Category Archives: بدعات – Innovations in Islam

عید میلاد النبی

181 Downloads

فاطمی شیعوں نے امت میں پہلی بار عید میلاد النبی کا اجراء کیا – ساتھ ہی اہل سنت میں شاہ اربل نے بھی اس کو کرنا شروع کیا – مظفر الدين أبو سعيد كوكبري رشتے میں سلطان صلاح الدين ايوبي کے بہنوئي تھے عید میلاد النبی پر مسلمانوں میں ساتویں صدی ہجری سے اختلاف چلا آ رہا ہے کہ یہ مستحسن ہے یا بدعت ہے –

فہرست

پیش لفظ 3
خلفائے اربعہ سے منسوب اقوال 9
قرآن میں عید میلاد النبی کا ذکر ہے ؟ 14
ثُوَيْبَةُ کا قصہ 16
سلف کا غلو 18
عید میلاد النبی پر سوالات 20
علم ہیت اور پیر کا دن 27
پیدائش النبی پر نور نکلا 28

بدعات کا ذکر

 

اس  کتاب  میں  بدعت سے متعلق  بحث کی گئی ہے  –  اس ویب سائٹ  پر  پہلے سے موجود ہے  جوابات میں اضافہ کے ساتھ اس کو شائع  کیا گیا ہے 

 

فہرست

پیش لفظ 6
نصرانی بدعت کا حق 11
ہر بدعت گمراہی ہے ؟ 13
قرآن سے الگ نیا حکم کرنا 19
بدعتی پر لعنت ہے 23
مسجد الحرام کے اندر کی جانے والی بدعات 24
دوران طواف کعبہ کو پکڑنا 24
نماز کے بعد حجر اسود کو چھونا 25
غلاف کعبہ پر آیات و حکمرانوں کے نام درج کرنا 26
حرم مدینہ کے اندر کی جانے والی بدعات 29
قبر النبی پر گنبد کی تعمیر 30
یروشلم سے متعلق بدعات 40
یروشلم سے احرام باندھنا 40
قبہ الصخرہ کا طواف کرنا 41
اذان سے متعلق بدعات 44
جمعہ کی نماز کی اذانیں 44
الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ کہنے کی بدعت 48
اذان سننے میں انگوٹھے چومنا 50
نو مولود کے کان میں اذان دینا 52
اذان کے بعد السلام عليك يا رسول الله کہنا 55
عید سے متعلق بدعات 56
عیدین میں اذان دینا 56
عید کی دو نمازیں پڑھانا 57
جمعہ سے متعلق بدعات 58
رمضان سے متعلق بدعات 59
مسجد الحرام میں رمضان کے وتر میں قبوت نازلہ پڑھنا 59
دعا ختم القرآن کرنا 62
مقابر کے حوالے سے بدعات 65
نماز جنازہ کے بعد دعا کرنا 65
قبر پر مٹی ڈالتے وقت کی دعا 66
تدفین کے بعد دعا کرنا 67
قبروں پر جا کر نمازیں پڑھنا 70
قبر کے پاس قرات کرنا 72
قبروں پر پھول ڈالنا 75
اذکار سے متعلق بدعات 78
نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھنا 78
شب جمعہ درود پڑھنا 82
بسم اللہ کی بجائے ٧٨٦ لکھنا 84
قرآن سے متعلق بدعات 87
قرآن کو زعفران سے لکھنا اور پینا 87
آیات کو جسم پر لکھنا 94
مساجد سے متعلق بدعات 96
چٹائی پر نماز پڑھنا 96
مینار بنانا بدعت ہے 98
محراب بنانا بدعت ہے 102
مساجد پر چاند کے طغرے لگانا 109
اسلامی ربع الحزب کا نشان 115
ہڑپہ کی تہذیب مسجد الحرام کی زیبائش 119
معاشرت میں بدعات کا ذکر 125
سالگرہ ماننا 125
جمعہ مبارک یا شادی مبارک کہنا 127
شلوار ٹخنوں سے اوپر رکھنا 127
سبز عمامہ مسلسل باندھنا 129
فوٹو کیا تصویر سازی ہے ؟ 133
کھڑے ہو کر پانی پینا بدعت ہے ؟ 138
کالا خضاب لگانے کو حرام قرار دینا 139

شب برات پر کتاب

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

 

امام مہدی غائب ، امام ترمذی ، امام ابن ماجہ ، امام احمد  وغیرہ کی پیدائش سے سو سال پہلے سے  شب برات کی اہمیت کی روایات  اس امت میں موجود تھیں  جو ظاہر  کرتا ہے کہ اس رات کا امام مہدی سے کوئی تعلق نہیں ہے – تفصیل اس کتاب میں ہے

پیدائش النبی کی عید

نبی صلی الله علیہ وسلم کی اس دنیا میں  پیدائش سے قبل عالم ارضی میں اہل کتاب عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا دن بہت خوشی سے مناتے تھے اس کی وجہ یہ ہے کہ نصرانیوں کے بقول عیسیٰ نے موت کے چکر کو ختم کر دیا اب جو بھی ان کو الله کی پناہ رب کا بیٹا مان لے گا وہ ابدی زندگی سے ہمکنار ہو گا اور جو نہیں مانے گا وہ حیات اخروی نہ پائے گا بلکہ اس کی روح معدوم ہو جائے گی

اس کو نئی زندگی کی نوید کہا جاتا ہے لہٰذا عیسیٰ کی آمد کے سلسلے میں جشن منایا جاتا تھا اور ہے – نصرانیوں کی انجیل یوحنا کی آیات ہیں

یعنی عیسیٰ نور تھا جو الله سے جدا ہوا اور کلمہ الله بن کر انسانی صورت مجسم ہوا – یہ شرح یوحنا نے کی جو ایک یونانی ذہن کا شخص تھا اور انجیل کی ابتداء میں اپنی شرح بیان کی

 الله تعالی نے اس کا رد کیا اور خبر دی کہ عیسیٰ ابن مریم نور نہیں بلکہ کتاب الله یعنی انجیل نور تھی اور کلمہ الله مجسم نہیں ہوا بلکہ مریم کو القا ہوا اور ان میں عیسیٰ کی روح پھونکی گئی

لیکن ١٠٠ ہجری کے اندر ہی اس فرق کو میٹ دیا گیا اور راویوں نے بیان کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش پر بھی نور نکلا

حدثنا أحمد قال: نا يونس بن بكير عن ابن إسحق قال: حدثني ثور بن يزيد عن خالد بن معدان، عن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم أنهم قالوا: يا رسول الله، أخبرنا عن نفسك، فقال: دعوة أبي إبراهيم، وبشرى عيسى، ورأت أمي حين حملت بي أنه خرج منها نور أضاءت له قصور بصرى من أرض الشام، واسترضعت في بني سعد بن بكر، فبينا أنا مع أخ لي في بهم لنا، أتاني رجلان عليهما ثياب بياض، معهما طست من ذهب مملوءة ثلجاً، فأضجعاني، فشقا بطني، ثم استخرجا قلبي فشقاه، فأخرجا منه علقة سوداء، فألقياها، ثم غسلا قلبي وبطني بذاك الثلج، حتى إذا أنقياه، رداه كما كان، ثم قال أحدهما لصاحبه: زنه بعشرة من أمته، فوزنني بعشرة، فوزنتهم، ثم قال: زنه بألف من أمته، فوزنني بألف، فوزنتهم، فقال: دعه عنك، فلو وزنته بأمته لوزنهم.

 خالد بن معدان بن أبى كرب الكلاعى ، أبو عبد الله الشامى الحمصى نے اصحاب رسول سے روایت کیا   کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمیں آپ اپنے بارے میں بتلائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  میں اپنے والد ابراہیم کی دعا اور عیسی کی دی ہوئی خوشخبری ہوں، میری والدہ جب امید سے ہوئیں تو انہوں نے دیکھا  ان کے جسم سے نور نکلا  جس  سے سرزمین شام میں بصری کے محل روشن ہو گئے

اس روایت کو ابن اسحاق نے اپنی سند سے بیان کیا ہے: (سیرت ابن ہشام: 1/66) اور انہی کی سند سے امام طبری نے اسے اپنی تفسیر طبری : (1/566) میں اور امام حاکم نے اپنی کتاب مستدرک : (2/600) میں روایت کیا ہے، اور ساتھ امام حاکم یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح سند والی ہے، لیکن بخاری اور مسلم نے اسے روایت نہیں کیا، ان کے اس تبصرے پر امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔

کتاب جامع التحصیل کے مطابق اس راوی کا سماع شام منتقل ہونے والے اصحاب سے ہے ہی نہیں

خالد بن معدان الحمصي يروي عن أبي عبيدة بن الجراح ولم يدركه قال أحمد بن حنبل لم يسمع من أبي الدرداء وقال أبو حاتم لم يصح سماعه من عبادة بن الصامت ولا من معاذ بن جبل بل هو مرسل وربما كان بينهما اثنان وقال أبو زرعة لم يلق عائشة وقال بن أبي حاتم سألته يعني أباه خالد بن معدان عن أبي هريرة متصل فقال قد أدرك أبا هريرة ولا يذكر له سماع

اور خود   الذهبي کا کہنا ہے  كان يرسل ويدلس یہ ارسال و تدلیس بھی کرتا ہے

میرے نزدیک جب تک صحابی کا نام نہ لے اس روایت کو متصل نہیں سمجھا جائے گا کیونکہ یہ مدلس ہے واضح رہے اصحاب رسول عدول ہیں لیکن ان سے راوی  کا سماع نہیں ہے

امام بخاری نے صحیح میں خالد کی  أَبَا أُمَامَة والمقدام بن معد يكرب وَعُمَيْر بن الْأسود الْعَنسِي سے روایت لی ہے یعنی بخاری کے نزدیک ان اصحاب رسول سے سماع ہے لیکن نور نکلنے والی روایت میں اصحاب رسول کا نام نہیں لیا گیا لہذا یہ بات مشکوک ہے

انجیل یوحنا کے مطابق عیسیٰ ایک نور تھا جو مجسم ہوا باب اول آیات ایک تا ١٤ میں یہ عقیدہ بیان ہوا ہے مسلمان اس ڈور میں پیچھے کیوں رہتے انہوں نے بھی بیان کیا کہ رسول الله جب پیدا ہوئے تو نور نکلا جس سے شام اور بصرہ عراق روشن ہو گئے کیونکہ بصرہ اور شام میں اس وقت قیصر نصرانی کی حکومت تھی گویا ہمارا نبی دنیا میں آیا تو اس کا نور عیسیٰ سے بڑھ کر تھا

اس طرح کی بہت سی اور روایات ہیں جو صرف نصرانیوں سے مقابلے پر بنانی گئی ہیں

شام کے محلات روشن ہوئے پر روایات مسند احمد میں ہیں جن  کو  بہت ذوق و شوق سے تمام فرقوں کے لوگ بیان کرتے ہیں یہاں تک کہ عصر حاضر کے علماء میں البانی ( صحيح لغيره – “الصحيحة” (1546 و 1925)) اور شعيب الأرنؤوط – عادل مرشد بھی مسند احمد پر تعلیق میں اس کو صحیح لغیرہ کہتے ہیں

مسند احمد کی سند ہے

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ السُّلَمِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” إِنِّي عِنْدَ اللهِ فِي أُمِّ الْكِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّينَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِينَتِهِ، وَسَأُنَبِّئُكُمْ  بِتَأْوِيلِ ذَلِكَ، دَعْوَةِ أَبِي إِبْرَاهِيمَ وَبِشَارَةِ عِيسَى قَوْمَهُ، وَرُؤْيَا أُمِّي الَّتِي رَأَتْ أَنَّهُ خَرَجَ مِنْهَا نُورٌ أَضَاءَتْ لَهُ قُصُورُ الشَّامِ، وَكَذَلِكَ تَرَى أُمَّهَاتُ النَّبِيِّينَ صَلَوَاتُ اللهِ عَلَيْهِمْ

سند میں  سعيد بن سويد شام حمص کا ہے  میزان الاعتدال از الذھبی کے مطابق

امام  البخاري: لا يتابع في حديثه.

امام بخاری کہتے ہیں اس کی حدیث کی متا بعت نہیں کی جاتی

البزار المتوفی ٢٩٢ ھ بھی اس کو مسند میں بیان کرتے ہیں کہتے ہیں

وَهَذَا الْحَدِيثُ لا نَعْلَمُهُ يُرْوَى عَن رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم بِإِسْنَادٍ مُتَّصِلٍ عَنْهُ بِأَحْسَنَ مِنْ هَذَا الإِسْنَادِ وَسَعِيدُ بْنُ سُوَيْدٍ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ

یہ حدیث ہم نہیں جانتے  کہ اس کو اس سے اچھی متصل اسناد سے رسول اللہ سے کسی نے روایت کیا ہو سوائے اس سند کے اور سعید بن سوید شام کا ایک آدمی ہے جس میں برائی نہیں ہے

یعنی امام بخاری اور البزار کا اس راوی پر اختلاف تھا ایک اس میں کوئی برائی نہیں جانتا تھا اور دوسرا اس کی روایات کو منفرد کہتا تھا

صحیح ابن حبان میں ابن حبان نے اسی سند سے  اس روایت کو علامت نبوت میں شمار کیا ہے اور اسی سند کو تلخیص مستدرک میں امام الذھبی نے صحیح کہا ہے

راقم کہتا ہے روایت  چاہے  سعید بن سوید کی سند سے ہو یا کسی اور کی سند سے اس میں شامیوں کا تفرد ہے اور ان شامیوں کو اپنے پروسٹیوں اہل کتاب پر ثابت کرنا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کا نور عیسیٰ علیہ السلام سے بڑھ کر ہےاور یہ شامیوں کا غلو ہے

خصائص الکبری میں پیدائش کی روایت تفصیل سے ہے نعوذباللہ جس کے مطابق اپ صلی الله علیہ وسلم کس طرح اپنی ماں سے باہر نکلے بیان کیا گیا ہے
اسی میں ہے کہ
وأبصرت تِلْكَ السَّاعَة مَشَارِق الأَرْض وَمَغَارِبهَا وَرَأَيْت ثَلَاثَة أَعْلَام مضروبات علما فِي الْمشرق وعلما فِي الْمغرب وعلما على ظهر الْكَعْبَة فأخذني الْمَخَاض فَولدت مُحَمَّدًا صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَلَمَّا خرج من بَطْني نظرت إِلَيْهِ فَإِذا أَنا بِهِ سَاجِدا
آمنہ نے کہا من نے مشرق و مغرب میں دیکھا اور تین جھنڈے دیکھے ایک مشرق میں ایک مغرب میں ایک کعبہ پر اور محمد باہر آیا تو سجدے میں تھا

یہ طویل روایت ابو نعیم اصبہانی نے دلائل النبوہ میں دی ہے

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ ثنا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّبَّاحِ قَالَ: ثنا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَمْرٍو الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ

اس کی سند میں أبو بكر بن عبد الله بن أبي مريم الغساني الشامي ہے جو سخت ضعیف ہے
قال ابن حبان: هو رديء الحفظ، وهو عندي ساقط الاحتجاج به إذا انفرد.
ابن حبان نے کہا ردی حافظہ کا مالک تھا اور میرے نزدیک اس کی منفرد روایت ساقط دلیل ہے

اس طرح   شامیوں کی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ بطن آمنہ میں سے نور نکلنے والے روایت – محراب و منبر پر بیان کی جاتیں ہیں

اس نور کی منظر کشی عصر حاضر میں ایرانی فلم میں کی گئی

  شامی راویوں  کی اس روایت کو اہل تشیع نے قبول کر لیا

شیعوں کی کتاب الخصال از  أبى جعفر محمد بن علي بن الحسين بن بابويه القمى المتوفى 381 ہجری کے مطابق

حدثنا أبوأحمد محمد بن جعفر البندار الفقيه بأخسيكث ( 2 ) قال : حدثنا
أبوالعباس محمد بن جمهور ( 3 ) الحمادي قال : حدثني أبوعلي صالح بن محمد البغدادي ببخارا
قال : حدثنا سعيد بن سليمان ، ومحمد بن بكار ، وإسماعيل بن إبراهيم قال ( 4 ) : حدثنا
الفرج بن فضالة ، عن لقمان بن عامر ، عن أبي امامة قال : قلت : يا رسول الله ما كان
بدء أمرك ، قال : دعوة أبي إبراهيم ، وبشرى عيسى بن مريم ، ورأت أمي أنه خرج منها شئ أضاءت منه قصور الشام (

الفرج بن فضالة الحمصي الشامی نے روایت کیا لقمان بن عامر سے اس نے ابی امامہ سے کہ میں نے رسول الله سے پوچھا اپ کا امر نبی کیسے شروع ہوا؟ فرمایا میں اپنے باپ ابراھیم کی دعا ہوں اور عیسیٰ ابن مریم کی بشارت ہوں اور میری امی نے دیکھا کہ ان میں سے نور نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے

اس کی سند میں الفرج بن فضالة الحمصي الشامی اہل سنت میں سخت ضعیف ہے اور اہل تشیع کی کتب رجال میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ملا

رسول الله کی پیدائش پر ان کے ساتھ ان کی ماں کے بطن سے ایک عظیم نور نکلا اس روایت کے مختلف طرق ہیں سب میں شامیوں کا تفرد ہے

مزید دیکھیں

عید میلاد النبی

 

أشهد أن عليا ولي الله

اپنی خلافت کے دوران نہ علی نے نہ حسن نے اس اذان میں اضافہ کیا جو اہل سنت دیتے ہیں  – اب ہم صرف شیعہ کتب کے حوالہ سے بات کریں گے

شیعہ فقہ کی کتاب من لا يحضره الفقيه از  الصدوق المتوفى سنة 381 میں اذان  ہے أنه ” حكى لهما الاذان فقال 

