قرآن میں سوره البقرہ میں ہے کہ بابل میں یہود سحر کا علم حاصل کرتے تھے جو ان کی آزمائش تھا آیات ہیں
واتبعوا ما تتلو الشياطين على ملك سليمان وما كفر سليمان ولكن الشياطين كفروا يعلمون الناس السحر وما أنزل على الملكين ببابل هاروت وماروت وما يعلمان من أحد حتى يقولا إنما نحن فتنة فلا تكفر فيتعلمون منهما ما يفرقون به بين المرء وزوجه وما هم بضارين به من أحد إلا بإذن الله ويتعلمون ما يضرهم ولا ينفعهم ولقد علموا لمن اشتراه ما له في الآخرة من خلاق ولبئس ما شروابه أنفسهم لو كانوا يعلمون
اور (یہود) لگے اس (علم) کے پیچھے جو شیطان مملکت سلیمان کے حوالے سے پڑھتے تھے اور سلیمان نے تو کفر نہیں کیا، بلکہ شیاطین نے کفر کیا جو لوگوں کو سحر سکھاتے تھے اور جو بابل میں فرشتوں هاروت وماروت پر نازل ہوا تھا تو (وہ بھی) اس میں سے کسی کو نہ سکھاتے تھے حتی کہ کہتے ہم فتنہ ہیں، کفر مت کر! لیکن وہ (یہودی) پھر بھی سیکھتے، تاکہ مرد و عورت میں علیحدگی کرائیں اور وہ کوئی نقصان نہیں کر سکتے تھے الا یہ کہ الله کا اذن ہو- اور وہ ان سے (سحر) سیکھتے جو نہ فائدہ دے سکتا تھا نہ نقصان- اوروہ جانتے تھے کہ وہ کیا خرید رہے ہیں، آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہ ہو گا اور بہت برا سودا کیا اگر ان کو پتا ہوتا
سحر کا علم ان کو فرشتوں هاروت وماروت سے ملا تھا لیکن ان کو پتا تھا کہ یہ فتنہ ہے لیکن اپنی سابقہ حرکتوں کو توجیہ دینے کے لئے انہوں نے تمام علوم کا مخزن چاہے ( شرک و سحر ہی کیوں نہ ہو ) سانپ کو قراردیا – یہود کے مطابق یہ سب اس شجر علم میں چھپا تھا جو جنت عدن کے بیچوں بیچ تھا – واضح رہے کہ موجودہ توریت کی کتاب پیدائش میں سانپ سے مراد شیطان نہیں ہے بلکہ انسانوں کا ہمدرد ایک مخلوق ہے جو چھپ کر انسان کو علم دیتا ہے جبکہ الله تعالی کا ارادہ انسان کو کم علم رکھنے کا تھا – یہ سب کیوں لکھا گیا اس پر آپ تفصیل
https://www.islamic-belief.net/muslim-belief/satan/ابراہیمی-ادیان-میں-شیطان-کا-تصور/
میں پڑھ سکتے ہیں
سحر کا علم دنیا میں ہاروت و ماروت سے پہلے مصریوں کے پاس بھی تھا جس کا ذکر موسی علیہ السلام کے حوالے سے قرآن میں موجود ہے کہ جادو گرووں نے موسی علیہ السلام اور حاضرین کا تخیل تبدیل کر دیا اور ایک عظیم سحر کے ساتھ ائے جس میں لاٹھیاں اور رسیاں چلتی ہوئی محسوس ہوئیں
یہاں سوره البقرہ میں بتایا گیا کہ بابل میں یہود کا ذوق شادی شدہ عورتوں کو حاصل کرنے کی طرف ہوا جس میں ان کو طلاق دلانے کے لئے سحر و جادو کیا جاتا – اگر سحر صرف نظر بندی ہوتا تو یہ ممکن نہ تھا لہذا اس کو ایک شیطانی عمل کہا جاتا ہے جس میں شریعت کی پابندی کو رد کیا جاتا ہے اور حسد انسان کو سحر کی طرف لے جاتا ہے
اس میں گرہ لگا کر پھونکا جاتا ہے سوره الفلق
تیسری صدی میں جب معتزلہ کا زور تھا انہوں نے مجوسیوں کی طرح الله کی طرف شر کو منسوب کرنے سے انکار کیا اور سوال اٹھایا کہ کیا حسن کی طرح قبیح و سحر و شر کی نسبت الله کی طرف درست ہے ؟ کیا الله خالق سحر و شر ہے ؟
علماء نے اس کا جواب دیا کہ قرآن سے ثابت ہے کہ الله ہی شیطان کا خالق ہے اور تمام گناہ اس نے لکھ دیے ہیں لہذا وہی شر کا خالق ہے – کسی بھی علم کا اثر انگیز ہونا بھی اسی حکم کے تحت ہے لہذا اگرچہ سحر شرک و ناپسندیدہ ہے اس کی تاثیر من جانب الله ہے
ہاروت و ماروت الله کے دو فرشتے تھے جو سحر کا علم لے کر بابل میں اترے اور یہود کی آزمائش بنے- اگر ہاروت و ماروت نے جادو نہیں سکھایا تو وہ یہ کیوں کہتے تھے کہ ہم فتنہ ہیں کفر مت کرو
دوسری صدی ہجری
سابقہ یمنی یہودی کعب الاحبار ایک قصہ سناتے
تفسیر عبد الرزاق المتوفي ٢١١ هجري کی روایت ہے
عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَال – نا الثَّوْرِيُّ , عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ , عَنْ سَالِمٍ , عَنِ ابْنِ عُمَرَ , عَنْ كَعْبٍ , قَالَ: «ذَكَرَتِ الْمَلَائِكَةُ أَعْمَالَ بَنِي آدَمَ , وَمَا يَأْتُونَ مِنَ الذُّنُوبِ» فَقِيلَ لَهُمْ: «اخْتَارُوا مَلَكَيْنِ , فَاخْتَارُوا هَارُوتَ وَمَارُوتَ» قَالَ: فَقَالَ لَهُمَا: «إِنِّي أُرْسِلُ رُسُلِي إِلَى النَّاسِ , وَلَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَكُمَا رَسُولٌ , انْزِلَا وَلَا تُشْرِكَا بِي شَيْئًا , وَلَا تَزْنِيَا , وَلَا تَسْرِقَا» قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: قَالَ كَعْبٌ: «فَمَا اسْتَكْمَلَا يَوْمَهُمَا الَّذِي أُنْزِلَا فِيهِ حَتَّى عَمِلَا مَا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِمَا»
