Category Archives: علوم قرآن – Contemplation on Quran

انبیاء سے میثاق کیوں لیا گیا ؟

مرزا جہلمی صاحب  نے اپنی ایک ویڈیو میں دعوی کیا کہ قرآن میں معراج پر امامت انبیاء کا ایک آیت سے تعلق ہے

سات منٹ پر مرزا صاحب نے اپنے فلسفے کا ذکر کیا

=============

اب ہم اس آیت پر غور کرتے ہیں – قرآن سورہ ال عمران کی آیت ہے

وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ ۚ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِي ۖ قَالُوا أَقْرَرْنَا ۚ قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ
اور جب اللہ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تمہیں کتاب اور علم سے دوں پھر تمہارے پاس پیغمبر آئے جو اس چیز کی تصدیق کرنے والا ہو جو تمہارے پاس ہے تو اس پر ایمان لے آنا اور اس کی مدد کرنا، فرمایا کیا تم نے اقرار کیا اور اس شرط پر میرا عہد قبول کیا، انہوں نے کہا ہم نے اقرار کیا، اللہ نے فرمایا تو اب تم گواہ رہو میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔
فَمَنْ تَوَلّـٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْفَاسِقُوْنَ (82)
پھر جو کوئی اس کے بعد پھر جائے تو وہی لوگ نافرمان ہیں۔

اس آیت سے استخراج کیا گیا کہ تمام انبیاء کو زمین منتقل کیا گیا تاکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول تسلیم کریں-جبکہ اس آیت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر خاص کسی نے نہیں کیا – یہ تو تمام انبیاء پر لازم ہے کہ ایک دوسرے کو تسلیم کریں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی فرض تھا کہ وہ موسی کو عیسیٰ کو رسول اللہ تسلیم کریں
اس آیت کا خاص تعلق ان انبیاء سے ہے جن کی زندگی میں ملاقات ہوئی اور پھر انہوں نے ایک دوسرے کی مدد کی مثلا موسی علیہ السلام کو ہارون علیہ السلام کو مدد ملی – عیسیٰ علیہ السلام کو یحیی علیہ السلام کی مدد ملی – اسمعیل و اسحاق علیہما السلام نے ایک ہی دور دیکھا اور مدد کی – یعقوب و یوسف علیہما السلام نے ایک دوسرے کی مدد کی

اس آیت کا شان نزول بتا رہا ہے کہ یہ اہل کتاب کا رد ہے- اہل کتاب میں یہود کے نزدیک ابراہیم علیہ السلام کے بعد انبیاء تو نسل ابراہیم میں آئے دیگر اقوام میں مبعوث نہیں ہوئے لہذا یہود کا رد کیا گیا
تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے
عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ قَالَ: أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ أَنْ يُصَدِّقَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا.
طاؤس نے کہا اللہ نے میثاق لیا نبیوں سے کہ ایک دوسرے کی تصدیق کریں گے
یہ قول کہ معراج پر انبیاء کی امامت اس وجہ سے کروائی گئی کہ انبیاء کو میثاق یاد دلایا گیا کہ رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کریں گے قرآن کے متن میں تحریف کے مترادف ہے – اصلا یہ قول شیعوں کا ہے – شیعہ تفسیر التبيان في تفسير القرآن از أبي جعفر محمد بن الحسن الطوسي میں ہے
إنما أخذ الله ميثاق النبيين الماضين بتصديق محمد صلى الله عليه وآله، هذا قول علي
بے شک اللہ تعالی نے ماضی کے انبیاء سے میثاق لیا کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کریں گے یہ علی کا قول ہے
شیعہ تفسیر قمی میں یہ بھی ہے علی کی مدد کا میثاق لیا گیا ہے
حدثني ابي عن ابن ابي عمير عن ابن مسكان عن ابي عبدالله عليه السلام قال ما بعث الله نبيا من لدن آدم فهلم جرا إلا ويرجع إلى الدنيا وينصر امير المؤمنين عليه السلام وهو قوله ” لتؤمنن به ” يعني رسول الله صلى الله عليه وآله ” ولتنصرنه ” يعني امير المؤمنين عليه السلام ثم قال لهم في الذر (ء اقررتم وأخذتم على ذلكم
ابو عبد اللہ سے روایت ہے کہ فرمایا اللہ تعالی نے کوئی نبی مبعوث نہیں کیا جو بنی آدم میں ہے نہ ہو اور اس کو پھر دنیا میں نہ بھیجا جائے اور وہ امیر المومنین علی کی مدد کرے اور یہ اللہ تعالی کے قول لتؤمنن به میں ہے کہ تم کو ایمان لانا ہو گا یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و اله پر اورولتنصرنه میں ہے کہ مدد کرنی ہو گی یعنی امیر المومنین علی کی

الکافی از کلینی میں ہے
محمد بن يحيى، عن أحمد بن محمد، عن الحسن بن محبوب، عن صالح بن سهل عن أبي عبدالله عليه السلام أن بعض قريش قال لرسول الله صلى الله عليه وآله: بأي شئ سبقت الانبياء(5) وأنت بعثت آخرهم وخاتمهم؟ فقال: إني كنت أول من آمن بربي وأول من أجاب حيث أخذ الله ميثاق النبيين وأشهدهم على أنفسهم ألست بربكم فكنت أنا أول نبي قال: بلى، فسبقتهم بالاقرار بالله عزوجل.
ابو عبد اللہ نے روایت کیا کہ بعض قریش نے رسول اللہ سے پوچھا کیا ایسی بات ہے کہ تم سے پہلے انبیاء آئے اور تم ان سب میں آخر میں آئے اور ان کے سلسلے کو ختم کرنے والے ہو ؟ رسول اللہ نے فرمایا میں ان سب میں اول ہوں جو رب پر ایمان لایا اور جس نے جواب دیا جب اللہ نے میثاق انبیاء سے لیا اور ان کو ان کے نفسوں پر گواہ کیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ؟ پس میں اول نبی ہوں

اہل تشیع نے اس آیت کا مدعا یہ بیان کیا کہ اس آیت میں رسول سے مراد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور یہی مرزا نے کہا جبکہ قرآن میں اس کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر خاص نہیں کیا گیا

[wpdm_package id=’8854′]

امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

خلافت عثمانی کا آغاز 6
ابو لؤلؤة کی بیٹی کا قصاص 9
جمع القران پر بحث 12
دور نبوی میں جمع القرآن 16
صحابہ کی متن قرآن میں درج کردہ تشریحات 19
عبد الله ابن مسعود کا اختلاف 22
جمع القران میں عربی کی غلطیاں ہوئیں ؟ 27
بعض آیات غائب ہو گئیں ؟ 29
مصری ابْنِ لَهِيعَةَ قرآن پر روایات 31
اہل تشیع کی آراء 36
عثمان نے دو سورتوں کو نکال دیا 36
عثمان نے دو دعا وں کو سورتیں بنا دیا 41
منسوخ آیات بھی لکھ دیں کیا ؟ 44
غیر محتاط محدثین کی وجہ سے پیدا ہونے والے مغالطے 45
البراء بن عازب رضی الله عنہ کی قرات کا اختلاف 45
ابو سعید الخدری، ابو ہریرہ کی قرات میں الله الواحد الصمد؟ 47
ابو ہریرہ کی قرات 49
سوره اللیل کی قرات 50
اہل تشیع کی رائے 52
بدلتی قبائلی عصبیت 54
گورنر کا شراب پینا 62
فقہی اختلافات 71
حج میں اختلاف 71
عثمان بدعتی ہے 75
بدعات عثمانی ؟ 78
عید کا خطبہ نماز سے پہلے کرنا 78
جمعہ کی دو اذان کرنا 86
انتظامی معاملات میں عثمان پر تنقید 89
زکواه کی تقسیم 89
گوورنروں کا نماز میں تاخیر کرنا 91
زہد ابو ذر الغفاری کا سونا رکھنے پر اعتراض 94
اسامہ بن زید رضی الله عنہ نے عثمان کو ان کی پالیسییوں پر سمجھایا 103
حذیفہ بن یمان کی عثمان نے خبر لی 108
⇑ حذیفہ نے عثمان کی اینٹیلجنس کو چغل خور قرار دیا ؟ 109
جمع القرآن میں تصرف کا شوشہ 110
قریشی لے پالکوں کا فتنہ 114
کھلی بغاوت 117
مصری پروپیگنڈا : عثمان حدیث چھپاتا ہے 117
زید بن خارجہ نے مرنے کے بعد مستقبل کی خبر دی ؟ 122
مسجد النبی میں فساد 134
الدار پر ہونے والے واقعات 137
مسجد النبی پر باغیوں کا کنٹرول 147
سانحہ مدینہ 150
شہادت کے بعد 154
تدفین پر روایات 157
شیعہ محدثین کا عثمان پر الزام 163

————-

قاب قوسین

سورہ النجم میں ہے

غالی بریلوی  ترجمہ

https://www.minhajsisters.com/urdu/tid/37060/واقعہ-معراج-النبی-صلیٰ-اللہ-علیہ-وآلہ-وسلم-قرآن-و-حدیث-اور-سیرت-کی-روشنی-میں/

 

ترجمہ صحیح آیت آیت نمبر
یہ تو وحی ہے جو اس پر آتی ہے۔ اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوحٰى ٤
بڑے طاقتور   نے اسے سکھایا ہے عَلَّمَهٝ شَدِيْدُ الْقُوٰى ٥
پھر اُس (جلوہِ حُسن) نے (اپنے) ظہور کا ارادہ فرمایا۔ جو بڑا زور آور ہے پس وہ قائم ہوا ذُوْ مِرَّةٍ فَاسْتَوٰى ٦
اور وہ (محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شبِ معراج عالمِ مکاں کے) سب سے اونچے کنارے پر تھے (یعنی عالَمِ خلق کی انتہاء پر تھے) اور وہ (آسمان کے) اونچے کنارے پر تھا وَهُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰى ٧
پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیا۔ پھر نزدیک ہوا پھر معلق ہوا۔ ثُـمَّ دَنَا فَتَدَلّـٰى ٨
پھر (جلوۂِ حق اور حبیبِ مکرّم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میںصِرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہوگیا) پھر فاصلہ دو کمان کے برابر تھا یا اس سے بھی کم۔ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى ٩
پس (اُس خاص مقامِ قُرب و وصال پر) اُس (اﷲ) نے اپنے عبدِ (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائی پھر اس نے اللہ کے بندے کے دل میں القا کیا جو کچھ القا کیا دل نے۔ فَاَوْحٰٓى اِلٰى عَبْدِهٖ مَآ اَوْحٰى ١٠
 جو دیکھا تھا اس کو  جھوٹ دل نے نہ کیا ۔ مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى ١١
پھر جو کچھ اس نے دیکھا تم اس میں جھگڑتے ہو۔ اَفَتُمَارُوْنَهٝ عَلٰى مَا يَرٰى ١٢
اور اس نے اس کو ایک بار اور بھی دیکھا ہے۔ وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَـةً اُخْرٰى ١٣
سدرۃ المنتہٰی کے پاس۔ عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْـتَهٰى ١٤
جس کے پاس جنت الماوٰی ہے۔ عِنْدَهَا جَنَّـةُ الْمَاْوٰى ١٥

سورہ تکویر میں ہے

اِنَّهٝ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِيْمٍ (19)
بے شک یہ قرآن ایک معزز رسول کا لایا ہوا ہے۔
ذِىْ قُوَّةٍ عِنْدَ ذِى الْعَرْشِ مَكِيْنٍ (20)
جو بڑا طاقتور ہے عرش کے مالک کے نزدیک بڑے رتبہ والا ہے۔
مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِيْنٍ (21)
وہاں کا سردار امانت دار ہے۔
وَمَا صَاحِبُكُمْ بِمَجْنُـوْنٍ (22)
اور تمہارا رفیق (رسول) کوئی دیوانہ نہیں ہے۔
وَلَقَدْ رَاٰهُ بِالْاُفُقِ الْمُبِيْنِ (23)
اور اس نے اس (فرشتہ) کو (آسمان کے) کھلے کنارے پر دیکھا بھی ہے۔

معلوم ہوا کہ جبریل کو دو بار دیکھا ایک افق مبین پر پھر دوسری بار سِدْرَةِ الْمُنْـتَهٰى پر جس کا ذکر سورہ نجم میں کیا گیا کہ اس نے اسی ذات کو دو بار دیکھا ہے

امام بخاری کا موقف

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنِ ابْنِ الأَشْوَعِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: فَأَيْنَ قَوْلُهُ {ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى} [النجم: 9] قَالَتْ: «ذَاكَ جِبْرِيلُ كَانَ يَأْتِيهِ فِي صُورَةِ [ص:116] الرَّجُلِ، وَإِنَّهُ أَتَاهُ هَذِهِ المَرَّةَ فِي صُورَتِهِ الَّتِي هِيَ صُورَتُهُ فَسَدَّ الأُفُقَ

حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، {لَقَدْ رَأَى مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الكُبْرَى} [النجم: 18] قَالَ: «رَأَى رَفْرَفًا أَخْضَرَ قَدْ سَدَّ الأُفُقَ»

امام بخاری نے ابن مسعود اور عائشہ رضی اللہ عنہما کا قول بیان کیا کہ  قاب قوسین میں ذکر جبریل علیہ السلام  کا ہے  لیکن صحیح بخاری  کے آخر میں کتاب التوحید میں امام بخاری نے شریک بن عبد الله کی سند سے روایت لا کر اپنا ایک اور  موقف بتایا ہے کہ  سورہ نجم کی آیات میں قاب قوسین  میں  قریب آنے سے مراد الله تعالی کا ذکر ہے

، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ عَلَا بِهِ فَوْقَ ذَلِكَ بِمَا لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى جَاءَ سِدْرَةَ الْمُنْتَهَى، ‏‏‏‏‏‏وَدَنَا لِلْجَبَّارِ رَبِّ الْعِزَّةِ، ‏‏‏‏‏‏فَتَدَلَّى، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى كَانَ مِنْهُ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى، ‏‏‏‏‏‏فَأَوْحَى اللَّهُ فِيمَا أَوْحَى إِلَيْهِ خَمْسِينَ صَلَاةً عَلَى أُمَّتِكَ

۔ پھر جبرائیل علیہ السلام انہیں لے کر اس سے بھی اوپر گئے جس کا علم اللہ کے سوا اور کسی کو نہیں یہاں تک کہ آپ کو سدرۃ المنتہیٰ پر لے کر آئے اور رب العزت اللہ تبارک وتعالیٰ سے قریب ہوئے اور اتنے قریب جیسے کمان کے دونوں کنارے یا اس سے بھی قریب۔ پھر اللہ نے اور دوسری باتوں کے ساتھ آپ کی امت پر دن اور رات میں پچاس نمازوں کی وحی کی

البانی کا قول  ہے

لكن هذه الجملة من جملة ما أُنكر على شريك هذا مما تفرد به عن جماهير الثقات الذين رووا حديث المعراج، ولم ينسبوا الدنو والتدلي لله تبارك وتعالى

لیکن یہ وہ جملہ ہے جس کی وجہ سے شریک کی حدیث کا انکار کیا جاتا ہے کہ جمہور ثقات کے مقابلے میں شریک کا اس حدیث معراج میں  تفرد ہے اور دنو (نیچے انے )  اور تدلی (معلق ہونے ) کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی جاتی

اغلبا امام  بخاری کا مقصد ہے کہ اللہ تعالی خواب میں  قریب آئے اور جبریل حقیقت میں  قریب آئے پھر  الوحی کی اگرچہ اللہ کو دیکھا نہیں  کیونکہ الصحیح  میں دوسرے مقام پر عائشہ رضی اللہ عنہا  سے مروی حدیث نقل کی ہے کہ  اللہ تعالی کو نہیں دیکھا بلکہ جبریل کو دیکھا – و اللہ اعلم

راقم کے نزدیک یہ امام بخاری کی غلطی ہے شریک کی روایت صحیح نہیں منکر و منفرد  ہے

امام مسلم کا موقف

امام مسلم کا موقف  ہے کہ قاب قوسین سے مراد  جبریل کا اصلی شکل میں  قریب آنا ہے زمین میں افق پر اور پھر سدرہ المنتہی کے پاس

وَحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ، عَنِ ابْنِ أَشْوَعَ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ: فَأَيْنَ قَوْلُهُ؟ {ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى} [النجم: 9] قَالَتْ: ” إِنَّمَا ذَاكَ جِبْرِيلُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْتِيهِ فِي صُورَةِ الرِّجَالِ، وَإِنَّهُ أَتَاهُ فِي هَذِهِ الْمَرَّةِ فِي صُورَتِهِ الَّتِي هِيَ صُورَتُهُ فَسَدَّ أُفُقَ السَّمَاءِ

اہل تشیع کی شروحات

اہل تشیع کے قدماء کے  مطابق قاب قوسین سے مراد حجاب عظمت کے نور کا قریب آنا ہے – الکافی از کلینی میں ہے

عدة من أصحابنا، عن أحمد بن محمد، عن الحسين بن سعيد، عن القاسم بن محمد الجوهري، عن علي بن أبي حمزة قال: سأل أبوبصير أبا عبدالله عليه السلام وأنا حاضر فقال: جعلت فداك كم عرج برسول الله صلى الله عليه وآله؟ فقال: مرتين فأوقفه جبرئيل موقفا فقال له: مكانك يا محمد فلقد وقفت موقفا ما وقفه ملك قط ولا نبي، إن ربك يصلي فقال: يا جبرئيل وكيف يصلي؟ قال: يقول: سبوح قدوس أنا رب الملائكة و الروح، سبقت رحمتي غضبي، فقال: اللهم عفوك عفوك، قال: وكان كما قال الله ” قاب قوسين أو أدنى “، فقال له أبوبصير: جعلت فداك ما قاب قوسين أو أدنى؟ قال: ما بين سيتها(1) إلى رأسها فقال: كان بينهما حجاب يتلالا يخفق(2) ولا أعلمه إلا وقد قال: زبرجد، فنظر في مثل سم الابرة(3) إلى ما شاء الله من نور العظمة، فقال الله تبارك وتعالى: يا محمد، قال: لبيك ربي قال: من لامتك من بعدك؟ قال: الله أعلم قال: علي بن أبي طالب أمير المؤمنين وسيد المسلمين وقائد الغر المحجلين(4) قال ثم قال أبوعبدالله لابي بصير: يا أبا محمد والله ما جاء ت ولاية علي عليه السلام من الارض ولكن جاء ت من السماء مشافهة.

أبوبصير نے امام جعفر سے سوال کیا اور میں علی بن ابی حمزہ سن رہا تھا کہ رسول الله  صلى الله عليه وآله کو کتنی بار معراج ہوئی؟ فرمایا دو بار[1] جن میں جبریل نے ان کو روکا اور کہا یہ مکان ہے اے محمد اس مقام پر رکیں یہاں اس سے قبل کوئی نبی اور فرشتہ نہیں رکا ہے اپ کا رب نماز پڑھ رہا ہے تو  رسول الله  صلى الله عليه وآله نے جبریل سے پوچھا کیسے نماز پڑھ رہا ہے ؟ جبریل نے کہا وہ کہتا ہے میں پاک ہوں قدوس ہوں میں فرشتوں اور الروح کا رب ہوں میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی – پس رسول الله  صلى الله عليه وآله نے کہا اے الله  میں اپ کی مغفرت چاہتا ہوں – (امام جعفر  نے) کہا : پھر جیسا الله نے ذکر کیا ہے دو کمانوں جتنا یا اس سے بھی کم- ابو بصیر نے کہا : میں اپنے اپ کو اپ پر قربان کروں! یہ دو کمانوں جتنا یا اس سے بھی کم کیا ہے ؟ فرمایا یہ ان کے “سيت” اور سر کے درمیان تھا اور کہا ایک حجاب تھا جو ہل رہا تھا اور میں اس سے زیادہ نہیں جانتا یہ  زبرجد کا تھا پس انہوں (رسول الله  صلى الله عليه وآله) نے سوئی کی نوک جتنا سے لے کر جو الله نے چاہا اتنا نور عظمت دیکھا  – پس الله تبارک و تعالی نے فرمایا : اے محمد – رسول الله  صلى الله عليه وآله نے کہا لبیک میرے رب – اللہ تعالی نے کہا تیرے بعد تیری  امت میں کون ہے ؟ رسول الله  صلى الله عليه وآله نے کہا علي بن أبي طالب أمير المؤمنين وسيد المسلمين وقائد الغر المحجلين – پھر امام جعفر نے کہا علی کی ولایت زمین میں نہیں بلکہ آسمان میں صاف الفاظ میں آئی 

لسان العرب از ابن منظور میں ہے  وطاقُ الْقَوْسِ: سِيَتُها    کمان کی محراب کو سیت کہتے ہیں  –

كتاب العين از أبو عبد الرحمن الخليل بن أحمد بن عمرو بن تميم الفراهيدي البصري (المتوفى: 170هـ) میں ہے

 ويَدُ القَوْسِ: سِيَتُها کمان پکڑنے کا دستہ

یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر کمان اس کی “سیت”   پکڑے ہوتے اور اس کو آسمان یا عالم بالا کی طرف کیا ہوتا تو حجاب  “سیت” سے بھی نیچے آ گیا تھا اور اس میں سے نور عظمت دیکھا

بحار الأنوار از  ملا باقر مجلسی میں ہے

محمد بن العباس، عن أحمد بن محمد النوفلي، عن أحمد بن هلال، عن ابن محبوب، عن ابن بكير، عن حمران قال: سألت أبا جعفر (عليه السلام) عن قول الله عزوجل في كتابه: ” ثم دنافتدلى * فكان قاب قوسين أو أدنى ” فقال: أدنى الله محمدا منه، فلم يكن بينه وبينه إلا قنص لؤلؤ فيه فراش (3)، يتلالا فاري صورة، فقيل له: يا محمد أتعرف هذه  الصورة ؟ فقال: نعم هذه صورة علي بن أبي طالب، فأوحى الله إليه أن زوجة فاطمة واتخذه وصيا

امام جعفر نے کہا جب الله تعالی اور رسول الله کے درمیان دو کمان سے بھی کم رہ گیا تو ان کو صورتیں دکھائی گئیں  اور پوچھا کیا ان کو پہچانتے ہو ؟ فرمایا ہاں یہ علی کی صورت ہے  پھر الوحی کی کہ ان کی بیوی فاطمہ ہوں گی اور علی کی وصیت کرنا

تفسیر فرات میں ہے

فرات قال: حدثنا جعفر بن أحمد معنعنا [ عن عباد بن صهيب عن جعفر بن محمد عن أبيه ] عن علي بن الحسين: عن فاطمة [ بنت محمد.أ، ب.عليهم السلام.ر ] قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وآله: لما عرج بي إلى السماء فصرت إلى سدرة المنتهى (فكان قاب قوسين أو أدنى) فرأيته بقلبي ولم أره بعيني، سمعت الاذان قالوا: شهدنا وأقررنا، قال: واشهدوا يا ملائكتي وسكان سماواتي وأرضي وحملة عرشي بأن عليا وليي وولي رسولي وولي المؤمنين.قالوا: شهدنا وأقررنا

عباد بن صهيب نے روایت کیا …. فاطمہ سے انھوں نے اپنے باپ نبی صلی الله علیہ و الہ سے کہ جب میں آسمان پر بلند ہوا تو سدرہ المنتہی تک گیا پس وہ دو کمانوں سے بھی کم پر قریب آیا میں نے اس کو قلب سے دیکھا آنکھ سے نہ دیکھا اور  کانوں نے سنا ہم نے اقرار کیا گواہ ہوئے اور  الله نے کہا اے فرشتوں گواہ ہو جاؤ اور اے آسمان کے باسیوں اور زمین کے اور عرش کو اٹھانے والے کہ علی میرے ولی ہیں اور رسول اور مومنوں کے – ان سب نے کہا ہم نے اقرار کیا گواہ ہوئے

راقم کہتا ہے سند میں عباد بن صهيب ہے جو اہل سنت میں متروک ہے اور شیعوں میں ثقہ ہے

شیعہ کتاب بحار الانور از مجلسی (بحار الأنوار / جزء 3 / صفحة ٣١٥ )  میں روایت ہے

ع: أبي، عن سعد، عن ابن عيسى، عن ابن محبوب، عن مالك بن عيينة (2) عن حبيب السجستاني قال: سألت أبا جعفرعليه السلام عن قوله عزوجل: ” ثم دنى فتدلى فكان قاب قوسين أو أدنى فأوحى إلى عبدهاقرأ: ثم دنى فتدانا فكان قاب قوسين أو أدنى، فأوحى الله إلى عبده يعني رسول الله صلى الله عليه وآله ما أوحى، يا حبيب إن رسول الله صلى الله عليه وآله لما فتح مكة أتعب نفسه في عبادة الله عزوجل والشكر لنعمه في الطواف بالبيت وكان علي عليه السلام معه فلما غشيهم الليل انطلقا إلى الصفا والمروة يريدان السعي، قال: فلما هبطا من الصفا إلى المروة وصارا في الوادي دون العلم الذي رأيت غشيهما من السماء نور فأضاءت هما جبال مكة، وخسأت أبصارهما، (1) قال: ففزعا لذلك فزعا شديدا، قال: فمضى رسول الله صلى الله عليه وآله حتى ارتفع من الوادي، وتبعه علي عليه السلام فرفع رسول الله صلى الله عليه وآله رأسه إلى السماء فإذا هو برمانتين على رأسه، قال: فتناولهما رسول الله صلى الله عليه وآله فأوحى الله عزوجل إلى محمد: يا محمد إنها من قطف الجنة فلا يأكل منها إلا أنت ووصيك علي بن أبي طالب عليه السلام، قال: فأكل رسول الله صلى الله عليه وآله إحديهما، وأكل علي عليه السلام الاخرى ثم أوحى الله عزوجل إلى محمد صلى الله عليه وآله ما أوحى. قال أبو جعفر عليه السلام: يا حبيب ” ولقد رآه نزلة اخرى عند سدرة المنتهى عندها جنة المأوى ” يعني عندها وافا به جبرئيل حين صعد إلى السماء، قال: فلما انتهى إلى محل السدرة وقف جبرئيل دونها وقال: يا محمد إن هذا موقفي الذي وضعني الله عزوجل فيه، ولن أقدر على أن أتقدمه، ولكن امض أنت أمامك إلى السدرة، فوقف عندها، قال: فتقدم رسول الله صلى الله عليه وآله إلى السدرة وتخلف جبرئيل عليه السلام، قال أبو جعفر عليه السلام: إنما سميت سدرة  المنتهى لان أعمال أهل الارض تصعد بها الملائكة الحفظة إلى محل السدرة، و الحفظة الكرام البررة دون السدرة يكتبون ما ترفع إليهم الملائكة من أعمال العباد في الارض، قال: فينتهون بها إلى محل السدرة، قال: فنظر رسول الله صلى الله عليه وآله فرأى أغصانها تحت العرش وحوله، قال: فتجلى لمحمد صلى الله عليه وآله نور الجبار عزوجل، فلما غشي محمدا صلى الله عليه وآله النور شخص ببصره، وارتعدت فرائصه، قال: فشد الله عزوجل لمحمد قلبه و قوى له بصره حتى رأى من آيات ربه ما رأى، وذلك قول الله عزوجل: ” ولقد رآه نزلة اخرى عند سدرة المنتهى عندها جنة المأوى ” قال يعني الموافاة، قال: فرأي محمد صلى الله عليه وآله ما رأى ببصره من آيات ربه الكبرى، يعني أكبر الآيات

حبيب السجستاني کہتے ہیں میں نے امام جعفر سے (سورہ النجم)  پر سوال کیا اپ نے فرمایا الله تعالی نے نبی صلی الله علیہ وسلم پر الوحی کی … یعنی سدرہ المنتہی کے پاس جبریل وہاں آسمان پر چڑھے سدرہ کے پاس اور کہا جب سدرہ کے مقام پر پہنچے تو رک گئے اور کہا اے محمد یہ میرے رکنے کا مقام ہے جو الله تعالی نے میرے لئے بنایا ہے اور میں اس پر قدرت نہیں رکھتا کہ آگے جا سکوں لیکن اپ سدرہ سے آگے جائیے اور وہاں رک جائیں- امام جعفر نے کہا پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم آگے بڑھے سدرہ سے اور جبریل کو پیچھے چھوڑ دیا … پس وہاں عرش کے نیچے دیکھا اور اس کے گرد پس وہاں محمد صلی الله علیہ و الہ پر نور جبار تجلی ہوا جس سے اپ پر نیند طاری ہوئی  … پس الله تعالی نے اپ کا دل مضبوط کیا اور بصارت قوی کی یہاں تک کہ اپ نے آیات الله دیکھیں جو دیکھیں

یعنی اہل تشیع کے ہاں یہ بات قبول کی جاتی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سدرہ المنتہی سے آگے گئے اور وہاں خاص الوحی ہوئی جس میں علی  کا ذکر تھا – خیال رہے کہ سند میں مالك بن عيينة  ایک مجھول ہے جس کا ذکر کتب رجال شیعہ میں نہیں ملا

شیعہ  علامہ  جوادی کا  ترجمہ و جدید  شرح

جدید شروحات میں ان اقوال کو رد کیا گیا ہے مثلا علامہ جوادی کا ترجمہ و شرح ہے

العموم و الخصوص ٢

یوسف کو سجدہ کیا یا اللہ کو ؟

قرآن  میں آئی آیات بعض صرف اور صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہیں- ان کو عام کر نے کے نتیجے میں جو موقف اتا ہے وہ خالصتا گمراہی کی طرف لے جاتا ہے

سورہ الحجرات میں ہے

بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَىِ اللّـٰهِ وَرَسُوْلِـهٖ ۖ وَاتَّقُوا اللّـٰهَ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ سَـمِيْعٌ عَلِـيْمٌ (1)
اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کے سامنے پہل نہ کرو، اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے۔
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تَـرْفَعُـوٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوْا لَـهٝ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْـتُـمْ لَا تَشْعُرُوْنَ (2)
اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کیا کرو اور نہ بلند آواز سے رسول سے بات کیا کرو جیسا کہ تم ایک دوسرے سے کیا کرتے ہو کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔

اللہ اللہ – وہ منحوس گھڑی بھی آئی جب جاہلوں نے ان آیات کو امیر تنظیم پر لگایا اور ناصحین کو چپ کرنے کی کوشش کی
اللہ کا شکر ہے جس نے مجھ کو اس ظلم سے بچا لیا اور مصیبت کو جان کر راقم نے گوشہ نشینی کو پسند کیا

اس کی پاداش میں اس روز کتنے ہی جہنمی ہو گئے ا ن کا عمل حبط ہو گیا

آیات جو خاص تھیں ان کو عام کرنے کا مرض تنظیم کی جڑوں میں اتر چکا ہے – سوره النساء کی آیت ١١٥ پیش کی جاتی ہے

ومن يشاقق الرسول من بعد ما تبين له الهدى ويتبع غير سبيل المؤمنين نوله ما تولى ونصله جهنم وساءت مصيرا

اور جو کوئی رسول کی مخالفت کرے، بعد اس کے کہ اس پر سیدھی راہ کھل چکی ہو اور مسلمانوں کے راستہ کے خلاف چلے، تو ہم اسے اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا ہے اور اسے جهنم میں ڈالیں گے، اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے

یہ آیت اپنے سیاق و سباق میں صرف اور صرف اصحاب رسول کے لئے ہے – لیکن اس کو اپنی تنظیموں پر لگا کر اس کو بلا سند ان آیات کا مصداق قرار دینے سے وہی رعونت جنم لیتی ہے جو یہودیوں میں موجود تھی کہ صرف ہم جنتی ہیں، باقی سب جہنمی ہیں – یہ کام جہلاء کی جہالت کو بڑھا رہا ہے کہ وہ اصحاب رسول سے متعلق آیات کو اس تنظیم پر لگا دیتے ہیں

اللہ کے بندو – اپ پر گر اللہ کا احسان ہوا کہ اپ کو اللہ نے ایمان تک پہنچایا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ ایمان کسی اور تک اللہ نہیں پہنچا سکتا
اللہ آپ کو گمراہ بھی کر سکتا ہے کیونکہ وہ انسان کو آزماتا ہے

بہت سے عقائد پر اجماع کا دعوی کیا گیا ہے لیکن  تحقیق میں وہ ثابت نہیں ہیں – ایک عرصۂ سے مولوی اس آیت کو اپنے عقائد پر لگا رہے ہیں کہ عرض عمل ، عود روح ، حیات النبی کا عقیدہ امت میں چلا آ رہا ہے اس پر سبیل المومنین ہے لہذا یہ عقائد اللہ کے منظور کردہ ہیں- عثمانی صاحب نے اسی سوچ کا رد کیا کہ امت اگر گمراہی پر جمع ہو جائے تو اس کی گمراہی حق نہیں بن جاتی – افسوس عثمانی صاحب کی وفات کے چند سالوں میں ہی یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ سبیل المومنین کے نام پر ایک تفسیری رائے کو اس طرح پیش کیا جا رہا ہے کہ گویا وہ من جانب الله ملی ہے اور اگر عثمانی کے نام پر چلتے فرقے سب مل کر ایک غلط موقف اختیار کر لیں تو وہ ہی سبیل المومنین ہے

سورہ یوسف میں ہے کہ یوسف علیہ السلام کا خواب پورا ہوا

فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰى يُوْسُفَ اٰوٰٓى اِلَيْهِ اَبَوَيْهِ وَقَالَ ادْخُلُوْا مِصْرَ اِنْ شَآءَ اللّـٰهُ اٰمِنِيْنَ (99)
پھر جب یوسف کے پاس آئے تو اس نے اپنے ماں باپ کو اپنے پاس جگہ دی اور کہا مصر میں داخل ہو جاؤ اگر اللہ نے چاہا تو امن سے رہو گے۔
وَرَفَـعَ اَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّوْا لَـهٝ سُجَّدًا ۖ وَقَالَ يَـآ اَبَتِ هٰذَا تَاْوِيْلُ رُؤْيَاىَ مِنْ قَبْلُ ؕ قَدْ جَعَلَـهَا رَبِّىْ حَقًّا ؕ وَقَدْ اَحْسَنَ بِىٓ اِذْ اَخْرَجَنِىْ مِنَ السِّجْنِ وَجَآءَ بِكُمْ مِّنَ الْبَدْوِ مِنْ بَعْدِ اَنْ نَّزَغَ الشَّيْطَانُ بَيْنِىْ وَبَيْنَ اِخْوَتِىْ ۚ اِنَّ رَبِّىْ لَطِيْفٌ لِّمَا يَشَآءُ ۚ اِنَّهٝ هُوَ الْعَلِيْـمُ الْحَكِـيْـمُ (100)
اور اپنے ماں باپ کو تخت پر اونچا بٹھایا اور اس کے آگے سب سجدہ میں جھک گئے ، اور کہا اے باپ میرے اس پہلے خواب کی یہ تعبیر ہے، اسے میرے رب نے سچ کر دکھایا، اور اس نے مجھ پر احسان کیا جب مجھے قید خانے سے نکالا اور تمہیں گاؤں سے لے آیا اس کے بعد کہ شیطان مجھ میں اور میرے بھائیوں میں جھگڑا ڈال چکا، بے شک میرا رب جس کے لیے چاہتا ہے مہربانی فرماتا ہے، بے شک وہی جاننے والا حکمت والا ہے۔

الفاظ وَخَرُّوْا لَـهٝ سُجَّدًا پر عثمانی صاحب کی تفسیری رائے یہ آتی ہے کہ یہاں سجدہ اللہ تعالی کو کیا گیا – یہ تفسیری رائے چلی آ رہی ہے – البتہ اس کو حتمی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ یہ متن قرآن سے ثابت نہیں ہوتی بلکہ محض ایک قول کی حیثیت رکھتی ہے – متن قرآن میں له کی ضمیر یوسف علیہ السلام کی طرف جا رہی ہے – اور راقم کہتا ہے ایسا مطلب جو  اہل زبان کو یعنی ایک عام بکری چرانے والے  عرب    کو قرآن سے ملے وہی اصل ہے کیونکہ قرآن قریش کی عربی میں ہے – آسان عربی میں ہے- واضح عربی میں ہے –  اس کے مطلب کو تفسیر و تاویل کر کے صرف آیات متشابھات جو ذات باری تعالی پر ہیں ان  میں سمجھا  جاتا ہے – اس کے سوا یہ کرنا صحیح نہیں ہے – مثلا
اللہ نے کہا
و ھو معکم این ما کنتم
وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو

یہاں مطلب اللہ تعالی کا بذات انسانوں کے ساتھ موجود ہونا اگر لیں تو ہم سب ذات الہی میں حلول کر جائیں گے اور لا فانی ہو جائیں گے – اس بنا پر ان آیات کی تاویل کی جاتی ہے اور ان پر ایمان لایا جاتا ہے کیفیت کی کھوج نہیں کی جاتی

سجدہ کا مطلب عربی میں صرف جھکنا ہے – اس کو نماز کا اصطلاحی سجدہ نہیں سمجھا جاتا – مثلا الصلوہ کا مطلب قرآن میں اکثر اوقات نماز ہے لیکن صلی کا لفظ آیا ہے جس کا مطلب درود بھی ہے –   یہاں یوسف علیہ السلام والے واقعہ میں بھائیوں نے نماز جیسا اصطلاحی سجدہ نہیں کیا بلکہ انحنا کیا یعنی تھوڑا سے جھک کر ان کو مصر کا وزیر تسلیم کیا

حاکم سے ملاقات پر آپ اس کے سامنے تھوڑا جھکیں یہ طریقه کار معروف تھا کہ آپ اگر اسی ملک کے باسی ہوں – اگر اگر آپ کسی دوسرے علاقے کے ہوں اور آپ دوسرے ملک کا سفر کریں تو طریقہ کار یہ تھا کہ اجنبی ملک کے  حاکم سے ملاقات پر آپ کچھ نہیں کریں گے، وہ جان لے گا کہ آپ اس ملک کے نہیں ہیں ، سفیر ہیں یا مسافر ہیں

اس حوالے سے معلوم ہے کہ بعض بادشاہ جو ظالم تھے وہ نماز جیسے سجدہ کا مسافر  کو حکم کرتے  لیکن یہ   منفرد تھے اور اس کو پسند نہیں کیا جاتا تھا

اس میں جب یعقوب علیہ السلام اپنے خاندان کے ساتھ نقل مکانی کر کے مصر میں داخل ہوئے تو انہوں نے وہاں کے مصری  حاکم کی عمل داری کو قبول کیا  اور رسم کے طور پر مصری حاکم کے وزیر یوسف کے سامنے تھوڑا جھکے
قرآن میں اس عمل کو سجدہ کہا گیا ہے لیکن یہاں  سجدہ کا مطلب زمین پر پیشانی لگانا   نہیں ہے – زمین کی جانب تھوڑا سر جھکانے کو بھی سجدہ عربی میں کہا جاتا ہے- نماز نے رکوع، سجدہ وغیرہ کو ایک اصطلاح ضرور بنا دیا ہے لیکن اس سے ان الفاظ کا اصل  لغوی مطلب تبدیل نہیں ہوتا جو مشرکین مکہ کی زبان میں تھا

عربی لغت تاج العروس من جواهر القاموس از الزَّبيدي کے مطابق سجد کا ایک مطلب إِذا انْحَنى وتَطَامَنَ إِلى الأَرضِ زمیں کی طرف جھکنا بھی ہے – لغت مجمل اللغة لابن فارس کے مطابق وكل ما ذل فقد سجد ہر کوئی جو نیچے آئےاس نے سجد کیا
یہ اس کا لغوی مطلب ہے

یوسف کے خواب اور عملی شکل میں آیات میں سجدہ سے مراد لغوی مطلب ہے جو قریش بولتے تھے یہاں سجدہ کا اصطلاحی مطلب مراد نہیں ہے

یوسف کو سجدہ تعظیمی نہیں کیا گیا – یوسف نے جو خواب دیکھا وہ اپنے ظاہر میں مشرکانہ غیر شرعی تھا – لیکن خواب وہ نہیں تھا جو حقیقیت میں ہونا تھا – سجدا کا مطلب سجدہ نماز نہیں ہے یہ عربی کا لفظ ہے قرآن کے نزول سے پہلے سے معلوم ہے اور اس کا مطلب زمین کی طرف لپکنا یا جھکنا ہے – ممکن ہے یہ کیفیت پیدا ہوئی جب بھائییوں نے یوسف کو تخت مصر پر والدین کے ساتھ دیکھا تو نفسیاتی کیفیت ایسی ہوئی کہ شرم سے زمین پر گر گئے یا جیسا کہ کہا ممکن ہے کہ یہ حاکم و وزیر کے سامنے پیش ہونے پر حکومت کی عمل داری تسلیم کرنے کا انداز ہے

سجدہ یوسف علیہ السلام کو کیا گیا یہ متن قرآن میں له کی ضمیر سے معلوم ہے
سجدہ اللہ تعالی کو کیا یہ تفسیر تاویل پر مبنی ہے کہ اصل مفہوم سے ہٹا کر آیت کو الگ طرح سمجھا جائے- ایسا صرف ان آیات پر کیا جاتا ہے جن میں اللہ کا ذکر ہو مثلا
وجاء ربك والملك صفا صفا
أور اللہ آئے گا اور اس کے فرشتے صف در صف

اللہ آئے گا یہ نزول کرے گا ہم تفسیر نہیں کرتے – ہم اس کو بدل کر کہتے ہیں کہ اللہ تجلی کرے گا – وہ نہ مخلوق کے ساتھ اترتا ہے، نہ چڑھتا ہے، نہ ان کے ساتھ چلتا ہے – وہ عرش پر مستوی ہے – اسی عرش کے ساتھ محشر میں ظاہر ہو گا
اللہ فرشتوں کے ساتھ چلتا ہوا نہیں آئے آئے گا-  یہاں اس کی شان کے مطابق ہم مفہوم لیتے ہیں کہ مقصد ظاہری الفاظ نہیں ہیں-  لیکن یہ تاویل کا عمل مخلوق کے ساتھ نہیں کیا جاتا کہ انبیاء کے عمل کو بھی تاویل کر کے تبدیل کیا جائے

عثمانی صاحب کی تفسیری رائے  : خواب والی شکل بنی، یوسف تخت پر تھے 

عثمانی صاحب نے ایک سوال کے جواب میں اس سجدہ پر کہا

دوسری بار کہا

جناب یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں اور والدین نے سجدہ کیا ؟
جواب
نہیں حضرت

وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا ۖ

کہ اللہ نے یہ رحمت فرمائی- اس خاندان پر خَرُّوا لَهُ – له کی ضمیر اللہ کے لئے ہے کہ اللہ کے لئے سجدہ میں گر پڑے
اور جن کا ایمان صحیح نہیں ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم کو بھی ہمارے یہ شاگرد سجدہ کریں
اس لئے یہ تفسیر نہ کر دیں کہ حضرت یوسف کو سجدہ ہے

ڈاکٹر عثمانی رحمہ اللہ علیہ  نے  صوفیوں کے سجدہ تعظیمی کو رد کرنے کے لئے  اس تشریح کو پسند کیا کہ اس سجدہ کو اللہ  کی طرف قرار دیا جائے – اہل طریقت کی باطل تشریحات کا ہم رد کرتے ہیں – لیکن  یہاں عثمانی صاحب کی تفسیر کہ له کی ضمیر اللہ کی طرف ہے اس کا کوئی قرینہ موجود نہیں ہے  –  عثمانی صاحب نے اس کو نماز جیسا سجدہ سمجھا ہے کیونکہ ان کے ذھن میں صوفیوں  کا عمل ہے کہ کہیں اس آیت  کو سجدہ تعظیمی کی دلیل نہ سمجھ لیا جائے – ان کی فکر اپنی جگہ صحیح ہے کہ صوفیوں  کا سجدہ تعظیمی   نماز کی ہیت کا سجدہ  ہوتا ہے اور اس کو ہر مومن رد کرتا ہے – لیکن قرآن میں یہاں له کی ضمیر  یوسف علیہ السلام ہی کی طرف ہے اور یہ سب خواب کی منظر کشی ہو رہی ہے جو تمثیل کے جامے سے نکل کر حقیقت کا روپ لے رہی ہے – خواب میں دیکھا تھا کہ سورج، چاند، ستارے سب یوسف کو سجدہ کر رہے ہیں – اب یہ حقیقت بنا کہ  یعقوب  علیہ السلام  کے بیٹوں  نے بدوی زندگی کو خیر باد کہا  اور  مصری وزیر (یوسف) کے ساتھ  تحت رہنا قبول کیا  

عثمانی صاحب نے جو منظر کشی کی ہے اس کے تحت یوسف اور ان کے والدین تخت پر ہیں- سامنے ان کے بھائی ہیں – اب سوائے یوسف کے سب اللہ کو سجدہ کرتے ہیں ، جو جہاں ہے وہیں سجدے میں گر جاتا ہے – سجدہ اللہ کو ہو رہا ہوتا ہے لیکن دیکھنے والی آنکھ میں منظر یہ ہے کہ  یوسف  بیچ میں تخت پر ہیں – وہی خواب والی شکل بن جاتی ہے

عثمانی صاحب کا مدعا ہے کہ سجدہ کے وقت وہی خواب والی شکل بنی – جس طرح کعبہ ایک عمارت ہے الله نہیں ہے لیکن اللہ کا حکم ہے کہ اس کو اگر سجدہ کرنا ہے تو کعبه کی طرف رخ کیا جائے – اسی طرح معاملہ نیت کا ہے کہ سجدہ کرتے وقت نیت اللہ کو سجدہ کرنے کی تھی لیکن یوسف بیچ میں کرسی پر بیٹھے تھے وہی خواب والی شکل بن گئی

اگر ہم یہ مان لیں کہ یہ سجدہ نماز جیسا تھا اور الگ سے صف بندی کر کے اللہ کو سجدہ کیا گیا تو خواب والی صورت کبھی بھی نہیں بنتی – راقم کہتا ہے کہ یعقوب علیہ السلام کے دور میں قبلہ کا کوئی تصور نہیں تھا – نہ مصر میں موسی علیہ السلام کا کوئی ایک قبلہ تھا بلکہ ہر شہر میں الگ الگ قبلہ مقرر کیا گیا تھا –

وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى وَأَخِيهِ أَنْ تَبَوَّآ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوتًا وَاجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ
اور ہم نے موسی اور اس کے بھائی کو الوحی کی کہ اپنی قوم کے لئے مصر میں گھر کرو اور ان گھروں کو قبلہ بنا لو اور نماز قائم کرو اور مومنوں کو بشارت دو ( سورہ یونس)

یعقوب علیہ السلام یا ان کے بیٹے اللہ کو سجدہ کسی بھی رخ پر کر سکتے تھے – اس طرح عثمانی صاحب کی تشریح ایک اچھی تشریح ہے لیکن راقم کے نزدیک یہ سجدہ نماز جیسا سرے سے ہی نہیں ہے  اور نہ یہان له کی ضمیر اللہ تعالی کی طرف لینے کا کوئی قرینہ ہے

تفسیروں میں خر کے کلمہ پر لکھا گیا ہے

الخرّ: السقوط بلا نظام وبلا ترتيب

بغیر نظم و ترتیب کے نیچے آنا

 بعض لوگ جو اس آیت میں  سجدے کو اللہ کی طرف مانتے ہیں وہ اس کے قائل ہیں کہ سجدہ باقاعدہ صف بنا کر کیا گیا  یہ بات متن قرآن میں نہیں ہے

اسی طرح جو لوگ اس سجدے کو اللہ کی طرف مانتے ہیں وہ اس کے قائل ہیں کہ یوسف علیہ السلام نے بھی سجدہ کیا اور جب وہ سجدے سے اٹھے انہوں نے فرمایا یہ میرے خواب کی تاویل ہے – دوسری طرف عثمانی صاحب کہتے ہیں یوسف تخت پر تھے  اور خواب والی شکل بنی – خواب والی شکل اس صورت میں بالکل نہیں بنتی اگر یوسف علیہ السلام بھی سجدہ کرتے

سجدہ یوسف کو کیا گیا اللہ کے لئے 

یہ تشریح یہ بھی بیان کی جاتی ہے

الأخبار الموفقيات للزبير بن بكار میں ہے کہ ابو بکررضی اللہ عنہ  کی خلافت کا سن کر أَبِي لَهَبِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ هَاشِمٍ کی اولاد میں سے کسی نے یہ شعر علی رضی اللہ عنہ کے لیے کہا

أَلَيْسَ أَوَّلَ مَنْ صَلَّى لِقِبْلَتِكُمْ … وَأَعْلَمَ النَّاسِ بِالْقُرْآنِ وَالسُّنَنِ
کیا وہ پہلے نہیں تھے جنہوں نے تمہارے قبلے کے لئے نماز پڑھی؟
اور انسانوں میں قرآن و سنت کے سب سے زیادہ خبر رکھنے والے ہیں

اس شعر میں ہے کہ قبلہ کے لئے نماز پڑھی جبکہ نماز اللہ کے لئے ہوتی ہے – اس سے بعض مفسرین نے دلیل لی ہے کہ وَخَرُّوْا لَـهٝ سُجَّدًا میں له کی ضمیر اللہ کی طرف ہے کہ اللہ کے لئے یوسف کو سجدہ کیا گویا کہ یوسف کو قبلہ مانتے ہوئے ایسا کیا گیا – قرآن میں سورہ بنی اسرائیل میں ہے

أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَىٰ غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ ۖ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا
نماز قائم کرو سورج کے غروب کے لئے، سے لے کر رات کے چھا جانے تک اور فجر کا قرآن ! بے شک قرآن فجر کو دیکھا جاتا ہے

یہاں لِدُلُوكِ ہے یعنی ل + دلوک – دلوک کا مطلب غروب ہے اور ل اس میں اضافی ہے کہ سورج کے غروب کے لئے

یہ عربی کا محاوراتی انداز ہے اس کا اردو میں صاف ترجمہ ممکن نہیں ہے – مدعا یہ ہے کہ سورج کے  غروب ہونے کا ہماری نماز سے کوئی براہ راست تعلق نہیں – سورج تو ہر صورت غروب ہو گا لیکن یہاں ل لگنے سے اس وقت کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے –  غور کریں کہ  نماز قائم تو اللہ کے لئے کی جاتی ہے نہ کہ سورج کے غروب کے لئے لیکن کوئی عرب اس کا یہ مطلب نہیں لیتا کہ نماز سورج کے غروب کے لئے پڑھو  – اسی طرح  بعض نے تشریح کی کہ سورہ یوسف میں خروا له سجدا میں ہے کہ یوسف کے لئے سجدہ میں گئے لیکن اللہ کو سجدہ کرنے کی غرض سے – قابل غور ہے کہ ان مفسرین کے نزدیک بھی ضمیر یوسف کی طرف ہے  بس سجدہ اللہ کو ہے کینکہ یہ نیت کا معاملہ ہے – – یوسف کو قبلہ سمجھا گیا

اسی سجدہ کی تعبیر یہ بھی کی جاتی ہے کہ یوسف کو قبلہ سمجھتے ہوئے سجدہ کیا گیا – جس طرح کعبہ مخلوق ہے اور یوسف کو قبلہ سمجھ کر سجدہ کیا گیا – اسی بنا پر اردو میں بر صغیر میں بزرگ کو قبلہ و کعبه کہہ کر مخاطب کیا جاتا تھا   مثلا کسی کو خط لکھا تو شروع میں لکھا :  حضرت قبلہ و کعبه جناب فلاں صاحب  ….. وغیرہ – البتہ یہ ذہن قبول نہیں کرتا کیونکہ انسان کو قبلہ کرنے کا تصور ہم کو مذھب میں معلوم نہیں ہے اور صرف اس آیت سے اس کا استخراج کیا گیا ہے –

متن قرآن کو اردو محاوراتی انداز میں سمجھنا 

سوره یوسف میں بیان ہوا ہے کہ یوسف علیہ السلام نے ایک خواب دیکھا

قَالَ يُوسُفُ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ

اے میرے والد! میں نے (خواب میں) گیارہ ستاروں کو اور سورج اور چاند کو دیکھا ہے، میں نے دیکھا وہ مجھے سجدہ کررہے ہیں

ایک بھائی کہتے ہیں اس کا ترجمہ یہ درست ہے

سورة يوسف 4

اِذۡ قَالَ یُوۡسُفُ لِاَبِیۡہِ یٰۤاَبَتِ اِنِّیۡ رَاَیۡتُ اَحَدَعَشَرَ کَوۡکَبًا وَّ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ رَاَیۡتُہُمۡ لِیۡ سٰجِدِیۡنَ ﴿۴﴾

جب کہ یوسف نے اپنے باپ سے ذکر کیا کہ ابا جان میں نے گیارہ ستاروں کو اور سورج چاند کو دیکھا کہ وہ سب میرے ہاں سجدہ کر رہے ہیں ۔

یعنی یوسف کے گھر میں سجدہ کر رہے ہیں
مثلا
سورة آل عمران 40

قَالَ رَبِّ اَنّٰی یَکُوۡنُ لِیۡ غُلٰمٌ وَّ قَدۡ بَلَغَنِیَ الۡکِبَرُ وَ امۡرَاَتِیۡ عَاقِرٌ ؕ قَالَ کَذٰلِکَ اللّٰہُ یَفۡعَلُ مَا یَشَآءُ ﴿۴۰﴾

کہنے لگے اے میرے رب! میرے ہاں بچہ کیسے ہوگا؟ میں بالکل بوڑھا ہوگیا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے ، فرمایا اسی طرح اللہ تعالٰی جو چاہے کرتا ہے ۔

راقم کہتا ہے یہ اردو بولنے والوں نے عربی قرآن کو اپنی زبان پر ڈھال کر اس کو بدلا ہے

ہر زبان میں بول چال کا الگ الگ طریقہ ہے – جو محاروے ہم بولتے ہیں وہ عربی میں نہیں ہیں اور جو عربی میں ادب و زبان ہے وہ اردو کا نہیں ہے –  یہاں ایسا ہی ہے – لی کا مطلب عربی میں مجھ کو یا مجھ سے ہے – میرے ہاں اس کا مطلب نہیں ہے – ہمارے ہاں بولنا یہ اردو ہے عربی نہیں ہے مثلا اردو میں ہم کہیں ہمارے ہاں آنا یعنی ہمارے گھر آنا – اس انداز میں عربی میں نہیں بولا جاتا

عربی میں ہے دخل علی
وہ ان پر داخل ہوا
یعنی ان کے حجرے میں یا گھر گیا

صحیح ترجمہ ہے

قَالَ رَبِّ اَنّٰی یَکُوۡنُ لِیۡ غُلٰمٌ وَّ قَدۡ بَلَغَنِیَ الۡکِبَرُ وَ امۡرَاَتِیۡ عَاقِرٌ ؕ قَالَ کَذٰلِکَ اللّٰہُ یَفۡعَلُ مَا یَشَآءُ ﴿۴۰﴾
کہنے لگے اے میرے رب! میرے لئے لڑکا کیسے ہوگا؟ میں بالکل بوڑھا ہو گیا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے ، فرمایا اسی طرح اللہ تعالٰی جو چاہے کرتا ہے ۔

سورہ کہف میں ہے کہ اصحاب کہف نے کہا
وَمَا يَكُونُ لَنَا أَنْ نَعُودَ فِيهَا
اور ہمارے لئے نہیں ہے کہ ہم اب واپس جائیں

اگر لنا کا ترجمہ ہمارے ہاں کر دیں تو ہو گا
وَمَا يَكُونُ لَنَا أَنْ نَعُودَ فِيهَا
اور ہمارے ہاں نہیں ہے کہ ہم واپس جائیں

جبکہ اصحاب کہف کے گھر والے مشرک تھے

محشر میں عیسیٰ علیہ السلام رب العالمین سے دعا کریں گے
قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ
آپ پاک ہیں میرے لئے نہیں ہے کہ سوائے حق کے کچھ کہوں

اگر لی کا ترجمہ “میرے ہاں” کر دیں تو یہ گستاخی کا انداز بن جاتا ہے

لہذا صحیح ترجمہ یہی ہے

قَالَ يُوسُفُ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ

اے میرے والد! میں نے (خواب میں) گیارہ ستاروں کو اور سورج اور چاند کو دیکھا ہے، میں نے دیکھا وہ مجھے سجدہ کررہے ہیں

راقم کو حیرت ہوئی کہ ایک گروہ نے اس آیت کو اپنے جدل  کے لئے  تختہ مشق بنایا ہوا ہے لیکن اس پر  اپنے متعدد مضامین میں سے کسی  ایک میں  بھی انہوں نو اس آیت کا مکمل  ترجمہ کرنے کی جرات نہیں   بلکہ تقاریر میں پہلے اس  سجدے کو میرے ہاں   کیا (یعنی میرے گھر پر) پھر جب غلطی واضح کی گئی تو اب وہ اس کا زبانی ترجمہ کر رہے ہیں میرے لئے سجدہ کیا کہ یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ میں نے دیکھا وہ میرے لئے سجدہ کر رہے ہیں

یہ  ترجمہ بھی غلط سلط ہے کیونکہ خواب  میں سورج چاند اور گیارہ ستاروں کو دیکھا کہ وہ سجدہ  کر رہے ہیں یوسف نے سورج چاند اور گیارہ ستاروں کے نفس کا حال نہیں جانا تھا اور یہ ترجمہ کہ وہ میرے لئے سجدہ کر رہے ہیں اسی وقت ممکن ہے جب سورج چاند اور گیارہ ستارے یوسف سے کلام کرتے اپنے سجدہ کی نوعیت واضح کرتے – قرآن میں ان اجرام فلکی کے کلام کا ذکر نہیں ہے بلکہ صرف عمل دیکھنے کا ذکر ہے

چند سال قبل چھپنے والے مضمون میں اس آیت  کی تفہیم  درست تھی کہ   یوسف علیہ السلام نے  دیکھا سورج چاند اور ستارے ان کو سجدہ کر رہے ہیں  لیکن اب اسی گروہ  کی جانب سے نت نئے ترجمے آ رہے ہیں

