Category Archives: معجزہ – miracle

القرآن کلام اللہ غیر مخلوق

قران   اللہ کا کلام  ہے  اور  متعدد   بار  قرآن  میں   آیات کو کلام اللہ کہا گیا  ہے – کلام اللہ تعالی   کرتا ہے  تو کسی بھی زبان میں  کر سکتا ہے –  مثلا  موسی علیہ السلام سے  کلام  کیا  تو  یا تو وہ  ال فرعون کی زبان تھی یا بنی اسرائیل کی زبان تھی  کیونکہ دونوں سے ہی موسی علیہ السلام  واقف  تھے

معتزلہ  نے یہ  موقف  لیا کہ اللہ تعالی کلام نہیں  کرتا کیونکہ  کلام  کرنا  ان کے  نزدیک انسانوں  کا یا مخلوق کا کام ہے اور   اسی طرح  حواس خمسہ والی کوئی  صفت نہیں رکھتا  یعنی  نہ وہ سنتا ہے نہ وہ دیکھتا ہے بس وہ علم رکھتا ہے  اس بنا پر انہوں نے السمیع  و البصیر  والی  آیات  کو بھی بدلنا شروع کر دیا تھا

اسی سے ملتا جلتا  موقف   آجکل  بعض  لوگوں نے باطل موقف  اپنا لیا ہے کہ  قرآن   الوحی  ہے مخلوق  ہے

اس  پر ان لوگوں  کا رد کیا  گیا  تو انہوں نے یہ شوشہ  گھڑا  کہ امام  بخاری  کا عقیدہ  یہ تھا کہ قرآن  مخلوق ہے – یہ صریح  کذب ہے اور تاریخ کو  اپنے مقصد کے  لئے  مسخ کرنا ہے اور ساتھ ہی ظاہر  کرتا ہے کہ ان لوگوں  کو اس کا علم  نہیں کہ  یہ انکشاف کسی  شارح حدیث کو بھی نہیں ہوا کہ  امام  بخاری  کا عقیدہ   قرآن کو مخلوق  کہنے  کا ہے

 – –  صدیوں  سے یہ  معروف چلا آ رہا ہے کہ امام بخاری  قرآن کو غیر مخلوق کہتے  تھے

اس بات کو تنظیم  سے چھپنے والے لٹریچر میں بھی بیان کیا گیا ہے دیکھئے واتقوا اللہ

https://www.islamic-belief.net/wp-content/uploads/2013/09/WattaqullahQist06-part2.pdf

 

صفحہ 24 دیکھیں

اس  بات سے  کہ امام الذھلی کے نام  پر تدلیس  کی گئی ہے تو یہ ظاہر  کرتا ہے کہ صحیح  بخاری امام بخاری کی آخری  تصنیف  ہے

اور وہ بات  جس پر نیشاپور  جھگڑا ہوا  وہ  یہی تھا کہ امام بخاری کے نزدیک  قرآن  اللہ کا کلام غیر مخلوق ہے اور  اس کی تلاوت  مخلوق ہے

امام   بخاری  نے کہیں  نہیں لکھا کہ انہوں نے اپنی پچھلی  کتب سے رجوع کر لیا ہے-  ساتھ  ہی ڈاکٹر عثمانی  کی کوئی ایسی  تحریر  و تقریر نہیں جس میں  ہو  کہ ان کی تحقیق کے مطابق  امام  بخاری  نے  اپنی  تمام کتب سے رجوع  کر لیا تھا سوائے صحیح البخاری کے – اگر ایسا  ڈاکٹر  صاحب  کا موقف  ہوتا تو  ان کے جائز نہ تھا کہ اپنی کتاب ایمان خالص دوم  میں  تاریخ الکبیر از  امام  بخاری  کے حوالے دیتے جو صحیح   البخاری سے  پہلے کی کتاب ہے

فرق  صرف اتنا ہے کہ صحیح  میں وہ روایات جو  امام بخاری کے نزدیک صحیح السند ہیں  جبکہ دیگر  کتب میں ضعیف و صحیح دونوں طرح کی ہیں –  حبل اللہ شمارہ سات میں ڈاکٹر  شفیق  کو جواب دیتے  عثمانی نے لکھا

اس  کی وضاحت ڈاکٹر صاحب  نے اس طرح کی کہ اگر امام بخاری  نے  کوئی ضعیف روایت کسی کتاب میں لکھ دی ہے  البتہ  اس پر ان کا عقیدہ ثابت   نہیں ہے تو محض سندا  روایت  بیان کرنے کی وجہ سے ان کا رد و کفر  نہیں ہو گا فتوی نہیں لگے گا – البتہ  کتاب خلق الافعال  العباد  میں   امام بخاری نے  متعدد بار  کہا ہے قرآن غیر مخلوق ہے

امام  ابو عبداللہ  البخاری  نے کہا :  قرآن کی حرکات ، اس کی آواز قرات اور اس کو حاصل کرنا اور اس کو لکھنا یہ مخلوق ہے – پس جہاں تک قرآن  متلو مبین جو مصحف میں ہے  لکھا ہوا اور مکتوب ہے اور دلوں میں ہے وہ کلام اللہ ہے خلق شدہ نہیں ہے  – اللہ تعالی نے کہا : بلکہ یہ آیات واضح ہیں ان لوگوں کے دلوں میں جن کو علم دیا گیا ہے

اپنی کتاب  خلق افعال  میں امام بخاری نت باب قائم کیا اور لکھا

بَابُ مَا كَانَ النَّبِيُّ يَسْتَعِيذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ لَا بِكَلَامِ غَيْرِهِ وَقَالَ نُعَيْمٌ: «لَا يُسْتعَاذُ بِالْمَخْلُوقِ، وَلَا بِكَلَامِ الْعِبَادِ وَالْجِنِّ وَالْإِنْسِ، وَالْمَلَائِكَةِ وَفِي هَذَا دَلِيلٌ أَنَّ كَلَامَ اللَّهِ غَيْرُ مَخْلُوقٍ، وَأَنَّ سِوَاهُ مَخْلُوقٌ»

باب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کے کلمات سے  پناہ مانگی  ہے  نہ کہ کسی  اور کلام سے اور نعیم  نے  کہا  مخلوق  پر نہیں ہے کہ بندوں یا جنات یا انس یا فرشتوں کے  کلام سے  پناہ طلب کرے اور یہ دلیل  ہے کہ کلام اللہ غیر مخلوق ہے  اور اس کے سوا مخلوق ہے

اسی طرح  امام بخاری نے مزید لکھا

اور بے شک اللہ تعالی  پکارتا ہے آواز سے جس  کو دور والا بھی سنتا ہے جیسا  قریب والا سنتا ہے  اور کسی غیر اللہ کے کلام میں ایسا نہیں ہے  – امام  ابو عبد اللہ بخاری نے کہا :  اور یہ دلیل  ہے کہ اللہ کی آواز مخلوق جیسی نہیں اور فرشتے اس کی اوز سے غش  کھا  کر گر جاتے ہیں مخلوق کی آواز  ایسی نہیں

 امام بخاری  نے  کہا: اگر تیرا دعوی ہے کہ تو اللہ کا کلام لوگوں کو اس طرح سناتا ہے جیسا اللہ نے اپنا کلام موسی کو سنایا (اللہ تعالیٰ نے موسی سے کہا کہ بے شک میں تیرا رب ہوں) تو یہ رب ہونے کا دعوی ہے جبکہ تو فرق نہ کرے اپنی قرأت اور اللہ کے کلام کے درمیان

امام   بخاری  تاریخ  الکبیر  میں  لکھتے  ہیں

سَمِعَ سُفْيَانَ بْن عُيَينة، قَالَ: أدركتُ مشيختنا، منذ سبعين سنة، منهم عَمرو بْن دينار، يَقُولُون: القرآن كلام اللَّه، وَلَيْسَ بمخلوقٍ.