الله أكبر، الله أكبر، الله أكبر الله أكبر

أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن لا إله إلا الله

أشهد أن محمدا رسول الله، أشهد أن محمدا رسول الله

حي على الصلاة، حي على الصلاة

حي على الفلاح، حي على الفلاح

حي على خير العمل، حي على خير العمل

الله أكبر، الله أكبر، لا إله إلا الله، لا إله إلا الله، والاقامة كذلك

شیعہ کہتے ہیں کہ نماز کی طرح اذان بھی شب معراج میں ملی -مستدرك الوسائل ميرزا حسين النوري الطبرسي المتوفى 231 میں ہے کہ تفسیر علي بن إبراهيم میں ہے

علي بن إبراهيم فى تفسيره :عن
أبيه ، عن ابن أبي عمير ، عن هشام بن سالم ، عن الصادق (عليه السلام)، قال :((قال
النبي (صلى الله عليه و آله ): لما اسري بي و انتهيت إلى سدرة المنتهى -إلى أن
قال-: فإذا ملك يؤذن ، لم ير فى السماء قبل تلك الليلة :فقال :الله أكبر الله
أكبر ، فقال الله :صدق عبدي أنا أكبر فقال :أشهد أن لاإله إلاالله أشهد أن لاإله
إلاالله ، فقال الله تعالى :صدق عبدي انا الله لاإله غيري ، فقال :أشهد أن محمدا
رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله فقال الله :صدق عبدي إن محمدا عبدي ، و رسولي
أنا بعثته و انتجبته ، فقال :حى على الصلاة حى على الصلاة ، فقال :صدق عبدي دعا
إلى فريضتي فمن مشى إليها راغبا فيها محتسبا كانت (1) كفارة لما مضى من ذنوبه ،
فقال :حي على الفلاح [حي على الفلاح ](2) ، فقال الله :هى الصلاح ، و النجاح ، و
الفلاح ، ثم اممت الملائكة في السماء ، كما اممت الأنبياء فى بيت المقدس ))

امام جعفر نے ذکر کیا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج ہوئی اور سدرہ المنتہی پر   پہنچے تو ایک فرشتے نے  اذان دی اس کو آسمان پر اس سے قبل نہ دیکھا گیا تھا پس

فرشتے نے کہا الله أكبر الله أكبر
اللہ تعالی نے فرمایا سچ کہا میرے بندے نے میں اکبر ہوں

فرشتے نے کہا :أشهد أن لاإله إلاالله أشهد أن لاإله إلاالله
اللہ تعالی نے فرمایا سچ کہا بندے نے میں اللہ ہوں میرے سوا کوئی اله نہیں

فرشتے نے کہا :أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله
اللہ تعالی نے فرمایا سچ کہا میرے بندے نے کہ محمد میرا بندہ و رسول ہے اس کو میں نے بھیجا ہے

فرشتے نے کہا حى على الصلاة حى على الصلاة
اللہ تعالی نے فرمایا سچ کہا بندے نے یہ میرے فریضہ کی پکار ہے جو اس کی طرف چلا رغبت سے تو اس نے احتساب کیا پس یہ کفارہ ہوا جو اس نے پچھلے گناہ کیے

فرشتے نے کہا حي على الفلاح حي على الفلاح
اللہ تعالی نے فرمایا یہ اصلاح و نجات و فلاح ہے

اس اذان میں سرے سے شہادت امیر المومنین کا ذکر نہیں ہے  نہ حی علی خیر العمل کا ذکر ہے

لیکن بہت صدیوں بعد  شیعوں  نے  اذان میں أشهد أن عليا ولي الله  کا اضافہ کر دیا –  کہا جاتا تھا کہ یہ اضافہ ایک غالی  بدعت ہے لیکن متاخرین نے اس قول کو چھپا کر اس اذان  کی توجیہات کی ہیں

 أشهد أن عليا ولي الله اذان میں نہیں ہے

   صراط النجاة   از استفتاءات الخوئي  – تعليقة وملحق لاية الله العظمى التبريزي ناشر :دفتر نشر برگزيده میں ہے

س 994: متى أدخلت ((أشهد أن عليا ولي الله)) الى الاذان والاقامة، وهل وردت رواية من المعصوم باستحبابها؟ الخوئي: الرواية واردة باستحباب الشهادة بالولاية له (ع) متى شهد بالنبوة، لا في خصوص الاذان والاقامة، ولذا لا نعدها جزءا منهما،

الخوئي سے سوال ہوا : اذان میں کب سے  ((أشهد أن عليا ولي الله)) کو داخل کیا گیا اور کیا یہ امام معصوم سے روایت ہوا ؟   الخوئي نے کہا  ((أشهد أن عليا ولي الله)) یہ اذان و اقامت  میں خاص نہیں ہے اور اسی بنا پر ہم ان کو اذان میں شمار نہیں کرتے

شیعہ علماء قدماء کا قول : یہ اضافہ غالیوں نے کیا ہے

شیعہ اذان میں اضافہ مفوضہ فرقے نے کیا جو یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اللہ  تعالی نے نظم کائنات  علی کو تفویض کر دیا ہے

بحار الانوار  از باقر مجلسی میں ہے

والمفوضة لعنهم الله قد وضعوا أخبارا وزادوا في

الاذان محمد وآل محمد خير البرية مرتين، وفي بعض رواياتهم بعد أشهد أن محمدا رسول

الله، أشهد أن عليا ولي الله مرتين، ومنهم من روى بدل ذلك أشهد أن عليا أمير

المؤمنين حقا مرتين، ولا شك في أن عليا ولي الله، وأنه أمير المؤمنين حقا، وأن

محمدا وآله صلوات الله عليهم خير البرية، ولكن ذلك ليس في أصل الاذان، وإنما ذكرت

ذلك ليعرف بهذه الزيادة المتهمون بالتفويض، المدلسون أنفسهم في جملتنا انتهى،

المفوضة پر اللہ کی لعنت ہو جنہوں نے روایات گھڑیں اور اذان میں أشهد أن عليا ولي الله  کا دوبار اضافہ کیا اور ان میں سے بعض نے أشهد أن عليا أمير المؤمنين حقا  کا دوبار اضافہ کیا – اس میں کوئی شک نہیں کہ علی ولی اللہ ہیں اور امیر المومنین حق پر تھے …. لیکن یہ کلمات اصلا اذان میں نہ تھے  اور اس اضافہ کا ہم نے ذکر کیا کہ جان لو کہ یہ ان کا ہے جن پر تفویض کا الزام ہے

 وسائل الشيعة میں ہے

وقال الصدوق بعدما ذكر حديث أبي بكر الحضرمي وكليب الأسدي : هذا هو الأذان الصحيح لا يزاد فيه ولا ينقص منه ، والمفوضة لعنهم الله قد وضعوا أخباراً وزادوا بها في الأذان محمد وآل محمد خير البرية مرتين ، وفي بعض رواياتهم بعد أشهد أن محمداً رسول الله : أشهد أن علياً ولي الله مرتين ، ومنهم من روى بدل ذلك : أشهد أن علياً أميرالمؤمنين حقاً مرتين ، ولا شك أن علياً ولي الله وأنه أميرالمؤمنين حقاً وأن محمداً وآله خير البرية ، ولكن ذلك ليس في أصل الأذان ، وانما ذكرت ذلك ليعرف بهذه الزيادة

صدوق نے حديث أبي بكر الحضرمي وكليب الأسدي کا ذکر کرنے کے بعد کہا یہ اذان صحیح ہے … پھر  کہا المفوضة پر اللہ کی لعنت ہو جنہوں نے روایات گھڑیں اور اذان میں أشهد أن عليا ولي الله  کا دوبار اضافہ کیا اور ان میں سے بعض نے أشهد أن عليا أمير المؤمنين حقا  کا دوبار اضافہ کیا – اس میں کوئی شک نہیں کہ علی ولی اللہ ہیں اور امیر المومنین حق پر تھے …. لیکن یہ کلمات اصلا اذان میں نہ تھے  اور اس اضافہ کا ہم نے ذکر کیا کہ جان لو کہ یہ ان کا ہے جن پر تفویض کا الزام ہے

من لا يحضره الفقيه میں ہے

أنه ” حكى لهما الاذان فقال: الله أكبر، الله أكبر، الله أكبر أكبر، أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن محمدا رسول الله، أشهد أن محمدا رسول الله، حي على الصلاة، حي على الصلاة، حي على الفلاح، حي على الفلاح، حي على خير العمل، حي على خير العمل، الله أكبر، الله أكبر، لا إله إلا الله، لا إله إلا الله، والاقامة كذلك”(1).
ولا بأس أن يقال في صلاة الغداة على أثر حي على خير العمل ” الصلاة خير من النوم ” مرتين للتقية.
وقال مصنف هذا الكتاب رحمه الله: هذا هو الاذان الصحيح لا يزاد فيه ولا ينقص منه، والمفوضة لعنهم الله قد وضعوا أخبارا وزادوا في الاذان ” محمد وآل محمد خير البرية ” مرتين، وفي بعض رواياتهم بعد أشهد أن محمدا رسول الله ” أشهد أن عليا ولي الله ” مرتين، ومنهم من روى بدل ذلك ” أشهد أن عليا أمير المؤمنين حقا ” مرتين ولا شك في أن عليا ولي الله وأنه أمير المؤمنين حقا وأن محمدا وآله صلوات الله عليهم خير البرية، ولكن ليس ذلك في أصل الاذان، وإنما ذكرت ذلك ليعرف بهذه

شیعہ کتب میں المفوضة کا مطلب  اس  طرح بیان کیا گیا ہے کہ ان کے نزدیک  اللہ نے کائنات کا نظم  پہلے نبی علیہ السلام کو دیا پھر علی کو دے دیا

كليات في علم الرجال میں ہے

التفويض ومعانيه إن الفرقة المعروفة بالغلو هي فرقة المفوضة، غير أنه يجب تحقيق معناها حتى يتبين الصحيح عن الزائف فنقول: إن التفويض يفسر بوجوه: الاول: تفويض خلقة العالم إلى النبي والائمة عليهم السلام وأنهم هم الخالقون والرازقون والمدبرون للعالم.

التفويض سے مراد معروف فرقہ ہے جو غالی ہے … ان کی تفسیر ہے کہ خلقت کو نبی و ائمہ کو سونپ دیا گیا ہے اور وہ ہی خلق کرتے ہیں رزق دیتے ہیں عالم کی تبدیر کرتے ہیں 

   معجم مصطلحات الرجال والدراية تصحيح الاعتقاد (مصنفات الشيخ المفيد، ج 5) ص ١٣٣ -١٣٤  میں ہے

-: قوم زعموا أنّ اللّه تعالى خلق محمّدا، ثمّ فوّض إليه خلق العالم و تدبيره، فهو الذي خلق العالم دون اللّه تعالى، ثمّ فوّض محمد تدبير العالم إلى علي بن أبي طالب، فهو المدبّر الثاني.

ایک قوم نے دعوی کیا کہ اللہ تعالی نے محمد کو خلق کیا پھر ان کو عالم کی تخلیق و تدبیر سونپ دی 

تلامذة العلامة المجلسي والمجازون منه میں ہے

في التعليقة: «هُم القائلون بأنّ اللَّه تعالى خلق محمّداً(ص) وفوّض إليه أمر العالم، فهو الخلّاق للدنيا وما فيها.

وقيل: فوّض ذلك إلى عليّ(ع). وربّما يقولون بالتفويض إلى سائر الأئمّة(ع) كما يظهر من بعض التراجم»(124).

  نقد الرجال – التفرشي میں ہے

 المفوضة قالوا: إن الله خلق محمدا صلى الله عليه وآله وفوض إليه خلق الدنيا، فهو الخلاق لما فيها، وقيل: فوض ذلك إلى علي عليه السلام، من شرح المواقف [ 8 / 388 ] (منه قده)

جب شیعوں میں یہ اذان پھیل گئی تو ان کے علماء نے اس کے وجوب پر توجیہات گھڑ لیں

جدید آراء : یہ اضافہ تبرکا  کیا گیا ہے

  رسالة توضيح المسائل (مكارم الشيرازي)  میں ہے

جملة «أشهد أنّ عليّاً ولي الله» ليست من أجزاء الأذان والإقامة ولكن يستحسن الإتيان بها بعد جملة «أشهد أنّ محمّداً رسول الله» بقصد التبرّك،

جدید آراء : یہ اضافہ وسیلہ لینے کے لئے کیا گیا ہے

الأحكام الشرعية –   حسين علي المنتظري

مسألة 934: أشهد ان عليا ولي الله، ليست جزء من الأذان والإقامة، ولكن يحسن الإتيان بها بعد أشهد أن محمدا رسول الله، بقصد القربة المطلق

أشهد ان عليا ولي الله، یہ اذان  کا جز نہیں ہے نہ اقامت کا جز ہے لیکن اس کا ذکر أشهد أن محمدا رسول الله کے بعد انا تو محض قرب  کے قصد کے لئے ہے

 توضيح المسائل (فارسي) – السيد الخميني

 اشهد ان عليا ولى الله جزء اذان و اقامه نيست ولى خوبست بعد از اشهد ان محمدا رسول الله، به قصد قربت گفته شود

 توضيح المسائل (فارسي) – السيد الخوئي

 (مسأله 928) اشهد ان عليا ولي الله جزء اذان و اقامه نيست، ولى خوبست بعد از أشهد ان محمدا رسول الله بقصد قربت گفته شود

 توضيح المسائل (فارسي) –   لطف الله الصافي

 مسأله 928 – أشهد أن عليا ولي الله جزو اذان واقامه نيست، ولى خوبست بعد از أشهد أن محمدا رسول الله بقصد قربت گفته شود

 توضيح المسائل (فارسي) –   محمد علي الأراكي

 اشهد ان عليا ولى الله جزء اذان و اقامه نيست ولى خوبست بعد از اشهد ان محمدا رسول الله، به قصد قربت گفته شود

ضيح المسائل (فارسي) –   فاضل اللنكراني

 اشهد ان عليا ولى الله جزو اذان واقامه نيست ولى خوب است بعد از اشهدان محمدا رسول الله بقصد قربت گفته شود.

: رساله توضيح المسائل (فارسي) – الميرزا جواد التبريزي

(مسأله 928) أشهد ان عليا ولي الله جزو اذان و اقامه نيست، ولى خوبست بعد از اشهد أن محمدا رسول الله بقصد قربت گفته شود.

یہ ایک ہی جملہ  تمام کتب میں بار بار لکھا جا رہا ہے یعنی جواز پر اس سے بہتر کوئی اور رائے ان کے پاس نہ رہی کہ وسیلہ ہے جبکہ شخصی وسیلہ لینے سے علی رضی اللہ عنہ نے خود منع کیا تھا

 علی رضی الله عنہ سے منسوب الکافی کی روایت ہے جس کو خطبہ الوسیلہ کہا جاتا ہے اس میں صریحا لکھا ہے کہ علی نے کہا

أيها الناس إن الله تعالى وعد نبيه محمدا صلى الله عليه وآله الوسيلة ووعده الحق ولن يخلف الله وعده، ألا وإن الوسيلة على درج الجنة

اے لوگوں الله  تعالی نے اپنے نبی محمد صلی الله علیہ و الہ سے الوسیلہ کا وعدہ کیا ہے اس کا وعدہ سچا ہے خبردار وسیلہ جنت کا درجہ ہے

کتاب نہج البلاغہ میں علی سے منسوب خطبہ ہے

إِنَّ أفضلَ ما توسلَ بِهِ المتوسلون إِلى الله سبحانه وتعالى، الإِيمان بِهِ وَبِرَسُولِهِ، والجهادُ في سبيله، وأقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، وَصومُ شهرِ رمضان، وَحج البيت واعتمارُه، وَصلة الرحم، وصدقة السّر، وصدقة العلانية

سب سے افصل توسل الی الله  یہ ہے اس کے رسول پر ایمان لایا جائے اور اس کی راہ میں جہاد کیا جائے اور نماز قائم کی جائے اور زكاة   دی جائے اور رمضان کے روزے رکھے جائیں اور حج بیت الله کیا جائے  اور اس کا  اعتمارُ کیا جائے (یعنی نظم و نسق) اور رشتہ داروں سے صلہ رحمی کی جائے اور چھپ کر صدقه کیا جائے اور اعلانیہ بھی

اس میں وہ تمام نیکیاں آ گئیں جو معروف ہیں – علی نے اپنی ذات کے وسیلہ کا حکم نہیں کیا-

لیکن  بعض  شیعہ اور اہل سنت  نے وسیلہ کو جائز قرار دے دیا ہے کہ  الإِمام یا نبی کی ذات کا وسیلہ لیا جا سکتا ہے

راقم کی کتاب وسیلہ پر موجود ہے

[wpdm_package id=’8853′]

شب برات – جشن کی رات

سن ١٣٢ ہجری اسلامی تاریخ میں ایک اہمیت رکھتا ہے  یہ وہ سال ہے جب تمام بلاد اسلامیہ میں عوامی انداز میں بنو امیہ  کے خلاف خروج ہوتا ہے – مسلمان ہوں یا ان کے موالی و ابدال (آزاد کردہ غلام ہوں) ہوں یا مجوس ہوں یا شیعہ ہوں یا یہود ہوں سب مل کر بنو امیہ کا دھڑم تختہ کرتے ہیں

دمشق میں خوب قتل ہوتے ہیں یہاں تک کہ مسلمان  بنو ہاشم اور ان کا خراسانی لشکر مسجدوں میں بھی قتل کرتا ہے – بہت سے شام کی فضلیت کے قائل راوی جو یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ اہل شام قیامت تک غالب رہیں گے یا شام میں مسلمانوں کا ایک گروہ ہمشیہ رہے گا جو حق پر ہو گا وغیرہ  وغیرہ، وائے سحر روایت ان کا بھی قتل ہوجاتا ہے

خوب قتل و غارت کے بعد بنو ہاشم  میں خانوادہ عباس بن عبد المطلب (رضی الله عنہ) کے حق میں عرش کا فیصلہ اتا ہے ان کو زمام خلافت مل جاتی ہے جس کے منتظر بنو ہاشم ، حسن رضی الله عنہ کی وفات سے تھے

  ابن الجوزی  کتاب  المنتظم  میں لکھتے ہیں  کہ  ابو العبّاس السفاح  نے   ١٣٢ ھ میں  منصب خلافت سنبھالا اور  خطبہ دیا