یعقوب علیہ السلام نے تعبیر کی یا نہیں ؟

یعقوب علیہ السلام نے خواب کی کوئی تعبیر نہیں کی – صرف اس کو چھپانے کا ذکر کیا- یعقوب علیہ السلام نے خواب پر تبصرہ کیا کہ اللہ تم پر مستقبل میں اپنی نعمت تمام کرے گا

وَكَذٰلِكَ يَجْتَبِيْكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ وَيُتِـمُّ نِعْمَتَهٝ عَلَيْكَ وَعَلٰٓى اٰلِ يَعْقُوْبَ كَمَآ اَتَمَّهَا عَلٰٓى اَبَوَيْكَ مِنْ قَبْلُ اِبْـرَاهِيْـمَ وَاِسْحَاقَ ۚ اِنَّ رَبَّكَ عَلِيْـمٌ حَكِـيْـمٌ (6)

اور اسی طرح تیرا رب تجھے برگزیدہ کرے گا اور تجھے خواب کی تعبیر سکھائے گا اور اپنی نعمتیں تجھ پر اور یعقوب کے گھرانے پر پوری کرے گا جس طرح کہ اس سے پہلے تیرے باپ دادا ابراہیم اور اسحاق پر پوری کر چکا ہے، بے شک تیرا رب جاننے والا حکمت والا ہے۔

یعقوب علیہ السلام اصل میں اس وعدہ الہی کی بنیاد پر تبصرہ کر رہے ہیں جو اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام سے کیا تھا
وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ
سورہ بقرہ ١٢٤
جب تمھارے رب نے ابراھیم کی آزمائش کلمات (احکام) سے کی، تو اس نے ان کو پورا کیا – کہا میں نے تجھ کو انسانوں پر امام کیا بولا اور میری اولاد ؟ کہا میرا وعدہ ظالموں کے لئے نہیں

یعقوب علیہ السلام نے اس خواب کو چھپانے کا حکم کیا

قَالَ يَا بُنَيَّ لَا تَقْصُصْ رُؤْيَاكَ عَلَى إِخْوَتِكَ فَيَكِيدُوا لَكَ كَيْدًا إِنَّ الشَّيْطَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوٌّ مُبِينٌ

کہا اے بیٹے اس خواب کا تذکرہ اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ورنہ وہ تمھارے خلاف سازش کریں گے بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے

یوسف (علیہ السلام ) غیر نبی  کو یعقوب علیہ السلام نبوت کو بشارت  دے رہے ہیں کہ عنقریب  مستقبل میں ہو گا کہ تم کو نبی بنا دیا جائے گا   – معلوم ہوا کہ یوسف کا خواب الوحی نہیں تھا کیونکہ بشارت  خواب کے بعد دی کہ ایسا ہوا گا یہ نہیں فرمایا کہ تم نبی بن چکے ہو

یہ خواب الوحی نہیں  تھا  لیکن ایک سچی خبر ضرور تھا جس طرح ایک مومن بندہ خواب دیکھتا ہے جو سچا ہو جاتا ہے  – اس کے الوحی نہ ہونے کی متعدد وجوہات ہیں

اول : یہ ممکن نہیں کہ ایک نبی خواب دیکھے اور اس کی تعبیر خود نہ کر سکے

غور کریں کہ انبیاء کا  خواب اللہ کا  براہراست حکم ہوتا ہے  لیکن خواب دیکھنے والا اگر  نبی نے تو وہ   اس کو سمجھ ہی    نہ سکے کیسے ممکن ہے-    اس خواب کو سمجھنے کے لئے  اس کو کسی دوسرے نبی کو تلاش کرنا پڑے

دوم : الوحی  کو اخفاء رکھنا ظلم ہے 

 انبیاء پر تو لازم ہے کہ جو بھی  الوحی ہو اس کو ببانگ دھل بیان کریں

و اللہ یعصمک من الناس
اللہ ان کو لوگوں سے بچائے گا

سورہ المائدہ ٦٧ میں
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ
اے رسول پھیلا دو جو تمہارے رب نے تم پر نازل کیا اگر تم نے ایسا نہ کیا تو رسالت کو نہیں ادا کیا اور بے شک اللہ لوگوں سے بچائے گا

فرمان مصطفی ہے
جس کو علم کی بات معلوم ہو اوروہ  اس کو چھپا دے تو  اس کو اگ کا طوق ڈالا جائے گا حدیث

ان فرمودات کی روشنی میں واضح ہے کہ یعقوب نے اس کو اپنے غیر نبی بیٹے یوسف کا سچا خواب سمجھا جس کو ابھی نبوت نہیں ملی لیکن عنقریب اس پر نعمت تمام ہو گی اور وہ نبی بن جائے گا- یوسف علیہ السلام کا یہ خواب اسی طرح سچی خبر تھا جس طرح ایک عام مومن بندے کو سچا خواب اتا ہے جو پورا ہوتا ہے- یعقوب اس وقت نبی تھے انہوں نے جو کہا اس میں اس کا کہیں اثبات نہیں ہے کہ تم اے یوسف،  نبی بن چکے ہو ،  بلکہ ان کے نزدیک ابھی یوسف پر اتمام نعمت نہیں ہوا تھا – نبی بننا ہی سب سے بڑی نعمت ہے جو یوسف کو اس وقت نہیں ملی تھی

سوم : یعقوب علیہ السلام نے خواب  سمجھایا کہ چونکہ اس میں تم نے اے یوسف  دیکھا کہ اجرام فلکی تم کو سجدہ کر رہے ہیں تو اس کا مطلب تم کو عزت  ملنا ہے اور اس کی اصل تاویل اللہ تم کو ضرور دے گا کہ تم کو تاویل کا علم دے گا – سوال ہے کہ کیا تمام انبیاء   کو خواب کی تعبیر کا علم دیا گیا تھا ؟ اس پر کوئی دلیل نہیں ہے – اللہ نے بعض رسولوں کو بعض پر فضیلت دی ہے – اس میں جو معجزات ایک نبی کو ملے وہ دوسرے کو نہیں – مثلا عیسیٰ مردوں کو زندہ کرتے تھے لیکن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی مردہ زندہ نہ کیا- یعقوب علیہ السلام نے کوئی تعبیر نہ کی بلکہ تبصرہ فرمایا

یعقوب علیہ السلام کا یہ کہنا کہ تم کو تاویل کا علم دیا جائے گا یہ اسی خواب کے تناظر میں نبی کی  پیشنگوئی ہے کہ اس خواب کی حقیقت اللہ تم پر واضح کرے گا

یہاں پر تاویل الاحادیث سے مراد خواب کی تعبیر کا علم ہے  انسانوں کی باتوں کی تشریح نہیں ہے – انبیا کو انسانی باتوں کا شارح نہیں بلکہ شریعت کا شارح مقرر کیا گیا ہے  لیکن ایک مقام پر اس آیت میں   خواب  کی تعبیر کا ذکر کرنے کی بجائے ترجمہ میں کیا گیا ہے

یہ ترجمہ نذر احمد سے مستعار لیا گیا ہے لیکن خواب کی تعبیر  کا مفہوم اس سے نکال دیا گیا ہے

http://lib.bazmeurdu.net/ترجمہ-و-تفسیر-قرآن،حصہ۶-یوسف-تا-اسراء۔/

تاریخ مطول از مسعود بی ایس سی جماعت المسلمین میں  ترجمہ کیا  ہے

غیر اللہ کو سجدہ نہ کرو

ایک سوال کیا جاتا ہے کہ غیر اللہ کو سجدہ نہ کرو یہ قرآن میں کہاں لکھا ہے ؟

الله تعالی نے فرمایا

ومِنْ آيَاتِهِ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ

اور رات اور دن اور سورج اور چاند اُس کی نشانیوں میں سے ہیں، نہ سورج کو سجدہ کیا کرو اور نہ ہی چاند کو، اور سجدہ صرف اﷲ کے لئے کیا کرو جس نے اِن (سب) کوخلق کیا ہے اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو

اور الله تعالی نے سوره الحج میں فرمایا

الَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَسْجُدُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَكَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ وَكَثِيرٌ حَقَّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ إِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ

کیا تم دیکھتے نہیں الله کو سجدہ کر رہے ہیں جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں اور سورج اور چند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور چوپائے اور بہت سے ایسے جن پر عذاب ثبت ہو چکا …

قرآن میں اصول بیان ہوا ہے کہ غیر الله کو سجدہ حرام ہے اور یہ اس وقت بھی حرام تھا جب انسان نہ تھا

ضمیر  کیسے پتا کیا جائے کس کی طرف ہے ؟

ایک مضمون میں  ایک صاحب نے لکھا

راقم کہتا ہے یہ قاعدہ کہتا ہے کہ اسم بعد میں آئے گا ضمیر پہلے-  اس  کو عود الضمير على متأخر کہا جاتا ہے –   سورہ یوسف میں سجدے والی بات کے بعد باپ   کا اسم آیا ہے نہ کہ  اللہ تعالی کا ذکر  ہے

وَرَفَـعَ اَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّوْا لَـهٝ سُجَّدًا ۖ وَقَالَ يَـآ اَبَتِ هٰذَا تَاْوِيْلُ رُؤْيَاىَ مِنْ قَبْلُ ؕ قَدْ جَعَلَـهَا رَبِّىْ حَقًّا

اور اپنے ماں باپ کو تخت پر اونچا بٹھایا اور اس کے آگے سب سجدہ میں جھک گئے، اور کہا اے باپ میرے اس پہلے خواب کی یہ تاویل ہے، میرے رب نے اس خواب کو سچ کر دکھایا،

یہاں رویا کا لفظ ہے جو عربی میں مونث ہے اور لفظ تاویل مذکر ہے – اردو میں الٹا ہے خواب مذکر ہوتا ہے اور اس کی تاویل کو مونث بولا جاتا ہے – عربی میں ایسا نہیں ہے – یوسف نے خواب سچا ہونے کی بات کی ہے اور خواب میں سجدہ یوسف کو کیا جا رہا تھا اللہ تعالی کو نہیں – وَخَرُّوْا لَـهٝ  کے بعد اسم  کہاں ہے جس کی طرح یہ ضمیر جا رہی ہے ؟ بلکہ ایک اورمونث  ضمیر آ جاتی ہے جو  جَعَلَـهَا میں ہے اور اس کی نسبت ربی سے ہے کہ اللہ نے اس  رویا ( مونث) خواب  کو سچا کیا

عربی میں اس کا کوئی قرینہ نہیں ہے کہ جب عود الضمير على متأخر والا جملہ ہو تو   ضمیر اور اسم کے درمیان ایک  دوسرا مکمل  جملہ وارد ہو جائے – جیسا یہاں ہے اور کہا اے باپ میرے اس پہلے خواب کی یہ تاویل ہے…. کیونکہ یہ ایک مسلسل جملہ نہیں رہتا اگر ضمیر اور اسم میں دوری ہو

حدیث قرع النعال میں ہے کہ مردہ سنتا ہے ان کے جوتوں کی چاپ کہ دو فرشتے آتے ہیں

اس میں ابہام نہیں ہے کیونکہ یہاں نعالھما اور فرشتوں الملکین میں کوئی دوری نہیں ہے
اوپر آیات میں بھی ایسا ہی ہے فورا فورا اسم اور ضمیر ساتھ ہیں
لہذا سورہ یوسف کی اس آیت کی مثال عود الضمير على متأخر نہیں بنتی

مثأل دی جاتی ہے کہ عربی میں بعض اوقات ضمیر اور اسم میں فاصلہ ہوتا ہے مثلا
فَقُلْنَا اضْرِبُوْهُ بِبَعْضِهَا
پھر ہم نے کہا اس مردہ پر اس گائے کا ایک ٹکڑا مارو

یہاں بحث ضمیر کے بعد اسم آنے پر ہو رہی ہے نہ کہ اسم کے بعد ضمیر پر لہذا یہ سورہ بقرہ کی آیت کی مثال نہیں لی جا سکتی – جب اسم پہلے آ چکا ہو تو ضمیر کس کی طرف ہے اس میں اشکال بالکل نہیں ہوتا – اشکال اس وقت ہوتا ہے جب ضمیر پہلے ہو اور اسم بعد میں آئے- سورہ بقرہ کی اس آیت سے پہلے تفصیل سے گائے پر بات ہو چکی ہے

ضمیر کے حوالے سے کہا گیا کہ قرآن میں بعض ضمیروں کو ان کی اصل سے ہٹا کر لینا ہو گا مثلا

راقم کہتا ہے یہ فیصلہ قرات سے ہو جاتا ہے – اس آیت کی قرات دو  طرح منقول ہے- كُذِبُوا کے لفظ سے اور كُذِّبُوا کے لفظ سے

حَتّــٰٓى اِذَا اسْتَيْاَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّـوٓا اَنَّـهُـمْ قَدْ كُذِبُـوْا جَآءَهُـمْ نَصْرُنَاۙ فَنُجِّىَ مَنْ نَّشَآءُ ۖ وَلَا يُرَدُّ بَاْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِيْنَ (110)

اور کذبوا تشدید کے ساتھ بھی ہے یعنی


یہاں تک کہ جب رسول نا امید ہونے لگے اورگمان کیا کہ (ماننے والوں کی جانب سے بھی ) ان کا انکار کر دیا جائے گا  تب انہیں ہماری مدد پہنچی، پھر جنہیں ہم نے چاہا بچا لیا، اور ہمارے عذاب کو نافرمانوں سے کوئی بھی روک نہیں سکتا۔

https://www.nquran.com/ar/ayacompare?sora=12&aya=110

اس طرح اپنی  طرف سے ضمیریں فٹ نہیں کی جاتیں بلکہ ان کو اختلاف قرات سے  احادیث سے سمجھا جاتا ہے

صحیح بخاری میں اس پر وضاحت موجود  ہے

حدیث نمبر: 3389 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُقَيْلٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَرَأَيْتِ قَوْلَهُ حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا سورة يوسف آية 110 أَوْ كُذِبُوا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ بَلْ كَذَّبَهُمْ قَوْمُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ لَقَدِ اسْتَيْقَنُوا أَنَّ قَوْمَهُمْ كَذَّبُوهُمْ وَمَا هُوَ بِالظَّنِّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ يَا عُرَيَّةُ لَقَدِ اسْتَيْقَنُوا بِذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ فَلَعَلَّهَا أَوْ كُذِبُوا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ مَعَاذَ اللَّهِ لَمْ تَكُنِ الرُّسُلُ تَظُنُّ ذَلِكَ بِرَبِّهَا وَأَمَّا هَذِهِ الْآيَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ هُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ الَّذِينَ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَصَدَّقُوهُمْ وَطَالَ عَلَيْهِمُ الْبَلَاءُ وَاسْتَأْخَرَ عَنْهُمُ النَّصْرُ حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَتْ مِمَّنْ كَذَّبَهُمْ مِنْ قَوْمِهِمْ وَظَنُّوا أَنَّ أَتْبَاعَهُمْ كَذَّبُوهُمْ جَاءَهُمْ نَصْرُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ اسْتَيْأَسُوا سورة يوسف آية 80 افْتَعَلُوا مِنْ يَئِسْتُ مِنْهُ سورة يوسف آية 80مِنْ يُوسُفَ وَلا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ سورة يوسف آية 87 مَعْنَاهُ الرَّجَاءُ.

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ‘ ان سے عقیل نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ کہا کہ مجھے عروہ نے خبر دی کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے آیت کے متعلق پوچھا « (حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِّبُوا) أَوْ كُذِبُوا؟» (تشدید کے ساتھ) ہے یا «كذبوا‏» (بغیر تشدید کے) یعنی یہاں تک کہ جب انبیاء ناامید ہو گئے اور انہیں خیال گزرنے لگا کہ انہیں جھٹلا دیا گیا تو اللہ کی مدد پہنچی تو انہوں نے کہا کہ (یہ تشدید کے ساتھ ہے اور مطلب یہ ہے کہ) ان کی قوم نے انہیں جھٹلایا تھا۔ میں نے عرض کیا کہ پھر معنی کیسے بنیں گے ‘ پیغمبروں کو یقین تھا ہی کہ ان کی قوم انہیں جھٹلا رہی ہے۔ پھر قرآن میں لفظ «ظن‏.‏» گمان اور خیال کے معنی میں استعمال کیوں کیا گیا؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے چھوٹے سے عروہ! بیشک ان کو تو یقین تھا میں نے کہا تو شاید اس آیت میں بغیر تشدید کے «كذبوا‏» ہو گا یعنی پیغمبر یہ سمجھے کہ اللہ نے جو ان کی مدد کا وعدہ کیا تھا وہ غلط تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: معاذاللہ! انبیاء اپنے رب کے ساتھ بھلا ایسا گمان کر سکتے ہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا مراد یہ ہے کہ پیغمبروں کے تابعدار لوگ جو اپنے مالک پر ایمان لائے تھے اور پیغمبروں کی تصدیق کی تھی ان پر جب مدت تک اللہ کی آزمائش رہی اور مدد آنے میں دیر ہوئی اور پیغمبر لوگ اپنی قوم کے جھٹلانے والوں سے ناامید ہو گئے (سمجھے کہ اب وہ ایمان نہیں لائیں گے) اور انہوں نے یہ گمان کیا کہ جو لوگ ان کے تابعدار بنے ہیں وہ بھی ان کو جھوٹا سمجھنے لگیں گے ‘ اس وقت اللہ کی مدد آن پہنچی

اس سے واضح ہوا کہ مضمون نگار کو نہ اختلاف قرات کا علم تھا نہ  اس حدیث کا علم   تھا ورنہ اس قسم کی غلطی نہیں کرتا

سورہ مریم  میں آیت ١٩ میں ہے کہ جبریل علیہ السلام ، محترمہ مریم  علیہ السلام کے سامنے ظاہر ہوئے ان کو کہا

قرات ابی عاصم  میں ہے

 لِأَهَبَ لَكِ غُلَامًا زَكِيًّا

کہ میں تم کو ایک پاک لڑکا دوں

قرات أبو عمرو بن العلاء میں ہے

ليهب لك غلاما زكيا وہ (الرحمان ) تم کو ایک پاک لڑکا دے 

اس طرح  اختلاف قرات سے یہ مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے کہ لڑکا  فرشتہ نے اپنی قوت سے نہیں دیا بلکہ اللہ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے ہوا

قرأ قالون بخلف عنه، وورش، وأبو عمرو، ويعقوب: (ليهب لك غلاما زكيّا) بالياء، وقرأ الباقون: لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا بالهمزة (1).
وقد أخبر الآلوسي أن الزهري، وابن مناذر، واليزيدي، والحسن، وشيبة قرءوها بالياء أيضا 

قالون ، ورش ، ابو عمرو ، یعقوب نے قرات کی (ليهب لك غلاما زكيّا)  … اور الوسی نے خبر دی کہ الزهري، وابن مناذر، واليزيدي، والحسن، وشيبة  نے بھی ياء سے قرات کی 

http://shamela.ws/browse.php/book-38020/page-143

تفسیری اقوال کی بحث

ایک مضمون نگار لکھتے ہیں

تفسیر رازی میں فخر الدين الرازي خطيب الري (المتوفى: 606هـ) قول ہے
وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي رِوَايَةِ عَطَاءٍ أَنَّ الْمُرَادَ بِهَذِهِ الْآيَةِ أَنَّهُمْ خَرُّوا لَهُ أَيْ لِأَجْلِ وِجْدَانِهِ سَجَدَا للَّه تَعَالَى
عَطَاءٍ کی روایت ہے ابن عباس سے کہ مراد ہے سجدہ اللہ تعالی کو کیا گیا یوسف مل جانے کی وجہ سے 

راقم کہتا ہے  ابن عبّاس سے منسوب اس قول  کی سند نہیں ہے- نہ قدیم  تفسیروں میں اس  قول کی کوئی سند دی گئی ہے – یوسف علیہ السلام مل گئے یہ خبر کنعان میں ہی مل گئی تھی جب یعقوب علیہ السلام کی بینائی واپس آئی اور انبیاء کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ سجدہ شکر فورا ہی بجا لاتے ہیں ان کو مصر جا کر سجدہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی

تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ، ثنا مُحَمَّدٌ سَعِيدٌ الْعَطَّارُ، ثنا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرْفَةَ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا قَالَ: كَانَتْ تَحِيَّةُ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، فَأَعْطَاكُمُ اللَّهُ السَّلامَ مَكَانَهَا.
عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ نے وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا پر کہا یہ سلام تھا اس سے قبل پس اللہ نے سلام اس مکان پر عطا کیا

اس کی سند ضعیف ہے – سند میں عبيدة بن حميد الكوفي الحذاء النحوي ہے – کتاب ميزان الاعتدال في نقد الرجال
از الذھبی کے مطابق

وقال زكريا الساجي: ليس بالقوى في الحديث
الساجی نے کہا یہ حدیث میں قوی نہیں ہے

قال ابن المديني: أحاديثه صحاح، وما رويت عنه شيئا، وضعفه
امام علی المدینی نے کہا اس کی احادیث صحاح ہیں – اس سے روایت نہیں لیتا اور انہوں نے اس کی تضعیف کی

قتادہ بصری جو قلیب بدر کو معجزہ کہتے تھے ان کا قول ہے کہ سجدہ یوسف کو ہوا اس دور کا سلام تھا
تفسیر طبری میں ہے

حدثنا بشر، قال: حدثنا يزيد، قال: حدثنا سعيد، عن قتادة: (وخروا له سجّدًا) وكانت تحية من قبلكم، كان بها يحيِّي بعضهم بعضًا، فأعطى الله هذه الأمة السلام، تحية أهل الجنة، كرامةً من الله تبارك وتعالى عجّلها لهم، ونعمة منه.

حدثنا محمد بن عبد الأعلى، قال: حدثنا محمد بن ثور، عن معمر، عن قتادة: (وخروا له سجدًا) ، قال: وكانت تحية الناس يومئذ أن يسجد بعضهم لبعض.

الضحاك نے کہا یہ اس دور کا سلام تھا

حدثنا ابن وكيع، قال: حدثنا المحاربي، عن جويبر، عن الضحاك: (وخروا له سجدًا) قال: تحيةٌ بينهم.

اسی قول کو ابن کثیر نے قبول کیا ہے البتہ راقم ان اقوال کو رد کرتا ہے کیونکہ الضحاك حدیث میں ضعیف ہے اور قتادہ مدلس ہے معلوم نہیں کس سے یہ اقوال لیے

لہذا مضمون نگار کا سند کی غیر موجودگی میں ضحاك  اور عطا سے منسوب  اقوال پر اعتماد کرنا عجیب بات ہے

ایک صاحب نے تحقیق عمیق کر کے بندر کی بلا طویلے کے سر اس طرح باندھی کہ قتادہ  پر جرح کرنے کی بجائے ابن کثیر پر بھڑاس نکالی اور شروع میں ابن عباس کا قول بھی بلا معرفت سند لکھ ڈالا

بھائی بھول گئے کہ ابن کثیر سے صدیوں پہلے طبری یہ اقوال تفسیر میں قتادہ کی سند سے اور الضحاک کی سندوں سے لکھ چکے ہیں لہذا یہ بات جہاں سے شروع ہوئی وہاں جانا چاہیے

فرشتوں کا سجدہ انسان جیسا نہیں ہو سکتا ؟ 

مقابلے پر کہا جاتا ہے کہ آدم علیہ السلام کو فرشتوں نے سجدہ کیا تو وہ کیا تھا – راقم کہتا ہے وہ سجدہ اللہ کا حکم تھا اور اللہ کے حکم پر عمل عبادت الہی ہے – آدم کو سجدہ فرشتوں نے کیا ہے –  بعض نواقض العقول لوگوں کا کہنا ہے کہ آدم علیہ السلام کو بھی سجدہ نہیں ہوا – عجیب بات یہ ہے کہ ان لوگوں کا سار زور اس پر ہے کہ سورہ یوسف والی آیت میں سجدے کو نماز جیسا ثابت کریں لیکن جب آدم علیہ السلام کو سجدے والی آیت کا ذکر آئے تو اس کو نماز جیسا سجدہ قرار دینے سے احتراز کیا جائے – راقم کہتا ہے یہ کام الٹا ہے کیونکہ سجدہ آدم براہ راست اللہ کا حکم ہے – سورہ یوسف میں جس سجدے کا ذکر ہے ان لوگوں کو چاہیے کہ اس کو اصطلاحی سجدے سے الگ کر کے سمجھیں

جب لوگوں نے یہ مان لیا کہ یوسف علیہ السلام کو نماز جیسا سجدہ ہوا تو مزید اشکال پیدا ہوئے – ایک یہ کہ  قرآن میں آ گیا ہے کہ آدم علیہ السلام کو فرشتوں سے سجدہ کروایا گیا – اس سجدے کو بدلنا ضروری سمجھا گیا کیونکہ اس سے ثابت ہوا کہ اللہ نے ہی مخلوق کو سجدہ کا حکم دیا – اس پر دو  تحریفات کی گئیں

اول اس وقت شریعت نہیں تھی

دوم فرشتوں کے سجدے کا ہم کو علم نہیں ہے 

اس کا جواب یہ دیا گیا کہ  توحید تو ہر وقت تھی کہ نہیں ؟ اللہ تعالی نے ہی مخلوق  آدم کو سجدہ کا حکم کیا تو اللہ کچھ بھی حکم کر سکتا ہے – شریعت تو منہج کا نام ہے جو کیا عالم بالا میں الگ ہے اور زمین پر الگ ؟

بعض لوگوں  کا کہنا ہے کہ فرشتوں کے سجدے کا ہم کو علم نہیں وہ انسان کی طرح نہیں ہیں- ان کی جانب سے ایک صاحب کا کہنا ہے

یہ لکھتے ہوئے مضمون نگار نے یہ نہیں سوچا کہ اس کی ضرب کہاں تک جائے گی

ڈاکٹر عثمانی اس کے قائل تھے کہ  فرشتے لباس پہنتے ہیں، جوتیاں پہنتے ہیں، برزخ میں چل کر اتے ہیں  – عثمانی صاحب نے فرشتوں کو ایک مرد کی صورت دی ہے – لیکن آج ان کی اس رائے کو بدلا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ فرشتوں کے سجدے کا ہم کو علم ہی نہیں ہے جبکہ اس پر احادیث موجود ہیں

یعنی فرشتوں کے رکوع و سجود کا انکار کر کے کہ وہ انسانوں سے الگ ہیں یہ جان چھڑانا ہے جبکہ خود  ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے کہ وہ الگ شکل و نوعیت کے ہیں

برزخ میں سوال و جواب کے وقت فرشتے  انسان کی طرف چلنے لگیں لیکن سجدہ کے وقت انسان سے الگ کریں اس کی کیا دلیل ہے ؟

صحیح بخاری میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز جبریل نے سیکھائی

کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیوں کر شروع ہوئی – باب : فرشتوں کا بیان۔

ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ان سے ابن شہاب نے   عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دن عصر کی نماز کچھ دیر کر کے پڑھائی ۔ اس پر عروہ بن زبیر رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے کہا ۔ لیکن جبرئیل علیہ السلام ( نماز کا طریقہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھانے کے لیے ) نازل ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے ہو کر آپ کو نماز پڑھائی ۔ حضرت عمرو بن عبدالعزیز نے کہا ، عروہ ! آپ کو معلوم بھی ہے آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟ عروہ نے کہا کہ ( اور سن لو ) میں نے بشیر بن ابی مسعود سے سنا اور انہوں نے ابومسعود رضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ فرما رہے تھے کہ   جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور انہوں نے مجھے نماز پڑھائی ۔ میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی ، پھر ( دوسرے وقت کی ) ان کے ساتھ میں نے نماز پڑھی ، پھر ان کے ساتھ میں نے نماز پڑھی ، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی ، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی ، اپنی انگلیوں پرآپ نے پانچوں نمازوں کو گن کر بتایا ۔

صحیح مسلم  میں ہے

عن ابن عباس قال قال رسول اللّٰہ امنی جبریل علیہ السلام عند البیت مرتین

ابن عباس کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ بیت اللہ کے پاس جبریل نے میری دو دفعہ امامت کی

ظاہر  ہے جیسا سجدہ جبریل علیہ السلام نے کیا ویسا ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور امت کو  سکھایا

ان لوگوں نے اپنے موقف کو اب بدل دیا ہے اور کہنا شروع کر دیا ہے کہ آدم علیہ السلام کو فرشتوں نے سجدہ نہیں کیا بلکہ اللہ تعالی کو سجدہ کیا – قرآن میں باطل داخل نہیں ہو سکتا – قرآن میں سورہ ص میں موجود ہے کہ اللہ تعالی نے ابلیس سے پوچھا

قال يا إبليس ما منعك أن تسجد لما خلقت بيدي أستكبرت أم كنت من العالين قال أنا خير منه خلقتني من نار وخلقته من طين
کہا : اے ابلیس تجھ کو کس نے اس کو سجدہ کرنے سے روکا جس کو میں نے اپنے ہاتھ سے بنایا- کیا تو متکبر ہے کوئی بلند بالا ہے ؟ ابلیس نے کہا میں اس سے بہتر ہوں اگ سے بنایا گیا ہوں اور یہ تو مٹی سے بنا ہے

کیا عربی میں رکوع کو بھی سجدہ کہا جا سکتا ہے ؟

سورہ یوسف میں بیان ہوا کہ یوسف نے  دیکھا ان کو سجدہ ہو رہا ہے پھر آیت ١٠٠ میں بتایا گیا کہ گھر والوں نے  سجدہ کیا – راقم نے کہا یہ صرف انحناء تھا یعنی رکوع جیسی کوئی رسم تھی  -سوال اتا ہے کہ کیا عربی میں رکوع کو بھی سجدہ کہا جا سکتا ہے ؟

ایک مضمون نگار کا دعوی کہ حدیث میں جب بھی سجدہ کا لفظ آیا ہےوہ نماز والا ہی سجدہ ہے لکھتے ہیں

اس کا جواب حدیث سے مل جاتا ہے

عربی میں رکوع کی حالت کو بھی سجدہ کہا جاتا ہے کیونکہ یہ زمین کی طرف جھکنا  ہے اور پیشانی زمین پر لگانا اس کی انتہی ہے – سنن ابن ماجہ میں ہے
حدیث نمبر: 1258 ح
بَابُ: مَا جَاءَ فِي صَلاَةِ الْخَوْفِ

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ قَالَ: أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، «فِي صَلَاةِ الْخَوْفِ أَنْ يَكُونَ الْإِمَامُ يُصَلِّي بِطَائِفَةٍ مَعَهُ، فَيَسْجُدُونَ سَجْدَةً وَاحِدَةً، وَتَكُونُ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْعَدُوِّ، ثُمَّ يَنْصَرِفُ الَّذِينَ سَجَدُوا السَّجْدَةَ مَعَ أَمِيرِهِمْ، ثُمَّ يَكُونُونَ مَكَانَ الَّذِينَ لَمْ يُصَلُّوا، وَيَتَقَدَّمُ الَّذِينَ لَمْ يُصَلُّوا فَيُصَلُّوا مَعَ أَمِيرِهِمْ سَجْدَةً وَاحِدَةً، ثُمَّ يَنْصَرِفُ أَمِيرُهُمْ وَقَدْ صَلَّى صَلَاتَهُ، وَيُصَلِّي كُلُّ وَاحِدٍ مِنَ الطَّائِفَتَيْنِ بِصَلَاتِهِ سَجْدَةً لِنَفْسِهِ، فَإِنْ كَانَ خَوْفٌ أَشَدَّ مِنْ ذَلِكَ، فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا» قَالَ: يَعْنِي بِالسَّجْدَةِ الرَّكْعَةَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز خوف کی (کیفیت) کے بارے میں فرمایا:  امام اپنے ساتھ مجاہدین کی ایک جماعت کو نماز پڑھائے، وہ ایک سجدہ کریں اور ایک گروہ ان کے اور دشمن کے درمیان حائل رہے- پھر یہ صف لوٹ جائے جس نے امیر کے ساتھ سجدہ کیا اور وہاں ان کے پاس (دشمن سے لڑنے ) جائیں جنہوں نے نماز ابھی نہیں  پڑھی – اب وہ لوگ جنہوں نے نماز نہیں پڑھی وہ آگے آئیں وہ امیر کے ساتھ ایک  سجدہ کریں اور لوٹ جائیں –  اب امام تو اپنی نماز سے فارغ ہو جائے گا، اور دونوں جماعتوں میں سے ہر ایک (اپنے مقام پر)  ایک سجدہ  اور  کر لیں –  اگر خوف و دہشت اس سے بھی زیادہ ہو، (صف بندی نہ کر سکتے ہوں) تو ہر شخص پیدل یا سواری پر نماز پڑھ لےابن عمر نے کہا سجدہ یہ رکوع ہے

یہ حالت جنگ میں نماز خوف کا ذکر ہے اور یہاں سجدے نہیں صرف رکوع کرنا ہے

کتاب الاقتضاب في شرح أدب از أبو محمد عبد الله بن محمد بن السِّيد البَطَلْيَوسي (المتوفى: 521 هـ) ، الناشر: مطبعة دار الكتب المصرية بالقاهرة میں ہے

(قال المفسر): قد قيل سجد بمعنى انحنى، ويدل على ذلك قوله تعالى (وادخلوا الباب سجداً). ولم يؤمروا بالدخول على جباههم، وإنما أمروا بالانحناء. وقد يمكن من قال القول الذي حكاه ابن قتيبة،
أن يجعل سجداً حالاً مقدرة، كما حكى سيبويه من قولهم: مررت برجل معه صقر صائداً به غداً، أي مقدراً للصيد عازماً عليه، ومثله قوله تعالى: (قل هي للذين آمنوا في الحياة الدنيا خالصة يوم القيامة)، ولكن قد جاء في غير القرآن مايدل على صحة ما ذكرناه. قال أبو عمرو الشيباني الساجد في لغة طيء: المنتصب، وفي لغة سائر العرب: المنحنى، وأنشد:
لولا الزمام اقتحم الأجاردا … بالغرب أو دق النعام الساجدا
ويدل على ذلك أيضاً قول ميد بن ثور الهلالي:
فلما لوين على معصم … وكف خضيب وأسوارها
فضول أزمتها أسجدت … سجود النصارى لأحبارها

مفسر نے کہا کہا جاتا ہے کہ سجدہ انحنا ہے اور اس پر دلیل اللہ کا قول ہے (وادخلوا الباب سجداً). دروازہ میں سجدہ کرتے داخل ہو اور یہ حکم نہیں ہے کہ داخل ہوتے وقت اپنی پیشانی زمین پر رکھو بلکہ یہ انحناء کا حکم ہے

پھر اس بات کو عربی اشعار سے بھی ثابت کیا گیا

كنز الكتاب ومنتخب الآداب (السفر الأول من النسخة الكبرى) از مؤلف: أبو إسحاق إبراهيم بن أبي الحسن الفهري المعروف بالبونسي (651هـ) الناشر: المجمع الثقافي، أبو ظبي میں ہے

ومِمَّا جاء من السجود كناية عن الرُّكوع حديث عبد الله بن عمر فيما روى عن عبد الرحمان بن أبي
الزناد عن موسى بن عقبة عن نافع عن ابن عمر انه كان يقول في صلاةِ الخوفِ: “يَقُومُ الإمام وتقوم
معه طائفةٌ، وتكون طائفةٌ بينهم وبين العدو، فيسجد سجدةً واحدةً بمن معه، ثم ينصرف الذين سجدوا
سجدة، فيكونون مكان أصحابهم الذين كانوا بينهم وبين العدو، وتقوم الطائفة الأخرى الذين لم يصلوا،
فيصلون مع الإمام سجدة ثم ينصرف الإمام، وتُصلي كلُّ واحدة من الطائفتين لأنفسهم سجدة سجدة،
فإن كان الخوف أكثر من ذلك فليصلوا قياما على أقدامهم، أو ركباناً علي ظهور الدوائب”.
قال موسى بن هارون الطُّوسي: كُلُّ سَجْدَةِ في هذا الحديث فمعناها ركعة. سمعت أبا خيثمة يقول:أهلُ الحجاز يسمون الركعة سَجْدة.

اور سجدہ کو رکوع پر کنایہ کے طور پر لیا جائے یہ حدیث ابن عمر میں آیا ہے …. موسی بن ھارون طوسی نے کہا اس حدیث میں سارے سجدے اصل میں رکوع  کے معنی پر ہیں -أبا خيثمة کو کہتے سنا کہ اہل حجاز رکوع کو سجدہ بھی کہہ دیتے ہیں 

صحیح مسلم میں ہے

وَحَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ح قَالَ: وَحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ، وَحَرْمَلَةُ، كِلَاهُمَا عَنِ ابْنِ وَهْبٍ، وَالسِّيَاقُ لِحَرْمَلَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ، حَدَّثَهُ عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَدْرَكَ مِنَ الْعَصْرِ سَجْدَةً قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ، أَوْ مِنَ الصُّبْحِ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ، فَقَدْ أَدْرَكَهَا»، وَالسَّجْدَةُ إِنَّمَا هِيَ الرَّكْعَةُ

عَائِشَةَ، رضی اللہ عنہا نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کو عصر میں ایک سجدہ ملا قبل اس کے کہ سورج غروب ہو یا صبح کی نماز میں قبل اس کے کہ سورج طلوع ہو اس نے نماز پا لی  عائشہ رضی اللہ عنہا  نے کہا یہ سجدہ بے شک رکوع ہے 

معلوم ہوا کہ فقہ صحابہ کے تحت سجدہ کا لفظ حدیث میں بعض اوقات رکوع پر کنایہ کے طور بولا گیا  ہے اور محققین کہتے کہ یہ اہل حجاز کا طریقہ ہے جن کی زبان میں سورہ یوسف نازل ہوئی ہے – اس علم کے بعد اس پر  اصرار کرنا کہ سجدہ کا لفظ ہمیشہ پیشانی زمین پر لگانا ہے بے جا ہے

تفسیر ابن عطیہ از أبو محمد عبد الحق بن غالب بن عبد الرحمن بن تمام بن عطية الأندلسي المحاربي (المتوفى: 542هـ) میں ہے

واختلف في هذا السجود، فقيل: كان كالمعهود عندنا من وضع الوجه بالأرض، وقيل: بل دون ذلك كالركوع البالغ ونحوه مما كان سيرة تحياتهم للملوك في ذلك الزمان

اس سجدے پر اختلاف ہے کہا جاتا ہے کہ یہ سجدہ زمین پر چہرہ رکھنے کا تھا اور کہا جاتا ہے بلکہ یہ رکوع یا اسی جیسا تھا 

ابن حجر نے فتح الباری ج ١٢ ص ٣٧٦ میں ایک قول لکھا ہے

وَلَمْ يَقَعْ مِنْهُمُ السُّجُودُ حَقِيقَةً وَإِنَّمَا هُوَ كِنَايَةٌ عَنِ الْخُضُوعِ
اور یہ سجدے میں حقیقی نہیں گئے اور بے شک یہ کنایہ ہے الْخُضُوعِ پر

کتاب  حاشيتا قليوبي وعميرة میں ج١ ص ١٨٠     از أحمد سلامة القليوبي وأحمد البرلسي عميرة ، دار الفكر – بيروت الطبعة: بدون طبعة، 1415هـ-1995م کے مطابق

قَوْلُهُ: (السُّجُودُ) وَهُوَ لُغَةً التَّطَامُنُ وَالذِّلَّةُ وَالْخُضُوعُ وَشَرْعًا مَا سَيَأْتِي، وَقَدْ يُطْلَقُ عَلَى الرُّكُوعِ، وَمِنْهُ {وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا} [يوسف: 100] كَمَا مَرَّ

اور الله کا قول السُّجُودُ تو یہ لغت میں کم ہونا یہ ذلت ہے اور ْخُضُوعُ ہے … اور اس کا اطلاق رکوع پر بھی ہے اور الله تعالی کا قول  {وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا} [يوسف: 100]  میں 

اب جب ہم اس کو تسلیم کریں کہ سجدہ کو رکوع یا انحنا لیا جا سکتا ہے تو پھر   سورہ یوسف میں ذکر کردہ  سجدے پر کوئی اشکال نہیں رہتا  کیونکہ  اس کا تعلق عبادت سے سرے سے ہی نہیں ہے

ایک مضمون نگار لکھتے ہیں کہ سورہ یوسف میں  خر کا لفظ ظاہر کرتا  ہے کہ سب سجدے میں گرے نہ کہ جھکے  لہذا انہوں نے  چند  حوالے دیے   یعنی تفسیر شیرازی ، تفسیر روح المعانی اور تفسیر ابی السعود وغیرہ

واضح رہے کہ خر کا مطلب مطلق گرنا نہیں ہے جیسا کہ ان مفسرین نے لکھا ہے بلکہ  نیچے جھکنا  یا  آنا  ہے  جیسا قرآن سورہ ص میں ہے

وخر راكعاً وأناب

داود رکوع میں جھکا اور توبہ کی 

رکوع میں کوئی زمین پر  گرتا نہیں ہے – سورہ یوسف میں ہے  کہ

وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا ۖ  اس کے لئے زمین کی طرف جھک گئے

یہاں سجدا کو اس کے اصل مطلب پر لیا گیا ہے جو زمین کی طرف جھکنا ہے نہ کہ نماز والا اصطلاحی سجدہ

سورہ حج میں ہے

وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّـٰهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْـرُ اَوْ تَهْوِىْ بِهِ الرِّيْحُ فِىْ مَكَانٍ سَحِيْقٍ (31)
اور جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرتا ہے تو گویا وہ آسمان سے نیچے آئے تو اسے پرندے اچک لیتے ہیں یا اسے ہوا اڑا کر کسی دور جگہ پھینک دیتی ہے۔

جو آسمان سے نیچے آیا ابھی زمیں تک بھی نہیں پہنچا کہ پرندے اس کو اچک لیتے ہیں

لفظ الأية کا عموم و خصوص

قرآن اللہ تعالی نے قریش کی عربی میں نازل کیا ہے یعنی جو مشرکین عرب  کو بھی  سمجھ آئے – عربی کا ایک لفظ آیت ہے جس سے مراد لغوی طور پر علامت ہے  اور اسی مفہوم میں یہ قرآن و حدیث میں بیان ہوا ہے

اللہ تعالی نے فرمایا

وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ، وَاخْتِلاَفُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ   (الرّوم -22 

اور اس کی نشانیوں( آیات) میں سے ہے آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور زبانوں اور رنگوں کا اختلاف

معلوم ہوا کہ ہر فرد ہر انسان اللہ کی آیت و نشانی ہے کہ وہ الگ الگ رنگ کے ہیں الگ الگ زبان بولتے ہیں – یہ زبان و رنگ  بدلنا صرف قدرت الہی کا کرشمہ ہے –   اس مقام پر لفظ     آيَاتِهِ   استعمال ہوا ہے اور اس کا مطلب یہاں معجزہ نہیں ہے  بلکہ علامت  توحید   مراد   ہے

وَمِنْ آيَاتِهِ مَنَامُكُمْ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ   (الرّوم – 23

اور  اس کی آیات میں   سے  تمہارا سونا  دن و رات میں

یہاں ہر روز انسان جو سوتا ہے اس کو نشانی یا آیت کہا گیا  ہے –      یہ  عموم ہے

وَمِنْ آيَاتِهِ الْجَوَارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلَامِ   (الشورى – 32

اور  اس کی نشانیوں میں سے ہے سمندر میں   کشتی    جیسے  ہو  عظیم پہاڑ

یہاں    انسان کی  خود ساختہ،   تخلیق کردہ کشتی   کو  آیت  کہا گیا  ہے   یعنی یہ علم من جانب اللہ آیا ہے

حدیث میں ہے

إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، وَلَكِنَّهُمَا آيَةٌ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ

سورج اور چاند کا گرہن اللہ کی آیات میں سے ایک ہے  

زمین پر سورج و چاند گرہن ہوتا رہتا ہے – اس کا سب کو علم ہے

حدیث میں ہے

آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ

منافق کی تین آیات (نشانیاں ) ہیں بات کرے تو جھوٹ بولے وعدہ کرے تو خلافی کرے اور امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرے

حدیث میں ہے

آيَةُ الإِيمَانِ حُبُّ الأَنْصَارِ، وَآيَةُ النِّفَاقِ بُغْضُ الأَنْصَارِ

ایمان کی آیت انصار سے محبت کرنا ہے اور منافق کی آیت انصار سے بغض کرنا ہے

ان تمام مقامات پر عموم  کو   آیات   کہا گیا ہے – دوسری طرف  بعض اوقات آیت یا  آیات  کا لفظ اپنے اصطلاحی معنوں میں بھی اتا ہے جس سے مراد وہ  نشانیاں ہیں  جو صرف انبیاء کو ملتی ہیں جن کو معجزات کہا   جاتا ہے اور    ان کا شمار خصوص  میں ہوتا ہے

علامات قیامت جن کو اردو میں قیامت کی نشانی کہا جاتا ہے وہ تمام علامتین ہیں – ان میں دو عظیم ہیں ایک سورج کا مغرب سے نکلنا اور دوسرا زمین سے جانور کا نکل کر کلام کرنا – باقی تمام انسان  کو معلوم ہیں مثلا زمین کا دھنسنا انسان دیکھتا ہے ، یاجوج ماجوج سے انسان مل چکے ہیں تبھی ان پر دیوار بنائی گئی اور دجالوں کا بھی علم ہے، دھواں بھی انسان دیکھتا ہے – فرق صرف امر کی وسعت کا ہے –  لہذا علامات قیامت میں تمام کی تمام خرق عادت نہیں ہیں اور ان کی شرح بھی معجزہ کے ذیل میں نہیں کی جانی چاہیے

فَإِنَّهُنَّ الْغَرَانِيقُ الْعُلَى؟

قرآن کہتا ہے

أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الأُخْرَى أَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الأُنْثَى تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزَى إِنْ هِيَ إِلا أَسْمَاءٌ سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بهَا من سُلْطَان

کیا تم نے اللَّاتَ، َالْعُزَّى اور ایک اور تیسری مَنَاةَ کو دیکھا؟ کیا تمہارے لئے تو ہوں لڑکے اور اس کے لئے لڑکیاں؟ یہ تو بڑی غیر منصفانہ تقسیم ہوئی! یہ تو صرف چند نام ہیں، جو تم نے اور تمہارے اباؤ اجداد نے رکھ دیے ہیں، الله کی طرف سے ان پر کوئی سند نہیں اتری

اللات طائف میں، العُزَّى مکہ میں اور مَنَاة مدینہ میں عربوں کی خاص دیویاں تھیں

الكلبي (المتوفى: 204هـ) کی کتاب الاصنام میں ہے

عرب طواف میں پکارتے

وَاللاتِ وَالْعُزَّى وَمَنَاةَ الثَّالِثَةِ الأُخْرَى … فَإِنَّهُنَّ الْغَرَانِيقُ الْعُلَى وَإِنَّ شفاعتهن لَتُرْتَجَى

اور اللاتِ اور الْعُزَّى اور ایک اور تیسری مَنَاةَ

یہ تو بلند پرند نما حسین (دیویاں) ہیں اور بے شک ان کی شفاعت گونجتی ہے

کتاب غریب الحدیث از ابن الجوزی کے مطابق

تِلْكَ الغرانيق الْعلَا قَالَ ابْن الْأَعرَابِي الغرانيق الذُّكُور من الطير
وَاحِدهَا غرنوق وغرنيق وَكَانُوا يدعونَ أَن الْأَصْنَام تشفع لَهُم فشبهت بالطيور الَّتِي ترْتَفع إِلَى السَّمَاء وَيجوز أَن تكون الغرانيق جمع الغرانق وَهُوَ الْحسن

یہ تو بلند غرانیق ہیں – ابن الاعرابی کہتے ہیں غرانیق سے مراد نر پرندے ہیں جن کا واحد غرنوق ہے اور غرنيق ہے یہ مشرکین ان ( دیویوں) کو اس نام سے اس لئے پکارتے تھے کیونکہ یہ بت ان کے لئے شفاعت کرتے اور(نر) پرندے بن کر جاتے جو آسمان میں بلند ہوتے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد حسن ہو

تاج العروس اور غریب الحدیث از ابن قتیبہ میں کہا گیا ہے کہ غرانیق سے مراد

طيور الماء طويلة العنق

پانی کے پرندے ہیں جن کی طویل گردن ہوتی ہے

اردو میں ان کو بگلا کہتے ہیں مشرکین نے فرشتوں کو بگلے بنا دیا اور پھر ان کو دیوی کہا

تفسیر بغوی میں سوره الحج کی تفسیر میں لکھا ہے
[سورة الحج (22) : الآيات 52 الى 53] وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلا نَبِيٍّ إِلاَّ إِذا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنْسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آياتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (52) لِيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطانُ فِتْنَةً لِلَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ وَالْقاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَفِي شِقاقٍ بَعِيدٍ (53)
قَوْلُهُ تَعَالَى: وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلا نَبِيٍّ إِلَّا إِذا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ، الْآيَةَ.
«1467» قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ كَعْبٍ الْقُرَظِيُّ وَغَيْرُهُمَا مِنَ الْمُفَسِّرِينَ: لَمَّا رَأَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَلِّي قَوْمِهِ عَنْهُ وَشَقَّ عَلَيْهِ مَا رَأَى مِنْ مُبَاعَدَتِهِمْ عَمَّا جَاءَهُمْ بِهِ مِنَ اللَّهِ تَمَنَّى فِي نَفْسِهِ أَنْ يَأْتِيَهُ مِنَ اللَّهِ مَا يُقَارِبُ بَيْنَهُ
وَبَيْنَ قَوْمِهِ لِحِرْصِهِ عَلَى إِيمَانِهِمْ، فكان يوما في مجلس لقريش فأنزل الله تعالى سورة والنجم فَقَرَأَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَلَغَ قَوْلَهُ: أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى (19) وَمَناةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرى (20) [النجم: 19- 20] أَلْقَى الشَّيْطَانُ عَلَى لِسَانِهِ بِمَا كَانَ يُحَدِّثُ بِهِ نَفْسَهُ وَيَتَمَنَّاهُ: تِلْكَ الْغَرَانِيقُ الْعُلَى وَإِنَّ شَفَاعَتَهُنَّ لِتُرْتَجَى، فَلَمَّا سَمِعَتْ قُرَيْشٌ ذَلِكَ فَرِحُوا بِهِ وَمَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قِرَاءَتِهِ، فَقَرَأَ السُّورَةَ كُلَّهَا وَسَجَدَ فِي آخِرِ السُّورَةِ فَسَجَدَ الْمُسْلِمُونَ بِسُجُودِهِ وَسَجَدَ جَمِيعُ مَنْ فِي الْمَسْجِدِ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَلَمْ يَبْقَ فِي الْمَسْجِدِ مُؤْمِنٌ وَلَا كَافِرٌ إِلَّا سَجَدَ إِلَّا الْوَلِيدُ بْنُ الْمُغِيرَةِ وَأَبُو أُحَيْحَةَ سَعِيدُ بْنُ العاصِ فَإِنَّهُمَا أَخَذَا حَفْنَةً مِنَ الْبَطْحَاءِ وَرَفَعَاهَا إِلَى جَبْهَتَيْهِمَا وَسَجَدَا عَلَيْهَا لِأَنَّهُمَا كَانَا شَيْخَيْنِ كَبِيرَيْنِ فَلَمْ يَسْتَطِيعَا السُّجُودَ، وَتَفَرَّقَتْ قُرَيْشٌ وَقَدْ سَرَّهُمْ مَا سَمِعُوا مِنْ ذِكْرِ آلِهَتِهِمْ وَيَقُولُونَ قَدْ ذَكَرَ مُحَمَّدٌ آلِهَتَنَا بِأَحْسَنِ الذِّكْرِ، وَقَالُوا قَدْ عَرَفْنَا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَيَخْلُقُ وَيَرْزُقُ وَلَكِنَّ آلِهَتَنَا هذه تشفع لنا عنده، فإن جعل لها محمد نَصِيبًا فَنَحْنُ مَعَهُ، فَلَمَّا أَمْسَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَاهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ مَاذَا صَنَعْتَ لَقَدْ تَلَوْتَ عَلَى النَّاسِ مَا لَمْ آتِكَ بِهِ عَنِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَحَزِنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُزْنًا شَدِيدًا وَخَافَ من الله خوفا كبيرا [1] فَأَنْزَلَ اللَّهُ هَذِهِ الْآيَةَ يُعَزِّيهِ وَكَانَ بِهِ رَحِيمًا، وَسَمِعَ بِذَلِكَ مَنْ كَانَ بِأَرْضِ الْحَبَشَةِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَلَغَهُمْ سُجُودُ قُرَيْشٍ. وَقِيلَ: [قد] [2] أَسْلَمَتْ قُرَيْشٌ وَأَهْلُ مَكَّةَ فَرَجَعَ أَكْثَرُهُمْ إِلَى عَشَائِرِهِمْ، وَقَالُوا: هُمْ أَحَبُّ إِلَيْنَا حَتَّى إِذَا دَنَوْا مِنْ مَكَّةَ بَلَغَهُمْ أَنَّ الَّذِي كَانُوا تُحَدَّثُوا بِهِ [3] مِنْ إِسْلَامِ أَهْلِ مَكَّةَ كَانَ بَاطِلًا فَلَمْ يَدْخُلْ أَحَدٌ إِلَّا بِجِوَارٍ أَوْ مُسْتَخْفِيًا فَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ قَالَتْ قُرَيْشٌ: نَدِمَ مُحَمَّدٌ عَلَى مَا ذَكَرَ مِنْ مَنْزِلَةِ آلِهَتِنَا عِنْدَ اللَّهِ فَغَيَّرَ ذَلِكَ وَكَانَ الْحَرْفَانِ اللَّذَانِ أَلْقَى الشَّيْطَانُ عَلَى لِسَانُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ وَقَعَا فِي فَمِ كُلِّ مُشْرِكٍ فَازْدَادُوا شَرًّا إِلَى مَا كَانُوا عَلَيْهِ، وَشِدَّةً عَلَى مَنْ أَسْلَمَ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَهُوَ الَّذِي يَأْتِيهِ جِبْرِيلُ بِالْوَحْيِ عَيَانًا، وَلَا نَبِيٍّ، وَهُوَ الَّذِي تَكُونُ نُبُوَّتُهُ إِلْهَامًا أو مناما، فكل رَسُولٍ نَبِيٌّ، وَلَيْسَ كُلُّ نَبِيٍّ رَسُولًا. إِلَّا إِذَا تَمَنَّى، قَالَ بَعْضُهُمْ: أَيْ: أَحَبَّ شَيْئًا وَاشْتَهَاهُ وحدّث به نفسه مما لَمْ يُؤْمَرْ بِهِ أَلْقَى الشَّيْطَانُ في أمنيته يعني مُرَادِهِ. وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: إِذَا حَدَّثَ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي حديثه ما وجد إِلَيْهِ سَبِيلًا، وَمَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا تَمَنَّى أَنْ يُؤْمِنَ بِهِ قومه ولم يتمنى ذَلِكَ نَبِيٌّ إِلَّا أَلْقَى الشَّيْطَانُ عَلَيْهِ مَا يَرْضَى بِهِ قَوْمُهُ فَيَنْسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ.
عبداللہ بن عباس اور محمد بن کعب القرظی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم قریش کی اسلام سے بے رغبتی پر انتہائی افسردہ وغمگین تھے، اور قریش کے جانب سے دعوت اسلام کو پزیرائی حاصل نہ ہونے پر سخت مایوس تھے، ان کے دل میں شدت میں سے یہ چاہت تھی کہ اللہ کی جانب سے کوئی ایسا کلام نازل ہو جو موحدین اور مشرکین کے درمیان دوری کو قربت میں تبدیل کردے۔ ایک مرتبہ پیغمبر اسلام بیت اللہ میں قریش کی ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ پر اللہ کی جانب سے وحی کا نزول شروع ہو اور آپ نے سورة النجم کی قراءت شروع کی اور جب ان آیات تک پہنچے افراٴیتم اللات و العزیٰ و مناة الثالثة الاخریٰ تو شیطان نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی زبان سے یہ الفاظ جاری کرا دئیےتلک الغرانیق العلیٰ و ان شفاعتھن لترتجی ﴿یعنی یہ لات اور منات بہت بلند پایہ کے بت ہیں اور یقیناً ان کی شفاعت بھی اللہ کے ہاں قبول کی جائے گی﴾ مشرکین آپ کی زبان سے اپنے معبودین کے لئے یہ الفاظ سن کر انتہائی مسرور ہوئے پیغمبر اسلام نے اپنی تلاوت مکمل کرنے کے بعد سجدہ تلاوت کیا تو اس مجلس میں موجود تمام مشرکین بھی سجدہ ریز ہو گئے اور بیت اللہ میں موجود کوئی بھی مومن اور مشرک ایسا نہ بچا جو سجدہ ریز نہ ہوا ہو۔ اس مجلس میں موجود ولید بن مغیرہ اور ابواحیحہ سعید بن العاص جو دونوں انتہائی ضعیف تھے اور سجدہ کرنے پر قادر نہ تھے اس لئے دونوں نے زمین سےمشت بھر مٹی اٹھا کر پیشانی سےتک لے گئے اور اس پر سجدہ کیا۔ اس کے بعد مجلس برخاست ہوئی اور قریش کے لوگ بے حد خوش ہوئے کہ آج محمد نے پہلی دفعہ قریش کے معبودین کا ذکر اچھے الفاظ میں کیا اور انہوں نے کہا کہ آج ہمیں معلوم ہوگیا کہ اللہ ہی زندگی اور موت دیتا ہے وہی رزق دیتا ہے اور تخلیق کرتا ہے اور ہمارے یہ معبود یعنی لات و منات اللہ کے ہاں ہماری سفارش کریں گے، پس اگر محمد ہمارے معبودوں کو ایسے بہتر الفاظ کے ساتھ یاد کرے گا تو ہم بھی اس کے ساتھ ہیں۔ پھر شام کو جبرائیل پیغمبر محمد کے پاس آئے اور کہا کہ اے محمد آج تم نے کیا کیا؟ آج تم نے قریش کے سامنے وہ کلام تلاوت کیا جوتم پر اللہ کی طرف سے نازل نہیں ہوا تھا، یہ سن کر تو آپ صلی الله علیہ وسلم بے حد غمگین ہوگئے اور ان پر خشیت الہٰی کی کیفیت طاری ہو گئی۔ تو اللہ کو رحم آیا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی تسلی کیلئے یہ آیت نازل کی۔
وَمَا أَرْ‌سَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّ‌سُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّـهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّـهُ آيَاتِهِ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
ترجمہ: اور ہم نے آپ سے قبل بھی جتنے رسول اور پیغمبر بھیجے ان میں سے ہر ایک ﴿کے ساتھ یہ واقعہ ضرور پیش آیا کہ﴾ جب انہوں نے ﴿اللہ کے کلام کو﴾ پڑھا تو شیطان نے ان کے پڑھنے میں اپنی جانب سے الفاظ شامل کر دیئے، پھر اللہ شیطان کےشامل کئے ہوئے الفاظ کوتو ختم کر دیتا ہے اور آپنی آیات کوبرقرار رکھتا ہے اور اللہ تو بہت ہی خبر رکھنے والا اور سیانا ہے۔
جب یہ آیت نازل ہوئی تو مشرکین مکہ نے کہا محمد ہمارے معبودوں کا اچھے الفاط میں تذکرہ کرنے پر شرمندہ ہے اس لئے اس نے اپنا کلام بدل لیا۔﴿بحوالہ تفسیر بغوی در تفسیر سورة الحج آیت نمبر ۵۲﴾
لنک
http://library.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?flag=1&bk_no=51&surano=22&ayano=52