کعب نے کہا : ذکر کیا فرشتوں کا ان کا جو نبی آدم پر نگہبان تھے اور جو ان کے گناہوں کے بارے میں ہے پس ان فرشتوں سے کہا گیا کہ چن لو فرشتوں کو انہوں نے ہاروت و ماروت کو چنا اور ہاروت و ماروت سے کہا میں اپنے سفیر بنی آدم کی طرف بھیج رہا ہوں اور میرے اور تمھارے درمیان کوئی اور نہیں ہو گا بنی آدم پر نازل ہو اور شرک نہ کرنا نہ زنا اور نہ چوری – ابن عمر رضی الله عنہ نے کہا کہ کعب نے کہا انہوں نے وہ کام نہ کیا جس پر نازل کیا گیا تھا یہاں تک کہ حرام کام کیا
اسنادی حیثیت سے قطع نظر ان روایات میں یہود کی کتاب
Book of Enoch
Book of Jubilees
کا قصہ نقل کیا گیا ہے ہبوط شدہ فرشتے
Fallen Angels
یا
Watchers
اپنے ہی ہبوط شدہ فرشتوں میں سے دو کو انسانوں کو سحر سکھانے بھیجتے ہیں
یہود کے مطابق انوخ اصلا ادریس علیہ السلام کا نام ہے
ایک روایت قتادہ بصری سے منسوب ہے
عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ نا مَعْمَرٌ , عَنْ قَتَادَةَ قَالَ: «كَتَبَتِ الشَّيَاطِينُ كُتُبًا فِيهَا كُفْرٌ وَشِرْكٌ , ثُمَّ دَفَنَتْ تِلْكَ الْكُتُبَ تَحْتَ كُرْسِيِّ سُلَيْمَانَ , فَلَمَّا مَاتَ سُلَيْمَانُ اسْتَخْرَجَ النَّاسُ تِلْكَ الْكُتُبَ» فَقَالُوا: هَذَا عِلْمٌ كَتَمَنَاهُ سُلَيْمَانُ فَقَالَ اللَّهُ: {وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُوا الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ} [البقرة: 102]
شیاطین نے کتابیں لکھیں جس میں کفر و شرک تھا پھر ان کو سلیمان کے تخت کے نیچے چھپا دیا پھر جب سلیمان کی وفات ہوئی تو لوگوں نے ان کو نکالا اور کہا یہ وہ علم ہے جو سلیمان نے ہم سے چھپایا پس الله نے کہا{وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُوا الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ} [البقرة:
تذكرة الحفاظ از الذھبی کے مطابق مفسر مجاہد نے تحقیق کی
ذكر محمد بن حميد أخبرنا عبد الله بن عبد القدوس عن الأعمش قال: كان مجاهد لا يسمع بأعجوبة إلا ذهب لينظر إليها. ذهب الى حضرموت ليرى بئر برهوت وذهب الى بابل وعليه وال فقال له مجاهد: تعرض على هاروت وماروت فدعا رجلا من السحرة فقال: اذهب به فقال اليهودي بشرط ألا تدعو الله عندهما قال فذهب به الى قلعة فقطع منها حجرا ثم قال خذ برجلى فهوى به حتى انتهى الى جوبة فإذا هما معلقين منكسين كالجبلين فلما رأيتهما قلت سبحان الله خالقكما فاضطربا فكأن الجبال تدكدكت فغشي على وعلى اليهودي ثم أفاق قبلى فقال قد أهلكت نفسك وأهلكتنى.
الأعمش نے کہا کہ مجاہد عجوبہ بات نہیں سنتے یہاں تک کہ اس کو دیکھتے وہ حضر الموت گئے تاکہ برهوت کا کنواں دیکھیں اور بابل گئےوہاں افسر تھا اس سے کہا مجھ پر ہاروت و ماروت کو پیش کرو پس جادو گروں کو بلایا گیا ان سے کہا کہ وہاں تک لے چلو ایک یہودی نے کہا اس شرط پر کہ وہاں ہاروت و ماروت کے سامنے اللہ کو نہیں پکارو گے – پس وہ وہاں گئے قلعہ تک اس کا پتھر نکالا گیا پھر یہودی نے پیر سے پکڑا اور لے گیا جہاں دو پہاڑوں کی طرح ہاروت و ماروت معلق تھے پس ان کو دیکھا (تو بے ساختہ مجاہد بولے) سبحان الله جس نے ان کو خلق کیا – اس پر وہ (فرشتے) ہل گئے اور مجاہد اور یہودی غش کھا گئے پھرجب افاقہ ہوا تو یہودی بولا: تم نے تو اپنے آپ کو اور مجھے مروا ہی دیا تھا
تیسری صدی ہجری
امام احمد اس قصے کو منکر کہتے تھے – الكتاب: أنِيسُ السَّاري في تخريج وَتحقيق الأحاديث التي ذكرها الحَافظ ابن حَجر العسقلاني في فَتح البَاري از آبو حذيفة، نبيل بن منصور بن يعقوب بن سلطان البصارة الكويتي
وقال أحمد بن حنبل: هذا منكر، إنما يروى عن كعب” المنتخب لابن قدامة ص 296 ہ
امام احمد نے کہا یہ منکر ہے اس کو کعب نے روایت کیا ہے
چوتھی صدی ہجری
تفسیر ابن ابی حاتم کی روایت ہے
