت کے نشہ سے سرشار اپنے تخت پر بیٹھ کر یہ کہے کہ تمہارے پاس قرآن ہے اس میں تم جو چیز حلال پاؤ اسے حلال سمجھو اور جو حرام پاؤ اسے حرام قرار دو۔ سُن لو! پالتو گدھے تمہارے لئے حلال نہیں (اسی طرح) درندوں میں سے کچلی والے بھی (حلال نہیں) اور معاہد (ذمی) کی گری پڑی چیز بھی حلال نہیں الا یہ کہ اس کا یہ مالک اس سے بے نیاز ہوجائے اور جو شخص کسی قوم کے ہاں مہمان ٹھہرے تو اس کی ضیافت و اکرام ان پر فرض ہے اگر وہ اس کی مہمان نوازی نہ کریں تو وہ اپنی مہمان نوازی کے بقدر ان سے لے سکتا ہے۔
اس پر دکتور شعيب الأرنؤوط اس روایت کے تحت کہتے ہیں
قلت: كأنه أراد به العرض لقصد رد الحديث بمجرد أنه ذُكر فيه ما ليس في الكتاب، وإلا فالعرض لقصد الفهم والجمع والتثبت لازم
میں کہتا ہوں کہ گویا اس ( حدیث) کو (قرآن پر) پیش کرنے کا مقصد مجرد حدیث کو رد کرنا ہے کہ اس میں اس چیز کا ذکر ہے جو کتاب الله میں نہیں (تو یہ صحیح نہیں) لیکن اگر پیش کرنا فہم اور جمع اور اثبات کے لئے ہو تو یہ لازم ہے
-حدیث رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا قول و فعل ہے- اس میں احکام نبوی، وحی کی نوع کے ہیں کیونکہ قرآن کی تعبیر و تشریح کرنا الله کا کام ہے- رسول شریعت نہیں بناتے وہ الله کی جانب سے انے والے احکام کی تشریح کرتے ہیں جو الله کی طرف سے رسول الله کو سمجھائی گئی
لہذا جب ایک بات رسول الله کی ہو تو اس کا انکار بھی کفر ہے
گمراہ فرقوں کی جانب سے اعتراض کیا جاتا ہے کہ عود روح حدیث میں آیا ہے لہذا اس کی روایت کو قرآن پر پیش نہیں کرنا چاہیئے اور قبول کرنا چاہیے لیکن یہ بات درست نہیں قرآن میں واضح طور پر امسک روح کا ذکر ہے کہ روح کو روک لیا جاتا ہے لہذا اس کو واپس جسد میں ڈالنے والی روایت صحیح نہیں
ابن حبان کے مطابق عود روح والی روایت کی سند میں ہی گھپلا ہے ذھبی اس کو نکارت و غرابت سے بھر پور قرار دیتے ہیں
مثل معہ والی روایت میں قابل اثر لوگوں کا حلال و حرام میں دخل بتایا گیا ہے جو قابل اعتراض ہے
أبو بسطام شعبة بن الحجاج بن الورد المتوفي ١٦٠ هجري کے نزدیک المنھال بن عمرو متروک تھا لہذا یہ عود روح کا عقیدہ اس دور میں محدثین رد کر چکے تھے
محدث خراسان محمد بن محمد بن أحمد بن إسحاق النيسابوري الكرابيسي ، الحاكم الكبير المتوفی ٣٧٨ھ ، مؤلف كتاب الكنى کہتے تھے کہ زاذآن کی روایت اہل علم کے نزدیک مظبوط نہیں ہے
کیا یہ اہل علم ، حدیث رسول کے مخالف تھے جو انہوں نے عود روح کی روایت کے راویوں کو ہی رد کر دیا؟
[/EXPAND]
[کیا سند دے کر محدثین بری الزمہ ہوئے؟]
کیا یہ کہنا صحیح ہے کہ اگر کسی محدث نے حدیثوں کی سند بیان کردی تو وہ بری الذمہ ہوجاتا ہے بعد میں اگر کوئی دوسرا محدث آئے اور اس سند میں کسی ضعف کی کوئی نشاندھی کرے تو یہ ” الدین نصیحۃ” کے بالکل مطابق ہے جیسے علامہ احمد شاکر رحمۃ اللہ جو البانی رحمۃ اللہ سے بہت پہلے کے جید محدث تھے انہوں نے “تفسیر ابن کثیر” اور “مسند امام احمد” پر تخریج کی مگر مکمل نہ کرسکے اور وفات پا گئے اس میں انہوں نے تفسیر ابن کثیر اور مسند احمد سے لاتعداد ضعیف احادیث کی نشاندہی کی تھی۔
اب اس کا یہ مطلب نہیں کہ بعد میں آنے والا محدث ایک پرانے محدث پر برتری قائم کررہا ہے
بلکہ علمی و اصولی حقیقت یہ ہے کہ :
ایک محدث نے حدیثوں کی سندیں جمع کرکے بہت بڑا کام کیا ہےتو دوسرے نے اس پر حکم لگا کر بھی ایک بہت بڑا کام کیا ہے اور دونوں بری الذمہ ہیں۔
جواب
امام احمد کے شاگردوں نے ان سے سوالات کیے ان کے بیٹے نے کیے جس سے علل کی کتاب بنی ہے لہذا راقم سمجھتا ہے وہ اپنے نزدیک ایک ضخیم مسند لکھ رہے تھے ان کو اس سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ یہ کتنی حجم کی ہو گی وہ بس اصحاب رسول کی لسٹ پر روایات جمع کرتے جا رہے تھے
راویوں سے متعلق ان کی آراء مسند میں چند روایات پر ہیں تمام پر نہیں اس لئے علل احمد کو دیکھنا پڑتا ہے کیا یہ روایت ان کے نزدیک صحیح ہے یا نہیں اس میں ہر دفعہ راوی پر مکمل تبصرہ نہیں ملتا جس کو جرح و تعدیل قراردیا جا سکے لہذا بہت سی روایات پر معلوم نہیں ان کی اصل رائے کیا تھی
لہذا یہ کہنا کہ یہ ائمہ اس میں بری الزمہ ہوئے صحیح نہیں یہ ان کو بچانے کا قول ہے
ایک روایت اگر ضعیف ہے تو پہلے صحیح کیسے ہوئی؟ مثلا امام ابو داود نے ایک خط اہل مکہ کو لکھا اس میں اس قدر مبہم باتیں کیں اس میں ابو داود کہتے ہیں کہ میں جس روایت پر سنن میں ضعیف راوی لیا ہے وہاں میں نے وضاحت کر دی ہے اور جس پر میں خاموش رہو وہ میرے نزدیک اصح ہے
وَمَا كَانَ فِي كتابي من حَدِيث فِيهِ وَهن شَدِيد فقد بَينته وَمِنْه مَالا يَصح سَنَده
أور ميري كتاب میں جو حدیث ہے جس میں کمزوری شدید ہو اس کی میں نے وضاحت کر دی ہے اور اس میں ہیں جن کی سند صحیح نہیں
اور کہا
مَا لم أذكر فِيهِ شَيْئا فَهُوَ صَالح
اور جس پر میں نے کوئی ذکر نہیں کیا وہ صالح (اچھی) ہیں
ابن عبد البر المتوفی ٤٦٣ ھ نے لکھا
كُلُّ ما سكت عليه أبو داود، فهو صحيح عنده، لا سيما إن كان لا يذكر في الباب غيره
ہر وہ روایت جس پر ابو داود خاموش رہیں وہ ان کے نزدیک صحیح ہے
بحوالہ ابن حجر العسقلاني في النكت على مقدمة ابن الصلاح
تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي کے مطابق ایک محدث ابن رشید کہتے
بِأَنَّ مَا سَكَتَ عَلَيْهِ قَدْ يَكُونُ عِنْدَهُ صَحِيحًا وَإِنْ لَمْ يَكُنْ كَذَلِكَ عِنْدَ غَيْرِهِ
ہر وہ حدیث جس پر ابو داود چپ رہیں وہ ان کے نزدیک صحیح ہے اور دوسروں کے نزدیک نہیں
متاخرین نے ابو داود کے الفاظ کا مطلب صالح سے الاعتبارحجة لیا ہے مثلا محمد زاهد الكوثريُّ وغیرہ
بحوالہ عبد الفتاح أبو غدة في تحقيقه على “رسالة أبي داود” ضمن الرسائل الثلاث
یہ روایات صالح للاستشهاد ہیں یہ قول امام النووی المتوفی ٦٧٦ ھ اور ابن حجر المتوفي ٨٥٢ ھ کا بھی ہے
لہذا ایک اہل حدیث مولوی صاحب کا کہنا ہے کہ متقدمین کے نزدیک صالح سے مراد صحیح نہیں ہوتا بلکہ ان کی مراد ہے صالح للاستشہاد والاعتبار، یعنی صالح روایت ضعیف ہو سکتی ہے۔ اور امام ابو داود کے الفاظ بھی اسی پر دلالت کرے ہیں کہ اگر روایت میں شدید ضعف ہو گا تو وہ بیان کریں گے اور اگر کم ضعف ہو گا تو سکوت اختیار کریں گے اور صالح سے مراد ان کی یہی روایت ہے۔
راقم کہتا ہے یہ بات ثابت نہیں جیسا کہ سلف میں ابن عبد البر نے کہا کہ ابو داود نے یہ لفظ صحیح کے لئے بولا ہے نہ کہ اعتبار کے لئے لیکن جب متاخرین نے دیکھا کہ ابو داود کی سنن میں ایسا نہیں ہے تو انہوں نے خود نیا مفھوم نکالا جو سلف سے منقول نہیں تھا
آج البانی نے سنن کو دو میں کر دیا ہے سنن ابو داود صحیح اور سنن ابو داود ضعیف جس میں سنن ابوداود ضعیف میں ٩٣٢ روایات ہیں
امام ابو داود کا خط مسلمہ ہے کہ انہی کا ہے اس کو علم حدیث پڑھنے والا ہر عالم جانتا ہے
إمام ابو داود نے ان ٩٠٠ سے اوپر روایات میں صرف چار پر ہی منکر کا حکم لگایا ہے اور ایک کو ضعیف کہا ہے
گویا ١٢٠٠ سال تک امت کو ابو داود کا یہ خط گمراہ کرتا رہا کہ یہ روایات ان کے نزدیک صالح ہیں اور پھر جناب البانی نے جنم لیا اور ٩٠٠ روایات کو سنن ابو داود کی ضعیف کہہ دیا -کہاں ٤ روایات اور کہاں ٩٣٢ روایات
ابو داود کے الفاظ کے مطابق اگر روایت میں شدید ضعف ہو گا تو وہ بیان کریں گے اور اگر کم ضعف ہو گا تو سکوت کریں گے- لیکن ایسا نہیں ہے انہوں نے شدید ضعیف کو بھی چھوڑ دیا ہے -کسی روایت کو منکر کہنا محدث کی شدید جرح ہے- یعنی شدید ضعیف روایت کو بھی چھوڑ دیا گیا ہے شعَيب الأرنؤوط – محَمَّد كامِل قره بللي نے سنن ابو داود پر تحقیق میں ٢١ روایات کو منکر قرار دیا ہے
الذھبی نے سیر الاعلام النبلاء میں اس پر کہا
اگر ابو داود پھر بھی خاموش رہتے ہیں تو اس کی وجہ اس روایت کے ضعف کی شہرت و نکارت ہوتی ہے
