Category Archives: فضائل – Virtues

امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ

[wpdm_package id=’9813′]

فہرست

پیش لفظ 6
علی کی خواہش 8
حدیث منزلتین 9
حدیث غدیر خم 14
حدیث الْمَارِقِينَ 21
حدیث طیر 27
حدیث ثقلین 31
حدیث حواب 49
حدیث خوارج 50
حدیث کساء 51
حدیث مباھلہ 56
بیعت خلافت کے قصے 62
سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ کی روایت 62
واقدی کی روایت 67
حسن بصری کی روایت 69
اشتر کی روایت 69
طارق بن شہاب کی روایت 73
عمرو یا عمر بن جاوان کی روایت 74
وَضَّاحُ بْنُ يَحْيَى النَّهْشَلِيُّ کی روایت 80
سعد بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف کی روایت 81
الْحَارِث بن كعب الوالبي کی روایت 82
أبو المتوكل الناجي البصري کی روایت 83
علی کا لشکر اور قبائلی عصبیت 85
خلافت علی پرتوقف کرنے والے 98
ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کا توقف 98
ابن عمر رضی اللہ عنہ کا توقف 99
اسامہ بن زید کا توقف 100
عقیل بن ابی طالب کی بیزاری 102
بصرہ کا قصد 103
تذکرہ جنگ جمل 106
شہادت طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ 106
شہادت زبیر بن العوام 109
مصنف ابن ابی شیبہ کی ضعیف روایات 112
مصنف ابن ابی شیبہ کی صحیح السند روایات 137
رافضی روایت 141
جنگ کے بعد اصلی نماز 143
جنگ کے نتائج 147
تذکرہ جنگ صفین 151
مصنف ابن ابی شیبہ میں جنگ صفین کا احوال 151
صلح اور خروج خوارج 161
تذکرہ جنگ نہروان 167
زید بن وھب الجھنی کی روایت 167
عبيدة السلماني المرادي الهمداني کی روایت 177
عُبَيْدِ اللهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، مَوْلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کی روایت 178
أَبُو الْوَضِيئِ کی روایت 180
أَبِي مَرْيَمَ کی روایت 181
أَبِي بَرَكَةَ الصَّائِدِيِّ کی روایت 183
الرَّيَّانُ بْنُ صَبِرة کی روایت 183
بکر بن قرواش کی روایت 184
الضَّحَّاكُ بْنُ مُزَاحِمٍ کی روایت 185
رَبِيعَةَ بْنِ نَاجِدٍ کی روایت 187
عبد الله بن شداد کی روایت 188
قول نبوی کے مطابق یہ آخری دور میں ہو گا 199
قول نبوی : ان کو پاتا تو قتل کرتا 203
سمت و جہت کی اہمیت 204
یہ عربی النسل ہوں گے 207
نتائج 219
روایات ابو سعید الخدری رضی الله عنہ 221
خوارج جہنم کے کتے ہیں؟ 224
علی رضی الله عنہ کی عراق میں تقریریں 235
شام اور قصاص عثمان 254
محمد بن ابی بکر کا انجام 254
عبد الرحمن بن عُدَيْسٍ کا انجام 260
حسن کی شادیاں 263
مصادر اہل تشیع میں حسن کی شادیوں کا ذکر 265
فتنہ ابن سبا 270
علی الیاس ہیں اورآنے والا دابة الارض ہیں 278
علی ہارون ہیں 282
حسن و حسین کو بنی ہارون کے نام دینا 284
شبر و شبیر کا بھیانک انجام 291
عقیدہ رجعت کی تبلیغ 294
علي ذوالقرنین ہیں؟ 304
علی دربار سلیمان میں بھی موجود تھے ؟ 311
شہادت علی 321
علی کا معاویہ کے لئے حکم 335
حسن کی خلافت پر تعیناتی 336

================

بسم اللہ الرحمان الرحیم

پیش لفظ

امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ قریش میں بنو ہاشم میں سے تھے اور خلافت کی تمنا دل میں رکھتے تھے – ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہ کے بعد عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ نے عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کیا – علی رضی اللہ خلیفہ نہ ہو پائے – دور نبوی سے لے کر خلافت عثمانی تک علی کو کسی بھی مقام پر گورنر مقرر نہیں کیا گیا –
غیر قریشی اصحاب رسول جو عثمان کو ناپسند کرتے تھے ، علی کے گرد جمع ہوئے اور ان لوگوں نے علی کے لئے ان کی خلافت کو ہموار کیا – علی خلیفہ ہوئے اور مدینہ پر کسی بھی شمالی جانب سے حاجیوں کے بھیس میں حملہ کے خطرہ کی وجہ سے انہوں نے دار الخلافہ مدینہ سے عراق منتقل کر دیا – وہاں وہ مصریوں ، کوفیوں ، یمنیوں میں گھر گئے – چند اہل بیت مثلا ابن عباس ، قثم بن عباس وغیرہ ان کے ساتھ ہوئے – چند دن بعد کوفہ میں ان کے خالص ہمدردوں کا ایک گروہ اس بات پر ان کی خلافت سے خروج کرگیا کہ انہوں نے معاویہ سے صلح کیوں کر لی ؟

خوارج نے کوفہ کے مضافات میں لوٹ مار شروع کر دی اور اپنا ایک لیڈر نامزد کر دیا – علی نے ان سے قتال کیا اور یہ بھاگ کھڑے ہوئے، معدوم نہ ہوئے – اسی دوران لشکر معاویہ نے مصر پر حملہ کیا اور قاتلین عثمان میں سے محمد بن ابی بکر، عبد الرحمان وغیرہ کا قتل کر دیا اور مصر پر قبضہ کر لیا – خوارج نے گوریلا وار شروع کی اور ایک حملہ میں علی پر وار کیا جو ان کی شہادت کی وجہ بنا –
علی کی شخصیت پر لوگ بٹ گئے – ایک فرقہ اہل سنت کا بنا ، ایک شیعہ کہلایا ، ایک خارجی کہلایا ، ایک باطنی کہلایا ، ایک سبائی کہلایا ، اس طرح بہت سے غالی فرقے نکلے یہاں تک کہ علی ، بشر سے رب بن بنا دیے گئے – اس کتاب میں علی کی سیاسی زندگی پر بحث کی گئی ہے – ان سے متعلق غالی روایات پر بحث راقم کی کتاب الغلو فی علی میں ہے

ابو شہر یار
٢٠٢٠

نور محمدی کا ذکر ٣

متروک و منکر روایات  کو  محراب و  منبر پر بیان کرنے والے  طارق  جمیل  صاحب کی جانب سے ایک روایت پیش کی جا رہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تخلیق ، تخلیق مخلوق سے ہزار سال پہلے ہوئی اور ان کا ایک نام یاسین ہے

٩ منٹ پر

اس قول  کا تعاقب کیا گیا اور یہ معلوم ہوا ہے

کتاب الروض الباسم  از ابو سلیمان جاسم  کے مطابق

– أخبرنا خيثمة بن سليمان: نا جعفر بن محمد بن زياد الزّعفراني الرازي ببغداد: نا إبراهيم بن المنذر الحِزامي (ح). وأخبرنا أبو عبد الله محمد بن إبراهيم بن عبد الرحمن (1) القرشي قراءةً عليه: أنا أبو عبد الملك أحمد بن إبراهيم القرشي قراءةً عليه، قالا (2): نا إبراهيم بن المنذر، -وهو الحِزامي-: نا إبراهيم بن مهاجر بن مِسمار عن عمر بن حفص بن ذكوان عن مولى الحُرَقَة.عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: “إنّ اللهَ -عَزَّ وجَلَّ- قرأ (طه) و (ياسين) قبلَ أن يخلقَ آدمَ بألف عامٍ، فلمّا سَمِعَ الملائكةُ القرآنَ قالوا: طُوبى لأمّةٍ يُنزَّل هذا عليها، وطوبى لأجوافٍ تحمل هذا، وطوبى لألسنٍ تكلَّمُ بهذا”.

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک اللہ تعالی نے  تخلیق آدم سے ہزار سال قبل  (طه) و (ياسين) کی قرات کی جب فرشتوں نے قرآن سنا تو کہا خوشخبری ہو اس امت پر جس پر یہ نازل ہو اور خوشخبری ہو ان جسموں پر جو اس کو اٹھائیں (یعنی حفظ کریں ) اور ان زبانوں پر جو اس کے الفاظ  کو ادا کریں

سند میں ابراہیم بن مہاجر بن مسمار ضعیف ہے

کتاب  الإيماء إلى زوائد الأمالي والأجزاء – زوائد الأمالي والفوائد والمعاجم والمشيخات على الكتب الستة والموطأ ومسند الإمام أحمد

المؤلف: نبيل سعد الدين سَليم جَرَّار کے مطابق

قال الشيخ الإمام أبوبكر الخطيب هذا حديث غريب من حديث عبدالرحمن بن يعقوب مولى الحرقة عن أبي هريرة، تفرد بروايته إبراهيم بن مهاجر بن مسمار المديني، عن حفص بن عمر بن ذكوان.

وقال المنذري: إبراهيم بن مهاجر ضعيف

خطیب بغداد ی نے کہا یہ حدیث غریب ہے  …  منذری نے کہا اس میں ابراہیم بن مھاجر ضعیف ہے

سنن الدارمی میں ہے

– حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُهَاجِرِ بْنِ [ص:2148] الْمِسْمَارِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ حَفْصِ بْنِ ذَكْوَانَ، عَنْ مَوْلَى الْحُرَقَةِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَرَأَ طه وْ يس قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِأَلْفِ عَامٍ، فَلَمَّا سَمِعَتِ الْمَلَائِكَةُ الْقُرْآنَ، قَالَتْ: طُوبَى لِأُمَّةٍ يَنْزِلُ هَذَا عَلَيْهَا، وَطُوبَى لِأَجْوَافٍ تَحْمِلُ هَذَا، وَطُوبَى لِأَلْسِنَةٍ تَتَكَلَّمُ بِهَذَا “

[تعليق المحقق  حسين سليم أسد الداراني ] إسناده ضعيف جدا عمر بن حفص بن ذكوان قال أحمد: تركنا حديثه وحرقناه

سند میں عمر بن حفض  متروک ہے

طارق جمیل نے ذکر کیا کہ نبی مختون پیدا ہوئے اس قول پر امام الذھبی کا کہنا ہے

علّق عليه الحافظ الذهبي في “تلخيص المستدرك” بقوله: ما أعلم صحة ذلك فكيف يكون متواترا؟

اس روایت کی صحت ہی معلوم ہی نہیں ہے ، متواتر کیسے ہے ؟

فضائل ٣

تحقیق چاہیے

امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ اپنی مسند میں اور امام طبرانی نے معجم الکبیر میں ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ معاویہ کو کتاب (قرآن) اور حساب کا علم عطا فرما اور اسے عذاب سے بچا.

》مسند امام احمد بن حنبل، جلد ٢٧، رقم ١٧١٥٢.
》امام طبرانی، معجم الکبیر، جلد ١٨، رقم ٦٢٨.

جواب

صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبان میں ہے
حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ وَيَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ وَعَبْد اللَّه بْنُ هَاشِمٍ، قَالُوا: نَا عَبْد الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، ثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ سَيْفٍ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي رُهْمٍ، عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ قَالَ:
سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّه – صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يَدْعُو رَجُلا إِلَى السَّحُورِ، فَقَالَ: “هَلُمَّ إِلَى الْغَدَاءِ الْمُبَارَكِ”.
وَقَالَ الدَّوْرَقِيُّ وَعَبْد اللَّه بْنُ هَاشِمٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّه – صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – وَهُوَ يَدْعُو إِلَى السَّحُورِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ، فَقَالَ: “هَلُمَّ إِلَى الْغَدَاءِ الْمُبَارَكِ”. وَزَادَا، ثُمَّ سَمِعْتُهُ يَقُولُ: “اللَّهمَّ عَلِّمْ مُعَاوِيَةَ الْكِتَابَ وَالْحِسَابَ، وَقِهِ الْعَذَابَ”.
وَقَالَ عَبْد اللَّه بْنُ هَاشِمٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ، وَقَالَ: “هَلُمَّ إِلَى الْغَدَاءِ الْمُبَارَكِ”.

میزان میں الذھبی نے لکھا ہے
الحارث بن زياد [د، س] عن أبي رهم السمعي (2) في فضل معاوية. مجهول، وعنه يوسف بن سيف فقط.
اس کی سند میں الحارث بن زياد مجہول ہے
——-
مغلطاي نے الإكمال (3/290) میں الذهبي کے الميزان اور المغني میں اس راوی کو مجهول کہنے پر جرح کی ہے اور کہا إن ذلك قولٌ لم يُسبق إليه. ایسا کسی نے اس سے قبل نہیں کہا
أبوالحسن القطان: حديثه حسن اس کی حدیث حسن ہے
البانی نے اس کو صحیح قرار دیا ہے

ایک حدیث جس سے پنجتن پاک کا عقیدہ نکالا جاتا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر کے نیچے فاطمہ حسن حسین علی رضی اللہ عنھما کو لے لیتے ہیں شیعہ کی کس بک میں یہ عقیدہ لکھا ہے وضاحت کر دیجیے جزاک اللہ۔

جواب

⇓ حدیث کساء کی ایک روایت ہے
https://www.islamic-belief.net/q-a/فضائل/

⇑ حدیث کساء پر سوال ہے
https://www.islamic-belief.net/q-a/فضائل/

⇓ اہل بیت، حقوق اور ان کی ذمہ داریاں
https://www.islamic-belief.net/masalik/شیعیت/

اس میں اس روایت کو رد کیا گیا ہے

شیعوں کی ہر کتاب میں یہ عقیدہ لکھا ہے

جواب

یہ نام اغلبا کسی حدیث میں نہیں – یہ نام مورخین نے رکھا ہے

العيني نے “عمدة القاري” (8/ 180) میں لکھا ہے : ” توفّي أبو طَالب هُوَ وَخَدِيجَة فِي أَيَّام ثَلَاثَة ، قَالَ صاعد فِي (كتاب الفصُوص) : فَكَانَ النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم يُسَمِّي ذَلِك الْعَام عَام الْحزن ” انتهى.
صاعد بن الحسن بن عيسى الربعي البغدادي اللغوي نے کتاب الفصوص میں لکھا ہے اس سال کا نام رسول الله نے غم کا سال رکھا

ابن بشكوال نے کتاب “الصلة” (ص233) میں صاعد بن الحسن بن عيسى الربعي البغدادي اللغوي پر لکھا: ” كان صاعد هذا يتهم بالكذب وقلة الصدق فيما يورده عفى الله عنه ” انتهى
صاعد بن الحسن بن عيسى الربعي البغدادي اللغوي یہ کذب سے متہم ہے

وہابی عالم المنجد کی ویب سائٹ پر یہ تفصیل ہے
https://islamqa.info/ar/221486

*مستدرک حاکم میں ہے کہ حضرت ہشام بن عاص اموی فرماتے ہیں کہ میں اور ایک صاحب روم کے بادشاہ ہرقل کو دعوت اسلام دینے کے لیے روانہ ہوئے غوطہ دمشق پہنچ کر ہم جبلہ بن ایہم غسانی کے گھر گئے اس نے اپنا قاصد بھیجا کہ ہم سے باتیں کر لیں ۔*
*ہم نے کہا واللہ ہم تم سے کوئی بات نہیں کریں گے ہم بادشاہ کے پاس بھیجے گئے ہیں اگر وہ چاہیں تو ہم سے خود سنیں اور خود جواب دیں ورنہ ہم قاصدوں سے گفتگو کرنا نہیں چاہتے قاصدوں نے یہ خبر بادشاہ کو پہنچائی اس نے اجازت دی اور ہمیں اپنے پاس بلا لیا چنانچہ میں نے اس سے باتیں کیں اور اسلام کی دعوت دی وہ اس وقت سیاہ لباس پہنے ہوئے تھا کہنے لگا کہ دیکھ میں نے یہ لباس پہن رکھا ہے اور حلف اٹھایا ہے کہ جب تک تم لوگوں کو شام سے نکال نہ دوں گا تب تک اس سیاہ لباس کو نہیں اتاروں گا قاصد اسلام نے یہ سن کر کہا بادشاہ ہوش سنبھالو اللہ کی قسم یہ آپ کے تخت کی جگہ اور آپ بڑے بادشاہ کا پایہ تخت بھی ان شاءاللہ ہم اپنے قبضے میں کر لیں گے۔*
*یہ کوئی ہماری ہوس نہیں بلکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیں یہ پختہ خبر مل چکی ہے اس نے کہا تم وہ لوگ نہیں ہاں ہم سے جو ہم سے ہمارا تخت و تاج چھینے گی وہ قوم جو دنوں کو روزے سے رہتے ہیں اور رات کو تہجد پڑھتے ہیں ۔*
*اچھا تم بتاو تمہارے روزے کے احکامات کیا ہیں؟ ؟؟اب جو ہم نے بتائے تو اس کا منہ کالا ہو گیا اس نے اسی وقت ہمارے ساتھ اپنا ایک آدمی کر دیا اور کہا انہیں شاہ روم کے پاس لے جاو۔*
*جب ہم ان کے ساتھ پائے تخت کے پاس پہنچے تو وہ کہنے لگا کہ تم اس حال میں تو اس شہر میں نہیں جا سکتے اگر تم کہو تو میں تمہارے لئے عمدہ سواریاں لا دوں ان پر سوار ہو کر تم شہر میں جانا ہم نے کہا یہ نا ممکن ہے ہم تو اسی حالت میں انہی سواریوں پر چلیں گے انہوں نے بادشاہ سے کہلوا بھیجا وہاں سے اجازت آئی کہ انہیں اونٹوں پر ہی لے آو ہم اونٹوں پر سوار گلے میں تلواریں لٹکائے شاہی محل جا پہنچے وہاں ہم نے اپنی سواریاں بٹھائیں بادشاہ دریچے میں سے ہمیں دیکھ رہا تھا ہمارے منہ سے بے ساختہ نکل گیا((لا الہ الا اللہ واللہ اکبر)))کا نعرہ نکل گیا ۔*
*اللہ جانتا ہے کہ اسی وقت بادشاہ کا محل تھرا اٹھا اس طرح جس طرح کسی خوشے کو ہوا کا تیز جھونکا ہلا رہا ہو اسی وقت محل سے ایک قاصد دوڑتا ہوا آیا اور کہا آپ کو یہ نہیں چاہئے تھا کہ اپنے دین کا اس طرح ہمارے سامنے اعلان کرو چلو تمہیں بادشاہ سلامت یاد فرما رہے ہیں چنانچہ ہم اس کے ساتھ دربار میں گئے دیکھا کہ اس کے چاروں طرف سرخ مخمل اور سرخ ریشم ہے خود بھی خود بھی سرخ لباس پہنے ہوئے تھا تمام درباریوں اور پادریوں اور ارکان سلطنت سے بھرا ہوا ہے ۔*
*جب ہم پاس پہنچ گئے تو مسکرا کر بولا جو سلام تم میں آپس میں مروج ہے تم نے وہ مجھے سلام کیوں نہ کیا؟ ؟ترجمان کی معرفت ہمیں بادشاہ کا یہ سوال پہنچا تو ہم نے جواب دیا کہ جو سلام ہم میں ہے تم اس سلام کے لائق نہیں ہو اور جو آداب کا دستور تم میں ہے وہ ہمیں پسند نہیں ۔*
*اس نے کہا اچھا تمہارا سلام آپس میں کیا ہے؟ ؟؟ہم نے کہا اسلام و علیکم اس نے کہا اپنے بادشاہ کو تم کس طرح سلام کرتے ہو؟ ہم نے کہا صرف ان ہی الفاظ اے ۔*
*پوچھا اچھا وہ بھی تمہیں کوئی جواب دیتے ہیں ہم نے کہا یہی الفاظ وہ کہتے ہیں۔ بادشاہ نے دریافت کیا کہ تمہارے ہاں سب سے بڑا کلمہ کونسا ہے؟ ہم نے کہا((لا الہ الا اللہ واللہ اکبر)))*
*اللہ عز وجل کی قسم ہم نے یہ کلمہ کہا پھر سے محل میں زلزلہ آ گیا یہاں تک کہ سارا دربار چھت کی طرف نظریں کر کے سہم گیا ۔*
*بادشاہ سہم گیا اور پوچھا کیوں جی تمہارے گھروں میں بھی اس کا اس طرح ذکر کرنے اسی طرح زلزلے آتے ہیں؟ ؟ہم نے کہا کبھی نہیں ہم نے تو یہ بات یہاں آپ کے ہاں ہی دیکھی ہے بادشاہ کہنے لگا کہ کاش کہ تم جب بھی اس کلمے کو کہتے تو تمام چیزیں اسی طرح ہل جاتیں اور میرا آدھا ملک ہی رہ جاتا ہم نے پوچھا یہ کیوں؟؟؟اس نے کہا اس لئے کہ آسان تھا بہ نسبت اس کی کہ یہ امر نبوت ہو۔*
*پھر اس نے ہمارا ارادہ دریافت کیا ہم نے صاف بتایا اس نے کہا اچھا یہ بتاو کہ تم نماز کس طرح پڑھتے ہو اور روزہ کس طرح رکھتے ہو؟؟؟؟؟*