یہ واقعہ اپنے اضطراب کے ساتھ کئی اور تفاسیر میں بھی بیان ہوا ہے مثلا
تفسير مقاتل بن سليمان المتوفی ١٥٠ ھ
تفسير يحيى بن سلام المتوفی ٢٠٠ ھ
تفسیر الطبری ٣١٠ ھ
تفسیر ابن أبي زَمَنِين المتوفی ٣٩٩ ھ
تفسیر الثعلبي، أبو إسحاق المتوفى ٤٢٧ھ
تفسیر بغوی المتوفی ٥١٦ ھ

ان آیات کے الفاظ عربوں میں مشهور تھے اور یہ دیویوں کا بھجن تھے
فَإِنَّ شَفَاعَتَهَا هِيَ الْمُرْتَجَى وَإِنَّهَا لِمَنَ الْغَرَانِيقِ الْعُلَى
یہ تو بلند پرند نما حسین (دیویاں) ہیں اور بے شک ان کی شفاعت گونجتی ہے
لہذا یہ کوئی ایسی آیات نہ تھی جو مشرکین نہ سنتے ہوں

کیا واقعہ غرانیق ہوا ہے کہ معاذ اللہ ، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے غلط الفاظ ادا ہوئے

ابن كثير الدمشقي نے اور الألوسي اس واقعہ کا انکار کیا اور ابن حجر المصري نے اس کا استقرار کیا ہے کہ یہ ہوا ہے اور

ابن حجر عسقلانی نے کہا ہے کہ اس کا کوئی نہ کوئی اصل تھا جس پر البانی نے ابن حجر عسقلانی پر جرح کی ہے

ابن تیمیہ نے اس کی تاویل کی ہے اپنے فتاوی ج ١٠ ص ٢٩١ میں کہتے ہیں
قَالَ هَذَا أَلْقَاهُ الشَّيْطَانُ فِي مَسَامِعِهِمْ وَلَمْ يَلْفِظْ بِهِ الرَّسُولُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
یہ شیطان کا القا تھا مشرکین کے کانوں پر اور یہ رسول الله کے الفاظ نہ تھے

الذھبی نے سير أعلام النبلاء ج 1 ص 149 پر اس کا ذکر کیا ہے اور کوئی جرح نہیں کی ہے

الزمخشري معتزلی نے الکشاف میں اس کو بیان کیا ہے کوئی جرح نہیں کی

دكتور عمر عبد السلام التدمري تاريخ ألإسلام از الذھبی پر اپنی تعلیق میں لکھتے ہیں
وقال الحافظ البيهقي في دلائل النبوّة 2/ 62: هذه القصة غير ثابتة من جهة النقل. وبيّن جرح رواتها وطعن حملة العلم فيهم. وفي «البحر» أنّ هذه القصة سئل عنها محمد بن إسحاق صاحب «السيرة» فقال: هذا من وضع الزنادقة. وقال أبو منصور الماتريديّ: الصّواب أنّ قوله «تلك الغرانيق إلخ» من جملة إيحاء الشيطان إلى أوليائه من الزّنادقة، والرسالة بريئة من هذه الرواية.
وقال القاضي عياض في الشفاء 2/ 28: يكفيك أنّ هذا الحديث لم يخرجه أحد من أهل الصّحة، ولا رواه ثقة بسند سليم متصل، مع ضعف نقلته، واضطراب رواياته، وانقطاع إسناده، واختلاف كلماته.
وقد فصّل القاضي عياض عدم صحّة هذه الرواية من عدّة وجوه يحسن مراجعتها. في كتابه الشفاء 2/ 116- 123، وانظر تفسير القرطبي 12/ 82، والنويري في نهاية الأرب 16/ 235- 241.
بیہقی نے دلائل النبوه میں کہا ہے یہ قصہ غیر ثابت ہے نقلی لحاظ سے اور البحر از أبو حيان میں ہے کہ ابن اسحاق سے اس قصہ پر سوال ہوا تو کہا یہ زنادقه کا گھڑا ہوا ہے اور ابو منصور ماتریدی کہتے ہیں ٹھیک یہ قول ہے کہ تلک الغرانیق کا قول شیطان کی اپنے اولیاء پر وحی ہے اور قاضی عیاض کہتے ہیں یہی کافی ہے کہ اہل صحت میں سے کسی نے اس کی تخریج نہیں کی نہ اس کے راوی متصل سند ہیں ثقاہت کے ساتھ پھر انکا نقل میں کمزور ہونا ہے اور روایات کا اضطراب ہے اور اسناد میں انقطاع ہے اور کلمات کا اختلاف ہے انتھی

اس پورے قصے کو محمد بن قيس بن مخرمة اور محمد بن کعب سے محمد بن السائب بن بشر الکلبی المتوفی ١٤٦ ھ منسوب کرتا ہے اسی طرح أبي العالية البصرى المتوفی ٩٣ ھ، السدی کوفی مَولَى قَيس بْن مَخرَمَة المتوفی ١٢٧ ھ ، قتادہ بصری المتوفی ١١٨ ھ نے بھی اس پر تبصرے کیے ہیں اس کے علاوہ اس کو عثمان بن الأسود مکی المتوفی ١٥٠ھ ، عن سعيد بن جبير المتوفی ٩٥ ھ ، عن ابن عباس کی سند سے بھی بیان کیا گیا ہے مثلا اسباب النزول الواحدی میں اور ابن مردويه میں
اسی طرح أبي بشر جعفر بن إياس بصری المتوفی ١٢٦ ھ کی سند سے یہ سعید بن جبیر کا مرسل قول ہے
لہذا سب سے پہلے اس واقعہ کا ذکر بصریوں مثلا رفيع بْن مهران بصري المعروف بأبي العالية الرياحي المتوفی ٩٠ یا ٩٣ ھ نے مرسل روایت کیا ہے اور قتادہ البصری المتوفی ١١٨ھ نے روایت کیا ہے – قتادہ خود بھی أَبُو الْعَالِيَةِ البصری کے شاگرد ہیں دونوں مدلس ہیں -ایک طرف تو بصرہ میں اس کو قتادہ بیان کرتے ہیں دوسری طرف مکہ میں سعید بن جبیر المتوفی ٩٥ ھ بھی ابن عباس سے اس کو روایت کرتے ہیں- یعنی لگ بھگ سن ٨٠ ھ کے بعد اس قصہ کا دور شروع ہوا اور اس کا گڑھ بصرہ تھا وہاں سے یہ مکہ پہنچا اور اس کو ابن عباس رضی الله سے منسوب کیا گیا ہے

کتاب المعرفۃ والتاریخ: 2/148 از الفسوی کے مطابق شعبہ نے کہا
لم يسمع قتادة من أبي العالية إلا ثلاثة أشياء. قلت ليحيى عدها، قال قول على رضي الله عنه القضاه ثلاثة، وحديث: لا صلاه بعد العصر، وحديث يونس بن متى.
قتادہ نے ابی العالیہ سے صرف تین چیزیں سنیں میں نے یحیی سے کہا ان کو گن دیجیے کہا علی رضی الله عنہ کا قول فیصلوں کے بارے میں اور حدیث کہ عصر کے بعد نماز نہیں اور حدیث یونس بن متی
یعنی بصرہ میں اس روایت کا منبع قتادہ ہوئے جو اس کا ذکر کرتے ہیں یہ سخت مدلس تھے اور روایت جس سے سن لیں اس کا نام بعض اوقات نہیں لیتے
امام یحیی بن معین نے فرمایا: “لم يلق سَعِيد بن جبير، ولا مجاهدا ولا سُلَيْمان بن يسار” قتادہ نے سعید بن جبیر، مجاہد، اور سلیمان بن یسار میں سے کسی کو نہیں پایا۔ سوالات ابن الجنید: ص

یعنی سعید بن جبیر المتوفی ٩٥ ھ کو یہ روایت قتادہ سے نہیں ملی

اس کی دو سندیں ہیں
أَبِي بِشْرٍ بصری ( جعفر بن إياس، وهو ابن أبي وَحْشِيَّة المتوفی ١٢٤ ھ )، عَن سَعِيد بْنِ جُبَير، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ
المعجم الكبير از طبرانی اور مسند البزار
اور
عُثْمَانُ بْنُ الأَسْوَدِ المکی المتوفی ١٤٧ ھ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ
یعنی ایک بصری اور ایک مکی نے اس روایت کو سعید بن جبیر سے منسوب کیا ہے اس میں جعفر بن ایاس کو محدثین ثقہ کہتے ہیں اور عُثْمَانُ بْنُ الأَسْوَدِ کو بھی ثقہ کہتے ہیں
یعنی محدثین کے مطابق اس روایت کا بار سعید بن جبیر نے اٹھا لیا کیونکہ اس کی سند میں ثقات ہیں ابن عباس رضی الله عنہ کے شاگردوں میں اس کو صرف سعید بن جبیر ہی روایت کرتے ہیں
حجاج بن یوسف نے سعید بن جبیر کو قتل کیوں کیا؟ اس سوال کا جواب شاید یہ روایت ہے

روایت پسندی صحیح نہیں ہے سنن دارمی کی روایت ہے
أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ أَنَّهُ حَدَّثَ يَوْمًا بِحَدِيثٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَجُلٌ: فِي كِتَابِ اللَّهِ مَا يُخَالِفُ هَذَا، قَالَ: «لَا أُرَانِي أُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتُعَرِّضُ فِيهِ بِكِتَابِ اللَّهِ، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمَ بِكِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى مِنْكَ»
سعید بن جبیر نے ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بیان کی تو ایک شخص نے کہہ دیا : قرآن میں اس کےخلاف بات موجود ہے۔ اس پر انہوں نے فرمایا : میں تجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کر رہا ہوں اور تو اس کے خلاف اللہ کی کتاب پیش کر رہا ہے ! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی کتاب کے مندرجات کو تجھ سے بڑھ کر جانتے تھے۔

آج علماء یہی کہہ رہے ہیں کہ غرانیق والی روایت باوجود یہ کہ سعید بن جبیر سے ثقات نے روایت کی ہے یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ قرآن میں اس کے خلاف موجود ہے کہ رسول الله سے غلطی نہیں ہو سکتی لہٰذا راقم کہتا ہے اس قسم کی روایات کا بار راویوں پر ہے
– علماء جو اس روایت کے خلاف ہیں وہ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ قتادہ یا سعید بن جبیر نے اس قسم کی فضول روایت کیوں بیان کیں- سوره حج کی آیات مدنی ہیں اور سوره النجم مکی سوره ہے ظاہر ہے اتنے طویل عرصے کے بعد اس پر تبصرہ کوئی معنی نہیں رکھتا

وہابی اور غیر مقلد  علماء کی بدلتی آراء

البانی کی رائے

البانی نے نصب المجانيق لنسف قصة الغرانيق میں اس کی اسناد کو جمع کیا اور کہا ہے کہ تمام ضعیف ہیں بلکہ موضوع ہیں

محمد بن عبد الوہاب النجدی کی رائے
مختصر سيرة الرسول صلى الله عليه وسلم میں مؤلف: محمد بن عبد الوهاب بن سليمان التميمي النجدي (المتوفى: 1206هـ) لکھتے ہیں
قصته صلى الله عليه وسلم معهم – لما قرأ سورة النجم بحضرتهم – فلما وصل إلى قوله: {أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى – وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى} [النجم: 19 – 20] (1) ألقى الشيطان في تلاوته: تلك الغرانيق العلى، وإن شفاعتهن لترتجى.
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قصہ ہے کہ جب انہوں نے سورہ النجم کی قرات قریش کی موجودگی میں کی جب اس آیت پر آئے
أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى – وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى
تو شیطان نے تلاوت میں القا کیا
تلك الغرانيق العلى، وإن شفاعتهن لترتجى

محمد بن عبد الوھاب النجدی نے اس واقعہ کو درجہ قبولیت دیا

زهير الشاويش کی رائے

تيسير العزيز الحميد في شرح كتاب التوحيد الذى هو حق الله على العبيد از سليمان بن عبد الله بن محمد بن عبد الوهاب (المتوفى: 1233هـ) مع تحقیق زهير الشاويش میں بھی اس کا ذکر کیا
فلما أنزل الله سورة النجم قال: {أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى} [النجم] ألقى الشيطان عندها كلمات حين ذكر الطواغيت فقال: تلك الغرانيق العلا، وإن
شفاعتهن لترتجى ….. وهي قصة مشهورة صحيحة رويت عن ابن عباس من طرق بعضها صحيح. ورويت عن جماعة من التابعين بأسانيد صحيحة منهم عروة وسعيد بن جبير وأبو العالية وأبو بكر بن عبد الرحمن وعكرمة، والضحاك وقتادة، ومحمد بن كعب القرظي ومحمد بن قيس والسدي وغيرهم. وذكرها أيضًا أهل السير وغيرها وأصلها في “الصحيحين”.

پس جب اللہ تعالی نے سورہ نجم نازل کی فرمایا

أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى – وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى
تو شیطان نے کلمات تلاوت میں القا کیے جن میں طاغوتوں کا ذکر تھا کہا
تلك الغرانيق العلى، وإن شفاعتهن لترتجى
اور یہ قصہ صحیح و مشہور ہے ابن عباس سے روایت کیا گیا ہے جن میں سے بعض صحیح ہیں اور تابعین کی ایک جماعت نے صحیح اسناد کے ساتھ اس کو عروہ بن زبیر اور سعید بن جبیر اور ابو العالیہ اور ابو بکر بن عبد الرحمان اور عکرمہ اور ضحاک اور قتادہ سے محمد بن كعب القرظي ومحمد بن قيس والسدي سے روایت کیا ہے اور دیگر اہل سیرت نے بھی روایت کا ہے اس کی اصل صحیحین میں موجود ہے

أسامة بن عطايا العتيبي کی رائے

عصر حاضر کے ایک وہابی عالم أسامة بن عطايا العتيبي نے عبد الوہاب نجدی کا دفاع کیا اور کتاب تيسير العزيز الحميد میں مقدمة التحقيق میں الحاشية ص 30 پر لکھا

انْتَقَدَ بَعْضُ العُلَمَاءِ إِيْرَادَ شَيْخِ الإسْلامِ مُحَمَّدِ بنِ عَبْدِالوَهَّابِ لِقِصَّةِ الغَرَانِيقِ فِي مُخْتَصَرِهِ لِلسِّيْرَةِ، وَهَذَا فِي حَقِيْقَتِهِ انْتِقَادٌ غَيْرُ صَحِيْحٍ، فَقِصَّةُ الغَرَانِيقِ ثَابِتَةٌ، تَلَقَّتْهَا الأُمَّةُ بِالقَبُولِ، وَقَدْ صَحَّحَهَا جَمَاعَةٌ مِنْ الأَئِمَّةِ مِنْهُمُ: الضِّيَاءُ الْمَقْدِسِيُّ فِي الْمُخْتَارَةِ (10/ 234)، وَالْحَافِظُ ابنُ حَجَرٍ فِي تَخْرِيجِ أحَادِيْثِ الكَشَّافِ (4/ 114)، وَالسُّيُوطِيُّ، وَالشَّيْخُ سُلَيْمَانُ وَغَيْرُهُمْ، وَفَسَّرَهَا-أيْ قَولَهُ تَعَالَى: {ألْقَى الشَّيْطَانُ فِي أمْنِيَّتِهِ} بِهَا جَمَاعَةٌ مِنْ الأَئِمَّةِ كَابنِ جَرِيْرٍ (17/ 186)، والنَّحَّاسِ فِي مَعَانِي القُرْآنِ (4/ 426)، وَالبَغَوِيِّ (3/ 293 – 294)، والوَاحِدِيِّ فِي تَفْسِيْرِهِ (2/ 737)، وَأَبُو اللَّيثِ السَّمَرْقَنْدِيِّ (2/ 465)، وابنِ أَبِي زَمَنِيْنَ (3/ 186)، والسَّمْعَانِيِّ (3/ 448)، وابنِ جُزَيٍّ فِي التَّسْهِيْلِ (3/ 44)، وَشَيْخِ الإسْلامِ ابنِ تَيْمِيَّةَ فِي مَجْمُوعِ الفَتَاوَى (2/ 282)، وَقَالَ فِي مِنْهَاجِ السُّنَّةِ (2/ 409): «عَلَى الْمَشْهُورِ عِنْدَ السَّلَفِ والْخَلَفِ» وَالسَّعْدِيِّ (ص/ 542) وَغَيْرُهُمْ كَثِيْرٌ جِدًّا

بعض علماء نے شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب پر مختصر سیرہ میں قصہ غرانیق کا ذکر کرنے پر تنقید کی ہے اور حقیقت میں یہ تنقید صحیح نہیں ہے کیونکہ قصہ غرانیق ثابت ہے اس کو امت نے تلقیہا بالقبول کا درجہ دیا ہے اور ایک جماعت نے اس کو صحیح کہا ہے جن میں ہیں
الضِّيَاءُ الْمَقْدِسِيُّ فِي الْمُخْتَارَةِ (10/ 234)، وَالْحَافِظُ ابنُ حَجَرٍ فِي تَخْرِيجِ أحَادِيْثِ الكَشَّافِ (4/ 114)، وَالسُّيُوطِيُّ، وَالشَّيْخُ سُلَيْمَانُ وَغَيْرُهُمْ، وَفَسَّرَهَا-أيْ قَولَهُ تَعَالَى: {ألْقَى الشَّيْطَانُ فِي أمْنِيَّتِهِ} بِهَا جَمَاعَةٌ مِنْ الأَئِمَّةِ كَابنِ جَرِيْرٍ (17/ 186)، والنَّحَّاسِ فِي مَعَانِي القُرْآنِ (4/ 426)، وَالبَغَوِيِّ (3/ 293 – 294)، والوَاحِدِيِّ فِي تَفْسِيْرِهِ (2/ 737)، وَأَبُو اللَّيثِ السَّمَرْقَنْدِيِّ (2/ 465)، وابنِ أَبِي زَمَنِيْنَ (3/ 186)، والسَّمْعَانِيِّ (3/ 448)، وابنِ جُزَيٍّ فِي التَّسْهِيْلِ (3/ 44)، وَشَيْخِ الإسْلامِ ابنِ تَيْمِيَّةَ فِي مَجْمُوعِ الفَتَاوَى (2/ 282)، وَقَالَ فِي مِنْهَاجِ السُّنَّةِ (2/ 409): «عَلَى الْمَشْهُورِ عِنْدَ السَّلَفِ والْخَلَفِ» وَالسَّعْدِيِّ (ص/ 542) اور دیگر بہت سے

مفتی بن باز کی رائے

مجموع فتاوى العلامة عبد العزيز بن باز ج 8 ص 301  پر ایک سوال کے جواب میں فتوی میں عبد العزيز بن باز کہتے ہیں کہ قصہ غرانیق پر مرسل احادیث ہیں لیکن

إلقاء الشيطان في قراءته صلى الله عليه وسلم في آيات النجم وهي قوله: {أفرأيتم اللات والعزى} الآيات، شيء ثابت بنص الآية في سورة الحج

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سورہ نجم کی  قرات  میں  شیطان کا القا ہونا یہ سورہ حج کی آیت سے ثابت ہے

معلوم ہوا کہ  روایت پسند واپس اس قصہ کو صحیح کہہ رہے ہیں

شیعہ علماء کی آراء

تفسير مجمع البيان میں  أبي على الفضل بن الحسن الطبرسي المتوفی ٥٤٨ ھ  لکھتے ہیں

روي عن ابن عباس و غيره أن النبي (صلى الله عليهوآلهوسلّم) لما تلا سورة و النجم و بلغ إلى قوله أ فرأيتم اللات و العزى و منات الثالثة الأخرى ألقى الشيطان في تلاوته تلك الغرانيق العلى و إن شفاعتهن لترجى فسر بذلك المشركون فلما انتهى إلى السجدة سجد المسلمون و سجد أيضا المشركون لما سمعوا من ذكر آلهتهم بما أعجبهم فهذا الخبر أن صح محمول على أنه كان يتلو القرآن فلما بلغ إلى هذا الموضع و ذكر أسماء آلهتهم و قد علموا من عادته (صلى الله عليه وآله وسلّم) أنه كان يعيبها قال بعض الحاضرين من الكافرين تلك الغرانيق العلى و ألقى ذلك في تلاوته توهم أن ذلك من القرآن فأضافه الله سبحانه إلى الشيطان لأنه إنما حصل بإغوائه و وسوسته و هذا أورده المرتضى قدس الله روحه في كتاب التنزيه و هو قول الناصر للحق من أئمة الزيدية و هو وجه حسن في تأويله

اگر یہ خبر صحیح ہے تو یہ محمول ہے کہ اس مقام پر آ کر رسول اللہ  صلى الله عليه وآله وسلّم  حاضرین کفار میں سے بعض کو عیب دیا اور اس کو تلاوت میں بولا تو (لوگوں کو ) وہم ہو گیا کہ یہ قرآن میں اضافہ ہے

اسی بات کو تفسير نور الثقلين میں بیان کیا گیا ہے

مجلسی کی رائے

مجلسی نے بحار الأنوار میں  لکھا

كذب الله تعالى في الحال، و ذلك لا يقول به مسلم

یہ روایت  اس حال میں اللہ پر جھوٹ ہے اور ایسا مسلم نہیں کہہ سکتا

=====================================================

راقم کہتا ہے اس روایت کو شیعہ راوی الکلبی نے بھی روایت کیا ہے

تفسیر یحیی بن سلام میں ہے

وَفِي تَفْسِيرِ الْكَلْبِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ عَلَيْهِ السَّلامُ كَانَ يُصَلِّي عِنْدَ الْبَيْتِ وَالْمُشْرِكُونَ جُلُوسٌ فَقَرَأَ: {وَالنَّجْمِ} [النجم: 1] ، فَحَدَّثَ نَفْسَهُ حَتَّى إِذَا بَلَغَ: {أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى {19} وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الأُخْرَى {20} } [النجم: 19-20] أَلْقَى الشَّيْطَانُ عَلَى لِسَانِهِ: فَإِنَّهَا مَعَ الْغَرَانِيقِ الْعُلَى وَإِنَّ شَفَاعَتَهَا هِيَ الْمُرْتَجَى.

تفسیر کلبی میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں نماز پڑھتے تھے اور مشرک پیٹھے ہوئے تھے پس قرات کی و النجم انہوں نے اپنے آپ سے کہا جب یہاں پر پہنچے

أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى {19} وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الأُخْرَى

شیطان نے القا کر دیا ان کی زبان پر

فَإِنَّهَا مَعَ الْغَرَانِيقِ الْعُلَى وَإِنَّ شَفَاعَتَهَا هِيَ الْمُرْتَجَى.

معلوم ہوا کہ روافض شروع سے اس قصہ کو قبول کر رہے تھے  طبرسی کے دور یعنی چھٹی صدی  تک اس کی تاویل کرتے چلے آ رہے تھے

کتب الله سے متعلق مباحث

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

مقدمہ

اس  کتاب میں  کتب  الله  یعنی   قرآن، توریت، زبور  سے متعلق مباحث  کو ایک جگہ جمع کیا گیا ہے – یہ اصلا سوالات کے جوابات ہیں جو ویب سائٹ  اسلامک  بلیف  پر قارئین نے کیے  اور  راقم نے اپنے محدود علم کے ساتھ ان کا جواب دینے کی کوشش کی ہے –   اس کتاب میں  کچھ مضامین  ہیں جو قرآن کی ترتیب و جمع ، اختلاف قرات  اور تفسیر  سے متعلق ہیں –

راقم الله تعالی سے مغفرت طلب کرتا ہے اگر اس  میں  غلطی کی گئی ہو-

کتاب میں حسب ضرورت مصادر  اہل تشیع کو بھی دیکھا گیا ہے- اور اس تحقیق میں حتی الامکان  غیر جانب داری بر قرار رکھنے کی کوشش کی گئی ہے –  اب یہ فیصلہ قارئین کا ہے کہ وہ اس تحقیق پر کیا رائے رکھتے ہیں

ابو شہر یار

٢٠١٨

کتاب بلا عنوان

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

مقدمہ

فرقہ پرست   مولویوں  نے   اپنے فرقوں کے استحکام  و وجود  کے   لئے بہت سے مغالطے  لوگوں کے اذہان میں ڈالے ہوئے ہیں- ان میں سے   چند  کا   اس کتاب میں ذکر ہے  مثلا

ایک طرف تو یہ  کہتے ہیں کہ امت گمراہی پر جمع نہ ہو گی –  یعنی اس کی اکثریت  صحیح عقیدہ ہو گی- اسی بنا پر یہ جب عقیدہ  لیتے ہیں تو جمہور کی سند  کہتے ہیں-

دوسری طرف  یہی مولوی   کہتے ہیں امت  گمراہ ہوئی اس کا ایک فرقہ  ناجیہ ہے پھر ہر فرقہ   دعوی کرتا ہے کہ   اس سے مراد وہ خود  ہیں

پھر  کہتے ہیں یہ گروہ    طائفہ منصورہ  بھی ہے –   یعنی  اس  گروہ  کو زوال نہ ہو گا   بلکہ ہمیشہ  غالب رہے گا

ان میں سے عرب  مولوی  کہتے ہیں یہ اہل شام و بیت المقدس  ہیں-

جہادی  کہتے  ہیں ہم ہیں –

برصغیر  کے مولوی کہتے ہیں  ہم  ہیں – یا للعجب

جن احادیث  سے  ان   عقائد کا  اثبات کیا گیا ہے  ان میں  کا  مدعا    کچھ  اور تھا  لیکن  لوگوں نے ان روایات   کو اپنے اپنے فرقوں  پر لگا دیا ہے –

اس کتاب میں ان کی تلبسات  کے پردوں  کو چاک  کیا گیا ہے

ابو شہر یار

٢٠١٨

تفسیری اشکال

پہلا اشکال توریت موسی پر نازل نہیں ہوئی ؟
دوسرا موسی کو الواح دی گئی نہ کہ توریت
تیسرا تمام انبیاء بنی اسرائیلی کہلائیں گے جن کے پاس بھی کتاب ہو
چوتھا ایک ہی کتاب سب کو دی گئی نہ کہ چار کتابیں
بھائی کراچی کے ایک عالم ہیں شیخ محمّد جنہوں نے ایک ادارہ بنا رکھا ہے جس کا نام ہے

INTERNATIONAL ISLAMIC PROPAGATION CENTER

جو کہ مسجد رحمانیہ روڈ کراچی میں ہے

آج ان کی ایک گفتگو جو انہوں نے ایک دیوبند کے مفتی عبدالباقی سے کی سنی – انہوں نے قرآن کے متعلق بہت ساری باتیں کیں – اگر آپ کے پاس وقت ہو تو پلیز تھوڑا سا وقت نکل کر تھوڑا بہت سن لیں اور ہمیں بتایں کہ کیا ان کو سنا جا سکتا ہے – تا کہ لوگوں کو حقیقت معلوم ہو سکے

https://www.youtube.com/user/iipcpakistan

الله آپ کو جزایۓ خیر دے – آمین
جواب

پہلا اشکال توریت موسی پر نازل نہیں ہوئی ؟
جواب قرآن میں ہے توریت کے تحت انبیاء حکم کرتے تھے اس سے انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ایک ہی کتاب تھی وہی تمام انبیاء کے پاس تھی
یہ بات صحیح ہے اور فہم کا فرق ہے
میرے نزدیک جب الله کہتا ہے کہ انبیاء سے کتاب پر میثاق لیا تو اس سے مراد ام الکتاب ہے جو لوح محفوظ میں تھی اسی کا متن قرآن میں توریت میں انجیل میں زبور میں ہے
لیکن جہاں تک احکام کا تعلق ہے تو وہ انجیل میں یا زبور میں نہیں تھے
زبور کے لئے قرآن میں ہے کہ اس میں اللہ کی تسبیح تھی ذکر تھا اور جنت کی خبر تھی اور انجیل میں احکام نہیں تھے صرف درس و تلقین تھی
احکام وہی توریت والے تھے جو تمام بنی اسرائیل پر لگ رہے تھے عیسیٰ علیہ السلام بھی اسی توریت پر عمل کا حکم کرتے تھے الگ سے انجیل میں کوئی حکم نہیں ملتا بلکہ واپس توریت پر حکم کا حکم تھا
——
قرآن میں ہے
وَلَمَّا جَآءَهُمْ كِتَابٌ مِّنْ عِندِ الله مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ
اور جب وہ لایا جو تصدیق کرتا ہے اس کی جو ان کے پاس الله کی کتاب میں موجود ہے

اہل کتاب کے پاس کتاب اللہ کی طرف سے ہے – اس کتاب کا نام ان موصوف کے نزدیک توریت نہیں ہے
یہ عجیب بات ہے

خیال رہے توریت کے معنی قانون ہیں یہ علمائے یہود کا قول ہے – قرآن میں اس کو قانون نہیں کہا گیا
یہود کے پاس توریت ہے قرآن میں ہے
مَثَلُ الذين حُمِّلُواْ التوراة ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الحمار يَحْمِلُ أَسْفَاراً

قرآن میں ہے

الذين يَتَّبِعُونَ الرسول النبي الأمي الذي يَجِدُونَهُ مَكْتُوباً عِندَهُمْ فِي التوراة والإنجيل
توریت و انجیل میں نبی الامی کا ذکر ہے

سورۃ الاعراف

وَكَتَبْنَا لَـهٝ فِى الْاَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَىْءٍ مَّوْعِظَةً وَّتَفْصِيْلًا لِّكُلِّ شَىْءٍۚ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَّاْمُرْ قَوْمَكَ يَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِـهَا ۚ سَاُرِيْكُمْ دَارَ الْفَاسِقِيْنَ

(145)

اور ہم نے اس کو تختیوں پر ہر قسم کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل لکھ دی، سو انہیں مضبوطی سے پکڑ لے اور اپنی قوم کو حکم کر کہ اس کی بہتر باتوں پر عمل کریں، عنقریب میں تمہیں نافرمانوں کا ٹھکانہ دکھاؤں گا۔

موصوف کا مدعا ہے کہ انبیاء جو دیا گیا ہے وہ کتاب کہا جائے اس کو توریت یا انجیل نہ کہا جائے – توریت اگر قانون ہے تو آمد النبی کا ذکر کون سا قانون ہے ؟

قرآن میں اہل کتاب سے بات ہوتی ہے تو ظاہر ہے انہی کی اصطلاحات کی سطح پر بات ہو گی
——–
موصوف کہتے ہیں موسی کو الواح دی گئی نہ کہ توریت – اس کو کتاب بھی کہا صحائف بھی کہا گیا
قرآن میں ہے
وَمُصَدِّقاً لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التوراة
تمہارے سامنے جو توریت ہے اس میں اس کی تصدیق ہے

اب ظاہر ہے یہ بحث بے کار ہے
===========

موصوف کہتے ہیں تمام انبیاء بنی اسرائیلی کہلائیں گے جن کے پاس بھی کتاب ہو
منٹ ٤٤

جواب یہ عجیب بات ہے ابراھیم علیہ السلام بنی اسرائیل میں سے نہیں بلکہ ان کے باپ ہیں
قرآن میں ہے ابراھیم کو صحف دیے

یہ پھر مغالطہ ہے

=============

موصوف کہتے ہیں
ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی کہ بنی اسمعیل میں کتاب نازل کر
اس سے موصوف نے استخراج کیا کہ اس میں الکتاب ہےاس کو قرآن نہیں کہا جائے

یہ وہی مغالطہ ہےجس کا موصوف بار بار اعادہ کر رہے ہیں کیونکہ یہ الکتاب جو آسمان میں ہے اس سے ہی توریت یا انجیل یا قرآن کو لیا گیا یعنی اصل الکتاب آسمان میں ہے اس کا متن زمین پر نازل ہوتا گیا
اصل کو الله نے بیان کیا جب قرآن میں ذکر کیا تو ١١٤ سورتیں بن گیا اسی اصل کتاب کی بات تھی لیکن ماحول و زمیں الگ تھی لہذا قرآن ہوا اور جب طور میں اسی اصل کتاب کی الله نے بات و شرح کی تو یہ توریت بنی -لیکن موصوف نے اس کو ملا دیا ہے کہ کتاب ایک ہی ہے جو نازل ہوئی گویا کہ قرآن حرفا حرفا وہی تھا جو توریت تھی
یہ عجیب بات ہے کیونکہ قرآن میں منافق مدینہ کا ذکر ہے جنگوں کا ذکر ہے یہ مضامین الگ ہیں موسی یا عیسیٰ کا سابقہ ان سے نہیں تھا

یہ کم فہمی ہے
الله فہم دے
–=====================

موصوف نے الکتاب سے نکالا کہ ایک ہی کتاب سب کو دی گئی نہ کہ چار کتابیں
پھر اس سے اہل کتاب کا مفہوم یہ نکلا کہ تمام انبیاء اہل کتاب ہیں جن کے پاس کتاب آئی اور یہود و نصرانی اہل کتاب نہیں وہ تو اپنے ہاتھ سے کتاب لکھتے تھے

یہ بھی مغالطہ ہے- اہل کتاب کے لئے قرآن میں ہے
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَسْتُمْ عَلَى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْرَاةَ وَالإِنْجِيلَ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ

اے اہل کتاب تم کچھ نہیں یہاں تک کہ توریت و انجیل کو قائم کرو

http://www.muhammadshaikh.com/urdu_pdf/essa_pbuh.pdf
جواب

اس میں آیات کا ترجمہ صحیح نہیں کیا گیا
یہ معلوم نہیں کہ یہ محمد شیخ کی حرکت ہے یا کسی اور ہی نے غلط ترجمہ کیا تھا
مثلا ص ١٢ پر سورہ النساء کی آیت کا ترجمہ کیا ہے
ان کے لئے ملتا جلتا کر دیا
جبکہ صحیح ہے
ان پر معاملہ مشتبہ کر دیا

مزید کہ الفاظ کا تشریحی اضافہ ہے کہ پورا کر دیا – اس شخص نے انجیل یوحنا کے الفاظ
http://biblehub.com/john/19-30.htm
پورا کر دیا کو اس آیت میں ڈال دیا ہے
——–
پورا کر دیا کی دلیل ص ١٠ پر پیش کی ہے کہ الله نفس کو پورا کرتا ہے سورہ الزمر – یہ بھی غلط مطلب ہے توفی کا مطلب پورا قبضہ میں لینا پکڑنا ہے اور اس آیت میں دو چیزوں کا ذکر ہے ایک موت کا دوسری نیند کا – توفی اس سے صریحا موت ثابت نہیں ہوتی
ہمارا روز نیند میں توفی ہو رہا ہے

صفحہ ١٣ پر بھی ترجمہ میں اضافہ ہے کہ عیسیٰ کا درجہ بلند کر دیا – یہ قرآن کے الفاظ نہیں ہیں

http://www.muhammadshaikh.com/urdu_pdf/maryam_pbuh.pdf
جواب

اس کتابچہ ص ١٢ پر لکھا ہے کہ وہ مقام جہاں مریم حمل لے کر گئیں وہ مکہ تھا ؟ اس کا کوئی ذکر دور دور تک آیات میں نہیں نہ قرآن میں ایسا کوئی ذکر ہے
گرمی کیا صرف سعودی عرب میں ہوتی ہے پڑوسی ملک اسرائیل میں نہیں ہوتی جہاں یروشلم یا گلیل ہے ؟
افسوس یہ شخص جاہل ہے

ص ٢٨ پر عائشہ رضی الله عنہا سے متعلق آیات افک کو مریم کی طرف موڑ دیا ہے
الله کی پناہ
گویا کہ مریم دور نبوی کی کوئی عورت تھیں جن پر چار گواہ طب کیے جا رہے ہیں – یہ تحریف قرآن ہے

سورہ الرعد کی آیت بھی پیش کر دی ہے کہ گویا عیسیٰ کی نسل بھی چلی ہے
جبکہ آیات میں عموم و خصوص ہوتا ہے
اس کا خصوص ظاہر ہے – کیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی نسل چلی؟ نہیں چلی

پھر اس میں ہے ازواجا یعنی ایک سے زائد بیویاں کیں جبکہ تمام انبیاء کی بہت سی بیویاں نہیں تھیں مثلا زکریا علیہ السلام یا آدم علیہ السلام

مفسرین کے مطابق آیت کا تعلق یہود کے قول سے ہے کہ محمد (ص) تو ہر وقت شادیان کرتا رہتا ہے اس پر قرآن میں کہا گیا کہ سابقہ انبیاء نے بھی شادی کی ہے نسل چلی ہے
یعنی رسول علیہ السلام کا شادی کرنا کوئی گناہ نہیں ہے

قرآن میں ہے
وجعلناه هدى لبني إسرائيل ذرية من حملنا مع نوح
بنی اسرائیل وہ ذریت ہیں جو نوح کے ساتھ کشتی میں سوار تھے
http://quran.ksu.edu.sa/tafseer/tabary/sura17-aya3.html
یعنی ذریت سے مراد نسل ہے

سورہ الرعد ٣٨

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً ۚ وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ ۗ لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ

ہم نے تم سے پہلے رسول بھیجے اور ان کے لئے بیویاں اور نسل کی – اور کسی رسول کے بس میں نہ تھا کہ کوئی نشانی لاتا الا یہ کہ الله کا اذن ہوتا -ہر انجام کتاب (میں لکھ دیا گیا) ہے

جواب

ان کی شادی کا اسلامی کتب میں کوئی ذکر نہیں ملا – انجیل کے مطابق یحیی اور عیسیٰ دونوں کی شادی نہیں ہوئی

آیات میں عموم و خصوص ہوتا ہے
اس کا خصوص ظاہر ہے – کیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی نسل چلی؟ نہیں چلی

پھر اس میں ہے ازواجا یعنی ایک سے زائد بیویاں کیں جبکہ تمام انبیاء کی بہت سی بیویاں نہیں تھیں مثلا زکریا علیہ السلام یا آدم علیہ السلام

مفسرین کے مطابق آیت کا تعلق یہود کے قول سے ہے کہ محمد (ص) تو ہر وقت شادیان کرتا رہتا ہے اس پر قرآن میں کہا گیا کہ سابقہ انبیاء نے بھی شادی کی ہے نسل چلی ہے
یعنی رسول علیہ السلام کا شادی کرنا کوئی گناہ نہیں ہے

قرآن کے مطابق
سورۃ البقرۃ

وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًاۖ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْـرَاهِيْمَ مُصَلًّى ؕ وَعَهِدْنَآ اِلٰٓى اِبْـرَاهِيْمَ وَاِسْـمَاعِيْلَ اَنْ طَهِّرَا بَيْتِىَ لِلطَّـآئِفِيْنَ وَالْعَاكِفِيْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ
(125)
اور جب ہم نے کعبہ کو لوگوں کے لیے عبادت گاہ اور امن کی جگہ بنایا، (اور فرمایا) مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بناؤ، اور ہم نے ابراھیم اور اسماعیل سے عہد لیا کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔

ایک بات کو نوٹ کر لیں کہ الله کا گھر ہمیشہ پاک تھا اور قیامت تک رہے گا –

سورۃ آل عمران

اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّـذِىْ بِبَكَّـةَ مُبَارَكًا وَّهُدًى لِّلْعَالَمِيْنَ
(96)
بے شک لوگوں کے واسطے جو سب سے پہلا گھر مقرر ہوا یہی ہے جو مکہ میں برکت والا ہے اور جہان کے لوگوں کے لیے راہ نما ہے

لیکن ہمارے محدثین نے اس میں بت رکھوا دیے – اور ان بتوں کو حضور صلی الله علیہ وسلم کے ہاتھوں تڑوا دیا- یہ بات ہے ہی قرآن کی آیات کے خلاف-

صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1913 حدیث مرفوع مکررات 8 متفق علیہ 5

حمیدی، سفیان، ابن ابی نجیح، مجاہد، ابومعمر، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ فتح مکہ کے وقت جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) مکہ میں آئے تو کعبہ کے پاس تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی آپ اس لکڑی سے ہر بت کو ٹھوکا دے کر مذکورہ بالا آیت کی تلاوت فرما رہے تھے اور یہ آیت بھی پڑھ رہے تھے کہ ( جَا ءَ الْحَ قُّ وَمَا يُبْدِي ُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيْدُ ) 34۔ السبأ : 49) یعنی حق آگیا باطل مٹ گیا اور اب باطل لوٹ کر نہیں آئے گا۔

امید ہے کہ آپ کو سمجھ آ رہا ہو گا کہ یہود اور نصاریٰ نے کیسے روایات لکھوا دیں –

کیا صحیح بخاری کی یہ حدیث ہے

بخاری شریف کی ایک روایت ہے کہ جناب نبی کریمؐ نے جب بیت اللہ کے بت توڑے تو اُن میں حضرت ابراہیمؐ اور حضرت اسماعیلؐ کے بت بھی تھے۔ بت اس طریقے سے بنائے گئے تھے کہ ان کے ہاتھوں میں جوئے کے تیر پکڑائے گئے تھے۔ جناب نبی کریمؐ نے یہ دیکھ کر فرمایا قاتلھم اللّٰە اللہ ان کا بیڑا غرق کرے کہ مشرکین نے ان بزرگوں کے ہاتھوں میں بھی تیر پکڑا دیے حالانکہ ان کو پتہ تھا کہ ان بزرگوں نے زندگی میں کبھی لاٹری یا جوا نہیں کھیلا۔

جواب

صحیح بخاری کی حدیث ہے
جوئے کے نہیں پانسوں کے تیر تھے

4288 – حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَدِمَ مَكَّةَ، أَبَى أَنْ يَدْخُلَ البَيْتَ وَفِيهِ الآلِهَةُ، فَأَمَرَ بِهَا فَأُخْرِجَتْ، فَأُخْرِجَ صُورَةُ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ فِي أَيْدِيهِمَا مِنَ الأَزْلاَمِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” قَاتَلَهُمُ اللَّهُ، لَقَدْ عَلِمُوا: مَا اسْتَقْسَمَا بِهَا قَطُّ “، ثُمَّ دَخَلَ البَيْتَ، فَكَبَّرَ فِي نَوَاحِي البَيْتِ، وَخَرَجَ وَلَمْ يُصَلِّ فِيهِ تَابَعَهُ مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، وَقَالَ: وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

افسوس یہ شخص جاہل ہے – نہ اس کو تاریخ کا علم ہے نہ مشرک کے مذھب کا علم ہے صرف آیات کو دیکھ کر اپنا معنی نکالتا ہے
کعبہ میں بت رکھے جاتے تھے اس کو مورخ ہوں یا مفسر ہوں یا تمام فرقے ہوں کہتے آئے ہیں- الله تعالی نے ابراہیم کو حکم کیا کہ کعبه کو پاک رکھا جائے لیکن بعد میں انے والے عربوں نے اس میں بت رکھے  – مشرک کے نزدیک کعبہ میں بت رکھنا اس کی توہین نہیں تھا اس میں ابراہیم و اسمعیل کی تصویریں بھی تھیں اور فرشتوں کے بت بھی تھے
مثلا کیا مسجد الاقصی ناپاک جگہ ہے یا پاک جگہ ہے ؟ لیکن وہاں رومیوں نے بت رکھے انبیاء کا قتل ہوا

اس آیت کا ترجمہ کیا ہے

وَاِذْ يَرْفَعُ اِبْـرَاهِيْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَاِسْـمَاعِيْلُ ؕرَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِـيْمُ

محمد شیخ کہتے ہیں
سورۃ البقرۃ

وَاِذْ يَرْفَعُ اِبْـرَاهِيْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَاِسْـمَاعِيْلُ ؕرَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِـيْمُ (127)
اور جب ابراھیم اور اسماعیل کعبہ کے قوائد بنا رہے تھے ، اے ہمارے رب ہم سے قبول کر، بے شک تو ہی سننے والا جاننے والا ہے۔

سورۃ المائدۃ

جَعَلَ اللّـٰهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيَامًا لِّلنَّاسِ وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ وَالْـهَدْىَ وَالْقَلَآئِدَ ۚ ذٰلِكَ لِتَعْلَمُوٓا اَنَّ اللّـٰهَ يَعْلَمُ مَا فِى السَّمَاوَاتِ وَمَا فِى الْاَرْضِ وَاَنَّ اللّـٰهَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْـمٌ
(97)
اللہ نے کعبہ کو بنایا جو کہ بزرگی والا گھر ہے لوگوں کے لیے قیام کا باعث کر دیا ہے اور عزت والے مہینے کو بھی اور حرم میں قربانی والے جانور کو بھی اور وہ جن کے گلے میں پٹہ ڈال کر کعبہ کو لے جائیں، یہ اس لیے ہے تاکہ تم جان لو کہ بے شک اللہ کو معلوم ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور بے شک اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔

ایک عہد کا ذکر بائبل میں بھی ہے –

اور میرا عہد جو میرے اور تیرے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے اور جسے تم مانو گے سو یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک فرزندِ نرینہ کا ختنہ کیا جائے۔

لازم ہے کہ تیرے خانہ زاد اور تیرے زر خرید کا ختنہ کیا جائے اور میرا عہد تمہارے جسم میں ابدی عہد ہوگا۔ اور وہ فرزند نرینہ جسکا ختنہ نہ ہوا ہو اپنے لوگوں میں سے کاٹ ڈالا جائے کیونکہ اس نے میرا عہد توڑا۔

(پیدائش 17 باب (دوسرا حصہ

جواب
آیت کا ترجمہ ہے

وَاِذْ يَرْفَعُ اِبْـرَاهِيْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَاِسْـمَاعِيْلُ ؕرَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِـيْمُ

اور جب ابراھیم بیت الله کی بنیاد کو بلند کر رہا تھا اور اسمٰعیل – اے رب ہم سے اس (عمل) کو قبول کر بے شک تو سننے والا جاننے والا ہے

کہاں کی کہاں سے ملا دی گئی ہے
بائبل میں ہے ایک فرزندِ نرینہ کا ختنہ – اس کو اپ کہنا چاہتے ہیں کہ مناسک حج میں سے ہے ؟ کہ گویا جو بھی داخل ہو وہ بھی ختنہ کرائے؟ یہ ادھر ادھر کی ملا کر عجیب و غریب نتیجہ ہے

پھر آیت پیش کی الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ اس کا ترجمہ کیا کعبہ کے قوائد بنا رہے تھے – یہ لفظی تحریف ہے – کیا انبیاء نے شریعت سازی کی –
الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ اور الْقَوَاعِدَ للبَيْتِ میں فرق ہے
پھر اس کو وَالْـهَدْىَ وَالْقَلَآئِدَ ۚ سے ملا دیا
یعنی الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ (کعبہ کی بنیادوں) کو ہدی کے جانور کے قَلَآئِدَ یا پٹے سے ملا دیا ہے
یہ تماشہ اردو بولنے والے کے ساتھ ہی ہو سکتا ہے کوئی عرب سنے گا تو سر کے بال نوچے گا

محمد شیخ کہتے ہیں الله نے کعبہ کو خلق کیا اور روز ازل سے آج تک ایسا ہی ہے چٹان کا بنا ہوا – کعبہ ایک پہاڑ ہے
منٹ ١٣:١٥ پر
https://www.youtube.com/watch?v=i7kJ5dF9f_c

کعبہ انسان نے نہیں بنایا بلکہ زمین سے نکلا

جواب

جَعَلَ اللّـٰهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيَامًا لِّلنَّاسِ وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ وَالْـهَدْىَ وَالْقَلَآئِدَ ۚ ذٰلِكَ لِتَعْلَمُوٓا اَنَّ اللّـٰهَ يَعْلَمُ مَا فِى السَّمَاوَاتِ وَمَا فِى الْاَرْضِ وَاَنَّ اللّـٰهَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْـمٌ
(97)

اللہ نے کعبہ کو محترم گھر بنایا (مقرر کیا) ہے لوگوں کے لیے قیام کا باعث کر دیا ہے اور عزت والے مہینے کو بھی اور حرم میں قربانی والے جانور کو بھی اور وہ جن کے گلے میں پٹہ ڈال کر کعبہ کو لے جائیں، یہ اس لیے ہے تاکہ تم جان لو کہ بے شک اللہ کو معلوم ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور بے شک اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔

اس آیت میں جعل کا لفظ ہے جس کا مطلب بنایا ہوتا ہے یا مقرر کرنا یعنی اس مقام کو الله نے بیت الله کے طور پر مقرر کیا ہے

قرآن میں ہے
وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْهَا إِلَّا لنعلم
اور ہم نے جو قبلہ اس سے پہلے بنایا جس پر تم تھے تو وہ صرف جاننے کے لئے تھا

اگر محمد شیخ کی بات مانی جائے تو معلوم ہوا کہ ایک قبلہ اور بنایا تھا جس کو مسلمان و یہود کہتے ہیں یروشلم میں تھا
یہی اشتباہ یہود کو بھی اپنے قبلے پر تھا کہ الله نے جو مقام قبلے کے طور پر ان کے لئے مقرر کیا یہود کہتے ہیں کہ ایک چٹان تھا جو الله نے بنایا

لیکن اصل میں کعبہ ہو یا ہیکل سلیمانی کا قدس الاقدس ہو دونوں کو الله نے قبلہ کے طور پر مقرر کیا ہے اور یہ چٹانین نہیں ہیں بلکہ اس کی اینٹیں چٹان کی ضرور ہیں – اس میں فرق ہے چٹان ہونا اور اینٹ چٹان کی ہونے میں بڑا فرق ہے

کعبہ کو ابن زبیر کے دور میں جمادى الآخرة ٦٤ ھ میں گرایا گیا اور دوبارہ بنایا گیا جس میں حطیم کو اس میں شامل کر دیا گیا اس کے بعد مخالفین نے ابن زبیر کو قتل کرنے کے لئے کعبہ پر پتھر برسائے کیونکہ ابن زبیر نے اپنے اپ کو اس میں بند کر لیا تھا کعبہ ٹوٹا اور دوبارہ تعمیر ہوا (تعجيل المنفعة صـ453 ) جس میں حطیم کو واپس نکال دیا گیا

قرآن میں ہے کہ بنی اسرائیل کو تمام عالم پر فضیلت دی تو اگر اس سے یہود لیں تو اس سے اسلام کی فضیلت ختم ہو جاتی ہے
مزید یہ کہ قرآن میں ہے کہ بنی اسرائیل سے مراد ذریت نوح ہے

ذُرِّيَّةَ مَنْ حَـمَلْنَا مَعَ نُـوْحٍ ۚ اِنَّهٝ كَانَ عَبْدًا شَكُـوْرًا
(3)
اے ان کی نسل جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا تھا، بے شک وہ شکر گزار بندہ تھا۔

یہ ذھن میں رکھیں کہ بنی اسرائیل اسی نسل سے ہے جن کو حضرت نوح علیہ سلام نے اپنی کشتی میں سوار کیا تھا – جیسا کہ اوپر والی آیت سے ظاہر ہے-

بنی اسرئیل شروع سے چلی آ رہی ہے – حضرت نوح علیہ سلام پھر حضرت موسیٰ علیہ سلام اور پھر حضرت عیسٰی علیہ سلام کے زمانے میں بھی اس کا ذکر ہے اور حضرت عیسٰی علیہ سلام ان کو حضور صلی الله علیہ وسلم کی خبر بھی دے رہے ہیں

جواب

یہود بنی اسرائیل میں سے ہیں کیونکہ یہودیت ایک نسلی مذھب ہے جو اولاد اسحاق یا اسحاق علیہ السلام کی نسل ہے
اپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ یہود میں مشرف با یہود نہیں کیا جاتا کیونکہ ان کے مطابق الله نے وعدہ نجات صرف نسل ابراہیم کے لئے کیا ہے اور عربوں کو وہ نسل ابراہیم نہیں مانتے کیونکہ عرب تو جرہم والے تھے جو ہاجرہ علیہ السلام کے ساتھ مکہ میں آباد ہوئے جب زمزم وہاں نکلا – ہم کہتے ہیں نسل و قبیلہ تو شناخت کے طور پر ہے – مثلا ہم کہتے ہیں موسی ایک نبی اسرائیلی نبی تھے تو اس کا مطلب ہے اولاد یعقوب میں سے مسلم تھے

نصرانی بنی اسرائیل نہیں ہیں یہ نسلی مذھب نہیں اس میں رومن شامل ہوئے اور یہ آج دنیا کی سب قوموں میں موجود ہیں

مسلمان تعریفی نام ہے یعنی جو الله کا مطیع ہوا اس میں تمام انبیاء شامل ہیں سابقہ امتوں کے نیک و صالح لوگ بھی اسی میں ہیں اور امت محمد کے موحد اس میں ہیں – جب امت محمد نے اپنے اپ کو مسلم کہنا شروع کیا تو پھردور نبوی سے آج تک اس کے فرقوں کو بھی مسلم ہی کہا جاتا ہے – امت محمد میں مشرک بھی ہیں – عرف عام میں مسلمان سے مراد وہ ہے جو امت محمد کا ہو اسلام کے پانچ ارکان پر عمل کا دعوی کرتا ہو

قرآن کا حکم ہے

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ

اے ایمان والوں الله کے لئے عدل کے گواہ بن کر کھڑے ہو اور ایسا نہ ہو کہ کسی قوم کی دشنمی تم کو اکسائے کہ عدل نہ کرو عدل کرو یہ تقوی کے قریب ہے اور الله سے ڈرو بے شک الله جانتا ہے جو تم کرتے ہو

یہود سے دشمنی میں حد یہ ہو گئی کہ اپ کہنے لگ گئے کہ وہ بنی اسرائیل بھی نہیں- اس طرح حقائق کو مسخ نہ کریں جس طرح اہل کتاب کرتے ہیں

اِنَّـآ اَنْزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيْـهَا هُدًى وَّنُوْرٌ ۚ يَحْكُمُ بِـهَا النَّبِيُّوْنَ الَّـذِيْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّـذِيْنَ هَادُوْا وَالرَّبَّانِيُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتَابِ اللّـٰهِ وَكَانُوْا عَلَيْهِ شُهَدَآءَ ۚ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَـرُوْا بِاٰيَاتِىْ ثَمَنًا قَلِيْلًا ۚ وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّـٰهُ فَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْكَافِرُوْنَ (44)
ہم نے تورات نازل کی کہ اس میں ہدایت اور روشنی ہے، اس پر اللہ کے فرمانبردار پیغمبر یہود کو حکم کرتے تھے اور اہل اللہ اور علماء بھی اس لیے کہ وہ اللہ کی کتاب کے محافظ ٹھہرائے گئے تھے اور اس کی خبر گیری پر مقرر تھے، سو تم لوگوں سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو اور میری آیتوں کے بدلے میں تھوڑا مول مت لو، اور جو کوئی اس کے موافق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے اتارا ہے تو وہی لوگ کافر ہیں۔

اس آیت میں واضح ہے کہ توریت کو انبیاء نے استمعال کیا یہود کو حکم کیا اور ان اہل کتاب میں سے یہودی اور ربانی اور احبار بھی حکم لیتے تھے

یہ کتاب معلوم ہے کہ موسی علیہ السلام پر نازل ہوئی ہے

یہود کے پاس توریت ہے قرآن میں ہے
مَثَلُ الذين حُمِّلُواْ التوراة ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الحمار يَحْمِلُ أَسْفَاراً

قرآن میں ہے

الذين يَتَّبِعُونَ الرسول النبي الأمي الذي يَجِدُونَهُ مَكْتُوباً عِندَهُمْ فِي التوراة والإنجيل
توریت و انجیل میں نبی الامی کا ذکر ہے

یہ توریت کیا ہے اگر یہ آسمانی کتاب نہیں ہے ؟ کیا یہود کی تحریر ہے اگر ہے تو الله اس کو نافذ کرنے کا حکم کیوں دیتا ہے ؟ اس پر خوش کیوں ہے کہ احبار نے اس کتاب کو قائم کیا ہے

اور کیا مصدر تھا جس پر سابقہ انبیاء چل رہے تھے مثلا زکریا علیہ السلام جس ہیکل سلیمانی میں متعین تھے اور وہاں اقلام ڈالے گئے وہ سب کیا ہے؟

زمان و مکان کا خیال رکھیں- مدینہ کے یہود پر تنقید کی گئی ہے کہ وہ کہتے ہیں الله کے ہاتھ بندھے ہیں

ذُرِّيَّةَ مَنْ حَـمَلْنَا مَعَ نُـوْحٍ ۚ اِنَّهٝ كَانَ عَبْدًا شَكُـوْرًا
(3)
اے ان کی نسل جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا تھا، بے شک وہ شکر گزار بندہ تھا۔

یہ ذھن میں رکھیں کہ بنی اسرائیل اسی نسل سے ہے جن کو حضرت نوح علیہ سلام نے اپنی کشتی میں سوار کیا تھا – جیسا کہ اوپر والی آیت سے ظاہر ہے-

بنی اسرائیل اور تم عالم نوح کی نسل سے ہے – اپ یا ہم کس کی نسل ہیں ؟ نوح کی ہی ہیں عرب بھی نوح کی نسل ہیں یہاں تک کہ ہندو بھی نوح کی نسل سے ہیں
کیونکہ تمام دنیا غرق ہوئی صرف کشتی نوح والے بچ گئے

وَجَاوَزْنَا بِبَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ الْبَحْرَ فَاَتْبَعَهُـمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُـوْدُهٝ بَغْيًا وَّعَدْوًا ۖ حَتّــٰٓى اِذَآ اَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّهٝ لَآ اِلٰـهَ اِلَّا الَّـذِىٓ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُـوٓا اِسْرَآئِيْلَ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ
(90)
اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کر دیا پھر فرعون اور اس کے لشکر نے ظلم اور زیادتی سے ان کا پیچھا کیا، یہاں تک کہ جب ڈوبنے لگا تو کہا میں ایمان لایا کہ کوئی معبود نہیں مگر جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں فرمانبرداروں میں سے ہوں۔

بنی اسرائیل وہ ہیں جو موسی کے ساتھ نکلے پھر ان میں بارہ قبائل بنا دیے گئے جو پانی کی تقسیم پر بنے

وَإِذِ اسْتَسْقَى مُوسَى لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِعَصَاكَ الْحَجَرَ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَشْرَبَهُمْ كُلُوا وَاشْرَبُوا مِنْ رِزْقِ اللَّهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ

بنی اسرائیل یا یہود کو یقینا الله نے تمام عالم پر فضیلت دی انہوں نے بچھڑے کی پوجا کی لیکن اللہ نے من و سلوی دیا انہوں نے الله کو دیکھنے کا مطالبہ کیا الله نے ان کو فرعون سے نجات دی یہ فضیلت نہیں تو اور کیا ہے

باقی اپ سورہ بقرہ پڑھ سکتے ہیں اس میں یہود پر تنقید کی جا رہی ہے اور بنی اسرائیل کا ذکر کیا جا رہا ہے اگر یہ دونوں گروہ ایک نہیں ہیں
تو غیر متعلق بات ہو گی

بنی اسرائیل عربی کا لفظ ہے اس کا مطلب نسل ہوتا ہے کہ اسرائیل کی نسل اور اسرائیل قرآن ہو حدیث ہو توریت ہو یا انجیل ہو سب میں اس کا مطلب یعقوب علیہ السلام ہی لیا جاتا ہے

اسرائیل یعقوب علیہ السلام کا لقب ہے قرآن میں ہے
كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلا لِبَنِي إِسْرَائِيلَ إِلا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِيلُ عَلَى نَفْسِهِ مِنْ قَبْلِ أَنْ تُنَـزَّلَ التَّوْرَاةُ قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ
ہر کھانا بنی اسرائیل کے لئے حلال تھا سوائے اس کے جو اسرائیل (یعقوب) نے اپنے اوپر حرام کیا توریت کے نزول سے پہلے پس توریت لاو اس کو پڑھو اگر تم سچے ہو

اس آیت میں یہ اسرائیل کون مجہول شخص ہے ؟

جو اپ کے بقول یعقوب علیہ السلام نہیں ہیں

سورہ الاحقاف میں ہے کہ عرب جو نسل نوح میں سے تھے ان سے رسول الله نے کہا

قُلْ اَرَاَيْتُـمْ اِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللّـٰهِ وَكَفَرْتُـمْ بِهٖ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ بَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ عَلٰى مِثْلِـهٖ فَـاٰمَنَ وَاسْتَكْـبَـرْتُـمْ ۖ اِنَّ اللّـٰهَ لَا يَـهْدِى الْقَوْمَ الظَّالِمِيْنَ (10)
کہہ دو بتاؤ تو سہی اگر یہ کتاب اللہ کی طرف سے ہو اور تم اس کے منکر ہو اور بنی اسرائیل کا ایک گواہ ایک ایسی کتاب پر گواہی دے کر ایمان بھی لے آیا اور تم اکڑے ہی رہے، بے شک اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا۔
اس آیت میں بنی اسرائیل کون ہے ؟

غور کریں اور فضول  فلسفوں سے برات کا اظہار کریں

يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَلْبِسُونَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ
اے اہل کتاب تم کیوں حق و باطل کی تلبیس کرتے ہو اور حق چھپاتے ہو اور تم جانتے ہو

کیا یہود اور نصاریٰ کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ سلام نے اپنے بیٹے حضرت اسحاق علیہ سلام کی قربانی دی اور الله نے ایک منڈھا ان کی چھری کے نیچے بھیج دیا اور انہوں نے اس کی قربانی کر دی
جواب

یہ قرآن سورہ الصافات میں ہے

سوره الصافات میں ترتیب میں پہلے بیٹے کا ذکر ہے جس کی قربانی کا حکم دیا گیا (جو ظاہر ہے اسمعیل ہیں) اس کے بعد کہا گیا کہ اسحاق کی بھی بشارت دی تاکہ بتایا جائے کہ قربانی والا واقعہ اسمعیل کے ساتھ ہوا – قرآن اور توریت کی کتاب پیداش کے مطابق سارہ بانجھ تھیں لیکن اولاد کا ہونا الله کی نشانی تھا اولاد نہ ہونے کی وجہ سے سارہ نے ہاجرہ سے نکاح کا ابراہیم کو مشورہ دیا تھا ظاہر ہے کہ اگر اسحاق پیدا ہو چکے ہوتے تو یہ سب کرنے کی ضرروت نہ تھی اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ اسمعیل بڑے اور اسحاق چھوٹے تھے – اسمعیل اور اسحاق میں بائبل کے مطابق ١٣ سال کا فرق تھا قرآن کی سوره الصفافات میں جس طرح بیان ہوا ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ اسمعیل کی قربانی والے واقعہ کے بعد الله نے اسحاق کی بشارت دی

ابراہیم علیہ السلام کی چار زوج یا لونڈیاں تھیں

اول سارہ علیہ السلام – ان پر تمام ابراہیمی ادیان کا کہنا ہے کہ بیوی تھیں بابل کی تھیں
دوم ہاجرہ علیہ السلام ان پر یہود و نصاری کا کہنا ہے کہ یہ لونڈی تھیں جو شاہ مصر نے تحفتا دی – یہ شاہ مصر وہی ہے جو کذب ثلاثہ والی حدیث میں ظالم بادشاہ تھا اور بائبل اور حدیث کا بیان ایک ہے – البتہ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ہاجرہ بیوی تھیں
سوم قطورا ان کا ذکر بائبل میں ہے – حدیث میں ان کا ذکر نہیں ملا البتہ مسلمان مورخین نے ان کا ذکر کیا ہے
چہارم حجورا ان کا ذکر مورخین نے کیا ہے

قطورا پر ایک قول ہے کنعان سے تھیں
المعارف از ابن قتیبہ میں ہے
وتزوّج إبراهيم امرأة من الكنعانيين، يقال لها: قطورا، فولدت له أربعة نفر [1] . وتزوّج أخرى يقال لها: حجورا، فولدت له سبعة نفر./ 18/ فكان جميع ولد إبراهيم ثلاثة عشر رجلا. وعاش إبراهيم مائة وخمسا وسبعين سنة [2] .