وكان موعوكاً فاشتد عليه الوعك، فجلس على المنبر وتكلم فقال: إنا والله ما خرجنا لنكثر لجيناً ولا عقياناً، ولا نحفر نهراً، وإنما أخرجتنا الأنفة من ابتزازهم لحقنا، ولقد كانت أموركم ترمضنا، لكم ذمة الله عز وجل، وذمة رسوله صلى الله عليه وسلم وذمة العباس أن نحكم فيكم بما أنزل الله، ونعمل بكتاب الله، ونسير فيكم بسيرة رسول الله صلى الله عليه وسلم، واعلموا أن هذا الأمر فينا ليس بخارج منا حتى نسلمه إلى عيسى ابن مريم

اور وہ  بیمار تھے  پس  منبر پر بیٹھ گئے  اور کہا

بیشک اللہ نے…   العبّاس  کو یہ ذمہ داری دی ہے کہ ہم پرالله نے جو نازل کیا ہے اس کے مطابق  حکم کریں اور  ہم الله کی کتاب پر عمل کریں اور ہم رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم  کی زندگی کے   مطابق چلیں   اور جان لو کہ خلافت ہمارے ساتھ رہے  گی    یہاں تک ہم یہ عیسیٰ ابن مریم  علیہ السلام   کو منتقل کریں-

اب ہاشمیہ شہر میں ( جو بغداد سے پہلے بنو ہاشم کا دار الخلافہ تھا ) اس میں جشن کا سماں ہوتا ہے – بنو عباس کا ہمدرد لشکر خراسان سے آیا جس نے خلیفہ  بنو ہاشم کی مدد کی تھی ( جیسا کہ روایات میں اتا ہے) لہذا اس کو خوش بھی رکھنا تھا – اس لشکر میں صرف مسلمان ہی نہیں مجوس بھی تھے جن کا مشہور خاندان برمکہ تھا جو عربی بولتے تھے اور آتشکدہ نوبہار کے متولی تھے  لہذا  نو زور  آ رہا تھا  اس کا جشن تو ماننا تھا – اوستا کلینڈر یا تقویم پارسیان  میں سال کا آغاز ورنل اقونوقص (الاعتدال الربيعي) سے شروع ہوتا ہے-  عباسی خلافت کا پہلا نو روز  سن ٧٥١ ع میں ١٧ مارچ میں آتا ہے

Vernal Equinox

http://www.timeanddate.com/calendar/seasons.html?year=750&n=751

Eqvinox

اسلامی کلینڈر میں یہ دن  شعبان ١٤ سن ١٣٣ ہجری   ہے لہذا  اسی روز  الاعتدال الربيعي ہوتا ہے

مملکت میں اس رات کی اہمیت کے پیش نظر   مسلمان رات میں عبادت کرتے ہیں اور اہل مجوس و یہود اس دن   کی وجہ سے چراغاں کرتے ہیں

یہ روایت ١٣ صدیوں سے آج تک چلی آئی ہے اور اس رات کو شب برات کہا جاتا ہے

اس رات کو مجوس نو روز کہتے ہیں کیوںکہ یہ نئے سال کا پہلا دن ہے  اور یہود پورم  کہتے  ہیں جس کا ذکر فارس کی غلامی میں لکھی جانے والی بائبل کی  کتاب استھار  میں ہے جس کے مطابق اس رات کو یہود کو ایک ظالم بادشاہ  ہامان سے نجات ملتی ہے

مزید تفصیل کے لئے دیکھئے

شب برات

 

عید میلاد النبی

عام الفیل میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی جب ابرہہ حبشی کا لشکر تباہ ہوا اور کعبہ الله بچ گیا رحمت  الہی عرب پر متوجہ ہوئی اور بنی اسمعیل علیہ السلام میں قریش میں عبد المطلب کے پوتے محمد صلی الله علیہ وسلم اس دنیا میں عالم ارواح سے عالم مادی میں آئے

محمّد کے والد نہ تھے عبد المطلب کی خوشی کا عالم تھا  انہوں نے محمّد کو اٹھایا اور شعب ایمان از البیہقی کے مطابق کعبہ کے وسط میں سب سے بڑے بت ہبل پر پیش کیا  اور وسیلہ سمجھتے ہوئے الله کی تعریف کی کہ مالک ارض و سما نے ہبل کے طفیل  ان کو پوتا عطا کیا

عبد المطلب کو پتا نہ تھا کہ یہی بچہ بڑا ہو کر اس ہبل کو توڑ ڈالے گا اور حبل الله کو پکڑنے کا حکم کرے گا

 محمّد صلی الله علیہ وسلم الله کی مخلوق تھے، الله کی طرف سے ہدایت کا  نور ایمان تھے وہ خود ابو البشر آدم کی نسل سے تھے  جن کو نوری مخلوق یعنی فرشتوں نے سجدہ کیا تھا اور یہ نوری مخلوق کا سجدہ ایک خاکی کو تھا تاکہ الله کے انعام پر ناری مخلوق یعنی ابلیس کو آزمائش میں ڈالا جائے

محمّد صلی الله علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں کبھی بھی اپنی پیدائش کا دن نہ منایا کیونکہ یہ دین نصاری کی طرح نہ تھا

رسول الله نے حکم دیا کہ دیگر مذہب والوں کی نقل نہ کی جائے یہاں تک کہ بال کی مقدار لباس اور خضاب تک پر حکم دیا کہ کہیں نصاری کی مشابہت نہ ہو لیکن افسوس

اس دین کو رہبان و صوفیاء نے بدل دیا کتاب كتاب النعمة الكبرى على العالم في مولد سيد ولد ادم از ابن حجر المکی کے مطابق

نَمَ١

ابن حجر مکی ١

ابن حجر مکی٤ابن حجر مکی٣٢ابن حجر مکی ٢

لیکن یہ تمام اقوال رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے نہیں ہیں یہ صوفیاء کے اقوال ہیں اور ان کی اسناد تک نہیں اس کتاب کا نسخہ انٹرنیٹ پر ہے

http://hakikatkitabevi.com/Arabic/44-nimatalkubra.pdf

جس کے مطابق یہ اقوال ان کے ہیں

نَمَ٢

غیر مقلدین کے امام  ولی اللہ محدث دہلوی  فیوض الحرمین میں  صفحہ: ٢٧ پر لکھتے ہیں

 ’میں مکہ مکرمہ میں ولادت نبی کے روز مولد مبارک (جہاں آپ کی ولادت ہوئی)، میں حاضر ہوا تو لوگ درود شریف پڑھ رہے تھے اور آپ کی ولادت کا ذکر کر رہے تھے اور وہ معجزات بیان کر رہے تھے جو آپ کی ولادت کے وقت ظاہر ہوئے۔ تو میں نے اس مجلس میں انوار و برکات کا مشاہد ہ کیا، میں نے غور کیا تو معلو م ہواکہ یہ انوار ملائکہ کے ہیں جو ایسی مجالس میں مقرر کئے جاتے ہیں۔ اور میں نے دیکھا کہ انوار ملائکہ اور انوار رحمت آپس میں ملے ہوئے ہیں۔

اس امت میں بدعات کو مشروع کرنے میں احبار و رہبان کا ہاتھ ہے یہی وجہ ہے کہ کسی حدیث میں مولود نبی کا کوئی قصہ نہیں

میلاد ٥

رسول الله کی موجودگی ہی صحابہ کے لئے ہر لمحہ خوشی تھی لیکن انہوں نے اس پر کیا ہر وقت یا ١٢ تاریخ کو خوشیاں منائیں بلکہ مصطفی صلی الله علیہ وسلم نے کہا اس امت کی دو عیدیں ہیں اپنے دوست ابو بکر کو عید الفطر پر کہا

يَا أَبَا بَكْرٍ، إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا، وَهَذَا عِيدُنَا

اے ابو بکر ہر قوم کی عید ہے اور یہ عید ہماری عید ہے

یہ نہیں کہا کہ میری پیداش کا دن بھی عید ہے

بریلوی فرقہ کی جانب سے دلیل پیش کی جاتی ہے کہ جمعہ عید کا دن ہے اور روایت پیش کرتے ہیں

إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فِيهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيهِ قُبِضَ، وَفِيهِ النَّفْخَةُ، وَفِيهِ الصَّعْقَةُ، فَأَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيهِ

لیکن یہ روایت خود امام بخاری کی تاریخ الصغیر کے مطابق معلول ہے اور ضعیف ہے

ابن ماجہ کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ خَالِدٍ الْوَاسِطِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ غُرَابٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي الْأَخْضَرِ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ هَذَا يَوْمُ عِيدٍ، جَعَلَهُ اللَّهُ لِلْمُسْلِمِينَ، فَمَنْ جَاءَ إِلَى الْجُمُعَةِ فَلْيَغْتَسِلْ، وَإِنْ كَانَ طِيبٌ فَلْيَمَسَّ مِنْهُ، وَعَلَيْكُمْ بِالسِّوَاكِ»

ابن عباس کہتے ہیں رسو ل الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جمعہ کا دن عید ہے

اس کی سند کمزور ہے سند میں  صَالِحِ بْنِ أَبِي الْأَخْضَرِ  جس کو امام نسائی، امام ابن معین، ابو زرعہ  اور ابن حجر کی جانب سے ضعیف  کہا گیا ہے

دوم جمعہ اگر عید ہے تو عید میلاد کا رسول الله نے ذکر کیوں نہ کیا جبکہ وہ بعض کے مطابق جمعہ سے بھی  اہم ہے

میلاد ٦٥

صحیح بخاری کتاب النکاح میں ایک روایت 5101  میں راوی عروہ بن زبیر کہتے ہیں

وثُوَيْبَةُ مَوْلاَةٌ لِأَبِي لَهَبٍ: كَانَ أَبُو لَهَبٍ أَعْتَقَهَا، فَأَرْضَعَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا مَاتَ أَبُو لَهَبٍ أُرِيَهُ بَعْضُ أَهْلِهِ بِشَرِّ حِيبَةٍ، قَالَ لَهُ: مَاذَا لَقِيتَ؟ قَالَ أَبُو لَهَبٍ: لَمْ أَلْقَ بَعْدَكُمْ غَيْرَ أَنِّي سُقِيتُ فِي هَذِهِ بِعَتَاقَتِي ثُوَيْبَةَ

اور ثُوَيْبَةُ ابو لھب کی لونڈی تھیں جن کو ابو لھب نے آزاد کیا پس انہوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کی رضاعت کی جب ابو  لھب مر گیا تو اس کے بعض گھر والوں نے اس   سے پوچھا کیا حال ہے اس نے کہاجب سے تم کو چھوڑا ہے صرف انگلی برابر پلایا جاتا ہوں جس سے ثُوَيْبَةَ کو آزاد کیا تھا

ابو لھب نے ثُوَيْبَةَ کو رسول الله کو دودھ پلانے پر آزاد کیا تھا نہ کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش پر

سلفی عالم ابن تیمیہ جو دمشق کے باسی تھے اپنی کتاب اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم میں لکھتے ہیں

وكذلك ما يحدثه بعض الناس، إما مضاهاة للنصارى في ميلاد عيسى عليه السلام، وإما محبة للنبي صلى الله عليه وسلم، وتعظيمًا. والله قد يثيبهم على هذه المحبة والاجتهاد، لا على البدع- من اتخاذ مولد النبي صلى الله عليه وسلم عيدًا.

اور اسی طرح نبی صلی الله علیہ وسلم کے یوم ولادت کے موقع پر لوگ جو خوشیاں مناتے ہیں عسائیوں سے مشابہت میں کہ جس طرح وہ عیسیٰ کا یوم پیدائش مناتے ہیں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و تعظیم میں،  تو الله کی قسم  بے شک ان کو  محبت و اجتہاد پر اجر ہو  گا نہ کہ بدعت کا کہ انہوں نے رسول الله کے مولد کو عید کے طور پر اختیار کیا

شرم کا مقام ہے کہ ابن تیمیہ جو کتاب میں جگہ جگہ عیسائیوں پر شریعت میں اضافہ تنقید کر رہے ہیں ان  کو اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں اتا اسی کتاب میں ابن تیمیہ اپنے الفاظ کی وضاحت  لکھتے ہیں

فتعظيم المولد، واتخاذه موسمًا، قد يفعله بعض الناس، ويكون له فيه   أجر عظيم لحسن قصده، وتعظيمه لرسول الله صلى الله عليه وسلم

پس  میلاد  رسول الله کی تعظیم اور اس کو بطور تہوار  اختیار کرنا جیسا بعض لوگ کرتے ہیں تو اس میں ان کے لئے اجر عظیم ہے کیونکہ ان کا ارادہ اچھا ہے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تعظیم ہے

کہا گیا ہے کہ جس نے بدعتی کی تعظیم کی اس نے اسلام کو ڈھا دیا اور یہاں تو ایک مکمل بدعت کو ہی مشروع کر دیا گیا ہے

معلوم ہوا ٹھویں صدی تک بدعت کی اتنی کثرت تھی کہ نام نہاد سلف کے متببعین میں بھی صحیح اور غلط کی تمیز مٹ چکی  تھی اور تعظیم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی مد میں اس کو جائز کر دیا گیا تھا

کتاب اقتضاء الصراط المستقیم پر مقدمہ لکھنے والے وہابی عالم شیخ ناصر العقل لکھتے ہیں

تہوار بھی شریعت کا حصہ ہیں، جس طرح قبلہ، نماز، روزہ وغیرہ ہیں ، اور تہواروں کو صرف عادات نہیں کہا جا سکتا، بلکہ تہواروں کے بارے میں کفار کیساتھ مشابہت اور انکی تقلید زیادہ خطرناک معاملہ ہے، اسی طرح اللہ کے مقرر کردہ تہواروں سے ہٹ کر خود ساختہ تہوار منانا ، “حکم بغیر ما انزل اللہ “کے زمرے میں شامل ہے، بغیر علم کے اللہ کی طرف کسی بات کی نسبت کرنے ، اس پر بہتان باندھنے، اور دینِ الہی میں بدعت شامل کرنے کے مترادف ہے

یعنی وہابی حضرات اپنی بات ابن تیمیہ کے منہ میں ڈال کر تلبیس کے مرتکب ہو رہے ہیں کیا دین میں فراڈ کرنا جھوٹ بولنا تلبیس کرنا منع نہیں ہے جو ابن تیمیہ کی بات میں قطع و برید کر کے کچھ کا کچھ کر دیا ہے بلکہ ان کو اس تہوار کا مخالف کہہ کر جگہ جگہ عید میلاد کے خلاف  ان سے منسوب اقوال نقل کر دے ہیں جبکہ کتاب کے آخر میں وہ عید میلاد مشروع کر کے مرے

سلف  میں سے بعض لوگ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے حوالے سے غلو اختیار کیے ہوئے تھے مثلا کتاب الابانہ الصغری از ابن مندہ میں ہے

abana-sughra-0abana-sughra-2ابن مندہ کہتے ہیں جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی والدہ نے ان کو جنا  تو شام کے محلات روشن ہو گئے

ابن مندہ اسی کتاب میں  دینی امور پر اجرت کو بھی بدعت کہتے ہیں

abana-sughra-3

اور بدعت میں سے ہے اذان ، امامت اور تعلیم القران پر اجرت لینا 

کیا یہ کتب سلف کی نہیں ہیں جو ان کو پیش نہیں کیا جاتا؟

الغرض ہر وہ کام جو نیکی سمجھ کر کیا جائے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی جانب سے اس پر حکم نہ ہو رد ہو جاتا ہے

عیسائیوں میں ایسٹرن آرتھوڈوکس چرچ ٧ جنوری کو عیسیٰ کی پیدایش مناتا ہے اور رومن کیتھولک چرچ ٢٥ دسمبر کو

حبشہ کے عیسائیوں میں بھی ٧ جنوری کو میلاد مسیح کا رواج ہے

اس میں جشن منانا شروع سے عیسائی روایت چلی آ رہی ہے

ہندووں میں کرشنا کی پیدائش جنم اشتھمی پر خوشی کی جاتی ہے

مسلمانوں کا سابقہ جب اس قسم کی قوموں سے ہوا تو ان میں بھی اس طرح کا دن بنانے کی خواہش جاگی اور اس کے لئے انہوں نے اپنی طرح سے بودے دلائل گھڑ لیے جو اپ اوپر دیکھ چکے ہیں اگر یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا حکم ہوتا تو حدیث کی کسی کتاب میں اس پر کوئی روایت ہوتی بلکہ یہ عید میلاد النبی  تو روایات گھڑنے کے زمانے کے بھی بعد کی ایجاد ہے،  یہی وجہ ہے کہ اس پر ضعیف  تو چھوڑئیے موضوع روایت تک نہیں

========================================================

عید میلاد النبی پر سوالات ہیں

سوال: کیا نبی صلی الله علیہ وسلم کی پیداش پیر کو ہوئی؟

جواب

صحیح مسلم کی روایت ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، – وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى – قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ غَيْلَانَ بْنِ جَرِيرٍ، سَمِعَ عَبْدَ اللهِ بْنَ مَعْبَدٍ الزِّمَّانِيَّ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ صَوْمِهِ؟

اس میں اپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
قَالَ: وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الِاثْنَيْنِ؟ قَالَ: «ذَاكَ يَوْمٌ وُلِدْتُ فِيهِ، وَيَوْمٌ بُعِثْتُ – أَوْ أُنْزِلَ عَلَيَّ فِيهِ
اور پوچھا کہ پیر کا روزہ کیسا ہے ؟ فرمایا اس ہی دن تو میں پیدا ہوا یا فرمایا میری بعثت ہوئی یا قرآن نازل ہوا
—–

کتب حدیث میں تمام کتب میں اس کی سند میں عَبد اللهِ بْن مَعبَد، الزِّمّانِيّ، البَصرِيّ ہے جو ابی قتادہ سے اس کو روایت کرتا ہے
امام بخاری کے نزدیک یہ رویات صحیح نہیں ہیں کیونکہ عبد الله بن معبد الزماني بصری کا سماع ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے
بخاری تاریخ الکبیر میں عَبد اللهِ بْن مَعبَد، الزِّمّانِيّ، البَصرِيّ کے لئے کہتے ہیں
ولا نَعرِفُ سماعه من أَبي قَتادة.
اور ہم (محدثین) نہیں جانتے کہ ابی قتادہ سے اس کا سماع  ہو

