Category Archives: عبادت – Acts of Worship

شب برات پر کتاب

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

 

امام مہدی غائب ، امام ترمذی ، امام ابن ماجہ ، امام احمد  وغیرہ کی پیدائش سے سو سال پہلے سے  شب برات کی اہمیت کی روایات  اس امت میں موجود تھیں  جو ظاہر  کرتا ہے کہ اس رات کا امام مہدی سے کوئی تعلق نہیں ہے – تفصیل اس کتاب میں ہے

کتاب الصوم

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

رمضان کے حوالے سے اس ویب سائٹ پر موجود اجزاء کو جمع کر کے اس کتاب کو مرتب کیا گیا ہے

چونکہ یہ ماہ رمضان ہے لہذا اس حوالے سے اگر کوئی اہم سوال ہو تو پیش کریں اس کتاب میں شامل کر دیا  جائے گا

 

عبادات ٢

کیا قربانی ایک فوت شدہ انسان کی طرف سے بھی کی جا سکتی ہے – قربانی سے مراد یہ جو بقر عید پر کی جاتی ہےاور کیا قربانی ایک زندہ انسان کی طرف سے بھی کی جا سکتی ہے یا نہیں – یہنی اس انسان کی طرف سے جس پر قربانی واجب نہیں – یا قربانی کے برابر قیمت کسی انسان کو دے کر اس کی مدد کی جا سکتی ہے – کیا اس سے قربانی جتنا ثواب ہو گا
============
کیا کسی فوت شدہ آدمی کی طرف سے حج بدل کیا جا سکتا ہے – یا ایک ایسے آدمی کی طرف سے جس پر حج فرض نہیں اور وہ ابھی تک زندہ ہے اس کی تین سورتیں ہو سکتی ہیں
١.وہ آدمی زندہ ہو صحت مند ہو لیکن اس کے پاس وسائل نہ ہوں
٢.
وہ آدمی جو ابھی تک زندہ ہو لیکن اس کی صحت اچھی نہ ہو یا بوڑھا ہو
وغیرہ
جواب
فوت شدہ کا عمل ختم ہوا- اب ورثاء جو نیک عمل کریں گے اس کا ثواب اس کو ہو گا اگر زندگی میں نیکی کی تلقین کی تھی سعد بن عبادہ رضی الله عنہ کی والدہ والا واقعہ مخصوص ہے
————

جس پر قربانی واجب نہیں اس کے لئے اپ کو قربانی کرنے کی ضرورت ہے ؟اس کو اپ اپنی قربانی کا گوشت صدقه کر دیں

——–
ایک آدمی بیمار ہو لیکن مال دار ہو وہ کسی کو پیسے دے کر حج پر بھیج سکتا ہے
————-

جس کے پاس مال نہیں اس پر حج فرض نہیں

جواب
کان انسان کے سر میں لگے ہیں
الأذنان من الرأس

اس روایت کو ابن القطان نے صحیح کہا ہے

سنن ابو داود میں ہے
حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حمادٌ. (ح) وحدثنا مسدَّدٌ وقتيبةُ، عن حماد بن زيدٍ، عن سنان بن ربيعة، عن شهر بن حوشب، عن أبي أمامة، وذكر وضوء النبيِّ صلي الله عليه وسلم ، قال: كان رسول الله صلي الله عليه وسلم يمسح المأقين، قال: وقال: “الأذنان من الرأس” قال سليمان بن حرب: يقولها أبو أمامة. قال قتيبةُ: قال حمادٌ: لا أدري هو من قول النبي صلي الله عليه وسلم أو من أبي أمامة، يعني: قصة الأذنين. قال قتيبةُ: عن سنان أبي ربيعة. قال أبو داود: هو ابنُ ربيعة كنيتُهُ: أبو ربيعة” انتهى.

اس میں راوی کو ابہام ہے کہ یہ صحابی کا قول ہے یا رسول الله کا

فقہ کا اصول ہے کہ کسی مسئلہ میں قول نبوی نہیں تو قول صحابی لیا جائے گا – اس بنا پر کان کا مسح ہے

سنن نسائی میں کان کے مسح کو رسول الله کا طریقہ کہا گیا ہے
«بَاطِنِهِمَا بِالسَّبَّاحَتَيْنِ وَظَاهِرِهِمَا بَإِبْهَامَيْهِ
کان کے سوراخ والے حصہ کا مسح شہادت والی انگلی سے کیا اور سر والی جانب کا مسح اپنے انگوٹھے کے ساتھ فرمایا۔
سنن النسائي، کتاب الطھارۃ، باب مسح الأذنین مع الرأس وما یستدل بہ علی أنھما من الرأس

گردن کے مسح پر حسن احادیث ہیں
عن ابن عمرؓ ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال من توضا ومسح بیدیہ علی عنقہ و فی الغل یوم القیامہ ۔تلخیص الحبیر ج1 ص 288
ترجمہ :حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا جس شخص نے وضوء کیا اور ہاتھوں کے ساتھ گردن کا مسح کیا تو قیامت کے دن گردن میں طوق کے پہنائے جانے سے اس کی حفاظت کی جائے گی ۔
ابن حجر نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے تلخیص الحبیر ج1 ص 288 ۔ شوکانی نے بھی اس کی تصحیح کی ہے ۔ نیل الاوطار ج1 ص 123 مکتبہ دارالمعرفہ لبنان۔

حدیث: حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنْ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّهُ «رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُ رَأْسَهُ حَتَّى بَلَغَ الْقَذَالَ، وَمَا يَلِيهِ مِنْ مُقَدَّمِ الْعُنُقِ بِمَرَّةً» قَالَ الْقَذَالُ: السَّالِفَةُ الْعُنقُ
مسند احمد ج3 ص 481 حدیث نمبر 15951
ترجمہ :حضرت طلحہ بروایت اپنے والد ، اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ اپنے سر پر مسح کر رہے ہیں یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اپنے ہاتھ) سر کے آخری حصے اور اس سے متصل گردن کے اوپر کے حصے تک ایک بار لے گئے ۔
: شعيب نے اس کو ضعیف کہا ہے

شعیب نے مسند احمد کی تعلیق میں ابن حجر کا قول لکھا ہے کہ حدیث میں الفاظ سے لوگوں نے گردن مراد لی ہے
وحديث المقدام بن معديكرب، وفيه: فلما بلغ مسح رأسه وضع كفيه على مقدم رأسه، ثم مر بهما حتى بلغ القفا. وحديث المقدام إسناده ضعيف. … قال الحافظ في “التلخيص”: ولعل مستند البغوي في مسح القفا (يعني العنق هنا
یہ روایات ضعیف ہیں لیکن فقہ میں انہی کو حسن کہا جاتا ہے اور دلیل لی جاتی ہے – لیکن جو مضبوط اسناد ہیں ان میں گردن کا مسح کا ذکر نہیں ہے

یعنی یہ گردن کا مسح ایک اضافی عمل ہے ضروری نہیں اگر پانی ہے تو کیا جا سکتا ہے – پانی کم ہے تو نہ کیا جائے

حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا وكيع، حدثنا عبد الرحمن بن زيد بن اسلم، عن ابيه، عن عطاء بن يسار، عن ابي سعيد الخدري، قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ ” من نام عن الوتر او نسيه فليصل إذا ذكر وإذا استيقظ “.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو وتر پڑھے بغیر سو جائے، یا اسے پڑھنا بھول جائے تو جب یاد آئے یا جاگے پڑھ لے“۔

جواب
اس کی سند صحیح نہیں ہے
العلل امام احمد میں ہے
وكان أبي يضعف عبد الرحمن بن زيد بن أسلم، وذلك أنه روى هذا الحديث، عن أبيه، عن عطاء بن يسار، عن أبي سعيد، عن النبي – صلى الله عليه وسلم
میرے باپ ایک حدیث کی وجہ سے عبد الرحمان بن زید کو ضعیف کہتے کہ اس نے یہ عن أبيه، عن عطاء بن يسار، عن أبي سعيد، عن النبي – صلى الله عليه وسلم سے روایت کی
قال الترمذي: ضعيف في الحديث، ضعفه أحمد بن حنبل، وعلي بن المديني، وغيرهما من أهل الحديث، وهو كثير الغلط. «جامع الترمذي»
ترمذی نے کہا یہ بہت غلطیاں کرتا ہے اور احمد علی المدینی اور دیگر محدثین نے اس کو ضعیف کہا ہے

صحیح بخاری میں ہے
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ اوْصَانِي خَلِيلِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَلَاثٍ صِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَرَكْعَتَيْ الضُّحَى وَأَنْ أُوتِرَ قَبْلَ أَنْ أَنَامَ
ابو ہریرہ نے کہا رسول الله نے وصیت کی وتر سونے سے پہلے پڑھ لو

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اجْعَلُوا آخِرَ صَلَاتِكُمْ بِاللَّيْلِ وِتْرًا
ابن عمر نے کہا رسول الله نے حکم کیا آخری نماز وتر کی کرو

جو تہجد میں اٹھ نہ سکے اس کو چاہیے کہ وتر پڑھ کر سو جائے

وتر کا وقت فجر سے پہلے تک ہے

اب اگر اپ تهجد مين اٹھنا بھول گئیں تو صبح ہونے کے بعد نوافل پڑھ سکتی ہیں وتر نہیں
وَكَانَ نَبِيُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى صَلَاةً أَحَبَّ أَنْ يُدَاوِمَ عَلَيْهَا، وَكَانَ إِذَا غَلَبَهُ نَوْمٌ، أَوْ وَجَعٌ عَنْ قِيَامِ اللَّيْلِ صَلَّى مِنَ النَّهَارِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً،
عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ رسول کریمﷺ جب کبھی غلبۂ نیند یا کسی تکلیف کی بنا پر قیام اللیل نہ کر پاتے تو دن میں 12 رکعتیں ادا فرماتے

رسول الله کا معمول ١١ رکعات تھا جس میں وتر طاق ہوتے یا تو ایک رکعت یا تین یا پانچ
لیکن وتر نوافل ملا کر ١١ رکعتین تھیں بھول جانے پر اپ صلی الله علیہ وسلم دوسرے دن ١٢ رکعتین پڑھتے

  ۔ بخاری جلد 1 کتاب نمبر 10 حدیث نمبر 566 روایت عائشہ رضی اللہ عنھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عصر کے بعد دو رکعت کبھی نہی چھوڑتے تھے یعنی ہمیشہ پڑھتے تھے۔
2۔ بخاری جلد 1 کتاب نمبر 10 حدیث نمبر 562 روایت ابوھریرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عصر کے بعد سورج غروب ہونے تک کوئی نماز نہی پڑھتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد سے لیکر سورج غروب ہونے تک   کسی بھی نوافل یا سنت سے منع فرمایا ہے۔
جواب
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ أَيْمَنَ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي أَنَّهُ سَمِعَ عَائِشَةَ قَالَتْ وَالَّذِي ذَهَبَ بِهِ مَا تَرَكَهُمَا حَتَّى لَقِيَ اللَّهَ وَمَا لَقِيَ اللَّهَ تَعَالَى حَتَّى ثَقُلَ عَنْ الصَّلَاةِ وَكَانَ يُصَلِّي كَثِيرًا مِنْ صَلَاتِهِ قَاعِدًا تَعْنِي الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّيهِمَا وَلَا يُصَلِّيهِمَا فِي الْمَسْجِدِ مَخَافَةَ أَنْ يُثَقِّلَ عَلَى أُمَّتِهِ وَكَانَ يُحِبُّ مَا يُخَفِّفُ عَنْهُمْصحیح بخاری کتاب مواقیت الصلاۃ باب ما یصلى بعد العصر من الفوائت ونحوھا ح 590اس ذات کی قسم جس نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو وفات دی ہے آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے یہ دو رکعتیں کبھی نہیں چھوڑیں حتى کہ خالق حقیقی سے جاملے ۔ اور آپ صلى اللہ علیہ وسلم اس وقت تک رفیق اعلى سے نہیں ملے جبتک آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے لیے نماز مشکل نہیں ہوئی اور آپ صلى اللہ علیہ وسلم اکثر بیٹھ کر نماز ادا کرتے تھے یعنی عصر کے بعد والی دو رکعتیں اور نبی صلى اللہ علیہ وسلم یہ دو رکعتیں پڑھتے تھے لیکن مسجد میں نہیں بلکہ گھر میں پڑھتے تھے کیونکہ آپ کو ڈر تھا کہ کہیں امت پر مشقت نہ ہو اور آپ صلى اللہ علیہ وسلم امت کے لیے تخفیف پسند فرماتے تھے۔
مسند احمد میں ہےحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، وَمَسْرُوقٍ، أَنَّهُمَا قَالَا: نَشْهَدُ عَلَى عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: ” مَا كَانَ يَوْمُهُ الَّذِي يَكُونُ عِنْدِي إِلَّا صَلَّاهُمَا (2) رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي ” تَعْنِي: الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ
یہ عمل رسول الله خود کرتے تھے اس کا حکم نہیں کرتے تھے
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ أَبِي [ص:121] أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: ” أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ بَيْعَتَيْنِ، وَعَنْ لِبْسَتَيْنِ وَعَنْ صَلاَتَيْنِ: نَهَى عَنِ الصَّلاَةِ بَعْدَ الفَجْرِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ العَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَعَنِ اشْتِمَالِ الصَّمَّاءِ، وَعَنْ الِاحْتِبَاءِ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ، يُفْضِي بِفَرْجِهِ إِلَى السَّمَاءِ، وَعَنِ المُنَابَذَةِ، وَالمُلاَمَسَةِ ”
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ۔”رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد نماز سے منع فرمایا، یہاں تک کہ سورج غروب ہوجائے اور نماز ِصبح کے بعد ،حتی کہ سورج طلوع ہوجائے۔(صحیح بخاری : ٥٨٨ ، صحیح مسلم : ٨٢٥)
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ المَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ قَزَعَةَ، مَوْلَى زِيَادٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ، وَقَدْ غَزَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ غَزْوَةً، قَالَ: أَرْبَعٌ سَمِعْتُهُنَّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ قَالَ: – يُحَدِّثُهُنَّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، فَأَعْجَبْنَنِي وَآنَقْنَنِي: ” أَنْ لاَ تُسَافِرَ امْرَأَةٌ مَسِيرَةَ يَوْمَيْنِ لَيْسَ مَعَهَا زَوْجُهَا، أَوْ ذُو مَحْرَمٍ، وَلاَ صَوْمَ يَوْمَيْنِ الفِطْرِ وَالأَضْحَى، وَلاَ صَلاَةَ بَعْدَ صَلاَتَيْنِ بَعْدَ العَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَلاَ تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلاَثَةِ مَسَاجِدَ: مَسْجِدِ الحَرَامِ، وَمَسْجِدِي، وَمَسْجِدِ الأَقْصَى ”
صحیح بخاری ١٨٦٤ میں ہے
یہ رسول الله امت کو حکم کرتے تھے البتہ میں اس آخری روایت وَلاَ تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلاَثَةِ مَسَاجِدَ: مَسْجِدِ الحَرَامِ، وَمَسْجِدِي، وَمَسْجِدِ الأَقْصَى کو صحیح نہیں سمجھتا

جواب یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے پڑھی ہیں جو فرض سے الگ ہیں لوگوں کی جانب سے ان رکعات کو سنت موکدہ کہا گیا ہے  سنت موکدہ اور غیر موکدہ یہ سب متاخرین کی تقسیم ہیں- موکدہ مطلب جس کی جن کی تاکید کی جبکہ حدیث میں ان سنتوں کی تاکید کا کوئی ذکر نہیں – سنت بھی نفل ہیں جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے پڑھے اور یہ تمام ١٢ رکعت ہیں
اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:سمعت رسول اﷲﷺ یقول: «من صلّىٰ اثنتی عشرة رکعة في یوم ولیلة بُني له بهن بیت في الجنة» (صحیح مسلم:٧٢٨)

ترجمہ:میں نے رسول اللہﷺ سے سنا كہ جو شخص دن اور رات میں ١٢ رکعات پڑھ لے، اُن کی وجہ سے اس کے لئے جنت میں ایک محل بنا دیا جاتا ہے۔
اس روایت میں کوئی تاکید نہیں ہے کہ یہ ضرور پڑھے ورنہ گناہ ہے – تاکیدی حکم الگ ہیںاب اپ جمع کریں جس کو سنت موکدہ کہا جاتا ہے ان کی تعداد ہے
فجر کی دو سنت ظہر کی چھ مغرب کی دواور عشاء کی دو رکعات ٹوٹل ہوا بارہ
اس طرح یہ نفل ہیں جو ١٢ کی تعداد میں پڑھے گئےالله نے ہم پر پانچ وقت کی نماز فرض کی ہے – اس کے بعد جنت میں محل چاہیے تو یہ مزید بارہ رکعات پڑھ لیں
واجب وہ ہے جو فرض نہیں لیکن کیا گیا اس میں نماز جنازہ ہے نماز عید ہے اور اس پر فقہاء کی رائے ہے کہ محلہ میں سے چند لوگ یا شہر کے لوگ کر دیں تمام نہ بھی کریں تو کافی ہے

Sahih Muslim Hadees # 2666

وحَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ أُمَيَّةَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا غَطَفَانَ بْنَ طَرِيفٍ الْمُرِّيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: حِينَ صَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّهُ يَوْمٌ تُعَظِّمُهُ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَإِذَا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ إِنْ شَاءَ اللهُ صُمْنَا الْيَوْمَ التَّاسِعَ» قَالَ: فَلَمْ يَأْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ، حَتَّى تُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

حسن بن علی حلوانی ، ابن ابی مریم ، یحییٰ بن ایوب ، اسماعیل بن امیہ ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کے دن روزہ رکھا اور اس کے روزے کا حکم فرمایا تو انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اس دن تو یہودی اور نصاریٰ تعظیم کرتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب آئندہ سال آئے گا تو ہم نویں تاریخ کا بھی روزہ رکھیں گے راوی نے کہا کہ ابھی آئندہ سال نہیں آیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ۔

بھائی اس حدیث کے مطابق تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اگلے سال یہودو نصارہ کی مخالفت میں نو کا روزہ رکھنے کا بھی ارادہ تھا اب سوال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں معلوم تھا کہ یہود کا کلنڈر عربوں کے کلنڈر سے مختلف ہے اگلے سال یہ دونوں مہینے نہیں مل پائے گے یہودکی النسی کی وجہ سے۔ پھر بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اگلے سال نو کا روزہ رکھنے کا ارادہ کیا پلیز اس بارے میں رہنمائی فرما دیجیئے جزاک اللہ۔

جواب

یہ روایت میرے نزدیک صحیح نہیں معلول ہے

اس کی علت ہے

اول : سند میں أبو غطفان بن طريف ہے جو مجہول ہے – لسان میزان میں ہے
أبو غطفان [الظاهر أنه أبو غطفان بن طريف المري] عن أبي هريرة. لا يدرى من هو. قال الدارقطني: مجهول.
والظاهر أنه أبو غطفان بن طريف المري فما هو بمجهول قد وثقه غير واحد. انتهى. وهو في التهذيب ويبعد هذا الظاهر أن مثل الدارقطني لا يخفى عليه حال المري وقد جزم بأن هذا مجهول.
أبو غطفان [ظاہر ہوتا ہے کہ یہ أبو غطفان بن طريف المري] أبي هريرة سے روایت کرتا ہے نا معلوم کون ہے اور دارقطنی نے کہا مجہول ہے
اور ظاہر ہے کہ أبو غطفان بن طريف المري جو مجہول نہیں ہے اس کو ایک سے زائد نے ثقہ کہا ہے انتھی اور یہ التہذیب میں بھی ہے اور بعید ہے کہ دارقطنی پر اس کا حال مخفی رہا ہو اور ان کا جزم یہ ہے کہ یہ مجہول ہے

راقم کہتا ہے یہ مجہول ہے اس کے ابن سعد نے صرف یہ لکھا ہے یہ مروان کا کاتب تھا
نسائی نے الکنی میں کسی أَبُو غطفان کو ثقہ کہا ہے لیکن واضح نہیں کہ یہی مراد ہے یا کوئی اور ہے

کتاب مَنْ تَكلَّم فيه الدَّارقطني في كتاب السنن من الضعفاء والمتروكين والمجهولين (فيه أكثر من مائتي ترجمة ليست في سنن الدارقطني المطبوع) از المؤلف: محمد بن عبد الرحمن بن محمد بن أحمد بن التقي سليمان بن حمزة المقدسي ثم الصالحي ناصر الدين المعروف بابن زريق (المتوفى: 803هـ) کے مطابق دارقطنی نے اس کو قوی نہیں بھی کہا ہے

أبو غطفان المري عن أبي هريرة. ليس بالقوي (1). قاله الدارقطني

دوسری علت اس کے متن میں ہے
يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّهُ يَوْمٌ تُعَظِّمُهُ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى
اس دن کی تعظیم یہود و نصرانی کرتے ہیں

راقم کہتا ہے یہ قول حقیقت کے خلاف ہے – نصرانی اس دن کی کوئی تعظیم نہیں کرتے
یاد رہے کہ نصرانییوں کے مطابق توریت کلعدم ہے اور عیسیٰ کے صلیب کا حکم بھی یوم عید فسخ کو دیا گیا تھا لہذا یہ دن ان کے نزدیک لائق تعظیم نہیں ہے

تیسری علت
یہ واقعہ پہلی ہجری کا ہے جب یہود سے خبر ملی کہ یوم عاشور عید فسخ کا دن ہے
اس کے بعد دو ہجری میں رمضان کے روزے فرض ہوئے اور عاشور کا روزہ نفلی کر دیا گیا

گویا ١١ سال تک دس کا ہی روزہ رکھا جاتا رہا اور بارہویں سال جب مدینہ میں یہود کے اکا دکا افراد تھے خیال ہوا کہ یہود کی مخالفت ہونی چاہیے کہ کہ روایت میں ہے میں اگلے سال (یعنی ١٢ ھ میں بھی زندہ رہا تو) نو تاریخ کا روزہ بھی رکھوں گا – یہ سب ممکنات میں سے نہیں ہے

معاویہ رضی الله عنہ سے مروی ہے
«هَذَا يَوْمُ عَاشُورَاءَ، وَلَمْ يُفْرَضْ عَلَيْنَا صِيَامُهُ،
یہ دن یوم عَاشُورَاءَ ہے اس کا روزہ فرض نہیں ہے
یہ حدیث معاویہ نے اس وقت سنائی جب حج کیا تو وہاں سب کو خبر کیوں نہیں کی کہ نو کا روزہ بھی رکھنا چاہیے

مسلم نے ایک روایت دی ہے کہ ابن عباس نے نو تاریخ کا روزہ رکھا اور اس کو یوم عاشورا قرار دیا
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ، عَنْ حَاجِبِ بْنِ عُمَرَ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ الْأَعْرَجِ، قَالَ: انْتَهَيْتُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، وَهُوَ مُتَوَسِّدٌ رِدَاءَهُ فِي زَمْزَمَ، فَقُلْتُ لَهُ: أَخْبِرْنِي عَنْ صَوْمِ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ: «إِذَا رَأَيْتَ هِلَالَ الْمُحَرَّمِ فَاعْدُدْ، وَأَصْبِحْ يَوْمَ التَّاسِعِ صَائِمًا»، قُلْتُ: هَكَذَا كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُهُ قَالَ: «نَعَمْ»
الْحَكَمِ بْنِ الْأَعْرَجِ نے کہا ہم ابن عباس کے پاس رکے .. وہ زمزم کے پاس تھے ان سے میں نے کہا مجھ کو یوم عَاشُورَاءَ کے روزے کی خبر دیں – کہا جب محرم کا چاند دیکھو گننا شروع کرو اور نو کی صبح ہو تو تم روزے سے ہو – میں نے پوچھا کیا اسی طرح رسول الله صلی الله علیہ وسلم رورہ رکھتے تھے ؟ ابن عباس نے کہا ہاں

اس کی سند میں حاجب بن عمر بن عبد الله بن إسحاق ہے اور الحكم بن عَبد اللَّهِ بن إسحاق الأعرج البَصْرِيّ ہے دونوں بہت مضبوط نہیں
یہ روایت شاذ ہے – اس کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم تو رکھتے ہی نو تاریخ کا روزہ تھے
ابن عباس سے ہی مروی دوسری روایت میں ہے کہ دس محرم کا دن عَاشُورَاءَ کا دن تھا

بحث اس روایت پر ہو رہی ہے کہ نو کا رکھنے کا انہوں نے سوچا لیکن وفات ہو گئی یعنی یہ متضاد روایات ہیں جبکہ صحیح مسلم کی اس روایت میں ہے نو کا روزہ رسول الله بھی رکھتے تھے جو یوم عَاشُورَاءَ تھا

متابعت بھی ضعیف ہے – امام مسلم نے ایک اور حدیث دی ہے
وحَدَّثَنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَبُو كُرَيْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَيْرٍ، – لَعَلَّهُ قَالَ: – عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “لَئِنْ بَقِيتُ إِلَى قَابِلٍ لَأَصُومَنَّ التَّاسِعَ” وَفِي رِوَايَةِ أَبِي بَكْرٍ: قَالَ: يَعْنِي يَوْمَ عَاشُورَاء. , (م) 134 – (1134)
اسی سند و متن سے ابن ماجہ اور مسند احمد میں ہے

اس کی سند میں القاسم بن عَبَّاس بن مُحَمَّد بن معتب بن أَبي لهب القرشي الهاشمي ہے – امام علي بْن المديني سے اس پر سوال ہوا کہا
لم يروه عنه غير ابن أَبي ذئب، والقاسم مجهول
اس سے ابن أَبي ذئب کے سوا کوئی روایت نہیں کرتا اور قاسم مجہول ہے

عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے:
كان يومُ عاشوراءَ تصومُه قريشٌ في الجاهليةِ، وكان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يصومُه، فلما قَدِمَ المدينةَ صامه وأمَر بصيامِه، فلما فُرِضَ رمضانُ ترك يومَ عاشوراءَ، فمَن شاء صامه ومَن شاء ترَكَه .(صحيح البخاري:2002)
ترجمہ : قریش کے لوگ دورِ جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ روزہ رکھتے تھے۔ پھر جب آپ مدینہ تشریف لے آئے تو تب بھی عاشوراء کا روزہ رکھتے اور صحابہ کرام کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا آپ نے حکم دے رکھا تھا۔ البتہ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کی فرضیت ختم ہوگئی۔ لہٰذا اب جو چاہے یہ روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔

یہ روایت متنا اس حدیث سے زیادہ صحیح ہے جس میں ہے کہ یہود کی عید فسخ کی وجہ سے یہ روزہ رکھا گیا

 ایک آدمی کے تین بیٹے ہیں وہ تینوں کماتے ہیں لیکن وہ رہتے اکٹھے ہیں تو کیا تینوں بیٹوں پر قربانی کرنا لازم ہو جائے گایا صرف ابا کر لیں تو پوری فیملی کی طرف سے قربانی اد ا ہو جائے گی؟بال اور ناخن نہ کاٹنا صرف قربانی کرنے والے کیلے ہیں یا تمام گجر کے افراد کیلئے یہ حکم ہو گا؟
جواب اگر تینوں بیٹے ایک گھر میں ہیں اور کھانا بھی مل کر کھاتے ہیں تو ایک قربانی کافی ہےلیکن اگر یہ مرد شادی شدہ ہیں ان کی ہنڈیا الگ الگ پکتی ہے تو ان سب کو الگ الگ قربانی کرنی ہے
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی نو ازواج ایک وقت میں تھیں لیکن کسی حدیث میں نہیں کہ ہر ایک کے لئے قربانی الگ الگ ہوتی ہوترمذی میں ہے
بَابُ مَا جَاءَ أَنَّ الشَّاةَ الوَاحِدَةَ تُجْزِي عَنْ أَهْلِ البَيْتِ (ایک بکری کی قربانی ایک گھر کے تمام افراد کی طرف سے کافی ہو جاتی ہے )عَطَاءَ بْنَ يَسَارٍ يَقُولُ: سَأَلْتُ أَبَا أَيُّوبَ الأَنْصَارِيَّ: كَيْفَ كَانَتِ الضَّحَايَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: كَانَ الرَّجُلُ يُضَحِّي بِالشَّاةِ عَنْهُ وَعَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، فَيَأْكُلُونَ وَيُطْعِمُونَ حَتَّى تَبَاهَى النَّاسُ، فَصَارَتْ كَمَا تَرَى.هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَعُمَارَةُ بْنُ عَبْدِ اللهِ مَدِينِيٌّ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ العِلْمِ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ، وَاحْتَجَّا بِحَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ ضَحَّى بِكَبْشٍترجمہ :عطا بن یسار کہتے ہیں ،میں نے ابو ایوب انصاری سے پوچھا ،کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں قربانیاں کس طرح کرتے تھے ،انہوں نے بتایا کہ :ہر آدمی ایک بکری اپنی اور اپنے سارے گھر والوں کی طرف قربان کرتا تھا ،اور سب اسی کو خود بھی کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے ؛لیکن بعد میں لوگوں نے فخر ونمود کا مظارہ کیا ،اور اب جو صورت ہے وہ تم دیکھ رہے ہو امام ترمذی کہتے ہیں :یہ حدیث حسن صحیح ہے ،اور امام احمد بن حنبل اور اسحاق بن راھویہ اور دیگر کئی اہل علم کا یہی قول ہے ؛
صحیح بخاری میں ہےحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ هُوَ ابْنُ أَبِي أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو عَقِيلٍ زُهْرَةُ بْنُ مَعْبَدٍ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ هِشَامٍ، وَكَانَ قَدْ أَدْرَكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَهَبَتْ بِهِ أُمُّهُ زَيْنَبُ بِنْتُ حُمَيْدٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بَايِعْهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هُوَ صَغِيرٌ» فَمَسَحَ رَأْسَهُ، وَدَعَا لَهُ، وَكَانَ يُضَحِّي بِالشَّاةِ الوَاحِدَةِ عَنْ جَمِيعِ أَهْلِهِ
رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سارے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرتے تھے
ناخن اور بال کاٹنا اس کے لئے ہے جو قربانی کر رہا ہو
ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم ماہ ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کسی کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے بالوں اور ناخنوں کو روکے رکھے۔

 

جواب
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، وَعَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، وَعَنِ الأَعْرَجِ يُحَدِّثُونَهُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ أَدْرَكَ مِنَ الصُّبْحِ رَكْعَةً قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَقَدْ أَدْرَكَ الصُّبْحَ، وَمَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ العَصْرِ قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فَقَدْ أَدْرَكَ العَصْرَ
جس نے طلوع آفتاب سے پہلے نماز فجر کی ایک رکعت کو پا لیا اس نے گویا نماز فجر کو پا لیا اور جس نے غروب آفتاب سے پہلے عصر کی ایک رکعت پا لی وہ نماز عصر پانے میں کامیاب ہو گیا۔(صحیح بخاری ،مواقیت :۵۷۹)———–حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، وَاسْمُهُ يَحْيَى بْنُ مَالِكٍ الْأَزْدِيُّ وَيُقَالُ الْمَرَاغِيُّ، وَالْمَرَاغُ حَيٌّ مِنَ الْأَزْدِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «وَقْتُ الظُّهْرِ مَا لَمْ يَحْضُرِ الْعَصْرُ، وَوَقْتُ الْعَصْرِ مَا لَمْ تَصْفَرَّ الشَّمْسُ، وَوَقْتُ الْمَغْرِبِ مَا لَمْ يَسْقُطْ ثَوْرُ الشَّفَقِ، وَوَقْتُ الْعِشَاءِ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ، وَوَقْتُ الْفَجْرِ مَا لَمْ تَطْلُعِ الشَّمْسُ
ظہر كا وقت زوال سے ليكر آدمى كے سائے كے برابر ہونے ( يعنى ) عصر كا وقت شروع ہونے تك رہتا ہے، اور عصر كا وقت سورج كے زرد ہونے تك ہے، اور مغرب كا وقت سرخى غائب ہونے تك ہے، اور عشاء كا وقت درميانى نصف رات تك ہے، اور صبح كى نماز كا وقت طلوع فجر سے ليكر سورج طلوع ہونے تك ہے، جب سورج طلوع ہو جائے تو نماز پڑھنے سے رك جاؤ كيونكہ وہ شيطان كے سينگوں كے درميان طلوع ہوتا ہے”
صحيح مسلم حديث نمبر 612

—————-
وہابی صالح المنجد کے نزدیک اس سے دو وقت نکلتے ہیںhttps://islamqa.info/ur/9940” اور عصر كا وقت اس وقت تك ہے جب تك سورج زرد نہ ہو ”
عصر كى ابتدائى وقت ہم معلوم كر چكے ہيں كہ ظہر كا وقت ختم ہونے ( يعنى ہر چيز كا سايہ اس كے برابر ہونے كے وقت ) سے شروع ہوتا ہے، اور عصر كى انتہاء كے دو وقت ہيں:
( 1 ) اختيارى وقت:
يہ عصر كے ابتدائى وقت سے ليكر سورج زرد ہونے تك ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” عصر كا وقت جب تك سورج زرد نہ ہو جائے ”
يعنى جب تك سورج پيلا نہ ہو جائے، اس كا گھڑى كے حساب سے موسم مختلف ہونے كى بنا پر وقت بھى مختلف ہو گا.
( 2 ) اضطرارى وقت:
يہ سورج زرد ہونے سے ليكر غروب آفتاب تك ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” جس نے سورج غروب ہونے سے قبل عصر كى ايك ركعت پا لى اس نے عصر كى نماز پالى ”

———-

صحیح مسلم کی روایت پر محدثین کہتے ہیں یہ مرفوع ہے یا نہیں اس میں کلام ہے مسند البزار میں ہےوَسَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ فَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَشُعْبَةُ رَفَعَهُ عَنْهُ مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْوَاسِطِيُّ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ عَنْهُ غَيْرُهُ، وَرَفَعَهُ هِشَامٌ، وَهَمَّامٌ، وَاسْمُ أَبِي أَيُّوبَ يَحْيَى بْنُ مَالِكٍ سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ نے اس کو مرفوع کیا ہے- شعبہ سے اس کو مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْوَاسِطِيُّ، نے مرفوع روایت کیا ہے لیکن اوروں نے ، هِشَامٌ، وَهَمَّامٌ نے اس کو مرفوع کیا ہے
یعنی یہ عبد الله بن عمرو کا قول ہے حدیث نبوی ہے یا نہیں اس می راوی اختلاف کرتے ہیں

========
صحیح بخاری کی روایت میں یہ مسائل نہیں جو صحیح مسلم کی سند میں ہیں

جواب
مصنف عَبْدُ الرَّزَّاقِ، 8156 ہے
– عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ قَالَ: سَمِعْتُ بِلَالًا يَقُولُ: «مَا أُبَالِي لَوْ ضَحَّيْتُ بِدِيكٍ، وَلَأَنْ أَتَصَدَّقَ بِثَمَنِهَا عَلَى يَتِيمٍ أَوْ مُغَبَّرٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أُضَحِّيَ بِهَا» قَالَ: فَلَا أَدْرِي أَسُوَيْدٌ قَالَهُ مِنْ قِبَلِ نَفْسِهِ أَوْ هُوَ مِنْ قَوْلِ بِلَالٍ
عِمْرَانَ بْنِ مُسْلِمٍ نے کہا سوید بن غفله نے کہا بلال نے کہا مجھے کوئی پرواہ نہیں اگر میں مرغا ذبح کروں … عِمْرَانُ بْنُ مُسْلِمٍ الْجُعَفِيُّ الْكُوفِيُّ الضَّرِيرُ نے کہا نا معلوم یہ سوید نے خود اپنی طرف سے کہا یا یہ قول بلال رضی الله عنہ ہے
اس میں سند صحیح ہے البتہ ابہام ہے کہ یہ قول کس کا ہے سوید صحابی نہیں ہے

صحيح مسلم: كِتَابُ الطَّهَارَةِ (بَابٌ تَبْلُغُ الْحِلْيَةُ حَيْثُ يَبْلُغُ الْوُضُوءُ) صحیح مسلم: کتاب: پاکی کا بیان (زیور وہاں تک پہنچے گا جہاں تک وضو کا پانی پہنچے گا)
586
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا خَلَفٌ يَعْنِي ابْنَ خَلِيفَةَ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: كُنْتُ خَلْفَ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَهُوَ يَتَوَضَّأُ لِلصَّلَاةِ فَكَانَ يَمُدُّ يَدَهُ حَتَّى تَبْلُغَ إِبْطَهُ فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ مَا هَذَا الْوُضُوءُ؟ فَقَالَ: يَا بَنِي فَرُّوخَ أَنْتُمْ هَاهُنَا؟ لَوْ عَلِمْتُ أَنَّكُمْ هَاهُنَا مَا تَوَضَّأْتُ هَذَا الْوُضُوءَ، سَمِعْتُ خَلِيلِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «تَبْلُغُ الْحِلْيَةُ مِنَ الْمُؤْمِنِ، حَيْثُ يَبْلُغُ الْوَضُوءُ»
حکم : صحیح 586
ابو حازم سے روایت ہے ، انہوں نےکہا: میں ابو ہریرہ  کے پیچھے کھڑا تھا اور وہ نماز کے لیے وضو کر رہے تھے ، وہ اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ،یہاں تک کہ بغل تک پہنچ جاتا، میں نے ان سے پوچھا: اے ابو ہریرہ ! یہ کس طرح کا وضو ہے؟ انہوں نے جواب دیا: اے فروخ کی اولاد (اے بنی فارس)! تم یہاں ہو ؟ اگر مجھے پتہ ہوتا کہ تم لوگ یہاں کھڑے ہو تو میں اس طرح وضو نہ کرتا ۔ میں نے ا پنے خلیل کو فرماتے ہوئے سناتھا:’’ مومن کازیور وہاں پہنچے گا جہاں اس کے وضو کا پانی پہنچے گا۔جواب
اس کی سند صحیح ہے لیکن اس میں وضو میں اضافہ ہے جو ابو ہریرہ رضی الله عنہ کا اجتہاد ہےابو ہریرہ یہ وضو دوسروں سے چھپاتے بھی تھے کیونکہ یہ معروف میں سے نہیں تھا

[EXPAND  عرفہ کے روزے پر مزید سوالات ہیں]

سنن أبي داؤد: كِتَابُ الصَّیامِ (بَابٌ فِي صَوْمِ الْعَشْرِ) سنن ابو داؤد: کتاب: روزوں کے احکام و مسائل (باب: عشرہ ذی الحجہ میں روزوں کا بیان)
2437
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنِ الْحُرِّ بْنِ الصَّبَّاحِ، عَنْ هُنَيْدَةَ بْنِ خَالِدٍ عَنِ امْرَأَتِهِ، عَنْ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ تِسْعَ ذِي الْحِجَّةِ، وَيَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، أَوَّلَ اثْنَيْنِ مِنَ الشَّهْرِ وَالْخَمِيسَ.
حکم : صحیح 2437
امہات المؤمنین میں سے ایک کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحجہ کے ( پہلے ) نو دن ، عاشورہ محرم ، ہر مہینے میں تین دن اور ہر مہینے کے پہلے سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے ۔
اب کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے یہ روزہ حاجیوں پر نہیں ہے لیکن دوسرے لوگوں کے لئے ہے جو حج پر نہیں ہیں

جواب شعیب نے مسند احمد میں اس کو ضعيف لاضطرابه قرار دیا ہے
قال الدكتور أحمد الغامدي، مدير عام هيئة الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر بمنطقة مكة سابقًا، إن حديث فضل صيام يوم عاشوراء وتكفير الصيام لسنة ماضية هو حديث “ضعيف” بعكس ما هو مشتهر.
الدكتور أحمد الغامدي، مدير عام هيئة الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر بمنطقة مكة نے کہا صحیح مسلم کی ابو قتادہ والی حدیث ضعیف ہے

http://www.ajel.sa/local/1798686

وقال نصًّا، إن الحديث “رواه عبدالله بن معبد الزماني عن أبي قتادة، وعبدالله بن معبد لا يعرف له سماع عن أبي قتادة، قاله البخاري في الكبير، وأخرج ابن عدي الحديث في الكامل وقال: (وهذا الحديث هو الحديث الذي أراد البخاري أن عبدالله بن معبد لا يعرف له سماع من أبي قتادة)، وهذا يعني أن البخاري يضعف إسناده بالانقطاع، وإقرار من نقل ذلك يعد موافقة له” حسب قوله
عرفہ کا روزہ رکھنے پر گناہ معاف ہونے والی جس حدیث کو امام مسلم نے بیان کیا ہے امام بخاری کے نزدیک اس کی سند میں انقطاع ہے
مَيْمُونَةَ رضی الله عنہا کی صحیح مسلم میں روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے روزہ نہیں رکھاامام بخاری اس سلسلے میں صرف ایک حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے روزہ نہیں رکھا
صحیح بخاری کی روایت 1658 ہے

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنَا سَالِمٌ قَالَ: سَمِعْتُ عُمَيْرًا مَوْلَى أُمِّ الفَضْلِ، عَنْ أُمِّ الفَضْلِ، شَكَّ النَّاسُ يَوْمَ عَرَفَةَ فِي صَوْمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، «فَبَعَثْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَرَابٍ فَشَرِبَهُ» أُمِّ الْفَضْلِ بِنْتِ الْحَارِثِ کہتی ہیں ہم نے یوم عرفہ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس دودھ بھیجا یہ دیکھنے کہ روزہ ہے یا نہیں تو اپ نے وہ دودھ پی لیا
موطا امام مالک کی روایت ١٣٨٩ یا ٣٨٨ ہے
عقبة بن عامر الجهني عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: “إن أيام الأضحى وأيام التشريق ويوم عرفة عيدنا أهل الإسلام أيام أكل وشرب

نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا یوم عرفہ اوریوم النحر اور ایام تشریق ہم اہل اسلام کی عید کےدن ہیں اوریہ سب کھانے پینے کے دن ہیں ۔
البناية شرح الهداية از المؤلف: أبو محمد محمود بن أحمد بن موسى بن أحمد بن حسين الغيتابى الحنفى بدر الدين العينى (المتوفى: 855هـ) میں ہے

وكره صوم يوم عرفة عند الشافعي – رَحِمَهُ اللَّهُ

امام شافعی یوم عرفہ کے دن روزہ سے کراہت کرتے
قولی حدیث میں اس دن کو کھانے پینے کا دن کہا گیا ہے
موطأ میں ہے کہ عائشہ رضی الله عنہا عرفہ کا روزہ رکھتی تھیں –

وَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، أَنَّ عَائِشَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ كَانَتْ «تَصُومُ يَوْمَ عَرَفَةَ»، [ص:376] قَالَ الْقَاسِمُ: وَلَقَدْ رَأَيْتُهَا عَشِيَّةَ عَرَفَةَ، يَدْفَعُ الْإِمَامُ ثُمَّ تَقِفُ حَتَّى يَبْيَضَّ مَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ النَّاسِ مِنَ الْأَرْضِ، ثُمَّ تَدْعُو بِشَرَابٍ فَتُفْطِرُ

اس کی سند میں یحیی بن سعید انصاری مدلس ہے
اعمال کا دارومدار نیت پر ہے – اس دن روزہ رکھا جا سکتا ہے  لیکن اپ لوگوں کو اس کی صحیح خبر دیں تو قباحت نہیں ہے
مثلا ١٥ شعبان کا روزہ بدعت ہے لیکن ہم کو معلوم ہوا کہ عائشہ رضی الله عنہا اپنے روزے شعبان میں مکمل کرتی تھیں ظاہر ہے اس دور میں ١٥ شعبان کا وجود نہ تھا
کہنے کا مقصد ہے دن الله کے ہیں کسی بھی دن نیکی کا عمل کیا جا سکتا ہے لیکن اگر دن کسی بدعت سے متصف ہو تو اس دن اپ تبلیغ بھی کریں کہ ایسا ایسا کرنا بدعت ہے
عبادتایام حج میں بعض کام حاجی کریں گے لیکن مقیم بھی ان کو کرے گا مثلا قربانیاسی طرح حاجی روزہ نہیں رکھے گا اور مقیم بھی روزہ نہیں رکھے گا
قیود بھی ہیں بعض کام حاجی نہیں کرے گا حاجی شکار نہیں کرے گا لیکن مقیم کرے گا
[/EXPAND]

جواب
موطا میں ہےأَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ الْمَكِّيُّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَى عَنْ أَكْلِ لُحُومِ الضَّحَايَا بَعْدَ ثَلاثٍ» ، ثُمَّ قَالَ بَعْدَ ذَلِكَ: «كُلُوا وَتَزَوَّدُوا وَادَّخِرُوا» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا بَأْسَ بِالادِّخَارِ بَعْدَ ثَلاثٍ وَالتَّزَوُّدِ، وَقَدْ رَخَّصَ فِي ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ أَنْ كَانَ نَهَى عَنْهُ، فَقَوْلُهُ الآخَرُ نَاسِخٌ لِلأَوَّلِ، فَلا بَأْسَ بِالادِّخَارِ وَالتَّزَوُّدِ مِنْ ذَلِكَ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا

جابر بن عبد الله نے خبر دی کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنے سے منع کیا پھر اس کے بعد کہا اس کو کھا کو یا اور ذخیرہ کر لو – امام محمد نے کہا ہم اسی کو لیتے ہیں اور ذخیرہ کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے تین دن یا اس سے زائد میں اور اس کی رخصت رسول الله نے دی ہے ممانعت کے بعد لہذا پہلا قول منسوخ ہوا اور یہی قول ابو حنیفہ اور دیگر ائمہ کا ہے
قربانی کے حصہ دار بنانا مستحب ہے جیسا صدقات میں ہےوَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ * لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [المعارج:24-25]أور إن کے اموال میں معلوم حق ہے سائل کا اور محروم کا
اس طرح تین حصے ہوئے اپ خود – سائل و محروم جس میں رشتہ دار و غرباء ہو سکتے ہیں – اگر رشتہ دار متمول ہیں تو ان کو دینا ضروری نہیں ہے

جواب

اول ایصال ثواب
اس میں مرنے والے کو ثواب پہنچانے کے لئے عبادات کی جاتی ہیں اس کے بعد الله سے دعا کی جاتی ہے کہ ہمارے اس عمل کا ثواب فلاں شخص کو دے دیا جائے
یہ کام رشتہ داروں کے حوالے سے کیا جاتا ہے
یہ بدعت ہے

دوم نذر یا فتوح کرنا
اس عقیدہ کا مطلب ہے
اس میں کسی بزرک کو خوش کرنے اس کے نام نذر کیا جاتا ہے یعنی کوئی کھانا یا جانور اس سے منسوب کیا جاتا ہے سمجھا جاتا ہے کہ یہ کھانا پھر برزخ میں اس بزرگ پر پیش ہوتا ہے وہ خوش ہوتا ہے کہ واہ کیا کھانا پہنچایا ہے پھر یہ بزرگ جن کی روح اس عالم میں کہیں بھی جا سکتی ہے اس کے علم میں اتا ہے کہ یہ کام تو فلاں صاحب نے کیا
لہذا قبر پر جب نذر کرنے والے اتے ہیں (اور اکثر یہ لنگر مزار پر ہی بٹتا ہے ) دعا کرتے ہیں تو ولی الله ان لوگوں سے خوش ہو کر ان کی عرضداشت کو لے کر الله کے حضور جاتے ہیں
یہ حرام ہے

یعنی یہ نذر و نیاز کرنا
service charges
ہے – اپنی دعا الله تک پہنچانے کے لئے یہ چارجز بزرگ کو دیے جاتے ہیں

اس کے دلائل

مصنف ابن ابی شیبہ میں عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ سے منسوب کیا گیا

غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ قَمْطَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: «الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ، فَإِذَا مَاتَ الْمُؤْمِنُ يُخْلَى بِهِ يَسْرَحُ حَيْثُ شَاءَ وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ»

دنیا مومن کا قید خانہ او رکافر کی بہشت ہے۔ جب مومن مرتاہے اس کی راہ کھول دی جاتی ہے کہ جہاں چاہے سیر کرے

اس کی سند میں يَحْيَى بْنِ قَمْطَةَ کو ابن حبان اور عجلی نے ثقہ قرار دیا ہے

کتاب كشف الخفاء ومزيل الإلباس از إسماعيل بن محمد بن عبد الهادي الجراحي العجلوني الدمشقي، أبو الفداء (المتوفى: 1162هـ) میں روایت “الدنيا سجن المؤمن، وجنة الكافر کی بحث میں العجلوني لکھتے ہیں حدیث میں ہے

فإذا مات المؤمن تخلى سربه يسرح حيث شاء
”جب مسلما ن مرتا ہے اُس کی راہ کھول دی جاتی ہے، جہاں چاہے جائے۔

انہی الفاظ کا ذکر فتاوی رضویہ میں ہے

وھذا لفظ امام ابن المبارك قال ان الدنیا جنۃ الکافر وسجن المؤمن وانما مثل المؤمن حین تخرج نفسہ کمثل رجل کان فی سجن فاخرج منہ فجعل یتقلب فی الارض ویتفسح فیھا١[1]۔ولفظ ابی بکر ھکذا الدنیا سجن المومن وجنۃ لکافر فاذا مات المومن یخلی سربہ یسرح حیث شاء

اور یہ روایت امام ابن مبارك کے الفاظ ہیں۔ ت) بیشك دنیا کافر کی جنت اور مسلمان کی زندان ہے، اور ایمان والے کی جب جان نکلتی ہے توا س کی کہاوت ایسی ہے جیسے کوئی قید خانہ میں تھا اب اس سے نکال دیا گیا کہ زمین میں گشت کرتاا ور بافراغت چلتا پھرتا ہے۔(اور روایت ابوبکر کے الفاظ یہ ہیں۔ ت) دنیا مسلمان کا قید خانہ او رکافر کی بہشت ہے۔ جب مسلمان مرتاہے اس کی راہ کھول دی جاتی ہے کہ جہاں چاہے سیر کرے۔

http://www.dawateislami.net/bookslibrary/1454/page/722

کتاب فيض القدير شرح الجامع الصغير از المناوي القاهري (المتوفى: 1031هـ) کے مطابق

قوله (وصلوا علي وسلموا فإن صلاتكم تبلغني حيثما كنتم) أي لا تتكلفوا المعاودة إلي فقد استغنيتم بالصلاة علي لأن النفوس القدسية إذا تجردت عن العلائق البدنية عرجت واتصلت بالملأ الأعلى ولم يبق لها حجاب فترى الكل كالمشاهد بنفسها أو بإخبار الملك لها وفيه سر يطلع عليه من يسر له.