حَدَّثَنَا أَبِي ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ- يَعْنِي ابْنَ عُمَرَ- عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو وَيُونُسَ بْنِ خَبَّابٍ عَنْ مُجَاهِدٍ. قَالَ: كُنْتُ نَازِلا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ فِي سَفَرٍ فَلَمَّا كَانَ ذَاتَ لَيْلَةٍ قَالَ لِغُلامِهِ. انْظُرْ طَلَعَتِ الْحَمْرَاءُ لَا مَرْحَبًا بِهَا وَلا أَهْلا وَلا حَيَّاهَا اللَّهُ هِيَ صَاحِبَةُ الْمَلَكَيْنِ- قَالَتِ الْمَلائِكَةُ: رَبِّ كَيْفَ تَدَعُ عُصَاةَ بَنِي آدَمَ وَهُمْ يَسْفِكُونَ الدَّمَ الْحَرَامَ، وَيَنْتَهِكُونَ مَحَارِمَكَ، وَيُفْسِدُونَ فِي الأَرْضِ؟ قَالَ: إِنِّي قَدِ ابْتَلَيْتُهُمْ فَلَعَلِّي إِنِ ابْتَلَيْتُكُمُ بِمِثْلِ الَّذِي ابْتَلَيْتُهُمْ بِهِ فَعَلْتُمْ كَالذي يَفْعَلُونَ قَالُوا: لَا. قَالَ: فَاخْتَارُوا مِنْ خِيَارِكُمُ اثْنَيْنِ، فَاخْتَارُوا هَارُوتَ وَمَارُوتَ فَقَالَ لَهُمَا إِنِّي مُهْبِطُكُمَا إِلَى الأَرْضِ وَعَاهِدٌ إِلَيْكُمَا أَنْ لَا تُشْرِكَا وَلا تَزْنِيَا، وَلا تَخُونَا. فَأُهْبِطَا إِلَى الأَرْضِ، وَأَلْقَى عَلَيْهِمَا الشَّبَقَ وَأُهْبِطَتْ لَهُمَا الزُّهْرَةُ فِي أَحْسَنِ صُورَةِ امْرَأَةٍ فَتَعَرَّضَتْ
مجاہد کہتے ہیں ہم سفر میں آبن عمر رضی الله عنہ کے ساتھ تھے پس جب رات ہوئی انہوں نے لڑکے سے کہا دیکھو الْحَمْرَاءُ کا طلوع ہوا اس میں خوش آمدید نہیں ہے نہ اس کے اہل کے لئے … یہ ان فرشتوں کی ساتھی ہے – فرشتوں نے کہا اے رب ہم انسانوں کے گناہوں کو کیسے دور کریں وہ خون بہا رہے ہیں اور زمین پر فساد برپا کر رہے ہیں؟ کہا : بے شک میں ان کی آزمائش کروں گا جس طرح میں نے تم کو آزمائش میں ڈالا اور دیکھوں گا کیسا عمل کرتے ہیں ؟ … پس اپنے فرشتوں میں سے چنوں دو کو – انہوں نے ہاروت و ماروت کو چنا ان سے کہا زمین پر ہبوط کرو اور تم پر عہد ہے نہ شرک کرنا نہ زنا اور نہ خیانت پس وہ زمین پر اترے اور ان پر شہوانیت القی کی گئی اور الزہرا کو بھی اترا یا ایک حسین عورت کی شکل میں اور ان کا دیکھنا ہوا
سياره الزهراء يا
Venus
کو الْحَمْرَاءُ کہا گیا ہے یعنی سرخی مائل اور اس کو ایک عورت کہا گیا ہے جو مجسم ہوئی اور فرشتوں ہاروت و ماروت کی آزمائش بنی خبر دی گئی کہ فرشتے انسانوں سے جلتے تھے اس تاک میں رہتے کہ الله تعالی کے سامنے ثابت کر سکیں کہ ہم نے جو پہلے کہا تھا کہ یہ انسان فسادی ہے اس کو صحیح ثابت کر سکیں – اس پر الله نے کہا کہ تم فرشتوں سے خود دو کو چنوں اور پھر وہ فرشتے کیا آزمائش بنتے وہ خود الزہرا پر عاشق ہو گئے
کتاب العلل از ابن ابی حاتم میں ابن ابی حاتم نے اپنے باپ سے اس روایت پر سوال کیا
وسألتُ أَبِي عَنْ حديثٍ رَوَاهُ معاذ بن خالد العَسْقلاني عَنْ زُهَير (1) بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ جُبَير (2) ، عَنْ نَافِعٍ، عن عبد الله بْنِ عُمَرَ؛ أنَّه سَمِعَ النبيَّ (ص) يقول: إِنَّ آدَمَ [لَمَّا] (3) أَهْبَطَهُ (4) اللهُ إلَى الأَرْضِ، قَالَتِ المَلاَئِكَةُ: أَيْ رَبِّ! {أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ} (5) ، قَالُوا: رَبَّنَا، نَحْنُ أَطْوَعُ لَكَ مِنْ بَنِي آدَمَ … وذكَرَ الحديثَ: قِصَّةَ (6) هاروتَ وماروتَ؟
قَالَ أَبِي: هذا حديثٌ مُنكَرٌ
میرے باپ نے کہا یہ منکر ہے
ابن ابی حاتم اپنی تفسیر کے ج 10، ص 3241-3242 پر ایک واقعہ نقل کرتے ہیں
قَوْلُهُ تَعَالَى: وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَانَ وَأَلْقَيْنَا عَلَى كُرْسِيِّهِ جَسَدًا ثُمَّ أَنَابَ
18355 – وَبِسَنَدٍ قَوَيٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: أَرَادَ سُلَيْمَانُ عَلَيْهِ السَّلامُ أَنْ يَدْخُلَ الْخَلاءَ فَأَعْطَى الْجَرَادَةَ خَاتَمَهُ وَكَانَتِ امْرَأَتُهُ، وَكَانَتْ أَحَبَّ نِسَائِهِ إِلَيْهِ فَجَاءَ الشَّيْطَانُ فِي صُورَةِ سُلَيْمَانَ فَقَالَ لَهَا: هَاتِي خَاتَمِي فَأَعْطَتْهُ فَلَمَّا لَبِسَهُ دَانَتْ لَهُ الْجِنُّ وَالْإِنْسُ وَالشَّيَاطِينُ، فَلَمَّا خَرَجَ سُلَيْمَانُ عَلَيْهِ السَّلَامُ مِنَ الْخَلَاءِ قال لها: هَاتِي خَاتَمِي فَقَالَتْ: قَدْ أَعْطَيْتُهُ سُلَيْمَانَ قَالَ: أَنَا سُلَيْمَانُ قَالَتْ: كَذَبْتَ لَسْتَ سُلَيْمَانَ فَجَعَلَ لَا يَأْتِي أَحَدًا يَقُولُ: أَنَا سُلَيْمَانُ إِلا كَذَّبَهُ حَتَّى جَعَلَ الصِّبْيَانُ يَرْمُونَهُ بِالْحِجَارَةِ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ عَرَفَ أَنَّهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَقَامَ الشَّيْطَانُ يَحْكُمُ بَيْنَ النَّاسِ.