سوال : عید میلاد ایک اچھا طریقه ہے اس کا حکم حدیث میں بھی ہے

حضرت جریربن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے اسلام میں نیک طریقہ ایجاد کیا اور اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کیا گیا، اس کے لیے بھی اس پرعمل کرنے والوں کی مثل اجر لکھا جاۓ گا، اور ان کے اجروں میں سے کوئی کمی نہیں ہوگی ، اور جس نے اسلام میں کسی برے طریقہ کو ایجاد کیا اور اس کے بعد اس پرعمل کیا گیا ، اس کے لیے بھی اس پرعمل کرنے والوں کی مثل گناہ لکھا جائے گا اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔

(مسلم شریف،باب:علم کا بیان، حدیث نمبر:6800، مسلم شریف،باب:زکوۃ کا بیان، حدیث نمبر:2351،
جامع ترمذی،باب:علم کا بیان،حدیث نمبر:2481، سنن ابنِ ماجہ، باب:اس شخص کا بیان جس نے اچھا یا براطریقہ ایجاد کیا، حدیث نمبر:203)

بدعتِ حسنہ کی مثالیں
مندرجہ ذیل میں ان کاموں کا ذکر ہے جو نہ حضور ﷺ کہ زمانے میں اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہما کہ زمانے میں تھے۔
کلمہ:
٭ ہر مسلمان چھ کلمے یاد کرتا ہے ۔یہ چھ کلمے ان کی تعداد ان کی ترکیب کہ یہ پہلا کلمہ ہے،یہ دوسرا کلمہ ہے اور ان کے نام ہیں۔سب بدعت ہیں جن کا قرونِ ثلاثہ(صحابہ اور تابعین کا زمانا) میں پتہ بھی نہیں تھا۔
قرآن:
٭ قرآن پر اعراب لگانا۔
٭ اس کی جلد یں تیار کرنا۔
٭ اس کو اردو اور مختلف زبانوں میں ترجمہ و تفسیر کرنا۔
٭ اس پر غلاف چڑھانااور اعلٰی طباعت میں شائع کروانا۔
حدیث:
٭ حدیث کو کتابی شکل میں جمع کرنا۔مثلاً صحاح ِ ستّہ وغیرہ۔
٭ حدیث کی اسناد بیان کرنا۔بخاری ، مسلم، ترمذی ، ابنِ ماجہ وغیرہ ۔
٭ حدیث کی قسمیں بنانا، مثلاً صحیح ، حسن، ضعیف،موضوع وٖغیرہ اور ان کو ترتیب دیناکہ اول نمبر صحیح ہے۔دوم نمبر ضعیف۔پھر ان کے نام مقرر کرنا کہ حرام و حلال چیزیں حدیث صحیح سے ثابت ہوں گی۔ اور فضائل میں ضعیف بھی معتبر ہوگی۔ غرضیکہ سارا فنِ حدیث ایسی بدعت ہے۔ جس کا قرونِ ثلاثہ میں ذکر بھی نہیں نہ تھا۔
نماز :
٭ نماز میں زبان سے نیت کرنا ۔
٭ ہر سال پورے رمضان میں جماعت کے ساتھ بیس تراویح پڑھنا، محفلِ شبینہ یا چند روزہ تراویح میں قرآن مجید مکمل سنانے کا اتنظام کرنا۔
٭ جمہس میں مروجہ خطبہ پڑھنا، اور خطبے سے پہلے تقریر کرنا۔
٭ ہمیشہ نماز کو ایک ہی وقت میں پڑھنا۔ مثلاً ظہر کو ہمیشہ 1:30 پڑھنا۔
روزہ:
٭ روزہ افطار کرتے وقت زبان سے دعا کرنا۔اور سحری کے وقت دعا کرنا۔
زکوۃ:
٭ زکوۃ ادا کرتے وقت تصویر والی کرنسی استعمال کرنا۔

ایمان :
٭ مسلمان کے بچہ بچہ کو ایمانِ مجمل اور ایمانِ مفصل یاد کرایا جاتا ہے۔ ایمان کی دو قسمیں اور ان کے یہ دونوں نام بدعت ہیں۔قرونِ ثلاثہ میں اس کا پتہ نہیں ہے۔
حج:
٭ ریل گاڑیوں، ہوائی جہاز اور موٹر وں کے ذریعہ حج کرنا۔ موٹروں میں عرافات شریف جانابدعت ہے اُس زمانہ پاک میں نہ یہ سواریاں تھیں نہ ان کے ذریعہ حج ہوتا تھا۔
طریقت:
٭ طریقت کے تقریباً سارے مشاغل اور تصوف کے تقریباً سارے مسائل بدعت ہیں مراقبے، چلے، پاس انفاس، تصورِ شیخ، ذکر کے اقسام سب بدعت ہیں۔
چار سلسلے :
٭ شریعت وطریقت دونوں کے چار چار سلسلے یعنی حنفی ، شافعی ، مالکی ، حبنبلی اسی طرح قادری ، چشتی ، نقشبندی، سہروردی یہ سب سلسلے بالکل بدعت ہیں۔ ان میں سے بعض کے تو نام تک بھی عربی نہیں۔ جیسے چشتی یا نقشبندی ، کوئی صحابی ، تا بعی، حنفی ، قادری نہ ہوۓ۔
مساجد:
٭ مساجد میں قرآن مجید اور تسبیح وغیرہ رکھنا ،مینار ، گنبد اور محراب بنوانا۔
دینی مدارس:
٭ دینی مدارس میں درسِ قرآ ن ، درسِ حدیث ، دورہ تفسیرِ قرآن، دورہ حدیث ، ختمِ بخاری شریف یا کوئی دینی تقریب منعقد کرنا۔
٭ دینی مدارس کا قیام اور ان کا نصاب و نظام ۔مثلاً درسِ نظامی کا کورس، اس کا امتحان لیے کا طریقہ ، پھر اسناد کی تقسیم یہ سب بدعت ہیں۔
٭ نام کے ساتھ علامہ ، مفتی ، مفتی اعظیم ، شیخ الحدیث، شیخ القران، حکیمُ امّت وغیرہ جیسے القابات لگانا ، اور مدرسے سے سندِ فراغت حاصل کرنا۔
نکاح نامہ:
٭ نکاح نامے کو تحریری شکل دینا۔
سئہ روزہ:
٭ لوٹے اور بستر سمیت تبلیغی سئہ روزہ یا چلاّ لگانا۔
٭ سالانہ تبلیغی اجتماع کرنا اور اس میں لوگوں کو جمع کرنا۔
اذان:
٭ لاؤد اسپیکر پر اذان دینا۔

جواب

ان میں بہت سی بدعات ہیں اور بہت سی سہولتیں ہیں جن کا اجراء نیکی میں آسانی کے لئے کیا گیا ہے مثلا
قرآن پڑھنا نیکی معلوم ہے اس میں عجمیوں کی آسانی اور لحن کا مسئلہ نہ ہو اعراب لگائے گئے لہذا یہ سہولت ہے
لاوڈ اسپیکر بھی سہولت ہے کہ یہ خطبہ کی اور اذان کی آواز لوگوں تک پہنچا دیتا ہے
احادیث کی تقسیم بھی علم تک پہچنا ہے جو اصلی قول نبی کی تلاش ہے اور رسول الله کی حدیث دوسرے تک پہنچانا نیکی معلوم ہے
اس طرح سہولت قرار دے کر ان کی تعبیر کی جاتی ہے

تصوف یقینا ایک بدعت ہے یہ رهبانیت ہے

ایسی نیکی جس کو نبی صلی الله علیہ وسلم کر سکتے تھے لیکن نہیں کیا وہ بدعت ہے مثلا دور نبوی میں گاڑی نہیں ریل نہیں لحن کا مسئلہ نہیں ضعیف احادیث نہیں لہذا بعد میں علم میں سچ کو اور صحیح کو برقرار رکھنے کے لئے کسی طریقہ کو رائج کرنا بدعت نہیں ہے
عید میلاد نبی صلی الله علیہ وسلم کر سکتے تھے لیکن نہیں کی لہذا یہ بدعت ہی ہے


علم ہیت اور پیر کا دن

ربیع الاول کی دس تاریخ کو ١١ ہجری پیر کا دن بنتا ہے

http://www.islamicity.org/Hijri-Gregorian-Converter/?AspxAutoDetectCookieSupport=1
June 4, 632

—-

http://www.oriold.uzh.ch/static/hegira.html
اس کے مطابق
١٣ ربیع الاول کا دن پیر کا تھا

یعنی علم ہیت کے حساب سے بھی ١٢ ربیع الاول وفات کی تاریخ اور پیر کا دن نہیں بنتا

پیدائش النبی پر نور نکلا

خالد بن معدان رحمہ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمیں آپ اپنے بارے میں بتلائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میں اپنے والد ابراہیم کی دعا اور عیسی کی دی ہوئی خوشخبری ہوں، میری والدہ جب امید سے ہوئیں تو [انہیں ایسا محسوس ہوا کہ] گویا ان کے جسم سے روشنی نکلی ہے جس کی وجہ سے سرزمین شام میں بصری کے محل روشن ہو گئے )
خالد بن معدان رحمہ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمیں آپ اپنے بارے میں بتلائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میں اپنے والد ابراہیم کی دعا اور عیسی کی دی ہوئی خوشخبری ہوں، میری والدہ جب امید سے ہوئیں تو [انہیں ایسا محسوس ہوا کہ] گویا ان کے جسم سے روشنی نکلی ہے جس کی وجہ سے سرزمین شام میں بصری کے محل روشن ہو گئے )

اس روایت کو ابن اسحاق نے اپنی سند سے بیان کیا ہے: (سیرت ابن ہشام: 1/66) اور انہی کی سند سے امام طبری نے اسے اپنی تفسیر طبری : (1/566) میں اور امام حاکم نے اپنی کتاب مستدرک : (2/600) میں روایت کیا ہے، اور ساتھ امام حاکم یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح سند والی ہے، لیکن بخاری اور مسلم نے اسے روایت نہیں کیا، ان کے اس تبصرے پر امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔

مزید کیلیے دیکھیں: سلسلہ صحیحہ: (1545)(سیرت ابن ہشام: 1/66) اور انہی کی سند سے امام طبری نے اسے اپنی تفسیر طبری : (1/566) میں اور امام حاکم نے اپنی کتاب مستدرک : (2/600) میں روایت کیا ہے، اور ساتھ امام حاکم یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح سند والی ہے، لیکن بخاری اور مسلم نے اسے روایت نہیں کیا، ان کے اس تبصرے پر امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔

مزید کیلیے دیکھیں: سلسلہ صحیحہ:

(1545)

جواب

ابن اسحاق امام مالک کے ہم عصر ہیں اور واقدی امام احمد کے دونوں میں 60 سال کا فرق ہے اس دور میں غلو مسلمانوں میں شروع ہو چکا تھا ان کو کسی طرح یہ ثابت کرنا تھا کہ ان کے نبی سب سے افضل ہیں
اس میں راقم کو کوئی شک نہیں ہے لیکن ان مسلمانوں نے جو طریقه اختیار کیا وہ صحیح نہیں تھا مثلا اہل کتاب نے جو جھوٹی باتیں مشھور کر رکھی تھیں ان کی ان مسلموں نے ایسی تاویل کی کہ یہ باتیں اسلام کے حق میں ہو جائیں یہ روایات پرو پیگنڈا کا ایک نہایت منفی انداز تھا مثلا اہل کتاب میں مشھور تھا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے دوران سفر کسی نسطوری نصرانی سے علم لیا جس کے بعد نبوت کا دعوی کیا یہ کتب آج چھپ چکی ہیں ابن اسحاق نے اس کا جواب دینا ضروری سمجھا اور وہ بھی اس طرح کہ نسطوری راہب بحیرہ سے نبی صلی الله علیہ وسلم کی بچپن میں ملاقات کا واقعہ بیان کیا جو کذب تھا
نصرانی راہب کو نسطوری اس لیے بیان کیا جاتا ہے کیونکہ وہ کتھلویک یا آرتھوڈوکس چرچ کا نہیں تھا ان دونوں کا مخالف تھا

اسی طرح انجیل یوحنا کے مطابق عیسیٰ ایک نور تھا جو مجسم ہوا باب اول آیات ایک تا ١٤ میں یہ عقیدہ بیان ہوا ہے مسلمان اس ڈور میں پیچھے کیوں رہتے انہوں نے بھی بیان کیا کہ رسول الله جب پیدا ہوئے تو نور نکلا جس سے شام اور بصرہ عراق روشن ہو گئے کیونکہ بصرہ اور شام میں اس وقت قیصر نصرانی کی حکومت تھی گویا ہمارا نبی دنیا میں آیا تو اس کا نور عیسیٰ سے بڑھ کر تھا

اس طرح کی بہت سی اور روایات ہیں جو صرف نصرانیوں سے مقابلے پر بنانی گئی ہیں

شام کے محلات روشن ہوئے پر روایات مسند احمد میں ہیں جن  کو  بہت ذوق و شوق سے تمام فرقوں کے لوگ بیان کرتے ہیں یہاں تک کہ عصر حاضر کے علماء میں البانی ( صحيح لغيره – “الصحيحة” (1546 و 1925)) اور شعيب الأرنؤوط – عادل مرشد بھی مسند احمد پر تعلیق میں اس کو صحیح لغیرہ کہتے ہیں

مسند احمد کی سند ہے

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ السُّلَمِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” إِنِّي عِنْدَ اللهِ فِي أُمِّ الْكِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّينَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِينَتِهِ، وَسَأُنَبِّئُكُمْ  بِتَأْوِيلِ ذَلِكَ، دَعْوَةِ أَبِي إِبْرَاهِيمَ وَبِشَارَةِ عِيسَى قَوْمَهُ، وَرُؤْيَا أُمِّي الَّتِي رَأَتْ أَنَّهُ خَرَجَ مِنْهَا نُورٌ أَضَاءَتْ لَهُ قُصُورُ الشَّامِ، وَكَذَلِكَ تَرَى أُمَّهَاتُ النَّبِيِّينَ صَلَوَاتُ اللهِ عَلَيْهِمْ

سند میں  سعيد بن سويد شام حمص کا ہے  میزان الاعتدال از الذھبی کے مطابق

امام  البخاري: لا يتابع في حديثه.

امام بخاری کہتے ہیں اس کی حدیث کی متا بعت نہیں کی جاتی

البزار المتوفی ٢٩٢ ھ بھی اس کو مسند میں بیان کرتے ہیں کہتے ہیں

وَهَذَا الْحَدِيثُ لا نَعْلَمُهُ يُرْوَى عَن رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم بِإِسْنَادٍ مُتَّصِلٍ عَنْهُ بِأَحْسَنَ مِنْ هَذَا الإِسْنَادِ وَسَعِيدُ بْنُ سُوَيْدٍ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ

یہ حدیث ہم نہیں جانتے  کہ اس کو اس سے اچھی متصل اسناد سے رسول اللہ سے کسی نے روایت کیا ہو سوائے اس سند کے اور سعید بن سوید شام کا ایک آدمی ہے جس میں برائی نہیں ہے

یعنی امام بخاری اور البزار کا اس راوی پر اختلاف تھا ایک اس میں کوئی برائی نہیں جانتا تھا اور دوسرا اس کی روایات کو منفرد کہتا تھا

صحیح ابن حبان میں ابن حبان نے اسی سند سے  اس روایت کو علامت نبوت میں شمار کیا ہے اور اسی سند کو تلخیص مستدرک میں امام الذھبی نے صحیح کہا ہے

راقم کہتا ہے روایت  چاہے  سعید بن سوید کی سند سے ہو یا کسی اور کی سند سے اس میں شامیوں کا تفرد ہے اور ان شامیوں کو اپنے پروسٹیوں اہل کتاب پر ثابت کرنا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کا نور عیسیٰ علیہ السلام سے بڑھ کر ہےاور یہ شامیوں کا غلو ہے

شب برات

شعبان کی رات کی آمد آمد ہے ، جو ایک بہت ہی اہم راتوں کی طرح سمجھی جاتی ہے – اس کا احترم بالکل لیلة القدر  کے طور پر کچھ لوگ کرتے ہیں ۔ وہ رات کو نماز اور کچھ رات کے بعد دن میں روزے رکھتے ہیں ۔ اس رات كے وقت كے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ پندرہ شعبان کی رات ہے – جبکہ احادیث میں نصف شعبان کا لفظ ہے اور اسلامی مہینے ضروری نہیں کہ ٣٠ دن کے ہوں وہ ٢٩ دنوں کے بھی ہو سکتے ہیں ۔ ان روایات پر عمل کرنے والوں  کے ایک مفتی ، مفتی تقی عثمانی کتاب شب برات کی حقیقت میں لکھتے ہیں

Shabebarat

اسی طرح ماہنامہ دار العلوم جون ٢٠١٥ میں ایک مضمون میں اس کا ذکر ہے

http://www.darululoom-deoband.com/urdu/magazine/new/tmp/02-Mah%20Shaban%20Shabe%20Barat_MDU_06_June_15.pdf

دیکھتے ہیں کہ یہ روایات کس قدر صحیح ہیں

عائشہ رضی الله عنہا سے منسوب روایت

  ترمذی روایت کرتے ہیں کہ عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا   نے  فرمایا کہ  میں نے اللہ کے رسول (صلی الله علیہ وسلم ) کو ایک رات کے دوران نہ پایا – اور ان کو البقیع میں پایا (یعنی عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا  ، نبی صلی الله علیہ وسلّم کو تلاش کرتے ہوے مدینه سے باہر قبرستان پہنچ گئیں ) ۔ (نبی صلی الله علیہ وسلم ) انہوں نے کہا کہ: آپ ڈر رہی تھیں کہ اﷲ اور اس کے رسول آپ کے ساتھ نا انصافی کریں گے میں (عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا ) نے کہا: اللہ کے رسول، میں نے سوچا کہ آپ اپنی بیویوں میں سے کسی کے پاس چلے گیئے ۔(رسول) نے کہا: بیشک اﷲ، بزرگی و عظمت والا ، شعبان کی درمیانی رات میں دنیا کے آسمان سے نیچے آتا ہے اور (بنو)کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ گناہ معاف فرما دیتا ہے