ابن اسحاق اور ابن اثیر اور ابن خلدون کا کہنا ہے کنعان کی تھیں نام دیا ہے
قطورا بنت يقطن،
———-
قطورا پر ایک قول ہے یمنی جرهم سے تھیں
البدء والتاريخ
المؤلف: المطهر بن طاهر المقدسي (المتوفى: نحو 355هـ)
المعارف از ابن قتیبہ میں ہے
وتزوّج إبراهيم امرأة من الكنعانيين، يقال لها: قطورا، فولدت له أربعة نفر [1] . وتزوّج أخرى يقال لها: حجورا، فولدت له سبعة نفر./ 18/ فكان جميع ولد إبراهيم ثلاثة عشر رجلا. وعاش إبراهيم مائة وخمسا وسبعين سنة [2] .
قطورا سے ٤ – حجورا سے ٧ – ایک ہاجرہ سے- ایک سارہ سے
– ابن قتیبہ کے مطابق کل ملا کر ١٣ لڑکے ہوئے

حضرت موسیٰ علیہ سلام کو جو کتاب دی گئی کیا اس کا نام قرآن میں آیا ہے اور وہ کس زبان میں تھی – کیا تاریخ میں کچھ ملتا ہے

جواب

موسی کے لئے لوح یا تختی پر لکھا گیا یعنی پتھر کی سل پر یا لکڑی کی تختی پر کیونکہ یہ لکھا جانا عالم ارضی میں ہوا
الله تعالی اپنے عرش پر تھے موسی کوہ طور پر لیکن الله کے حکم سے الفاظ تحتی پر ظاہر ہو رہے تھے
لوح عربی کا لفظ ہے انگلش میں اس کو
Tablet
کہتے ہیں
عالم ارضی کی تمام چیزیں تغیر کا شکار ہیں

قرآن لوح محفوظ میں ہے یہ عالم بالا کی خبر ہے جہاں کسی چیز پر تغیر نہیں اتا اس بنا پر اس کو خاص کرنے کے لئے محفوظ تختی یا محفوظ سل نہیں کہا جاتا بلکہ لوح کہا جاتا ہے

موسی کی توریت یا انجیل یا قرآن یا زبور یہ تمام الکتاب کا جز ہیں جو لوح محفوظ میں عالم بالا میں ہے اس کو الکتاب بھی کہا جاتا ہے – موسی کی کتاب کا نام التوراة کئی بار قران میں آیا ہے – یہود کہتے ہیں یہ معدوم رسم الخط میں تھی جس کو
paleo hebrew alphabet
کہا جاتا ہے

سورۃ یونس

(مکی، آیات 109)

فَاِنْ كُنْتَ فِىْ شَكٍّ مِّمَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ فَاسْاَلِ الَّـذِيْنَ يَقْرَءُوْنَ الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ لَقَدْ جَآءَكَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُـوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَـرِيْنَ

سو اگر تمہیں اس چیز میں شک ہے جو ہم نے تیری طرف اتاری تو ان سے پوچھ لے جو تجھ سے پہلے کتاب پڑھتے ہیں، بے شک تیرے پاس تیرے رب سے حق بات آئی ہے سو شک کرنے والوں میں ہرگز نہ ہو۔

کیا شک کی صورت میں پوچھنے کے لئے یہود اور نصاریٰ سے پوچھنے کا کہا گیا ہے
اور کیا وہ یہود سچی بات کو بتا دیں گے – وہ کیسے سچی بات کو بتا سکتے ہیں

جواب

مشرکین مکہ سے کہا جا رہا ہے کہ یہ قرانی نصحت اس سے قبل اہل کتاب کی کتابوں میں بھی بیان ہوئی ہے

یہاں ورقه بن نوفل اور ان کے جیسے لوگ مراد ہیں

پلیز ان لیکچر کا ضرور جواب دیں – کیوں کہ ان میں نے بہت عقائد ہم مسلمانوں میں بھی ہیں

کیا جن کتب کے حوالے دیے جا رہے ہیں وہ صحیح ہیں

جواب

ان صاحب کے کلام میں بہت اضطراب ہے اور ان کو ان باتوں کی سمجھ نہیں جس پر یہ وڈیو ہے

اول سوال عقائد پر ہوا لیکن ان صاحب نے کلام معاملات اور احکام و شریعت پر شروع کر دیا

دوم تو اپ کو جان لینا چاہے کہ یہ صاحب یہود کے “عقائد” پر بات کرتے کرتے ایک دم نصرانی کتاب یا پاول کی کتب کا حوالہ دینے لگ جاتے ہیں

داڑھی بڑھانا- سر کے بال یا سر ڈھکنا یا ختنہ کرنا یہ عقائد نہیں ہیں یہ احکام ہیں جو اسلام کے بھی احکام ہیں ان کی تشریح الگ ہو سکتی ہے

دھاگہ باندھنا : یہود آجکل ایسا تعویذ کے طور کرتے ہیں – ان کا حوالہ صحیح ہے
لیکن
ان آیات میں تعویز کا ذکر نہیں ہے
Deut. 6:4 ¶ “Hear, O Israel: dThe LORD our God, the LORD is one.2
Deut. 6:5 You eshall love the LORD your God with all your heart and with all your soul and with all your might.
Deut. 6:6 And fthese words that I command you today shall be on your heart.
Deut. 6:7 gYou shall teach them diligently to your children, and shall talk of them when you sit in your house, and when you walk by the way, and when you lie down, and when you rise.
Deut. 6:8 hYou shall bind them as a sign on your hand, and they shall be as frontlets between your eyes.
Deut. 6:9 iYou shall write them on the doorposts of your house and on your gates.

ان آیات کو بطور تعویذ نہیں لٹکایا جاتا
——–

یہود انسان کا قتل فورا کر دیں گے کیونکہ ہے آنکھ کے بدلے آنکھ وغیرہ -یہاں بھی خلط مبحث کر دیا ہے – یہ تو قصاص لینے کا توریت کا حکم ہے – یہ الله کا حکم ہے اس کا خاص ذکر سورہ المائدہ میں ہے کہ یہ الله نے حکم دیا
——
١ Timothy
ایک نصرانی کتاب ہے
تو یہ ان صاحب کے کلام کا اضطراب ہے – پادری نصرانی میں ہوتا ہے – یہود میں نہیں

—-

ان صاحب نے کہا ابراہیم نے کلہاڑی سے بت توڑے – ایسا یہود کی کس کتاب میں لکھا ہے – یہود کا انہوں نے کوئی حوالہ نہیں دیا
میرے علم کے مطابق ایسا ان کی کتب میں نہیں لکھا – یہ قرآن میں ہے
——-

زنا کی سزا رجم ہے اس کا حکم رسول الله نے دیا تو یہ من جانب الله ہے
——

Deutronomy

جنگ کرو – لوگوں کو غلام بنا لو – مال غمیمت حاصل کرو

ارے حد ہو گئی – یہ الله کے حکم کا مذاق اڑا رہا ہے
یہ توریت کا حکم تھا کہ ارض مقدس میں داخل ہو وہاں جا کر قتل ہی کرنا تھا اس پر جب یہود نے محمد شیخ کی طرح سخت سستی دکھائی تو الله نے اس زمین کو چالیس سال ان پر حرام کر دیا
—-

مردے کا چالیس دن سوگ کا ذکر بھی خلط ملط ہے

Gen. 50:1 ¶ Then Joseph fell on his father’s face and wept over him and kissed him.
Gen. 50:2 And Joseph commanded his servants the physicians to wembalm his father. So the physicians embalmed Israel.
Gen. 50:3 Forty days were required for it, for that is how many are required for embalming. And the Egyptians wept for him seventy days.

یوسف علیہ السلام نے مصر میں اپنے خادم مصریوں کو حکم دیا کہ یعقوب کو حنوط کر دیں اس میں ٤٠ دن لگ گئے اور ستر دن تک روتے رہے

یہ یہود نے لکھا ہے یہ اس حنوط کی وجہ سے ہوا
لیکن یہ عموم نہیں ہے خاص ہے
مجھے اس قصے پر شک ہے – لیکن کیا یہود کے نزدیک یہ حکم عام ہے ؟ اس حوالے سے ان کو تلمود کا حوالہ دینا چاہیے تھا
——

نصرانی عقیدہ کا ذکر کیا ہے
Mark 16:19 ¶ So then the Lord Jesus, after he had spoken to them, was taken up into heaven and sat down at the right hand of God.
موصوف نے کہا عیسیٰ کا آسمان پر جانا اور آنا نصرانی عقیدہ ہے
راقم کہتا ہے صحیح بات ہے لیکن یہ مسلمانوں کا بھی عقیدہ ہے کہ عیسیٰ واپس آئیں گے

——–
عیسیٰ نے کہا
Luke 12:49 “I came to cast fire on the earth, and would that it were already kindled!
اس کو تنقیدی انداز میں ذکر کیا ہے

راقم کہتا ہے یہ تو انبیاء کا قول رہا ہے کہ جنگ و جہاد کرو اس میں اشکال کیا ہے
باپ بیٹے کا دشمن ہو بیوی شوہر سے الگ ہو تو یہ کام مکی دور میں ہوا جب لوگوں نے اسلام قبول کیا
——
Luke 14:26 “If anyone comes to me and does not hate his own father and mother and wife and children and brothers and sisters, yes, and even his own life, he cannot be my disciple.

اس کو تنقیدی انداز میں ذکر کیا ہے
راقم کہتا ہے کہ یہ انبیاء کا قول ہے کہ شرک کو چھوڑ دو اور ہم سے اتنی مجبت کرو جو ماں باپ سے بڑھ کر ہو
ایسا حدیث میں بھی ہے
——–

Luke 19:27 But as for these enemies of mine, who did not want me to reign over them, bring them here and slaughter them before me.’”

اس کو تنقیدی انداز میں ذکر کیا ہے
راقم کہتا ہے یہ جہاد کا حکم ہے جو عیسیٰ نے دیا تھا اس میں کوئی اشکال نہیں ہے
جنگ ہوتی ہے تو قتل ہی ہوتا ہے
الله نے قتال کو پسند کیا ہے
——-

١٦: ٤٧ منٹ پر کہا
یہود نے اپنی مملکت کا نام اسرائیل رکھا کیونکہ یہود نے الله تعالی سے کشتی لڑی نعوذ باللہ

The man asked him, “What is your name?”
“Jacob,” he answered.
28 Then the man said, “Your name will no longer be Jacob, but Israel,[a] because you have struggled with God and with humans and have overcome.”
29 Jacob said, “Please tell me your name.”
But he replied, “Why do you ask my name?” Then he blessed him there.
30 So Jacob called the place Peniel,[b] saying, “It is because I saw God face to face, and yet my life was spared.”

یہ حوالہ صحیح ہے – اور یہود پر الله کی مار ہو جو یہ لکھا
——

بنی اسرائیل
اور ہم نے موسٰی کو کتاب دی اور اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنایا کہ میرے سوا کسی کو کارساز نہ بناؤ۔

اس آیت پر ان صاحب کا فہم ہے کہ تمام انسان بنی اسرائیل ہیں ! یہ نہایت عجیب فہم ہے – موسی کو کتاب دی اس کا ذکر توریت کے طور پر قرآن میں موجود ہے
وَكَيْفَ يُحَكِّمُونَكَ وَعِنْدَهُمُ التَّوْرَاةُ فِيهَا حُكْمُ اللَّهِ ثُمَّ يَتَوَلَّوْنَ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ وَمَا أُولَئِكَ بِالْمُؤْمِنِينَ (43) إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآَيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ (44) وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنْفَ بِالْأَنْفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (45)﴾ (سورة المائدة)

اور وہ تجھے کس طرح منصف بنائیں گے حالانکہ ان کے پاس تورات ہے جس میں اللہ کا حکم ہے پھر اس کے بعد ہٹ جاتے ہیں، اور یہ مومن نہیں ہیں۔
ہم نے تورات نازل کی کہ اس میں ہدایت اور روشنی ہے، اس پر اللہ کے فرمانبردار پیغمبر یہود کو حکم کرتے تھے اور اہل اللہ اور علماء بھی اس لیے کہ وہ اللہ کی کتاب کے محافظ ٹھہرائے گئے تھے اور اس کی خبر گیری پر مقرر تھے، سو تم لوگوں سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو اور میری آیتوں کے بدلے میں تھوڑا مول مت لو، اور جو کوئی اس کے موافق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے اتارا ہے تو وہی لوگ کافر ہیں۔

——

۔سورہ بنی اسرائیل میں ہے

وَاٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتَابَ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِّبَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِىْ وَكِيْلًا (2)
اور ہم نے موسٰی کو کتاب دی اور اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنایا کہ میرے سوا کسی کو کارساز نہ بناؤ۔
ذُرِّيَّةَ مَنْ حَـمَلْنَا مَعَ نُـوْحٍ ۚ اِنَّهٝ كَانَ عَبْدًا شَكُـوْرًا (3)
اے ان کی نسل جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا تھا، بے شک وہ شکر گزار بندہ تھا۔

اس پر موصوف کا کہنا ہے کہ نوح کی تمام نسل بنی اسرائیلی ہے جبکہ یہاں ہے کہ بنی اسرائیل اسی نسل میں سے ہیں جو نوح کی ہے
راقم کہتا ہے عرب بھی نوح کی نسل میں سے ہیں
لیکن یہ موصوف اس کو الٹا سیدھا کر کے تمام انسانیت کو نوح کی نسل کہنے کی بجائے تمام کو بنی اسرائیلی قرار دے رہے ہیں جو غلط فہمی ہے
——
سورہ جاثیہ
وَلَقَدْ آتَيْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ
اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب اور حکمت اور نبوت عطا کی اور انہیں پاک رزق عطا کیا اور انہیں تمام دنیا جہان سے فضیلت دی

اس پر موصوف کا کہنا ہے یہ مملکت اسرائیل والوں سے متعلق نہیں ہے – یعنی یہ یہود کے لئے نہیں ہے- موصوف سمجتھے ہیں کہ اگر ان آیات سے مراد یہود لے لئے جائیں تو یہود افضل ہو جاتے ہیں – یہ بھی کج فہمی ہے

راقم کہتا ہے الله نے بنی اسرائیلی انبیاء کو یعنی نسل یعقوب میں انے والے انبیاء کو کتاب دی یعنی زبور انجیل توریت دی عربوں میں تو صرف ایک کتاب قرآن نازل ہوئی ہے – پھر ان کے بنی اسرائیلی انبیاء کو حکومت دی یعنی سلیمان و داود اور موسی کو اور ان کو ارض مقدس دیا جہاں برکت تھی تو یہ احسان نسل یعقوب پر الله نے کیا اس پر ہمارا ایمان ہے – لیکن جو شری ہیں ان کا اس میں ذکر نہیں ہے –
سادہ سوال ہے کہ اسرائیل کون شخص ہے جس کی نسل کی بات ہو رہی ہے موصوف کے نزدیک یہ نوح کی نسل میں کسی مجہول کا لقب ہے جو شاذ و منکر قول ہے

وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ تَهْتَدُوا ۗ قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ

الله نے کہا یہودی یا نصرانی نہیں بلکہ ملت ابراہیم کو لو – کیونکہ دور نبوی میں بنی اسرائیل کے دس قبیلے اپنی انفرادیت کھو چکے تھے سب اپنے اپ کو یہودا
Judah
کہواتے تھے اسی سے عربی میں ان کا نام یہود نکلا
اصل میں یہ قبائلی عصبیت کا قول تھا کہ ہم قبیلہ یہود سے ہیں دینی نام نہیں تھا
تو الله نے کہا قبائلی نام تم سب نے اپنا لیا ہے اپنے اپ کو ملت ابراہیم کہو نہ کہ سب ایک قبیلہ بن جاو

جواب

اسرائیل یعقوب علیہ السلام کا لقب ہے قرآن میں ہے
كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلا لِبَنِي إِسْرَائِيلَ إِلا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِيلُ عَلَى نَفْسِهِ مِنْ قَبْلِ أَنْ تُنَـزَّلَ التَّوْرَاةُ قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ
ہر کھانا بنی اسرائیل کے لئے حلال تھا سوائے اس کے جو اسرائیل (یعقوب) نے اپنے اوپر حرام کیا توریت کے نزول سے پہلے پس توریت لاو اس کو پڑھو اگر تم سچے ہو

روایات کے مطابق اس میں اونٹ کا ذکر ہے جو یہود کے بقول حرام ہے اور رسول الله نے اس کو کھایا ہے لہذا یہود نے اعتراض کیا کہ یہ حرام کھانا ہے – الله تعالی نے بتایا کہ یعقوب کا یہ عمل توریت سے قبل تھا اب توریت لاو اس کو پڑھو کہ یہ حرمت کا حکم کہاں ہے
یعنی یہ توریت میں نہیں لکھا ہے

⇑ کیا چوہے مسخ شدہ یہودی ہیں ؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/علم-الحدیث/

قرآن نے اس طرح اثبات کر دیا کہ اسرائیل کوئی غلط نام نہیں ہے بلکہ یعقوب کا نام ہے
اس حوالے سے جو یہودی جاہلوں نے گھڑا اس سے ہم کو کوئی سروکار نہیں ہے
کہ ہم یہ کہنے لگ جائیں کہ یہود بنی اسرائیل یا اسرائیل کے بیٹے نہیں ہیں ہم اسرائیل کے بیٹے ہیں جیسا محمد شیخ کہہ رہے ہیں گویا ہم سب یعقوب کی نسل ہیں

قرآن میں ہے
یونس

وَجَاوَزْنَا بِبَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ الْبَحْرَ فَاَتْبَعَهُـمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُـوْدُهٝ بَغْيًا وَّعَدْوًا ۖ حَتّــٰٓى اِذَآ اَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّهٝ لَآ اِلٰـهَ اِلَّا الَّـذِىٓ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُـوٓا اِسْرَآئِيْلَ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ
(90)
اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کر دیا پھر فرعون اور اس کے لشکر نے ظلم اور زیادتی سے ان کا پیچھا کیا، یہاں تک کہ جب ڈوبنے لگا تو کہا میں ایمان لایا کہ کوئی معبود نہیں مگر جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں فرمانبرداروں میں سے ہوں۔

اس سے ظاہر ہے کہ نبی اسرائیل وہ ہیں جو مصر میں آباد تھے ان کو بچا لیا گیا اور ال فرعون غرق ہوئے

اگر یہ کہا جائے کہ بنی اسرائیل نوح کی نسل تھے تو یہ قول ال فرعون پر بھی صادق اتا ہے کیونکہ تمام عالم نوح کی نسل میں سے ہے
چاہے ہندو ہو یا بدھ مت کا ہو یا مشرک ہو

کیا شیطان جن تھا یا فرشتہ – یہاں قرآن کی کچھ آیات کا حوالہ دیا ہے محمد شیخ صاحب نے

یہ دو آیات پیش کی ہیں

١.

سورۃ البقرۃ

وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلَآئِكَـةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ اَبٰى وَاسْتَكْبَـرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِـرِيْنَ

اورجب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس کہ اس نے انکار کیا اورتکبر کیا اورکافروں میں سے ہو گیا۔

٢.

سورۃ الکھف

وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلَآئِكَـةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ ؕ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّهٖ ۗ اَفَتَتَّخِذُوْنَهٝ وَذُرِّيَّتَهٝٓ اَوْلِيَـآءَ مِنْ دُوْنِىْ وَهُـمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۚ بِئْسَ لِلظَّالِمِيْنَ بَدَلًا

اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو تو سوائے ابلیس کے سب نے سجدہ کیا، وہ جنوں میں سے تھا سو اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی، پھر کیا تم مجھے چھوڑ کر اسے اور اس کی اولاد کو کارساز بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں، بے انصافوں کو برا بدل ملا۔

جواب

ابلیس کے بارے میں ہے
وَكَانَ مِنَ الْكَافِـرِيْنَ
وہ کافروں میں سے تھا

كَانَ مِنَ الْجِنِّ
وہ جن میں سے تھا

اس سے معلوم ہوا کہ ابلیس جن ہی تھا اور کافر جن تھا- جن مومن بھی ہو سکتا ہے جن کا ذکر سورہ جن میں ہے
ابلیس کو کافر کہا گیا
ابلیس کو تخلیق کا علم الله کی طرف سے ہوا جس طرح ہم کو علم ہے کہ ہم کو مٹی سے خلق کیا گیا
یعنی مخلوق جن کو ہم سے پہلے یہ علم دیا گیا کہ ان کو الله کی عبادت کرنی ہے وہ اگ سے پیدا کیے گئے ہیں

—-
اگر ہم کہیں کہ ابلیس فرشتہ تھا تو وہ تو کہتا ہے کہ وہ اگ سے پیدا ہوا گویا فرشتے اگ سے پیدا ہوئے
اور پھر تمام فرشتے جن بن جائیں گے کیونکہ قرآن ہی میں ہے جن اگ سے پیدا ہوئے
یہ مغالطہ در مغالطہ ہے –
لہذا جو معلوم ہے وہ صحیح ہے کہ جنات اگ سے پیدا کیے گئے اور ابلیس جن تھا فرشتہ نہ تھا

میرا خیال ہے کہ الله تعالی نے ایک تو خبر دی کہ وہ مخلوق میں سے جنوں میں سے تھا اور اس کا انکار کرنا اس کو معلوم تھا لہذا الله نے اس کو آزمائش میں ڈالا لیکن الله علیم و خبیر کو علم تھا کہ نتیجہ کیا نکلے گا لہذا ابلیس کی قلبی کیفیت کا ذکر کیا کہ وہ کافروں میں سے تھا

اب اشکال یہ جنم لیتا ہے کہ اگر وہ کافروں میں سے تھا تو وہ جنت میں کیا کر رہا تھا؟ اسی اشکال سے بچنے کے لئے لوگوں نے ترجمہ میں تبدیلی کی جس سے یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے – اس کا جواب یہ ہے کہ ابلیس خود پسندی کا شکار ہو چکا تھا اور جنت تک رسائی پانے کی وجہ سے غرور میں مبتلا ہوا – اس سے قبل متقی تھا لیکن عزت ملنے پر اس میں تکبر آیا اور عناصر اربعہ میں سے اگ کو مٹی پر فوقیت دینے لگا کہ یہ میرا عنصر تخلیق ہے میں سب سے افضل ہوں – الله کے علم میں تھا کہ ابلیس کے قلب میں کیا آ رہا ہے لیکن اس کو اس کے حال پر رہنے دیا اور آدم کی تخلیق کا اعلان کیا کہ جیسے ہی اس میں روح آئے سات آسمان میں سب اس کے آگے سجدے میں جھک جائیں
و الله اعلم

کان من سادی عربی ہے کہ وہ تھا – قرآن عربی میں ہے اور اس میں کوئی اشکال نہیں کہ یہ صغیہ ماضی ہے

——
غلط ترجمہ کرنے والوں نے اس ترجمہ کو صحیح ثابت کرنے کے لئے شرح کی ہے
مثلا تفسیر قرطبی ص ٣١١ میں ہے

https://www.mediafire.com/folder/m2y2373314zsi/تفسیر_قرطبی_ترجمہ_الجامع_لأحكام_القرآن_المعروف_بتفسير_القرطبي_تأليف_أبو_عبد_الله_محمد_بن_أحمد_بن_أبو_بكر_بن_فرح_القرطبي

http://www.mediafire.com/file/g5mstz528hu15h4/سب+سے+پہلے+کون+ترجمہ+الأوائل+لابن+أبي+عاصم+والطبراني+والسيطي+مترجم+محمد+عظیم+حاصلپوری.pdf

کہ اس آیت میں لفظ کان کو لفظ صار لیا جائے کہ وہ ہو گیا جیسا کہ سورہ ہود میں ولد نوح کے لئے ہے
فکان من المغرقین

ابن فورک نے کہا یہ قول غلط ہے – پھر قرطبی نے نقل کیا کہ اکثر تاویل کرنے والوں کا قول ہے کہ الله کے علم میں تھا یہ کفر کرے گا
اس رائے کو قرطبی نے پسند کیا

لیکن اردو مترجم نے اس تفسیر کا ترجمہ کرتے وقت الفاظ قرآن کا ترجمہ ص ٣٠٥ واپس وہی کر دیا ہے کہ وہ کافروں میں سے ہو گیا
——-

ابلیس کو اپ فرشتہ مانیں یا جن دونوں صورتوں میں وہ ایک ذہنی کشمکش میں رہا ہے پہلے مومن تھا اسی لئے جنت میں تھا لیکن جب سجدہ کا وقت آیا اس وقت تک کافر ہو چکا تھا
=======

فكان من المغرقين
سورة الهود ٤٣

DR. GHALI
so he was (among) the drowned.
—–
DR. MUSTAFA KHATTAB, THE CLEAR QURAN
and his son was among the drowned.
—–
YUSUF ALI
and the son was among those overwhelmed in the Flood.
———–
SHAKIR
so he was of the drowned.
———
PICKTHALL
so he was among the drowned.
———-
MUHSIN KHAN
so he (the son) was among the drowned.

ان سب کا ترجمہ ہے کہ وہ غرق ہو جانے والوں میں سے تھا

لیکن اردو میں اس کو ہو گیا ترجمہ کیا گیا ہے
—-
محمد جوناگڑھی
اس نے جواب دیا کہ میں تو کسی بڑے پہاڑ کی طرف پناه میں آجاؤں گا جو مجھے پانی سے بچا لے گا، نوح ﴿علیہ السلام﴾ نے کہا آج اللہ کے امر سے بچانے واﻻ کوئی نہیں، صرف وہی بچیں گے جن پر اللہ کا رحم ہوا۔ اسی وقت ان دونوں کے درمیان موج حائل ہوگئی اور وه ڈوبنے والوں میں سے ہوگیا

الله تعالی نے

فرشتوں کو حکم کیا گیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سوال ہے کہ ابلیس کو کیوں طنز و تشنیع کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ حکم تو اس جنس کے لئے نہیں تھا – اس اشکال کی بنیاد کر بعض کا کہنا ہے کہ ابلیس فرشتہ تھا اور پھر نکتہ سنجی کی کہ اگ کی قسمیں ہیں – جنات کی اگ الگ تھی اور ابلیس کی اگ الگ

راقم کہتا ہے یہ جھل صریح ہے قرآن میں ہے
وَالْجَانَّ خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَارِ السَّمُومِ
اور جن کو نار سموم سے خلق کیا گیا

اور قرآن میں ہے
وخلق الجان من مارج من نار
اور جنات کو اگ کی لفٹوں سے پیدا گیا

اس طرح اگر ہم تقسیم کریں تو ہم قرآن سے ہی کئی قسم کے انسان پیدا کر دیں گے وہ جن کو مٹی سے پیدا کیا گیا وہ جن کو سنسناتی مٹی سے پیدا کیا گیا وہ جن کو گیلی مٹی سے پیدا کیا گیا وہ جن کو سڑی ہوئی مٹی سے پیدا کیا گیا اور ہے بار ان سب کو فرستوں سے سجدہ کرایا گیا – ظاہر ہے یہ قول غلط ہے تو اسی طرح جنات کی تقسیم بھی نہیں کی جا سکتی

یہ قول کہ ابلیس فرشتہ تھا یہ قول یہود کا ہے جو فالن انجیل
Fallen Angels
کا تصور رکھتے ہیں

اب جب ابلیس کافر ہو گیا تو اس کے بعد اس کا آنا جانا جنت میں کسیے ہو گیا – اور وہ حضرت آدم علیہ سلام اور اماں حوا علیہ سلام کو ورغلا گیا – ایک کافر کیسے جنت کے مزے لیتا رہا

جب اس کو کافر ڈکلئیر کر دیا گیا تو پھر یہ بات کہاں سے آ گئی

کیا کافر جنت کی سیر کرتا رہا

پلیز اس کی وضاحت کر دیں
جواب

اپ نے پہلے کہا تھا کہ کہ ابلیس فرشتہ تھا کافروں میں سے ہو گیا – اس موقف پر بھی یہی سوال آئے گا یعنی دونوں صورتوں میں یہ بات پیدا ہو گی کہ ابلیس اگر کافر ہو گیا تو جنت میں کیسے اتا رہا؟ جواب : اس کا قرآن میں کوئی ذکر نہیں کہ کیسے اتا رہا – ہم قرائن کی بنیاد پر کہیں گے کہ الله نے اس کو چھوٹ کا وعدہ دے دیا تھا کہ وہ آدم و بنی آدم کو بہکا سکتا ہے لہٰذا اس وعدہ الہی کی عملی شکل کے طور پر جنت تک اس کی رسائی پر قدغن نہیں لگائی گئی

و اللہ اعلم

سورۃ الصف

وَاِذْ قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَـمَ يَا بَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّـٰهِ اِلَيْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَىَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ يَّاْتِىْ مِنْ بَعْدِى اسْمُهٝٓ اَحْـمَدُ ۖ فَلَمَّا جَآءَهُـمْ بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ مُّبِيْنٌ
(6)
اور جب عیسٰی بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل! بے شک میں اللہ کا تمہاری طرف رسول ہوں (اور) تورات جو مجھ سے پہلے ہے اس کی تصدیق کرنے والا ہوں اور ایک رسول کی خوشخبری دینے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا اس کا نام احمد ہو گا، پس جب وہ واضح دلیلیں لے کر ان کے پاس آگیا تو کہنے لگے یہ تو صریح جادو ہے۔

اب اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ بنی اسرائیل صرف یہود اور نصاریٰ ہی ہیں تو یہ گروہ جو بنی اسرائیل سے ہی ہے جو ایمان لایا اور غالب رہا وہ کہاں گیا – الله نے ان کو تم جہانوں پر فضیلت دی

جواب

سورہ بقرہ میں مخاطب بنی اسرائیلی یہود ہیں نہ کہ نصرانی کیونکہ دور نبوی میں نصرانی کسی نسل کے لوگ نہیں تھے ان میں رومی شامل تھے افریقی بھی تھے چینی میں بھی تھے اور عربوں میں بھی نصرانی تھے لہذا فضیلت بنی اسرائیل سے مراد نصرانی نہیں یہود ہیں

الله نے بنی اسرائیل کو فضیلت دی تو وہیں ذکر ہے کہ ان کو فرعون سے نجات دی- یہ ہے ان کی فضیلت -ان کو من و سلوی دیا جبکہ دیگر امتوں کو یہ نہیں ملا – اس وقت بنی اسرائیل میں کافر مشرک گوسالہ پرست مومن سبھی تھے – مصر سے یہ سب نکلے تھے موسی نے فرعون سے کہا
کہ بنی اسرائیل کو جانے دے جبکہ موسی پر مصر میں چند لوگ ایمان لائے تھے

سوره يونس مين ہے
فَمَا آمَنَ لِمُوسَىٰ إِلَّا ذُرِّيَّةٌ مِّن قَوْمِهِ عَلَىٰ خَوْفٍ مِّن فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِمْ أَن يَفْتِنَهُمْ ۚ
پس موسیٰ ( علیہ السلام ) پر ان کی قوم میں سے صرف قدرے قلیل آدمی ایمان لائے وہ بھی فرعون سے اور اپنے حکام سے ڈرتے ڈرتے کہ کہیں ان کو تکلیف پہنچائے

سورہ طہ میں ہے الله نے موسی و ہارون کو حکم کیا
فَاْتِيَاهُ فَقُوْلَآ اِنَّا رَسُوْلَا رَبِّكَ فَاَرْسِلْ مَعَنَا بَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ وَلَا تُعَذِّبْـهُـمْ
اس کے پاس جاو اور کہو ہم دونوں تمہارے رب کے رسول ہیں ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو جانے دو ، اور انہیں عذاب و تکلیف سے دوچار نہ کرو

یہان بنی اسرائیل میں تمام قوم مراد ہے صرف ایمان والے چند لوگ مراد نہیں ہیں

تو ان لوگوں پر الله نے احسان کیا ان کو عذاب سے نجات دی من و سلوی دیا جبکہ یہ ملے جلے لوگ مومن و مشرک سب تھے
پھرباوجود ان میں تمام مسلم نہ تھے الله نے ارض مقدس ان کے لئے لکھ دی وہاں ان پر سرکشی کی وجہ سے عذاب بھی آیا ان کو غلام بنایا گیا اور ان سب کو یہود کا نام ملا کیونکہ جو قبیلہ باقی رہا اس کا نام ان کو ملا باقی گیارہ قبائل منتشر ہو گئے – اس وجہ سے آج یہود بھی اپنے اپ کو اسی قبیلہ سے روشناس کراتے ہیں
———

اسی حال میں ان میں عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت ہوئی اور یہود دو گروہوں میں بٹ گئے ایک عیسیٰ کو حق پر ماننے والا دوسرا ان کو فراڈ قرار دینے والا – اس میں جو عیسیٰ کو حق مانتا تھا وہ باقی رہا ان کے مخالف ان کو قتل نہ کر سکے اور عیسیٰ بھی بچ گئے اس کا ذکر سورہ صف میں ہے کہ حواریوں کو ظالم یہودی قتل نہ کر سکے بلکہ یہود پر رومیوں کا عذاب آیا ان کا قتل ہوا اور رومیوں نے نصرانی مذھب قبول کر لیا

قرآن میں ہے کہ عیسیٰ کی وجہ سے بنی اسرائیل کا اک گروہ ایمان لایا اور ایک نے کفر کیا – یہ صرف بنی اسرائیل میں تفریق کا ذکر ہے پھر وہ جو مومن بنی اسرائیل کا گروہ تھا اس کو تمام عالم پر فضیلت نہیں دی اس کو اس کافر دشمن یہودی و بنی اسرائیلی گروہ پر مدد دی گئی
فَاَيَّدْنَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا عَلٰى عَدُوِّهِـمْ فَاَصْبَحُوْا ظَاهِرِيْنَ
——

آج یہود سے مراد وہ لوگ ہیں جو عیسیٰ اور محمد علیہما السلام کی نبوت کے انکاری ہیں اور قرآن میں بھی ان کو یہود ہی کہا گیا ہے
وہ گروہ بنی اسرائیل جو عیسیٰ کا ماننے والا تھا وہ وقت کے ساتھ معدوم ہو گیا اور ان میں الوہیت عیسیٰ کا عقیدہ پیدا ہوا اس کا ذکر بھی قرآن سورہ مریم میں ہے
فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا

جواب

عام آدمی یا آدم علیہ السلام کے لئے جب روح کا لفظ اتا ہے تو اس سے مراد انسانی روح ہے
اس آیت میں اس کا ذکر ہے
سورۃ ص
فَاِذَا سَوَّيْتُهٝ وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِىْ فَقَعُوْا لَـهٝ سَاجِدِيْنَ
(72)
پھرجب میں اسے پورے طور پر بنا لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو اس کے لیے سجدہ میں گر پڑنا۔
——–

روح سے مراد الله کا امر یا حکم ہے
سورۃ الاسراء
وَيَسْاَلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ ۖ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّىْ وَمَآ اُوْتِيْتُـمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا
(85)
اور یہ لوگ تجھ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں، کہہ دو روح میرے رب کے حکم میں سے ہے اور تمہیں جو علم دیا گیا ہے وہ بہت ہی تھوڑا ہے۔
میرے نزدیک زیادہ صحیح یہ ہے کہ یہ آیت الروح یا امر یا الوحی سے متعلق ہے نہ کہ انسانی روح سے متعلق

سورۃ النحل
يُنَزِّلُ الْمَلَآئِكَـةَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰى مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٓ ٖ اَنْ اَنْذِرُوٓا اَنَّهٝ لَآ اِلٰـهَ اِلَّآ اَنَا فَاتَّقُوْنِ
(2)
وہ اپنے بندوں سے جس کے پاس چاہتا ہے فرشتوں کو روح (یا امر) دے کر بھیج دیتا ہے یہ کہ خبردار کردو کہ میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں پس مجھ سے ڈرتے رہو۔

سورۃ غافر
رَفِـيْعُ الـدَّرَجَاتِ ذُو الْعَرْشِۖ يُلْقِى الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰى مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ لِيُنْذِرَ يَوْمَ التَّلَاقِ
(15)
وہ اونچے درجوں والا عرش کا مالک ہے، اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے روح اپنے حکم سے ڈالتا ہے تاکہ وہ ملاقات (قیامت) کے دن سے ڈرائے۔

سورة الشورى
وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا ۚ مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَـٰكِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِي بِهِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا ۚ وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
﴿٥٢﴾

ہم نے اپنے حکم سے ایک روح تمہاری طرف وحی کی ہے – تمہیں کچھ پتہ نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے، مگر اُس روح (الله کی الوحی ) کو ہم نے ایک روشنی بنا دیا جس سے ہم راہ دکھاتے ہیں اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں یقیناً تم سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر رہے ہو

سورۃ النحل
يُنَزِّلُ الْمَلَآئِكَـةَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰى مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٓ ٖ اَنْ اَنْذِرُوٓا اَنَّهٝ لَآ اِلٰـهَ اِلَّآ اَنَا فَاتَّقُوْنِ
(2)
وہ اپنے بندوں سے جس کے پاس چاہتا ہے فرشتوں کو روح (وحی) دے کر بھیج دیتا ہے یہ کہ خبردار کردو کہ میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں پس مجھ سے ڈرتے رہو۔

ان سب میں روح کو امر یا حکم یا الوحی کے مترادف بیان کیا گیا ہے

اپ نے جو ترجمے دیے ہیں ان میں نے تصحیح کی ہے کیونکہ لوگوں نے روح کے لفظ کو ترجمہ سے نکال دیا تھا

——

قرآن میں ایک اور مفہوم میں بھی روح کا لفظ ہے – یہ الروح اس سے الگ ہے جس کا ذکر الوحی کے حوالے سے قرآن میں ہے – تمام عالم فرشتوں سے بھرا ہے – ہمارے ساتھ کراما کاتبین ہیں اور جتنے انسان ہیں اتنے ہی فرشتے یا اس زائد اس عالم ارضی میں ہوئے
یہ سب الله کے حکم پر عمل کر رہے ہیں اور آسمان پر چڑھتے اترتے ہیں لیکن ان میں سب سے زیادہ جس فرشتے کو اہمیت ہے وہ جبریل ہیں جو الوحی پر مقرر تھے یا کوئی ایسا خاص حکم ہو غیر نبی کو کیا جائے- اس لئے ان کو خاص کر نے کے لئے روح القدس کہا جاتا ہے –

یہودی روح القدس سے مراد بھی الوحی کا آنا لیتے ہیں اور اس کو ناموس بھی کہا جاتا ہے
ناموس
Nomos
یونانی لفظ ہے جو نیک روح کا ترجمہ ہے –
اور عربی لغت مختار الصحاح کے مطابق عرب اہل کتاب اس کو روح القدس کے لئے بولتے ہیں اس سے مراد جبریل ہیں
یہ لفظ ورقه بن نوفل نے رسول الله سے بولا تھا کہ تم پر ناموس آیا ہے
اور ٨٩ بار یہ ناموس کا لفظ عہد نامہ جدید میں پاول کے خطوط میں آیا ہے

زبور کتاب ٥١ آیت ١١ میں روح القدس کا لفظ ہے
Psa. 51:11 Cast me not away from your presence, and take not your Holy Spirit from me.

اب قرآن کو دیکھتے ہیں اس میں بھی یہی مفہوم ہے کہ روح القدس فرشتہ ہے جو الوحی لاتا ہے اور قرآن کہتا ہے یہ جبریل ہیں

قرآن مين سورہ بقرہ میں اس کی وضاحت کی گئی
قل من كان عدوا لجبريل فإنه نزله على قلبك بإذن الله
کہ یہ جبریل ہیں جو قلب محمد پر اس کو نازل کر رہے ہیں

یعنی جبریل جب الوحی یا حکم لے کر جائیں تو اس وقت وہ روح القدس کہلاتے ہیں

سورۃ النحل

قُلْ نَزَّلَـهٝ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ لِيُـثَبِّتَ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَهُدًى وَبُشْـرٰى لِلْمُسْلِمِيْنَ
(102)
اِن سے کہو کہ اِسے تو روح القدس نے ٹھیک ٹھیک میرے رب کی طرف سے بتدریج نازل کیا ہے تاکہ ایمان لانے والوں کے ایمان کو پختہ کرے اور فرماں برداروں کو زندگی کے معاملات میں سیدھی راہ بتائے اور اُنہیں فلاح و سعادت کی خوش خبری دے

یہی روح جبریل ہیں جو عیسیٰ پر بھی نازل ہوئے
سورۃ البقرۃ

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهٖ بِالرُّسُلِ ۖ وَاٰتَيْنَا عِيْسَى ابْنَ مَرْيَـمَ الْبَيِّنَاتِ وَاَيَّدْنَاهُ بِـرُوْحِ الْقُدُسِ ؕ اَفَكُلَّمَا جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ بِمَا لَا تَهْوٰٓى اَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَـرْتُـمْ فَفَرِيْقًا كَذَّبْتُـمْ وَفَرِيْقًا تَقْتُلُوْنَ
(87)
اور بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اس کے بعد بھی پے در پے رسول بھیجتے رہے، اور ہم نے عیسیٰ مریم کے بیٹے کو نشانیاں دیں اور روح القدس سے اس کی تائید کی، کیا جب تمہارے پاس کوئی رسول وہ حکم لایا جسے تمہارے دل نہیں چاہتے تھے تو تم اکڑ بیٹھے، پھر ایک جماعت کو تم نے جھٹلایا اور ایک جماعت کو قتل کیا۔

ان کو الروح الامین بھی کہا جاتا ہے
سورۃ الشعراء

نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ
(193)
اسے لے کر تیرے دل پر امانت دار روح اتری ہے

لیلہ القدر میں بھی جبریل کا حکم کے ساتھ نزول ہوتا ہے
سورۃ القدر
تَنَزَّلُ الْمَلَآئِكَـةُ وَالرُّوْحُ فِيْـهَا بِاِذْنِ رَبِّـهِـمْ مِّنْ كُلِّ اَمْرٍ
(4)
اس میں فرشتے اور روح نازل ہوتے ہیں اپنے رب کے حکم سے ہر کام پر۔

——
غیر نبی مریم علیہ السلام پر بھی فرشتہ آیا

سورۃ مریم
فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِـهِـمْ حِجَابًاۖ فَاَرْسَلْنَـآ اِلَيْـهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَـهَا بَشَـرًا سَوِيًّا
(17)
اور لوگوں کی طرف پردہ ڈال دیا تو ہم نے اپنی روح کو بھیجا جو ان کے سامنے ایک آدمی بن کر پیش ہوا

یہ فرشتہ بشر کی صورت حاضر ہوا

سورۃ مریم
فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِـهِـمْ حِجَابًاۖ فَاَرْسَلْنَـآ اِلَيْـهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَـهَا بَشَـرًا سَوِيًّا
(17)
اور لوگوں کی طرف پردہ ڈال دیا تو ہم نے اپنی روح کو بھیجا جو ان کے سامنے ایک آدمی بن کر پیش ہوا

یہاں روح الله کا کلام نہیں ہے ورنہ یہ نصرانی عقیدہ ہو جائے گا کہ الله کا کلام عیسیٰ کی صورت بن گیا لہذا روح سے مراد فرشتہ ہے نہ کہ امر – اسی روح کے مسئلہ کو نہ سمجھ پانے کی وجہ سے نصرانی عقیدہ ہے کہ الله کا کلام (لوگوس) غیر مخلوق ہے وہ امر تھا جو روح القدس تھا مجسم ہوا اور روح بن کر مریم کے بطن میں اتر گیا اس بنا پر ان کا کفریہ عقیدہ ہے کہ نعوذ باللہ – الله – باپ بیٹا اور روح القدس ہیں

لب لباب ہوا کہ روح کا لفظ تین مفاہیم میں اتا ہے
اول روح بطور انسانی روح
دوم بطور الله کا امر جو انبیاء پر آیا
سوم روح بطور روح القدس جو جبریل علیہ السلام ہیں

روح پھونکنا الله کا کام ہے جیسے اس نے حضرت آدم علیہ سلام میں پھونکی – بد قسمتی سے ہمارے ہاں روح کو ایک ہی چیز بنا کر پیش کیا گیا -اور ترجمہ میں ڈنڈیاں ماری گئی

سورۃ التحریم
وَمَرْيَـمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِىٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيْهِ مِنْ رُّوْحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَاتِ رَبِّهَا وَكُـتُبِهٖ وَكَانَتْ مِنَ الْقَانِتِيْنَ
(12)
اور مریم عمران کی بیٹی (کی مثال بیان کرتا ہے) جس نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا پھر ہم نے اس میں اپنی طرف سے روح پھونکی اور اس نے اپنے رب کی باتوں کو اور اس کی کتابوں کو سچ جانا اور وہ عبادت کرنے والو ں میں سے تھی۔

اس آیت میں الله خود کہہ رہا ہے کہ ہم نے اپنی طرف سے اس میں روح پھونکی

جواب

جو آیات دیں ان کو ملا کر دیکھیں فرشتہ مریم علیہ السلام کے پاس آیا ان کے سامنے ایک بشر کی صورت ظاہر ہوا مریم نے اللہ کی پناہ مانگی – فرشتے نے خبر دی کہ وہ الله کا فرشتہ ہے ان کو بیٹا دینے آیا ہے اور اس نے الله کے حکم سے روح عیسیٰ ان کے بطن میں پھونک دی
فَنَفَخْنَا فِيْهِ مِنْ رُّوْحِنَا
ہم نے اس میں اپنی روحوں میں سے ایک روح پھونک دی

ممکن ہے کہ یہ ایسا ہی ہو جیسا کہ ہر ماں کے پیٹ میں فرشتہ آ کر روح پھونکتا ہے
لیکن مریم کے بطن میں جو مادہ خلق ہوا اور عیسیٰ کا جسم بنا جس میں روح ڈالی گئی وہ خالصتا الله کا کام تھا

اس کی وجہ ہے کہ قرآن میں ہے
قَالَ اِنَّمَآ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّكِۖ لِاَهَبَ لَكِ غُلَامًا زَكِيًّا
فرشتے نے کہا میں آیا ہوں کہ تجھ کو ایک پاک لڑکا دوں

فرشتہ نے لڑکا دیا – یہاں خبریہ نہیں ہے کہ الله بیٹا دے رہا ہے بلکہ فرشتہ نے اس کو اپنی طرف مضاف کیا ہے اور کہا ہے میں بیٹا دے رہا ہوں اور الله تعالی نے اس کو بیان کیا
اس میں کوئی اشکال نہیں ہے الله تعالی کیا فرشتوں سے کام نہیں لیتا؟ یقینا لیتا ہے اور پھر اس کی نسبت اپنی طرف کرتا ہے کیونکہ فرشتہ الله کے حکم کے علاوہ کچھ اور نہیں کرتا
اختلاف قرات میں اس آیت کو الگ الگ پڑھا جاتا ہے – قرآن کی دس متواتر قرات کو دیکھا جائے تو یہ معاملہ حل ہو جاتا ہے

قرأ أبو عمرو ونافع في رواية ورش وقالون عنه (ليهب لك) بالياء (ربك غلاما) الباقون (لاهب) بالهمزة
http://www.hodaalquran.com/rbook.php?id=10432&mn=1
—–
اہل مدینہ کی قرات : نافع بن عبد الرحمن بن أبي نعيم المدني المتوفی ١٦٩ ھ ان کی قرات کی سند ابی بن کعب اور ابو ہریرہ رضی الله عنہما تک جاتی ہے ان کی قرات کی سند قالون سے ہے اور ورش سے ہے
اہل بصرہ کی قرات : أبو عمرو بن العلاء البصري المتوفی ١٦٨ ھ کی قرات کی سند سعید بن جبیر اور مجاہد تک جاتی ہے
ان سب کی قرات میں ہے
ليهب لك غلام زكيأ
کہ وہ (الله) تجھ کو ایک لڑکا دے
————-

باقی جن میں عاصم بن بھدلہ کی قرات ہے اس میں ہے
لِأَهَبَ لَكِ غُلَامًا زَكِيًّا
کہ میں تجھ کو لڑکا دوں

یعنی جبریل نے الله کے حکم سے روح پھونکی – اس کو تشریحی اختلاف کہا جا سکتا ہے

سورۃ یونس

وَمَا كَانَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ اَنْ يُّفْتَـرٰى مِنْ دُوْنِ اللّـٰهِ وَلٰكِنْ تَصْدِيْقَ الَّـذِىْ بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيْلَ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيْهِ مِنْ رَّبِّ الْعَالَمِيْنَ
(37)

https://www.youtube.com/watch?v=UXCEFgqJsVY&feature=em-subs_digest
جواب

اور یہ قرآن الله کے سوا اور کون گھڑ سکتا ہے – بلکہ یہ تو تصدیق ہے جو تمہارے سامنے ہے اور الکتاب کی تفصیل ہے جس میں شک نہیں ہے کہ رب العالمین کی طرف سے ہے

الکتاب وہی عالم بالا میں لوح محفوظ کی طرف اشارہ ہے کہ یہ قرآن جو زمین پر آ رہا ہے وہ الکتاب کی تفصیل ہے

ان کو یہاں اشتباہ ہوا ہے یہاں پڑھائی یا لکھائی کا کوئی ذکر نہیں ہے – قرآن کا مطلب پڑھنے والی چیز ہے اس کو کتاب بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ جب مکمل ہو گی تو کتاب کی شکل میں ہو گی مثلا سورہ بقرہ میں ہے
یہ کتاب ہے جس میں شک نہیں
جبکہ اس وقت تک قرآن کتاب کی شکل میں نہیں تھا اور مکمل بھی نہیں ہوا تھا صرف مکی سورتیں تھیں

سابقہ کتاب سماوی کو بھی اللہ نے قرآن ہی کہا ہے مثلا توریت کو قرآن کہا ہے

وَقُلْ اِنِّـىٓ اَنَا النَّذِيْـرُ الْمُبِيْنُ (89)
اور کہہ دو بے شک میں کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں۔
كَمَآ اَنْزَلْنَا عَلَى الْمُقْتَسِمِيْنَ (90)
جیسا ہم نے (عذاب) ان بانٹنے والوں پر بھیجا ہے۔
اَلَّـذِيْنَ جَعَلُوا الْقُرْاٰنَ عِضِيْنَ (91)
جنہوں نے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کیا ہے۔
سورہ الحجر
اسی طرح حدیث میں زبور کو قرآن کہا گیا ہے کہ داود علیہ السلام پر قرآن کی قرات آسان تھی

