اس سے ظاہر ہوا کہ کسی بیماری میں وفات ہو جانا عذاب الہی نہیں الا یہ کہ اس کو خاص اس شخص کے لئے بیان کیا جائے مثلا سامری کو موسی نے بددعا دی کہ تو کہتا پھرے گا مجھے مت چھونا – یہ دعا راقم سمجھتا ہے یقینا سامری کو لگ گئی ہو گی
صحیح مسلم کی حدیث ہے
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ بْنُ الْحَجَّاجِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ قَيْسٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَمَّارٍ: أَرَأَيْتُمْ صَنِيعَكُمْ هَذَا الَّذِي صَنَعْتُمْ فِي أَمْرِ عَلِيٍّ، أَرَأْيًا رَأَيْتُمُوهُ أَوْ شَيْئًا عَهِدَهُ إِلَيْكُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: مَا عَهِدَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا لَمْ يَعْهَدْهُ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً، وَلَكِنْ حُذَيْفَةُ أَخْبَرَنِي عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فِي أَصْحَابِي اثْنَا عَشَرَ مُنَافِقًا، فِيهِمْ ثَمَانِيَةٌ لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ، ثَمَانِيَةٌ مِنْهُمْ تَكْفِيكَهُمُ الدُّبَيْلَةُ وَأَرْبَعَةٌ» لَمْ أَحْفَظْ مَا قَالَ شُعْبَةُ فِيهِمْ
أَبِي نَضْرَةَ نے قيس بن عباد أبو عبد الله الضبعي القيسي البصري سے روایت کیا کہ میں نے عمار سے کہا تم نے اپنا کیا کرایا دیکھا جو تم نے علی کے معاملے میں کیا , تمہاری کیا رائے ہے یا کوئی عہد دیا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ؟ عمار نے کہا رسول اللہ نے ہم سے کوئی عہد ایسا نہ لیا جو دوسروں سے نہ لیا ہو لیکن حذیفہ نے حدیث بیان کی : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرے اصحاب میں بارہ منافق ہیں ، آٹھ ایسے ہیں جو جنت میں داخل نہ ہوں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ میں داخل ہوجائے ان میں سے آٹھ کے لئے دبیلہ کافی ہوگا
اور باقی چار ، (أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ نے کہا ) یاد نہیں امام شعبہ نے کیا روایت کیا تھا
مسند احمد میں اسی سند سے ہے
ثَمَانِيَةٌ مِنْهُمْ تَكْفِيكَهُمُ الدُّبَيْلَةُ، سِرَاجٌ مِنْ نَارٍ يَظْهَرُ فِي أَكْتَافِهِمْ حَتَّى يَنْجُمَ فِي صُدُورِهِمْ
ان منافقوں کے کندھوں سے اگ کا شعلہ ظاہر ہوگا یہاں تک کہ ان کی چھاتیاں توڑ کر نکل جائے گا۔
مسند البزار میں ہے
قَيْسِ بْنِ عَبَّادٍ، قَالَ: قُلْنَا لِعَمَّارٍ، أَرَأَيْتَ قِتَالَكُمْ؟ أَرَأْيٌ رَأَيْتُمُوهُ فَإِنَّ الرَّأْيَ يُخْطِيءُ
قیس نے عمار سے پوچھا کہ کیا تم اپنے اپنا قتال ان سے دیکھا کیا ، تم غلط رائے پر تھے
الجمع بين الصحيحين میں أبو محمد عبد الحق بن عبد الرحمن الإشبيلي (المتوفى: 582 هـ) کہتے ہیں
قَال الأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ: لَمْ أَحْفَظْ مَا قَال شُعْبَةُ فِيهِمْ
اسود بن عامر کو یاد نہیں رہا کہ باقی چار کے بارے میں شعبہ نے کیا کہا
بحث
اس روایت کے متن میں کافی الفاظ میں شک موجود ہے کہ آخر میں میں گمان کرتا ہوں کس کا قول ہے – اس روایت میں محدثین کا اختلاف اس پر ہے کہ آگے کا کلام کس کا ہے ؟ مسند احمد اور مسند ابو یعلی میں حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، وَحَجَّاجٌ کی سند سے ہے