سَمِعَ مُعاوية بْن عَمّار، عَنْ جَعفر بْن مُحَمد، قَالَ: القرآن كلام اللهِ، لَيْسَ بمخلوقٍ

اب کسی کے نزدیک امام  بخاری  کے تمام جملے  کفر ہیں تو اس کو امام بخاری  پر فتوی دینا  ہو  گا کیونکہ الفاظ  قرآن غیر مخلوق سے رجوع   کے الفاظ امام بخاری سے منقول نہیں ہیں

راقم  کہتا ہے کہ امام  بخاری کا عقیدہ خلق قرآن کے حوالے سے  درست  منہج پر ہے اور اسی کو اہل سنت نے قبول کیا ہے – باقی اس کے مخالف  اہل سنت میں نہ کوئی گروہ رہا ہے نہ عالم گزرا ہے لہذا یہ   کہنا کہ قرآن کے منزل میں اللہ الفاظ اور الوحی  جو جبریل لائے  وہ مخلوق کا کلام ہے  جھمیہ و معتزلہ   کا مذھب  ہے

جھمی  جاہل  سعید  اور اس کے چیلے اصف  خان کو کوئی روایت  ملی ہے تو یہ  ہے

صحیح بخاری میں حدیث ہے

حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، حدثنا الليث، عن سعيد، عن ابيه، عن ابي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ما من الانبياء نبي إلا اعطي من الآيات ما مثله، اومن او آمن عليه البشر، وإنما كان الذي اوتيت وحيا اوحاه الله إلي، فارجو اني اكثرهم تابعا يوم القيامة”.

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”انبیاء میں سے کوئی نبی ایسا نہیں جن کو نشانیاں نہ دی گئی ہوں جن کے مطابق ان پر ایمان لایا گیا یا انسان ایمان لائے اور مجھے جو دیا گیا ہے وہ وحی ہے جو الله نے میری طرف کی (یعنی قرآن ) ، پس میں امید کرتا ہوں کہ قیامت کے دن شمار میں تمام انبیاء سے زیادہ  پیروی کرنے والے میرے ہوں گے

اس روایت میں کہاں ہے کہ  قرآن  مخلوق ہے؟؟؟؟؟؟؟

پھر دوبارہ نگاہ کر تیری طرف نگاہ ناکام لوٹ آئے گی اور وہ تھکی ہوئی ہوگی۔

اس روایت میں سرے سے ایسا کچھ نہیں ہے کہ منزل  من اللہ  کتاب کو مخلوق کہا جائے – پھر مزید یہ کہ  ان لوگوں کے نزدیک   خبر واحد صحیح سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا

قَالَ حُذَيْفَةُ: مَنْ احْتَجَّ بِالقُرْآنِ فَقَدْ أَفْلَحَ

حُذَيْفَةُ رضی اللہ عنہ  نے کہا جس نے قرآن سے دلیل لی وہ فلاح پا گیا

راقم کہتا ہے قرآن سے دلیل پیش کی جائے  کہ قرآن  مخلوق ہے  و أمر صعب

امام أبي موسى الأشعري (المتوفى: 324هـ) کتاب الإبانة عن أصول الديانة میں کہتے ہیں

ومن قال: إن القرآن غير مخلوق، وإن من قال بخلقه كافر من العلماء، وحملة الآثار، ونقلة الأخبار، وهم لا يحصون كثرة، ومنهم: حماد، والثوري وعبد العزيز بن أبي سلمة، ومالك بن أنس رضي الله عنه، والشافعي رضي الله عنه وأصحابه، وأبو حنيفة، وأحمد بن حنبل، ومالك رضي الله عنهم، والليث بن سعد رضي الله عنه، وسفيان بن عيينة، وهشام، وعيسى بن يونس، وجعفر ابن غياث، وسعيد بن عامر، وعبد الرحمن بن مهدي، وأبو بكر بن عياش، ووكيع، وأبو عاصم النبيل، ويعلى بن عبيد، ومحمد بن يوسف، وبشر ابن الفضل، وعبد الله بن داود، وسلام بن أبي مطيع، وابن المبارك، وعلي بن عاصم، وأحمد
بن يونس، وأبو نعيم، وقبيصة بن عقبة، وسليمان بن داود، وأبو عبيد القاسم بن سلام، ويزيد بن هارون، وغيرهم

اور وہ جنہوں نےکہا قرآن غیر مخلوق ہے اور اس کومخلوق  کہنے والا کافر ہے ان میں علماء ہیں جو آثار بیان کرتے ہیں اور خبریں اور ان علماء کی تعداد بے شمار ہے اور ان میں ہیں حماد، والثوري وعبد العزيز بن أبي سلمة، ومالك بن أنس رضي الله عنه، والشافعي رضي الله عنه وأصحابه، وأبو حنيفة، وأحمد بن حنبل، ومالك رضي الله عنهم، والليث بن سعد رضي الله عنه، وسفيان بن عيينة، وهشام، وعيسى بن يونس، وجعفر ابن غياث، وسعيد بن عامر، وعبد الرحمن بن مهدي، وأبو بكر بن عياش، ووكيع، وأبو عاصم النبيل، ويعلى بن عبيد، ومحمد بن يوسف، وبشر ابن الفضل، وعبد الله بن داود، وسلام بن أبي مطيع، وابن المبارك، وعلي بن عاصم، وأحمد بن يونس، وأبو نعيم، وقبيصة بن عقبة، وسليمان بن داود، وأبو عبيد القاسم بن سلام، ويزيد بن هارون اور دیگر

نہ صرف یہ کہ  امام   بخاری   کا مذھب  قرآن کو غیر  مخلوق  کہنے  کا ہے  بلکہ یہی  مذھب امام ابو حنیفہ  اور امام مالک کا بھی ہے

حنفی فقہ کی کتاب البحر الرائق شرح كنز الدقائق جس کا حوالہ ڈاکٹر عثمانی نے بھی دیا ہے جس کے مؤلف: زين الدين بن إبراهيم بن محمد، المعروف بابن نجيم المصري (المتوفى: 970هـ) وہ لکھتے ہیں

الْقُرْآنُ كَلَامُ اللَّهِ تَعَالَى غَيْرُ مَخْلُوقٍ وَلَا مُحْدَثٍ     قرآن اللہ کا کلام ہے اور مخلوق نہیں ہے نہ بنایا گیا ہے

جوابا  جھمی  نے کہا

جھمی جلد ( ننگے  جمہی )    نے   یہ  اگلا  کہ  امام   بخاری  کا عقیدہ غلط  بتایا  جا رہا ہے  انہوں  نے قرآن کو نشانی  کہا ہے

جبکہ اس  جھمی جاہل کو  یہ تک معلوم نہیں کہ قرآن  کا ایک ایک جملہ  اللہ تعالی نے خود  آیت  یعنی نشانی  کہا ہے اور اس کو کلام  اللہ بھی کہا ہے اور اس کو  عربی میں  اپنا کلام  بھی کہا ہے

یقینا قرآن  ایک   معجزہ  ہے اور  اللہ کی نشانی  ہے اس کا کلام ہے –  لیکن قرآن   مخلوق ہے؟   ایسا اللہ تعالی یا اس کے رسول نے   کہیں نہیں  کہا    یہی وجہ ہے  کہ جمہی اور  معتزلی  عقائد  دنیا سے معدوم  ہوئے  کیونکہ   ان کے پاس قرآن سے کوئی دلیل نہیں   تھی  جس سے ثابت  کر سکیں  کہ    آسمان سے نازل  ہونے  والا اللہ کا کلام  مخلوق ہے

قرآن کی تو یہ صفت  ہے کہ اگر  پہاڑ  پر نازل  ہو  جاتا تو  وہ اللہ کے خوف  سے  لرز جاتا – کیا  کسی  مخلوق کا ایسا اثر  ہے پہاڑ   پر ؟  ہرگز  نہیں  یہ اللہ  تعالی کے کلام کی ہی صفت  ہے    کسی  مخلوق کی یہ صفت  نہیں

جمہی نے  کہا

سورہ الاسراء میں ارشاد  باری ہے

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ فَسْـــَٔلْ بَنِىْۤ اِسْرَاۤءِيْلَ اِذْ جَاۤءَهُمْ فَقَالَ لَهٗ فِرْعَوْنُ اِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰمُوْسٰى مَسْحُوْرًا

اس میں کہاں  لکھا  ہے کہ یہ نشانیاں موسی  کا کمال  تھا ؟  جو بات ہی اللہ کے حکم سے ہو رہی ہو  اس کو مخلوق  کا عمل  کیسے کہا جا سکتا ہے ؟ کیا موسی علیہ السلام کے علم میں تھا کہ وہ جب چاہے نشانی لا سکتے ہیں ؟ ایسا تو خود موسی کے علم میں نہیں   جو یہ جھمی کا دعوی ہے