سورۃ یونس

وَمَا كَانَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ اَنْ يُّفْتَـرٰى مِنْ دُوْنِ اللّـٰهِ وَلٰكِنْ تَصْدِيْقَ الَّـذِىْ بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيْلَ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيْهِ مِنْ رَّبِّ الْعَالَمِيْنَ

یہاں بَيْنَ يَدَيْهِ سے مراد کتاب سماوی کب ہوا – اگر ایسی بات ہے تو کتب کے نام کیوں لئے گیۓ

جواب

بَيْنَ يَدَيْهِ عربی میں محاورہ ہے یعنی جو چیز سامنے ہو یا لفظی ترجمہ کریں تو ہو گا جو ہاتھوں کے درمیان ہے
ظاہر ہے جو چیز اپ کے ہاتھ میں ہو وہ اپ کی نظر کے سامنے ہو گی

لغت میں اس کا ترجمہ
ہاتھوں میں یا سامنے کیا گیا ہے
https://www.almaany.com/en/dict/ar-en/بَيْنَ-يَدَيْهِ/
اس کا ترجمہ
before
بھی کیا گیا ہے یعنی
put before
کے مفہوم میں کہ سامنے رکھنا

یہ الفاظ بہت بار قرآن میں آئے ہیں

قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ
سورہ بقرہ
٩٧
—–

نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَأَنْزَلَ التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ
سورہ ال عمران
٣
—–

مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ وَآتَيْنَاهُ الْإِنْجِيلَ فِيهِ هُدًى وَنُورٌ وَمُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةً لِلْمُتَّقِينَ
سورہ مائدہ
٤٦
—–

وَهَذَا كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ مُصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ
سورہ الانعام

الغرض وہ کتاب سماوی جو پہلے سے اہل کتاب کے پاس ہیں ان کو بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ کہا گیا یعنی یہود کے ہاتھوں میں جو توریت ہے یعنی یہ انسانوں کی بات ہو رہی ہے
==============
اپ نے جو لنک بھیجا ہے

اس میں اس محمد شیخ نے ترجمہ ١:١٢ منٹ کیا ہے
یہ پڑھائی الله کے علاوہ کوئی نہیں جو اس کو گھڑ لے لیکن تصدیق کرتی ہے جو اس کے دونوں ہاتھوں کے درمیان ہے

کس کے ہاتھوں کے درمیان ہے ؟ رسول الله یا اہل کتاب ؟ کا کے ہاتھوں کی بات ہو رہی ہے

مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ وَآتَيْنَاهُ الْإِنْجِيلَ فِيهِ هُدًى وَنُورٌ وَمُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةً لِلْمُتَّقِينَ
سورہ مائدہ ٤٦ میں وضاحت آ گئی کہ اہل کتاب کے ہاتھوں میں جو ہے ان کی کتب سماوی التَّوْرَاةِ کی بات ہو رہی ہے

وَقَفَّيْنَا عَلٰٓى اٰثَارِهِـمْ بِعِيْسَى ابْنِ مَرْيَـمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ ۖ وَاٰتَيْنَاهُ الْاِنْجِيْلَ فِيْهِ هُدًى وَّنُـوْرٌۙ وَّمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ وَهُدًى وَّمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِيْنَ (46)
اور ہم نے ان کے پیچھے انہیں کے قدموں پر مریم کے بیٹے عیسیٰ کو بھیجا جو اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا تھا، اور ہم نے اسے انجیل دی جس میں ہدایت اور روشنی تھی، ان کے پاس جو تورات ہے اس کی تصدیق کرنے والی تھی اور وہ راہ بتانے والی تھی اور ڈرنے والوں کے لیے نصیحت تھی۔

سورہ مائدہ ٤٦ میں وضاحت آ گئی کہ اہل کتاب کے ہاتھوں میں جو ہے ان کی کتب سماوی التَّوْرَاةِ کی بات ہو رہی ہے
بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ
یہاں نام موجود ہے کہ عیسیٰ نے تصدیق کی توریت کی جو ان کے ہاتھوں میں ہے یا سامنے ہے
یہی کام رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا توریت کی تصدیق کی کہ اللہ کی کتاب ہے

جواب
ایک قول ہے کہ ان پر نیند طاری کی گئی اور اٹھا لیا گیا دوسرا ہے کہ ان کو قبضہ میں لے کر اٹھایا گیا موت نہیں ہوئی تیسرا ہے کہ تین ساعتوں کے موت طاری کی گئی اس میں اٹھایا گیا
ان سب کے مطابق عیسیٰ کی اصل موت واقع نہیں ہوئی
—–
ایک منقطع السند قول ابن عباس سے مروی ہے کہ موت واقع ہوئی
لیکن علی بن ابی طلحہ کا سماع ابن عباس سے نہیں ہے

لہذا صحیح توفی کا ظاہری مطلب ہی ہے کہ زندہ قبضہ میں لیا بلند کیا گیا

سورۃ البقرۃ
وَاِذْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتَابَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ
اور ہم نے موسی کو کتاب فرق کرنے والی دی کہ تم ہدایت لو

سورۃ آل عمران

مِنْ قَبْلُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَاَنْزَلَ الْفُرْقَانَ ۗ اِنَّ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيَاتِ اللّـٰهِ لَـهُـمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌ ۗ وَاللّـٰهُ عَزِيْزٌ ذُو انْتِقَامٍ

جواب

سورۃ البقرۃ
وَاِذْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتَابَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ
اور ہم نے موسی کو کتاب فرق کرنے والی دی کہ تم ہدایت لو

یہاں واو عطف ہے جو تفسیر کر رہا ہے – یہ عربی کا انداز ہے اس واو کو اور کے مفہوم میں نہیں لیا جاتا بلکہ تشریحی لیا جاتا ہے خیال رہے کہ اس دور میں فل اسٹاپ یا کاما نہیں تھے

سورۃ آل عمران
نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَأَنزَلَ التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ
مِنْ قَبْلُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَاَنْزَلَ الْفُرْقَانَ ۗ اِنَّ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيَاتِ اللّـٰهِ لَـهُـمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌ ۗ وَاللّـٰهُ عَزِيْزٌ ذُو انْتِقَامٍ
اس نے تم پر کتاب نازل کی حق کے ساتھ تصدیق کرنے والی جو ان کے ہاتھوں میں ہے اور نازل کیا توریت و انجیل کو * اس سے قبل اس نے انسانوں کی ہدایت کے لئے اور نازل کیا فرق کرنے والی کو- جو اللہ کی آیات کا کفر کرتے ہیں ان کے لئے شدید عذاب ہے اور الله زبردست انتقام لینے والا ہے

نوٹ یہاں آیت کو بیچ میں سے توڑا گیا ہے لیکن اس کا متن پچھلی آیت سے جڑا ہے
فرق کرنے والی کتاب توریت و قرآن ہے یہ اس کی خاص بات ہے اس لئےقرآن میں وضاحت کے طور پر ذکر کیا ہے

سورۃ الانبیاء
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰى وَهَارُوْنَ الْفُرْقَانَ وَضِيَـآءً وَّذِكْرًا لِّلْمُتَّقِيْنَ
اور بے شک ہم نے موسی و ہارون کو فرق کرنے والی اور روشنی اور نصحت متقییوں کے لئے دی

سورۃ الفرقان
تَبَارَكَ الَّـذِىْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِيَكُـوْنَ لِلْعَالَمِيْنَ نَذِيْـرًا
با برکت ہے وہ جس نے فرق کرنے والی کو نازل کیا اپنے بندے پر کہ تمام عالمین کے لئے ڈرانے والی ہو

سورۃ آل عمران

وَاِنَّ مِنْـهُـمْ لَفَرِيْقًا يَّلْوُوْنَ اَلْسِنَتَـهُـمْ بِالْكِتَابِ لِتَحْسَبُوْهُ مِنَ الْكِتَابِ وَمَا هُوَ مِنَ الْكِتَابِۚ وَيَقُوْلُوْنَ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّـٰهِ وَمَا هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّهِۚ وَيَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّـٰهِ الْكَذِبَ وَهُـمْ يَعْلَمُوْنَ
اور ان میں ایک گروہ ہے جو کتاب میں زبان کی کروٹ کرتا ہے کہ گمان کریں کہ وہ کتاب میں سے ہے جبکہ وہ اس میں سے نہیں ہے اور کہتے ہیں یہ الله کی طرف سے ہے اور جنکہ وہ اللہ کی طرف سے نہیں ہوتا اور یہ الله پر جھوٹ بولتے ہیں اور یہ جانتے ہیں

فرقان یا روشنی یا نصحت ایک ہی چیز پر واو عطف لگا کر شرح کی گئی ہے یعنی کتاب الله توریت

اس واو کا ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیں- کر دیں تو بھی مطلب اس کا شرح ہے -مثلا
(قد جاءكم من الله نور وكتاب مبين ) المائدة (١٥ )
الله کی طرف سے تمھارے پاس نور اور کتاب مبین آ چکے

بریلوی کہتے ہیں یہ واو الگ کرتا ہے کتاب الله الگ ہے نور الگ ہے اور وہ رسول الله ہیں ہم اس طرح کی تمام واو کو تفسیر کہتے ہیں
یہی اصول یہاں بھی ہے کہ اس واو میں تشریح کی گئی ہے

عرب نحوی أبو جعفر النَّحَّاس المتوفى: 338هـ کی کتاب إعراب القرآن کی کتاب میں ہے
وَالْفُرْقانَ عطف على الكتاب. قال الفراء: وقطرب «1» : يكون وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ أي التّوراة، ومحمدا صلّى الله عليه وسلّم الفرقان. قال أبو جعفر: هذا خطأ في الإعراب والمعنى، أما الإعراب فإن المعطوف على الشيء مثله وعلى هذا القول يكون المعطوف على الشيء خلافه، وأما المعنى فقد قال فيه جلّ وعزّ: وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسى وَهارُونَ الْفُرْقانَ

اور فرقان واو عطف ہے – الفراء کا کہنا ہے ممکن ہے کہ موسی کو کتاب توریت دی اور محمد صلی الله علیہ وسلم کو فرقان – أبو جعفر النَّحَّاس نے کہا یہ قول معنی اور اعراب میں غلط ہے – تو اعراب میں ہے کہ جس چیز کی طرف معطوف کیا جائے وہ اسی کی جیسی ہو اور اس الفراء کے  قول میں ہو جاتا ہے کہ معطوف   الگ ہے (یعنی توریت و فرقان کو الگ کرنا) اور معنی میں غلطی یہ  ہے کہ الله تعالی نے کہا بے شک ہم نے موسی و ہارون کو فرقان دیا

یعنی ابو جعفرالنَّحَّاس کے مطابق جو ترجمہ میں کر رہا ہوں وہ صحیح ہے
کتاب اور فرقان ایک ہی ہے

اور محمد شیخ نے بھی ان کو مخنث ثابت کرنے کی کوشش کی ہے

http://www.muhammadshaikh.com/urdu_pdf/maryam_pbuh.pdf

جواب

https://www.youtube.com/watch?v=LEWXF31BQW8
محمد شیخ نے ٧:٠٠ منٹ پر کہا مریم دونوں جنس کیری کر رہی تھیں
======

راقم کہتا ہے یہ سب بیووقوفی کی باتیں ہیں –
جب الله تعالی نے کہہ دیا کہ سب کن کے کہنے سے ہوا تو اس کی سائنسی توجیہ کرنے کی ہم کو ضرورت نہیں کہ ہم کہیں کہ وہ مخنث تھیں اور پھر اپنے ہی نطفے سے وہ حاملہ ہو گئیں – مریم علیہ السلام کا ذکر قرآن میں ماں کے طور پر ہے – مخنث کو کوئی ماں نہیں کہتا اس کو تمام عالم میں مرد کے صیغے سے پکارا جاتا ہے مریم علیہ السلام کے لئے واضح آیا ہے کہ وہ مونث تھیں

وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ آيَةً وَآوَيْنَاهُمَا إِلَىٰ رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينٍ سورہ مومنوں

اگر مریم ایک انوکھی مخنث تھیں اور ان کی جیسی اور بھی ہوں گی ان کے بچے بھی ہوئے ہوں گے اور یہود کے علم میں بھی ہو گا کہ یہ تو مکمل عورت نہیں اس کے ساتھ ایسا ہوا ہے
تو یہ تمام نہ تو الله کا کمال رہنا ہے نہ معجزہ بنتا ہے
جبکہ الله تعالی مسلسل بیان کر رہا ہے کہ یہ معجزہ تھا

اہل کتاب کے بعض باطنی فرقوں کے نزدیک مریم اور یحیی علیہ السلام نعوذ باللہ مخنث تھے مثلا کہا جاتا ہے کہ مشہور مونا لیزا کی تصویر اصل میں مریم علیہ السلام کی تصویر ہے جو ایک مخنث کی تصویر ہے اسی طرح اسی جاہل لیونارڈو نے یحیی علیہ السلام کی بھی اسی قسم کی ایک تصویر بنائی تھی – یہ قول نصرانیوں سے مسلمانوں میں آیا ہے کہ مریم ایک مخنث تھیں کیونکہ ان کے تمام فرقے اس کے قائل نہیں کہ مریم ایک پاک باز عورت تھیں

سورۃ الاحقاف

وَمِنْ قَبْلِـهٖ كِتَابُ مُوْسٰٓى اِمَامًا وَّرَحْـمَـةً ۚ وَهٰذَا كِتَابٌ مُّصَدِّقٌ لِّسَانًا عَرَبِيًّا لِّيُنْذِرَ الَّـذِيْنَ ظَلَمُوْاۖ وَبُشْرٰى لِلْمُحْسِنِيْنَ

کیا اس کا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے

اس سے قبل موسی کی کتاب رہبر و رحمت تھی- اور یہ کتاب عربی زبان کی تصدیق کرتی ہے – تا کہ وہ خبر دار کرے ان لوگوں کو جو ظلم کرتے ہیں اور احسان کرنے والوں کے لئے بشارت ہے

جواب

اس سے قبل موسی کی کتاب (توریت) رہبر و رحمت تھی اور یہ کتاب (قرآن) اس (توریت) کی تصدیق کرتی ہے عربی میں زبان میں کہ ظلم کرنے والوں کو ڈرائے اور احسان کرنے والوں کے لئے بشارت ہے

اپ نے جو ترجمہ کیا وہ غلط ہے

عربی زبان کی تصدیق کی کیا ضرورت ہے ؟ کس قسم کی تصدیق زبان کی درکار ہے ؟
یہ معنی غلط سلط ہے

سورۃ البقرۃ

مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّلّـٰهِ وَمَلَآئِكَـتِهٖ وَرُسُلِهٖ وَجِبْرِيْلَ وَمِيْكَالَ فَاِنَّ اللّـٰهَ عَدُوٌّ لِّلْكَافِـرِيْنَ
(98)
جو شخص اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبرائیل اور میکائیل کا دشمن ہو، تو بیشک اللہ بھی ان کافروں کا دشمن ہے۔

یہاں فرشتوں کو الگ بیان کیا گیا اور جبرائیل اور میکائیل کو الگ – کیا یہ دونوں فرشتے نہیں – پلیز وضاحت کر دیں

جواب

یہ آیت سورہ بقرہ کی ہے اس میں یہود کا رد ہو رہا ہے کہ ان کو جبریل ومِيْكَالَ کا دشمن کہا گیا

اسلام میں قرآن و حدیث میں جبریل و مِيْكَالَ کو فرشتے ہی کہا گیا ہے لیکن فرشتوں میں جن کا یہود سب سے زیادہ ذکر کرتے ہیں وہ جبریل میکائل اور ابلیس (یہود کے مطابق یہ فرشتہ ہے) ہیں – اس بنا پر اس آیت میں الگ سے ان کا خاص ذکر کیا ہے – تفسیروں میں ہے کہ یہود کا کہنا تھا کہ بابل کا بادشاہ بخت نصر جب بچہ تھا تو ہم نے اس کو قتل کرنے کسی کو بھیجا لیکن جبریل نے روک دیا – بعد میں اس بادشاہ نے یروشلم برباد کیا – اس وجہ سے یہودی کہتے جبریل یہود کا دشمن فرشتہ ہے – میری معلومات جو یہودی لٹریچر پر ہیں ان میں ہے کہ فرشتوں کو اور ابلیس کو متضاد ڈیوٹی الله تعالی نے دی ہوئی ہے – ابلیس بھی یہود کے مطابق آسمان میں ایک فرشتہ ہے جو یہود کے دشمنوں کو اکساتا ہے لیکن بنو اسرائیل کا خاص فرشتہ مِيْكَالَ ہے جو جبریل سے بھی زیادہ طاقت ور ہے وہ ان کی مدد کرتا ہے

اس آیت میں الله نے عمومی ذکر کیا ہے کہ فرشتوں سے دشمنی اصل میں الله سے دشمنی ہے

قرآن میں جنت کا ذکر ہے
فِيهِما فاكِهَةٌ وَنَخْلٌ وَرُمَّان
اس میں ہوں گے پھل اور کھجور اور انار

اب ہم یہ نہیں کہیں گے کہ کھجور اور انار پھل نہیں تھے

و الله اعلم

سورۃ ھود

وَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا نَجَّيْنَا هُوْدًا وَّالَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا مَعَهٝ بِرَحْـمَةٍ مِّنَّاۚ وَنَجَّيْنَاهُـمْ مِّنْ عَذَابٍ غَلِيْظٍ
(58)
سورۃ البقرۃ
اَمْ تَقُوْلُوْنَ اِنَّ اِبْـرَاهِيْمَ وَاِسْـمَاعِيْلَ وَاِسْحَاقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطَ كَانُـوْا هُوْدًا اَوْ نَصَارٰى ۗ قُلْ ءَاَنْتُـمْ اَعْلَمُ اَمِ اللّـٰهُ ۗ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهَادَةً عِنْدَهٝ مِنَ اللّـٰهِ ۗ وَمَا اللّـٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ
(140)
ان آیات میں کا لفظ ہے لیکن ترجمہ کرتے وقت ایک مقام پر ہود کیا جاتا ہے اور ایک مقام پر یہود
ا
ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے
یا تم کہتے ہو کہ ابراھیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور قبیلے جو هود یا نصرانی کے تھے، کہہ دو کیا تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ؟ اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو گواہی چھپائے جو اس کے پاس اللہ کی طرف سے ہے، اور اللہ بے خبر نہیں اس سے جو تم کرتے ہو۔

کیا ہم قرآن کی عربی کو عبرانی زبان پر پرکھیں گے – قرآن میں ہی ہے کہ الله کے کلمات کو کوئی نہیں بدل نہیں سکتا
سورۃ الانعام
وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا ۚ لَّا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهٖ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْـمُ
اللہ کے کلمات تبدیل نہیں ہوتے۔

جواب

ہود علیہ السلام عرب عاربہ میں بھیجے گئے یعنی قدیم عربوں میں جو ابراہیم سے بھی قبل گزرے ہیں – لفظ ہود کا مصدر الگ زبان و علاقہ ہے
لیکن عربی میں منصوب حالت میں انے کی وجہ سے ہودا بولا گیا
اور اپ نے دو الگ الفاظ کو مکس کر دیا

سادہ بات ہے کہ هُوْدًا اور ھادوا میں فرق ہے یہ دو الگ الفاظ ہیں

وَالَّذِينَ هادُوا
والواو فاعل (الواو) عاطفة (الذين) اسم موصول معطوف على الاسم الأول في محلّ نصب (هادوا

هادُوا نصب کی وجہ سے اس حال میں ہے
——
فَبِظُلْمٍ مِنَ الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا عَلَيْهِمْ طَيِّباتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ كَثِيراً
اس ظلم کی وجہ سے ہم نے هادُوا (یہود) پر طیبات کو حرام کر دیا جو حلال تھا

ظاہر ہے اگر هادُوا سے مراد ہود علیہ السلام نہیں ہیں اس کے علاوہ سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود کی بات کی جا رہی ہے

قرآن میں ہے

وَاِلٰى عَادٍ اَخَاهُـمْ هُوْدًا
اور عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھیجا

اگر ترجمہ کیا جائے یہ ترجمہ کہ عاد کی طرف ان کے بھائی یہود کو بھیجا ، تو نہ تو یہ سیاق و سباق پر پورا اترتا ہے نہ ہی صحیح کلام ہے نہ حقیقیت ہے

یہاں بھائی کا لفظ ہے جس سے ظاہر ہے قوم نہیں ایک شخص مراد ہے

سورہ بقرہ کی آیت کا ترجمہ صحیح ہے

اَمْ تَقُوْلُوْنَ اِنَّ اِبْـرَاهِيْمَ وَاِسْـمَاعِيْلَ وَاِسْحَاقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطَ كَانُـوْا هُوْدًا اَوْ نَصَارٰى ۗ قُلْ ءَاَنْتُـمْ اَعْلَمُ اَمِ اللّـٰهُ ۗ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهَادَةً عِنْدَهٝ مِنَ اللّـٰهِ ۗ وَمَا اللّـٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ
(140)
یا تم کہتے ہو کہ ابراھیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اس کی اولاد یہودی یا نصرانی تھے، کہہ دو کیا تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ؟ اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو گواہی چھپائے جو اس کے پاس اللہ کی طرف سے ہے، اور اللہ بے خبر نہیں اس سے جو تم کرتے ہو۔

یہاں بھی اگر ہود علیہ السلام اور نصرانی ترجمہ کر دیا جائے تو یہ غلط سلط ترجمہ ہو جائے گا کوئی نتیجہ نہ نکلے گا

اسی طرح قرآن میں ہے
إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا للَّذِينَ هَادُوا} [المائدة: 44] ہم نے توریت کو نازل کیا جس میں ہدایت و نور ہے اس سے یہود کے لئے حکم کرتے وہ انبیاء جو مسلمان تھے

ظاہر ہے ہود اور ھادوا الگ الفاظ ہیں- ہود علیہ السلام تو ایک شخص ہیں جبکہ ھادوا سے مراد یہودی ہیں – لہذا جو ترجمہ متدوال ہے وہ ہی صحیح ہے

وَقَالُوا لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَى تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ
اور یہ کہتے ہیں جنت میں داخل نہ ہو گا جو یہودی یا نصرانی ہو
ظاہر ہے یہ ترجمہ صحیح ہے

ہود تو ایک شخص تھے جبکہ یہود ایک قوم ہیں

اصل میں الله نے وہ لفظ بولا جو عبرانی میں یہود کا نام ہے
Yehudah
اس کو اصل عبرانی میں یہودا بولا جاتا تھا – فارس کی غلامی میں ارض مقدس کا نام یہودا فارسیوں نے رکھا- اس کے بعد اس صوبہ میں تمام قبائل اپنے اپ کو یہودا کہنے لگے اور تمام بنی اسرائیلی چاہے کسی بھی قبیلے کا ہو اس کو یہودی کہا جانے لگا
یہی لفظ عربی میں ہودا یا یہود ہو گیا

اپ نے کہا بقرہ کی آیت کا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے

اَمْ تَقُوْلُوْنَ اِنَّ اِبْـرَاهِيْمَ وَاِسْـمَاعِيْلَ وَاِسْحَاقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطَ كَانُـوْا هُوْدًا اَوْ نَصَارٰى ۗ قُلْ ءَاَنْتُـمْ اَعْلَمُ اَمِ اللّـٰهُ ۗ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهَادَةً عِنْدَهٝ مِنَ اللّـٰهِ ۗ وَمَا اللّـٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ
(140)

یا تم کہتے ہو کہ ابراھیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور قبیلے جو هود یا نصرانی کے تھے، کہہ دو کیا تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ؟ اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو گواہی چھپائے جو اس کے پاس اللہ کی طرف سے ہے، اور اللہ بے خبر نہیں اس سے جو تم کرتے ہو۔
جواب
الفاظ جو هود یا نصرانی کے تھے، نہیں ہو سکتا کیونکہ ہود عرب عاربہ میں ایک نبی گزرے ہیں اور یہود و نصاری کے مطابق عرب میں کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا
لہذا یہ ترجمہ غلط ہے

الله کا کلام یہود سے چل رہا ہے ہم تو سن رہے ہیں کہ یہود یہ کہتے تھے اللہ تعالی تو ان کا جواب دے رہے ہیں- جو یہود نے کہا وہ ان کی تاریخ ہے جس میں کوئی قبیلہ اپنی شناخت باقی نہ رکھ سکا سوائے یہودا قبیلہ کے اور تمام بنی اسرائیل اپنے اپ کو یہودا کہنے لگے
اس پر الله تعالی نے کلام کیا ہے – اپ اپنے تئیں معنی متعین کریں گے تو اپ یہ سمجھ ہی نہ سکیں گے کہ یہود کے کس اشکال کا جواب دیا جا رہا ہے – اپ کو دیکھنا پڑے گا کہ یہود کا کیا موقف تھا اور ہے اور قرآن نے ان کی کس بات کا جواب دیا ہے اور الله کا حکم بھی ہے
فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ

خود عربی کے متعدد الفاظ عبرانی کے ہی ہیں وہیں سے آئے ہیں – عربی لغت میں اور شروحات میں ان کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے

اپ کے نزدیک توریت بھی عربی میں تھی– اپ کے قول کا مطلب ہوا کہ مصر میں اور اس سے قبل سب انبیاء اور ان کی نسلیں عربی بولتے تھے – یہ قول زبانوں کی تاریخ سے لا علمی کا ہے

بخاری کی حدیث میں ہے
وَشَبَّ الْغُلامُ وَتَعَلَّمَ الْعَرَبِيَّةَ مِنْهُمْ
اور لڑکا (اسمعیل) جوان ہوا اور ان (قبیلہ جرھم) سے عربی (بھی ) سیکھ لی

یعنی عربی صرف اسمعیل نے سیکھی – اسحاق و ابراہیم و یعقوب و سارہ یا موسی یہ نہیں بولتے تھے

اپ کے اس قول سے احادیث کا بھی انکار ہوتا ہے تاریخ لغت و لسان کا بھی اور یہ قول محض خیالی و افسانوی ہے

اپ نے آیت کا غلط ترجمہ کیا ہے

سورۃ الاحقاف
وَمِنْ قَبْلِـهٖ كِتَابُ مُوْسٰٓى اِمَامًا وَّرَحْـمَـةً ۚ وَهٰذَا كِتَابٌ مُّصَدِّقٌ لِّسَانًا عَرَبِيًّا لِّيُنْذِرَ الَّـذِيْنَ ظَلَمُوْاۖ وَبُشْرٰى لِلْمُحْسِنِيْنَ
اس سے قبل موسی کی کتاب رہبر و رحمت تھی- اور یہ کتاب عربی زبان کی تصدیق کرتی ہے – تا کہ وہ خبر دار کرے ان لوگوں کو جو ظلم کرتے ہیں اور احسان کرنے والوں کے لئے بشارت ہے

عربی زبان کی کوئی تصدیق نہی کی جاتی- کسی عرب مفسر کو بھی یہ اچھوتے خیال نہیں آئے کہ عربی کی فضیلت اس طرح تمام زبانوں پر قائم کرے

قرآن میں ہے بنی اسرائیل کو ارض مقدس میں داخلے کے وقت حکم دیا
وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّداً وَقُولُوا حِطَّةٌ
دروازے سے داخل ہو حِطَّةٌ (مالک گناہ ہوئے) کہتے ہوئے

حِطَّةٌ کا لفظ عربی میں مستعمل نہیں ہے – یہ عبرانی کا لفظ
hatta
ہے جس کا مطلب گناہ ہے

اس سے معلوم ہوا کہ دشت میں بنو اسرائیل عبرانی بولتے تھے –

اسی طرح ایل کا لفظ عبرانی ہے کو فرشتوں کے ناموں میں ہے
قَالَ فِي (إِيلٌ) مِنْ أَسْمَاءِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ عِبْرَانِيٌّ أَوْ سُرْيَانِيٌّ
: تفسير القرآن الحكيم (تفسير المنار) المؤلف: محمد رشيد بن علي رضا

وَجِبْرِيلُ اسْمٌ عِبْرَانِيٌّ لِلْمَلَكِ الْمُرْسَلِ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى بِالْوَحْيِ لِرُسُلِهِ مُرَكَّبٌ مِنْ كَلِمَتَيْنِ
التحرير والتنوير از محمد الطاهر التونسي (المتوفى : 1393هـ)

مشرک عربوں نے انکار کیا کہ رحمان کوئی عربی کا لفظ ہے
مثلا
قَالُوا وَمَا الرَّحْمَنُ} [الفرقان: 60] انہوں نے کہا یہ رحمان کیا ہوتا ہے

مسلمان عربوں نے اقرار کیا کہ یہ عبرانی کا لفظ ہے
قال أبو بكر محمد بن القاسم بن (5) بشار: سألت أبا العباس (6) لم جمع بين الرحمن والرحيم؟ فقال: لأن الرحمن عبراني فأتى معه الرحيم العربي
التَّفْسِيرُ البَسِيْط المؤلف: أبو الحسن علي بن أحمد بن محمد بن علي الواحدي،

قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ الزَّجَّاجُ فِي مَعَانِي الْقُرْآنِ: وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى:” الرَّحِيمُ” عربي و” الرحمن” عِبْرَانِيٌّ، فَلِهَذَا جَمَعَ بَيْنَهُمَا.

تفسیر نفسی میں ہے
إذ قال {يُوسُفَ} اسم عبراني لا عربى
یوسف عربی نام ہی نہیں
تفسير النسفي (مدارك التنزيل وحقائق التأويل) المؤلف: أبو البركات عبد الله النسفي (المتوفى: 710هـ)
ويوسف اسم عبراني، وقيل عربى وليس بصحيح، لأنه لو كان عربياً لا نصرف لخلوّه عن سبب آخر سوى التعريف

عیسیٰ بھی غیر عربی نام ہے
وفي القاموس عيسى عليه الصلاة والسلام اسم عبرانيّ أو سريانيّ
حَاشِيةُ الشِّهَابِ عَلَى تفْسيرِ البَيضَاوِي

یہ چند امثال ہیں

یہ تمام عرب مفسر و نحوی و لغوی ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ نام عربی کے نہیں ظاہر ہے جو زبان بولی جاتی ہے اسی میں نام رکھا جاتا ہے

اپ نے نکتہ سنجی کی ہے
//
قرآن میں ہی ہے کہ الله کے کلمات کو کوئی نہیں بدل نہیں سکتا
سورۃ الانعام
وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا ۚ لَّا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهٖ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْـمُ
اللہ کے کلمات تبدیل نہیں ہوتے۔
///

اس کا اس بحث سے تعلق اپ نے یہ بنایا ہے کہ اصل توریت و انجیل و زبور یہ سب عربی میں تھیں تمام لوگ عربی بولتے تھے اور سمجھتے لکھتے تھے پھر انہوں نے پہلے عربی کو بدلا اور اس کو عبرانی کر دیا
یہ خیال محض فسانہ ہے – اگر ایسا ہوتا تو حدیث میں اس کا ذکر ہوتا اور دنیا کہتی کہ آثار قدیمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ مشرق وسطی میں ہر مقام پر عربی بولی لکھی سمجھی جاتی تھی جبکہ عربی کا کوئی وجود ان علاقوں میں نہیں ملا
اپ تکے بازی نہ کریں اور متن قرآن کو اپنے خیال کی بھینٹ مت چڑھائیں

اللہ کے کلمات لَّا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهٖ کا مطلب ہے الله کا وعدہ تبدیل نہیں ہو گا

ایک زبان میں ہی کلمات بدل سکتے ہیں مثلا عربی کا قرآن ہے لیکن قرات دس متواتر چلی آ رہی ہیں جن میں الفاظ بھی بدل رہے ہیں – میں نے تو صرف سورہ فاتحہ کا تقابل کیا ہے

قرآن اور قرات عشرہ

سورہ فاتحہ میں ملک یوم الدین اگر اپ پڑھیں تو لوگ اپ کو سمجیں گے کہ غلط قرات کر دی کیونکہ دس متواتر قرات میں اختلاف کا اردو بولنے والوں کو علم نہیں ہے – بعض مسلمان ممالک ہیں جہاں صبح و شام نماز میں مالک یوم الدین کی بجائے ملک یوم الدین پڑھا جاتا ہے

اپ ان تمام قرات کو جمع کریں اور تقابل کر کے دیکھ لیں ان میں الفاظ بھی بدل جاتے ہیں

تمام مسلمان فرقے ان قراتوں کو متواتر مانتے ہیں اور سعودی عرب اور دیگر ممالک میں ریڈیو پر الگ الگ سند سے یہ قرات کی بھی جاتی ہے ان میں الفاظ الگ الگ بھی ہیں یعنی وہ قرات جو میں یہاں لکھتا ہوں وہ وہ ہے جو بر صغیر میں چلتی ہے جس کو حفص بن عاصم کی سند سے جانا جاتا ہے

سورۃ الحاقۃ

اِنَّهٝ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِيْمٍ
(40)

یہاں قَوْلُ رَسُوْلٍ سے کیا مراد ہے

جواب

اس پر دو قول ہیں
اول : رسول کریم سے مراد فرشتہ جبریل ہیں
تفسیر طبری میں ہے
حدثنا بشر، قال: ثنا يزيد، قال: ثنا سعيد، عن قتادة، أنه كان يقول: (إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ) يعني: جبريل.
حدثنا ابن عبد الأعلى، قال: ثنا ابن ثور، عن معمر، عن قتادة، أنه كان يقول: (إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ) قال: هو جبريل.

دوسرا قول ہے کہ قرآن میں ہی ہے
وَلَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَهُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ وَجَاءَهُمْ رَسُولٌ كَرِيمٌ

کہ فرعون کے پاس رسول کریم کو بھیجا اس سے مراد موسی علیہ السلام ہیں لہذا
تفسیر طبری میں ہے
قوله: (إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ) يقول تعالى ذكره: إن هذا القرآن لقول رسول كريم، وهو محمد صلى الله عليه وسلم يتلوه عليهم.
اس قول سے مراد خود رسول اللہ ہیں کہ قرآن ان کا قول ہے یعنی ان کی تلاوت ہے

سورہ مائدہ میں ہے

وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ يَا قَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّـٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ اَنْبِيَآءَ وَجَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا ۖ وَاٰتَاكُمْ مَّا لَمْ يُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِيْنَ (20)
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم! اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب کہ تم میں نبی پیدا کیے اور تمہیں بادشاہ بنایا، اور تمہیں وہ دیا جو جہان میں کسی کو نہ دیا تھا۔
يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِىْ كَتَبَ اللّـٰهُ لَكُمْ وَلَا تَـرْتَدُّوْا عَلٰٓى اَدْبَارِكُمْ فَـتَنْقَلِبُوْا خَاسِرِيْنَ (21)
اے میری قوم! اس پاک زمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے لیے مقرر کر دی اور پیچھے نہ ہٹو ورنہ نقصان میں جا پڑو گے۔
قَالُوْا يَا مُوْسٰٓى اِنَّ فِيْـهَا قَوْمًا جَبَّارِيْنَۖ وَاِنَّا لَنْ نَّدْخُلَـهَا حَتّـٰى يَخْرُجُوْا مِنْـهَاۚ فَاِنْ يَّخْرُجُوْا مِنْـهَا فَاِنَّا دَاخِلُوْنَ (22)
انہوں نے کہا اے موسیٰ! بے شک وہاں ایک زبردست قوم ہے، اور ہم وہاں ہرگز نہ جائیں گے یہاں تک کہ وہ وہاں سے نکل جائیں، پھر اگر وہ وہاں سے نکل جائیں تو ہم ضرور داخل ہوں گے۔

کیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ مکہ سے متعلق ہے؟

سورہ طہ میں ہے

فَلَمَّآ اَتَاهَا نُـوْدِىَ يَا مُوْسٰى (11)
پھر جب وہ اس کے پاس آئے تو آواز آئی کہ اے موسٰی۔
اِنِّـىٓ اَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ ۖ اِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى (12)
میں تمہارا رب ہوں سو تم اپنی جوتیاں اتار دو، بے شک تم پاک وادی طوٰی میں ہو۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ موسی تو وادی طوٰی میں تھے جو پہلے ہی مقدس تھی تو اب وہ اپنی قوم کو کسی اور ارض مقدس کی طرف کیوں لے جا رہے تھے

جواب

موسی علیہ السلام کی قوم کا مسکن مصر سے نکلنے کے بعد ارض مقدس کنعان کو قرار دیا گیا جو اصل میں ابراہیم و اسحاق و یعقوب کا مسکن تھا اور وہاں ان کو مسجد الاقصی کی تعمیر کرنی تھی

ظاہر ہے اس سے مراد مکہ نہیں جس کو قرآن وادی غیر ذی زرع کہتا ہے

قرآن میں سورہ شعراء میں ہے

فَاَخْرَجْنَاهُـمْ مِّنْ جَنَّاتٍ وَّّعُيُوْنٍ (57)
پھر ہم نے انہیں باغوں اور چشموں سے نکال باہر کیا۔
وَكُنُـوْزٍ وَّمَقَامٍ كَرِيْـمٍ (58)
اور خزانوں اور عمدہ مکانو ں سے۔
كَذٰلِكَۖ وَاَوْرَثْنَاهَا بَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ (59)
اسی طرح ہوا، اور ہم نے ان چیزوں کا بنی اسرائیل کو وارث بنایا۔
الله نے نبی اسرائیل کو ان سب کا مالک کیا اور ہم کو معلوم ہے یہ مکہ کی خصوصیت نہیں ہے وہاں نہ باغ تھے نہ چشمے

پھر اس ارض مقدس میں جو مسجد الاقصی تھی اس کو دو بار تباہ کیا گیا – اس کا ذکر قرآن میں سورہ الاسراء یا بنی اسرائیل میں ہے – کعبه کو ظاہر ہے تباہ نہیں کیا گیا اس کی حفاظت کی گئی

موسی وادی مقدس میں تھے لیکن ان کو قوم کے لئے وہ مقام چھوٹا تھا – الله کو ان کو ایک بڑی آبادی میں تبدیل کرنا تھا لہذا ان کو کہا گیا کہ اپنے ابا و اجداد کے اصل علاقے کی طرف منتقل ہو

حدیث کے مطابق موسی علیہ السلام نے حج کیا ہے لیکن وہ اپنی زندگی میں اس ارض مقدس میں داخل نہ ہو سکے کیونکہ الله نے یہ زمین ٤٠ سال ان پر حرام کر دی اور پھر یوشع بن نون علیہ السلام کے دور میں اس میں داخل ہوئے

الغرض یروشلم ہی ارض مقدس ہے جوقوم موسی کو الله نے دی تھی اسی زمین پر انبیاء کا ظہور ہوا ہے اور مکہ میں اسمعیل علیہ السلام کے بعد صرف ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کی بعثت ہوئی ہے

وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَلَا تَكُن فِي مِرْيَةٍ مِّن لِّقَائِهِ ۖ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ
اورتحقیق ہم نے موسی کو کتاب دی بس تو اس کتاب کے ملنے سے شک میں نہ ہو اور ہم نے اس کو بنی اسرائیل کے لئے ہدایت بنایا

===

يَآ اَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيْـرًا مِّمَّا كُنْتُـمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْـرٍ ۚ قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّـٰهِ نُـوْرٌ وَّكِتَابٌ مُّبِيْنٌ

جواب

اور ہم نے موسٰی کو کتاب دی تو تم ان (موسی) سے ملنے پر شک میں نہ آنا اور ہم نے اس (کتاب) کو بنی اسرائیل کے لئے ہدایت بنایا
سورہ سجدہ

یہ ضمیر کا معاملہ ہے
اس سے پچھلی آیت سے جوڑ دین
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِآيَاتِ رَبِّهِ ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْهَا إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ مُنْتَقِمُونَ (22) وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَلَا تَكُنْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقَائِهِ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِبَنِي إِسْرَائِيلَ
تو ضمیر ربه پر پلٹنے کی وجہ سے ترجمہ ہو گا
تم اپنے رب سے ملنے پر شک میں نہ آنا

اس میں لقاء کا لفظ ہے جس کا مطلب ملاقات ہے کسی چیز کا حاصل کرنا نہیں بلکہ کسی ذات سے ملاقات کرنا
لہذا درست ترجمہ دو ہیں

تم اپنے رب سے ملنے پر شک میں نہ آنا
تم موسی سے ملنے پر شک میں نہ آنا

یہ دو ترجمے صحیح ہیں
التبيان في إعراب القرآن از المؤلف : أبو البقاء عبد الله بن الحسين بن عبد الله العكبري (المتوفى : 616هـ) میں اس کا ذکر ہے

قَالَ تَعَالَى {وَلَقَد آتَيْنَا مُوسَى الْكتاب فَلَا تكن فِي مرية من لِقَائِه وجعلناه هدى لبني إِسْرَائِيل}
قَوْلُهُ تَعَالَى: (مِنْ لِقَائِهِ) : يَجُوزُ أَنْ تَكُونَ الْهَاءُ ضَمِيرَ اسْمِ اللَّهِ؛ أَيْ مِنْ لِقَاءِ مُوسَى اللَّهَ، فَالْمَصْدَرُ مُضَافٌ إِلَى الْمَفْعُولِ؛ وَأَنْ يَكُونَ ضَمِيرَ مُوسَى؛ فَيَكُونَ مُضَافًا إِلَى الْفَاعِلِ.
وَقِيلَ: يَرْجِعُ إِلَى الْكِتَابِ؛ كَمَا قَالَ تَعَالَى: (وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ) [النَّمْلِ: 6] .
وَقِيلَ: مِنْ لِقَائِكَ يَا مُحَمَّدُ مُوسَى، صَلَّى اللَّهُ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمَا، لَيْلَةَ الْمِعْرَاجِ.

یہ ترجمہ کرنا کہ اس کتاب کے ملنے سے عربی کے حساب سے غلط ہے کیونکہ یہ اردو کا انداز ہے کہ ملاقات کو ملنا کہا جاتا ہے لیکن عربی میں یہ انداز نہیں ہے

يَآ اَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيْـرًا مِّمَّا كُنْتُـمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْـرٍ ۚ قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّـٰهِ نُـوْرٌ وَّكِتَابٌ مُّبِيْنٌ
اے اہل کتاب بے شک تمھارے پاس ہمارے رسول آئے جنہوں نے تمہارے اوپر بہت کچھ واضح کیا جو تم کتاب میں چھپا رکھتے ہو اور بہت کچھ معاف کیا بلا شبہ تمہارے پاس الله کی طرف سے نور اور کتاب مبین آ چکی

قرآن میں ہے
إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ يَحْكُمُ بِهَا النبِيونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا
ہم نے توریت کو نازل کیا جس میں ہدایت و نور ہے اس سے فرمانبردار نبیوں نے حکم کیا یہود کے لئے

یعنی توریت منزل من الله ہے جس سے یہود پر الله کا حکم نافذ کیا جاتا تھا

رسول الله نے توریت پر حکم دیا ہے اس کی مثال حدیث میں موجود ہے کہ رجم کا حکم توریت سے لیا گیا ارتاد اور عہد شکنی کی سزا توریت کے مطابق ہے

توریت کا مطلب قانون ہے یہ یہود کا قول ہے

قرآن میں موجود ہے کہ توریت میں الله کا حکم لکھا تھا آنکھ کے بدلے آنکھ  .. یہ حکم قرآن میں موجود نہیں تھا جبکہ یہ سن ٩ ہجری کا دور ہے جب سورہ مائدہ نازل ہوئی یہاں تک کہ اس حکم کو قرآن میں بیان کیا گیا
اس سے ظاہر ہے کہ قرآن اور توریت دو الگ کتب ہیں ایک ہی نہیں تھیں ان کی زبان ان کے احکام میں فرق ہو سکتا ہے لیکن اصل میں دونوں من جانب الله تھیں
اس کی مثال اس طرح بھی ہے کہ قرآن میں حج کا حکم فرض ہے جبکہ حج قرآن کے مطابق صرف اسمعیل و ابراہیم و محمد علیھما السلام نے کیا ہے
ظاہر ہے اگر ایک ہی کتاب ہوتی تو تمام انبیاء پر حج فرض ہو جاتا ہے اور ہم کو معلوم ہے کہ سب نے حج بیت الله نہیں کیا

الجان اور الجن ایک ہی مخلوق نہیں ہے۔ الجان وہ مخلوق ہیں جو اگ سے بنائی گئی تھی اور وہ اب اس دنیا میں موجود نہیں ہے۔ الجن اگ والی مخلوق نہیں ہے بلکہ ہر وہ چیز جو ہمارے نظر سے اوجھل ہو اس چیز پر جن کا اطلاق ہوتا ہے مثلا جو انسان پہاڑی علاقوں میں رہتے ہیں اور عام معاشرے سے ان کا رابطہ نہ ہو تو ان پر بھی جنات کا اطلاق ہوتا ہے اس کے علاوہ وہ انسان جو عام معاشرے میں رہتے ہیں لیکن انکے کرتوت باقی لوگوں سے پوشیدہ یا خفیہ ہوتے ہیں تو ان پر بھی جنات کا اطلاق ہوتا ہے۔ عرب معاشرے میں اس بندے کو بھی جن کہا جاتا ہے جو کسی جگہ میں جاکر بہت جلدی واپس پہنچھتا ہے یعنی اپنا کام انتہائی جلدی سے ختم کرتا ہے۔ کچھ لوگ الجان کی تعریف اسی طرح کرتے ہیں کہ الجان ادم کے طرح پہلا جن تھا جس کو اللہ پاک نے اگ سے بنایا تھا اور پھر اس ایک الجان سے جنات وجود میں اگئے لیکن یہ مفروضہ قران کے خلاف ہے کیونکہ قران کے مطابق الجان انسانوں کے طرح مخلوق تھے اور اس کی دلیل سورہ رحمن میں ملتا ہے۔ سورہ رحمن کے ایت نمبر 14 اور 15 میں اللہ پاک کا ارشاد پاک ہے:

خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ صَلۡصَالٍ کَالۡفَخَّارِ ﴿ۙ۱۴۔
وَ خَلَقَ الۡجَآنَّ مِنۡ مَّارِجٍ مِّنۡ نَّارٍ ﴿ۚ۱۵}۔

اس نے انسان کو بجنے والی مٹی سے پیدا کیا جو ٹھیکری کی طرح تھی ۔ اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا۔

ایت نمبر 14 میں اللہ پاک انسان کی پیدائیش کا زکر کرتا ہے صرف ایک ادم کی نہیں بلکہ تمام انسانی مخلوق کا زکر کر رہا ہے جبکہ ایت نمبر 15 میں اللہ پاک الجان کی پیدائیش کا زکر کر رہا ہے تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان اور الجان دو الگ الگ مخلوق ہیں اور الجان ایک ہی بندہ یعنی جنات کا جد مراد نہیں ہے بلکہ الجان سے مراد وہ تمام مخلوق مراد ہے جس کو اگ سے بنایا گیا تھا۔ اگر الجان جنات کی جد کا نام ہے تو پھر اس ایت میں اللہ پاک اس کو انسان کے ہم منصب کے طور پر یا انسان کے مقابلے میں استعمال نہیں کرتا بلکہ اس ایت میں پھر اللہ پاک الجان کے بجائے جنات یا جن کا لفظ استعمال کرتا اور یا الجان کے مقابلے میں انسان کے بجائے ادم کا نام لکھتا لیکن نہیں کیونکہ الجان ہی انسان کے ہم منصب مخلوق ہے جو اگ سے بنائے گئے تھے۔

سورہ رحمن ایت نمبر 74 میں اللہ پاک فرماتا ہے:

لَمۡ یَطۡمِثۡہُنَّ اِنۡسٌ قَبۡلَہُمۡ وَ لَا جَآنٌّ ﴿ۚ۷۴﴾

ان کو ہاتھ نہیں لگایا کسی انسان یا جن نے اس سے قبل ۔

اس ایت میں بھی اللہ پاک نے انسان کے مقابلے میں الجان کا لفظ استعمال کیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ انس یا انسان کا ہم منصب الجان ہی ہے اور اس ایت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ الجان جنات کی جد کا نام نہیں ہے بلکہ الجان خود ایک مخلوق ہیں کیونکہ اس الجان کو اللہ پاک نے اس ایت میں انسان کے ہم منصب کے طور پر استعمال کیا۔ اگر الجان جنات کی جد کا نام ہوتا تو پھر اس کو اللہ پاک کبھی بھی انسان کے ہم منصب یا مقابلے میں استعمال نہیں کرتا بلکہ پھر اللہ پاک اس کو ادم کے مقابلے میں استعمال کرتا۔

سورہ رحمن کے ان دلائیل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ الجان جنات کے جد کا نام نہیں ہے بلکہ انسان کا ہم منصب مخلوق ہے جس کو اگ سے بنایا گیا تھا۔

بھائی اس کا تحقیقی جواب درکار ہے ۔۔۔جزاک اللہ

جواب

کہا گیا الجان خود ایک مخلوق ہے
الجان وہ مخلوق ہیں جو اگ سے بنائی گئی تھی اور وہ اب اس دنیا میں موجود نہیں ہے۔
الجان سے مراد وہ تمام مخلوق مراد ہے جس کو اگ سے بنایا گیا تھا۔

——
الجن پوشیدہ مخلوق ہے
اس میں جو لوگ شہروں میں نہ رہتے وہ شامل ہیں
=================

راقم کہتا ہے میرا سوال یہ ہے کہ یہ کس نے خبر دی کہ الجان اب معدوم ہیں
جیسا کہا ہے الجان وہ مخلوق ہیں جو اگ سے بنائی گئی تھی اور وہ اب اس دنیا میں موجود نہیں ہے؟۔
اس قول پر نص قرانی درکار ہے
جو لوگ شہروں میں نہ رہتے وہ شامل ہیں – اس قول پر کسی لغت سے دلیل درکار ہے
سورہ جن میں کیا لکھا ہے
http://quranurdu.org/72
جنات کان لگا کر سنتے

وَاَنَّا لَمَسْنَا السَّمَآءَ فَوَجَدْنَاهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيْدًا وَشُهُبًا (8)
اور ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو ہم نے اسے سخت پہروں اور شعلوں سے بھرا ہوا پایا۔
وَاَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْـهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْـعِ ۖ فَمَنْ يَّسْتَمِـعِ الْاٰنَ يَجِدْ لَـهٝ شِهَابًا رَّصَدًا (9)
اور ہم اس کے ٹھکانوں (آسمانوں) میں سننے کے لیے بیٹھا کرتے تھے، پس جو کوئی اب کان دھرتا ہے تو وہ اپنے لیے ایک انگارہ تاک لگائے ہوئے پاتا ہے۔

جس نے یہ اقتباس لکھا ہے اس کو بتانا چاہیے کہ کیا جن وہ ہیں جو شہروں میں نہیں
رہتے ؟ یا کوئی اور مخلوق جس پر شہاب پھینکا جاتا ہے

راقم کہتا ہے الجان الجن کی جمع ہے – یہ عربی لغت میں موجود ہے

عربی میں جن چھپی ہوئی چیزوں پر بولا جاتا ہے یا وہ جو چھپا دے

فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَىٰ كَوْكَبًا
جب رات طاری ہوئی یا رات نے سب چھپا دیا
http://quran.ksu.edu.sa/tafseer/katheer/sura6-aya76.html

جن سے ہی جنین کا لفظ ہے جو حمل میں ہوتا ہے
اس کا یہ مطلب نہیں کہ سب عورتیں جنوں کو پیدا کرتی ہیں

جان کا لفظ عربی میں
جن پر
شیطان پر
سانپ پر
استعمال ہوتا ہے
یہ سیاق و سباق سے طے کیا جاتا ہے کہ الجان میں جنات و شیطان مراد ہیں یا الجان میں سانپ مرد ہیں

جان یا سانپ کا ذکر
سورہ النمل میں ہے
وَأَلْقِ عَصَاكَ ۚ فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَانٌّ وَلَّىٰ مُدْبِرًا وَلَمْ يُعَقِّبْ
اپنا عَصَا پھینک – پس جب اسکو دیکھا جان کی طرح پھڑک رہا ہے وہ (موسی) پیٹھ پھیر کر بھاگا اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھا

ایک روایت میں الفاظ ہیں
أنه سئل عن قتل الجان
انہوں نے الجان کے قتل پر سوال کیا

غریب الحدیث از خطابی میں ہے
الجانُّ: حية بيضاء كبيرة،
الجان سفید اژدھا ہے

یہاں جان پر ال لگا ہے یعنی کوئی مخصوص سانپ ہے جس کی وضاحت کی گئی کہ سیفد اژدھا
امام بخاری صحیح میں لکھتے ہیں
وَالحَيَّاتُ أَجْنَاسٌ، الجَانُّ وَالأَفَاعِي وَالأَسَاوِدُ
حیات (یعنی سانپوں) کی جنس ہیں
الجان اور الأَفَاعِي اور الأَسَاوِدُ

الأَفَاعِي سے ہی اردو میں افعی کا لفظ نکلا ہے جو سانپ پر استعمال ہوتا ہے

———–
جان کا لفظ اسم الجمع کے طور پر

عربی میں یہ بات معلوم ہے کہ الف لام لگنے پر اسم معرفہ ہو جاتا ہے اس بنا پر الجان اسم معرفہ جمع ہے لہذا اگر جان پر الجان آئے تو سانپ نہیں مخلوق جن لیا جائے گا

سورہ رحمان

خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ صَلۡصَالٍ کَالۡفَخَّارِ ﴿ۙ۱۴۔
وَ خَلَقَ الۡجَآنَّ مِنۡ مَّارِجٍ مِّنۡ نَّارٍ ﴿ۚ۱۵}۔

ان آیات سے یہ معلوم ہوا کہ الجان کو اگ کے شُّعْلةُ سے بنایا

اور یہی قول شیطان کا ہے کہ مجھ کو اگ سے بنایا

اس میں نکتہ سنجی کی جاتی ہے کہ شیطان کو اگ سے اور الجان کو اگ کی پلٹ سے بنایا
لیکن یہ بے وقوفی کی باتیں ہیں کیونکہ اصلا عنصر ایک ہی رہتا ہے

گیلی مٹی ہو سنسناتی مٹی ہو بلبلوں والی مٹی ہو اس سے مختلف طرح کے انسان قرآن نے نہیں بنائے ان سب کا اطلاق آدم پر کیا ہے
سائنس میں اگ جلتی ہوئی گیس ہے جس میں آکسیجن ہو اور ریایکشن میں کاربن ڈآئی آکسائڈ اور پانی نکل رہا ہو
اس تناظر میں اگ یا اگ کی لپٹ میں کوئی فرق نہیں رہتا

الجان کو انسان کے ہم منصب کے طور پر یا انسان کے مقابلے میں استعمال اس لئے کیا گیا کیونکہ جنات و انسان مکلف مخلوقات ہیں

==========
نوٹ : وہ سانپ جو آبادی میں رہتے ہوں ان کو جان کے علاوہ عوامر بھی کہتے ہیں

لسان العرب میں ہے
العَوامِرُ الحيّات التي تكون في البيوت
عوامر وہ سانپ ہیں جو گھروں میں رہتے ہیں

صحیح مسلم کی حدیث میں الفاظ ہیں

إن لهذه البيوت عوامر فإذا رأيتم شيئا منها فحرجوا عليها ثلاثا فإن ذهب وإلا فاقتلوه فإنه كافر
ان گھروں میں سانپ ہیں پس جب تم ان کو دیکھو تو تین دن دیکھو اگر نہیں جائیں تو ان کو قتل کر دو یہ کافر ہیں

عربی میں عامر کا مطلب آباد کرنے والا ہے اور اسی مادہ سے عوام اور پھر عوامر نکلا ہے

بعض راویوں نے اس میں خلط ملط کر دیا مثلا صحیح مسلم میں ہے
إِنَّ بِالْمَدِينَةِ جِنًّا قَدْ أَسْلَمُوا، فَإِذَا رَأَيْتُمْ مِنْهُمْ شَيْئًا، فَآذِنُوهُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، فَإِنْ بَدَا لَكُمْ بَعْدَ ذَلِكَ، فَاقْتُلُوهُ، فَإِنَّمَا هُوَ شَيْطَانٌ
مدینہ میں جن ہیں جو مطیع ہو گئے ہیں ان کو دیکھو تو ان کو تین دن کا اذن دو اس کے بعد قتل کر دو کیونکہ یہ شیطان ہے
الفاظ ہیں مدینہ میں جن ہیں اور دوسری حدیث میں ہے عوامر ہیں یعنی سانپ کی بات کی گئی تھی
ان کو قتل کر دو تو یہ قتل سانپ کا ہی ممکن ہے جن کا قتل ہم نہیں کر سکتے وہ اپنی ہیت نہیں بدلتے اور جو سمجھتے ہیں کہ جن ہیت بدل سکتے ہیں جب وہ دیکھیں گے کہ کوئی مارنے آ رہا ہے وہ غائب ہو جائیں گے
لہذا صحیح بات یہی ہے کہ درست ترجمہ ہو گا

إِنَّ بِالْمَدِينَةِ جِنًّا قَدْ أَسْلَمُوا، فَإِذَا رَأَيْتُمْ مِنْهُمْ شَيْئًا، فَآذِنُوهُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، فَإِنْ بَدَا لَكُمْ بَعْدَ ذَلِكَ، فَاقْتُلُوهُ، فَإِنَّمَا هُوَ شَيْطَانٌ

مدینہ میں سانپ ہیں جو مطیع ہو گئے ہیں ان کو دیکھو تو ان کو تین دن کا اذن دو اس کے بعد قتل کر دو کیونکہ یہ شیطان (بمعنی شریر) ہیں

قران میں جہاں کہی بھی “من قبل” کا لفظ اجائے یعنی قران میں جب بھی قبل، قبلکم، قبلھم وغیرہ الفاظ سے پہلے اگر لفظ “من” اجائے تو پھر وہ چیز ضرور ماضی کا حصہ ہوتا ہے