 عام طور پر مقرّرین نصف شعبان کی رات کی فضیلت کے حوالے سے اپنی تقریروں میں یہ حدیث پیش کرتے ہیں لیکن امام ترمذی کے تبصرے کو حذف کر جاتے ہیں جسس میں وہ کہتے ہیں کہ

عائشہ بنت ابی بکر کی روایت (کے بارے  میں ) ابو عیسیٰ (امام  ترمذی ) نے کہا کہ، ہم اس کو  اس واسطه  سے  ہی  جانتے  ہیں  حجاج   کی سند  سے –   اور میں  نے  امام محمد  یعنی  امام  بخاری  سے سنا  کے یہ  حدیث  کمزور  ہے  – یحییٰ  بن ابی  کثیر  نے عروہ سے نہیں سنا ہے اور حجاج بن  ارطاہ نے    یحییٰ  بن ابی  کثیر سے نہیں  سنا

حجاج  بن ار طا ة  المتوفي ١٤٩ هجره ، بصره  میں  قاضی  تھا  اور  اس  کے لئے کہا جاتا ہے کہ یہ  پہلا  قاضی  ہے  جس  نے  رشوت  لی – یہ  عباسی خلیفہ  المہدی  کا   منظور  نظر  تھا -المھدی  کے  دور  میں  بر امکه  خاندان  بہت  اثر  رکھتا  تھا  اور  چراغاں  کرنے  کا  ان  کو  بہت  شوق  تھا – اس  خاندان  نے  بنوامیہ  کا  تختہ  الٹنے  میں  بنو  عباس  کی  مدد  کی  تھی  اور  اس  کا  تعلق  پارس  سے  تھا جو  آتش پرستوں  کا  مسکن  رہا  ہے

اسی طرح کی دیگر روایات مسند احمد اور صحیح ابن حبان میں بھی بیان ہوئی ہیں

وأما حديث عائشة فيرويه حجاج عن يحيى بن أبي كثير عن عروة عنه مرفوعا  بلفظ : ” إن الله تعالى ينزل ليلة النصف من شعبان إلى السماء الدنيا، فيغفر لأكثر من عدد شعر غنم كلب

 أخرجه الترمذي (1 / 143) وابن ماجه (1389)  واللالكائي (1 / 101 / 2) وأحمد (6 / 238) وعبد بن حميد في ” المنتخب من المسند

اور جہاں تک عائشہ کی حدیث ہے اس کو روایت کیا ہے حجاج نے یحیی بن ابی کثیر سے  انہوں نے عروہ سے موفوعا ان الفاظ سے کہ

بے شک الله تعالی نازل ہوتے ہیں ١٥ شعبان کی رات آسمان دنیا پر پس وہ بنو کلب کی بھیڑوں کے برابر مغفرت کرتے ہیں

البانی السلسلۃ الصحیحۃ، ج:٣، ص:١٣٥۔١٣٨۔ ١٣٩ میں کہتے ہیں
وجملة القول أن الحديث بمجموع هذه الطرق صحيح بلا ريب والصحة تثبت بأقل منها
عددا ما دامت سالمة من الضعف الشديد كما هو الشأن في هذا الحديث، فما نقله
الشيخ القاسمي رحمه الله تعالى في ” إصلاح المساجد ” (ص 107) عن أهل التعديل
والتجريح أنه ليس في فضل ليلة
النصف من شعبان حديث صحيح، فليس مما ينبغي
الاعتماد عليه، ولئن كان أحد منهم أطلق مثل هذا القول فإنما أوتي من قبل
التسرع وعدم وسع الجهد لتتبع الطرق على هذا النحو الذي بين يديك. والله
تعالى هو الموفق.

خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ حدیث بلاشبہ ان تمام طرق کی بنا پر صحیح ہے اور حدیث کی صحت ان شواہد کی تعداد سے کم بھی ثابت ہوجاتی ہے جب تک وہ شدید ضعف سے دوچار نہ ہو، جیسا کہ یہ حدیث ہے پس شیخ القاسمی نے نقل کیا ہے اصلاح المساجد میں اہل جرح و تعدیل سے کہ نصف شعبان سے متعلق کوئی حدیث صحیح نہیں ہے پس یہ قول قابل اعتماد نہیں ہے اور اگر کوئی اس قول کا اطلاق کرتا ہے تو وہ ہیں جنہوں ے جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہے اور ان میں محنت معدوم ہے کہ اس رستے پر جاتے جو اب اپ کے سامنے ہے

یہ البانی صاحب کا کہنا ہے اس طرح انہوں نے الصحیحہ 1144   اور 1563   میں ١٥ شعبان کی رات کی روایت کی تصحیح کر دی ہے

سن ١٩٨٥ میں خطیب تبریزی کی کتاب مشكاة المصابيح کی تحقیق میں البانی نے اس کو ضعیف کہا

پھر ضعیف سنن الترمذی میں اس کو ضعیف کہا

(ضعيف – ابن ماجه 1389 (برقم 295 والمشكاة 1299 الصفحة 406، ضعيف الجامع الصغير 1761)

لیکن ١٩٩٥ میں اس سب سے رجوع کیا اور الصحیحہ میں واپس اس روایت کو صحیح قرار دیا

یہ حال ہے غیر مقلدین کا –  بر صغیر میں بریلویوں کی مخالفت میں یہ بدعت ہے اور عرب میں خالص سنت

راقم کہتا ہے البانی غیر مقلد کا قول باطل اور تحقیق تناقص سے بھرپور ہے

صحیح مسلم میں ہے

حديث:2249
حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ کَثِيرِ بْنِ الْمُطَّلِبِ أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسٍ يَقُولُ سَمِعْتُ عَائِشَةَ تُحَدِّثُ فَقَالَتْ أَلَا أُحَدِّثُکُمْ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَنِّي قُلْنَا بَلَی ح و حَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ حَجَّاجًا الْأَعْوَرَ وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَ حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ بْنِ الْمُطَّلِبِ أَنَّهُ قَالَ يَوْمًا أَلَا أُحَدِّثُکُمْ عَنِّي وَعَنْ أُمِّي قَالَ فَظَنَنَّا أَنَّهُ يُرِيدُ أُمَّهُ الَّتِي وَلَدَتْهُ قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ أَلَا أُحَدِّثُکُمْ عَنِّي وَعَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا بَلَی قَالَ قَالَتْ لَمَّا کَانَتْ لَيْلَتِي الَّتِي کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا عِنْدِي انْقَلَبَ فَوَضَعَ رِدَائَهُ وَخَلَعَ نَعْلَيْهِ فَوَضَعَهُمَا عِنْدَ رِجْلَيْهِ وَبَسَطَ طَرَفَ إِزَارِهِ عَلَی فِرَاشِهِ فَاضْطَجَعَ فَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا رَيْثَمَا ظَنَّ أَنْ قَدْ رَقَدْتُ فَأَخَذَ رِدَائَهُ رُوَيْدًا وَانْتَعَلَ رُوَيْدًا وَفَتَحَ الْبَابَ فَخَرَجَ ثُمَّ أَجَافَهُ رُوَيْدًا فَجَعَلْتُ دِرْعِي فِي رَأْسِي وَاخْتَمَرْتُ وَتَقَنَّعْتُ إِزَارِي ثُمَّ انْطَلَقْتُ عَلَی إِثْرِهِ حَتَّی جَائَ الْبَقِيعَ فَقَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ انْحَرَفَ فَانْحَرَفْتُ فَأَسْرَعَ فَأَسْرَعْتُ فَهَرْوَلَ فَهَرْوَلْتُ فَأَحْضَرَ فَأَحْضَرْتُ فَسَبَقْتُهُ فَدَخَلْتُ فَلَيْسَ إِلَّا أَنْ اضْطَجَعْتُ فَدَخَلَ فَقَالَ مَا لَکِ يَا عَائِشُ حَشْيَا رَابِيَةً قَالَتْ قُلْتُ لَا شَيْئَ قَالَ لَتُخْبِرِينِي أَوْ لَيُخْبِرَنِّي اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ قَالَتْ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي فَأَخْبَرْتُهُ قَالَ فَأَنْتِ السَّوَادُ الَّذِي رَأَيْتُ أَمَامِي قُلْتُ نَعَمْ فَلَهَدَنِي فِي صَدْرِي لَهْدَةً أَوْجَعَتْنِي ثُمَّ قَالَ أَظَنَنْتِ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْکِ وَرَسُولُهُ قَالَتْ مَهْمَا يَکْتُمِ النَّاسُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ نَعَمْ قَالَ فَإِنَّ جِبْرِيلَ أَتَانِي حِينَ رَأَيْتِ فَنَادَانِي فَأَخْفَاهُ مِنْکِ فَأَجَبْتُهُ فَأَخْفَيْتُهُ مِنْکِ وَلَمْ يَکُنْ يَدْخُلُ عَلَيْکِ وَقَدْ وَضَعْتِ ثِيَابَکِ وَظَنَنْتُ أَنْ قَدْ رَقَدْتِ فَکَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَکِ وَخَشِيتُ أَنْ تَسْتَوْحِشِي فَقَالَ إِنَّ رَبَّکَ يَأْمُرُکَ أَنْ تَأْتِيَ أَهْلَ الْبَقِيعِ فَتَسْتَغْفِرَ لَهُمْ قَالَتْ قُلْتُ کَيْفَ أَقُولُ لَهُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ قُولِي السَّلَامُ عَلَی أَهْلِ الدِّيَارِ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ وَيَرْحَمُ اللَّهُ الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِينَ وَإِنَّا إِنْ شَائَ اللَّهُ بِکُمْ لَلَاحِقُونَ
ترجمہ : ہارون بن سعید ایلی، عبداللہ بن وہب، ابن جریج، عبداللہ بن کثیر بن مطلب، محمد بن قیس، حضرت محمد بن قیس (رض) بن مخرمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک دن کہا کیا میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی اور اپنی ماں کے ساتھ بیتی ہوئی بات نہ سناؤں ہم نے گمان کیا کہ وہ ماں سے اپنی جننے والی ماں مراد لے رہے ہیں ہم نے کہا کیوں نہیں فرمایا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس میری باری کی رات میں تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کروٹ لی اور اپنی چادر اوڑھ لی اور جوتے اتارے اور ان کو اپنے پاؤں کے پاس رکھ دیا اور اپنی چادر کا کنارہ اپنے بستر پر بچھایا اور لیٹ گئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اتنی ہی دیر ٹھہرے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گمان کرلیا کہ میں سو چکی ہوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آہستہ سے اپنی چادر لی اور آہستہ سے جوتا پہنا اور آہستہ سے دروازہ کھولا اور باہر نکلے پھر اس کو آہستہ سے بند کردیا میں نے اپنی چادر اپنے سر پر اوڑھی اور اپنا ازار پہنا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے پیچھے چلی یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بقیع میں پہنچے اور کھڑے ہوگئے اور کھڑے ہونے کو طویل کیا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دونوں ہاتھوں کو تین بار اٹھایا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس لوٹے اور میں بھی لوٹی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیز چلے تو میں بھی تیز چلنے لگی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دوڑے تو میں بھی دوڑی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہنچے تو میں بھی پہنچی میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سبقت لے گئی اور داخل ہوتے ہی لیٹ گئی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو فرمایا اے عائشہ تجھے کیا ہوگیا ہے کہ تمہارا سانس پھول رہا ہے میں نے کہا کچھ نہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم بتا دو رونہ مجھے باریک بین خبردار یعنی اللہ تعالیٰ خبر دے دے گا تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے ماں باپ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان پھر پورے قصہ کی خبر میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دے دی فرمایا میں اپنے آگے آگے جو سیاہ سی چیز دیکھ رہا تھا وہ تو تھی میں نے عرض کیا جی ہاں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے سینے پر مارا جس کی مجھے تکلیف ہوئی پھر فرمایا تو نے خیال کیا کہ اللہ اور اس کا رسول تیرا حق داب لے گا فرماتی ہیں جب لوگ کوئی چیز چھپاتے ہیں اللہ تو اس کو خوب جانتا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جبرائیل میرے پاس آئے جب تو نے دیکھا تو مجھے پکارا اور تجھ سے چھپایا تو میں نے بھی تم سے چھپانے ہی کو پسند کیا اور وہ تمہارے پاس اس لئے نہیں آئے کہ تو نے اپنے کپڑے اتار دیئے تھے اور میں نے گمان کیا کہ تو سو چکی ہے اور میں نے تجھے بیدار کرنا پسند نہ کیا میں نے یہ خوف کیا کہ تم گھبرا جاؤ گی جبرائیل نے کہا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بقیع تشریف لے جائیں اور ان کے لئے مغفرت مانگیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں کیسے کہوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (السَّلَامُ عَلَيْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ وَأَتَاکُمْ مَا تُوعَدُونَ غَدًا مُؤَجَّلُونَ وَإِنَّا إِنْ شَائَ اللَّهُ بِکُمْ لَاحِقُونَ) کہو سلام ہے ایماندار گھر والوں پر اور مسلمانوں پر اللہ ہم سے آگے جانے والوں پر رحمت فرمائے اور پیچھے جانے والوں پر ہم انشاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں۔

==============
سند میں عبد الله بن كثير بن المطلب بن أبى وداعة مجہول ہے اس کو امام مسلم نے قبول کیا ہے لہذا ابن حجر نے اس کومقبول کہا ہے

الذھبی نے میزان میں کہا
فعبد الله بن كثير السهمى لا يعرف إلا من رواية ابن جريج عنه، وما رأيت أحدا وثقه ففيه جهالة.
عبد الله نہیں جانا جاتا اس سے صرف ابن جریج نے روایت کیا ہے اور کسی اور ثقہ نے میرے خیال میں روایت نہیں کیا ہے اور اس میں جہالت ہے
یعنی مجہول ہے

اور تاریخ اسلام میں کہا
، وهو فلا يكاد يُعْرَف إلا فِي حديثٍ واحد سَنَدُهُ مضطَّرب، وهو حديث عَائِشَةَ فِي استغفاره لأهل البَقيع
اس کی کوئی حدیث معلوم نہیں سوائے ایک مضطرب روایت کے جس میں عائشہ رضی الله عنہا سے اہل بقیع پر استغفار کا ذکر ہے

راقم کہتا ہے یہ ١٢٠ ہجری کے بعد مرا ہے اور اپنی زندگی میں اس نے صرف ایک یہ حدیث روایت کی ہے
صحیح سمجھنا ممکن نہیں ہے

عائشہ رضی الله عنہا سے ایک اور روایت منسوب ہے

شعبان شهري ورمضان شهر الله. ” فر – عن عائشة

آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے۔

کنز العمال میں یہ عائشہ رضی الله عنہا سے مروی ہے

اس کی سند میں أبو بكر بن الحسن النقاش ہے جو متهم ہے اور الكسائي مجہول ہے
سیوطی نے اس کو اللآلئ في الموضوعات میں گھڑی ہوئی روایات میں شمار کیا ہے

خلف بن محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن نصر أبو صالح البخاري الخيام کے قصے

بیہقی نے الدعوات الكبير میں روایت کیا ہے اور انہی کے حوالہ سے مشکاۃ میں منقول ہے

حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِي أَبُو صَالِحٍ خَلَفُ بْنُ مُحَمَّدٍ بِبُخَارَى حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْبَغْدَادِيُّ الْحَافِظُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ حَدَّثَنِي حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْمَدَنِيُّ، عَنِ نَصْرِ بْنِ كَثِيرٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: لَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ انْسَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مِرْطِي …. هَلْ تَدْرِينَ مَا فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ؟ قَالَتْ: مَا فِيهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ: فِيهَا أَنْ يُكْتَبَ كُلُّ مَوْلُودٍ مِنْ مولود بَنِي آدَمَ فِي هَذِهِ السَّنَةِ، وَفِيهَا أَنْ يُكْتَبَ كُلُّ هَالِكٍ مِنْ بَنِي آدَمَ فِي هَذِهِ السَّنَةِ، وَفِيهَا تُرْفَعُ أَعْمَالُهُمْ، وَفِيهَا تَنْزِلُ أَرْزَاقُهُمْ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ: مَا من أَحَدٌ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا بِرَحْمَةِ اللَّهِ؟ قَالَ: مَا مِنْ أَحَدٍ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا بِرَحْمَةِ اللَّهِ قُلْتُ: وَلَا أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى هَامَتِهِ فَقَالَ: وَلَا أَنَا إِلَّا أَنْ يَتَغَمَّدَنِيَ اللَّهُ مِنْهُ بِرَحْمَةٍ , يَقُولُهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ

عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: (اے عائشہ) کیا تو جانتی ہے یہ کون سی رات ہے ؟ یعنی نصف شعبان کی رات۔ عائشہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول اس رات میں کیا ہوتا ہے ؟تو آپؐ نے فرمایا: اس رات اس سال پیدا ہونے والے اور مرنے والے ہر ابن آدم کا نام لکھا جاتا ہے۔ اس رات میں اعمال بلند کیے جاتے ہیں اور اس رات میں لوگوں کا رزق نازل کیا جاتا ہے ۔ پس عائشہؓ نے کہا: اے اللہ کے رسول کیا کوئی بھی اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل نہ ہو گا؟ تو آپ نے فرمایا: کوئی بھی جنت میں اللہ کی رحمت کے بغیر داخل نہیں ہوگا۔ آپ نے یہ بات تین مرتبہ فرمائی تو عائشہ نے کہا :اے اللہ کے رسول کیا آپ بھی؟آپؐ نے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھتے ہوئے فرمایا : ہاں میں بھی سوائے اس کے کہ مجھے اللہ کی رحمت ڈھانپ لے ۔ آپؐ نے تین مرتبہ یہ کلمات کہے۔