معجزہ  وہ نشانی  ہے جو کافر کو دکھائی  جاتی ہے  جس طرح آفاق و انفس کو بھی نشانی کہا جاتا ہے  اسی طرح یہ بھی ایک اللہ کے وجود کی نشانی ہے – بعض  جاہل جہمیوں  نے  عطائی  عقیدہ اختیار  کر لیا ہے  کہ اللہ نے اپنی  معجزہ  کرنے کی صفت یعنی  القادر میں سے کچھ حصہ  انبیاء کو دے دیا ہے – لفظ   نشانی سے جھمی  نے  یہ اخذ  کر لیا ہے کہ  انبیاء کا عمل ہے ان کا ذاتی کرشمہ ہے جو صریح جھل و افتری ہے

جاہل  جھمی  نے  نہ صرف دیدہ  دلیری سے  امام  بخاری کو  ہم عقیدہ قرار دیا اورتو اور ڈاکٹر عثمانی  پر بھی  جھوٹا الزام  لگا دیا کہ ان کا عقیدہ صحیح احادیث پر منبی نہیں تھا  – جھمی  نے کہا

در حالنکہ   ڈاکٹر  عثمانی  نے  لکھا

ڈاکٹر صاحب  نے نہ صرف  اخبار  احاد  یعنی صحیح  روایات سے دلیل لی بلکہ اس سے  برزخی جسم  کے عقیدے  کا  پرچار  بھی کیا اور اس پر صحیح مسلم کی حدیث بھی پیش کی –  قابل غور ہے کہ  جھمی نے برزخی جسم کے عقیدے  پر کافی تکرار کی تھی اور اس کوعقیدہ  ماننے سے انکار  کر دیا تھا

عقیدہ وہی ہے جس کا انسان  پرچار کرتا ہے -افسوس اس شخص نے  گمراہی  پھیلائی اور  عثمانی صاحب کو حدیث رسول کا مخالف بنا پر پیش کیا – کتنی ہی صحیح احادیث ہیں جو  سنن سعید بن منصور میں ہیں ، مسند ابو یعلی  میں ہیں لیکن اس  جھمی کے بقول  عثمانی صاحب نے ان صحیح احادیث پر اپنا عقیدہ استوار نہ کیا تھا – یہ کذب صریح ہے اور آنکھوں میں دھول جھوکنے  کے مترادف  ہے

عثمانی صاحب اگر صحیح احادیث پر عقیدہ نہیں رکھتے تھے وہ یہ نہ کہتے

کیا  خبر واحد  کا انکار کرنے والا  کافر ہے  ؟   صحیح احادیث جو  ڈاکٹر عثمانی نے اپنی کتاب میں پیش کی ہیں وہ  اخبار  احاد ہیں   – اگر ان کا انکار جائز ہے تو ان کا انکار  کرنے والے   لوگ  کافر کیسے  ہوئے ؟

اس سے قبل جھمی  نے اپنے  متعدد عقائد  کا اظہار کیا  مزید  دیکھئے

قدمونی قدمونی پر ایک نظر

ایک معتزلی کی تقریر پر تبصرہ ‏

قرن دوم میں   انکار حدیث سے منسلک ایک فرقہ معتزلہ  تھا   اس کے بعض سرخیل کو عباسی خلافت  میں قرب خلیفہ ملا اور انہوں نے ایک کلامی  مسئلہ  گھڑا – اس مسئلہ   کے مطابق  قرآن  ، کلام اللہ نہیں بلکہ   اللہ تعالی کی  مخلوق کی مد میں سے ہے

اس فرقہ کے خلاف اہل سنت کے علماء کھڑے ہوئے اور انہوں نے اس عقیدے کا صریح رد کیا – ان کا رد کرنے والوں میں امام بخاری پیش پیش تھے اور امام بخاری نے ضروری سمجھا کہ اس پر باقاعدہ ایک کتاب تالیف کریں جس کا نام انہوں نے رکھا

خلق الافعال العباد

بندوں کے عمل کی تخلیق

امام بخاری کے نزدیک  قرآن   یہ الوحی ہے اور الوحی مخلوق نہیں  البتہ  قرآن کی قرات  مخلوق ہے

امام  بخاری  نے  اس کتاب میں  بار بار  اس قول کی  تکرار کی ہے کہ قرآن  مخلوق نہیں ہے – کتاب  کا آغاز ہی  اس جملے سے کیا

باب : اہل  علم  نے  معطلہ کے  حوالے سے  کیا ذکر کیا  جو  کلام  اللہ کو  بدلنا چاھتے ہیں

سفیان  نے  کہا  میں  اپنے شیوخ سے ملا جن میں  عمرو بن دینار بھی ہیں سب  کہتے  ہیں قرآن کلام اللہ ہے اور مخلوق نہیں ہے

امام بخاری  نے امام  ابن مبارک  کا قول  نقل کیا

ابن مبارک  نے  کہا  جو یہ کہے کہ   قرآن کی آیت  اننی  آنا اللہ لا الہ الا انا مخلوق ہے تو وہ کافر  ہے اور  مخلوق  کے لئے جائز نہیں کہ ایسا کہے

صحیح بخاری میں حدیث ہے

حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، حدثنا الليث، عن سعيد، عن ابيه، عن ابي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ما من الانبياء نبي إلا اعطي من الآيات ما مثله، اومن او آمن عليه البشر، وإنما كان الذي اوتيت وحيا اوحاه الله إلي، فارجو اني اكثرهم تابعا يوم القيامة”.

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”انبیاء میں سے کوئی نبی ایسا نہیں جن کو نشانیاں نہ دی گئی ہوں جن کے مطابق ان پر ایمان لایا گیا یا انسان ایمان لائے اور مجھے جو دیا گیا ہے وہ وحی ہے جو الله نے میری طرف کی (یعنی قرآن ) ، پس میں امید کرتا ہوں کہ قیامت کے دن شمار میں تمام انبیاء سے زیادہ  پیروی کرنے والے میرے ہوں گے

بعض جاہلوں نے اس روایت سے اخذ کیا ہے کہ معجزہ مخلوق ہے جبکہ اس روایت میں سرے سے ایسا کچھ بھی نہیں ہے – قرآن اپنی بلاغت کی بنا پر معجزہ ہے- اس کی سی سورت آج تک کوئی نہیں بنا سکا – اس کو حفظ کیا جا سکتا ہے – دنیا کی دوسری کتب کے لئے یہ ممکن نہیں ہے – یہ سب نشانیاں ہیں کہ قرآن من جانب اللہ ہے – اور اللہ اس الوحی کے ذریعہ  سے نازل کیے جانے والے قرآن  کی حفاظت کر رہا ہے

قابل غور ہے کہ الوحی تو تمام انبیاء و رسل  پر کی گئی ہے – بغیر الوحی کے کوئی بھی نبی و رسول کہلا ہی نہیں سکتا – یہاں بتایا گیا ہے  پچھلے  انبیاء کی نشانیاں ان کے دور تک ہی تھیں لیکن   ہمارے رسول پر  الوحی   کی جانے والی کتاب  قیامت تک رہے گی اور موجب ہدایت رہے گی – اس طرح یہ ایک عظیم نشانی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سچے نبی تھے

اس حدیث سے کند ذہن  لوگوں نے اخذ  کیا ہے کہ  اس حدیث  میں قرآن کو مخلوق کہا گیا ہے – حاشا للہ – ایسا ہرگز نہیں ہے – قرآن  الوحی ہوا تمام امت کو ملا  اور ہم اس کی تلاوت کرتے ہیں تو اس طرح یہ کتاب یا روشن آیات ہمارے  گھروں میں بھی پڑھی جاتی ہیں یعنی اللہ کی یہ نشانی  گھر گھر آ گئی ہے کہ وہ حق و باطل کو جان سکتے ہیں

 

پس منظر

قصہ مختصر چند سال قبل محمد حنیف نے ایک تحریر شائع کی جس میں اس نے دعوی کیا کہ اللہ تعالی نے  اپنی صفت

عیسیٰ علیہ السلام کو عطا کر دی ملاحظہ ہو اس پر حنیف کی اہل حق کی جانب سے پکڑ کی گئی کہ  یہ سب شرک کے دفاع کی باتیں ہیں  –  اللہ کی صفات میں کوئی شریک نہیں-اس پر محمد حنیف اور اس کے بعض  حواریوں نے اس صفت باری تعالی کی یہ تاویل کرنا شروع کر دی کہ صفات باری کو ہی مخلوق قرار دینا شروع کر دیا اور بعض نے صفت  کے لفظ  کو لغوی صفت کہنا شروع کر دیا کہ یہ محض عیسیٰ کی  صفت  ہے – جبکہ جس طرح اس قوت الاحیاء الموتی پر تبصرہ کیا گیا ہے اس کو اللہ کا خاص  فیصلہ بنا پر پیش کیا ہے کہ اللہ جو چاہے رہے اور یہاں تک کہ اپنی صفت کسی کو دے دے تو اس پر اللہ سے سوال نہیں کیا جا سکتا ، اس سے ظاہر ہے حنیف اینڈ کمپنی کا مدعا تھا کہ اللہ تعالی کی صفت الحی انہوں نے عیسیٰ کو دے دی تھی –  یاد رہے  کہ اسی قسم کا عقیدہ بریلویوں کا ہے کہ اللہ تعالی نے علم غیب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیا ہے  اور اگر وہ بھی اس کو اللہ کی مرضی قرار دے کر بات ختم کرتے ہیں