سب سے پہلے تو یہ بات ذھن میں رکھئے کہ قران میں اللہ پاک جان کی پیدائیش کا زکر اگ سے کررہا ہے۔ قران میں ایک بھی ایت ایسی نہیں ہے جس میں اللہ پاک جن کی پیدائیش کا زکر اگ سے کرتا ہو۔ اس کے علاوہ اس ایت میں سب سے بڑا دلیل “من قبل” ہے۔ قران میں جہاں کہی بھی “من قبل” کا لفظ اجائے یعنی قران میں جب بھی قبل، قبلکم، قبلھم وغیرہ الفاظ سے پہلے اگر لفظ “من” اجائے تو پھر وہ چیز ضرور ماضی کا حصہ ہوتا ہے اور اس چیز کا وجود پھر حاضر وقت میں نہیں ہوتا۔ اس کے قران میں لا تعداد دلائیل موجود ہیں لیکن تحریر کے اختصار کے لیے میں ان میں سے صرف چند دلائیل پیش کرونگا:

پہلا دلیل:
سورہ الحج ایت نمبر 78 میں اللہ پاک فرماتا ہے:

مِلَّۃَ اَبِیۡکُمۡ اِبۡرٰہِیۡمَ ؕ ہُوَ سَمّٰىکُمُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ۬ ۙ مِنۡ قَبۡلُ وَ فِیۡ ہٰذَا ۔

دین اپنے باپ ابراہیم ( علیہ السلام ) کا قائم رکھو اسی اللہ نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے اس قرآن سے پہلے اور اس قران میں بھی۔

اس ایت میں اللہ پاک فرماتا ہے کہ اس قران سے پہلے ہم نے پہلے شریعتوں میں بھی تمہارا نام مسلم رکھا تو قران کے نزول کے وقت وہ پرانے لوگ یا شریعت جس کا نام المسلمین رکھا وہ قران کے نزول کے وقت موجود نہیں تھے۔ من قبل کا مطلب یہ ہوا کہ قران کے نزول کے وقت جن لوگوں کے لئے المسلمین کا نام رکھا وہ لوگ موجود نہیں تھے بلکہ پہلے گزرچکے تھے۔

دوسرا دلیل:
سورہ ال عمران ایت نمبر 144 میں اللہ پاک فرماتا ہے:

وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ ۔

اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہے بلکہ رسول ہے ان سے پہلے بہت سے رُسول گزر چکے ہیں۔

اس ایت میں بھی “من قبل” کا لفظ ایا ہے جس کے زریعے اللہ پاک یہ فرمارہا ہے کہ محمد علیہ السلام سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں یعنی محمد علیہ السلام جب مبعوث ہورہا تھا تو محمد علیہ السلام سے پہلے جتنے بھی رسول تھے وہ اس دنیا سے چلے گئے تھے۔ تو “من قبل” ہمیشہ کے لئے اس بات کے لئے استعمال ہوتا ہے جس کا خاتمہ پہلے ہوچکا ہو اور وہ بات یا وہ چیز ماضی کا حصہ بن چکا ہو تو بلکل اسی طرح ادم کے پیدائیش کے وقت ادم سے پہلے تمام جنات کا خاتمہ “من قبل” سے ہوچکا تھا۔

تیسری دلیل:
سورہ ال عمران ایت نمبر 137 میں اللہ پاک فرماتا ہے:

قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ سُنَنٌ ۙ فَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَانۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الۡمُکَذِّبِیۡنَ ﴿۱۳۷﴾

تم سے پہلے بھی ایسے واقعات گُزر چکے ہیں ، سُو زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ ( آسمانی تعلیم کے ) جُھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا؟

اس ایت میں اللہ پاک فرماتا ہے کہ تم سے پہلے بہت سے واقعات گزر چکے ہیں یعنی یہ واقعات ماضی کا حصہ بن چکی ہیں اب وہ واقعات موجود نہیں ہے تو اس ایت میں بھی “من قبل” نے یہ ثابت کردیا کہ قران میں جہاں کہی بھی قبل، قبلکم یا قبلھم سے پہلے “من” اجائے تو وہ بات، واقعہ یا چیز ماضی کا حصہ ہوتی ہے اور اس کا وجود موجودہ وقت میں نہیں ہوتا۔

چھودویں دلیل:
سورہ ال عمران ایت نمبر 3 میں اللہ پاک فرماتا ہے:

نَزَّلَ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ وَ اَنۡزَلَ التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ ۙ مِنۡ قَبۡلُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ اَنۡزَلَ الۡفُرۡقَانَ۔

اس ایت میں اللہ پاک فرماتا ہے کہ اس قران سے پہلے ہم نے تورات اور انجیل کو لوگوں کے ھدایت کے لئے نازل کی تھی۔ اس ایت میں بھی “من قبل” نے یہ ثابت کیا کہ “من قبل” جس بات، حکم یا چیز کے ساتھ اجائے تو وہ بات، حکم یا چیز ماضی کا حصہ ہوتی ہے اور وہ موجودہ وقت میں موجود نہیں ہوتا۔ اللہ پاک نے پرانے کتابوں کو ختم کرکے نیا کتاب یعنی قران نازل کیا۔ قران کے نزول سے پرانے کتابیں منسوخ ہوگئی۔

جواب

عربی زبان قرآن نازل ہونے سے پہلے سے ہے اور اس میں قبل کا مطلب وہی ہے جو اردو میں لفظ پہلے کا ہے – یہ نہیں کہ جس کی بات ہو رہی ہے وہ یقینا معدوم وجود ہے
نبی صلی الله علیہ وسلم سے پہلے انبیاء آئے ان کی وفات ہوئی لیکن ان سے پہلے سے امت موسی و امت عیسیٰ موجود ہے یا یہود و نصرانی موجود ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہود و نصرانی معدوم ہیں

مثلا قرآن میں ہے
وَمِنْ قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَى إِمَامًا وَرَحْمَةً وَهَذَا كِتَابٌ مُصَدِّقٌ لِسَانًا عَرَبِيًّا لِيُنْذِرَ الَّذِينَ ظَلَمُوا وَبُشْرَى لِلْمُحْسِنِينَ
سورہ الاحقاف
اور اس سے قبل موسی کی کتاب امام و رحمت تھی

اس کا مطلب یہ نہیں کہ موسی کی کتاب دنیا سے معدوم ہو گئی بلکہ قرآن میں ہے
سورہ مائدہ
قُلْ يَاأَهْلَ الْكِتَابِ لَسْتُمْ عَلَى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ
اے اہل کتاب تم کچھ نہیں یہاں تک کہ تم توریت و انجیل کو قائم کرو

یعنی دور نبوی میں یہ کتب موجود تھیں تبھی ان کو قائم کرنے کی بات ہو رہی ہے – اہل کتاب کے علماء کو علم تھا کہ اصل توریت کیا ہے اصل انجیل کیا ہے لیکن اس کو قائم نہیں کر رہے تھے

قرآن میں ہے جنات کو انسانوں سے قبل تخلیق کیا یہ نہیں کہ یہ معدوم ہو گئے

عقل کی بات ہے کہ انبیاء وفات پا گئے لہذا ان کے حوالے دے کر یا معذب قوموں کے حوالے دے کر یہ ثابت کرنا کہ قبل سے مراد عدم وجود ہے جہالت ہے
کیونکہ ظاہر ہے ان کی وفات ہو گئی

قرآن سورہ حدید میں ہے
لا يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُولَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا}
تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے فی سبیل اللہ دیا ہے اور قتال کیا ہے وه (دوسروں کے) برابر نہیں،

یہاں ہے من قبل اور جنات والی آیت میں بھی من قبل ہے
والجان خلقناه من قبل من نار السموم ( 27 )
سورہ حجر

سورہ بقرہ ٨٩ میں ہے یہود پہلے (بحث میں) فتح پاتے
وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَ
اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ یہودی دور نبوی تک معدوم ہو گئے

مشرکین مکہ کے لئے کہا
لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ
سورہ ال عمران
یہ لوگ من قبل گمراہی میں تھے

اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ گمراہ لوگ مر گئے

قرآن کی قسم ؟

صحيح بخاري ميں ہے

مَنْ كَانَ حَالِفًا فَلْيَحْلِفْ بِاللَّهِ أَوْ لِيَصْمُتْ
جو شخص قسم کھانا چاہے، اسے چاہيے کہ وہ اللہ کي قسم کھائے يا خاموش رہے

الله کے نبي صلي الله عليہ وسلم نے فرمايا ہے کہ

خبردار الله کے سوا کسي کي قسم نہ کھاؤ – (بخاري : کتاب مناقب الانصار ، باب:ايام الجاہليہ

جس نے الله کے سوا کسي اور کي قسم کھائي اس نے شرک کيا 

(ابو داؤد : کتاب ايمان و النذور ، باب:في کراہيتہ الحلف بالاباء)

رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے منسوب غیر ثابت اقوال

مصنف عبد الرزاق ح 15948 اور مصنف ابن ابی شیبہ ح 12228 میں اس کو مجاہد تابعی نے حدیث نبوی کہا ہے لیکن یہ ارسال قابل قبول نہیں ہے
عَبْدُ الرَّزَّاقِ، – عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ حَلَفَ بِسُورَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ فَعَلَيْهِ بِكُلِّ آيَةٍ يَمِينُ صَبْرٍ، فَمَنْ شَاءَ بَرَّهُ، وَمَنْ شَاءَ فَجَرَهُ»

مجاہد نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جس نے قرآن کی سورت کی قسم کھائی اس پر اس کی ہر آیت کے بدلے قسم ہوئی

مجاہد صحابی نہیں ہیں لہذا یہاں سند میں انقطاع ہے

سنن الکبری البیہقی میں اس کو حسن بصری نے حدیث نبوی قرار دیا ہے
وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ الْأَرَدَسْتَانِيُّ، أنبأ أَبُو نَصْرٍ الْعِرَاقِيُّ، ثنا سُفْيَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، ثنا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ، ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ الْوَلِيدِ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَنْ حَلَفَ بِسُورَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ، فَعَلَيْهِ بِكُلِّ آيَةٍ يَمِينُ صَبْرٍ، مَنْ شَاءَ بَرَّ، وَمَنْ شَاءَ فَجَرَ “

الإبانة الكبرى لابن بطة میں بھی حسن بصری کا قول ہے کہ یہ حدیث نبوی ہے
حَدَّثَنِي أَبُو صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو بِشْرٍ، وَعَوْنٌ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ حَلَفَ بِسُورَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ، فَبِكُلِّ آيَةٍ مِنْهَا يَمِينٌ»
حسن بصری نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جس نے قرآن کی سورت کی قسم کھائی تو اس کی ہر آیت پر قسم کھا لی

یہ روایت منقطع ہے – حسن بصری صحابی نہیں ہیں

یعنی مجاہد اور حسن بصری نے اس کو مرسل روایت کیا ہے جو قابل قبول نہیں ہے

مجاہد اور حسن بصری مدلسین بھی ہیں ان کی روایت میں اس کا خطرہ بھی ہوتا ہے یہاں تو صحابی کا نام ہی سرے سے نہیں لیا گیا

ابن مسعود رضی الله عنہ سے منسوب اقوال

مصنف عبد الرازق 15946 ميں ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: «مَنْ كَفَرَ بِحَرْفٍ مِنَ الْقُرْآنِ فَقَدْ كَفَرَ بِهِ أَجْمَعَ، وَمَنْ حَلَفَ بِالْقُرْآنِ فَعَلَيْهِ بِكُلِّ آيَةٍ مِنْهُ يَمِينٌ»

ابن مسعود رضی الله عنہ نے کہا جس نے قرآن کے ایک حرف کا بھی کفر کیا اس نے تمام قرآن کا کفر کیا اور جس نے قرآن کی قسم کھائی اس پر اس کی ہر آیت کے بدلے قسم ہوئی

کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق
سند ميں إبراهيم النخعي ہيں جن کا کسي صحابي سے سماع نہيں ہے
وقال علي بن المديني إبراهيم النخعي لم يلق أحدا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم
امام علی نے کہا إبراهيم النخعي کی کسی صحابی سے ملاقات نہیں ہے

المحلی میں ہے
وَرُوِّينَا مِنْ طَرِيقِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ أَبِي سِنَانٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الْهُذَيْلِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْظَلَةَ قَالَ: أَتَيْت مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ السُّوقَ فَسَمِعَ رَجُلًا يَحْلِفُ بِسُورَةِ الْبَقَرَةِ؟ فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: أَمَا إنَّ عَلَيْهِ بِكُلِّ آيَةٍ يَمِينًا.
عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْظَلَةَ نے کہا میں ابن مسعود رضی الله عنہ کے ساتھ بازار میں نکلا پس ایک شخص کو سنا جس نے سورہ بقرہ کی قسم کھائی- پس ابن مسعود نے کہا اس پر اس کی ہر آیت کی قسم ہو گئی

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے
ابْنُ فُضَيْلٍ، وَوَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي سِنَانٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الْهُذَيْلِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: «مَنْ حَلَفَ بِسُورَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ لَقِيَ اللَّهَ بِعَدَدِ آيَاتِهَا خَطَايَا»

دونوں کی سند میں سعيد بن سنان البرجمي، أبو سنان الشيباني ہے
وقال أبو طالب: قال أحمد بن حنبل: أبو سنان، سعيد بن سنان، كان رجلاً صالحاً، ولم يكن يقيم الحديث. «الجرح والتعديل»
وقال ابن إبراهيم بن هانىء: سَمِعتُهُ يقول (يعني أحمد بن حنبل) : سعيد بن سنان، ليس حديثه بشيء. «بحر الدم»
امام احمد کے نزدیک حدیث میں کوئی چیز نہیں ہے

کتاب التفسير من سنن سعيد بن منصور میں یہی ابن مسعود کا قول کہا گیا ہے
حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، قَالَ: نا إِسْمَاعِيلُ بْنُ زَكَرِيَّا، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ (عَبْدِ اللَّهِ) بْنِ مُرَّة ، عَنْ أَبِي كَنِف ، قَالَ: بَيْنَا أَنَا أَمْشِي مَعَ ابْنِ مَسْعُودٍ فِي سُوقِ الرَّقيق، إِذْ سَمِعَ رَجُلًا يَحْلِفُ بِسُورَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ، فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: إِنَّ عَلَيْهِ لِكُلِّ آية منها يمينًا
اس کی سند میں أبو كَنِف العَبْدي، مجهول الحال ہے اس سے الشعبي اور عبد الله بن مرة نے روایت کیا ہے

یعنی ابن مسعود رضی الله عنہ سے یہ قول ثابت نہیں ہے البتہ جو اس کو ثابت سمجھتے ہیں ان کو یہ جان لینا چاہیے کہ اس کا مطلب ہے کہ ہر آیت کے بدلے کفارہ دینا ہو گا – یہ قول ابن قدامة المقدسي (المتوفى: 620هـ) کا کتاب حكاية المناظرة في القرآن مع بعض أهل البدعة میں ہے
وَقَالَ عبد الله بن مَسْعُود رَضِي الله عَنهُ من حلف بِالْقُرْآنِ فَعَلَيهِ بِكُل حرف كَفَّارَة

اور عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ نے کہا جس نے قرآن کی قسم کھائی اس پر اس کے ہر حرف کے بدلے کفارہ ہے 

ابن المنذر کی رائے

کتاب الإشراف على مذاهب العلماء از أبو بكر محمد بن إبراهيم بن المنذر النيسابوري (المتوفى: 319هـ) میں ہے

وقال أحمد: ما أعلم شيئاً يدفعه.
وقال أبو عبيد: يكون يميناً واحدة.
وقال النعمان: لا كفارة عليه.

احمد نے کہا میں نہیں جانتا کہ یہ قسم کیسے رد ہو گی
ابی عبید نے کہا یہ قسم ہو گی
ابو حنیفہ نے کہا اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے

احناف کی آراء

احناف متقدمین قرآن پر قسم کھانے کو غیر شرعی کہتے تھے –

کتاب المبسوط از محمد بن أحمد بن أبي سهل شمس الأئمة السرخسي (المتوفى: 483هـ) میں ہے
وَكَانَ بِشْرٌ الْمَرِيسِيُّ يَقُولُ فِي قَوْلِهِ وَالرَّحْمَنِ: إنْ أَرَادَ بِهِ اسْمَ اللَّهِ تَعَالَى فَهُوَ يَمِينٌ، وَإِنْ أَرَادَ بِهِ سُورَةَ الرَّحْمَنِ لَا يَكُونُ يَمِينًا؛ لِأَنَّهُ حَلِفٌ بِالْقُرْآنِ.
بِشْرٌ الْمَرِيسِيُّ نے کہا اپنے ایک قول میں الرحمان کی قسم کھائی – پس اگر اس سے اس کا ارادہ الله کے نام پر قسم کھانا تھا تو قسم واقع ہو گئی لیکن اگر ارادہ سوره الرحمان پر قسم کھانا تھا تو نہیں ہوئی کیونکہ یہ قرآن کی قسم ہوئی

یہی بات علاء الدين، أبو بكر بن مسعود بن أحمد الكاساني الحنفي (المتوفى: 587هـ) نے کتاب بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں بیان کی ہے
وَحُكِيَ عَنْ بِشْرٍ الْمَرِيسِيِّ فِيمَنْ قَالَ وَالرَّحْمَنِ أَنَّهُ إنْ قَصَدَ اسْمَ اللَّهِ تَعَالَى فَهُوَ حَالِفٌ وَإِنْ أَرَادَ بِهِ سُورَةَ الرَّحْمَنِ فَلَيْسَ بِحَالِفٍ فَكَأَنَّهُ حَلَفَ بِالْقُرْآنِ

احناف کی فقہ کی کتاب الهداية في شرح بداية المبتدي از المرغيناني (المتوفى: 593هـ) کے مطابق

ومن حلف بغير الله لم يكن حالفا كالنبي والكعبة ” لقوله عليه الصلاة والسلام: ” من كان منكم حالفا فليحلف بالله أو ليذر ” وكذا إذا حلف بالقرآن لأنه غير متعارف قال رضي الله عنه معناه أن يقول والنبي والقرآن أما لو قال أنا بريء منهما يكون يمينا لأن التبري منهما كفر.
جس نے غیر الله کی قسم لی جیسے نبی کی یا کعبہ کی تو یہ قسم نہ ہو گی جیسا کہ قول نبوی ہے کہ جو قسم لے وہ الله کی قسم لے .. اور اسی طرح قرآن کی قسم (شریعت میں ) متعارف نہیں ہے کہنے کا مقصد ہے کہ اگر کہے نبی کی قسم یا قرآن کی قسم (تو قسم نہ ہو گی لیکن) اگر کہے میں تم دونوں سے بريء ہوں تو قسم واقعہ ہو گی کیونکہ ان دونوں (قرآن اور نبی) سے برات کرنا کفر ہے

شرح صحیح البخاری میں ابن بطال نے لکھا
وقال أبو حنيفة: من حلف بالقرآن فلا كفارة عليه. وهو قول عطاء، وروى عن على ابن زياد عن مالك نحوه
ابو حنیفہ نے کہا جس نے قرآن کی قسم کھا لی اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے اوریہی قول عطا بن ابی رباح کا ہے اور ایسا ہی قول امام مالک سے على ابن زياد نے روایت کیا ہے

عمدة القاري شرح صحيح البخاري میں عینی نے لکھا

وَقَالَ أَبُو يُوسُف: من حلف بالرحمن فَحنث إِن أَرَادَ بالرحمن الله فَعَلَيهِ كَفَّارَة يَمِين، وَإِن أَرَادَ سُورَة الرَّحْمَن فَلَا كَفَّارَة
امام ابو یوسف نے کہا جس نے رحمان کی قسم لی اور پھر قسم ٹوٹی اور اس کا ارادہ رحمان سے الله تعالی تھا تو کفارہ ہے اور اگر مراد سوره الرحمان تھی تو کفارہ نہیں ہے

احناف متاخرین میں اس قول کو چھوڑ دیا گیا – صدر الدين عليّ بن عليّ ابن أبي العز الحنفي (المتوفى 792 هـ) نے کتاب التنبيه على مشكلات الهداية میں لکھا
قوله: (وكذا إذا حلف بالقرآن لأنه غير متعارف). ينبغي أن يكون الحلف بالقرآن يمينًا لأنه قد صار متعارفًا في هذا الزمان، كما هو مذهب الأئمة الثلاثة وغيرهم، ولا يلتفت إلى من علل كونه ليس يمينًا بأنه غير الله على طريقة المعتزلة وقولهم بخلقه

المرغيناني کا قول کہ کہ قرآن کی قسم غیر متعارف ہے- اب ہونا چاہیے کہ قرآن پر بھی قسم کھا لی جائے کہ یہ اب واقع ہو گی اس دور میں کیونکہ یہ اس زمانے میں متعارف ہو چکی ہے جیسا کہ تین ائمہ اور دیگر کا مذھب ہے اور اس کی علت کے قول کی طرف التفات مت کرو کہ یہ قسم نہ ہو گی کہ یہ طريقة المعتزلة ہے ان کے خلق قرآن کے قول پر

کتاب رد المحتار على الدر المختار میں ابن عابدين الدمشقي الحنفي (المتوفى: 1252هـ) لکھتے ہیں

وَكَذَا يُفِيدُ أَنَّهُ لَيْسَ مِنْ قَسَمٍ الْحَلِفُ بِغَيْرِ اللَّهِ تَعَالَى بَلْ هُوَ مِنْ قَسَمِ الصِّفَاتِ وَلِذَا عَلَّلَهُ بِأَنَّهُ غَيْرُ مُتَعَارَفٍ
یہ فائدہ دیتا ہے کہ قرآن کی قسم ان میں سے نہیں جو غیر الله کی قسم کھانا ہے بلکہ یہ قسم صفات پر ہے اور اس وجہ سے اس پر علت ہے کہ یہ غیر متعارف ہے

محمد ثناء الله کی تفسیر المظہری میں ہے
لو حلف بالقران يكون يمينا عند الائمة الثلاثة وعند ابى حنيفة لا يكون يمينا لعدم العرف
اگر قرآن کی قسم کھا لی تو ائمہ ثلاثہ کے نزدیک ہو گئی اور ابو حنیفہ کے نزدیک نہیں ہوئی کہ یہ جانی نہیں جاتی

ملا قاری کتاب مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں لکھتے ہیں
قَالَ صَاحِبُ الْهِدَايَةِ: وَكَذَا إِذَا حَلَفَ بِالْقُرْآنِ لِأَنَّهُ غَيْرُ مُتَعَارَفٍ يَعْنِي: وَمِنَ الْمُقَرَّرِ أَنَّ صِفَةَ اللَّهِ لَا تَكُونُ يَمِينًا إِذَا كَانَ الْحَلِفُ بِهَا مُتَعَارَفًا
صَاحِبُ الْهِدَايَةِ نے کہا کہ اگر قرآن کی قسم لی تو یہ غیر متعارف ہے یعنی مقرر یہ ہے کہ صفات الله کی
قسم نہیں لی جا تی کیونکہ قسم لینا (سب جانتے ہیں) مُتَعَارَفً ہے

ابو حنیفہ کے الفاظ کا مطلب ہے کہ قسم عربوں میں الله کی ذات کی ہی لی جاتی ہے وہی شریعت نے بتائی ہے – لہذا کلامی بحث سے اس میں غیر متعارف قسم شامل نہیں کی جا سکتی -خیال رہے کہ خلق قرآن کی بات کا آغاز معتزلہ نے کیا تھا

مالکی فقہاء کی رائے

مالکی فقہ میں امام مالک سے دو متخالف قول منسوب ہیں

کتاب التبصرہ از علي بن محمد الربعي، أبو الحسن، المعروف باللخمي (المتوفى: 478 هـ) کے مطابق
وقيل لابن القاسم فيمن حلف بالقرآن أو بالكتاب، أو بما أنزل الله تعالى: أترى ذلك كله (5) يمينًا؟ قال: أحسنُ ذلك والذي تكلمنا فيه: أن كل ما سمى من ذلك يمين؛ يريد: أنه اختلف فيه، وروى علي بن زياد، عن مالك إذا قال: لا والقرآن، لا والمصحف؛ ليس بيمين، ولا كفارة على من حلف به فحنث
اور ابن قاسم سے کہا گیا کہ کسی نے قرآن پر قسم کھائی یا جو الله نے نازل کیا اس پر – اپ اس کو کیسا دیکھتے ہیں ؟ انہوں نے کہا ٹھیک ہے اور ایسا ہم کہتے ہیں اس میں جو بھی ہے وہ قسم واقع ہوئی- اور علی بن زیاد کی روایت ہے کہ امام مالک نے کہا نہ قرآن کی قسم ہے نہ مصحف کی اس کی قسم نہیں ہے اور نہ اس پر کفارہ ہے اگر ٹوٹ جائے

کتاب التوضيح في شرح المختصر الفرعي لابن الحاجب از خليل بن إسحاق بن موسى، ضياء الدين الجندي المالكي المصري (المتوفى: 776هـ) کے مطابق

ولا فرق بني أني حلف بالقرآن، أو بسورة منه أو آية، رواه ابن حبيب، وفي العتبية عن ابن حبيب لزوم الكفارة في الحالف بالتوراة والإنجيل
اس میں کوئی فرق نہیں کہ قرآن کی قسم کھائی جائے یا کسی سورت کی یا آیت کی – ابن حبیب نے اس کو روایت کیا – اور العتبية میں ہے ابن حبیب سے ہے کہ اس پر کفارہ لازم ہے اگر کوئی توریت و انجیل کی قسم کھائے

متاخرین مالکیہ میں یہ قول مشہور ہے کہ کتاب اللہ کی قسم ہو جاتی ہے

(المسالِك في شرح مُوَطَّأ مالك از القاضي محمد بن عبد الله أبو بكر بن العربي المعافري الاشبيلي المالكي (المتوفى: 543هـ
میں ہے
ورَوَى ابنُ زيادٍ عن مالك في “العُتْبِيَّة”  فيمن حَلَفَ بالمُصْحَفِ أنّه لا كفَّارةَ عليه. قال ابنُ أبي زَيدٍ   “هي روايةٌ مُنْكَرَةٌ، والمعروفُ عن مالك غير هذا” وإن صحَّتْ فإنّها محمولةٌ على أنّه أرادَ الحالِفَ بذلك جِسْم المصحف دون المكتوب فيه
اور ابن زیاد نے امام مالک سے میں روایت کیا ہے کہ جس نے مصحف کی قسم لی اس پر کفارہ نہیں ہے- ابن ابی زید نے کہا یہ روایت منکر ہے اور معروف امام مالک سے ہے اس سے الگ ہے اور اگر اس کی صحت ہو تو اس کو محمول کیا جائے گا کہ جب حلف لینے والی کی اس سے مراد مصحف کا جسم ہو نہ کہ وہ جو اس میں لکھا ہے

شوافع کی رائے

کتاب البيان في مذهب الإمام الشافعي از أبو الحسين يحيى بن أبي الخير بن سالم العمراني اليمني الشافعي (المتوفى: 558هـ) کے مطابق

وقال أبو حنيفة وأصحابه: (إذا حلف بالعلم.. لم يكن يمينا، وإذا حلف بكلام الله أو بالقرآن.. لم يكن يمينا) . فمنهم من قال: لأن أبا حنيفة كان يقول: (القرآن مخلوق) .ومنهم من قال: لم يكن يقول: القرآن مخلوق، وإنما لم تجر العادة بالحلف به.
دليلنا: ما روى ابن عمر – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا -: أن النبي – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قال: «القرآن كلام الله، وليس بمخلوق» . وإذا كان غير مخلوق.. كان صفة من صفات الذات، كعظمة الله، وجلاله.
ولو حلف بالقرآن.. كان يمينا، سواء نوى اليمين، أو لم ينو أو أطلق، فكذلك هذا مثله. والأول أصح. هذا مذهبنا. وقال أبو حنيفة: (لا يكون يمينا؛ لأن حقوق الله تعالى طاعته، وذلك محدث) .

ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کا کہنا ہے کہ اگر الله کے علم کی قسم لی تو قسم نہیں ہو گی اور اگر کلام الله اور قرآن کی قسم لی تو بھی قسم نہیں ہو گی- پھر ان احناف میں سے کچھ نے کہا ابو حنیفہ کا کہنا تھا قرآن مخلوق ہے اور ان میں سے کچھ نے کہا : ابو حنیفہ نے نہیں کہا کہ قرآن مخلوق ہے بلکہ یہ قسم عموما نہیں لی جاتی-  ہم شوافع کی دلیل ہے جو ابن عمر نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا ہے قرآن الله کا کلام ہے مخلوق نہیں ہے اور جب کہا مخلوق نہیں ہے یہ  الله کی صفت میں سے ایک ہوا جیسے اس کی عظمت اور جلال –  اگر قرآن کی قسم کھا لی .. تو قسم ہو گئی … اور ابو حنیفہ کا کہنا ہے قسم نہیں ہوئی کیونکہ الله کے حقوق اس کی اطاعت ہے جو محدث ہے

راقم کہتا ہے یعنی امام ابو حنیفہ کا کہنا تھا کہ قسم کھانا مخلوق کا عمل ہے جو الله نے تخلیق کیا ہے  ایسا عمل محدث ہے    – مزید کہتا ہے الْقُرْآنُ كَلَامُ اللَّهِ وَلَيْسَ بِمَخْلُوقٍ کے الفاظ سے کوئی حدیث ثابت نہیں ہے

وہابیوں کی رائے

سعودي دائمي کميٹي اللجنة الدائمة کا فتوى رقم ‏(‏4950‏)‏‏ ہے
يجوز الحلف بآيات الله إذا كان قصد الحالف الحلف بالقرآن ؛ لأنه من كلام الله وكلامه سبحانه صفة من صفاته ، وأما إن أراد بآيات الله غير القرآن ، فإنه لا يجوز .
يہ جائز ہے کہ الله کي آيات کي قسم کھائي جائے اگر مقصد قرآن سے قسم لينا ہو کيونکہ يہ کلام الله ہے اور کلام الله کي صفات ميں سے ہے اور اگر مراد وہ نشانيياں ہيں جو آيات الله نہيں ہيں تو جائز نہيں ہے

يعني قرآن کي آيات کي قسم کھانا وہابييوں کے نزديک صحيح ہے کيونکہ يہ مسئلہ صفات سے ان کے نزديک جائز ہے

وہابي محمد بن صالح العثيمين فتوي ميں کہتے ہيں
وأما الحلف بالقرآن الكريم فإنه لا بأس به، لأن القرآن الكريم كلام الله – سبحانه وتعالى – تكلم الله به حقيقة بلفظه مريدًا لمعناه وهو – سبحانه وتعالى – موصوف بالكلام ، فعليه يكون الحلف بالقرآن الكريم حلفًا بصفة من صفات الله – سبحانه وتعالى – وذلك جائز.
قرآن کي قسم کھانا جائز ہے

امام بخاری کا موقف

امام بخاري نے صحيح ميں باب قائم کيا ہے بَابُ الحَلِفِ بِعِزَّةِ اللَّهِ وَصِفَاتِهِ وَكَلِمَاتِهِ باب قسم کھانا الله کي عزت کي اس کی صفات کی  اس کے کلام کی –  اس باب ميں بخاري نے حديث ذکر کي کہ جہنم ميں جب الله قدم رکھے گا تو وہ بولے گي قَطْ قَطْ وَعِزَّتِكَ بس بس تيري عزت کي قسم –  ليکن اس باب ميں کلام اللہ پر قسم کھانے کي کوئي حديث بخاري کو نہيں ملي ہے

عزت کی قسم کھانا عربوں میں معروف ہے- یہ فعلی صفت نہیں جیسا کہ کلام یا سماع یا بصر ہے – عزت شخصيت سے متعلق ہی ہے جیسے جلال و اکرام- بحث اس میں ہے کہ کلام الله کی قسم لی جا سکتی ہے یا نہیں

قرآن میں سورة الشعراء مين ہے ساحروں نے فرعون کی عزت کی قسم لی

قالوا بعزة فرعون إنا لنحن الغالبون

ایسا اکثر ہوتا ہے کہ صحیح میں باب ہے لیکن اس سے متعلق حدیث نہیں ملی اور اس کے تحت کچھ بیان نہیں ہوا- لہذا یہاں اس باب سے مطلقا یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ امام بخاری کی بھی یہی رائے تھی

ابن حزم کی رائے

کتاب المحلی میں ہے
فَهِيَ يَمِينٌ وَعَلَيْهِ كَفَّارَةٌ إنْ حَنِثَ؛ لِأَنَّ كَلَامَ اللَّهِ تَعَالَى هُوَ عِلْمُهُ
قرآن کی قسم ہے اس پر کفارہ ہے اگر ٹوٹ جائے کیونکہ یہ الله کا کلام ہے جو اس کا علم ہے

======================================================

شیعہ امامیہ کی رائے

کتاب الشيعة في الميزان از محمد جواد مغنية کے مطابق

 قال الشيعة الإمامية : لا يتحقق معنى اليمين إِلا إذا كان القسم باللّه وأسمائه الحسنى وصفاته الدالة عليه صراحة، فمن حلف بالقرآن والنبي والكعبة، وما إلى ذلك لا يكون القسم شرعياً، ولا يترتب على مخالفته إِثم ولا كفارة، ولا تُفصل به الدعاوى في المحاكمات، ووافقهم على ذلك أبو حنيفة. قال الشافعي ومالك وابن حنبل تنعقد اليمين إذا كان الحلف بالمصحف، وتفرد ابن حنبل عن الجميع بأنها تنعقد بالحلف بالنبي

شیعہ امامیہ کہتے ہیں : قسم حق نہیں ہو گی الا یہ کہ اگر قسم الله کی  یا اسماء الحسنی کی یا صفات جن پر صریح دلائل ہوں ان کی لی جائے- پس جس نے قرآن کی یا نبی کی یا کعبہ کی یا اسی طرح  کی قسم لی تو یہ شرعی قسم نہیں ہے اور نہ اس قسم کی مخالفت پر گناہ ہے یا کفارہ ہے … اور اس میں ان کی موافقت کی ہے ابو حنیفہ نے – شافعی ، مالک اور احمد بن حنبل کا کہنا ہے کہ قسم ہو جائے گی اگر مصحف کی قسم لی اور احمد بن حنبل کا تفرد ہے ان سب پر جن کا کہنا ہے کہ اگر نبی کی قسم لی تو ہو جائے گی

 


راقم کہتا ہے ایسی قسم کھانا جس کا حدیث میں حکم نہ ہو بدعت ہے  – یہ ایسا ہی ہے کہ ہم کو الله کا ذکر کرنا معلوم ہے لیکن اس طرح جس طرح رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے خبر دی  کسی اور طرح نہیں – اسی طرح ابو حنیفہ کا قول صواب ہے  کہ قرآن کی قسم کا حکم نہیں دیا گیا ہے یہ شریعت میں معلوم نہیں ہے

  قرآن یقینا محفوظ ہے

الله تعالی کتاب الله میں کہتے ہیں

﴿ هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلَى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّيَاطِينُ (221) تَنَزَّلُ عَلَى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ (222) يُلْقُونَ السَّمْعَ وَأَكْثَرُهُمْ كَاذِبُونَ

کیا ہم تم کو خبر دیں کہ شیاطین کس پر نازل ہوتے ہیں ؟ نازل ہوتے ہیں ہر گناہ گار جھوٹے پر جو سنتے ہیں اس میں بات ملاتے اور اکثر جھوٹے ہیں

کچھ افاک اثیم اس امت میں ایسے گزرے جو  شوم نصیبی کے چکر  میں ایسے الجھے کہ  کتاب الله کو پڑھتے تھے لیکن دل میں سے سلاخ کی طرح گزرتی تھی – ان کا دل مانتا نہ تھا کہ عرب کے بدوؤں پر رحمت الہی متوجہ ہوئی اور کوئی چیز عرش سے یہاں لق و دق صحرا میں  اتری بھی –  لھذا ان خالی خولوں میں ایک شاطر شیخ (ابلیس)  کا کنڑول ہوا اور نوک قلم  سے ان  بیمار اذہان کا غبار  صفحہ قرطاس پر منتقل ہوا- مدعآ یہ تھا کہ قرآن اصلی حالت میں نہیں لہذا بس روایات دیکھیں اور فرما دیا کہ قرآن بدل گیا لیکن اس میں جو تبدیلی بتائی اس سے نہ معنوں میں کوئی قرق پڑا نہ اس کی حکت بالغہ میں کوئی کمی آئی

قارئین کے لئے ان کے اس قسم کے التباس ذہنی کے کچھ نمونے پیش خدمت ہیں –

اب  یہاں ہم  اختلاف قرات کی روایات پر تبصرہ کریں گے

البراء بن عآزب رضی الله عنہ کی قرات کا اختلاف

 فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ غَيْرُ أُوْلِي ٱلضَّرَرِ

بخاری کی روایت ہے

بخاری ٤٩٩٠ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ البَرَاءِ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: {لاَ يَسْتَوِي} [النساء: 95] القَاعِدُونَ مِنَ المُؤْمِنِينَ {وَالمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ} [النساء: 95]، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ادْعُ لِي زَيْدًا وَلْيَجِئْ بِاللَّوْحِ وَالدَّوَاةِ وَالكَتِفِ – أَوِ الكَتِفِ وَالدَّوَاةِ -» ثُمَّ قَالَ: ” اكْتُبْ {لاَ يَسْتَوِي القَاعِدُونَ} [النساء: 95] ” وَخَلْفَ ظَهْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَمْرُو بْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ الأَعْمَى، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَمَا تَأْمُرُنِي، فَإِنِّي رَجُلٌ ضَرِيرُ البَصَرِ؟ فَنَزَلَتْ مَكَانَهَا: {لاَ يَسْتَوِي القَاعِدُونَ مِنَ المُؤْمِنِينَ} [النساء: 95] {وَالمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ} [النساء: 95] {غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ} [النساء: 95]

اسرائیل ، ابی اسحاق سے وہ البراء سے روایت کرتے ہیں کہ جب نازل ہوئی {لاَ يَسْتَوِي} [النساء: 95] القَاعِدُونَ مِنَ المُؤْمِنِينَ {وَالمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ} [النساء: 95]

اس میں اصل آیت سوره النساء کی ہے

 لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ 

لیکن اوپر روایت میں یہ آگے پیچھے ہے- اس سے بعض کو بہانہ ہاتھ آ گیا کہ قرآن میں آیات صحیح طور رقم نہیں ہوئیں

اس کا جواب ہے کہ بخاری ہی کی دوسری روایت میں ہے

بخاری ٢٨٣١ حَدَّثَنَا أَبُو الوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ البَرَاءَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: لَمَّا نَزَلَتْ: {لاَ يَسْتَوِي القَاعِدُونَ} [النساء: 95] مِنَ المُؤْمِنِينَ ” دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْدًا، فَجَاءَ بِكَتِفٍ فَكَتَبَهَا، وَشَكَا ابْنُ أُمِّ [ص:25] مَكْتُومٍ ضَرَارَتَهُ، فَنَزَلَتْ: {لاَ يَسْتَوِي القَاعِدُونَ مِنَ المُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ} [النساء: 95] “

شعبہ ، ابی اسحاق سے وہ البراء سے روایت کرتے ہیں کہ جب نازل ہوئی لاَ يَسْتَوِي القَاعِدُونَ مِنَ المُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ

یہاں روایت میں آیت اسی طرح ہے جیسی ہم تلاوت کرتے ہیں –اس کا مطلب ہے کہ آیت میں تقدم و تاخیر اصل میں راوی إسرائيل بن يونس بن أبى إسحاق السبيعى سے ہوئی ہے شعبہ کی سند میں نہیں ہے

ابو سعید الخدری، ابو ہریرہ  کی قرات میں الله الواحد الصمد؟

راویان حدیث جب روایت لکھتے تو اس میں بعض اوقات الفاظ اپنی پسند کے بھی لکھ دیتے تھے یہی وجہ ہے کہ حدیث کے الفاظ میں اضطراب بھی بعض اوقات ہو جاتا ہے اس بات سے لا علم بعض شیعوں اور انکے ہم نوا ملحدین  نے  مسئلہ اختلاف قرات سے جوڑنے کی کوشش کی

ابو سعید الخدری کی قرات

بخاری کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، وَالضَّحَّاكُ المَشْرِقِيُّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ: «أَيَعْجِزُ أَحَدُكُمْ أَنْ يَقْرَأَ ثُلُثَ القُرْآنِ فِي لَيْلَةٍ؟» فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَيْهِمْ وَقَالُوا: أَيُّنَا يُطِيقُ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ: «اللَّهُ الوَاحِدُ الصَّمَدُ ثُلُثُ القُرْآنِ»

الأَعْمَشُ کہتے ہیں ہم سے روایت کیا إِبْرَاهِيمُ اور َالضَّحَّاكُ المَشْرِقِيُّ نے وہ ابو سعید الخدری رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے کہا کیا تم میں سے کسی کو ہمت ہے کہ ہر رات ایک تہائی قرآن کی قرات کر  لے؟ پس یہ صحابہ پر سخت گذرا اور انہوں نے کہا اے رسول الله ہم میں کون ایسا کر سکتا ہے آپ نے فرمایا  الله الواحد الصمد ایک تہائی قرآن ہے

مسند ابو یعلی کی روایت ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي سَمِينَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الضَّحَّاكِ الْمَشْرِقِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، تَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ»

الأَعْمَشُ کہتے ہیں ہم سے روایت کیا  َالضَّحَّاكُ المَشْرِقِيُّ نے وہ ابو سعید الخدری رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں ابو سعید الخدری سے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہو قل ھو الله احد یہ ایک تہائی قرآن ہے

یعنی ایک ہی سند ہے لیکن الأَعْمَشُ سے اوپر راوی نے اس کو الگ الگ طرح روایت کیا جس کی وجہ سے بعض کو ابہام ہوا کہ آیات کسی اور طرح نازل ہوئی تھیں

واضح رہے کہ الأَعْمَشُ  خود بھی کوفہ کے شیعہ ہیں

ابو سعید الخدری رضی الله عنہ کی قرات میں قل ھو الله احد ہی تھا اس کی مثال موطا امام مالک کی روایت ہے

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، ” أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلا مِنَ اللَّيْلِ يَقْرَأُ: قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ يُرَدِّدُهَا، فَلَمَّا أَصْبَحَ حَدَّثَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَأَنَّ الرَّجُلَ يُقَلِّلُهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدَهِ إِنَّهَا لَتَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ “

ابو سعید الخدری رضی الله عنہ کہتے ہیں انہوں نے ایک شخص کو سنا جو رات کو قرات کرتا قل ھو الله احد …. رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا یہ ایک تہائی قرآن ہے

ان دلائل کی روشنی میں واضح ہے کہ ابو سعید الخدری کی قرات وہی تھی جو آج ہم کرتے ہیں

ابو ہریرہ کی قرات

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لَا يَزَالُونَ يَسْأَلُونَ حَتَّى يُقَالُ: هَذَا اللَّهُ خَلَقَنَا، فَمَنْ خَلَقَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ؟ ” قَالَ: فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: ” فَوَاللَّهِ، إِنِّي لَجَالِسٌ يَوْمًا إِذْ قَالَ لِي رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ: هَذَا اللَّهُ خَلَقَنَا، فَمَنْ خَلَقَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ؟ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَجَعَلْتُ أُصْبُعَيَّ فِي أُذُنَيَّ، ثُمَّ صِحْتُ، فَقُلْتُ: صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، اللَّهُ الْوَاحِدُ الصَّمَدُ، لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ

عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں وہ ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے کہ …. اہل عراق میں سے ایک شخص آیا اور کہنے لگا یہ الله ہے جس نے ہم کو خلق کیا ہے تو اسکو کس نے خلق کیا ؟ ابو ہریرہ نے کہا ….میں نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم سچ کہا الله الواحد الصمد لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ

اس کی سند میں عمر بن أبي سلمة بن عبد الرحمن الزهري  ہے جس کو ليس بالقوي قوی نہیں النسائي نے کہا اور ابن معين نے تضعیف کی ہے

اس کے مقابلے پر  موطا کی روایت ہے

وَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ حُنَيْنٍ، مَوْلَى آلِ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ، أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: أَقْبَلْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. «فَسَمِعَ رَجُلًا يَقْرَأُ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ» فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَجَبَتْ»، فَسَأَلْتُهُ: مَاذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ: «الْجَنَّةُ»

ابو ہریرہ کہتے ہیں میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ تھا کہ ایک شخص کو سنا جو قل ھو الله احد قرات کر رہا تھا رسول اللہ نے کہا واجب ہو گئی میں نے کہا کیا؟ فرمایا جنت

مسند ابی یعلی صحیح السند روایت جو ابو ہریرہ سے مروی ہے اس میں بھی قل ھو الله احد ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ صَالِحٍ الْأَزْدِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ كَيْسَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «احْشِدُوا فَإِنِّي سَأَقْرَأُ عَلَيْكُمْ ثُلُثَ الْقُرْآنِ»، فَحَشَدُوا فَقَرَأَ عَلَيْنَا {قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ} [الإخلاص: 1]، حَتَّى خَتَمَهَا، ثُمَّ دَخَلَ فَقَالَ بَعْضُنَا: قَدْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «سَأَقْرَأُ عَلَيْكُمْ ثُلُثَ الْقُرْآنِ» وَلَمْ يَقْرَأْ مَا هَذَا إِلَّا لِخَبَرٍ جَاءَهُ مِنَ السَّمَاءِ، قَالَ: ثُمَّ خَرَجَ إِلَيْنَا فَقَالَ: «إِنَّهَا ثُلُثُ الْقُرْآنِ»

الغرض قل ھو الله احد کو عام بول چال میں الله الواحد الصمد کہا جا رہا تھا جیسے آج ہم کہتے ہیں قل پڑھنا یا فاتحہ پڑھنا محدثین کے  دور میں چونکہ سورتوں کے نام نہیں تھے لہذا سورت کو چھوٹا کر کے بیان کر دیا جاتا تھا

ابی بن کعب اور عمر کا قرآن پر اختلاف تھا؟

بعض لوگوں نے عمر اور ابی بن کعب رضی الله عنہ کا اختلاف قرات  کے حوالے سے تذکرہ کیا اور اس میں اپنی طرف سے الفاظ بڑھا کر بات کو  اپنے مدعآ میں پیش کیا

حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الفَضْلِ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: أُبَيٌّ أَقْرَؤُنَا، وَإِنَّا لَنَدَعُ مِنْ لَحَنِ أُبَيٍّ، وَأُبَيٌّ يَقُولُ: «أَخَذْتُهُ مِنْ فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلاَ أَتْرُكُهُ لِشَيْءٍ»، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا} [البقرة: 106]

ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم کو یحییٰ بن سعید قطان نے خبر دی، انہیں سفیان ثوری نے، انہیں حبیب بن ابی ثابت نے، انہیں سعید بن جبیر نے اور ان سے   ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ   عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، ابی بن کعب ہمارے  قاری ہیں اور بے شک ہم لحن ابی (تلفظ) پر جاتے ہیں اور ابی کہتے ہیں کہ میں نے تو اس قرات کو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم  سے لیا  ہے، میں اس میں سے کوئی چیز چھوڑنے والا نہیں اور (جبکہ) اللہ نے خود فرمایا ہے کہ ماننسخ من آیۃ اوننسھا الآیۃ یعنی ہم جب کسی آیت کو منسوخ کر دیتے ہیں پھر یا تو اسے بھلا دیتے ہیں یا اس سے بہتر لاتے ہیں۔

اس روایت کا غلط ترجمہ آپ اس لنک پر دیکھ سکتے ہیں

http://www.urdumajlis.net/threads/صحیح-بخاری.26533/page-90

 جس میں ہے کہ

  لیکن ابی جہاں غلطی کرتے ہیں اس کو ہم چھوڑ دیتے ہیں (وہ بعض منسوخ التلاوۃ آیتوں کو بھی پڑھتے ہیں) اور کہتے ہیں

حالانکہ روایت میں یہ الفاظ  ” ابی جہاں غلطی کرتے ہیں ” سرے سے  ہیں ہی نہیں –

عربی لغت مجمع بحار الأنوار في غرائب التنزيل ولطائف الأخبار از جمال الدين، محمد طاهر بن علي الصديقي الهندي الفَتَّنِي الكجراتي (المتوفى: 986هـ) کے مطابق الفاظ

لندع من “لحن” أبي، هو الطريق واللغة، وأراد روايته وقراءته

لندع من “لحن” أبي (بن کعب) یہ طریقه ہے اور لغت ہے اور مقصد ہے انکی روایت اور قرات کے مطابق

دوسری روایت ہے

بخاری حدیث ٤٤٨١ حَدَّثَنا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَبِيبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: ” أَقْرَؤُنَا أُبَيٌّ، وَأَقْضَانَا عَلِيٌّ، وَإِنَّا لَنَدَعُ مِنْ قَوْلِ أُبَيٍّ، وَذَاكَ أَنَّ أُبَيًّا يَقُولُ: لاَ أَدَعُ شَيْئًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ “. وَقَدْ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا}

ابن عباس رضی الله عنہ کہتے ہیں عمر رضی الله عنہ نے کہا ابی بن کعب ہمارے لئے قرات کرتے ہیں اور علی ہمارے قاضی کے فیصلے کرتے ہیں اور ہم بلا شبہ ان ابی بن کعب  کے  قول (لحن)  پر جاتے ہیں  اور یہ ابی بن کعب کہتے ہیں میں کسی چیز کو نہیں چھوڑ سکتا جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنی ہو ، جبکہ الله نے کہا ہم نے جو آیت بھی منسوخ کی یا اسے بھلایا تو پھر اس سے اچھی آیت لائے۔

یعنی باوجود اس کے کہ ابی بن کعب منسوخ قرات بھی کرتے ہیں ہم انہی کی قرات لیتے ہیں اور اسکی دلیل ہے  کہ

عمر رضی الله عنہ نے رمضان میں نماز الترآویح کے لئے  مسلمانوں کو مسجد النبی میں ابی بن کعب رضی الله عنہ  کی قرات پر جمع کیا بخاری ہی کی حدیث ہے فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، ان سب پر  ابی بن کعب  کو (امام)  کیا

اس پر مزید یہ کہ عثمان رضی الله عنہ کے دور میں بھی جمع القرآن  کی کمیٹی میں  ابی بن کعب شامل تھے اس کا مطلب ہے کہ وہ منسوخ آیات بھی ہم قرات کرتے ہیں جن کے لئے عمر رضی الله عنہ کی رائے تھی کہ انکو چھوڑ سکتے ہیں

عبد الله ابن  مسعود کا اختلاف

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ خُمَيْرِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ أُمِرَ بِالْمَصَاحِفِ أَنْ تُغَيَّرَ قَالَ قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ مَنْ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يَغُلَّ مُصْحَفَهُ فَلْيَغُلَّهُ فَإِنَّ مَنْ غَلَّ شَيْئًا جَاءَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ ثُمَّ قَالَ قَرَأْتُ مِنْ فَمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعِينَ سُورَةً أَفَأَتْرُكُ مَا أَخَذْتُ مِنْ فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

خمير بن مالک کہتے ہيں کہ حکم ہوا کہ مصاحف قرآني کو بدل ديا جائے – ابن مسعود رضي اللہ عنہ نے کہا  تم ميں سے جو شخص اپنا نسخہ چھپا سکتا ہو، چھپالے، کيونکہ جو شخص جو چيز چھپائے گا، قيامت کے دن اس کے ساتھ ہي آئے گا، پھر فرمايا کہ ميں نے نبي (صلي اللہ عليہ وسلم) کے دہن مبارک سے ستر سورتيں پڑھي ہيں ، کيا ميں ان چيزوں کو چھوڑ دوں، جو ميں نے رسول الله (صلي اللہ عليہ وسلم)  سے حاصل کي ہيں

مسند ابو داود طیالسی میں ہے عبد الله ابن مسعود نے یہ بھی کہا

وَإِنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ لَصَبِيُّ مِنَ الصِّبْيَانِ

اور زید بن ثابت تو بچوں میں ایک بچہ تھا

گویا کہ جمع القران زید بن ثابت نے کیا حالانکہ اس میں ابی بن کعب بھی موجود ہیں

مسند احمد میں ہے ابن مسعود نے کہا

وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ لَهُ ذُؤَابَةٌ فِي الْكُتَّابِ

اور زید بن ثابت اس کے لئے  الکتاب گچھا  ہے

یعنی زید کے پس کا روگ نہیں ہے

ان تمام کی سند میں خمير بن مالك کا تفرد ہے ابن أبي حاتم کی کتاب الجرح والتعديل 3/391، کے مطابق یہ کوفی ہے حمصی نہیں ہے –

اس  خمير بن مالك  نام کے دو راوی ہیں ایک کوفی ہے اور ایک شامی ہے- کوفی سے صرف ابی اسحاق روایت کرتا ہے اور ابن مسعود بھی کوفہ میں تھے دوسرا شامی ہے جس سے صرف عَبد اللهِ بْن عِيسَى  روایت کرتا ہے بعض لوگوں کو اس میں اشتباہ ہوا اور انہوں نے اس کو شامی سمجھ کر روایت کو صحیح سمجھا- اصلا یہ خمير بن مالك کوفی ہے

اس کی وضاحت کتاب تجريد الأسماء والكنى المذكورة في كتاب المتفق والمفترق للخطيب البغدادي از القاضي أَبِي يَعْلَى البغدادي، الحنبلي (المتوفى: 580هـ) میں موجود ہے

خمير بن مالك کوفی مجھول ہے جس کا اتا پتا نہیں کون ہے لہذا روایت ضعیف ہے

مسند احمد میں ہے

حدثنا عفان حدثنا عبد الواحد حدثنا سليمان الأعمش عن شَقِيق بن سَلَمة قال: خطَبَنَا عبدُ الله بن مسعود فقال: لقد أخذتُ من في رسول الله – صلى الله عليه وسلم – بضعاً وسبعين سورة، وزيد بن ثابت غلام له ذؤابتان، يلعبُ مع الغِلْمان

شَقِيق بن سَلَمة کہتے ہیں عبد الله ابن مسعود نے خطبہ دیا بلاشبہ میں نے رسول الله سے ستر کے قریب سوره لیں اور زید بن ثابت تو لڑکا تھا جس کے (سر پر) دو (بالوں کے) لچھے تھے لڑکوں کے ساتھ کھیلتا رہتا تھا

یعنی زید بن ثابت کے سر کے بال تک صحیح طرح نہیں نکلے تھے جب ابن مسعود مدینہ میں انکو دیکھتے تھے

 اسکی  سند میں عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ  ہے جو مظبوط راوی نہیں ہے تهذيب التهذيب ج 6/ 434- 435 کے مطابق اس پر  يحيى القطان نے کلام کیا ہے

وقال صالح بن احمد عن علي بن المديني: سمعت يحي بن سعيد يقول: ما رأيت عبد الواحد بن زياد يطلب حديثاً قط بالبصرة ولا بالكوفة، وكنا نجلس على بابه يوم الجمعة بعد الصلاة أذاكره حديث الأعمش فلا نعرف منه حرفاً

صالح بن احمد عن علي بن المديني کہتے ہیں میں نے یحیی کو سنا انہوں نے کہا میں نے کبھی بھی عبد الواحد کو بصرہ یا کوفہ میں حدیث طلب کرتے نہ دیکھا اور ہم  جمعہ کے بعد دروازے پر بیٹھے تھے کہ اس نے الاعمش کی حدیث ذکر کی جس کا ایک حرف بھی ہمیں پتہ نہ تھا

زید بن ثابت انصاری رضی الله عنہ ہجرت سے ١٢ سال قبل پیدا ہوے – ابن مسعود رضی الله عنہ حبشہ ہجرت کر گئے اور وہاں سے جنگ بدر سے پہلے  مدینہ پہنچے تو اس وقت تک زید بن ثابت ١٣ یا ١٤ سال کے تھے جو اسلام میں  لڑکوں کی بلوغت  کی  عمر   ہے  ظاہر ١٣ یا ١٤ سال کے لڑکے کے سر پر بالوں کے دو لچھے نہیں ہوتے نہ وہ بچہ سمجھا جاتا ہے

ترمذی ح ٣١٠٤  میں ہے

قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَأَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ، كَرِهَ لِزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ نَسْخَ المَصَاحِفِ … وَاللَّهِ لَقَدْ أَسْلَمْتُ  وَإِنَّهُ لَفِي صُلْبِ رَجُلٍ كَافِرٍ يُرِيدُ زيد بن ثَابت

امام زہری نے کہا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ نے کہا کہ عبد الله ابن مسعود زید بن ثابت سے کراہت کرتے کہ مصاحف مٹا دیے گئے … اور الله کی قسم میں ایمان لایا جب یہ زید تو ایک کافر کے صلب میں تھا

لیکن مصاحف تلف کرنا عثمان رضی الله عنہ خلیفہ وقت کا حکم تھا نہ کہ زید رضی الله عنہ کا- سندا یہ بات منقطع ہے

عبيد الله بن عبد الله بن عتبة کا سماع عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ سے نہیں ہے

بخاری حدیث ٥٠٠٠ میں ہے

حدثنا عمر بن حفص،‏‏‏‏ حدثنا أبي،‏‏‏‏ حدثنا الأعمش،‏‏‏‏ حدثنا شقيق بن سلمة،‏‏‏‏ قال خطبنا عبد الله فقال والله لقد أخذت من في رسول الله صلى الله عليه وسلم بضعا وسبعين سورة،‏‏‏‏ والله لقد علم أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم أني من أعلمهم بكتاب الله وما أنا بخيرهم‏.‏ قال شقيق فجلست في الحلق أسمع ما يقولون فما سمعت رادا يقول غير ذلك‏.