یہ تماشہ نہیں تو اور کیا ہے -ہمارے محدثین ضعیف روایات کا انبار جمع کر گئے جس پر انہوں نے اصح یا صالح کا حکم لگآیا تھا آج البانی نے ضعیف کہہ دیا
راقم کہتا ہے البانی نے صحیح کیا ہے یہ ضعیف ہی تھیں لہذا ابو داود کا خط ایک طرح لوگوں کو گمراہ کر گیا
[/EXPAND]
[محدثین روایات میں علمی خیانت کرتے تھے ]
سنن ابو داود کی روایت ہے
سنن أبي داؤد: كِتَابُ السُّنَّةِ (بَابٌ فِي الْخُلَفَاءِ) سنن ابو داؤد: کتاب: سنتوں کا بیان
(باب: خلفاء کا بیان)
4648 . حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ عَنِ ابْنِ إِدْرِيسَ، أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ وَسُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ الْمَازِنِيِّ ذَكَرَ سُفْيَانُ رَجُلًا فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ الْمَازِنِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ فُلَانٌ إِلَى الْكُوفَةِ، أَقَامَ فُلَانٌ خَطِيبًا، فَأَخَذَ بِيَدِي سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ، فَقَالَ: أَلَا تَرَى إِلَى هَذَا الظَّالِمِ، فَأَشْهَدُ عَلَى التِّسْعَةِ إِنَّهُمْ فِي الْجَنَّةِ، وَلَوْ شَهِدْتُ عَلَى الْعَاشِرِ لَمْ إِيثَمْ!-. قَالَ ابْنُ إِدْرِيسَ, وَالْعَرَبُ: تَقُولُ: آثَمُ-، قُلْتُ: وَمَنِ التِّسْعَةُ؟ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وَهُوَ عَلَى حِرَاءٍ: >اثْبُتْ حِرَاءُ! إِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيقٌ أَوْ شَهِيدٌ<، قُلْتُ: وَمَنِ التِّسْعَةُ؟ قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، َأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَطَلْحَةُ، وَالزُّبَيْرُ، وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ. قُلْتُ: وَمَنِ الْعَاشِرُ؟ فَتَلَكَّأَ هُنَيَّةً، ثُمَّ قَالَ: أَنَا. قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ الْأَشْجَعِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ عَنِ ابْنِ حَيَّانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ بِإِسْنَادِهِ نَحْوَهُ.
حکم : صحیح
جناب عبداللہ بن ظالم مازنی سے روایت ہے ، انہوں نے کہا کہ میں نے سیدنا سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے کہا : جب فلاں کوفے میں آیا اور اس نے فلاں کو خطبے میں کھڑا کیا ( عبداللہ نے کہا ) تو سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے میرے ہاتھ دبائے اور کہا : کیا تم اس ظالم ( خطیب ) کو نہیں دیکھتے ہو ، ( غالباً وہ خطیب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کچھ کہہ رہا تھا ۔ ) میں نو افراد کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ جنتی ہیں ، اگر دسویں کے بارے میں کہوں تو گناہ گار نہیں ہوں گا ۔ ابن ادریس نے کہا عرب لوگ «آثم» کا لفظ بولتے ہیں ( جبکہ سیدنا سعید نے «لم إيثم» ) ۔ عبداللہ کہتے ہیں ، میں نے پوچھا : وہ نو افراد کون سے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حراء پر کھڑے ہوئے تھے : ” اے حراء ٹھر جا ! تجھ پر سوائے نبی کے یا صدیق کے یا شہید کے اور کوئی نہیں ہے ۔ “ میں نے کہا اور وہ نو کون کون ہیں ؟ کہا : رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر ، عمر ، عثمان ، علی ، طلحہ ، زبیر ، سعد بن ابی وقاص ، ( مالک ) اور عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہم ۔ میں نے پوچھا اور دسواں کون ہے ؟ تو وہ لمحے بھر کے لیے ٹھٹھکے پھر کہا میں ۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو اشجعی نے سفیان سے ، انہوں نے منصور سے ، انہوں نے ہلال بن یساف سے ، انہوں نے ابن حیان سے ، انہوں نے عبداللہ بن ظالم سے اسی کی سند سے مذکورہ بالا کی مانند روایت کیا ہے ۔
دو جگہ فلاں کا لفظ استعمال ہوا – کیا دونوں جگہ مرد مغیرہ رضی الله عنہ ہیں یا دوسرا فلاں کسی اور کے لئے استعمال ہوا
اور دوسری بات کہ کیا امام ابو داوود رحم الله اتنے سادے تھے کہ ایک بندہ اتنی ضروری حدیث بیان کر رہا ہے اور اس کی سند میں فلاں فلاں کا لفظ استعمال کر رہا ہے تو وہ اپنی کتاب میں فلاں فلاں لکھ رہے ہیں
فلاں فلاں سے کون مراد ہے – یہاں امام ابو داوود رحم الله نے نام کیوں نہیں لیا
جواب
سنن الکبری میں یہ روایت 8148 اس طرح ہے
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ حَصِينٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ قَالَ: خَطَبَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ فَسَبَّ عَلِيًّا فَقَالَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ: أَشْهَدُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: «اثْبُتْ حِرَاءُ، فَإِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ، أَوْ صِدِّيقٌ، أَوْ شَهِيدٌ» وَعَلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَطَلْحَةُ، وَالزُّبَيْرُ وَسَعْدُ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، وَسَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ هِلَالُ بْنُ يَسَافٍ لَمْ يَسْمَعْهُ مِنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ.
اس میں شعبہ نے نام لیا ہے
اور دوسری سند ہے
– أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ قَالَ: أَخْبَرَنَا حَصِينٌ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ، وَعَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ، وَذَكَرَ سُفْيَانُ رَجُلًا فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ مُعَاوِيَةُ الْكُوفَةَ أَقَامَ مُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ خُطَبَاءَ يَتَنَاوَلُونَ عَلِيًّا فَأَخَذَ بِيَدِي سَعِيدَ بْنَ زَيْدٍ فَقَالَ: «أَلَا تَرَى هَذَا الظَّالِمَ الَّذِي يَأْمُرُ بِلَعْنِ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَأَشْهَدُ عَلَى التِّسْعَةِ أَنَّهُمْ فِي الْجَنَّةِ وَلَوْ شَهِدْتُ عَلَى الْعَاشِرِ قُلْتُ مَنِ التِّسْعَةُ» قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَهُوَ عَلَى حِرَاءٍ: «اثْبُتْ إِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ، أَوْ صِدِّيقٌ، أَوْ شَهِيدٌ» قَالَ: وَمَنِ التِّسْعَةُ؟ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَطَلْحَةُ، وَالزُّبَيْرُ، وَسَعْدٌ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ» قُلْتُ: مَنِ الْعَاشِرُ قَالَ: «أَنَا»
ابو داود کی روایت ہے
حدَّثنا محمدُ بنُ العلاء، عن ابن إدريس، أخبرنا حُصينٌ، عن هلال بن يِسافٍ، عن عبدِ الله بن ظالم. وسفيانُ، عن منصورٍ، عن هلالِ بنِ يِسافِ، عن عبدِ الله بن ظالم المازنيِّ -ذكر سفيانُ رجلاً فيما بينه وبين عبد الله ابن ظالم المازنيِّ-
سمعتُ سعيدَ بنَ زيدِ بنِ عمرِو بنِ نُفَيلٍ قال: لَمَّا قَدِمَ فلانٌ إلى الكوفة أقام فلانٌ خطيباً، فأخذ بيدي سعيدُ بنُ زيدٍ، فقال: ألا ترى
إلى هذا الظالم، فأشهَدُ على التسعةِ إنَّهم في الجنَّة، ولو شَهِدْتُ على العاشر لم إيثَمْ (1) قال ابن إدريس: والعرب تقول: آثم – قلت: ومَنِ التِّسعةُ؟ قال: قال رسولُ الله-صلى الله عليه وسلم- وهو على حراء: “اثبُتْ حراء، إئه ليس عليك إلا نبي أو صِدِّيق أو شهيدْ” قلت: ومَنِ التسعة؟ قال: رسولُ الله-صلى الله عليه وسلم-، وأبو بكرٍ، وعُمرُ، وعثمانُ، وعلي، وطلحةُ، والزبيرُ، وسعدُ بن أبي وقاصٍ، وعبد الرحمن بن عوفٍ، قلت: ومَن العاشرُ، قال: فتلكَّأ هُنيَّةً، ثم قال: أنا (2).
قال أبو داود: رواه الأشجعيُّ، عن سفيان، عن منصور، عن هلال ابن يساف، عن ابن حيَّان، عن عبدِ الله بن ظالم، بإسناده نحو معناه.