فَلَمَّا أَرَادَ اللَّهُ تَعَالَى أَنْ يَرُدَّ عَلَى سليمان عليه السلام سلطانه ألْقَى فِي قُلُوبِ النَّاسِ إِنْكَارَ ذَلِكَ الشَّيْطَانِ فَأَرْسَلُوا إِلَى نِسَاءِ «1» سُلَيْمَانَ عَلَيْهِ السَّلامُ فَقَالُوا لهن أيكون من سليمان شيء؟ قلنا: نَعَمْ إِنَّهُ يَأْتِينَا وَنَحْنُ حُيَّضٌ، وَمَا كَانَ يَأْتِينَا قَبْلَ ذَلِكَ
قوی سند کے ساتھ ابن عباس سے نقل کیا گیا ہے کہ جب سلیمان علیہ السلام بیت الخلاء میں جاتے، اپنی انگوٹھی جرادہ کو دیتے، جو کہ ان کی بیوی تھی، اور سب سے عزیز تھی۔ شیطان حضرت سلیمان کی صورت میں اس کے پاس آیا، اور کہا کہ مجھے میری انگوٹھی دو۔ تو اس نے دے دی۔ جب اس نے پہن لی، تو سب جن و انس و شیطان اس کے قابو میں آ گئے۔ جب سلیمان علیہ السلام نکلے، تو اس سے کہا کہ مجھے انگوٹھی دو۔ اس نے کہا کہ وہ تو میں سلیمان کو دے چکی ہوں۔ آپ نے کہا کہ میں سلیمان ہوں۔ اس نے کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو، تم سلیمان نہیں۔ پس اس کے بعد ایسا کوئی نہیں تھا کہ جس سے انہوں نے کہا ہو کہ میں سلیمان ہوں، اور ان کی تکذیب نہ کی گئی ہو۔ یہاں تک کہ بچوں نے انہیں پتھروں سے مارا۔ جب انہوں نے یہ دیکھا تو سمجھ گئے کہ یہ اللہ کا امر ہے۔ شیطان لوگوں میں حکومت کرنے لگا- جب اللہ نے اس بات کا ارادہ کیا کہ حضرت سلیمان کو ان کی سلطنت واپس کی جائے تو انہوں نے لوگوں کے دلوں میں القا کیا کہ اس شیطان کا انکار کریں۔ پس وہ ان کی بیویوں کے پاس گئے اور ان سے پوچھا کہ آپ کو سلیمان میں کوئی چیز نظر آئی؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! اب وہ ہمارے پاس حیض کے دونوں میں بھی آتے ہیں، جب کہ پہلے ایسا نہیں تھا۔
یہاں اس پر قوی سند لکھا ہوا ہے راقم کہتا ہے
تفسیر ابن حاتم ٩٠٠ صفحات کی کتاب ہے اس میں کسی بھی روایت پر سند قوی یا ضعیف یا صحیح نہیں ملتا
یہ واحد روایت 18355 ہے جس پر وَبِسَنَدٍ قَوَيٍ سند قوی ملتا ہے لیکن حیرت ہے کہ اس کی سند ابن ابی حاتم نے نہیں دی
لگتا ہے اس میں تصرف و تحریف ہوئی ہے جب سند ہے ہی نہیں تو قوی کیسے ہوئی؟
اس کی سند ہے
ومن أنكرها أيضًا ما قال ابن أبي حاتم: حدثنا علي بن حسين، قال: حدثنا محمد بن العلاء وعثمان بن أبي شيبة وعلي بن محمد، قال: حدثنا أبو معاوية، قال: أخبرنا الأعمش، عن المنهال بن عمرو، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس -رضي الله عنهما- في قوله – تعال ى-: {وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَانَ وَأَلْقَيْنَا عَلَى كُرْسِيِّهِ جَسَدًا ثُمَّ أَنَابَ}، قال: أراد سليمان -عليه الصلاة والسلام- أن يدخل الخلاء وكذا وكذا؛ ذكر الرواية التي سبق ذكرها
اس کی سند میں المنهال بن عمرو ہے جو ضعیف ہے
چوتھی صدی کے ہی ابن حبان اس روایت کو صحیح ابن حبان المتوفی ٣٥٤ ھ میں نقل کرتے ہیں
أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكير عَنْ زُهَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُوسَى بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: (إِنَّ آدَمَ ـ لَمَّا أُهْبِطَ إِلَى الْأَرْضِ ـ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ: أَيْ رَبِّ! {أَتَجْعَلُ فِيهَا مِنْ يُفسد فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ ونُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ} [البقرة: 30] قَالُوا: رَبَّنَا نَحْنُ أَطْوَعُ لَكَ مِنْ بَنِي آدَمَ قَالَ اللَّهُ لِمَلَائِكَتِهِ: هَلُمُّوا مَلَكَيْنِ مِنَ الْمَلَائِكَةِ فَنَنْظُرَ كَيْفَ يَعْمَلَانِ قَالُوا: رَبَّنَا هَارُوتُ وَمَارُوتُ قَالَ: فَاهْبِطَا إِلَى الْأَرْضِ قَالَ: فَمُثِّلَتْ لَهُمُ الزُّهْرةُ امْرَأَةً مِنْ أَحْسَنِ الْبَشَرِ فَجَاءَاهَا فَسَأَلَاهَا نَفْسَهَا فَقَالَتْ: لَا وَاللَّهِ حَتَّى تكَلِّما بِهَذِهِ الْكَلِمَةِ مِنَ الْإِشْرَاكِ قَالَا: وَاللَّهِ لَا نُشْرِكُ بِاللَّهِ أَبَدًا فَذَهَبَتْ عَنْهُمَا ثُمَّ رَجَعَتْ بصبيٍّ تَحْمِلُه فَسَأَلَاهَا نَفْسَهَا فَقَالَتْ: لَا وَاللَّهِ حَتَّى تَقْتُلَا هَذَا الصَّبِيَّ فَقَالَا: لَا وَاللَّهِ لَا نَقْتُلُهُ أَبَدًا فَذَهَبَتْ ثُمَّ رَجَعَتْ بِقَدَحٍ مِنْ خَمْرٍ تَحْمِلُه فَسَأَلَاهَا نَفْسَهَا فَقَالَتْ: لَا وَاللَّهِ حَتَّى تَشْرَبَا هَذَا الْخَمْرَ فَشَرِبَا فَسَكِرَا فَوَقَعَا عَلَيْهَا وَقَتَلَا الصَّبِيَّ فَلَمَّا أَفَاقَا قَالَتِ الْمَرْأَةُ: وَاللَّهِ مَا تركتُما مِنْ شَيْءٍ أَثِيمًا إِلَّا فَعَلْتُمَاهُ حِينَ سَكِرْتُما فخُيِّرا ـ عِنْدَ ذَلِكَ ـ بَيْنَ عَذَابِ الدُّنْيَا وَعَذَابِ الآخرة فاختارا عذاب الدنيا)
قَالَ أَبُو حَاتِمٍ: الزُّهرة ـ هَذِهِ ـ: امْرَأَةٌ كَانَتْ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ، لَا أَنَّهَا الزُّهرة الَّتِي هِيَ فِي السَّمَاءِ، الَّتِي هِيَ مِنَ الخُنَّسِ.