اپ صلی الله علیہ وسلم کا قول کہ تمہارا درود مجھ تک پہنچ جاتا ہے جہاں کہیں بھی تم ہو یعنی .. تم جو درود کہتے ہو مجھ پر تو بے شک نفوس قدسیہ ( پاک جانیں) جب بدن کے عَلاقوں سے جدا ہوتی ہیں ، یہ ارواح بلند ہوتی ہیں اور عالمِ بالا سے مل جاتی ہیں اور ان کے لئے کوئی پردہ نہیں رہتا اور سب کچھ خود دیکھتی ہیں یا بادشاہت کی خبریں پاتی ہیں اور اس میں راز ہے جس کی اطلاع وہ پاتے ہیں جو کھوج کریں

اس کو حجة الله البالغة میں شاہ ولی الله نے بھی بیان کیا ہے
فَإِذا مَاتَ انْقَطَعت العلاقات، وَرجع إِلَى مزاجه، فلحق بِالْمَلَائِكَةِ، وَصَارَ مِنْهُم، وألهم كالهامهم، وسعى فِيمَا يسعون فِيهِ.
جب اولیاء الله مر جاتے ہیں ان کے علاقات ٹوٹ جاتے ہیں اور وہ اپنے اصل مزاج پر آ جاتے ہیں اور فرشتوں سے مل جاتے ہیں اور ان پر فرشتوں کی طرح الہام شروع ہو جاتا ہے اور وہ بھی جدو جہد کرتے ہیں جیسے فرشتے کرتے ہیں

نذر کو فتوح بھی کہا جاتا ہے

جب علماء نے یہ مان لیا کہ ارواح فرشتوں کی طرح الہام پاتی کہیں بھی جا سکتی ہیں ان کو علم ہو جاتا ہے تو پھر اسی قسم کے لوگوں نے کشف قبور اور قبروں سے فیض کا سلسلہ جاری کیا اور اس میں صاحب قبر کو خوش کرنے کے نام کی نذر کرتے ہیں

عمل کا مدار نیت پر ہے
جب ارادہ ہو کہ صاحب قبر کی نذر کرنی ہے تو پھر برابر ہے کہ ذبح کرتے وقت غیر الله کا نام لیا گیا یا نہیں – یہ جانور غیر الله سے منسوب ہو چکا
کیونکہ یہ ذبح کرنا عبادت ہے جس کا فیصلہ ظاہر پر نہیں دل پر کیا تھا -اس پر اس کا فیصلہ ہوتا ہے اور الله کو دلوں کا حال خوب معلوم ہے
جب نماز جیسی چیز میں دکھاوا منع ہے تو قربانی میں اصول الگ کیسے ہو گئے ؟

سنن أبي داؤد: كِتَابُ الصَّیامِ (بَابٌ فِي صَوْمِ الْعَشْرِ) سنن ابو داؤد: کتاب: روزوں کے احکام و مسائل (باب: عشرہ ذی الحجہ میں روزوں کا بیان)
2437
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنِ الْحُرِّ بْنِ الصَّبَّاحِ، عَنْ هُنَيْدَةَ بْنِ خَالِدٍ عَنِ امْرَأَتِهِ، عَنْ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ تِسْعَ ذِي الْحِجَّةِ، وَيَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، أَوَّلَ اثْنَيْنِ مِنَ الشَّهْرِ وَالْخَمِيسَ.
حکم : صحیح 2437
امہات المؤمنین میں سے ایک کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحجہ کے ( پہلے ) نو دن ، عاشورہ محرم ، ہر مہینے میں تین دن اور ہر مہینے کے پہلے سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے ۔
اب کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے یہ روزہ حاجیوں پر نہیں ہے لیکن دوسرے لوگوں کے لئے ہے جو حج پر نہیں ہیں

جواب شعیب نے مسند احمد میں اس کو ضعيف لاضطرابه قرار دیا ہے
قال الدكتور أحمد الغامدي، مدير عام هيئة الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر بمنطقة مكة سابقًا، إن حديث فضل صيام يوم عاشوراء وتكفير الصيام لسنة ماضية هو حديث “ضعيف” بعكس ما هو مشتهر.
الدكتور أحمد الغامدي، مدير عام هيئة الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر بمنطقة مكة نے کہا صحیح مسلم کی ابو قتادہ والی حدیث ضعیف ہے

http://www.ajel.sa/local/1798686

وقال نصًّا، إن الحديث “رواه عبدالله بن معبد الزماني عن أبي قتادة، وعبدالله بن معبد لا يعرف له سماع عن أبي قتادة، قاله البخاري في الكبير، وأخرج ابن عدي الحديث في الكامل وقال: (وهذا الحديث هو الحديث الذي أراد البخاري أن عبدالله بن معبد لا يعرف له سماع من أبي قتادة)، وهذا يعني أن البخاري يضعف إسناده بالانقطاع، وإقرار من نقل ذلك يعد موافقة له” حسب قوله
عرفہ کا روزہ رکھنے پر گناہ معاف ہونے والی جس حدیث کو امام مسلم نے بیان کیا ہے امام بخاری کے نزدیک اس کی سند میں انقطاع ہے
مَيْمُونَةَ رضی الله عنہا کی صحیح مسلم میں روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے روزہ نہیں رکھاامام بخاری اس سلسلے میں صرف ایک حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے روزہ نہیں رکھا
صحیح بخاری کی روایت 1658 ہے

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنَا سَالِمٌ قَالَ: سَمِعْتُ عُمَيْرًا مَوْلَى أُمِّ الفَضْلِ، عَنْ أُمِّ الفَضْلِ، شَكَّ النَّاسُ يَوْمَ عَرَفَةَ فِي صَوْمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، «فَبَعَثْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَرَابٍ فَشَرِبَهُ» أُمِّ الْفَضْلِ بِنْتِ الْحَارِثِ کہتی ہیں ہم نے یوم عرفہ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس دودھ بھیجا یہ دیکھنے کہ روزہ ہے یا نہیں تو اپ نے وہ دودھ پی لیا
موطا امام مالک کی روایت ١٣٨٩ یا ٣٨٨ ہے
عقبة بن عامر الجهني عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: “إن أيام الأضحى وأيام التشريق ويوم عرفة عيدنا أهل الإسلام أيام أكل وشرب

نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا یوم عرفہ اوریوم النحر اور ایام تشریق ہم اہل اسلام کی عید کےدن ہیں اوریہ سب کھانے پینے کے دن ہیں ۔
البناية شرح الهداية از المؤلف: أبو محمد محمود بن أحمد بن موسى بن أحمد بن حسين الغيتابى الحنفى بدر الدين العينى (المتوفى: 855هـ) میں ہے

وكره صوم يوم عرفة عند الشافعي – رَحِمَهُ اللَّهُ

امام شافعی یوم عرفہ کے دن روزہ سے کراہت کرتے
قولی حدیث میں اس دن کو کھانے پینے کا دن کہا گیا ہے
موطأ میں ہے کہ عائشہ رضی الله عنہا عرفہ کا روزہ رکھتی تھیں –

وَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، أَنَّ عَائِشَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ كَانَتْ «تَصُومُ يَوْمَ عَرَفَةَ»، [ص:376] قَالَ الْقَاسِمُ: وَلَقَدْ رَأَيْتُهَا عَشِيَّةَ عَرَفَةَ، يَدْفَعُ الْإِمَامُ ثُمَّ تَقِفُ حَتَّى يَبْيَضَّ مَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ النَّاسِ مِنَ الْأَرْضِ، ثُمَّ تَدْعُو بِشَرَابٍ فَتُفْطِرُ

اس کی سند میں یحیی بن سعید انصاری مدلس ہے
اعمال کا دارومدار نیت پر ہے – اس دن روزہ رکھا جا سکتا ہے لیکن اپ لوگوں کو اس کی صحیح خبر دیں تو قباحت نہیں ہے
مثلا ١٥ شعبان کا روزہ بدعت ہے لیکن ہم کو معلوم ہوا کہ عائشہ رضی الله عنہا اپنے روزے شعبان میں مکمل کرتی تھیں ظاہر ہے اس دور میں ١٥ شعبان کا وجود نہ تھا
کہنے کا مقصد ہے دن الله کے ہیں کسی بھی دن نیکی کا عمل کیا جا سکتا ہے لیکن اگر دن کسی بدعت سے متصف ہو تو اس دن اپ تبلیغ بھی کریں کہ ایسا ایسا کرنا بدعت ہے
عبادتایام حج میں بعض کام حاجی کریں گے لیکن مقیم بھی ان کو کرے گا مثلا قربانیاسی طرح حاجی روزہ نہیں رکھے گا اور مقیم بھی روزہ نہیں رکھے گا
قیود بھی ہیں بعض کام حاجی نہیں کرے گا حاجی شکار نہیں کرے گا لیکن مقیم کرے گا

جواب
جب ہجرت ہوئی اس وقت سال میں مہینے النسی سے بدلے جاتے تھے – اس طرح ذو الحجه مارچ- اپریل کے مہینے میں کیا جاتا تھا تاکہ بہار میں حج ہو سکے موسم اچھا ملے
اور یہی کام یہودی کرتے تھے وہ عید فسخ
Passover
کو بہار میں کرتے تھے
عید فسخ یعنی خروج مصر کی عید
اس وجہ سے اتفاقا محرم اور عید فسخ مل گئے تھے اور یہ ہجرت کے پہلے سال محض اتفاق تھا

یہود میں عربوں کا کلنڈز آج بھی نہیں چلتا ان کا اپنا عبرانی کلینڈر ہے جو اسلام سے قدیم ہے
یعنی وہ دس محرم کو کوئی عید نہیں مناتے وہ عید فسخ ابیب یا نسان

Abib or Nissan
کے مہینے میں کرتے ہیں جو ان کے کلنڈر کا مہینہ ہے اور اس میں النسی کے طریقہ سے ایڈجسٹمنٹ کرتے ہیں
یعنی دس محرم کا خروج مصر سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ اس کو ہر سال سمجھا جائے – خروج مصر ابیب یہودی کلنڈر میں اتا ہے جو کسی بھی اسلامی مہینے میں آ سکتا ہے

مثلا آج
2nd of Tishrei, 5778
کا دن ہے یہود کے کلنڈر میں
https://www.hebcal.com/converter/
یعنی یہود میں سال کا ساتواں ماہ چل رہا ہے اور عید فسخ کا دن پہلے مہینہ میں اتا ہے

لیکن مسلمانوں میں محرم کا ماہ آ گیا ہے

کہنے کا مقصد ہے کہ تاریخی طور پر یہ محض ایک اتفاق تھا کہ النسی کی وجہ سے ابیب اور محرم ایک ہی مہینہ میں آ گئے اور ایسا ہوا کہ یہود اور مسلمان خروج مصر کی عید فسخ پر دونوں نے روزہ رکھا- اس کو عموم نہیں سمجھنا چاہیے

نوٹ
مشرکین مکہ بھی اس دن روزہ رکھتے تھے
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دس محرم کا روزہ رکھا یہ صرف ایک وقتی حکم تھا جو ہجرت کے پہلے سال کے لئے ہوا
اس کے بعد اس کو نفلی کر دیا گیا کہ جو چاہے وہ رکھے

⇑ دس محرم کا روزہ کا تعلق کس چیز سے ہے؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/عبادت/

نو محرم کا روزہ رکھنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ نو یا دس محرم کے دن کا یہود سے اب کوئی تعلق نہیں رہا ہے

صحیح بخاری میں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، ‏‏‏‏‏‏ وَمُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ “مَنْ نَسِيَ صَلَاةً فَلْيُصَلِّ إِذَا ذَكَرَهَا، ‏‏‏‏‏‏لَا كَفَّارَةَ لَهَا إِلَّا ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَقِمْ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي”، ‏‏‏‏‏‏قَالَ مُوسَى :‏‏‏‏ قَالَ هَمَّامٌ:‏‏‏‏ سَمِعْتُهُ يَقُولُ بَعْدُ وَأَقِمْ الصَّلَاةَ للذِّكْرَى، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ حَبَّانُ :‏‏‏‏ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَنَسٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ. ہم سے ابونعیم فضل بن دکین اور موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، ان دونوں نے کہا کہ ہم سے ہمام بن یحییٰ نے قتادہ سے بیان کیا، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی نماز پڑھنا بھول جائے تو جب بھی یاد آ جائے اس کو پڑھ لے۔ اس قضاء کے سوا اور کوئی کفارہ اس کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ اور (اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ) نماز میرے یاد آنے پر قائم کر۔ موسیٰ نے کہا کہ ہم سے ہمام نے حدیث بیان کی کہ میں نے قتادہ رضی اللہ عنہ سے سنا وہ یوں پڑھتے تھے نماز پڑھ میری یاد کے لیے۔ حبان بن ہلال نے کہا، ہم سے ہمام نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے، کہا ہم سے انس رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، پھر ایسی ہی حدیث بیان کی۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف ایک یا دو نمازوں کا ذکر ہے جو قضاء ہوئیں – اس میں دوسری نماز سے پہلے پہلے پچھلی نماز کی قضاء پڑھی گئی ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي غَسَّانَ مُحَمَّدِ بْنِ مُطَرِّفٍ الْمَدَنِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْعَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ،‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ “مَنْ نَامَ عَنْ وِتْرِهِ أَوْ نَسِيَهُ فَلْيُصَلِّهِ إِذَا ذَكَرَهُ”. ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جو شخص وتر پڑھے بغیر سو جائے یا اسے پڑھنا بھول جائے تو جب بھی یاد آ جائے اسے پڑھ لے

عبادات

ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ کے جوابات

سوال : نو اور دس محرم کے روزوں کے متعلق نبی صلی الله علیہ وسلم کی سنّت کیا ہے، وضاحت فرمائیں ؟

جواب :: بخاری روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم جب هجرت کرکے مدینہ آئے تو آپ نے یہاں یہودیوں کو دیکھا کہ ١٠ محرم عاشورہ کے دن روزہ رکھ رہے ہیں.آپ نے یہودیوں اورانکے عالموں سے اس روزہ کے متعلق پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے.انھوں نے جواب دیا کہ اس دن یعنی اس تاریخ کو پروردگارعالم نے موسیٰ علیہ السلام اور انکی قوم کو فرعونیوں سے نجات دی،ہم اس کے شکرانے کے طور پر یہ روزہ رکھتے ہیں.الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ الله کا شکر ادا کریں اور ہم کو یہ زیادہ زیب دیتا ہے.اس وقت تک روزے فرض نہیں هوئے تھے.اس زمانہ میں جو عاشورہ آیا ہے تو آپ نے لوگوں سے اس روزے کے رکھنے کو کہا ہے.صحابہ کرم رضی اللہ تعالیٰ عنھم نے اور آپ نے اس دن روزہ رکھا ہے.مسلم کی حدیث میں آیا ہے کہ جو عاشورہ کا روزہ رکھے گا انشاء الله اللہ تعالیٰ اسکے آئندہ سال کے گناہ معاف کردے گا.حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ آپ نے فرمایا جو شخص یہ روزہ رکھنا چاہے رکھے اور جو نہ رکھے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے یعنی اس معاملے میں کوئی سختی نہیں ہے.لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم اس دن روزہ رکھتے تھے.وفات کے آخری سال آپ نے فرمایا کہ لئن بقیت الی قابل لاصومن التاسع یعنی اگر آیندہ سال تک زندہ رہا تو ضرور با لضرور ٩ محرم کا روزہ رکھوں گا.الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم کی اس بات کی شرح میں اختلاف ہوا ہے.بعض نے کھا کہ ٩ محرم کا روزہ آپ نے زائد بتلایا یعنی ٩ اور ١٠محرم دونوں دنوں کے روزے رکھنے کا عندیہ دیا تاکہ یہودیوں کی مشابہت نہ ہو اور انکے خلاف کیا جاۓ.یہودیوں کا جو رعب مدینے کی قریب کی آبادی اور دنیا میں چھایا ہوا ہے وہ باقی نہ رہے.بعض نے کہا کہ اس سے آپ کی مراد یہ ہے کہ عاشورہ کے روزے میں ایک طرح کی تبدیلی لاونگا ،یعنی ١٠ محرم کی بجاۓ ٩ محرم کا روزہ رکھوں گا.لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اگر آیندہ سال تک زندہ رہا تو.مگر آپ کو مہلت نہ ملی اور آپ ایسا نہ کرپاۓ.اس لئے مناسب یہی ہے کہ ٩ کے بجاۓ ١٠ محرم عاشورہ کا روزہ پر قناعت کی جاۓ جیسا کہ پہلے ہوتا آیا ہے

Questions answered by Abu Shahiryar

 

نسائی سنن میں روایت کرتے ہیں

 أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ الْمَرْوَزِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ الله أَنَّهُ قَالَ: “أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً وَاحِدَةً”

ترمذی بھی اس کو بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں

وَبِهِ يَقُولُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالتَّابِعِينَ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الكُوفَةِ.

اور اصحاب رسول میں ایک سے زائد  اہل علم اور التَّابِعِينَ کا اس پر عمل ہے اور یہ قول سے سفیان ثوری کا اور اہل کوفہ کا

 البغوي الشافعي (المتوفى: 516هـ) شرح السنہ میں لکھتے ہیں

وَذَهَبَ قَوْمٌ إِلَى أَنَّهُ لَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِلا عِنْدَ الافْتِتَاحِ، يُرْوَى ذَلِكَ عَنِ الشَّعْبِيِّ، وَالنَّخَعِيِّ، وَبِهِ قَالَ ابْنُ أَبِي لَيْلَى، وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَأَصْحَابُ الرَّأْيِ، وَاحْتَجُّوا بِمَا رُوِيَ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: «أَلا أُصَلِّي بِكُمْ صَلاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى، وَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلا أَوَّلَ مَرَّةٍ».

اور ایک قوم نے اس مذھب کو اختیار کیا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے نماز شروع کرنے پر ہی ہاتھ اٹھائے اس کی روایت کی ہے شَّعْبِيِّ اور ابراہیم نَّخَعِيِّ نے  اور یہ قول ہے ابن ابی لیلی کا سفیان ثوری کا اصحاب رائے کا اور انہوں نے دلیل لی ہے جو عبدللہ ابن مسعود نے روایت کیا ہے کہ میں تم کو نبی صلی الله علیہ وسلم کی نماز کا طریقہ نہ بتاؤں  پس اپ نے نماز پڑھی اور سوائے پہلی بار کے باتھ نہیں اٹھائے

 ابن حبان اس روایت پر کہتے ہیں

هَذَا أحسن خبر رُوِيَ لأهل الْكُوفَة 

یہ اچھی خبر ہے جو اہل کوفہ نے روایت کی ہے

البانی کہتے ہیں

فالحق أنه حديث صحيح، كما قال ابن حزم في “المحلى”

پس حق یہ نے کہ حدیث صحیح ہے جیسا ابن حزم نے  المحلى  میں کہا ہے

 فقہ مالکی کی کتاب المدونة میں ہے

قَالَ مَالِكٌ: لَا أَعْرِفُ رَفْعَ الْيَدَيْنِ فِي شَيْءٍ مِنْ تَكْبِيرِ الصَّلَاةِ لَا فِي خَفْضٍ وَلَا فِي رَفْعٍ إلَّا فِي افْتِتَاحِ

امام مالک کہتے ہیں میں نہیں جانتا کہ رفع یدین ہو نماز میں کسی چیز پر نہ جھکنے پر نہ اٹھنے پر سوائے نماز شروع کرنے کے

اس روایت پر محققین مختلف الخیال رہے ہیں

حدیث ابن مسعود فی رفع یدین صحیح و حسن ہے

حدیث ابن مسعود فی رفع یدین ضعیف و معلول ہے

ترمذی

ابن دقيق العيد، الزيلعي ، التركماني،

ابن حبان، ابن حزم ، البانی، الطحاوي، العينى،

ابی داوود، احمد، ابن ابی حاتم

چونکہ یہ عقیدے کا کوئی مسئلہ نہیں لہذا راہ اعتدال ہمارے نزدیک یہ ہے کہ  ترک رفع اس بات کی دلیل ہے کہ رفع یدین کرنا بھی سنت ہے اور نہ کرنا بھی سنت ہے اور دونوں طرح نماز ہو جاتی ہے نبی صلی الله علیہ وسلم نے نماز کے فرائض میں رفع یدین کا ذکر نہیں کیالہذا اس میں افراط و تفریط کی بجائے چیز کو اس کے مقام پر ہی رکھنا چاہئے

ایک مفرط زبیر علی زئی نے اپنی کتاب نور العینین  میں اس روایت پر لکھا ہے

رفع یدین ابن مبارک

لیکن سنن الترمزی  جو دكتور بشار عوأد أور أحمد شاكر كي تحقق كے ساتھ ہے اس میں یہ الفاظ موجود ہی نہیں

زبیر علی نے حوالوں میں یہ بھی لکھا

ترک رفع ابن حبان

حالانکہ یہ بھی دھول جھونکنے کے مترادف ہے کیونکہ ابن حبان  نے اس کو احسن قرار دیا ہے جس کو کتاب التلخيص الحبير في تخريج أحاديث الرافعي الكبير از  ابن حجر کے مطابق  دارقطنی  نے رد کیا ہے- زبیر علی زئی نے دارقطنی کے الفاظ کو ابن حبان کے الفاظ قرار دے دیا  ہے الفاظ ہیں

وَقَالَ الدَّارَقُطْنِيُّ: لَمْ يَثْبُتْ وَقَالَ ابْنُ حِبَّانَ فِي الصَّلَاةِ هَذَا أَحْسَنُ خَبَرٍ رُوِيَ لِأَهْلِ الْكُوفَةِ فِي نَفْيِ رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِي الصَّلَاةِ عِنْدَ الرُّكُوعِ وَعِنْدَ الرَّفْعِ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْحَقِيقَةِ أَضْعَفُ شَيْءٍ يُعَوَّلُ عَلَيْهِ لِأَنَّ لَهُ عِلَلًا تُبْطِلُهُ وَهَؤُلَاءِ الْأَئِمَّةُ

 امام مالک کا بھی ترک رفع پر عمل تھا ابن عساکر المتوفی ٥٧١ ھ  تاریخ دمشق ج ٥٢ ص ١٧٩  میں لکھتے ہیں

قال أبو عبد الله محمد بن جابر فإن قال قائل فإن مالك بن أنس لم يكن يرفع يديه إلا عند الافتتاح وهو احد أعلامكم الذين تقتدون به قيل له صدقت هو من كبار من يقتدى به ويحتج به وهو أهل لذلك رحمه الله عليه ولكنك لست من العلماء بقوله حدثنا حرملة بن عبد الله التجيبي أنبأنا عبد الله بن وهب قال رأيت مالك بن أنس يرفع يديه إذا افتتح الصلاة وإذا ركع وإذا رفع من الركوع قال أبو عبد الله فذكرت ذلك لمحمد بن عبد الله بن عبد الحكم وهو ناب أصحاب مالك بمصر والعالم بقوله وما مات مالك عليه فقال هذا قول مالك وفعله الذي مات عليه وهو السنة وأنا عليه وكان حرملة على هذا

ابو عبد الله محمّد بن  جابر نے کہا پس اگر قائل کہے کہ امام مالک اپنے ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے الا یہ کہ نماز کے شروع میں اور وہ ایک اعلام میں سے تھے جن کی اقتدہ کی جاتی ہے تو کہو سچ کہا تم نے وہ کبار علماء میں سے ہیں اور اسی لئے ان پر الله رحم کرے لیکن وہ ان علماء میں سے نہیں (جو رفع الیدین نہیں کرتے)  جیسا کہ قول ہے حرملة بن عبد الله التجيبي نے بیان کیا عبد الله بن وھب نے بیان کیا کہ میں نے مالک بن انس کو دیکھا کہ نماز کے شروع میں اور رکوع کرتے ہوئے اور اس سے اٹھتے ہوئے رفع الیدین کرتے- ابو عبد الله محمّد بن  جابر کہتے ہیں اس کا ذکر محمّد بن عبد الله بن عبد الحکم سے کیا جو مصر میں اصحاب مالک کے نائب تھے اور عالم تھے اس قول کا پس کہا کہ یہ مالک کا قول ہے اور اس پر ان کی موت ہوئی اور وہ سنت پر تھے اور میں اورحرملة  بھی

اس اقتباس کی بنیاد پر بعد والوں نے یعنی ابن عبد البر، النووی، الخطابی ، البغوی اور دیگر نے امام مالک کا  رفع الیدین کا  قائل ہونے کا بیان کیا ہے حالانکہ اس کی سند ثابت نہیں  ہےابو عبد الله محمد بن جابر  المروزي الفقيه  المتوفی 277ہجری کی بات  کی  سند نقل کی گئی ہے

قرأت علي ابي القاسم زاهر بن طاهر عن أبي بكر البيهقي أنبأنا أبو عبد الله الحافظ قال

سمعت أبا العباس المحبوبي يقول سمعت محمد بن جابر الفقية يقول سمعت هشام بن عمار يقول جلس يحيى بن أكثم ههنا وأشار إلى موضع في مسجد دمشق وذكر حكاية قال  وسمعت أبا العباس محمد بن أحمد المحبوبي يقول سمعت أبا عبد الله محمد بن جابر الفقية

اس کی سند قرات علی سے شروع ہو رہی ہے یعنی ابن عساکر کے سامنے اس روایت کو پڑھا گیا باقاعدہ ان کو سنائی نہیں گئی دوم  حرملة بن عبد الله التجيبي  (اصل میں حرملة ابن يحيى بن عبد الله بن حرملة بن عمران  ہے) جوبعض محدثین مثلا ابْنُ عَدِيٍّ کے نزدیک  ضعیف ہے

تاریخ ابن یونس میں ایک قول پر الذھبی سیر الآعلام النبلا میں کہتے ہیں

كان حرملة أملى الناس بما حدث به ابن وهب . قلت : لم يرحل حرملة ، ولا عنده عن الحجازيين شيء

حرملة (مصر میں) لوگوں کو املا کرتا جو وہ عبد الله بن وھب (اہل حجاز میں سے) سے نقل کرتا میں آلذھبی  کہتا ہوں حرملة نے سفر نہ کیا اور نہ اس کے پاس اہل حجاز کی کوئی چیز ہے

ابو حاتم  کہتے ہیں لا يحتج به یعنی حرملہ سے دلیل نہ لی جائے

نسائی  جو خود مصر میں ہی تھے کہتے ہیں

دخل مصر وهو مريض لم أكتب عنه

حرملہ مصر میں داخل ہوا تو مریض تھا لہذا اس سے نہ لکھا

ان شواہد کی روشنی میں حرملہ کا قول ضعیف ہے اور بقول الذھبی ، عبد اللہ بن وھب سے اس کا سننا ہی مشکوک ہے

طبقات الشافعيين از ابو الفدا میں اس کا شمار شوافع میں کیا گیا ہے جو رفع الیدین کے قائل تھے لہذا یا تو حرملہ نے زبردستی امام مالک کو بھی اس کا قائل قرار دیا  یا پھر یہ  بیماری کی کیفیت لگتی ہے جس کی طرف نسائی نے اشارہ کیا ہے

جواب

مسند احمد میں ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ يَعْنِي الْأَعْمَشَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنِ الْمُسْتَوْرِدِ، عَنْ صِلَةَ، عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَانَ يَقُولُ فِي
كُوعِهِ: ” سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ “، وَفِي سُجُودِهِ: ” سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى “، قَالَ: وَمَا مَرَّ بِآيَةِ رَحْمَةٍ إِلَّا وَقَفَ عِنْدَهَا فَسَأَلَ، وَلَا آيَةِ عَذَابٍ إِلَّا تَعَوَّذَ مِنْهَا
إسناده صحيح على شرط مسلم، رجاله ثقات

صحیح ابن خزیمہ و ابن حبان
أَخْبَرَنَا أَبُو طَاهِرٍ، نَا أَبُو بَكْرٍ، نَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبَانٍ وَسَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا حَفْصٌ -وَهُوَ ابْنُ غِيَاثٍ- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ صِلَةَ، عَنْ حُذَيْفَةَ:
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ فِي رُكُوعِهِ: “سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ” -ثَلَاثًا-، وَفِي سُجُودِهِ: “سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى” ثَلَاثًا.

جواب

عشاء کا وقت آدھی رات تک ہوتا ہے اندازا ١٢ بجے کہہ لیں

احناف اور باقی کے نزدیک ایسا ہے

یہ قول الثوري وابن المبارك وأبي ثور وأصحاب الرأي وأحد قولي الشافعي اور امام احمد کا قول ہے

—–

شوافع كي نزديك ادھی رات تک ہے لیکن اضطراری حالت میں فجر تک وقت ہوتا ہے

حنابلہ کے نزدیک آدھی رات یا پھر بعض علماء کے نزدیک فجر تک ہے

مالکیہ کے نزدیک رات کے تیسرے پہر تک جو تہجد کا وقت ہے

جواب

حدثنا أحمد بن حنبل بحدثنا أبو عاصم الضحاك بن مخلد ح و حدثنا مسدد بحدثنا يحي۔ وهذا حديث أحمد۔ قال أخبرنا عبدالحميد يعني ابن جعفر أخبرني محمد بن عمرو بن عطاء قال سمعت أبا حميد الساعدي فى عشرة من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم منهم أبو قتادة، قال أبو حميد أنا أعلمكم بصلوة رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالوا : فلم ؟ فو الله ! ماكنت بأكثرنا له تبعة ولا أقدمناله صحبة، قال يليٰ، قالوا : فاعرض، قال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قام إلى الصلوة يرفع يديه حتي يحاذي بهما منكبيه، ثم كبر حتي يقر كل عظم فى موضعه معتدلا، ثم يقرأ، ثم يكبر فيرفع يديه حتي يحاذي بهما منكبيه، ثم يركع و يضع راحتيه على ركبتيه، ثم يعتدل فلا يصب رأسه ولا يقنع، ثم يرفع رأسه فيقول : سمع الله لمن حمدهٗ، ثم يرفع يديه حتي يحاذي بهما منكبيه معتدلا، ثم يقول : الله اكبر، ثم يهوي إلى الأرض فيجافي يديه عن جنبيه، ثم يرفع رأسه و يثني رجله اليسري فيقعد عليها، ويفتح أصابع رجليه إذا سجد، ثم يسجد، ثم يقول : الله أكبر و يرفع رأسه و يثني رجله اليسري فيقعد عليها حتي يرجع كل عظم إلى موضعه، ثم يصنع فى الأخري مثل ذلك، ثم إذا قام من الركعتين كبر ورفع يديه حتي يحاذي بهما منكبيه كما كبر عندافتتاح الصلوة، ثم يصنع ذلك فى بقية صلاته حتي إذا كانت السجدة التى فيها التسليم أخر رجله اليسري وقعد متوركا على شقه الأيسر، قالوا : صدقت، هكذا كان يصلي صلى الله عليه وسلم

ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ نے دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہ، جن، میں سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بھی تھے، کے مجمع میں فرمایا : میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کو جانتا ہوں، انہوں نے کہا: کیسے ؟ اللہ کی قسم ! آپ نے نہ تو ہم سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی ہے اور نہ ہم سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی بنے تھے۔ انہوں ( سیدنا ابوحمید رضی اللہ عنہ ) نے کہا: جی ہاں ! صحابیوں نے کہا: تو پیش کرو !، ( سیدنا ابوحمید رضی اللہ عنہ نے ) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے پھر تکبیر (اللہ اکبر) کہتے حتی کہ ہر ہڈی اپنی جگہ اعتدال سے ٹھہر جاتی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرأت کرتے، پھر تکبیر (اللہ اکبر) کہتے حتی کہ ہر ہڈی اپنی جگہ اعتدال سے ٹھہر جاتی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرأت کرتے، پھر تکبیر کہتے تو کندھوں تک رفع یدین کرتے، پھر رکوع کرتے اور اپنی ہتھیلیاں اپنے گھٹنوں پر رکھتے۔ پھر (پیٹھ سیدھی کرنے میں) اعتدال کرتے، نہ تو سر زیادہ جھکاتے اور نہ اٹھائے رکھتے پھر سر اٹھاتے تو سمع الله لمن حمدهٗ کہتے، پھر کندھوں تک اعتدال سے رفع یدین کرتے، پھر اللہ اکبر کہتے، پھر زمین کی طرف جھکتے۔ (سجدے میں) اپنے دونوں بازو اپنے پہلوؤں سے دور رکھتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سر اٹھاتے اور بایاں پاؤں دھرا کر کے (بچھا کر) اس پر بیٹھ جاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں اپنی انگلیاں کھلی رکھتے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے، پھر اللہ اکبر کہتے اور سجدے سے سر اٹھاتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بایاں پاؤں دھرا کر کے اس پر بیٹھ جاتے حتیٰ کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پہنچ جاتی۔ پھر دوسری رکعت میں (بھی ) اسی طرح کرتے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتیں پڑھ کر کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے اور کندھوں تک رفع یدین کرتے، جیساکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع نماز میں رفع یدین کیا تھا۔ پھر باقی نماز بھی اسی طرح پڑھتے حتی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا (آخری) سجدہ ہوتا جس میں سلام پھیرا جاتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تورک کرتے ہوئے، بایاں پاؤں (دائیں طرف) پیچھے کرتے ہوئے، بائیں پہلو پر بیٹھ جاتے تھے۔ (سارے ) صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے کہا: صدقت، هكذا كان يصلي صلى الله عليه وسلم آپ نے سچ کہا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔
======================

یہ روایت صحیح نہیں ہے
بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام از ابن القطان (المتوفى : 628هـ) کے مطابق
فيهم أَبُو قَتَادَة، فَإِن أَبَا قَتَادَة، توفّي زمن عَليّ رَضِي الله عَنهُ، وَهُوَ صلى عَلَيْهِ، وَهُوَ مِمَّن قتل مَعَه، وَسن مُحَمَّد بن عَمْرو مقصرة عَن إِدْرَاك ذَلِك.
وَقد قيل فِي وَفَاة أبي قَتَادَة غير هَذَا، من أَنه توفّي سنة أَربع وَخمسين، وَلَيْسَ ذَلِك بِصَحِيح، بل الصَّحِيح مَا ذَكرْنَاهُ، وَقتل عَليّ رَضِي الله عَنهُ
اس میں ابو قتادہ کا ذکر ہے جن کی وفات علی کے دور میں ہوئی اور اپ نے ان پر جنازہ کی نماز پڑھی اور یہ ان میں سے تھے جنہوں نے ان کے ساتھ قتال کیا اور مُحَمَّد بن عَمْرو بن عَطاء بہت کم (امکان) ہے کہ اس کی ملاقات ہوئی ہو اور کہا جاتا ہے کہ ابو قتادہ کی وفات یہ نہیں وہ سن ٥٤ ھ میں فوت ہوئے جو صحیح نہیں بلکہ صحیح وہ ہے جو ہم نے ذکر کیا

کتاب : إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي کے مطابق
وروايته عن أبي قتادة مرسلة، وقاله أيضًا الطحاوي
محمد بن عمرو بن عطاء کا ابو قتادہ سے روایت کرنا مرسل ہے اور ایسا امام طحاوی نے بھی کہا ہے

محمد بن عمرو بن عطاء نے صرف چار اصحاب رسول ( أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي قَتَادَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ) سے روایت کیا ہے کیا یہ ممکن ہے کہ جو دس اصحاب رسول سے ملے ان میں سے صرف تین سے روایت کرے

=====
راوی جب تک تصریح نہ کرے کہ کس صحابی سے سنا روایت قبول نہیں کی جاتی کیونکہ ممکن ہے اس کا سماع ثابت نہ ہو
اس وجہ سے احناف کے نزدیک یہ سند قوی نہیں ہے
البتہ دوسروں نے ابو قتادہ کی وفات سن ٥٤ کہی ہے انہوں نے لیا ہے

علل ابی حاتم میں ابی حاتم نے اس سند کو مرسل قرار دیا ہے
محققین سعد بن عبد الله الحميد و د/ خالد بن عبد الرحمن الجريس نے الفاظ
فصار الحديث مرسلً»
کی وضاحت کی
ومراد أبي حاتم بقوله: «فصار الحديث مرسلً» : عدم سماع مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرو بْن عَطَاءٍ للحديث من أبي حميد؛ يوضحه قول الحافظ ابن رجب في “فتح الباري” (5/156) : «وأنكر آخرون سماع مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرو بْن عَطَاءٍ لهذا الحديث من أبي حميد أيضًا، وقالوا: بينهما رجل، وممَّن قال ذلك: أبو حاتم الرازي، والطحاوي، وغيرهما» .
ابی حاتم نے اس کو مرسل کہا کیونکہ محمد بن عمرو کا سماع ابی حمید رضی الله عنہسے نہیں اس قول کی وضاحت ابن رجب حنبلی نے کی ہے کہ دوسروں نے محمد بن عمرو کے سماع کا انکار کیا ہے حدیث ابو حمید میں اور کہا کہ ان کے درمیان رجل ہے ایسا ابو حاتم نے طحاوی نے کہا ہے

البتہ علل میں ابو حاتم نے اس کو دوسرے طرق سے صحیح کہا ہے
والحديثُ أصلهُ صحيحٌ؛ لأنَّ فُلَيح بْن سُلَيمان (2) قد رَوَاهُ عَنِ العباس بْن سهل، عَنْ أَبِي (3) حُمَيد السَّاعِدي.

یہ اور بات ہے کہ فُلَيح بْن سُلَيمان پر بھی جرح ہے

تحقیق چاہیے

مسند احمد

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی مرویات

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سُلَيْمَانَ قَالَ سَمِعْتُ خَيْثَمَةَ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي عَطِيَّةَ قَالَ قُلْنَا لِعَائِشَةَ إِنَّ فِينَا رَجُلَيْنِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدُهُمَا يُعَجِّلُ الْإِفْطَارَ وَيُؤَخِّرُ السُّحُورَ وَالْآخَرُ يُؤَخِّرُ الْإِفْطَارَ وَيُعَجِّلُ السُّحُورَ قَالَ فَقَالَتْ عَائِشَةُ أَيُّهُمَا الَّذِي يُعَجِّلُ الْإِفْطَارَ وَيُؤَخِّرُ السُّحُورَ قَالَ فَقُلْتُ هُوَ عَبْدُ اللَّهِ فَقَالَتْ كَذَا كَانَ يَصْنَعُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ابوعطیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اور مسرق حضرت عائشہ صدیقہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے عرض کیا کہ اے ام المومنین! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو صحابی ہیں، ان میں سے ایک صحابی افطار میں بھی جلدی کرتے ہیں اور نماز میں بھی، جبکہ دوسرے صحابی افطار میں بھی تاخیر کرتے ہیں اور نماز میں بھی ” انہوں نے فرمایا کہ افطار اور نماز میں عجلت کون کرتے ہیں؟ ہم نے بتایا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کرتے تھے، اور دوسرے صحابی حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ تھے۔

————

اور یہی حدیث صحیح مسلم میں بھی ہے

حضرت ابو عطیہ فرماتے ہیں کہ میں اور حضرت مسروق ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ رسول اللہﷺ کے صحابہ کرام ؓ میں سے دو ایسے ہیں کہ ایک جلدی روزہ افطارکرتےہیں اور جلدی نماز پڑھتے ہیں جبکہ دوسرے تاخیر سے روزہ کھولتے ہیں اور نماز بھی تاخیر سے ادا کرتے ہیں ۔ (ان میں کون سنت کےمطابق عمل کرتا ہے؟)حضرت عائشہؓ نے دریافت فرمایا کہ جلدی کرنے والا کون ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ وہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ہیں۔ اس پر حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ بھی اسی طرح عمل کرتے تھے،یعنی ان کا عمل سنت کے عین مطابق ہے ۔دوسرے صحابی حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ ہیں۔

(صحیح مسلم،الصیام:۱۰۹۹)

——–

ان دونو احادیث میں حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کا عمل کیسا تھا کیا ان کا عمل سنت کے عین مطابق نہیں تھا

جواب

اس کی اسناد میں ایک راوی ہے جس پر اختلاف ہے کہ یہ کون ہے
قَال عَباس الدُّورِيُّ (1) ، عن يحيى بْن مَعِين: أَبُو عطية الَّذِي روى عنه محمد بن سيرين اسمه مالك بْن عامر، وأبو عطية الوادعي عَمْرو بْن أَبي جندب
ابن معین کے مطابق اس سند میں عمرو بن ابی جندب ہے
قَال أبو عُبَيد الآجري: قلتُ لأبي داود: أَبُو عطية الوادعي؟ قال: عَمْرو بْن جندب
ابوداود نے کہا کہ یہ عمرو بن جندب ہے
ابن أبي حاتم: عمرو بن أبي جندب أبو عطية الهمداني
ابن ابی حاتم نے عمرو بن ابی جندب کہا ہے

جبکہ امام احمد کے نزدیک یہ مالک بن عامر ہے

امام مسلم نے کہا
أبو عطية مالك بن عامر الهمداني سمع ابن مسعود وعائشة،
مالک بن عامر ہے

أبو موسى المديني نے كتاب ” الصحابة میں اس بحث کو ایک
وهو مستشكل جدًّا
بہت بڑا اشکال
قرار دیا

متاخرین نے ان دونوں کو ملا دیا ہے

————-
اس روایت میں الأعمش ہے جو ٦١ میں پیدا ہوئے اور أَبُو عطية الوادعيّ الكوفِي سے ان کا سماع پر الذھبی نے کہا ہے تاریخ الاسلام
وقد ورد أن الأعمش رَوَى عَنْهُ، فإنْ كَانَ قد سمَعَ منه فيؤخَّر عَنْ هنا.
اور یہ آیا ہے کہ اعمش نے اس سے روایت کیا ہے تو اگر سنا ہے تو اس نے تاخیر کی ہے

یعنی الذھبی نے کہا کہ اگر اعمش نے سنا ہو گا تو ان کے آخری ایام میں سنا ہوا گا
——–

اس سند میں جو اپ نے پیش کی ہے اس میں اعمش کی تدلیس ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ اکمال از مغلطاي کے مطابق
وفي رواية ابن المديني عن يحيى بن زكريا عن الأعمش عن عمارة عن أبي عطية الوادعي قال: دخلت مع مسروق على عائشة وتابعه أبو معاوية.

اعمش نے اس روایت کو عمارہ بن عمیر سے لیا ہے

——
کتاب علل الحدیث از ابن ابی حاتم کے مطابق

وسألتُ أَبِي عَنْ حديثٍ رَوَاهُ سُلَيمان بْنُ حَرْبٍ (1) ، عَنْ شُعْبَة، عَنِ الأعمَش، عَنْ خَيْثَمة (2) ، عَنْ أَبِي عَطيَّة (3) ، عَنْ عائِشَة؛ قَالَتْ: قيل للنبيِّ (ص) : رَجُلانِ أحدُهما يُعَجِّلُ الإفطارَ، ويُؤَخِّرُ السُّحُورَ … وذكَرَ الحديثَ.
وَرَوَاهُ يزيدُ بْنُ أَبِي حَكيم (4) ، عَنِ الثَّوري، عَنِ الأعمَش، عَنْ عُمارَة بْنِ عُمَير، عَنْ أَبِي عَطيَّة، عَنْ عائِشَة، عن النبيِّ (ص) .
أيُّهما أصَحُّ؟
قَالَ أَبِي (1) : حديثُ عُمَارَة عِنْدِي الصَّحيحُ (2) .

ابی حاتم نے کہا عمارہ کی سند سے صحیح ہے

ان اشکالات کے باوجود محدثین نے اس کو صحیح کہا ہے

شعبہ کو جب اعمش نے روایت سنائی تو کہا خَيْثَمة بن عبد الرحمن بن أبي سَبْرَة سے ملی ہے
خَيْثَمة بن عبد الرحمن بن أبي سَبْرَة کا سماع ابن مسعود سے نہیں ہے

راقم اس سے دلیل نہیں لے سکتا کہ ابو موسی رضی الله عنہ دیر سے روزہ کھولتے ہوں گے

جواب

جنازہ میں قرات نہیں ہے یہ ابو ہریرہ رضی الله عنہ اور ابن مسعود رضی الله عنہ سے ثابت ہے  یہ اکابر صحابہ ہیں

ابن عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ جنازہ میں سوره فاتحہ پڑھی جائے گی اس کی سند صحیح بخاری اور مصنف عبد الرزاق میں ہے
عَبْدُ الرَّزَّاقِ،
6427 – عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ عَلَى جِنَازَةٍ فَقَرَأَ فَاتِحَةَ الْكِتَابِ، فَقُلْتُ لَهُ فَقَالَ: «إِنَّهُ مِنْ تَمَامِ السُّنَّةِ أَوْ إِنَّهُ مِنَ السُّنَّةِ

لیکن اس روایت میں جہاں بھی یہ اتی ہے اس میں سعد بن ابراہیم کا تفرد ہے جن کی اصحاب رسول میں کسی سے ملاقات نہیں ہے

سیر الاعلام النبلاء از الذھبی میں ہے
قَالَ يَعْقُوْبُ بنُ شَيْبَةَ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بنَ المَدِيْنِيِّ، قِيْلَ لَهُ: سَعْدُ بنُ إِبْرَاهِيْمَ سَمِعَ مِنْ عَبْدِ اللهِ بنِ جَعْفَرٍ؟
قَالَ: لَيْسَ فِيْهِ سَمَاعٌ.
ثُمَّ قَالَ: لَمْ يَلْقَ أَحَداً مِنَ الصَّحَابَةِ.
يَعْقُوْبُ بنُ شَيْبَةَ نے کہا علی المدینی نے کہا سعد بن ابراہیم کی کسی صحابی سے ملاقات نہیں ہوئی

سعد بن ابراھیم مدینہ کے ہیں لیکن وہاں انہوں نے روایت نہیں کیا علی المدینی نے کہا

كَانَ سَعْدُ بنُ إِبْرَاهِيْمَ لاَ يُحَدِّثُ بِالمَدِيْنَةِ، فَلِذَلِكَ لَمْ يَكْتُبْ عَنْهُ أَهْلُهَا، وَمَالِكٌ لَمْ يُكْتَبْ عَنْهُ

سعد نے مدینہ میں روایت نہیں کیا ان کے گھر والوں نے ان سے نہ لکھا امام مالک نے بھی نہ لکھا

سفیان بن عیینہ اور شعبہ نے ان سے لکھا ہے

سوال  ہے کہ سعد نے اپنے شہر میں روایات بیان کیوں نہیں کیں یہاں تک کہ امام مالک  جنازہ میں سوره فاتحہ پڑھنے کے قائل نہیں ہیں

المنتقى من السنن المسندة از ابن جارود میں ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: ثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ طَلْحَةَ التَّيْمِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَرَأَ عَلَى جَنَازَةٍ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَةٍ وَجَهَرَ بِالْقِرَاءَةِ وَقَالَ: «إِنَّمَا جَهَرْتُ لِأُعْلِمَكُمْ أَنَّهَا سُنَّةٌ، وَاْلْإِمَامُ كَفَّهَا»
لیکن یہاں سفیان ثوری ہیں مدلس کا عنعنہ ہے

خود سفیان ثوری اس روایت پر عمل نہیں کرتے – سنن ترمذی میں ہے کہ سفیان جنازہ کی نماز میں قرات نہیں کرتے تھے صرف حمد و ثنا کرتے تھے
معلوم ہوا یہ روایت سفیان کے نزدیک خود قابل قبول نہیں ہے
———-

مصنف ابن ابی شبیہ میں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ سَعِيدٍ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ قَرَأَ عَلَى جِنَازَةٍ وَجَهَرَ، وَقَالَ: «إِنَّمَا فَعَلْتُهُ لِتَعْلَمُوا أَنَّ فِيهَا قِرَاءَةً»
ابن عجلان نے کہا سعید المقبری نے کہا کہ ابن عباس نے جنازہ پڑھا اور اس میں جہر سے قرات کی اور کہا میں نے یہ کیا کہ تم کو معلوم ہو کہ اس میں قرات ہے

امام مالک نے کہا ابن عجلان کو حدیث کا علم نہیں ہے
ابن عجلان اہل مدینہ میں سے ہیں

الإصابة في تمييز الصحابة از ابن حجر میں ہے
قال الحاكم: مالك هو الحكم في حديث المدنيين

امام حاکم نے کہا – امام مالک حکم ہیں اہل مدینہ کی حدیث پر

اب علت یہ ہے کہ امام مالک نے اس روایت کو چھوڑ کر سعید المقبری کی موطا میں وہ روایت لکھی ہے جس میں قرات کا ذکر نہیں ہے جو ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے

موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني کی سند ہے

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا هُرَيْرَةَ كَيْفَ يُصَلِّي عَلَى الْجِنَازَةِ، فَقَالَ: ” أَنَا لَعَمْرِ اللَّهِ أُخْبِرُكَ، أَتْبَعُهَا مِنْ أَهْلِهَا، فَإِذَا وُضِعَتْ كَبَّرْتُ، فَحَمِدْتُ اللَّهَ وَصَلَّيْتُ عَلَى نَبِيِّهِ، ثُمَّ قُلْتُ: اللَّهُمَّ، عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَابْنُ أَمَتِكَ، كَانَ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُكَ، وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ، إِنْ كَانَ مُحْسِنًا فَزِدْ فِي إِحْسَانِهِ، وَإِنْ كَانَ مُسِيئًا فَتَجَاوَزْ عَنْهُ، اللَّهُمَّ لا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ، وَلا تَفْتِنَّا بَعْدَهُ “، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا قِرَاءَةَ عَلَى الْجِنَازَةِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ

امام مالک نے سعید المقبری سے انہوں نے  اپنے باپ سے روایت کیا  انہوں نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے کہ جنازہ پر نماز کیسے پڑھیں؟ ابو ہریرہ نے  کہا لعمر الله میں اس کی خبر دیتا ہوں میت کے اہل کے ساتھ ہوں گے پس جب رکھیں تو الله کی تکبیر و حمد کہیں اور نبی پر درود پھر کہیں

اللَّهُمَّ، عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَابْنُ أَمَتِكَ، كَانَ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُكَ، وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ، إِنْ كَانَ مُحْسِنًا فَزِدْ فِي إِحْسَانِهِ، وَإِنْ كَانَ مُسِيئًا فَتَجَاوَزْ عَنْهُ، اللَّهُمَّ لا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ، وَلا تَفْتِنَّا بَعْدَهُ

امام محمد نے کہا یہ قول ہم لیتے ہیں کہ جنازہ پر قرات نہیں ہے اور یہی قول ابو حنیفہ رَحِمَهُ اللَّهُ کا ہے

——–

ایک روایت مستدرک میں شرحبيل بن سعد کی سند سے ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو النَّضْرِ الْفَقِيهُ، ثنا عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، ثنا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، ثنا مُوسَى بْنُ يَعْقُوبَ الزَّمْعِيُّ، حَدَّثَنِي شُرَحْبِيلُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ: حَضَرْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ صَلَّى بِنَا عَلَى جِنَازَةٍ بِالْأَبْوَاءِ وَكَبَّرَ، ثُمَّ قَرَأَ بِأُمِّ الْقُرْآنِ رَافِعًا صَوْتَهُ بِهَا، ثُمَّ صَلَّى عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
لیکن شرحبيل بن سعد بہت ضعیف ہے یہاں تک کہ مورخین نے بھی اس کو چھوڑ دیا
قال يحيى القطان: سئل محمد بن إسحاق عنه فقال: نحن لا نروى عنه شيئا

=========
بعض اہل حدیث مثلا ابو جابر دامانوی نے اپنی کتاب نماز جنازہ کا مسنون طریقہ میں کہا ہے کہ قرات کی روایت اصحاب رسول میں اور بھی بیان کرتے ہیں پھر دلیل دی کہ مصنف عبد الرزاق میں ابو امامہ بن سھل بن حنیف کی روایت ہے اور ان صاحب کو رضی الله عنہ لکھ کر دھوکہ دیا گویا کہ یہ کوئی صحابی ہو
صحیح یہ ہے کہ ان کا سماع رسول الله سے نہیں اور جس روایت کا حوالہ دیا وہ مصنف عبد الرزاق میں ہے
أَبَا أُمَامَةَ بْنَ سُهَيْلِ بْنِ حُنَيْفٍ يُحَدِّثُ ابْنَ الْمُسَيِّبِ قَالَ: «السُّنَّةُ فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنَائِزِ أَنْ يُكَبِّرَ، ثُمَّ يَقْرَأَ بِأُمِّ الْقُرْآنِ، ثُمَّ يُصَلِّيَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ يُخْلِصَ الدُّعَاءَ لِلْمَيِّتِ، وَلَا يَقْرَأَ إِلَّا فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى، ثُمَّ يُسَلِّمَ فِي نَفْسِهِ عَنْ يَمِينِهِ»،
اس میں ابو امامہ نے اس کو سعید المسیب کا قول نقل کیا ہے نہ کہ حدیث رسول اور آخر میں امام ابن المسیب کا قول ہے کہ امام سیدھی جانب سلام پھیرے گا

=========
مسند الشافعی کی روایت ہے
أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ مُوسَى بْنِ وَرْدَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ: أَنَّهُ كَانَ يَقْرَأُ بِأُمِّ الْقُرْآنِ بَعْدَ التَّكْبِيرَةِ الأُولَى عَلَى الْجِنَازَةِ.
عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ نے جنازہ میں سوره فاتحہ پڑھی
اس کی سند میں موسی بن وردان ہے جس کو ابن معین نے ضعیف اور ابن عدی نے کمزور قرار دیا ہے
———-
مسند حمیدی اور طبرانی کی روایت میں سهل بن عتيك الأنصاريّ رضی الله عنہ کے جنازہ کی نماز کا ذکر ہے کہ اس میں فاتحہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے پڑھی
لیکن اصابہ از ابن حجر نے حمیدی کی روایت ہے
وأخرج من طريق الحميدي، عن يحيى بن يزيد بن عبد الملك النوفلي، عن أبي عبادة الزرقيّ، عن ابن شهاب، عن عبيد اللَّه بن عبد اللَّه بن عتبة، عن ابن عباس- أنّ رسول اللَّه صلّى اللَّه عليه وسلم لما أتي بجنازة سهل بن عتيك كبّر عليها أربعا، وقرأ بفاتحة الكتاب.
[وقال: وقفه محمد بن الحسن وضحاك، وقاله عن يحيى- وهو غريب من حديث الزّهري، لا يعرف إلا من هذا الوجه

میزان الاعتدال میں ہے
يحيى بن يزيد بن عبد الملك النوفلي المدني.
قال أبو حاتم: منكر الحديث، لا أدرى منه أو من أبيه.