لہذا یہ نام نہ لینا ابو داود کا عمل لگتا ہے
نام کو فلاں سے بدلنے میں قباحت نہیں ہے کیونکہ نام شروع میں موجود ہے اور واضح ہے کہ مغیرہ رضی الله عنہ پر کلام ہو رہا ہے جو بھی اس حدیث کو پڑھے گا سمجھ جائے گا
واضح رہے کہ یہ روایت ضعیف ہے
[/EXPAND]
[محدثین کا نام کو فلاں سے بدلنے کی دوسری مثال پر سوال ہے ؟]
سنن ابو داود کی روایت ہے
سنن أبي داؤد: کِتَابُ تَفْرِيعِ أَبْوَابِ الْجُمُعَةِ (بَابُ الْخُطْبَةِ يَوْمَ الْعِيدِ) سنن ابو داؤد: کتاب: جمعۃ المبارک کے احکام ومسائل
(باب: عید کے روز خطبہ)
. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ رَجَاءٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ حديث، وَعَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: أَخْرَجَ مَرْوَانُ الْمِنْبَرَ فِي يَوْمِ عِيدٍ، فَبَدَأَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ، فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا مَرْوَانُ! خَالَفْتَ السُّنَّةَ! أَخْرَجْتَ الْمِنْبَرَ فِي يَوْمِ عِيدٍ, وَلَمْ يَكُنْ يُخْرَجُ فِيهِ، وَبَدَأْتَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ! فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ، فَقَالَ: أَمَّا هَذَا فَقَدْ قَضَى مَا عَلَيْهِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُول:ُ >مَنْ رَأَى مُنْكَرًا فَاسْتَطَاعَ أَنْ يُغَيِّرَهُ بِيَدِهِ, فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ, فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ, وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِأَشَاهِدٌ فُلَانٌ؟أَشَاهِدٌ فُلَانٌ؟إِنَّ هَاتَيْنِ الصَّلَاتَيْنِ أَثْقَلُ الصَّلَوَاتِ عَلَى الْمُنَافِقِينَ، وَلَوْ تَعْلَمُونَ مَا فِيهِمَا لَأَتَيْتُمُوهُمَا وَلَوْ حَبْوًا عَلَى الرُّكَبِ، وَإِنَّ الصَّفَّ الْأَوَّلَ عَلَى مِثْلِ صَفِّ الْمَلَائِكَةِ، وَلَوْ عَلِمْتُمْ مَا فَضِيلَتُهُ لَابْتَدَرْتُمُوهُ، وَإِنَّ صَلَاةَ الرَّجُلِ مَعَ الرَّجُلِ أَزْكَى مِنْ صَلَاتِهِ وَحْدَهُ، وَصَلَاتُهُ مَعَ الرَّجُلَيْنِ أَزْكَى مِنْ صَلَاتِهِ مَعَ الرَّجُلِ، وَمَا كَثُرَ فَهُوَ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى<.
جواب
کتاب ایمان ابن مندہ 180 کی سند ہے جو ابو داود جیسی ہے
أَنْبَأَ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ الشَّيْبَانِيُّ، ثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُلَيْمَانَ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ نَحْوَهُ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ: وَحَدَّثَنِي أَبِي، ثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ طَرِيفٍ، قَالَا: ثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ [ص:342] رَجَاءٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، وَعَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: أَخْرَجَ مَرْوَانُ الْمِنْبَرَ فِي يَوْمِ عِيدٍ، وَبَدَأَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ، فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا مَرْوَانُ خَالَفْتَ السُّنَّةَ أَخْرَجْتَ الْمِنْبَرَ فِي يَوْمِ عِيدٍ، وَلَمْ يَكُنْ يَخْرُجُ، وَبَدَأْتَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ، وَلَمْ يَكُنْ يُبْدَأُ بِهَا، فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ: مَنْ هَذَا؟، فَقَالُوا: هَذَا فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ، فَقَالَ: أَمَّا هَذَا فَقَدْ قَضَى مَا عَلَيْهِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَاسْتَطَاعَ أَنْ يُغَيِّرَهُ بِيَدِهِ فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ»
اس میں فلاں بن فلاں کی جگہ مروان کا نام لکھا ہے
مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ رَجَاءٍ [ص:127]، عَنْ أَبِيهِ، وَعَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، كِلَاهُمَا عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: أَخْرَجَ مَرْوَانُ الْمِنْبَرَ فِي يَوْمِ عِيدٍ، وَلَمْ يَكُنْ يُخْرَجُ بِهِ، وَبَدَأَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ، وَلَمْ يَكُنْ يُبْدَأُ بِهَا، قَالَ: فَقَامَ رَجُلٍ فَقَالَ: يَا مَرْوَانُ خَالَفْتَ السُّنَّةَ، أَخْرَجْتَ الْمِنْبَرَ فِي يَوْمِ عِيدٍ، وَلَمْ يَكُ يُخْرَجُ بِهِ فِي يَوْمِ عِيدٍ، وَبَدَأْتَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ، وَلَمْ يَكُنْ يُبْدَأُ بِهَا قَالَ: فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ قَالَ: فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ: أَمَّا هَذَا فَقَدْ قَضَى مَا عَلَيْهِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَإِنْ اسْتَطَاعَ أَنْ يُغَيِّرَهُ بِيَدِهِ فَلْيَفْعَلْ» وَقَالَ مَرَّةً: «فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ بِيَدِهِ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ بِلِسَانِهِ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ»
اور
11492 – حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ رَجَاءٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: أَوَّلُ مَنْ أَخْرَجَ الْمِنْبَرَ يَوْمَ الْعِيدِ مَرْوَانُ، وَأَوَّلُ مَنْ بَدَأَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ، فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا مَرْوَانُ خَالَفْتَ السُّنَّةَ، أَخْرَجْتَ الْمِنْبَرَ وَلَمْ يَكُ يُخْرَجُ، وَبَدَأْتَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ، قَالَ: أَمَّا هَذَا، فَقَدْ قَضَى مَا عَلَيْهِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ رَأَى مُنْكَرًا، فَإِنْ اسْتَطَاعَ أَنْ يُغَيِّرَهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ»
یہاں امام احمد نے نام کو فلاں بن فلاں میں لکھا ہے
سنن الکبری بیہقی میں ہے
وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ بِشْرَانَ بِبَغْدَادَ , أنبأ إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَفَّانَ، ثنا ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ رَجَاءٍ، عَنْ أَبِيهِ، ح وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، وَأَبُو سَعِيدِ بْنُ أَبِي عَمْرٍو قَالَا: ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ , ثنا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ، ثنا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ رَجَاءٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَعَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: أَخْرَجَ مَرْوَانُ الْمِنْبَرَ فِي يَوْمِ عِيدٍ وَبَدَأَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ , فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: [ص:417] يَا مَرْوَانُ خَالَفْتَ السُّنَّةَ , أَخْرَجَتَ الْمِنْبَرَ فِي يَوْمِ عِيدٍ وَلَمْ يَكُنْ يُخْرَجُ بِهِ، وَبَدَأْتَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ وَلَمْ يَكُنْ يُبْدَأُ بِهَا، قَالَ: فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ مَنْ هَذَا قَالُوا: فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ , فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ: أَمَّا هَذَا فَقَدْ قَضَى مَا عَلَيْهِ , سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” مَنْ رَأَى مُنْكَرًا فَاسْتَطَاعَ أَنْ يُغَيِّرَهُ بِيَدِهِ فَلْيُغَيِّرْهُ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ بِيَدِهِ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ بِلِسَانِهِ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ
راقم کی رائے میں یہ کام اعمش کا لگتا ہے کیونکہ ان تین مختلف کتابوں میں میں یہی ایک راوی ہیں جن کے شاگرد الگ ہیں لہذا اگر کوئی تبدیلی آئی تو ممکن ہے ان کی وجہ سے ہو یہ نہیں ہو سکتا کہ امام احمد ، ابو داود اور بیہقی جان بوجھ کر ایک ہی مقام پر ایک ہی روایت میں نام چھپا دیں
اعمش خود کوفہ کے شیعہ ہیں لہذا یہ نام کیوں چھپائیں گے ؟ راقم کی رائے میں نام کو چھپایا نہیں گیا ہے فلاں کہہ کر بس اختصار کیا گیا ہے کیونکہ نام شروع سے آ رہا ہے اس میں ابہام نہیں ہے کہ یہ مروان پر کلام ہے
اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ نام چھپایا گیا ہے تو اس کو مغالطہ ہوا ہے جیسا کہ اوپر اسناد دیکھنے سے واضح ہو جاتا ہے
[/EXPAND]
[امام بخاری نے روایت نام کو فلاں سے بدلا؟]
صحيح البخاري: كِتَابُ المُحَارِبِينَ مِنْ أَهْلِ الكُفْرِ وَالرِّدَّةِ (بَابُ رَجْمِ الحُبْلَى مِنَ الزِّنَا إِذَا أَحْصَنَتْ) صحیح بخاری: کتاب: ان کفار و مرتدوں کے احکام میں جو مسلمان سے لڑتے ہیں
(باب : اگر کوئی عورت زنا سے حاملہ پائی جائے اور وہ شادی شدہ ہو تو اسے رجم کریں گے)
6830 . حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كُنْتُ أُقْرِئُ رِجَالًا مِنْ الْمُهَاجِرِينَ مِنْهُمْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فَبَيْنَمَا أَنَا فِي مَنْزِلِهِ بِمِنًى وَهُوَ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي آخِرِ حَجَّةٍ حَجَّهَا إِذْ رَجَعَ إِلَيَّ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَقَالَ لَوْ رَأَيْتَ رَجُلًا أَتَى أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ
پوچھنا یہ ہے کہ اس حدیث میں جو یہ لکھا ہوا ہے
فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ هَلْ لَكَ فِي فُلَانٍ يَقُولُ لَوْ قَدْ مَاتَ عُمَرُ لَقَدْ بَايَعْتُ فُلَانًا فَوَاللَّهِ مَا كَانَتْ بَيْعَةُ أَبِي بَكْرٍ إِلَّا فَلْتَةً
اے امیرالمؤمنین! کیا آپ فلاں صاحب سے یہ پوچھ تاچھ کریں گے جو یہ کہتے ہیں کہ اگر عمر کا انتقال ہوگیا تو میں فلاں سے بیعت کروں گا کیوں کہ واللہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بغیر سوچے سمجھے بیعت تو اچانک ہوگئی اور پھر وہ مکمل ہوگئی تھی
جواب
اس میں فلاں سے مراد زبیر رضی الله عنہ ہیں بحوالہ فتح الباري (ج ١ / ص ٣٣٨) پر اور إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري از قسطلانی میں ہے
قد مَاتَ عمر لقد بَايَعت فلَانا فِي مُسْند الْبَزَّار والجعديات بِإِسْنَاد ضَعِيف أَن المُرَاد بِالَّذِي يُبَايع لَهُ طَلْحَة بن عبيد الله وَلم يسم الْقَائِل وَلَا النَّاقِل ثمَّ وجدته فِي الْأَنْسَاب للبلاذري بِإِسْنَاد قوي مِنْ رِوَايَةِ هِشَامِ بْنِ يُوسُفَ عَنْ مَعْمَرٍ عَنِ الزُّهْرِيّ بِالْإِسْنَادِ الْمَذْكُور فِي الأَصْل وَلَفظه قَالَ عمر بَلغنِي أَن الزبير قَالَ لَو قد مَاتَ عمر بَايعنَا عليا الحَدِيث فَهَذَا أصح
ابن حجر کے مطابق انساب البلازری میں ان صحابی کا نام موجود ہے
البتہ کتاب مصابيح الجامع از ابن الدماميني (المتوفى: 827 هـ) کے مطابق
وفلانٌ المشارُ إليه بالبَيْعة هو طلحةُ بنُ عُبيد الله، وقع ذلك في “فوائد البغوي” عن عليِّ بنِ الجعد، قاله (1) ابن بشكوال (2)، وهو في “مسند البزار” فيما رواه أسلم (3) مولى عمر عن عمر
یہ طلحةُ بنُ عُبيد الله رضی الله عنہ ہیں
اصل میں امام بخاری کی روایت کی کچھ شرط ہے جن میں نام ہے وہ بہت اچھی سند نہیں ہیں جن میں فلاں ہے وہ سند صحیح تھی لہذا اس کو لکھا گیا
راقم اس سے اتفاق نہیں کرتا کہ امام بخاری نے نام کو فلاں سے بدل دیا
[/EXPAND]
توریت کے تین حکم
مدینہ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے مد مقابل ٹھیٹھ مولوی تھے جنہوں نے دین کو پیشہ بنا رکھا تھا اور کتاب الله یعنی توریت کو چھپایا جاتا اور اس کے مقابلے پر اپنا مسلک و روایت پیش کی جاتی – مدینے میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم حاکم تھے اور کئی موقعوں پر آپ نے یہود کو دین کی طرف بلایا اور صحیح بخاری کے مطابق ان کے مدارس بھی گئے
صحیح بخاری کی حدیث ہے
أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ فِي المَسْجِدِ، خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «انْطَلِقُوا إِلَى يَهُودَ»، فَخَرَجْنَا حَتَّى جِئْنَا بَيْتَ المِدْرَاسِ فَقَالَ: أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا، وَاعْلَمُوا أَنَّ الأَرْضَ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ
ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ہم مسجد میں تھے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نکلے اور کہا یہود کی طرف چلو پس ہم نکلے یہاں تک کہ بیت المدارس پہنچے پس آپ نے فرمایا اسلام قبول کرو امان ملے گا اور جان لو کہ زمین الله اور اس کے رسول کے لئے ہے
ہمارے راویات پسند علماء کی غلطی ہے کہ انہوں نے یہ دعوی کیا کہ سابقہ شریعت منسوخ ہے جبکہ قرآن سوره المائدہ میں اہل کتاب کو کہتا ہے
قل ياأهل الكتاب لستم على شيء حتى تقيموا التوراة والإنجيل وما أنزل إليكم من ربكم وليزيدن كثيرا منهم ما أنزل إليك من ربك طغيانا وكفرا فلا تأس على القوم الكافرين
کہو اے اہل کتاب تم کوئی چیز نہیں جب تک تم توریت و انجیل کو قائم نہیں کرتے اور وہ جو تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے اور اس پر جو تم پر نازل ہوا ہے ان کی سر کشی و بغاوت میں ہی اضافہ ہوا – پس انکاریوں کی حالت پر افسوس نہ کرو
یعنی قرآن میں یہ واضح ہے کہ توریت و انجیل اہل کتاب کو پتا ہے لیکن اس کو چھپاتے ہیں اور اس کو قائم نہیں کرتے-
یہ بحث کہ اصل توریت کیا ہے اس کے لئے اس ویب سائٹ پر کتاب
In Search of Hidden Torah
دیکھئے
اس میں اہل کتاب کی کتب اور قرآن و حدیث کا تقابل کر کے واضح کیا گیا ہے کہ اصل توریت کتاب استثنا کے باب ١٢ یا ٢٦ میں ہے جس کا اقرار اہل کتاب آج کر رہے ہیں کہ اس کی عبرانی باقی توریت سے الگ ہے – اس کو انگریزی میں
Book of Deuteronomy
کہا جاتا ہے – عجیب بات ہے جب بھی قرآن کہتا ہے ہم نے توریت میں یہ حکم دیا تو وہ استثنا کے اسی باب ١٢ یا ٢٦ میں موجود ہے جو آہل ایمان کے لئے نشانی ہے
تورات کا ایک حکم – رجم کی سزا
نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس یہودیوں کے زنا کا مقدمہ پیش ہوا – یہود نے اس کی سزا گدھے پر بٹھا کر منہ کالا کرنا بتائی – نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے توریت لانے اور اسکو پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا : میں تورات ہی کے مطابق فیصلہ کروں گا ۔ چنانچہ (اُس یہودی اور یہودیہ کے بارے میں) حکم دیا گیا اور وہ دونوں سنگ سار کر دیے گئے
تورات کتاب استثنا باب ٢٢ کی آیت ٢٠ اگر کوئی شادی شدہ مرد اپنی بیوی میں باکرہ ہونے کی علامت نہ پائے تو ایسی عورت کو سنگسار کر دو
یہودیوں میں توریت پر فقہی مباحث جاری تھے اور اس مجموعے کو تلمود کہا جاتا ہے اس پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے دور میں یروشلم اور بابل میں کام جاری تھا تلمود کے مطابق( سات) بڑے گناہوں کی سزا کوڑے ہے اور قتل یا رجم نہیں کیونکہ زنا کی سزا کے لئے دو گواہ ہونے چاہییں – اگردو گواہ مرد و عورت کو حالت زنا میں دیکھیں اور بولیں الگ ہو جاؤ اور وہ زانی الگ ہو جائیں تو توریت کا حکم نہیں لگے گا -یہ علماء کا فتوی تھا جو تلمود میں ہے- لیکن مدنیہ والے ان سے بھی ایک ہاتھ آگے تھے انہوں نے فتوی دیا کہ صرف گدھے پر منہ کالا کر کے بیٹھا دو- نہ کوڑے کی سزا دے رہے تھے جو تلمود میں ہے، نہ رجم کر رہے تھے جو توریت میں ہے
تفصیل کے لئے کتاب دیکھئے
The Religious and Spiritual Life of the Jews of Medina
By Haggai Mazuz, Brill Publisher, 2014
صحیح مسلم کی ایک مدلس الْأَعْمَشِ کی عن سے روایت میں ہے مَجْلُودًا کہ ان یہودیوں کو کوڑے بھی مارے گئے لیکن یہ روایت غریب اور شاذ ہے کوڑے مارنے کا مجموعہ کتب حدیث میں کہیں اور ذکر نہیں ہے جس حدیث میں بھی اس واقعہ کا ذکر ہے وہاں صرف منہ کالا کرنا اور گدھے پر بیٹھانا لکھا ہے
رجم کا یہ حکم توریت سے لیا گیا اور اخلاقا یہ ممکن نہیں کہ یہودیوں کے زانی کو تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم توریت کا حوالہ دے کر رجم کا حکم دیں اور مسلمانوں کو بچا لیں لہذا شادی شدہ مسلمان زانی کے لئے یہی حکم جاری ہوا
عینی عمدہ القاری میں لکھتے ہیں کہ بعض معتزلہ اور خوارج نے رجم کی سزا کا انکار کیا – اسی طرح بعض اہل سنت کو اس میں اشتباہ ہوا اور انہوں نے اس سلسلے میں انے والی صحیح و ضعیف روایات کو ملا کر ان پر تبصرہ کیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ان تمام روایات میں اضطراب ہے – دوسری طرف روایت پسند علماء نے رجم کی ایک ایک روایت کو صحیح کہہ دیا جس سے مسئلہ سلجھنے کی بجائے اور الجھ گیا – عصر حاضر میں مصری علماء مثلا محمد الصادق عرجون نے رجم کی روایات پر جرح کی – اسی طرح برصغیر میں جاوید احمد غامدی نے اس سزا کو واپس موضوع بحث بنایا اور اس پر اپنی کتاب میزان میں تبصرہ کیا اور اپنی ویب سائٹ پر اس سسلے کی ضعیف و صحیح روایات باہم ملا کر ان پر تبصرہ کر دیا-