اللہ تعالی بلا شبہ جو چاہے کرے لیکن اس نے سورہ کہف میں  کہا ہے

ولا يشرك في حكمه أحدا

وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا

اور یہ بھی بتایا کہ عیسیٰ کا مردوں کا زندہ کرنا اصل میں اللہ کا حکم ہے

وَ مَا کَانَ لِرَسُوۡلٍ اَنۡ یَّاۡتِیَ بِاٰیَۃٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہ

اور کسی رسول کا یہ ( مقدور ) نہ تھا کہ کوئی معجزہ اللہ کی اجازت کے بغیر لا سکے

یعنی معجزہ اصل میں اللہ کے حکم سے ہے  اور یہ انبیاء کی قوت نہیں کہ کچھ بھی کر سکیں

اس پر محمد حنیف کے جدید  کٹر حواری سعید احمد نے یہ  عقیدہ لیا کہ کہ قرن دوم کے فرقے معتزلہ کا عقیدہ  صحیح تھا اور تمام معجزات انبیاء کو بھی انبیاء کا عمل کہنا شروع کر دیا گویا کہ اللہ تعالی نے ان کو یہ اخیتار تفویض کر دیا ہو-  اس طرح رافضی مفوضہ جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کے اماموں کے پاس زمین کا کنٹرول ہے اسی طرح کا عقیدہ بنایا گیا  کہ عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوت سے  مردوں کو زندگی بخشی

سعید معتزلی کے چیلے آصف خان الجہمی جدید  نے موقف اپنایا کہ کہ  حنیف  نے توبہ کی  ہے

جبکہ حنیف مردار ہو  چکا ہے اور اس کی کوئی توبہ معلوم نہیں ہے – جہمی اصف کے گھر کی گواہی اس میں شامل ہے کہ توبہ کا کوئی  لفظ معلوم نہیں ہے – حنیف نے اپنے الفاظ کی تاویل کر کے اپنے شرک کو چھپایا ہے اور اسی پر مومنوں  کو اعتراض ہے شرک کی تاویل نہیں کی جا سکتی –

جھمی  اصف  نے   اپنی دلیل میں امام بخاری  کا   ذکر کیا

اسی قسم کا سوال جب  ڈاکٹر عثمانی سے ہوا تھا کہ انہوں نے تمام ان محدثین پر فتوی کیوں نہیں لگایا جنہوں نے عود روح کی روایت لکھی  ہے تو ان  کا جوابا کہنا تھا

کیا امام بخاری نے کہیں  لکھا ہے  کہ ان کا عقیدہ  اس ادب مفرد  کی  روایت پر ہے ؟ ہرگز نہیں

اس حوالے سے ایک  معتزلی  جدید سعید احمد کی تقریر پر راقم کی رائے پوچھی گئی  جس میں اس شخص نے اہل سنت سے الگ  اپنے معتزلی  عقائد کا برملا اظہار کیا اور ان پر شدت اختیار کی

سعید   احمد     کی    معتزلی  تقریر پر تبصرہ

سعید نے کہا
2:40
الله اپنی صفت دیتا ہے تو اللہ صوفی میں حلول کرتا ہے

١٦:٢٨
اللہ اپنی صفت کسی کو نہیں دیتا – دینے کا طلب ہے کہ اس نے اپنا وجود دے دیا

تبصرہ
یہ کسی بھی تصوف کی کتاب میں نہیں ہے – صوفیا کے نزدیک تو اللہ مخلوق میں موجود ہے جس کو وحدت الوجود کہتے ہیں
اور اس میں تمام مخلوق شامل ہے – سعید لوگوں کی ذہن سازی کر رہا ہے کہ اگر ہم عقیدہ رکھیں کہ اللہ صفت مخلوق (عیسیٰ ) کو دیتا ہے تو اس قول کو قبول کرنے سے ہم مشرک نہ ہوں گے کیونکہ صوفیا کا مذھب ہمارے مذھب سے الگ ہے

سعید نے کہا

12:30
اللہ کی صفت کا مقابلہ مخلوق سے نہیں کیا جا سکتا
١٦:٠٠
اللہ کا سمیع و بصیر ہونا

تبصرہ

یہ ڈوج دے رہا ہے کیونکہ اللہ ایک انسان کی طرح سمیع و بصیر نہیں ہے
اللہ نے اپنے اپ کو
السمیع و البصیر
کہا ہے

اللہ نے اپنے اپ کو العلی بھی کہا ہے
اور علی ایک صحابی کا نام بھی ہے

لیکن ال عربی میں جب اتا ہے تو وہ اس کو باقی اسماء سے الگ کر دیتا ہے

اس  کا مقصد یہ  کہنے   کا یہ ہے کہ  اس موقف ہے کہ اللہ الحیی  نے اپنی  مردہ کرنے کی  ایک  صفت   کو مخلوق کی  شکل میں عیسیٰ کو دے دیا –  اس طرح اس کے نزدیک   سورہ المائدہ کی  آیت کی تاویل  ہو جاتی ہے کہ

وَاِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتٰى بِاِذْنِىْ

اور جب تم نے مردوں  کو  نکالا   میرے   اذن   سے

سعید نے کہا

١٧:٠٠
حنیف نے لکھا کہ اللہ تعالی نے عیسیٰ کو صفت دی تو حنیف کو اس میں مغالطہ ہوا وہ معجزے کو اللہ کی صفت سمجھا
معجزے اللہ کی صفت نہیں ہے
معجزہ اللہ خلق کرتا ہے

تبصرہ

معجزہ غیر اللہ کی صفت ممکن نہیں ہے

وَ مَا کَانَ لِرَسُوۡلٍ اَنۡ یَّاۡتِیَ بِاٰیَۃٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہ
اور کسی رسول کا یہ ( مقدور ) نہ تھا کہ کوئی معجزہ اللہ کی اجازت کے بغیر لا سکے

یعنی معجزہ صرف اللہ کے حکم سے ہی ممکن ہے
جو چیز صرف اللہ ہی کر سکتا ہو کوئی اور نہیں وہی اللہ کی صفت کہی جاتی ہے
اگر معجزہ اللہ کے حکم سے نہیں تو اس کا مطلب ہے معجزہ اللہ نے نہیں بلکہ انبیاء نے کیا اور انبیاء سے کہیں بھی یہ دعوی نہیں کیا کہ یہ سب کمالات ان کی کاوش سے ہوئے ہیں

سعید نے کہا

١٩:٠٠
معجزہ اللہ کی صفت نہیں ہے
معجزہ کو اللہ کی صفت کہنا شرک ہے
معجزہ اللہ کی خلق ہیں

تبصرہ

معجزہ کا لفظ قرآن و حدیث میں نہیں ہے معجزہ کی تعریف ہے
اللہ کا ایسا فعل جو قانون قدرت سے الگ ہو اتنا بڑا ہو کہ انسانی عقل کو معلوم ہو کہ انسان کے بس میں نہیں ہے
اس کو معجزہ کہتے ہیں

سانپ کو لکڑی میں واپس بدلنا موسی کا عمل ہے یا یہ اللہ کا حکم ہے ؟ ظاہر ہے یہ اللہ کے حکم سے ہے
جب یہ عظیم بات حکم اللہ کی وجہ سے ہو تو اس کام کو مخلوق کا عمل نہ کہا جائے گا
اس کو اللہ تعالی کی نشانی کہا جائے گا

سعید نے کہا

١٩:٢٥
اللہ نے موسی کو نو نشانی عطا کیں

٢٩:٢٥
معجزہ اللہ کا فعل ہے اور فعل کیا ہے
اللہ کا امر

کن فیکون ہے

تبصرہ
سورہ الاسرا میں ہے

وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا مُوسَىٰ تِسْعَ ءَايَٰتٍ بَيِّنَٰتٍۢ
ہم نے موسی کو نو نشانیاں دیں