اور طبرانی کی روایت پر ابن حجر کہا
فإن الطّبراني أخرجه من طريق يعقوب بن يزيد، عن الزّهري، ولكن لا ذكر فيه لابن عتيك، ولا لرفع الحديث، بل هو موقوف على ابن عبّاس وهو شاذّ من حيث السّند، فإن المحفوظ عن الزّهري في هذا ما رواه يونس وشعيب عنه عن أبي أمامة بن سهل، عن رجال من أصحاب النبيّ صلّى اللَّه عليه وسلم موقوفا. ومن رواية الزهري عن محمد بن سويد عن الضّحاك بن قيس عن حبيب بن مسلمة موقوفا أيضا
ابن عباس کی روایت شاذ ہے اور محفوظ وہ ہے جو ابو امامہ نے رجال اصحاب النبی سے روایت کیا ہے

راقم کہتا ہے کہ ابو امامہ نے اصلا ابن المسیب سے اس کو سنا ہے
ابن حجر نے لکھا ہے کہ الضحاك بن قيس الفهري نے بھی اس کو موقوف روایت کیا ہے
کتاب جامع التحصیل کے مطابق ابی حاتم اور ابن عبد البر کے مطابق یہ صحابی نہیں ہے

اسی طرح حبيب بن مسلمة الفهري پر بھی اتفاق نہیں ہے کہ واقعی صحابی ہیں یا نہیں
———-
سنن الکبری البیہقی میں ہے
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ أَنَّهُ قَالَ: «إِنَّ السُّنَّةَ فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنَائِزِ أَنْ يُقْرَأَ فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى بِأُمِّ الْقُرْآنِ مُخَافَتَةً ثُمَّ يُكَبِّرُ ثَلَاثًا وَالتَّسْلِيمُ عِنْدَ الْآخِرَةِ»
ابی امامہ سھل نے کہا جنازہ میں قرات ہے
لیکن یہ صحابی نہیں اور یہ انہوں نے ابن المسیب کا قول بیان کیا ہے

——-
فقہاء امام احمد اور امام الشافعی نے ان ضعیف روایات سے دلیل لے کر جنازہ کی نماز میں فاتحہ کا حکم کیا ہے
البتہ امام مالک اور امام ابو حنیفہ نے قرات سے منع کیا ہے –  احناف نے موطا کی روایت کو ترجیح دی ہے جس میں صرف حمد ہے

طبرانی کبیر کی روایت ہے
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو الْقَطِرَانِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الطُّفَيْلِ النَّخَعِيُّ، ثنا شَرِيكٌ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: «لَمْ يُوَقَّتْ لَنَا فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْمَيِّتِ قِرَاءَةٌ، وَلَا قَوْلٌ، كَبِّرْ مَا كَبَّرَ الْإِمَامُ، وَأَكْثِرْ مِنْ طَيِّبِ الْقَوْلِ»
مسروق نے کہا ابن مسعود رضی الله عنہ نے کہا ہمارے لئے میت پر نماز میں قرات یا قول نہیں کی گئی ہے بس امام کی تکبیر پر تکبیر کریں گے اور اکثر اچھا قول کہیں گے
اسی کتاب کی دوسری روایت ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، ثنا عَلِيُّ بْنُ حَكِيمٍ الْأَوْدِيُّ، ثنا شَرِيكٌ، عَنِ الشَّيْبَانِيِّ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ، أَوْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللهِ: «لَمْ يُوَقَّتْ لَنَا عَلَى الْجَنَازَةِ قَوْلٌ وَلَا قِرَاءَةٌ، كَبِّرْ مَا كَبَّرَ الْإِمَامُ، أَكْثِرْ مِنْ أَطْيَبِ الْكَلَامِ»
مسروق یا علقمہ نے کہا ابن مسعود رضی الله عنہ نے کہا ہمارے لئے جنازہ میں نہ قول ہے نہ قرات ہے – امام کی تکبیر پر تکبیر کرو اور اکثر اچھا کلام کرو

دارقطنی نے علل میں ذکر کیا ہے کہ
وَسُئِلَ عَنْ حَدِيثِ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ لَمْ يُوَقَّتْ لَنَا فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنَائِزِ. … وَالْمَحْفُوظُ قَوْلُ مَنْ قَالَ لَمْ يُوَقِّتْ لَنَا
محفوظ وہ ہے جس میں ہے کہ ابن مسعود نے کہا کہ ہمارے لئے مقرر نہیں کیا گیا

یعنی یہ روایت صحیح ہے محفوظ ہے

مجمع الزوائد میں الہیثمی نے لکھا ہے
وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: لَمْ يُوَقَّتْ لَنَا فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْمَيِّتِ قِرَاءَةٌ وَلَا قَوْلٌ، كَبِّرْ مَا كَبَّرَ الْإِمَامُ، وَأَكْثِرْ مِنْ طِيبِ الْكَلَامِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيحِ.
اس کے رجال صحیح کے ہیں

اس اثر کو احناف نے لیا ہے

جواب اس کا اضافہ عبد الله ابن عمر رضی الله عنہ اور  زین عابدین علی بن حسین  نے کیا

مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: نا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِيهِ، وَمُسْلِمِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ حُسَيْنٍ، كَانَ يُؤَذِّنُ، فَإِذَا بَلَغَ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، قَالَ: «حَيَّ عَلَى خَيْرِ الْعَمَلِ»، وَيَقُولُ: «هُوَ الْأَذَانُ الْأَوَّلُ»

امام جعفر اپنے والد اور مسلم بن ابی مریم سے وہ علی بن حسین  کہ انہوں نے اذان دی پس جب حَيَّ علی الفلاح پر پھنچے تو کہا حی علی خیر العمل اور کہا کہ یہ  اذان اول ہے

اسی کتاب میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ فِي أَذَانِهِ: «الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ»، وَرُبَّمَا قَالَ: «حَيَّ عَلَى خَيْرِ الْعَمَلِ»

ابن عمر جب  اذان دیتے تو کہتے الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ اور کبھی کہتے حَيَّ عَلَى خَيْرِ الْعَمَلِ

لیکن  تواتر سے یہ الفاظ  نقل نہیں ہوئے صرف ابن عمر اور علی بن حسین  کے لئے ملتا ہے کہ انہوں نے ان الفاظ کو اذان میں ادا کیا  لیکن وہ کہتے ہیں یہ اذان اول ہے– اس کو بدعت نہیں کہنا چاہیے کیونکہ  صحابہ سے بدعات  کی شروعات نہیں ہوئیں

بیہقی سنن الکبری میں کہتے ہیں

قَالَ الشَّيْخُ: وَهَذِهِ اللفظةُ لَمْ تَثْبُتْ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا عَلَّمَ بِلَالًا وَأَبَا مَحْذُورَةَ وَنَحْنُ نَكْرَهُ الزِّيَادَةَ فِيهِ

یہ الفاظ نبی صلی الله علیہ وسلم سےثابت نہیں جیسا کہ بلال اور ابو مَحْذُورَةَ نے سکھائے اور ہم اس زیادت کا انکار کریں گے

علم حدیث کا اصول ہے کہ بعض اوقات  زیادت ثقہ بھی قبول کی جاتی ہے لہذا  بیہقی کا یہ کہنا مناسب نہیں صاف بات یہ ہے کہ یہ الفاظ تواتر سے نہیں ملے لہذا ان کو نہیں کہا جاتا

کتاب   فتاوى دار الإفتاء المصرية کے مطابق

وفى مصر، عندما ملك الفاطميون أمر جوهر الصقلى أن يكون الأذان على عمل آل البيت، فزيد فيه “حى على خير العمل ” وأصله فى مسند ابن أبى شيبة، فكان المؤذن بعد الأذان يقف على باب القصر ويقول: السلام عليك يا أمير المؤمنين. وربما قال بعد ذلك: الصلاة والسلام عليك يا أمير المؤمنين وعلى آبائك الطاهرين. فلما زالت دولة الفاطميين وجاءت الدولة الأيوبية نبذ صلاح الدين كل ما كان لهم من شعار، فبدَّل السلام على الخليفة بالسلام على رسول الله، فكان المؤذن بعد الأذان يقول: السلام عليك يا رسول الله ورحمة الله وبركاته.

فاطمیوں کے دور میں مصر میں اذان میں  حى على خير العمل کے  الفاظ کا اضافہ کیا گیا اور دلیل میں مصنف ابن ابی شیبہ کی اوپر والی روایات کا  ہی استعمال کیا گیا ان کے بعد صلاح الدین ایوبی آیا اس نے اذان  کے آخر میں   السلام عليك يا رسول الله ورحمة الله وبركاته  کا اضافہ کر دیا

صلاح الدین ایوبی کی بدعت پر آج تک بریلوی فرقہ عمل کرتا ہے

ابن حزم المحلی میں لکھتے ہیں

وقد صحَّ عن ابن عمر وأبي أمامة بن سهل بن حنيف أنهم كانوا يقولون في أذانهم (حي على خير العمل) ، ولا نقول به؛ لأنه لم يصح عن النبي -صلى الله عليه وسلم-

اور صحیح ہے کہ ابن عمر اور  أبي أمامة بن سهل بن حنيف   اذان میں حى على خير العمل کے  الفاظ کہتے تھے لیکن ہم نہیں کہتے  کیونکہ یہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے صحیح  ثابت نہیں

موطا امام مالک بہ روایت امام محمد میں ہے

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، «أَنَّهُ كَانَ يُكَبِّرُ فِي النِّدَاءِ ثَلاثًا وَيَتَشَهَّدُ ثَلاثًا، وَكَانَ أَحْيَانًا إِذَا قَالَ حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ , قَالَ عَلَى إِثْرِهَا حَيَّ عَلَى خَيْرِ الْعَمَلِ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ يَكْوُنُ ذَلِكَ فِي نِدَاءِ الصُّبْحِ بَعْدَ الْفَرَاغِ مِنَ النِّدَاءِ، وَلا يَجِبُ أَنْ يُزَادَ فِي النِّدَاءِ مَا لَمْ يَكُنْ مِنْهُ

مالک کو  نَافِعٌ نے خبر دی  انہوں نے کہا کہ ابن عمر جب اذان کی تکبیر کہتے تو تین دفعہ کہتے اور تین دفعہ تشہد

پڑھتے اور بعض اوقات حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ  کے بعد حَيَّ عَلَى خَيْرِ الْعَمَلِ  کہتے

محمّد بن حسن کہتے ہیں کہ   الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ  کے الفاظ صبح کی اذان میں  ہوتے تھے  اذان ختم ہونے  کے بعد اور میں یہ پسند نہیں کروں گاکہ اذان میں  اس چیز کا اضافہ کر دوں جو اس میں نہیں

امام مالک کے نزدیک الصَّلاَةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ  کے الفاظ بھی اضافی ہیں موطا میں کہتے ہیں

مَالِكٌ؛ أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ الْمُؤَذِّنَ جَاءَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يُؤْذِنُهُ لِصَلاَةِ الصُّبْحِ، فَوَجَدَهُ نَائِمَاً. فَقَالَ: الصَّلاَةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ. فَأَمَرَهُ عُمَرُ يَجْعَلُهَا  فِي نِدَاءِ الصُّبْحِ

مالک کو پہنچا کہ موذن عمر بن الخطاب کو فجر کی نماز پر اٹھانے گیا تو وہ سو رہے تھے پس کہا  الصَّلاَةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ اور عمر نے حکم دیا کہ ان الفاظ کو صبح کی اذان میں شامل کر لیا جائے

یہ روایت امام مالک کی بلاغات میں سے ہے جس پر اہل علم کہتے ہیں صحیح ہے – بلاغ موطا امام مالک  کے بارے میں امام سفیان ؒ سے منقول ہے
إذا قال مالك بلغني فهو إسناد صحيح
جب امام مالک بلغنی کہہ دیں تو اس کی سند صحیح ہوتی ہے ۔
(زرقانی شرح الموطا ۱۔۳۶۷)

کتاب الموقظہ  میں الذھبی کہتے ہیں

أجوَدُ ذلك ما قال فيه مالكُ: “بلَغَنِي أنَّ رسولَ الله – صلى الله عليه وسلم – قال: كذا وكذا”. فإنَّ مالكاً مُتَثَبِّتٌ، فلعلَّ بلاغاتهِ أقوى من مراسَيل

منقطع میں سب سے اچھی وہ ہے جب مالک کہتے ہیں ان تک پہنچا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے  کہا ایسا یا ایسا کیونکہ مالک ثبت ہیں ان کی بلاغات تو مراسیل سے بھی قوی ہیں

امام مالک عموما اہل مدینہ کے عمل کا بھی ذکر کرتے ہیں لیکن موطا میں انہوں نے اس مقام پر کوئی وضاحت نہیں کی

اس کے علاوہ صحیح بخاری مسلم  مسند احمد میں  الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ  پر کوئی ایک بھی روایت نہیں ہے

الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ کے الفاظ سے سنن ابی داود میں روایت ہے جس کی سند ہے

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي مَحْذُورَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ

اس میں راوی  مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي مَحْذُورَةَ مجھول ہے کتاب إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال  از  مغلطاي  کے مطابق

قال عبد الحق: لا يحتج بهذا الإسناد. وقال ابن القطان: محمد مجهول الحال، لا نعرف روى عنه إلا الحارث بن عبيد

عبد الحق کہتے ہیں اس اسناد سے اجتجاج نہ کیا جائے اور ابن القطان کہتے ہیں مجھول الحال ہے ہم اس کو نہیں جانتے

اس سے  سوائے  الحارث بن عبيد   کے کوئی روایت نہیں کرتا

اس کے باوجود البانی اس کو صحیح کہتے ہیں

الذھبی کتاب  ذيل ديوان الضعفاء والمتروكين  میں کہتے ہیں

محمد بن عبد الملك بن أبي محذورة: عن أبيه في الأذان. فيه جهالة.

محمد بن عبد الملك بن أبي محذورة اپنے باپ سے اذان کے بارے ہیں اس میں جہالت ہے

یعنی مجھول ہے

ابی داود میں ایک اور سند ہے

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُثْمَانُ بْنُ السَّائِبِ، أَخْبَرَنِي أَبِي، وَأُمُّ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي مَحْذُورَةَ، عَنْ أَبِي مَحْذُورَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

اس میں عثمان بن السائب الجمحي   ہے جس کے لئے لسان المیزان میں ہے

عثمان بن السائب الجمحي مولى أبي محذورة.  رَوَى عَن أبيه وأم عبد الملك بن أبي محذورة. وعنه ابن جريج. قال ابن القطان: لا يعرف

یہ راوی بھی مجھول ہے

ابی داود کی تیسری سند ہے

حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي مَحْذُورَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ جَدِّي عَبْدَ الْمَلِكِ بْنَ أَبِي  مَحْذُورَةَ، يَذْكُرُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا مَحْذُورَةَ، يَقُولُ: ” أَلْقَى عَلَيَّ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَذَانَ

اس میں  عَبد الْمَلِكِ بْنِ أَبي مَحذُورَة، ہے جن کا ذکر تو محدثین نے کیا ہے لیکن توثیق کہیں نہ ملی سوائے ابن حبان کی کتب کے جو مجھول راویوں کی توثیق کے لئے مشھور ہیں لہذا ان کا درجہ مجھول کا ہے

ابن ماجہ کی روایت ہے

حدثنا عمرو بن رافع حدثنا عبد الله بن المبارك عن معمر عن الزهري عن سعيد ابن المسيب عن بلال أنه أتى النبي صلى الله عليه وسلم يؤذنه بصلاة الفجر فقيل هو نائم فقال الصلاة خير من النوم الصلاة خير من النوم فأقرت في تأذين الفجر فثبت الأمر على ذلك.

اس میں سعید بن المسیب،  بلال رضی الله عنہ سے روایت کر رہے ہیں جو صحیح نہیں

کتاب إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي  کے مطابق

وأما روايته عن بلال، فيقتضي أن تكون مرسلة لأن ابن أبي حاتم قال: إن مولد سعيد على المشهور سنة خمس عشرة، وبلال توفي سنة ثماني عشرة وقيل سنة عشرين بالشام، وأيا ما كان فلا يمكن سماعه منه بوجه من الوجوه لا سيما وليس بلدي

سعید کا سماع بلال رضی الله عنہ سے ثابت نہیں ہے

البانی اگرچہ اس کو صحیح کہتے ہیں

النسائی میں بھی ہے جہاں اس کی سند ہے

أخبرنا سويد بن نصر قال أنبأنا عبد الله عن سفيان عن أبي جعفر عن أبي سلمان عن أبي محذورة قال كنت أؤذن لرسول الله صلى الله عليه وسلم وكنت أقول في أذان الفجر الأول حي على الفلاح الصلاة خير من النوم الصلاة خير من النوم الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله.

اس میں ابو جعفر مجھول ہے نسائی کہتے ہیں

أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، وَلَيْسَ بِأَبِي جَعْفَرٍ الْفَرَّاءِ

عبد الرحمان المہدی کہتے ہیں کہ یہ ابو جعفر الفراء نہیں ہے

لیکن یہ بھی نہیں بتاتے کہ کون ہے

ابی سلمان بھی مجھول ہے کتاب موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله  کے مطابق

أبو سلمان المؤذن، مؤذن الحجاج، عن زيد بن أرقم. قال الدَّارَقُطْنِيّ: مجهول. «تهذيب التهذيب

اس سلسلے میں سنن دارقطنی کی روایت بھی پیش کی جاتی ہے

من السّنّۃ اذا قال المؤ ذّن فی أذان الفجر حیّ علی الفلاح، قال: الصّلاۃ خیر من  النّوم

 یہ سنت میں سے ہے کہ  مؤذّن اذان فجر میں حیّ علی  الفلاح کے الفاظ کہے تو الصّلاۃ خیر من النّوم کے الفاظ کہے

لیکن ضياء الدين أبو عبد الله محمد بن عبد الواحد المقدسي (المتوفى: 643هـ)  اپنی تالیف الأحاديث المختارة أو المستخرج من الأحاديث المختارة مما لم يخرجه البخاري ومسلم في صحيحيهما دار خضر للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت – لبنان
میں کہتے ہیں

كَذَا رَوَاهُ الدَّارَقُطْنِيُّ وَرَوَاهُ أَيْضًا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْوَكِيلِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَرَفَةَ عَنْ هُشَيْمٍ عَنِ ابْنِ عَوْنٍ عَنِ ابْنِ سِيرِينَ عَنْ أَنَسٍ بِنَحْوِهِ وَلم يقل من السّنة

اسی طرح دارقطنی نے هُشَيْمٍ  سے روایت کیا ہے لیکن اس میں سنت میں سے ہے کے الفاظ نہیں ہیں

معلوم ہوا کہ سنت میں سے ہے کے الفاظ ثابت نہیں ہیں بعض اسناد میں ہیں اور بعض میں نہیں ہیں

دارقطنی علل میں کہتے ہیں

وَسُئِلَ عَنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أنس كان التثويب على عهد النبي صلى الله عليه وسلم: الصلاة خير من النوم.
فقال: رواه هشيم، واختلف عنه؛ فرواه وهب بن بقية، عَنْ هُشَيْمٌ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أنس كان التثويب عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلم. وخالفه سعيد بن منصور، وسريج بن يونس، والحسن بن عرفة، رووه عن هشيم، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أنس كان التثويب، ولم يقل: عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلم.  وكذلك رواه يزيد بن زريع، وحسين بن حسن، عن ابن عون.  ورواه أبو أسامة، عن ابن عون، عن محمد، عن أنس، قال: من السنة … والموقوف هو المحفوظ.

اور سوال کیا حدیث ابن سیرین کی تثویب پر کہ یہ عہد نبوی میں تھا پس دارقطنی نے کہا اس کو ہشیم نے روایت کیا ہے اور اختلاف کیا ہے اور کہا یہ عہد نبوی میں تھا … اور دوسری سند جس کو وھب نے روایت کیا ہے اس میں ہشیم نے  یہ نہیں کہا کہ یہ عہد نبوی میں  تھا اور اسی طرح یزید بن زريع نے روایت کیا ہے اور ابو اسامہ نے روایت کیا ہے اور اس میں کہا سنت میں سے ہے  … اور جو موقوف ہے وہ محفوظ ہے

تثویب والی روایت کی تمام اسناد میں اس کو ابن عون ، ابن سیرین سے روایت کرتے ہیں

اسی کتاب میں ایک دوسری روایت پر دارقطنی کہتے ہیں

ورواه ابن عون، عن ابن سيرين مرسلا.

ابن عون نے اس کو ابن سیرین سے مرسل روایت کیا ہے

یعنی ابن عون نے ابن سیرین سے ارسال بھی کیا ہے لہذا  تثویب والی روایت ایک ہی سند اور اس علت کی وجہ سے مشکوک ہے یہ کیسے پتا چلے گا کہ اس روایت میں ارسال نہیں ہوا

قرطبی سوره المائدہ کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ اذان میں الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ کہنا

وهو قول الشافعي بالعراق ، وقال بمصر : لا يقول ذلك ، وقال أبو حنيفة وأصحابه : يقوله بعد الفراغ من الأذان إن شاء

یہ شافعی کا قول ہے عراق میں اور مصر جا کر کہا نہیں کہنا چاہیے اور ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب  کہتے ہیں کہ اذان کے بعد کہہ دے اگر چاہے

الغرض الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ  کو کہنے میں فقہاء کا اختلاف ہے

اس سلسلے میں فقہاء کا اختلاف ہے امام بخاری کی رائے میں مقتدی پڑھے گا  امام مسلم کی رائے محسوس ہوتی ہے دل میں پڑھے گا جیسا کہ ابو ھریرہ رضی الله عنہ کی روایت انہوں نے بیان کی ہے

امام مالک کے نزدیک سری نماز میں امام کے پیچھے  پڑھے گا  اور ابو حنیفہ کے نزدیک پڑھنا ضروری نہیں اور شافعی اور احمد کے نزدیک ضروری ہے

راقم کا موقف ہے کہ  امام کے پیچھے سری نماز میں  مقتدی چاہے تو پڑھ لے امام کے رکوع سے پہلے پہلے-  اگر انفرادی نماز  پڑھ رہا ہے تو لازم ہے کہ پڑھے ورنہ نماز نہ ہو گی

امام کے پیچھے مقتدی کی غلطی غلطی نہیں اس کو  تسبیحات  کرنا بھی ضروری نہیں -صرف فرائض کو  امام کے ساتھ پورا کر لے اور جب قرات ہو تو خاموش رہے کچھ نہ پڑھے اگر  مقتدی امام کے پیچھے ہے اور فاتحہ مکمل نہ کر سکا اور امام رکوع میں چلا گیا تو مقتدی کو بھی رکوع کرنا چاہیے

 

مصنف ابن ابی شیبہ  میں کچھ آثار ہیں

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ الله بْنِ الْعَيْزَارِ قَالَ: «كُنْتُ أَطُوفُ مَعَ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، فَرَأَى رَجُلًا يُصَلِّي وَاضِعًا إِحْدَى يَدَيْهِ عَلَى الْأُخْرَى، هَذِهِ عَلَى هَذِهِ، وَهَذِهِ عَلَى هَذِهِ، فَذَهَبَ فَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا، ثُمَّ جَاءَ»

عَبْدِ الله بْنِ الْعَيْزَارِ نے کہا کہ میں نے سعید بن جبیر کے ساتھ طواف کیا   ایک شخص کو دیکھا جو ہاتھ پر ہاتھ رکھے نماز پڑھ رہا تھا انہوں نے اس کے ہاتھوں کو الگ کیا

سند میں عَبْدِ الله بْنِ الْعَيْزَارِ مجھول ہے

دوسری روایت ہے

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ عَبْدِ الله بْنِ يَزِيدَ قَالَ: «مَا رَأَيْتُ ابْنَ الْمُسَيِّبِ، قَابِضًا يَمِينَهُ فِي الصَّلَاةِ، كَانَ يُرْسِلُهَا»

عبد الله بن يزيد القرشى المخزومى المدنى المقرىء الأعور المتوفی ٢١٣ ھ  ثقہ ہیں اور امام مالک کے شیوخ میں سے ہیں

عُمَر بْن هارون البلْخيّ المتوفی ٢٠٠ ھ متروك ہیں

تیسری روایت ہے

حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، أَنَّهُ سُئِلَ عنِ الرَّجُلِ يُمْسِكَ يَمِينَهُ بِشِمَالِهِ قَالَ: «إِنَّمَا فُعِلَ ذَلِكَ مِنْ أَجْلِ الدَّمِ»

ابْنِ سِيرِينَ کے بقول ہاتھ پر ہاتھ رکھنے کی وجہ خون تھا

لیکن خون اگر اتنا بہہ رہا تھا تو وضو باقی کیسے رہا؟

چوتھی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ دِينَارٍ قَالَ: «كَانَ ابْنُ الزُّبَيْرِ، إِذَا صَلَّى يُرْسِلُ يَدَيْهِ»

عَمْرَو بْنَ دِينَارٍ نے کہا کہ عبد الله بن زبیر جب نماز پڑھتے تو ہاتھ چھوڑ دیتے

يَزِيْدُ بنُ إِبْرَاهِيْمَ التُّسْتَرِيُّ ثقه ہیں اور عمرو بن دينار المكى  بھی ثقہ ہیں

ان روایات میں یہ سب سے مناسب اثر ہے

پانچویں روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ، وَمُغِيرَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، «أَنَّهُمَا كَانَا يُرْسِلَانِ أَيْدِيَهُمَا فِي الصَّلَاةِ»

هشيم بن بشير مدلس ہیں

امام مالک موطا میں روایت کرتے ہیں

حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ بْنِ أَبِي الْمُخَارِقِ الْبَصْرِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: «مِنْ كَلَامِ النُّبُوَّةِ إِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَافْعَلْ مَا شِئْتَ

وَوَضْعُ الْيَدَيْنِ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فِي الصَّلَاةِ، يَضَعُ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى

امام مالک ، عَبْدِ الْكَرِيمِ بْنِ أَبِي الْمُخَارِقِ الْبَصْرِيِّ کا قول پیش کرتے ہیں کہ ہاتھوں کو ایک کے اوپر ایک رکھنا نماز میں انبیاء کا عمل ہے

موطا میں یہ بھی ہے

وَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي حَازِمِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَنَّهُ قَالَ: «كَانَ النَّاسُ يُؤْمَرُونَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ الْيَدَ الْيُمْنَى عَلَى ذِرَاعِهِ الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ» قَالَ أَبُو حَازِمٍ: لَا أَعْلَمُ إِلَّا أَنَّهُ يَنْمِي ذَلِكَ

مالک،   أَبِي حَازِمِ بْنِ دِينَارٍ سے وہ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ سے بیان کرتے ہیں کہ لوگ سیدھے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنے کا نماز میں کہتے ابو حازم کہتے ہیں میں نہیں جانتا سوائے اس کے کہ وہ اس کی ترغیب دیتے تھے

موطا امام مالک میں الفاظ يَنْمِي ذَلِكَ نقل ہوئے ہیں

صحیح بخاری میں امام بخاری ان الفاظ کی الگ  وضاحت کرتے ہیں جس سے مفھوم بدل جاتا ہے

قَالَ إِسْمَاعِيلُ: يُنْمَى ذَلِكَ وَلَمْ يَقُلْ يَنْمِي

اسمٰعیل کہتے ہیں انہوں نے يُنْمَى ذَلِكَ  کہا ہے يَنْمِي نہیں کہا ہے

اس کی شرح میں مصطفی البغا کہتے ہیں

(لا أعلمه إلا ينمي ذلك) يسند ما قاله ويرفعه إلى النبي صلى الله عليه وسلم

یعنی اس کو رفع کر کے نبی صلی الله علیہ وسلم تک لے جاتے

یعنی ہاتھ باندھنے کے قول کو نبی صلی الله علیہ وسلم سے منسوب کیا جاتا

ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے پر آثار ہیں اور کھول کر پڑھنے پر بھی لیکن صحیح مسلم کی حدیث میں ہے

وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ روایت کرتے ہیں

حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ وَائِلٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، وَمَوْلًى لَهُمْ أَنَّهُمَا حَدَّثَاهُ عَنْ أَبِيهِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ

رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ كَبَّرَ، – وَصَفَ هَمَّامٌ حِيَالَ أُذُنَيْهِ – ثُمَّ الْتَحَفَ بِثَوْبِهِ، ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى،

انہوں نے رسول اللہ کو دیکھا کہ جب نماز میں داخل ہوتے تو تکبیر کہتے … پھر دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھتے

امام مسلم نے سند دی ہے کہ  عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ وَائِلٍ نے علقمة بن وائل بن حجر اور ایک آزاد کردہ غلام سے سنا کہ ان کے باپ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ نے بیان کیا

کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق

علقمة بن وائل بن حجر قال بن معين لم يسمع من أبيه شيئا

علقمة بن وائل بن حجر کے لئے ابن معین کہتے ہیں انہوں نے اپنے باپ سے کچھ نہ سنا

دوسرا مسئلہ اس سند میں ہے کہ آزاد کردہ غلام کا نام نہیں لیا گیا

یہ محدثین کا اختلاف ہے امام مسلم کی رائے میں علقمة بن وائل بن حجر نے سنا ہو گا اور امام ترمذی سنن میں کہتے ہیں وعلقمة بن حجر سمع من أبيه کہ انہوں نے باپ سے سنا –  یحیی ابن معین کی رائے میں نہیں سنا امام بخاری تاریخ الکبیر میں کہتے ہیں     سمع أباه انہوں نے اپنے باپ سے سنا لیکن صحیح میں ان کی باپ سے سنی روایت نہیں لکھتے – علقمة بن وائل امام مسلم اور سنن اربع والوں نے روایت لی ہے امام بخاری نے نہیں لی

مسند البزاز میں اس کی ایک سند ہے جس میں عَاصِم بْنِ كُلَيْبٍ اپنے باپ سے اور وہ وائل بن حجر سے اس کو روایت کرتے ہیں

حَدَّثنا مُحَمد بْنُ عَبد الْمَلِكِ الْقُرَشِيُّ، قَال: حَدَّثنا بِشْر بن المُفَضَّل، قَال: حَدَّثنا عَاصِم بْنِ كُلَيْبٍ، عَن أَبيهِ، عَن وَائِلِ بْنِ حُجْر، رَضِي الله عَنْهُ، قَالَ رَمَقْتُ النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم فَلَمَّا افْتَتَحَ الصَّلاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى بَلَغَ بِهِمَا أُذُنَيْهِ، وَكَبَّرَ، ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلى الْيُسْرَى

  ایک دوسری روایت میں اسی   عَاصِم بْنِ كُلَيْبٍ  کی روایت پر یہ اضافہ  بھی ملتا ہے کہ ہاتھ کس طرح  باندھے گئے

ثم وضع یدہ الیمنیٰ علی ظھر کفہ الیسریٰ والرسغ والساعد
پھر آپ نے دایاں ہاتھ بائیں ہتھیلی، کلائی اور بازو  پر رکھا۔

اب اس پر دیوبندیوں اور فرقہ اہل حدیث میں  بحث ہوتی ہے کہ یہ ہاتھ سینے پر تھا یا اس سے نیچے ناف پر تھا

اس کو کوئی بھی شخص کر کے دیکھ سکتا ہے کہ ہاتھ ناف پر بھی آ جاتا ہے اور روایت میں جو کیفیت ہے وہ بھی پوری ہو جاتی ہے

لب لباب یہ کہ ہاتھ باندھبے پر آثار  دونوں طرح کے ہیں  بعض کے نزدیک چھوڑ دو بعض کے نزدیک باندھ لو- روایت مسلم پر  اکابر محدثین کا اختلاف رہا ہے –  لیکن یہ امت میں  ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے کا جاری عمل ہے جو تواتر سے آ رہا ہے لہذا کرنا  احسن ہے

امام ترمذی سنن میں لکھتے ہیں

وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالتَّابِعِينَ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ، يَرَوْنَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ يَمِينَهُ عَلَى شِمَالِهِ فِي الصَّلاَةِ، وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يَضَعَهُمَا فَوْقَ السُّرَّةِ.
وَرَأَى بَعْضُهُمْ: أَنْ يَضَعَهُمَا تَحْتَ السُّرَّةِ، وَكُلُّ ذَلِكَ وَاسِعٌ عِنْدَهُمْ.

اور ہاتھ باندھنے پر اہل علم کا عمل ہے اصحاب النبی اور تابعین اور ان کے بعد والوں کا اور ان کے نزدیک سیدھے باتھ کو الٹے ہاتھ پر رکھا جائے گا نماز میں اور ان میں سے بعض کے نزدیک ناف سے اوپر اور بعض کے نزدیک ناف سے نیچے اور اس میں ہر عمل کی گنجائش ہے

امام ترمذی کی رائے کو مالکیہ نے قبول عامہ نہ دی اور وہ ابھی تک ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں اور شمالی افریقہ کے ممالک میں اسی طرح ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھی جاتی ہے لیکن بر صغیر میں اس بات کو چھپایا جاتا ہے

جواب

صلوۃ التسبیح کی روایت پر مندرجہ ذیل صورت حال ہے

ابی رافع رضی الله عنہ کی روایت

ترمذی کی سند ہے

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ العَلَاءِ قَالَ: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ العُكْلِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُبَيْدَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، مَوْلَى أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ،

 ابن ماجہ کی سند ہے

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَبُو عِيسَى الْمَسْرُوقِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُبَيْدَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، مَوْلَى أَبِي بَكْرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ

یہ روایت زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، مُوسَى بْنُ عُبَيْدَةَ سے وہ سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ سے کی سند سے ہے

 ترمذی کہتے ہیں

وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ حَدِيثٍ فِي صَلَاةِ التَّسْبِيحِ، وَلَا يَصِحُّ مِنْهُ كَبِيرُ شَيْءٍ، وَقَدْ رَأَى ابْنُ المُبَارَكِ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ العِلْمِ:

صَلَاةَ التَّسْبِيحِ وَذَكَرُوا الفَضْلَ فِيهِ “

صَلَاةِ التَّسْبِيحِ  پر کوئی روایت صحیح نہیں اور ابن مبارک اور دیگر اہل علم نے صَلَاةِ التَّسْبِيحِ کا اور اس کے فضل کا ذکر کیا ہے

ابن جوزی المتوفی ٥٩٧ ھ نے کتاب الموضوعات (گھڑی ہوئی روایات) میں  لکھتے ہیں

فَفِيهِ مُوسَى بْن عُبَيْدَة.

قَالَ أَحْمَد: لَا تحل عِنْدِي الرِّوَايَةُ عَنْهُ.

وَقَالَ يَحْيَى: لَيْسَ بشئ.

اس کی سند میں مُوسَى بْن عُبَيْدَة ہے احمد کہتے ہیں اس سے روایت کرنا میرے نزدیک جائز نہیں اور یحییٰ کہتے ہیں کوئی شے نہیں

 مغلطاي کتاب  إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال میں لکھتے ہیں کہ ابن شاہین کہتے ہیں

 قال عبد الله بن أبي داود: أصح حديث في التسبيح حديث العباس – يعني الذي رواه موسى بن عبد العزيز -.

عبد الله بن أبي داود کہتے ہیں التسبيح میں سب سے صحیح حدیث عبّاس والی ہے یعنی وہ جو موسى بن عبد العزيز  روایت کرتا ہے

اب اس روایت کا حال بھی دیکھئے

 ابن عبّاس رضی الله تعالی عنہ کی روایت

ابو داود کی سند ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ بِشْرِ بْنِ الْحَكَمِ النَّيْسَابُورِيُّ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ

ابن ماجہ کی سند ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ بِشْرِ بْنِ الْحَكَمِ النَّيْسَابُورِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،

صحیح ابن خزیمہ کی سند ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ بِشْرِ بْنِ الْحَكَمِ، أَمْلَى بِالْكُوفَةِ، نا مُوسَى بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ أَبُو شُعَيْبٍ الْعَدَنِيُّ وَهُوَ الَّذِي يُقَالُ لَهُ: الْقَنْبَارِيُّ سَمِعْتُهُ يَقُولُ: أَصْلِي فَارِسِيٌّ قَالَ: حَدَّثَنِي الْحَكَمُ بْنُ أَبَانَ، حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ

یہ تمام روایات أَبُو شُعَيْبٍ الْعَدَنِيُّ الْقَنْبَارِيُّ  مُوسَى بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، وہ الْحَكَمُ بْنُ أَبَانَ سے وہ  عِكْرِمَةَ سے کی سند سے آ رہی ہیں

اہل  حدیث عالم اس کا دفاع   اسطرح کرتے ہیں

اس حدیث کے ایک راوی(موسیٰ بن عبدالعزیز) کو صاحب مضمون نے مجہول بتلایا ہے۔ لیکن موسیٰ بن عبدالعزیز سے ایک جماعت نے حدیث بیان کی ہے۔ ابن معین، نسائی، ابو داؤد ، ابن شاہین وغیرہ ہم جمہور نے اس کی توثیق کی ہے۔ صرف ابن المدینی اور السلیمانی کی جرح ملتی ہے جو کہ جمہور کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ لہذا موسیٰ بن عبدالعزیز‘‘ حسن الحدیث’’ ہے

 ابن جوزی المتوفی ٥٩٧ ھ نے کتاب الموضوعات (گھڑی ہوئی روایات) میں  کے تمام طرق کو کمزور قرار دیا ہے اور کہا ہے

هَذهِ الطّرق كلهَا لَا تثبت.

یہ سارے طرق مظبوط نہیں

 وَأما الطَّرِيق الثَّانِي فَإِن مُوسَى بْن عَبْدِ الْعَزِيزِ مَجْهُول عندنَا.

دوسرے طرق میں  مُوسَى بْن عَبْدِ الْعَزِيزِ  ہے جو ہمارے نزدیک مجھول ہے

 ابن خزیمہ نے اس  روایت کو اگرچہ اپنی صحیح میں بیان کیا ہے لیکن اس پر باب قائم کیا ہے

بَابُ صَلَاةِ التَّسْبِيحِ إِنْ صَحَّ الْخَبَرُ فَإِنَّ فِي الْقَلْبِ مِنْ هَذَا الْإِسْنَادِ شَيْئًا

صَلَاةِ التَّسْبِيحِ کا باب اگر خبر صحیح ہو( تو بھی)  دل میں اس کی اسناد پر کوئی چیز (کھٹکتی ) ہے

ابن خزیمہ  کے مطابق  دال میں کچھ کالا ہے

 ابن حجر میدان میں کودے اور کتاب  الْخِصَال المكفرة للذنوب الْمُقدمَة والمؤخرة  میں کہا

أَسَاءَ ابْن الْجَوْزِيّ بِذكر هَذَا الحَدِيث فِي الموضوعات وَقَوله إِن موسي مَجْهُول لم يصب فِيهِ فَإِن ابْن معِين وَالنَّسَائِيّ وثقاه

برا کیا ابن الجوزی نے جو اس روایت کو الموضوعات میں ذکر کیا اور ان کا قول کہ موسی مجھول ہے صحیح نہیں بے شک ابن معین اور النَّسَائِيّ نے ثقہ کہا ہے

 لیکن الذھبی میزان میں لکھتےہیں

موسى بن عبد العزيز العدنى، أبو شعيب القنبارى  ما أعلمه روى عن غير الحكم بن أبان، فذكر حديث صلاة التسبيح.

روى عنه بشر بن الحكم، وابنه عبد الرحمن بن بشر، وإسحاق بن أبي إسرائيل،  وغيرهم. ولم يذكره أحد في كتب الضعفاء أبدا، ولكن ما هو بالحجة.

موسى بن عبد العزيز العدنى، أبو شعيب القنبارى  میں نہیں جانتا کہ الحكم بن أبان کے علاوہ کسی نے ان سے روایت کیا ہو پس  حدیث صلاة التسبيح روایت کی ہے ان سے بشر بن الحكم،  اور ان کے بیٹے عبد الرحمن بن بشر، اور إسحاق بن أبي إسرائيل  اور دوسروں نے روایت لی ہے. اور ان کو کسی نے   الضعفاء کی کتابوں میں ذکر نہیں کیا لیکن یہ حجت نہیں

 الذھبی مزید کہتے ہیں

حديثه من المنكرات لاسيما والحكم بن أبان ليس أيضا بالثبت.

ان کی احادث میں منکرات ہیں اور الحكم بن أبان بھی ثبت نہیں

 ابن کثیر کتاب  التَّكْميل في الجَرْح والتَّعْدِيل ومَعْرِفة الثِّقَات والضُّعفاء والمجَاهِيل کے مطابق

علي بن المديني  موسى بن عبد العزيز  کومنكر الحديث اور ضعیف بتاتے ہیں

البيهقي اور ابن الجوزيِّ کہتے ہیں مجهول ہے

 معلوم ہوا اس راوی پر صرف ابن المدینی اور السلیمانی کی ہی جرح نہیں دیگر کی بھی ہے

اگر راوی ثقہ بھی ہو جائے تو بھی یہ شاذ روایت ہے جیسا کہ نیچے آ رہا ہے

 دیگر روایات

اہل حدیث عالم لکھتے ہیں

صلوۃ التسبیح کے بارے میں دو اور احادیث بھی قابل حجت ہیں۔

 1۔       حدیث (جابر بن عبداللہ) الا نصاری رضی اللہ عنہ

2۔       حدیث عبداللہ بن عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ۔

 لیکن ابن جوزی المتوفی ٥٩٧ ھ کتاب الموضوعات (گھڑی ہوئی روایات) میں  اس بات کا جواب دیتے  ہیں

 وَقَدْ رويت لنا صَلَاة التَّسْبِيح أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ علمهَا ابْن عَمْرو بْن الْعَاصِ إِلا أَنَّهُ من حَدِيث عَبْد الْعَزِيزِ بْن أَبَان عَنْ سُفْيَان الثَّوْرِيّ عَنْ أَبَان بْن  أَبِي عَيَّاش.

فَأَما عَبْد الْعَزِيزِ فَقَالَ يَحْيَى لَيْسَ بشئ كَذَّاب خَبِيث يضع الحَدِيث

اور بے شک ہم سے روایت کی گئی ہے صَلَاة التَّسْبِيح بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم نے عبدللہ بن عمرو  کو سکھائی .. اس کو عَبْد الْعَزِيزِ بْن أَبَان عَنْ سُفْيَان الثَّوْرِيّ عَنْ أَبَان بْن  أَبِي عَيَّاش کی سند سے بیان کیا ہے اور

عَبْد الْعَزِيزِ بْن أَبَان کو یحییٰ  کہتے ہیں کوئی چیز نہیں، کذاب ، خبیث ، حدیثیں گھڑنے والا 

 کتاب  الفوائد الموضوعة في الأحاديث الموضوعة   کے مطابق

وَحَدِيث: ” صَلاةِ التَّسْبِيحِ “. قَالَ أَحْمَدُ: لَا أَصْلَ لَهُ. وَقَالَ ابْنُ الْجَوْزِيِّ: مَوْضُوعٌ. وَاحْتَجَّ بِذَلِكَ الْحَنَابِلَةُ فِي عَدَمِ اسْتِحْبَابِ صَلاةِ التَّسْبِيحِ

اور وَحَدِيث: ” صَلاةِ التَّسْبِيحِ. احمد کہتے ہیں اس کی کوئی اصل نہیں اور ابن الجوزی کہتے ہیں گھڑی ہوئی ہے اور اس سے حنبلیوں نے احتجاج (دلیل) کیا ہے صَلاةِ التَّسْبِيحِ کی عدم قبولیت پر 

 شوکانی  کتاب الْفَوَائِدِ الْمَجْمُوعَةِ فِي الأَحَادِيثِ الْمَوْضُوعَةِ میں  صَلاةِ التَّسْبِيحِ  پرکہتے ہیں

وَالْحق أَن طرقه كلهَا ضَعِيفَة

اور حق یہ ہے کہ اس کے تمام طرق ضعیف ہیں

 کتاب المغني عن الحفظ والكتاب از أبو حفص (المتوفى: 622هـ) کے مطابق  امام عقیلی کہتے ہیں

قَالَ الْعقيلِيّ: ” لَيْسَ فِي صَلَاة التسابيح، حَدِيث صَحِيح

صَلَاة التسبيح کی روایات میں کوئی صحیح حدیث نہیں

 نووی شرح المهذب میں کہتے ہیں

في استحبابها نظراً؛ لأن حديثها ضعيف، وفيها تغيير لنظم الصلاة المعروفة فينبغي أن لا تفعل بغير حديث، وليس حديثها ثابت

اس کے مستحب ہونے میں نظر ہے کیونکہ اس کی حدیثیں ضعیف ہیں اور ان میں نظام صلاہ میں تغیر ہے پس یہ ہے کہ اس حدیث پر عمل نہ کیا جائے اور یہ حدیث ثابت نہیں

 عبدللہ بن باز فتوی فتاوى نور على الدرب ج ١١ ص ٩٢  میں کہتے ہیں

والأرجح في ذلك أنه غير صحيح، وأنه موضوع، وليس صحيحا عن النبي عليه الصلاة والسلام، هذا هو المعتمد في هذه الصلاة،

اور راجح یہ ہسے کہ یہ صحیح نہیں اور بے شک گھڑی  ہوئی ہے  اور نبی صلی الله علیہ وسلم سے اس میں کوئی صحیح روایت نہیں اور یہی قابل اعتماد بات ہے

 عبدللہ بن باز فتوی فتاوى نور على الدرب ج ١١ ص ٩٢  میں  یہ بھی کہتے ہیں

وحديث شاذ مخالف للأحاديث الصحيحة

یہ شاذ حدیث ہے صحیح احادیث کی مخالف

 اس روایت کو متقدمین سے لے کر متاخرین سب رد کر رہے ہیں لہذا یہ مظبوط روایت نہیں. غیر مقلدین کے ممدوح بن باز

 اور  شوکانی بھی اس کو رد کر رہے ہیں

جواب

قنوت وتر پر مشہور حدیث مصنف ابن ابی شیبہ اور عبد الرزاق میں ہے کہ عمر اور ابی بن کعب اور ابن مسعود رضی الله عنہما یہ پڑھا کرتے تھے
حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: عَلَّمَنَا ابْنُ مَسْعُودٍ أَنْ نَقْرَأَ فِي الْقُنُوتِ: «اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِينُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ، وَنُؤْمِنُ بِكَ وَنُثْنِي عَلَيْكَ الْخَيْرَ، وَلَا نَكْفُرُكَ وَنَخْلَعُ وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ، اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ، وَلَكَ نُصَلِّي، وَنَسْجُدُ، وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ، وَنَرْجُو رَحْمَتَكَ، وَنَخْشَى عَذَابَكَ، إِنَّ عَذَابَكَ الْجِدَّ بِالْكُفَّارِ مُلْحِقٌ»

صحیح ابن خزیمہ میں ہے حسن بن علی نے کہا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے ان کو دعا سکھائی جس کو أَبِي إِسْحَاقَ نے روایت کیا ہے

حَدَّثَنَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، نَا يَحْيَى -يَعْنِي ابْنَ آدَمَ- نَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ أَبِي الْحَوْرَاءِ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ:
حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَلِمَاتٍ عَلَّمَنِيهِنَّ أَقُولُهُنَّ عِنْدَ الْقُنُوتِ.
ثَنَاهُ يُوسُفُ بْنُ مُوسَى وَزِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ قَالَا: ثَنَا وَكِيعٌ، ثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ أَبِي الْحَوْرَاءِ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ:
عَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَلِمَاتٍ أَقُولُهُنَّ فِي قُنُوتِ الْوِتْرِ: “اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ، وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ، وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ، فَإِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ، وَإِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ، تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ”.