غامدي صاحب رجم کی سزا کو مانتے ہیں کہ یہ دی جا سکتی ہے لیکن اس کی دلیل وہ سوره المائدہ سے لیتے ہیں کہ جو لوگ بغاوت کریں اور فساد کریں ان کو سولی دی جائے، ملک بدر کیا جائے، ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ دے جائیں –
سوره المائدہ کی آیت ٣٣ ہے
بیشک جو لوگ اﷲ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد انگیزی کرتے پھرتے ہیں ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کئے جائیں یا پھانسی دیئے جائیں یا ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹے جائیں یا زمین سے دور (یعنی ملک بدر یاقید) کر دیئے جائیں۔ یہ (تو) ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لئے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہے
اس طرح غامدی صاحب رجم کی سزا کو فساد فی الارض کے زمرے میں یا لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ لے کرموقف رکھتے ہیں کہ حاکم وقت چاہے تو یہ سزا دے سکتا ہے اس کا تعلق خاص شادی شدہ زانی کے لئے نہیں بلکہ اس موقف کے تحت غیر شادی شدہ کو بھی رجم کی سزا دی جا سکتی ہے اگر وہ غنڈہ ہو اور زنا بالجبر کرتا ہو- اس کے لئے ان کی تحاریر دیکھی جا سکتی ہیں – لیکن اس موقف میں کئی خامیاں ہیں اول سوره المائدہ کی آیات قرآن كي سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے ہے جس میں اليوم أكملت لكم دينكم کی آیت بھی ہے – قرطبی کہتے ہیں سوره المائدہ سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورت ہے (الهداية إلى بلوغ النهاية في علم معاني القرآن وتفسيره)- کہا جاتا ہے مَا نَزَلَ لَيْسَ فِيهَا مَنْسُوخٌ اس میں سے کچھ منسوخ نہیں ہے (تفسیر القرطبی) – محمد سيد طنطاوي التفسير الوسيط للقرآن الكريم میں کہتے ہیں أن سورة المائدة من آخر القرآن نزولا بے شک سوره المائدہ قرآن میں سب سے آخر میں نازل ہوئی – سوره المائدہ کی آیات حجه الوداع پر مکمل ہوئیں یعنی ١٠ ہجری میں اور ١١ ہجری میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی – اب مسئلہ یہ اٹھتا ہے دور نبوی میں جن افراد کو رجم کی سزا دی گئی وہ سب ظاہر ہے اس سوره المائدہ کے نزول کے بعد ہی دی گئی ہو گی تو اس ایک سال میں اتنے سارے لوگوں کو رجم کیا گیا – مدینہ میں ایسی کیا ہیجانی کیفیت تھی کہ حجه الوداع کے بعد اتنی زنا بالجبر کی کروائیاں ہو رہی تھیں اس کی تہہ میں کیا تحریک پوشیدہ تھی ؟ غامدی صاحب اس سب کو گول کر جاتے ہیں اور چونکہ ایک عام آدمی اس سب سے لا علم ہے وہ ان کی تحقیق کا تجزیہ کرنے میں ناکام رہتا ہے اور اس پر ان کی تحقیق کا جھول واضح نہیں ہوتا – دوم سوره النور میں جو زانی کی سزا ہے اور بقول غامدی صاحب ” چنانچہ یہ آیت بھی اِس معاملے میں بالکل صریح ہے کہ زانی شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ ، اُس کے جرم کی انتہائی سزا قرآن مجید کی رو سے سو کوڑے ہی ہے ۔ قرآن کی اِن دونوں آیات میں سے سورۂ نور کی آیت ۸ کے بارے میں کوئی دوسری رائے ابھی تک ہمارے سامنے نہیں آئی ” (برہان از جاوید غامدی) – یعنی غامدی صاحب کے نزدیک سوره النور کی آیات کا تعلق شادی شدہ یا غیر شادی شدہ دونوں سے ہے – سوال ہے کیا اس کا حکم سوره المائدہ کی آیت سے منسوخ ہے ؟ اپنی مختلف تحاریر میں اس سے خوبصورتی سے کترا جاتے ہیں
غامدی صاحب کی پیش کردہ روایات مندرجہ ذیل ہیں جن سب کو صحیح سمجھتے ہوئے انہوں نے ان میں اضطراب ثابت کرنے کی کوشش کی ہے
رجم کی ضعیف روایات
مسند احمد کی روایت ہے
عن الشعبی ان علیاً جلد شراحۃ یوم الخمیس ورجمھا یوم الجمعۃ وقال: اجلدھا بکتاب اللّٰہ وارجمھا بسنۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم.(احمد، رقم ۸۳۹) ’
شعبی سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے شراحہ نامی عورت کو جمعرات کے دن کوڑے لگوائے اور جمعہ کے دن اُسے رجم کرا دیا اور فرمایا: میں نے اِسے کتاب اللہ کے مطابق کوڑے لگائے ہیں اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق سنگ سار کرتا ہوں۔‘‘
کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق
عامر بن شراحيل الشعبي أحد الأئمة روى عن علي رضي الله عنه…..وهو لا يكتفي بمجرد إمكان اللقاء
عامر بن شراحيل الشعبي ائمہ میں سے ایک ہیں علی سے روایت کرتے ہیں اور…. یہ امکان لقاء کی بنیاد پر مجردا صحیح نہیں
یعنی شعبی کا سماع علی رضی الله عنہ سے مشکوک ہے
دوسری ضعیف روایت
سنن ابو داود کی روایت ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ أَبُو يَحْيَى الْبَزَّازُ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، «أَنَّ رَجُلًا زَنَى بِامْرَأَةٍ فَلَمْ يَعْلَمْ بِإِحْصَانِهِ، فَجُلِدَ، ثُمَّ عَلِمَ بِإِحْصَانِهِ، فَرُجِمَ
عن جابر ان رجلاً زنیٰ بامراۃ، فامر بہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فجلد الحد، ثم اخبر انہ محصن فامر بہ فرجم.(ابوداؤد، رقم ۴۴۳۸)
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
کہ ایک شخص نے کسی عورت کے ساتھ بدکاری کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کے بارے میں سزا کا حکم دیا ۔ چنانچہ اُسے کوڑے لگائے گئے۔ پھر معلوم ہوا کہ وہ محصن (شادی شدہ) ہے تو حکم دیا گیا اور اُسے رجم کر دیا گیا۔
اس کی سند میں محمد بن مسلم أبو الزبير المكي مدلس ہے – کتاب التبيين لأسماء المدلسين از ابن العجمي کے مطابق مشهور بالتدليس یہ تدلیس کے لئے مشھور ہے- البانی اس روایت کو ضعیف کہتے ہیں
تیسری ضعیف روایت
طبقات الکبری از ابن سعد کی روایت ہے
قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنِي هشام بن عاصم بن الْمُنْذِرِ بْنِ جَهْمٍ أَنَّ عَمْرَو بْنَ حَمْزَةَ بْنِ سِنَانٍ كَانَ قَدْ شَهِدَ الْحُدَيْبِيَةَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَدِمَ الْمَدِينَةَ ثُمَّ اسْتَأْذَنَ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَنْ يَرْجِعَ إِلَى بَادِيَتِهِ فَأَذِنَ لَهُ فَخَرَجَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِالضَّبُّوعَةِ عَلَى بُرَيْدٍ مِنَ الْمَدِينَةِ عَلَى الْمَحَجَّةِ إِلَى مَكَّةَ لَقِيَ جارية من العرب وضيئة فنزعه الشَّيْطَانُ حَتَّى أَصَابَهَا وَلَمْ يَكُنْ أُحْصِنَ. ثُمَّ نَدِمَ فَأَتَى النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَأَخْبَرَهُ فَأَقَامَ عَلَيْهِ الْحَدَّ. أَمَرَ رَجُلا أَنْ يَجْلِدَهُ بَيْنَ الْجِلْدَيْنِ بِسَوْطٍ قَدْ رُكِبَ بِهِ ولان.
عمرو بن حمزہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ میں حاضر تھے ۔ وہ مدینہ آئے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اجازت چاہی کہ اپنے بادیہ کی طرف لوٹ جائیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی تو نکلے، یہاں تک کہ جب مدینہ سے مکہ کی طرف راستے کے درمیان ایک منزل ضبوعہ پہنچے تو عرب کی ایک خوب صورت لونڈی سے ملاقات ہوئی۔ شیطان نے اکسایا تو اُس سے زنا کر بیٹھے اور اُس وقت وہ محصن نہ تھے۔ پھر نادم ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر آپ کو بتایا۔ چنانچہ آپ نے اُن پر حد جاری کر دی
اس نسخہ میں اس روایت کی سند میں غلطی ہے کتاب تلخيص المتشابه في الرسم از الخطيب البغدادي (المتوفى: 463هـ) کے مطابق اصل میں راوی يَحْيَى بْنُ هِشَامِ بْنِ عَاصِمٍ الأَسْلَمِيُّ الْمَدِينِيُّ ہے جو الْمُنْذِرِ بْنِ جَهْمٍ سے روایت کرتا ہے اور یحیی سے مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ الْوَاقِدِيُّ نے كِتَابِ الْمَغَازِي میں روایت لکھی ہے- لہذا یہی راوی ہے جس سے واقدی نے روایت کیا اور ان سے ابن سعد نے – اب چاہے یہ يَحْيَى بْنُ هِشَامِ بْنِ عَاصِمٍ ہو یا هِشَامِ بْنِ عَاصِمٍ – دونوں کا حال مجھول ہے
لہذا روایت ضعیف ہے
چوتھی ضعیف روایت
سنن ابو داود کی روایت ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ هَارُونَ الْبُرْدِيُّ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ فَيَّاضٍ الْأَبْنَاوِيِّ، عَنْ خَلَّادِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنِ ابْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ” أَنَّ رَجُلًا مِنْ بَكْرِ بْنِ لَيْثٍ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقَرَّ أَنَّهُ زَنَى بِامْرَأَةٍ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ، فَجَلَدَهُ مِائَةً، وَكَانَ بِكْرًا، ثُمَّ سَأَلَهُ الْبَيِّنَةَ عَلَى الْمَرْأَةِ، فَقَالَتْ: كَذَبَ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَجَلَدَهُ حَدَّ الْفِرْيَةِ ثَمَانِينَ “