قَالَ شُعْبَةُ: وَأَحْسِبُهُ قَالَ: حَدَّثَنِي حُذَيْفَةُ: «إِنَّ فِي أُمَّتِي اثْنَيْ عَشَرَ مُنَافِقًا
مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَر نے کہا امام شعبہ نے گمان کیا کہ حُذَيْفَةُ نے روایت کیا کہ اصحاب رسول میں ١٢ منافق ہیں
مسند ابو یعلی میں حَدَّثَنَا الْقَوَارِيرِيُّ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عَبَّادٍ کی سند سے ہے
غندر نے کہا قَالَ شُعْبَةُ: وَأَحْسَبُهُ قَالَ: حَدَّثَنِي حُذَيْفَةُ
امام شعبہ نے گمان کیا کہ حُذَيْفَةُ نے روایت کیا کہ اصحاب رسول میں ١٢ منافق ہیں
صحیح مسلم میں مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ، کی سند سے ہے
قَالَ شُعْبَةُ: وَأَحْسِبُهُ قَالَ: حَدَّثَنِي حُذَيْفَةُ، وَقَالَ غُنْدَرٌ أُرَاهُ
محمد بن جعفر نے کہا : شعبہ نے کہا : میں گمان کرتا ہوں کہ حُذَيْفَةُ نے روایت کیا ، اور غندر نے کہا میں دیکھتا ہوں
الجمع بين الصحيحين میں أبو محمد عبد الحق بن عبد الرحمن الإشبيلي (المتوفى: 582 هـ) کہتے ہیں
شك شعبة في هذا الحديث هل هو عَنْ عمَّارٍ عَنِ النَّبِي – صلى الله عليه وسلم -، أَوْ عَنْ عمَّارٍ عَنْ حُذَيفَة عَنِ النَّبِي – صلى الله عليه وسلم -. ولم يخرج البخاري هذا الحديث.
اس حدیث میں شعبہ کو شک ہے کہ کیا یہ حدیث عمار نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے روایت کی یا عمار نے حُذَيفَة نے انہوں نے نبی صلى الله عليه وسلم سے روایت کی
امام شعبہ جب یہ حدیث سناتے تو خود شک میں آ جاتے کہ کس نے کس کی بات بیان کی ، پھر اپنے گمان کو پیش کرتے کہ اغلبا یہ حُذَيْفَةُ نے کہا ہو گا کہ اصحاب رسول میں ١٢ منافق ہیں – امام ابو حاتم کا موقف ہے کہ گمان ہے کے الفاظ قیس کے ہی ہیں جن کو لوگ امام شعبہ کا کلام سمجھ رہے ہیں – علل ابن ابی حاتم میں ہے
وسمعتُ أَبِي وسُئِلَ (1) عَنْ حديثِ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي نَضْرَة (2) ، عَنْ قَيْس بْنِ عُبَادٍ؛ قَالَ: قُلْتُ لعمَّار بْنِ يَاسِرٍ: أرأيتُم قِتَالَكُمْ، أَرَأْيٌ رَأَيْتُمُوهُ؛ فإنَّ الرأيَ يُخطِئ ويُصيب، أو عَهْدٌ عَهِدَهُ إليكم النبيُّ (ص) ؟ … ، وَفِي آخِرِ الْحَدِيثِ قَالَ – وأحسَبُه -: حدَّثني حُذَيفة: أنَّ النبيَّ (ص) قَالَ: فِي أُمَّتِي اثْنَا عَشَرَ مُنَافِقًا؟
فَقَالَ: هَذَا يقولُهُ قَيْس بن عُبَادٍ، عن حُذَيفة، وليس كلُّ إنسانٍ يَقُولُهُ
ابن ابی حاتم نے کہا میں نے اپنے باپ سے سوال کیا حدیث قَتَادَةَ کی أَبِي نَضْرَةَ سے ان کی قَيْسٍ بن عباد سے کہ میں نے عمار سے کہا تم اپنے قتال کو کیسا دیکھتے ہو تمہاری رائے غلطی کی تھی یا کوئی رسول اللہ سے عہد کر رکھا تھا ؟ اور دوسری حدیث میں ہے کہ کہا : انہوں نے گمان کیا کہ حُذَيفة نے روایت کیا کہ نبی نے فرمایا کہ میری امت میں ١٢ منافق ہیں ؟
امام ابو حاتم نے فرمایا یہ قَيْسٍ بن عباد نے بیان کیا ہے حُذَيفة سے روایت میں اور ایسا سب انسان نہیں کہتے
اس کا مطلب ہے کہ امام ابو حاتم نے نزدیک اس حدیث کے متن میں کلام قیس بن عباد مل گیا ہے – اس کو ادراج کہتے ہیں – دیگر راوی خود شک کے ساتھ بیان کرتے تھے کہ یہ شاید حذیفہ نے کہا ہو – متن میں اشکال موجود ہے کہ راوی کا ادراج ہے اور وأحسَبُه (گمان ہے ) کہنے والا قیس ہے نہ کہ صحابی حُذَيفة کا ادراج ہے