عطا کا لفظ عربی کا ہے لیکن قرآن میں آیت اللہ دینے پر یہ نہیں آیا – عطا کا ترجمہ کر سکتے ہیں
ایسا دینا کہ اس پر مکمل کنٹرول اس شخص کا ہو جائے جس کو عطا ہوا
لیکن یہاں لفظ ءَاتَيْنَا ہے جس کو مطلب دینا ہے  لیکن یہ عطا کے مفہوم پر نہیں ہے- یہ
dedicate
کے مفہوم پر ہے

یعنی یہ نو نشان ال فرعون کے لئے ہیں ان کو دیکھائی  جائیں گی –   موسی کا اس پر کوئی کنٹرول نہیں تھا
اور یہ بات ال فرعون کو بھی معلوم تھی وہ کہتے موسی اپنے رب سے دعا کر
یعنی قرآن میں واضح کیا گیا کہ موسی کا ان آیت پر کوئی کنٹرول نہیں تھا
جو بھی تھا وہ اللہ کے حکم سے ہو رہا تھا
لہذا ان نو نشان کی اابتداء اللہ کے امر یعنی حکم سے ہوتا ہے

اگر معجزہ اللہ کا امر ہے کن فیکون ہے تو یہ اللہ کا حکم ہے جو غیر مخلوق ہے

یہ تو بنیادی بحث ہے جو کام صرف اللہ ہی کر سکتا ہو کوئی اور نہیں کوئی حکم صرف اللہ ہی کر سکتا ہو کوئی اور نہیں  تو وہ غیر اللہ کی صفت نہیں ہے

بحث اس پر ہوئی چاہے کہ کس طرح ہوا ؟ تو ظاہر ہے معجزہ الله کے امر و حکم سے ہوا

اس کے نتیجے میں اگر کچھ نیا خلق ہوا تو وہ مخلوق ہے
مثلا موسی کا عصا سانپ بن گیا تو سانپ مخلوق ہے

لیکن سانپ معجزہ نہیں ہے – لاٹھی کا سانپ میں کے وجود میں بدلنا معجزہ ہے

یہی اللہ کی نشانی ہے کہ اس نے حکم دیا اور لکڑی ایک زندہ شی میں بدل گئی
اینڈ پروڈکٹ سانپ ہے لیکن ہم اینڈ پروڈکٹ کو نہیں دیکھ رہے ہم تو اس کمال کو معجزہ کہتے ہیں یا
process
کو معجزہ کہتے ہیں

اگر کوئی جاہل
process
کی بجائے
اینڈ پروڈکٹ
یعنی سانپ کو معجزہ کہے
تو اس سے سوال کیا جائے کہ سانپ تو انسان پالتے ہیں ہندو ان کو دودھ پلاتے ہیں
یہ ال فرعون کے پاس بھی ہوں گے
تو سانپ کو معجزہ کس نے کہا ہے
کوئی متکلم و محقق نہیں گزرا جس نے اینڈ میں ببنے والی مخلوق کو معجزہ کہا ہو

بعض اوقات معجزہ ہوا اور کوئی نئے چیز نہیں بنتی مثلا انسان مرا – عیسیٰ نے اللہ کے حکم سے زندہ کر دیا
اب اس کو عیسیٰ کا معجزہ اس تناظر میں کہا جاتا ہے کہ ان کی قوم کو اللہ کا یہ کمال و معجزہ و آیت دکھائی گئی
نہ کہ عیسیٰ کو قوت الاحیا الموتی مل گئی – اسی طرح اللہ نے چاند کو توڑا  اور پھر جوڑا   – اس میں کوئی  نیا نہیں بنا –  لیکن یہ جو سب ہوا یہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے نہیں ہوا  بلکہ انہوں نے  بس اس بات کی پیشگی خبر  قریش  کو کی –

جو بھی شخص معجزہ کو  محض   مخلوق  کے تحت لے گا وہ گمراہ ہو گا اور دوسروں کو بھی کرے گا

قرآن میں لفظ آیت بولا گیا ہے – متکلمین نے انسانوں کو سمجھانے معجزہ کا لفظ استعمال کیا ہے
یعنی عقل کو عجز یا کمزور کرنے والا اللہ کا فعل و حکم
اس میں اللہ خلق و حکم دونوں کرتا ہے

اللہ کے رسول صرف اس کی خبر کرتے ہیں کہ فلاں پہاڑ سے اوٹنی نکلے گی
یعنی چٹان ، گوشت و خون میں بدلے گی
اس میں پہاڑ کو حکم کیا جا رہا ہے گوشت میں بدلے
نتیجتا اینڈ پروڈکٹ اوٹنی نکلتی ہے

تبدیلی کا عمل ہے جو پہاڑ نے کیا
انسانی عقل عاجز ہو گی
اس    کو ہم معجزہ کہہ رہے ہیں

قرآن اس کو آیت اللہ کہتا ہے
بس اتنا ہمارے لئے کافی ہے

سعید نے کہا
٢٩:٣٠
پورے قرآن میں معجزے کو کہیں نہیں لکھا کہ یہ اللہ کی صفت ہے

تبصرہ
صفت کا لفظ غیر قرانی غیر قریشی ہے
امام ابن حزم کے مطابق اس کا استعمال بھی حرام ہے

ہم کو اسماء اللہ کا بتایا گیا ہے اور جو کام صرف اللہ کرتا ہو وہی اس کا اسم ہے
قرآن میں ہے
قل إنما الآيات عند الله
سورہ الانعام
کہو آیات اللہ (معجزات)، اللہ کی طرف سے ہیں

جن باتوں کو نسبت صرف اللہ کی طرف ہو وہ اس کا اسم ہیں
اور یہ اللہ کے نام
القادر کے تحت ہے
کہ وہ جو چاہتا ہے کر سکتا ہے

نبی یا مخلوق جو چاہتی نہیں کر سکتی ٠ ان کو حکم رب کا انتظار کرنا پڑتا ہے

لہذا یہ بے تکی تان کرنا کہ قرآن میں معجزہ کو صفت نہیں کھا گیا معنی چست؟ قرآن میں نہ تو صفت کا لفظ ہے
نہ معجزے کا لہذا ان دونوں کو ہٹا کر اگر سمجھیں تو یہ سب اسما الحسنی نے تحت سمجھنا ہو گا کہ اصل میں اللہ القادر ہے
وہ نبی کی قوم کو اپنی نشانی دکھاتا ہے
ایک چیز کو دوسری سے بدل کر
یا مردہ کو زندہ کر کے
وغیرہ

سعید نے کہا
٣٤:٠٠
پورے قرآن میں اللہ کے اذن کی definition
نہیں ہے
تو ہم کیسے اس پر بحث کریں گے ؟

تبصرہ
تو سعید کیوں معجزے پر بحث کر رہا ہے
جو ہے ہی اللہ کے اذن کے تحت ؟

سعید نے کہا
٣٩:٠٠

اللہ نے قرآن کو عربی زبان میں بنایا ہے
یعنی اللہ نے عربی میں قرآن تخلیق کیا ہے

اللہ نے اپنے کلام کو عربی میں کنورٹ کر کے نازل کیا

تبصرہ
بلا شبہ زبان مخلوق ہے
لیکن جب اللہ اس زبان میں کلام کرے تو وہ کلام، کلام اللہ ہے
اور مخلوق نہیں ہے

سعید کے مطابق قرآن مخلوق کی مد میں ہے
اب یہ ایک عظیم مسئلہ ہے امام بخاری نے اس پر مکمل کتاب لکھی
خلق افعال العباد
کہ قرآن کلام الله ہے غیر مخلوق ہے
اس کی تلاوت جو انسان یا نبی یا فرشتہ کرتا ہے وہ مخلوق ہے

جو تمام زبانوں کو جانتا ہے یعنی اللہ ، اس کو
convert
کرنے کی خبر سعید کو کس نے دی
یعنی اللہ نے کسی ایسی زبان میں کلام کیا جو صرف اس کو معلوم تھی پھر اس نے اس کو عربی میں
convert
کیا
یہ سب علم غیب کی بات ہے یہ قرآن و حدیث میں نہیں

میری سمجھ سے باہر ہے کہ علم غیب پر نکتہ سنجی سے کیا فائدہ ہے

سعید نے کہا

40:٠٠
اللہ نے اپنا کلام لوح محفوظ میں اتارا ہے
ہم تک جو کلام اللہ پہنچا وہ مخلوق ہے

اللہ اعبرانی نہیں بولتا

ہر نبی اپنی زبان بولتا تھا لیکن اللہ کوئی اور زبان میں کلام کرتا ہے
پھر ان کو
convert
کر کے
بیان کرتا ہے