ابن خزیمہ نے کہا
وَهَذَا الْخَبَرُ رَوَاهُ شُعْبَةُ بْنُ الْحَجَّاجِ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ فِي قِصَّةِ الدُّعَاءِ، وَلَمْ يَذْكُرِ الْقُنُوتَ وَلَا الْوِتْرَ….. وَشُعْبَةُ أَحْفَظُ مِنْ عَدَدٍ مِثْلَ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ. وَأَبُو إِسْحَاقَ لَا يَعْلَمُ أَسَمِعَ هَذَا الْخَبَرَ مِنْ بُرَيْدٍ أَوْ دَلَّسَهُ عَنْهُ، اللَّهُمَّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ كَمَا يَدَّعِي بَعْضُ عُلَمَائِنَا أَنَّ كُلَّ مَا رَوَاهُ يُونُسُ عَنْ مَنْ رَوَاه عَنْهُ أَبُوهُ أَبُو إِسْحَاقَ هُوَ مِمَّا سَمِعَهُ يُونُسُ مَعَ أَبِيهِ مِمَّنْ رَوَى عَنْهُ. وَلَوْ ثَبَتَ الْخَبَرُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ أَمَرَ بِالْقُنُوتِ فِي الْوِتْرِ، أَوْ قَنَتَ فِي الْوِتْرِ لَمْ يَجُزْ عِنْدِي مُخَالَفَةُ خَبَرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، [121 – أ] وَلَسْتُ أَعْلَمُهُ ثَابِتًا.
اس حدیث کو شعبہ نے بھی روایت کیا ہے اس میں یہ ذکر نہیں ہے کہ یہ دعا قنوت کے لئے تھی … اور شعبہ تو یونس جیسوں سے تو بہت بہتر ہیں – اور ابو اسحاق کا معلوم بھی نہیں ہے کہ اس نے اس خبر کو سنا بھی ہے یا نہیں یا تدلیس کی ہے

حسن رضی الله عنہ سے اس کو أَبِي الْحَوْرَاءِ رَبِيعَةُ بْنُ شَيْبَانَ نے روایت کیا ہے

مستدرک حاکم میں قنوت کی حسن رضی الله عنہ کی روایت کو الذھبی نے تلخیص مستدرک سے حذف کر دیا ہے
حذفه الذهبي من التلخيص لضعفه

مشاہیر از ابن حبان میں ہے
أبو الحوراء السعدي ربيعة بن شيبان من صالحي أهل البصرة لا يوجد له راو ثقة الا يزيد بن أبى مريم
ابو الحوراء السعدي سے صرف ایک ثقہ یزید بن ابی مریم روایت کرتا ہے

کتاب سلم الوصول إلى طبقات الفحول از مصطفى بن عبد الله القسطنطيني العثماني کے مطابق
راوي حديث القنوت [في الوتر]، وهو فرد، ليس في الرجال غيره
یہ قنوت والی حدیث کا راوی ہے اور یہ اکیلا ہے اس سے کوئی اور رجال روایت نہیں کرتے

دونوں روایات کو صحیح کہا گیا ہے بس فرق یہ ہے کہ پہلی والی دعا قنوت ہے کئی اصحاب رسول سے مروی ہے

جبکہ حسن والی روایت کو شعبہ نے دعا قنوت قرار نہیں دیا ہے

یہ دعا قنوت نازلہ میں پڑھی جائے گی عام نوافل والے وتر میں اس کو پڑھنے کی دلیل نہیں ملی

آٹھ (٨) رکعات تراویح سے متعلق روایت موطا امام مالک کی تحقیق درکار ہے

امام مالك رحمه الله (المتوفى179) نے کہا:
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، أَنَّهُ قَالَ: أَمَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ وَتَمِيمًا الدَّارِيَّ أَنْ يَقُومَا لِلنَّاسِ بِإِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً قَالَ: وَقَدْ «كَانَ الْقَارِئُ يَقْرَأُ بِالْمِئِينَ، حَتَّى كُنَّا نَعْتَمِدُ عَلَى الْعِصِيِّ مِنْ طُولِ الْقِيَامِ، وَمَا كُنَّا نَنْصَرِفُ إِلَّا فِي فُرُوعِ الْفَجْرِ»[موطأ مالك : 1/ 115واسنادہ صحیح علی شرط الشیخین ومن طريق مالك رواه النسائی فی السنن الکبری 3/ 113 رقم 4687 و الطحاوی فی شرح معاني الآثار 1/ 293 رقم1741 وابوبکر النیسابوی فی الفوائد (مخطوط) ص 16 رقم 18 ترقیم الشاملہ و البیہقی فی السنن الكبرى 2/ 496 رقم 4392 کلھم من طریق مالک بہ]۔

یہ روایت بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح ہے اس کی سند میں کسی علت کا نام ونشان تک نہیں ، اس روایت سے معلوم ہوا کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے آٹھ رکعات تراویح اور تین رکعات وتر ہی کا حکم دیا اوران کے دور میں آٹھ رکعات تراویح ہی ہوتی تھی ۔
اس روایت کے برخلاف کسی ایک بھی روایت میں یہ ثبوت نہیں ملتا کہ عہدفاروقی میں یا اس سے قبل یا اس کے بعد کسی ایک بھی صحابی نے آٹھ رکعات سے زائد تراویح پڑھی ہو۔ اس سے ثابت ہوا کہ تراویح کی آٹھ رکعات ہونے پر تمام صحابہ کا اجماع تھا ۔

جواب

موطآ میں یہ بھی ہے

 مَالِكٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ؛ أَنَّهُ قَالَ: كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فِي رَمَضَانَ، بِثَلاَثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً
امام مالک کہتے ہیں کہ یزید بن رومان نے کہا کہ لوگ عمر کے دور میں رمضان میں ٢٣ رکعت کا قیام کرتے

یعنی ٢٠ رکعت اور تین وتر

کتاب مختصر قيام الليل وقيام رمضان وكتاب الوتر
از أبو عبد الله محمد بن نصر بن الحجاج المَرْوَزِي (المتوفى: 294هـ) میں 20 سے اوپر اقوال ہیں جن میں بیس رکعت کی تائید تابعین کر رہے ہیں

کتاب الشريعةاز الآجُرِّيُّ کی روایت ہے
وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَخْلَدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ جَرِيرِ بْنِ جَبَلَةَ الْعَتَكِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَكَمُ يَعْنِي ابْنَ مَرْوَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ , عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ , عَنْ أَبِي الْحَسْنَاءِ , أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ «أَمَرَ رَجُلًا أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ فِي رَمَضَانَ خَمْسَ تَرْوِيحَاتٍ عِشْرِينَ رَكْعَةً» [ص:1782] قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ رَحِمَهُ اللَّهُ: وَهَكَذَا بَايَعَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي جَمْعِهِ الْمُصْحَفَ , وَصَوَّبَ رَأْيَهُ فِي جَمْعِهِ , وَقَالَ: أَوَّلُ مَنْ جَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَأَنْكَرَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ عَلَى طَوَائِفَ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ مِمَّنْ عَابَ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِجَمْعِهِ لِلْمُصْحَفِ , فَأَنْكَرَ عَلَيْهِمْ إِنْكَارًا شَدِيدًا خِلَافَ مَا قَالَتْهُ الرَّافِضَةُ

علی رضی الله عنہ نے رمضان میں پانچ ترویحات کا حکم دیا جو بیس رکعت تھیں اس روایت کو صحیح سمجھتے ہوئے محمد بن حسین الآجُرِّيُّ نے کہا ہے کہ روافض جھوٹ بولتے ہیں کہ علی عثمان مخالف تھے

معلوم ہوا اس سے دلیل لی گئی ہے ظاہر ہے صحیح سمجھتے ہوئے ہی دلیل لی جا سکتی ہے

کتاب فضائل الأوقات از البیہقی میں ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ الدَّيْنَوَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ السُّنِّيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: كَانُوا يَقُومُونَ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً، قَالَ: وَكَانُوا يَقْرَءُونَ بِالْمِائَتَيْنِ، وَكَانُوا يَتَوَكَّئُونَ عَلَى عِصِيِّهِمْ فِي عَهْدِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ مِنْ شِدَّةِ الْقِيَامِ [ص:277] قَالَ الشَّيْخُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: وَبِمَعْنَاهُ رَوَاهُ يَزِيدُ بْنُ رُومَانَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ مُرْسَلًا، وَرُوِّينَا عَنْ شُتَيْرِ بْنِ شَكَلٍ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ عَلِيٍّ [ص:278] رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ كَانَ يَؤُمُّهُمْ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً وَيُوتِرُ بِثَلَاثٍ , وَعَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ أَنَّهُ كَانَ يَؤُمُّهُمْ فِي رَمَضَانَ فَيُصَلِّي خَمْسَ تَرْوِيحَاتٍ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَرُوِّينَا عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ أَنَّهُ قَالَ: دَعَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِثَلَاثِ قُرَّاءٍ فَاسْتَقْرَأَهُمْ فَأَمَرَ أَسْرَعَهُمْ قِرَاءَةً أَنْ يَقْرَأَ لِلنَّاسِ فِي رَمَضَانَ ثَلَاثِينَ آيَةً وَأَمَرَ أَوْسَطَهُمْ أَنْ يَقْرَأَ خَمْسًا وَعِشْرِينَ وَأَمَرَ أَبْطَأَهُمْ أَنْ يَقْرَأَ لِلنَّاسِ عِشْرِينَ آيَةً

بیہقی بھی بیس رکعت کے حق میں ہیں

سنن ترمذی میں امام ترمذی کہتے ہیں
وَاخْتَلَفَ أَهْلُ العِلْمِ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ، فَرَأَى بَعْضُهُمْ: أَنْ يُصَلِّيَ إِحْدَى وَأَرْبَعِينَ رَكْعَةً مَعَ الوِتْرِ، وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ المَدِينَةِ، وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَهُمْ بِالمَدِينَةِ،
٤١ رکعت تراویح وتر کے ساتھ اہل مدینہ کا عمل ہے

الغرض تراویح کی کوئی مقدار نہیں صرف طاق رکعت پڑھنی ہے جتنی ہمت ہو کیونکہ جب تک رات ہے اس کو پڑھا جا سکتا ہے

رسول الله صلی الله علیہ وسلم ١١ رکعت پڑھتے تھے لیکن جیسی وہ رکعت تھیں اب کوئی بھی ویسی نہیں پڑھ سکتا لہذا اہمیت رکعت کی تعداد کی نہیں عبادت میں خلوص کی ہے یہی وجہ ہے امام ترمذی کے دور میں ٤١ رکعت تھیں الاجری جو ٣٦٠ ہجری کے ہیں وہ بیس رکعت کی بات کرتے ہیں امام مالک ١١ سے ٢٣ کی بات کرتے ہیں اور بیہقی ٢٠ کی بات کرتے ہیں

بسا اوقات امت میں ایک عمل چلا آ رہا ہوتا ہے تو وہی کیا جاتا ہے مثلا کان میں اذان دینا ضعیف روایت ہے لیکن امام ترمذی کہتے ہیں اس پر عمل چلا آ رہا ہے امام مالک عقیقہ کو بدعت کہتے ہیں شوال کے چھ روزوں کے بھی خلاف ہیں لہذا فقہاء کا اختلاف بعض مسائل میں چلا آ رہا ہے ایسے آج ختم نہیں ہو سکتا

اب سوال ہے کیا آٹھ رکعات تراویح رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے پڑھائی تو ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتیں ہیں کہ رمضان اور غیر رمضان میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی رات کی نماز ایک ہی تھی
چار چار رکعات اور تین وتر

یعنی چار رکعات ایک ہی سلام سے پھر چار ایک ہی سلام سے اس طرح آٹھ پڑھی گئیں

مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلاَ فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلاَثًا

ابن عباس رضی الله خاص طور پر میمونہ رضی الله عنہا کے ہاں کئی دفعہ رکے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی رات کی نماز دیکھیں
صحیح بخاری کی حدیث ہے
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: بِتُّ فِي بَيْتِ خَالَتِي مَيْمُونَةَ بِنْتِ الحَارِثِ زَوْجِ النَّبِيِّ صلّى الله عليه وسلم وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهَا فِي لَيْلَتِهَا، فَصَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ العِشَاءَ، ثُمَّ جَاءَ إِلَى مَنْزِلِهِ، فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ نَامَ، ثُمَّ قَامَ، ثُمَّ قَالَ: «نَامَ الغُلَيِّمُ» أَوْ كَلِمَةً تُشْبِهُهَا، ثُمَّ قَامَ، فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ، فَجَعَلَنِي عَنْ يَمِينِهِ، فَصَلَّى خَمْسَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ نَامَ، حَتَّى سَمِعْتُ غَطِيطَهُ أَوْ خَطِيطَهُ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلاَةِ

رسول الله نے چار رکعت پڑھی پھر سو گئے پھر اٹھے اور پانچ رکعآت پڑھیں پھر دو رکعت پڑھیں کل ١١ ہی ہوئیں لیکن ترتیب الگ ہوئی

وتر یہاں بیچ میں ہے

بخاری کی ہی ایک دوسری ابن عباس کی روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے رات میں تیرہ رکعت پڑھیں
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرٌو، عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مَخْرَمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ كُرَيْبٍ، مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: نِمْتُ عِنْدَ مَيْمُونَةَ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهَا تِلْكَ اللَّيْلَةَ «فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي، فَقُمْتُ عَلَى يَسَارِهِ، فَأَخَذَنِي، فَجَعَلَنِي عَنْ يَمِينِهِ، فَصَلَّى ثَلاَثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، ثُمَّ نَامَ حَتَّى نَفَخَ

بخاری کی روایت میں ان کی ترتیب تھی
ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ أَوْتَرَ
، کل ١٢ رکعت اور ان کے آخر میں ایک وتر
دو رکعات دو رکعات دو رکعات دو رکعات دو رکعات دو رکعات
پھر ایک وتر

معلوم ہوا اصل میں طاق رکعت پڑھنی ہیں

لہذا آٹھ رکعت تراویح مقید نہیں ہیں

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے تراویح کی نماز رات کے بیچ میں پڑھائی
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ لَيْلَةً مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ
تین دن یہ عمل کیا

بخاری کی ابن عباس کی روایت ہے کہ نماز فَلَمَّا كَانَ ثُلُثُ اللَّيْلِ الآخِرُ اس وقت پڑھی گئی جب رات کا تیسرا حصہ تھا یعنی ١٣ رکعت بالکل آخری وقت یا تہجد کے وقت

جبکہ آج کل عشا کے فورا بعد اس کو کیا جاتا ہے اور دو گھنٹے سے بھی کم میں ختم کر دیا جاتا ہے

مَالِكٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ؛ أَنَّهُ قَالَ: [ص:159] أَمَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ وَتَمِيماً الدَّيْرِيَّ (1) أَنْ يَقُومَا لِلنَّاسِ بِإِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً (2).

حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ أَنَّهُ قَالَ: كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِثَلاَثٍة وَعِشْرِينَ رَكْعَةً في رمضان.

السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ نے کہا کہ یہ لوگ عمر کے دور میں ١١ پڑھتے تھے

کتاب فوائد أبي بكر عبد الله بن محمد بن زياد النيسابوري میں ہے

حدثنا يوسف بن سعيد، ثنا حجاج، عن ابن جريج، حدثني إسماعيل بن أمية أن محمد بن يوسف ابن أخت السائب بن يزيد، أخبره أن السائب بن يزيد أخبره قال: جمع عمر بن الخطاب الناس على أبي بن كعب، وتميم الداري، فكانا يقومان بمائة في ركعة فما ينصرف حتى نرى أو نشك في فروع الفجر قال فكنا نقوم بأحد عشر قلت أو واحد وعشرين، قال: لقد سمع ذلك ابن السائب بن يزيد بن خصيفة، فسألت يزيد بن خصيفة، فقال: أحسنت إن السائب قال إحدى وعشرين، قال محمد: أو قلت لإحدى وعشرين، قال أبو بكر: هذا حديث حسن لو كان عند علي بن مديني لفرح به إلا إنه قال: ابن أخت السائب.
سائب بن يزيد نے کہا لوگ رمضان میں عمر کے دور میں … ١١ رکعات پڑھتے تھے – – إسماعيل بن أمية نے کہا محمد بن يوسف ابن أخت السائب بن يزيد نے خبر دی کہ انہوں نے يزيد بن خصيفة سے سوال کیا تو انہوں نے کہا السائب نے ٢١ کہا تھا محمد بن یوسف نے کہا یا ٢١ کہا ہو گا

یعنی سائب سے غلطی ہوئی اصل میں ٢١ تھا امام مالک نے یہ روایت اس بحث کے ہونے سے پہلے لکھی تھی جیسا کہ انہوں نے ١١ لکھا لیکن اس روایت کے مطابق سائب نے ١١ کے قول سے رجوع کیا اس طرح تضاد ختم ہوا

جواب

بہت سے مسائل میں صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کا اختلاف تھا  جو مدینہ سے منتقل ہونے پر مخلتف بلاد و امصآر میں پھیل گئے یہاں تک کہ سن ١٥٠ ہجری میں صحیح نماز کیا ہے ؟ کیا رفع الیدین کیا جائے یا نہ کیا جائے کی بحثوں نے علماء کو گھیر لیا اور تب سے اب تک اس پر کتابیں لکھی جا رہی ہیں

امام مالک اور امام ابو حنیفہ رفع الیدین کے بغیر نماز کو صحیح سمجھتے تھے

امام احمد ، امام الشافعی، امام  بخاری  اس پر عمل ضروری سمجھتے  تھے

احنآف متقدمین  ترک رفع الیدین کے قائل ہیں  بعض اس کو منسوخ عمل کہتے ہیں مالکیہ میں اس پر اختلاف ہے بعض کرتے ہیں بعض نہیں – دوسری طرف  شوافع اور حنابلہ رفع الیدین کو ضروری سمجھتے ہیں اور غیر مقلدین بھی

ان دونوں موقف رکھنے والوں نے ایک دوسرے کے خلاف   کتب لکھیں اس میں  راویوں کی شامت آئی  کیونکہ ان دونوں گروہوں میں رفع الیدین پر  منسوخ اور غیر منسوخ کی بحث چھیڑ گئی

یہ اختلاف بہت قدیم ہے اس مسئلہ پر بہت سی کتب ہیں جو احناف اور غیر مقلدین نے لکھی  ہیں دونوں میں اپنے مدعآ کی روایات ہیں اور ان کا تجزیہ نہیں کیا جاتا بس راوی دیکھا اور ضعیف کہہ دیا یا کوئی نقص نکال دیا – ایک عام قاری سخت خلجان میں مبتلا ہوتا ہے کہ یا الہی یہ ماجرا کیا ہے

یہاں ان روایات کا علاقائی تجزیہ کیا گیا ہے تاکہ اختلاف کو سمجھا جا سکے   اور مخالف و متضاد روایات میں تطبیق کی صورت دیکھی جائے

مدینہ  میں ابن عمر رضی الله عنہ ،  أبو حميد الساعدي رضی الله عنہ الأَنْصَارِيّ (توفي فِي آخر خلافة معاوية)،  جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رضی الله عنہ ، أبو قتادة بن ربعي رضی الله عنہ  ، مُحَمَّد بن مسلمة رضی الله عنہ   رفع الیدین کرتے تھے لیکن وقت کے ساتھ یہ عمل وہاں ختم ہو گیا یہاں تک کہ  امام مالک تک اس کو نہ کرتے تھے

ابن عمر رضی الله عنہ نے رفع الیدین رکوع میں کیا لیکن سجدوں میں نہیں کیا  یہ صحیح بخاری کی روایت ہے لیکن ایک دوسری روایت جو  مسند الحمیدی کی ہے اس میں ہے

حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا الزُّهْرِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: «رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ، وَبَعْدَ مَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ فَلَا يَرْفَعُ وَلَا بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ

عبدالله بن عمر رضی الله عنه نے فرمایا میں نے رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم کو دیکها که جب آپ نماز شروع کرتے تو اپنے هاته کندهوں تک اٹهاتے اور جب رکوع کرتے اور رکوع سے سر اٹهاتے تو رفع یدین نه کرتے اور نه سجدوں کے درمیان رفع یدین کرتے

یعنی  ابن عمر رضی الله عنہ ہر نماز میں رفع الیدین نہیں کرتے تھے –

نوٹ : غیر مقلدین دعوی کرتے ہیں کہ مسند حمیدی کا یہ نسخہ ناقص ہے اس کے مقابلے پر برصغیر کا نسخہ لیا جائے جس میں ابن عمر کا رفع الیدین کا ذکر ہے – جبکہ مسند حمیدی کا  یہ نسخہ عرب دنیا کا ہے اور برصغیر کا نسخہ کس طرح غیر  ناقص نہیں اس کی کوئی خارجی دلیل نہیں ہے

موطآ امام محمد میں ہے

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ حَكِيمٍ، قَالَ: «رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حِذَاءَ أُذُنَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةِ افْتِتَاحِ الصَّلاةِ، وَلَمْ يَرْفَعْهُمَا فِيمَا سِوَى ذَلِكَ

مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ  ،  عبدالعزیز بن حکیم سے روایت هے وه کہتے هیں که میں نے عبدالله بن عمر رضی الله عنه کو دیکها که وه اپنے هاتهوں کو کانوں کے مقابل تک نماز کی پہلی تکبیر کے وقت اٹهاتے اور اس کے سوا کسی موقعه میں نه اٹهاتے تهے

محدثین کی ایک جماعت مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ کو ضعیف کہتی ہے لیکن امام محمد اس روایت کے ساتھ اور روایات بھی نقل کرتے ہیں جن میں  دیگر اصحاب رسول  کا صرف تکبیر تحریمہ پر رفع الیدین کا ذکر ہے گویا ان کے نزدیک یہ روایت حسن ہے اور اس طرح وہ اس سے دلیل لیتے ہیں

مصنف ابن ابی شیبه کی روایت أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ حُصَيْنِ بنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ مُجَاهِدٍ کی سند سے ہے کہ

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: «مَا رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ، يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَا يَفْتَتِحُ

میں  نے نہیں دیکھا کہ ابن عمر رفع الیدین کرتے ہوں سوائے نماز شروع کرنے کے

لگتا ہے کہ ابن عمر رضی الله عنہ نے رفع الیدین کو ہر نماز میں نہیں کیا  جیسا مسند الحمیدی میں ہے  لیکن وہ اس کے قائل تھے کہ اس کو کیا جا سکتا ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے

امام بخاری نے کتاب قرة العينين برفع اليدين في الصلاة میں اس  أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ  کے قول  ایک انتہائی عجیب توجیہ کی  ہے لکھتے ہیں کہ  وَرَوَى عَنْهُ أَهْلُ الْعِلْمِ أَنَّهُ لَمْ يَحْفَظْ مِنِ ابْنِ عُمَرَ إِلَّا أَنْ يَكُونَ ابْنُ عُمَرَ سَهَا كَبَعْضِ مَا يَسْهُو الرَّجُلُ فِي الصَّلَاةِ فِي الشَّيْءِ بَعْدَ الشَّيْءِ  اصحاب رسول سے بعض دفعہ نماز میں غلطی ہو جاتی تھی جس پر وہ سہو کرتے تھے لیکن ظاہر ہے جب یہ مجاہد نے دیکھا ہی نہیں تو امام بخاری کی یہ توجیہ نا قابل قبول ہے

محدثین جو رفع کے قائل تھے ان کے پاس اس کا کوئی جواز نہ تھا لہذا انہوں نے کہا

قَالَ الْبُخَارِيُّ: ” قَالَ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ حَدِيثُ أَبِي بَكْرٍ عَنْ حُصَيْنٍ إِنَّمَا هُوَ تَوَهُّمٌ مِنْهُ لَا أَصْلَ لَهُ

بخاری کہتے ہیں یحیی ابن معین نے کہا کی حَدِيثُ أَبِي بَكْرٍ عَنْ حُصَيْنٍ  ان کا وہم ہے اس میں اصل نہیں ہے

لیکن یہ دعوی محدثین کے  اس گروہ کا ہے جو رفع الیدین کا قائل ہے اور اس کے مخالف محدثین میں یہ وہم نہیں ہے

امام بخاری حَدِيثُ أَبِي بَكْرٍ عَنْ حُصَيْنٍ کے رد میں ایک اور قول پیش کرتے ہیں

وَالثَّلَاثِ أَلَا تَرَى أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يَرْمِي مَنْ لَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ بِالْحَصَى فَكَيْفَ يَتْرُكُ ابْنُ عُمَرَ شَيْئًا يَأْمُرُ بِهِ غَيْرَهُ , وَقَدْ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَهُ؟ .

اور تیسری بات کیا تم دیکھتے نہیں کہ ابن عمر اس کو کنکر مارتے جو رفع نہ کرتا تو اس کو وہ کیسے چھوڑ سکتے ہیں جبکہ وہ انہوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو کرتے دیکھا؟

اس قول کی سند ہے

مسند الحميدي – (ج 1 / ص 480)مسند عبد اللہ بن عمر
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِىُّ قَالَ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ وَاقِدٍ يُحَدِّثُ عَنْ نَافِعٍ : أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ إِذَا أَبْصَرَ رَجُلاً يُصَلِّى لاَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ كُلَّمَا خَفَضَ وَرَفَعَ حَصَبَهُ حَتَّى يَرْفَعَ يَدَيْهِ.
بے شک عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ جب کسی شخص کو دیکھتے کہ وہ اٹھتے بیٹھتے رفع الیدین نہیں کرتا تو اس کو کنکر مارتے۔

اگر  اس سند کو دیکھیں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ سند منقطع ہے اس میں زید بن واقد نے کہا ہے کہ نافع سے روایت کیا ہے جبکہ ان سے اس کا سماع نہیں ہے

مسند الشامییں طبرانی کی راویات کی سند میں ہے

حَدَّثَنِي  زَيْدُ بْنُ وَاقِدٍ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ

یعنی   زَيْدُ بْنُ وَاقِدٍ اور نافع کے بیچ مکحول ہیں جو مسند حمیدی کی روایت میں نہیں ہیں لہذا مسند حمیدی کی روایت منقطع ہے اور اس سے دلیل نہیں لی جا سکتی

مکہ میں  رفع الیدین  نماز میں  کیا جاتا تھا – وہاں عبد الله ابن زبیر کی روایت ہے  جس کو البيهقي 2/ 73  نے  أيوب السختياني، عن عطاء بن أبي رباح کی سند سے روایت کیا ہے جس میں رفع الیدین کا ذکر ہے

 قال: صليتُ خلف عبد الله بن الزبير، فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة، واذا ركع، وإذا رفع رأسه من الركوع، فسألته فقال: صليت خلف أبي بكر الصديق رضي الله عنه فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة، وإذا ركع، وإذا رفع رأسه من الركوع، وقال أبو بكر: صليت خلف رسول الله- صلى الله عليه وسلم -فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة، وإذا ركع، وإذا رفع رأسه من الركوع.

اس روایت پر بیہقی کہتے ہیں  رواته ثقات اس کے راوی ثقہ ہیں لیکن  ابن التركماني نے اس قول کا تعقب کیا اور واضح کیا ہے کہ اس کی سند میں محمد بن الفضل عارم ہے جو مختلط ہے .

شعَيب الأرنؤوط سنن ابو داود کی تعلیق میں کہتے ہیں

قلنا: ويؤيد رواية البيهقي ما أخرجه عبد الرزاق (2525) من طريق طاووس قال: رأيت عبد الله بن عمر وعبد الله بن عباس وعبد الله بن الزبير يرفعون أيديهم في الصلاة. وأخرج ابن أبي شيبة 1/ 235 عن عطاء مثله.

ہم کہتے ہیں اس روایت کی تائید ہوتی ہے عبد الرزاق کی روایت سے جسے طاووس کے طرق سے روایت کیا گیا ہے کہ انہوں نے ابن عمر اور ابن عباس اور ابن زبیر کو دیکھا نماز میں رفع کرتے ہوئے اس کو ابن ابی شیبه نے عطا سے اسی طرح بیان کیا ہے

شعیب نے جس مصنف عبد الرزاق کی جس روایت کا حوالہ دیا ہے وہ یہ ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي حَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ: سَمِعْتُ طَاوُسًا، وَهُوَ يُسْأَلُ عَنْ رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِي الصَّلَاةِ، فَقَالَ: «رَأَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ، وَعَبْدَ اللَّهِ، وَعَبْدَ اللَّهِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ فِي الصَّلَاةِ» لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ

عبد الرزاق نے ابن جریج سے نقل کیا کہ ان کو حسن بن مسلم بْن يَنّاق المَكِّيّ نے خبر دی کہ انہوں نے طَاوُس سے سنا  ان سے نماز میں رفع الیدین پر سوال ہوا تو انہوں نے کہا میں نے عبد الله بن عمر اور ابن عباس اور عبد الله ابن زبیر کو دیکھا نماز میں رفع الیدین کرتے ہوئے

یعنی مکہ میں بسنے والے ابن زبیر اور ابن عباس رضی الله عنہما رفع الیدین کرتے تھے

بصرہ میں سجدوں میں بھی رفع الیدین کیا جاتا تھا-   مالك بن الحويرث ، أبو سليمان الليثى  9 ہجری میں مسلمان ہوئے بصرہ میں ٧٤ ھ میں وفات ہوئی –  مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ، أَنَّهُ «رَأَى نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي صَلَاتِهِ، إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ رُكُوعِهِ وَإِذَا سَجَدَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ سُجُودِهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهَا فُرُوعَ أُذُنَيْهِ»

مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ کہتے ہیں انہوں نے  سعید ابن أبي عروبة سے  روایت کیا اور قتادہ نے   نصر سے انہوں  نے مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِث رضی الله عنہ سے روایت کیا کہ انہوں نے رسول الله کو نماز میں رفع کرتے دیکھا جب رکوع سے سر اٹھاتے اور جب سجدہ کرتے اور جب سجدوں سے سر اٹھاتے ان کو کانوں تک لے جاتے

اس روایت کے رد میں کہا جاتا ہے کہ راوی سعید ابن أبي عروبة اختلاط کا شکار تھے   اور محمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ ضعیف ہے لیکن   محمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ، کی سعید ابن أبي عروبة سے صحیح میں بخاری نے روایت لی ہے- دوسرا اعتراض پیش کیا جاتا ہے کہ اس میں قتادہ مدلس عن سے روایت کر رہا ہے اس کے مقابلے پر صحیح بخاری کی مالک بْنِ الْحُوَيْرِثِ  رضی الله عنہ کی روایت پیش کی جاتی ہے جس میں سجدوں میں رفع الیدین کا ذکر نہیں ہے

لیکن صحیح بخاری و مسلم کی مالک بْنِ الْحُوَيْرِثِ  رضی الله عنہ کی روایت میں أبو قلابة عبد الله بن زيد  البصري مدلس نے عن سے مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ سے روایت بیان کی ہے- اس کا ذکر بھی ہونا چاہیے  – أبو قلابة بصرہ سے شام گئے دارقطنی علل میں کہتے ہیں كثير الخطأ في الأسانيد والمتون، لا يحتج بما ينفرد به اسانید اور متن میں کثرت سے غلطیاں کیں اور ایسی روایت جس میں یہ منفرد ہوں اس سے دلیل نہیں لی جا سکتی

بخاری نے  خالد الحذّاء، عن أبي قلابة، عن مالك بن الحويرث کی سند سے روایت ہے جس میں سجدے میں رفع الیدین کے اضافی الفاظ نہیں ہیں لیکن اس میں  خالد بن مهران الحذاء  ہے جو خود مدلس ہے قال الحافظ في التقريب: ثقة يرسل وقد أشار حماد بن زيد إلى أن حفظه تغير لما قدم من الشام. حماد بن زید کہتے ہیں خالد بن مهران الحذاء شام پہنچے تو ان میں اختلاط آ چکا تھا- یعنی أبو قلابة کی  روایت اتنی بھی  ہی کمزور ہے جتنی قتادہ کی روایت تو ایک کو دوسری پر ترجیح کیسے دی جا سکتی ہے

مالک بْنِ الْحُوَيْرِثِ  رضی الله عنہ کی روایت کے علاوہ بصرہ منتقل ہونے والے انس بن مالک رضی الله عنہ بھی سجدوں میں رفع الیدین کرتے تھے اس روایت کو بہت سوں نے عبد الوہاب الثقفی کی سند سے نقل کیا ہے

طحآوی مشکل الآثار میں کہتے ہیں

وَأَمَّا حَدِيثُ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فَهُمْ يَزْعُمُونَ أَنَّهُ خَطَأٌ , وَأَنَّهُ لَمْ يَرْفَعْهُ أَحَدٌ إِلَّا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ خَاصَّةً , وَالْحُفَّاظُ يُوقِفُونَهُ , عَلَى أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ

اور جہاں تک انس رضی الله عنہ کی روایت ہے اس پر دعوی کیا جاتا ہے کہ اس میں غلطی ہے اور اس کو صرف خاص عبد الوہاب نے بیان کیا ہے

لیکن یہ احناف کا اعتراض صحیح نہیں ہے –

تفسیر قرطبی میں سوره کوثر کی تفسیر میں ہے

فَرَوَى الدَّارَقُطْنِيُّ مِنْ حَدِيثِ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ، وَإِذَا رَكَعَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، وَإِذَا سَجَدَ. لَمْ يَرْوِهِ عَنْ حُمَيْدٍ مَرْفُوعًا إِلَّا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ. وَالصَّوَابُ: مِنْ فِعْلِ أَنَسٍ

پس اس (سجدے میں رفع الیدین ) کو حمید نے انس سے روایت کیا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب نماز میں داخل ہوتے تو ہاتھ اٹھاتے اور جب سر رکوع سے اٹھاتے اور جب سجدہ کرتے ، اسکو حمید سے مرفوعآ صرف عبد الوہاب نے روایت کیا ہے اور صحیح ہے کہ یہ انس رضی الله عنہ کا فعل ہے

امام بخاری نے قرة العينين برفع اليدين في الصلاة میں لکھا ہے

يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ: «رَأَيْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَرْفَعُ يَدَيْهِ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ

یحیی بن ابی اسحاق نے کہا میں نے انس بن مالک رضی الله عنہ کو دیکھا وہ رفع الیدین کرتے جب سجدے کرتے

امام بخاری نے بھی اس کو قبول کیا ہے کہ انس رضی الله عنہ سجدوں میں بھی رفع الیدین کرتے تھے

البانی اس پر کتاب أصل صفة صلاة النبي صلى الله عليه وسلم   میں  جواب میں لکھتے ہیں

أن زيادة الثقة مقبولة. وهو هنا عبد الوهاب الثقفي، وهو ثقة إمام، احتج به الشيخان وغيرهما، وقد رفع الحديث؛ فهي زيادة منه يجب قَبولها.

بے شک ثقہ کی زیادت مقبول ہوتی ہے اور وہاں سند میں عبد الوہاب الثقفی ہے اور وہ ثقہ امام ہیں جن سے بخاری و مسلم نے دلیل لی ہے اور دیگر نے بھی …. پس یہ زیادت واجب ہے کہ قبول کی جائے

البانی مزید کہتے ہیں

وإليك النصوصَ الواردة عن السلف في ذلك:  1- قال أبو سلمة الأعرج:  أدركت الناس كلهم يرفع يديه عند كل خفض ورفع.

رواه ابن عساكر كما في ” التلخيص ” (3/272) ، وسكت عليه.

2- قال البخاري في ” رفع اليدين ” (24) : ثنا الهُذيل بن سليمان أبو عيسى قال:  سألت الأوزاعي قلت:

أبا عمرو! ما تقول في رفع الأيدي مع كل تكبيرة وهو قائم في الصلاة؟ قال: ذلك الأمر الأول. ثم ذكر (ص 18) عن عكرمة بن عمار قال: رأيت القاسم، وطاوساً، ومكحولاً، وعبد الله بن دينار، وسالماً يرفعون أيديهم إذا  استقبل أحدهم الصلاة، وعند الركوع، وعند السجود. قال: وقال وكيع عن الربيع:  قال:  رأيت الحسن، ومُجاهداً، وعطاء، وطاوساً، وقيس بن سعد، والحسن بن  مُسلِم يرفعون أيديهم إذا ركعوا، وإذا سجدوا. وقال عبد الرحمن بن مهدي: هذا من السنة.

اور اس سلسلے میں سلف سے جو نصوص وارد ہوئے ہیں ان میں ہے کہ أبو سلمة الأعرج نے کہا میں لوگوں سے ملا جو ہر جھکنے اور اٹھنے پر رفع الیدین کرتے ہیں اس کو ابن عساکر نے روایت کیا ہے جیسا تلخیص میں ہے اور اس پر سکوت کیا ہے اور بخاری نے کتاب رفع الیدین میں کہا ہم سے الهُذيل بن سليمان أبو عيسى نے بیان کیا کہ انہوں نے امام الأوزاعي سے سوال کیا کہ اے ابا عمرو آپ کیا کہتے ہیں رفع الیدین ہر تکبیر پر اور وہ نماز میں کھڑا ہو الأوزاعي نے کہا  یہ پہلے حکم تھا اور پھر عكرمة بن عمار کا ذکر کیا کہ انہوں نے کہا میں نے القاسم اور طاوس  اور مكحول اور عبد الله بن دينار اور سالم کو دیکھا کہ نماز میں شروع میں رفع کرتے اور رکوع میں اور سجدے میں اور کہا کہ وكيع عن الربيع نے کہا میں نے حسن ، مجاہد اور عطا اور طاوس   اور قیس اور حسن بن مسلم کو دیکھا رکوع میں رفع کرتے اور سجدوں میں بھی اور عبد الرحمن بن المہدی نے کہا یہ سنت ہے

البانی  نے سجدوں  میں رفع الیدین والی روایت کو صحیح سنن نسائی میں بھی صحیح قرار دیا ہے اور روایت کو الإرواء میں ابن ابی شیبه کی سند سے  صحیح کہا ہے

یعنی  بصرہ میں سجدے میں بھی رفع الیدین کیا جاتا تھا  – طحآوی مشکل الآثار میں روایت دیتے ہیں کہ بصرہ کے

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي دَاوُدَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ قَالَ: ” كَانَ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ يَرْفَعُ يَدَيْهِ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ

حماد بن زید سجدوں کے بیچ میں بھی رفع الیدین کرتے تھے

 مدینہ کے ابن عمر سجدوں میں رفع الیدین کے  عمل کو بیان نہیں کرتے تھے بلکہ خاص اس کا ذکر کر کے کہتے کہ انہوں نے رسول الله کو یہ کرتے نہیں دیکھا جس سے ظاہر ہے بعض لوگ اس کو کر رہے تھے

خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدے میں جاتے ہوئے اور اٹھتے ہوئے   ہاتھ اٹھائے ہیں، اور کبھی ہاتھ نہیں اٹھائے، چنانچہ ہر صحابی  نے وہ بیان کیا ہے جو اس نے دیکھا تھا۔

کوفہ میں عبد الله ابن مسعود رفع الیدین نماز کے ایک اہم جز کے طور پر بیان نہ کرتے تھے – یہ مسلک احناف نے لیا –  ان کے مقابلے پر  وائل بن حجر رضی الله عنہ کی روایت ہے جو  کوفہ میں علی کے ساتھ لڑے اور  جب معاویہ کوفہ پہنچے تو ان سے بیعت کر لی  – ان سے ان کے بیٹے عبد الجبار بن وائل بن حجر نے رکوع میں  رفع الیدین کی حدیث نقل کی ہے امام بخاری کے نزدیک یہ روایت سماع ثابت   نہ ہونے کی وجہ سے صحیح نہیں ہے –

صحیح مسلم کی روایت ہے
عن جابر بن سمره رضی الله عنه قال خرج علینا رسول الله صلی الله علیه وسلم فقال مالی اراکم رافعی ایدیکم کانها اذناب خیل شمس اسکنوا فی الصلوته
جابر بن سمره رضی الله عنه سے روایت هے که رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم همارے پاس تشریف لائے، آپ نے  فرمایا که میں تم کو نماز میں شریر گهوڑوں کی دم کی طرح رفع یدین کرتے کیوں دیکهتا هوں نماز میں ساکن اور مطمئن رهو

یہ روایت ایک اور سند سے طبرانی میں صحیح ابن خزیمہ میں نقل ہوئی ہے اس میں ہے کہ سلام کے وقت ہاتھ  ران پر رکھو

غیر مقلدین اس سے ثابت کرتے ہیں کہ سجدوں والا رفع الیدین منسوخ ہے اور احناف اس کو واضح کرتے ہیں کہ یہ دو الگ روایات ہیں لیکن راقم کا موقف ہے کہ صحیح ابن خزیمہ میں اس پر باب قائم کیا گیا ہے

بَابُ الزَّجْرِ عَنِ الْإِشَارَةِ بِالْيَدِ يَمِينَا وَشِمَالًا عِنْدَ السَّلَامِ مِنَ الصَّلَاةِ

باب ڈانٹ کا کہ ہاتھ سے نماز میں سلام (پھیرتے) کے وقت دائیں بائیں اشارہ کیا جائے

صحیح ابن خزیمہ کی جابر بن سمرہ والی  روایت کے الفاظ ہیں

كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا بِأَيْدِينَا: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، يَمِينَا وَشِمَالًا

ہم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے  ہم نے اپنے ہاتھوں سے کہا السلام علیکم دائیں اور بائیں

اسی کتاب کی دوسری روایت میں ہے

 أَشَارَ أَحَدُنَا إِلَى أَخِيهِ بِيَدِهِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ

ہم اپنے بھائیوں کو ہاتھ سے دائیں اور بائیں اشارہ کرتے

یعنی  اصحاب رسول ہاتھ اٹھا کر تشہد کے بعد سلام پھیرتے وقت اشارہ کر رہے تھے اس سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے منع کیا اور اسکو گھوڑوں کی دم کی طرح کہا

معجم ابن عساکر میں روایت کے راوی مسعر  بن کدام اس روایت میں  کہتے ہیں

قلنا السلام عليكم السلام عليكم ثم أشار مسعر بيده عن يمينه وعن شماله

جابر نے کہا ہم نے کہا السلام علیکم  السلام علیکم پھر مسعر  نے ہاتھ سے دائیں بائیں اشارہ کیا

امام بخاری کتاب قرة العينين برفع اليدين في الصلاة  میں کہتے ہیں

كَانَ يُسَلِّمُ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ فَنَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رَفْعِ الْأَيْدِي فِي التَّشَهُّدِ

وہ ایک دوسرے کو سلام کرتے پس نبی صلی الله علیہ وسلم نے اس سے منع کیا کہ تشہد میں ہاتھ اٹھائیں

امام بخاری نے معاملہ صاف کر دیا کہ جابر بن سمرہ رضی الله عنہ کی روایت کا تعلق سجدوں والے رفع الیدین سے ہے ہی نہیں کیونکہ تشہد تو سجدوں کے بعد ہوتا ہے لہذا اس سے سجدوں میں کیے جانے والے رفع الیدین کی منسوخی لینا غلط ہے

بعض غیر مقلدین  نے جابر بن سمره  رضی الله عنہ کی روایت سے دلیل لی ہے کہ سجدوں میں منسوخ ہے اور احناف متاخرین  نے اس سے ہر طرح کے رفع الیدین کی منسوخی  لے  لی  ہے جبکہ یہ روایت رفع الیدین کے بارے میں ہے ہی نہیں

جامع الترمذی کی روایت ہے

علقمه فرماتے هیں که عبدالله بن مسعود رضی الله عنه نے فرمایا کیا میں تمهیں رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم کی طرح نماز پڑه کر نه دکهاوں ، چناچه آپ نے نماز پڑهی اور صرف ایک مرتبه رفع یدین کیا.

ترک رفع پر امام ترمذی سنن میں لکھتے ہیں

که بهت سے اهل علم صحابه کرام رضوان الله اجمعین اور تابعین کا یهی مذهب هے اور سفیان ثوری اور اهل کوفه کا بهی یهی مسلک هے.

اس قول کی مخالف حدیث بھی ہے جس میں ہے کہ کوفہ منتقل ہونے والے وائل بن حجر رضی الله عنہ سے کوفیوں نے روایت کیا ہے ابو داود کی  بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ حدیث ہے

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، قَالَ: قُلْتُ: لَأَنْظُرَنَّ إِلَى صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ يُصَلِّي، قَالَ: فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ فَكَبَّرَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى حَاذَتَا أُذُنَيْهِ، ثُمَّ أَخَذَ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَهُمَا مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ وَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، فَلَمَّا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا، مِثْلَ ذَلِكَ فَلَمَّا سَجَدَ وَضَعَ رَأْسَهُ بِذَلِكَ الْمَنْزِلِ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ، ثُمَّ جَلَسَ فَافْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُسْرَى وَحَدَّ مِرْفَقَهُ الْأَيْمَنَ عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى وَقَبَضَ ثِنْتَيْنِ وَحَلَّقَ حَلْقَةً» وَرَأَيْتُهُ يَقُولُ: هَكَذَا وَحَلَّقَ بِشْرٌ الْإِبْهَامَ وَالْوُسْطَى وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ،

وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں  نبی صلی الله علیہ وسلم  کی خدمت میں  اس لئے حاضر ہوا کہ دیکھوں آپ نماز کیسے پڑھتے ہیں ، تو میں نے دیکھا کہ آپ نماز کیلئے قبلہ رخ ہوئے  اور تکبیر کہی ،اور اپنے دونوں ہاتھ کانوں کی لو تک اٹھائے پھر الٹے ہاتھ کو سیدھے سے پکڑا پس جب رکوع کا ارادہ کیا تو رفع کیا اسی طرح پھر باتھ کو پر رکھا پس جب سر رکوع سے اٹھایا ان کو رفع کیا اسی طرح پس جب سجدہ کیا تو سر کو اس منزل پر رکھا جو باتھوں کے بیچ تھی پھر بیٹھے سیدھے پیر پر اور سیدھا ہاتھ ران پر رکھا

لیکن مسند احمد میں یہی روایت  جب عبد الواحد ابن زياد العبدي نے بیان کی تو اس میں الفاظ بدل گئے

حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ الْحَضْرَمِيِّ قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: لَأَنْظُرَنَّ كَيْفَ يُصَلِّي، قَالَ: ” فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، فَكَبَّرَ، وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى كَانَتَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ “، قَالَ: ” ثُمَّ أَخَذَ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ “، قَالَ: ” فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى كَانَتَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، فَلَمَّا رَكَعَ وَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، فَلَمَّا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى كَانَتَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، فَلَمَّا سَجَدَ وَضَعَ يَدَيْهِ مِنْ وَجْهِهِ، بِذَلِكَ الْمَوْضِعِ،فَلَمَّا قَعَدَ افْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى رُكْبَتِهِ الْيُسْرَى، وَوَضَعَ حَدَّ مِرْفَقِهِ عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى، وَعَقَدَ ثَلَاثِينَ وَحَلَّقَ وَاحِدَةً، وَأَشَارَ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ

وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں  نبی صلی الله علیہ وسلم  کی خدمت میں  اس لئے حاضر ہوا کہ دیکھوں آپ نماز کیسے پڑھتے ہیں ، تو میں نے دیکھا کہ آپ نماز کیلئے قبلہ رخ ہوئے  اور تکبیر کہی ،اور اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھائے ، پھر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑ لیا ، اور جب رکوع کا ارادہ کیا تو پھر اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھائے،اور رکوع میں اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھے ،اور جب رکوع سے سر مبارک اٹھایا تو اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھائے

سیر الاعلام النبلا کے مطابقعبد الواحد بن زياد کے لئے ہے

وَقَالَ يَحْيَى بنُ مَعِيْنٍ: لَيْسَ بِشَيْءٍ کوئی چیز نہیں

قَالَ ابْنُ المَدِيْنِيِّ: سَمِعْتُ القَطَّانَ يَقُوْلُ: مَا رَأَيتُ عَبْدَ الوَاحِدِ يَطلُبُ حَدِيْثاً قَطُّ بِالبَصْرَةِ، وَلاَ الكُوْفَةِ

علی المدینی کہتے ہیں یحیی بن سعید القطان کہتے ہیں میں نے اس کو حدیث طلب کرتے نہ کوفہ میں دیکھا نہ بصرہ میں

مسند احمد میں اس روایت کو شعبہ نے بھی روایت کیا ہے جس میں وائل بن حجر رضی الله عنہ رفع کا ذکر کرتے ہیں

یعنی وائل بن حجر رضی الله عنہ نے کوفہ میں رفع الیدین کیا ہے

بعض احناف کی رائے ہے کہ پہلے رفع الیدین ہر اونچ نیچ پر تھا  پھر کم ہوتے ہوتے صرف تکبیر تحریمہ تک محدود  گیا  لیکن اوپر جیسا واضح ہے  انس رضی الله عنہ اور تابعین کی کثیر تعداد اس کو کرتی تھی خاص کر بصرہ میں یہ عام تھا  لہذا یہ منسوخ نہ تھا –   غیر مقلدین کے مطابق سجدوں میں رفع الیدین  جابر بن سمرہ کی روایت سے منسوخ ہو گیا لیکن یہ بھی بلا دلیل ہے اگر منسوخ تھا تو انس رضی الله عنہ اس کو کیوں کرتے تھے

واضح ہوا کہ

مدینہ میں  رکوع  سے پہلے اور بعد میں  رفع الیدین کیا جاتا تھا (بعض اوقات نہیں بھی کیا جاتا تھا)  لیکن اکثر اوقات رفع الیدین پر عمل تھا  لیکن امام مالک کے دور تک اس پر عمل اتنا شدید نہ رہا

مکہ میں رکوع سے پہلے اور بعد میں  رفع الیدین کیا جاتا تھا

بصرہ میں سجدوں تک میں رفع الیدین کیا جاتا تھا

کوفہ میں  اختلاف ہے – بعض صحابہ  رفع الیدین نہیں کرتے اور بعض کرتے تھے

اب ہم یا آپ تو صحابہ کا پا سنگ بھی نہیں جو ایک کی نماز کو منسوخ کہہ کر اس کو رد کریں یعنی سجدوں میں رفع الیدین اگر انس بن مالک یا بصرہ کے تابعین نے کیا تو اس کو قبول کرنا ہو گا – اگر کوفہ کے عبد اللہ ابن مسعود رضی الله عنہ نے نہیں کیا تو اس کو بھی قبول کرنا ہو گا – اگر مکہ و مدینہ کے ابن زبیر ، ابن عمر ، ابن عباس رضی الله عنھم نے رفع الیدین کیا تو اس کو بھی قبول کرنا ہو گا

لہذا اگر کوئی انفرادی نماز پڑھ رہا ہے اور رفع الیدین کر لے تو بھی صحیح ہے نہ کرے تو بھی صحیح ہے لیکن جماعت کی نماز میں امام جیسا کرے ویسا ہی کرے

نبی صلی الله علیہ وسلم نے نماز سکھائی تو کہیں بھی اس کا حکم نہ کیا صحیح  بخاری کی ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث ہے

صحيح بخاری کتاب الآذان باب وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ فِي الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ
أَنَّ رَجُلًا دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَصَلَّى وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ فَجَاءَ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ فَقَالَ لَهُ ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ فَرَجَعَ فَصَلَّى ثُمَّ سَلَّمَ فَقَالَ وَعَلَيْكَ ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ قَالَ فِي الثَّالِثَةِ فَأَعْلِمْنِي قَالَ إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَأَسْبِغْ الْوُضُوءَ ثُمَّ اسْتَقْبِلْ الْقِبْلَةَ فَكَبِّرْ وَاقْرَأْ بِمَا تَيَسَّرَ مَعَكَ مِنْ الْقُرْآنِ ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا ثُمَّ ارْفَعْ رَأْسَكَ حَتَّى تَعْتَدِلَ قَائِمًا ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَسْتَوِيَ وَتَطْمَئِنَّ جَالِسًا ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَسْتَوِيَ قَائِمًا ثُمَّ افْعَلْ ذَلِكَ فِي صَلَاتِكَ كُلِّهَا۔
ابوہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مسجد نبوی میں)  تھے کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہؤا اور نماز پڑھی اور آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ جا ۔۔۔ جاکر نماز پڑھ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ گیا اور جا کر نماز پڑھی اور پھر آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دیا اور پھر فرمایا کہ جا ۔۔۔ جاکر نماز پڑھ تو نے نماز نہیں پڑھی ۔ تیسری دفعہ یا تیسری دفعہ کے بعد اس شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے نماز سکھلائیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “جب نماز کے لئے کھڑا ہو تو اچھی طرح وضو کر۔ پھر قبلہ رو کھڑا ہو۔ پھر اللہ اکبر کہہ۔ پھر قرآن سے پڑھ جو تجھے یاد ہو پھر رکوع کر یہاں تک کہ سکون سے رکوع کرنے والا ہو پھر کھڑا ہو یہاں تک کہ سیدھا کھڑا ہوجائے۔ پھر سجدہ کر یہاں تک کہ سکون سے سجدہ کرنے والا ہو۔ پھر سجدہ سے اٹھ کر سکون سے تشہد کی حالت میں بیٹھ جا۔ پھر سجدہ کر یہاں تک کہ سکون سے سجدہ کرنے والا ہو۔ پھر سجدہ سے اٹھ کر سیدھا کھڑا ہو جا۔ اسی طرح کر اپنی تمام نماز میں

یعنی رفع الیدین نماز کا ایسا عمل تھا جس کو کرنا ضروری نہیں تھا یہی وجہ ہے کہ بعض صحابہ اس کو سجدوں میں بھی کر رہے تھے اور بعض صحابہ اس کو چھوڑ چکے تھے

عن ابن عمر قال: رایتکم و رفع ایدیکم فی الصلوة والله انها لبدعة ما رایت رسول الله فعل هذا قط
ابن عدی الکامل جلد ۱ص۹
میزان اعتدال جلد ۱ص۳۱۵
کیا یہ اثر صحیح ہے؟

جواب

اس کی سند ہے
حَدَّثَنَا ( مُحَمد بْنُ مُحَمد) بْنِ عُقْبَةَ، حَدَّثَنا جُبَارَةُ، حَدَّثَنا حَمَّادٌ عَنْ بِشْرِ بْنِ حَرْبٍ قَالَ ابْنُ عُمَر رَأَيْتُكُمْ رَفَعْتُمْ أَيْدِيَكُمْ فِي الصَّلاةِ وَاللَّهِ إِنَّهَا لَبِدْعَةٌ مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ هَذَا قَطُّ وَقَالَ حَمَّادٌ وَضَعَ يده عند حنكه هَكَذَا.
ابن عمر نے کہا میں دیکھتا ہوں کہ تم نماز میں ہاتھ اٹھاتے ہو اور یہ بدعت ہے میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو نہیں دیکھا کہ ایسا کام کبھی کرتے ہوں

اس کی سند میں بشر بن حرب پر محدثین کا اختلاف ہے یہ ضعیف ہیں لیکن بعض کے نزدیک متروک نہیں ان سے بصرہ کے حماد بن زید نے روایت کیا ہے جو ان کی تعریف کرتے ہیں
میزان از الذہبی کے مطابق
وقال ابن خراش: متروك، وكان حماد بن زيد يمدحه.
ابن خراش نے بشر کو متروک کہا اور حماد بن زید نے تعریف کی ہے

الکامل نام کی کتاب جس میں یہ روایت ہے یہ ابن عدي ہے ان کا فیصلہ ہے
: لا بأس به عندي، لا أعرف له حديثاً منكرا.
میرے نزدیک بشر میں برائی نہیں ہے اور میں کوئی ان کی منکر حدیث نہیں جانتا

یعنی ابن عدی نے اس رفع الیدین سے متعلق روایت کو قبول کیا ہے اس کو منکر قرار نہیں دیا
========

بحث:

یہ روایت بصرہ کی ہے جہاں نماز میں ہر موقعہ پر رفع الیدین کیا جاتا تھا اور سجدوں میں بھی کیا جاتا تھا ابن عمر اس سے منع کرتے تھے لیکن انس رضی الله عنہ کرتے تھے

امام بخاری نے قرة العينين برفع اليدين في الصلاة میں لکھا ہے

يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ: «رَأَيْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَرْفَعُ يَدَيْهِ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ

یحیی بن ابی اسحاق نے کہا میں نے انس بن مالک رضی الله عنہ کو دیکھا وہ رفع الیدین کرتے جب سجدے کرتے

امام بخاری نے بھی اس کو قبول کیا ہے کہ انس رضی الله عنہ سجدوں میں بھی رفع الیدین کرتے تھے

البانی اس پر کتاب أصل صفة صلاة النبي صلى الله عليه وسلم میں جواب میں لکھتے ہیں

اور اس سلسلے میں سلف سے جو نصوص وارد ہوئے ہیں ان میں ہے کہ أبو سلمة الأعرج نے کہا میں لوگوں سے ملا جو ہر جھکنے اور اٹھنے پر رفع الیدین کرتے ہیں اس کو ابن عساکر نے روایت کیا ہے جیسا تلخیص میں ہے اور اس پر سکوت کیا ہے اور بخاری نے کتاب رفع الیدین میں کہا ہم سے الهُذيل بن سليمان أبو عيسى نے بیان کیا کہ انہوں نے امام الأوزاعي سے سوال کیا کہ اے ابا عمرو آپ کیا کہتے ہیں رفع الیدین ہر تکبیر پر اور وہ نماز میں کھڑا ہو الأوزاعي نے کہا یہ پہلے حکم تھا اور پھر عكرمة بن عمار کا ذکر کیا کہ انہوں نے کہا میں نے القاسم اور طاوس اور مكحول اور عبد الله بن دينار اور سالم کو دیکھا کہ نماز میں شروع میں رفع کرتے اور رکوع میں اور سجدے میں اور کہا کہ وكيع عن الربيع نے کہا میں نے حسن ، مجاہد اور عطا اور طاوس اور قیس اور حسن بن مسلم کو دیکھا رکوع میں رفع کرتے اور سجدوں میں بھی اور عبد الرحمن بن المہدی نے کہا یہ سنت ہے

حماد بن زید اور بشر بن حرب دونوں بصری ہیں جہاں نماز میں سجدوں میں بھی رفع الیدین ہوتا تھا

طحآوی مشکل الآثار میں روایت دیتے ہیں کہ بصرہ کے

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي دَاوُدَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ قَالَ: ” كَانَ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ يَرْفَعُ يَدَيْهِ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ

حماد بن زید سجدوں کے بیچ میں بھی رفع الیدین کرتے تھے

مدینہ کے ابن عمر سجدوں میں رفع الیدین کے عمل کو بیان نہیں کرتے تھے بلکہ خاص اس کا ذکر کر کے کہتے کہ انہوں نے رسول الله کو یہ کرتے نہیں دیکھا جس سے ظاہر ہے بعض لوگ اس کو کر رہے تھے

لہذا یہ اثر صحیح ہے- اس کا مقصد سجدوں کے رفع الیدین سے ابن عمر رضی الله عنہ کا منع کرنا ہے جس کو بصریوں نے انس بن مالک رضی الله عنہ سے لیا ہے

جواب

قنوت نازلہ یا وتر میں ہاتھ اٹھانے پر اختلاف ہے
کتاب مختصر  قيام الليل وقيام رمضان وكتاب الوتر
از أبو عبد الله محمد بن نصر بن الحجاج المَرْوَزِي (المتوفى: 294هـ) کے مطابق
وَهَلْ تُرْفَعُ الْأَيْدِي فِي الدُّعَاءِ فِي الْوِتْرِ، فَقَالَ: الْقُنُوتُ بَعْدَ الرُّكُوعِ، وَيَرْفَعُ يَدَيْهِ وَذَلِكَ عَلَى قِيَاسِ فِعْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقُنُوتِ فِي الْغَدَاةِ، وَبِذَلِكَ قَالَ أَبُو أَيُّوبَ، وَأَبُو خَيْثَمَةَ، وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ
کیا وتر کی دعا میں ہاتھ اٹھائیں جائیں پس کھا قنوت رکوع کے بعد ہے اور اس میں ہاتھ اٹھائیں اور یہ قیاس ہے نبی صلی الله علیہ وسلم کے عمل پر فجر کی نماز میں قنوت پر اور ایسا ابو ایوب اور ابو خیثمہ اور ابن ابی شیبہ کا کہنا ہے

اس کی دلیل انس رضی الله عنہ کی مسند احمد کی ایک روایت ہے کہ
فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلَّمَا صَلَّى الْغَدَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ فَدَعَا عَلَيْهِمْ
نماز فجر میں رسول الله نے قنوت نازلہ میں ہاتھ اٹھائے

میرے نزدیک یہ شاذ روایت ہے
اس کی وجہ یہ ہے کہ قنوت نازلہ کی روایت بخاری و مسلم میں بھی ہے جس میں ہاتھ اٹھانے کا ذکر نہیں
دوم انس رضی الله عنہ خود کہتے ہیں کہ سوائے استسقا کے انہوں نے کسی موقعہ پر رسول الله کو ہاتھ اٹھائے نہیں دیکھا
جو صحیح روایت ہے

کسی اور دعا میں بھی ہاتھ اٹھا سکتے ہیں صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ خالد بن ولید رضی الله عنہ نے ایک غلط کام کیا کہ ایک قیدی کو قتل کر دیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی
حَتَّى قَدِمْنَا عَلَى النَّبِيِّ – صلى الله عليه وسلم -، فَذَكَرْنَاهُ لهُ، فَرَفَعَ النَّبِيُّ – صلى الله عليه وسلم – يَدَهُ، فَقَالَ:
“اللَّهُمَّ إِنِّى أَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدٌ” (مرتين).