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلۂ بکر بن لیث کا ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اُس نے چار مرتبہ اقرار کیا کہ اُس نے ایک عورت سے زنا کیا ہے ۔ وہ کنوارا تھا۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے سو کوڑے لگوائے ۔ پھر اُس سے عورت کے خلاف ثبوت چاہا تو اُس بی بی نے کہا : اللہ کی قسم ، اِس نے جھوٹ بولا ہے ، یا رسول اللہ ۔ اِس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے قذف کے اسی کوڑے لگوائے
البانی اس روایت کو منکر کہتے ہیں
پانچویں ضعیف روایت
أَخْبَرَنَا أَبُو مُصْعَبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ , أَنَّهُ بَلَغَهُ , أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ أُتِيَ بِامْرَأَةٍ قَدْ وَلَدَتْ فِي سِتَّةِ أَشْهُرٍ , فَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُرْجَمَ، فَقَالَ لَهُ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ: لَيْسَ ذَلِكَ عَلَيْهَا ,وقد قال اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي كِتَابِهِ: {وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلاَثُونَ شَهْرًا} , وَقَالَ: {وفصاله في عامين} وقال: {وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلاَدَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ} قال: والرضاعة أربعة وعشرون شهراً والْحَمْلُ سِتَّةَ أَشْهُرٍ فأمر بها عُثْمَانُ أن ترد , فَوَجَدَت قَدْ رُجِمَتْ
ایک عورت نے عثمان رضی الله عنہ کے دور میں شادی کے بعد چھ ماہ میں بچا جنا – اس کا مقدمہ عثمان رضی الله عنہ پر پیش ہوا انہوں نے اس کو رجم کرا دیا – بعد میں جب ان کو سمجھایا گیا کہ کم از کم مدت حمل چھ ماہ ہے تو انہوں نے حکم واپس لیا لیکن اس وقت تک عورت رجم کی جا چکی تھی
موطآ امام مالک کی روایت ہے کہ امام مالک کو یہ بات پہنچی ہے – امام مالک نے اس کی سند نہیں دی لہذا یہ بھی ایک ضعیف روایت ہے- اگر اس کو صحیح مانا جائے تو خلیفہ اور اس کی شوری کی اجتماعی غلطی ہے جبکہ اس میں جلیل القدر اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم شامل ہیں اور ان سے یہ غلطی ممکن نہیں
چھٹی ضعیف روایت
مصنف عبد الرزاق کی روایت ہے جو مسروق کا قول ہے
عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ: «الْبِكْرَانِ يُجْلَدَانِ أَوْ يُنْفَيَانِ، وَالثَّيِّبَانِ يُرْجَمَانِ وَلَا يُجْلَدَانِ، وَالشَّيْخَانِ يُجْلَدَانِ وَيُرْجَمَانِ
کنوارے زانی کی سزا سو کوڑے اور جلا وطنی ہے۔ شادی شدہ زانی کو صرف رجم کی سزا دی جائے گی اور بوڑھے زانیوں کو پہلے کوڑے مارے جائیں گے او ر اِس کے بعد رجم کیا جائے گا
یہ نہ مرفوع حدیث ہے نہ موقوف قول صحابی ہے نہ مرسل روایت ہے – یہ ایک تابعی کا قول ہے- دلیل نہیں بن سکتا
ساتویں روایت ہے
صحیح مسلم کی روایت ہے
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللهِ الرَّقَاشِيِّ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خُذُوا عَنِّي، خُذُوا عَنِّي، قَدْ جَعَلَ اللهُ لَهُنَّ سَبِيلًا، الْبِكْرُ بِالْبِكْرِ جَلْدُ مِائَةٍ وَنَفْيُ سَنَةٍ، وَالثَّيِّبُ بِالثَّيِّبِ جَلْدُ مِائَةٍ، وَالرَّجْمُ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھ سے لو ، مجھ سے لو ،مجھ سے لو ، زانیہ عورتوں کے معاملے میں اللہ نے ان کے لئے رستہ نکالا (جو حکم نازل کرنے کا وعدہ کیا تھا، وہ نازل فرما دیا )۔ غیر شادی شدہ مرد کی غیرشادی شدہ عورت سے بدکاری کے لیے سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی اور شادی شدہ مرد کی شادی شدہ عورت سے بدکاری کے لیے سو کوڑے اور رجم
اسکی سند میں الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ ہیں جو مدلس ہیں اور عن سے روایت کر رہے ہیں – اس روایت کا کوئی اور طرق نہیں ملا اور دیگر روایات کے خلاف ہے لہذا ضعیف ہے
مسند الإمام الشافعي میں اس روایت پر ہے
وَقَدْ حَدَّثَنِي الثِّقَةُ: أنَّ الحَسَنَ كانَ يَدْخُلُ بَيْنَهُ وبينَ عبَادةَ حِطَّانَ الرَّقَاشي
اور ایک ثقہ نے بتایا کہ حسن بصری اپنے اور عبَادةَ حِطَّانَ الرَّقَاشي کے درمیان ایک دوسرے شخص کو داخل کرتے تھے
مسند البزار میں ہے
وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عُبَادَةَ مُرْسَلًا
اور ایک سے زیادہ نے اس کو حسن بصری سے انہوں نے عبادہ سے مرسل روایت کیا ہے
یعنی صحیح مسلم کی یہ روایت ضعیف ہے اور اس کو صحیح میں لکھنا امام مسلم کی غلطی ہے ان کے ہم عصر علماء اس کو مرسل کہتے تھے
اب ان تمام روایات سے کوئی نتیجہ اخذ کرنا یا ان کو صحیح روایات کے ساتھ ملا کر خلط مبحث کرنا غیر مناسب ہے کیونکہ یہ ہیں ہی ضعیف روایات – غامدی صاحب نے ان ضعیف روایات کو صحیح سے ملا کر ایک کھچڑی بنا دی ہے اور پھر اس طرح تمام روایات پر جرح کرکے آن روایات میں اضطراب ثابت کیا جاتا ہے – حقیقیت میں اوپر والی روایات ضعیف ہیں
رجم سے متعلق بعض صحیح روایات
سنن النسائی کی روایت ہے
أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ طَهْمَانَ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لَا يَحِلُّ دَمَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثِ خِصَالٍ: زَانٍ مِحْصَنٌ يُرْجَمُ، أَوْ رَجُلٌ قَتَلَ رَجُلًا مُتَعَمِّدًا فَيُقْتَلُ، أَوْ رَجُلٌ يَخْرُجُ مِنَ الْإِسْلَامِ لِيُحَارِبَ اللهَ عَزَّ وَجَلّ وَرَسُولَهُ فَيُقْتَلُ أَوْ يُصْلَبُ أَوْ يُنْفَى مِنَ الْأَرْضِ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مسلمان کا خون صرف تین صورتوں میں حلال ہے : ایک شادی شدہ زانی اُسے رجم کیا جائے گا۔ دوسرے وہ شخص جس نے کسی کو جان بوجھ کر قتل کیا ہو، اُسے اس شخص کے قصاص میں قتل کیا جائے گا ۔ تیسرے وہ شخص جو اسلام چھوڑ کر اللہ اور اس کے رسول سے آمادۂ جنگ ہو ، اُسے قتل کیا
جائے گا یا سولی دی جائے گی یا وہ جلا وطن کر دیا جائے گا
البانی اس کو صحیح کہتے ہیں
نتیجہ : ایک شادی شدہ زانی رجم کیا جائے گا۔
صحیح بخاری کی روایت ہے
ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ اور زین بن خالد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھگڑتے ہوئے آئے ان میں سے ایک نے کہا ہمارے درمیان کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کیجئے دوسرے نے کہا ہاں یا رسول اللہ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کیجئے اور مجھ کو واقعہ عرض کرنے کی اجازت دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیان کرو۔اس نے کہا میرا بیٹا اس شخص کے ہاں مزدوری کرتا تھا اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا۔ لوگوں نے مجھ سے کہا کہ تیرے بیٹے کو سنگسار کیا جائے گا ۔میں نے اس کے بدلے میں سو بکریاں اور ایک لونڈی دے دی۔پھر میں نے علماء سے مسئلہ پوچھا انہوں نے کہا کہ تیرے بیٹے کو سو کوڑے لگائے جائیں گے اور ایک سال کے لئے جلا وطن کیا جائے گا اور سنگساری کی سزا اس کی عورت کو ملے گی (اس لئے کہ وہ شادی شدہ ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعہ سن کر فرمایا۔خبردار قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کروں گا۔تیری لونڈی اور تیری بکریاں تجھ کو واپس ملیں گی اور تیرے بیٹے کو سو کوڑوں کی سزا دی جائے گی اور ایک سال کے لئے جلا وطن کیا جائے گا۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے انیس! تو اس عورت کے پاس جا اگر وہ جرم کا اقرار کرے تو اس کو سنگسار کر دے چنانچہ عورت نے اقرار کیا اور انیس رضی اللہ عنہ نے اس کو سنگسار کر دیا۔(بخاری و مسلم)
روایت اپنے متن میں بالکل واضح ہے کہ شادی شدہ عورت کو رجم کر دیا گیا اور شریعت کا حکم آگے پیچھے کرنے کے جرم میں کنوارے آدمی کو سو کوڑے کے ساتھ جلا وطن بھی کیا گیا – غامدی صاحب نے اس کو تفتیش کا کیس بنا کر بیانات و شواہد کا مطالبہ کیا ہے جو صرف اور صرف خلط مبحث ہے اور اس بحث سے روایت میں جو بیان ہوا ہے اس پر کیا اثر پڑتا ہے ؟ غیر شادی شدہ نے ایک شادی شدہ کے ساتھ زنا کیا – مجرم کے باپ نے معاملہ ڈیل میں تبدیل کیا لیکن بلاخر مقدمہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم تک پہنچا – یہ کس قسم کا خاندان تھا یا یہ کوئی سازش تھی یہ غیر ضروری سوالات ہیں کیونکہ یہ اعتراض تو کسی بھی مقدمہ پر ہو سکتا ہے
نتیجہ : شادی شدہ زانی رجم کیا جائے گا اور غیر شادی شدہ کو کوڑے مارے جائیں گے اور اگر ڈیل کرنے کی کوشش کرے تو جلا وطن بھی کیاجائے گا