ابن عمر رضی الله عنہ سے مروی ہے انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا فرمایا: جب آدم کا زمین کی طرف ہبوط ہوا فرشتوں نے کہا اے رب کیا اس کو خلیفہ کیا ہے کہ اس میں فساد کرے اور خون بہائے اور ہم آپ کی تعریف کرتے ہیں اور تقدس کرتے ہیں ؟ فرمایا : میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے – فرشتوں نے کہا ہمارے رب ہم انسانوں سے بڑھ کر آپ کے اطاعت گزار ہیں الله تعالی نے فرشتوں سے کہا : فرشتوں کو لو پس دیکھیں یہ کیا عمل کرتے ہیں- فرشتوں نے کہا : آے رب ہاروت و ماروت ہیں- حکم الہی ہوا : زمین کی طرف ہبوط کرو – وہاں الزہرا انسانوں میں سے ایک حسن عورت ان کو ورغلائے گی پس وہ ان فرشتوں کے پاس گئی اور نفس کے بارے میں سوال کیا (یعنی زنا کی ہاروت و ماروت نے ترغیب دی) اور بولی : نہیں الله کی قسم میں نہیں کروں گی یہاں تک کہ تم شرکیہ کلمات ادا کرو – ہاروت و ماروت نے کہا و الله ہم یہ کلمات نہیں بولیں گے پس وہ لوٹ گئی ایک لڑکے کے ساتھ اور واپس انہوں نے نفس کا سوال کیا وہ بولی میں اس لڑکے کو مار ڈالوں گی فرشتوں نے کہا نہیں مارو وہ لوٹ گئی پھر آئی ایک قدح لے کر شراب کا اس پر سوال کیا فرشتوں نے کہا ہم نہیں پییں گے یہاں تک کہ وہ پی گئے پس وہ واقعہ ہوا (زنا) اور لڑکے کو قتل کیا – جب افاقہ ہوا عورت بولی الله کی قسم میں نے تم کو کہیں کا نہ چھوڑا گناہ میں کوئی چیز نہیں جو تم نہ کر بیٹھے ہو اور تم نے نہیں کیا جب تک شراب نہ پی لی … تم نے دنیا و آخرت میں سے دنیا کا عذاب چنا
ابو حاتم ابن حبان نے کہا الزہرہ یہ اس دور میں عورت تھی وہ وہ نہیں جو آسمان میں ہے جو الخنس ہے
ابن حبان نے اس روایت کو صحیح میں لکھا اس میں اختلاف صرف یہ کیا کہ الزہرہ کو ایک مسجم عورت کی بجائے ایک حقیقی عورت کہا
البدء والتاريخ از المطهر بن طاهر المقدسي (المتوفى: نحو 355هـ) قصة هاروت وماروت، اختلفوا المسلمون [1] فيه اختلافا كثيرا
القدسی نے تاریخ میں لکھا کہ مسلمانوں کا اس پر اختلاف ہے
یعنی ابن ابی حاتم اس کو منکر کہتے ہیں اور ابن حبان صحیح
العلل دارقطنی از امام دارقطنی المتوفی ٣٨٥ ھ میں ہے
وَسُئِلَ عَنْ حَدِيثِ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عليه وسلم: أن آدم لما أهبطه الله إلى الأرض قالت الملائكة: أي رب: {أتجعل فيها من يفسد فيها ويسفك الدماء} ، قالوا: ربنا، نحن أطوع لك من بني آدم، قال الله للملائكة: هلموا ملكين … فذكر قصة هاروت وماروت.
فقال: اختلف فيه على نافع:
فرواه موسى بن جبير، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
وَخَالَفَهُ مُوسَى بْنُ عقبة، فرواه عن نافع، عن ابن عمر، عن كعب الأحبار، من رواية الثوري، عن موسى بن عقبة.
وقال إبراهيم بن طهمان: عن موسى بن عقبة، عن سالم، عن أبيه، عن كعب.
دارقطنی نے العلل میں اس کی اسناد نقل کیں لیکن رد نہیں کیا
پانچویں صدی ہجری
امام حاکم المتوفی ٤٠٥ ھ مستدرک میں اس قصہ کو صحیح کہتے ہیں
آٹھویں صدی ہجری
الذھبی سیر میں لکھتے ہیں
قُلْتُ: وَلِمُجَاهِدٍ أَقْوَالٌ وَغَرَائِبُ فِي العِلْمِ وَالتَّفْسِيْرِ تُسْتَنْكَرُ، وَبَلَغَنَا: أَنَّهُ ذَهَبَ إِلَى بَابِلَ، وَطَلَبَ مِنْ مُتَوَلِّيْهَا أَنْ يُوْقِفَهُ عَلَى هَارُوْتَ وَمَارُوْتَ.
میں کہتا ہوں : مجاہد کے اقوال اور علم و تفسیر میں غریب باتیں ہیں جن کا انکار کیا جاتا ہے اور ہم تک پہنچا ہے کہ یہ بابل گئے اور وہاں کے متولی سے کہا کہ ہاروت و ماروت سے ملاو
لیکن الذھبی مستدرک حاکم کی تلخیص میں ہاروت و ماروت کے اس قصہ کو صحیح کہتے ہیں
أَخْبَرَنَا أَبُو زَكَرِيَّا الْعَنْبَرِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ السَّلَامِ، أَنْبَأَ إِسْحَاقُ، أَنْبَأَ حَكَّامُ بْنُ سَلْمٍ الرَّازِيُّ وَكَانَ ثِقَةً، ثنا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عَبَّادٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ} [البقرة: 102] الْآيَةُ. قَالَ: ” إِنَّ النَّاسَ بَعْدَ آدَمَ وَقَعُوا فِي الشِّرْكِ اتَّخَذُوا هَذِهِ الْأَصْنَامَ، وَعَبَدُوا غَيْرَ اللَّهِ، قَالَ: فَجَعَلَتِ الْمَلَائِكَةُ يَدْعُونَ عَلَيْهِمْ وَيَقُولُونَ: رَبَّنَا خَلَقْتَ عِبَادَكَ فَأَحْسَنْتَ خَلْقَهُمْ، وَرَزَقْتَهُمْ فَأَحْسَنْتَ رِزْقَهُمْ، فَعَصَوْكَ وَعَبَدُوا غَيْرَكَ اللَّهُمَّ اللَّهُمَّ يَدْعُونَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ لَهُمُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّهُمْ فِي غَيْبٍ فَجَعَلُوا لَا يَعْذُرُونَهُمْ ” فَقَالَ: اخْتَارُوا مِنْكُمُ اثْنَيْنِ أُهْبِطُهُمَا إِلَى الْأَرْضِ، فَآمُرُهُمَا