انس رضی الله عنہ کہتے تھے کہ سوائے استسقا کے کسی میں ہاتھ نہ اٹھائے
لہذا خالد بن ولید کا واقعہ مخصوص ہو جاتا ہے لیکن اگر کوئی اس کو دلیل بنا کر ہاتھ اٹھا کر دعا کر لے تو اس کو منع نہیں کر سکتے

اس پر بعض کی رائے ہے کہ انس رضی الله عنہ کی مراد تھی کہ کسی دعا میں اتنے اونچے ہاتھ نہ اٹھائے
جتنے استسقا میں بحر الحال یہ بھی ایک رائے ہے

ان کے علاوہ اجتماعی دعائیں کرنے کی دلیل کا علم نہیں
اس کے علاوہ دعا میں ہاتھ اٹھانے کی جو روایات آئی ہیں وہ ضعیف ہیں

امام بخاری نے کتاب جزء رفع اليدين میں کچھ اسناد دیں ہیں

 حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ أَبِي عَلِيٍّ هُوَ جَعْفَرُ بْنُ مَيْمُونٍ بَيَّاعُ الْأَنْمَاطِ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عُثْمَانَ قَالَ: «كَانَ عُمَرُ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي الْقُنُوتِ»

ابو عثمان کہتے ہیں کہ عمر قنوت میں ہاتھ اٹھاتے تھے

مصنف ابن ابی شیبه کے مطابق عمر قنوت رکوع سے پہلے کرتے تھے

اوپر سند میں جعفر بن میمون ضعیف ہے جس کی اس قنوت والی روایت کو العلل میں امام احمد رد کرتے ہیں

امام بخاری نے ایک اور سند دی ہے

 حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ الْمُحَارِبِيُّ , حَدَّثَنَا زَائِدَةُ , عَنْ لَيْثٍ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ , أَنَّهُ كَانَ يَقْرَأُ فِي آخِرِ رَكْعَةٍ مِنَ الْوِتْرِ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ثُمَّ يَرْفَعُ يَدَيْهِ وَيَقْنُتُ قَبْلَ الرَّكْعَةِ

ابن مسعود وتر کی آخری رکعت میں ہاتھ اٹھاتے اور رکوع سے پہلے قنوت کرتے

ان دو روایات کو امام بخاری رفع الیدین کی دلیل پر پیش کرتے ہیں اور ایک طرح رکوع والے رفع الیدین کو ثابت کرتے ہیں

لہذا ان  روایات سے مطلقا دعا قنوت میں ہاتھ اٹھانا ثابت نہیں ہوتا

غیر مقلدین ان روایات سے دعآ قنوت میں ہاتھ اٹھانے کی دلیل لیتے ہیں لیکن اس کے باقی حصے کو رد کرتے ہیں جس میں ہے کہ قنوت رکوع سے پہلے ہے

احناف اور مالکیہ کے نزدیک قنوت رکوع سے قبل ہے  -اور احمد وشافعی کے نزدیک رکوع کے بعد ہے

کتاب  المغني لابن قدامة و  مختصر الإنصاف والشرح الكبير کے مطابق

وقال الأثرم: كان أحمد يرفع يديه في القنوت إلى صدره، واحتج بأن “ابن مسعود رفع يديه إلى صدره في القنوت”، أنكره مالك

الأثرم نے کہا امام احمد قنوت میں ہاتھ سینے تک اٹھاتے اور دلیل لیتے کہ ابن مسعود نے سینے تک قنوت میں ہاتھ اٹھائے امام مالک اس کا انکار کرتے

دوبارہ عمرہ کرنے پر امام مالک موطآ میں کہتے ہیں
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ رَأَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ «أَحْرَمَ بِعُمْرَةٍ مِنَ التَّنْعِيمِ» ، قَالَ: «ثُمَّ رَأَيْتُهُ يَسْعَى حَوْلَ الْبَيْتِ حَتَّى طَافَ الأَشْوَاطَ الثَّلاثَةَ» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، الرَّمْلُ وَاجِبٌ عَلَى أَهْلِ مَكَّةَ وَغَيْرِهِمْ فِي الْعُمْرَةِ وَالْحَجِّ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
عروه نے دیکھا عبد الله بن زبیر (جو رہتے ہی مکہ میں تھے) نے تنعیم سے احرام باندھا اور دیکھا جلدی جلدی (سات میں سے) کعبہ کے تین چکر لگائے
(یعنی چار چکر آہستہ کیے)
امام محمّد کہتے ہیں ہم بھی اسی کو لیتے ہیں اہل مکہ اور دوسروں پر حج و عمرہ میں رمل (چھوٹے چھوٹے قدموں سے تیز تیز چلنا) واجب ہے
یہی قول امام ابو حنیفہ کا اور فقہاء کا عام ہے

موطآ میں امام مالک یہ بھی کہتے ہیں
قَالَ مَالِكٌ: «فَأَمَّا الْعُمْرَةُ مِنَ التَّنْعِيمِ، فَإِنَّهُ مَنْ شَاءَ أَنْ يَخْرُجَ مِنَ الْحَرَمِ ثُمَّ يُحْرِمَ، فَإِنَّ ذَلِكَ مُجْزِئٌ عَنْهُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ. وَلَكِنِ الْفَضْلُ أَنْ يُهِلَّ مِنَ الْمِيقَاتِ الَّذِي وَقَّتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، و هُوَ أَبْعَدُ مِنَ التَّنْعِيمِ»
جہاں تک عمرہ کا تنعیم سے تعلق ہے تو جو چاہیے حرم سے نکلے، پھر دوبارہ احرام باندھے، کیونکہ اس کا اسکو ان شاء الله اجر ملے گا لیکن افضل ہے کہ میقات تک جائے جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مقرر کیا اور وہ تنعیم سے دور ہے

جواب

سنن الکبری البیہقی اور مسند البزاز کی روایت ہے

حَدَّثنا سُهَيْلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْجَارُودِيُّ أَبُو الْخَطَّابِ، حَدَّثنا عوف بن مُحَمد المراري، حَدَّثنا عَبد اللَّهِ بْنُ الْمُحَرَّرِ، عَن قَتادة، عَن أَنَس؛ أَن النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم عَقَّ عَنْ نَفْسِهِ بَعْدَ مَا بُعِثَ نَبِيًّا.
وَحَدِيثَا عَبد اللَّهِ بْنِ مُحَرَّرٍ لَا نَعْلَمُ رَوَاهُمَا أَحَدٌ، عَن قَتادة، عَن أَنَس غَيْرَهُ، وهُو ضَعِيفُ الْحَدِيثِ جِدًّا، وَإنَّما يُكْتَبُ مِنْ حَدِيثِهِ مَا لَيْسَ عِنْدَ غَيْرِهِ.

اس میں عَبد اللَّهِ بْنِ مُحَرَّرٍ ہے – اس کی سند پر بیہقی اور البزاز جرح کرتے ہیں

شرح مشکل الاثار از طحاوی کی حدیث ہے

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَنْصُورٍ الْبَالِسِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ جَمِيلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ الْمُثَنَّى بْنِ أَنَسٍ، عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسٍ: ” أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَقَّ عَنْ نَفْسِهِ بَعْدَمَا جَاءَتْهُ النُّبُوَّةُ
الْهَيْثَمُ بْنُ جَمِيلٍ، نے کہا ہم سے بیان کیا انہوں نے سے انہوں نے اس رضی الله عنہ سے روایت کیا کہ بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنا عقیقہ خود کیا نبوت ا جانے کے بعد

امام عقیلی کتاب الضعفاء الكبير میں لکھتے ہیں
عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى الْأَنْصَارِيُّ عَنْ ثُمَامَةَ وَغَيْرِهِ وَلَا يُتَابَعُ عَلَى أَكْثَرِ حَدِيثِهِ، يَعْنِي عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْمُثَنَّى الْأَنْصَارِيَّ
عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى الْأَنْصَارِيُّ عَنْ ثُمَامَةَ وَغَيْرِهِ اس کی روایت کی متابعت نہیں ہے
کتاب العلل المتناهية في الأحاديث الواهية اور الموضوعات میں ابن جوزی نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے

کتاب کے مطابق اس طرق میں راوی عبد الله بن المثنى سخت ضعیف ہے

ثَانِيهمَا منْ رِواية أبِي بكر الْمُسْتَمْلي، عن الهيثم بن جميل، وداوُد بن المُحبَّر، قالا: حدَّثنا عبد الله بن المثنى، عن ثُمَامَة، عن أنَسٍ، وداوُد ضَعِيف، لَكِنَّ الْهَيْثم ثِقَة، وعبد الله منْ رِجال الْبُخَارِي، فالحدِيث قوِيّ الإِسْناد، وَقَدْ أخرجهُ مُحَمَّد بن عبد الملِك بن أيْمَن، عن إِبراهِيم بن إِسْحاق السَّرَّاج، عن عمرو النَّاقِد، وأخرجهُ الطَّبرانِيُّ فِي “الأوسط”، عن أحمد بن مَسْعُود، كِلاهُما عن الهيثم بن جَميل، وَحْده بِهِ، فَلَوْلا مَا فِي عبد الله بن المُثَنَّى منْ المَقَال، لَكَانَ هَذَا الحدِيث صحِيحًا، لكِن قَدْ قَالَ ابنُ معِين: ليس بِشَيْءٍ، وَقَالَ النَّسائِيُّ: لَيْسَ بِقوِيٍّ، وَقَالَ أبُو داوُد: لا أُخْرِجُ حدِيثه، وَقَالَ السَّاجِيُّ: فِيهِ ضَعْف لم يَكُنْ منْ أَهْل الْحَدِيث، روى مَنَاكِير، وَقَالَ العُقَيْليّ: لا يُتَابَع عَلَى أَكْثَرِ حدِيثه، قَالَ ابن حَبَّان فِي “الثِّقات”: رُبَّما أخْطَأ، وَوَثَّقهُ العِجلِيُّ، والتِّرْمِذِيّ، وَغَيرهما

ثُمَامَةَ بْنِ أَنَسٍ کے بارے میں کہا جاتا ہے اس کا سماع انس رضی الله عنہ سے نہیں ہے البتہ امام بخاری کے نزدیک سماع ہے

کتاب تحفة الأحوذي بشرح جامع الترمذي میں اہل حدیث عالم اس کو رسول الله کے لئے خاص کرتے ہیں
إِنْ صَحَّ هَذَا الْخَبَرُ كَانَ مِنْ خَصَائِصِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

سنن نسائی کی روایت ہے کہ حسن و حسین کی پیدائش پر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے عقیقہ کیا اور دو دو دنبے ذبح کے

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَفْصِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ هُوَ ابْنُ طَهْمَانَ، عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: “عَقَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا بِكَبْشَيْنِ كَبْشَيْنِ

البانی اس کو ابو داود کی روایت سے زیادہ صحیح کہتے ہیں جبکہ سند میں تین مدلسین ہیں قتادہ اور عکرمہ اور إِبْرَاهِيمُ ابْنُ طَهْمَانَ
تینوں نے عن سے روایت کیا ہے لہذا ضعیف ہے

عقیقہ کرنا والدین کا کام ہے نانا کا نہیں دوسرے حسن حسین ایک ساتھ نہیں الگ الگ سال میں پیدا ہوئے

عقیقہ پر فقہاء کا اختلاف ہے کہ یہ کرنا سنت بھی ہے یا نہیں
اس کی روایت کی سند مظبوط نہیں اور احناف میں إمام محمد کے نزدیک یہ ایام جاہلیت میں عربوں ایک رسم تھی
قَالَ مُحَمَّدٌ: أَمَّا الْعَقِيقَةُ فَبَلَغَنَا أَنَّهَا كَانَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَقَدْ فُعِلَتْ فِي أَوَّلِ الإِسْلامِ ثُمَّ نَسَخَ الأَضْحَى كُلَّ ذَبْحٍ كَانَ قَبْلَهُ، وَنَسَخَ صَوْمُ شَهْرِ رَمَضَانَ كُلَّ صَوْمٍ كَانَ قَبْلَهُ، امام محمد کہتے ہیں جہاں تک عقیقہ کا تعلق ہے تو ہم تک پہنچا ہے کہ یہ جاہلیت میں ہوتا تھا اور پھر اسلام کے شروع میں اس پر عمل تھا پھر قربانی نے اس کو منسوخ کر دیا اور رمضان کے روزوں نے پچھلے تمام روزوں کو منسوخ کیا

امام مالک موطآ میں کہتے ہیں
قَالَ مَالِكٌ: ” الْأَمْرُ عِنْدَنَا فِي الْعَقِيقَةِ أَنَّ: مَنْ عَقَّ فَإِنَّمَا يَعُقُّ عَنْ وَلَدِهِ بِشَاةٍ شَاةٍ الذُّكُورِ وَالْإِنَاثِ، وَلَيْسَتِ الْعَقِيقَةُ بِوَاجِبَةٍ، وَلَكِنَّهَا يُسْتَحَبُّ الْعَمَلُ بِهَا، وَهِيَ مِنَ الْأَمْرِ الَّذِي لَمْ يَزَلْ عَلَيْهِ النَّاسُ عِنْدَنَا، فَمَنْ عَقَّ عَنْ وَلَدِهِ، فَإِنَّمَا هِيَ بِمَنْزِلَةِ النُّسُكِ وَالضَّحَايَا لَا يَجُوزُ فِيهَا عَوْرَاءُ وَلَا عَجْفَاءُ، وَلَا مَكْسُورَةٌ وَلَا مَرِيضَةٌ، وَلَا يُبَاعُ مِنْ لَحْمِهَا شَيْءٌ، وَلَا جِلْدُهَا وَيُكْسَرُ عِظَامُهَا، وَيَأْكُلُ أَهْلُهَا مِنْ لَحْمِهَا، وَيَتَصَدَّقُونَ مِنْهَا، وَلَا يُمَسُّ الصَّبِيُّ بِشَيْءٍ مِنْ دَمِهَا ”
ہمارے نزدیک عقیقہ واجب نہیں ہے بلکہ اس پر عمل ہے اور لوگ اس کو کرتے ہیں

————
امام محمد کے نزدیک منسوخ عمل ہے اور اس پر عمل ضروری نہیں اور یہی بات امام مالک نےکہی ہے کہ عمل مستحب ہے ضروری نہیں ہے

مالک موطآ میں کہتے ہیں
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ قَالَ: «وَزَنَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَعْرَ حَسَنٍ، وَحُسَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، وَزَيْنَبَ، وَأُمِّ كُلْثُومٍ، فَتَصَدَّقَتْ بِوَزْنِ ذَلِكَ فِضَّةً»
جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ نے اپنے باپ محمد بن حنفیہ سے روایت کیا کہ فاطمہ رضی الله عنہا نے حسن اور حسین اور زینب اور ام کلثوم کے بال لئے ان کا وزن کیا اور ان کے برابر صدقه کیا

روایت معلول ہے جو بات علی رضی الله عنہ کو کرنی چاہیے وہ بات محمد بن حنفیہ اپنی سوتیلی ماں کے لئے بتا رہے ہیں کہ انکی سوتیلی ماں فاطمہ نے نہ صرف اپنے بیٹوں کے کے بال لئے بلکہ انکی بہنوں کے بال بھی لئے
خیال رہے کہ محمد بن حنفیہ علی رضی عنہ کے بیٹے ہیں جو حنفیہ کے بطن سے ہیں جن سے علی نے فاطمہ کی وفات کے بعد نکاح کیا لہذا یہ منقطع روایت ہے

ترمذی میں اسکی سند منقطع ہے کیونکہ وہاں راوی ابوجعفر الصادق محمد بن علی بن حسین نے علی بن ابی طالب کو نہیں پایا ہے۔
———

مسند احمد کی روایت ہے
حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللهِ يَعْنِي ابْنَ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ قَالَ: فَسَأَلْتُ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ فَحَدَّثَنِي، عَنْ أَبِي رَافِعٍ مَوْلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ لَمَّا وُلِدَ أَرَادَتْ أُمُّهُ (1) فَاطِمَةُ (2) أَنْ تَعُقَّ عَنْهُ بِكَبْشَيْنِ، فَقَالَ: ” لَا تَعُقِّي عَنْهُ، وَلَكِنْ احْلِقِي شَعْرَ رَأْسِهِ، ثُمَّ تَصَدَّقِي بِوَزْنِهِ مِنَ الْوَرِقِ فِي سَبِيلِ اللهِ “، ثُمَّ وُلِدَ حُسَيْنٌ بَعْدَ ذَلِكَ فَصَنَعَتْ مِثْلَ ذَلِكَ
شعيب الأرنؤوط اس کو عبد الله بن محمد بن عَقِيل کی وجہ سے ضعیف کہتے ہیں
————

جہاں تک نومولود کے سر کے بال کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کرنے کا سوال ہے تو یہ ثابت نہیں ہے

جواب
راقم کے علم ميں شريعت ميں مسجد ميں عورت کے اعتکاف کي دليل نہيں ہے

اس ميں صرف ايک استثني ابراہمي اديان ميں ملتا ہے اور وہ ہے مريم عليہ السلام کي والدہ کي نذر
جس ميں مريم عليہ السلام نے بيت المقدس ميں اعتکاف کيا

ليکن جيسي ہي ان کي بلوغت شروع ہوئي الله کا حکم آ گيا

وإذ قالت الملائكة يامريم إن الله اصطفاك وطهرك واصطفاك على نساء العالمين
أور جب فرشتوں نے کہا اے مريم بے شک الله نے تم کو چن ليا اور تم کو پاک کيا اور تمام دنيا کي عورتوں پر فضيلت دے دي

آيات ميں مضمر ہے کہ ان کو حيض نہيں آيا اور يہ خصوصيت اس دنيا کي کسي اور عورت ميں نہيں رہي سوائے مريم کے

اس استنثي کے بعد کسي عورت بشمول امہات المومنين رضي اللہ عنھمآ کا نہيں ملتا کہ اس نے مسجد ميں اعتکاف کيا ہو

عائشہ رضي اللہ عنہا سے روايت ہے، بيان فرماتي ہيں:
’’كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَعْتَكِفُ فِي العَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، فَكُنْتُ أَضْرِبُ لَهُ خِبَاءً فَيُصَلِّي الصُّبْحَ ثُمَّ يَدْخُلُهُ، فَاسْتَأْذَنَتْ حَفْصَةُ عَائِشَةَ أَنْ تَضْرِبَ [ص:49] خِبَاءً، فَأَذِنَتْ لَهَا، فَضَرَبَتْ خِبَاءً، فَلَمَّا رَأَتْهُ زَيْنَبُ ابْنَةُ جَحْشٍ ضَرَبَتْ خِبَاءً آخَرَ، فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى الأَخْبِيَةَ، فَقَالَ: «مَا هَذَا؟» فَأُخْبِرَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَلْبِرَّ تُرَوْنَ بِهِنَّ» فَتَرَكَ الِاعْتِكَافَ ذَلِكَ الشَّهْرَ، ثُمَّ اعْتَكَفَ عَشْرًا مِنْ شَوَّالٍ‘‘??
[صحيح البخاري، الاعتکاف، باب اعتکاف النساء، رقم الحديث: 2033] نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم رمضان کے آخري عشرہ ميں اعتکاف کيا کرتے تھے? ميں آپ صلي اللہ عليہ وسلم کے ليے (مسجد ميں) ايک خيمہ لگا ديتي? اور آپ صلي اللہ عليہ وسلم صبح کي نماز پڑھ کے اس ميں چلے جاتے تھے? پھر حفصہ رضي اللہ عنہا نے بھي عائشہ رضي اللہ عنہا سے خيمہ کھڑا کرنے کي (اپنے اعتکاف کے ليے) اجازت چاہي? عائشہ رضي اللہ عنہا نے اجازت دے دي اور انہوں نے ايک خيمہ کھڑا کر ليا جب زينب بنت جحش رضي اللہ عنہا نے ديکھا تو انہوں نے بھي (اپنے ليے) ايک خيمہ کھڑا کر ليا? صبح ہوئي تو رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے کئي خيمے ديکھے تو فرمايا، يہ کيا ہے؟ آپ کو ان کي حقيقت کي خبر دي گئي? آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: کيا تم سمجھتے ہو يہ خيمے ثواب کي نيت سے کھڑے کئے گئے ہيں? پس آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے اس مہينہ (رمضان) کا اعتکاف چھوڑ ديا اور شوال کے عشرہ کا اعتکاف کيا‘‘?

عائشہ رضي الله عنہا سے مروي ہے
إنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كان إِذَا اعْتَكَفَ لاَ يَدْخُلُ الْبَيْتَ , إِلاَّ لِحَاجَةِ الإِنْسَانِ
رسول الله صلي اللہ عليہ وسلم جب اعتکاف کرتے تو گھر ميں سوائے حآجت کے داخل نہ ہوتے

عائشہ رضي الله عنہآ اگر مسجد ميں ہي معتکف ہوتيں تو وہ مسجد میں  خيمہ ميں ہوتيں نہ کہ گھر کي خبر ديتيں
يہ قول اسي صورت صحيح ہے اگر وہ گھر ميں معتکف ہوتيں

اور اگر ايسا امہات المومنين کا معمول ہوتا تو لوگ ان سے رمضان ميں بھي مسجد ميں علم حاصل کرتے جبکہ ايسا کسي روايت ميں نہيں نہ کوئي بيان کرتا ہے

اسي لئے اس پر فقہاء کا اختلاف ہے اہل حجاز کے نزديک عورت مسجد ميں اعتکاف کر سکتي ہے احناف کے نزديک نہيں

ام المومنين ام سلمہ رضي الله عنہا کي وفات سب سے آخر ميں 59 ہجري ميں ہوئي يعني نبي صلي الله عليہ وسلم کي وفات کے بعد 48 سال تک امہات المومنين نے مسجد النبي ميں اعتکاف کيا ہو گا حيرت ہے اس پر ايک بھي روايت نہيں

سنن الکبري البيہقي کي روايت ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحُسَيْنُ بْنُ عَبْدِ اللهِ السُّدَيْرِيُّ، بِخُسْرَوْجِرْدَ أنبأ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ الْخُسْرَوَجُرْدِيُّ، ثنا دَاوُدُ بْنُ الْحُسَيْنِ، ثنا حُمَيْدُ بْنُ زَنْجُوَيْهِ، ثنا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، ثنا شَرِيكٌ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عَلِيٍّ الْأَزْدِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: ” إِنَّ أَبْغَضَ الْأُمُورِ إِلَى اللهِ الْبِدَعُ وَإِنَّ مِنَ الْبِدَعِ الِاعْتِكَافَ فِي الْمَسَاجِدِ الَّتِي فِي الدُّورِ ”
علي الازدي نے کہا ابن عباس رضي الله عنہ نے کہا الله کے نزديک سب سے نفرت والے عمل بدعت ہيں اور بدعت ميں سے ہے مسجدوں ميں اعتکاف کرنا جو الدور ميں ہوں

اس ميں عورت کے اعتکاف کا ذکر ہي نہيں ہے
علي الازدي اصلا علي بن عروة البارقي ہيں
اس نام کے دو شخص ہيں ايک کذاب اور دوسرا مجھول ہے الذھبي ديوان الضعفاء ميں لکھتے ہيں
علي بن عروة، آخر: مجهول تابعي

علي بْن عَبد اللَّهِ البارقي الأزدي نام كا ايک راوي ہے ليکن وہ ابن عمر سے روايت کرتا ہے
ان کا سماع ابن عباس سے ثابت نہيں ہے

لہذا يہ روايت راوي کا تعين نہ ہونے کي بنا پر ضعيف ہے اور علي الازدي کي ابن عباس سے ذخيرہ کتب حديث ميں يہ واحد روايت ہے  اس کے علاوہ اس کي سند ميں تين مدلسن ہيں جو تينوں عن سے روايت کر رہے ہيں

اس حوالہ کو الموسوعة الفقهية الكويتية ميں نقل کيا گيا ہے اور اس کو عورت کے مسجد ميں اعتکاف کي دليل پر پيش کيا گيا ہے اور كتاب الفروع ميں ابن المفلح نے بھي نقل کيا ہے جبکہ اس روايت کے متن ميں عورتوں کا ذکر نہيں ہے

اعتکاف ايک نفلي عبادت ہے جس کا حکم نہيں کيا جاتا مثلا نبي صلي الله عليہ وسلم نے تہجد پڑھا ليکن اس کا حکم عام نہيں تھا اسي طرح اعتکاف کا بھي حکم عام نہيں ہے – مسجد النبي ايک مختصر سي مسجد تھي دور نبي ميں تو اور بھي چھوٹي تھي اور اس ميں سات امہات المومننيں کے خيمے اور صحابہ کبار کے خيمے لگنے کے بعد کتني جگہ رہي ؟

بخاري کي 2034 حديث ميں ہے
– حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَرَادَ أَنْ يَعْتَكِفَ، فَلَمَّا انْصَرَفَ إِلَى المَكَانِ الَّذِي أَرَادَ أَنْ يَعْتَكِفَ إِذَا أَخْبِيَةٌ خِبَاءُ عَائِشَةَ، وَخِبَاءُ حَفْصَةَ، وَخِبَاءُ زَيْنَبَ، فَقَالَ: «أَلْبِرَّ تَقُولُونَ بِهِنَّ» ثُمَّ انْصَرَفَ، فَلَمْ يَعْتَكِفْ حَتَّى اعْتَكَفَ عَشْرًا مِنْ شَوَّالٍ
رسول الله صلي الله عليہ وسلم نے کوئي قولي حکم نہيں ديا کہ عورتيں مسجد ميں اعتکاف کريں
نبي صلي الله عليہ وسلم نے تعليم دينے کے لئے اس سال خود بھي رمضان ميں اعتکاف نہيں کيا
آپ صلي الله عليہ وسلم نے اس طرح عورتوں کو مسجد ميں اعتکاف سےمنع کر ديا
جس روايت سے عورتوں کے اعتکاف کي دليل لي جا رہي ہے وہ يہي ہے ليکن اسکو صحيح طرح پڑھا نہيں گيا

اسي طرح روايت ہے
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَهُمْ قَالَ: أَخْبَرَنِي هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّهُ سُئِلَ أَتَخْدُمُنِي الحَائِضُ أَوْ تَدْنُو مِنِّي المَرْأَةُ وَهِيَ جُنُبٌ؟ فَقَالَ عُرْوَةُ: كُلُّ ذَلِكَ عَلَيَّ هَيِّنٌ، وَكُلُّ ذَلِكَ تَخْدُمُنِي وَلَيْسَ عَلَى أَحَدٍ فِي ذَلِكَ بَأْسٌ أَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ: «أَنَّهَا كَانَتْ تُرَجِّلُ، تَعْنِي رَأْسَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهِيَ حَائِضٌ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَئِذٍ مُجَاوِرٌ فِي المَسْجِدِ، يُدْنِي لَهَا رَأْسَهُ، وَهِيَ فِي حُجْرَتِهَا، فَتُرَجِّلُهُ وَهِيَ حَائِضٌ»
عائشہ رضي الله عنہا کہتي ہيں ميں حائضہ ہوتي اور رسول الله صلي الله عليہ وسلم کے بالوں ميں کنگھي کرتي اور وہ مسجد ميں اعتکاف ميں ہوتے

اصل ميں حجرہ عائشہ کا ايک دروازہ مسجد ميں کھلتا تھا رسول الله صلي الله عليہ وسلم اس کي چوکھٹ پر ہي اپنا خيمہ لگاتے تھے اس طرح وہ سر گھر ميں رکھتے اور عائشہ رضي الله عنہا گھر ميں بيٹھے ہي بالوں ميں کنگھا کرتي تھيں حائضہ پر عبادت نہيں ہے نہ روزہ نہ نماز اور اعتکاف بغير روزہ نہيں ہوتا لہذا حالت حيض ميں روزہ نہيں روزہ کے بغير اعتکاف نہيں

جواب

تمام روایات جو آپ نے پیش کی ہیں ضعیف ہیں البانی ان سب کو صحیح کہتے ہیں

’’ عن إياس بن ابي رملة الشامي قال:‏‏‏‏ شهدت معاوية بن ابي سفيان وهو يسال زيد بن ارقم قال:‏‏‏‏ اشهدت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عيدين اجتمعا في يوم؟ قال:‏‏‏‏ نعم قال:‏‏‏‏ فكيف صنع؟ قال:‏‏‏‏ صلى العيد ثم رخص في الجمعة فقال:‏‏‏‏ ” من شاء ان يصلي فليصل “.(سنن ابی داود ، باب إذا وافق يوم الجمعة يوم عيد
باب: جمعہ اور عید ایک دن پڑے تو کیا کرنا چاہئے؟۔۔۔۔حدیث نمبر: 1070

ایاس بن ابی رملۃ شامی کہتے ہیں کہ میں معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھا اور وہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے پوچھ رہے تھے کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو عیدوں میں جو ایک ہی دن آ پڑی ہوں حاضر رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: ہاں، معاویہ نے پوچھا: پھر آپ نے کس طرح کیا؟ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی نماز پڑھی، پھر جمعہ کی رخصت دی اور فرمایا: ”جو جمعہ کی نماز پڑھنی چاہے پڑھے ۱؎“۔

إياس بن أبي رملة الشامي مجھول ہے
الذھبی کہتے ہیں
قال ابنُ المنذر: لا يثبت هذا، فإن إياساً مجهول
ابن المنذر نے کہا یہ ثابت نہیں ہے کیونکہ ایاس مہجول ہے

……………………………..
سنن ابی داود ، حدیث نمبر: 1071

’’ حدثنا محمد بن طريف البجلي حدثنا اسباط عن الاعمش عن عطاء بن ابي رباح قال:‏‏‏‏ صلى بنا ابن الزبير في يوم عيد في يوم جمعة اول النهار ثم رحنا إلى الجمعة ” فلم يخرج إلينا فصلينا وحدانا ” وكان ابن عباس بالطائف فلما قدم ذكرنا ذلك له فقال:‏‏‏‏ اصاب السنة.
(سنن ابی داود ،)
عطاء بن ابورباح کہتے ہیں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے ہمیں جمعہ کے دن صبح سویرے عید کی نماز پڑھائی، پھر جب ہم نماز جمعہ کے لیے چلے تو وہ ہماری طرف نکلے ہی نہیں، بالآخر ہم نے تنہا تنہا نماز پڑھی ۱؎ ابن عباس رضی اللہ عنہما اس وقت طائف میں تھے، جب وہ آئے تو ہم نے ان سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے کہا: انہوں (ابن زبیر رضی اللہ عنہ) نے سنت پر عمل کیا ہے۔

سند میں اعمش مدلس عن سے روایت کرتا ہے اسباط بن نصر ضعیف ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنن ابی داود، حدیث نمبر: 1073
حدَّثنا محمدُ بن المُصَفَّى، وعُمَرُ بن حفص الوُصَابي، المعنى، قالا: حدَّثنا بقية، حدثنا شعبة، عن مغيرة الضبّىّ، عن عبدِالعزيز بن رُفَيع، عن أبي صالح
عن أبي هريرة، عن رسول الله- صلَّى الله عليه وسلم -أنه قال: “قد اجْتَمَعَ في يومِكم هذا عيدان: فمن شاء أجزأه مِنَ الجُمعَةِ، وإنا مُجمِّعون” (2) قال عمر:
عن شُعبة.

سند میں بقية بن الوليد الحمصي ضعیف ہے یہ مدلس ہے اور اہل فن کے مطابق اس کی تدلیس ضعیف سے ہوتی ہے

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے آج کے اس دن میں دو عیدیں اکٹھا ہو گئی ہیں، لہٰذا رخصت ہے، جو چاہے عید اسے جمعہ سے کافی ہو گی اور ہم تو جمعہ پڑھیں گے“۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنن ابن ماجہ ،حدیث نمبر: 1311
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنِي مُغِيرَةُ الضَّبِّيُّ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «اجْتَمَعَ عِيدَانِ فِي يَوْمِكُمْ هَذَا، فَمَنْ شَاءَ أَجْزَأَهُ مِنَ الْجُمُعَةِ، وَإِنَّا مُجَمِّعُونَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ» . حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ رَبِّهِ قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُغِيرَةَ الضَّبِّيِّ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے آج کے دن میں دو عیدیں جمع ہوئی ہیں، لہٰذا جو جمعہ نہ پڑھنا چاہے اس کے لیے عید کی نماز ہی کافی ہے، اور ہم تو ان شاءاللہ جمعہ پڑھنے والے ہیں“۔

اس کی سند میں بھی بقیہ ہے جو مدلس ہے
شعيب الأرنؤوط بھی اس کو ضعیف کہتے ہیں

جواب

عورت پر احرام کی حالت میں پردہ نہیں ہے
اس کے لئے جو روایت ہے وہ ضعیف ہے

أبو داود مين حديث ہے

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْجُنَيْدِ الدَّامِغَانِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ سُوَيْدٍ الثَّقَفِيُّ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ بِنْتُ طَلْحَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا حَدَّثَتْهَا، قَالَتْ: «كُنَّا نَخْرُجُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى مَكَّةَ فَنُضَمِّدُ جِبَاهَنَا بِالسُّكِّ الْمُطَيَّبِ عِنْدَ الْإِحْرَامِ، فَإِذَا عَرِقَتْ إِحْدَانَا سَالَ عَلَى وَجْهِهَا فَيَرَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا يَنْهَاهَا

ہم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ نکلیں مکہ کے لئے اور ہم نے ماتھے پر خوشبو دار پٹی باندھی ہوئی تھیں احرام کی حالت میں پس جب کسی کو پسینہ آتا تو وہ نبی سے اپنے چہرے سے سوال کرتی اور ان کو منع نہیں کیا گیا

احرام کی حالت میں چہرہ پر کپڑا لگ جائے تو کوئی حرج نہیں اور پٹی باندھنا ظاہر کرتا ہے کہ چہرہ پر کوئی کپڑا نہ تھا ورنہ ماتھے سے بہنے والا پسینہ روکنے کے لئے پٹی باندھنا ضروری نہ ہوتا – چادر سے پوچھ لیا جاتا

پردے کے حق میں روایت پیش کی جاتی ہے سنن ابو داود میں ہے

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «كَانَ الرُّكْبَانُ يَمُرُّونَ بِنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْرِمَاتٌ، فَإِذَا حَاذَوْا بِنَا سَدَلَتْ إِحْدَانَا جِلْبَابَهَا مِنْ رَأْسِهَا عَلَى وَجْهِهَا فَإِذَا جَاوَزُونَا كَشَفْنَاهُ

ہمارے پاس سے قافلہ سوار گزرتے اور ہم رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ احرام كى حالت ميں تھيں ، تو جب وہ ہمارے برابر آتے تو ہم ميں سے عورتيں اپنى چادر اپنے سر سے اپنے چہرہ پر لٹكا ديتى، اور جب وہ ہم سے آگے نكل جاتے تو ہم چہرہ ننگا كر ديتيں

البانی اس روایت کو ضعیف کہتے ہیں

جواب

نماز جس کو سینکڑوں صحابیات نے دور نبوی میں پڑھا لیکن انہوں نے اس نماز کی تبدیلی کا ذکر نہیں کیا ہے
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے پردے وغیرہ کا حکم کیا ہے نماز میں عورت کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر امام کو خبر دار کرنے کا ذکر کیا ہے لیکن کسی صحیح حدیث میں کوئی اور فرق معلوم نہیں
جو روایات ہیں ان کی اسناد میں مجہول ہیں یا انقطع ہے لہذا قابل قبول نہی

——
اگر کسی مسئلہ میں حدیث نہ ہو تو تابعین کے اثر سے دلیل لی جا سکتی ہے اور احناف نے ایسا ہی کیا ہے لیکن راقم نماز پر اس کو قبول نہیں کرتا کیونکہ نماز ایک عمومی مسئلہ ہے اس پر فرق اگر ہوتا تو ضرور بیان کیا جاتا

طبرانی کی روایت ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْحَضْرَمِيُّ قَالَ: حَدَّثَتْنِي مَيْمُونَةُ بِنْتُ حُجْرِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَتْ: سَمِعْتُ عَمَّتِي أُمَّ يَحْيَى بِنْتَ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، عَنْ أَبِيهَا عَبْدِ الْجَبَّارِ، عَنْ عَلْقَمَةَ عَمِّهَا، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ: جِئْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «هَذَا وَائِلُ بْنُ حُجْرٍ جَاءَكُمْ، لَمْ يَجِئْكُمْ رَغْبَةً وَلَا رَهْبَةً، جَاءَ حُبًّا لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ» وَبَسَطَ لَهُ رِدَاءَهُ، وَأَجْلَسَهُ إِلَى جَنْبِهِ، وَضَمَّهُ إِلَيْهِ، وَأَصْعَدَ بِهِ الْمِنْبَرَ فَخَطَبَ النَّاسَ فَقَالَ لِأَصْحَابِهِ: «ارْفُقُوا بِهِ فَإِنَّهُ حَدِيثُ عَهْدٍ بِالْمُلْكِ» فَقُلْتُ: إِنَّ أَهْلِي قَدْ غَلَبُوني عَلَى الَّذِي لِي، قَالَ: «أَنَا أُعْطِيكَهُ وَأُعْطِيكَ ضِعْفَهُ» فَقَالَ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا وَائِلُ بْنَ حُجْرٍ، إِذَا صَلَّيْتَ فَاجْعَلْ يَدَيْكَ حِذَاءَ أُذُنَيْكَ، وَالْمَرْأَةُ تَجْعَلُ يَدَيْهَا حِذَاءَ ثَدْيَيْهَا»’
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حکم کیا
اے وائل! جب تم نماز پڑھو تو اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاؤ اور عورت اپنے دونوں ہاتھ اپنی چھاتی کے برابر اٹھائے

تبصرہ سند میں مَيْمُونَةُ بِنْتُ حُجْرِ مجہول ہے اور ام یحیی بھی مجہول ہے
———–

مراسیل ابی داود
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ غَيْلَانَ [ص:118]، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى امْرَأَتَيْنِ تُصَلِّيَانِ فَقَالَ: «إِذَا سَجَدْتُمَا فَضُمَّا بَعْضَ اللَّحْمِ إِلَى الْأَرْضِ فَإِنَّ الْمَرْأَةَ لَيْسَتْ فِي ذَلِكَ كَالرَّجُلِ»
یزید بن ابی حبیب نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا کہ دو عورتوں کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہی تھیں آپ نے فرمایا جب تم سجدہ کرو تو اپنے جسم کا کچھ حصہ زمین سے ملالیا کرو کیونکہ عورت مرد کی طرح نہیں ہے ۔
یزید صحابی نہیں ہے روایت میں صحابی کا نام مذکور نہیں

————
مصنف ابن ابی شیبہ
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَطَاءٍ: تُشِيرُ الْمَرْأَةُ بِيَدَيْهَا بِالتَّكْبِيرِ كَالرَّجُلِ؟ قَالَ: «لَا تَرْفَعْ بِذَلِكَ يَدَيْهَا كَالرَّجُلِ»، وَأَشَارَ فَخَفَضَ يَدَيْهِ جِدًّا، وَجَمَعَهُمَا إِلَيْهِ جِدًّا، وَقَالَ: «إِنَّ لِلْمَرْأَةِ هَيْئَةً لَيْسَتْ لِلرَّجُلِ، وَإِنْ تَرَكَتْ ذَلِكَ فَلَا حَرَجَ»
ابن جریح نے عطاءؒ سے کہا کہ کیا عورت تکبیر تحریمہ کہتے وقت مرد کی طرح اشارہ (رفع یدین) کرے گی؟ عطاءؒ نے فرمایا: عورت تکبیر کہتے وقت مرد کی طرح ہاتھ نہ اٹھائے آپ نے اشارہ کیا اور اپنے دونوں ہاتھ بہت ہی پست رکھے اور ان کو اپنے سے ملایا اور فرمایا عورت کی (نماز میں) ايک خاص ہیئت ہے جو مرد کی نہیں۔ اور اگر وہ اسے چھوڑدے تو اس میں کوئی حرج نہیں
یہ عطاءؒ بن ابی رباح کی رائے ہے حدیث نہیں ہے
اس باب میں تابعین کے اقوال ہیں جس میں ان کی آراء ہیں کہ عورت نماز میں کیا کرے لیکن یہ احادیث نہیں ہیں

مسند الامام احمد اور سنن ابن ماجہ میں حدیث ہے کہ :
” عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده: أن النبي -صلي الله عليه وسلم -كبّر في عيدٍ ثنْتَيْ عَشْرة تكبيرة، سبعا في الأولى، وخمساً في الآخرة، ولم يصلّ قبلها ولا بعدها۔ ( مسند احمد ، 6688 بتحقیق احمد شاکر ،، ابن ماجه مترجم ج ۱ کتاب اقامة الصلوة باب ماجاء فی کم یکبر الامام فی الصلوة العیدین ص ۶۳۴ رقم الحدیث ۱۳۷۷)
سیدنا عبد اللہ عمرو ؓ روایت کرتےہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز عید میں بارہ تکبریں کہیں ’پہلی رکعت میں سات اور آخری رکعت میں پانچ اور نماز سے پہلے اور بعد آپﷺ نے کوئی نماز نہیں پڑھی۔

جواب

نماز عید پر کئی روایات ہیں
مصنف عبد الرزاق کی ہے
عَبْدُ الرَّزَّاقِ،5687 – عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، وَالْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: كَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ جَالِسًا وَعِنْدَهُ حُذَيْفَةُ وَأَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ، فَسَأَلَهُمَا سَعِيدُ بْنُ الْعَاصِ عَنِ التَّكْبِيرِ فِي الصَّلَاةِ يَوْمَ الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى فَجَعَلَ هَذَا يَقُولُ: سَلْ هَذَا، وَهَذَا يَقُولُ: سَلْ هَذَا، فَقَالَ لَهُ حُذَيْفَةُ: سَلْ هَذَا ـ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ـ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: «يُكَبِّرُ أَرْبَعًا ثُمَّ يَقْرَأُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ فَيَرْكَعُ، ثُمَّ يَقُومُ فِي الثَّانِيَةِ فَيَقْرَأُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ أَرْبَعًا بَعْدَ الْقِرَاءَةِ
علقمہ اور اسود بن یزید کہتے ہیں کہہم عبدالله بنِ مسعود کے پاس بیٹھے ہوۓ تھے، ان کے پاس حذیفہ اور ابو موسیٰ بھی بیٹھے ہوۓ تھے. تو ان سے سعید بن العاص نے عید الفطر اور عید الأضحى کے متعلق سوال کیا، ابو موسیٰ رضی الله عنہ نے کہا : ان ( حذیفہ) سے پوچھو، پھر حذیفہ نے کہا : یہ مسئلہ عبدالله بنِ مسعود سے پوچھو، چناچہ انہوں نے پوچھا تو ابنِ مسعود نے کہا : نمازی چار تکبیریں کہے، پھر قرأت کرے، پھر تکبیر کہہ کر رکوع کرے، دوسری رکعت میں تکبیر کہے، پھر قرأت کرے، پھر قرأت کے بعد چار تکبیریں کہے.