يه روایت دلیل ہے کہ اگر کوئی غیر شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت سے بدکاری کا ارتکاب کرے تو اُس کی سزا غیر شادی شدہ کے لئے کوڑے ہونی چاہیے
لیکن اگر شادی شدہ مرد یا عورت غیر شادی شدہ مرد یا عورت سے زنا کرے تو شادی شدہ کو رجم کیا جائے گا
موطأ اور بخاری كي ایک روایت
امام مالک ، امام یحییٰ بن سعید سے وہ سعید بن المسیب سے روایت کرتے ہیں کہ عمر رضی الله عنہ نے کہا
قَالَ: إِيَّاكُمْ أَنْ تَهْلِكُوا عَنْ آيَةِ الرَّجْمِ». أَنْ يَقُولَ قَائِلٌ لَا نَجِدُ حَدَّيْنِ فِي كِتَابِ اللَّهِ. فَقَدْ رَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا. وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْلَا أَنْ يَقُولَ النَّاسُ: زَادَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِي كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى لَكَتَبْتُهَا – الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ فَارْجُمُوهُمَا أَلْبَتَّةَ – فَإِنَّا قَدْ قَرَأْنَاهَا
قَالَ مَالِكٌ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ:، قَالَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ: «فَمَا انْسَلَخَ ذُو الْحِجَّةِ حَتَّى قُتِلَ عُمَرُ رَحِمَهُ اللَّهُ» قَالَ يَحْيَى: سَمِعْتُ مَالِكًا يَقُولُ: قَوْلُهُ الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ يَعْنِي: «الثَّيِّبَ وَالثَّيِّبَةَ فَارْجُمُوهُمَا أَلْبَتَّةَ
تم آیت رجم کا انکار کر کے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے سے بچو۔ ایسا نہ ہو کہ کہنے والے کہیں کہ ہم تو اللہ کی کتاب میں دو سزاؤں (تازیانہ اور رجم) کا ذکر کہیں نہیں پاتے ۔ بے شک ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رجم کیا او ر ہم نے بھی ۔ اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے ، مجھے اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ لوگ کہیں گے کہ عمر نے اللہ کی کتاب میں اضافہ کر دیا تو میں یہ آیت : الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ فَارْجُمُوهُمَا أَلْبَتَّةَ ’’بوڑھے زانی اور بوڑھی زانیہ کو لازماً رجم کردو ، قرآن مجید میں لکھ دیتا، اِس لیے کہ ہم نے یہ آیت خود تلاوت کی ہے ۔
امام مالک نے کہا کہ یحیی بن سعید نے کہا کہ سعید بن المسیب نے کہا الشَّيْخُ وَالشَّيْخَة سے مراد الثَّيِّبَ وَالثَّيِّبَةَ (شادی شدہ زانی) ہے – یہ ادبی انداز ہے کہ انداز ہے کہ بڈھا یا بڈھی کو رجم کرو اس میں یہ مستمر ہے کہ وہ شادی شدہ ہیں –
موطا کی روایت کی سند کا مسئلہ ہے کہ اس میں سعید بن المسیب کا سماع عمر رضی الله عنہ سے نہیں ہے
کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق
قال يحيى القطان سعيد بن المسيب عن عمر رضي الله عنه مرسل
یحیی بن سعید جو اس روایت کے ایک راوی ہیں وہ خود کہتے ہیں کہ سعید بن المسیب کی عمر رضی الله عنہ سے روایت مرسل ہے
کیونکہ سعید بن المسیب ، عمر رضی الله عنہ کے دور میں پیدا ہوئے ہیں اور انہوں نے عمر کو دیکھا کچھ سنا نہیں
شاید اسی وجہ سے امام بخاری نے یہ روایت ایک دوسری سند سے دی ہے – امام بخاری اس کو عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ کی سند سے صحیح میں دو جگہ لکھا ہے
(عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ) بے شک ، اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا اور اُن پر اپنی کتاب نازل کی۔ اُس میں آیت رجم بھی تھی ۔ چنانچہ ہم نے اُسے پڑھا اور سمجھا اور یاد کیا ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اِسی بنا پررجم کیا اور اُن کے بعد ہم نے بھی رجم کیا ۔ مجھے اندیشہ ہے کہ لوگوں پر کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرے گا کہ کہنے والے کہیں گے کہ ہم تو رجم کی آیت اللہ کی کتاب میں کہیں نہیں پاتے اور اِس طرح اللہ کے نازل کردہ ایک فرض کو چھوڑ کر گم راہ ہوں گے ۔ یاد رکھو، رجم اللہ کی کتاب میں ہر اُس مرد و عورت پر واجب ہے جو شادی کے بعد زنا کرے
نتیجہ : شادی شدہ زانی رجم کیا جائے گا
غامدی صاحب نے الشیخ اور الشیخہ سے ایک بوڑھا اور بوڑھی لیا اور اس کو ایک مہمل بات قرار دیا ہے – حالانکہ جب بات زنا کے تناظر میں ہو تو اس کو سمجھنا مشکل نہیں – مثلا آج الشیخ کا لفظ علماء کے لئے عرب ملکوں میں عام ہے کسی کو الشیخ بولا جائے تو وہ ہو سکتا ہے کوئی امیر آدمی ہو یا عالم ہو یا قبیلہ کا سردار ہو- آج سیدنا کا لفظ انبیاء کے ساتھ استعمال ہونے لگا ہے خود غامدی صاحب بھی کرتے ہیں لیکن سو سال پہلے اس طرف انبیاء کے ساتھ سیدنا نہیں لکھا جاتا تھا – اسی طرح علم حدیث کے قدیم قلمی نسخوں میں کہیں بھی انبیاء کے ناموں کے ساتھ صلی الله علیہ وسلم یا علیہ السلام نہیں لکھا ملتا لیکن آج جو نئی کتب چھپ رہی ہیں ان میں یہ لاحقہ عام ہے – نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور میں الشیخ ایک عمر رسیده اور منجھے ہوئے شخص کے لئے بولا جاتا تھا اور عربوں میں ایسے لوگ عموما شادی شدہ ہی ہوتے تھے- قرآن میں شیخآ کا لفظ ہے جس کو سارہ علیہ السلام نے ابراہیم علیہ السلام کے لئے استعمال کیا (سوره الهود)– الشيخ كبير كا لفظ يعقوب عليه السلام کے لئے سوره یوسف میں ہے اور شیخ مدین سسر موسی کے لئے سوره قصص میں ہے – اور سوره الغآفر میں شیوخا کا لفظ ہے – یعنی بعض کا یہ کہنا کہ شیخ کا لفظ غیر قرانی ہے اور مخمل میں ٹآٹ کا پیوند ہے صحیح نہیں – الشیخ و الشیخہ کے حوالے سے کتب شیعہ مثلا تهذيب الأحكام للطوسي 8/195، الاستبصار ً 3/377، اور وسائل الشيعة از آلحر العاملي 15/610 میں بھی روایت ہے جس کو بعض متقدمین شیعہ جمع القرآن پر اعتراض کے حوالے سے پیش کرتے ہیں اس میں بما قضيا الشهوة کے الفاظ بھی ہیں – ان کے اس پرو پگندے سے متاثر ہو کر بعض لوگوں نے یہ حل نکالا کہ اس روایت کا انکار کر دیا جائے – اور اسی وجہ سے اس پر بحث کا باب کھل گیا اور دور قدیم سے ابھی تک اس میں ایک خلجان پایا جاتا ہے – فقہاء نے اس کا حل یہ دیا کہ آیت منسوخ ہوئی اور اس کا حکم باقی ہے – اہل تشیع کے مطابق امام جعفر اس آیت کو اس طرح پڑھتے تھے الشيخ والشيخة فارجموهما البتة بما قضيا الشهوة اور رجم کا حکم دیتے یعنی رجم کی سزا کا حکم ان کے ہاں بھی ہے – اہل تشیع کا جمع القرآن پر اعتراض غیر منطقی ہے کیونکہ قرآن ابو بکر رضی الله عنہ نے جمع ضرور کیا لیکن وہ عثمان رضی الله عنہ کے دور تک تقسیم نہیں ہوا تھا – عمر رضی الله عنہ کے دور میں بھی جو قرآن پڑھا جاتا تھا اس کا کوئی ایک نسخہ نہ تھا مختلف قرات تھیں اور یہ قرات علی اور عمر رضی الله عنہما اس وقت تک کر رہے تھے جس سے ظاہر ہے کہ یہ آیت نہ علی کی قرات میں تھی نہ عمر کی- سوال اٹھتا ہے کہ شیعوں نے اس قرات کو کب اور کیوں چھوڑا اگر یہ علی رضی الله عنہ اور اہل بیت کی قرات تھی؟ اس کا جواب ان کے پاس بھی نہیں ہے اور امام جعفر کو تو پتا ہو گا کہ اصلی قرآن کیا ہے تو ایک دفعہ ہی اس کو املا کرا دیتے – انہوں نے بھی ایسا نہیں کیا
بخاری کی اس حدیث میں کسی علت کا علم نہیں ہے لہذا اس کو رد نہیں کیا جاتا – ممکن ہے رجم کی یہ آیت ہو اور منسوخ ہو گئی ہو ایسا دوسری آیات میں بھی ہوا ہے – لیکن یہاں اس کو ایک اور زاویہ سے بھی دیکھ سکتے ہیں
اگر کوئی رجم کی سزا کو توریت کے تناظر میں سمجھے تو مسئلہ فورا حل ہو جاتا ہے کہ یہ حکم یہود کے لئے توریت سے لیا گیا اور ایسا ممکن نہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی جانب سے یہود پر سخت سزا اور مسلمانوں پر کم تر سزا نافذ کی جاتی – سوال اٹھتا ہے کہ اس کی کیا دلیل ہے کہ شادی شدہ یہودی نے شادی شدہ مسلمان سے پہلے زنا کیا اور مقدمہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس پیش ہوا؟ مدینہ میں یہود کے تین بڑےقبائل تھے دو نکال دے گئے – تسرے قبیلہ بنو قريظة کے مردوں کو قتل کیا گیا جس کا ذکر آ رہا ہے یہ سب سن ٥ ہجری ميں ہوا – ایک روایت کے مطابق یہود نے جب زنا کی اپنی خود ساختہ سزا کو نافذ کیا تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان کو کہا کہ توریت لاو اور پڑھو تو ان کے ایک عالم عَبْدَ اللهِ ابْنَ صُورِيَا نے اس کو پڑھا اور آیات پر ہاتھ رکھ کر اسکو چھپایا (مسند الحميدي، مسند أحمد، صحیح ابن حبان، شرح مشکل الآثار، البداية والنهاية ) – سیرت ابن اسحٰق اور البداية والنهاية از ابن کثیر کے مطابق یہ اس وقت عرب میں یہود کا سب سے بڑا عالم تھا اور بَنِي ثَعْلَبَةَ بْنِ الْفِطْيَوْنِ میں سے تھا –- سنن الکبری البیہقی کے مطابق اس توریت کو پڑھنے والے واقعہ کے وقت ابن صوریا کے ساتھ بنی قریظہ والے تھے – ایک دوسری روایت کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سب سے پہلے جن کو رجم کا حکم دیا وہ یہودی تھے (مصنف عبد الرزاق)- ان تمام شواہد کی روشنی میں واضح ہے کہ یہود پر رجم کی حد سن ٥ ہجری یا اس سے قبل لگی اور یہ مدینہ میں سب سے پہلے یہود پر لگی