وَأَنْهَاهُمَا ” فَاخْتَارُوا هَارُوتَ وَمَارُوتَ – قَالَ: وَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ فِيهِمَا – وَقَالَ فِيهِ: فَلَمَّا شَرِبَا الْخَمْرَ وَانْتَشَيَا وَقَعَا بِالْمَرْأَةِ وَقَتَلَا النَّفْسَ، فَكَثُرَ اللَّغَطُ فِيمَا بَيْنَهُمَا وَبَيْنَ الْمَلَائِكَةِ فَنَظَرُوا إِلَيْهِمَا وَمَا يَعْمَلَانِ فَفِي ذَلِكَ أُنْزِلَتْ {وَالْمَلَائِكَةُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ، وَيَسْتَغْفِرُونَ لِمَنْ فِي الْأَرْضِ} [الشورى: 5] الْآيَةُ. قَالَ: فَجَعَلَ بَعْدَ ذَلِكَ الْمَلَائِكَةُ يَعْذُرُونَ أَهْلَ الْأَرْضِ وَيَدْعُونَ لَهُمْ «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ»
[التعليق – من تلخيص الذهبي] 3655 – صحيح
نویں صدی ہجری
هیثمی المتوفی ٨٠٧ ہجری کتاب مجمع الزوائد میں لکھتے ہیں
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا – قَالَ: اسْمُ الْمَلَكَيْنِ اللَّذَيْنِ يَأْتِيَانِ فِي الْقَبْرِ مُنْكَرٌ وَنَكِيرٌ، وَكَانَ اسْمُ هَارُوتَ وَمَارُوتَ – وَهُمَا فِي السَّمَاءِ – عَزَرًا وَعَزِيزًا .. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ، وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
اس کی اسناد حسن ہیں
ابن حجر المتوفي ٨٥٢ هجري فتح الباری میں کہتے ہیں
قال الحافظ: وقصة هاروت وماروت جاءت بسند حسن من حديث ابن عمر في مسند أحمد
اور ہاروت و ماروت کا قصہ حسن سند سے مسند احمد میں ہے ابن عمر کی سند سے
دسویں صدی ہجری
التخريج الصغير والتحبير الكبير ابن المِبْرَد الحنبلي (المتوفى: 909 هـ)
حديث: “هَارُوتَ وَمَارُوتَ” الإمام أحمد، وابن حبان، بسند صحيح.
ابن المِبْرَد کے مطابق مسند احمد اور صحیح ابن حبان میں اس کی سند صحیح ہے
الدرر المنتثرة في الأحاديث المشتهرة از عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (المتوفى: 911هـ)
قصة هاروت وماروت. وفي مسند أحمد، وصحح ابن حبان من حديث ابن عمر بسند صحيح.
قلت: لها طرق عديدة استوعبتها في التفسير المسند، وفي تخريج أحاديث الشفاء، انتهى.
قصہ ہاروت و ماروت کا یہ مسند احمد صحیح ابن حبان میں ہے صحیح سند سے ابن عمر رضی الله عنہ کی
میں السيوطي کہتا ہوں اس کے بہت سے طرق مسند احمد کی تفسیر میں ہے اور احادیث کتاب الشفاء کی تخریج میں
کتاب تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة المؤلف: نور الدين، علي بن محمد بن علي بن عبد الرحمن ابن عراق الكناني (المتوفى: 963هـ)
” وَمن طَرِيقه (خطّ) من حَدِيث ابْن عمر، وَفِيه قصَّة لنافع مَعَ ابْن عمر وَلَا يَصح، فِيهِ الْفرج بن فضَالة، وسنيد ضعفه أَبُو دَاوُد وَالنَّسَائِيّ (تعقبه) الْحَافِظ ابْن حجر فِي القَوْل المسدد فَقَالَ: أخرجه أَحْمد فِي مُسْنده وَابْن حبَان فِي صَحِيحه من وَجه آخر، وَله طرق كَثِيرَة جمعتها فِي جُزْء مُفْرد يكَاد الْوَاقِف عَلَيْهَا لكثرتها وَقُوَّة مخارج أَكْثَرهَا يقطع بِوُقُوع هَذِه الْقِصَّة، انْتهى قَالَ السُّيُوطِيّ: وجمعت أَنا طرقها فِي التَّفْسِير الْمسند وَفِي التَّفْسِير الْمَأْثُور فَجَاءَت نيفا وَعشْرين طَرِيقا مَا بَين مَرْفُوع وَمَوْقُوف، وَلِحَدِيث ابْن عمر بِخُصُوصِهِ طرق مُتعَدِّدَة.
اور جو طرق حدیث ابن عمر کا ہے اور اس میں نافع کا ابن عمر کے ساتھ کا قصہ ہے صحیح نہیں ہے اس میں فرج بن فضالہ ہے اور سنید ہے جس کی تضعیف کی ہے ابو داود نے اور نسائی نے اس کا تعقب کیا ہے ابن حجر نے کتاب القول لمسدد میں اور کہا ہے اس کی تخریج کی ہے احمد نے مسند میں ابن حبان نے صحیح میں دوسرے طرق سے اور اس کے کثیر طرق ہیں جو سب مل کر ایک جز بن جاتے ہیں اور واقف جان جاتا ہے اس کثرت پر اور مخارج کی قوت پر … السُّيُوطِيّ نے کہا اور میں نے جمع کر دیا ہے اس کے طرق تفسیر میں اور … خاص کر ابن عمر کی حدیث کے تو بہت طرق ہیں
تذكرة الموضوعات میں محمد طاهر بن علي الصديقي الهندي الفَتَّنِي (المتوفى: 986هـ) لکھتے ہیں
قِصَّةُ هَارُوتَ وَمَارُوتَ مَعَ الزَّهْرَةِ وَهُبُوطِهِ إِلَى الأَرْضِ امْرَأَةً حَسَنَةً حِينَ طَغَتِ الْمَلائِكَةُ وَشُرْبِهِمَا الْخَمْرَ وقتلهما النَّفس وزناهما» عَن ابْن عمر رَفعه وَفِيه مُوسَى ابْن جُبَير مُخْتَلف فِيهِ وَلَكِن قد توبع، وَلأبي نعيم عَن عَليّ قَالَ «لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الزَّهْرَةَ وَقَالَ إِنَّهَا فتنت الْملكَيْنِ» وَقيل الصَّحِيح وَقفه على كَعْب وَكَذَا قَالَ الْبَيْهَقِيّ، وَفِي الْوَجِيز قصتهما فِي الْفرج بن فضَالة: ضَعِيف قلت قَالَ ابْن حجر لَهَا طرق كَثِيرَة يقطع بوقوعها لقُوَّة مخارجها.