*ہم نے دونوں باتیں بتا دیں اس نے اب ہمیں رخصت کیا اور بڑے اکرام و احترام سے ہمیں شاہی معزز مہمانوں میں رکھا ۔*
*تین دن جب گزرے تو رات کے وقت ہمیں قاصد بلانے آیا ہم پھر سے دربار میں گئے تو اس نے ہم سے پھر ہمارا مطلب پوچھا ہم نے اسے دوہرایا پھر اس نے ایک حویلی کی شکل کی سونا مڑھی ہوئی ایک چیز منگوائی جس میں بہت سارے مکانات تھے اور ان کے دروازے تھے اس نے اسے کنجی سے کھول کر ایک سیاہ رنگ کا ریشمی جامہ نکالا ہم نے دیکھا اس میں ایک شخص ہے جس کی بڑی بڑی آنکھیں ہیں بڑی رانیں ہیں ۔*
*بڑی لمبی اور گھنی داڑھی ہے سر کے بال دو حصوں میں نہایت خوبصورت لمبے لمبے ہیں اس نے پوچھا انہیں جانتے ہو؟ ؟؟ہم نے کہا نہیں!!*
*کہا یہ حضرت آدم علیہ السلام ہیں ان کے جسم پر بال بہت زیادہ تھے پھر دوسرا دروازہ کھولا اور اس میں سے سیاہ رنگ کا پارچہ نکالا جس میں ایک سفید صورت تھی جس کے بال گھنگریالے تھے سرخ رنگ آنکھیں تھیں بڑے کلے کے ادمی تھے اور بڑی وضع داڑھی تھی اس نے ہم سے پوچھا جانتے ہو یہ کون ہے؟ ؟؟*
*ہم نے انکار کردیا تو کہا نوح علیہ السلام ہیں پھر ایک دروازہ کھول کر اس میں سے سیاہ ریشمی کپڑا نکالا اس میں ایک شخص تھا نہایت ہی گورا چٹا رنگ بہت خوبصورت آنکھیں کشادہ پیشانی لمبے رخسار سفید داڑھی یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا وہ مسکرا رہے ہیں اس نے پوچھا انہیں پہچانا؟ ہم نے انکار کردیا تو کہا یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں پھر ایک دروازہ کھولا اس میں سے ایک خوبصورت سفید شکل دکھائی دی جو ہو بہ ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی تھی ہم سے پوچھا اسے پہنچانتے ہو؟ ؟ہم نے کہا یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ہمارے آنسو نکل آئے ۔*
*بادشاہ اب تک کھڑا ہوا تھا اب بیٹھ گیا اور ہم سے دوبارہ یہی پوچھا کہ یہی شکل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے ہم نے کہا واللہ یہی ہے اسی طرح کہ گویا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں دیکھ رہا ہے ۔*
*پس وہ تھوڑی دیر تک غور کرتا رہا پھر کہنے لگا کہ یہ آخری گھر تھا لیکن میں نے پہلے کھول دیا باقی گھروں کو چھوڑ کر تا کہ تمہیں ازما لوں کہ تم پہچان جاتے ہو یا نہیں ۔*
*بال گھنگریالے آنکھیں گہری نظر تیز تیور تیکھے دانت پر دانت ہونٹ موٹے ہو رہے تھے جیسے کہ غصے سے بھرے ہوئے ہیں شور ہیں اس نے ہم سے پوچھا انہیں پہچانا؟ ؟؟؟ہمارے انکار کرنے پر کہا یہ ہارون علیہ السلام ہیں ۔*
*پھر ایک دروازہ کھول کر اس میں سے ایک سفید ریشمی کپڑا نکالا جس میں گندم گوں رنگ میانہ قد سیدھے بالوں والا آیک شخص تھا وہ غضبناک ہے اس نے پوچھا انہیں پہچانا ہم نے کہا نہیں ۔کہا یہ لوط علیہ السلام ہیں پھر ایک دروازہ کھول کر اس میں سے ایک سفید ریشمی کپڑا نکالا اور دکھا یا جس میں سنہرے رنگ کے آدمی تھے جن کا قد طویل نہ تھا رخسار ہلکے تھے چہرہ خوبصورت تھا اس نے ہم سے پوچھا انہیں جانتے ہو؟ ؟ہم نے کہا نہیں ۔*
*کہا یہ حضرت اسحاق علیہ السلام ہیں ۔پھر ایک دروازہ کھول کر اس میں سے سفید ریشمی کپڑا نکال کر ہمیں دکھایا اس میں جو صورت تھی وہ پہلی شکل کے بالکل مشابہ تھی

جواب

کنز العمال میں ہے

قال ابن كثير: هذا حديث جيد الإسناد ورجاله ثقات.
ابن کثیر نے کی سند کو جید اور رجال کو ثقہ کہا ہے

—-
“مسند الصديق” عن شرحبيل بن مسلم عن أبي أمامة الباهلي عن هشام بن العاص الأموي قال: بعثت أنا ورجل آخر إلى هرقل صاحب الروم ندعوه إلى الإسلام فخرجنا حتى قدمنا الغوطة يعني دمشق،
ابو بکر نے ایک سفیر ہرقل کے پاس اسلام کے لئے بھیجا

دلائل النبوه بیہقی میں اس کی سند مل گئی ہے
وَفِي كِتَابِي عَنْ شَيْخِنَا أَبِي عَبْدِ اللهِ الْحَافِظِ، وَهُوَ فِيمَا أَنْبَأَنِي بِهِ إِجَازَةً: أَنَّ أَبَا مُحَمَّدٍ، عَبْدَ اللهِ بْنَ إِسْحَاقَ الْبَغَوِيَّ أَخْبَرَهُمْ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْهَيْثَمِ
الْبَلَدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ إِدْرِيسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ الْعَاصِ الْأُمَوِيِّ، قَالَ: بُعِثْتُ أَنَا وَرَجُلٌ آخَرُ مِنْ قُرَيْشٍ إِلَى هِرَقْلَ صَاحِبِ الرُّومِ نَدْعُوهُ إِلَى الْإِسْلَامِ، فَخَرَجْنَا حَتَّى قَدِمْنَا الْغُوطَةَ يَعْنِي دِمَشْقَ فَنَزَلْنَا عَلَى جَبَلَةَ بْنِ الْأَيْهَمِ الْغَسَّانِيِّ،

اس کی سند میں شرحبيل بن مسلم الخولاني ہے جس کو امام ابن معین نے ضعیف کہا ہے
احمد نے ثقہ کہا ہے
اسی بنا پر ابن کثیر نے اس سند کو جید کہا ہے

جید کا درجہ حسن حدیث کا سا ہوتا ہے جو صحیح کے درجہ پر نہ ہو لیکن ان کے راوی کو ممکن ہے ضعیف کہا گیا ہو اور سند میں مجہول ہو
یعنی وہ ضعیف راوی کی وہ روایت جس کا متن اچھا ہو وہ جید ہے اور فقہ میں اس سے دلیل لی تو حسن ہے
———
اس قصے کے مطابق اہل کتاب کے پاس کوئی کتاب تھی جس میں انبیاء کی تصویریں تھیں
قول نبوی کے مطابق انبیاء کی صورت گری کرنے والوں پر الله کی لعنت ہے لیکن یہ ابو بکر کے سفیر تصویریں دیکھ دیکھ کر خوشی و حیرت کا شکر ہو رہے تھے یہاں تک کہ اس میں رسول الله کی تصویر بھی تھی
اب جھوٹ یہ ہے
وَكَانَ فِي خِزَانَةِ آدَمَ، عَلَيْهِ السَّلَامُ عِنْدَ مَغْرِبِ الشَّمْسِ، فَاسْتَخْرَجَهَا ذُو الْقَرْنَيْنِ مِنْ مَغْرِبِ الشَّمْسِ، فَدَفَعَهَا إِلَى دَانْيَالَ. ثُمَّ
یہ تمام آدم کا خزانہ تھا جو مغرب میں تھا اس کو ذو القرنین نے نکالا اور یہ دانیال کو ملا

یہ سب جھوٹ ہے چاہے اس کو ثقات روایت کریں
آدم علیہ السلام کے ساتھ جنت کا کوئی خزانہ نہ اترا – جنت ابدی ہے اور اس کی چیزیں لا فانی ہیں
دانیال میرے نزدیک ایک فرضی کردار ہے نہ یہ نبی ہے نہ رسول بلکہ یہ یہودیوں کا کوئی صوفی تھا
خود یہود اس کو نبی و رسول نہیں مانتے بلکہ اس کو رسول کا درجہ نصرانیوں نے دیا ہے کیونکہ اس کی کتاب میں آسمان پر دوسرے ایک رب کا ذکر ہے
اس طرح اس کتاب سے الله تعالی کے علاوہ آسمان پر ایک اور الوہی مخلوق کی دلیل ملتی ہے جس کو
بر آینعش
کہا گیا ہے

جواب

جواب

جواب

جواب

فضائل ٢

جواب

هبيرة بْن يريم. پر سخت جرح ہے
قَالَ السعدي هبيرة بْن يريم كَانَ مختاريا
یہ مختار ثقفی کذاب کا ساتھی تھا

مختار ثقفی کذاب کا کہنا تھا کہ اس کے اوپر جبریل اتے ہیں اور اس روایت میں یہ علی کے لئے بیان کیا گیا ہے
جبکہ فرشتے صرف جنگ بدر و احد میں اترے ہیں
===========
دوسری سند میں عمرو بن حبشي نے اضافی الفاظ بیان کیے ہیں
اس نے نہ پیلا چھوڑا نہ سفید سوائے سات سو درہم کے جو عطا کیے اپنے گھر والوں کے خادموں کو

——
قال المزي: زعم ابن حبان أن عمرو بن حبشي الزبيدي، وعمرو بن حريش الزبيدي واح
ابن حبان کے نزدیک عمرو بن حبشی اور عمرو بن حريش الزبيدي ایک ہیں اور یہ مجهول. ہے
عمرو بن حبشى الزبيدى الكوفى بھی مجہول ہے

یہ دیکھیں یہ اپ کے لئے مثال ہے جس راوی کو متقدمین مجہول قرار دے گئے ہیں – علی کی محبت میں
البانی
زبیر علی زئی
شعیب ارنوط
محمد عوَّامة
الدكتور علي الصلابي
شاکر

وغیرہ
اس کو حسن قرار دینا چاہ رہے ہیں

جو راوی مجہول الحال ہو اس کی روایت حسن کیسے ہوتی ہے؟ روایت میں غلو کس قدر ہے علی جیسا علم ان سے پہلے کسی کے پاس نہ تھا جبکہ انبیاء کا درجہ علی سے بلند ہے وہ علی سے بڑھ کر علم والے تھے

کتاب  أوسط الطبراني میں اس کی ایک سند ہے

حَدَّثَنَا مُعَاذٌ قَالَ: نا عَبْدُ الرَّحْمَنِ قَالَ: نا سُكَينُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ قَالَ: نا حَفْصُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: لَمَّا قُتِلَ عَلِيٌّ قَامَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: «أَمَّا بَعْدُ، وَاللَّهِ لَقَدْ قَتَلْتُمُ اللَّيْلَةَ رَجُلًا فِي لَيْلَةٍ نَزَلَ فِيهَا الْقُرْآنُ، وَفِيهَا قُتِلَ يُوشَعُ بْنُ نُونَ فَتَى مُوسَى، وَفِيهَا رُفِعَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ، مَا سَبَقَهُ أَحَدٌ مِنْ قَبْلِهِ، وَلَا لَحِقَهُ أَحَدٌ كَانَ بَعْدَهُ، وَإِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَبْعَثُهُ فِي السَّرِيَّةِ، جِبْرِيلُ عَنْ يَمِينِهِ، وَمِيكَائِيلُ عَنْ يَسَارِهِ، وَاللَّهِ مَا تَرَكَ صَفْرَاءَ وَلَا بَيْضَاءَ، إِلَّا سَبْعَ مِائَةِ دِرْهَمٍ، أَوْ ثَمَانَ مِائَةِ دِرْهَمٍ، أَرْصَدَهَا لِخَادِمٍ يَشْتَرِيَهَا» [ص:225] لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ حَفْصِ بْنِ خَالِدٍ إِلَّا سُكَيْنُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، تَفَرَّدَ بِهِ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ ”

سند میں حَفص بْن خَالِد بْن جَابِر مجہول ہے

البتہ البانی نے ادھر ادھر کی باتیں کی ہیں پھر جرح کی ہے اور اس روایت کو الصحیحیہ میں بھی رہنے دیا جو عجیب بات ہے

جواب

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ شبِ معراج جبریل میرے ساتھ تھے۔ سدرۃ المنتہٰی کا مقام آیا تو جبریل وہاں رک گئے، حضورؐ فرماتے ہیں میں نے جبریلؑ سے کہا کہ کیا ایسے مقام میں دوست دوست کو چھوڑ دیتا ہے، یہاں کیوں رک گئے؟ جبریلؑ نے عرض کیا حضورؐ! اس مقام سے میں اگر ذرہ بھر بھی بڑھا تو تجلیات کے نور سے میں جل جاؤںگا۔ اب آگے جانا آپ ہی کی شان ہے۔ حضورؐ نے فرمایا۔ اچھا اے جبریلؑ ہم تنہا ہی آگے جا رہے ہیں بتاؤ تمہاری کوئی حاجت ہے؟ اگر ہے تو بیان کرو ہم اللہ پاک سے تمہاری حاجت پوری کرا لائیں گے۔ جبریلؑ نے عرض کیا ہاں حضورؐ میری ایک حاجت ہے۔ میری طرف سے خدا سے سوال کیجئے کہ قیامت کے روز جب تمام امتیں پل صراط سے گزر رہی ہوں اور جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت گزرنے لگے تو میری یہ تمنا ہے کہ میں پل صراط پر اپنے پر بچھا دوں تاکہ آپؐ کے امت اس پر سے آسانی کے ساتھ گزر جاۓ۔
(مواہب لدینہ، جلد دوم، ص 29)

وذكر أبو الحسن بن غالب، فيما تكلم فيه على أحاديث الحجب السبعين والسبعمائة والسبعين ألف حجاب وعزاها لأبى الربيع بن سبع فى شفاء الصدور من حديث ابن عباس: أن رسول الله- صلى الله عليه وسلم- قال بعد أن ذكر مبدأ حديث الإسراء، كما ورد فى الأمهات:
أتانى جبريل وكان السفير بى إلى ربى، إلى أن انتهى إلى مقام ثم وقف عند ذلك، فقلت: يا جبريل، فى مثل هذا المقام يترك الخليل خليله؟ فقال:
إن تجاوزته احترقت بالنور، فقال النبى- صلى الله عليه وسلم-: يا جبريل، هل لك من حاجة؟ قال: يا محمد، سل الله أن أبسط جناحى على الصراط لأمتك حتى يجوزوا عليه،

یہ ایک طویل روایت ہے اس میں یہ بھی ہے جنت میں
سمعت مناديا ينادى بلغة تشبه لغة أبى بكر
میں نے پکارنے والے کو سنا وہ ابو بکر کی زبان میں بول رہا تھا

یہ روایت باطل مكذوب ہے – اس کی سند معلوم نہیں ہو سکی

اس پر یہاں بحث ہے
http://www.aqaed.com/faq/4087/
لب لباب ہے یہ بے سند روایت ہے

جواب

صحيح البخاري: كِتَابُ فَرْضِ الخُمُسِ (بَابٌ: وَمِنَ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الخُمُسَ لِنَوَائِبِ المُسْلِمِينَ مَا سَأَلَ هَوَازِنُ النَّبِيَّ ﷺ) صحیح بخاری: کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان (باب : اس بات کی دلیل کہ پانچواں حصہ مسلمانوں کی ضرورتوں کے لئے ہے)

3137 .

حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ المُنْكَدِرِ، سَمِعَ جَابِرًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ قَدْ جَاءَنِي مَالُ البَحْرَيْنِ لَقَدْ أَعْطَيْتُكَ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا»، فَلَمْ يَجِئْ حَتَّى قُبِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا جَاءَ مَالُ البَحْرَيْنِ، أَمَرَ أَبُو بَكْرٍ مُنَادِيًا فَنَادَى: مَنْ كَانَ لَهُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَيْنٌ أَوْ عِدَةٌ فَلْيَأْتِنَا، فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِي كَذَا وَكَذَا، فَحَثَا لِي ثَلاَثًا، – وَجَعَلَ سُفْيَانُ يَحْثُو بِكَفَّيْهِ جَمِيعًا، ثُمَّ قَالَ لَنَا: هَكَذَا قَالَ لَنَا ابْنُ المُنْكَدِرِ -، وَقَالَ مَرَّةً فَأَتَيْتُ أَبَا بَكْرٍ، فَسَأَلْتُ، فَلَمْ يُعْطِنِي، ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَلَمْ يُعْطِنِي، ثُمَّ أَتَيْتُهُ الثَّالِثَةَ فَقُلْتُ: سَأَلْتُكَ فَلَمْ تُعْطِنِي، ثُمَّ سَأَلْتُكَ فَلَمْ تُعْطِنِي، ثُمَّ سَأَلْتُكَ فَلَمْ تُعْطِنِي، فَإِمَّا أَنْ تُعْطِيَنِي، وَإِمَّا أَنْ تَبْخَلَ عَنِّي قَالَ: قُلْتَ: تَبْخَلُ عَنِّي؟ مَا مَنَعْتُكَ مِنْ مَرَّةٍ إِلَّا وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُعْطِيَكَ، قَالَ سُفْيَانُ، وَحَدَّثَنَا عَمْرٌو، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ جَابِرٍ، فَحَثَا لِي حَثْيَةً وَقَالَ: عُدَّهَا فَوَجَدْتُهَا خَمْسَ مِائَةٍ، قَالَ: فَخُذْ مِثْلَهَا مَرَّتَيْنِ، وَقَالَ يَعْنِي ابْنَ المُنْكَدِرِ: وَأَيُّ دَاءٍ أَدْوَأُ مِنَ البُخْلِ

حکم : صحیح 3137

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے ‘ کہا ہم سے محمد بن منکدر نے ‘ اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ آپ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب بحرین سے وصول ہو کر میرے پاس مال آئے گا تو میں تمہیں اس طرح اس طرح ‘ اس طرح ( تین لپ ) دوں گا اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی اور بحرین کا مال اس وقت تک نہ آیا ۔ پھر جب وہاں سے مال آیا تو ابو بکر رضی اللہ عنہ کے حکم سے منادی نے اعلان کیا کہ جس کا بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی قرض ہو یا آپ کا کوئی وعدہ ہو تو ہمارے پاس آئے ۔ میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں گیا اور عرض کیا کہ مجھ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا ۔ چنانچہ انہوں نے تین لپ بھر کر مجھے دیا ۔ سفیان بن عیینہ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اشارہ کرکے ( لپ بھرنے کی ) کیفیت بتائی پھر ہم سے سفیان نے بیان کیا کہ ابن منکدر نے بھی ہم سے اسی طرح بیان کیا تھا ۔ اور ایک مرتبہ سفیان نے ( سابقہ سند کے ساتھ ) بیان کیا کہ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے مجھے کچھ نہیں دیا ۔ پھر میں حاضر ہوا ‘ اور اس مرتبہ بھی مجھے انہوں نے کچھ نہیں دیا ۔ پھر میں تیسری مرتبہ حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں نے ایک مرتبہ آپ سے مانگا اور آپ نے عنایت نہیں فرمایا ۔ دوبارہ مانگا ‘ پھر بھی آ پ نے عنایت نہیں فرمایا اور پھر مانگا لیکن آپ نے عنایت نہیں فرمایا ۔ اب یا آپ مجھے دیجئے یا پھر میرے بارے میں بخل سے کام لیجئے ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم کہتے ہو کہ میرے معاملے میں بخل سے کام لیتا ہے ۔ حالانکہ تمہیں دینے سے جب بھی میں نے منہ پھیرا تو میرے دل میں یہ بات ہوتی تھی کہ تمہیں کبھی نہ کبھی دینا ضرور ہے ۔ ، سفیان نے بیان کیا کہ ہم سے عمرو نے بیان کیا ‘ ان سے محمد بن علی نے اور ان سے جابر نے ‘ پھر ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مجھے ایک لپ بھر کر دیا اور فرمایا کہ اسے شمار کر میں نے شمار کیا تو پانچ کی تعداد تھی ‘ اس کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ‘ کہ اتنا ہی دو مرتبہ اور لے لے ۔ اور ابن المنکدر نے بیان کیا ( کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا ) بخل سے زیادہ بدترین اور کیا بیماری ہو سکتی ہے ۔

سندا اس کو قبول کیا گیا ہے
لیکن محمد بن حنفیہ کا بیان الگ ہے
مسند حمیدی میں ہے
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا جَابِرُ لَوْ قَدْ جَاءَ مَالُ الْبَحْرَيْنِ لَأَعْطَيْتُكَ هَكَذَا، وَهَكَذَا، وَهَكَذَا» ، فَقُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَأْتِ مَالُ الْبَحْرَيْنِ، وَأَتَى فِي خِلَافَةِ أَبِي بَكْرٍ، فَأَمَرَ أَبُو بَكْرٍ مُنَادِيًا فَنَادَى مَنْ كَانَ لَهُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَيْنٌ أَوْ عِدَةٌ فَلْيَأْتِ، قَالَ جَابِرٌ: فَأَتَيْتُ أَبَا بَكْرٍ، فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لَوْ قَدْ جَاءَ مَالُ الْبَحْرَيْنِ لَأَعْطَيْتُكَ هَكَذَا، وَهَكَذَا، وَهَكَذَا» فَحَثَى لِي أَبُو بَكْرٍ مَرَّةً، ثُمَّ قَالَ لِي: عُدَّهَا، فَعَدَدْتُهَا فَوَجَدْتُهَا خَمْسَمِائَةٍ، فَقَالَ خُذْ مِثْلَهَا مَرَّتَيْنِ

ابن حنفیہ نے کہا جابر نے کہا رسول اللہ کی روح قبض ہوئی بحرین سے مال نہیں آیا ابو بکر کے دور میں آیا انہوں نے منادی کرائی کہ کسی کے اوپر قرض ہو یا رسول الله کا وعدہ ہو تو لے جابر گئے تو ابو بکر نے دے دیا

پھر اسی حدیث میں ہے سفیان نے کہا میں نے سنا ابن منکدر روایت کرتا ہے فورا نہیں دیا
قَالَ سُفْيَانُ: ثُمَّ سَمِعْتُ ابْنَ الْمُنْكَدِرِ يُحَدَّثُ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ مِثْلَهُ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: فَحَثَى لِي ثَلَاثًا، وَزَادَ ابْنُ الْمُنْكَدِرِ، قَالَ جَابِرٌ: ثُمَّ أَتَيْتُ أَبَا بَكْرٍ بَعْدُ، فَقُلْتُ لَهُ: أَعْطِنِي فَلَمْ يُعْطِنِي، ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ: أَعْطِنِي، فَلَمْ يُعْطِنِي، ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ: أَعْطِنِي، فَلَمْ يُعْطِنِي، فَقُلْتُ: يَا أَبَا بَكْرٍ إِنِّي سَأَلْتُكَ أَنْ تُعْطِيَنِي فَلَمْ تُعْطِنِي، ثُمَّ سَأَلْتُكَ أَنْ تُعْطِيَنِي، فَلَمْ تُعْطِنِي، فَإِمَّا أَنْ تُعْطِيَنِي، وَإِمَّا أَنْ تَبْخَلَ عَنِّي، فَقَالَ: «قُلْتُ تَبْخَلُ عَنِّي، وَأَيُّ الدَّاءِ أَدْوَأُ مِنَ الْبُخْلِ؟ فَمَا مَنَعْتُكَ مِنْ مَرَّةٍ إِلَّا وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُعْطِيَكَ»

اس طرح سفیان نے دونوں قول بیان کیے ایک جو ابن منکدر کا تھا دوسرا جو ابن حنفیہ کا تھا

اسی روایت کو البزار نے بیان کیا زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، وَعَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ مَوْلَى غُفْرَةَ کی سند سے اس میں ہے مال فورا دیا گیا

ابن المنکدر کی روایت شاذ ہے دیگر ثقہ سے مخالفت کی وجہ سے
البزار جو امام بخاری و مسلم نے ہم عصر ہیں اس کو بیان کرتے ہیں تعلقیا مسند البزار میں کہتے ہیں
وَكَانَتْ فَضِيلَةً لِأَبِي بَكْرٍ لِإِنْجَازِ مَا ذَكَرَ جَابِرٌ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَدَهُ فَلَمْ أَرَ هَذَا الْحَدِيثَ مَعَ كَثْرَةِ طُرُقِهِ يَدْخُلُ فِي مُسْنَدِ أَبِي بَكْرٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ أُدْخِلْهُ

ابو بکر کی فضیلت پوری ہوتی ہے اس جابر کے وعدہ نبوی کے ذکر سے پس اس (ابن منکدر والی) حدیث کو ہم (صحیح) نہیں دیکھتے اور اس کے کثرت طرق کے ہونے کے باوجود اس کو مسند ابو بکر میں داخل نہیں کریں گے

جواب

کیا یہ امام مالک کا قول ہے

– قال ابن وهب كنا عند مالك فذكرت السنة فقال مالك: “السنة سفينة نوح من ركبها نجا ومن تخلف عنها غرق”.