تبصرہ

یہ بات تو ظاہر ہے کہ زبانیں الگ الگ ہیں لیکن کیا اللہ عربی میں کلام نہیں کرتا ؟ اس کی خبر سعید کو کس نے دی
یہ ضرورت سے زائد کلام ہے جس پر ہم بات نہیں کرتے کیونکہ یہ علم ہماری بساط سے باہر ہے

اللہ ہر زبان میں کلام کر سکتا ہے
اس جاہل کو کس نے خبر دی کہ لوح میں کسی ایسی زبان میں لکھا ہے جس کو کوئی نہیں جانتا ہے؟

لوح محفوظ میں جو کلام اللہ ہے وہ سعید کے نزدیک غیر مخلوق ہوا

سعید کے فلسفے کا یہ جھول ہے کہ لوح جو مخلوق ہے اس میں درج قرآن اس کے نزدیک غیر مخلوق ہے اور جو زمینی کاغذ میں لکھا ہے وہ کلام اللہ نہیں بلکہ کونورٹڈ  یا ترجمہ شدہ ہے

قرآن سورہ ال عمران آیت ٤٩  میں اللہ تعالی نے خبر دی کہ مریم علیہ السلام  کو فرشتوں نے بتایا

وَرَسُولًا إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنِّي قَدْ جِئْتُكُمْ بِآيَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُمْ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنْفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللَّهِ وَأُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَأُحْيِي الْمَوْتَى بِإِذْنِ اللَّهِ وَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ

اور اسے بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجے گا ، ( وہ لوگوں سے کہے گا ) میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس نشانی لایا ہوں میں تمہارے سامنے مٹی سے ایک پر ندے کی شکل بناتا ہوں ، پھر اس میں پھونک مارتاہوں تووہ اللہ کے حکم سے واقعی پر ندہ بن جاتا ہے نیزمیں اللہ کے حکم سے پیدائشی اندھے اور کو ڑھی کو ٹھیک کرتا ہوں اور مرُدوں کو زندہ کرتا ہوں اور جو کچھ تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں ذخیرہ کرتے ہو سب تمہیں بتلا دیتاہوں اگر تم ایمان لانے والے ہو تو تمہارے لئے ان باتوں میں نشانی ہے

اس آیت سے بعض لوگوں نو دلیل لی کہ عیسیٰ علیہ السلام کو قوت مل گئی تھی وہ یہ تمام کام خود ہی کر لیتے ہیں – ان لوگوں نے نزدیک نشانی لانے یا دینے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنی بعض صفات میں انبیاء کو اختیار دے دیا تھا کہ قوت الاحیاء الموتی کے حامل تھے – اس کو سن کر  خیال  اتا ہے کہ بر صغیر کے بریلوی فرقے کی کسی کتاب نے ان لوگوں نے یہ سب اخذ کیا ہے – راقم کو معلوم ہے کہ اپنی سابقہ زندگی میں یہ لوگ اسی فرقے سے تھے اور وہاں سے ہی اس قسم کے عقائد دین میں داخل کر رہے ہیں –  بریلوی کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو زندہ کر دیتے تھے  ان کو اس کا اختیار مل گیا تھا – یہ اختیار و عطائی  علم غیب کی سوچ البتہ   سعید   المعتزلی  سے منسلک  لوگوں میں در کر آئی ہے  کی یاد اتی ہے – بس فرق اتنا ہے کہ اپنی لفاظی سے یہ باور کرانے میں لگے ہیں کہ  یہ علم غیب کی عطا یر مردوں کو زندہ کرنے کی قوت اللہ تعالی نے عیسیٰ علیہ السلام کو دان کر دی تھی

اس طرح اپنے گھڑے باطل عقائد پر قرانی آیت پیش کرتے ہیں کہ عیسیٰ تو واقعی اس قدرت و اختیار کے مالک تھے جبکہ قرآن میں اس آیت کی تشریح سورہ المائدہ  ١١٠ کے مقام پر  اس طرح کی

اِذْ قَالَ اللّـٰهُ يَا عِيْسَى ابْنَ مَرْيَـمَ اذْكُرْ نِعْمَتِىْ عَلَيْكَ وَعَلٰى وَالِـدَتِكَۘ اِذْ اَيَّدْتُّكَ بِرُوْحِ الْقُدُسِۖ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِى الْمَهْدِ وَكَهْلًا ۖ وَاِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْاِنْجِيْلَ ۖ وَاِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّيْنِ كَهَيْئَةِ الطَّيْـرِ بِاِذْنِىْ فَـتَنْفُخُ فِيْـهَا فَتَكُـوْنُ طَيْـرًا بِاِذْنِىْ ۖ وَتُبْـرِئُ الْاَكْمَهَ وَالْاَبْـرَصَ بِاِذْنِىْ ۖ وَاِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتٰى بِاِذْنِىْ ۖ وَاِذْ كَفَفْتُ بَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ عَنْكَ اِذْ جِئْتَـهُـمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالَ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْـهُـمْ اِنْ هٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِيْنٌ 

جب اللہ کہے گا کہ اے مریم کے بیٹے عیسیٰ! میرا احسان یاد کر جو تجھ پر اور تیری ماں پر ہوا ہے، جب میں نے پاک روح سے تیری مدد کی، تو لوگوں سے بات کرتا تھا گود میں اور ادھیڑ عمر میں، اور جب میں نے تجھے کتاب اور حکمت اور تورات اور انجیل سکھائی، اور جب تو مٹی سے جانور کی صورت میرے حکم سے بناتا تھا پھر تو اس میں پھونک مارتا تھا تب وہ میرے حکم سے اڑنے والا ہو جاتا تھا، اور مادر زاد اندھے کو اور کوڑھی کو میرے حکم سے اچھا کرتا تھا، اور جب مردوں کو میرے حکم سے نکال کھڑا کرتا تھا، اور جب میں نے بنی اسرائیل کو تجھ سے روکا جب تو ان کے پاس نشانیاں لے کر آیا پھر جو ان میں کافر تھے وہ کہنے لگے کہ یہ تو بس صریح جادو ہے

آیت کے قرآن میں کئی مطلب ہیں

یہ علامت کے لئے بھی اتا ہے

قوله تعالى: {وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ} البقرة: 248.

ان کے نبی نے کہا کہ اس کی مملکت کی علامت یہ ہے کہ اس میں تابوت تم کو واپس ملے گا جس میں تمھارے رب کی طرف سے  سکون ہے

یہ عبرت کے لئے بھی استعمال ہوا ہے
والآية كذلك العبرة، كما قال تعالى: {لَقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِلسَّائِلِينَ (7)} يوسف: 7، أي أمور وعبر مختلفة.

یوسف اور اس کے بھائیوں کے قصے میں سائل کے لئے نشان (عبرت) ہے

یہ معجزہ کے لئے بھی ہے
وتطلق الآية على المعجزة، قال تعالى: {وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ آيَةً وَآوَيْنَاهُمَا إِلَى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينٍ (50)} المؤمنون: 50.

اور ہم نے ابن مریم اور اس کے بیٹے کو نشانی بنا دیا

یعنی مریم بن شوہر کے ماں بن گئیں اور عیسیٰ بن باپ کے پیدا ہو گئے   – یہ اہل کتاب مومنوں کے لئے حیرت کی وجہ تھی کہ یہ نہ ممکن تھا لیکن ہوا

یہ زمینی عجائب کے لئے بھی ہے

وآيات الله أي: عجائبه: وهي الآيات الكونية والدلائل، المقصودة في قوله تعالى: {وَفِي خَلْقِكُمْ وَمَا يَبُثُّ مِنْ دَابَّةٍ آيَاتٌ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ (4)} الجاثية: 4، وقوله سبحانه: {سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ} فصلت: 53.

