قران اللہ کا کلام ہے اور متعدد بار قرآن میں آیات کو کلام اللہ کہا گیا ہے – کلام اللہ تعالی کرتا ہے تو کسی بھی زبان میں کر سکتا ہے – مثلا موسی علیہ السلام سے کلام کیا تو یا تو وہ ال فرعون کی زبان تھی یا بنی اسرائیل کی زبان تھی کیونکہ دونوں سے ہی موسی علیہ السلام واقف تھے
معتزلہ نے یہ موقف لیا کہ اللہ تعالی کلام نہیں کرتا کیونکہ کلام کرنا ان کے نزدیک انسانوں کا یا مخلوق کا کام ہے اور اسی طرح حواس خمسہ والی کوئی صفت نہیں رکھتا یعنی نہ وہ سنتا ہے نہ وہ دیکھتا ہے بس وہ علم رکھتا ہے اس بنا پر انہوں نے السمیع و البصیر والی آیات کو بھی بدلنا شروع کر دیا تھا
اسی سے ملتا جلتا موقف آجکل بعض لوگوں نے باطل موقف اپنا لیا ہے کہ قرآن الوحی ہے مخلوق ہے
اس پر ان لوگوں کا رد کیا گیا تو انہوں نے یہ شوشہ گھڑا کہ امام بخاری کا عقیدہ یہ تھا کہ قرآن مخلوق ہے – یہ صریح کذب ہے اور تاریخ کو اپنے مقصد کے لئے مسخ کرنا ہے اور ساتھ ہی ظاہر کرتا ہے کہ ان لوگوں کو اس کا علم نہیں کہ یہ انکشاف کسی شارح حدیث کو بھی نہیں ہوا کہ امام بخاری کا عقیدہ قرآن کو مخلوق کہنے کا ہے
– – صدیوں سے یہ معروف چلا آ رہا ہے کہ امام بخاری قرآن کو غیر مخلوق کہتے تھے
اس بات کو تنظیم سے چھپنے والے لٹریچر میں بھی بیان کیا گیا ہے دیکھئے واتقوا اللہ
https://www.islamic-belief.net/wp-content/uploads/2013/09/WattaqullahQist06-part2.pdf
صفحہ 24 دیکھیں
اس بات سے کہ امام الذھلی کے نام پر تدلیس کی گئی ہے تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ صحیح بخاری امام بخاری کی آخری تصنیف ہے
اور وہ بات جس پر نیشاپور جھگڑا ہوا وہ یہی تھا کہ امام بخاری کے نزدیک قرآن اللہ کا کلام غیر مخلوق ہے اور اس کی تلاوت مخلوق ہے
امام بخاری نے کہیں نہیں لکھا کہ انہوں نے اپنی پچھلی کتب سے رجوع کر لیا ہے- ساتھ ہی ڈاکٹر عثمانی کی کوئی ایسی تحریر و تقریر نہیں جس میں ہو کہ ان کی تحقیق کے مطابق امام بخاری نے اپنی تمام کتب سے رجوع کر لیا تھا سوائے صحیح البخاری کے – اگر ایسا ڈاکٹر صاحب کا موقف ہوتا تو ان کے جائز نہ تھا کہ اپنی کتاب ایمان خالص دوم میں تاریخ الکبیر از امام بخاری کے حوالے دیتے جو صحیح البخاری سے پہلے کی کتاب ہے
فرق صرف اتنا ہے کہ صحیح میں وہ روایات جو امام بخاری کے نزدیک صحیح السند ہیں جبکہ دیگر کتب میں ضعیف و صحیح دونوں طرح کی ہیں – حبل اللہ شمارہ سات میں ڈاکٹر شفیق کو جواب دیتے عثمانی نے لکھا
اس کی وضاحت ڈاکٹر صاحب نے اس طرح کی کہ اگر امام بخاری نے کوئی ضعیف روایت کسی کتاب میں لکھ دی ہے البتہ اس پر ان کا عقیدہ ثابت نہیں ہے تو محض سندا روایت بیان کرنے کی وجہ سے ان کا رد و کفر نہیں ہو گا فتوی نہیں لگے گا – البتہ کتاب خلق الافعال العباد میں امام بخاری نے متعدد بار کہا ہے قرآن غیر مخلوق ہے –