اس کی اسناد انتہائی ضعیف ہے کیونکہ راوی خلف بن محمد الخیام بے حد ضعیف راوی ہے ، ابویعلی الخلیلی کہتے ہیں کہ یہ راوی بہت زیادہ ضعیف ہے یہ ایسی احادیث نقل کرتا ہے جن کے متون ثقہ رواۃ سے منقول نہیں ہوتے

راقم کہتا ہے اس کا ایک اور قصہ مشہور ہے – کتاب شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة از أبو القاسم هبة الله بن الحسن بن منصور الطبري الرازي اللالكائي (المتوفى: 418هـ) کی روایت ہے

وَأَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَفْصٍ قَالَ: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ سَلَمَةَ قَالَ: ثنا أَبُو صَالِحٍ خَلَفُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَمْرٍو أَحْمَدَ بْنِ نَصْرِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ النَّيْسَابُورِيَّ الْمَعْرُوفَ بِالْخَفَّافِ بِبُخَارَى يَقُولُ: كُنَّا يَوْمًا عِنْدَ أَبِي إِسْحَاقَ الْقُرَشِيِّ وَمَعَنَا مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ الْمَرْوَزِيُّ , فَجَرَى ذِكْرُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ , فَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: مَنْ زَعَمَ أَنِّي قُلْتُ: لَفْظِي بِالْقُرْآنِ مَخْلُوقٌ , فَهُوَ كَذَّابٌ , فَإِنَّى لَمْ أَقُلْهُ. فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ فَقَدْ خَاضَ النَّاسُ فِي هَذَا وَأَكْثَرُوا فِيهِ. فَقَالَ: لَيْسَ إِلَّا مَا أَقُولُ وَأَحْكِي لَكَ عَنْهُ. قَالَ أَبُو عَمْرٍو الْخَفَّافُ: فَأَتَيْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ فَنَاظَرْتُهُ فِي شَيْءٍ مِنَ الْحَدِيثِ حَتَّى طَابَتْ نَفْسُهُ فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ هَاهُنَا رَجُلٌ يَحْكِي عَنْكَ أَنَّكَ قُلْتَ هَذِهِ الْمَقَالَةِ. فَقَالَ لِي: يَا أَبَا عَمْرٍو احْفَظْ مَا أَقُولُ: مَنْ زَعَمَ مِنْ أَهْلِ نَيْسَابُورَ وَقُومَسَ وَالرَّيِّ وَهَمَذَانَ وَحُلْوَانَ وَبَغْدَادَ وَالْكُوفَةِ وَالْمَدِينَةِ وَمَكَّةَ وَالْبَصْرَةِ أَنِّي قُلْتُ: لَفْظِي بِالْقُرْآنِ مَخْلُوقٌ , فَهُوَ كَذَّابٌ , فَإِنَّى لَمْ أَقُلْ هَذِهِ الْمَقَالَةَ , إِلَّا أَنِّي قُلْتُ: أَفْعَالُ الْعِبَادِ مَخْلُوقَةٌ

ہم کو أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَفْصٍ نے خبر دی کہا ہم سے بیان کیا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ سَلَمَةَ نے کہا ہم سے بیان کیا أَبُو صَالِحٍ خَلَفُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ انہوں نے أحمد بن نصر بن إبراهيم، أبو عمرو النَّيْسَابوريُّ الخفّاف المتوفی ٣٠٠ ھ سے سنا کہتے ہیں ایک دن ہم أَبِي إِسْحَاقَ الْقُرَشِيِّ کے پاس تھے اور ہمارے ساتھ مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ الْمَرْوَزِيُّ بھی تھے کہ امام بخاری کا ذکر ہوا پس مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ الْمَرْوَزِيُّ نے کہا میں نے سنا یہ کہتے تھے کہ جو یہ دعوی کرے کہ میں کہتا ہوں کہ قرآن کے الفاظ مخلوق ہیں وہ جھوٹا ہے کیونکہ میں ایسا نہیں کہتا . پس میں نے ان سے کہا اے ابو عبد الله امام بخاری اس پر تو لوگ بہت لڑتے ہیں پس کہا جو میں نے کہا اس کے سوا کچھ اور نہیں ہے- أَبُو عَمْرٍو الْخَفَّافُ کہتے ہیں پس میں امام بخاری سے ملا اور ان سے ایک حدیث پر کلام کیا یہاں تک کہ دل بھر گیا میں نے ان سے کہا اے ابو عبد الله وہاں ایک شخص ہے جو حکایت کرتا ہے آپ کے لئے کہ آپ اس میں یہ اور یہ کہتے ہیں – امام بخاری نے مجھ سے کہا اے ابو عمرو یاد رکھو جو میں کہوں جو یہ دعوی کرے نیشاپور یا قومس یا رے یا ہمدان یا حلوان یا بغداد یا کوفہ یا مدینہ یا مکہ یا بصرہ میں سے کہ میں کہتا ہوں قرآن کے الفاظ مخلوق ہیں وہ کذاب ہے پس میں ایسا نہیں کہتا ہوں بلاشبہ میں کہتا ہوں کہ بندوں کے افعال مخلوق ہیں

اس کی سند میں أَبُو صَالِحٍ خَلَفُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ إِسْمَاعِيْلَ ہیں جن کے لئے الذھبی سیر الاعلام النبلاء میں لکھتے ہیں

قَالَ الخَلِيلِيُّ: كَانَ لَهُ حفظٌ وَمَعْرِفَةٌ، وَهُوَ ضَعِيْفٌ جِدّاً، رَوَى مُتوناً لاَ تُعرفُ

خلیلی کہتے ہیں ان کے لئے حافظہ و معرفت ہے اور یہ بہت ضعیف ہیں اور وہ متن روایت کرتے ہیں جو کوئی نہیں جنتا

کتاب الرّوض الباسم في تراجم شيوخ الحاكم میں أبو الطيب نايف بن صلاح بن علي المنصوري راوی أَبُو صَالِحٍ خَلَفُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ إِسْمَاعِيْلَ کے لئے کہتے ہیں

ضعيف جدًا مع كثرة حديثه

بہت ضعیف ہیں کثرت حدیث کے ساتھ

ایک طرف تو سندا کمزور دوسری طرف اس کے راوی

أَبُو عَمْرٍو الْخَفَّافُ کے امام الذھبی کتاب تاریخ الاسلام میں لکھتے ہیں

سَمِعَ بنَيْسابور: إسحاق بن راهَوَيْه، وعَمْرو بن زُرَارة، والحسين بن حُرَيْث، ومحمد بن عبد العزيز بن أبي رزمة، وأقرانهم.

وببغداد: إبراهيم بن المستمرّ، وأحمد بن منيع، وأبا همّام السكوني، وأقرانهم. وبالكوفة: أبا كُرَيْب، وعَبّاد بن يعقوب، وجماعة.

وبالحجاز: أبا مُصْعَب، ويعقوب بن حُمَيْد بن كاسب، وعبد الله بن عمران العابديّ، وغيرهم.

سوال کے ان کا سماع بخاری سے کب ہوا؟

ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں

أَخْرَجَ ذَلِكَ غُنْجَارٌ فِي تَرْجَمَةِ الْبُخَارِيِّ من تَارِيخ بخارا بِسَنَدٍ صَحِيحٍ إِلَى مُحَمَّدِ بْنِ نَصْرٍ الْمَرْوَزِيِّ الْإِمَامِ الْمَشْهُورِ أَنَّهُ سَمِعَ الْبُخَارِيَّ يَقُولُ ذَلِكَ وَمِنْ طَرِيقِ أَبِي عُمَرَ وَأَحْمَدَ بْنِ نَصْرٍ النَّيْسَابُورِيِّ الْخَفَّافِ أَنَّهُ سَمِعَ الْبُخَارِيَّ يَقُولُ ذَلِكَ

اس (اوپر والی روایت) کو غنجار نے بخاری کے ترجمہ میں تاریخ بخاری میں صحیح سند کے ساتھ محمّد بن نثر المروزی امام مشھور سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے امام بخاری سے سنا کہ انہوں نے ایسا کہا جو ابی عمر اور احمدبن نصر کے طرق سے ہے کہ انہوں نے بخاری سے سنا

اسی قول کو ابن حجر نے تهذيب التهذيب میں بھی نقل کیا ہے

عجیب بات ہے انہی خَلَفُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ إِسْمَاعِيْلَ کی لسان المیزان میں ابن حجر عزت افزائی کرتے ہیں

وسمعت الحاكم، وَابن أبي زرعة وإنما كتبنا عنه للاعتبار وقد ضعفه أبو سعيد الإدريسي

حاکم اور ابن أبي زرعة کہتے ہیں ان کا قول اعتبار کے لئے لکھا جاتا ہے اور ابو سعید نے ان کو ضعیف کہا ہے

اس روایت کا سارا دار و مدار جس شخص پر ہے وہ توضعیف نکلا لہذا دلیل کیسے ہیں

اس راوی کی روایت اہل حدیث اور وہابی بھی رد کرتے ہیں کیونکہ یہ روایت کرتا ہے کہ امام بخاری اندھے تھے

ابو بكر الخطيب البغدادي (المتوفى: 463 ھ) تاریخ بغداد میں لکھتے ہیں :
حَدَّثَنِي أبو القاسم عبد الله بن أحمد بن علي السوذرجاني بأصبهان من لفظه، قَالَ: حدثنا علي بن محمد بن الحسين الفقيه، قَالَ: حدثنا خلف بن محمد الخيام، قَالَ: سمعت أبا محمد المؤذن عبد الله بن محمد بن إسحاق السمسار، يقول: سمعت شيخي يقول: ذهبت عينا محمد بن إسماعيل في صغره فرأت والدته في المنام إبراهيم الخليل عليه السلام، فقال لها: يا هذه قد رد الله على ابنك بصره لكثرة بكائك، أو لكثرة دعائك. قَالَ: فأصبح وقد رد الله عليه بصره (تاریخ بغداد 2- 322 )
:
محمد بن اسحاق نے کہا : میں نے اپنے شیخ سے سنا کہ : امام بخاریؒ کی بچپن میں نظر چلی گئی تھی ، (اور ان کی والدہ اس پر اکثر دعاء کرتیں ، اور روتی رہتی تھیں ) تو ایک روز انہیں خواب میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام نظر آئے ، وہ فرمارہے تھے تیری گریہ و زاری اور دعاء کے سبب اللہ تعالی نے تیرے بیٹے کی نظر لوٹا دی ہے

ا بويعلى الخليلي، (المتوفى: 446 ھ)۔۔ الإرشاد في معرفة علماء الحديث ۔۔(جلد 3 صفحه 972 ) میں لکھتے ہیں :
” أبو صالح خلف بن محمد بن إسماعيل البخاري كان له حفظ ومعرفة وهو ضعيف جدا روى في الأبواب تراجم لا يتابع عليها وكذلك متونا لا تعرف سمعت ابن ابي زرعة والحاكم ابا عبد الله الحافظين يقولان كتبنا عنه الكثير ونبرأ من عهدته وإنما كتبنا عنه للاعتبار
اور یہی بات امام ذہبی نے میزان الااعتدال میں لکھی ہے

معلوم ہوا کہ یہ راوی امام بخاری کے حوالے سے فرضی قصے پھیلاتا رہا ہے

عبد الله بن عمرو بن العاص رضی الله عنہ سے منسوب  روایت

حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا حسن ثنا بن لهيعة ثنا حيي بن عبد الله عن أبي عبد الرحمن الحبلي عن عبد الله بن عمرو ان رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : يطلع الله عز و جل إلى خلقة ليلة النصف من شعبان فيغفر لعباده الا لاثنين مشاحن وقاتل نفس

 نصف شعبان کی رات الله تعالیٰ انسانوں کو معاف کرتا ہے سواے قاتل نفس کے اور وہ جن کے درمیان کشیدگی ہو

مسند احمد میں امام احمد نے ہر طرح کا رطب و یابس بھر دیا ہے – ان کا سارا زور ایک ضخیم مسند لکھنے پر ہی رہا ہے اور مسند میں کسی بھی روایت کی نہ تصحیح ہے نہ تضعیف ہے لہذا اس کی روایت ضرورری نہیں کہ صحیح ہوں

مسند احمد کی عبدللہ بن عمر و والی روایت میں عبدللہ ابن لہیہ ہے جو انتہائی ضعیف راوی ہے

 عبدللہ  ابن   لهيعة  المتوفي ١٧٤ هجري،  عباسی  خلفاء کے  منظور  نظر  رہے  ہیں

ابن عمر رضی الله عنہ سے منسوب روایت

وَفيمَا أَنْبَأَنِي أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ إِجَازَةً، وَحَدَّثَنَا بِهِ عَنْهُ الْإِمَامُ أَبُو عُثْمَانَ إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ الْحَمِيدِ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنِي مَنْ سَمِعَ ابْنَ الْبَيْلَمَانِيِّ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: ” خَمْسُ لَيَالٍ لَا يُرَدُّ فِيهِنَّ الدُّعَاءُ: لَيْلَةُ الْجُمُعَةِ، وَأَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ رَجَبَ، وَلَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، وَلَيْلَةُ الْعِيدِ وَلَيْلَةُ النَّحْرِ ”

فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰهُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم ہے:
پانچ راتوں میں دُعا رَد نہیں ہوتی:

🍃(1) جمعہ کی رات 🍂(2) رجب کی پہلی رات
⭐(3) #پندرہ شعبان کی رات
🍂(4) عید الفِطر اور 🍃(5) عید الاضحیٰ کی دات

(شعب الایمان 342/3، حدیث: 3713)

سند میں عبد الرحمن بن البيلمانى ہے
وقال الدارقطني.ضعيف، لا تقوم به حجة.
یہ ضعیف ہے اس سے دلیل قائم نہیں ہوتی

سند میں أَخْبَرَنِي مَنْ سَمِعَ مجہول ہے

معاذ بن جبل رضی الله عنہ سے منسوب  روایت

صحیح ابن حبان کی روایت ہے کہ معاذ بن جبل روایت کرتے ہیں کہ

الله کے نبی نے فرمایا کہ الله اپنی مخلوق میں سے آگاہ ہوتا ہے شعبان کے وسط کی رات میں تاکہ وہ اپنی مخلوقات کو بخش دے علاوہ تمام مشرک اور ایک ( دوسرے مسلمان کی طرف) کینہ رکھنے والے کے
صحیح ابن حبان کی اس روایت کا امام دار قطنی نے اپنی کتاب علل میں تعقب کیا ہے یعنی روایات میں عیوب سے متعلق تحققیق کے بعد فیصلہ دیا ہے کہ اس روایت میں اضطراب پایا جاتا ہے – ابن حبان علم حدیث میں فراخ دل سمجھے جاتے ہیں لہذا وہ بسا اوقات مجھول راویوں کو بھی ثقہ قرار دے دیتے ہیں – ان کی جرح مانی جاتی ہے لیکن ان کی تصحیح پر اختلاف رہا ہے – امام دار قطنی جو لگ بھگ ابن حبان کے قریب دور کے ہیں وہ اس روایت کو مضطرب قرار دیتے ہیں

صحیح ابن حبان پر تعلیق میں البانی نے اس کو

حسن ـ ((التعليق الرغيب)) (3/ 282 ـ 283) , ((الصحيحة)) (1144). قرار دیا ہے

اور  صحيح الجامع الصغير وزياداته میں اس کو  حسن کہا ہے

جبکہ امام  ابی حاتم کے نزدیک یہ ایک معلول روایت تھی

وسألتُ أَبِي عَنْ حديثٍ رواه أبو خُلَيدٍ القَارِئُ  عَنِ الأَوْزاعيِّ، عَنْ مَكْحُولٍ – وعَنِ ابْنِ ثَوْبَانَ   ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَكْحُولٍ – عَنْ مالكٍ بْنِ يُخَامِرَ، عَن معاذِ بْنِ جَبَلٍ؛ قَالَ: قَالَ رسولُ الله (ص) : يَطَّلِعُ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى خَلْقِهِ  … ؟
قَالَ أَبِي: هَذَا حديثٌ مُنكَرٌ بهذا الإسنادِ  ، لم يَرْوِ  بهذا الإسنادِ [غير]  أَبِي خُلَيدٍ، وَلا أَدْرِي مِنْ أَيْنَ جَاءَ بِهِ!
قلتُ: ما حالُ [أَبِي] خُلَيدٍ؟
قَالَ: شيخٌ

ابن ابی حاتم نے باپ سے سوال کیا: حدیث جو ابو خلید قاری نے اوزاعی کی سند سے انہوں نے مکحول سے انہوں نے مالک سے انہوں نے معاذ سے انہوں نے رسول الله سے روایت   کیا کہ الله تعالی نصف شعبان کی رات کو مطلع ہوتا ہے  … تو میرے باپ نے کہا یہ حدیث ان اسناد سے منکر ہے  اس کو صرف ابی خلید نے روایت کیا ہے  میں نہیں جانتا کہ وہ اس سند کو کہاں سے لایا ہے

مسند الشاميين از طبرانی میں سند ہے

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ مُدْرِكٍ، ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ الْوَاسِطِيُّ، ثنا أَبُو خُلَيْدٍ، ثنا ابْنُ ثَوْبَانَ، حَدَّثَنِي أَبِي، [عَنْ مَكْحُولٍ] ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ يَطَّلِعُ إِلَى خَلْقِهِ فِي النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَيَغْفِرُ لَهُمْ إِلَّا لِمُشْرِكٍ أَوْ مُشَاحِنٍ»

اس کی سند میں أَبُو خُلَيْدٍ اور  مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ کے درمیان پانچ راوی ہیں

البانی نے صحیحہ ح ١١٤٤ میں لکھا ہے حدیث صحیح ہے  اس کو اصحاب رسول کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے جس سے اس کی اسناد نے ایک دوسرے کو قوت دی ہے اور ان میں معاذ کی روایت ہے  أبو ثعلبة الخشني اور عبد الله بن عمرو اور  أبي موسى الأشعري اور أبي هريرة
اور أبي بكر الصديق  اور عوف ابن مالك اور عائشة کی روایت ہے

يطلع الله تبارك وتعالى إلى خلقه ليلة النصف من شعبان، فيغفر لجميع خلقه
إلا لمشرك أو مشاحن “.