اس فتوی کو احناف نے لیا اس کی سند صحیح ہے
کوفہ میں اسی مذھب پر نماز ہوتی تھی اور یہی مذھب ابن عباس سے آیا ہے
اس کے خلاف ایک حدیث عمرو بن شعیب سے ہے جس پر احناف میں امام یحیی القطان کہتے ہیں
وقال على: قال يحيى القطان: حديث عمرو بن شعيب عندنا واه
امام علی المدینی نے کہا امام یحیی نے کہا عمرو کی حدیث ضعیف ہے

کہا جاتا ہے امام احمد ایک دوسری روایت کو ترجیح دیتے تھے
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، سَمِعَهُ مِنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَبَّرَ فِي عِيدٍ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ تَكْبِيرَةً، سَبْعًا فِي الْأُولَى، وَخَمْسًا فِي الْآخِرَةِ، وَلَمْ يُصَلِّ قَبْلَهَا، وَلَا بَعْدَهَا» [ص:284] قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَد: قَالَ أَبِي: «وَأَنَا أَذْهَبُ إِلَى هَذَا

اس کی سند صحیح نہیں ہے کیونکہ محدثین ہی عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی روایت پر جرح کرتے تھے یہاں تک کہ صرف اس سند کے لئے کتابیں تک لکھی گئی ہیں

کتابتعريف اهل التقديس بمراتب الموصوفين بالتدليس از ابن حجر کے مطابق
وقال بن أبي خيثمة سمعت هارون بن معروف يقول لم يسمع عمرو من أبيه شيئا إنما وجده في كتاب أبيه
عمرو نے اپنے باپ سے نہیں سنا

وقال أبو داود: سمعت أحمد، ذكر له عمرو بن شعيب، فقال: أصحاب الحديث إذا شاؤوا (احتجوا بحدمث عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده) ، وإذا شاؤوا تركوه. «سؤالاته»
ابو داود کہتے ہیں میں نے امام احمد کو سنا ان سے عمرو کی حدیث کا ذکر ہوا پس کہا اصحاب حدیث جب چاہتا ہے اس کی حدیث لیتے ہیں جب چاہتا ہے اس کو ترک کر دیتے ہیں

امام عقیلی کہتے ہیں امام احمد نے کہا
إنما نكتب حديثه نعتبره، فأما أن يكون حجة فلا
ہم عمرو کی حدیث اعتبار کے لئے لکھتے ہیں جہاں تک دلیل کا تعلق ہے تو یہ اس کی حدیث سے نہیں لیتے

لہذا امام احمد کا نماز عید کی ١٢ تکبیرات والی روایت کو لینا مشکوک ہے

عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کے دفاع میں کہا  جاتا ہے

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) نے تاریخ  الکبیر میں کہا
رأيت احمد بن حنبل وعلي بن المديني وإسحاق بن راهويه والحميدي وأبا عبيد، وعامة أصحابنا يحتجون بحديث عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده، ما تركه أحد من المسلمين [تهذيب التهذيب لابن حجر: 24/ 49 وانظرالتاريخ الكبير للبخاري : 6/ 343]۔
میں نے دیکھا امام احمد اور امام علی اور امام اسحٰق اور حمیدی اور ابو عبید اور عام اصحاب حدیث اس کی روایت سے احتجاج کرتے ہیں

سوال ہے امام بخاری نے اپنی صحیح میں اس سے ایک بھی روایت کیوں نہیں لکھی اگر یہ ائمہ اس سے احتجاج کرتے ہیں

اس کے علاوہ اس  تکبیرات والی روایت کی سند میں عبد الله بن عبد الرحمن بن يعلى الطائفي ہے جو ضعیف ہے
بحر الحال حنابلہ نے اس روایت کو قبول کیا ہے ان کی دیکھا دیکھی غیر مقلدین نے بھی
شعيب الأرنؤوط کہتے ہیں سند حسن ہے
کہا جاتا ہے امام بخاری نے اس کو صحیح کہا ہے لیکن یہ بھی غلط ہے
الترمذي في “العلل الكبير” 1/288 عن البخاري قوله: ليس في هذا الباب شيء أصح من هذا
یہ بات ترمذی کی العلل میں ہے جسکی سند ثابت نہیں ہے

قَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ:وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوْااسْمَ اللّٰہِ عَلٰی مَارَزَقَھُمْ مِنْ بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ۔

سورۃ الحج

 اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

ہم نے ہر امت کے لیے قربانی مقرر کردی تاکہ اللہ نے جو چوپائے انہیں دیے ہیں ان پر اللہ کا نام لیا کریں۔

وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الأنْعَامِ

الحج: 28

 اور الله کا نام لو معلوم دنوں میں چوپایوں پر جو اس نے تم کو دیے ہیں

یوم عرفہ – یوم الحج الاکبر  – ٩ ذو الحجہ

یوم نحر  – یوم عید الاضحی – ١٠ ذو الحجہ

ایام التشریق منی میں حج کے بعد کے تین دن ہیں امام مالک موطا میں ایام تشریق کی وضاحت کرتے  ہیں

أَيَّامِ التَّشْرِيقِ إِنَّهُ  لَا يُجَمِّعُ فِي شَيْءٍ مِنْ تِلْكَ الْأَيَّامِ

ایام التشریق کیونکہ ان دنوں میں کوئی چیز جمع نہ کی جائے

ابن  حجر فتح الباری ج ٤ ص ٢٨٥  میں لکھتے ہیں

وقد اختلف في كونها يومين أو ثلاثة، وسميت أيام التشريق؛ لأن لحوم الأضاحي تشرق فيها أي تنشر عند الشمس

اس میں اختلاف ہے کہ یہ دو دن ہیں یا تین ہیں، اور ان کو ایام تشریق کہا جاتا ہے کیونکہ قربانی کا گوشت سورج نکلتے ہی پھیل جاتا (بٹ جاتا) ہے

 بعض کہتے ہیں یہ تین دن ہیں

 اس میں اختلا ف ہے کہ یہ کون کون سے دن ہیں بعض کے نزدیک یہ ١٠، ١١ اور ١٢ ہیں اور بعض کے نزدیک ایام التشریق میں  یوم عید کے بعد کے تین دن ہیں یعنی ١١ ، ١٢  اور ١٣   ذو الحجہ

اس سلسلے میں ترمذی کی حسن حدیث پیش کی جاتی  ہے کہ مُوسَى بْنُ عَلِيٍّ  اپنے باپ على بن رباح بن قصير اللخمى  سے وہ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ  وہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ

يوم عرفة ويوم النحر وأيام التشريق عيدنا أهل الإسلام، وهي أيام أكل وشرب

کھانے پینے کے دن ، اہل اسلام کے لئے ہیں یوم عرفہ، یوم نحر اور ایام تشریق

اس سے دلیل لی جاتی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے ایام تشریق کا یوم نحر سے الگ ذکر کیا ہے لہذا یہ الگ ہیں

اس روایت کو امام احمد بھی مسند میں بیان کرتے ہیں الطحاوی اس روایت کو خاص  کرتے ہیں  یعنی حاجیوں کے لئے کہتے ہیں

فلما ثبت بهذه الأحاديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: النهي عن صيام أيام التشريق وكان نهيه عن ذلك بمنى والحجاج مقيمون بها

إسحاق بن منصور بن بهرام نے امام احمد سے قربانی کے بارے میں سوال کیا کہ کتنے دن ہے

کتاب  مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه کے مطابق

قلت: كم الأضحى؟ ثلاثة أيام 

قال: ثلاثة أيام، يوم النحر، ويومان بعده

احمد نے کہا تین دن ، يوم النحر اور اس کے بعد دو دن

یعنی ١٠ ، ١١ اور ١٢ ذو الحجہ ہوئے

عصر حاضر کے وہابی حنابلہ اپنے مرشد ابن تیمیہ کی تقلید میں ایام تشریق میں ١٣ کو بھی شامل کرتے ہیں

ترمذی کی حسن روایت کو امام احمد مسند میں نقل کرتے ہیں لیکن فتوی اس کے بر خلاف دیتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت ان کے نزدیک صحیح نہیں

قربانی کا گوشت تو یوم نحر میں ہی بٹنا شروع ہو جائے گا لہٰذا اس کو ایام تشریق سے الگ نہیں کیا جا سکتا

 کتاب شرح مختصر الطحاوي از أبو بكر الرازي الجصاص الحنفي (المتوفى: 370 هـ)  کے مطابق امام طحاوی کہتے ہیں

وأيام النحر ثلاثة أيام، يوم النحر ويومان بعده، وأفضلها أولها

اور ایام النحر تین ہیں یوم نحر اور اس کے بعد دو دن اور افضل شروع میں ہے

 اس کے بر خلاف امام الشافعی کا کتاب الام میں قول ہے کہ یہ تین دن سے  زیادہ ہے

قَالَ الشَّافِعِيُّ : وَالْأُضْحِيَّةُ جَائِزَةٌ يَوْمَ النَّحْرِ وَأَيَّامَ مِنًى كُلَّهَا لِأَنَّهَا أَيَّامُ النُّسُكِ

قربانی جائز ہے یوم النحر اور سارے ایام منی میں کیونکہ یہ قربانی کے دن ہیں

امام الشافعی کی رائے میں منی کے تمام ایام میں کی جا سکتی  ہے

امام الشافعی کی رائے قیاس پر مبنی ہے لہذا قرآن کی آیت میں ہے

وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ

(البقرۃ : 203)
اور معلوم دنوں میں اللہ کا ذکر کرو ۔ تو جو شخص دو دنوں میں جلدی کر لے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں اور جو تأخیر کر لے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ۔

شوافع میں أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ کو أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ سے ملا کر بحث کی جاتی ہے کہ قربانی کے دن تمام ایام منی ہیں – اس کے برعکس احناف ، مالکیہ اور حنابلہ کا موقف ہے کہ قربانی تین دن ہے   یہاں سے فقہاء کا اختلاف شروع ہوتا ہے

غیر مقلدین  شوافع سے ایک ہاتھ آگے جا کر تشریق کے دنوں کی تعریف بدلنے کے بعد اس میں زبردستی ١٣ ذو الحج کو داخل کرتے ہیں اور کہتے ہیں  ١٣ تاریخ میں سورج غروب ہونے سے پہلے قربانی جائز ہے

امام محمّد کتاب الأَصْلُ میں کہتے ہیں

باب التكبير في أيام التشريق

قلت: أرأيت التكبير في أيام التشريق متى هو، وكيف هو، ومتى يبدأ ، ومتى يقطع؟ قال: كان عبد الله بن مسعود يبتدئ به من صلاة الغداة  يوم عرفة إلى صلاة العصر من يوم النحر ، وكان علي بن أبي طالب يكبر من صلاة الغداة يوم عرفة إلى صلاة العصر من آخر أيام التشريق ، فأي ذلك ما فعلت فهو حسن ، وأما أبو حنيفة فإنه كان يأخذ بقول ابن مسعود، وكان يكبر من صلاة الغداة يوم عرفة إلى صلاة العصر من يوم النحر، ولا  يكبر بعدها، وأما أبو يوسف ومحمد  فإنهما يأخذان بقول علي بن أبي طالب.

تشریق کے ایام میں تکبیر کہنا  …. کہا  تکبیر،  عبد الله ابن مسعود صلاة الغداة (نماز فجر) یوم عرفہ کے دن سے یوم نحر میں عصر کی نماز تک کرتے اور علی بن ابی طالب صلاة الغداة (نماز فجر) میں تکبیر کہتے ایام تشریق نماز عصر کے آخر تک  اور اسی طرح حسن کرتے اور جہاں تک ابو حنیفہ کا تعلق ہے تو وہ ابن مسعود کا عمل کرتے اور … اور امام ابو یوسف اور محمد علی بن ابی طالب کا قول لیتے

قال الإمام محمد: أخبرنا سلام بن سليم الحنفي عن أبي إسحاق السبيعي عن الأسود بن يزيد قال كان عبد الله بن مسعود – رضي الله عنه – يكبر من صلاة الفجر يوم عرفة إلى صلاة العصر من يوم النحر: الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله والله أكبر الله أكبر ولله الحمد. انظر: الحجة على أهل المدينة، 1/ 310؛ ورواه من وجه آخر. انظر: الحجة على أهل المدينة، 1/ 308. وانظر: الآثار لأبي يوسف، 60؛ والمصنف لابن أبي شيبة، 1/ 488؛ ونصب الراية للزيلعي، 2/ 222.

یعنی علی رضی الله عنہ ١٣ نمازوں میں تکبیر کہتے اور ابن مسعود ٨ نمازوں میں تکبیر کہتے

 کتاب النتف في الفتاوى از أبو الحسن علي بن الحسين بن محمد السُّغْدي، حنفي (المتوفى: 461هـ   کے مطابق

قَالَ ابْن مَسْعُود يَنْتَهِي بهَا الى الْعَصْر من يَوْم النَّحْر وَهِي ثَمَانِي صلوَات وَبِه أَخذ أَبُو حنيفَة وَحده

وَقَالَ عَليّ بل يَنْتَهِي بهَا الى صَلَاة الْعَصْر من آخر أَيَّام التَّشْرِيق فَهِيَ ثَلَاثَة وَعِشْرُونَ صَلَاة وَكَذَلِكَ قَول عمر فِي رِوَايَة وَعَلِيهِ الْعَامَّة وروى عَن عمر ايضا انه يَنْتَهِي بهَا الى صَلَاة الظّهْر من آخر أَيَّام التَّشْرِيق فَهِيَ اثْنَتَانِ وَعِشْرُونَ صَلَاة

وَقَالَ ابْن عمر وَابْن عَبَّاس يَبْتَدِئ بِالتَّكْبِيرِ عَن صَلَاة الظّهْر من يَوْم النَّحْر

وَقَالَ لَا تَجْتَمِع التَّلْبِيَة والتكبيرات مَعًا فاذا انْقَطَعت التَّلْبِيَة اخذ فِي التَّكْبِير

وَقَالَ ابْن عَبَّاس يَنْتَهِي بهَا الى آخر أَيَّام التَّشْرِيق عِنْد صَلَاة الظّهْر فَهِيَ عشرَة صَلَاة

وَقَالَ ابْن عمر يَنْتَهِي بهَا الى غداه آخر ايام التَّشْرِيق فَهِيَ خَمْسَة عشر صَلَاة

تکبیرات کی تعداد بتاتی ہے کہ  تشریق کے ایام اکابر صحابہ کے نزدیک ١٠، ١١، اور ١٢ ہی تھے

غیر مقلدین ، امام الشافعی کی تقلید میں تین دن کی بجائے چار دن قربانی کرنے کے قائل ہیں لہذا وہ ١٣ ذو الحجہ کو بھی قربانی کرتے ہیں

ابن قیم نے زاد المعاد میں روایت پیش کی ہے

ابن المنذر نے علی سے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ (اللّٰہ تعالیٰ نے جن معلوم دنوں میں قربانی کا حکم دیا ہے) ان معلوم دنوں سے مراد یوم النحر  اور اس کے بعد تین دن ہیں۔ (اسے ابن المنذر نے روایت کیا ہے. (کنز العمال: 4528)نیز دیکھیے (زاد المعاد: 2؍ 291

لیکن کنز العمال جیسی کتاب میں سند تک تو موجود نہیں ہے اور باوجود تلاش کے اس کی سند دریافت نہ ہوسکی

بیہقی  سنن الکبری میں روایت لکھتے ہیں

حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ … وَكُلُّ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ ذَبْحٌ

 اس روایت میں ہے کہ ایام التشریق میں قربانی ہے

 کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل میں سليمان بن موسى الدمشقي کےلئے   ہے

قال البخاري هو مرسل لم يدرك سليمان أحدا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم

بیہقی سنن الکبری  میں یہی  راوی سليمان بن موسى کہتے ہیں کہ قربانی تین دن ہے

قَالَ: وَحَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ هَانِئٍ، ثنا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى، ثنا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنِ النُّعْمَانِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، أَنَّهُ قَالَ: النَّحْرُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ , فَقَالَ مَكْحُولٌ: صَدَقَ

غیر مقلدین امام الشافعی، امام النووی کے حوالے دیتے ہیں جو سب  شافعی فقہ پر تھے لہذا یہ سب چار دن قربانی کی قائل ہیں –  ان کے مقابلے میں حنابلہ ، مالکیہ اور احناف تین دن قربانی کے قائل ہیں

قربانی چار دن ہے

١٠ ، ١١، ١٢ ، ١٣ ذو الحجہ کو

قربانی تین دن ہے

١٠ ، ١١ ، ١٢ ذی الحجہ کو

ایام تشریق  میں یوم النحر سمیت چار دن ہیں ایام تشریق میں یوم النحر شامل ہے
امام الشافعی

غیر مقلدین

قرطبی

شوکانی

امام ابو حنیفہ

امام مالک

امام احمد

امام عطاءٍ الخراسانيِّ

امام  ابراہیم النخعيِّ

امام أبي يوسفَ

امام محمدٍ

 

تفسیر ابن کثیر سورہ بقرہ آیت ٢٠٣ میں قول نقل کیا گیا جس کو غیر مقلدین بیان کرتے ہیں

وَقَالَ مِقْسَمٌ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: الْأَيَّامُ الْمَعْدُودَاتُ أَيَّامُ التَّشْرِيقِ أَرْبَعَةُ أَيَّامٍ: يَوْمُ النَّحْرِ، وَثَلَاثَةُ بَعْدَهُ

الْأَيَّامُ الْمَعْدُودَاتُ سے مراد أَيَّامُ التَّشْرِيقِ چار دن ہیں- یوم النحر اور تین اس کے بعد

جبکہ ابن رجب تفسیرج ١ ص ١٥٦  میں اس قول پر کہتے ہیں

وقد رُوي عن ابنِ عباسٍ وعطاء أنها أربعةُ أيام: يومُ النحرِ، وثلاثة بعدَه.

وفي إسناد المرويِّ عن ابنِ عباسٍ ضعفٌ.

اور ابن عباس اور عطا سے روایت کیا گیا ہے کہ الأيامُ المعدوداتُ چار دن ہیں یوم النحر اور تین اس کے بعد اور جن اسناد سے یہ مروی ہے ابن عباس سے ان میں کمزوری ہے

ابن رجب تفسیر میں لکھتے ہیں

 الأيامُ المعلوماتُ: يومُ النحرِ ويومانِ بعدَهُ، رُوي عن ابنِ

عمرَ وغيرِه من السلفِ، وقالُوا: هي أيامُ الذَّبح.

ورُويَ – أيضًا – عن علي وابنِ عباسٍ، وعن عطاءٍ الخراسانيِّ والنخعيِّ.

وهو قولُ مالكٌ وأبي يوسفَ ومحمدٍ وأحمدَ – في رواية عنه.

الأيامُ المعلوماتُ سے مراد یوم النحر اور اس کے بعد کے دو دن ہیں اس کو ابن عمر اور دیگر سلف سے روایت کیا گیا ہے اور اس   کو علي وابنِ عباسٍ،  اور  عطاءٍ الخراسانيِّ ، ابراہیم النخعيِّ اور یہی قول ہے امام  مالكٌ اور امام أبي يوسفَ  اور امام محمدٍ اور امام أحمدَ کا

ابن رجب تفسیر ج ١ ص ١٦٠ میں لکھتے ہیں

وأكثرُ الصحابةِ على أنَّ الذبح يختصُّ بيومين من أيَّامِ التشريقِ مع يومِ النَّحْرِ، وهو المشهورُ عن أحمدَ، وقول مالكٍ، وأبي حنيفةَ، والأكثرينَ.

اور اکثر صحابہ نے دو دنوں میں ذبح کو مخصوص کیا ایام تشریق کے یوم النحر کے ساتھ اور وہ ہی مشھور ہے احمد سے اور یہ امام مالک کا قول ہے اور امام ابو حنیفہ کا اور اکثر کا

غیر مقلد عالم  کفایت الله سنابلی چار دن قربانی کی مشروعیت میں حدیث پیش کرتے ہیں

qurbani-sanabli-1

اس روایت میں صحابی کا نام نہیں لیا گیا بعض علماء کے نزدیک فإنَّ جهالةَ الصحابي لا تَضُرُّ صحابی کا مجھول ہونا نقصان دہ نہیں ہے – یہ اصول امام البیہقی، امام احمد، امام حاکم ، ابن الصلاح  کا ہے

لیکن شوافع ہی اس کو قبول نہیں کرتے  شوافع میں  أبو بكر الصيرفي كتابِ  الدلائلِ میں  کہتے ہیں

  وإذا قال في الحديث بعض التابعين: عن رجل من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم: لا يُقبل؛ لأني لا أعلم سمع التابعيُّ من ذلك الرجل

أبو بكر الصيرفي کہتے ہیں کہ اگر حدیث میں بعض تابعین کہیں اصحاب نبی صلی الله علیہ وسلم میں سے کسی آدمی سے تو اس روایت کو قبول نہ کرو کیونکہ مجھے نہیں پتا کہ اس نے  اس رجل سے سنا بھی یا نہیں

التنكيل بما في تأنيب الكوثري من الأباطيل میں  المعلمي ایسی روایت پر توقف کی رائے رکھتے ہیں

واضح رہے کہ صحابہ تمام عدول ہیں لیکن اس تابعی کی ملاقات صحابی سے ہوئی یا نہیں کیسے ثابت ہو گا؟

ابن حزم کتاب الإحكام في أصول الأحكام میں  کہتے ہیں

لا يقبل حديث قال راويه فيه: عن رجل من الصحابة، أو: حدثني من صحب رسول الله صلى الله عليه وسلم، إلا حتى يسميه، ويكون معلوماً بالصحبة الفاضلة، ممن شهد الله تعالى لهم بالفضل والحسنى

ایسی روایت کو قبول نہ کرو جس میں رجل من صحابہ ہو .. اور نام نہ لیا گیا ہو

ایک  روایت سنن دارقطنی ، سنن الکبری بیہقی ، مسند البزار میں   ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ صَاعِدٍ , نا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورِ بْنِ سَيَّارٍ , نا مُحَمَّدُ بْنُ بُكَيْرٍ الْحَضْرَمِيُّ , نا سُوَيْدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ التَّنُوخِيِّ , عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى , عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ , عَنْ أَبِيهِ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:  «أَيَّامُ التَّشْرِيقِ كُلُّهَا ذَبْحٌ»

اس کے مطابق ایام تشریق تمام ذبح والے ہیں

البتہ اس کی سند میں سُوَيْدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ کا تفرد ہے – الذھبی میزان میں لکھتے ہیں یہ متروک ہے

قال ابن معين: كان قاضيا بدمشق بين النصارى.

وهو واسطى، انتقل إلى حمص، ليس حديثه بشئ.

هذه رواية عباس الدوري عنه.

وروى ابن الدورقي عنه: واسطى: تحول إلى دمشق، ليس بشئ.

وقال البخاري: في بعض حديثه نظر.

وقال أحمد وغيره: ضعيف.

وعن أحمد أيضا: متروك.

اس کی سند میں متروک  راوی ہے

افسوس اسی متروک راوی کی سند سے صحیح ابن حبان میں بھی ہے جو ابن حبان کا تساہل ہے

امام البزار مسند میں  ح 3444  پرلکھتے ہیں

وَهَذَا الْحَدِيثُ لَا نَعْلَمُ أَحَدًا قَالَ فِيهِ عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ إِلَّا سُوَيْدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، وَهُوَ رَجُلٌ لَيْسَ بِالْحَافِظِ وَلَا يُحْتَجُّ بِهِ إِذَا انْفَرَدَ بِحَدِيثٍ

اور یہ حدیث ہم نہیں جانتے کہ اس کو نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ کی سند سے روایت کیا ہو سوائے سُوَيْدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ کے یہ آدمی حافظ نہیں ہے اور اس کی منفرد روایت سے احتجاج نہ کیا جائے

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” كُلُّ عَرَفَاتٍ مَوْقِفٌ، وَارْفَعُوا عَنْ بَطْنِ عُرَنَةَ  ، وَكُلُّ مُزْدَلِفَةَ مَوْقِفٌ، وَارْفَعُوا عَنْ مُحَسِّرٍ، وَكُلُّ فِجَاجِ مِنًى مَنْحَرٌ، وَكُلُّ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ ذَبْحٌ

مسند احمد کی روایت میں علت یہ ہے کہ شعيب الأرنؤوط مسند احمد ح 16751   پر تعلیق میں کہتے ہیں

 سليمان بن موسى- وهو الأموي المعروف بالأشدق- لم يدرك جبير بن مطعم

سليمان بن موسى … نے  جبير بن مطعم کو نہیں پایا

اس روایت کو دارقطنی نے بھی روایت کیا ہے اس پر مسند احمد کی ت علیق میں شعيب الأرنؤوطلکھتے ہیں

وأخرجه الدارقطني مختصراً في “السنن” 4/284، ومن طريقه البيهقي 9/296 من طريق أبي مُعَيد حفص بن غيلان، عن سليمان بن موسى أن عمرو ابن دينار حدثه عن جبير بن مطعم، وعمرو بن دينار لم يدرك جبير بن مطعم.

اور دارقطنی نے اس کی تخریج کی ہے ….. أبي مُعَيد حفص بن غيلان، عن سليمان بن موسى أن عمرو ابن دينار حدثه عن جبير بن مطعم کے طرق سے اور عمرو بن دينار نے جبیر کو نہیں پایا

اوپر دی گئی ان دونوں روایات کو غیر مقلد عالم  کفایت الله سنابلی چار دن قربانی کی مشروعیت ص ٢٧ میں دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں جبکہ یہ منقطع ہیں – سند کے اس انقطاع کو محققین ابن ترکمانی اور شعيب الأرنؤوط – عادل مرشد نے اضطراب قرار دیا ہے – شعيب الأرنؤوط – عادل مرشد مسند احمد میں ح  16751 کی تعلیق میں اس روایت  کا الانقطاع والاضطراب اور   لکھتے ہیں

غیر مقلدین  اس اضطراب  کو تعداد طرق کہتے ہیں – متعدد طرق تو تب بنتے جب ان میں انقطاع کی علت ختم ہو

صحیح ابن حبان کی روایت ہے

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ الصُّوفِيُّ بِبَغْدَادَ، حَدَّثَنَا أَبُو نَصْرٍ التَّمَّارُ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْقُشَيْرِيُّ فِي شَوَّالٍ سَنَةَ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ وَمِئَتَيْنِ، حَدَّثَنَا سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “كُلُّ عَرَفَاتٍ مَوْقِفٌ، وَارْفَعُوا عَنْ عُرَنَةَ، وَكُلُّ مُزْدَلِفَةَ مَوْقِفٌ، وَارْفَعُوا عَنْ مُحَسِّرٍ، فَكُلُّ فِجَاجِ مِنًى مَنْحَرٌ، وَفِي كُلِّ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ ذبح”

امام البزار اس روایت پر کہتے ہیں

وَحَدِيثُ ابْنِ أَبِي حُسَيْنٍ هَذَا هُوَ الصَّوَابُ وَابْنُ أَبِي حُسَيْنٍ لَمْ يَلْقَ جُبَيْرَ بْنَ مُطْعِمٍ

ابن ابی حسین کی روایت تو ٹھیک ہے  لیکن اس کی ملاقات جُبَيْرَ بْنَ مُطْعِمٍ  سے نہیں ہے

بیہقی سنن الکبری میں اس کی سند دیتے ہیں

أَخْبَرَنَاهُ أَبُو سَعْدٍ الْمَالِينِيُّ , أنبأ أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَدِيٍّ الْحَافِظُ , أنبأ عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ , ثنا دُحَيْمٌ , ثنا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبٍ , ثنا مُعَاوِيَةُ بْنُ يَحْيَى , فَذَكَرَهُ وَقَالَ: عَنْ أَبِي سَعِيدٍ.

لیکن بیہقی دو طرق دینے کے بعد لکھتے ہیں

جَمِيعًا غَيْرُ مَحْفُوظَيْنِ لَا يَرْوِيهُمَا غَيْرُ الصَّدَفِيِّ. قَالَ الشَّيْخُ رَحِمَهُ اللهُ: وَالصَّدَفِيُّ ضَعِيفٌ لَا يُحْتَجُّ بِهِ

دونوں غیر محفوظ ہیں ان کو مُعَاوِيَةُ بْنُ يَحْيَى الصَّدَفِيُّ کے سوا کوئی روایت نہیں کرتا جو ضعیف ناقابل دلیل ہے

الغرض بیشتر فقہاء تین دن قربانی کے قائل ہیں جس میں یوم النحر اور اس کے بعد دو دن ہیں

صَلَاةُ الِاسْتِسْقَاءِ کے حوالے سے مصنف ابن ابی شیبہ میں امام ابو حنیفہ کا بے سند قول ہے
وَذُكِرَ أَنَّ أَبَا حَنِيفَةَ قَالَ: لَا تُصَلَّى صَلَاةُ الِاسْتِسْقَاءِ فِي جَمَاعَةٍ وَلَا يُخْطَبُ فِيهَا
ابو حنیفہ نے کہا صَلَاةُ الِاسْتِسْقَاءِ جماعت سے نہیں ہے نہ اس میں خطبہ ہے

موطا امام مالک امام محمد روایت کرتے ہیں
قَالَ مُحَمَّدٌ: أَمَّا أَبُو حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ، فَكَانَ لا يَرَى فِي الاسْتِسْقَاءِ صَلاةً
وَأَمَّا فِي قَوْلِنَا فَإِنَّ الإِمَامَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ يَدْعُو وَيُحَوِّلُ رِدَاءَهُ، فَيَجْعَلُ الأَيْمَنَ عَلَى الأَيْسَرِ، وَالأَيْسَرَ عَلَى الأَيْمَنِ، وَلا يَفْعَلُ ذَلِكَ أَحَدٌ إِلا الإِمَامُ
امام محمد نے کہا کہ امام ابو حنیفہ نے کہا کہ صَلَاةُ الِاسْتِسْقَاءِ میں نماز نہیں ہے لیکن ہمآرا (احناف کا) قول ہے کہ امام لوگوں کو دو رکعت پڑھائے گا پھر دعا کرے گا جس میں چادر الٹ دے گا … اور یہ صرف امام کرے گا اس کے سوا کوئی نہیں

اصل میں الاسْتِسْقَاءِ کی دو روایتیں ہیں ایک میں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم منبر پر تھے کہ ایک شخص آیا اور کہا اپ الاسْتِسْقَاءِ کی دعا کریں اس وقت رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ہاتھ بلند کیے کہ اپ کے بغلوں کی سفیدی نظر آئی اور اس کو انس رضی الله عنہ نے روایت کیا
امام ابو حنیفہ تک یہ روایت پہنچی ہو گی اس میں کوئی نماز نہیں ہوئی اور یہصحیح بخاری میں ہے

اس کے علاوہ ایک روایت ہے جس میں نماز کا ذکر ہے جس کو اور لوگوں نے قبول کیا اور اس کو دلیل مانتے ہوئے نماز ہوتی ہے
یہ روایت عَبّاد بْن تَمِيم، المازِنِيّ، الأَنصاريّ، المَدِينِيّ. عَنْ عمِّه عَبد اللهِ بْن زَيد کی سند سے ہے
یہ بخاری میں ہے

صحیح بخاری کی سند ہے
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، عَنْ عَمِّهِ، قَالَ: «خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَسْقِي وَحَوَّلَ رِدَاءَهُ»
اور
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، عَنْ عَمِّهِ، قَالَ: «خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَسْقِي، فَتَوَجَّهَ إِلَى القِبْلَةِ يَدْعُو وَحَوَّلَ رِدَاءَهُ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ جَهَرَ فِيهِمَا بِالقِرَاءَةِ»
اور
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، سَمِعَ عَبَّادَ بْنَ تَمِيمٍ، عَنْ عَمِّهِ: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَسْقَى، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَقَلَبَ رِدَاءَهُ»

اور
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، سَمِعَ عَبَّادَ بْنَ تَمِيمٍ، عَنْ عَمِّهِ، قَالَ: «خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى المُصَلَّى يَسْتَسْقِي وَاسْتَقْبَلَ القِبْلَةَ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَقَلَبَ رِدَاءَهُ» قَالَ سُفْيَانُ: فَأَخْبَرَنِي المَسْعُودِيُّ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ، قَالَ: «جَعَلَ اليَمِينَ عَلَى الشِّمَالِ»
اور
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الوَهَّابِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَنَّ عَبَّادَ بْنَ تَمِيمٍ، أَخْبَرَهُ: أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ زَيْدٍ الأَنْصَارِيَّ أَخْبَرَهُ: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى المُصَلَّى يُصَلِّي، وَأَنَّهُ لَمَّا دَعَا – أَوْ أَرَادَ أَنْ يَدْعُوَ – اسْتَقْبَلَ القِبْلَةَ وَحَوَّلَ رِدَاءَهُ» قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: «عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ هَذَا مَازِنِيٌّ، وَالأَوَّلُ كُوفِيٌّ هُوَ ابْنُ يَزِيدَ»

یعنی اس کی ہر روایت عباد بن تمیم سے ہے جو اپنے باپ سے روایت کرتا ہے اور چچا سے سندوں میں باقی کتب میں واضح نہیں کون کس سے روایت کر رہا ہے

کتاب تهذيب الكمال في أسماء الرجال از المزي (المتوفى: 742هـ) کے مطابق
وقع فِي بعض النسخ المتأخرة من”سنن”ابْن مَاجَهْ، فِي حديث عَبْد اللَّهِ بْن أَبي بَكْرٍ: سمعت عباد بْن تميم، يحدث عَن أبيه، عَنْ عمه: إنه شهد النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلم، خرج إِلَى المصلى، يستسقي، فاستقبل القبلة، وقلب رداءه، وصلى ركعتين. وهكذا ذكره أَبُو الْقَاسِمِ فِي “الأطراف”، وهو وهم قبيح، وتخليط فاحش، ووقع فِي عدة نسخ عَنْ عَبْد اللَّهِ بْن أَبي بَكْرٍ قال: سمعت عباد بْن تميم يحدث أَبِي عَنْ عمه، وهو الصواب.
اور بعض نسخوں میں جو بعد کے ہیں سنن ابن ماجہ کے ان میں عبد الله بن ابی بکر کی حدیث ہے کہ انہوں نے عباد بن تمیم سے سنا جو اپنے باپ سے روایت کرتا ہے وہ چچا سے کہ انہوں نے رسول اللہ کو دیکھا کہ نماز کے لئے نکلے قبلہ رخ ہوئے اور دو رکعت پڑھیں اور ایسا ابو قاسم نے اطراف میں ذکر کیا ہے جو قبیح وہم ہے اور فحش غلطی ہے اور بعض نسخوں میں آیا ہے عَنْ عَبْد اللَّهِ بْن أَبي بَكْرٍ قال: سمعت عباد بْن تميم يحدث أَبِي عَنْ عمه، جو ٹھیک ہے

———
یعنی یہ اختلاف دو مختلف واقعات کی وجہ سے پیدا ہوا ہے امام ابو حنیفہ تک عباد بن تمیم کی روایت یا تو نہیں پہنچی یا ان کے نزدیک یہ صحیح نہیں تھی
سوال ہے کہ اس اہم واقعہ کو صرف عباد بن تمیم کیوں روایت کرتا ہے
مثلا کسوف کی نماز بھی رسول الله نے پڑھی اور اس کو بیان کرنے والے متعدد صحابہ ہیں لیکن بارش کی نماز کا صرف ایک راوی کیوں ہے
؟
أسد الغابة في معرفة الصحابة میں ابن اثیر کہتے ہیں
ابو عمر نے کہا
وأما ما روى عباد بْن تميم، عن عمه، فصحيح، إن شاء اللَّه تعالى، ولا أعرف تميمًا بغير هذا، وفيه وفي صحبته نظر
عباد بن تمیم جو اپنے چچا سے روایت کرتا ہے وہ ان شاء الله صحیح ہے اور تمیم اس کے علاوہ نہیں جانا جاتا اور اس کی صحابیت میں نظر ہے

یعنی تمیم صحابی نہیں لیکن ان کا بھائی صحابی ہے جس سے عباد روایت کرتا ہے

البحر الرائق شرح كنز الدقائق از زين الدين بن إبراهيم بن محمد، المعروف بابن نجيم المصري (المتوفى: 970هـ) کے مطابق
وَلَمْ يَبْلُغْنَا عَنْ النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فِي ذَلِكَ صَلَاةٌ إلَّا حَدِيثٌ وَاحِدٌ شَاذٌّ
اور ہم تک نہیں پہنچا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اس میں نماز پڑھی سوائے ایک شاذ روایت کے

یہی بات النهر الفائق شرح كنز الدقائق از سراج الدين عمر بن إبراهيم بن نجيم الحنفي (ت 1005هـ) میں ہے

کتاب کے مطابق

يستعمل في الأصل تراكيب “الأثر المعروف، الآثار المعروفة، الحديث المعروف” بمعنى الحديث الصحيح المشهور، ويستعمل في ضد هذا المعنى “الحديث الشاذ” (5). وحول صلاة الاستسقاء يذكر الإمام أبو حنيفة أنه لم يبلغه في ذلك صلاة “إلا حديثاً واحداً شاذاً لا يؤخذ به
اثر معروف اور اثار معروفہ اور حدیث معروف کی ترکیب کا استمعال ہوتا ہے حدیث صحیح مشھور کے لئے اور اس کے خلاف ہو حدیث ہو وہ شاذ ہوتی ہے اور نماز استسقاء کے لئے ذکر کیا گیا ہے کہ امام ابو حنیفہ نے کہا اس نماز پر کچھ نہیں آیا سوائے ایک شاذ روایت کے جس کو نہیں لیا جائے گا

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع از علاء الدين، أبو بكر بن مسعود بن أحمد الكاساني الحنفي (المتوفى: 587هـ) کے مطابق
وَمَا رُوِيَ أَنَّهُ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – صَلَّى بِجَمَاعَةٍ حَدِيثٌ شَاذٌّ وَرَدَ فِي مَحِلِّ الشُّهْرَةِ؛ لِأَنَّ الِاسْتِسْقَاءَ يَكُونُ بِمَلَأٍ مِنْ النَّاسِ، وَمِثْلُ هَذَا الْحَدِيثِ يُرَجَّحُ كَذِبُهُ عَلَى صِدْقِهِ، أَوْ وَهْمُهُ عَلَى ضَبْطِهِ فَلَا يَكُونُ مَقْبُولًا مَعَ أَنَّ هَذَا مِمَّا تَعُمُّ بِهِ الْبَلْوَى فِي دِيَارِهِمْ، وَمَا تَعُمُّ بِهِ الْبَلْوَى، وَيَحْتَاجُ الْخَاصُّ وَالْعَامُّ إلَى مَعْرِفَتِهِ لَا يُقْبَلُ فِيهِ الشَّاذُّ وَاَللَّهُ أَعْلَمُ.
اور یہ جو روایت کیا جاتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے جماعت سے نماز پڑھی یہ حدیث شاذ ہے جو شہرت کے مقام پر رد ہوتی ہے کیونکہ استسقاء کی نماز ہوئی ہو گی جب لوگ بھرے ہوں اور اس مثل کی حدیث سے جھوٹ کو سچ پر راجح ہو جاتا ہے یا وہم ضبط پر … اور شاذ کو قبول نہیں کیا جائے گا و الله اعلم

راقم کہتا ہے حق ابو حنیفہ کے ساتھ ہے یہ روایت شاذ ہے جو عمل رسول الله نے مجمع میں کیا ہو اس پر متعدد راوی ہونے چاہیے تھے جیسا کسوف کے باب میں ہے

امام ابو حنیفہ کے علاوہ باقی تین فقہاء نے عباد بن تمیم کی منفرد شاذ روایت کو قبول کیا ہے اور اس کی بنیاد پر نماز استسقاء ہوتی  ہے

ابن ماجہ کی حدیث ہے
البانی اس کو صحیح کہتے ہیں

حَدَّثَنَا هَدِيَّةُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ قَالَ: أَنْبَأَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى قَالَ: أَنْبَأَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ وَاقِدٍ، عَنْ عِلْبَاءَ بْنِ أَحْمَرَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَحَضَرَ الْأَضْحَى، فَاشْتَرَكْنَا فِي الْجَزُورِ، عَنْ عَشَرَةٍ، وَالْبَقَرَةِ، عَنْ سَبْعَةٍ»

عبدا للہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ اتنے میں عید الاضحی آگئی ، تو ہم اونٹ میں دس آدمی، اور گائے میں سات آدمی شریک ہوگئے

اس روایت کی سند میں الحسين بن واقد ہے جو اگر اسی روایت میں منفرد ہو تو محدثین اس کو قبول نہیں کرتے
البيهقي کا قول ہے
حديث عكرمة يتفرد به الحسين بن واقد عن علباء بن أحمر، وحديث جابر أصح،
البيهقي کے مطابق جابر کی حدیث اس سے زیادہ صحیح ہے
سنن ابن ماجہ اور مسند احمد کی حدیث ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ
عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: نَحَرْنَا بِالْحُدَيْبِيَةِ، مَعَ النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – الْبَدَنَةَ عَنْ سَبْعَةٍ، وَالْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ
اس کے مطابق اونٹ میں یا گائے میں سات حصے ہیں دس نہیں

اسی قول کو المغنی میں بیان کیا گیا ہے
وهذا قول أكثر أهل العلم، روي ذلك عن علي وابن عمر وابن مسعود وابن عباس وعائشة رضي الله عنهم، وبه قال عطاء وطاووس وسالم والحسن وعمرو بن دينار والثوري والأوزاعي والشافعي وأبو ثور وأصحاب الرأي
اکثر اہل علم کا کہنا ہے کہ اونٹ یا گائے میں سات حصے ہیں

دین میں طاق عدد کو پسند کیا گیا ہے

جواب

مصنف عبد الرزاق کے مطابق
عَبْدُ الرَّزَّاقِ، 7823 – عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، «أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يَكْرَهُ صِيَامَ يَوْمِ عَرَفَةَ»
ابن عمر رضی الله عنہ یوم عرفہ کے روزے سے کراہت کرتے

موطا امام مالک کی روایت ہے
مَالِكٌ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللهِ، عَنْ عُمَيْرٍ، مَوْلَى عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ بِنْتِ الْحَارِثِ؛ أَنَّ نَاساً تَمَارَوْا عِنْدَهَا يَوْمَ عَرَفَةَ، فِي صِيَامِ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم. فَقَالَ بَعْضُهُمْ: هُوَ صَائِمٌ. وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَيْسَ بِصَائِمٍ. فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ بِقَدَحِ لَبَنٍ، وَهُوَ وَاقِفٌ عَلَى بَعِيرٍ (1)، بِعَرَفَةَ، فَشَرِبَ
أُمِّ الْفَضْلِ بِنْتِ الْحَارِثِ کہتی ہیں ہم نے یوم عرفہ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس دودھ بھیجا یہ دیکھنے کہ روزہ ہے یا نہیں تو اپ نے وہ دودھ پی لیا

مَيْمُونَةَ رضی الله عنہا کی صحیح مسلم میں روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے روزہ نہیں رکھا

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے زندگی میں ایک حج کیا اور اس روز روزہ نہیں رکھا

لیکن موطأ میں ہے کہ عائشہ رضی الله عنہا نے عرفہ کا روزہ رکھتی تھیں
لیکن وہاں وضاحت نہیں کہ جب انہوں نے حج کیا تب رکھا یا جب نہیں کیا تب رکھا

امام بخاری اس پر صرف ایک حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے روزہ نہیں رکھا

صحيح مسلم میں ابی قتادہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ یوم عرفہ کا روزہ اگلے اور پچھلے سال کا کفارہ ہے
وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ؟ فَقَالَ: «يُكَفِّرُ السَّنَةَ الْمَاضِيَةَ وَالْبَاقِيَةَ
اس کو عبد الله بن معبد الزماني ابی قتادہ سے روایت کرتے ہیں
کتاب ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق از الذھبی کے مطابق
عن أبي قتادة ثقة قال البخاري لا يعرف له سماع منه
امام بخاری کہتے ہیں عبد الله بن معبد الزماني کا سماع ابی قتادہ سے نہیں
لہذا صحیح مسلم کی یہ روایت ضعیف ہے

ابن عدی اسی روایت کا الکامل میں ذکر کرتے ہیں پھر کہتے ہیں
وهذا الحديث هو الحديث الذي أراده البُخارِيّ أن عَبد الله بن معبد لا يعرف له سماع من أبي قتادة.
اور یہ وہ حدیث ہے جس پر بخاری کا ارادہ ہے کہ عبد الله بن معبد نے ابی قتادہ سے نہیں سنا

سنن میں روایت ہے نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
یوم عرفہ اوریوم النحر اورایام تشریق ہم اہل اسلام کی عید کےدن ہیں اوریہ سب کھانے پینے کے دن ہیں ۔

کھانے پینے والے دن روزہ کیسے ہو گا؟

اپ دکھائیں امام بخاری کے نزدیک صحیح مسلم کی روایت صحیح نہیں ہے
————
امام مسلم مقدمہ میں امام بخاری کا نام لئے بغیر ان پر جرح کرتے ہیں
: امام مسلم فرماتے ہیں کہ ہمارے بعض ہمعصر محدثین نے سند حدیث کی صحت اور سقم کے بارے میں ایک ایسی غلط شرط عائد کی ہے جس کا اگر ہم ذکر نہ کرتے اور اس کا ابطال نہ کرتے تو یہی زیادہ مناسب اور عمدہ تجویز ہوتی اس لئے کہ قول باطل ومردود کی طرف التفات نہ کرنا ہی اس کو ختم کرنے اور اس کے کہنے والے کا نام کھو دینے کے لئے بہتر اور موزوں ومناسب ہوتا ہے تاکہ کوئی جاہل اور ناواقف اس قول باطل کو قول صواب وصحیح نہ سمجھ لے مگر ہم انجام کی برائی سے ڈرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ جاہل نئی نئی باتوں کے زیادہ دلدادہ اور عجیب وغریب شرائط کے شیدا ہوتے ہیں اور غلط بات پر جلد اعتقاد کرلیتے ہیں حالانکہ وہ بات علماء راسخین کے نزدیک ساقط الاعتبار ہوتی ہے لہذا اس نظریہ کے پیش نظر ہم نے معاصرین کے قول باطل کی غلطی بیان کرنا اور اس کو رد کرنا اس کا فساد وبطلان اور خرایباں ذکر کرنا لوگوں کے لئے بہتر اور فائدہ مند خیال کیا تاکہ عام لوگ غلط فہمی سے محفوظ رہیں اور ان کا انجام بھی نیک ہو اور اس شخص نے جس کے قول سے ہم نے بات مذکور شروع کی ہے اور جس کے فکر وخیال کو ہم نے باطل قرار دیا ہے یوں گمان اور خیال کیا ہے کہ جس حدیث کی سند میں فلاں عن فلاں ہو اور ہم کو یہ بھی معلوم ہو کہ وہ دونوں معاصر ہیں اس لئے کہ ان دونوں کی ملاقات ممکن ہے اور حدیث کا سماع بھی البتہ ہمارے پاس کوئی دلیل یا روایت ایسی موجود نہ ہو جس سے قطعی طور پر یہ بات ثابت ہو سکے کہ ان دونوں کی ایک دوسرے سے ملاقات ہو اور ایک نے دوسرے سے بالمشافہ اور بلاواسطہ حدیث سنی تو ایسی اسناد سے جو حدیث روایت کی جائے وہ حدیث ان لوگوں کے ہاں اس وقت تک قابل اعتبار اور حجت نہ ہوگی جب تک انہیں اس بات کا یقین نہ ہوجائے کہ وہ دونوں اپنی عمر اور زندگی میں کم از کم ایک بار ملے تھے یا ان میں سے ایک شخص نے دوسرے سے بالمشافہ حدیث سنی تھی یا کوئی ایسی روایت ہو جس سے یہ ثابت ہو کہ ان دونوں کی زندگی میں کم از کم ایک بار ملاقات ہوئی اور اگر نہیں تو کسی دلیل سے ان کی ملاقات کا یقین ہو سکے نہ کسی روایت سے ان کی ملاقات اور سماع ثابت ہو تو ان کے نزدیک اس روایت کا قبول کرنا اس وقت تک موقوف رہے گا جب تک کہ کسی روایت آخر سے ان کی ملاقات اور سماع ثابت نہ ہوجائے خواہ ایسی روایات قلیل ہوں یا کثیر۔ اللہ تجھ پر رحم کرے تو نے یہ قول اسناد کے باب میں ایک نیا ایجاد کیا ہے جو پیشرو محدثین میں سے کسی نے نہیں کہا اور نہ علماء حدیث نے اس کی موافقت کی ہے کیونکہ موجودہ اور سابقین تمام علماء حدیث وارباب فن حدیث اور اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جب کوئی ثقہ اور عادل راوی اپنے ایسے ہم عصر ثقہ اور عادل راوی سے کوئی حدیث روایت کرے جس سے اس کی ملاقات اور سماع باعتبار سن اور عمر کے اس وجہ سے ممکن ہو کہ وہ دونوں ایک زمانہ میں موجود تھے تو اس کی روایت قابل قبول اور لائق حجت ہے
———
یہ پوری بات امام بخاری اور بہت سے ائمہ پر صادق اتی ہے

راقم امام بخاری کی رائے سے متفق ہے اور امام مسلم سے اختلاف کرتا ہے

————

مسند احمد اور سنن ابو داود کی حدیث ہے
حَدَّثَنَا سُرَيْجٌ، وَعَفَّانُ قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، حَدَّثَنَا الْحُرُّ بْنُ الصَّيَّاحِ قَالَ: سُرَيْجٌ، عَنِ الْحُرِّ، عَنْ هُنَيْدَةَ بْنِ خَالِدٍ، عَنِ امْرَأَتِهِ، عَنْ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: ” كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ تِسْعَ ذِي الْحِجَّةِ، وَيَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ” قَالَ عَفَّانُ: أَوَّلَ اثْنَيْنِ مِنَ الشَّهْرِ وَخَمِيسَيْنِ ۔
بعض ازواج نبی نے روایت کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نو ذو الحجہ کا روزہ رکھتے تھے

شعيب الأرنؤوط کہتے ہیں ضعيف لاضطرابه اور یہی بات امام الزَّيْلعي “نصب الراية” 2/157 میں کہتے ہیں

البانی اس کو صحیح کہتے ہیں حالانکہ اس کی تمام سندوں میں عَنِ امْرَأَتِهِ ایک مجھول عورت ہے

قرآن میں ہے ابراہیم کی آزمائش  ہوئی اور اسمعیل اس وقت چھوٹے تھے

سورة الصافات
إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ (106) وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ
اس میں کھلی آزمائش تھی اور ہم نے اس کا فدیہ کیا ایک عظیم ذبح سے

اس  کے بعد جب کعبہ تعمیر کیا اس وقت دونوں نے دعا کی کہ ان کو اس گھر کے مناسک سکھا

اس میں قربانی کا حکم الله کی بڑآئی ہے

تابعین کے اقوال ہیں کہ ایک بہت بڑا دنبہ آیا اس کو ذبح کیا گیا

قرآن میں سوره الصافات میں ہے
وفديناه بذبح عظيم 107
هم نے اس کا فدیہ ایک عظیم ذبح سے کر دیا

یعنی ابراہیم نے اس حکم پر عمل کیا اور کوئی دنبہ اس وقت حکم دیا گیا کہ ذبح کر دو

وہ دنبہ جنت سے آیا یا وہ کوئی عظیم الحبثہ تھا غیر ضروری باتیں ہیں

مسند احمد کی روایت میں قربانی کو ابراہیم علیہ السلام کی سنت کہا گیا ہے
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا سَلَّامُ بْنُ مِسْكِينٍ، عَنْ عَائِذِ اللهِ الْمُجَاشِعِيِّ، عَنْ أَبِي دَاوُدَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ: قُلْتُ: أَوْ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ مَا هَذِهِ الْأَضَاحِيُّ؟ قَالَ: ” سُنَّةُ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ “. قَالُوا: مَا لَنَا مِنْهَا؟ قَالَ: ” بِكُلِّ شَعْرَةٍ حَسَنَةٌ “. قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ فَالصُّوفُ؟ قَالَ: ” بِكُلِّ شَعْرَةٍ مِنَ الصُّوفِ حَسَنَةٌ
یہ روایت البانی، الذھبی ، شعیب کے نزدیک ضعیف ہے
الذھبی کہتے ہیں اس کی سند میں عائذ الله قال أبو حاتم منكر الحديث جو منکر الحدیث ہے

یہ روایت عید الاضحی پر سب ہی سناتے ہیں جبکہ یہ صحیح نہیں ہے

قربانی کا تعلق سنت ابراہیمی سے نہیں ہے

قربانی کا تعلق الله تعالی کے شکر سے ہے جس کا تعلق حج سے ہے اور جو حج نہیں کر رہے ان کو بھی الله کی کبریائی بیان کرنے کا حکم دیا گیا ہے
سوره حج میں اس کی یہی وجہ بیان کی گئی ہے

سوره حج مدنی سوره ہے اور یہ غزوہ بدر سے قبل نازل ہوئی ہے اس میں حج کی رسوم کو ابراہیم کے ذریعہ جاری کرنے کی تفصیل ہے
کیونکہ کعبہ سے متعلق ان کی دعا تھی
رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا ۖ
سوره البقره
هم کو اس کے مناسک سکھا

پھر سوره سوره الحج میں ہے
ذَلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ عِندَ رَبِّهِ وَأُحِلَّتْ لَكُمُ الأَنْعَامُ إِلاَّ مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ

اور
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الأَنْعَامِ فَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ
اور
وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُم مِّن شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا صَوَافَّ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ كَذَلِكَ سَخَّرْنَاهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

یعنی جانوروں کو ذبح کرنا الله کا شکر ادا کرنا ہے اسلام اور ہدایت پر جو عربوں کو ابراہیم علیہ السلام کی وجہ سے ملی اور اس کی تجدید رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ذریعہ ہوئی

جو حاجی ہے اس پر یہ فرض ہے اور مقیم پر واجب ہے

اسلام علیکم ورحمت الله
وعن ابن عباس قال رسول الله صلي الله عليه وسلم الظهر والعصر جميعا بالمدينة فى غير خوف و لاسفر.قال ابوالزبير فسالت سعيدا الم فعل ذالك فقال سالت ابن عباس كما سالتنى فقال ارادان لا يحرج احد من امة.رواه مسلم ٧٠٥/ كيا کبھے کسے وجہ گہر پر بھی جمع الصلاتين كرسكتے ہے؟
جزاکم الله خیرا

جواب

اس بات کو ابن عباس سے صالح مولى التَّوْأمة اور ( ابو زبیر المکی کی سند سے) سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ اور ابو الشَّعْثَاءِ روایت کرتے ہیں
اس بات کو بیان کرنے میں ابن عباس منفرد ہیں اس پر امت کا عمل نہیں رہا ہے باقی اصحاب رسول اس کو صرف سفر یا حج میں بیان کرتے ہیں
البتہ اہل تشیع آج تک اسی طرح نمازوں کو جمع کر رہے ہیں

خوارج میں الربيع سليمان بن يخلف اسی کے قائل ہیں کہ جمع الصلاتین کیا جا سکتا ہے
اس کو القران في الصلاة بھی کہا جاتا ہے

سعید بن جبیر کی روایت کے الفاظ ہیں کہ یہ جمع
في غير خوف ولا سفر
بلا خوف اور سفر تھا

اہل سنت کا اس روایت پر اختلاف ہے امام مالک کہتے ہیں یہ واقعہ بارش کا ہے البزار کہتے ہیں کہ اس روایت میں مطر یا بارش بولنے میں أصحاب الأعمش کا تفرد ہے الأعمش کوفہ کے شیعہ ہیں

نووی شرح مسلم میں کہتے ہیں
وأما حديث بن عَبَّاسٍ فَلَمْ يُجْمِعُوا عَلَى تَرْكِ الْعَمَلِ بِهِ بَلْ لَهُمْ أَقْوَالٌ مِنْهُمْ مَنْ تَأَوَّلَهُ عَلَى أَنَّهُ جَمَعَ بِعُذْرِ الْمَطَرِ وَهَذَا مَشْهُورٌ عَنْ جَمَاعَةٍ مِنَ الْكِبَارِ الْمُتَقَدِّمِينَ
جہاں تک ابن عباس کی حدیث کا تعلق ہے تو اس عمل کو ترک کرنے پر اجماع نہیں ہے بلکہ اقوال ہیں جس میں اس کی تاویل ہے کہ یہ جمع کرنا بارش کی وجہ سے تھا اور یہ کبار متقدمین میں مشھور ہے

لب لباب یہ ہے کہ نماز جمع ہوئیں لیکن علماء کی رائے میں یہ خاص ہے ممکن ہے بارش ہوئی ہو البتہ کوفہ کے شیعہ محدث اعمش کہتے ہیں بلا بارش جمع ہوئیں
راقم کہتا ہےاگر طوفانی بارش ہو تو نماز کو جماعت سے ختم تک کیا جا سکتا ہے

صحیح بخاری کی حدیث ہے
حدیث نمبر : 666
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن نافع، أن ابن عمر، أذن بالصلاة في ليلة ذات برد وريح ثم قال ألا صلوا في الرحال‏.‏ ثم قال إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يأمر المؤذن إذا كانت ليلة ذات برد ومطر يقول ألا صلوا في الرحال‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے نافع سے خبر دی کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک ٹھنڈی اور برسات کی رات میں اذان دی ، پھر یوں پکار کر کہہ دیا کہ لوگو ! اپنی قیام گاہوں پر ہی نماز پڑھ لو ۔ پھر فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سردی و بارش کی راتوں میں مؤذن کو حکم دیتے تھے کہ وہ اعلان کر دے کہ لوگو اپنی قیام گاہوں پر ہی نماز پڑھ لو ۔

لہذا بارش میں عمل تو نماز با جماعت ختم کرنے کا ہے ابن عباس کی روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے تعلیم کی غرض سے یہ کیا کہ ایسا کیا جا سکتا ہے- لیکن اس کو عموم نہیں کیا جیسا اہل تشیع نے اس کو کر دیا ہے
یہ فیصلہ حکومت کا ہے کہ وہ دیکھے کیا مسائل ہیں اور ان کی بنیاد پر اس حکم کو ہنگامی صورت میں جاری کر سکتی ہے