امام ابو عبداللہ البخاری نے کہا : قرآن کی حرکات ، اس کی آواز قرات اور اس کو حاصل کرنا اور اس کو لکھنا یہ مخلوق ہے – پس جہاں تک قرآن متلو مبین جو مصحف میں ہے لکھا ہوا اور مکتوب ہے اور دلوں میں ہے وہ کلام اللہ ہے خلق شدہ نہیں ہے – اللہ تعالی نے کہا : بلکہ یہ آیات واضح ہیں ان لوگوں کے دلوں میں جن کو علم دیا گیا ہے
اپنی کتاب خلق افعال میں امام بخاری نت باب قائم کیا اور لکھا
بَابُ مَا كَانَ النَّبِيُّ يَسْتَعِيذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ لَا بِكَلَامِ غَيْرِهِ وَقَالَ نُعَيْمٌ: «لَا يُسْتعَاذُ بِالْمَخْلُوقِ، وَلَا بِكَلَامِ الْعِبَادِ وَالْجِنِّ وَالْإِنْسِ، وَالْمَلَائِكَةِ وَفِي هَذَا دَلِيلٌ أَنَّ كَلَامَ اللَّهِ غَيْرُ مَخْلُوقٍ، وَأَنَّ سِوَاهُ مَخْلُوقٌ»
باب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کے کلمات سے پناہ مانگی ہے نہ کہ کسی اور کلام سے اور نعیم نے کہا مخلوق پر نہیں ہے کہ بندوں یا جنات یا انس یا فرشتوں کے کلام سے پناہ طلب کرے اور یہ دلیل ہے کہ کلام اللہ غیر مخلوق ہے اور اس کے سوا مخلوق ہے
اسی طرح امام بخاری نے مزید لکھا
اور بے شک اللہ تعالی پکارتا ہے آواز سے جس کو دور والا بھی سنتا ہے جیسا قریب والا سنتا ہے اور کسی غیر اللہ کے کلام میں ایسا نہیں ہے – امام ابو عبد اللہ بخاری نے کہا : اور یہ دلیل ہے کہ اللہ کی آواز مخلوق جیسی نہیں اور فرشتے اس کی اوز سے غش کھا کر گر جاتے ہیں مخلوق کی آواز ایسی نہیں
امام بخاری نے کہا: اگر تیرا دعوی ہے کہ تو اللہ کا کلام لوگوں کو اس طرح سناتا ہے جیسا اللہ نے اپنا کلام موسی کو سنایا (اللہ تعالیٰ نے موسی سے کہا کہ بے شک میں تیرا رب ہوں) تو یہ رب ہونے کا دعوی ہے جبکہ تو فرق نہ کرے اپنی قرأت اور اللہ کے کلام کے درمیان
امام بخاری تاریخ الکبیر میں لکھتے ہیں
سَمِعَ سُفْيَانَ بْن عُيَينة، قَالَ: أدركتُ مشيختنا، منذ سبعين سنة، منهم عَمرو بْن دينار، يَقُولُون: القرآن كلام اللَّه، وَلَيْسَ بمخلوقٍ.
سَمِعَ مُعاوية بْن عَمّار، عَنْ جَعفر بْن مُحَمد، قَالَ: القرآن كلام اللهِ، لَيْسَ بمخلوقٍ
اب کسی کے نزدیک امام بخاری کے تمام جملے کفر ہیں تو اس کو امام بخاری پر فتوی دینا ہو گا کیونکہ الفاظ قرآن غیر مخلوق سے رجوع کے الفاظ امام بخاری سے منقول نہیں ہیں
راقم کہتا ہے کہ امام بخاری کا عقیدہ خلق قرآن کے حوالے سے درست منہج پر ہے اور اسی کو اہل سنت نے قبول کیا ہے – باقی اس کے مخالف اہل سنت میں نہ کوئی گروہ رہا ہے نہ عالم گزرا ہے لہذا یہ کہنا کہ قرآن کے منزل میں اللہ الفاظ اور الوحی جو جبریل لائے وہ مخلوق کا کلام ہے جھمیہ و معتزلہ کا مذھب ہے
جھمی جاہل سعید اور اس کے چیلے اصف خان کو کوئی روایت ملی ہے تو یہ ہے
صحیح بخاری میں حدیث ہے
حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، حدثنا الليث، عن سعيد، عن ابيه، عن ابي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ما من الانبياء نبي إلا اعطي من الآيات ما مثله، اومن او آمن عليه البشر، وإنما كان الذي اوتيت وحيا اوحاه الله إلي، فارجو اني اكثرهم تابعا يوم القيامة”.