حديث صحيح، روي عن جماعة من الصحابة من طرق مختلفة يشد بعضها بعضا وهم معاذ
ابن جبل وأبو ثعلبة الخشني وعبد الله بن عمرو وأبي موسى الأشعري وأبي هريرة
وأبي بكر الصديق وعوف ابن مالك وعائشة.

 عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِب رضی الله عنہ سے منسوب  روایت

ابن ماجہ کی روایت ہے

 حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ أَبِي سَبْرَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِذَا كَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَقُومُوا لَيْلَهَا وَصُومُوا نَهَارَهَا، فَإِنَّ اللَّهَ يَنْزِلُ فِيهَا لِغُرُوبِ الشَّمْسِ إِلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا، فَيَقُولُ: أَلَا مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِي فَأَغْفِرَ لَهُ أَلَا مُسْتَرْزِقٌ فَأَرْزُقَهُ أَلَا مُبْتَلًى فَأُعَافِيَهُ أَلَا كَذَا أَلَا كَذَا، حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْرُ

علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا جب شعبان کی نصف شب ہوتو رات کوقیام کرواوردن کوروزہ رکھو کیونکہ غروب آفتاب کے وقت سے ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت آسمان دنیا پرنازل ہوجاتی ہے اوراللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ‘ہے کوئی مغفرت کاطلب کرنے والاکہ میں اسے بخش دوں‘ ہے کوئی رزاق مانگنے والاکہ میں اس کورزق دوں ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اسے مصیبت سے نجات دوں‘یہ اعلان طلوع فجر تک ہوتارہتاہے۔

اس کی سند میں حدیثیں گھڑنے والا ، أبو بكر بْنِ عَبد اللَّهِ بْنِ مُحَمد بن أبي سبرة مديني  ہے جو تاریخ بغداد کے مطابق  قاضی بغداد تھا

 أبي موسى الأشعري رضی الله عنہ سے منسوب روایت

حدثنا راشد بن سعيد بن راشد الرملي حدثنا الوليد عن ابن لهيعة عن الضحاك ابن أيمن عن الضحاك بن عبد الرحمن بن عرزب عن أبي موسى الأشعري عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال إن الله ليطلع في ليلة النصف من شعبان فيغفر لجميع خلقه إلا لمشرك أو مشاحن حدثنا محمد بن إسحق حدثنا أبو الأسود النضر بن عبد الجبار حدثنا ابن لهيعة عن الزبير بن سليم عن الضحاك بن عبد الرحمن عن أبيه قال سمعت أبا موسى عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه.

تحقيق الألباني:حسن، المشكاة (1306 – 1307) ، الظلال (510) ، الصحيح (1144 و 1563) ، الرد على بليق (92

ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”اللہ تعالى پندرہویں شب مطلع ہوتے ہیں اوراپنی ساری مخلوق ماسوائے مشرک اوربغض رکھنے والے کی مغفرت فرماتے ہیں

اس کی سند میں ابن لهيعة  ہے جو سخت ضعیف ہے  دوم الضحاك بن أيمن الكلبى ہے جو مجھول ہے حیرت ہے کہ البانی اس کو حسن کہہ رہے ہیں

 عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ سے منسوب روایت

بیہقی کی کتاب شعب الایمان کی روایت ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ بِشْرانَ، أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّزَّازُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الرِّيَاحِيُّ، حَدَّثَنَا جَامِعُ بْنُ صُبَيْحٍ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا مَرْحُومُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” إِذَا كَانَ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ نَادَى مُنَادٍ: هَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَأَغْفِرَ لَهُ، هَلْ مِنْ سَائِلٍ فَأُعْطِيَهُ فَلَا يَسْأَلُ أَحَدٌ شَيْئًا إِلَّا أُعْطِيَ إِلَّا زَانِيَةٌ بِفَرْجِهَا أَوْ مُشْرِكٌ

عثمان بن ابی العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کا ارشاد ہے‘جب نصف شعبان کی  شب آتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوتا ہے۔ہے کوئی مغفرت کاطالب کہ اس کے گناہ بخش دوں‘ ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا کہ اسے عطا کروں۔اس وقت اللہ تعالیٰ سے جومانگاجائے وہ ملتاہے۔وہ سب کی دعا قبول فرماتا ہے۔سوائے بدکارعورت اورمشرک کے

شعب الایمان للبیہقی‘ جلد 3صفحہ383

اس کی سند میں جامع بن صَبِيح  ہے جس کے لئے لسان المیزان میں ہے کہ یہ ضعیف ہے
ذكره عبد الغني بن سعيد في المشتبه وقال: ضعيف

 ابو بکر صدیق رضی الله عنہ سے منسوب روایت

بیہقی ،  شعب الإيمان میں ابو بکر صدیق رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى، قَالَا: أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ هُوَ  الْأَصَمُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ خِدَاشٍ، وَأَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ، أَنَّ مُصْعَبَ بْنَ أَبِي ذِئْبٍ حَدَّثَهُ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَوْ عَنْ عَمِّهِ، عَنْ جَدِّهِ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” يَنْزِلُ اللهُ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَيَغْفِرُ لِكُلِّ شَيْءٍ إِلَّا رَجُلٍ مُشْرِكٍ أَوْ فِي قَلْبِهِ شَحْنَاءُ

دارقطنی ، موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله  کہتے ہیں کہ مصعب بن أبي ذئب  متروک ہے

 قال البَرْقانِيّ: سَمِعْتُ الدَّارَقُطْنِيّ يقول مصعب بن أبي ذئب، عن القاسم بن محمد، مدني، متروك

بیہقی جو ایک صوفی قسم کے انسان تھے انہوں نے کتاب  شعب الإيمان میں اس طرح کی روایات نقل کی ہیں اور اس بدعت کو پھیلانے میں کوئی دقیقه نہیں چھوڑا حتی کہ امام احمد اور

 امام شافعی سے منسوب اس رات کے حوالے سے بے سند اقوال تک نقل کر ڈالے ہیں

یہ تو صرف چند روایات ہیں – ضعیف روایات کا اک انبار ہے پندرہ شعبان کی رات کے حوالے سے جن پر دفتر کے دفتر بھرے جا سکتے ہیں – سوال یہ ہے کہ آخر اک اتنی اہم رات امام بخاری اور امام مسلم سے کیسے پوشیدہ رہ گئی کہ صحیحہیں میں اس رات کا عندیہ تک نہیں ملتا – بقیہ کتب اربعہ یعنی سنن ابی داود ، سنن نسائی ، جا مع الترمذ ی، سنن ابن ماجہ میں ہی کیوں یہ روایات جگہ پا سکیں تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ صحیح کے معیار کی روایات صرف امام بخاری اور امام مسلم نے ہی لکھیں ہیں بقیه نے سب طرح کی روایات جمع کیں – امداد زمنہ کے ساتھ لوگوں نے صحاح ستہ کی اصطلاح ایجاد کر لی اور یہ تصور کر لیا کہ بقیہ چار کتب میں بھی صحیح روایات ہیں

ابو ثعلبہ الخشنی رضی اللہ عنہ  کی روایت

اس روایت کی سند ضعیف ہے- سند میں موجود احوص بن حکیم ضعیف ہے۔

امام أبو حاتم الرازي  (المتوفى277)  نے کہا
الأحوص بن حكيم ليس بقوي منكر الحديث
احوص بن حکیم یہ غیر قوی اور منکرالحدیث  ہے

امام ابن معين (المتوفى233) نے کہا
لا شيء
اس کی کوئی حیثیت نہیں الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 2/ 327

امام دارقطني  (المتوفى385)  نے کہا
منكر الحديث
یہ منکرالحدیث ہے كتاب الضعفاء والمتروكين للدارقطني: ص: 6

لیکن وہابی عالم باسم بن فیصل کے مطابق عالم ناصر العقل کہتے ہیں اس راوی سے استشھاد کیا جا سکتا ہے سند صحیح ہے

مجوسیوں نے عربوں سے پہلے اپنا کلینڈر بنایا جس کو اوستا کلینڈر یا تقویم پارسیان بھی کہا جاتا ہے- اس میں سال کا آغاز ورنل اقونوقص (الاعتدال الربيعي) سے شروع ہوتا ہے

 اور اس کو نو روز کہا جاتا ہے اور موسم بہار کا آغاز ہوتا ہے – عباسی خلافت کا پہلا نو روز  سن ٧٥١ ع میں ١٧ مارچ میں آتا ہے

Vernal Equinox

http://www.timeanddate.com/calendar/seasons.html?year=750&n=751

Eqvinox

اسلامی کلینڈر میں یہ دن  شعبان ١٤ سن ١٣٣ ہجری   ہے لہذا  اسی روز  الاعتدال الربيعي ہوتا ہے

http://www.islamicfinder.org/dateConversion.php?mode=ger-hij&day=17&month=3&year=751&date_result=1

قرین قیاس ہے کہ عباسی خلیفہ السفاح کے مجوسی ہمدردوں کو خوش کرنے کے لئے نوروز کی تقریبات رات بھر کی گئیں – رات میں  مسلمانوں کو عبادت میں مشغول کر دیا گیا اور آتش پرست رات بھر جشن مناتے رہے – روایات کے متکلم فیہ راوی حجاج بن ارطاہ اور عبدللہ ابن لھیعہ بھی اس دور میں رہے ہیں اور السفاح اور المنصور کے مدح سرا تھے

ورنل اقونوقص (الاعتدال الربيعي) کی تقریبات میں شرکت اس قدر اہم تھی کہ قدیم فارسی بادشاہ کمبوجيه  دوم کو نوروز کی تقریب میں شرکت کے بعد ہی بادشاہ تسلیم کیا گیا

http://en.wikipedia.org/wiki/Nowruz

اس تاریخ کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب یہ واضح ہوتا ہے کہ عباسی خلافت کا یہ پہلا نو روز ہے

خالد بن برمك بن جاماس،  عباسی خلیفہ السفاح کے خاص وزیر تھے یہ مجوسی تھے لیکن فصيح اللسان  تھے حتی کہ السفاح  ان کو شروع میں عرب سمجھتے رہے – انہی سے  البرامكة  خاندان چلا ہے جو عباسی بیوروکریسکی میں بہت اثر رکھتا تھا  لہذا ان کو أبى  البرامكة   کہا جاتا ہے – یہ خاندان بلخ کے آتش کدہ النوبهار  البوذى کا   پروہت تھا اور اہل مجوس پر اس کا بہت اثر تھا

– یہ خاندان  مسلمان ہوا اور ہارون رشید کے دور میں بھی اثر رکھتا تھا- کتاب الموسوعة الموجزة في التاريخ الإسلامي کے مطابق   خالد بن برمك  کو السفاح نے سن ١٣٢ھ ہجری میں ديوان الخراج وديوان الجند کا قلمدان دیا

اس خاندان کے اثر و رسوخ کو دیکھتے ہوئے،  پہلے نوروز پر عباسی خلافت میں جشن منایا جانا قرین قیاس ہے

خکومت کے قاضیوں اور اماموں کی ڈیوٹی میں یہ شامل کر دیا گیا کہ نصف شعبان کی رات کی اہمیت بتائیں

عباسی خلافت میں عہدہ متکلم فیہ راوی صحابی یا صحابیات
إمام المسجد الجامع دمشق عتبة بن حماد أبو خليد  القارئ الحكمي مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ
قاضی البصرة الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ عَائِشَةَ
قاضي مصر ابن لهيعة عبد الله بن عمرو
قاضي مصر ابن لهيعة أَبِى مُوسَى الأَشْعَرِىِّ
قاضی بغداد أبو بكر بْنِ عَبد اللَّهِ بْنِ مُحَمد بن أبي سبرة علی

متروک اور جھوٹ بولنے والے راویوں کو چھوڑ کر، اسی طرح مرسلات یا منقطع روایات کو چھوڑ کر   اگر روایات کو دیکھیں تو وہ صرف پانچ صحابہ یا صحابیات سے مروی ہیں  جو ایسے راویوں نے بیان کی ہیں جو عباسی خلفاء کے منظور نظر حضرات تھے اور یہ تمام اس قدر مظبوط راوی نہیں کہ امت میں اس رات کی فضیلت کو پھیلایا جائے

السفاح کو جھوٹی روایات سے شاید کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کیونکہ مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ، قَالَ عَبْدُ اللهِ: وَسَمِعْتُهُ أَنَا مِنْ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” يَخْرُجُ عِنْدَ انْقِطَاعٍ مِنَ الزَّمَانِ، وَظُهُورٍ مِنَ الْفِتَنِ، رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ: السَّفَّاحُ، فَيَكُونُ إِعْطَاؤُهُ الْمَالَ حَثْيًا

 عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ المتوفی ٢٠١ ھ ،  ابی سعید الخدری سے روایت کرتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ زمانے کے اختتام پر فتنوں کے ظہور میں ایک شخص جس کو السفاح کہا جائے گا مال بھر بھر دے گا

 عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ قاضی بغداد اور المہدی کی فوج کے بھی قاضی تھے لیکن حدیث میں سخت مجروح ہیں ایسے درباریوں کوعباسی خلفاء خاص پسند کرتے تھے لہذا ان کو عہدے بھی دیے

بہرالحال اس بدعت کو بڑھوتی ملتی گئی کیونکہ امت میں زہد اور عبادت میں ضعیف روایات کو قبول کیا گیا جو ایک غلط عمل تھا اور بیہقی جسے صوفی منش لوگ بھی اس کے لئے رطب و یابس اکھٹا کرتے رہے

صوفی تو صوفی خود سلف کے نام نہاد متبع بھی ان بدعات میں مشغول رہے

مجموع الفتاوى  میں ابن تیمیہ کا فتوی ہے

وَسُئِلَ
عَنْ صَلَاةِ نِصْفِ شَعْبَانَ؟
فَأَجَابَ
إذَا صَلَّى الْإِنْسَانُ لَيْلَةَ النِّصْفِ وَحْدَهُ أَوْ فِي جَمَاعَةٍ خَاصَّةٍ كَمَا كَانَ يَفْعَلُ طَوَائِفُ مِنْ السَّلَفِ فَهُوَ أَحْسَنُ. وَأَمَّا الِاجْتِمَاعُ فِي الْمَسَاجِدِ عَلَى صَلَاةٍ مُقَدَّرَةٍ. كَالِاجْتِمَاعِ عَلَى مِائَةِ رَكْعَةٍ بِقِرَاءَةِ أَلْفٍ: {قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ} دَائِمًا. فَهَذَا بِدْعَةٌ لَمْ يَسْتَحِبَّهَا أَحَدٌ مِنْ الْأَئِمَّةِ. وَاَللَّهُ أَعْلَمُ.

اور سوال ہوا نصف شعبان کی نماز پر؟ پس جواب دیا

اگر ایک انسان اکیلے نصف شعبان میں نماز پڑھے یا جماعت کے ساتھ خاص جیسا کہ سلف کرتے تھے تو یہ احسن ہے اور جہاں تک مساجد میں اجتماع کا تعلق ہے کہ سو رکعات والی نماز پڑھتے ہیں جس میں ہزار دفعہ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ پڑھتے ہیں تو یہ بدعت ہے جس کی ائمہ نے تحسین نہیں کی

کتاب اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم  میں ابن تیمیہ لکھتے ہیں

ومن هذا الباب: ليلة النصف من شعبان، فقد روى في فضلها من الأحاديث المرفوعة والآثار ما يقتضي أنها ليلة مفضلة (6) وأن من السلف من ان يخصها بالصلاة فيها، وصوم شهر شعبان قد جاءت فيه أحاديث صحيحة. ومن العلماء: من السلف (1) من أهل المدينة، وغيرهم من الخلف، من أنكر فضلها، وطعن في الأحاديث الواردة فيها، كحديث: «إن الله يغفر فيها لأكثر من عدد شعر غنم كلب» (2) “. وقال: لا فرق بينها وبين غيرها.
لكن الذي عليه كثير من أهل (3) العلم، أو أكثرهم، من أصحابنا وغيرهم -على تفضيلها، وعليه يدل (4) نص (5) أحمد، لتعدد (6) الأحاديث الواردة فيها، وما يصدق ذلك من الآثار السلفية، وقد روي بعض فضائلها في المسانيد والسنن (7) . وإن كان قد وضع فيها أشياء أخر.