( تاريخ دمشق لابن عساكر14/9)و(تاريخ بغداد7/336) و(ذم الكلام و اهله للهروي 4/124-رقم885)

——

حَدَّثَنَا مُعَاوِیَةُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمَّارٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْمِنْهَالِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِیٍّ، قَالَ
إنَّمَا مَثَلُنَا فِی هَذِهِ الْأُمَّةِ کَسَفِینَةِ نُوحٍ وَکَبَابِ حِطَّةٍ فِی بَنِی إسْرَائِیلَ.

ذم الكلام وأهله
المؤلف: أبو إسماعيل عبد الله بن محمد بن علي الأنصاري الهروي (المتوفى: 481هـ)

أَخْبَرَنِي غَالِبُ بْنُ عَلِيٍّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ ابْن الْمُظَفَّرِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَبِي طِيبَةَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ قَالَ قَالَ ابْنُ وَهْبٍ كَانَ عِنْدَ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ فَذُكِرَتِ السّنة فَقَالَ مَالك (السُّنَّةُ سَفِينَةُ نُوحٍ مَنْ رَكِبَهَا نَجَا وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا غَرِقَ)

تاریخ بغداد
أخبرنا عَلِيّ بن المحسن الْمُعَدَّل- من أصله- أخبرنا محمّد بن المظفر حَدَّثَنِي الْحَسَن بن أَبِي طيبة المصري- ببغداد- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صالح. قَالَ: قَالَ ابن وهب:
كنا عند مالك فَذَكَرْتُ السُّنَّةَ، فَقَالَ مَالُكٌ: السُّنَّةُ سَفِينَةُ نُوحٍ، مَنْ رَكِبَهَا نَجَا، وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا غرق.
سند صحیح ہے
————

حَدَّثَنَا مُعَاوِیَةُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمَّارٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْمِنْهَالِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِیٍّ، قَالَ
إنَّمَا مَثَلُنَا فِی هَذِهِ الْأُمَّةِ کَسَفِینَةِ نُوحٍ وَکَبَابِ حِطَّةٍ فِی بَنِی إسْرَائِیلَ.

ضعیف ہے المنھال بن عمرو ہے جو شعبہ کے نزدیک متروک ہے اور الْأَعْمَشِ مدلس کا عن سے روایت کرنا ہے

علی کے حوالے سے بہت بے سروپا کلام بیان کیا جاتا ہے مثلا اس میں دیکھیں لکھا ہے کہ ہم باب حطہ ہیں جبکہ یہ کوئی باب نہیں تھا کلمہ تھا کہ گناہ گناہ
حطہ عبرانی میں گناہ کو کہتے ہیں
یعنی مالک معاف کر بہت گناہ ہوئے

تحقیق چاہیے

أخبرنا عبد المعز بن محمد الهروي قراءة عليه بها قلت له: أخبركم محمد بن إسماعيل بن الفضيل – قراءة عليه وأنت تسمع – أنا محلم بن إسماعيل الضبي، أنا الخليل بن أحمد السجزي، أنا محمد بن إسحاق بن إبراهيم السراج، ثنا قتيبة بن سعيد، ثنا أبو عوانة عن سماك عن حبيب بن حماز، قال: كنت عند علي بن أبي طالب وسأله رجل عن ذي القرنين كيف بلغ المشرق والمغرب؟ قال: سبحان الله، سُخِّرَ له السحابُ ومُدَّتْ لَهُ الأسبابُ وبُسِطَ لهُ النُّورُ فقال: أزيدك؟ قال: فسكت الرجل وسكت علي

الحافظ المقدسي

الأحاديث المختارة

جواب

حبيب بن حماز نے کہا ہم علی کے پاس تھے ان سے ایک شخص نے ذي القرنين پر سوال کیا کہ یہ مشرق و مغرب کیسے پہنچے ؟ علی نے کہا سبحان الله ! ان کے لئے بادل کو مسخر کیا گیا اور اسباب کو مقرر کیا گیا اور نور کو پھیلا دیا گیا- حبيب بن حماز نے کہا اپ کو (بھی بادل پر) بلند کیا گیا ؟ پس حبيب بن حماز نے کہا : یہ شخص اور علی دونوں چپ رہے
———-
سند میں سماك بن حرب ہے جس کو شعبہ ، سفيان الثَّوْريّ، صالح جزرة اور ابن مبارک نے ضعیف قرار دیا ہے البتہ دیگر نے صدوق کہا ہے
قال أحمد: سماك مضطرب الحديث
جرير کہتے اس کا دماغ چل گیا تھا
سماک کہا کرتا کہ اس کو خواب میں حکم ملتے ہیں الکامل از ابن عدی میں ہے
حَدَّثَنَا الحسين بن عفير الأنصاري، حَدَّثَنا سَعِيد بن سلمة، حَدَّثَنا إِبْرَاهِيم بْن عُيَينة أخو سُفيان، عَن شُعْبَة عن سماك بْن حرب، قَال: قِيل لي في المنام إياك والكذب إياك والنميمة إياك ولحوم الناس.
سماک نے کہا مجھے نیند میں کہا گیا جھوٹ سے بچو ..
النسائي نے کہا اس کی منفرد روایت نہیں لی جائے گ لہذا یہ روایت قابل رد ہے

یہ راوی اختلاط کا شکار ہوا – ممکن ہے اس کا اثر ہو
البتہ امام علی کے لئے بادل تھا جس سے انہوں نے سیاروں کی سیر کی اہل تشیع کا قول قرن اول میں معروف تھا
اس بادل کو الصعب کہا جاتا ہے

⇓ عزیر سے علی تک
https://www.islamic-belief.net/masalik/شیعیت/

صحيح مسلم: كِتَابُ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِؓ (بَابُ مِنْ فَضَائِلِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَأَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ وَأَهْلِ سَفِينَتِهِمْؓ) صحیح مسلم: کتاب: صحابہ کرامؓ کے فضائل ومناقب (باب: حضرت جعفر بن ابی طالب حضرت اسماء بنت عمیس ؓ اور ان کی کشتی والوں کے فضائل)

6410 .

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ بَرَّادٍ الْأَشْعَرِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنِي بُرَيْدٌ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: بَلَغَنَا مَخْرَجُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ بِالْيَمَنِ، فَخَرَجْنَا مُهَاجِرِينَ إِلَيْهِ، أَنَا وَأَخَوَانِ لِي، أَنَا أَصْغَرُهُمَا، أَحَدُهُمَا أَبُو بُرْدَةَ وَالْآخَرُ أَبُو رُهْمٍ – إِمَّا قَالَ بِضْعًا وَإِمَّا قَالَ: ثَلَاثَةً وَخَمْسِينَ أَوِ اثْنَيْنِ وَخَمْسِينَ رَجُلًا مِنْ قَوْمِي – قَالَ فَرَكِبْنَا سَفِينَةً، فَأَلْقَتْنَا سَفِينَتُنَا إِلَى النَّجَاشِيِّ بِالْحَبَشَةِ، فَوَافَقْنَا جَعْفَرَ بْنَ أَبِي طَالِبٍ وَأَصْحَابَهُ عِنْدَهُ، فَقَالَ جَعْفَرٌ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَنَا هَاهُنَا، وَأَمَرَنَا بِالْإِقَامَةِ فَأَقِيمُوا مَعَنَا، فَأَقَمْنَا مَعَهُ حَتَّى قَدِمْنَا جَمِيعًا، قَالَ: فَوَافَقْنَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ افْتَتَحَ خَيْبَرَ، فَأَسْهَمَ لَنَا، أَوْ قَالَ أَعْطَانَا مِنْهَا، وَمَا قَسَمَ لِأَحَدٍ غَابَ عَنْ فَتْحِ خَيْبَرَ مِنْهَا شَيْئًا، إِلَّا لِمَنْ شَهِدَ مَعَهُ، إِلَّا لِأَصْحَابِ سَفِينَتِنَا مَعَ جَعْفَرٍ وَأَصْحَابِهِ، قَسَمَ لَهُمْ مَعَهُمْ، قَالَ فَكَانَ نَاسٌ مِنَ النَّاسِ يَقُولُونَ لَنَا – يَعْنِي لِأَهْلِ السَّفِينَةِ -: نَحْنُ سَبَقْنَاكُمْ بِالْهِجْرَةِ.

حکم : صحیح 6410

بُرَید نے ابو بُردہ سے انھوں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ،کہا:ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے (مکہ سے) نکلنے کی خبر ملی تو ہم یمن میں تھے ۔ہم(بھی)آپ کی طرف ہجرت کرتے ہو ئے نکل پڑے ۔میں میرے دو بھا ئی جن سے میں چھوٹا تھا۔ ایک ابو بردہ اور دوسرا ابو رہم۔۔۔اور میری قوم میں سے پچاس سے کچھ اوپریا کہا: تریپن یا باون لوگ (نکلے )۔۔کہا: ہم کشتی میں سوار ہو ئے تو ہماری کشتی نے ہمیں حبشہ میں نجا شی کے ہاں جا پھینکا ۔اس کے ہاں ہم حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ اکٹھے ہو گئے۔ جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہاں بھیجا ہے اور ہمیں یہاں ٹھہرنے کا حکم دیا ہے تم لو گ بھی ہمارے ساتھ یہیں ٹھہرو۔کہا: ہم ان کے ساتھ ٹھہرگئے ۔حتی کہ ہم سب اکٹھے (واپس )آئے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (عین)اس وقت آکر ملے جب آپ نے خیبر فتح کیا تو آپ نے ہمارا بھی حصہ نکا لا یا کہا:ہمیں بھی اس مال میں سے عطا فر ما یا :آپ نے کسی شخص کو بھی جو فتح خیبر میں مو جود نہیں تھا کو ئی حصہ نہیں دیا تھا ، سوائے ان لوگوں کے جو آپ کے ساتھ (فتح میں) شریک تھے مگر حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے ہمراہ ہماری کشتی والوں کو دیا ،ان کے لیے ان(فتح میں شریک ہو نے والوں )کے ساتھ ہی حصہ نکا لا ۔کہا:تو ان میں سے کچھ لوگ ہمیں ۔۔۔یعنی کشتی والوں کو ۔۔۔کہتے تھے، ہم نے ہجرت میں تم سے سبقت حاصل کی۔

———— دوسرا حصہ —————-

صحيح مسلم: كِتَابُ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِؓ (بَابُ مِنْ فَضَائِلِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَأَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ وَأَهْلِ سَفِينَتِهِمْؓ) صحیح مسلم: کتاب: صحابہ کرامؓ کے فضائل ومناقب (باب: حضرت جعفر بن ابی طالب حضرت اسماء بنت عمیس ؓ اور ان کی کشتی والوں کے فضائل)

6411 .

قَالَ فَدَخَلَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ، وَهِيَ مِمَّنْ قَدِمَ مَعَنَا، عَلَى حَفْصَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَائِرَةً، وَقَدْ كَانَتْ هَاجَرَتْ إِلَى النَّجَاشِيِّ فِيمَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِ، فَدَخَلَ عُمَرُ عَلَى حَفْصَةَ، وَأَسْمَاءُ عِنْدَهَا، فَقَالَ عُمَرُ حِينَ رَأَى أَسْمَاءَ: مَنْ هَذِهِ؟ قَالَتْ: أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ، قَالَ عُمَرُ: الْحَبَشِيَّةُ هَذِهِ؟ الْبَحْرِيَّةُ هَذِهِ؟ فَقَالَتْ أَسْمَاءُ: نَعَمْ، فَقَالَ عُمَرُ: سَبَقْنَاكُمْ بِالْهِجْرَةِ، فَنَحْنُ أَحَقُّ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْكُمْ، فَغَضِبَتْ، وَقَالَتْ كَلِمَةً: كَذَبْتَ يَا عُمَرُ كَلَّا، وَاللهِ كُنْتُمْ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُطْعِمُ جَائِعَكُمْ، وَيَعِظُ جَاهِلَكُمْ، وَكُنَّا فِي دَارِ، أَوْ فِي أَرْضِ الْبُعَدَاءِ الْبُغَضَاءِ فِي الْحَبَشَةِ، وَذَلِكَ فِي اللهِ وَفِي رَسُولِهِ، وَايْمُ اللهِ لَا أَطْعَمُ طَعَامًا وَلَا أَشْرَبُ شَرَابًا حَتَّى أَذْكُرَ مَا قُلْتَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ كُنَّا نُؤْذَى وَنُخَافُ، وَسَأَذْكُرُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَسْأَلُهُ، وَوَاللهِ لَا أَكْذِبُ وَلَا أَزِيغُ وَلَا أَزِيدُ عَلَى ذَلِكَ، قَالَ: فَلَمَّا جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: يَا نَبِيَّ اللهِ إِنَّ عُمَرَ قَالَ: كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيْسَ بِأَحَقَّ بِي مِنْكُمْ، وَلَهُ وَلِأَصْحَابِهِ هِجْرَةٌ وَاحِدَةٌ، وَلَكُمْ أَنْتُمْ، أَهْلَ السَّفِينَةِ، هِجْرَتَانِ» قَالَتْ: فَلَقَدْ رَأَيْتُ أَبَا مُوسَى وَأَصْحَابَ السَّفِينَةِ يَأْتُونِي أَرْسَالًا، يَسْأَلُونِي عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، مَا مِنَ الدُّنْيَا شَيْءٌ هُمْ بِهِ أَفْرَحُ وَلَا أَعْظَمُ فِي أَنْفُسِهِمْ مِمَّا قَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ أَبُو بُرْدَةَ: فَقَالَتْ أَسْمَاءُ: فَلَقَدْ رَأَيْتُ أَبَا مُوسَى، وَإِنَّهُ لَيَسْتَعِيدُ هَذَا الْحَدِيثَ مِنِّي

حکم : صحیح 6411

کہا:(تو ایسا ہوا کہ حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی) اسماء بن عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا وہ ان لوگوں میں سے تھیں جو ہمارے ساتھ آئے تھے۔ ملنے کے لئے ام المومنین حضت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پا س گئیں۔ہی بھی نجاشی کی طرف ہجرت کرنے والوں کے ساتھ ہجرت کرکے گئی تھیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا ان کے پاس موجود تھیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسماء رضی اللہ عنہا کو دیکھ کر پوچھا کہ یہ کون ہے؟ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ یہ اسماء بنت عمیس ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ جو حبش کے ملک میں گئی تھیں اور اب سمندر کا سفر کر کے آئی ہیں؟ اسماء رضی اللہ عنہا بولیں جی ہاں میں وہی ہوں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم ہجرت میں تم سے سبقت لے گئے، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تم سے زیادہ ہمارا حق ہے۔ یہ سن کر انہیں غصہ آ گیا اور کہنے لگیں ”اے عمر! اللہ کی قسم ہرگز نہیں، تم نے جھوٹ کہا۔ تم تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے، تم میں سے بھوکے کو کھانا کھلاتے اور تمہارے جاہل کو نصیحت کرتے تھے اور ہم ایک دور دراز دشمنوں کی زمین حبشہ میں تھے، اور ہماری یہ سب تکالیف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں تھیں۔ اللہ کی قسم! مجھ پر اس وقت تک کھانا پینا حرام ہے جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تمہاری بات کا ذکر نہ کر لوں اور ہم کو ایذا دی جاتی تھی اور ہمیں ہر وقت خوف رہتا تھا۔ عنقریب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کروں گی، ان سے پوچھوں گی اور اللہ کی قسم نہ میں جھوٹ بولوں گی، نہ میں کجروی کروں گی اور نہ میں اس سے زیادہ کہوں گی“۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ یا نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! عمر رضی اللہ عنہ نے اس اس طرح کہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے زیادہ کسی کا حق نہیں ہے۔ کیونکہ عمر (رضی اللہ عنہ) اور ان کے ساتھیوں کی ایک ہجرت ہے اور تم کشتی والوں کی تو دو ہجرتیں ہوئیں (ایک مکہ سے حبش کو اور دوسری حبش سے مدینہ طیبہ کو)۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے سیدنا ابوموسیٰ اور کشتی والوں کو دیکھا کہ وہ گروہ در گروہ میرے پاس آتے اور اس حدیث کو سنتے تھے۔ اور دنیا میں کوئی چیز ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے زیادہ خوشی کی نہ تھی نہ اتنی بڑی تھی۔ سیدنا ابوبردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ سیدہ اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ میں نے ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ وہ مجھ سے اس حدیث کو (خوشی کے لئے) باربار سننا چاہتے۔

——

یہی حدیث صحیح بخاری اور مسند أبي يعلى الموصلي میں بھی ہے

صحیح بخاری میں یہ الفاظ نہیں ہیں

كذبتَ يا عمر

اور مسند أبي يعلى الموصلي میں یہ الفاظ نہیں بلکہ

وقالت كلمة

کے الفاظ ہیں اور حاشیہ میں حسین سلیم اسد محقق صاحب لکھتے ہیں کہ

عند مسلم : و كذبتَ يا عمر

جواب

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ العَلاَءِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا بُرَيْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
امام مسلم کی سند ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ بَرَّادٍ الْأَشْعَرِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنِي بُرَيْدٌ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى
ابی یعلی کی سند ہے
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى

—–
المسنَد الصَّحيح المُخَرّج عَلى صَحِيح مُسلم
المؤلف: أبو عَوانة يَعقُوب بن إسحَاق الإسفرَايينيّ (المتوفى 316 هـ)
میں صحیح مسلم کے متن کی احادیث کی اور سندیں بھی ہیں
اس کتاب میں سند ہے
حدثنا عبد الله بن محمد بن شاكر العنبري، حدثنا أبو أسامة (1) [قال] (2): حدثني بريد، عن أبي بردة، عن أبي موسى
الفاظ ہیں وقالت كلمة: كذبت يا عمر
——
سنن الکبری نسائی میں سند ہے
أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي بُرَيْدٌ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى
الفاظ ہیں فَغَضِبَتْ» وَقَالَتْ: كَلَّا

: حلية الأولياء وطبقات الأصفياء
المؤلف: أبو نعيم أحمد بن عبد الله بن أحمد بن إسحاق بن موسى بن مهران الأصبهاني (المتوفى: 430هـ)
سند ہے
حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ بْنُ حَمْزَةَ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ، وَأَحْمَدُ بْنُ زُهَيْرٍ، قَالَا: ثنا أَبُو كُرَيْبٍ، ثنا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ
الفاظ ہیں
فَغَضِبَتْ وَقَالَتْ كَلِمَةً: كَلَّا

اغلبا یہ غلطی ابو اسامہ کی ہے کیونکہ بعض لوگوں کو سناتے وقت انہوں نے کچھ کہا اور بعض دفعہ کچھ اور

(تفسیر القرآن العظیم (ابن کثیر) المؤلف: أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (المتوفى: 774هـ

لکھتے ہیں کہ

لنک

http://shamela.ws/browse.php/book-23604#page-3219

قال صلى الله علیه وسلم: «أَمَّا بَعْدُ، أَلَا أَیُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ یُوشِکُ أَنْ یَأْتِیَنِی رَسُولُ رَبِّی فَأُجِیبَ، وَإِنِّی تَارِکٌ فِیکُمُ الثَّقَلَیْنِ أَوَّلُهُمَا کِتَابُ اللَّهِ تعالى فیه الهدى والنور فخذوا بکتاب الله واستمسکوا بِهِ» فَحَثَّ عَلَى کِتَابِ اللَّهِ وَرَغَّبَ فِیهِ وقال صلى الله علیه وسلم: «وأهل بیتی أذکرکم فِی أَهْلِ بَیْتِی، أُذَکِّرُکُمُ اللَّهَ فِی أَهْلِ بَیْتِی» فَقَالَ لَهُ حُصَیْنٌ: وَمَنْ أَهْلُ بَیْتِهِ یَا زَیْدُ؟ أَلَیْسَ نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَیْتِهِ؟
قال: إن نساءه لسن من أهل بیته ولکن أهل بیته من حرم علیه الصَّدَقَةَ بَعْدَهُ، قَالَ: وَمَنْ هُمْ؟
قَالَ: هُمْ آل علی وآل عقیل وآل جعفر وآل العباس رضی الله عنهم، قال: أکل هؤلاء حرم علیه الصدقة؟ قال: نعم «1» ، وهکذا رواه مسلم والنسائی من طرق یَزِیدَ بْنِ حَیَّانَ بِهِ

—–

اس میں الفاظ یہ ہیں

قال: إن نساءه لسن من أهل بیته

اور کہا گیا

وهکذا رواه مسلم والنسائی من طرق یَزِیدَ بْنِ حَیَّانَ بِهِ

===================

دوسری طرف ہم صحیح مسلم اور سنن نسائی میں یَزِیدَ بْنِ حَیَّانَ کے طرق سے کیا بیان ہوا ہے

لنک

http://s3.picofile.com/file/8223691142/moslem_1_.gif

صحيح مسلم: كِتَابُ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِؓ (بَابُ مِنْ فَضَائِلِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍؓ) صحیح مسلم: کتاب: صحابہ کرامؓ کے فضائل ومناقب (باب: حضرت علی ؓ کے فضائل)

6225

حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَشُجَاعُ بْنُ مَخْلَدٍ، جَمِيعًا عَنِ ابْنِ عُلَيَّةَ، قَالَ زُهَيْرٌ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنِي أَبُو حَيَّانَ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ حَيَّانَ، قَالَ: انْطَلَقْتُ أَنَا وَحُصَيْنُ بْنُ سَبْرَةَ، وَعُمَرُ بْنُ مُسْلِمٍ، إِلَى زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، فَلَمَّا جَلَسْنَا إِلَيْهِ قَالَ لَهُ حُصَيْنٌ: لَقَدْ لَقِيتَ يَا زَيْدُ خَيْرًا كَثِيرًا، رَأَيْتَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَمِعْتَ حَدِيثَهُ، وَغَزَوْتَ مَعَهُ، وَصَلَّيْتَ خَلْفَهُ لَقَدْ لَقِيتَ، يَا زَيْدُ خَيْرًا كَثِيرًا، حَدِّثْنَا يَا زَيْدُ مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَا ابْنَ أَخِي وَاللهِ لَقَدْ كَبِرَتْ سِنِّي، وَقَدُمَ عَهْدِي، وَنَسِيتُ بَعْضَ الَّذِي كُنْتُ أَعِي مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا حَدَّثْتُكُمْ فَاقْبَلُوا، وَمَا لَا، فَلَا تُكَلِّفُونِيهِ، ثُمَّ قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فِينَا خَطِيبًا، بِمَاءٍ يُدْعَى خُمًّا بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَوَعَظَ وَذَكَّرَ، ثُمَّ قَالَ: ” أَمَّا بَعْدُ، أَلَا أَيُّهَا النَّاسُ فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ رَسُولُ رَبِّي فَأُجِيبَ، وَأَنَا تَارِكٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ: أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللهِ فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ فَخُذُوا بِكِتَابِ اللهِ، وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ ” فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللهِ وَرَغَّبَ فِيهِ، ثُمَّ قَالَ: «وَأَهْلُ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي» فَقَالَ لَهُ حُصَيْنٌ: وَمَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ؟ يَا زَيْدُ أَلَيْسَ نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ؟ قَالَ: نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، وَلَكِنْ أَهْلُ بَيْتِهِ مَنْ حُرِمَ الصَّدَقَةَ بَعْدَهُ، قَالَ: وَمَنْ هُمْ؟ قَالَ: هُمْ آلُ عَلِيٍّ وَآلُ عَقِيلٍ، وَآلُ جَعْفَرٍ، وَآلُ عَبَّاسٍ قَالَ: كُلُّ هَؤُلَاءِ حُرِمَ الصَّدَقَةَ؟ قَالَ: نَعَمْ