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”انبیاء میں سے کوئی نبی ایسا نہیں جن کو نشانیاں نہ دی گئی ہوں جن کے مطابق ان پر ایمان لایا گیا یا انسان ایمان لائے اور مجھے جو دیا گیا ہے وہ وحی ہے جو الله نے میری طرف کی (یعنی قرآن ) ، پس میں امید کرتا ہوں کہ قیامت کے دن شمار میں تمام انبیاء سے زیادہ پیروی کرنے والے میرے ہوں گے
اس روایت میں کہاں ہے کہ قرآن مخلوق ہے؟؟؟؟؟؟؟
پھر دوبارہ نگاہ کر تیری طرف نگاہ ناکام لوٹ آئے گی اور وہ تھکی ہوئی ہوگی۔
اس روایت میں سرے سے ایسا کچھ نہیں ہے کہ منزل من اللہ کتاب کو مخلوق کہا جائے – پھر مزید یہ کہ ان لوگوں کے نزدیک خبر واحد صحیح سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا
قَالَ حُذَيْفَةُ: مَنْ احْتَجَّ بِالقُرْآنِ فَقَدْ أَفْلَحَ
حُذَيْفَةُ رضی اللہ عنہ نے کہا جس نے قرآن سے دلیل لی وہ فلاح پا گیا
راقم کہتا ہے قرآن سے دلیل پیش کی جائے کہ قرآن مخلوق ہے و أمر صعب
امام أبي موسى الأشعري (المتوفى: 324هـ) کتاب الإبانة عن أصول الديانة میں کہتے ہیں
ومن قال: إن القرآن غير مخلوق، وإن من قال بخلقه كافر من العلماء، وحملة الآثار، ونقلة الأخبار، وهم لا يحصون كثرة، ومنهم: حماد، والثوري وعبد العزيز بن أبي سلمة، ومالك بن أنس رضي الله عنه، والشافعي رضي الله عنه وأصحابه، وأبو حنيفة، وأحمد بن حنبل، ومالك رضي الله عنهم، والليث بن سعد رضي الله عنه، وسفيان بن عيينة، وهشام، وعيسى بن يونس، وجعفر ابن غياث، وسعيد بن عامر، وعبد الرحمن بن مهدي، وأبو بكر بن عياش، ووكيع، وأبو عاصم النبيل، ويعلى بن عبيد، ومحمد بن يوسف، وبشر ابن الفضل، وعبد الله بن داود، وسلام بن أبي مطيع، وابن المبارك، وعلي بن عاصم، وأحمد
بن يونس، وأبو نعيم، وقبيصة بن عقبة، وسليمان بن داود، وأبو عبيد القاسم بن سلام، ويزيد بن هارون، وغيرهم
اور وہ جنہوں نےکہا قرآن غیر مخلوق ہے اور اس کومخلوق کہنے والا کافر ہے ان میں علماء ہیں جو آثار بیان کرتے ہیں اور خبریں اور ان علماء کی تعداد بے شمار ہے اور ان میں ہیں حماد، والثوري وعبد العزيز بن أبي سلمة، ومالك بن أنس رضي الله عنه، والشافعي رضي الله عنه وأصحابه، وأبو حنيفة، وأحمد بن حنبل، ومالك رضي الله عنهم، والليث بن سعد رضي الله عنه، وسفيان بن عيينة، وهشام، وعيسى بن يونس، وجعفر ابن غياث، وسعيد بن عامر، وعبد الرحمن بن مهدي، وأبو بكر بن عياش، ووكيع، وأبو عاصم النبيل، ويعلى بن عبيد، ومحمد بن يوسف، وبشر ابن الفضل، وعبد الله بن داود، وسلام بن أبي مطيع، وابن المبارك، وعلي بن عاصم، وأحمد بن يونس، وأبو نعيم، وقبيصة بن عقبة، وسليمان بن داود، وأبو عبيد القاسم بن سلام، ويزيد بن هارون اور دیگر
نہ صرف یہ کہ امام بخاری کا مذھب قرآن کو غیر مخلوق کہنے کا ہے بلکہ یہی مذھب امام ابو حنیفہ اور امام مالک کا بھی ہے
حنفی فقہ کی کتاب البحر الرائق شرح كنز الدقائق جس کا حوالہ ڈاکٹر عثمانی نے بھی دیا ہے جس کے مؤلف: زين الدين بن إبراهيم بن محمد، المعروف بابن نجيم المصري (المتوفى: 970هـ) وہ لکھتے ہیں
الْقُرْآنُ كَلَامُ اللَّهِ تَعَالَى غَيْرُ مَخْلُوقٍ وَلَا مُحْدَثٍ قرآن اللہ کا کلام ہے اور مخلوق نہیں ہے نہ بنایا گیا ہے
جوابا جھمی نے کہا