قیس بن عباد کو امام الذھبی نے تاریخ اسلام میں شِيعِيٌّ قرار دیا ہے – قیس نے خلیفہ عبد الملک کے خلاف خروج بھی کیا اور حجاج نے گردن اڑا دی – بقول ابو مخنف یہ عثمان رضی اللہ عنہ کو گالیاں دے رہا تھا
ابن حزم نے المحلى میں اس سلسلے میں ایک روایت کو کذب قرار دیا
أما حديث حذيفة فساقط: لأنه من طريق الوليد بن جميع – وهو هالك – ولا نراه يعلم من وضع الحديث فإنه قد روى أخباراً فيها أن أبا بكر، وعمر وعثمان، وطلحة، وسعد بن أبي وقاص – رضي الله عنهم – أرادوا قتل النبي صلى الله عليه وآله وسلم وإلقاءه من العقبة في تبوك – وهذا هو الكذب الموضوع الذي يطعن الله تعالى واضعه – فسقط التعلق به – والحمد لله رب العالمين
اور جہاں تک حذيفة کی حدیث کا تعلق ہے پس ساقط ہے – وہ الوليد بن جميع (الْوَلِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُمَيْعٍ الزُّهْرِيُّ) کے طرق سے روایت ہے جو ہلاک کرنے والا راوی ہے اور ہم نہیں دیکھتے کہ جان سکیں کہ اس کو کس نے گھڑا ہے (سوائے اسی کے ) کیونکہ اس نے روایت کی ہیں خبریں جن میں ہے کہ ابو بکر اور عمر اور عثمان اور طلحہ اور سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہم نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو قتل کرنے کا ارادہ کیا اور ان سے عقبہ تبوک میں ملے اور یہ بات کذب ہے گھڑی ہوئی ہے
اب ہم دیکھتے ہیں کہ الوليد بن جميع کے طرق سے روایت امام مسلم نے بیان کی ہے
أَبُو أَحْمَدَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ جُمَيْعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الطُّفَيْلِ، قَالَ: كَانَ بَيْنَ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْعَقَبَةِ؟ وَبَيْنَ حُذَيْفَةَ بَعْضُ مَا يَكُونُ بَيْنَ النَّاسِ، فَقَالَ: أَنْشُدُكَ بِاللهِ كَمْ كَانَ أَصْحَابُ الْعَقَبَةِ؟ قَالَ فَقَالَ لَهُ الْقَوْمُ: أَخْبِرْهُ إِذْ سَأَلَكَ، قَالَ: كُنَّا نُخْبَرُ أَنَّهُمْ أَرْبَعَةَ عَشَرَ، فَإِنْ كُنْتَ مِنْهُمْ فَقَدْ كَانَ الْقَوْمُ خَمْسَةَ عَشَرَ، وَأَشْهَدُ بِاللهِ أَنَّ اثْنَيْ عَشَرَ مِنْهُمْ حَرْبٌ لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ، وَعَذَرَ ثَلَاثَةً، قَالُوا: مَا سَمِعْنَا مُنَادِيَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا عَلِمْنَا بِمَا أَرَادَ الْقَوْمُ، وَقَدْ كَانَ فِي حَرَّةٍ فَمَشَى فَقَالَ: «إِنَّ الْمَاءَ قَلِيلٌ، فَلَا يَسْبِقْنِي إِلَيْهِ أَحَدٌ» فَوَجَدَ قَوْمًا قَدْ سَبَقُوهُ، فَلَعَنَهُمْ يَوْمَئِذٍ
: زہیر بن حرب، ابواحمد کوفی ولید بن جمیع ،ابوطفیل سے روایت ہے کہ اہل عقبہ (گھاٹی والوں ) میں سے ایک آدمی اور حذیفہ (رض) کے درمیان عام لوگوں کی طرح جھگڑا ہوا تو انہوں نے کہا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ بتاؤ اصحاب عقبہ کتنے تھے (حذیفہ (رض) سے) لوگوں نے کہا آپ ان کے سوال کا جواب دیں جو انہوں نے آپ سے کیا ہے حذیفہ (رض) نے کہا ہم کو خبر دی جاتی تھی کہ وہ چودہ تھے اور اگر تم بھی انہیں میں سے ہو تو وہ پندرہ ہوجائیں گے میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ ان میں سے بارہ ایسے تھے جنہوں نے دنیا کی زندگی میں اللہ اور اس کے رسول کے رضامندی کے لئے جہاد کیا۔