حکم : صحیح 6225
زہیر بن حرب اور شجاع بن مخلد نے اسماعیل بن ابراہیم(ابن علیہ) سے روایت کی،انھوں نے کہا:مجھے ابوحیان نے حدیث بیان کی،کہا:یزید بن حیان نے مجھ سے بیان کیا کہ میں،حصین بن سبرہ اور عمر بن مسلم(تینوں) حضرت زید بن ارقم کے پاس گئے۔جب ہم ان کے قریب بیٹھ گئے تو حصین نے ان سے کہا:زید!آ پ کو خیر کثیرحاصل ہوئی،آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی،ان کی بات سنی،ان کے ساتھ مل کر جہاد کیا اور ان کی اقتداء میں نمازیں پڑھیں۔زید!آپ کوخیر کثیرحاصل ہوئی۔زید!ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی(کوئی) حدیث سنایئے۔(حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے )کہا:بھتیجے!میری عمر زیادہ ہوگی ،زمانہ بیت گیا ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو احادیث یاد تھیں ان میں سے کچھ بھول چکا ہوں،اب جو میں بیان کروں اسے قبول کرو۔اور جو(بیان) نہ کرسکوں تو اس کا مجھےمکلف نہ ٹھہراؤ۔پھر کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع مقام ”خم“کے پانی کے مقام پر خطبہ سنانے کو کھڑے ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد کی اور اس کی تعریف کو بیان کیا اور وعظ و نصیحت کی۔ پھر فرمایا کہ اس کے بعد اے لوگو! میں آدمی ہوں، قریب ہے کہ میرے رب کا بھیجا ہوا (موت کا فرشتہ) پیغام اجل لائے اور میں قبول کر لوں۔ میں تم میں دو بڑی چیزیں چھوڑے جاتا ہوں۔ پہلے تو اللہ کی کتاب ہے اور اس میں ہدایت ہے اور نور ہے۔ تو اللہ کی کتاب کو تھامے رہو اور اس کو مضبوط پکڑے رہو۔ غرض کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی کتاب کی طرف رغبت دلائی۔ پھر فرمایا کہ دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں۔ میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ یاد دلاتا ہوں، تین بار فرمایا۔ اور حصین نے کہا کہ اے زید! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کون سے ہیں، کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اہل بیت نہیں ہیں؟ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ازواج مطہرات بھی اہل بیت میں داخل ہیں لیکن اہل بیت وہ ہیں جن پر زکوٰۃ حرام ہے۔ حصین نے کہا کہ وہ کون لوگ ہیں؟ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ علی، عقیل، جعفر اور عباس کی اولاد ہیں۔ حصین نے کہا کہ ان سب پر صدقہ حرام ہے؟ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں۔

یہاں الفاظ ہیں

قَالَ نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَیْتِهِ

—–

دوسری طرف سنن کبری نسائی کی حدیث یَزِیدَ بْنِ حَیَّانَ کے طرق سے

لنک

http://s6.picofile.com/file/8223989400/nasaii_1_.gif

أخبرنا زکریا بن یحیى قال ثنا إسحاق قال أنا جریر عن أبی حیان التیمی یحیى بن سعید بن حیان عن یزید بن حیان قال انطلقت أنا وحصین بن سمرة بن عمر بن مسلم إلى زید بن أرقم فجلسنا إلیه فقال حصین یا زید حدثنا ما سمعت من رسول الله صلى الله علیه و سلم وما شهدت معه قال : قام رسول الله صلى الله علیه و سلم بماء یدعى خمیا فحمد الله وأثنى علیه ووعظ وذکر ثم قال أما بعد أیها الناس إنما أنا بشر یوشک أن یأتینی رسول ربی فأجیبه وإنی تارک فیکم الثقلین أولهما کتاب الله فیه الهدى والنور ومن استمسک به وأخذ به کان على الهدى ومن أخطأه ترکه کان على الضلالة وأهل بیتی أذکرکم الله فی أهل بیتی ثلاث مرات قال حصین فمن أهل بیته یا زید ألیس نساؤه من أهل بیته قال بلى إن نساءه من أهل بیته ولکن أهل بیته من حرم الصدقة قال من هم قال آل علی وآل عقیل وآل جعفر وآل العباس

یہاں الفاظ ہیں

قال بلى إن نساءه من أهل بیته

===============

آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ اصل الفاظ کیا ہیں – کیا یہاں ابن کثیر سے غلطی ہوئی یا امام مسلم اور امام نسائی سے

جواب

مسلم میں ہے

يزيد بن حيان التيمي کہتے ہیں میں اور حصين بن سبرة اور عمر بن مسلم ، زيد بن أرقم رضی الله عنہ کے پاس گئے

فقال له حصين ( بن سبرة) ومن أهل بيته يا زيد (بن أرقم) أليس نساؤه من أهل بيته قال ان نساءه من أهل بيته ولكن أهل بيته من حرم الصدقة بعده قال ومن هم قال هم آل على وآل عقيل وآل جعفر وآل عباس قال أكل هؤلاء حرم الصدقة قال نعم

حصين ( بن سبرة) نے زيد (بن أرقم) سے پوچھا کہ اے زید کیا نبی کی ازواج ان اہل بیت میں سے نہیں ہیں ؟ انہوں نے کہا بے شک وہ اہل بیت میں سے ہیں لیکن اہل بیت وہ (بھی) ہیں جن پر صدقه حرام ہے ان کے بعد پوچھا وہ کون ؟ کہا وہ ال علی ال عقیل ال جعفر ال عباس ہیں کہا ان سب پر صدقه حرام ہے ؟ کہا ہاں

اس میں امہات المومنین کو بھی اہل بیت کہا گیا ہے

مسلم میں اسی روایت کی دوسری سند میں الفاظ ہیں جن میں امہات المومنین کو خارج کیا گیا ہے جو زید بن ارقم کی روایت میں الفاظ کا اضطراب ہے کیونکہ مسلم کی دوسری روایت میں یہ الفاظ نہیں ہیں اس مخصوص روایت کے الفاظ ہیں

مَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ؟ نِسَاؤُهُ؟ قَالَ: لَا، وَايْمُ اللهِ إِنَّ الْمَرْأَةَ تَكُونُ مَعَ الرَّجُلِ الْعَصْرَ مِنَ الدَّهْرِ، ثُمَّ يُطَلِّقُهَا فَتَرْجِعُ إِلَى أَبِيهَا وَقَوْمِهَا أَهْلُ بَيْتِهِ أَصْلُهُ، وَعَصَبَتُهُ الَّذِينَ حُرِمُوا الصَّدَقَةَ بَعْدَه

اہل بیت کون ہیں ؟ ازواج؟ زید نے کہا الله کی قسم ایک عورت آدمی کے ساتھ ہوتی ہے ایک عرصۂ تک پھر وہ اس کو طلاق دیتا ہے اور وہ اپنے باپ اور قوم میں لوٹ جاتی ہے اور اہل بیت تو اصل والے اور جڑ والے ہیں جن پر صدقه حرام ہے

اس کی سند میں حسان بن إبراهيم بن عبد الله الكرمانى المتوفی ١٨٩ یا ١٨٦ ھ ہیں جن کو النسائى : ليس بالقوى کہتے ہیں ، ابن حجر ، صدوق يخطىء صدوق غلطیاں کرتے تھے کہتے ہیں ابن عدی کہتے ہیں من أهل الصدق إلا أنه يغلط في الشئ ولا يتعمد یہ اہل صدق میں سے ہیں لیکن غلطیاں کرتے ہیں اور قابل اعتماد نہیں ہیں
==============

تفسیر ابن کثیر میں سند و متن ہے
قَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ «6» رَحِمَهُ اللَّهُ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِي حَيَّانَ التَّيْمِيِّ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ حَيَّانَ قَالَ: انْطَلَقْتُ أنا وحصين بْنُ مَيْسَرَةَ وَعُمَرُ بْنُ مُسْلِمٍ إِلَى زَيْدِ بن أرقم رضي الله عنه، فلما جلسنا إليه قال حُصَيْنٌ: لَقَدْ لَقِيتَ يَا زَيْدُ خَيْرًا كَثِيرًا، رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَمِعْتَ حَدِيثَهُ وَغَزَوْتَ مَعَهُ وَصَلَّيْتَ مَعَهُ، لَقَدْ رَأَيْتَ يَا زَيْدُ خَيْرًا كَثِيرًا، حَدِّثْنَا يَا زيد ما سمعت من
رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا ابن أخي والله لقد كبر سِنِّي وَقَدِمَ عَهْدِي وَنَسِيتُ بَعْضَ الَّذِي كُنْتُ أَعِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا حَدَّثْتُكُمْ فَاقْبَلُوهُ وَمَا لَا فَلَا تكلفونيه، ثم قال رضي الله عنه: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا خَطِيبًا فِينَا بِمَاءٍ يُدْعَى خُمًّا بَيْنَ مكة والمدينة، فحمد الله تعالى وأثنى عليه وذكر ووعظ، ثم قال صلى الله عليه وسلم: «أَمَّا بَعْدُ، أَلَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَنِي رَسُولُ رَبِّي فَأُجِيبَ، وَإِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللَّهِ تعالى فيه الهدى والنور فخذوا بكتاب الله واستمسكوا بِهِ» فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ وَرَغَّبَ فِيهِ وقال صلى الله عليه وسلم: «وأهل بيتي أذكركم فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي» فَقَالَ لَهُ حُصَيْنٌ: وَمَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ يَا زَيْدُ؟ أَلَيْسَ نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ؟
قال: إن نساءه لسن من أهل بيته ولكن أهل بيته من حرم عليه الصَّدَقَةَ بَعْدَهُ، قَالَ: وَمَنْ هُمْ؟
قَالَ: هُمْ آل علي وآل عقيل وآل جعفر وآل العباس رضي الله عنهم، قال: أكل هؤلاء حرم عليه الصدقة؟ قال: نعم
وهكذا رواه مسلم والنسائي من طرق يَزِيدَ بْنِ حَيَّانَ بِهِ.

ابن کثیر کے مطابق یہ مسند احمد میں ایسا تھا
لیکن یہ الفاظ مسند احمد میں بھی نہیں صحیح مسلم میں اور نسائی کی کسی کتاب میں نہیں
یہ الفاظ تحریف معلوم ہوتے ہیں

———-
مسند عبد بن حميد
قَالَ: بَلَى، إِنَّ نِسَاءَهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ،

مسند ابن أبي شيبة
قَالَ: بَلَى إِنَّ نِسَاءَهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ

مسند احمد
قَالَ: إِنَّ نِسَاءَهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ،

معجم ابن عساکر
قال بلى إن نساءه من أهل بيته

مسند البزار
قال إن نساءه مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ

الاعتقاد البیہقی
قَالَ: بَلَى إِنَّ نِسَاءَهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ

صحیح ابن خزیمہ
قَالَ: «بَلَى، نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ،

معجم کبیر طبرانی
قَالَ: «إِنَّ نِسَاءَهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ

سنن الکبری نسائی
قَالَ: «بَلَى، إِنَّ نِسَاءَهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ

اتنی جگہ ہے کہ ازواج النبی بھی اہل بیت میں سے ہیں
لہذا اغلب امکان ہے کہ تفسیر میں کسی نے یہ تبدیلی کی ہے

تحقیق چاہیے

فقال کعب : لا ولکنه صاحب البغلة الشهباء یعنی معاویة، فقیل لمعاویة إن کعباً یسخر بک یزعم أنک تلی هذا الأمر،فأتاه فقال له : یا أبا إسحاق وکیف وها هنا علی والزبیر
وأصحاب رسول الله ؟ قال : أنت صاحبها

السنة لأبو بکر الخلال تحقیق عطیة الزهرانی حدیث348

جواب

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے
وَكِيعٌ , عَنِ الْأَعْمَشِ , عَنْ أَبِي صَالِحٍ , قَالَ: كَانَ الْحَادِي يَحْدُو بِعُثْمَانَ وَهُوَ يَقُولُ: « [البحر الرجز] إِنَّ الْأَمِيرَ بَعْدَهُ عَلِيُّ … وَفِي الزُّبَيْرِ خَلَفٌ رَضِيُّ»
, قَالَ: فَقَالَ كَعْبٌ: وَلَكِنَّهُ صَاحِبُ الْبَغْلَةِ الشَّهْبَاءِ، يَعْنِي مُعَاوِيَةَ , فَقِيلَ لِمُعَاوِيَةَ: إِنَّ كَعْبًا يَسْخَرُ بِكَ وَيَزْعُمُ أَنَّكَ تَلِي هَذَا الْأَمْرَ , قَالَ: فَأَتَاهُ فَقَالَ: يَا أَبَا إِسْحَاقَ , وَكَيْفَ وَهَا هُنَا عَلِيٌّ وَالزُّبَيْرُ وَأَصْحَابُ مُحَمَّدٍ , قَالَ: «أَنْتَ صَاحِبُهَا»
ابو صالح نے کہا ایک حدی کہنے والا عثمان کے لئے کہتا
امیر ان کے بعد میں علی ہے
اور زبیر کے لئے خلافت راضی ہے
کہا : کعب نے کہا نہیں بلکہ اس صاحب کے لئے ہے جو موٹی کھال والے گدھے والا ہے یعنی معاویہ
پس معاویہ سے کہا گیا یہ کعب اپ کا مذاق اڑاتا ہے دعوی کرتا ہے کہ اپ کو امر خلافت ملے گا پس وہ اس کے پاس گئے اور کہا
اے ابو اسحاق کیسے ابھی تو علی ہے زبیر ہے اور اصحاب رسول اور بھی ہیں
کعب بولا اپ بھی انہی میں سے تو ہیں
——
سند منقطع ہے أَبِي صَالِحٍ کی ملاقات معاویہ سے نہیں ہے اور نہ یہ معلوم ہے کہ یہ کون ابو صالح ہے – کعب الاحبار کا ذکر ہے جس کا دور عثمان میں انتقال ہوا جبکہ متن میں کعب کا ذکر ہے کہ وہ معاویہ کا مذاق اڑاتا
کعب عالم الغیب نہ تھا لہذا یہ سب اس کے نام پر بے پر کی اڑا دی گئی ہے

جواب

الإمام أحمد (17405) ، والترمذي (3686) ، والحاكم (4495) من طريق مِشْرَحِ بْنِ هَاعَانَ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ( لَوْ كَانَ بَعْدِي نَبِيٌّ لَكَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ) .
مِشْرَحِ بْنِ هَاعَانَ نے عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سے روایت کیا میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو کہتے سنا اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے

امام حاکم نے اس کو صحیح قرار دیا ہے

4551 – أخبرني عبد الله بن محمد بن إسحاق الخزاعي ، بمكة ، ثنا أبو يحيى بن أبي ميسرة ، ثنا عبد الله بن يزيد المقري ، ثنا حيوة بن شريح ، عن بكر بن عمرو ، عن مشرح بن هاعان ، عن عقبة بن عامر – رضي الله عنه – قال : سمعت رسول الله – صلى الله عليه وآله وسلم – يقول : ” لو كان بعدي نبي لكان عمر بن الخطاب ” .

هذا حديث صحيح الإسناد ، ولم يخرجاه .
——-
امام احمد نے منکر کہا ہے

قال إبراهيم بن الحارث: إن أبا عبد الله – يعني الإمام أحمد – سئل عن حديث عقبة بن الحارث : ( لو كان بعدي نبي لكان عمر)؟
فقال: ” اضرب عليه ؛ فإنه عندي منكر ” .
انتهى “المنتخب من علل الخلال” (ص 191) .
امام احمد کے نزدیک اس کو مارو یہ منکر ہے

ایسی ایک روایت الفضل بن المختار کی سند سے الطبراني کبیر میں بھی ہے یہ راوی بھی سخت منکر حدیث ہے

مشرح بن هاعان پر محدثین کا اختلاف ہے اکثر کے نزدیک ضعیف ہے

قول اول ہے یہ منکر روایت ہے
————-

قول ثانی ضعیف حدیث فضائل میں لی جائے گی
جن لوگوں نے اس کو قبول کیا ہے ان کے مطابق فضائل میں سے ہے ضعیف بھی ہو تو لی جائے گی
بعض نے اس روایت کو حسن لذاته قرار دیا ہے
البانی نے صحیح کہا ہے
https://www.youtube.com/watch?v=7oFI4ccR71o
اسی روایت کو امام احمد نے منکر کہا تھا
—————-
قول ثالث راقم کا ہے : راقم کہتا ہے اس میں مفروضہ ہے جو نا ممکنات میں سے ہے ایسا قول قول نبوی نہیں ہو سکتا
یہ روایت منکر ہے کیونکہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کا درجہ تمام اصحاب میں سب سے بلند ہے
——–
نوٹ: جو لوگ اس ویب سائٹ کو دیکھتے ہیں ان کو اگر کہیں ملے کہ راقم نے اس روایت کی تصحیح کی ہے تو اس کی نشاندھی کریں
انسان خطا کرتا ہے

تحقیق چاہیے
حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ قَالَ حَدَّثَنِی عُثْمَانُ بْنُ غِیَاثٍ حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ النَّهْدِیُّ عَنْ أَبِی مُوسَى رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَکُنْتُ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی حَائِطٍ مِنْ حِیطَانِ الْمَدِینَةِ فَجَاءَ رَجُلٌ فَاسْتَفْتَحَ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ افْتَحْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ فَفَتَحْتُ لَهُ فَإِذَا أَبُو بَکْرٍ فَبَشَّرْتُهُ بِمَا قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَحَمِدَ اللَّهَ ثُمَّ جَاءَ رَجُلٌ فَاسْتَفْتَحَ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ افْتَحْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ فَفَتَحْتُ لَهُ فَإِذَا هُوَ عُمَرُ فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَحَمِدَ اللَّهَ ثُمَّ اسْتَفْتَحَ رَجُلٌ فَقَالَ لِی افْتَحْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى تُصِیبُهُ فَإِذَا عُثْمَانُ فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَحَمِدَ اللَّهَ ثُمَّ قَالَ اللَّهُ الْمُسْتَعَانُ
صحیح بخاری
جواب
اس متن کو کئی لوگوں نے روایت کیا ہے
مسند البزار اور مسند الروياني میں ہےحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ السَّكَنِ الْأُبُلِّيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ يَسَارٍ الْمَدِينِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى دَخَلَ حَائِطًا مِنْ حَوَائِطِ الْأَنْصَارِ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ جَاءَ حَتَّى قَعَدَ عَلَى قُفِّ الْبِئْرِ، ثُمَّ قَالَ: «يَا أَبَا مُوسَى، احْفَظْ عَلَيَّ الْبَابَ» ، فَاسْتَأْذَنَ رَجُلٌ، فَقَالَ: «ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ» ، فَإِذَا هُوَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَدَخَلَ فَحَمِدَ اللَّهَ، فَأَقْعَدَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ يَمِينِهِ، ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: «ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ» ، فَدَخَلَ فَأَقْعَدَهُ عَنْ يَسَارِهِ، وَامْتَلَأَ الْقُفُّ، ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: «ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ، عَلَى بَلْوَى تُصِيبُهُ» ، فَدَخَلَ وَقَدِ امْتَلَأَ الْقُفُّ، فَقَعَدَ قُبَالَتَهُمْ [ص:60]، وَهَذَا الْحَدِيثُ لَا نَعْلَمُ رَوَاهُ عَنِ ابْنِ حَرْمَلَةَ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي مُوسَى إِلَّا يَعْقُوبُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، وَقَدْ رَوَى سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ شَرِيكِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ أَبِي مُوسَى بِنَحْوِ هَذِهِ الْقِصَّةِ
لیکن سند میں يَعْقُوبَ بْنِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ يَسَارٍ الْمَدِينِيِّ مجہول ہے

صحیح مسلم و صحیح بخاری میں ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنَزِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ غِيَاثٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، قَالَ: بَيْنَمَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي حَائِطٍ مِنْ حَائِطِ الْمَدِينَةِ وَهُوَ مُتَّكِئٌ يَرْكُزُ بِعُودٍ مَعَهُ بَيْنَ الْمَاءِ وَالطِّينِ، إِذَا اسْتَفْتَحَ رَجُلٌ، فَقَالَ: «افْتَحْ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ» قَالَ: فَإِذَا أَبُو بَكْرٍ، فَفَتَحْتُ لَهُ وَبَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ، قَالَ ثُمَّ اسْتَفْتَحَ رَجُلٌ آخَرُ، فَقَالَ: «افْتَحْ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ» قَالَ: فَذَهَبْتُ فَإِذَا هُوَ عُمَرُ، فَفَتَحْتُ لَهُ وَبَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ، ثُمَّ اسْتَفْتَحَ رَجُلٌ آخَرُ، قَالَ فَجَلَسَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «افْتَحْ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى تَكُونُ» قَالَ: فَذَهَبْتُ فَإِذَا هُوَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، قَالَ: فَفَتَحْتُ وَبَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ، قَالَ وَقُلْتُ الَّذِي قَالَ، فَقَالَ: اللهُمَّ صَبْرًا، أَوِ اللهُ الْمُسْتَعَانُ
اس کی سند میں ْ عُثْمَانَ بْنِ غِيَاثٍ ہے جس پر جرح ہے  اس کی ہر روایت نہیں لی جاتی -ا بو جعفر العقيلي  نے اس کا ذکر  الضعفاء میں کیا ہے-  يحيى بن سعيد نے اس کی احادیث کی تضعیف کی ہے