جھمی جلد ( ننگے جمہی ) نے یہ اگلا کہ امام بخاری کا عقیدہ غلط بتایا جا رہا ہے انہوں نے قرآن کو نشانی کہا ہے
جبکہ اس جھمی جاہل کو یہ تک معلوم نہیں کہ قرآن کا ایک ایک جملہ اللہ تعالی نے خود آیت یعنی نشانی کہا ہے اور اس کو کلام اللہ بھی کہا ہے اور اس کو عربی میں اپنا کلام بھی کہا ہے
یقینا قرآن ایک معجزہ ہے اور اللہ کی نشانی ہے اس کا کلام ہے – لیکن قرآن مخلوق ہے؟ ایسا اللہ تعالی یا اس کے رسول نے کہیں نہیں کہا یہی وجہ ہے کہ جمہی اور معتزلی عقائد دنیا سے معدوم ہوئے کیونکہ ان کے پاس قرآن سے کوئی دلیل نہیں تھی جس سے ثابت کر سکیں کہ آسمان سے نازل ہونے والا اللہ کا کلام مخلوق ہے
قرآن کی تو یہ صفت ہے کہ اگر پہاڑ پر نازل ہو جاتا تو وہ اللہ کے خوف سے لرز جاتا – کیا کسی مخلوق کا ایسا اثر ہے پہاڑ پر ؟ ہرگز نہیں یہ اللہ تعالی کے کلام کی ہی صفت ہے کسی مخلوق کی یہ صفت نہیں
جمہی نے کہا
سورہ الاسراء میں ارشاد باری ہے
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ فَسْـــَٔلْ بَنِىْۤ اِسْرَاۤءِيْلَ اِذْ جَاۤءَهُمْ فَقَالَ لَهٗ فِرْعَوْنُ اِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰمُوْسٰى مَسْحُوْرًا
اس میں کہاں لکھا ہے کہ یہ نشانیاں موسی کا کمال تھا ؟ جو بات ہی اللہ کے حکم سے ہو رہی ہو اس کو مخلوق کا عمل کیسے کہا جا سکتا ہے ؟ کیا موسی علیہ السلام کے علم میں تھا کہ وہ جب چاہے نشانی لا سکتے ہیں ؟ ایسا تو خود موسی کے علم میں نہیں جو یہ جھمی کا دعوی ہے
معجزہ وہ نشانی ہے جو کافر کو دکھائی جاتی ہے جس طرح آفاق و انفس کو بھی نشانی کہا جاتا ہے اسی طرح یہ بھی ایک اللہ کے وجود کی نشانی ہے – بعض جاہل جہمیوں نے عطائی عقیدہ اختیار کر لیا ہے کہ اللہ نے اپنی معجزہ کرنے کی صفت یعنی القادر میں سے کچھ حصہ انبیاء کو دے دیا ہے – لفظ نشانی سے جھمی نے یہ اخذ کر لیا ہے کہ انبیاء کا عمل ہے ان کا ذاتی کرشمہ ہے جو صریح جھل و افتری ہے
جاہل جھمی نے نہ صرف دیدہ دلیری سے امام بخاری کو ہم عقیدہ قرار دیا اورتو اور ڈاکٹر عثمانی پر بھی جھوٹا الزام لگا دیا کہ ان کا عقیدہ صحیح احادیث پر منبی نہیں تھا – جھمی نے کہا
در حالنکہ ڈاکٹر عثمانی نے لکھا
ڈاکٹر صاحب نے نہ صرف اخبار احاد یعنی صحیح روایات سے دلیل لی بلکہ اس سے برزخی جسم کے عقیدے کا پرچار بھی کیا اور اس پر صحیح مسلم کی حدیث بھی پیش کی – قابل غور ہے کہ جھمی نے برزخی جسم کے عقیدے پر کافی تکرار کی تھی اور اس کوعقیدہ ماننے سے انکار کر دیا تھا
عقیدہ وہی ہے جس کا انسان پرچار کرتا ہے -افسوس اس شخص نے گمراہی پھیلائی اور عثمانی صاحب کو حدیث رسول کا مخالف بنا پر پیش کیا – کتنی ہی صحیح احادیث ہیں جو سنن سعید بن منصور میں ہیں ، مسند ابو یعلی میں ہیں لیکن اس جھمی کے بقول عثمانی صاحب نے ان صحیح احادیث پر اپنا عقیدہ استوار نہ کیا تھا – یہ کذب صریح ہے اور آنکھوں میں دھول جھوکنے کے مترادف ہے
عثمانی صاحب اگر صحیح احادیث پر عقیدہ نہیں رکھتے تھے وہ یہ نہ کہتے
کیا خبر واحد کا انکار کرنے والا کافر ہے ؟ صحیح احادیث جو ڈاکٹر عثمانی نے اپنی کتاب میں پیش کی ہیں وہ اخبار احاد ہیں – اگر ان کا انکار جائز ہے تو ان کا انکار کرنے والے لوگ کافر کیسے ہوئے ؟
اس سے قبل جھمی نے اپنے متعدد عقائد کا اظہار کیا مزید دیکھئے