چونکہ علی رضی الله عنہ کا دور خلافت ہنگامی کیفیت میں ہی رہا لہذا بہت ممکن ہے کہ انہوں نے ان نمازوں کو جمع کر دیا ہو اور اب تک یہ روایت اہل تشیع میں چلی ا رہی ہے

ابن عباس رضی الله عنہ کا قول اس پس منظر میں معنی خیز ہے

لا يصلي احدكم فى الثوب الواحد ليس على عاتقه منه شئ
کے ساتھ نماز پرہنا جایز ہے نماز مےعمامه پہنامستحب ہے؟ trouser
جزاكم الله خيرا

جواب

نماز میں لباس کی شرط میں ہے جو حدیث میں ہے

لا يصلي احدكم في الثوب الواحد ليس علي عاقيه شئي)) (صحيح البخاري ‘الصلاة ‘باب اذا صلي في الثوب الواحد فليجعل علي عقبيه ّح: ٣٥٩ وصحيح مسلم ‘الصلاة ‘باب في الثوب الواحد‘ ح: ٥١٦)

“تم میں سے کوئی ایک کپڑے میں اس طرح نماز نہ پڑھے کہ اس کے کندھوں پر کوئی چیز نہ ہو

یعنی تہبند میں اس طرح نماز پڑھنا کہ ناف سے اوپر لباس کا کوئی حصہ نہ ہو تو اس سے نماز نہیں ہو گی لیکن اگر تہبند کے کناروں کو موندھوں تک لے جایا جائے کہ ستر بھی ہو اور کندھے دھک جائیں تو صحیح ہے
—-

پتلون کے ساتھ نماز پڑھنا صحیح ہے لیکن اس میں جسم پر صرف پتلون کے علاوہ بھی کوئی چیز ہونی چاہیے جس سے کندھے ڈھک جائیں

عمامہ زائد ہے اس کی ضرورت نہیں ہے

دور نبوی میں لوگ غریب تھے کپڑا بھی کم تھا اس لئے یہ مسائل تھے ظاہر ہے جو صرف ایک تہبند میں ہی گزارا کر رہے ہوں وہ عمامہ کیوں باندھیں گے

(فيه رجال يحبون أن يتطهروا والله يحب المطهرين)
سورة توبه آيت ١٠٨ (آيت مسجد قبا کے لوگو کیلے نازل ہوا ہے جو پانے کے ساتھ استنجا )ترمذی۳۱۰۰
.کیا اے روایت صحیح ھے اور شأن نزول یہے ہے

 جواب

یہ روایت مسند احمد کی ہے اس میں یہ بھی ہے کہ یہ توریت میں تھا کہ پانی سے استنجا ہو

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ يَعْنِي ابْنَ مِغْوَلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سَيَّارًا أَبَا الْحَكَمِ، غَيْرَ مَرَّةٍ يُحَدِّثُ عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْنَا، يَعْنِي قُبَاءً، قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَثْنَى عَلَيْكُمْ فِي الطُّهُورِ خَيْرًا، أَفَلَا تُخْبِرُونِي؟» قَالَ: يَعْنِي قَوْلَهُ: {فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ} [التوبة: 108] قَالَ: فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا نَجِدُهُ مَكْتُوبًا عَلَيْنَا فِي التَّوْرَاةِ: الِاسْتِنْجَاءُ بِالْمَاءِ

کتاب الاستيعاب في معرفة الأصحاب از القرطبي (المتوفى: 463هـ) کے مطابق یہ روایت صحیح ہے

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

آیت سوره التوبہ کی ہے جو سن ٩ ہجری میں نازل ہوئی اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے پانی کے علاوہ پتھر سے بھی استنجا کیا ہے لہذا روایت منکر ہے
اس کی سند میں شہر بن حوشب ہے جو شیعہ ہے اور الذہبی کہتے ہیں احمق ہے

سنن ترمذی میں ہے البانی اس کو صحیح کہتے ہیں

سنن ابو داود میں اس کی سند بھی کمزور ہے شعَيب الأرنؤوط کہتے ہیں حسن لغيره ہے یعنی بہت سی ضعیف سندوں کی وجہ سے حسن کے درجے پر ا گئی ہے
راقم کہتا ہے
ایسی روایت فقہ میں لی گئی ہے لیکن چونکہ دیگر صحیح روایات سے رسول الله کا عمل پتا ہے اس کی ضرورت نہیں ہے یہ اب منکر سمجھی جانے

—-
البناية شرح الهداية از عینی کے مطابق

احناف میں اس روایت کی بنا پر واحتج الطحاوي الاستنجاء بالماء طحاوی کہتے ہیں پانی سے استنجا کیا جائے اور کہا قال بهذا عطاء ومثله عن علي – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
یہ علی رضی الله عنہ کا بھی قول ہے

اغلبا اسی لئے شیعہ شہر بن حوشب روایت کرتا ہے توریت کا حکم تھا پانی سے استنجا ہے

دس محرم کا روزہ ایام جاہلیت میں رکھا جاتا تھا اس کو یوم عاشور کہا جاتا تھا

عن عائشة قالت: كان يوم عاشوراء تصومه قريش في الجاهلية وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُهُ، فَلَمَّا قَدِمَ المَدِينَةَ صَامَهُ، وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ تَرَكَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَمَنْ شَاءَ صَامَهُ، وَمَنْ شَاءَ تَرَكَهُ (صحیح البخاری
عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ عاشوراء کے دن زمانہ جاہلیت میں قریش روزہ رکھا کرتے تھے۔ اور نبی صلی الله علیہ وسلم بھی قریش کے ساتھ اسی دن روزہ رکھتے تھے پس جب مدینہ گئے تو اسی دن صوم کا حکم دیا لیکن جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کے روزے کو کر دیا جو چاہے رکھے
طبرانی کے مطابق عَاشُورَاءَ کا دن بہت محترم تھا اس دن ایام جاہلیت میں کعبه کا غلاف تبدیل ہوتا تھا

نوٹ : غلاف کعبہ بدلنے کی رسم کے دن کو اب بدل دیا گیا ہے اور اس کو اب ذو الحجہ میں کیا جاتا ہے راقم کو ایسی کوئی روایت نہیں ملی جس میں اس دن کو بدلنے کا حکم ہو کسی کو علم ہو تو خبر دے کیونکہ ذو الحجہ میں غلاف تبدیل کرنا ایک بدعت ہو گا اگر نبی صلی الله علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا
———

دیگر روایات کے مطابق جب نبی صلی الله علیہ وسلم مدینہ تشریف لے گئے تو پہلے سال میں مدینہ میں یہودی اپنے کلینڈر کے مطابق خروج مصر
Pass Over
کا جشن منا رہے تھے
مورخین کے مطابق ہجرت ربیع الاول میں ہوئی چند ماہ بعد جب محرم کا مہینہ آیا تو اس میں یہود کا جشن کا دن بھی اتفاقا ا گیا

مسلمانوں نے پوچھا کہ اس جشن کی وجہ کیا ہے ؟ تو یہود نے کہا کہ اس روز موسی نے مصر سے خروج کیا تھا
اتفاقا عربوں میں یہ روز دس محرم تھا لہذا اسی روز مسلمانوں نے بھی روزہ رکھا کہ ہم بھی موسی کے قریب ہیں

یہود کے مطابق خروج مصر
Pesach
عید فسخ
کا جشن ابیب ماہ کی ١٥ تاریخ کو اتا ہے یہ محض اتفاق تھا کہ یہ ماہ ابیب اور محرم کا مہینہ مل گئے اور یہود کی ١٥ تاریخ تھی اور مشرکین اور مسلمانوں کی دس محرم کی تاریخ تھی

یہود کا اپنا کلینڈر
Hebrew calendar
تھا جو اسلام سے قدیم ہے اور اسی کے مطابق ان کے اہم دن اتے ہیں موسی کے خروج مصر سے دس محرم کا کوئی تعلق نہیں ہے
ہجرت کے پہلے سال یہ محض اتفاق تھا کہ یہود کے خروج مصر کا دن اور دس محرم مل گئے تھے

لہذا صحیح بات یہ ہے کہ عَاشُورَاءَ کا روزہ ایام جاہلیت کی رسم ہے اس کو اسلام میں نا پسند نہیں کیا گیا اور رمضان کے بعد اب یہ نفلی عبادت ہے جو چاہے کرے اور نہ چاہے تو نہ کرے

اس کی تفصیل تفسیر میں ہے دیکھئے
صفحہ ١٥٨
Two Illuminated Clouds of Qur’an

یہود اور عرب اس دور میں دونوں النسی پر عمل کرتے تھے اور ماہ بدل دیتے تھے یہود کا مقصد تھا کہ عید فسخ بہار میں ہو اور یہی عرب چاہتے تھے کہ حج بہار میں ہو لہذا مارچ یا اپریل کے ماہ کے لئے یہودی قمری اور مشرکین کے قمری سال میں النسی سے ایڈجسٹمنٹ کی جاتی تھی
—-
اپ نے جو روایت پیش کی ہے وہ المعجم الصغير کی ہے
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَنْطَاكِيُّ، حَدَّثَنَا بَرَكَةُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْحَلَبِيُّ، حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ أَسْبَاطٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ: ” دَخَلْتُ عَلَى ابْنِ مَسْعُودٍ فِي يَوْمِ عَاشُورَاءَ , فَإِذَا بَيْنَ يَدَيْهِ قَصْعَةُ ثَرِيدٍ وَعُرَاقٍ , فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ , أَلَيْسَ هَذَا يَوْمَ عَاشُورَاءَ؟ فَقَالَ: نَعَمْ , كُنَّا نَصُومُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ يُفْرَضَ شَهْرُ رَمَضَانَ , فَلَمَّا فُرِضَ شَهْرُ رَمَضَانَ نَسْخَهَ , ثُمَّ قَالَ: اقْعُدْ , فَقَعَدْتُ , فَأَكَلْتُ ” لَمْ يَرْوِهِ عَنِ الثَّوْرِيِّ إِلَّا يُوسُفُ بْنُ أَسْبَاطٍ
اس کی سند میں يوسف بن أسباط الشيباني الزاهد الواعظ جو ضعیف ہے اس نے اپنی کتب دفن کر دی تھیں لہذا اس کی روایت صحیح نہیں سمجھی جا سکتی البتہ ابن معین نے اس کو ثقہ کہا ہے

لیکن اس میں غور طلب بات ہے کہ کیا عَاشُورَاءَ یہود کے نزدیک خروج مصر کا دن تھا بھی یا نہیں

ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا عورت کرتہ اور اوڑھنی میں جب کہ وہ ازار (تہبند) نہ پہنے ہو، نماز پڑھ سکتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “(پڑھ سکتی ہے) جب کرتہ اتنا لمبا ہو کہ اس کے دونوں قدموں کے اوپری حصہ کو ڈھانپ لے”۔ ابوداؤد

جواب

ألباني دونوں اس کو ضعیف کہتے ہیں

——–

اس کی ایک سند کتاب حديث علي بن حجر السعدي میں ہے
حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، ثنا إِسْمَاعِيلُ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ زَيْدِ بْنِ الْمُهَاجِرِ بْنِ قُنْفُذٍ، عَنْ أُمِّ حَرَامٍ، أَنَّهَا سَأَلَتْ أُمَّ سَلَمَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: [ص:506] ” هَلْ تُصَلِّي الْمَرْأَةُ فِي دِرْعٍ وَخِمَارٍ؟ قَالتَ: نَعَمْ إِذَا كَانَ الدِّرْعُ سَابِغًا يُغَطِّي ظُهُورَ الْقَدَمَيْنِ ”
أم حرام والدة مُحَمَّد بْن زيد بْن المهاجر بن قنفذ اس کی سند میں مجھول ہے

——-

موطا میں اس کو عروہ کا قول کہا گیا ہے
مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ؛ أَنَّ امْرَأَةً اسْتَفْتَتْهُ، فَقَالَتْ: إِنَّ الْمِنْطَقَ (1) يَشُقُّ عَلَيَّ. أَفَأُصَلِّي فِي دِرْعٍ وَخِمَارٍ؟
فَقَالَ: (2) إِذَا كَانَ الدِّرْعُ سَابِغاً.
لیکن اس میں قدم ڈھنکنے کا ذکر نہیں ہے
———-

شوافع میں بغوی کتاب شرح السنة میں اس ضعیف روایت سے دلیل لیتے ہیں کہتے ہیں
أَمَّا الْمَرْأَةُ الْحُرَّةُ، فَعَلَيْهَا أَنْ تُغَطِّيَ جَمِيعَ بَدَنِهَا فِي الصَّلاةِ، إِلا الْوَجْهَ وَالْيَدَيْنِ إِلَى الْكُوعَيْنِ، يُرْوَى ذَلِكَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَهُوَ قَوْلُ الأَوْزَاعِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، فَإِذَا انْكَشَفَ شَيْءٌ مِمَّا سِوَى الْوَجْهِ وَالْيَدَيْنِ عَلَيْهَا الإِعَادَةُ.
وَقَدْ قِيلَ: إِنْ كَانَ ظَهْرُ قَدَمَيْهَا مَكْشُوفًا، فَصَلاتُهَا جَائِزَةٌ.
وَقَالَ مَالِكٌ: إِذَا انْكَشَفَ شَعْرُهَا، أَوْ صُدُورُ قَدَمَيْهَا تُعِيدُ مَا دَامَتْ فِي الْوَقْتِ، وَقَالَ أَصْحَابُ الرَّأْيِ: إِذَا انْكَشَفَ مِنْهَا أَقَلُّ مِنْ رُبْعِ الْعُضْوِ لَا إِعَادَةَ عَلَيْهَا.
وَالْحَدِيثُ حُجَّةٌ عَلَيْهِ مِنْ حَيْثُ إِنَّهُ شَرْطٌ أَنْ يَكُونَ الدِّرْعُ سَابِغًا، يُغَطِّي ظُهُورَ قَدَمَيْهَا.

اگر عورت لونڈی نہ ہو تو اس پر ہے کہ اپنے تمام بدن کو ڈھک لے سوائے چہرہ اور ہاتھوں کے کہنی تک ایسا ابن عباس سے مروی ہے اور یہ الأَوْزَاعِيِّ اور شافعی کا قول ہے اگر اس کے جسم کا کوئی حصہ کھلا ہو جو چھرہ یا ہاتھ نہ ہو تو اس پر نماز کا اعادہ ہے اور کہا جاتا ہے کہ اگر پیر کا اوپر کا حصہ کھلا رہے تو نماز جائز ہے اور امام مالک نے کہا اگر بال ظاہر ہو جائیں یا پیر کا اوپر تو اس پر صرف اس وقت کے بعد کا اعادہ ہے اور اصحاب رائے نے کہا اگر ایک چوتھائی عضو ظاہر ہو تو اعادہ نہیں ہے اور یہ حدیث حجت ہے کہ قمیص لمبی کی شرط میں سے ہے کہ قدم کا اوپر ڈھکا رہے

راقم کہتا ہے بغوی نے ضعیف حدیث سے دلیل لی ہے یہ روایت مرفوع نہیں ہے اور عروہ پر موقوف ہے لہذا بغوی کا یہ کہنا کہ قدم ڈھکا رہے محل نظر ہے

لہذا اس میں افراط کے بجائے عورتوں کو دین میں جو آسانی دی گئی ہے اس کو قبول کیا جائے

جواب

روایات کے مطابق نماز میں تشہد میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم
ثُمَّ أَشَارَ بِسَبَّابَتِهِ
کلمہ شہادت والی انگلی سے اشارہ کرتے تھے

یہ روایت عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ کی سند سے ہے

امام شعبہ کہتے ہیں
وأشار بأصبعه السبابة

اس میں اختلاف ہے کہ کیا اشارہ کرتے وقت انگلی کو حرکت بھی دی جائے گی یا نہیں لہذا اس کے تمام طرق جمع کرنے کے بعد شعيب الأرنؤوط – کہتے ہیں
قلنا: فهؤلاء الثقات الأثبات من أصحاب عاصم لم يذكروا التحريك الذي خالف به زائدة، وهذا من أبين الأدلة على وهم زائدة فيه، وليس هو من باب زيادة الثقة كما توهَم بعضهم، لا سيما أن روايتهم تتأيد بأحاديث صحيحة ثابتة عن غير وائل بن حجر، ولم يرد فيها التحريك،
ہم کہتے ہیں ثقات اثبات راویوں نے جو اصحاب عاصم ہیں انہوں نے انگلی کو حرکت دینے کا ذکر نہیں کیا ہے جس کی مخالفت زائدہ نے کی ہے اور یہ واضح دلائل ہیں کہ زائدہ کو وہم ہوا اور یہ ثقہ کی ذیادت نہیں ہے جیسا کہ بعض کو وہم ہے خاص طور پر جب اس روایت کی تائید میں دوسری صحیح احادیث بھی ہیں جو وائل بن حجر کے علاوہ ہیں جن میں حرکت کا ذکر نہیں ہے

کتاب صحیح مسلم جلد 1 حدیث نمبر 2246

علی بن حجر سعدی، اسحاق بن ابرہیم حنظلی، علی، اسحاق ، عبدالعزیز بن محمد، عبدالواحد بن حمزہ حضرت عباد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حکم دیا کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جنازہ مسجد میں لایا جائے تاکہ اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے لوگوں نے اس بات پر تعجب کیا تو سیدہ
رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تم لوگ کتنی جلدی بھول گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سہیل بن بیضاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نماز جنازہ مسجد میں ہی پڑھائی تھی۔

کتاب صحیح مسلم جلد 1 حدیث نمبر 2247

محمد بن حاتم، بہز، وہیب، موسیٰ بن عقبہ، عبدالواحد، عباد بن عبداللہ بن زبیر، سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں جب سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہو گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویوں نے پیغام بھجوایا کہ ان کا جنازہ مسجد میں سے لے کر گزرو تاکہ وہ بھی نماز جنازہ ادا کرلیں لوگوں نے ایسا ہی کیا اور ان کے حجروں کے آگے جنازہ روک دیا تاکہ وہ اس پر نماز جنازہ ادا کرلیں پھر ان کو باب الجنائز سے نکالا گیا جو مقاعد کی طرف تھا پھر ازواج مطہرات کو یہ خبر پہنچی کہ لوگوں نے اس کو عیب جانا ہے اور لوگوں نے کہا ہے کہ جنازوں کو مسجد میں داخل نہیں کیا جاتا تھا یہ بات سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو پہنچی تو انہوں نے کہا لوگ ناواقفیت کی بنا پر اس بات کو معیوب سمجھ رہے ہیں اور ہم پر جنازہ کے مسجد میں گزارنے کی وجہ سے عیب لگا رہے ہیں حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سہیل بن بیضاء کا جنازہ مسجد کے اندر ہی پڑھا تھا۔

کتاب صحیح مسلم جلد 1 حدیث نمبر 2248

ہارون بن عبد اللہ، محمد بن رافع، ابوفدیک، ضحاک بن عثمان، ابونضر، حضرت ابوسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ جب سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہو تو سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا جنازہ مسجد میں لے آؤ تاکہ میں ان پر نماز جنازہ پڑھوں لوگوں نے اس بات پر تعجب کیا تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیضاء کے دو بیٹوں سہیل اور اس کے بھائی کا جنازہ مسجد میں پڑھا تھا۔

جواب

یہ احادیث صحیح ہیں

جنازہ مسجد میں پڑھنے پر اختلاف ہے
احناف میں اس کو مسجد میں نہیں پڑھا جاتا اور اسی حدیث سے دلیل لی گئی ہے کہ لوگ سعد رضی الله عنہ کا جنازہ مسجد میں نہیں لا رہے تھے کیونکہ یہ معمول نہ تھا سعد کی وفات ٥٥ ہجری کی ہے اس وقت کثیر اصحاب رسول حیات ہیں

حنابلہ میں جنازہ مسجد میں پڑھا جا سکتا ہے اور اسی روایت سے دلیل لی گئی ہے کہ ایسا صحیح نہ ہوتا تو ام المومنین رضی الله عنہم حکم نہ کرتیں
احناف کے نزدیک نبی صلی الله علیہ وسلم نے ایسا کیا کیونکہ وہ معتکف تھے

: تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشِّلْبِيِّ
تَأْوِيلُ حَدِيثِ ابْنِ الْبَيْضَاءِ «أَنَّهُ – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ – كَانَ مُعْتَكِفًا فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ فَلَمْ يُمْكِنْهُ الْخُرُوجُ مِنْ الْمَسْجِدِ فَأَمَرَ بِالْجِنَازَةِ فَوُضِعَتْ خَارِجَ الْمَسْجِدِ فَصَلَّى عَلَيْهَا فِي الْمَسْجِدِ لِلْعُذْرِ

العناية شرح الهداية
وَتَأْوِيلُ صَلَاتِهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – عَلَى جِنَازَةِ سُهَيْلٍ فِي الْمَسْجِدِ أَنَّهُ كَانَ مُعْتَكِفًا فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ فَلَمْ يُمْكِنْهُ الْخُرُوجُ فَأَمَرَ بِالْجِنَازَةِ فَوُضِعَتْ خَارِجَ الْمَسْجِدِ

راقم کہتا ہے یہ ایک مخصوص عمل ہے کیونکہ امہات المومنین نے ایسا ابو بکر اور عمر اور عثمان اور دیگر اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم کے لئے بھی نہیں کیا کہ ان کا جنازہ مسجد میں منگوایا ہو سعد رضی الله عنہ کو یہ خصوصیت حاصل ہوئی کیونکہ وہ مہاجرین میں وفات پانے والے آخری صحابی تھے رضی الله عنہم

جواب

تہجد کی اذان نہ دور نبوی میں نہ دور خلفاء میں ہوئی لہذا یہ عصر حاضر کی بدعت ہے
اذان کا مقصد تمام مسلمانوں کے لئے پکار ہے جبکہ تہجد نفل نماز ہے جو چاہے پڑھے جو چاہے سوتا رہے

بدعت بدعت ہی رہے گی اور رد ہو گی اس میں قیاس سے اس کو دین میں جاری نہیں کیا جا سکتا
اس سلسلے میں ایک روایت سے دلیل لی جاتی ہے کہ دور نبوی میں فجر کی دو اذان ہوتی تھیں ایک کوبلال رضی الله عنہ دیتے تھے اور دوسری کو ابن ام مکتوم رضی الله عنہ دیتے تھے
گویا وہ کہنا چاہتے ہیں کہ تہجد کی اذان بلال رضی الله عنہ والی کی طرح ہے تو پھر یہ اذان تو فجر کی بن گئی
اس کے علاوہ ان دو اذانوں کے درمیان جماعت سے نماز کی بھی کوئی دلیل نہیں
امام مالک نے موطا میں اس روایت کا ذکر بَابُ قَدْرِ السُّحُورِ مِنَ النِّدَاءِ میں کیا ہے
سحری کی مقدار اذان میں
یعنی ان کے مطابق دو اذانوں کے بیچ میں کھا سکتے ہیں لیکن یہ مقدار اس قدر کم ہے کہ
إِنَّ بِلَالًا يُنَادِي بِلَيْلٍ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُنَادِيَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ

بے شک اذان بلال دیتے پس کھاتے   پیتے رہتے یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دیتے
ان دو اذانوں میں لوگ سحری کرتے رہتے تھے جو اصلا سحری کا آخری وقت ہوتا جو قلیل مدت ہے اور اس کو فجر کی اذان ہی سمجھا گیا ہے ورنہ یہ ابو بکر رضی الله عنہ نے عمر اور عثمان رضی الله عنہم نے بھی دلوائی ہوتی لیکن اس کا کوئی الگ سے ذکر نہیں کرتا
الغرض یہ تہجد کی  اذان لوگوں کی اختراع ہے اور بے بنیاد ہے

جواب

جب الله تعالی نے ایک نصرانی اور ایک یہودی کا کھانا ہمارے لئے  حلال کر دیا تو پھر اہل قبلہ کی قربانی کا گوشت حرام کیسے ہو سکتا ہے ؟

شیعہ اور خوارج دونوں کی قربانی کا گوشت کھا سکتے ہیں اصول یہ ہے کہ یہ ذبح غیر الله کے لئے نہ ہو -آج تو اہل سنت کے فرقوں تک کا عقیدہ خراب ہے دوم ایسا کوئی میٹر بتا دیں کہ جو گوشت اپ بازار سے خریدتے ہیں وہ کسی صحیح العقیدہ کا ذبح کیا ہوا ہے ، ایسا کوئی میٹر ہے ہی نہیں لہذا حسن ظن کی بنیاد پر فیصلہ کریں – ہاں جب اپ کو واقعی معلوم ہو کہ آج محرم میں نذر و نیاز ہے تو وہ دور احتیاط کا ہے اس میں وہ چیزیں ہیں جو ائمہ کو منسوب کی جاتی ہیں  لہذا ان اشیاء  سے دور رہیں

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جب تم میں سے کوئی شخص سجدہ کرے تو اس طرح نہ بیٹھے جیسے اونٹ بیٹھتا ہے بلکہ اپنے ہاتھ اپنے گھٹنوں سے پہلے (زمین پر) رکھے

جواب

حدثنا سعيدُ بن منصورِ، حدثنا عبدُ العزيز بن محمدٍ، حدثنى محمدُ بن عبدِ الله بن حسنٍ، عن أبي الزّناد، عن الأعرَج
عن أبي هريرة قال: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: “إذا سَجَدَ أحدُكم فلا يَبرُك كما يَبرُكُ البعيرُ، وليَضَع يديهِ قبل رُكبتيهِ

اس پر متقدمین میں امام بخاری کی رائے ملتی ہے جس کے مطابق یہ روایت منقطع ہے

اس روایت کی سند ہے
حدثنا سعيدُ بن منصورِ، حدثنا عبدُ العزيز بن محمدٍ، حدثنى محمدُ بن عبدِ الله بن حسنٍ، عن أبي الزّناد، عن الأعرَج
عن أبي هريرة قال: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: “إذا سَجَدَ أحدُكم فلا يَبرُك كما يَبرُكُ البعيرُ، وليَضَع يديهِ قبل رُكبتيهِ”

اس کی سند میں محمد بن عبد الله المہدی ہیں جن کے لئے امام بخاری کہتے ہیں ان کا سماع ابی الزناد سے مشکوک ہے
اور کہا محمد بن عبد الله بن حسن: عن أبي الزناد، قال البخاري: لا يتابع على حديثه ان کی حدیث کی متابعت نہیں ہے

“التاريخ الكبير” 1/ 139: میں اسی روایت کو پیش کر کے اس کو منقطع سمجھا ہے
حدَّثني مُحَمد بْنُ عُبَيد اللهِ، قَالَ: حدَّثنا عَبد الْعَزِيزِ، عَنْ مُحَمد بْنِ عَبد اللهِ، عَنْ أَبي الزِّناد، عَنِ الأَعرَج، عَنْ أَبي هُرَيرَة، رَفَعَهُ: إِذا سَجَدَ فَليَضَع يَدَيهِ قَبلَ رُكبَتَيهِ.
ولا يُتابَعُ عليه، ولا أدري سَمِعَ مِن أَبي الزِّناد أم لا.

امام بخاری کہتے ہیں مجھ کو نہیں پتا اس کا سماع ابی الزناد سے ہے یا نہیں

لیکن متاخرین میں سے البانی ،  شعَيب الأرنؤوط وغیرہ نے اس کو صحیح قرار دے دیا ہے

تحقیق درکار ہے

کان أول ما افترض علی رسول اللہ ﷺ الصلوٰۃ رکعتان رکعتان إلا المغرب فإنھا کانت ثلاثاً، ثم أتم اللہ الظھر و العصر و العشاء الآخرۃ أربعاً فی الحضر و أقر الصلوٰۃ علی فرضھا الأول فی السفر“
رسول اللہ ﷺ پر پہلے دو دو رکعتیں نماز فرض ہوئی تھی سوائے مغرب کے وہ تین رکعات فرض تھی۔ پھر اللہ نے حضر میں ظہر، عصر اور عشاء کی نماز چار (چار) کردی اور سفر والی نماز اپنی حالت پر (دو دو سوائے مغرب کے) فرض رہی۔

(مسند الامام احمد ج ۶ ص ۲۷۲ ح ۲۶۸۶۹ دوسرا نسخہ : ۲۶۳۳۸ و سندہ حسن لذاتہ )

صحیح ابن حبان اور صحیح ابن خزیمہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی روایت ہے کہ :
“فرضت صلوٰۃ السفر و الحضر رکعتین فلما أقام رسول اللہ ﷺ بالمدینۃ زید فی صلوٰۃ الحضر رکعتان رکعتان و ترکت صلوٰۃ الفجر لطول القرأۃ و صلوٰۃ المغرب لأنھا وتر النھار“

سفر اور حضر میں دو (دو) رکعتیں نماز فرض ہوئی۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں اقامت اختیار کی تو حضر کی نماز میں دو دو رکعتوں کا اضافہ کردیا گیا اور صبح کی نماز میں طولِ قرأت اور مغرب کی نماز کو دن کے وتر ہونے کہ وجہ سے چھوڑ دیا گیا ۔

(صحیح ابن حبان ۱۸۰/۴ ح ۲۷۲۷ دوسرا نسخہ: ۲۷۳۸ و صحیح ابن خزیمہ ۷۱/۲ح ۹۴۴ و سندہ حسن)

میری آپ سے گزارش ہے کہ ہم فرض نمازوں کی جو رکعت پڑھتے ہیں

فجر کی ٢
ظہر کی ٤
عصر کی ٤
مغرب کی ٣
اعشا کی ٤

ان کی دلیل کیا ہے

مجھے امید ہے کہ آپ ضرور رہنمائی کریں گے – الله پاک آپ کو دنیا اور آخرت میں کامیابی عطا کرے . امین

جواب

اس پر روایت کی ضرورت نہیں یہ تامل سے پتا ہے یعنی امت کا یہ عمل چلا ا رہا ہے

قرآن میں بطور نماز ان اوقات کے نام نہیں ہیں مثلا یہ ہے کہ فجر پر قرآن پڑھو اس کو دیکھا جاتا ہے اسی طرح صلاہ الوسطی کا لفظ ہے
ظہر عصر مغرب عشاء کے الفاظ نہیں یہ احادیث میں ہیں

لیکن قرآن میں ان اوقات میں نماز کا حکم موجود ہے کہ اللہ کو یاد کرو ان اوقات میں

مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قَالَتْ:
كَانَ أَوَّلَ مَا افْتُرِضَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةُ : رَكْعَتَانِ رَكْعَتَانِ ، إِلَّا الْمَغْرِبَ، فَإِنَّهَا كَانَتْ ثَلَاثًا، ثُمَّ أَتَمَّ اللهُ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْعِشَاءَ الْآخِرَةَ أَرْبَعًا فِي الْحَضَرِ ، وَأَقَرَّ الصَّلَاةَ عَلَى فَرْضِهَا الْأَوَّلِ فِي السَّفَرِ ”
رسول الله پر شروع میں دو دو رکعت نماز فرض ہوئی سوائے مغرب کے وہ تین تھی پھر الله نے حضر میں ظہر عصر اور عشاء کو چار سے مکمل کیا اور سفر کے شروع میں فرض کو باقی رکھا

اس روایت کے مطابق تین وقت کی نماز کو چار کر دیا گیا مغرب تین ہی تھی اور اس میں فجر کا ذکر نہیں لیکن فجر کو اسی حالت پر رہنے دیا گیا یعنی دو رکعت

شعيب الأرنؤوط نے مسند کی تعلیق میں ایک اور حوالہ دیا ہے
وأخرجه النسائي في “المجتبى” 1/225، وأبو عوانة 2/25، والبيهقي في “السنن 1/363، “وفي “الدلائل” 2/406 من طريق الأوزاعي، أنه سأل الزهري عن صلاة رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بمكة قبل الهجرة إلى المدينة، قال: أخبرني عروة، عن عائشة، قالت: فرض الله عز وجل الصلاة على رسوله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أول ما فرضها ركعتين ركعتين، ثم أتمت في الحضر أربعاً، وأقرت صلاة السفر على الفريضة الأولى
الأوزاعي الزہری سے سوال کیا کہ ہجرت سے پہلے مکہ میں رسول الله کی نماز کیسی تھی؟ زہری نے کہا مجھ کو عروہ نے خبر دی ان کو عائشہ نے کہ الله نے دو دو رکعت نماز فرض کی پھر حضر میں اس کو چار سے مکمل کیا اور سفر کی نماز کو باقی رکھا

اس کے علاوہ یہ روایت ہے
أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي مَعْشَرٍ بِحَرَّانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الصَّبَّاحِ الْعَطَّارُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْبُوبُ بْنُ الْحَسَنِ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: “فُرِضَتْ صَلَاةُ السَّفَرِ وَالْحَضَرِ رَكْعَتَيْنِ، فَلَمَّا أَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَانِ رَكْعَتَانِ، وَتُرِكَتْ صَلَاةُ الْفَجْرِ لِطُولِ الْقِرَاءَةِ، وَصَلَاةُ الْمَغْرِبِ لِأَنَّهَا وِتْرُ النَّهَارِ” (رقم طبعة با وزير: 2727) , (حب) 2738 [قال الألباني]: صحيح – “الصحيحة” (2814).
مسروق ، عائشہ رضی الله عنہا سے روایت کرتے ہیں سفر اور حضر کی نماز دو رکعت فرض ہوئی پس جب رسول الله نے مدینہ میں قیام کیا تو چار ہوئیں اور فجر کو لمبی قرات کی بنا پر چھوڑ دیا اور مغرب کو بھی کہ یہ دن کا وتر ہے

نماز فجر کو لمبی قرات کی بنا پر دو پر چھوڑ دیا گیا

جواب

جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا ، کیا میں بکری کے گوشت (کو کھانے) سے وضو کروں؟ آپ نے فرمایا : “اگر چاہو تو وضو کر لو اور اگر نہ چاہو تو نہ کرو “، اس نے عرض کیا ، کیا میں اونٹ کے گوشت (کو کھانے) سے وضو کروں؟ آپ نے فرمایا : “ہاں ، اونٹ کے گوشت ( کو کھانے ) سے وضو کرو”، عرض کی ، کیا میں بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ لوں؟ آپ نے فرمایا : “ہاں” ، عرض کی ، کیا میں اونٹوں کے باڑوں میں نماز پڑھ لوں ؟ فرمایا ، “نہیں” ( صحیح مسلم ح۳۶۰)

براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے اونٹ کے گوشت ( کو کھانے) سے وضو کے بارے میں سوال کیا گیا ، تو آپ نے فرمایا : ” اس سے وضو کرو”، پھر آپ سے بکریوں کے گوشت ( کو کھانے ) سے وضو کے بارے میں سوال ہوا تو فرمایا : ” اس سے وضو نہ کرو “۔ ( سنن ترمذی ۸۱، سنن ابی داود ۱۸۴، سنن ابن ماجہ ۴۸۴،

ترمذی کہتے ہیں
و قول أحمد و اسحاق، وقد روی عن بعض أھل العلم من التابعین و غیرھم: انھم لم یروا الوضوء من لحوم الابل، وھو قول سفیان الثوری و أھل الکوفۃ.

” امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ کا یہی مذہب ہے ( کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ) البتہ بعض اہل علم تابعین وغیرہم سے مروی ہے کہ وہ اونٹ کے گوشت (کو کھانے) سے وضو (کا واجب ہونا) خیال نہیں کرتے تھے، یہ سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا مذہب ہے ۔” ( جامع ترمذی تحت حدیث ۸۱
———

راقم کہتا ہے کہ جابر بن سمرہ سے اس روایت کو جعفر بن أبي ثور هو أبو ثور بن عكرمة نے روایت کیا ہے کتاب إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي کے مطابق امام علی المدینی کہتے ہیں
قال علي بن المديني: جعفر هذا مجهول
یہ جعفر مجھول ہے
یہی قول بیہقی نے سنن الکبری میں دیا ہے
ذهب علي بن المديني إلى أنَّ جعفر بن أبي ثور هذا مجهول (السنن الكبرى: 1/ 158).
لیکن امام احمد و اسحٰق نے اس کو مجھول نہیں سمجھا امام بخاری نے اس سے کوئی روایت نہیں لی
لہذا یہ ایک قدیم اختلاف ہے

راقم امام علی والا موقف رکھتا ہے راوی کو مجھول کہتا ہے

دوسری روایت جو البَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رضی الله عنہ سے ہے اس کی سند ہے
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ [ص:123] عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ البَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ
اس میں عبد الرحمان بن ابی لیلی کا حافظہ صحیح نہیں ہے البتہ محدثین کی ایک جماعت نے اس روایت کو صحیح سمجھا ہے

ابن منذر نے کتاب الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف میں لکھا ہے

حَدِيثَانِ صَحِيحَانِ حَدِيثُ الْبَرَاءِ وَحَدِيثُ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ. وَقَالَ إِسْحَاقُ: قَدْ صَحَّ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ. وَأَسْقَطَتْ طَائِفَةٌ الْوُضُوءَ مِنْ لُحُومِ الْإِبِلِ، وَمِمَّنْ كَانَ لَا يَرَى ذَلِكَ وَاجِبًا مَالِكُ [ص:141] بْنُ أَنَسٍ وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَالشَّافِعِيُّ وَأَصْحَابُ الرَّأْيِ، وَقَدْ رُوِيَ ذَلِكَ عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ وَعَطَاءٍ وَطَاوُسٍ وَمُجَاهِدٍ [ص:142] وَرُوِيَ ذَلِكَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ

الْبَرَاءِ اور َحَدِيثُ جَابِرِ بْنِ سَمُرَة دونوں صحیح ہیں اور اسحاق نے کہا یہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے صحیح ہیں اور ایک گروہ نے اس وضو کو ساقط کر دیا ہے اور کہتے ہیں یہ واجب نہیں ہے جن میں امام مالک اور سفیان اور شافعی اور اصحاب رائے ہیں اور اس کو روایت کیا ہے سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ اور عَطَاءٍ اور طَاوُسٍ اور مُجَاهِدٍ

محدثین میں امام ابن معین کا قول ہے

قَالَ يحيى الْوضُوء من لُحُوم الْإِبِل لَا يتَوَضَّأ مِنْهُ
اونٹ کے گوشت پر کوئی وضو نہیں ہے

تاريخ ابن معين رواية الدوري

جواب

مس الذکر یا عضو تناسل چھونے پر وضو کرو کی روایت ہے بُسْرَةَ بِنْتِ صَفْوَانَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ مَسَّ ذَكَرَهُ فَلَا يُصَلِّ حَتَّى يَتَوَضَّأَ

بُسْرَةَ بِنْتِ صَفْوَانَ، مدینہ کی خاتون ہیں جو مردوں کے ذکر کو چھونے کے حوالے سے روایت کر رہی ہیں یہ اس خبر کی ایک علت ہے کہ ایک مرد کو یہ روایت بیان کرنی چاہیے اس کو کوئی مرد روایت نہیں کرتا جبکہ یہ ان کا مسئلہ ہے

ترمذی کہتے ہیں اس باب میں کوئی حدیث صحیح ہے تو امام بخاری کہتے ہیں یہی ہے
قَالَ مُحَمَّدٌ: «أَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا البَابِ حَدِيثُ بُسْرَةَ

وضو کا ٹوٹنا ایک اہم مسئلہ ہے ذکر کو چھونے کے بعد وضو ٹوٹنا صرف ان صحابیہ کا روایت کردہ ہے
ان کی یہی روایت ہے کوئی اور روایت بھی نہیں لہذا اس منفرد روایت کو کیسے لیا جائے؟

اس روایت کو عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ نے بیان کیا ہے کہ مروان بن الحکم نے ان کو خبر دی کہ بسرہ نے ان کو بتایا
ابن خزیمہ صحیح میں کہتے ہیں
قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَبِقَوْلِ الشَّافِعِيِّ أَقُولُ. لِأَنَّ عُرْوَةَ قَدْ سَمِعَ خَبَرَ بُسْرَةَ مِنْهَا، لَا كَمَا تَوَهَّمَ بَعْضُ عُلَمَائِنَا أَنَّ الْخَبَرَ وَاهٍ لِطَعْنِهِ فِي مَرْوَانَ
اور شافعی کہتے ہیں عروہ نے ان سے بسرہ کیخبر سنی نہ کہ جیسا بعض علماء کو وہم ہے کہ یہ خبر بے کار ہے مروان پر طعن کرنے کے لئے

احناف کے مطابق حدیث بسرہ ضعیف ہے

البحر الرائق شرح كنز الدقائق از ابن نجیم کے مطابق
إنَّ حَدِيثَ بُسْرَةَ ضَعَّفَهُ جَمَاعَةٌ حَتَّى قَالَ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ ثَلَاثَةُ أَحَادِيثَ لَمْ تَصِحَّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – مِنْهَا حَدِيثُ مَسِّ الذَّكَرِ
حدیث بسرہ کو ایک جماعت نے ضعیف کہا ہے حتی کہ امام ابن معین کہتے ہیں تین احادیث رسول الله پر صحیح نہیں صلی الله علیہ وسلم جن میں حدیث مس الذکر ہے

طحاوی کتاب مختصر اختلاف العلماء میں کہتے ہیں
قَالَ أَصْحَابنَا وَالثَّوْري وَمَالك لَا وضوء من مس الذّكر إِلَّا أَن مَالِكًا يستحبه
وَقَالَ الْأَوْزَاعِيّ وَاللَّيْث وَالشَّافِعِيّ فِيهِ الْوضُوء

ہمارے اصحاب یعنی احناف اور ثوری اور مالک کہتے ہیں کہ ذکر چھونے پر وضو نہیں ہے سوائے اس کے کہ مالک اس کو مستحب سمجھتے ہیں
اور الْأَوْزَاعِيّ اور لیث اور شافعی کہتے ہیں وضو ہے

وضو غسل سے پہلے کیا جاتا ہے ایک شخص وضو کرتا ہے غسل شروع کرتا ہے کہ ذکر کو چھو لیتا ہے اس کا وضو ٹوٹ جائے گا دوبارہ وضو کرے گا یا نہیں ؟ اس پر لوگوں نے کلام نہیں کیا لیکن راقم کو اس کا جواب نہیں ملا جب غسل کا وضو ہی ٹوٹ جائے گا تو غسل کیسے ہو گا اس لئے یہ ممکن نہیں کہ ذکر چھونے سے وضو ٹوٹ جائے

یہاں تک کہ مآلکیون اور شوافع میں اختلاف ہوا جس کا ذکر ابن حزم نے المحلی میں کیا
لَأَنْكَرَ الْمَالِكِيُّونَ وَالشَّافِعِيُّونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ تَفْرِيقَهُمْ بَيْنَ مَسِّ الذَّكَرِ بِبَاطِنِ الْكَفِّ فَيَنْقُضُ الْوُضُوءَ، وَبَيْنَ مَسٍّ بِظَاهِرِ الْكَفِّ فَلَا يَنْقُضُ الْوُضُوءَ
مالکیہ اور شوافع میں تفریق ہوئی کہ ذکر کو کپڑے کے اوپر سے چھونے سے وضو ٹوٹے گا یا کپڑے کے پیچھے سے چھونے سے

المغني 1 / 179، والفروع 1 / 179. کے مطابق حنابلہ کے مطابق اگر کپڑے کے اوپر سے بھی ذکر کو چھو لیا تو وضو ٹوٹ جاتا ہے
وَقَال مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ: لاَ يَنْقُضُ مَسُّهُ إِلاَّ بِبَاطِنِ كَفِّهِ وَلاَ يَنْقُضُ بِظَهْرِ الْكَفِّ لأَِنَّ ظَاهِرَ الْكَفِّ لَيْسَ بِآلَةِ الْمَسِّ فَأَشْبَهَ مَا لَوْ مَسَّهُ بِفَخِذِهِ (3) .
وَلاَ فَرْقَ عِنْدَ الْحَنَابِلَةِ بَيْنَ بَطْنِ الْكَفِّ وَظَاهِرِهِ (4) .
الموسوعة الفقهية الكويتية
ج ٣٧

احناف میں تو سرے سے ٹوٹے گا ہی نہیں

عصر حاضر کے ایک عالم أبو عبد الرحمن عبد الله بن عبد الرحمن بن صالح بن حمد بن محمد بن حمد بن إبراهيم البسام التميمي (المتوفى: 1423هـ)
نے ان متضاد روایات میں تطبیق اس طرح دی
توضِيحُ الأحكَامِ مِن بُلوُغ المَرَام

فضل ما يجمع بين الحديثَيْن بأحد طريقين:
الأوَّل: أنَّه ينقُضُ الوضوء إذا مسَّه مِنْ غير حائل، فإنْ مسَّهُ بحائل لم ينقض؛ ويؤيِّد هذا القول رواية: “الرجُلُ يَمَسُّ ذكره في الصلاة”، فالصلاة ليست محلَّ لَمْسِ الفرج بلا حائل.
الثاني: أنَّ مسَّه بشهوةٍ ينقُضُ الوضوء، ومسَّه بدونها لا ينقُضُ.

اول وضو ٹوٹے گا اگر کوئی حائل نہ ہو اور چھوا جائے اور یہ نہیں ٹوٹے گا اگر بلا حائل چھوا جائے اور اس کی تائید میں قول ہے روایت میں کہ آدمی نماز میں اپنا ذکر چھو رہا تھا تو پس نماز وہ محل نہیں جہاں کوئی اس کو بلا حائل چھو سکے
دوم اگر اس کو شہوت سے چھوا تو وضو ہے اس کے بغیر نہیں

راقم خود امام ابو حنیفہ اور امام مالک والا موقف رکھتا ہے کہ وضو نہیں ٹوٹے گا

سُئِلَ يحيى عَن الْوضُوء من مس الذّكر فَقَالَ لَا يتَوَضَّأ مِنْهُ

ابن معین نے کہا عضو تناسل چھونے پر کوئی وضو نہیں ہے

تاريخ ابن معين رواية الدوري

تیمم سے مربوط آیت کی شان نزول کے بارئے میں صیح بخاری ،مسلم،نسائی،موطا وغیرہ میں اسطرح روایت موجود ہے

حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن أبيه، عن عائشة، زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعض أسفاره، حتى إذا كنا بالبيداء ـ أو بذات الجيش ـ انقطع عقد لي، فأقام رسول الله صلى الله عليه وسلم على التماسه، وأقام الناس معه، وليسوا على ماء، فأتى الناس إلى أبي بكر الصديق فقالوا ألا ترى ما صنعت عائشة أقامت برسول الله صلى الله عليه وسلم والناس، وليسوا على ماء، وليس معهم ماء‏.‏ فجاء أبو بكر ورسول الله صلى الله عليه وسلم واضع رأسه على فخذي قد نام فقال حبست رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس، وليسوا على ماء، وليس معهم ماء‏.‏ فقالت عائشة فعاتبني أبو بكر، وقال ما شاء الله أن يقول، وجعل يطعنني بيده في خاصرتي، فلا يمنعني من التحرك إلا مكان رسول الله صلى الله عليه وسلم على فخذي، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم حين أصبح على غير ماء، فأنزل الله آية التيمم فتيمموا‏.‏ فقال أسيد بن الحضير ما هي بأول بركتكم يا آل أبي بكر‏.‏ قالت فبعثنا البعير الذي كنت عليه، فأصبنا العقد تحته‏

.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں مالک نے عبدالرحمن بن قاسم سے خبر دی، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے بتلایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بعض سفر ( غزوئہ بنی المصطلق ) میں تھے۔ جب ہم مقام بیداء یا ذات الجیش پر پہنچے تو میرا ایک ہار کھو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تلاش میں وہیں ٹھہر گئے اور لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ٹھہر گئے۔ لیکن وہاں پانی کہیں قریب میں نہ تھا۔ لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا “ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیا کام کیا؟ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام لوگوں کو ٹھہرا دیا ہے اور پانی بھی کہیں قریب میں نہیں ہے اور نہ لوگوں ہی کے ساتھ ہے۔ ” پھر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر مبارک میری ران پر رکھے ہوئے سو رہے تھے۔ فرمانے لگے کہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام لوگوں کو روک لیا۔ حالانکہ قریب میں کہیں پانی بھی نہیں ہے اور نہ لوگوں کے پاس ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ والد ماجد ( رضی اللہ عنہ ) مجھ پر بہت خفا ہوئے اور اللہ نے جو چاہا انھوں نے مجھے کہا اور اپنے ہاتھ سے میری کوکھ میں کچوکے لگائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک میری ران پر تھا۔ اس وجہ سے میں حرکت بھی نہیں کر سکتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کے وقت اٹھے تو پانی کا پتہ تک نہ تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت اتاری اور لوگوں نے تیمم کیا۔ اس پر اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا “ اے آل ابی بکر! یہ تمہاری کوئی پہلی برکت نہیں ہے۔ ” عائشہ ( رضی اللہ عنہا ) نے فرمایا۔ پھر ہم نے اس اونٹ کو ہٹایا جس پر میں سوار تھی تو ہار اسی کے نیچے مل گیا۔

اعتراضات

اولا کہا گیا ہے یہ یہ واقعہ نبی اکرم ص کے غزوہ مصطلق سے واپسی پر رونما ہوا یعنی جنگ احزاب جو جنگ خندق کے نام سے مشہور ہےکے بعد یہ جنگ 2ھ میں واقع ہوئی

حدیث کے پس منظر میں بیان ہوا ہے کہ اس غزوہ میں مہاجرو انصار کے درمیان کنوئیں سے پانی کھینچنے کے مسلہ پر اختلاف رونما ہوااور نزدیک تھا کہ آپس میں لڑ پڑیں جسکی وجہ سے آپ ص نے لشکر کو بے موقع کوچ کرنے کا حکم دیا تاکہ احتمالی ٹکراو کو روک سکے آپ ص اس سفر میں کسی جگہ پڑاو نہیں ڈالتے تھے مگر یہ کہ نماز کے وقت اسطرح رات گئے تک سفر کرتے تھے اور جب رات کا آخری حصہ میں کہیں رکتے تو اصحاب تھکاوٹ سے نڈھال سوجاتے تھے رسول خداص اور آپ ص کے لشکر کی اس غزوہ کی واپسی پر یہ حالت نہیں تھی کہ پیغمبر ص کے لیے ممکن نہیں تھا کہ بلا سوچے سمجھے صرف حضرت عائشہ کےگلے کے ہار کے لیے،کہیں رات بھر کے لیے حضرت عائشہ کی روایت میں بیان شدہ صورت میں پڑوا ڈالتے

اسکے علاوہ کچھ اور روایت بھی ہیں جن میں اس آیت کی شان نزول ام المومینین کی بیان کردہ شان نزول کے خلاف ہے ہم یہاں پر قرآن کی طرف رجوع کرتے ہیں

قرآن مجید میں دو جگہوں پر وضو وغسل اور ان کے بدل یعنی تیمم کاایک ساتھ ذکر ہواہے ۔

اولاً سورہ نسا کی ٤٣ویں آیت میں فرماتاہے:

”ےٰااَےُّھَا الذَّینَ آمَنُوا لاٰتَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْتُمْ سُکٰاریٰ حَتّٰی تَعْلَمُوا مٰا تَقُولُونَ وَ لاٰ جُنُباً اِلاّٰ عٰابِرِی سَبیلٍ حَتّٰی تَغْتَسِلُوا وَ اِنْ کُنْتُمْ مَرْضیٰ اَوْ عَلیٰ سَفَرٍ أَوْ جٰائَ اَحَد مِنْکُمْ مِنَ الْغٰائِطِ أَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسٰائَ فَلَمْ تَجِدُوا مٰائً فَتَیَمَّمُوا صَعیداً طَیِّباً فَامْسَحُوا بِوُجُوھِکُمْ وَاَیْدِیْکُمْ اِنَّ اللّٰہَ کٰانَ عَفُوّاً غَفُوراً”(نسا٤٣)

ایمان والو ! خبردار نشہ کی حالت میں نماز کے قریب بھی نہ جانا،جب تک یہ ہوش نہ آجائے کہ تم سمجھنے لگو کیا کہہ رہے ہو،اور جنابت کے حالت میں بھی (مسجد میں داخل نہ ہونا)مگریہ کہ راستے سے گزر رہے ہو ،جب تک غسل نہ کرلو اور اگر بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو اور کسی کے پاخانہ نکل آئے ، یاعورتوں سے باہم جنسی ربط قائم کرو اورپانی نہ ملے توپاک مٹی سے تیمم کرلو ،اس طرح کہ اپنے چہروں اور ہاتھوںپر مسح کرلو بیشک خدا بہت معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔

ثانیاً سورہ مائدہ کی چھٹی آیت میں فرماتاہے :

”یٰا اَیُّھَاالَّذینَ آمَنُوااِذٰاقُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوةِفَاغْسِلُوا وُجُوھَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ اِلَیٰ الْمَرٰافِقِ وَامْسِحُوابِرُء وسِکُمْ وَاَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْن وَاِنْ کُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّھَّرُوا وَاِنْ کُنْتُمْ مَرْضیٰ اَوْ عَلیٰ سَفَرٍ أَوْجٰائَ أَحَد مِنْکُمْ مِنَ الْغٰائِطِ اَوْلاٰمَسْتُمُ النِّسٰائَ فَلَمْ تَجِدُوامٰائً فَتَیَمَّمُواصَعیداًطَیِّباًفَامْسَحُوا بِوُجُوھِکُمْ وَأیْدِیْکُمْ مِنْہُ…..”(مائدہ ٦)

ایمان والو !جب بھی نماز کے لئے اٹھو تو پہلے اپنے چہروں کواور کہنیوں تک اپنے ہاتھوں کو دھوؤاور اپنے سر اور ٹخنے تک پیروں کامسح کرو اور اگر جنابت کی حالت میں ہو تو غسل کرواور اگر مریض ہویا سفر کی حالت میں ہو یا پاخانہ وغیرہ نکل آیا ہے یاعورتوں سے باہم جنسی تعلق قائم کرو اور پانی نہ ملے توپاک مٹی سے تیمم کرلو ،اس طرح کہ اپنے چہرے اور ہاتھوںکامسح کرلو۔

اس لحاظ سے اسی وقت جب وضو اور غسل کاحکم بیان ہوا ،تیمم کاحکم بھی بیان ہواہے ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں نے ١٣ سال مکہ میں اور ٥سال مدینہ میں صرف وضواور غسل کیا اور انہیں کبھی تیمم کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑی ہو یہاں تک کہ خدائے تعالیٰ نے ام المؤمنین کے گلے کے ہار والے معاملے کی صورت میں یہ ہوا

مزید بحث کرتا چلو اس حدیث میں پیغمبر اسلام ص کی سیرت پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ کس طرح رسول خدا ص نے اپنی بیوی کی خشنودی کےلیے جذبات میں آکر تمام مصلحتوں سے چشم پوشی کر کے اسلام کے ساتھ ایک خشک اور بے آب سرزمین پر صرف اپنی بیوی کے گلے کے ہار کے لئے صبح دیر تک پڑاو کیا۔جب کہ کسی عام کمانڈر سے یہ توقع کی جاسکتی ہے چہ جائیکہ جو یہ حکمت بصیر ت والے پیغمبر سے کر رہے ہیں سب سے بڑھ کر اس حدیث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خدا تعالی ٰ نے اس ناشائستہ و بے جاعمل پر اپنے پیغمبر ص کی تنبیہ اور سرزنش کرنے کی بجائے قرآن کی ایک آیت نازل فرما کر تیمم کا حکم جاری کیا اور اسطرح مسلمانوں کی ایک گھتی حل کردی
دشمنان اسلام اس حدیث اور داستان سے کیا نیتجہ لیں گئے؟

جواب

یہ روایت صحیح ہے
———-

مسند احمد میں یہ ایک دوسری سند سے بھی ہے

حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِتُرْبَانَ، بَلَدٍ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْمَدِينَةِ بَرِيدٌ وَأَمْيَالٌ وَهُوَ بَلَدٌ لَا مَاءَ بِهِ، وَذَلِكَ مِنَ (1) السَّحَرِ، انْسَلَّتْ قِلَادَةٌ لِي مِنْ عُنُقِي، فَوَقَعَتْ، فَحُبِسَ رَسُولُ اللهِ (2) صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِالْتِمَاسِهَا حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ، وَلَيْسَ مَعَ الْقَوْمِ مَاءٌ، قَالَتْ: فَلَقِيتُ مِنْ أَبِي مَا اللهُ بِهِ عَلِيمٌ مِنَ التَّعْنِيفِ وَالتَّأْفِيفِ، وَقَالَ: فِي (3) كُلِّ سَفَرٍ لِلْمُسْلِمِينَ مِنْكِ عَنَاءٌ وَبَلَاءٌ؟ قَالَتْ: فَأَنْزَلَ اللهُ الرُّخْصَةَ بِالتَّيَمُّمِ، قَالَتْ: فَتَيَمَّمَ الْقَوْمُ وَصَلَّوْا. قَالَتْ: يَقُولُ أَبِي حِينَ جَاءَ مِنَ اللهِ مَا جَاءَ مِنَ الرُّخْصَةِ لِلْمُسْلِمِينَ: وَاللهِ، مَا عَلِمْتُ يَا بُنَيَّةُ، إِنَّكِ لَمُبَارَكَةٌ، مَاذَا جَعَلَ اللهُ لِلْمُسْلِمِينَ فِي حَبْسِكِ إِيَّاهُمْ مِنَ الْبَرَكَةِ وَالْيُسْرِ؟

یھاں اس کو محمد بن اسحاق نقل کر رہا ہے جو جب یہ بیان کرتا ہے کہ ام المومنین نے وفات النبی پر ماتم کیا تو شیعہ اس کے قول کو مانتے ہیں اور اب بھی مانیں کیونکہ یہ بھی ابن اسحاق کی روایت ہے

الغرض تیمم کی آیات مدنی ہیں شیعوں اور سنی دونوں میں تو پھر یہ کہنا کہ مکہ میں بھی تیمم ہوتا تھا احمقانہ قول ہے

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے قافلے کو پڑاؤ کا حکم دیا لیکن الله کو منظور تھا کہ وہ سو جائیں لہذا یہ جنگی حکمت عملی کا سوال ہی نہیں ہے دوم جنگ ختم ہو چکی ہے اس سے واپسی پر یہ واقعہ ہوا تو اشکال بلا وجہ ہے

فرض نماز کی بعد فورآ سنت اور نفل وہے جگہ پرہنا کیسا ہے؟
گذشته امت اسلیے ھلاک ھوگیا کہ ایک جگہ(متصل) فرض اور نفل ادأ کیا
ابوداود جلد اول صفحه ۱۴۴
پلیز وضاحت کردے
جزاکم الله خیرا

جواب

یہ روایت اس سند سے ضعیف ہے اس کی سند میں أشعث بن شعبة ہے جس کو ضعیف کہا گیا ہے
البانی نے بھی اس کو ضعیف کہا ہے
قلت: إسناده ضعيف (*) ، أشعث بن شعبة فيه لين- كما قال أبو زرعة-،
وقال المنذري: ” في إسناده أشعث بن شعبة والمنهال بن خليفة، وفيهما مقال “) .
إسناده: حدثنا عبد الوهاب بن تجدة: ثنا أشعث بن شعبة.
قلت: وهذا إسناد ضعيف، علته أشعث هذا، قال أبو زرعة:
” لين الحديث “. والأزدي:
“ضعيف”
وذكره ابن حبان في ” الثقات “، وفي سوالات الآجري عن أبي داود:
” أشعث بن شعبة ثقة “. وقال الحافظ في “التقريب “:
” مقبول “. يعني عند المتابعة؛ وإلا فليّن الحديث؛ كما نص عليه في المقدمة.
وأعله المنذري في “مختصره ” (1/461) بأشعث والمنهال كما تراه أعلاه.