 بالکل ایسا ہی متن عبد الله بن عمرو سے بھی منسوب ہے – السنہ از ابن ابی عاصم میں ہے
حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، ثنا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ح، وَحَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، ثنا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدٍ الْمَنْفِيِّ، وَمُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حِشٍّ مِنْ حِشَّانِ الْمَدِينَةِ، فَاسْتَأْذَنَ رَجُلٌ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ» ، فَإِذَا أَبُو بَكْرٍ، فَأَذِنْتُ لَهُ وَبَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ، فَقَرُبَ يَحْمَدُ اللَّهَ حَتَّى جَاءَ فَجَلَسَ، فَاسْتَأْذَنَ رَجُلٌ رَفِيعُ الصَّوْتِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ» ، فَإِذَا عُمَرُ، فَأَذِنْتُ لَهُ وَبَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ، فَقَرُبَ يَحْمَدُ اللَّهَ، ثُمَّ اسْتَأْذَنَ رَجُلٌ خَفِيضُ الصَّوْتِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى تُصِيبُهُ» ، فَأَذِنْتُ لَهُ وَبَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى، فَإِذَا عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، فَقَرُبَ يَحْمَدُ اللَّهَ حَتَّى جَلَسَ. قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيْنَ أَنَا؟ قَالَ: «أَنْتَ مَعَ أَبِيكَ» .
اس کی سند میں قتادہ مدلس ہیں اور عن سے روایت ہے
ابو موسی سے منسوب روایت میں ایسا لگتا ہے وہ اور نبی صلی الله علیہ وسلم اکیلے ہیں پھر ایک ایک کر کے ابو بکر پھر عمر پھر عثمان حاضر ہونے کی اجازت طلب کرتے ہیں
ایسا ہی عبد الله بن عمرو کی روایت میں ہے متن بھی وہی ہے
روایت میں  بصریوں کا تفرد ہے – ایک متن دو طرح الگ الگ اصحاب رسول سے کس طرح منسوب ہوا معلوم نہیں

هیثمی اپنی کتاب مجمع الزوائد میں ایک روایت جو بہت عجیب ہے لکھتے ہیں
عن عبدالله بن مسعود عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال إن الله أمرني أن أزوج فاطمة من علي. رواه الطبراني ورجاله ثقات

جواب
معجم الکبیر طبرانی میں ہےحَدَّثَنَا أَبُو مَسْعُودٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْحُسَيْنِ الصَّابُونِيُّ التُّسْتَرِيُّ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَى السُّدِّيُّ، ثنا بِشْرُ بْنُ الْوَلِيدِ الْهَاشِمِيُّ، ثنا عَبْدُ النُّورِ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْمِسْمَعِيُّ، عَنْ شُعْبَةَ بْنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ اللهَ أَمَرَنِي أَنْ أُزَوِّجَ فَاطِمَةَ مِنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا»

ابن مسعود نے کہا رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ بے شک الله نے مجھے حکم دیا کہ فاطمہ کو علی سے بیاہ دوں
میزان الاعتدال میں الذھبی نے اس روایت کا خاص ذکر کیا ہے کہ یہ کذاب عبد النور بن عبد الله المسمعي کا قول ہے
عبد النور بن عبد الله المسمعي.عن شعبة.كذاب.وقال العقيلي: كان يغلو في الرفض، ووضع هذا عن شعبة.عن عمرو ابن مرة، عن أبيه، عن إبراهيم، عن مسروق، عن عبد الله، قال لنا رسول اللهصلى الله عليه وسلم في غزوة تبوك: إن الله أمرني أن أزوج فاطمة من علي.ففعلت، فقال لي جبرائيل: إن الله قد بنى جنة من لؤلؤ..وسرد حديثاً طويلا

حدثنا أبو أحمد قال حدثنا عبد الله بن حبيب عن حبيب بن أبي ثابت عن عطاء بن يسار قال جاء رجل فوقع في علي وفي عمار رضي الله تعالى عنهما عند عائشة فقالت أما علي فلست قائلة لك فيه شيئا وأما عمار فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لا يخير بين أمرين إلا اختار أرشدهما

مسند احمد

جواب
مسند احمد اور سنن ابن ماجہ میں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، ح وَحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَعَمْرُو بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَا جَمِيعًا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ سِيَاهٍ، عَنْ حَبيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عَمَّارٌ مَا عُرِضَ عَلَيْهِ أَمْرَانِ إِلَّا اخْتَارَ الْأَرْشَدَ مِنْهُمَا

عائشہ رضی الله عنہا نے کہا کہ ایک آدمی آیا اور علی اور عمار رضی الله عنہما کے خلاف کہا تو عائشہ نے کہا جو قائل کہہ رہا تو علی کے حوالے سے اس کے پاس کچھ نہیں اور جہاں تک عمار ہیں تو میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو کہتے سنا تھا کہ عمار دو کاموں میں وہ لیتے ہیں جو ہدایت کے پاس ہوتا ہے

راقم کے نزدیک یہ روایت منقطع ہے

امام ترمذی حبیب بن ابی ثابت کی ایک روایت پر کہتے ہیں
قال أبو عيسى: سمعت محمدا يضعف هذا الحديث، وقال: حبيب لم يسمع من عروة.
امام بخاری نے اس حدیث کی تضعیف کی اور کہا حبیب نے عروہ سے نہیں سنا

عروہ تو عطا بن یسار سے بہت چھوٹے ہیں لیکن مدنی ہونے کے باوجود حبیب کا سماع عروہ تک سے نہیں جو قابل غور ہے

ہم جس روایت کی بات کر رہے ہیں اس میں حبیب نے عطا بن یسار سے روایت کیا ہے
حَبيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ کا سماع عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ سے ثابت نہیں ہے اور کتب حدیث میں یہ واحد روایت ہے جو حبیب نے عطا سے روایت کی ہے
حبیب بن ابی ثابت مدلس بھی ہے اور اس روایت کی کسی بھی سند میں سماع کی تصریح نہیں ملی

 

فضائل

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
میں علم کا شہر ہوں ابو بکر اس شہر کی بنیاد ہے عمر اس کی دیوار ہے اور عثمان اسکی چھت ہے
اور علی دروازہ ہے
بخاری جلد ٢ ص ٢١٤

جواب

یہ بخاری کی کسی کتاب میں نہیں ہے

اس کو مسند الفردوس میں بلا سند روایت کیا گیا ہے

وأورد صاحب الفردوس وتبعه ابنه المذكور بلا إسناد، عن ابن مسعود رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: “أنا مدينة العلم وأبو بكر أساسها، وعمر حيطانها، وعثمان سقفها، وعلي بابها”
المقاصد الحسنة في بيان كثير من الأحاديث المشتهرة على الألسنة از سخاوی

اس کے علاوہ کتاب كشف الخفاء ومزيل الإلباس از العجلوني کے مطابق
وروى الديلمي بلا إسناد عن ابن مسعود رفعه: “أنا مدينة العلم, وأبو بكر أساسها, وعمر حيطانها, وعثمان سقفها, وعلي بابها”.
الديلمي نے اس کو بلا سند نقل کیا ہے

کتاب الفردوس بمأثور الخطاب از شيرويه بن شهردار بن شيرو يه بن فناخسرو، أبو شجاع الديلميّ الهمذاني (المتوفى: 509هـ) میں اس کو عبد الله بن سعيد کی روایت کہا گیا ہے

اس روایت کا ایک حصہ کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے اہل سنت و اہل تشیع میں مقبول ہے

ابن حجر عسقلانی صاحب فتح الباری اس کو حسن روایت کہتے تھے اور اس کو ضعیف کہنے والوں پر جرح کرتے تھے
شوکانی الفوائد المجموعة في الأحاديث الموضوعة میں لکھتے ہیں
قال الحافظ ابن حجر: والصواب خلاف قولهما معًا. يعني: ابن الجوزي، والحاكم. وأن الحديث منقسم الحسن، لا يرتقي إلى الصحة، ولا ينحط إلى الكذب، انتهى.
ٹھیک قول ہے کہ یہ حسن ہے اور صحیح تک نہیں جاتی اور نہ ہی کذب ہے

البغوي مصابيح السنة میں کہتے ہیں اس کو ثقہ نے روایت کیا ہے
المُنَاوِي کتاب كَشْفُ المنَاهِجِ وَالتَّنَاقِيحِ في تَخْريِجِ أحَادِيثِ المَصَابِيحِ میں اس کو جید کہتے ہیں اور لکھتے ہیں
وقد ورد من طرق كثيرة صحيحه أن النبي – صلى الله عليه وسلم – لما أمر بسد الأبواب الشارعة في المسجد إلا باب علي، فشق على بعض من الصحابة، فأجابهم في عذره في ذلك
اور بہت سے صحیح طرق سے آیا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم جب یہ حکم کیا کہ مسجد کے رستہ میں جو دروازے ہیں ان سب کو بند کر دیا جائے سوائے علی کے دروازے کے تو اصحاب پر یہ سخت گزرا پس اس کا جواب دیا

سخاوی الأجوبة المرضية فيما سئل السخاوي عنه من الأحاديث النبوية میں اس پر آراء پیش کرتے ہیں پھر کہتے ہیں علی کی فضیلت پر اجماع اہل سنت ہے

یہ اس روایت کے حق میں آراء ہیں

دوسری طرف اس پر جرح کرنے والوں میں متقدمین محدثین میں امام بخاری ہیں اور امام الذھبی ہیں اور عصر حاضر میں البانی اور شعيب الأرناؤوط ہیں
جو اس کو موضوع قرار دیتے ہیں

جواب

صحیح مسلم کی حدیث 2491 ہے
==
حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْيَمَامِيُّ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، عَنْ أَبِي كَثِيرٍ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ، قَالَ: كُنْتُ أَدْعُو أُمِّي إِلَى الْإِسْلَامِ وَهِيَ مُشْرِكَةٌ، فَدَعَوْتُهَا يَوْمًا فَأَسْمَعَتْنِي فِي رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَكْرَهُ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي، قُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ إِنِّي كُنْتُ أَدْعُو أُمِّي إِلَى الْإِسْلَامِ فَتَأْبَى عَلَيَّ، فَدَعَوْتُهَا الْيَوْمَ فَأَسْمَعَتْنِي فِيكَ مَا أَكْرَهُ، فَادْعُ اللهَ أَنْ يَهْدِيَ أُمَّ أَبِي هُرَيْرَةَ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللهُمَّ اهْدِ أُمَّ أَبِي هُرَيْرَةَ» فَخَرَجْتُ مُسْتَبْشِرًا بِدَعْوَةِ نَبِيِّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا جِئْتُ فَصِرْتُ إِلَى الْبَابِ، فَإِذَا هُوَ مُجَافٌ، فَسَمِعَتْ أُمِّي خَشْفَ قَدَمَيَّ، فَقَالَتْ: مَكَانَكَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ وَسَمِعْتُ خَضْخَضَةَ الْمَاءِ، قَالَ: فَاغْتَسَلَتْ وَلَبِسَتْ دِرْعَهَا وَعَجِلَتْ عَنْ خِمَارِهَا، فَفَتَحَتِ الْبَابَ، ثُمَّ قَالَتْ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، قَالَ فَرَجَعْتُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَيْتُهُ وَأَنَا أَبْكِي مِنَ الْفَرَحِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ أَبْشِرْ قَدِ اسْتَجَابَ اللهُ دَعْوَتَكَ وَهَدَى أُمَّ أَبِي هُرَيْرَةَ، فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَقَالَ خَيْرًا، قَالَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ ادْعُ اللهَ أَنْ يُحَبِّبَنِي أَنَا وَأُمِّي إِلَى عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ، وَيُحَبِّبَهُمْ إِلَيْنَا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللهُمَّ حَبِّبْ عُبَيْدَكَ هَذَا – يَعْنِي أَبَا هُرَيْرَةَ – وَأُمَّهُ إِلَى عِبَادِكَ الْمُؤْمِنِينَ، وَحَبِّبْ إِلَيْهِمِ الْمُؤْمِنِينَ» فَمَا خُلِقَ مُؤْمِنٌ يَسْمَعُ بِي وَلَا يَرَانِي إِلَّا أَحَبَّنِي

======

یہ الگ بات ہے کہ یہ ضعیف ہے
اس میں عكرمة بن عمار اليمامي المتوفی ١٦٠ ھ ہے جس کی تضعیف امام احمد نے کی ہے
اس نے یہ روایت يحيى بن أبي كثير سے لی ہے جس پر امام القطان کا کہنا ہے
وقال يحيى بن سعيد القطان أحاديثه عن يحيى بن أبي كثير ضعاف
اس کی احادیث يحيى بن أبي كثير سے ضعیف ہیں
امام احمد نے کہا
أحاديث عكرمة بن عمار عن يحيى بن أبي كثير ضعاف ليست بصحاح
أحاديث عكرمة بن عمار جو يحيى بن أبي كثير سے ہیں ضعیف ہیں صحیح نہیں ہیں
یہ بھی کہا
عكرمة بن عمار، مضطرب الحديث عن يحيى بن أبي كثير. «العلل» (4492)
يحيى بن أبي كثير سے روایت کرنے میں مضطرب الحدیث ہے

الکامل از ابن عدی میں ہے
حَدَّثَنا ابْن حَمَّاد، قَال: حَدَّثَنا أَحْمَد بْن يعقوب بْن الفرجي، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيِّ يَقُولُ إِذَا قَالَ عِكرمَة بْن عمار سمعت يَحْيى بْن أبي كَثِيرٍ فانبذ يدك منه
امام علی المدینی سے پوچھا گیا کہ عِكرمَة بْن عمار نے يَحْيى بْن أبي كَثِيرٍ سے سنا ہے پس انہوں نے ہاتھ جھٹک دیا
اسی کتاب کے مطابق امام بخاری نے اس کو منکر الحدیث بھی کہا
سمعتُ ابن حماد يقول: قال البُخارِيّ قال عَبد اللَّه بن زياد، حَدَّثَنا عِكرمَة بْنُ عَمَّارٍ، عَن يَحْيى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَن أَبِي سَلَمَةَ، عَن أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسلَّمَ فِي الرِّبَا وَالزِّنَا مُنْكَرُ الْحَدِيثِ.

عكرمة بن عمار اليماني مدلس بھی ہے اور مختلط بھی
قال البيهقي: اختلط في آخر عمره وساء حفظه فروى ما لم يتابع عليه
بیہقی نے کہا یہ آخری عمر میں مختلط ہوا اس کا حافظہ خراب ہوا پھر روایت کیا جس کی کوئی متابعت نہیں کرتا

مسند احمد میں (اسی سند سے اس روایت 8242 پر) تعلیق میں أحمد محمد شاكر اوپر جن ائمہ کے اقوال دیے گئے ہیں ان سب پر فتوی لگاتے ہیں
إسناده صحيح، وعكرمة بن عمار ثقة، ومن ضعفه فقد غالى وأخطأ،
اس کی سند صحیح ہے اور عکرمہ ثقہ ہے اور جس نے اس کو ضعیف کہا وہ غالی ہے اور خطاکار ہے

راقم کہتا ہے یہ احمد شاکر کی حماقت ہے اگر ایسا ہے تو الکامل از ابن عدی میں اس سند کی تمام ضعیف روایات کو قبول کرنا پڑے گا جس سے مزید اضطراب پیدا ہو گا

جواب

اس کی سند میں عدي بن ثابت ہے
وقال السُّلَمِيُّ: سألت الدَّارَقُطْنِيّ عن عدي بن ثابت، فقال: ثقة، إلا أنه كان رافضيًا غاليًا فيه.
السُّلَمِيُّ نے کہا کہ میں نے دارقطنی سے اس کے بارے میں پوچھا کہا یہ ثقہ ہے لیکن رافضی غالی تھا

اب یہاں ابن حجر کا قول دیکھتے ہیں جو تہذیب التہذیب میں ابان بن تغلب کے ترجمہ میں ہے جو دارقطنی کے قول کے سراسر خلاف ہے

فالتشيع في عرف المتقدمين هو اعتقاد تفضيل علي على عثمان, وأن عليا كان مصيبا في حروبه وأن مخالفه مخطئ مع تقديم الشيخين وتفضيلهما, وربما اعتقد بعضهم أن عليا أفضل الخلق بعد رسول الله -صلى الله عليهآله وسلم-, وإذا كان معتقد ذلك ورعا دينا صادقا مجتهدا فلا ترد روايته بهذا, لا سيما إن كان غير داعية, وأما التشيع في عرف المتأخرين فهو الرفض المحض فلا تقبل رواية الرافضي الغالي ولا كرامة,
(تهذيب التهذيب الجزء الاول ترجمہ ابان بن تغلب)
متقدمین نے جنہیں شیعہ کہا ہے تو اس سے مراد صرف وہ لوگ ہیں جو علی ؓ کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر فضیلت دیتے تھے، اور جنگوں میں جناب علی کو حق پر اور انکے مخالفین کو خطا پر سمجھتے تھے، لیکن ساتھ ہی شیخین یعنی سیدنا ابو بکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کی فضیلت و برتری کے بھی قائل تھے ، ہاں ان میں بعض کا عقیدہ تھا کہ جناب علی ؓ پیغمبر کے بعد سب سے افضل ہیں ،
اور اگر یہ عقیدہ رکھنے والا نیک اور دیندار ، اور سچا ہو ، تو اسکی روایت رد نہیں کی جائے گی ،خاص کر جب وہ اپنی روایت میں اپنے مذہب کا داعی نہ ہو ۔
اور جہاں تک متاخرین کے دور کے شیعہ کا تعلق ہے تو واضح رہے کہ یہ خالص رافضی ہیں اور رافضی کی روایت کسی صورت قبول نہیں ہوتی ، نہ ان کی کوئی حیثیت ہے

دوسری طرف امام دارقطنی کے نزدیک عدی بن ثابت رافضی ہے

معلوم ہوا ابن حجر یہ دعوی غلط ہے کہ متقدمین میں رافضی نہیں تھے
————-

چونکہ عدی بن ثابت شیعہ و رافضی ہیں اس روایت پر دارقطنی نے کلام کیا ہے

کتاب الإلزامات والتتبع از دارقطنی میں دارقطنی نے امام مسلم کا خاص ذکر کیا کہ اس روایت کو انہوں نے قبول کر لیا ہے جبکہ بخاری نے اس کو نہیں لیا
وأخرج مسلم حديث عدي بن ثابت: والذي فلق الحبة. ولم يخرجه البخاري.

طبرانی المعجم الاوسط میں روایت ہے :
حدثنا عبد الرحمن بن سلم قال: نا أبو الأزهر النيسابوري قال: حدثني عبد الرزاق، وحدي قال: نا معمر، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس قال: نظر النبي صلى الله عليه وسلم إلى علي، فقال: «لا يحبك إلا مؤمن، ولا يبغضك إلا منافق، من أحبك فقد أحبني، ومن أبغضك فقد أبغضني، وحبيبي حبيب الله، وبغيضي بغيض الله، ويل لمن أبغضك بعدي»
لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ إِلَّا أَبُو الْأَزْهَرِ النَّيْسَابُورِيُّ ”

سند میں أحمد بن الأزهر أبو الأزهر النيسابوري. ہے
جس کی روایات يا علي أنت سيد في الدنيا والآخرة پر محدثین کو اعتراض تھا
ابن عدی الکامل میں کہتے ہیں
وأَمَّا هذا الحديث عن عَبد الرَّزَّاق، فعَبد الرَّزَّاق من أهل الصدق، وَهو ينسب إلى التشيع، فلعله شبه عليه لأنه شيعي.
یہ عبد الرزاق سے روایت کرتے- عبد الرزاق تو اہل صدق میں سے ہیں اور ان کو شیعہ سے نسبت دی جاتی ہے تو ممکن ہے لوگوں کو شبہ ہوا ہو کہ یہ بھی شیعہ ہیں

معجم ابن الأعرابي میں ہے
نا عَلِيٌّ، نا أَبُو غَسَّانَ النَّهْدِيُّ، نا إِسْرَائِيلُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: مَا كُنَّا نَعْرِفُ مُنَافِقِي الْأَنْصَارِ إِلَّا بِبُغْضِهِمْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ
سند میں اعمش مدلس کا عنعنہ ہے
ابی صالح کا پتا نہیں کون سا ہے کیونکہ اعمش کئی ابی صالح سے روایت کرتے ہیں
إسرائيل بن يونس بن أبي إسحاق السبيعي کو ابن حزم نے ضعیف قرار دیا ہے يحيى القطان نے اس کو ترک کیا
يَعْقُوْبُ بنُ شَيْبَةَ: صَدُوْقٌ، وَلَيْسَ بِالقَوِيِّ قرار دیا – عَلِيِّ بنِ المَدِيْنِيِّ نے ضعیف قرار دیا

متفق علیہ روایت ہے
“الأنصار لا يحبهم إلا مؤمن، ولا يبغضهم إلا منافق، فمن أحبهم أحبه الله، ومن أبغضهم أبغضه اللهُ
انصار سے سوائے مومن کے کوئی محبت نہیں کرتا پس جو ان سے محبت کرے الله اس سے محبت کرے گا اور ان سے سوائے منافق کوئی بغض نہیں رکھتا

یہ خصوص و عموم کی بحث ہے – انصار کی تو کثیر تعداد ہے جو علی رضی الله عنہ کے خصوص کو ختم کر دیتی ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ انصار والی روایت کی سند ، علی سے متعلق روایت سے بہت بہت بہتر ہے
——–

علی اصحاب رسول میں سے ہیں جن کے ایمان کی گواہی قرآن میں ہے اور تمام اصحاب رسول سے محبت لازم ہے

جواب

dit)
مسند البزار کی روایت ہے
حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْعَمِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا رِبْعِيُّ ابْنُ عُلَيَّةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَوْفٌ، عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى، رَفَعَهُ قَالَ: «لَمَّا أُخْرِجَ آدَمُ مِنَ الْجَنَّةِ، زُوِّدَ مِنْ ثِمَارِ الْجَنَّةِ، وَعَلَّمَهُ صَنْعَةَ كُلِّ شَيْءٍ، فَثِمَارُكُمْ هَذِهِ مِنْ ثِمَارِ الْجَنَّةِ، غَيْرَ أَنَّ هَذِهِ تَغَيَّرُ وَتِلْكَ لَا تَغَيَّرُ
ابی موسی نے روایت کو بلند کیا کہ جب آدم کو جنت سے نکلے تو ان کو جنت کے پھل دیے گئے اور ہر فن سکھایا گیا پس یہ تمہارے پھل جنت کے پھلوں میں سے ہیں سوائے اس کے کہ یہ خراب ہوتے ہیں اور وہ (جو آدم کے پاس تھے) خراب نہ ہوتے تھے

اس کی سند میں بصری ہیں عَوْفٌ، عَنْ قَسَّامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ اور اس روایت کو ابو موسی سے صرف یہ دونوں نقل کرتے ہیں
جنت کے پھل اس زمین پر ہیں تو وہ ختم نہیں ہو سکتے کیونکہ جنت خرابی کے عیب سے پرے ہے
حدیث میں ہے کہ نماز کسوف میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے سامنے جنت لائی گئی اپ نے اس میں سے انگور کا خوشہ لینے کی کوشش کی لیکن پوری نہ ہوئی بعد میں کہا کہ اگر وہ مل جاتا تو اس کو لوگ کھاتے رہتے یعنی وہ پھل ختم نہ ہوتا
اس سے ظاہر ہے زمین پر ایسا کوئی پھل نہیں جس کی یہ خوبی ہو