اور عربی میں یہ  جماعت کے لئے بھی استعمال ہوتا  ہے  ويراد بها الجماعة: يقال: خرج القوم بآيتهم أي: بجماعاتهم

آیت مطلب نشان ، علامات ، عجائب  ہیں – متاخرین نے اس کا ایک نام معجزہ بھی کر دیا ہے اور اردو میں یہ اکثر استعمال ہوتا ہے

اب سوال یہ ہے کہ نشانی قوت النبی ہے یا اللہ کے حکم سے ہے ؟ تو قرآن میں اس کا واضح جواب ہے کہ انبیاء میں کسی کو یہ اختیار نہ تھا کہ نشانی لا سکتا اور عیسیٰ سے بھی یہ کہا گیا کہ یہ باذن اللہ یعنی اللہ کے حکم ہو رہا ہے – سورہ المائدہ کی آیت  سے یہ بالکل واضح ہے کہ مردے کو زندہ کرنا  عیسیٰ کا خود کا  ذاتی عمل نہ تھا کہ اس کو قوت عیسیٰ کہا جا سکے

رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کفار پر مٹی پھینکی اور وہ بھکر گیا بھاگ گیا – اللہ تعالی نے تبصرہ میں فرمایا

وما رميت اذ رميت ولكن الله رمى

وہ مٹی تم نے نہیں پھینکی ، جب پھینکی تھی بلکہ وہ اللہ نے پھینکی تھی

رسول اللہ صلی اللہ کا یہ معجزہ تھا کہ مسلمانوں نے دیکھا کہ انہوں نے مٹی پھینکی  اور کافر بھاگ گئے لیکن اللہ نے اس عمل کو اپنی طرف منسوب کیا – اس طرح ہم کو تعلیم دی گئی کہ معجزات انبیاء اصل میں سب اللہ کے حکم سے ہو رہے ہیں بظاہر تو لگ رہا ہے موسی نے عصا مارا  لیکن اصل میں موسی کا اس میں کوئی کمال نہیں  اللہ کی جانب سے سمندر کو حکم ملا اور وہ پھٹ گیا

اس طرح ہم انبیاء کو ملنے والی آیات کی شرح کرتے ہیں

ولقد آتینا موسی تسع آیات بینات۔ سورۃ بنی اسرائیل ایۃ 101.  ۔ اور یقینا ہم نے موسیٰ کو نو واضح نشانیاں دیں

اس آیت سے بعض فاتر العقل لوگوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ موسی علیہ السلام کو ان نو نشانوں کو کرنے کی قوت مل گئی تھی – وہ اپنے عصا کو سانپ بنا سکتے تھے ، طوفان لا سکتے تھے – ہاتھ چمکا سکتے تھے – سمندر پھاڑ سکتے تھے

جبکہ اللہ تعالی نے ان نو نشانیوں کو قرآن میں قوت موسی کے طور پر بیان نہیں کیا بلکہ ان کو  کرشمہ الہی کے طور کر پیان کیا ہے

اس فاتر العقل شخص نے کہا

موسیٰ علیہ السلام کا عصا معجزاتی تھا اور یہ مخلوق ہے اسکا سانپ بن جانا اژدھا بن جانا معجزہ ہے اور مخلوق ہے۔

راقم کہتا ہے موسی کا عصا ، سانپ یقینا مخلوق ہیں لیکن یہ قوت نہ تو عصا میں ہے نہ موسی میں کہ اپنے عصا کو سانپ بنا سکیں

اس فاتر العقل شخص نے مزید کہا

معجزہ مخلوق پر ظاھرو رونما ہوتا ہے۔ یاد رکھیں اللہ کی الوہی صفات مخلوقات پر ظاھر و رونما نہیں ہوتیں

راقم اس پر کہتا ہے کہ معجزہ  یقینا اللہ کے حکم سے ہوتا ہے اور مخلوق پر ظاہر بھی ہوتا ہے – اللہ الخالق ہے جو چاہے خلق کرے اور یہ صفت تمام مخلوق دیکھ سکتی ہے  – ہر وقت اس زمین میں کچھ  خلق ہو رہا ہے – اللہ کی صفت الخالق ہونا ہے اور یہ صفت خلاقیت مخلوق  پر عیاں ہے

پھر فرشتے اللہ تعالی سے کلام کرتے ہیں ، اس کا حکم سنتے ہیں –   اللہ تو السمیع و البصیر ہے اور فرشتے باوجود مخلوق ہونے کے اس صفت کو جانتے ہیں –  لہذا یہ جملہ کہ اللہ تعالی کی صفات مخلوق نہیں ظاہر ہوتیں سمجھ سے باہر ہے – یاد رہے کہ عیسیٰ بھی اللہ کا معجزہ ہیں مخلوق نے ان کو دیکھا سنا اور ان سے تعلیم حاصل کی

معجزہ  قوت انبیاء نہیں اور نہ اس کو اس پر قدرت و اختیار حاصل تھا – اصل قدرت و اختیار اللہ تعالی کے پاس ہے

مزید  وضاحت  اس  مضمون میں ہے

نشانی کی حقیقت

نبی (ص ) کا ہاتھ سے نام مٹانا

مندرجہ ذیل تحریر راقم کی کتاب وفات النبی کا فٹ نوٹ   ہے 

صحیح بخاری کی ایک روایت ہے جس میں صلح حدیبیہ کا ذکر ہے الفاظ کا ترجمہ ہے
وَلَيْسَ يُحْسِنُ أَنْ يَكْتُبَ، فَكَتَبَ مَكَانَ رَسُولُ اللهِ
اپ صلی الله علیہ وسلم لکھنے میں اچھے نہیں تھے پس (متن صلح میں  رسول الله نے ) رَسُولُ اللهِ کے مقام پر لکھا

کتاب شرح الطيبي على مشكاة المصابيح از الطيبي (743هـ) میں ہے
قال القاضي عياض: احتج بهذا أناس علي أن النبي صلى الله عليه وسلم كتب ذلك بيده, وقالوا: إن الله تعالي أجرى ذلك علي يده, إما بأن كتب القلم بيده وهو غير عالم بما كتب, أو بأن الله تعالي علمه ذلك حينئذ, زيادة في معجزته كما علمه ما لم يعلم, وجعله تاليا بعدما لم يكن يتلو بعد النبوة, وهو لا يقدح في وصفه بالأمي.
قاضی عیاض نے کہا لوگوں نے دلیل لی ہے نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے لکھا اور کہا الله تعالی نے ان کے ہاتھ پر اس تحریر کو جاری کر دیا – جہاں تک قلم سے لکھنے کا تعلق ہے اور وہ اس سے لا علم تھے کیا لکھ رہے ہیں یا الله نے اس وقت ان کو علم دے دیا اس وقت اور یہ رسول الله کے معجزات میں ہے جو الله نے علم دیا

فتح الباری میں ہے اس وقت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا لکھنا معجزہ تھا
. وقول الباجي أنه -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- كتب بعد أن لم يكتب وأن ذلك معجزة أخرى

عمدة القاري شرح صحيح البخاري از عینی میں ہے
وَقَالَ السُّهيْلي: وَالْحق أَن قَوْله: فَكتب، أَي: أَمر عليا أَن يكْتب. قلت: هُوَ بِعَيْنِه الْجَواب الثَّانِي. (الثَّالِث) : أَنه كتب بِنَفسِهِ خرقاً للْعَادَة على سَبِيل المعجزة،
السُّهيْلي نے کہا حق یہ ہے کہ قول انہوں نے لکھا تو یہ انہوں نے علی کو حکم کیا کہ لکھیں اور میں عینی کہتا ہوں … ان کا لکھنا خرق عادت میں سے معجزہ تھا

یعنی اگر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے خود لکھا تو وہ اس وقت کا معجزہ تھا

صحیح مسلم میں ہے
فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَرِنِي مَكَانَهَا فَأَرَاهُ مَكَانَهَا فَمَحَاهَا وَكَتَبَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہا مجھے دکھاو وہ جگہ – پس اپ کو دکھایا گیا تو اپ نے اس کو مٹا دیا اور لکھا ابن عبد الله
یعنی رسول الله نے محمد رسول الله کے الفاظ مٹا کر کر دیا محمد بن عبد الله لکھا

امام مسلم کے نزدیک یہ کوئی معجزہ نہیں تھا صرف اتنا ہی اپ صلی الله علیہ وسلم نے کیا کہ رسول الله ہٹا کر ابن عبد الله کر دیا

امام مسلم الفاظ لائے ہیں کہ رسول اللہ کو پوچھنا پڑا کہ کہاں رسول اللہ لکھا ہے یعنی اگر یہ تمام معجزہ ہو رہا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پھر کسی صحابی سے پوچھنے کی ضرورت ہی نہ تھی کہ کہاں کیا لکھا ہے
اس طرح امام مسلم کے نزدیک یہ معجزہ نہیں ہے اور امام بخاری کے نزدیک یہ معجزہ ہوا

راقم کہتا ہے رسول الله کے ہاتھ میں انگوٹھی ہوتی تھی جس پر آپ نے محمد رسول الله کندہ کروا رکھا تھا ممکن ہے اس مہر والی انگوٹھی کو دیکھ کر اس وقت لکھا ہو