مصنف ابن ابی شیبہ میں الولید بن جمیع کہتا ہے کہ عقبہ والے (گھاٹی والوں ) شخص أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ تھے جن سے حُذَيْفَةَ کا جھگڑا ہوا تھا گویا اس نے ان کو منافق قرار دیا نعوذ باللہ
الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ جُمَيْعٍ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، قَالَ: كَانَ بَيْنَ حُذَيْفَةَ وَبَيْنَ رَجُلٍ مِنْهُمْ مِنْ أَهْلِ الْعَقَبَةِ بَعْضُ مَا يَكُونُ بَيْنَ النَّاسِ , فَقَالَ: أُنْشِدُكَ بِاللَّهِ , كَمْ كَانَ أَصْحَابُ الْعَقَبَةِ؟ فَقَالَ الْقَوْمُ: فَأَخْبِرْهُ فَقَدْ سَأَلَكَ , فَقَالَ أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ: قَدْ كُنَّا نُخْبَرُ أَنَّهُمْ أَرْبَعَةَ عَشَرَ , فَقَالَ حُذَيْفَةُ: ” وَإِنْ كُنْتُ فِيهِمْ فَقَدْ كَانُوا خَمْسَةَ عَشَرَ , أَشْهَدُ بِاللَّهِ أَنَّ اثْنَيْ عَشَرَ مِنْهُمْ حِزْبُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ , وَعُذِرَ ثَلَاثَةٌ , قَالُوا: مَا سَمِعْنَا مُنَادِيَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا عَلِمْنَا مَا يُرِيدُ الْقَوْمُ “
یہ واقعہ معجم طبرانی میں اور مسند البزار میں ولید بن جمیع کی سند سے آیا ہے
حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ يَعْقُوبَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ جُمَيْعٍ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، عَنْ حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: لَمَّا كَانَ غَزْوَةُ تَبُوكَ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنَادِيًا فَنَادَى أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ الْعَقَبَةَ فَلَا تَأْخُذُوهَا فَسَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْعَقَبَةِ، وَعَمَّارٌ يَسُوقُ، وَحُذَيْفَةُ يَقُودُ بِهِ فَإِذَا هُمْ بِرَوَاحِلَ عَلَيْهَا قَوْمٌ مُتَلَثِّمُونَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قُدْ قُدْ، وَيَا عَمَّارُ سُقْ سُقْ» ، فَأَقْبَلَ عَمَّارٌ عَلَى الْقَوْمِ فَضَرَبَ وُجُوهَ رَوَاحِلِهِمْ فَلَمَّا هَبَطَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْعَقَبَةِ قَالَ: ” يَا عَمَّارُ، قَدْ عَرَفْتُ الْقَوْمَ، أَوْ قَالَ: قَدْ عَرَفْتُ عَامَّةَ الْقَوْمِ أَوِ الرَّوَاحِلِ أَتَدْرِي مَا أَرَادَ الْقَوْمُ؟ “، قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: «أَرَادُوا أَنْ يَنْفِرُوا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ نے کہا جب جنگ تبوک ہوئی اپ صلی الله علیہ وسلم نے منادی کا حکم دیا کہ وہ گھاٹی میں سے جائیں گے کوئی اور اس میں سے نہ گزرے پس اپ گھاٹی میں سے گزرے اور عمار اونٹنی ہانک رہے تھے اور اس کی نکیل پکڑے تھے کہ ایک قوم ڈھاٹے باندھے آئی پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے عمار کو حکم کیا پس عمار آگے بڑھے اور ان کے چہروں پر ضربیں لگائیں نکیل سے پس جب اس گھاٹی سے اترے اپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اے عمار کیا تم ان کو جانتے ہو؟ یہ کیا چاہتے تھے ؟ میں نے کہا الله اور اس کا رسول جانتے ہیں فرمایا:یہ ہمیں (گھاٹی میں ) دھکیلنا چاہتے تھے