لہذا آدم علیہ السلام والی یہ روایت منکر ہے

شجر ممنوعہ کھاتے ہی تمام نعمتیں دور ہو گئی آدم و حوا علیھما السلام کو مع شیطان ہبوط کا حکم ہوا اور کہا
اب زمین رہنے کا مقام ہے ظاہر ہے زمین پر جنت کے مزے نہیں تھے کہ وہ اس کے پھل کھاتے رہتے

جواب

اسد الغابہ کی سند ہے
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي عَلِيٍّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو رُشَيْدٍ عَبْدُ الْكَرِيمِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مَسْعُودٍ سُلَيْمَانُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمَانَ، أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ مَرْدَوَيْهِ الْحَافِظُ، أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ إِسْحَاقَ الْمُفَسِّرُ الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَرْدَوَيْهِ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بِسْطَامَ، أَخْبَرَنَا سَهْلُ بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ مَنْصُورٍ الْعَنْزِيُّ، حَدَّثَنِي أَبُو الْجَنُوبِ عُقْبَةُ بْنُ عَلْقَمَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، يَقُولُ: سَمِعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” لَوْ أَنَّ لِي أَرْبَعِينَ بِنْتًا زَوَّجْتُ عُثْمَانَ وَاحِدَةً بَعْدَ وَاحِدَةٍ، حَتَّى لا يَبْقَى مِنْهُنَّ وَاحِدَةٌ

فضائل الخلفاء الأربعة وغيرهم لأبي نعيم الأصبهاني کی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُحَمَّدٍ، ثنا محمد بْنُ شِبْلٍ، ثنا الْعَلَاءُ بْنُ عَمْرٍو، ثنا النَّضْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ مَنْصُورٌ الْعَنَزِيُّ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ: «لَوْ أَنَّ لِيَ أَرْبَعِينَ بِنْتًا لِزَوَّجْتُكَ وَاحِدَةً بَعْدَ وَاحِدَةٍ حَتَّى لَا يَبْقَى مِنْهُنَّ وَاحِدَةٌ»

دونوں کی سند میں عقبة بن علقمة اليشكرى ، أبو الجنوب الكوفى ہے جو ضعیف ہے
. أبو حاتم: ضعيف بين الضعف لا يشتغل به.
ابو حاتم کہتے ہیں ضعیف  … اس میں مبتلا مت ہونا

الغرض روایت ضعیف ہے

الصدیق کا لقب اس لئے دیا گیا کیونکہ مشرکین نے کہا کہ محمد نے دعوی کیا کہ ایک رات میں مکہ سے شام گیا یعنی معراج میں اس پر ابو بکر نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے تصدیق سے پہلے ہی تصدیق کر دی

الشريعة از أبو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) کی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو الْقَاسِمِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْبَغَوِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ زَنْجُوَيْهِ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , عَنْ مَعْمَرٍ , عَنِ الزُّهْرِيِّ فِي حَدِيثِهِ عَنْ عُرْوَةَ قَالَ: سَعَى رِجَالٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالُوا لَهُ: هَذَا صَاحِبُكَ يَزْعُمُ أَنَّهُ قَدْ أُسْرِيَ بِهِ اللَّيْلَةَ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ , ثُمَّ رَجَعَ مِنْ لَيْلَتِهِ , فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَوَ قَالَ ذَاكَ؟ قَالُوا: نَعَمْ , قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: فَأَنَا أَشْهَدُ إِنْ كَانَ قَالَ ذَاكَ لَقَدْ صَدَقَ , قَالُوا: تُصَدِّقُهُ أَنَّهُ قَدْ جَاءَ الشَّامَ فِي لَيْلَةٍ وَاحِدَةٍ وَرَجَعَ قِبَلَ أَنْ يُصْبِحَ؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ [ص:1539] عَنْهُ: نَعَمْ , أَنَا أُصَدِّقُهُ بِأَبْعَدَ مِنْ ذَلِكَ , أُصَدِّقُهُ بِخَبَرِ السَّمَاءِ غُدْوَةً وَعَشِيَّةً فَلِذَلِكَ سُمِّيَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: الصِّدِّيقَ

الفاروق کے لقب پر کوئی روایت نہیں ملی اغلبا یہ عوام میں مشھور قول ہے

صحیح بخاری میں بکثرت الصِّدِّيقِ کا لقب ابو بکر رضی الله عنہ کے لئے لکھا گیا ہے البتہ الفاروق کا لقب نہیں ملتا

حضرت فاطہ رضی اللہ عنہا کی حیا کے متعلق تاریخ میں کچھ ثبوت بیان ہوئے ہیں، جن کی تفصیل درج ذیل ہے

ایک ثبوت تو یہی ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کہا کرتیں تھیں کہ مجھے حیا آتی ہے کہ جب میرا انتقال ہو تو لوگ مردوں کی تخت پر لٹا کر اور ایک کپڑا اوڑھا کر مجھے کندھے پر اٹھا لیں۔اس لیے اندیشہ ہے کہ کپڑے کے اوپر سے میرا جسم ظاہر ہو۔
یہی بات انھوں نے ایک دفعہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے کہی ، تو حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا:
جگر گوشہ رسولﷺ ! کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ دکھاؤں جو میں نے ’’ حبشہ ‘‘ میں دیکھی تھی۔حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا ، کیوں نہیں ضرور۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے کھجور کی تازہ ٹہنیاں منگوائیں ، کمان کی شکل میں ان کو موڑ موڑ کر رکھا ، اور ان کے اوپر کپڑا ڈال دیا ، حضرت فاطمہ رضہ اللہ عنہا نے فرمایا ، یہ تو بڑی اچھی چیز ہے ، اس سے مرد و عورت کے جنازہ میں امتیاز ہو جائے گا اور عورت کا جسم بھی چھپ جائے گا۔دیکھو اسماء ! جب میرا انتقال ہو تو تم اور علی میرے غسل میں شریک ہوں، کوئی اور میرے قریب نہ آئے ، اور میری چارپائی پر اسی طرح چھڑیاں رکھ دینا۔
جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے دلہن کے ڈولے کی طرح کی ایک پردہ پوش چادر چارپائی تیار کی ، اور کہا : فاطمہ نے مجھے اس کی وصیت کی تھی۔
(تاریخ مدینہ منورہ1، 105، حلیۃ الاولیاء 2، 43) اسد الغابہ 6 ، 662)

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اسلام میں سب سے پہلی عورت ہیں جن کا جنازہ کسی پردہ پوش چارپائی پر اٹھایا گیا،
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بعد ام لمؤمنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کا جنازہ بھی اسی طرح پردہ کے ساتھ لے جایا گیا، اور ان کے بعد تو یہی طریقہ رائج ہو گیا۔

(الاستیعاب 4، 1898)

جواب

تاریخ مدینہ میں یہ قول ہے
حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ النَّبِيلُ قَالَ: حَدَّثَنَا كَهْمَسُ بْنُ الْحَسَنِ قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ قَالَ: ” كَمِدَتْ فَاطِمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا بَعْدَ وَفَاةِ أَبِيهَا سَبْعِينَ بَيْنَ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ فَقَالَتْ: إِنِّي لَأَسْتَحِي مِنْ جَلَالَةِ جِسْمِي إِذَا أُخْرِجْتُ عَلَى الرِّجَالِ غَدًا – وَكَانُوا يَحْمِلُونَ الرِّجَالَ كَمَا يَحْمِلُونَ النِّسَاءَ – فَقَالَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ، أَوْ أ ُمُّ سَلَمَةَ: إِنِّي رَأَيْتُ شَيْئًا يُصْنَعُ بِالْحَبَشَةِ، فَصَنَعَتِ النَّعْشَ، فَاتُّخِذَ بَعْدَ ذَلِكَ سُنَّةً ”

یہ يَزِيْدَ بنِ الشِّخِّيْرِ کا قول ہے جو بہت بعد کے ہیں
ایسا کسی حدیث میں دور نبوی کے لئے نہیں اتا

جواب

اس روایت پر

حدیث حسن صحیح امام ترمذی کا قول ہے
البانی نے اس کو ضعیف کہا ہے اس کی سند میں عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ہے جس کو منکر الحدیث کہا گیا ہے

ابن العثيمين  کتاب ریاض الصالحین پر تعلیق میں کہتے ہیں
فهذا حديث ضعيف وإن صححه المؤلف، فطريقة المؤلف رحمه الله له أنه يتساهل في الحكم على الحديث إذا كان في فضائل الأعمال.
یہ حدیث ضعیف ہے اگرچہ مولف یعنی النووی نے اس کو صحیح کہا ہے کیونکہ نووی کا طریقه ہے کہ وہ حدیث پر حکم لگانے میں متساہل ہیں کیونکہ یہ فضائل آعمال میں ہے

تحقیق درکار ہے

حبہ عرفی کہتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو منبر پر اس طرح ہنستے ہوئے دیکھا کہ اس سے قبل انہیں اتنا ہنستے ہوئے کبھی نہیں دیکھا تھا ، یہاں تک کہ ان کے آخری دانت بھی نظر آنے لگے، پھر فرمانے لگے کہ مجھے اپنے والد ابو طالب کی ایک بات یاد آگئی، ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بطن نخلہ میں نماز پڑھ رہا تھا کہ ابوطالب آگئے اور کہنے لگے کہ بھتیجے! یہ تم دونوں کیا کر رہے ہو؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی، وہ کہنے لگے کہ تم دونوں جو کر رہے ہو اس میں کوئی حرج تو نہیں ہے لیکن بخدا! مجھ اپنے کولہے اوپر نہ کئے جاسکیں گے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے والد کی اس بات پر تعجب سے ہنسی آگئی اور فرمانے لگے کہ اے اللہ! میں اس بات پر فخر نہیں کرتا کہ آپ کے نبی کے علاوہ اس امت میں آپ کے کسی بندے نے مجھ سے پہلے آپ کی عبادت کی ہو، یہ بات تین مرتبہ دہرا کر وہ فرمانے لگے کہ میں نے لوگوں کے نماز پڑھنے سے سات سال پہلے نماز پڑھی ہے۔

مسند احمد : مسند العشرۃ المبشرین بالجنۃ : 757

جواب

مسند احمد کی سند ہے
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ، مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَلَمَةَ يَعْنِي ابْنَ [ص:166] كُهَيْلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، عَنْ حَبَّةَ الْعُرَنِيِّ، قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا، ضَحِكَ عَلَى الْمِنْبَرِ لَمْ أَرَهُ ضَحِكَ ضَحِكًا أَكْثَرَ مِنْهُ، حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ، ثُمَّ قَالَ: ذَكَرْتُ قَوْلَ أَبِي طَالِبٍ، ظَهَرَ عَلَيْنَا أَبُو طَالِبٍ، وَأَنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ نُصَلِّي بِبَطْنِ نَخْلَةَ، فَقَالَ: مَاذَا تَصْنَعَانِ يَا ابْنَ أَخِي؟ «فَدَعَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْإِسْلامِ» ، فَقَالَ: مَا بِالَّذِي تَصْنَعَانِ بَأْسٌ، أَوْ بِالَّذِي تَقُولانِ بَأْسٌ، وَلَكِنْ وَاللَّهِ لَا تَعْلُوَنِي اسْتِي أَبَدًا، وَضَحِكَ تَعَجُّبًا لِقَوْلِ أَبِيهِ، ثُمَّ قَالَ: «اللَّهُمَّ لَا أَعْتَرِفُ أَنَّ عَبْدًا لَكَ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ عَبَدَكَ قَبْلِي غَيْرَ نَبِيِّكَ – ثَلاثَ مِرَارٍ – لَقَدْ صَلَّيْتُ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ النَّاسُ سَبْعًا»
اس میں یحیی بن سملہ بن کھیل متروک ہے
لہذا یہ روایت باطل ہے

لیکن اس میں یحیی کا تفرد نہیں حبة بن جوين العرني الكوفي. المتوفی ٧٦ ھ کا تفرد ہے الذھبی میزان میں اس پر جرح پیش کرتے ہیں

من غلاة الشيعة،
یہ غالی شیعوں میں سے ہے

يحيى بن معين: كان غير ثقة.
و [حدث سلمة] (1) قال النسائي: ليس بالقوي.
وقال ابن معين وابن خراش: ليس بشئ.
وقال أحمد بن عبد الله العجلي: تابعي ثقة.

یعنی بشتر محدثین اس کو غیر ثقہ کہتے ہیں لیکن العجلی جو شیعیت سے متاثر تھے اس کو ثقہ کہتے ہیں
——-

نماز معراج میں فرض ہوئی اس سے قبل نفل تھی معراج کب ہوئی اس میں بھی کوئی حتمی قول نہیں بعض کہتے ہیں نبوت کے شروع میں اور بعض کہتے ہیں عام الحزن کے بعد
علی رضی الله عنہ سے منسوب قول مبہم ہے کہ سات سال پہلے کون سی نماز پڑھی
علی کہا جاتا ہے چار سال کی عمر میں ایمان لائے اور دوسرا قول ہے ١٧ سال کی عمر میں ظاہر ہے وہ جب ایمان لائے تو نماز پڑھی جا رہی تھی

اس روایت کا کیا مطلب ہے؟

‌صحيح البخاري: كِتَابُ المَنَاقِبِ (بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الإِسْلاَمِ) صحیح بخاری: کتاب: فضیلتوں کے بیان میں

(باب: آنحضرت ﷺکےمعجزات یعنی نبوت کی نشانیوں کابیان)

3617 . حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ رَجُلٌ نَصْرَانِيًّا فَأَسْلَمَ وَقَرَأَ الْبَقَرَةَ وَآلَ عِمْرَانَ فَكَانَ يَكْتُبُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَادَ نَصْرَانِيًّا فَكَانَ يَقُولُ مَا يَدْرِي مُحَمَّدٌ إِلَّا مَا كَتَبْتُ لَهُ فَأَمَاتَهُ اللَّهُ فَدَفَنُوهُ فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْهُ الْأَرْضُ فَقَالُوا هَذَا فِعْلُ مُحَمَّدٍ وَأَصْحَابِهِ لَمَّا هَرَبَ مِنْهُمْ نَبَشُوا عَنْ صَاحِبِنَا فَأَلْقَوْهُ فَحَفَرُوا لَهُ فَأَعْمَقُوا فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْهُ الْأَرْضُ فَقَالُوا هَذَا فِعْلُ مُحَمَّدٍ وَأَصْحَابِهِ نَبَشُوا عَنْ صَاحِبِنَا لَمَّا هَرَبَ مِنْهُمْ فَأَلْقَوْهُ فَحَفَرُوا لَهُ وَأَعْمَقُوا لَهُ فِي الْأَرْضِ مَا اسْتَطَاعُوا فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْهُ الْأَرْضُ فَعَلِمُوا أَنَّهُ لَيْسَ مِنْ النَّاسِ فَأَلْقَوْهُ

ہم سے ابومعمر نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا کہا ہم سے عبدالعزیز نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک شخص پہلے عیسائی تھا ۔ پھر وہ اسلام میں داخل ہوگیا تھا ۔ اس نے سورہ بقرہ اور آل عمران پڑھ لی تھی اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا منشی بن گیا لیکن پھر وہ شخص مرتد ہوکر عیسائی ہوگیا اور کہنے لگا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے جو کچھ میں نے لکھ دیا ہے اس کے سوا اسے اور کچھ بھی معلوم نہیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی موت واقع ہوگئی اور اس کے آدمیوں نے اسے دفن کردیا ، جب صبح ہوئی تو انہوں نے دیکھا کہ اس کی لاش قبر سے نکل کر زمین کے اوپر پڑی ہے ۔ عیسائی لوگوں نے کہا کہ یہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اس کے ساتھیوں کاکام ہے ۔ چونکہ ان کا دین اس نے چھوڑدیا تھا اس لیے انہوں نے اس کی قبر کھودی ہے اور لاش کو باہر نکال کر پھینک دیا ہے ۔ چنانچہ دوسری قبر انہوں نے کھودی جو بہت زیادہ گہری تھی ۔ لیکن جب صبح ہوئی تو پھر لاش باہر تھی ۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے یہی کہا کہ یہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کے ساتھیوں کا کام ہے چونکہ ان کا دین اس نے چھوڑ دیا تھا اس لیے اس کی قبر کھود کر انہوں نے لاش باہر پھینک دی ہے ۔ پھر انہوں نے قبر کھودی اور جتنی گہری ان کے بس میں تھی کرکے اسے اس کے اندر ڈال دیا لیکن صبح ہوئی تو پھر لاش باہر تھی ۔ اب انہیں یقین آیا کہ یہ کسی انسان کا کام نہیں ہے ( بلکہ یہ میت عذاب خداوندی میں گرفتار ہے ) چنانچہ انہوں نے اسے یونہی ( زمین پر ) ڈال دیا ۔

کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ایسے کاتبین وحی کی تحداد کتنی ہے جو مرتد ہوے

کیا معاویہ رضی الله عنہ کو کاتب الوحی کہنا ان کی فضیلت بن سکتا ہے ؟

جواب

دو افراد کے لئے اتا ہے کہ وہ کاتب الوحی تھے پھر مرتد ہوئے

ایک نصرانی تھا پھر مسلمان ہوا پھر نصرانی ہوا اور مرا یہی روایت اپ نے پیش کی ہے

دوسرے  عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح رضی الله عنہ ہیں ان پر یہ جھوٹا الزام شیعوں کا ہے جس پر تحقیق یہاں ویب سائٹ پر الوحی پر سوالات کے سیکشن میں موجود ہے

کاتب الوحی ہونا مغفرت کی دلیل نہیں ہے

لیکن کاتب الوحی مقرر کیا جانا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے اعتماد کی نشانی ہے لہذا اس کاتب میں جو مرتد ہوا اور معاویہ رضی الله عنہ میں بعد المشرقین ہے معاویہ رضی الله عنہ امیر المومنین کی حثیت میں فوت ہوئے
وللہ الحمد

امام نسائی نے ” الخصائص ” میں اور امام احمد بن حنبل نے مسند میں

عبد اللہ بن بریدہ اسلمی کے طریق سے روایت نقل کری ھے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کو کہتے ہوئے سنا فرمارہے تھے کہ ہم نے خیبر کا محاصرہ کیا ہوا تھا تو حضرت ابوبکر نے جنگ کے لیئے علم تھاما لیکن ان کو فتح نہی ہوئی اگلے دن علم حضرت عمر نے لیا لیکن عمر بھی لوٹ آئے اور فتح نہ ہوسکی اور اس دن لوگوں کو سخت شدت مشکل کا سامنا کرنا پڑا تو رسول اللہ ص نے فرمایا کل میں علم ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ھے اور اللہ اور اسکا رسول اس کو محبوب رکھتے ہیں وہ فتح حاصل کرے بغیر نہی لوٹے گا راوی کہتا ھے کہ ہم نے اطمینان سے رات بسر کری کہ کل ضرور فتح ملے گی پس جب رسول خدا نے صبح کری اور نماز فجر پڑھائی پھر آکر قیام کیا اور علم اٹھایا اس حال میں کہ لوگ اپنی صفوں میں تھے پس ہم میں سے جسکی بھی رسول اللہ ص کے نزدیک تھوڑی سی منزلت تھی وہ یہی امید کررہا تھا کہ پرچم وہ تھامے گا لیکن آپ نے علی بن ابی طالب کو بلایا اس حال میں کہ حضرت علی آشوب چشم میں مبتلا تھے پھر آپ نے انہیں لعاب مبارک لگایا اور انکی آنکھوں پر ہاتھ مبارک پھیرا پھر علم تھمایا اور اللہ نے ان کے ہاتھوں سے فتح عطاء فرمائی راوی کہتا ھے کہ میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جو علم ملنے کے امیدوار تھے۔

اسنادی حیثیت : اس روایت کی سند کو مسند احمد بن حنبل کے محققین شیخ شعیب الارنؤوط اور شیخ احمد شاکر نے صحیح کہا ھے اسیطرح ” خصائص ” کے محقق الدانی بن منیر نے بھی اس روایت کی سند کو صحیح کہا ھے۔

————-

2

[مستدرک حاکم]

روایت کا ترجمہ

امام حاکم نے عبد الرحمان بن أبی لیلی کے طریق سے روایت نقل کری ھے ابی لیلی کہتے ہیں کہ حضرت علی نے کہا کہ ابو لیلی کیا تم ہمارے ساتھ خیبر میں نہی تھے؟؟ ابو لیلی نے کہا قسم بخدا میں آپ حضرات کیساتھ ہی تھا ۔ حضرت علی نے فرمایا کہ رسول خدا نے ابو بکر کو خیبر کیطرف بھیجا پس حضرت ابوبکر لوگوں کیساتھ گئے لیکن ہزیمت سے دوچار ہوگئے یہاں تک کہ واپس لوٹ آئے۔

3

[مستدرک حاکم]

روایت کا ترجمہ

ابو موسی حنفی روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی نے بیان کیا کہ رسول اللہ خیبر کیطرف چلے پس جب پہنچ گئے تو حضرت عمر کو ایک لشکر کیساتھ یہود کے قلعوں کیطرف بھیجا پس انہوں نے قتال کیا اور قریب تھا کہ حضرت عمر اور انکے ساتھی شکست کھاجاتے چنانچہ واپس لوٹ آئے اس حال میں کہ لشکر والے حضرت عمر کو بزدلی کا طعنہ دے رہے تھے اور حضرت عمر لشکر کو بزدلی کا طعنہ دے رہے تھے ۔

اسنادی حیثیت

ان دونوں روایات کو امام حاکم نے صحیح کہا ھے اورانکی تصحیح پر علامہ ذھبی نے بھی تلخیص میں انکی موافقت کری ھے ۔

جواب

امام نسائی نے ” الخصائص ” میں اور امام احمد بن حنبل نے مسند میں

عبد اللہ بن بریدہ اسلمی کے طریق سے روایت نقل کری ھے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کو کہتے ہوئے سنا فرمارہے تھے کہ ہم نے خیبر کا محاصرہ کیا ہوا تھا تو حضرت ابوبکر نے جنگ کے لیئے علم تھاما لیکن ان کو فتح نہی ہوئی اگلے دن علم حضرت عمر نے لیا لیکن عمر بھی لوٹ آئے اور فتح نہ ہوسکی اور اس دن لوگوں کو سخت شدت مشکل کا سامنا کرنا پڑا تو رسول اللہ ص نے فرمایا کل میں علم ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ھے اور اللہ اور اسکا رسول اس کو محبوب رکھتے ہیں وہ فتح حاصل کرے بغیر نہی لوٹے گا راوی کہتا ھے کہ ہم نے اطمینان سے رات بسر کری کہ کل ضرور فتح ملے گی پس جب رسول خدا نے صبح کری اور نماز فجر پڑھائی پھر آکر قیام کیا اور علم اٹھایا اس حال میں کہ لوگ اپنی صفوں میں تھے پس ہم میں سے جسکی بھی رسول اللہ ص کے نزدیک تھوڑی سی منزلت تھی وہ یہی امید کررہا تھا کہ پرچم وہ تھامے گا لیکن آپ نے علی بن ابی طالب کو بلایا اس حال میں کہ حضرت علی آشوب چشم میں مبتلا تھے پھر آپ نے انہیں لعاب مبارک لگایا اور انکی آنکھوں پر ہاتھ مبارک پھیرا پھر علم تھمایا اور اللہ نے ان کے ہاتھوں سے فتح عطاء فرمائی راوی کہتا ھے کہ میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جو علم ملنے کے امیدوار تھے۔

اسنادی حیثیت : اس روایت کی سند کو مسند احمد بن حنبل کے محققین شیخ شعیب الارنؤوط اور شیخ احمد شاکر نے صحیح کہا ھے اسیطرح ” خصائص ” کے محقق الدانی بن منیر نے بھی اس روایت کی سند کو صحیح کہا ھے۔

سند ہے
أخبرنَا مُحَمَّد بن عَليّ بن حَرْب الْمروزِي قَالَ أخبرنَا معَاذ بن خَالِد قَالَ أخبرنَا الْحُسَيْن بن وَاقد عَن عبد الله بن بُرَيْدَة قَالَ سَمِعت أبي بُرَيْدَة يَقُول حاصرنا خَيْبَر فَأخذ اللِّوَاء أَبُو بكر وَلم يفتح لَهُ وَأخذ من الْغَد عمر فأنصرف وَلم يفتح لَهُ وَأصَاب النَّاس يَوْمئِذٍ شدَّة وَجهد فَقَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم إِنِّي دَافع لِوَائِي غَد إِلَى رجل يحب الله وَرَسُوله وَيُحِبهُ الله وَرَسُوله لَا يرجع حَتَّى يفتح لَهُ وبتنا طيبَة أَنْفُسنَا أَن الْفَتْح غَدا فَلَمَّا أصبح رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم صلى الْغَدَاة ثمَّ قَامَ قَائِما ودعا باللواء وَالنَّاس على مَصَافهمْ فَمَا منا إِنْسَان لَهُ منزلَة عِنْد رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم إِلَّا هُوَ يَرْجُو أَن يكون صَاحب اللِّوَاء فَدَعَا عَليّ بن أبي طَالب وَهُوَ أرمد فتفل فِي عَيْنَيْهِ وَمسح عَنهُ وَدفع إِلَيْهِ اللِّوَاء وَفتح الله لَهُ قَالَ وَأَنا فِيمَن تطاول لَهَا

سند میں حسین بن واقد ہے احمد کہتے ہیں بعض روایات منکر ہیں
قَالَ أَحْمَدُ: فِي بَعْضِ حَدِيْثِهِ نَكِرَةٌ.