قصہ ہاروت و ماروت کا الزہرا کے ساتھ اور ان کا زمین پر ہبوط کرنا ایک حسین عورت کے ساتھ اور فرشتوں کا بغاوت کرنا اور شراب پینا اور قتل نفس کرنا اور زنا کرنا جو ابن عمر سے مروی ہے ان تک جاتا ہے اور اس میں موسی بن جبیر ہے مختلف فیہ ہے لیکن اس کی متابعت کی ہے ابو نعیم نے علی کی روایت سے کہ الله کی لعنت ہو الزہرا پر اور کہا اس نے فرشتوں کو آزمائش میں ڈالا اور کہا ہے صحیح ہے کعب پر موقوف ہے اور اسی طرح کہا ہے البیہقی نے اور فرج کےقصہ پر کہا ضعیف ہے میں کہتا ہوں ابن حجر نے کہا ہے کہ اس کے طرق بہت سے ہیں
ابن کثیر نے تفسیر میں لکھا
ابن کثیر نے بھی اپنی تفسیر، ج 7، ص 59-60 میں درج کیا ہے۔ سند کے بارے میں انہوں نے بھی یہی کہا ہے کہ
إسناده إلى ابن عباس رضي الله عنهما قَوِيٌّ، وَلَكِنَّ الظَّاهِرَ أَنَّهُ إِنَّمَا تَلَقَّاهُ ابْنُ عباس رضي الله عنهما إِنْ صَحَّ عَنْهُ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَفِيهِمْ طائفة لا يعتقدون نبوة سليمان عليه الصلاة والسلام فَالظَّاهِرُ أَنَّهُمْ يَكْذِبُونَ عَلَيْهِ، وَلِهَذَا كَانَ فِي هذا السِّيَاقِ مُنْكَرَاتٌ مِنْ أَشَدِّهَا ذِكْرُ النِّسَاءِ فَإِنَّ المشهور عن مجاهد وغير واحد من أئمة السلف أَنَّ ذَلِكَ الْجِنِّيَّ لَمْ يُسَلَّطْ عَلَى نِسَاءِ سليمان بل عصمهن الله عز وجل منه تشريفا وتكريما لنبيه عليه السلام. وَقَدْ رُوِيَتْ هَذِهِ الْقِصَّةُ مُطَوَّلَةً عَنْ جَمَاعَةٍ من السلف رضي الله عنهم كَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَزَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ وَجَمَاعَةٍ آخَرِينَ وَكُلُّهَا مُتَلَقَّاةٌ مِنْ قَصَصِ أَهْلِ الْكِتَابِ، والله سبحانه وتعالى أعلم بالصواب.
اس کی سند ابن عباس تک قوی ہے۔ لیکن بظاہر یہ ان کو اہل کتاب سے ملی جسے انہوں نے صحیح مانا۔ جب کہ ان میں ایک گروہ تھا جو کہ حضرت سلیمان کی نبوت کا منکر تھا۔ اور بظاہر ان کی تکذیب کرتا تھا۔ اور اس میں شدید منکر باتیں ہیں خاص کر بیویوں والی۔ اور مجاھد اور دیگر ائمہ سے مشہور ہے کہ جن ان کی بیویوں پر مسلط نہیں ہوا تھا۔ بلکہ اللہ نے ان کی عصمت رکھی اور شرف و تکریم بخشا۔ اور یہ واقعہ سلف میں ایک جماعت نے نقل کیا جیسا کہ سعید بن مسیت، زید بن اسلم، اور بعد کی ایک جماعت نے بھی جن کو یہ اہل کتاب کے قصوں سے ملا
راقم کہتا ہے ابن کثیر کا قول باطل ہے یہ کام ابن عباس رضی الله عنہ کا نہیں کہ اہل کتاب سے روایت کریں بلکہ اس میں جرح منہال بن عمرو پر ہے
چودھویں صدی ہجری
کتاب التحرير والتنوير از محمد الطاهر بن محمد بن محمد الطاهر بن عاشور التونسي (المتوفى : 1393هـ) کے مطابق
وَلِأَهْلِ الْقِصَصِ هُنَا قِصَّةٌ خُرَافِيَّةٌ مِنْ مَوْضُوعَاتِ الْيَهُودِ فِي خُرَافَاتِهِمُ الْحَدِيثَةِ اعْتَادَ بَعْضُ الْمُفَسِّرِينَ ذِكْرَهَا مِنْهُمُ ابْنُ عَطِيَّةَ وَالْبَيْضَاوِيُّ وَأَشَارَ الْمُحَقِّقُونَ مِثْلُ الْبَيْضَاوِيِّ وَالْفَخْرِ وَابْنِ كَثِيرٍ وَالْقُرْطُبِيِّ وَابْنِ عَرَفَةَ إِلَى كَذِبِهَا وَأَنَّهَا مِنْ مَرْوِيَّاتِ كَعْبِ الْأَحْبَارِ وَقَدْ وَهِمَ فِيهَا بَعْضُ الْمُتَسَاهِلِينَ فِي الْحَدِيثِ فَنَسَبُوا رِوَايَتَهَا عَنِ النَّبِيءِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ عَنْ بَعْضِ الصَّحَابَةِ بِأَسَانِيدَ وَاهِيَةٍ وَالْعَجَبُ لِلْإِمَامِ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى كَيْفَ أَخْرَجَهَا مُسْنَدَةً لِلنَّبِيءِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَعَلَّهَا مَدْسُوسَةٌ عَلَى الْإِمَامِ أَحْمَدَ أَوْ أَنَّهُ غَرَّهُ فِيهَا ظَاهِرُ حَالِ رُوَاتِهَا مَعَ أَنَّ فِيهِمْ مُوسَى بْنَ جُبَيْرٍ وَهُوَ مُتَكَلَّمٌ فِيهِ
اور اہل قصص کے لئے اس میں بہت سے یہودیوں کے گھڑے ہوئے قصے ہیں جس سے مفسرین دھوکہ کھا گئے ان میں ابن عطیہ اور بیضاوی ہیں اور محققین مثلا بیضاوی اور فخر الرازی اورابن کثیر اور قرطبی اور ابن عرفہ نے ان کے کذب کی طرف اشارہ کیا ہے جو بے شک کعب الاحبار کی مرویات ہیں اور اس میں وہم ہے بعض متساهلین کا حدیث کے لئے تو انہوں نے ان قصوں کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دیا ہے یا بعض اصحاب رسول کی طرف واہیات اسناد کے ساتھ اور عجیب بات ہے کہ امام احمد بن حنبل الله رحم کرے نے ان کو کیسے مسند میں لکھا اور ہو سکتا ہے وہ بہک گئے ہوں اس کے ظاہر حال پر اس میں موسی بن جبیر ہے اور متکلم فیہ ہے