صفی الرحمٰن مبارکپوری نے اپنی کتاب ” الرحیق المختوم ” میں اس واقعہ کو صحیح سمجھتے ہوئے بیان کیا ہے
ورجع الجيش الإسلامي من تبوك مظفرين منصورين، لم ينالوا كيدا، وكفى الله المؤمنين القتال، وفي الطريق عند عقبة حاول اثنا عشر رجلا من المنافقين الفتك بالنبي صلى الله عليه وسلم، وذلك أنه حينما كان يمر بتلك العقبة كان معه عمار يقود بزمام ناقته، وحذيفة بن اليمان يسوقها، وأخذ الناس ببطن الوادي، فانتهز أولئك المنافقون هذه الفرصة، فبينما رسول الله صلى الله عليه وسلم وصاحباه يسيران إذ سمعوا وكزة القوم من ورائهم، قد غشوه وهم ملتثمون، فبعث حذيفة فضرب وجوه رواحلهم بمحجن كان معه، فأرعبهم الله، فأسرعوا في الفرار حتى لحقوا بالقوم، وأخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم بأسمائهم، وبما هموا به، فلذلك كان حذيفة يسمى بصاحب سر رسول الله صلى الله عليه وسلم، وفي ذلك يقول الله تعالى: وَهَمُّوا بِما لَمْ يَنالُوا.
اسلامی لشکر تبوک سے مظفر و منصور واپس آیا ۔ کوئی ٹکر نہ ہوئی ۔ اللہ جنگ کے معاملے میں مومنین کے لیے کافی ہوا ۔ البتہ راستے میں ایک جگہ ایک گھاٹی کے پاس بارہ منافقین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی کوشش کی ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس گھاٹی سے گزر رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف عمار رضی اللہ عنہ تھے جو اونٹنی کی نکیل تھامے ہوئے تھے اور حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ تھے جو اونٹنی ہانک رہے تھے ۔ باقی صحابہ کرام دور وادی کے نشیب سے گزر ہے تھے اس لیے منافقین نے اس موقع کو اپنے ناپاک مقصد کے لیے غنیمت سمجھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف قدم بڑھایا ۔ ادھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ساتھی حسب معمول راستہ طے کررہے تھے کہ پیچھے سے ان منافقین کے قدموں کی چاپیں سنائی دیں ۔ یہ سب چہروں پہ ڈھاٹا باندھے ہوئے تھے اور اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تقریباً چڑھ ہی آئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو ان کی جانب بھیجا ۔ انہوں نے ان کی سواریوں کے چہروں پر اپنی ایک ڈھال سے ضرب لگانی شروع کی ، جس سے اللہ نے انہیں مرعوب کردیا اور وہ تیزی سے بھاگ کر لوگوں میں جا ملے ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نام بتائے اور ان کے ارادے سے باخبر کیا اسی لیے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ’’ رازدان ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ اسی واقعہ سے متعلق اللہ کا یہ ارشاد نازل ہوا کہ ’’ وَھَمُّوْا بِمَا لَم یَنَالُوْا (9: 74) انہوں نے اس کام کا قصد کیا جسے وہ نہ پا سکے
الْوَلِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُمَيْعٍ الزُّهْرِيُّ نے بعض روایات میں ان اصحاب رسول کے نام لئے ہیں جو جلیل القدر ہیں اس کی یہ روایت ابن حزم تک پہنچیں اور انہوں نے اس کو کذب قرار دیا
قال العقيلي: فِي حديثه اضطراب.
وقال ابْن حبّان: فحش تفرُّده.