خود یہ مدلس بھی ہے
احمد العلل میں کہتے ہیں
قال عبد الله بن أحمد: قال أبي: ما أنكر حديث حسين بن واقد، وأبي المنيب، عن ابن بريدة. «العلل» (497
حسین بن واقد کی ابن بریدہ سے روایت منکر ہے

ایک موقعہ پر اس کی روایت امام احمد کے سامنے پیش ہوئی اس پر پوچھا کس نے اس کو روایت کیا بتایا گیا حسین بن واقد نے
وقال: من روى هذا؟ قيل له: الحسين بن واقد. فقال بيده، وحرك رأسه، كأنه لم يرضه. «ضعفاء العقيلي» (300) .
تو امام احمد نے ہاتھ ہلایا گویا اس سے نا خوش ہوں

یعنی یہ راوی ضعیف ہے
————-

2

[مستدرک حاکم]

روایت کا ترجمہ

امام حاکم نے عبد الرحمان بن أبی لیلی کے طریق سے روایت نقل کری ھے ابی لیلی کہتے ہیں کہ حضرت علی نے کہا کہ ابو لیلی کیا تم ہمارے ساتھ خیبر میں نہی تھے؟؟ ابو لیلی نے کہا قسم بخدا میں آپ حضرات کیساتھ ہی تھا ۔ حضرت علی نے فرمایا کہ رسول خدا نے ابو بکر کو خیبر کیطرف بھیجا پس حضرت ابوبکر لوگوں کیساتھ گئے لیکن ہزیمت سے دوچار ہوگئے یہاں تک کہ واپس لوٹ آئے۔

اس کی سند ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ سَالِمُ بْنُ الْفَصْلِ الْآدَمِيُّ، بِمَكَّةَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ، ثنا عَلِيُّ بْنُ هَاشِمٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنِ الْحَكَمِ، وَعِيسَى، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَلِيٍّ أَنَّهُ قَالَ: يَا أَبَا لَيْلَى أَمَا كُنْتَ مَعَنَا بِخَيْبَرَ؟ قَالَ: بَلَى وَاللَّهِ كُنْتُ مَعَكُمْ، قَالَ: فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «بَعَثَ أَبَا بَكْرٍ إِلَى خَيْبَرَ فَسَارَ بِالنَّاسِ وَانْهَزَمَ حَتَّى رَجَعَ»

سند میں عَلِيُّ بنُ هَاشِمِ بنِ البَرِيْدِ العَائِذِيُّ ہے جو شیعہ عالم تھے
وَقَالَ ابْنُ حِبَّانَ فِي (الثِّقَاتِ) : كَانَ غَالِياً فِي التَّشَيُّعِ، وَرَوَى المَنَاكِيْرَ عَنِ المَشَاهِيْرِ.
ابن حبان کہتے ہیں یہ غالی شیعہ تھے اور مشاہیر سے منکر روایت کرتے تھے

الذھبی خود کتاب ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق میں کہتے ہیں
شيعي غال قال محمد بن عبد الله بن نمير وله ما يستنكر
یہ غالی شیعہ تھے اور ابن نمیر نے کہا ان کے پاس ہے جس کا انکار کیا جاتا ہے

لہذا یہ الذھبی کی غلطی ہے

الکامل میں ابن عدی کہتے ہیں
وَعلي بْن هاشم هُوَ من الشيعة المعروفين بالكوفة ويروي فِي فضائل علي أشياء لا يرويها غيره بأسانيد مختلفة
علی کوفہ کے معروف شیعہ ہیں جو فضائل علی میں وہ چیزیں بیان کرتے ہیں جو کوئی اور مختلف اسناد سے روایت نہیں کرتا

3

[مستدرک حاکم]

روایت کا ترجمہ

ابو موسی حنفی روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی نے بیان کیا کہ رسول اللہ خیبر کیطرف چلے پس جب پہنچ گئے تو حضرت عمر کو ایک لشکر کیساتھ یہود کے قلعوں کیطرف بھیجا پس انہوں نے قتال کیا اور قریب تھا کہ حضرت عمر اور انکے ساتھی شکست کھاجاتے چنانچہ واپس لوٹ آئے اس حال میں کہ لشکر والے حضرت عمر کو بزدلی کا طعنہ دے رہے تھے اور حضرت عمر لشکر کو بزدلی کا طعنہ دے رہے تھے ۔

اسنادی حیثیت

ان دونوں روایات کو امام حاکم نے صحیح کہا ھے اورانکی تصحیح پر علامہ ذھبی نے بھی تلخیص میں انکی موافقت کری ھے ۔

اس کی سند ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْمَحْبُوبِيُّ، بِمَرْوَ، ثنا سَعِيدُ بْنُ مَسْعُودٍ، ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، ثنا نُعَيْمُ بْنُ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْحَنَفِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: «سَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَيْبَرَ، فَلَمَّا أَتَاهَا بَعَثَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ، وَبَعَثَ مَعَهُ النَّاسَ إِلَى مَدِينَتِهِمْ أَوْ قَصْرِهِمْ، فَقَاتَلُوهُمْ فَلَمْ يَلْبَثُوا أَنْ هَزَمُوا عُمَرَ وَأَصْحَابَهُ، فَجَاءُوا يُجَبِّنُونَهُ وَيُجَبِّنُهُمْ فَسَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» الْحَدِيثُ

اس کی سند میں نعيم بن حكيم ہے
میزان میں الذھبی لکھتے ہیں
وثقه ابن معين، وغيره.
وقال الأزدي: أحاديثه مناكير.
وقال ابى سعد: لم يكن بذاك.
وقال النسائي: ليس بالقوي

دوم أَبِي مُوسَى الْحَنَفِيِّ کون ہے ؟ مجھول ہے اس پر کوئی قول نہیں ہے

========

الغرض یہ تمام ضعیف ہیں

کیا یہ حدیث صحیح ہے

جامع الترمذي: أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابُ قَولِ الاَنصَارِ کُنَّا لَنَعرِفُ المُنَافِقِینَ یَغُضُّھُم عَلِیُّ ابنُ أَبِي طَالِب) جامع ترمذی: كتاب: فضائل و مناقب کے بیان میں (باب: انصار کا قول کہ ہم لوگ پہنچاتے ہیں منافقین کو کہ وہ علی سے عداوت رکھتےہیں)

کی روایت ہے
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي هَارُونَ الْعَبْدِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ، قَالَ: إِنْ كُنَّا لَنَعْرِفُ الْمُنَافِقِينَ نَحْنُ مَعْشَرَ الأَنْصَارِ بِبُغْضِهِمْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ.
هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ, وَقَدْ تَكَلَّمَ شُعْبَةُ فِي أَبِي هَارُونَ.
وَقَدْ رُوِيَ هَذَا عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ. حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَبِي نَصْرٍ، عَنِ الْمُسَاوِرِ الحِمْيَرِيِّ، عَنْ أُمِّهِ، قَالَتْ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ، فَسَمِعْتُهَا تَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لاَ يُحِبُّ عَلِيًّا مُنَافِقٌ وَلاَ يَبْغَضُهُ مُؤْمِنٌ.
وَفِي البَابِ عَنْ عَلِيٍّ,.
وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الوَجْهِ.

جواب

شعبہ نے ابو ہارون پر کلام کیا ہے – محدثین کے نزدیک یہ متروک ہے
دوسری کی سند میں المساور مجھول ہے
دونوں ضعیف ہیں

——-

علی کی منقبت کی روایات کوفیوں کی بیان کردہ ہیں – مسند احمد کی روایت ہے
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: “عَهِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ لَا يُحِبُّكَ إِلا مُؤْمِنٌ، وَلا يُبْغِضُكَ إِلا مُنَافِقٌ
علی نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مجھ سے وعدہ کیا کہ مجھ سے مومن محبت کرے گا اور منافق بغض رکھے گا
اس میں الْأَعْمَشُ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ کا تفرد ہے تمام کوفی ہیں
اس کی سند میں عدی بن ثابت غالی شیعہ ہے

صحیح مسلم کی روایت ہے
حديث:242
حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ ح و حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيَی وَاللَّفْظُ لَهُ أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ زِرٍّ قَالَ قَالَ عَلِيٌّ وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَأَ النَّسَمَةَ إِنَّهُ لَعَهْدُ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيَّ أَنْ لَا يُحِبَّنِي إِلَّا مُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضَنِي إِلَّا مُنَافِقٌ
: ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، ابومعاویہ اعمش، یحیی بن یحیی، ابومعاویہ اعمش عدی، بن ثابت، زر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس نے دانہ کو پھاڑا اور جس نے جانداروں کو پیدا کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے عہد کیا تھا کہ مجھ سے مومن ہی محبت کرے گا اور مجھ سے بغض منافق ہی رکھے گا۔

کتاب الإلزامات والتتبع از دارقطنی میں دارقطنی نے امام مسلم کا خاص ذکر کیا کہ اس روایت کو انہوں نے قبول کر لیا ہے جبکہ بخاری نے اس کو نہیں لیا
وأخرج مسلم حديث عدي بن ثابت: والذي فلق الحبة. ولم يخرجه البخاري.

متفق علیہ روایت ہے
“الأنصار لا يحبهم إلا مؤمن، ولا يبغضهم إلا منافق، فمن أحبهم أحبه الله، ومن أبغضهم أبغضه اللهُ
انصار سے سوائے مومن کے کوئی محبت نہیں کرتا پس جو ان سے محبت کرے الله اس سے محبت کرے گا اور ان سے سوائے منافق کوئی بغض نہیں رکھتا

یہ خصوص و عموم کی بحث ہے – انصار کی تو کثیر تعداد ہے جو علی رضی الله عنہ کے خصوص کو ختم کر دیتی ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ انصار والی روایت کی سند ، علی سے متعلق روایت سے بہت بہت بہتر ہے

یہ تو تھی فنی بحث اب اصول کی بات ہے کہ تمام اصحاب رسول اور امہات المومنین کا احترام لازم ہے
اصحاب رسول کا اپس میں بغض اور وقتی عداوت اس کی دلیل نہیں کہ ان میں ایمان نہیں تھا
خود علی کا قول ہے

مسند احمد کی روایت ہے

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، ثنا شُعْبَةُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي الزُّبَيْرِ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الشَّرِيدِ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَخْطُبُ فَقَالَ: ” إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ [ص:91] أَكُونَ وَعُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، كَمَا قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ {وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَى سُرَرٍ مُتَقَابِلِينَ} [الحجر: 47]

عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الشَّرِيد کہتے ہیں میں نے علی کو کہتے سنا وہ خطبہ دے رہے تھے فرمایا میں امید کرتا ہوں کہ میں اور عثمان وہ ہیں جن پر الله کا قول ہے وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَى سُرَرٍ مُتَقَابِلِينَ

مسند احمد میں ہے
– حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ شَدَّادٍ أَبِي عَمَّارٍ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ، وَعِنْدَهُ قَوْمٌ، فَذَكَرُوا (1) عَلِيًّا، فَلَمَّا قَامُوا قَالَ لِي: أَلَا أُخْبِرُكَ بِمَا رَأَيْتُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: أَتَيْتُ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهَا أَسْأَلُهَا عَنْ عَلِيٍّ، قَالَتْ: تَوَجَّهَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَجَلَسْتُ أَنْتَظِرُهُ حَتَّى جَاءَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ عَلِيٌّ وَحَسَنٌ وَحُسَيْنٌ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُمْ، آخِذٌ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا بِيَدِهِ، حَتَّى دَخَلَ فَأَدْنَى عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ، فَأَجْلَسَهُمَا بَيْنَ يَدَيْهِ، وَأَجْلَسَ حَسَنًا، وَحُسَيْنًا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلَى فَخِذِهِ، ثُمَّ لَفَّ عَلَيْهِمْ ثَوْبَهُ – أَوْ قَالَ: كِسَاءً – ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ: {إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا} [الأحزاب: 33] وَقَالَ: ” اللهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي، وَأَهْلُ بَيْتِي أَحَقُّ ”
شداد ابی عمار ، واثلہ بن اسقع سے ملے اور اس وقت کچھ لوگ ان کے پاس تھے۔ وہاں علی رضی الله کا ذکر ہوا ، جب وہ چلے گئے تو واثلہ نے ان سے کہا کہ کیا میں تم کو بتاؤں کہ میں نے نبی اکرم سے کیا دیکھا؟ تو شداد نے کہا جی ضرور۔ انہوں نے یہ بیان کیا کہ وہ فاطمہ رضی الله کے پاس علی رضی الله کا پوچھنے گئے۔ جس پر فاطمہ رضی الله نے انہیں کہا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے ہیں۔وہ انتظار میں بیٹھ گئے۔ پھر نبی صلی الله علیہ وسلم ، علی رضی الله اور حسن و حسین رضی الله عنہ کے ساتھ واپس آئے اور انہوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے۔ پھر نبی صلی الله علیہ وسلم نے ان کو چادر میں جمع کیا اور آیت تطہیر کے تلاوت کی، اور کہا کہ یہ میرے اہلبیت ہیں، اور ان کا مجھ پر حق زیادہ ہے

جواب

وقال أبو داود: سمعت أحمد يقول: حديث القرقساني -قال أبو داود: يعني محمد بن مصعب القرقساني – عن الأوزاعي، مقارب
احمد نے کہا محمد بن مصعب کی الأوزاعي سے حدیث سرسری ہے

يَحْيى بْن مَعِين نے کہا مُحَمد بْن مصعب القرقساني ليس بشَيْءٍ کوئی چیز نہیں ہے

یہ بھی کہا لم يكن من أصحاب الحديث یہ محدث بھی نہیں ہے

صالح جزرة: عامة أحاديثه عن الأوزاعي مقلوبة.
جزرة: نے کہا اس کی الأوزاعي  سے روایت مقلوبہ ہیں

مقلوبہ یعنی کسی اور کی روایت پیش کرتا ہے اس نے نہیں لی ہوتی

صالح بن محمد: عامة أحاديث عن الأوزاعي مقلوبة، وقد روى عن الأوزاعي غير حديث كلها مناكير ليس لها أصول.
صالح بن محمد: بیشتر روایات جو الأوزاعي سے نقل کرتا ہے وہ مناکیر ہیں ان کا کوئی اصول نہیں ہے

عبداللہ بن احمد بن حنبل نے مسند میں ایک روایت لائی ہے جس کا متن یوں ہے

” سیدنا علی علیہ السلام اللہ سبحان و تعلی کے اس فرمان ( انما انت منذر ولكل قوم هاد – سورة الرعد : 7 ) تم صرف ڈرانے والے ہو اور ہر قوم کے لے ایک ہادی ہے , کے متعلق فرمایا کہ رسول اللہ صلی علیہ و آلہ فرماتے ہے کہ ڈرانے والا اور ہادی بنی ھاشم میں سے ایک مرد ہوگا ”

المسند میں یہ اس سند سے مروی ہے

حدثنا عبدالله حدثني عثمان بن ابي شيبة حدثنا مطلب بن زياد عن السدي عن عبدخير عن علي عليه السلام في قوله …. الخ

المسند احمد / جلد 1

جواب

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ، حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُطَّلِبُ بْنُ زِيَادٍ، عَنِ السُّدِّيِّ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ، عَنْ عَلِيٍّ، فِي قَوْلِهِ: {إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ} [الرعد: 7] ، قَالَ: ” رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُنْذِرُ، وَالْهَادِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ

اس کی سند میں المطلب بن زياد ہے جو مختلف فیہ ہے عيسى بنَ شاذان اور ابن سعد اس کو ضعیف کہتے ہیں
اور إسماعيل بن عبد الرحمن السدی ہے جس پر بہت جرح ہے

احمد شاکر نے اس کو صحیح کہا ہے شعیب نے ضعیف کہا ہے

قرآن میں ہے ہر قوم کے لئے ہادی ہے تو ظاہر ہے یہ صرف بنو ہاشم کے افراد نہیں ہیں آجکل تو یہ خاندان ویسے بھی معدوم ہے

رمضان پہلا عشرہ رحمت کا دوسرا مغفرت کا تیسرا جہنم سے نجات کا والی حدیث صحیح ہے ؟

جواب

عن سلمان الفارسي رضي الله عنه أنه قال :
{ خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في آخر يوم من شعبان فقال : أيها الناس قد أظلكم شهر عظيم مبارك ، شهر فيه ليلة خير من ألف شهر ،جعل الله صيامه فريضة ، وقيام ليله تطوعاً ، من تقرب فيه بخصلة من الخير كان كمن أدى فريضة فيما سواه ومن أدى فيه فريضة كان كمن أدّى سبعين فريضة فيما سواه ، وهو شهر أوله رحمة وأوسطه مغفرة ، وآخره عتق من النار

یہ روایت صحیح ابن خزیمہ کی ہے لیکن ابن خزیمہ بھی عجیب انسان تھے جس چیز میں ان کو شک ہوتا اس کو شک کے ساتھ صحیح میں لکھتے تھے لہذا اس روایت پر باب قائم کیا
بَابُ فَضَائِلِ شَهْرِ رَمَضَانَ، إِنَّ صَحَّ الْخَبَرُ
ماہ رمضان کے فضائل اگر یہ خبر صحیح ہو
اور سند دی

1887 – ثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ، ثَنَا يُوسُفُ بْنُ زِيَادٍ، ثَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ سَلْمَانَ قَالَ
محدثین کو اس پر شک ہے کہ سعید بن المسیب کا سماع سلمان رضی الله عنہ سے نہیں ہے
سند میں يوسف بن زياد أبو عبد الله البصري ہے – البخاري وأبو حاتم والساجي: منكر الحديث، وقال النسائي: ليس بثقة، وذكره العقيلي وابن حبان في “الضعفاء”.
البتہ الکامل از ابن عدی میں اسکی سند ہے
حَدَّثَنَا مُحَمد بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ ميمون، حَدَّثَنا عُبَيد اللَّهِ بْنُ عُمَر، حَدَّثَنا حَكِيمُ بْنُ خِذَامٍ الْعَبْدِيُّ أنا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ عَنْ سَعِيد بْنِ المُسَيَّب عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ،
لیکن یہاں حكيم بْن خذام الأزدى ہے جس کو امام بخاری نے منکر الحدیث کہا ہے

بہت سے محدثین نے اس کو ضعیف یا منکر کہا ہے جو عصر حاضر کے ہیں
=========

الله کی رحمت اور اس کی مغفرت کو الگ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس کا کسی پر رحم کرنا ہی بندے کو مغفرت کی طرف لاتا ہے اور اس کی رحمت کا مطلب جہنم سے نجات ہے
و الله اعلم

مسند امام احمد، میں ایک روایت یوں ہے

16540 حدثنا محمد بن مصعب قال حدثنا الأوزاعي عن شداد أبي عمار قال دخلت على واثلة بن الأسقع وعنده قوم فذكروا عليا فلما قاموا قال لي ألا أخبرك بما رأيت من رسول الله صلى الله عليه وسلم قلت بلى قال أتيت فاطمة رضي الله تعالى عنها أسألها عن علي قالت توجه إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فجلست أنتظره حتى جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعه علي وحسن وحسين رضي الله تعالى عنهم آخذ كل واحد منهما بيده حتى دخل فأدنى عليا وفاطمة فأجلسهما بين يديه وأجلس حسنا وحسينا كل واحد منهما على فخذه ثم لف عليهم ثوبه أو قال كساء ثم تلا هذه الآية إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا وقال اللهم هؤلاء أهل بيتي وأهل بيتي أحق

حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ شداد ابی عمار واثلہ بن اسقع سے ملے اور اس وقت کچھ لوگ ان کے پاس تھے۔ وہاں حضرت علی رضی الله کا ذکر ہوا ، جب وہ چلے گئے توواثلہ نے ان سے کہا کہ کیا میں تم کو بتاؤں کہ میں نے نبی اکرم سے کیا دیکھا؟ تو شداد نے کہا جی ضرور۔ انہوں نے یہ بیان کیا کہ وہ فاطمہ رضی الله کے پاس علی رضی الله کا پوچھنے گئے۔ جس پر فاطمہ رضی الله نے انہیں کہا کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس گئے ہیں۔وہ انتظار میں بیٹھ گئے۔ پھر نبی پاک علی رضی الله اور امام حسن و حسین رضی الله کے ساتھ واپس آئے اور انہوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے۔ پھر نبی پاک نے ان کو چادر میں جمع کیا اور آیت تطہیر کے تلاوت کی، اور کہا کہ یہ میرے اہلبیت ہیں، اور ان کا مجھ پر حق زیادہ ہے

جواب

وقال أبو داود: سمعت أحمد يقول: حديث القرقساني -قال أبو داود: يعني محمد بن مصعب القرقساني – عن الأوزاعي، مقارب
احمد نے کہا محمد بن مصعب کی الأوزاعي سے حدیث سرسری ہے

يَحْيى بْن مَعِين نے کہا مُحَمد بْن مصعب القرقساني ليس بشَيْءٍ کوئی چیز نہیں ہے

یہ بھی کہا لم يكن من أصحاب الحديث یہ محدث بھی نہیں ہے

صالح جزرة: عامة أحاديثه عن الأوزاعي مقلوبة.
جزرة: نے کہا اس کی سے روایت مقلوبہ ہیں

مقلوبہ یعنی کسی اور کی روایت پیش کرتا ہے اس نے نہیں لی ہوتی

صالح بن محمد: عامة أحاديث عن الأوزاعي مقلوبة، وقد روى عن الأوزاعي غير حديث كلها مناكير ليس لها أصول.
صالح بن محمد: بیشتر روایات جو الأوزاعي سے نقل کرتا ہے وہ مناکیر ہیں ان کا کوئی اصول نہیں ہے

جواب

اس کو بیہقی نے دلائل النبوه میں روایت کیا ہے

وَكَانَ فِي الْغَارِ خَرْقٌ فيه حيات وأفاعي، فَخَشِيَ أَبُو بَكْرٍ أَنْ يَخْرُجَ مِنْهُنَّ شَيْءٌ يُؤْذِي رَسُولَ اللهِ صَلَّى الله عليه وآله وَسَلَّمَ

سند ہے

وأَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ بِشْرَانَ الْعَدْلُ بِبَغْدَادَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سلمان التجار الْفَقِيهُ إِمْلَاءً، قَالَ: قُرِئَ عَلَى يَحْيَى بْنِ جَعْفَرٍ وَأَنَا أَسْمَعُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الرَّاسِبِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي فُرَاتُ بْنُ السَّائِبِ عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنْ ضَبَّةَ بْنِ مِحْصَنٍ الْعَنَزِيِّ، عن عمر ابن الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فِي قِصَّةٍ ذَكَرَهَا

سند میں فرات بن السائب ہے جو متروک ہے
میزان از الذہبی میں ہے
قال البخاري: منكر الحديث.
وقال ابن معين: ليس بشئ.
وقال الدارقطني وغيره: متروك.
وقال أحمد بن حنبل: قريب من محمد بن زياد الطحان، في ميمون، يتهم بما يتهم به ذاك.