مجموعہ احادیث میں روایت میں یہ الفاظ
وَلَيْسَ يُحْسِنُ أَنْ يَكْتُبَ، فَكَتَبَ مَكَانَ رَسُولُ اللهِ اور رسول الله لکھنے میں اچھے نہیں تھے پس اپ نے اس جگہ رسول الله لکھا

صرف ابی اسحاق الکوفی نے روایت کیے ہیں جو کوفہ کے شیعہ ہیں اور شیعہ کے نزدیک رسول الله صلی الله علیہ وسلم لکھنا جانتے تھے – اہل سنت اس کے انکاری ہیں جو قرآن کے مطابق ہے

سنن ابن ماجہ میں ہے کہ رسول الله نے معراج پر جنت کے دروازے پر پڑھا کہ نیکی کا ثواب دس گنا  ہے
حدثنا عبيد الله بن عبد الكريم حدثنا هشام بن خالد حدثنا خالد بن يزيد وحدثنا أبو حاتم حدثنا هشام بن خالد حدثنا خالد بن يزيد بن أبي مالك عن أبيه عن أنس بن مالك قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم رأيت ليلة أسري بي على باب الجنة مكتوبا الصدقة بعشر أمثالها والقرض بثمانية عشر فقلت يا جبريل ما بال القرض أفضل من الصدقة قال لأن السائل يسأل وعنده والمستقرض لا يستقرض إلا من حاجة
اس کی سند میں خالد بن يزيد بن أبي مالك هانئ، أبو هاشم الهمداني الشامي، أخو عبد الرحمن. متروک الحدیث ہے

راقم نزدیک رسول الله صلی الله علیہ وسلم لکھنا نہیں جانتے تھے

ڈاکٹر عثمانی رحمہ اللہ علیہ کا موقف ہے کہ یہ واقعہ معجزہ تھا سب نے دیکھا کہ رسول اللہ جو لکھنا نہیں جانتے تھے، انہوں نے اس وقت اپنے نام مبارک کے ساتھ رسول اللہ کے الفاظ کو خود مٹا دیا

اہل تشیع کے اقوال 

كتاب تفسير القمي ج2 ص309_313 میں ہے
حدثني أبي عن ابن ابي عمير عن ابن سنان عن ابي عبد الله (ع) قال: كان سبب نزول هذه السورة وهذا الفتح العظيم ان الله عزوجل أمر رسول ….. فقال رسول الله أنا رسول الله وان لم تقروا، ثم قال امح يا علي ! واكتب محمد بن عبد الله، فقال أمير المؤمنين عليه السلام، ما أمحو اسمك من النبوة ابدا، فمحاه رسول الله صلى الله عليه وآله بيده.

رسول الله نے ہاتھ سے الفظ مٹا دیے

الفصول المهمة في أصول الأئمة – الحر العاملي میں روایات ہیں
محمد بن الحسن الصفار في بصائر الدرجات، عن أحمد بن محمد عن ابي عبد الله البرقي، عن جعفر بن محمد الصوفي، قال: سمعت ابا جعفر محمد بن علي الرضا ع، وقلت له: يابن رسول الله لم سمى النبي، الامي ؟ قال ما يقول الناس (1) ؟ قلت: يقولون: انما سمى الامي لانه لم يكتب فقال: كذبوا، عليهم لعنة الله، انى يكون ذلك والله تعالى يقول في محكم كتابه: (هو الذي بعث في الاميين رسولا منهم يتلوا عليهم آياته ويزكيهم ويعلمهم الكتاب (2) والحكمة فكيف يعلمهم ما لم يحسن ؟ والله لقد كان رسول الله (ص) يقرأ ويكتب باثنين وسبعين لسانا وانما سمى الامي لانه كان من مكة ومكة من امهات القرى وذلك قول الله في كتابه: (لتنذر أم القرى ومن حولها).

امام محمد بن علي الرضا کو جعفر بن محمد الصوفي نے کہتے سنا جب اس نے سوال کیا کہ اے رسول الله کے بیٹے نبی کو امی کیوں نام دیتے ہیں ؟ امام نے کہا لوگ کیا کہتے ہیں ؟ میں نے کہا کہتے ہیں یہ امی تھے کہ یہ لکھ نہیں سکتے تھے – امام نے کہا یہ جھوٹ بولتے ہیں ان پر اللہ کی لعنت ہو یہ کہاں تھے جب اللہ نے کتاب محکم میں کہا

هو الذي بعث في الاميين رسولا منهم يتلوا عليهم آياته ويزكيهم ويعلمهم الكتاب
اور حکمت کیسے وہ جان گئے اگر وہ لکھنے پڑھنے میں اچھے نہ ہوتے ؟

اللہ تعالی کی قسم بے شک رسول الله سات یا آٹھ زبانوں میں پڑھنا لکھنا جانتے تھے اور ان کو امی تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ مکی ہیں اور مکہ کو ام القری کہا جاتا ہے

راقم کہتا ہے اس کی سند میں محمد بن خالد البرقي ہے جس کو من أصحاب امام أبي الحسن موسى میں شمار کیا گیا ہے
اس نے اس روایت کو جعفر بن محمد الصوفي سے لیا ہے جو مجہول ہے

مستدركات علم رجال الحديث – الشيخ علي النمازي الشاهرودي – ج ٢ – الصفحة ٢٠٢
2785 – جعفر بن محمد الصوفي (يعني بايع الصوف):
لم يذكروه. وهو من أصحاب مولانا الجواد عليه السلام.

الفصول المهمة في أصول الأئمة – الحر العاملي میں روایت ہے
وعن عبد الله بن عامر، عن ابن ابى نجران، عن يحيى بن عمرو، عن أبيه، عن ابي عبد الله ع وسئل عن قول الله تبارك وتعالى: وأوحى الي هذا القرآن لانذركم به ومن بلغ ؟ قال: بكل لسان.
يحيى بن عمرو نے اپنے باپ سے روایت کیا کہ انہوں نے امام جعفر سے پوچھا الله تعالی کے قول پر وأوحى الي هذا القرآن لانذركم به ومن بلغ تو فرمایا ہر زبان میں

راقم کہتا ہے ابن ابی نجران مجہول ہے – الخوئی اس کی کوئی بھی تعدیل پیش نہیں کر سکے صرف کہا اس سے بہت سی روایات ہیں

الفصول المهمة في أصول الأئمة – الحر العاملي میں روایت ہے
– وعن الحسن بن علي، عن أحمد بن هلال، عن خلف بن حماد، عن عبد الرحمن بن الحجاج، قال: قال أبو عبد الله ع: ان النبي (ص) كان يقرأ ما يكتب ويقرأ ما لم يكتب
عبد الرحمن بن الحجاج نے روایت کیا کہ امام جعفر نے کہا رسول الله ہر لکھی تحریر پڑھ سکتے تھے ہے وہ بھی جو نہیں لکھا ہوا

راقم کہتا ہے نجاشی نے لکھا ہے : قال النجاشي: عبد الرحمان بن الحجاج البجلي: مولاهم، كوفي، بياع السابري، سكن بغداد، ورمي بالكيسانية، روى عن أبي عبد الله وأبي الحسن (عليه السلام)
عبد الرحمان بن الحجاج کیسانیہ فرقے کا تھا یعنی یہ محمد حنفیہ کو امام کہتا تھا غالی تھا

سند میں خلف بن حماد بن ناشر بھی ہے – ابن الغضائري : خلف بن حماد بن ناشر بن الليث الاسدي كوفي – أمره مختلط
اس کا امر مختلط ہے

اہل تشیع کے ہاں متضاد اقوال بھی ہیں – بحار الانوار ج16 ص132 میں ہے
أبي، عن سعد، عن ابن عيسى، عن البزنطي، عن أبان، عن الحسن الصيقل قال: سمعت أبا عبد الله عليه السلام يقول: كان مما من الله عزوجل به على نبيه صلى الله عليه واله أنه كان اميا لا يكتب ويقرؤ الكتاب.
امام جعفر نے کہا رسول الله نہ لکھ سکتے تھے نہ پڑھ سکتے تھے

أخرج الصدوق في علل الشرائع عن ابن الوليد عن سعد عن ابن عيسى عن الحسين بن سعيد ومحمد البرقي عن ابن أبي عمير عن هشام بن سالم عن أبي عبد الله عليه ‌السلام قال : كان النبي يقرأ الكتاب ولا يكتب.
امام جعفر نے کہا نبی پڑھ سکتے تھے لکھ نہیں پاتے تھے