یہ بھی لکھتے ہیں
وَ (هَارُوتَ وَمَارُوتَ) بَدَلٌ مِنَ (الْمَلَكَيْنِ) وَهُمَا اسْمَانِ كَلْدَانِيَّانِ دَخَلَهُمَا تَغْيِيرُ التَّعْرِيفِ لِإِجْرَائِهِمَا عَلَى خِفَّةِ الْأَوْزَانِ الْعَرَبِيَّةِ، وَالظَّاهِرُ أَنَّ هَارُوتَ مُعَرَّبُ (هَارُوكَا) وَهُوَ اسْمُ الْقَمَرِ عِنْدَ الْكَلْدَانِيِّينَ وَأَنَّ مَارُوتَ مُعَرَّبُ (مَا رُودَاخَ) وَهُوَ اسْمُ الْمُشْتَرِي عِنْدَهُمْ وَكَانُوا يَعُدُّونَ الْكَوَاكِبَ السَّيَّارَةَ مِنَ الْمَعْبُودَاتِ الْمُقَدَّسَةِ الَّتِي هِيَ دُونَ الْآلِهَةِ لَا سِيَّمَا الْقَمَرِ فَإِنَّهُ أَشَدُّ الْكَوَاكِبِ تَأْثِيرًا عِنْدَهُمْ فِي هَذَا الْعَالَمِ وَهُوَ رَمْزُ الْأُنْثَى، وَكَذَلِكَ الْمُشْتَرِي فَهُوَ أَشْرَفُ الْكَوَاكِبِ السَّبْعَةِ عِنْدَهُمْ وَلَعَلَّهُ كَانَ رَمْزَ الذَّكَرِ عِنْدَهُمْ كَمَا كَانَ بَعْلٌ عِنْدَ الْكَنْعَانِيِّينَ الْفِنِيقِيِّينَ.
اور ہاروت و ماروت فرشتوں کا بدل ہیں اور یہ نام کلدانی کے ہیں ان کو شامل کیا گیا ہے تبدیل کر کے عربیوزن پر اور ظاہر ہے ہاروت معرب ہے ہاروکا کا جو چاند کا نام ہے کلدانیوں کے نزدیک اور ماروت معرب ہے ماروداخ کا جو مشتری کا نام ہے ان کے ہاں – اور یہ کواکب کو مقدس معبودات میں شمار کرتے تھے خاص طور پر چاند کو کیونکہ یہ کواکب میں سب سے بڑھ کر تاثیر رکھتا ہے ان کے نزدیک تمام عالم میں اور یہ رمز ہے مونث پر اور اسی طرح مشتری سات کواکب میں سب سے با عزت ہے جو اشارہ ہے مذکر پر ان کے نزدیک جیسا کہ بعل تھا فونشیوں اور کنعآنیوں کے نزدیک
صحیح ابن حبان کی تعلیق میں شعيب الأرنؤوط لکھتے ہیں
قلت: وقول الحافظ ابن حجر في “القول المسدد” 40-41 بأن: للحديث طرقاً كثيرة جمعتها في جزء مفرد يكاد الواقف عليه أن يقطع بوقوع هذه القصة لكثرة الطرق الواردة فيها وقوَّة مخارج أكثرها، خطأ مبين منه -رحمه الله- ردَّه عليه العلامة أحمد شاكر -رحمه الله- في تعليقه على “المسند” (6178) فقال: أمَّا هذا الذي جزم به الحافظ بصحة وقوع هذه القصة صحة قريبة من القطع لكثرة طرقها وقوة مخارج أكثرها، فلا، فإنها كلها طرق معلولة أو واهية إلى مخالفتها الواضحة للعقل، لا من جهة عصمة الملائكة القطعية فقط، بل من ناحية أن الكوكب الذي نراه صغيراً في عين الناظر قد يكون حجمه أضعاف حجم الكرة الأرضية بالآلاف المؤلفة من الأضعاف، فأنَّى يكون جسم المرأة الصغير إلى هذه الأجرام الفلكية الهائلة!
شعيب الأرنؤوط نے ابن حجر کی تصحیح کو ایک غلطی قرار دیا اور احمد شاکر نے بھی ابن حجر کی رائے کو رد کیا
بابل کا مذھب
بابل میں مردوک
Marduk
کی پوجا ہوتی تھی – بابلی زبان میں مردوک کو
Marutuk
ماروتک
بولا جاتا تھا
Frymer-Kensky, Tikva (2005). Jones, Lindsay, ed. Marduk. Encyclopedia of religion 8 (2 ed.). New York. pp. 5702–5703. ISBN 0-02-865741-1.
https://en.wikipedia.org/wiki/Marduk
بعض مغربی محققین اس بات تک پہنچے ہیں کہ یہ بابلی دیوتا اصلا فرشتے تھے تصاویر میں بھی اس کو پروں کے ساتھ دکھایا جاتا ہے
جادوگروں نے اس قصے میں سیارہ الزہرا یعنی وینس ، چاند اور مشتری کا اثر تمثیلی انداز میں سکھایا ہے کہ یہ چاند اور مشتری کا جادو الزہرا کی موجودگی میں بڑھ جاتا ہے – چاند کی بہت اہمیت ہے کیونکہ اس کی ٢٧ منزلیں ہیں جن میں چاند گھٹتا اور بڑھتا ہے اور عبرانی کے بھی ٢٧ حروف ہیں لہذا کلمات شرکیہ کو ان سے ملا کر اخذ کیا جاتا تھا
In general, though not always, the zodiac is divided into 27 or 28 segments relative to fixed stars – one for each day of the lunar month, which is 27.3 days long
https://en.wikipedia.org/wiki/Lunar_mansion
بابل کی اسیری سے پہلے بنی اسرائیل جو عبرانی استمال کرتے تھے اس کو
Palaeo-Hebrew alphabet
کہا جاتا ہے جس میں ٢٢ حروف تھے جو ابجد حروف کہلاتے ہیں
یہود کے مطابق بابل کی اسیری میں کسی موقع پر ان کی زبان تبدیل ہوئی جس میں اشوری اور بابلی زبان سے حروف لئے گئے
بائیس حروف کو ٢٧ میں بدلنے کے پیچھے کیا چاند کی ٢٧ منازل تھیں ؟ راقم کے نزدیک اس کا جواب ہمارے اسلامی جادو یا سحر کی کتب میں ہے جس پر کسی اور بلاگ میں بحث ہو گی