جواب

من كنت مولاه فعلي مولاه
یہ روایت جن طرق سے اتی ہے ان پر جرح ہے

سنن ابن ماجہ میں ہے
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ ابْنِ سَابِطٍ وَهُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ: قَدِمَ مُعَاوِيَةُ فِي بَعْضِ حَجَّاتِهِ فَدَخَلَ عَلَيْهِ سَعْدٌ فَذَكَرُوا عَلِيًّا فَنَالَ مِنْهُ فَغَضِبَ سَعْدٌ وَقَالَ تَقُولُ هَذَا لِرَجُلٍ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وعلى آله وَسَلَّمَ يَقُولُ: (مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ الْيَوْمَ رَجُلًا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ) .

لیکن یھاں سند میں بد الرحمن بن سابط ہے جس کا سماع سعد بن ابّی وقاص سے نہیں

——–
عقیلی نے اس کا ایک طرق نقل کیا جو مجہول سے تھا پھر کہا
وَقَدْ رُوِيَ هَذَا بِإِسْنَادٍ أَصْلَحَ مِنْ هَذَا الْإِسْنَادِ
اس کو اس سے اصلح اسناد سے بھی روایت کیا گیا ہے
——

اس کو سُلَيْمَان بن قرم الضَّبِّيّ نے روایت کیا ہے جو متروک ہے
اس کو مُحَمَّد بن سَلمَة بن كهيل نے روایت کیا ہے جو واہی الحدیث ہے
اس کو دَاوُد الأودي نے روایت کیا ہے جو ضعیف ہے
اس کو عَمْرو بن ثَابت نے روایت کیا ہے جو متروک ہے
اس کو مَيْمُون أبي عبد الله نے روایت کیا ہے جو ضعیف ہے
اس کو عمر بن شبيب الْمسلي نے روایت کیا ہے جو متروک ہے
اس کو مالك بن الحسن بن مالك بن الحويرث نے روایت کیا ہے جو منکر الحدیث ہے
اس کو الحسين بن الحسن الأشقر، نے روایت کیا ہے جو منکر الحدیث ہے
اس کو علي بن سعيد بن قتيبة الرّملي نے روایت کیا ہے جو ضعیف ہے
اس کو حميد بن أَبي غنية الأصبهاني نے روایت کیا ہے جو مجہول ہے
=======

جو بہتر اسناد ہیں ان میں ایک مدلس أبو إسحاق السبيعي ہے جس نے اس کو روایت کیا ہے
——

اس کو بہت سی اسناد سے زید بن ارقم سے بھی روایت کیا گیا ہے
معرفہ صحابہ میں ہے
وَرَوَاهُ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ: أَبُو سُلَيْمَانَ زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ، وَأَبُو الضُّحَى، وَيَحْيَى بْنُ جَعْدَةَ، وَسُلَيْمَانُ بْنُ أَبِي الْحَسْنَاءِ وَأَبُو إِسْحَاقَ، وَأَبُو سُلَيْمَانَ الْمُؤَذِّنُ، وَأَبُو عُبَيْدِ اللهِ الشَّيْبَانِيُّ، وَأَبُو لَيْلَى الْحَضْرَمِيُّ، وَأَبُو صَالِحٍ وَأَبُو عَبْدِ اللهِ مَيْمُونٌ، وَعَطِيَّةُ الْعَوْفِيُّ، وَثُوَيْرُ بْنُ أَبِي فَاخِتَةَ، فِي آخَرِينَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ
یہ راوی بہت مضبوط نہیں ہیں
——-

اس کی اسناد بہت ہیں اور کہا جاتا ہے یہ متواتر ہے الذہبی تذکرہ الحفاظ میں کہتے ہیں اس کے کثرت طرق نے مجھے حیران کر دیا ہے

وقد حكم عليه غير واحد بالتواتر، منهم الذهبي في “النبلاء” (8/ 335)، والسيوطي في “قطوف الأزهار المتناثرة في الأخبار المتواترة” ص (277)، والكتاني في “نظم المتناثر” برقم (232)، والعجلوني في “كشف الخفاء” (2/ 261)، والألباني في “الصحيحة” (4/ 343).
ان سب نے اس کو متواتر کہا ہے

ابن حجر نے کہا
ابن حجر في “الفتح” (7/ 74): هو كثير الطرق جدًا، وقد استوعبها ابن عقدة في كتاب مفرد، وكثير من أسانيدها صحاح وحسان اهـ.
اس کے طرق بہت ہیں … اور سندیں صحیح یا حسن ہیں

الزيلعي (المتوفى: 762هـ) نے نصب الراية میں کہا
وَحَدِيثِ: مَنْ كُنْت مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ3، بَلْ قَدْ لَا يُزِيدُ الْحَدِيثَ كَثْرَةُ الطُّرُقِ إلَّا ضَعْفًا،
حدیث من کنت مولاہ کا حال یہ ہے کہ اس کے جتنے طرق ہوں اس کا ضعف بڑھتا ہے

مناقب امام الشافعی میں اس کی تاویل ہے
أخبرنا أبو عبد الرحمن السلمي، قال: أخبرنا محمد بن محمد بن يعقوب؛ قال: حدثنا العباس بن يوسف الشِّكْلِي (2)، قال: سمعت الربيع بن سليمان، يقول:
سمعت الشافعي، يقول في معنى قول النبي، صلى الله عليه وسلم، لعلي بن أبي طالب، رضي الله عنه: «من كنت مولاه فعلى مولاه (3)» يعني بذلك وَلاَءَ الإِسلام.
وذلك قول الله تعالى: {ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَأَنَّ الْكَافِرِينَ لَا مَوْلَى لَهُمْ
امام شافعی نے کہا مولا سے مراد ہے کہ یعنی ایسا اسلام میں لگاؤ(اطاعت) ہے اور الله کا قول ہے
سوره محمد
یہ اس لئے کہ الله مولی ہے ایمان والوں کا اور کافروں کا کوئی مولی نہیں ہے

قاسم بن سلام غريب الحديث میں کہتے ہیں مولی کا مطلب الْعصبَة (خون کے تعلق سے رشتہ دار) ہے
فَكل وليّ للْإنْسَان هُوَ مَوْلَاهُ مثل الْأَب وَالْأَخ وَابْن الْأَخ والعَم وَابْن الْعم وَمَا وَرَاء ذَلِك من الْعصبَة كلّهم وَمِنْه قَوْله تَعَالَى: {وَإنِّي خِفْتُ الموَالِي من ورائي}
ہر انسان کا جو وليّ ہے وہ مولاہ ہے جیسے اس کا باپ یا بھائی یا بھتیجا یا چچا یا کزن اور اسی طرح خونی رشتہ والے جیسے الله کا قول ہے کہ زکریا نے کہا
اور میں اپنے بعد اپنے بھائی بندوں سے ڈرتا ہوں

یعنی مولاہ مطلب بھائی بند

یعنی رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہا علی میرا کزن میرا بھائی بند ہے اور جس طرح یہ میرا جگری خاندان کا ہے

سادہ الفاظ میں
میں جن رشتہ میں جڑا ہوں اس میں علی بھی جڑا ہے

یاد رہے کہ یہ روایت اگر صحیح ہے تو یہ خمس کے جھگڑے کی وجہ سے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو کہنا پڑا
⇑ یہ غدیر خم کا اصل قصہ کیا ہے
https://www.islamic-belief.net/q-a/تاریخ/

یہ راقم کو سمجھ آیا ہے

 

کتاب المجموع المغيث في غريبي القرآن والحديث از محمد بن عمر بن أحمد بن عمر بن محمد الأصبهاني المديني، أبو موسى (المتوفى: 581هـ) کے مطابق
قوله عليه الصلاة والسلام: “مَن كنتُ مَولَاه فَعَلِىٌّ مَوْلاهُ”. (3)
(2 قيل: أي مَن كنتُ أتولّاه فعَلِىٌّ يتولّاه.
والمَولَى على وُجُوهٍ: منها ابنُ العَمّ، قال الله تعالى في قصّةِ زكَرِيّاء عليه الصّلاة والسّلام: {وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِنْ وَرَائِي} (1)،
وأنشَدَ: مَوَالِينا إذا افتَقَرُوا إلينا
فإن أثْرَوْا فَليسَ لنا مَوالِ (2)
الثانى: المعتِق؛ ومَصْدَرُه الوَلَايَةُ (3).
والثالث: المُعتَقُ؛ ومَصْدَرُه الوَلَاءُ.
والرابع: المُحِبُ.
كقوله عليه الصّلاة والسَّلام (4): “مُزينَةُ وأسْلَمُ وَجُهَيْنَةُ وغِفَار مَوَالى الله تعالَى ورَسُولِه”
والخَامسُ: الجَارُ، كَما أنشدَ:
هُمُ خلطُونا بالنفوس وأَلْجَئُوا
إلى نَصْرِ مولاهُم مُسَوَّمَةً جُرْدَا
السّادِسُ: الناصِرُ، قال الله تعالى: {ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا …} (5) الآية.
السَّابع: المأوى، قال الله تعالى: {مَأْوَاكُمُ النَّارُ هِيَ مَوْلَاكُمْ}
وقيل: أي مَن كان يتولاَّنى تولَّاه
کہا جاتا ہے کہ میں نے جس سے دوستی کی اس سے علی نے کی
اور جس نے مجھ سے دوستی کی اس سے علی کی ہوئی
اور مولی کے کئی رخ ہیں یعنی چچا زاد قرآن میں زکریا کے قصہ میں ہے
اس سے مراد آقا ہے جو آزاد کرے
اس سے مراد محبت کرنے والا ہے
اس سے مراد پڑوسی ہے
اس سے مراد مددگار ہے
اس کے مراد ماوی و ملجا ہے

اس کے اور بھی مفہوم ہیں یہ آقا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں سوره النحل ٧٦ میں ہے

وَضَرَبَ اللّـٰهُ مَثَلًا رَّجُلَيْنِ اَحَدُهُمَآ اَبْكَمُ لَا يَقْدِرُ عَلٰى شَىْءٍ وَّهُوَ كَلٌّ عَلٰى مَوْلَاهُۙ اَيْنَمَا يُوَجِّهْهُّ لَا يَاْتِ بِخَيْـرٍ ۖ هَلْ يَسْتَوِىْ هُوَ وَمَنْ يَّاْمُرُ بِالْعَدْلِ ۙ وَهُوَ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْـمٍ (76)
اور اللہ ایک اور مثال دو آدمیوں کی بیان فرماتا ہے کہ ایک ان میں سے گونگا ہے کچھ بھی نہیں کر سکتا اور اپنے آقا پر ایک بوجھ ہے، جہاں کہیں اسے بھیجے اس سے کوئی خوبی کی بات بن نہ آئے، کیا یہ اور وہ برابر ہے جو لوگوں کو انصاف کا حکم دیتا ہے، اور وہ خود بھی سیدھے راستے پر قائم ہے۔

الفاظ ہیں مولاہ کا ترجمہ آقا کیا ہے
——

یہ تمام مفہوم مولاہ میں ہیں

والله اعلم

جواب

أَنَّ أَبَا غَسَّانَ مَالِكَ بْنَ يَحْيَى الْهَمْدَانِيَّ حَدَّثَنَا قَالَ: ثنا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ , قَالَ: أنا عِمْرَانُ بْنُ حُدَيْرٍ , عَنْ عِكْرِمَةَ أَنَّهُ قَالَ: كُنْتُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ عِنْدَ مُعَاوِيَةَ نَتَحَدَّثُ حَتَّى ذَهَبَ هَزِيعٌ مِنَ اللَّيْلِ , فَقَامَ مُعَاوِيَةُ , فَرَكَعَ رَكْعَةً وَاحِدَةً , فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «مِنْ أَيْنَ تُرَى أَخَذَهَا الْحِمَارُ»
عمران نے عکرمہ سے روایت کیا کہ میں ابن عباس اور معاویہ کے ساتھ تھا ہم نے کلام کیا یہاں تک کہ رات آئی پس معاویہ کھڑے ہوئے اور ایک رکعت پڑھی ابن عباس نے کہا اس گدھے نے کہاں سے یہ لیا

1720 – حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرَةَ، قَالَ: ثنا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: ثنا عِمْرَانُ، فَذَكَرَ بِإِسْنَادِهِ مِثْلَهُ إِلَّا أَنَّهُ لَمْ يَقُلِ الْحِمَارُ وَقَدْ يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ قَوْلُ ابْنِ عَبَّاسٍ «أَصَابَ مُعَاوِيَةُ» عَلَى التَّقِيَّةِ لَهُ , أَيْ أَصَابَ فِي شَيْءٍ آخَرَ لِأَنَّهُ كَانَ فِي زَمَنِهِ , وَلَا يَجُوزُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا أَنْ يَكُونَ مَا خَالَفَ فِعْلَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي قَدْ عَلِمَهُ عَنْهُ صَوَابًا. وَقَدْ رُوِيَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي الْوِتْرِ أَنَّهُ ثَلَاثٌ
اسی کو أَبُو بَكْرَةَ، قَالَ: ثنا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: ثنا عِمْرَانُ نے عکرمہ سے روایت کیا ہے اس میں گدھا نہیں ہے اور جائز ہے ابن عباس نے کہا ٹھیک کیا معاویہ نے – ، بطور تقیہ – یعنی اس دور میں یہ کر سکتے ہیں اور ہمارے نزدیک جائز نہیں جو رسول الله کے عمل کے مخالف ہو جو انہوں نے ہم کو سکھایا اور ابن عباس سے روایت کیا گیا ہے کہ وتر تین ہیں
==========================

صحیح بخاری میں ہے
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، قِيلَ لِابْنِ عَبَّاسٍ: ” هَلْ لَكَ فِي أَمِيرِ المُؤْمِنِينَ مُعَاوِيَةَ، فَإِنَّهُ [ص:29] مَا أَوْتَرَ إِلَّا بِوَاحِدَةٍ؟ قَالَ: «أَصَابَ، إِنَّهُ فَقِيهٌ»
ابن عباس سے کہا گیا کہ معاویہ نے ایک وتر پڑھا تو انہوں نے کہا ٹھیک کیا وہ فقیہ ہیں

بیہقی نے معرفہ سنن و الاثار میں کہا
وَلَا يَحِلُّ لِأَحَدٍ أَنْ يَحْمِلَ قَوْلَ ابْنِ عَبَّاسٍ عَلَى التُّقْيَةِ مِنْهُ؛ فَابْنُ عَبَّاسٍ كَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْ أَنْ يَخَافَ مُعَاوِيَةَ فِي سُكُوتِهِ عَنْ فِعْلٍ أَخْطَأَ فِيهِ،
اور کسی کے لئے حلال نہیں کہ ابن عباس کے قول کو تقیہ قرار دے کیونکہ وہ لوگوں اس سے سب سے دور تھے کہ معاویہ سے خوف کھاتے اور ان کی غلطی پر چپ رہتے

سنن دارقطنی میں ہے
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ , ثنا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ , ثنا مُحَمَّدُ [ص:361] بْنُ يَزِيدَ , ثنا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ , عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ , قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِابْنِ عَبَّاسٍ: أَلَا تَعْجَبُ مِنْ مُعَاوِيَةَ إِنَّهُ يُوتِرُ بِرَكْعَةٍ , قَالَ: «أَحْسَنَ إِنَّهُ فَقِيهٌ»
ابن عباس نے کہا اچھا کیا یہ فقیہ ہیں

صحیح بخاری کی دوسری روایت ہے
حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا المُعَافَى، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: أَوْتَرَ مُعَاوِيَةُ بَعْدَ العِشَاءِ بِرَكْعَةٍ، وَعِنْدَهُ مَوْلًى لِابْنِ عَبَّاسٍ، فَأَتَى ابْنَ عَبَّاسٍ فَقَالَ: «دَعْهُ فَإِنَّهُ قَدْ صَحِبَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»
ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ نے کہا کہ معاویہ نے عشاء کے بعد ایک وتر پڑھا اور وہاں ابن عباس کا ایک مولی تھا (راقم کہتا ہے یہ عکرمہ ہو گا ) وہ ابن عباس کے پاس پہنچا اور ان سے سوال کیا ابن عباس نے کہا معاویہ کو تو نبی صلی الله علیہ وسلم کی صحبت حاصل ہے

ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ اور عکرمہ کے بیان میں فرق ہے عکرمہ کہتا ہے یہ وتر پرھنا ابن عباس کے سامنے ہوا اور جب معاویہ پڑھ رہے تھے ابن عباس نے سرگوشی میں ان کو گدھا کہا جبکہ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ کے مطابق عکرمہ وہاں اکیلا تھا بعد میں ابن عباس کے پاس آ کر اس نے سوال کیا

راقم کے خیال میں اس بات کو عکرمہ مولی ابن عباس نے بدلا ہے کیونکہ وہ خوارج جیسی سوچ رکھتا تھا لہذا عکرمہ نے ابن عباس کے الفاظ کو بدل دیا
عکرمہ اگر خارجی تھا تو اس کے نزدیک تقیہ یا کتمن جائز تھا – ابن عباس کے دیگر شاگرد ایسا بیان نہیں کرتے – ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ نے ابن عباس سے الگ قول منسوب کیا ہے

الکامل از ابن عدی میں عکرمہ پر سخت جرح ہے

ان کو كَانَ يرى رأي الخوارج رأي الصفرية کہا گیا یعنی گمراہ
ان کو ابن سیرین نے کذاب کہا
ان کا جنازہ اکثریت نے چھوڑ دیا

جواب

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتْ النَّصَارَى عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ، فَقُولُوا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
مسند حمیدی میں ہے
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ يَقُولُ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَلَى الْمِنْبَرِ يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ فَقُولُوا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ»
ابن عباس نے عمر کو منبر پر کہتے سنا کہ ایسا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
——
یہ روایت سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ کی سند سے ہے لیکن هشيم بن بشير الواسطي کہتے ہیں کہ امام الزہری نے گمان کیا کہ یہ نے ابن عبّاس سے روایت کیا تھا
مسند احمد میں ہے
حدثنا هُشَيم قال: زعم الزهري عن عبيد الله بن عبد الله بن ُعُتبة بن مسعود عن ابن عباس عن عمر أن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – قال: “لا تُطروني كما أطرت النصارى عيسى ابن مريم، فإنما أنا عبدُ الله ورسولُه

احمد شاکر کہتے ہیں
إسناده صحيح، هشيم بن بشير الواسطي: ثقة حجة، إلا أنهم تكلموا في سماعه من الزهري، وأنه سمع منه صحيفة فطارت منه فلم يحفظ منها إلا قليلا، وأنه يدلس في بعض روايته. وقوله هنا “زعم الزهري” قد يؤيد أنه لم يسمعه منه، ولكن الحديث ورد بأسانيد أخرى عن الزهري، فتبين أنه صحيح عنه.
اس کی اسناد صحیح ہیں – هشيم بن بشير الواسطي ہیں جو ثقہ حجت ہیں خبردار ان کے امام الزہری سے سماع پر کلام ہے انہوں نے ان سے بعض صحیفے سنے پھر کھو دیے اور یاد نہ رکھ سکے اور روایات میں ان سے تدلیس کرتے اور ان کا قول کہ زہری نے گمان کیا اس کی تائید کرتا ہے کہ ان کا سماع نہیں ہوا لیکن یہ حدیث صحیح ہے دوسری سند سے پس واضح ہوا یہ ان سے صحیح ہے

هشيم بن بشير الواسطي نے ایک حدیث سقیفہ بھی روایت کی ہے اس میں ابوبکر کی خلافت، رجم کے مسئلہ اور اس زیر بحث روایت کا ذکر ہے اس میں پر امام احمد کا کہنا ہے

وقال ابن هانىء: قلت (يعني لأبي عبد الله) ، كم منح لهشيم من حديث الزهري؟ قال: أربعة أحاديث حديث السقيفة: قد سمعه بطوله وقال، في الرجم منه: أخبرنا الزهري، وفي بعضه قال: ذكر الزهري، وسمعه بطوله، فلم يقل: أخبرنا الزهري.
ابن ھانی نے کہا میں نے امام احمد سے پوچھا کتنی بار هشيم بن بشير الواسطي پر امام زہری کی حدیث پر آزمائش کی گئی ؟ احمد نے کہا چار بار حدیث سقیفہ اس کو طوالت سے سنا اور اس میں رجم کا ذکر کیا اور کہا اخبرنا زہری اور بعض دفعہ کہا ذکر زہری اور پھر اخبرنا نہیں کہا

الغرض یہ روایت سفیان بن عیننہ کی سند سے صحیح ہے هشيم بن بشير الواسطي کی سند سے قابل قبول نہیں ہے