توریت کا دوسرا حکم – عہد شکنی کی سزا
جنگ خندق میں بنو قریظہ کی عہد شکنی کے معآملے میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے سعد بن معاذ رضی الله عنہ پر فیصلہ چھوڑا – انہوں نے عہد شکنی کی سزا تجویز کی کہ جس پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تم نے بادشاہ کا فیصلہ دیا یعنی الله کا فیصلہ-
توریت کتاب استثنآ باب ٢٠ آیات ١٠ تا ١٤ ہے
صحیح مسلم کی روایات ہیں
۔ و حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنّٰی وَابْنُ بَشَّارٍ وَأَلْفَاظُهُمْ مُتَقَارِبَةٌ قَالَ أَبُو بَکْرٍ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ عَنْ شُعْبَةَ و قَالَ الْآخَرَانِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ بْنَ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ قَالَ نَزَلَ أَهْلُ قُرَيْظَةَ عَلٰی حُکْمِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلٰی سَعْدٍ فَأَتَاهُ عَلٰی حِمَارٍ فَلَمَّا دَنَا قَرِيبًا مِنَ الْمَسْجِدِ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْأَنْصَارِ قُومُوا إِلٰی سَيِّدِکُمْ أَوْ خَيْرِکُمْ ثُمَّ قَالَ إِنَّ هٰٓؤُلَآءِ نَزَلُوا عَلٰی حُکْمِکَ قَالَ تَقْتُلُ مُقَاتِلَتَهُمْ وَتَسْبِي ذُرِّيَّتَهُمْ قَالَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَيْتَ بِحُکْمِ اللہِ وَرُبَّمَا قَالَ قَضَيْتَ بِحُکْمِ الْمَلِکِ وَلَمْ يَذْکُرْ ابْنُ الْمُثَنّٰی وَرُبَّمَا قَالَ قَضَيْتَ بِحُکْمِ الْمَلِکِ۔
ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن مثنی، ابن بشار، ابوبکر، غندر، شعبہ، سعد بن ابراہیم ابوامامہ، سہل بن حنیف، ابوسعید رضی اللہ عنہ خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بنو قریظہ والوں نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے فیصلہ پر اتر آنے کی رضا مندی کا اظہار کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، سعد رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا تو وہ گدھے پر حاضر ہوئے، جب وہ مسجد کے قریب پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا اپنے سردار یا اپنے افضل ترین کی طرف اٹھو، پھر فرمایا یہ لوگ تمہارے فیصلہ پر اترے ہیں سعد رضی اللہ عنہ نے کہا ان میں سے لڑائی کرنے والے کو قتل کر دیں اور ان کی اولاد کو قیدی بنالیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اللہ کے حکم کے مطابق ہی فیصلہ کیا ہے اور کبھی فرمایا تم نے بادشاہ کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ کیا ہے، ابن مثنی نے بادشاہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کرنے کو ذکر نہیں کیا۔
مسلم کی ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں کہ سعد نے کہا کہ میں ان کے بارے میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان میں سے لڑائی کرنے والے کو قتل کر دیں اور عورتوں اور بچوں کو قیدی بنالیں اور ان کے مال کو تقسیم کر لیں
انکار حدیث کے رد میں کہا جاتا ہے کہ یہ سزا قرآن میں نہیں لہذا یہ حدیث میں ہے جو وحی خفی یا غیر متلو کی مثال
ہے یہ ہمارے علماء کی غلطی ہے اصلا یہ سزا توریت کی ہے – وحی غیر متلو تو تب بنتی جب یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے تجویز کی ہوتی اور ہم اسکو قرآن میں نہ پاتے – یہ تو سعد کی تجویز کردہ سزا ہے اور توریت سے مطابقت رکھتی ہے اسی لئے کہا گیا کہ تم نے بادشاہ یعنی الله کے فیصلے کے مطابق حکم دیا- سعد بن معآذ مدینہ کے قبیلہ کے سردار تھے اور یہود کا قبیلہ بھی ان کو سردار مانتا تھا
توریت کا تیسرا حکم – ارتاد کی سزا
توریت کا حکم ہے کہ مرتد کی سزا موت ہے- مرتد کے حوالے سے غامدی صاحب کا موقف یہ ہے کہ یہ سزا صرف نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور کے مرتدین کے لئے تھی جو مشرک تھے ،اس کے بعد کسی شخص کو ارتداد کی یہ سزا نہیں دی جاسکتی ۔[برھان ،ص:۱۴۲،۱۴۳]۔ لیکن یہ دعوی بلا دلیل ہے – توریت کا انکار ہے
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنا دین(اسلام) تبدیل کرے اس کو قتل کردو
غامدی صاحب لکھتے ہیں
ارتداد کی سزا کا یہ مسئلہ محض ایک حدیث کا مدعا نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ابن عباس کی روایت سے یہ حدیث بخاری میں اِس طرح نقل ہوئی ہے – جو شخص اپنا دین تبدیل کرے، اُسے قتل کردو۔ ہمارے فقہا اِسے بالعموم ایک حکم عام قرار دیتے ہیں جس کا اطلاق اُن کے نزدیک اُن سب لوگوں پرہوتا ہے جوزمانۂ رسالت سے لے کر قیامت تک اِس زمین پر کہیں بھی اسلام کو چھوڑ کر کفر اختیار کریں گے۔اُن کی راے کے مطابق ہر وہ مسلمان جو اپنی آزادانہ مرضی سے کفر اختیار کرے گا، اُسے اِس حدیث کی رو سے لازماً قتل کردیا جائے گا۔اِس معاملے میں اُن کے درمیان اگر کوئی اختلاف ہے تو بس یہ کہ قتل سے پہلے اِسے توبہ کی مہلت دی جائے گی یا نہیں اور اگر دی جائے گی تو اُس کی مدت کیا ہونی چاہیے۔فقہاے احناف، البتہ عورت کو اِس حکم سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔اُن کے علاوہ باقی تمام فقہا اِس بات پر متفق ہیں کہ ہر مرتد کی سزا،خواہ وہ عورت ہو یا مرد، اسلامی شریعت میں قتل ہی ہے۔ لیکن فقہا کی یہ راے محل نظر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم تو، بے شک ثابت ہے، مگر ہمارے نزدیک یہ کوئی حکم عام نہ تھا، بلکہ صرف اُنھی لوگوں کے ساتھ خاص تھا جن پر آپ نے براہ راست اتمام حجت کیا اور جن کے لیے قرآن مجید میں ’مشرکین‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔
غامدی صاحب کی رائے میں اس سزا کو مشرکین پر لگایا گیا کیونکہ ان پر اتمام حجت ہو گیا تھا – لیکن کیا اہل کتاب پر اتمام حجت ہونے سے رہ گیا ظاہر ہے جس کو بھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خبر پہنچی اس پر اتمام حجت ہو گیا اور سوره البقرہ میں اس کا مکمل بیان ہے کہ اتمام حجت میں یہود شامل ہیں
اصل میں ارتاد کی سزا کا تعلق اصلا اہل کتاب سے ہے – اہل کتاب کی اسٹریٹجی تھی کہ صبح کو ایمان لاو اور شام کو کافر ہو جاؤ غامدی صاحب سوره ال عمران کی آیات ٨٢ تا ٨٤ کا ترجمہ کرتے ہیں
اور اہل کتاب کا ایک گروہ کہتا ہے کہ مسلمانوں پر جو کچھ نازل ہوا ہے ، اُس پر صبح ایمان لاؤ اورشام کو اُس کا انکار کردیا کر و تاکہ وہ بھی برگشتہ ہوں۔ اور اپنے مذہب والوں کے سوا کسی کی بات نہ مانا کرو ۔۔۔ اِن سے کہہ دو، (اے پیغمبر ) کہ ہدایت تو اصل میں اللہ کی ہدایت ہے ۔۔۔ (اِس لیے کسی کی بات نہ مانا کرو کہ ) مبادا اِس طرح کی چیز کسی اور کو بھی مل جائے جو تمھیں ملی ہے یا تم سے وہ تمھارے پروردگار کے حضور میں حجت کرسکیں۔ اِن سے کہہ دو کہ فضل تو اللہ کے ہاتھ میں ہے ، جسے چاہتا ہے عطاکردیتا ہے اوراللہ بڑی وسعت اوربڑے علم والا ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے، اپنی رحمت کے لیے خاص کرلیتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
اس رجحان کو روکنے کے لئے حکم نبوی تھا کہ جو دین بدلے اس کو قتل کر دو – یہود کے مطابق اسی حکم کی بنیاد پر عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کا فتوی دیا گیا تھا کہ اس نے (نعوذ باللہ) ابن الله ہونے کا دعوی کیا ہے (جو اصلا یہود کا اتہام ہے) – توریت کی استثنا کے باب ١٣ کی آیات ٦ تا ١٠ ہے
ارتاد پر مشرکین اور اہل کتاب کا قتل ہوا مثلا یمن میں جب معآذ بن جبل رضی الله عنہ پہنچے تو دیکھا ایسا ایک مقدمہ مرتد یہودی پر چل رہا ہے انہوں نے کہا میں گھوڑے سے نہ اتروں گا جب تک اس کا قتل نہ ہو
یہودی تعداد میں کم تھے لہذا ان میں قتل کی سزا عملا ختم ہو چکی تھی وہ توریت کی ان آیات پر عمل نہ کرنا چاہتے تھے اور قرآن نے سوره المائدہ میں اہل کتاب کو کہا کہ جو الله کا حکم نافذ نہ کرے وہ کافر ہے وہ ظالم ہے وہ فاسق ہے
لہذا رجم ہو یا عہد شکنی ہو یا ارتاد ہو ان سب کا حکم توریت سے لیا گیا اور اسی کو اسلام میں جاری رکھا گیا – کیا یہ منبی بر انصاف تھا کہ ان سخت حدوں کو اہل کتاب پر تو لگایا جائے لیکن اہل اسلام کو بچا لیا جائے؟ سوچئے
و سلام على من اتبع الهدى