اور اس نصف شعبان کے باب میں تو اس کی فضیلت پر بہت سے مرفوع آثار ہیں جن سے نتیجہ نکلتا ہے کہ اس رات کی فضیلت ہے اور سلف میں سے کچھ تھے جنہوں نے نماز کے لئے اس رات کو مخصوص کیا ہوا تھا اور اس میں روزہ رکھتے اور اس پر صحیح احادیث ہیں اور سلف میں سے علماء  میں سے مدینہ کے اور دوسرے تھے جنہوں نے اس رات کا انکار کیا اور ان احادیث پر طعن کیا جو اس سلسلے میں آئیں ہیں جیسے حدیث کہ الله بنو کلب کی بھیڑوں کے بال برابر معاف کرتا ہے  اور کہا کہ اس رات میں کسی دوسری رات کے مقابلے پر کوئی فرق نہیں ہے لیکن اہل علم کی اکثریت نے جو ہمارے اصحاب میں سے ہیں اور دیگر نے اس کی فضیلت مانی ہے اور اس پر دلیل دی کہ امام احمد کی کہ تعداد احادیث سے اور تصدیق ہوئی آثار سلف سے اور ان کو روایت کیا سنن و مسانید میں 

آٹھویں صدی کے سلفی امام ابن تیمیہ بھی خود اس بدعت کا شکار تھے اور اس میں نماز پڑھنے والوں کو کہتے تھے کہ اچھا عمل کیا

الله سب کو صحیح عمل کی توفیق دے

کتب شیعہ میں نصف شعبان کی رات کا تذکرہ

وسائل الشيعة (آل البيت) – الحر العاملي – ج 3 – ص 335

باب استحباب غسل ليلة النصف من شعبان . ( 3804 ) 1 – محمد بن الحسن ، عن جماعة ، عن أبي محمد هارون بن موسى ، عن الحسين بن محمد الفرزدق القطعي ، عن الحسين بن أحمد المالكي ، عن أحمد بن هلال ، عن محمد بن أبي عمير ، عن حماد بن عثمان ، عن أبي بصير ، عن أبي عبد الله ( عليه السلام ) قال : صوموا شعبان واغتسلوا ليلة النصف منه ، ذلك تخفيف من ربكم ورحمة (

نصف شعبان کی رات غسل کا مستحب ہونا

أبي بصير ، أبي عبد الله ( عليه السلام) سے روایت کرتے ہیں کہ شعبان میں روزہ رکھو اور نصف شعبان کی رات غسل کرو یہ تمہارے رب کی جانب سے کمی اور رحمت ہے

حماد بن عثمان الکوفی المتوفی  ١٠٩ ھ  سے سننے والا  محمد بن أبي عمير ہے- شیعہ کتب میں اس کو محمد بن أبي عمر ( أبي عمرة ) ( أبي عمير) کہا گیا ہے

رجال طوسي کے مطابق محمد بن ابی عمر ثقہ ہے لیکن محمد بن أبي عمير پر کوئی معلومات نہیں ہیں

 وسائل الشيعة (آل البيت) – الحر العاملي – ج 7 – ص ٤٧٨ باب استحباب احياء ليلتي العيدين والاجتماع يوم عرفة بالأمصار للدعاء ( 9903 ) 1 – محمد بن علي بن الحسين في ( ثواب الأعمال ) عن محمد بن إبراهيم ، عن محمد بن عبد الله البغدادي ، عن يحيى بن عثمان المصري ، عن ابن بكير ، عن المفضل بن فضالة ، عن عيسى بن إبراهيم ، عن سلمة بن سليمان ، عن هارون بن سالم ، عن ابن كردوس ، عن أبيه قال : قال : رسول الله صلى الله عليه وآله من أحيا ليلة العيد وليلة النصف من شعبان لم يمت قلبه يوم يموت القلوب .

ابن كردوس اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ و الہ نے فرمایا جس نے عید کی رات اور نصف شعبان کی رات کو زندہ کیا وہ نہیں مرے گا، قبل اس دن کے، جس میں دل مر جائیں گے

اس کی سند میں هارون بن سالم  مجھول ہے معجم رجال الحدیث از الخوئی  میں اس کا ذکر تک نہیں

 وسائل الشيعة (آل البيت) – الحر العاملي – ج 8 – ص 59 – 60

باب تأكد استحباب صلاة جعفر ليلة نصف شعبان ، والاكثار فيها من العبادة خصوصا الذكر والدعاء والاستغفار ( 10089 ) 1 – محمد بن علي بن الحسين في ( عيون الأخبار ) : عن محمد بن بكران النقاش ومحمد بن إبراهيم بن إسحاق جميعا عن أحمد بن محمد الهمداني ، عن علي بن الحسن بن علي بن فضال ، عن أبيه قال : سألت علي بن موسى الرضا ( عليه السلام ) عن ليلة النصف من شعبان ؟ فيه الرقاب من النار ، ويغفر فيها الذنوب الكبار ، قلت : فهل فيها صلاة زيادة على سائر الليالي ؟ فقال : ليس فيها شئ موظف ولكن إن أحببت أن تتطوع فيها بشئ فعليك بصلاة جعفر بن أبي طالب ، وأكثر فيها من ذكر الله والاستغفار والدعاء ، فان أبي ( عليه السلام ) كان يقول : الدعاء فيها مستجاب قلت

إن الناس يقولون : إنها ليلة الصكاك ، قال : تلك ليلة القدر في شهر رمضان

 نماز جعفر نصف شعبان کی رات میں تاکید اور اس میں ذکر دعا اور استغفار کا بیان

الحسن بن علي بن فضال نے امام علي بن موسى الرضا ( عليه السلام ) سے نصف شعبان کی رات سے متعلق سوال کیا ؟ اس میں گردن آگ سے آزاد ہوتی ہیں اور بڑے گناہ بخشے جاتے ہیں- میں نے پوچھا: کیا اس میں عام راتوں سے زیادہ نماز ہے؟ پس کہا اس میں زور نہیں لیکن اگر چاہو تو نماز جعفر پڑھ لو اور بہت ذکر دعا اور استغفار کرو کیونکہ امام جعفر کہتے تھے اس میں دعائیں قبول ہوئی ہیں اور لوگ کہتے ہیں یہ ليلة الصكاك ہے جبکہ وہ تو رمضان میں ہے

سند میں علي بن الحسن بن علي بن فضال ہے- کتاب معجم رجال الحدیث از الخوئی کے مطابق

  قال النجاشي : ” علي بن الحسن بن علي بن فضال بن عمر بن أيمن مولى  عكرمة بن ربعي الفياض أبو الحسن ، كان فقيه أصحابنا بالكوفة ، ووجههم ،  وثقتهم ، وعارفهم بالحديث ، والمسموع قوله فيه . سمع منه شيئا كثيرا ، ولم يعثر له

على زلة فيه ولا ما يشينه ، وقل ما روى عن ضعيف ، وكان فطحيا ، ولم يرو عن أبيه شيئا ، وقال : كنت أقابله وسني ثمان عشر سنة بكتبه ، ولا أفهم إذ ذاك الروايات ولا أستحل أن أرويها عنه ، وروى عن أخويه ، عن أبيهما

 یہ کوفہ کے فقیہ ہیں اور ان کے ثقات میں سے ہیں اور حدیث کے جاننے والے ہیں … انہوں نے اپنے باپ سے روایت نہیں کیا .. اور یہ مناسب نہیں کہ  انہوں نے ان سے روایت کیا ہو اور یہ اپنے بھائیوں سے روایت کرتے ہیں اور وہ اپنے باپ سے

 معلوم ہوا سند منقطع ہے

   وسائل الشيعة (آل البيت) – الحر العاملي – ج 8 – ص 110

وعن سعد بن سعد ، عن الرضا ( عليه السلام ) قال : كان علي ( عليه السلام ) لا ينام ثلاث ليال : ليل ثلاث وعشرين من شهر رمضان ، وليلة الفطر ، وليلة النصف من شعبان ، وفيها تقسم الأرزاق والآجال وما يكون في السنة

 امام رضا کہتے ہیں کہ علی تین راتوں کو نہیں سوتے تھے ٢٣ رمضان کی رات، عید الفطر کی رات ، نصف شعبان کی رات

قال النجاشي :  سعد بن سعد بن الأحوص بن سعد بن مالك الأشعري القمي : ثقة ، روى عن الرضا وأبي جعفر عليهما السلام

 سعد بن سعد بن الأحوص بن سعد بن مالك الأشعري القمي امام ابی جعفر الباقر المتوفی ٥٧ ھ  اور امام رضا المتوفی ٢٠٣ ھ  دونوں سے روایت کرتے ہیں ایسی روایات اہل سنت ردی کی ٹوکری میں ڈالتے ہیں جس میں سند ہی منقطع ہو

وسائل الشيعة (آل البيت) – الحر العاملي – ج 8 – ص 109

ورواه الصدوق في كتاب ( فضائل شعبان ) : عن عبدوس بن علي الجرجاني ، عن جعفر بن محمد بن مرزوق ، عن عبد الله بن سعيد الطائي ، عن عباد بن صهيب ، عن هشام بن جبار ، عن الحسن بن علي بن أبي طالب ( 1 ) ( عليه السلام ) قال : قالت عايشة – في آخر حديث طويل في ليلة النصف من شعبان : إن رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) قال : في هذه الليلة هبط على حبيبي جبرئيل ..

 الصدوق نے  کتاب فضائل شعبان میں روایت کیا ہے کہ الحسن بن علي بن أبي طالب  ( عليه السلام ) نے عايشة سے روایت کیا جس میں طویل حدیث میں نصف شعبان کا ذکر ہے کہ بے شک رسول الله صلی الله علیہ و اله نے کہا اس رات میں  جبریل آئے اور ایک مخصوص نماز کا حکم دیا

اس کی سند میں هشام بن جبار کا کسی شیعہ کتب رجال میں ذکر نہیں

امام اپنے عالم الغیب ہونے کے باوجود کہیں بھی یہ نہیں کہہ رہے کہ یہ امام المہدی کا یوم پیدائش ہے بلکہ عباسیوں کی طرح اس  کی فضیلت بتا رہے  ہیں – سندا ایک بھی روایت صحیح نہیں

شیعہ امام المہدی کی پیدائش اور شعبان

شرح أصول الكافي – مولي محمد صالح المازندراني – ج 6 – ص 227 کی روایت ہے
الحسين بن محمد الأشعري ، عن معلى بن محمد ، عن أحمد بن محمد بن عبد الله قال : خرج عن أبي محمد ( عليه السلام ) حين قتل الزبيري لعنه الله : هذا جزاء من اجترأ على الله في أوليائه ، يزعم أنه يقتلني وليس لي عقب ، فكيف رأى قدرة الله فيه ، وولد له ولد سماه « م ح م د » في سنة ست وخمسين ومائتين .
.احمد بن محمد بن عبد الله کہتے ہیں امام ابی محمد نکلے جب الزبیری کا قتل ہوا……. اور کہا  کہ  کیسے الله کی قدرت دیکھتے ہیں کہ ان کے ہاں لڑکا پیدا ہوا جس کا نام ہو گا م ح م د جو سن ٢٥٦ ھ میں ہو گا

کتاب أعيان الشيعة – السيد محسن الأمين – ج 2 – ص 44 کے مطابق
ولد المهدي ع ليلة النصف من شعبان سنة خمس وخمسين ومائتين بسر من رأى في أيام المعتمد
المہدی کی پیدائش نصف شعبان میں سن ٢٥٥ ھ میں سر من رای میں عباسی  خلیفہ المعتمد  کے دور میں ہوئی

الذھبی  سير أعلام النبلاء میں ترجمہ  المُنْتَظَرُ أَبُو القَاسِمِ مُحَمَّدُ بنُ الحَسَنِ العَسْكَرِيُّ میں  لکھتے ہیں

وَكَانَ مَوْتُ الحَسَنِ: سَنَةَ سِتِّيْنَ وَمائَتَيْنِ

امام الحسن بن علی کی موت سن ٢٦٠ ھ میں ہوئی

معروف یہ ہے کہ امام المہدی والد کی وفات کے بعد پیدا ہوئے

یعنی پیدا ہوتے ہوتے سن ٢٦٠ ھ سے بھی اوپر جا چکا تھا

الذھبی کہتے ہیں  مورخ مُحَمَّدُ بنُ جَرِيْرٍ الطَّبرِيُّ  اور امام ابن حزم  اور يَحْيَى بنُ صَاعِدٍ کے مطابق امام الحسن کی کوئی اولاد نہیں ہوئی

کتاب وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان از ابن خلکان کے مطابق

وذكر ابن الأزرق في ” تاريخ ميافارقين ” أن الحجة المذكور ولد تاسع شهر ربيع الأول سنة ثمان وخمسين ومائتين، وقيل في ثامن شعبان سنة ست وخمسين، وهو الأصح

ابن الازرق نے کتاب تاريخ ميافارقين میں ذکر کیا ہے امام الحجہ یعنی المہدی سن ٢٥٨ ھ میں 9 ربیع الاول کو پیدا ہوئے اور کہا جاتا ہے 8 شعبان کو سن ٢٥٦ ھ میں جو اصح ہے

قارئیں آپ دیکھ سکتے ہیں امام المہدی کا سن پیدائش واضح نہیں اسی طرح مہینہ پر بھی اختلاف ہے

Bid’at

Noor-63

So let those beware who dissent from the Prophet’s order, lest fitnah strike them or a painful punishment. (Al-Noor 63)

Literally Bida’ is anything new. In context of religion Bida’ means any new act in Islam with the sense of holiness attached to it.

Bukhari reported in chapter  باب حرم المدينة :

حدثنا أبو النعمان حدثنا ثابت بن يزيد حدثنا عاصم أبو عبد الرحمن الأحول عن أنس رضي الله عنه
: عن النبي صلى الله عليه و سلم قال المدينة حرم من كذا إلى كذا . لا يقطع شجرها ولا يحدث فيها حدث من أحدث فيها حدثا فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين

Narrated Annas that Messenger of Allah peace be upon him said: Al-Medinah is a holy sanctuary from  that place till that place. Do not cut its trees and do not innovate in it. Anyone who innovates here a new thing then may the curse of Allah, His Angels and all Humankind, be on him (innovator).

Bukhari also reported in chapter باب إذا اصطلحوا على صلح جور فالصلح مردود

حدثنا يعقوب حدثنا إبراهيم بن سعد عن أبيه عن القاسم بن محمد عن عائشة رضي الله عنها قالت
 قال رسول الله صلى الله عليه و سلم  من أحدث في أمرنا هذا ما ليس فيه فهو رد

Narrated Aisha that Messenger of Allah peace be upon him said:  One who innovates in this affair (religion),  which is not from it,  then it is rejected.

Umer said: What a nice Bida’?

It is reported in Bukhari chapter

وعن ابن شهاب عن عروة بن الزبير عن عبد الرحمن بن عبد القاري أنه قال
خرجت مع عمر بن الخطاب رضي الله عنه ليلة في رمضان إلى المسجد فإذا الناس أوزاع متفرقون يصلي الرجل لنفسه ويصلي الرجل فيصلي بصلاته الرهط فقال عمر إني أرى لو جمعت هؤلاء على قارئ واحد لكان أمثل ثم عزم فجمعهم على أبي بن كعب ثم خرجت معه ليلة أخرى والناس يصلون بصلاة قارئهم قال عمر نعم البدعة هذه والتي ينامون عنها أفضل من التي يقومون يريد آخر الليل وكان الناس يقومون أوله

Abdur-Rehman bin Abdul Qari said: I went out  with Umer bin Khattab  in a night in Ramadan (and went) to Mosque (of Prophet) then (saw there) People were praying in scattered … Umer said:   if I make them  (to pray behind) on a single Qari  then that would be better then he decided that and made them  (agreed) on Ubayy Ibn Ka’b and then I went out with him the other night and people pray their Salat with (appointed) Qari (i.e. Ubbay) and Umer said Nice new thing this one ….

The context of this event is that the Prophet prayed Salat Al-Taraveh for some nights and then stopped and said that I was afraid that it would become necessary for you. After the death of Prophet, Umer started the traveh  in congregation again but that is not an innovation. And how could Umer would start something new,  when Prophet had already  warned his companions to not to innovate anything new in Islam.

It is reported in Bukhari chapter باب في الحوض

حدثني عمرو بن علي حدثنا محمد بن جعفر حدثنا شعبة عن المغيرة قال سمعت أبا وائل عن عبد الله رضي الله عنه
عن النبي صلى الله عليه و سلم قال  أنا فرطكم على الحوض وليرفعن رجال منكم ثم ليختلجن دوني فأقول يا رب أصحابي ؟ فيقال إنك لا تدري ما أحدثوا بعدك

Narrated  Abdullah  that Messenger of Allah peace be upon him said: I would be at my Hauz and some of people among you moved up towards me and then would be taken away and I would say: O Lord these are my companions?  It would be said: You are unaware of what they have innovated after you.

Prophet has also said (Sahih Bukhari):

وشر الأمور محدثاتها

and the worst acts are the innovations

In Sahih Muslim it is reported that Prophet said:

وشر الأمور محدثاتها وكل بدعة ضلالة

The worst acts are the innovations and all new things are (leading towards) astray

It is reported in Musnad Ahmed that:

حدثنا عبد الله حدثني أبي قال قرأت على عبد الرحمن بن مهدي مالك عن نعيم بن عبد الله المجمر عن على بن يحيى الزرقي عن أبيه عن رفاعة بن رافع الزرقي قال : كنا نصلى يوما وراء رسول الله صلى الله عليه و سلم فلما رفع رسول الله صلى الله عليه و سلم رأسه من الركعة وقال سمع الله لمن حمده قال رجل وراءه ربنا لك الحمد حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه فلما انصرف رسول الله صلى الله عليه و سلم قال من المتكلم آنفا قال الرجل أنا يا رسول الله فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم لقد رأيت بضعة وثلاثين ملكا يبتدرونها أيهم يكتبها أولا

Narrated Rafaa’ bin Rafay that we prayed behind the  Messenger of Allah peace be upon him when he raised his head from Ruku and said Hears Allah one who prasied him, said a person behind O our Lord praise thee utmost praise, the good one, bountyful one when Prophet finished the prayer he said who was the sayer ?  A man said: I  am (the sayer), O Messenger of Allah. Prophet said: I saw thirty and similar Angels proceeding quickly to write these first.

It is extracted from this narration that Prophet had probably not commanded that and even then Allah liked these words.  But this is a sporadic event in Prophet’s lifetime and there are other events in Prophet’s lifetime which Prophet disliked.

حدثنا أبو معمر حدثنا عبد الوارث عن عبد العزيز بن صهيب عن أنس بن مالك رضي الله عنه قال
: دخل النبي صلى الله عليه و سلم فإذا حبل ممدود بين الساريتين فقال ( ما هذا الحبل ) . قالوا هذا حبل لزينب فإذا فترت تعلقت فقال النبي صلى الله عليه و سلم  لا حلوه ليصل أحدكم نشاطه فإذا فتر فليقعد

Narrated Annas that Prophet peace be upon him entered the Mosque and saw a rope streched between the pillars . He inquired What is this rope? Said: It is the rope for Zaynab, when she feels tired,  she holds it.  Prophet said: Not good for anyone among you to pray with such activity, so when you  feel tired then sit.

Now the Prophet is not among us and we cannot innovate new things in religion based on any special event.

There is a long list of Innovations or Biddah in Islam. The worst of those is Tasawuff developed after 100 AH and onwards. A book on Tasawuff is added for the perusal of reader