ہم سے عمرو بن حفص نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے شقیق بن سلمہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے ہمیں خطبہ دیا اور کہا کہ اللہ کی قسم میں نے کچھ اوپر ستر سورتیں خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سن کر حاصل کی ہیں۔ اللہ کی قسم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ میں ان سب سے زیادہ قرآن مجید کا جاننے والا ہوں حالانکہ میں ان سے بہتر نہیں ہوں۔ شقیق نے بیان کیا کہ پھر میں مجلس میں بیٹھا تاکہ صحابہ کی رائے سن سکوں کہ وہ کیا کہتے ہیں لیکن میں نے کسی سے اس بات کی تردید نہیں سنی۔

یہ روایت صحیح کی ہے اس میں وہ طنزیہ جملے نہیں جو زید بن ثابت رضی الله عنہ کے لئے راویوں نے نقل کیے ہیں نہ اس میں قرآن کے مصاحف چھپانے کا ذکر ہے

سوره اللیل کی قرات

سوره اللیل میں  وَ الذَّكَرِ وَالْأُنثَىٰ ہے یا  وَ ما خلق الذَّكَرِ وَالْأُنثَىٰ ہے؟

بعض احادیث میں بیان ہوا ہے کہ علقمہ شام گئے وہاں ابو الدرداء رضی الله عنہ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے پوچھا کہ ابن مسعود کی قرات سناو  پھر کہا سوره و اللیل سناو

كَيْفَ كَانَ يَقْرَأُ: {وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى} [الليل: 1] ؟» ، قُلْتُ     وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى

انہوں نے اس طرح پڑھا تو  ابو الدرداء نے کہا واللہ میں نے بھی ایسا ہی رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا تھا

مُغِيرَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ  کی سند سے مسند احمد ،صحیح بخاری ، میں ہے

  الْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ کی سند سے مسند احمد ، ترمذی، صحیح بخاری  میں ہے

إس میں إبراهيم بن يزيد النخعي کآ تفرد ہے – إبراهيم بن يزيد النخعي كا سماع محدثين  کے نزدیک اصحاب عبد الله سے ہے لیکن بعض اوقات یہ تدلیس بھی کرتے ہیں جن میں وہ روایات بھی بیان کرتے ہیں جو اصحاب عبد الله سے نہیں سنی ہوتیں

کتاب موسوعة المعلمي اليماني وأثره في علم الحديث المسماة از عبد الرحمن بن يحي المعلمي اليماني کے مطابق

وإبراهيم أيضًا يُدخل بينه وبين أصحاب عبد الله مثل: هُني بن نُويرة، وسهم بن منجاب، وخزامة الطائي، وربما دلّس عنهم

إبراهيم بن يزيد النخعي اپنے اور اصحاب عبد الله کے درمیان راوی  مثلا هُني بن نُويرة، وسهم بن منجاب، وخزامة الطائي  ڈالتے ہیں اور یہ تدلیس بھی کرتے تھے

کتاب خلاصة تذهيب تهذيب الكمال في أسماء الرجال از أحمد بن عبد الله بن أبي الخير بن عبد العليم الخزرجي الأنصاري الساعدي اليمني، صفي الدين (المتوفى: بعد 923هـ) کے مطابق

إِبْرَاهِيم بن يزِيد بن قيس بن الْأسود النَّخعِيّ أَبُو عمرَان الْكُوفِي الْفَقِيه يُرْسل كثيرا عَن عَلْقَمَة

راقم کے خیال میں شیخین سے یہاں تسامح ہوا اور یہ روایت صحیحین میں لکھ دی جبکہ یہ منقطع تھی

یہ بات داود بْنِ أَبِي هِنْدٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ کی سند سے مسند احمد، صحیح مسلم  میں ہے

أبو بكر ابن الأنباري (تفسیر قرطبی) أبو بكر ابن العربي (أحكام القرآن)، أبو حيان (البحر)  میں اس قرات کو شاذ کہا گیا ہے

اس روایت پر سوال اٹھتا ہے کہ

هشام بن عمار اور ابن ذکوان کی سند سے جو قرات ملی ہے جس کی سند ابو الدرداء تک جاتی ہے نہ اس میں یہ قرات ہے نہ ابن مسعود کی کسی قرات میں یہ ہے تو یہ بات کیسے ثابت کہی جا سکتی ہے

https://audio.islamweb.net/audio/index.php?page=souraview&qid=776&rid=26

https://audio.islamweb.net/audio/index.php?page=audioinfo&audioid=91047

اہل تشیع کی رائے

  تفسير نور الثقلين – الشيخ الحويزي – ج 5 – ص 589کے مطابق

في جوامع الجامع وفي قراءة النبي صلى الله عليه وآله وعلي عليه السلام وابن عباس ” والذكر والأنثى ” . 7 – في مجمع البيان في الشواذ قراءة النبي صلى الله عليه وآله وقراءة علي بن أبي طالب عليه السلام ” والنهار إذا تجلى وخلق الذكر والأنثى ” بغير ” ما ” روى ذلك عن أبي عبد الله عليه السلام . 8 – في كتاب المناقب لابن شهرآشوب الباقر عليه السلام في قوله : ” وما خلق الذكر والأنثى ” فالذكر أمير المؤمنين والأنثى فاطمة عليهما السلام ان سعيكم لشتى لمختلف فأما من اعطى واتقى وصدق بالحسنى بقوته وصام حتى وفى بنذره وتصدق بخاتمه وهو راكع ، وآثر المقداد بالدينار على نفسه ، قال : ” وصدق بالحسنى ” وهي الجنة والثواب من الله بنفسه فسنيسره لذلك بأن جعله إماما في القبر وقدوة بالأئمة يسره الله لليسرى .

اور جوامع الجامع  میں ہے اور نبی صلی الله علیہ و الہ اور علی علیہ السلام اور ابن عباس کی قرات میں ہے والذكر والأنثى – اور مجمع البيان في الشواذ قراءة النبي صلى الله عليه وآله وقراءة علي بن أبي طالب عليه السلام میں ہے والنهار إذا تجلى وخلق الذكر والأنثى ، لفظ ما کے بغیر یہ امام ابی عبد الله سے روایت کیا گیا ہے اور کتاب المناقب لابن شهرآشوب میں امام باقر کا قول ہے وما خلق الذكر والأنثى پس اس میں الذکر (مرد) امیر المومنین  ہیں اور  والأنثى  فاطمہ عليهما السلام ہیں  

یعنی اہل تشیع کی روایات کے مطابق قرات میں وخلق الذكر والأنثى تھا دوسری روایت کے مطابق والذكر والأنثى  تھا اور تیسری کے مطابق وما خلق الذكر والأنثى  تھا

صحابہ کی تشریحات

دور صحابہ میں تفسیر کی کتب اور مصاحف الگ الگ نہیں تھے بلکہ تشریحی و تفسیری آراء کو مصحف میں ہی لکھا جا رہا تھا اور اس میں اختلاف بھی ہو سکتا ہے – اسی طرح کی کچھ روایات ہیں جن سے بعض کو اشتباہ ہوا کہ گویا یہ اضافی تشریحی الفاظ قرات کا حصہ ہیں مثلا

في مواسم الحج

صحيح بخاري ميں ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: ” كَانَتْ عُكَاظٌ، وَمَجَنَّةُ، وَذُو المَجَازِ، أَسْوَاقًا فِي الجَاهِلِيَّةِ، فَلَمَّا كَانَ الإِسْلاَمُ، فَكَأَنَّهُمْ تَأَثَّمُوا فِيهِ، فَنَزَلَتْ: {لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ} [البقرة: 198] فِي مَوَاسِمِ الحَجِّ ” قَرَأَهَا ابْنُ عَبَّاسٍ

ابن عباس رضی الله عنہ نے قرآن کی آیت لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ پڑھی تو اس کے بعد فی مواسم الحج بھی پڑھا

سنن ابو داود میں راوی عُبيد بن عُمَيرٍ  کہتا ہے یہ قرات تھی –

 قال: فحدَّثني عُبيد بن عُمَيرٍ أنه كان يقرؤها في المصحف

عُبيد بن عُمَيرٍ نے مجھ سے بیان کیا کہ ابن عباس اس کو مصحف میں قرات کرتے تھے

  شعَيب الأرنؤوط  سنن ابو داود کی روایت کے الفاظ  پر تعلیق میں  لکھتے ہیں

وهذا إسناد ضعيف. عبيد بن عمير: هو مولى ابن عباس فيما قاله أحمد بن صالح المصري الحافظ، وأيده المزي في ترجمة عبيد بن عمير مولى ابن عباس من “تهذيب الكمال” 19/ 226 – 227، لأن ابن أبي ذئب – وهو محمد بن عبد الرحمن بن المغيرة العامري – يقول في آخر الحديث: “فحدثني عبيد بن عمير”، ولم يدرك ابن أبي ذئب عبيدَ بن عمير الليثي الثقة. وعبيد بن عمير مولى ابن عباس مجهول

اس کی اسناد ضعیف ہیں عبيد بن عمير … مجھول ہے

الذھبی میزان میں لکھتے ہیں

عبيد بن عمير [د] .  عن ابن عباس.  لا يعرف.  تفرد عنه ابن أبي ذئب

عبيد بن عمير ، ابن عباس سے روایت کرتا ہے میں نہیں جانتا اس سے روایت کرنے میں ابن أبي ذئب کا تفرد ہے

کتاب   تجريد الأسماء والكنى المذكورة في كتاب المتفق والمفترق للخطيب البغدادي از القاضي أَبِي يَعْلَى البغدادي (المتوفى: 580هـ) کہتے ہیں

قال عبد الله بن سليمان: ليس هذا عبيد بن عمير الليثي، هذا عبيد بن عمير مولى أم الفضل، ويقال: مولى ابن عباس

عبد الله بن سلیمان نے کہا یہ عبيد بن عمير الليثي نہیں ہے یہ عبيد بن عمير أم الفضل اور کہا جاتا ہے  مولى ابن عباس ہے

وَرَاءَهُمْ یا أَمَامَهُمْ

اسی طرح کے تشریحی الفاظ سوره الکھف کے لئے بھی ہیں

{وَكَانَ وَرَاءَهُمْ} [الكهف: 79] وَكَانَ أَمَامَهُمْ – قَرَأَهَا ابْنُ عَبَّاسٍ: أَمَامَهُمْ مَلِكٌ

اور ان کے پیچھے – اور انکے آگے اس کو قرات  کیا ابن عباس نے

وَكَانَ وَرَاءَهُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا

اور ان کے پیچھے بادشاہ تھا جو ہر سفینہ کو غصب کر لیتا

راوی کو اشتباہ ہوا یہ قرات ہے جبکہ یہ شرح ہے – موسی و خضر کشتی میں تھے کشتی آگے جا رہی تھی لیکن الفاظ ہیں وَرَاءَهُمْ  یعنی ان کے پیچھے-  وَرَاءَهُمْ   قریش کی عربی ہے  جس میں قرآن نازل ہوا

مثلا قرآن میں ہے

مِّن وَرَآئِهِ جَهَنَّمُ وَيُسْقَى مِن مَّآءٍ صَدِيدٍ

 الأخفش کتاب معانى القرآن ل میں لکھتے ہیں

وقال {مِّن وَرَآئِهِ} اي: من أمامه.

اور ان کے پیچھے جہنم  ہے … اور کہا مِّن وَرَآئِهِ یعنی ان کے آگے

یعنی قریش کی زبان میں وَرَاءَهُمْ    کا مفھوم أَمَامَهُمْ تھا

الصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ

یہی معاملہ

238. حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ
سب نمازوں کی حفاظت کیا کرو اور (خاص کر) درمیانی نماز کی اور الله کے لیے ادب سے کھڑے رہا کرو

میں بھی ہے کہ ام المومنین رضی الله عنہا نے اس میں تشریحی اضافہ کیا کیونکہ تفسیر الگ نہیں تھیں اور مصحف لوگوں کا ذاتی نسخہ ہوتا تھا عام پڑھنے کے لئے نہیں تھا

769- حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، قَالَ: نا أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ: نا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ لَحْن الْقُرْآنِ: {إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئُونَ} (1) ، {وَالْمُقِيمِينَ الصَّلَاةَ وَالْمُؤْتُونَ الزكاة} (2) ، وَ (إِنَّ هَذَانِ لَسَاحِرَانِ) (3) ، فَقَالَتْ: يَا ابْنَ أُخْتِي، هَذَا عَمَلُ الكُتَّاب، أخطأوا في الكِتَاب (4)

عربی کی غلطیاں؟

عروہ کہتے ہیں کہ ہم نے عائشہ رضی الله عنہا  سے ان آیات کے بارے میں پوچھا

{إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئُونَ} (1) ، {وَالْمُقِيمِينَ الصَّلَاةَ وَالْمُؤْتُونَ الزكاة} (2) ، اوَر (إِنَّ هَذَانِ لَسَاحِرَانِ) (3)

تو انہوں نے جواب دیا اے میری بہن کے بیٹے! یہی تو کاتبین کرتے ہیں کہ لکھتے ہوئے خطا کر دیتے ہیں

راقم کہتا ہے یہ روایت صحیح نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ عربی صحیح ہے تو اس پر کوئی اعتراض کیسا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ آخری عمر میں عراق گئے اور وہاں ان پر بعض محدثین کے مطابق اختلاط کا اثر تھا

شیعہ عالم کتاب مراجعات قرآنية أسئلة شبهات.. وردود تأليف السيد رياض الحكيم کہتے ہیں
س 504 ـ لماذا لم ينصب اسم (إِنْ) فيقول: إنّ هذين لساحران، وليس: ((إِنْ هَذَانِ لَسَاحِرَانِ))؟
ج ـ أولاً: ان هذا ليس غلطاً، بل قد يكون جرياً على لغة (كنانة) الذين يثبتون ألف المثنى في كل الأحوال فيقولون إنّ الرجلان نائمان قال بعض شعرائهم:

السيد رياض الحكيم نے اس بات کو رد کیا کہ اس آیت میں عربی کی کوئی غلطی ہے

شیعہ عالم علي الكوراني کتاب تدوين القرآن میں اسی روایت کا ذکر کر کے کہتے ہیں
ما وردت روايات اخرى تدعي ان الكتاب عندما جمعوا القرآن اشتبهوا في الكتابة ودخلت اغلاطهم في نسخة القرآن عروة , عن ابيه قال : سالت عائشة رضي اللّه عنها عن لحن القرآن ان هذان لساحران وقوله ان الذين آمنوا والذين هادوا والصابئون والنصارى والمقيمين الصلاة والمؤتون الزكاة واشباه ذلك ؟ فقالت : اي بني ان الكتاب يخطئون ) وهي روايات مرفوضة
یہ روایات مسترد شدہ ہیں

یعنی یہ روایت اہل تشیع کے علماء خود قبول نہیں کرتے

الحمد للہ اہل تشیع خود کہتے ہیں کہ وہ قرآن کو کامل مانتے ہیں لیکن ان کےبعض جہلاء ابھی تک ٥٠٠ ہجری میں زندہ ہیں

بلاگ طویل ہوا لیکن سرے  دست یہ کافی ہے

الله ہم سب کو  کتاب الله پر ایمان پر قائم رکھے

 

دين میں عقل و فکر کی اہمیت

 کیا عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے ؟

اسلام کو دین فطرت کہا جاتا ہے – نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

ما مِنْ موْلودٍ إلا يولَدُ على الفِطرةِ

ہر پیدا ہونے والا فطرت پر پیدا ہوتا ہے

فطرت انسان میں  جبلی قوت دی گئی ہیں ان میں حواس خمسہ رکھے گئے ہیں – جس میں قرآن میں بار بار سمع و الابصار کا ذکر ہے کہ مشرک اس کو استمعال نہیں کرتے اور اس کی وجہ قرآن کہتا ہے کہ یہ اندھے نہیں ان کے دل اندھے ہیں- یعنی جو لوگ الله کی دی ہوئی نعمتوں کو حق کی تلاش کے لئے استمعال نہیں کرتے ان کے قلوب پر زنگ آ جاتا ہے وہ اگرچہ آنکھوں سے بینا ہیں لیکن ان میں عقل و سمجھ مفقود ہے لہذا قرآن میں الله تبارک و تعالی کہتے ہیں

فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ   النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ

یہ الله کی (دی ہوئی) فطرت ہے جس پر اس نے انسانوں کو خلق کیا ہے ، الله کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں

یعنی ہر انسان اس فطرت پر پیدا ہو رہا ہے جس میں تعقل و فکر کر کے وہ الله کو پا سکتا ہے

هود عليه السلام نے اپنی قوم سے کہا جب انکی قوم نے گمراہی پر اصرار کیا

قَالَ قَدْ وَقَعَ عَلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ رِجْسٌ وَغَضَبٌ

 بلا شبہ تم پر تمہارے رب کی طرف سے رجس و غضب واقع ہو چکا ہے

سوره الانعام میں کہا

فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ كَذَلِكَ يَجْعَلُ اللَّهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ

پس الله جس کو ہدایت دینے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھولتا ہے اور جس کو گمراہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے اس کے سینے کو گھٹتا ہوا تنگ کرتا ہے  گویا کہ وہ آسمان کی طرف جا رہا ہو – اس طرح الله گندگی ڈالتا ہے ان پر جو ایمان نہیں لاتے

سوره یونس میں کہا

وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تُؤْمِنَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ (100)

اور نفس کے لئے نہیں ہے کہ ایمان لائے سوائے الله کے اذن سے اور وہ گندگی ڈالتا ہے ان پر جو عقل سے کام نہیں لیتے

یعنی عقل استمعال نہ کرنے کی وجہ سے جب و فطرت سے ہٹے تو الله نے ان پر رجس یا گندگی ڈال دی جس نے ان کو قبر پرستی اصنام پرستی اکابر پرستی کی لعنت میں مبتلا کیا اور وہ اس کے جواز کے فتوے دینے لگے اس میں کتاب الله اور حدیث کا درس دینے والے بھی تھے لیکن الله نے اہل کتاب کے علماء کے لئے کہا کہ ان پر گدھوں کی طرح کتابیں لدھی ہیں ان کو پڑھتے ہیں لیکن رجس سے نہیں نکل پا رہے –  عقل و فراست ہی تفقہ فی الدین ہے کہ روایت کو آگے کرنے حدثنا و اخبرنا کہنے والے تو بہت ہیں لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے مطابق اس  میں تفقہ ہر ایک کے بس کا روگ نہیں ہے

عقل کتنی بے کار شی ہے اس پر ارشد کمال کتاب عذاب قبر ص ١٨٢ میں لکھتے ہیں

aqel-baykar

یقینا  رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا فہم و فراست سب سے بلند ہے لیکن کیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے عمر رضی الله عنہ  کی آراء یا سلمان فارسی کی آراء یا اذان  کے سلسلے میں اصحاب رسول کی آراء نہیں سنیں- پھر ایک حدیث ضعیف ہو یا موضوع  ہو اور اپ لوگ مسلسل اصرار کرتے رہیں کہ یہی فہم دین ہے تو یہ سب ہم ماننے سے رہے

صحیح بخاری تک کی احادیث پر محدثین اعتراض کرتے رہے ہیں مثلا کتاب التوحید صحیح بخاری کی معراج کی روایت ہے جس کا راوی شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ  ہے

الذھبی میزان میں کہتے ہیں

ووهاه ابن حزم لاجل حديثه في الاسراء

ابن حزم نے اسکو ضعیف قرار دیا  ہے اس کی حدیث معراج کی وجہ سے

تاریخ الاسلام میں الذھبی کہتے ہیں

وَهُوَ رَاوِي حَدِيثَ الْمِعْرَاجِ وَانْفَرَدَ فِيهِ بِأَلْفَاظٍ غَرِيبَةٍ

اور یہ راوی ہے حدیث معراج کا جس میں یہ منفرد ہے اور اس کے الفاظ عجیب و غریب ہیں

سیر الاعلام النبلاء  میں الذھبی  کہتے ہیں

وَفِي حَدِيْثِ الإِسْرَاءِ مِنْ طَرِيْقِه أَلْفَاظٌ، لَمْ يُتَابَعْ عَلَيْهَا، وَذَلِكَ فِي صَحِيْحِ البُخَارِيِّ

اور معراج والی حدیث میں جو الفاظ ہیں انکی متابعت کوئی نہیں کرتا اور یہ صحیح البخاری میں ہے

یعنی غرابت کی وجہ سے اس روایت کو علماء رد کر رہے ہیں

اسی طرح صحیح بخاری کی روایت ہے

حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلاَلٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «يَكْشِفُ رَبُّنَا عَنْ سَاقِهِ، فَيَسْجُدُ لَهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ، فَيَبْقَى كُلُّ مَنْ كَانَ يَسْجُدُ فِي الدُّنْيَا رِيَاءً وَسُمْعَةً، فَيَذْهَبُ لِيَسْجُدَ، فَيَعُودُ ظَهْرُهُ طَبَقًا وَاحِدًا»

سعید بن ابی ہلال روایت کرتا ہے زید بن اسلم سے وہ عطا سے وہ ابی سعید سے کہ انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو سنا انہوں نے فرمایا ہمارا رب اپنی پنڈلی ظاہر کرے گا

قرآن میں آیت يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ [القلم: 42]  جس روز پنڈلی کھل جائے گی –  عربی زبان کے علماء کے مطابق یہ الفاظ شدت وقوعہ میں بولے جاتے ہیں کہ محشر میں سختی ہو گی-  مصطفی البغاء تعلیق صحیح بخاری میں لکھتے ہیں

هذا الكلام عبارة عن شدة الأمر يوم القيامة للحساب والجزاء والعرب تقول لمن وقع في أمر يحتاج إلى اجتهاد ومعاناة شمر عن ساقه وتقول للحرب إذا اشتدت كشفت عن ساقها

یہ کلام عبارت ہے روز محشر کی شدت سے حساب اور جزا  کی وجہ سے اور عرب ایسا کہتے ہیں اس کام کے لئے جس میں اجتہاد ہو…  اور جنگ کے لئے کہتے ہیں جب یہ شدت اختیار کرے گی تو  پنڈلی کھل جائے گی

لیکن بعض علماء نے اس روایت کو صحیح سمجھتے ہوئے پنڈلی کو الله کی صفت ذات بنا دیا

ابن الملقن سراج الدين أبو حفص عمر بن علي بن أحمد الشافعي المصري (المتوفى: 804هـ) نے کتاب  التوضيح لشرح الجامع الصحيح میں لکھا

هذا يدل -والله أعلم- أن الله تعالى عرف المؤمنين على ألسنة الرسل يوم القيامة أو على ألسنة الملائكة المتلقين لهم بالبشرى، أن الله تعالى قد جعل لكم علامة تجليه لكم الساق

اور یہ دلیل ہے کہ و الله اعلم … کہ الله تعالی   تمہارے لئے ایک علامت کرے گا کہ تجلی  کرے گا پنڈلی کی

ابن جوزی اپنی کتاب دفع  شبه ألتشبھة  میں لکھتے ہیں کہ قاضی ابو یعلی نے اس قسم کی روایات سے یہ نکالا کہ الله کی پنڈلی اس کی صفت ذات ہے

ابن جوزی -ساق

یہاں تک کہ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں

وَوَقَعَ فِي هَذَا الْمَوْضِعِ يَكْشِفُ رَبُّنَا عَنْ سَاقِهِ وَهُوَ مِنْ رِوَايَةِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ فَأَخْرَجَهَا الْإِسْمَاعِيلِيُّ كَذَلِكَ ثُمَّ قَالَ فِي قَوْلِهِ عَنْ سَاقِهِ نَكِرَةٌ ثُمَّ أَخْرَجَهُ مِنْ طَرِيقِ حَفْصِ بْنِ مَيْسَرَةَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ بِلَفْظ يكْشف عَن سَاق قَالَ الْإِسْمَاعِيلِيُّ هَذِهِ أَصَحُّ لِمُوَافَقَتِهَا لَفْظَ الْقُرْآنِ فِي الْجُمْلَةِ لَا يُظَنُّ أَنَّ اللَّهَ ذُو أَعْضَاءٍ وَجَوَارِحٍ لِمَا فِي ذَلِكَ مِنْ مُشَابَهَةِ الْمَخْلُوقِينَ تَعَالَى اللَّهُ عَنْ ذَلِكَ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْء

اور صحیح بخاری میں اس مقام پر ہے يَكْشِفُ رَبُّنَا عَنْ سَاقِهِ کہ ہمارا رب اپنی پنڈلی کو کھولے گا اور یہ روایت ہے سعید بن ابی ہلال کی عن زید بن اسلم کی سند سے پس اس کی تخریج کی ہے الْإِسْمَاعِيلِيُّ نے اسی طرح پھر کہا ہے اپنی پنڈلی پر یہ نَكِرَةٌ ہے پھر اس کی تخریج کی حَفْصِ بْنِ مَيْسَرَةَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ  کے طرق سے  اور الفاظ ہیں يكْشف عَن سَاق اور الْإِسْمَاعِيلِيُّ نے کہا یہ زیادہ صحیح ہے جو قرآن کی موافقت میں ہے فی جملہ – نا گمان کرو کہ الله   أَعْضَاءٍ وَجَوَارِحٍ  والا ہے  کیونکہ یہ مخلوق سے مشابہت کا قول ہے الله تعالی اس سے بلند ہے  اس کے مثل کوئی چیز نہیں ہے

یعنی صحیح بخاری کی اس روایت کا متن صحیح نقل نہیں ہوا اس متن میں سعید بن ابی ہلال نے غلطی کی

ارشد کمال کتاب عذاب القبر میں  لکھتے ہیں

ڈاکٹر عثمانی ارشد

ڈاکٹر عثمانی نے صحیح بخاری کی کسی روایت کو اپنی کتابوں میں ضعیف نہیں کہا بلکہ جہاں تک ممکن ہوا بظاہر متصادم روایات کی انہوں نے  تاویل کی ہے لیکن ان سے قبل انے والے علماء  اس مقام پر نہیں رکے بلکہ کھل کر صحیح کی روایت کو غلط بھی کہا جس کی سر دست دو مثالیں اوپر دی ہیں

امت میں قبر پرستی کو سند جواز دینے والے علماء نے آج یہ لکھنا شروع کر دیا ہے کہ دینی معاملات میں عقل کو معیار نہیں بنایا جا سکتا – تشابھت قلوبھم – ان کے اور اہل کتاب کے علماء کی تان یہیں آ کر ٹوٹی کہ اگر ہم غور و فکر کریں تو علمانے اسباط یا سلف  کے  اقوال غلط ہو جاتے ہیں – اسی فرقہ پرستی سے دین میں منع کیا گیا تھا کہ جب حق عقل و فکر کے میزان میں کتاب الله کی  تائید  میں آ جائے تو پھر اس کو قبول کر لینا چاہیئے

اس قبیل کے علمائے سوء کی جانب سے علی رضی الله کا ایک قول پیش کیا جاتا ہے

علی رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ دین کا دارومدار رائے (اور عقل) پر ہوتا تو موزوں کے نیچے مسح کرنا بہتر ہوتا اوپر مسح کرنے سے اور بلاشبہ میں نے دیکھا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم موزوں کے اوپر مسح کیا کرتے تھے۔(رواہ ابو دائود‘والدارمی معناہ ‘ مشکوٰۃ ص ۵۴

ہم کہتے ہیں  کیا رائے ہمیشہ عقل سے نکلتی ہے ؟ رائے تو نصوص سے بھی اتی ہے اور عقل و فکر سے دانش سے فقہ سے سب سے اتی ہے – یہ قول سنن دارمی  اور ابی داود کا ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ يَعْنِي ابْنَ غِيَاثٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَوْ كَانَ الدِّينُ بِالرَّأْيِ لَكَانَ أَسْفَلُ الْخُفِّ أَوْلَى بِالْمَسْحِ مِنْ أَعْلَاهُ، وَقَدْ «رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُ عَلَى ظَاهِرِ خُفَّيْهِ

رائے کا لفظ صحابہ کے دور میں مستعمل نہیں تھا لہذا یہ متن منکر ہے اس میں ابی اسحاق ہے جو مدلس ہے عن سے روایت کر رہا ہے-  اس کی سند میں  الأعمش ہے جو مدلس ہے عن سے روایت کر رہا ہے

العلل دارقطنی میں اس روایت کی اسناد و متن پر بحث ہے جس میں کہا گیا ہے کہ رائے کا لفظ الاعمش کی سند میں ہے
وَاخْتَلَفُوا فِي لَفْظِ الْحَدِيثِ فَقَالَ حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ فِيهِ لَوْ كَانَ الدِّينُ بِالرَّأْيِ لَكَانَ أَسْفَلُ الْخُفِّ أَوْلَى بِالْمَسْحِ.
وَقَالَ عِيسَى بْنُ يُونُسَ، وَوَكِيعٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ فِيهِ كُنْتُ أَرَى أَنَّ بَاطِنَ الْقَدَمَيْنِ أَحَقُّ بِالْمَسْحِ مِنْ أَعَلَاهُمَا
وَتَابَعَهُمَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ وَإِسْرَائِيلُ عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ.
وَالصَّحِيحُ مِنْ ذَلِكَ قَوْلُ مَنْ قَالَ: كُنْتُ أَرَى أَنَّ بَاطِنَ الْخُفَّيْنِ أَحَقُّ بِالْمَسْحِ مِنْ أَعْلَاهُمَا.

لہذا رائے (یا غیر مقلدین کے بقول عقل) کا لفظ جو اس روایت میں بیان ہوا ہے وہ دارقطنی کے بقولصحیح روایت نہیں ہے بلکہ صحیح وہ ہے جس میں رائے کا لفظ نہیں ہے

کتاب الجرح و التعدیل از ابن ابی حاتم کے مطابق

قال علي إنما ذكره يحيى على أن الأعمش كان مضطربا في حديث أبي إسحاق.

علی المدینی نے ذکر کیا کہ یحیی القطان کے حوالے سے کہ اعمش  مضطرب ہے ابو اسحاق سے روایت کرنے میں

ایک اور روایت پیش کی جاتی ہے

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الرِّجَالِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرٍو الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ عَبْدَةَ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَمْ يَزَلْ أَمْرُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُعْتَدِلًا حَتَّى نَشَأَ فِيهِمُ الْمُوَلَّدُونَ، وَأَبْنَاءُ سَبَايَا الْأُمَمِ، فَقَالُوا بِالرَّأْيِ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا»

عبد الله بن عمرو بن العآص رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو کہتے سنا بنی اسرائیل کا امر معتدل رہا یہاں تک کہ ان میں الْمُوَلَّدُونَ پیدا کرنے والے بڑھے اور فاحشہ کی اولادیں  پس انہوں نے رائے سے کلام کیا گمراہ ہوئے اور  گمراہ کیا

ابن ماجه كي اس روایت کو شعيب الأرنؤوط ، محمد فؤاد عبد الباقي اور البانی  ضعیف کہتے ہیں

یہ روایت مسند البزار میں بھی ایک دوسری سند سے ہے

وَأَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ زِيَادٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَمْ يَزَلْ أَمْرُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُعْتَدِلًا حَتَّى بَدَا فِيهِمْ أَبْنَاءُ سَبَايَا الْأُمَمِ، فَأَفْتَوْا بِالرَّأْيِ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا» . وَهَذَا الْحَدِيثُ لَا نَعْلَمُ أَحَدًا قَالَ: عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، إِلَّا قَيْسٌ، وَرَوَاهُ غَيْرُ قَيْسٍ مُرْسَلًا

اس میں قیس بن الربیع ہے جس پر محدثین کی جرح ہے یہ ایک جاہل تھا اور ائمہ اہل رائے  کی شان میں سب و شتم کرتا تھا وكِيع  اس کی تضعیف کرتے تھے اور جب اس کا ذکر ہوتا کہتے الله المستعان- امام احمد کہتے ہیں منکرات بیان کرتا تھا

مسند دارمی میں هِشَامٍ بْنُ عُرْوَةَ کی سند سے  اسکو ابن زبیر رضی الله عنہ کا قول کہا گیا ہے

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيٌّ – هُوَ ابْنُ مُسْهِرٍ-، عَنْ هِشَامٍ- هُوَ ابْنُ عُرْوَةَ-، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ: مَا زَالَ أَمْرُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُعْتَدِلاً لَيْسَ فِيهِ شَيْءٌ حَتَّى نَشَأَ فِيهِمُ الْمُوَلَّدُونَ أَبْنَاءُ سَبَايَا الأُمَمِ, أَبْنَاءُ النِّسَاءِ الَّتِي سَبَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ مِنْ غَيْرِهِمْ، فَقَالُوا فِيهِمْ بِالرَّأْيِ فَأَضَلُّوهُمْ.

مصنف ابن ابی شیبہ میں هِشَامٍ بْنُ عُرْوَةَ کی سند سے  اس کو عبد الله بن عمرو بن العآص کا قول کہا گیا ہے

وَكِيعٌ عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: «لَمْ يَزَلْ أَمْرُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُعْتَدِلًا حَتَّى نَشَأَ فِيهِمْ أَبْنَاءُ سَبَايَا الْأُمَمِ , فَقَالُوا فِيهِمْ بِالرَّأْيِ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا»

ان دونوں میں ہشام بن عروه کا تفرد ہے اور یہ روایات انہوں نے کوفہ میں بیان کی ہیں اور کبھی اسکو ابن زبیر کا قول کہا ہے کبھی اسکو عبد الله کا قول – محدثین نے اس کی طرف اشارہ کیا تھا کہ آخری عمر میں ان کا حافظہ اچھا نہیں رہا تھا – رائے کا لفظ بولنے میں بھی  ان کا تفرد ہے

کتاب  السنن المأثورة للشافعي  از إسماعيل بن يحيى بن إسماعيل، أبو إبراهيم المزني (المتوفى: 264هـ) میں اس کو عمر بن عبد العزیز کا قول کہا گیا ہے

وَسَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُؤَمَّلٍ الْمَخْزُومِيَّ، يُحَدِّثُ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَيْصِنٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، أَنَّهُ قَالَ: ” لَمْ يَزَلْ أَمْرُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُسْتَقِيمًا حَتَّى حَدَّثَ فِيهِمُ الْمُوَلَّدُونَ أَبْنَاءُ سَبَايَا الْأُمَمِ فَقَالُوا فِيهِمْ بِالرَّأْيِ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا

اسکی سند میں عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُؤَمَّلٍ الْمَخْزُومِيَّ خود ایک مجھول ہے

مسند ابی یعلی کی روایت ہے

حَدَّثَنَا الْهُذَيْلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحِمَّانِيُّ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الزُّهْرِيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَعْمَلُ هَذِهِ الْأُمَّةُ بُرْهَةً بِكِتَابِ اللَّهِ، ثُمَّ تَعْمَلُ بُرْهَةً بِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ، ثُمَّ تَعْمَلُ بِالرَّأْيِ، فَإِذَا عَمِلُوا بِالرَّأْيِ فَقَدْ ضَلُّوا وَأَضَلُّوا»

أَبِي هُرَيْرَةَ کہتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا یہ امت ایک دور تک کتاب الله پر عمل کرے گی پھر ایک دور سنت رسول پر پھر جب یہ رائے پر عمل کرے گی  تو گمراہ ہو گی اور کرے گی

اس کی سند میں عثْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الزُّهْرِيُّ ہے جو کذاب اور متروک ہے

کتاب  أمالي ابن بشران – الجزء الثاني از  أبو القاسم عبد الملك  البغدادي (المتوفى: 430هـ) کی روایت ہے

وَابْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، قَالَ: قَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ: ” ثَلاثَةٌ لا يُقْبَلُ مَعَهُنَّ عَمَلٌ: الشِّرْكُ , وَالْكُفْرُ , وَالرَّأْيُ “.  قَالُوا: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ وَمَا الرَّأْيُ؟ قَالَ: «تَدَعُ كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ رَسُولِهِ وَتَعْمَلُ بِالرَّأْيِ

الأَعْمَشِ نے عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ سے روایت کیا اس نے زر سے اس نے علی رضی الله عنہ سے کہ تین  کے ساتھ عمل قبول نہیں ہوتا شرک اور کفر اور رائے ہم نے کہا اے امیر المومنین یہ رائے کیا ہے کہا تم کو کتاب الله اور سنت کی طرف بلایا جائے اور تم رائے پر عمل کرو

روایت کے الفاظ کہ لوگوں نے پوچھا یہ رائے کیا ہے ظاہر کرتا ہے کہ اس دور میں یہ لفظ مستعمل نہ تھا اور یہ ہی بات اس روایت کے رد کے لئے کافی ہے – اسنادی حیثیت میں اس میں الأَعْمَشِ کا عنعنہ ہے اور عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ خود مفرط شیعہ ہے

سنن دارقطنی کی روایت ہے

نا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ , نا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ , نا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شَرِيكٍ , نا أَبِي , عَنْ مُجَالِدٍ , عَنِ الشَّعْبِيِّ , عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ , عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ , قَالَ:  «إِيَّاكُمْ وَأَصْحَابَ الرَّأْيِ فَإِنَّهُمْ أَعْدَاءَ السُّنَنِ أَعْيَتْهُمُ الْأَحَادِيثُ أَنْ يَحْفَظُوهَا فَقَالُوا بِالرَّأْيِ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا»

مُجَالِدٍ بن سعید، الشَّعْبِيِّ سے ، وہ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ سے وہ عمر رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ اصحاب رائے سے بچو کیونکہ یہ سنت کے دشمن ہیں – احادیث میں ملوث  ہیں کہ انکو یاد کریں پھر رائے سے بولیں گمراہ ہوں اور کریں

اسکی سند میں مُجَالِدُ بنُ سَعِيْدِ بنِ عُمَيْرِ بنِ بِسْطَامَ الهَمْدَانِيُّ المتوفی ١٤٤ ھ  ہے

 أَبُو حَاتِمٍ کہتے ہیں لاَ يُحْتَجُّ بِهِ اس سے دلیل نہ لی جائے

ابْنُ عَدِيٍّ کہتے ہیں اس کی حدیث: لَهُ عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرٍ أَحَادِيْثُ صَالِحَةٌ  صالح ہیں

أَبُو سَعِيْدٍ الأَشَجُّ اس کو  شِيْعِيٌّ یعنی شیعہ کہتے ہیں

الميموني کہتے ہیں ابو عبدللہ کہتے ہیں

 قال أبو عبد الله: مجالد عن الشعبي وغيره، ضعيف الحديث. «سؤالاته» احمد کہتے ہیں مجالد کی الشعبي سے روایت ضعیف ہے

ابن سعد کہتے ہیں  كان ضعيفا في الحديث، حدیث میں ضعیف ہے

المجروحین میں ابن حبان کہتے ہیں كان رديء الحفظ يقلب الأسانيد ويرفع، ردی حافظہ اور اسناد تبدیل کرنا اور انکو اونچا کرنا  کام تھا

ابن حبان نے صحیح میں اس سے کوئی روایت نہیں لی

ابن حبان المجروحین میں لکھتے ہیں کہ امام الشافعی نے کہا  وَالْحَدِيثُ عَنْ مُجَالِدٍ يُجَالِدُ الْحَدِيثَ

اور مجالد   يُجَالِدُ الْحَدِيثَ ہے یعنی اس سے روایت کرنا حدیث کو کوڑے مارنے کے مترادف ہے

صحیح بخاری کی روایت ہے

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، قَالَ  : حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ العَاصِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ اللَّهَ لاَ يَقْبِضُ العِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ العِبَادِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ العِلْمَ بِقَبْضِ العُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا

امام مالک ، هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، سے وہ اپنے باپ سے وہ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ العَاصِ  سے روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بے شک الله اس علم کو قبض یکایک نہیں کرے گا … بلکہ علماء کو قبض کرے گا یہاں تک کہ کوئی عالم نہ رہے گا لہذا لوگ جہلاء کو سردار بنا لیں گے ان سے سوال کریں گے وہ فتوی دیں گے بغیر علم کے، پس گمراہ ہوں گے اور کریں گے

یہ روایت ہشام بن عروہ نے مدینہ میں بیان کی ہے  – صحیح ابن حبان  اور مسند احمد کے مطابق  بصرہ اور کوفہ میں اس میں اضافہ کیا مثلا حماد بن زید اور وَكِيعٌ بنُ الجَرَّاحِ بنِ مَلِيْحِ  کہتے ہیں ہشام نے کہا:

وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعُلَمَاءَ بِعِلْمِهِمْ، حَتَّى إِذَا لَمْ يَبْقَ عَالِمٌ

لیکن الله علماء کو انکے علم کے ساتھ قبض کرے گا یہاں تک کہ ایک بھی عالم باقی نہ رہے گا

مسند احمد کے مطابق کوفہ میں یحیی کہتے ہیں اور طبرانی کے مطابق ابن عيينة کہتے ہیں  ہشام نے کہا حَتَّى إِذَا لَمْ يَتْرُكْ عَالِمًا یہاں تک کہ کوئی عالم نہیں رہے گا

صحیح مسلم میں  جرير بن عبد الحميد الضبي کوفی عن هِشَامٍ بْنُ عُرْوَةَ کی سند سے  عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ کی یہی روایت ہے

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، سَمِعْتَ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «إِنَّ اللهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ النَّاسِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يَتْرُكْ عَالِمًا، اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا»

ہشام بْنِ عُرْوَةَ نے یہ روایت کوفہ میں بیان کی ہے یہاں پر رائے کا لفظ نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ بغیر علم فتوی دیں گے

صحیح بخاری میں بهز بن أسد العمى أبو الأسود البصرى کی روایت میں ہے کہ ہشام نے بصرہ میں بغیر علم کی بجائے  کہا فَيُفْتُونَ بِرَأْيِهِمْ وہ اپنی رائے سے فتوی دیں گے

محدثین کے مطابق ہشام بْنِ عُرْوَةَ نے عراق میں روایات آخری عمر میں بیان کیں جب ان کا حافظہ اتنا اچھا نہیں تھا اسی وجہ امام مالک ان کی عراق میں بیان کردہ روایات سے راضی نہیں تھے الذھبی میزان میں لکھتے ہیں

عبد الرحمن بن خراش: كان مالك لا يرضاه، نقم عليه حديثه لاهل العراق

بحر کیف رائے بغیر علم صحیح نہیں ہے جو ظاہر ہے نہایت منطقی بات ہے- جو اس کا ارتکاب کرے جاہل ہے لیکن رائے اگر منبی بر علم ہو تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے لہذا اس روایت کو مطلقا اہل رائے کے خلاف پیش کرنا نری جہالت ہے

سنن نسائی میں ہے

باب: اہل علم کے اتفاق و اجماع کے مطابق فیصلہ کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5399
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَارَةَ هُوَ ابْنُ عُمَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَكْثَرُوا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ ذَاتَ يَوْمٍ،‏‏‏‏ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ:‏‏‏‏ “إِنَّهُ قَدْ أَتَى عَلَيْنَا زَمَانٌ وَلَسْنَا نَقْضِي، ‏‏‏‏‏‏وَلَسْنَا هُنَالِكَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدَّرَ عَلَيْنَا أَنْ بَلَغْنَا مَا تَرَوْنَ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ عَرَضَ لَهُ مِنْكُمْ قَضَاءٌ بَعْدَ الْيَوْمِ فَلْيَقْضِ بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ فَلْيَجْتَهِدْ رَأْيَهُ وَلَا يَقُولُ إِنِّي أَخَافُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي أَخَافُ فَإِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْحَرَامَ بَيِّنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَبَيْنَ ذَلِكَ أُمُورٌ مُشْتَبِهَاتٌ فَدَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ”. قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ:‏‏‏‏ هَذَا الْحَدِيثُ جَيِّدٌ.
عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ لوگوں نے ایک دن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بہت سارے موضوعات پر بات چیت کی، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم پر ایک زمانہ ایسا بھی گزر چکا ہے کہ ہم نہ تو کوئی فیصلہ کرتے تھے اور نہ ہی فیصلہ کرنے کے قابل تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے مقدر کر رکھا تھا کہ ہم اس مقام کو پہنچے جو تم دیکھ رہے ہو، لہٰذا آج کے بعد سے جس کسی کو فیصلہ کرنے کی ضرورت آ پڑے تو چاہیئے کہ وہ اس کے مطابق فیصلہ کرے جو اللہ کی کتاب(قرآن) میں ہے، پھر اگر ایسا کوئی معاملہ اسے درپیش آئے جو کتاب اللہ (قرآن) میں نہ ہو تو اس کے مطابق فیصلہ کرے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا، اور اگر کوئی ایسا معاملہ ہو جو نہ کتاب اللہ (قرآن) میں ہو اور نہ اس سلسلے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فیصلہ ہو تو اس کے مطابق فیصلہ کرے جو نیک لوگوں نے کیا ہو ۱؎، اور اگر کوئی ایسا معاملہ آئے جو نہ کتاب اللہ (قرآن) میں ہو، نہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سلسلے میں کوئی فیصلہ ہو اور نہ ہی نیک لوگوں کا) تو اسے چاہیئے کہ اپنی عقل سے اجتہاد کرے اور یہ نہ کہے کہ مجھے ڈر ہے، مجھے ڈر ہے، کیونکہ حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں تو تم ان باتوں کو چھوڑ دو جو تمہیں شک میں ڈالیں اور وہ کرو جو شک سے بالاتر ہوں۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: یہ حدیث بہت اچھی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۹۳۹۹) (صحیح الإسناد)

دوسری روایت ہے

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ شُرَيْحٍ، أَنَّهُ كَتَبَ إِلَى عُمَرَ يَسْأَلُهُ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ، «أَنْ اقْضِ بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ، وَلَا فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ، وَلَا فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَقْضِ بِهِ الصَّالِحُونَ، فَإِنْ شِئْتَ فَتَقَدَّمْ، وَإِنْ شِئْتَ فَتَأَخَّرْ، وَلَا أَرَى التَّأَخُّرَ إِلَّا خَيْرًا لَكَ، وَالسَّلَامُ عَلَيْكُمْ»

شریح سے روایت ہے کہ انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے ایک مسئلہ پوچھنے کے لیے انہیں ایک خط لکھا تو انہوں نے لکھا: فیصلہ کرو اس کے مطابق جو کتاب اللہ(قرآن) میں ہے، اور اگر وہ کتاب اللہ (قرآن) میں نہ ہو تو سنت رسول (حدیث) کے مطابق، اور اگر وہ نہ کتاب اللہ (قرآن) میں ہو اور نہ سنت رسول (حدیث)میں تو اس کے مطابق فیصلہ کرو جو نیک لوگوں نے کیا تھا، اور اگر وہ نہ کتاب اللہ (قرآن) میں ہو اور نہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اور نہ ہی نیک لوگوں کا کوئی فیصلہ ہو تو اگر تم چاہو تو آگے بڑھو (اور اپنی عقل سے کام لے کر فیصلہ کرو) اور اگر چاہو تو پیچھے رہو (فیصلہ نہ کرو) اور میں پیچھے رہنے ہی کو تمہارے حق میں بہتر سمجھتا ہوں۔ والسلام علیکم۔

الألباني: صحيح الإسناد موقوف

واضح رہے ک انہی محدثین میں سے بہت سے اہل رائے کے امام ابو حنیفہ کی بات کو بغور سنتے

کتاب  سؤالات ابن الجنيد لأبي زكريا يحيى بن معين میں ابن جنید کہتے ہیں

 قلت ليحيى بن معين: ترى أن ينظر الرجل في شيء من الرأي؟ فقال: «أي رأي؟» ، قلت: رأي الشافعي وأبي حنيفة، فقال: «ما أرى لمسلم أن ينظر في رأي الشافعي، ينظر في رأي أبي حنيفة أحب إلي من أن ينظر في رأي الشافعي

میں نے ابن معین سے کہا اپ کیا کہتے ہیں اس شخص کے بارے میں جو رائے کے کو دیکھے؟ انہوں نے پوچھا کس کی رائے؟ کہا شافعی یا ابو حنیفہ! ابن معین نے کہا میرے مطابق مسلمان  کے لئے  شافعی کی رائے میں کچھ (برائی) نہیں اور ابو حنیفہ کی رائے جاننا میرے لئے شافعی کی رائے سے زیادہ محبوب ہے

اسی کتاب میں ابن معین یحیی بن سعید کی بات نقل کرتے ہیں

وسمعت يحيى يقول: «سمعت يحيى بن سعيد يقول: أنا لا أكذب الله، ربما بلغنا الشيء من قول أبي حنيفة، فنستحسنه فنأخذ به

یحیی کہتے ہیں بے شک میں جھوٹ نہیں کہتا بعض اوقات ہم کو ابو حنیفہ کی بات ملتی ہے اس کو پسند کرتے ہیں اور لیتے ہیں

معلوم ہوا کہ ابو حنیفہ  کی آراء کو محدثین  یحیی ابن معین اور  یحیی بن سعید القطان قبول کرتے تھے

امام  الشافعي بھی رائے اور قیاس لینے کے قائل تھے – کتاب الأم  میں امام  الشافعي (المتوفى: 204هـ) لکھتے ہیں

وَالْعِلْمُ مِنْ وَجْهَيْنِ اتِّبَاعٌ، أَوْ اسْتِنْبَاطٌ وَالِاتِّبَاعُ اتِّبَاعُ كِتَابٍ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فَسُنَّةٍ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ فَقَوْلِ عَامَّةٍ مِنْ سَلَفِنَا لَا نَعْلَمُ لَهُ مُخَالِفًا، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فَقِيَاسٍ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فَقِيَاسٍ عَلَى سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فَقِيَاسٍ عَلَى قَوْلِ عَامَّةٍ مِنْ سَلَفٍ لَا مُخَالِفَ لَهُ وَلَا يَجُوزُ الْقَوْلُ إلَّا بِالْقِيَاسِ وَإِذَا قَاسَ مَنْ لَهُ الْقِيَاسُ فَاخْتَلَفُوا وَسِعَ كُلًّا أَنْ يَقُولَ بِمَبْلَغِ اجْتِهَادِهِ وَلَمْ يَسَعْهُ اتِّبَاعُ غَيْرِهِ فِيمَا أَدَّى إلَيْهِ اجْتِهَادُهُ بِخِلَافِهِ، وَاَللَّهُ أَعْلَمُ

اور علم کے دو رخ ہیں اتباع ہے یا استنباط ہے- اتباع ،  کتاب الله کی اتباع ہے اور اگر اس میں نہ ہو تو پھر سنت اور اگر اس میں نہ ہو تو ہم وہ کہیں گے جو ہم سے پہلے گزرنے والوں نے  کہا اس میں ہم انکی مخالفت نہیں جانتے، پس اگر اس میں بھی نہ تو ہم پھر کتاب الله پر قیاس کریں گے ، اگر  کتاب الله  پر نہیں تو سنت رسول صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  پر قیاس کریں گے – اوراگر سنت رسول  پر نہیں تو بیشتر سلف نے جو کہا ہو اس پر قیاس کریں گے اس میں انکی مخالفت نہیں کریں گے اور قول جائز نہیں ہے سوائے اس کے کہ قیاس ہو اور جب قیاس ہو تو  (اپس میں مسلمان) اختلاف بھی کریں گے  اس سب میں وسعت ہے کہ ہم ان کے اجتہاد  کی پہنچ اور اتباع کی کوشش پر بات  کریں کہ یہ پیروی نہ کر سکے  جو لے جاتا ہے اس کے خلاف  اجتہاد پر والله اعلم

امام الشافعی قیاس اور اجتہاد کو ایک ہی سمجھتے ہیں – اسی طرح کتاب الام میں لکھتے ہیں

  إنَّ مَنْ حَكَمَ أَوْ أَفْتَى بِخَيْرٍ لَازِمٍ أَوْ قِيَاسٍ عَلَيْهِ فَقَدْ أَدَّى مَا عَلَيْهِ وَحَكَمَ وَأَفْتَى مِنْ حَيْثُ أُمِرَ فَكَانَ فِي النَّصِّ مُؤَدَّيَا مَا أُمِرَ بِهِ نَصًّا وَفِي الْقِيَاسِ مُؤَدِّيًا مَا أُمِرَ بِهِ اجْتِهَادًا وَكَانَ مُطِيعًا لِلَّهِ فِي الْأَمْرَيْنِ.  ثُمَّ لِرَسُولِهِ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَمَرَهُمْ بِطَاعَةِ اللَّهِ ثُمَّ رَسُولِهِ  ، ثُمَّ الِاجْتِهَادِ فَيُرْوَى «أَنَّهُ قَالَ لِمُعَاذٍ بِمَ تَقْضِي؟ قَالَ بِكِتَابِ اللَّهِ قَالَ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ قَالَ بِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَالَ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ قَالَ أَجْتَهِدُ قَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -» وَقَالَ: «إذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ فَأَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ  – وَإِنْ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ» فَأَعْلَمَ أَنَّ لِلْحَاكِمِ الِاجْتِهَادَ وَالْمَقِيسَ فِي مَوْضِعِ الْحُكْمِ

امام الشافعی کہتے ہیں جو فیصلہ کرے یا فتوی دے خیر کو لازم کرے، یا اس پر قیاس کرے تو اس معاملہ میں بھی خیر کو لازم کرے۔اس طرح اس نے اس کو وہ پورا کیا جو اس پر لازم تھا کہ فیصلہ اور قیاس کرتا ہے جیسا کہ حکم ہے تو وہ نص جس پر قیاس کیا گیا ہے وہ نص مودیا ہے۔یا جس پر اجتہاد کیا ہے تو وہ قیاس مودیا ہے یہ ان معاملات میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہے۔کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی اطاعت اور پھر اسکے رسول کی اطاعت اور اس کے بعد اس پر اجتہاد کا حکم دیا ہے۔جیسا کہ مروی ہے کہ آپ نے معاذ بن جبل سے فرمایا کس پر فیصلہ کرو گے تو انہوں نے جواب دیا اللہ کی کتاب پر۔آپ نے فرمایا اگر وہ اللہ کی کتاب میں نہ ہو تو ؟ معاذ نے جواب دیا کہ اللہ کے رسول کی سنت کے مطابق۔اس پر آپ نے فرمایا کہ اگر اس میں بھی نہ ملے تو کیا کرو گے۔انہوں نے جواب دیا اجتہاد کروں گا۔اس پر اللہ کے نبی نے کہا الحمد للہ ۔اور معاذ کی اس بات کی اللہ کے نبی نے موافقت فرمائی۔اور کہا جب کوئی حاکم اجتہاد سے فیصلہ کرے اور وہ فیصلہ صحیح ہو تو اس کو دوھرا اجر ہے اور اگر اس میں غلطی ہوجائے تو بھی اس کے لیے ایک اجر تو ہے ہی۔ جان لو کہ حاکم کے اجتہاد اور قیاس کا درجہ حکم کا ہے۔

امام الشافعی تو باقاعدہ وہی معاذ بن جبل والی روایت سے دلیل لے رہے ہیں جس کو منکر کہتے اہل حدیث نہیں تھکتے اور طرفہ تماشہ ہے کہ اپنے اپ کو سلف کا متبع کہتے ہیں امام الشافعی نے سنت رسول سے دلیل لی اور اس میں اہل رائے کی موافقت کی ہے

غیر مقلدین کے  شمارہ ١٩٤ محدث سن ١٩٩٣  میں مضمون  امام بخاری اور الجامع الصحیح چھپا اس میں محقق محمد عبدہ الفلاح  لکھتے ہیں

امام بخاری نے استخراج مسائل اور استنباط کے ذریعہ قوانین نقلیہ کو قواعد عقلیہ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ہے اور دوسرے الفاظ میں ان کو معیار عقل پر پرکھا ہے جسے درایت سے تعبیر کرسکتے ہیں۔

عصر حاضر کے محقق بشارعواد معروف کتاب سیر الاعلام النبلاء کے مقدمہ میں لکھتے ہیں

وقد وجدنا الذهبي بعد ذلك لا يقتصر على أسلوب واحد في النقد، بل يتوسل بكل ممكن يوصله إلى الحقيقة، فنقد السند والمتن، واستعمل عقله في رد كثير من الروايات.