البتہ اس کی ایک دوسری سند ہے جس کو البانی نے صحیح کہا ہے
فإنما هلك أهل الكتاب أنه لم يكن لصلاتهم فصل
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم، وجهالة الصحابي لا تضر.
وأخرجه أبو يعلى في “مسنده ” (13/ 107/7166) من طريق أخرى عن
محمد بن جعفر … به.
وتوبع شعبة؛ فقال عبد الرزاق في “المصنف ” (2/ 432/3973) : عن عبد الله
ابن سعيد قال: أخبرني الأزرق بن قيس … به؛ إلا أنه قال:
” صدق ابن الخطاب “.
وإسناده صحيح أيضا: عبد الله بن سعيد هو ابن أبي هند الفزاري، من رجال
الشيخين، وذكره المزي في شيوخ عبد الرزاق.
والحديث مخرج في “الصحيحة ” برقم (3173) .

——–

مسند ابو یعلی کی سند جس کو البانی نے صحیح کہا ہے وہ یہ ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْأَزْرَقِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الْعَصْرَ، فَقَامَ رَجُلٌ يُصَلِّي، فَرَآهُ عُمَرُ، فَقَالَ لَهُ: اجْلِسْ، فَإِنَّمَا هَلَكَ أَهْلُ الْكِتَابِ بِأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِصَلَاتِهِمْ فَصْلٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَحْسَنَ ابْنُ الْخَطَّابِ»

اس میں رجل من اصحاب النبی مجھول ہے
بعض لوگوں نے دعوی کیا کہ وہ صحابی ہیں لیکن محدثین نے انکار کیا کہ انہوں نے صرف دیکھا ہے سنا نہیں لہذا ان کی روایت رد کر دی گئیں اور منقطع قرار پائیں لیکن متاخرین نے اس بات کو بدل دیا یہاں تک کہ کہا رجل من اصحاب النبی کو لے لیا جائے
راقم کے نزدیک یہ طرق ضعیف ہے

متنا یہ الفاظ ایک دوسری سند میں بھی ہیں

لَا تُوصَلُ صَلَاةً بِصَلَاةٍ حَتَّى تَخْرُجَ أَوْ تَتَكَلَّمَ
ایک نماز کو دوسری نماز نہ ملاو یہاں تک کہ باہر نکلو یا بات کرو
مسند احمد میں ہے سند مسلم کی شرط پر ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ عَطَاءِ بْنِ أَبِي الْخُوَارِ، أَنَّ نَافِعَ بْنَ جُبَيْرٍ أَرْسَلَهُ إِلَى السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، ابْنِ أُخْتِ نَمِرٍ يَسْأَلُهُ عَنْ شَيْءٍ رَآهُ مِنْهُ مُعَاوِيَةُ فِي الصَّلَاةِ، قَالَ: نَعَمْ، صَلَّيْتُ مَعَهُ الْجُمُعَةَ فِي الْمَقْصُورَةِ، فَلَمَّا سَلَّمَ قُمْتُ فِي مَقَامِي، فَصَلَّيْتُ، فَلَمَّا دَخَلَ أَرْسَلَ إِلَيَّ، فَقَالَ: لَا تَعُدْ لِمَا فَعَلْتَ. إِذَا صَلَّيْتَ الْجُمُعَةَ، فَلَا تَصِلْهَا بِصَلَاةٍ حَتَّى تَخْرُجَ أَوْ تَكَلَّمَ (1) ، فَإِنَّ نَبِيَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِذَلِكَ، أَنْ ” لَا تُوصَلَ صَلَاةٌ بِصَلَاةٍ (2) حَتَّى تَخْرُجَ أَوْ تَكَلَّمَ ”

شعَيب الأرنؤوط نے اس کو صحیح کہا ہے

صحیح مسلم میں بھی ہے
أَنْ لَا تُوصَلَ صَلَاةٌ بِصَلَاةٍ حَتَّى نَتَكَلَّمَ أَوْ نَخْرُجَ

الغرض روایت متن پر صحیح ہے کہ ایک نماز کو دوسری نماز سے نہ ملاو

صحیح بخاری میں کتاب الوتر میں وتر پڑھتے ہوئے ہاتھ اٹھانے کا بھی ذکر ہے اور نہیں اٹھانے کا بھی تو کیا دونوں عمل جائز ہے جب وتر کی دعا پڑھی جا رہی ہو؟
وتر اگر تین پڑھ رہے ہیں تو دو رکعت پڑھنے کے بعد تشہد پڑھنے کے بعد تیسری رکعت پڑھنی چاہیے کیا دو رکعت کے نعد تشہد میں بیٹھنا صحیح ہے اور اگر کوئی دو رکعت سلام کر کے پڑھے اور ایک وتر الگ پڑھے کیا یہ طریقہ صحیح ہے صحیح بخاری سے یہ ثابت کیا جاتا ہے؟؟

جواب

وتر پڑھتے ہوئے ہاتھ اٹھانے کی روایت قنوت نازلہ کی ہے اور یہ وہ وتر نہیں جو ہم عشاء کی نماز کے بعد نوافل کے بعد پڑھتے ہیں

⇓ قنوت نازلہ میں ہاتھ اٹھا سکتے ہیں؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/عبادت/

راقم کے نزدیک عام وتر میں ہاتھ اٹھانے پر کوئی صحیح روایت نہیں ہے
صحیح بخاری کی کس حدیث میں ہے ؟ راقم کے علم میں ایسی کوئی روایت صحیح بخاری میں نہیں
———–

وتر کس طرح پڑھا جائے اس میں اختلاف ہے

تین طرح سے پڑھا جاتا ہے
وتر ادا کرنے کے تین طریقے ہیں وہ یہ ہیں:
——————–
پہلا طریقہ: تین رکعت کو ایک ہی تشہد کے ساتھ پڑھا جائے۔
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، أنبأ أَبُو نَصْرٍ أَحْمَدُ بْنُ سَهْلٍ الْفَقِيهُ بِبُخَارَى، ثنا صَالِحُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَبِيبٍ الْحَافِظُ، ثنا شَيْبَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ثنا أَبَانُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: ” كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ بِثَلَاثٍ لَا يَقْعُدُ إِلَّا فِي آخِرِهِنَّ
عن عائشۃ قالت کان النبی ﷺ یوتر بثلاث لا یقعد إلا فی آخرھن (سنن بیہقی: 3 / 728) یعنی رسول اللہ ﷺ تین رکعت وتر پڑھتے تھے تو صرف آخری رکعت میں قعدہ کرتے تھے
اس کی سند میں قتادہ بصری کا عنعنہ ہے
————————
دوسرا طریقہ: دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دے، اور پھر ایک رکعت وتر ادا کرے۔
صحیح البخاری میں ہے
صلاۃ اللیل مثنی مثنی فإذا أردت أن تنصرف فارکع رکعۃ توتر لک ما صلیت
(البخاری: أبواب الوتر، باب ما جاء فی الوتر، برقم: 993)
رات کی نماز دو دو رکعت ہے جب اس نماز کا سلسلہ ختم کرنا چاہو تو ایک رکعت آخر میں پڑھ لو۔ یہ آخری ایک رکعت تمہاری پڑھی ہوئی تمام سابقہ نمازوں کو وتر بنا دے گی ۔

خیال رہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم دن و رات میں ١١ رکعات پڑھتے تھے جن میں وتر بیچ میں بھی پڑھا

ابن عباس رضی الله خاص طور پر میمونہ رضی الله عنہا کے ہاں کئی دفعہ رکے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی رات کی نماز دیکھیں
صحیح بخاری کی حدیث ہے
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: بِتُّ فِي بَيْتِ خَالَتِي مَيْمُونَةَ بِنْتِ الحَارِثِ زَوْجِ النَّبِيِّ صلّى الله عليه وسلم وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهَا فِي لَيْلَتِهَا، فَصَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ العِشَاءَ، ثُمَّ جَاءَ إِلَى مَنْزِلِهِ، فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ نَامَ، ثُمَّ قَامَ، ثُمَّ قَالَ: «نَامَ الغُلَيِّمُ» أَوْ كَلِمَةً تُشْبِهُهَا، ثُمَّ قَامَ، فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ، فَجَعَلَنِي عَنْ يَمِينِهِ، فَصَلَّى خَمْسَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ نَامَ، حَتَّى سَمِعْتُ غَطِيطَهُ أَوْ خَطِيطَهُ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلاَةِ

رسول الله نے چار رکعت پڑھی پھر سو گئے پھر اٹھے اور پانچ رکعآت پڑھیں پھر دو رکعت پڑھیں کل ١١ ہی ہوئیں لیکن ترتیب الگ ہوئی
————————–
تیسرا طریقہ : وتر کو مغرب کی نماز کی طرح پڑھا جائے

عن ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کان یوتر بثلاث رکعات، کان یقرء فی الاولیٰ بسبح اسم ربک الاعلی وفی الثانیۃ بقل یا ایھا الکفرون وفی الثالثۃ بقل ھو اللہ احد ویقنت قبل الرکوع۔
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وتر تین رکعت پڑھتے تھے پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلی پڑھتے ، دوسری رکعت میں قل یا ایھا الکفرون اور تیسری رکعت میں قل ھو اللہ احد پڑھتے تھے
اس سے دلیل لی گئی ہے کہ یہ مغرب کی نماز کی طرح ہے

اس پر جو اعتراض کرتے ہیں وہ کہتے ہیں سنن دارقطنی میں ہے
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: «لَا تُوتِرُوا بِثَلَاثٍ، أَوْتِرُوا بِخَمْسٍ، أَوْ بِسَبْعٍ، وَلَا تَشَبَّهُوا بِصَلَاةِ الْمَغْرِبِ
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “تین وتر نہ پڑھو پانچ یا سات پڑھو اور مغرب کی نماز کی مشابہت نہ کرو ”
(دارقطنی، الوتر، باب لا تشبھوا الوتر بصلاة المغرب
اس کی سند میں عبد الله بن وهب المصري ہے جو مدلس ہے اور اس کا عنعنہ ہے
دیگر طرق میں عبد الملك بن مَسْلَمَة بن يزيد مصری ہے جو منکر الحدیث ہے

مستدرک الحاکم میں ہے
عَنْ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُوتِرُوا بِثَلَاثٍ تَشَبَّهُوا بِصَلَاةِ الْمَغْرِبِ
تین وتر مغرب کی طرح مت پڑھو
اس کو بھی مصریوں نے روایت کیا ہے

اس طرح اہل مصر نے روایت کیا ہے کہ تین وتر مغرب کی طرح نہ پڑھے جائیں
دوسری طرف کوفہ والے کہتے تھے کہ تین مغرب کی طرح پرہے جائیں
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے
حدثنا الحسن بن رشيق بمصر , ثنا محمد بن أحمد بن حماد الدولابي , ثنا أبو خالد يزيد بن سنان , ثنا يحيى بن زكريا الكوفي , ثنا الأعمش , عن مالك بن الحارث , عن عبد الرحمن بن يزيد النخعي , عن عبد الله بن مسعود , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «وتر الليل ثلاث كوتر النهار صلاة المغرب»
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ رات کی وتر تین رکعت ہے جس طرح دن کی وتر مغرب ہے
مصنف عبد الرزاق میں ہے
عَبْدُ الرَّزَّاقِ،
4635 – عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: «وِتْرُ اللَّيْلِ كَوِتْرِ النَّهَارِ، صَلَاةُ الْمَغْرِبِ ثَلَاثٌ» قَوْلُ ابْنِ مَسْعُودٍ
بصرہ میں تین وتر مغرب کی طرح انس رضی الله عنہ پڑھتے تھے
عَبْدُ الرَّزَّاقِ4636 – عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ أَنَسٍ وَبِتُّ عِنْدَهُ قَالَ: «فَرَأَيْتُهُ يُصَلِّي مَثْنَى مَثْنَى حَتَّى إِذَا كَانَ فِي آخِرِ صَلَاتِهِ أَوْتَرَ بِثَلَاثٍ مِثْلَ الْمَغْرِبِ

معلوم ہوتا ہے اس میں اصحاب رسول کا خود اختلاف تھا

احناف کہتے ہیں وتر کی مثال فرض جیسی ہے – اگر ایک بار فرض نماز پڑھ لی تو پھر جائز نہیں کہ اسکو دوبارہ پڑھا جائے اسی طرح وتر صرف ایک بار ہے اور اس پر قیاس کرتے ہوئے اس کو اسی طرح پڑھا جائے گا جس طرح مغرب کی نماز ہے
دیکھئے مشکل الاثار از امام طحاوی

جواب

نماز میں ہاتھ باندھنے پر کوئی صحیح حدیث نہ امام مسلم کے پاس ہے نہ امام بخاری کے پاس

اہل سنت میں مالکیہ میں سب ہاتھ نہیں باندھتے
اسی طرح شیعہ اور خوارج بھی ہاتھ نہیں باندھتے
اور امام مالک نے موطا میں نقل کیا ہے کہ اہل مدینہ اس کو پسند کرتے تھے لیکن مرفوع قول نبوی ان کو بھی نہیں ملا

یہاں تک کہ کوفہ والوں نے بیان کرنا شروع کیا کہ ہاتھ باندھے جائیں اور پھر اس میں اختلاف ہوا کہاں تک کس طرح وغیرہ
امام ترمذی نے کہا اس پر عمل چلا آ رہا ہے لہذا کرنا مستحسن ہے

صحیح مسلم میں وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے
انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتدائے نماز میں تکبیر کیساتھ رفع الیدین کرتے ہوئے دیکھا، پھر آپ نے اپنا کپڑا [اوپر لی ہوئی چادر وغیرہ]سمیٹ کر اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا، اور جس وقت رکوع میں جانے لگے تو کپڑے کے اندر سے ہاتھ باہر نکال کر رفع الیدین کیساتھ تکبیر کہی ، اور رکوع میں چلے گئے، پھر جب “سمع اللہ لمن حمدہ” کہا تو پھر رفع الیدین کیا، اور جب آپ سجدے میں گئے تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان سجدہ فرمایا

امام مسلم نے سند دی ہے کہ عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ وَائِلٍ نے علقمة بن وائل بن حجر اور ایک آزاد کردہ غلام سے سنا کہ ان کے باپ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ نے بیان کیا

کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق

علقمة بن وائل بن حجر قال بن معين لم يسمع من أبيه شيئا

علقمة بن وائل بن حجر کے لئے ابن معین کہتے ہیں انہوں نے اپنے باپ سے کچھ نہ سنا

دوسرا مسئلہ اس سند میں ہے کہ آزاد کردہ غلام کا نام نہیں لیا گیا

لہذا یہ روایت تو ضعیف و منقطع ہے

صحیح ابن خزیمہ: (479) میں وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ نماز ادا کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا اور انہیں سینے پر باندھا۔
عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ:
“صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى عَلَى صَدْرِهِ.

یہ منفرد قول ہے کہ سینے پر ہاتھ باندھا ایسا کسی اور صحابی سے منسوب نہیں کیا گیا اور عاصم بن کلیب کے لئے امام علی کا کہنا ہے
قال ابن المديني لا يحتج بما انفرد به
اس سے دلیل مت لینا جب منفرد ہو
البزار کہتے ہیں وفي حديثه اضطراب

—-

ابن عثیمین کہتے ہیں:
“نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا ہی [حنبلی] مذہب میں مشروع عمل ہے اور یہی قول مشہور ہے، اس بارے میں علی رضی اللہ عنہ کی ایک روایت بھی ہے کہ: “سنت یہ ہے کہ ہتھیلی کو ہتھیلی پر رکھ کر نماز میں ناف کے نیچے باندھا جائے” اسے ابو داود نے روایت کیا ہے، اور نووی ،ابن حجر … سمیت دیگر ائمہ کرام نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
——————
راقم کہتا ہے ہاتھ باندھنا ایک مشہور قول ہے اور جو حدیث اس سے متعلق ہیں ضعیف ہیں
یہ عمل چلا آ رہا ہے کرنا مستحسن ہے جیسا امام ترمذی نے کہا

سنن ابوداؤد

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ ابْنِ عَقِيلٍ عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ
صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِفْتَاحُ الصَّلَاةِ الطُّهُورُ وَتَحْرِيمُهَا التَّکْبِيرُ وَتَحْلِيلُهَا التَّسْلِيمُ

عثمان بن ابی شیبہ، وکیع، سفیان، ابن عقیل، محمد بن حنفیہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ نماز کی کنجی طہارت ہے اس کی تحریم تکبیر ہے اور اسکی تحلیل سلام ہے۔

—————-
ایک طرف یہ دوسری حدیث ہے
—————-

امام ابو داود، ترمذی، طحاوی نے روایت کیا ہے کہ جس وقت امام قعدہ میں بیٹھ گیا، اور سلام سے پہلے اس نے حدث کیا، تو حضور صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس کی اور جو لوگ اس کے پیچھے تھے، سب کی نماز پوری ہوگئی:
حوالہ
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا قَضَى الْإِمَامُ الصَّلَاةَ وَقَعَدَ فَأَحْدَثَ قَبْلَ أَنْ يَتَكَلَّمَ فَقَدْ تَمَّتْ صَلَاتُهُ وَمَنْ كَانَ خَلْفَهُ مِمَّنْ أَتَمَّ الصَّلَاةَ (ابوداود بَاب الْإِمَامِ يُحْدِثُ بَعْدَ مَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنْ آخِرِ الرَّكْعَةِ۵۲۲)

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب امام نماز (کے ارکان) مکمل کر کے (قعدہ اخیرہ میں) بیٹھ جائے اور پھر اس کو گفتگو کرنے سے پہلے یعنی سلام سے پہلے حدث پیش آجائے (یعنی وضو ٹوٹ جانے) تو اس کی نماز پوری ہوگئی اور مقتدیوں میں سے ان مقتدیوں کی بھی نماز پوری ہوگئی جو نماز پوری کر چکے ہیں

نماز کے اختتام پر سلام کرنا چاہیے یا نہیں

کیا سلام پھیرنا نماز کا رکن ہے یا نہیں

جواب

سنن ابوداؤد

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ ابْنِ عَقِيلٍ عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ
صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِفْتَاحُ الصَّلَاةِ الطُّهُورُ وَتَحْرِيمُهَا التَّکْبِيرُ وَتَحْلِيلُهَا التَّسْلِيمُ

عثمان بن ابی شیبہ، وکیع، سفیان، ابن عقیل، محمد بن حنفیہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ نماز کی کنجی طہارت ہے اس کی تحریم تکبیر ہے اور اسکی تحلیل سلام ہے۔

اس کی سند میں عبد الله بن محمد بن عقيل بن أبي طالب الهاشمي ہے جو مختلف فیہ ہے اور آخری عمر میں مختلط ہوا
امام مالک اور یحیی اس سے روایت نہیں لیتے تھے اور امام احمد لیتے تھے
روایت اتنی ہی کمزور ہے جتنی نیچے والی ہے

—————-

امام ابو داود، ترمذی، طحاوی نے روایت کیا ہے کہ جس وقت امام قعدہ میں بیٹھ گیا، اور سلام سے پہلے اس نے حدث کیا، تو حضور صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس کی اور جو لوگ اس کے پیچھے تھے، سب کی نماز پوری ہوگئی:
حوالہ
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا قَضَى الْإِمَامُ الصَّلَاةَ وَقَعَدَ فَأَحْدَثَ قَبْلَ أَنْ يَتَكَلَّمَ فَقَدْ تَمَّتْ صَلَاتُهُ وَمَنْ كَانَ خَلْفَهُ مِمَّنْ أَتَمَّ الصَّلَاةَ (ابوداود بَاب الْإِمَامِ يُحْدِثُ بَعْدَ مَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنْ آخِرِ الرَّكْعَةِ۵۲۲)

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب امام نماز (کے ارکان) مکمل کر کے (قعدہ اخیرہ میں) بیٹھ جائے اور پھر اس کو گفتگو کرنے سے پہلے یعنی سلام سے پہلے حدث پیش آجائے (یعنی وضو ٹوٹ جانے) تو اس کی نماز پوری ہوگئی اور مقتدیوں میں سے ان مقتدیوں کی بھی نماز پوری ہوگئی جو نماز پوری کر چکے ہیں

تبصرہ: اس کی سند میں عبد الرحمن بن زياد بن أنعم ہے جس کو ضعیف کہا گیا ہے
ترمذی جامع میں کہتے ہیں ابن القطان اور امام احمد اس کو ضعیف کہتے ہیں اور کتاب حسن المحاضرة في تاريخ مصر والقاهرة از سیوطی کے مطابق
وقال الترمذي: رأيت البخاري يقوي أمره
امام بخاری اس کو قوی قرار دیتے

بیہقی نے اس روایت کو لَا يَصِحُّ قرار دیا ہے
ابن جوزی نے العلل المتناهية في الأحاديث الواهية میں اس روایت کو غیر صحیح کہا ہے
بغوی کہتے ہیں
وَهَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِالْقَوِيِّ، وَقَدِ اضْطَرَبُوا فِي إِسْنَادِهِ
اس کی سند قوی نہیں اسناد میں اضطراب ہے
بغوی کہتے ہیں
وَذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا أَنَّهُ إِذَا جَلَسَ قَدْرَ التَّشَهُّدِ، ثُمَّ أَحْدَثَ، فَقَدْ تَمَّتْ صَلاتُهُ، وَبِهِ قَالَ الْحَكَمُ، وَحَمَّادٌ، وَهُوَ قَوْلُ أَصْحَابِ الرَّأْيِ
اور بعض اہل علم کا مذھب ہے کہ اگر تشہد کی مقدار نماز میں بیٹھ گئے پھر حدث ہو گیا تو نماز ہو گئی اور یہ امام الحکم کا اور حماد کا کہنا ہے اور اہل رائے کا
احناف کہتے ہیں کہ امام بخاری نے اس راوی کو قوی قرار دیا ہے اور ابو داود نے روایت پر سکوت کیا ہے لہذا اس کی سند قابل قبول ہے

ایک دوسری روایت ہے
سنن دارمی مسند احمد میں ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ حُرٍّ، حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ مُخَيْمِرَةَ، قَالَ: أَخَذَ عَلْقَمَةُ، بِيَدِي، فَحَدَّثَنِي: أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ، أَخَذَ بِيَدِهِ وَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ بِيَدِ عَبْدِ اللَّهِ، فَعَلَّمَهُ التَّشَهُّدَ فِي الصَّلَاةِ: «التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ، وَالصَّلَوَاتُ، وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ» قَالَ زُهَيْرٌ: أُرَاهُ قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، – أَيْضًا شَكَّ فِي هَاتَيْنِ الْكَلِمَتَيْنِ – إِذَا فَعَلْتَ هَذَا أَوْ قَضَيْتَ، فَقَدْ قَضَيْتَ صَلَاتَكَ، [ص:847] إِنْ شِئْتَ أَنْ تَقُومَ، فَقُمْ، وَإِنْ شِئْتَ أَنْ تَقْعُدَ، فَاقْعُدْ
قاسم نے کہا علقمہ نے میرا ہاتھ پکڑا اوربیان کیا کہ ابن مسعود رضی الله عنہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور بیان کیا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑا اور بیان کیا کہ تشہد سکھایا نماز والا
التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ، وَالصَّلَوَاتُ، وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ» قَالَ زُهَيْرٌ: أُرَاهُ قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، … پس جب یہ کیا تو نماز پوری ہوئی – چاہو تو بیٹھ رہو یا اٹھ جاو
حسين سليم أسد الداراني اور شعيب الأرنؤوط – عادل مرشد اس کو صحیح کہتے ہیں
البانی نے اس کے الفاظ جب یہ کہہ دیا کو شاذ قرار دیا ہے
صحیح ابن حبان میں ابن حبان نے باب باندہا ہے
ذِكْرُ الْبَيَانِ بِأَنَّ قَوْلَهُ فَإِذَا قُلْتَ هَذَا فَقَدْ قَضَيْتَ مَا عَلَيْكَ إِنَّمَا هُوَ قَوْلُ بن مَسْعُودٍ لَيْسَ مِنْ كَلَامِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَدْرَجَهُ زُهَيْرٌ فِي الْخَبَرِ
اس بیان کا ذکر جس میں ہے “جب یہ کہہ دیا” تو یہ قول ابن مسعود ہے قول نبوی نہیں اور اس کا ادراج زُهَيْرٌ کی خبر میں ہے
البانی کہتے ہیں
والصواب أنَّه من قول ابن مسعود – «صحيح أبي داود
ٹھیک یہ ہے کہ یہ قول ابن مسعود ہے

راقم کہتا ہے یہ مسلک پرستی ہے – یہاں کوئی دلیل نہیں کہ اس کو قول ابن مسعود قرار دیا جائے- ایسا اسی صورت ممکن ہے کہ کسی دوسری صحیح حدیث میں صریحا آ رہا ہو کہ یہ قول نبوی نہیں بلکہ قول ابن مسعود ہے

کتاب الفصل للوصل المدرج في النقل از خطیب بغدادی میں ایک سند ہے جس میں اس کو ابن مسعود کا قول کہا گیا ہے
فَأَخْبَرَنَاهُ أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ الْقُرَشِيُّ وَالْقَاضِي أَبُو الطَّيِّبِ طَاهِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الطَّبَرِيُّ. قَالا: نا عَلِيُّ بْنُ عُمَرَ الْحَافِظُ: نا إِسْمَاعِيلُ بْنُ محمد الصفار نا الحسين بْنُ مُكْرَمٍ نا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ نا أَبُو خَيْثَمَةَ زُهَيْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ نا الْحَسَنُ بْنُ الْحُرِّ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَيْمِرَةَ قَالَ: أَخَذَ عَلْقَمَةُ بِيَدِي، فَقَالَ: أَخَذَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ بِيَدِي قَالَ: أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِي فَعَلَّمَنِي التَّشَهُّدَ: ” التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ “. قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: ” فَإِذَا قُلْتَ ذَلِكَ فَقَدْ قَضَيْتَ مَا عَلَيْكَ من الصَّلاةِ، فَإِنْ شِئْتَ أَنْ تَقُومَ1 فَقُمْ، وَإِنْ شِئْتَ أَنْ تَقْعُدَ فَاقْعُدْ

لیکن اس سند میں شبابة بن سوار ہے جس کے لئے ابی حاتم کا کہنا ہے اس سے دلیل مت لینا
لہذا جن لوگوں کا دعوی ہے کہ یہ کلام ابن مسعود ہے ان کی یہ دلیل مضبوط نہیں ہے
عقیلی کہتے ہیں
أنكر أحمد بن حنبل حديثه
احمد بن حنبل نے اس کی حدیث کا انکار کیا ہے

سنن دارقطنی میں بھی اس کو ابن مسعود کا قول روایت کیا گیا ہے
فَحَدَّثَنَا بِهِ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ نُصَيْرٍ , ثنا الْحُسَيْنُ بْنُ الْكُمَيْتِ , ثنا غَسَّانُ بْنُ الرَّبِيعِ , ح وَحَدَّثَنَا بِهِ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ الْحَرَّانِيُّ , وَعُمَرُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْمُعَدَّلُ وَآخَرُونَ قَالُوا: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْمُثَنَّى , ثنا غَسَّانُ بْنُ الرَّبِيعِ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَابِتِ بْنِ ثَوْبَانَ , عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْحَرِّ , عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَيْمِرَةَ , أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ: أَخَذَ عَلْقَمَةُ بِيَدِي , وَأَخَذَ ابْنُ مَسْعُودٍ بِيَدِ عَلْقَمَةَ وَأَخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِ ابْنِ مَسْعُودٍ فَعَلَّمَهُ التَّشَهُّدَ: «التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ , السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ , السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ , أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ». ثُمَّ قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: إِذَا فَرَغْتَ مِنْ هَذَا فَقَدْ فَرَغْتَ مِنْ صَلَاتِكَ فَإِنْ شِئْتَ فَاثْبُتْ وَإِنْ شِئْتَ فَانْصَرِفْ
یہاں بھی سند ضعیف ہے اس میں عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَابِتِ بْنِ ثَوْبَان پر کلام جرح ہے
ابن عدي نے اس کو ضعیف کہا ہے
احمد نے کہا أحاديثه مناكير اور کہا لم يكن بالقوي في الحديث
یہ حدیث میں قوی نہیں ہے
يَحْيَى بن معين نے اس کو ضعیف کہا

ان دو اسناد کو دارقطنی نے سنن میں پیش کیا ہے کہ یہ ثبوت ہے کہ یہ قول نبوی نہیں ابن مسعود ہے جبکہ ان دونوں کی بنیاد پر اس کو قول ابن مسعود رضی الله عنہ نہیں کہا جا سکتا
شبابہ المتوفی ٢٠٦ ھ اور عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَابِتِ بْنِ ثَوْبَانَ (وفات ١٦٧ کے بعد) دونوں بہت بعد کے ہیں فقہائے کوفہ جن کا یہ مذھب ہے وہ ان دونوں سے پہلے کے ہیں جس سے معلوم پڑتا ہے کہ اس کو قول نبوی ہی سمجھا گیا ہے

اگر یہ قول ابن مسعود رضی الله عنہ بھی ہے تو ثابت ہوا کہ کوفہ میں یہ مذھب تھا کہ سلام نماز میں فرض نہیں ہے اس کے بغیر نماز ہو جاتی ہے جس کو فقہائے کوفہ نے لیا
اصحاب رسول میں ابن مسعود کی نماز اس طرح مشکوک ہو جاتی ہے کہ وہ سلام پھرنے کے قائل ہی نہیں تھے
راقم اس لئے سمجھتا ہے کہ یہ قول نبوی ہی ہے

اس کی مثال ہے
کوئی روایت اگر موقوف بھی ہو تو یہی محدثین اس کو مرفوع قرار دے دیتے ہیں کہ ان صحابی نے اس کو نبی صلی الله علیہ وسلم سے ہی سنا ہو گا
مثلا ابن عمر کی روایت کہ دو مردار حلال ہیں ایک مچھلی اور ایک ٹڈی اور دو خون حلال ہیں … جبکہ یہ مرفوع ہے ہی نہیں
راقم کہتا ہے یہ تضاد ہے

الله نے ایک ماہ کے روزے فرض کیے ہیں اس لئے ٢٩ یا ٣٠ دن کے روزے ہیں- گنتی پوری ہو گی
اس میں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ یہ شخص کتنے دن، نئے مقام پر رکتا ہے اس کی نیت کیا ہے کیونکہ یہ مسافر ہی سمجھا جائے گا اگر اس کی نیت واپس پلٹنے کی ہے
اگر اس کی نیت صرف عید کی ہے اور چند دن میں واپس جا رہا ہے تو یہ مسافر ہے اس کو روزہ نہیں رکھنا ہے اور نماز بھی قصر کرنی ہو گی اور عید کی نماز اب اس پر واجب نہیں کیونکہ یہ اس علاقے کا مقمیم نہیں اس کو بھی چھوڑ سکتا ہے
========

اس میں تابعین کا طریقہ جو ملا ہے وہ یہ ہے کہ
صحیح مسلم کی روایت
یحیی بن یحیی، یحیی بن ایوب، قتیبہ، ابن حجر، یحیی بن یحیی، اسماعیل، ابن جعفر، محمد، ابن حرملہ حضرت کریب سے روایت ہے کہ حضرت ام الفضل بنت حارث (رض) نے مجھے حضرت معاویہ (رض) کی طرف ملک شام بھیجا میں شام میں پہنچا تو میں نے حضرت ام الفضل کا کام پورا کیا اور وہیں پر رمضان المبارک کا چاند ظاہر ہوگیا اور میں نے شام میں ہی جمعہ کی رات چاند دیکھا پھر میں مہینہ کے آخر میں مدینہ آیا تو حضرت ابن عباس (رض) سے چاند کا ذکر ہوا تو مجھے پوچھنے لگے کہ تم نے چاند کب دیکھا ہے؟ تو میں نے کہا کہ ہم نے جمعہ کی رات چاند دیکھا ہے پھر فرمایا تو نے خود دیکھا تھا؟ میں نے کہا ہاں! اور لوگوں نے بھی دیکھا اور انہوں نے روزہ رکھا اور حضرت معاویہ (رض) نے بھی روزہ رکھا۔ حضرت عبداللہ (رض) نے فرمایا کہ ہم نے تو ہفتہ کی شب کو دیکها اور ہم پورے تیس روزے رکهیں گے یا چاند دیکه لیں گے، تو میں نے عرض کیا کہ کیا حضرت معاویہ کا چاند دیکھنا اور ان کا روزہ رکھنا کافی نہیں ہے؟ حضرت عبداللہ (رض) نے فرمایا نہیں! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں اسی طرح کرنے کا حکم فرمایا ہے۔
————
اس حدیث میں کریب نامی شخص بھی مدینہ کا ہے وہاں کا مقیم ہے لہذا اب یہ اپنے گھر پہنچ چکا ہے اس کا سفر ختم ہو چکا ہے لہذا ایسے شخص کو شام کے سفر میں روزہ چھوڑنے کی رخصت ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کریب نے شام میں ہی روزے شروع کر دیے جبکہ نیت ٹھہرنے کی نہیں تھی – یہ بھی حدیث سے ثابت ہے کہ مسافر پر جرح نہیں گئی کہ وہ وہ چاہے تو روزہ رکھ سکتا ہے – البتہ ایک مسافر جس نے جہاں سے رمضان شروع کیا اگر سفر کرنے کے بعد نئے مقام پر جہاں وہ رہتا ہے پہنچ گیا ہے اور اس کے ٢٩ روزے نہیں ہوئے تو اب اس کا سفر ختم ہو چکا ہے اب یہ مقیم ہے اس کے اپنے علاقے میں عید ہوئی تو یہ عید کرے پھر اس کے بعد روزے رکھے
اگر یہ شخص نئے مقام (پر رکنے کی نیت سے نہیں آیا تو یہاں) پر عید کر لے پھر واپس آ کر روزے رکھے -یہ آسانی ہے اور یہ بھی رسول الله سے ثابت ہے کہ اگر ایک کام میں آسانی ہو تو آسانی والا طریقہ کیا جائے- بطور مسافر اس پر آسانی ہے

اگر سفر سے پہلے جہاں چاند دیکھا وہاں پر ٣٠ روزے ہو چکے اور اس شخص کے ٣٠ روزے ہو گئے اور سفر کے کر کے اس مقام پر آیا جہاں ابھی عید نہیں ہوئی تو اس شخص پر روزہ رکھا ضروری نہیں ہے کیونکہ یہ ایک ماہ کی گنتی پوری کر چکا – اب یہ چاہے تو نفلی روزہ رکھے یا روزہ نہ رکھے
و الله اعلم

صحیح مسلم ، جلد ٢ ، باب : قیام رمضان کی ترغیب اور وہ تراویح ہے ، حدیث 1785

اوزاعی نے کہا : مجھ سے عبدہ ( بن ابی لبابہ ) نے زر ( بن جیش ) سے حدیث بیان کی ، انھوں نے کہا : میں نے ابی ابن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ، وہ کہہ رہے تھے جب کہ ان سے کہاگیا کہ عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں : جس نے سال بھر قیام کیا اس نے شب قدر کو پالیا تو ابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں!وہ رات ر مضان میں ہے ۔ ۔ ۔ وہ بغیر کسی استثناء کے حلف اٹھاتے تھے ۔ ۔ ۔ اور اللہ کی قسم! میں خوب جانتا ہوں کہ وہ رات کون سی ہے ، یہ وہی رات ہے جس میں قیام کا ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا ، یہ ستائیسویں صبح کی رات ہے اور ا س کی علامت یہ ہے کہ اس دن کی صبح کو سورج سفید طلوع ہوتا ہے ، اس کی کوئی شعاع نہیں ہوتی ۔

جواب

مختصرا یہ مصنف ابن ابی شیبہ میں بھی ہے
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: ثنا ابْنُ أَبِي خَالِدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ زِرَّ بْنَ حُبَيْشٍ الْأَسَدِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أُبَيَّ، يَقُولُ: «هِيَ لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ»
ابی نے کھا یہ ٢٧ کی رات ہے

ایسا قول معاویہ رضی الله عنہ کا بھی ہے
مشکل الاثار میں ہے
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي دَاوُدَ , قَالَ: ثنا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُعَاذٍ , قَالَ: ثنا أُبَيٌّ , قَالَ: ثنا شُعْبَةُ , عَنْ قَتَادَةَ قَالَ: سَمِعْتُ مُطَرِّفَ بْنَ عَبْدِ اللهِ يُحَدِّثُ , عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ , قَالَ: «لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ»
معاویہ نے کہا یہ ٢٧ کی رات ہے

معجم ابو یعلی میں ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ بَرَّادِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنِ الْأَجْلَحِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، قَالَ: قَالَ لِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ: «إِنِّي لَأَعْرِفُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ، هِيَ لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ، وَهِيَ اللَّيْلَةُ الَّتِي أَخْبَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الشَّمْسَ تَطْلُعُ فِي صَبِيحَتِهَا بَيْضَاءَ تَرَقْرَقُ، لَيْسَ لَهَا شُعَاعٌ، كَأَنَّهَا طَسْتٌ»

سورج ایسا لگے گا جس میں شعاع نہ ہو گویا ایک طشت ہو

شرح السنہ از بغوی میں ہے
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ أَحْمَدَ الْمَلِيحِيُّ، أَنا أَبُو مَنْصُورٍ السَّمْعَانِيُّ، نَا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّيَّانِيُّ، نَا حُمَيْدُ بْنُ زَنْجُوَيْهِ، نَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، نَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرٍّ، قَالَ: قُلْتُ لأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ: ” أَبَا الْمُنْذِرِ، أَخْبِرْنَا عَنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ، قَالَ: فَإِنَّ ابْنَ أُمِّ عَبْدٍ يَقُولُ: مَنْ يَقُمِ الْحَوْلَ يُصِبْهَا، فَقَالَ: رَحِمَ اللَّهُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَمَا إِنَّهُ قَدْ عَلِمَ أَنَّهَا فِي رَمَضَانَ، وَلَكِنْ كَرِهَ أَنْ يُخْبِرَكُمْ، فَتَتَّكِلُوا، هِيَ وَالَّذِي أَنْزَلَ الْقُرْآنَ عَلَى مُحَمَّدٍ لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ، فَقُلْنَا: يَا أَبَا الْمُنْذِرِ، أَنَّى عَلِمْتَ هَذَا؟ قَالَ: بِالآيَةِ الَّتِي أَخْبَرَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَفِظْنَا وَعَدَدْنَا، هِيَ وَاللَّهِ لَا نَسْتَثْنِي، قَالَ: قُلْنَا لِزِرٍّ: وَمَا الآيَةُ؟ قَالَ: تَطْلُعُ الشَّمْسُ، كَأَنَّهَا طَاسٌ، لَيْسَ لَهَا شُعَاعٌ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ
زر نے کہا میں نے ابی سے کہا کہ اے ابو المنذر ہم کو شب قدر کی خبر دیں اور کہا کہ ابن مسعود کہتے ہیں جس نے قیام کیا وہ اس کو پائے گا پس ابی بن کعب نے کہا الله ابن مسعود پر رحم کرے وہ جانتے ہیں یہ رمضان میں ہے لیکن انہوں نے کراہت کی کہ اس کی خبر دیں اور وہ یہ کہ ٢٧ کی رات رسول الله پر قرآن نازل ہوا پس ہم نے کہا اے ابو المنذر اپ کو یہ کس سے پتا چلا؟ ابی نے کہا ایک نشانی سے جس کی خبر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دی جس کو ہم نے یاد رکھا اور گنا اور الله کی قسم ہم نے اس کو الگ کیا ہم نے زر سے کہا وہ کیا نشانی ہے ؟ کہا سورج طلوع ہو گا جیسے کہ طشت ہو اس میں شعاع نہیں ہو گی

اب تمام عالم پر ایک رات قائم ہو گی جو شب قدر ہو گی کہیں یہ ٢٧ بن جائے گی اور کہیں ٢٦ بن جائے گی اور ممکن ہے کہیں ٢٨ کی رات ہو لہذا ابن مسعود رضی الله عنہ نے اس کو ٢٧ پر مقید نہیں کیا
سورج کی تپش اغلبا کم ہو گی اور اس میں سے تپش کی کرنیں اس رات کی صبح زمین پر نہیں آئیں گی
—–

زمین کے موسموں اور
solar flare
کا گہرا تعلق ہے

(صحیح مسلم)

سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے پہلے عشرہ میں اعتکاف کیا پھر درمیانی عشرہ میں ایک ترکی خیمہ میں کہ جس کے دروازے پر چٹائی لٹکی ہوئی تھی، اعتکاف کیا۔ (تیسرے عشرے کے شروع میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے چٹائی کو پکڑ کر خیمے کے ایک کونے میں کر دیا اور اپنا سر باہر نکال کر لوگوں سے مخاطب ہوئے تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے رات (لیلة القدر) کی تلاش میں پہلے عشرہ میں اعتکاف کیا، پھر درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا، پھر میرے پاس کوئی (فرشتہ) آیا اور میری طرف یہ وحی کی گئی کہ (لیلة القدر کی) یہ رات آخری عشرہ میں ہے۔ تم میں سے جو شخص اعتکاف کرناچاہے تو وہ اعتکاف کرے۔ چنانچہ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ اعتکاف کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے دکھایا گیا کہ وہ طاق راتوں میں ہے اور میں اس کی صبح کو پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا ہوں۔ پھر جب اکیسویں شب کی صبح ہوئی اور اس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح تک نماز پڑھتے رہے۔ اور بارش ہوئی تو مسجد ٹپکی اور میں نے مٹی اور پانی کو دیکھا۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز پڑھ کر نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی اور ناک کی چوٹی پر مٹی اور پانی کا نشان تھا اور وہ اکیسویں رات تھی۔

==================

(صحیح مسلم)

سیدنا عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے شب قدر دکھائی گئی تھی پھر بھلا دی گئی۔ اور میں نے (خواب میں) دیکھا کہ اس رات کی صبح کو میں پانی اور کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں۔ راوی نے کہا کہ ہم پر تئیسویں شب کو بارش برسی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ کر پھرے (یعنی صبح کی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی اور ناک پر پانی اور کیچڑ کا اثر تھا۔ اور سیدنا عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ تئیسویں رات کو شب ِ قدر کہا کرتے تھے۔

جواب

حدثنا ایوب عن ابی قلابہ قال :جاءنا مالک بن الحویرث رضی اللہ عنہ فی مسجدنا ھذا فقال :انی لاصلیبکم وما اریدالصلاة،اصلی کیف رایت للنبی صلی اللہ علیہ وسلم یصلی۔فقلت لابی قلابہ :کیف کان یصلی؟قال مثل شیخنا ھذا ،قال: و کان شیخنا یجلس اذا رفع راسہ من السجود قبل ان ینھض فی الرکعةالاولی۔
(رواہ البخاری:کتاب الاذان:باب من صلی بالناس وھولایرید الا ان یعلمھم صلاةالنبی صلی اللہ علیہ وسلم )

ہم سے ایوب نے ابوقلابہ عبداللہ بن زید سے بیان کیا کہ مالک بن حویرث رضی اللہ تعالی عنہ ایک دفعہ ہماری اس مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تم لوگوں کو نماز پڑھاﺅں گا اور میری نیت نماز پڑھنے کی نہیں ہے،میرا مقصد صرف یہ ہے کہ تمہیں نماز کا وہ طریقہ سکھا دوں جس طریقہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا کرتے تھے۔میں نے ابو قلابہ سے پو چھا کہ انہوں نے کیسے نمازپڑھی تھی؟انہوں نے بتایا کہ ہمارے شیخ (عمر بن سلمہ رحمتہ اللہ علیہ )کی طرح ۔شیخ جب سجدہ سے سراٹھاتے تو ذرا بیٹھ جاتے پھر کھڑے ہوتے۔

عن ابی قلابہ قال :اخبرنا مالک بن الحویرث اللیثی رضی اللہ عنہ انہ رای النبی صلی اللہ علیہ وسلم یصلی، فاذا کان فی وتر من صلاتہ لم ینھض حتی یستوی قاعدا ۔
(رواہ البخاری:کتاب الاذان:باب من استوی قاعدا فی وتر من صلاتہ ثم نھض)

ابو قلابہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے مالک بن حویرث لیثی رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب طاق رکعت (پہلی اور تیسری رکعت ) میں ہوتے تو اس وقت تک نہ اٹھتے جب تک تھوڑی دیر بیٹھ نہ لیتے۔

———-

صحیح بخاری کے مطابق مالک رضی الله عنہ صرف ٢٠ رات رکے
أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَفَرٍ مِنْ قَوْمِي، فَأَقَمْنَا عِنْدَهُ عِشْرِينَ لَيْلَةً

اس عمل کو انہوں نے بیان کیا ہے جبکہ باقی کوئی اور بیان نہیں کرتا پھر ان سے شام کا ایک مدلس ابو قلابہ بیان کرتا ہے
منفرد اقوال وہ بھی نماز جیسی چیز پر قبول نہیں کیے جا سکتے

نوٹ
اس پر عمل اہل حدیث کا نہیں ہے جبکہ مالک کی رفع الیدین والی حدیث بیان کرتے رہتے ہیں