اور ہم نے پایا ہے کہ الذھبی نے اس کے بعد  تنقید  میں ایک اسلوب ہی نہیں لیا بلکہ اس تنقید کو حقیقت سے ملایا ہے پس سند و متن پر تنقید کی ہے اور عقل کا استمعال کیا ہے کثیر روایات کے رد کے لئے

معلوم ہوا عقل سے احادیث کو پرکھنا بھی محدثین کا اصول ہے جس کا انکاری یہ غیر مقلدین کا ٹولہ ہے

الغرض دین میں عقل کی اہمیت ہے اس کو شجر ممنوعہ قرار نہیں دیا گیا – عقل کو رائے والی احادیث سے ملا کر دینی معاملات میں یہ کہنا کہ عقل معیار نہیں بن سکتی ،  نری جہالت ہے – حقیقت میں یہ قول خود  ایک رائے ہے

العموم و الخصوص

عقائد  کا قرآن و حدیث سے استخراج کرتے وقت خبر عام ہے یا خاص کا خیال رکھا جاتا ہے یہ اصول نہایت منطقی ہے جس سے قرآن کی بعض باہم مخالف آیات کی تشریح و تطبیق کی جاتی ہے

گمراہ عقائد کو کشید کرنے کے لئے قرآن کے نصوص کو رد کر کے ان میں باہم اختلاف کا ذکر کیا جاتا ہے مثلا قرآن کے مطابق روح  کے جسم سے خروج کے بعد اس کا امساک کیا جاتا ہے یعنی روک لیا جاتا ہے (سوره الزمر اور سوره الانعام)  اس کے برعکس حیات فی القبر کا عقیدہ اس امت کے گمراہ فرقوں نے اختیار کیا ہوا ہے جس میں مردہ میں  عود روح کروایا جاتا ہے اس کو استثنیٰ قرار دے کر ایک خاص بات کہا جاتا ہے پھر اس کو تمام مردوں پر عام کر دیا جاتا ہے

اسی طرح سماع الموتی کے مسئلہ میں بھی زبردستی ابن عمر  اور عائشہ رضی الله عنہا کی آراء کو ایسے پیش کیا جاتا ہے کہ  گویا بعض کو صحیح عقیدہ پتا نہیں  تھا  اس طرح اصحاب رسول اور امہات المومنین کو مختلف العقائد بتایا جاتا ہے جبکہ اصول جو قرآن میں دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ  و ما یستوی الاحیاء و الاموات ان الله یسمع من یشاء  کہ مردہ زندہ برابر نہیں  الله جس کو چاہے سنوائے-  اس کے بعد تمام مردوں میں زبردستی ایک  عجیب حیات کا بزعم خود دعوی کیا جاتا  ہے جس میں وہ دفنانے والوں کے قدموں کی چاپ سنتے ہیں  اور ان سے مانوس بھی  ہوتے ہیں

قرآن کے عموم و خصوص  میں التباس پیدا کر کے،  قبر پرستی پر سند جواز دینے کے بعد،  معصوم بن کر ان  لا علم لوگوں پر کفر کا فتوی لگایا جاتا ہے جو بعض محدثین کے منہج پر قبروں سے فیض جاصل کر رہے ہیں مثلا

محدث  ابن حبان طوس جاتے ہیں اور قبر سے فیض لیتے ہیں – ابن حبان مردوں کے سننے کے قائل  تھے اور نیک و صالحین کی قبور پر جا کر دعا کرتے اور وہ ان کے مطابق قبول بھی ہوتیں

وما حلت بي شدة في وقت مقامي بطوس, فزرت قبر علي بن موسى الرضا صلوات الله على جده وعليه ودعوت الله إزالتها عني إلا أستجيب لي, وزالت عني تلك الشدة, وهذا شيء جربته مرارا, فوجدته كذلك
طوس میں قیام کے وقت جب بھی مجھے کوئی پریشانی لاحق ہوئی ،میں نے (امام) علی بن موسی الرضا صلوات الله على جده وعليه کی قبرکی زیارت کی، اور اللہ سے اس پریشانی کے ازالہ کے لئے دعاء کی ۔تو میری دعاقبول کی گئی،اورمجھ سے وہ پریشانی دورہوگئی۔اوریہ ایسی چیز ہے جس کامیں نے بارہا تجربہ کیا تو اسی طرح پایا

[الثقات لابن حبان، ط دار الفكر: 8/ 456]

 ابن کثیر  سوره التوبہ کی تفسیر میں  فوت شدہ رشتہ داروں پر زندوں کا عمل پیش ہونا لکھتے ہیں جبکہ  قرآن میں کہیں یہ عقیدہ نہیں ابن کثیر  تفسیر میں  کہتے ہیں

قَدْ وَرَدَ: أَنَّ أَعْمَالَ الْأَحْيَاءِ تُعرَض عَلَى الْأَمْوَاتِ مِنَ الْأَقْرِبَاءِ وَالْعَشَائِرِ فِي الْبَرْزَخِ

بے شک یہ آیا ہے کہ زندوں کے اعمال مردہ رشتہ داروں پر البرزخ میں پیش ہوتے ہیں

ابن قیم کہتے ہیں سلف اس پر جمع ہیں کہ میت زائر سے خوش ہوتی ہے اور روح جہاں جانا چاہتی ہے جاتی ہے  کتاب الروح

ابن تیمیہ عقیدہ رکھتے ہیں  قبر سے اذان سنی جا سکتی ہے اور میت  قرات سنتی ہے

ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے

افسوس علماء ہی نے ان عقائد کو پھیلایا جو تھے ہی غلط اور غیر ثابت – ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان پر توبہ کرتے لیکن اسلاف پرستی میں ان سند یافتہ علماء  نے  اپنی خو الگ ہی ڈالی اور لگے ان شخصیات اور ناموں کا دفاع کرنے اور اپنے تعلی و علمیت کا رعب بٹھانے

 عقائد میں  اضطراب کو دور کرنے کے لئے اصول و خاص کی بحث بہت اہم ہے جو اصول و فقہ کی کتب میں ہے – کتاب    منهج علماء الحديث والسنة في أصول الدين از  مصطفى محمد حلمي  الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت  الطبعة: الأولى – 1426 هـ قرآن کے عموم و خصوص پر لکھتے ہیں

فأنزل الله عز وجل القرآن على أربعة أخبار خاصة وعامة (1) .

فمنها: 1 – خبر مخرجه مخرج الخصوص ومعناه معنى الخصوص وهو قوله تعالى: (إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ طِينٍ) [ص، الآية: 71] وقوله: (إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ) [آل عمران، الآية: 59] ثم قال: (يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى) [الحجرات، الآية: 13] والناس اسم يجمع آدم وعيسى وما بينهما وما بعدهما فعقل المؤمنون عن الله عز وجل أنه لم يعن آدم وعيسى لأنه قدم خبر خلقهما.

پس اللہ عز و جل نے چار قسم کی خاص و عام  خبریں قرآن میں دیں جن میں ہیں

خبر جو خصوص سے نکلے اور اس کا معنی بھی مخصوص ہو اور یہ ہے الله تعالی کا قول  (إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ طِينٍ) [ص، الآية: 71] میں گیلی مٹی سے ایک بشر خلق کر رہا ہوں اور الله تعالی کا قول (إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ) [آل عمران، الآية: 59]  بے شک عیسی کی مثال الله کے نزدیک ایسی ہے جیسی آدم کی – پھر کہا   (يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى) [الحجرات، الآية: 13] اے لوگوں ہم نے تم کو مرد و عورت سے پیدا کیا اور الناس میں آدم و عیسی جمع ہو گئے اور ان کے درمیان اور بعد والے انسان پس مومن تعقل کرتے ہیں کہ آدم و عیسی کو (مرد و عورت سے تخلیق میں) شمار نہیں کیا گیا کیونکہ انکی تخلیق کی خبر دی گئی

2 خبر مخرجه مخرج العموم ومعناه معنى الخصوص وهو قوله تعالى: (وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ) [الأعراف، الآية: 156] فعقل عن الله أنه لم يعن إبليس فيمن تسعه الرحمة لما تقدم فيه من الخبر الخاص قبل ذلك وهو قوله: (لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ أَجْمَعِينَ) [ص، الآية: 85] فصار معنى ذلك الخبر العام خاصًا لخروج إبليس ومن تبعه من سعة رحمة الله التي وسعت كل شيء.

خبر جو عموم سے نکلے اور اس کا معنی مخصوص ہو اور یہ الله تعالی کا قول ہے (وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ) [الأعراف، الآية: 156]  میری رحمت ہر شی پر پھیلی ہے پس یہ الله کا مقصد ہے کہ اس میں ابلیس کو شمار نہیں کیا گیا جس کو رحمت سے الگ کیا ہے جیسا کہ اسکی خبر  خاص دی پہلے  (لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ أَجْمَعِينَ) [ص، الآية: 85] بلاشبہ میں جہنم کو بھر دوں گا تجھ سے اور جو تیری اتباع کریں گے ،سب کو!  پس یہ خبر معنا عام ہے خاص ابلیس کا خروج ہے اور جو اس کی اتبآع کریں انکو اس رحمت سے  الگ کیا جو چیز پر چھائی ہے

3 – خبر مخرجه مخرج الخصوص ومعناه معنى العموم وهو قوله: (وَأَنَّهُ هُوَ رَبُّ الشِّعْرَى) [النجم، الآية: 49] ، فكان مخرجه خاصًا ومعناه عامًا.

خبر جو نکلی ہے خصوص سے اور اسکا معنی عموم ہے اور الله تعالی کا قول ہے (وَأَنَّهُ هُوَ رَبُّ الشِّعْرَى) [النجم، الآية: 49] اور بے شک وہ الشِّعْرَى کا رب ہے  پس یہ خاص خبر ہے لیکن اس کا معنی عام ہے

4- خبر مخرجه العموم ومعناه العموم.

فهذه الأربعة الأخبار خص الله العرب بفهمها ومعرفة معانيها وألفاظها وخصوصها وعمومها والخطاب بها، ثم لم يدعها اشتباهاً على خلقه وفيها بيان ظاهر لا يخفى على من تدبره من غير العرب ممن يعرف الخاص والعام،

خبر جو عموم سے ملی اور معنی بھی عام ہے

پس ان چار خبروں سے الله تعالی نے عربوں کا فہم ، معنوں کی معرفت، الفاظ اور اس کا خصوص و عموم اور خطاب  خاص کیا پھر اس میں اشتباہ مخلوق کے لئے نہیں رہا اور اس کا بیان غیر عرب پر  ظاہر  ہے جو اس میں تدبر کرنے والوں پر مخفی نہیں جو خاص و عام کو جانتے ہیں  

الغرض تمام مردے نہیں سنتے الله جس کو چاہتا سنواتا ہے جیسا قلیب بدر میں ہوا اسی طرح عود روح صرف ان لوگوں کا ہوا جو موسی علیہ السلام کے ساتھ تھے اور عذاب کا شکار ہوئے یا جن کو عیسی علیہ السلام نے واپس زندہ کیا اس کے علاوہ کوئی اور خبر قرآن و احادیث صحیحہ میں نہیں ہے

قرآن یقینا محفوظ ہے ٢

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے عہد میں کس کس نے  جمع القرآن کیا ؟ کیا  جمع کرتے وقت کچھ آیات مفقود ہوئیں ؟

جواب

المحبر از  محمد بن حبيب بن أمية بن عمرو الهاشمي، بالولاء، أبو جعفر البغدادي (المتوفى: 245هـ) کے مطابق ٦ لوگوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی زندگی ہی میں قرآن جمع کیا

سعد  بن عبيد بن النعمان بن قيس

 أبو الدرداء  عويمر بن زيد بن قيس

 ابى بن كعب بن قيس بن عبيد

 زيد  بن ثابت بن الضحاك

 معاذ  بن جبل بن عمرو

 أبو زيد  ثابت بن زيد بن النعمان ابن مالك

صحیح بخاری میں ہے

حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: مَنْ جَمَعَ القُرْآنَ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: ” أَرْبَعَةٌ، كُلُّهُمْ مِنَ الأَنْصَارِ: أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَأَبُو زَيْدٍ

انس رضی الله عنہ سے قتادہ نے پوچھا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے عہد میں قرآن کس کس نے جمع کیا ؟ انھوں نے جواب دیا چار نے جو سب انصار میں سے تھے : أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَأَبُو زَيْدٍ

جمع القرآن  تمام صحابہ کا عمل نہیں تھا کیونکہ  ہزاروں صحابہ کو قرآن یاد تھا اور سب اس کی تلاوت کرتے تھے لیکن چونکہ تمام قریشی نہیں تھے اس لئے عرب میں ہی میں تلفظ کی معمولی تبدیلی تھی مثلا جیسے اردو ہندوستان پاکستان میں بولی جاتی ہے لیکن لکھنو  میں بولی جانے والی اردو وہ نہیں جو حیدر آباد ہندوستان میں بولی جاتی ہے یا پاکستان میں یا دلی میں بولی جاتی ہے بعض تلفظ کی تبدیلی ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں ہو جاتی ہے لیکن اس سے مفھوم میں کوئی تبدیلی نہیں اتی – زبان میں اس لچک کی  وجہ سے قرآن کو سات حروف  پر نازل کیا گیا اور اس وجہ سے بظاہر دو قراتین الگ الگ محسوس ہوتیں لیکن ایک ہی تھیں

منسوخ القرات یا مفقود آیات؟

واضح رہے آیات کا منسوخ ہونا اور ان کا مصحف میں نہ لکھا جانا دو الگ باتیں ہیں قرآن کی بہت کی آیات منسوخ القرات ہیں لیکن حکم باقی ہے اسی طرح بہت سی منسوخ ہیں جن کی قرات کی جاتی ہے لیکن حکم باقی نہیں ہے

لیکن یہاں بحث اس پر ہے کہ کیا کچھ ایسا بھی تھا جو قرآن میں نہ لکھا جا سکا- بعض سطحی قسم کے لوگوں نے منسوخ القرات کی بات کو آیات کے مفقود ہونے سے ملا دیا جو صحیح نہیں ہے

کتاب فضائل القرآن للقاسم بن سلام از  أبو عُبيد القاسم بن سلاّم (المتوفى: 224هـ) کی روایت ہے

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: ” لَا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ قَدْ أَخَذْتُ الْقُرْآنَ كُلَّهُ وَمَا يُدْرِيهِ مَا كُلَّهُ؟ قَدْ ذَهَبَ مِنْهُ قُرْآنٌ كَثِيرٌ، وَلَكِنْ لِيَقُلْ: قَدْ أَخَذْتُ مِنْهُ مَا ظَهْرَ مِنْهُ “

ہمیں اسماعیل بن ابراہیم نے ایوب اور انہوں نے نافع اور انہوں نے ابنِ عمر سے کہ انہوں نے کہا: کوئی یہ نہ کہے کہ اس نے تمام  قرآن پا لیا ہے، اور اسے کیا پتہ کہ اس کا تمام  کیا ہے، اس میں سے بہت سآ  قرآن چلا گیا ، بلکہ اسے کہنا چاہیے: میں نے اس سے (قرآن سے) وہی کچھ لیا ہے جو اس میں ظاہر ہوا ہے

اس روایت کو  إسماعيل بن إبراهيم بن مقسم الأسدي  المعروف بابن عُلَيَّة ،  أيوب بن أبى تميمة   كيسان السختياني پیدائش ٦٨ ھ –  المتوفی ١٣١ ھ –   کے واسطے سے  بیان  کر رہے ہیں – ایوب مدلس ہیں اور  اس مخصوص روایت کی تمام اسناد میں ان کا تفرد ہے اور ہر سند عن سے ہے- ظاہر ہے یہ محدثین کے نزدیک مظبوط نہیں

شارحین کے مطابق  اس سے مراد قرآن کی  منسوخ القرات آیات کا ذکر ہے جن کی تعداد کا علم نہیں کیونکہ وقتا فوقتا قرآن میں سے کچھ آیات واپس لی گئیں اور ان کی قرات منسوخ کر دی گئی اور الفاظ اٹھ گئے

کتاب فضائل القرآن للقاسم بن سلام از  أبو عُبيد القاسم بن سلاّم (المتوفى: 224هـ) کی روایت ہے

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنِ الْمُبَارَكِ بْنِ فَضَالَةَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، قَالَ: قَالَ لِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ: يَا زِرُّ، كَأَيِّنْ تَعُدُّ؟ أَوْ قَالَ: كَأَيِّنْ تَقْرَأُ سُورَةَ الْأَحْزَابِ؟ قُلْتُ: اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِينَ آيَةً، أَوْ ثَلَاثًا وَسَبْعِينَ آيَةً. فَقَالَ: «إِنْ [ص:321] كَانَتْ لَتَعْدِلُ سُورَةَ الْبَقَرَةِ، وَإِنْ كُنَّا لَنَقْرَأُ فِيهَا آيَةَ الرَّجْمِ» . قُلْتُ: وَمَا آيَةُ الرَّجْمِ؟ قَالَ: (إِذَا زِنًا الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ فَارْجُمُوهُمَا الْبَتَّةَ نَكَالًا مِنَ اللَّهِ. وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ) “

زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ  کہتے ہیں  اُبی بن کعب نے مجھ سے کہا: اے زِر تم نے سورۃ الاحزاب میں کتنی آیات شمار کیں اور پڑھیں؟ میں نے کہا: بہتر یا تہتر، اس نے کہا: یہ طوالت میں سورۃ بقرۃ جتنی تھی اور ہم اس میں رجم کی آیت بھی پڑھا کرتے تھے، تو میں نے ان سے کہا: رجم کی آیت کیا ہے؟ ابی  نے کہا: (إِذَا زِنًا الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ فَارْجُمُوهُمَا الْبَتَّةَ نَكَالًا مِنَ اللَّهِ. وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ)

یعنی رجم کی آیت جس کی تلاوت منسوخ ہوئی وہ سوره الاحزاب میں تھی

الْمُبَارَكِ بْنِ فَضَالَةَ  کا خلیفہ المہدی کے دور میں انتقال ہوا یہ بھی مدلس تھے اور ابو داود کہتے ہیں جب صرف حدثنا کہیں اسی وقت قبول کرتے یہاں ان کا عنعنہ ہے لہذا ضعیف سند ہے-  ان کے دادا أبو أمية مولى عمر بن الخطاب تھے یعنی عمر کے آزاد کردہ غلام تھے

الألوسي کہتے ہیں وكل خبر ظاهره ضياع شيء من القرآن إما موضوع أو مؤوّل

ہر وہ خبر جس میں  قرآن میں کسی چیز کے ضائع ہونے کی بات ہے وہ گھڑی ہوئی یا  بڑھ ہے

ابْنِ لَهِيعَةَ کی قرآن کے حوالے سے  تین عجیب روایات

عَبد اللهِ بْن لَهِيعَة عباسی خلفاء کے منظور نظر تھے اور یہ پہلے قاضی ہیں جن پر اسلام میں رشوت لینے کا الزام ہے

سن ١٥٥ ہجری میں السفاح کے دور میں ان کو خلیفہ بنا دیا گیا یہ ایک حدیث پیش کرتے جو  كتاب الفتن از ابو نعیم میں ہے

 حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَمْرٍو الْمَعَافِرِيِّ، عَنْ يَدُومَ الْحِمْيَرِيُّ، سَمِعَ تُبَيْعَ بْنَ عَامِرٍ، يَقُولُ: «يَعِيشُ السَّفَّاحُ أَرْبَعِينَ سَنَةً، اسْمُهُ فِي التَّوْرَاةِ طَائِرُ السَّمَاءِ»

السفاح چالیس سال زندہ رہیں گے ان کا نام توریت میں آسمانی پرندہ ہے

ابْنِ لَهِيعَةَ  مدلس ہے اور عن سے روایت نا قابل قبول ہے

ابْنِ لَهِيعَةَ کو آخری عمر میں اختلاط ہوا اس لئے اس کی روایات مطلقآ قبول نہیں کی جاتیں

ابْنِ لَهِيعَةَ نے اپنی  کتب سے روایات بیان کیں لیکن جب لوگوں کو شک ہوا تو سن ١٧٠ ہجری میں مرنے سے چار سال قبل  اس کی کتب جل گئیں

ابْنِ لَهِيعَةَ نے قرآن کے حوالے سے تین عجیب روایات بیان کیں

کتاب فضائل القرآن للقاسم بن سلام از  أبو عُبيد القاسم بن سلاّم (المتوفى: 224هـ) کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْغَفَّارِ بْنُ دَاوُدَ، عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ بَجَالَةَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، مَرَّ بِرَجُلٍ يَقْرَأُ فِي الْمُصْحَفِ (النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ، وَهُوَ أَبُوهُمْ) فَقَالَ عُمَرُ: «لَا تُفَارِقْنِي حَتَّى نَأْتِيَ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ» . فَأَتَيَا أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ فَقَالَ: «يَا أُبَيُّ، أَلَا تَسْمَعُ كَيْفَ يَقْرَأُ هَذَا هَذِهِ الْآيَةَ؟» فَقَالَ أُبَيُّ: «كَانَتْ فِيمَا أُسْقِطَ» . قَالَ عُمَرُ: ” فَأَيْنَ كُنْتَ عَنْهَا؟ فَقَالَ: شَغَلَنِي عَنْهَا مَا لَمْ يَشْغَلْكَ

عبد الغفار بن داود نے ابْنِ لَهِيعَةَ سے اور اس نے علی بن دینار سے روایت کیا اس نے بَجَالَةَ  سے روایت کیا  کہ عمر بن الخطاب ایک آدمی کے پاس سے گزرے  جو   مصحف میں پڑھ رہا تھا، النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ، وَهُوَ أَبُوهُمْ  (سورۃ احزاب آیت 6)، تو عمر نے اس سے کہا: جب تک اُبی بن کعب نہ جائیں تم مجھے چھوڑ کر مت جانا ، اور جب اُبی بن کعب آ گئے تو عمر نے ابی سے کہا: اے اُبی تم نے سنا یہ کیسے تلاوت کرتا ہے ؟ ابی نے کہا گویا کہ یہ  اس (قرآن) میں (لکھنے)  سے رہ گئی عمر نے اس شخص کو کہا تم کو یہ کہاں سے ملی؟ اس نے کہا میں اس میں مشغول رہا اور آپ اس اس میں مشغول نہیں رہے

  بَجَالَةُ بْنُ عَبَدَةَ التَّمِيمِيُّ الْبَصْرِيُّ کا سماع عمر رضی الله عنہ سے نہیں ہے کتاب  المعرفة از بیہقی کے مطابق امام الشافعی کہتے ہیں یہ مجھول ہے

روایت آوٹ پٹانگ ہے  –  ابی بن کعب رضی الله عنہ  نے جب عثمان  رضی الله عنہ کے دور میں قرآن جمع کیا تو پھر بھی نہیں لکھا

کتاب فضائل القرآن للقاسم بن سلام از  أبو عُبيد القاسم بن سلاّم (المتوفى: 224هـ) کی روایت ہے

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَمْرٍو الْمَعَافِرِيِّ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ الْكَلَاعِيِّ، أَنَّ مَسْلَمَةَ بْنَ مُخَلَّدٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ لَهُمْ ذَاتَ يَوْمٍ: أَخْبِرُونِي بِآيَتَيْنِ مِنَ الْقُرْآنِ لَمْ تُكْتَبَا فِي الْمُصْحَفِ، فَلَمْ يُخْبِرُوهُ، وَعِنْدَهُمْ أَبُو الْكَنُودِ سَعْدُ بْنُ مَالِكٍ، فَقَالَ مَسْلَمَةُ: (إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَلَا أَبْشِرُوا أَنْتُمُ الْمُفْلِحُونَ، وَالَّذِينَ آوُوهُمْ وَنَصَرُوهُمْ وَجَادَلُوا عَنْهُمُ الْقَوْمَ الَّذِينَ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ أُولَئِكَ مَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ)

ابو عبید نے کہا کہ ہمیں ابن ابی مریم نے ابْنِ لَهِيعَةَ سے اور انہوں نے یزید بن عمرو المغافری سے اور انہوں نے ابی سفیان الکلاعی سے روایت کیا کہ مسلمۃ بن مخلد الانصاری نے انہیں ایک دن کہا: مجھے قرآن کی ایسی دو آیتیں بتاؤ جو مصحف میں نہیں لکھی گئیں تو انہوں نے اسے نہیں بتایا، ان کے ہاں ابو الکنود سعد بن مالک موجود تھا تو ابو مسلمۃ نے کہا: “(إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَلَا أَبْشِرُوا أَنْتُمُ الْمُفْلِحُونَ، وَالَّذِينَ آوُوهُمْ وَنَصَرُوهُمْ وَجَادَلُوا عَنْهُمُ الْقَوْمَ الَّذِينَ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ أُولَئِكَ مَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

ابی سفیان الکلاعی مجھول ہے

ابْنِ لَهِيعَةَ کہنا چاہتا ہے کہ ١٢٠ سال پہلے عثمان رضی الله عنہ کے دور میں جو قرآن جمع ہوا اس میں تمام آیات نہیں لکھی گئیں خاص طور پر سوره الاحزاب پر اس کی خاص نظر ہے- اس کے مطابق اس میں ٢٠٠ کے قریب آیات تھیں اور اس میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو باپ کہا گیا تھا- افسوس اسی قرآن میں ہے

ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین وکان اﷲ بکل شئی علیما

اور محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں ہے لیکن الله کا رسول ہے اور الله ہر چیز سے باخبر ہے

عَبد اللهِ بْن لَهِيعَة نے روایت میں  بتایا کہ قرآن میں اس میں تھا جو  نفس سوره سے  ہی متصادم ہے

آیت  جوروایت میں مفقود بتائی گئی ہے

(إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَلَا أَبْشِرُوا أَنْتُمُ الْمُفْلِحُونَ، وَالَّذِينَ آوُوهُمْ وَنَصَرُوهُمْ وَجَادَلُوا عَنْهُمُ الْقَوْمَ الَّذِينَ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ أُولَئِكَ مَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

اس متن کی قرآن میں آیات ہیں اور ان کو ہی ملا کراس روایت میں ایک نئی آیت بنا دی گئی ہے لہذا اس روایت کا مقصد صرف موجودہ قرآن پر شک پھیلانا ہے

کتاب فضائل القرآن للقاسم بن سلام از  أبو عُبيد القاسم بن سلاّم (المتوفى: 224هـ) کی روایت ہے

حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: ” كَانَتْ سُورَةُ الْأَحْزَابِ تُقْرَأُ فِي زَمَانِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِائَتَيْ آيَةٍ، فَلَمَّا كَتَبَ عُثْمَانُ الْمَصَاحِفَ لَمْ يَقْدِرْ مِنْهَا إِلَّا عَلَى مَا هُوَ الْآنَ

 ہمیں ابن ابی مریم نے ابْنِ لَهِيعَةَ  سے اور انہوں نے ابی الاسود (مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ الأَسَدِيُّ الْمَدِينِيُّ) سے اور انہوں نے عروۃ بن الزبیر سے اور انہوں نے عائشہ سے کہ انہوں  نے کہا: رسول اللہ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  کے دنوں میں سورۃ الاحزاب پڑھی جاتی تھی اور اس میں دو سو آیتیں ہوتی تھیں مگر جب عثمان نے قرآن جمع کیا تو اس میں اتنی پر ہی قادر ہو سکے جو  اس میں اب ہیں

الانتصار للقرآن میں  أبو بكر الباقلاني المالكي (المتوفى: 403هـ) کہتے ہیں

فجوابُنا عن كل ما يردُ من هذا الجنس أنه مما كان قرآناً رُفع ونُسخت تلاوتُه، وذلك ما لا ينكره ولا يُدفعُ في الجملة أن يكون الله سبحانَه قد أنزلَ  قرآناً كثيراً ثم نسخَ تلاوتَه وإن كنَّا لا نتيقن صحة كل خبر من هذه الأخبار.

پس ہمارا جواب اس قسم کی تمام روایات پر یہ ہے ہے قرآن میں تھا جو اٹھ گیا اور اس کی تلاوت منسوخ ہوئی اور یہ ایسی بات ہے جس کا انکار نہیں ہے اور نہ ہی اس کا رد کرتے ہیں کہ الله سبحانہ نے قرآن میں بہت کچھ نازل کیا پھر اس کی تلاوت منسوخ کی  اگرچہ  ہم اس قسم کی تمام خبروں کی صحت پر یقین نہیں کرتے

اہل تشیع کے علماء میں أبو جعفر الطوسي  کتاب التبيان: 1/ 394  کہتے ہیں

قد جاءت أخبار متضافرة بأنه كانت أشياء في القرآن نسخت تلاوتها وعددها، وذكر منها أن سورة الأحزاب كانت تعادل سورة البقرة في الطول

بلا شبہ  روایات آئی ہیں کہ قرآن میں ایسی  چیزیں تھیں جن کی تلاوت منسوخ ہوئی اور ان کو گنا گیا اور ذکر کیا گیا ہے کہ سوره الاحزاب میں آیات سوره بقرہ برابر تھیں

یعنی یہ بات کہ سوره الاحزاب میں منسوخ آیات تھیں اہل تشیع کے ہاں بھی قبول کی جاتی ہے

  الخلع والحفد کی حقیقت

بعض روایات میں کہا گیا ہے کہ اس نام کی سورتیں تھیں ان کا متن کیا تھا ؟ اس پر روایات میں ہے

مصنف عبد الرزاق کی روایت ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ،  عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُمَارَةَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ الْكَاهِلِيِّ، أَنَّ عَلِيًّا كَانَ يَقْنُتُ بِهَاتَيْنِ السُّورَتَيْنِ فِي الْفَجْرِ، غَيْرَ أَنَّهُ يُقَدِّمُ الْآخِرَةَ وَيَقُولُ: اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ، وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ، وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ، نَرْجُو رَحْمَتَكَ، وَنَخَافُ عَذَابَكَ، إِنَّ عَذَابَكَ بِالْكَافِرِينَ مُلْحَقٌ، اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِينُكَ، وَنَسْتَهْدِيكَ، وَنُثْنِي عَلَيْكَ الْخ‍َيْرَ كُلَّهُ، وَنَشْكُرُكَ وَلَا نَكْفُرُكَ وَنُؤْمِنُ بِكَ، وَنَخْلَعُ وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ

عبد الرزاق ، حسن بن عمارہ سے وہ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ سے وہ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ الْكَاهِلِيِّ سے وہ علی سے روایت کرتے ہیں کہ علی نماز فجر میں ان دو سورتوں سے قنوت کرتے اور کہتے

اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ، وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ، وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ، نَرْجُو رَحْمَتَكَ، وَنَخَافُ عَذَابَكَ، إِنَّ عَذَابَكَ بِالْكَافِرِينَ مُلْحَقٌ، اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِينُكَ، وَنَسْتَهْدِيكَ، وَنُثْنِي عَلَيْكَ الْخ‍َيْرَ كُلَّهُ، وَنَشْكُرُكَ وَلَا نَكْفُرُكَ وَنُؤْمِنُ بِكَ، وَنَخْلَعُ وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ

یہ دعائے قنوت ہے نہ کہ سورتیں – لیکن بعض میں اس کو دو سورتیں کہا گیا ہے

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ سُوَيْدٍ الْكَاهِلِيِّ، أَنَّ عَلِيًّا قَنَتَ فِي الْفَجْرِ بِهَاتَيْنِ السُّورَتَيْنِ: «اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِينُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ وَنُثْنِي عَلَيْكَ الْخَيْرَ، وَلَا نَكْفُرُ، وَنَخْلَعُ وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ، اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ، وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ نَرْجُو رَحْمَتَكَ، وَنَخْشَى عَذَابَكَ، إِنَّ عَذَابَكَ الْجِدَّ بِالْكُفَّارِ مُلْحِقٌ»

یہاں سند میں  عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ سُوَيْدٍ الْكَاهِلِيِّ کہا گیا ہے جبکہ مصنف عبد الرزاق میں سند میں  نام عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ الْكَاهِلِيِّ  ہے دونوں مقام پر اس کو سورتیں کہا گیا ہے –  عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ سُوَيْدٍ  مجہول ہے لگتا ہے یہ  حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ کی غلطی سے ہوا ہے

مصنف ابن ابی شیبہ میں اس کو قرات کہا گیا ہے

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ، فِي قِرَاءَةِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ: «اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِينُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ وَنُثْنِي عَلَيْكَ، وَلَا نَكْفُرُكَ، وَنَخْلَعُ، وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ، اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ، وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ، وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَرْجُو رَحْمَتَكَ، وَنَخْشَى عَذَابَكَ، إِنَّ عَذَابَكَ بِالْكُفَّارِ مُلْحِقٌ»

مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ نے کہا  ابی بن کعب کی قرات میں تھا

سند میں جعفر بن برقان الكلابي ضعیف ہے

مصنف ابن ابی شبیہ میں ہے کہ ابن مسعود رضی الله عنہ نے دعا قنوت سکھائی

حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: عَلَّمَنَا ابْنُ مَسْعُودٍ أَنْ نَقُولَ فِي الْقُنُوتِ يَعْنِي فِي الْوِتْرِ: «اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِينُكَ، وَنَسْتَغْفِرُكَ، وَنُثْنِي عَلَيْكَ، وَلَا نَكْفُرُكُ، وَنَخْلَعُ، وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ، اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ، وَلَكَ نُصَلِّي، وَنَسْجُدُ، وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ، وَنَرْجُو رَحْمَتَكَ، وَنَخْشَى عَذَابَكَ إِنَّ عَذَابَكَ بِالْكُفَّارِ مُلْحَقٌ»

طبرانی الکبیر کی روایت ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ رَاهَوَيْهِ، ثنا أَبِي، ثنا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، قَالَ: «أَمَّنَا أُمَيَّةُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ خَالِدِ بْنِ أُسَيْدٍ بِخُرَاسَانَ فَقَرَأَ بِهَاتَيْنِ السُّورَتَيْنِ إِنَّا نَسْتَعِينُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ

عِيْسَى بنُ يُوْنُسَ بنِ أَبِي إِسْحَاقَ عَمْرِو بنِ عَبْدِ اللهِ الهَمْدَانِيُّ کہتے ہیں میرے باپ نے میرے دادا ابو اسحاق سے روایت کیا کہ خراسان میں أُمَيَّةُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ خَالِدِ بْنِ أُسَيْدٍ   المتوفی ٨٧ ھ  کی بدولت ہم ایمان لائے اور وہ وہاں دو سورتیں إِنَّا نَسْتَعِينُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ پڑھتے تھے

واضح رہے کہ أُمَيَّةُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ خَالِدِ بْنِ أُسَيْدٍ ایک اموی تھے جن کو خراسان پر گورنر خلیفہ عَبْدِ المَلِكِ بنِ مَرْوَانَ  مقرر کیا تھا جو شیعہ نہ تھے لیکن  اس روایت کو بیان کرنے والے ابو اسحاق السَّبِيْعِيُّ  شیعہ مشھور ہیں

ابو اسحاق السَّبِيْعِيُّ جو خود ایک کٹر شیعہ تھے ان کے مطابق ابو امیہ کے دور تک ان سورتوں کی تلاوت ہو رہی تھی – اغلبا ابو اسحاق ابو اسحاق السَّبِيْعِيُّ کو مغالطہ ہوا کہ یہ سورتیں ہیں جبکہ یہ دعا قنوت تھی جو آج تک کی جاتی ہے اور مصحف کا حصہ نہیں ہیں

مصنف عبد الرزاق  اور ابن ابی شیبہ کی روایت ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ،  عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ، أَنَّهُ سَمِعَ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ، يَأْثِرُ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي الْقُنُوتِ … بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، اللَّهُمَّ إِنَّا، نَسْتَعِينُكَ، وَنَسْتَغْفِرُكَ، وَنُثْنِي عَلَيْكَ وَلَا نَكْفُرُكَ، وَنَخْلَعُ وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ، وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ، وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ، نَرْجُو رَحْمَتَكَ، وَنَخَافُ عَذَابَكَ، إِنَّ عَذَابَكَ بِالْكُفَّارِ مُلْحَقٌ

ابن جریج   کہتے ہیں عَطَاءٌ   کے واسطے سے وہ کہتے ہیں   عبيد بن عمير بن قتادة بن سعد أبو عاصم الليثي  کو سنا انہوں نے بیان کیا عمر نے نماز میں قنوت کیا اور . بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، پڑھ کر اللَّهُمَّ إِنَّا، نَسْتَعِينُكَ، وَنَسْتَغْفِرُكَ پڑھی – بعض کا اس پر گمان گیا کہ اگربسم الله پڑھی گئی ہے تو گویا یہ سورت ہے

بسم الله پڑھنے سے یہ قطعی ثابت نہیں ہوتا کہ یہ قرآن ہے یا نہیں کیونکہ بسم الله کو قرآن میں آیت سمجھ کر نہیں لکھا گیا بلکہ سنت کا طریقہ ہے تلاوت سے پہلے اس کو پڑھا جاتا تھا اس پر علماء  کا اختلاف ہے کہ کیا بسم الله سوره الفاتحہ کا حصہ ہے اور یہ اختلاف بھی صرف سوره الفاتحہ پر ہے – جمہور علماء کی رائے میں بسم الله قرآن کا حصہ نہیں ہے

روایت کو علماء صحیح کہتے ہیں لیکن وہ اس سے دلیل نہیں لیتے کہ یہ سورتیں ہیں مثلا کتاب إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل  میں البانی اس روایت کا ذکر کر کے کہتے ہیں

قلت: قد ثبت القنوت قبل الركوع عن عمر من عدة طرق صحيحة عنه

میں کہتا ہوں یہ ثابت ہے کہ عمر رکوع سے قبل قنوت کرتے تھے جو بہت سے صحیح طرق سے مروی ہے

سورةِ الخلْعِ کے الفاظ کہے جاتے ہیں

اللهمَّ إِنّا نَستعينُك ونَستغفرُك، ونُثْني عليكَ ولا نَكْفُرُك، ونَخلعُ ونَتركُ مَنْ يَفجرُك

سورةِ الحَفْدِ کے الفاظ کہے جاتے ہیں

اللهمَّ إِيّاك نَعْبُد، ولك نُصَلّي  ونَسجد، وإِليكَ نَسْعى ونَحْفِد، نَرجو رحمتَك ونَخشى عَذابَك، إِنَّ عذابَك  بالكفارِ مُلْحِق

کتاب البرهان في علوم القرآن از الزركشي (المتوفى: 794هـ) کے مطابق

وَأَنَّهُ ذَكَرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ أَقْرَأَهُ إِيَّاهُمَا وَتُسَمَّى سُورَتَيِ الْخَلْعِ وَالْحَفْدِ

اور ذکر کیا جاتا ہے نبی صلی الله علیہ وسلم ان کی قرات کرتے تھے اور اس  کو الْخَلْعِ وَالْحَفْدِ   سوره کہا گیا ہے

اسی طرح کہا جاتا ہے ابی بن کعب کے قرآن میں ایک سو سولہ سورتیں تھیں یعنی موجودہ قرآن کے علاوہ دعائے قنوت بھی اس کے آخر میں لکھی ہوئی تھی

البرهان للزركشي

اب کوئی یہ بتائے کہ کیا یہ دعائے قنوت کوئی ایسا کلام ہے جس سے ایمانیات میں کوئی کمی اتی ہو یہ تو دعآ کے کلمات ہیں اور امت کی ایک کثیر تعداد ان الفاظ کو قنوت میں پڑھتی ہے الرزقانی  کتاب مناهل العرفان في علوم القرآن میں کہتے ہیں

وهذا الدعاء هو القنوت الذي أخذ به السادة الحنفية

اور یہ دعا ہے جو قنوت میں ہے جس کو سادات حنفیہ نے لیا ہے

 لہذا الخلع والحفد  مفقود ہیں  ایک شوشہ ضرور ہے لیکن اس شوشے میں جان نہیں ہے

ابن جوزی اپنی کتاب فنون الأفنان في عيون علوم القرآن میں لکھتے ہیں کہ

وجملة سوره على ما ذكر عن أُبي بن كعب رضي اللَّه عنه مائة  وست عشرة سورة. وكان ابن مسعود رضي اللَّه عنه يُسقط
المعوذتين، فنقصت جملته سورتين عن جملة زيد. وكان أُبي بن  كعب يُلحقهما ويزيد إليهما سورتين، وهما الحَفدة والخَلع.
إحداهما،: “اللهم إِنا نستعينك ونستغفرك … “، وهي سورة  والْأُخرى: (اللهم إياك نعبد … ) ، وهي سورة الحفد.  فزادت جملته على جملة زيد سورتين، وعلى جملة  ابن مسعود أربع سور. وكل أدى ما سمع، ومصحفنا أولى بنا أن نتبع.

اور وہ جملہ سورتیں جو ابی بن کعب کے حوالے سے ذکر کی گئی ہیں ان کی تعداد ١١٦ ہے اور ابن مسعود نے المعوذتين  کو مصحف  میں سے گرا دیا اس سے دو سورتیں کم ہوئیں جو زید بن ثابت کے پاس تھیں- اور ابی بن کعب اس میں دو سورتوں کا اضافہ کرتے اور وہ ہیں : الخَلع ایک ہے  “اللهم إِنا نستعينك ونستغفرك … “ اور دوسری ہے اللهم إياك نعبد …  جو سورہ الحفد ہے پس ان پر دو سورتوں کا اضافہ کرتے اور ابن مسعود اس طرح چار سورتوں کا انکار کرتے یعنی  ( المعوذتين  اور الحَفدة والخَلع کا ) … اور ہمارے لئے جو مصحف ہے ہمارے لئے اولی ہے کہ اس کی اتباع کریں

ابن قتیبة بھی اپنی کتاب تأویل مشکل القرآن میں ذکر کرتے ہیں کہ

وأما نقصان مصحف عبد الله بحذفه (أمّ الکتاب) و (المعوّذتین) ، وزیادة أبیّ بسورتی القنوت- فإنا لا نقول: إن عبد الله وو أبیّا أصابا وأخطأ المهاجرون والأنصار، ولکنّ (عبد الله) ذهب فیما یرى أهل النظر إلى أن (المعوذتین) کانتا کالعوذة والرّقیة وغیرها، وکان یرى رسول الله، صلّى الله علیه وآله وسلّم، یعوّذ بهما الحسن والحسین وغیرهما ، کما کان یعوّذ بأعوذ بکلمات الله التّامة ، وغیر ذلک، فظنّ أنهما لیستا من القرآن

ابن مسعود کے مصحف میں   کمی تھی کہ سورہ الفاتحہ محذوف تھی اور المعوّذتین اور – اور ابی بن کعب کے مصحف میں  قنوت پر دو سورتیں تھیں  تو اس پر ہم یہ نہیں کہتے کہ ابن مسعود یا ابی بن کعب  ٹھیک تھے اور باقی مہاجرین و انصار نے خطا کی لیکن ابن مسعود نے اس کو اہل نظر کی طرح دیکھا کہ سورہ فلق و الناس سے نبی صلی الله علیہ وسلم نے تعوذ کیا اور دم کیا اور اسی طرح دیگر سے اور دیکھا کہ رسول الله نے حسن و حسین کو اس سے تعوذ کیا اور دیگر کو جیسے وہ أعوذ بکلمات الله التّامة سے تعوذ کرتے تھے  پس انہوں نے گمان کیا کہ قرآن سے نہیں ہیں

پھر آگے لکھتے ہیں کہ

وإلى نحو هذا ذهب أبیّ فی (دعاء القنوت) ، لأنه رأى رسول الله، صلّى الله علیه وآله وسلّم، یدعو به فی الصلاة دعاء دائما، فظن أنه من القرآن، وأقام على ظنه، ومخالفة الصحابة

اور اسی  طرح ابی بن کعب گئے اس طرف کہ دیکھا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے نماز میں دعا قنوت نماز میں دائمی پڑھتے تو وہ سمجھے یہ قرآن میں سے ہے اور ان کا یہ ظن برقرار رہا اور صحابہ نے اس ظن کی مخالفت کی

طرفہ تماشہ ہے کہ ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ عثمان رضی الله عنہ نے قرآن میں سے ان سورتوں کو نکال دیا دوسری طرف بنو امیہ کے خلیفہ عبد الملک کے دور تک کہا جاتا ہے کہ ان کو پڑھا جا رہا تھا جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ مغالطہ نو مسلموں کوہوا جن کو جمع القران کی جزیات تک کا علم نہ تھا

الله ہم کو ایمان پر قائم رکھے امین

قرآن اور قرات عشرہ

قرآن کے حوالے سے ایک مسلم کو علم ہونا چاہیے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

إِنَّ الْقُرْآنَ أُنْزِلَ على سَبْعَةِ أَحْرُفٍ فاقرؤوا منه ما تَيَسَّرَ
قرآن سات حروف پر نازل ہوا جیسا آسان ہو پڑھو صحیح البخاری

اس کی تعبیر و تشریح کسی صحیح حدیث میں نہیں ہے لیکن احادیث میں ہے کہ اس کی بنا پر قرآن کی بعض قرات دوسری سے الگ محسوس ہوتی تھیں یہاں تک کہ ایک موقع پر عمر رضی الله عنہ نے ایک دوسرے صحابی کو برا بھلا کہا اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس بھی پیش کیا اپ نے دونوں کی الگ الگ قرات سنی اور دونوں کو صحیح قرار دیا

قرآن کو دور صدیقی میں مصحف کی صورت میں جمع کیا گیا کیونکہ یہ ایک کتاب کی صورت میں نہ تھا

تلفظ اور لحن کے مسئلہ پر عثمان رضی الله عنہ نے قرآن کو واپس ایک کیا اور نہ صرف مصحف ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کو لیا بلکہ بعد میں کوئی اعتراض نہ کرے زید بن ثابت رضی الله عنہ کی ڈیوٹی لگائی کہ مسجد النبی میں بیٹھ کر ہر آیت پر دو گواہیاں طلب کرو کہ وہ گواہی دیں کہ قرآن کا حصہ ہیں –  لہذا نہایت احتیاط سے جمع ہوا

اس خط کو خط حجازی کہا جاتا ہے جو زیر زبر کے بغیر تھا جو اپ نیچے دیکھ سکتے ہیں کہ اصل میں نقطۂ اور اعراب نہیں تھے

قرآن کے قدیم ترین نسخے ١٩٧٢ میں صنعا یمن سے ملے ہیں

سناء

قرآن مصحف کی صورت نہیں پھیلا تھا وہ قرات سے مسلم علاقوں تک پہنچا تھا لہذا تلاوت کرنا سب کو اتا تھا اور اس کو حفظ کیا جاتا تھا لیکن جب مصحف میں لکھا گیا تو نقطے لگائے گئے جو ایک روایت  کے مطابق علی رضی الله عنہ کا خیال تھا اور دوسری  کے مطابق عبد الملک کا خیال تھا

قرطبی لکھتے ہیں

عبدالملک مروان نے مصحف کے حروف کو متشکل کرنے اور ان پر نقطے لگانے کا حکم دیا ، اس نے اس کام کے لیے حجاج بن یوسف کو شہر واسط سے  فارغ کیا (تاکہ اعراب کا کام صحیح طور پر ہو)  ۔اس نے بہت محنت و لگن سے اس کام کو انجام دیا اور اس میں احزاب کا اضافہ کیا اس وقت حجاج عراق کا گورنر تھا ۔ اس نے حسن اور یحیی ابن یعمر کے ذمہ  یہ کام لگایا ، اس کے بعد واسط میں ایک کتاب لکھی ، جس میں قراءت کے متعلق مختلف روایات کو جمع کیا ، بڑے عرصہ تک لوگ اس کتاب پر عمل کرتے رہے ، حتی کہ ابن مجاہدنے قراءت میں ایک کتاب لکھی

تفسیر القرطبی

 ابن خلکان لکھتے ہیں

ابوالاسود الدولی وہ پہلے شخص ہیں ، جنہوں نے سب سے پہلے علم نحو کو وضع کیا ، علی رضی اللہ عنہ نے ان کو بتایا کہ  کلام کی کل تین قسمیں ہیں : اسم ، فعل اور حرف، اور فرمایا : اس پر تم قواعد تحریر کرو ،

وفیات الاعیان از ابن خلکان

اعراب اور بعض اوقات نقطے لال رنگ سے لگائے گئے تھے اور متن کالی سیاہی سے لکھا جاتا تھا تاکہ واضح کیا جائے کہ نئی چیز کیا ہے

اب یہخط،  خط کوفی کہلایا

تشکیل١

https://ar.wikipedia.org/wiki/مخطوطات_صنعاء#/media/File:Sanaa_-_manuscript_Surat_al_Maida.jpg

قرآن پر اعراب کا لگنا  سامی زبانوں میں ایک ترقی تھی کیونکہ آج تک عبرانی بغیر نقطوں اور اعراب کے لکھی جاتی ہے اس کے برعکس عرب مسلمانوں نے نقطے اور اعراب کو داخل کیا اور قرآن میں جو تلفظ کے مسائل تھے ان کو دور کیا یہاں تک کہ اختلاف معنی نہ ہوا

ابن تیمیہ فتوی ج 3 ص ٤٠٢ میں لکھتے ہیں

تشکیل2

مسلمانوں نے (قرآن) مصحف (کی صورت) لکھا اور نقطے نہ  لگآنا اور اور(تشکیل) اعراب نہ لگانا جائز تھا کیونکہ صحابہ نے اپنے مصحف نقطوں اور اعراب کے بغیر لکھے تھے کیونکہ وہ عرب تھے اور لحن (لہجوں میں اختلاف) نہ کرتے تھے- اور ایسے تھے یہ مصاحف جو عثمان نے بھیجے اور تابعین کے دور تک تھے- پھر کھڑا ہوا لحن (لہجوں میں اختلاف)  کا مسئلہ لہذا مصاحف پر نقطے لگائے گئے اور نقطوں کو لال لکھا، پھر ان کو حروف کی طرح ہی لکھا جانے لگا (یعنی جس سیاہی میں خط ہوتا اسی میں نقطے) پس علماء کا تنازع ہوا اس پر کراہت کے حوالے سے جو امام احمد کا اس کے خلاف  آیا ہے الله رحم کرے، اور دیگر علماء کی جانب سے کہا جاتا ہے وہ کراہت کرتے تھے کیونکہ یہ بدعت ہے، اور کہا جاتا ہے کہ وہ کراہت نہ کرتے تھے کیونکہ اس کی ضرورت تھی، اور کہا جاتا ہے وہ کراہت کرتے تھے نقطوں سے بغیر اعراب کے  

مخطوطات صنعاء کی دو باتیں بہت اہم اور قابل توجہ ہیں اول یہ اس وقت قرآن کے سب سے قدیم نسخوں میں سے ہے دوم اس میں عبد الله ابن مسعود کی قرات ہے جس پر یمن میں قرآن پڑھا جاتا تھا اور سوم اس پر دو تحریریں ہیں ایک کو مٹا کر دوسری کو لکھا گیا ہے

سناء٣

https://ar.wikipedia.org/wiki/مخطوطات_صنعاء#/media/File:Qur%27anic_Manuscript_-_3_-_Hijazi_script.jpg

چونکہ ایک مخصوص فرقہ کی جانب سے قرآن کے حوالے سے متضاد بیان اتے رہتے ہیں کہ اس کو دور اول میں تبدیل کیا گیا تھا لہذا اس میں تمام دنیا کی دلچسپی پیدا ہوئی اور ہارورڈ اور ستانفورڈ یونیورسٹی نے ان مخطوطات کو حاصل کیا اور ان پر سائنسی انداز میں تحقیق کی نہ صرف نچلی تحریر پڑھی بلکہ کاربن ڈیٹنگ بھی ہوئی

سوچا یہ جا رہا تھا کہ نچلی تحریر میں کوئی دوسرآ قرآن ہو گا جس کو مٹا کر حکم عثمان پر نیا قرآن لکھا گیا

الغرض  جو نتائج نکلے وہ  اچھے تھے

اول نسخے دور صحابہ  کے ہیں

 دوم نسخوں کی نچلی تحریر آج کے قرآن سے الگ نہیں اور ان میں نقطے اور اعراب نہیں ہیں

مخطوطات صنعاء پر محقیقین لکھتے ہیں

In any case, textual criticism suggests that the standard version is the most faithful representation, among the known codices, of the Quran as recited by the Prophet.

کسی بھی صورت میں تحریری تنقید بتاتی ہے کہ جو سٹندرد قرآن ہے وہ بہت ایمان و احتیاط کے ساتھ لکھا گیا ہے جیسا کہ رسول نے اس کی تلاوت کی

Behnam Sadeghi and Uwe Bergmann, The Codex of a Companion of the Prophet and the Qur’a n of the Prophet, Arabica 57 (2010) 343-436, Brill Publisher.

قابل غور ہے کہ یہ تحقیق امریکا کی  یونیورسٹیز میں ہوئی ہے جس کے لئے اہل اسلام کو ان کی تعریف کرنی چاہیے کیونکہ تحقیق کا اصول ہے کہ اس کو کسی بھی تعصب سے الگ ہو کر کیا جائے- مذہبی اورمسلکی تعصب بعض اوقات انسان کے اندر سمجھنے کی صلاحیت کم کر دیتا ہے

دس متواتر قراتیں

قرآن کی قرات بہت سے صحابہ تابعین اور تبع تابعین سے ہم تک آئی ہے جس کو دس متواتر قرات کہا جاتا ہے

سوره الفاتحہ کی دس قرات یو ٹیوب پر اس طرح موجود ہیں

اہل مدینہ کی قرات

نافع بن عبد الرحمن بن أبي نعيم المدني  المتوفی ١٦٩ ھ  ان کی قرات کی سند ابی بن کعب اور ابو ہریرہ رضی الله عنہما تک جاتی ہے

ان کی قرات کی سند قالون سے ہے

https://www.youtube.com/watch?v=jjbu_5eKZKE

اور

ورش سے ہے

https://www.youtube.com/watch?v=vaXUaw_rXbo

https://archive.org/details/mos7af_warch_maghribi_by_Morocco-Islamic.com

افریقہ کے ممالک میں ان کی قرات پر قرآن پڑھا جاتا ہے

نافع حدیث میں ضعیف ہیں اور امام احمد کہتے ہیں

قال أبو طالب: سألت أحمد، يعني ابن حنبل، عن نافع بن عبد الرحمن، قال: كان يؤخذ عنه القراءة، وليس في الحديث بشيء. «الجرح والتعديل» 8/ (2089)

ان سے قرات لی جائے اور حدیث میں کوئی چیز نہیں

أبو جعفر يزيد بن القعقاع المدني المتوفی ١٣٠ ھ کی قرات ابن عبّاس، ابو ہریرہ اور عیاش بن ابی ربیعہ رضی الله عنہما سے ہے

ان کی قرات کی سند عيسى بن وردان المدني، أبو الحارث الحذاء سے ہم تک آئی  ہے

https://www.youtube.com/watch?v=lM-Apn5gmco

اور

ابن جمّاز سے ہے

https://www.youtube.com/watch?v=1rNqqFmsVwM

أهل مكة کی قرات

عبد الله بن كثير الداري المكي المتوفي ١٢٠ هجرة کی قرات مجاهد و درباس مولى ابن عباس سے ہے

ان کی قرات البزي   کی سند سے ملی ہے

https://www.youtube.com/watch?v=jmaN5GM3M6U

ان کی قرات  قنبل  کی سند سے ملی ہے

https://www.youtube.com/watch?v=ubZXRYrfdw0

العلل میں امام احمد ان کے لئے کہتے ہیں

ذكرا أنهما عرضا على درباس مولى ابن عباس، وقرأ درباس على عبد الله بن عباس، وقرأ عبد الله بن عباس على أصحاب النبي – صلى الله عليه وسلم -. «العلل» (408) .

ان سب نے قرات کو درباس مولی ابن عباس پر پیش کیا اور درباس نے ابن عباس پر اور ابن عباس نے اصحاب رسول پر پیش کیا

اہل شام کی قرات

عبد الله بن عامر اليحصبي الشامي المتوفی ١١٨ ھ کی قرات کی سند  ابو الدرداء رضی الله عنہ تک جاتی ہے

یہ  قاضي دمشق في أيام الوليد بن عبد الملك، وإمام مسجد دمشق، ورئيس أهل المسجد تھے

ان کی قرات کی سند هشام بن عمار  اور

https://www.youtube.com/watch?v=oDHGFedU9ws

  ابن ذكوان سے ہے

https://www.youtube.com/watch?v=5YA7qBOYewo

اہل بصرہ کی قرات

أبو عمرو بن العلاء البصري المتوفی ١٦٨ ھ کی قرات کی سند سعید بن جبیر اور مجاہد تک جاتی ہے

ان کی سند  حفص بن عمر بن عبد العزيز  الدوري  سے ہے

https://www.youtube.com/watch?v=g4rhOizucAU

اور

 السوسي   سے ہے

https://www.youtube.com/watch?v=q_IGe7x_Wqo

مندرجہ ذیل لنک سے اس قرات پر مصحف دیکھا جا سکتا ہے

https://upload.wikimedia.org/wikisource/ar/8/8b/المصحف_برواية_السوسي_عن_أبي_عمرو.pdf

يعقوب بن اسحاق الحضرمي البصری المتوفی ٢٠٥ ھ کی قرات  عاصم بن ابی النجود سے ہے

ان کی قرات کی سند رويس سے ہے

https://www.youtube.com/watch?v=W2XubMdqPT4

اور

أبو الحسن الهذلي سے ہے

https://www.youtube.com/watch?v=7AUyY7Eor4A

اہل کوفہ کی قرات

عاصم بن أبي النَّجود الأسدي الكوفي المتوفی  ١٢٥ ھ  کی سند علی بن ابی طالب اور زر بن حبیش کی سند سے  ابن مسعود رضی الله عنہما تک جاتی ہے

ان کی قرات کی سند حفص بن سلیمان الاسدی سے ہے

https://www.youtube.com/watch?v=ve4K3TV-kU4

اور

شعبة سے ہے

https://www.youtube.com/watch?v=zB4Jr4FcLH8

ان کی قرات سب سے مشھور ہے

عاصم حدیث میں ضعیف ہیں لیکن قرات کے امام ہیں

حمزة  بن حبيب الزيات المتوفي ١٥٦ هجره کی قرات الاعمش سے ہے

ان کی قرات  خلف بن هشام المتوفي ٢٢٩ هجرة  کی سند سے ملی ہے

https://www.youtube.com/watch?v=mbDfcBJzy_U

أحمد العلل میں کہتے ہیں

 قال المروذي: قال أبو عبد الله: حمزة الزيات، ثقة في الحديث، ولكني أكره قراءته. «سؤالاته» (191

مروزی کہتے ہیں امام احمد نے کھا حمزہ حدیث میں ثقہ ہیں لیکن ان کی قرات سے کراہت کرتا ہوں

تہذیب التہذیب کے مطابق سلمة بن شبيب کہتے ہیں امام احمد ایسے قاری کے پیچھے نماز پڑھنے ہی میں کراہت کرتے

أبو الحسن علي بن حمزة الكسائي النحوي الكوفي المتوفی ١٨٩ ھ   کی سند صحابی رسول أبي حيوة شريح بن يزيد رضی الله عنہ تک جاتی ہے

ان کی قرات أبو الحارث الليث بن خالد البغدادي  سے ملی ہے

https://www.youtube.com/watch?v=2nWEPXNxoFM

اور

حفص بن عمر الدوري،

https://www.youtube.com/watch?v=g2tRx7Prom0

اہل بغداد کی قرات

خلف بن ہشام اصل میں المفضل الضبی الكوفي المتوفي ١٧٨ هجري کی قرات ہے

ان کی قرات اسحاق بن ابراہیم اور  ادریس بن عبد الکریم کی سند سے آئی ہے

خلف ،  حمزة  بن حبيب الزيات المتوفي  كي قرات كي راوي بھی ہیں

الغرض ان  قراتوں میں جو اختلاف ہے صوتی ہے معنوی نہیں ہے لیکن یہ تبدیلی سات حروف میں تنزیل کی طرف اشارہ دیتی ہے

——————————————————————————————————-

مختلف قرات پر قرآن یہاں سے پڑھ سکتے ہیں

http://www.nquran.com/index.php?group=othm_view&rewaya=24&sora_no=1