امام مسلم نے حُذَيْفَةَ اور ایک شخص کے جھگڑے کی جو روایت نقل کی ہے اسمیں الولید کا تفرد ہے
کتاب التَّكْميل في الجَرْح والتَّعْدِيل ومَعْرِفة الثِّقَات والضُّعفاء والمجَاهِيل از ابن کثیر کےمطابق
قال الحاكم : لو لم يذكره مسلم في صحيحه كان أولى
امام حاکم نے کہا اگر مسلم نے اس کا صحیح میں ذکر نہ کیا ہوتا تو وہ اولی تھا
گھاٹی والا واقعہ ساقط الاعتبار ہے
دلائل النبوه میں بیہقی نے روایت کیا
أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَيْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو الْحَرَّانِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَصْبَعِ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى الْحَرَّانِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ قَالَ: ” كُنْتُ آخِذًا بِخِطَامِ نَاقَةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقُودُ بِهِ وَعَمَّارٌ يَسُوقُهُ أَوْ أَنَا أَسُوقُهُ وَعَمَّارٌ يَقُودُهُ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْعَقَبَةِ فَإِذَا أَنَا بِاثْنَىْ عَشَرَ رَاكِبًا قَدِ [ص:261] اعْتَرَضُوهُ فِيهَا قَالَ: فَأَنْبَهْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهِمْ فَصَرَخَ بِهِمْ فَوَلَّوْا مُدْبِرِينَ فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَلْ عَرَفْتُمُ الْقَوْمَ؟» قُلْنَا: لَا يَا رَسُولَ اللهِ كَانُوا مُتَلَثِّمِينَ وَلَكِنَّا قَدْ عَرَفْنَا الرِّكَابَ قَالَ: «هَؤُلَاءِ الْمُنَافِقُونَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهَلْ تَدْرُونَ مَا أَرَادُوا؟» قُلْنَا: لَا قَالَ: «أَرَادُوا أَنْ يَزْحَمُوا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْعَقَبَةِ فَيُلْقُوهُ مِنْهَا» قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ أَوَلَا تَبْعَثُ إِلَى عَشَائِرِهِمْ حَتَّى يَبْعَثَ إِلَيْكَ كُلُّ قَوْمٍ بِرَأْسِ صَاحِبِهِمْ قَالَ: «لَا أَكْرَهُ أَنْ تَحَدَّثَ الْعَرَبُ بَيْنَهَا أَنَّ مُحَمَّدًا قَاتَلَ بِقَوْمٍ حَتَّى إِذَا أَظْهَرَهُ اللهُ بِهِمْ أَقْبَلَ عَلَيْهِمْ يَقْتُلُهُمْ» ثُمَّ قَالَ: «اللهُمَّ ارْمِهِمْ بِالدُّبَيْلَةِ» . قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ وَمَا الدُّبَيْلَةُ قَالَ: «شِهَابٌ مِنْ نَارٍ يَقَعُ عَلَى نِيَاطِ قَلْبِ أَحَدِهِمْ فَيَهْلِكُ»
سند منقطع ہے
جامع التحصيل في أحكام المراسيل از صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) میں ہے
سعيد بن فيروز أبو البختري الطائي كثير الإرسال عن عمر وعلي وابن مسعود وحذيفة وغيرهم رضي الله عنهم
أبو البختري الطائي یہ حذيفة سے ارسال کرتا ہے
اس کا سماع علی رضی اللہ عنہ سے بھی نہیں ہے امام احمد کا قول ہے کہ اس نے علی سے نہیں سنا – حذيفة رضی اللہ عنہ المتوفی ٣٦ ھ کی وفات تو عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی پہلے کی ہے
المعجم الأوسط از طبرانی میں ہے
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ هَارُونَ، ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ رَاهَوَيْهِ، نا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، ثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ قَالَ: إِنِّي لَآخِذٌ بِزِمَامِ نَاقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقُودُهُ، وَعَمَّارٌ يَسُوقُ بِهِ، أَوْ عَمَّارٌ يَقُودَهُ، وَأَنَا أَسُوقُ بِهِ، إِذِ اسْتَقْبَلَنَا اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا مُتَلَثِّمِينَ قَالَ: «هَؤُلَاءِ الْمُنَافِقُونَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ» . قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا تَبْعَثُ إِلَى كُلِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ فَتَقْتُلَهُ، فَقَالَ: «أَكْرَهُ أَنْ يَتَحَدَّثَ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّدًا يَقْتُلُ أَصْحَابَهُ، وَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَكْفِيَنهُمْ بِالدُّبَيْلَةِ» ، قُلْنَا: وَمَا الدُّبَيْلَةُ؟ قَالَ: «شِهَابٌ مِنْ نَارٍ يُوضَعُ عَلَى نِيَاطِ قَلْبِ أَحَدِهِمْ فَيَقْتُلُهُ»
راوی عبد الله بن سَلِمة پر خود عمرو بن مرة کا قول ہے : كان يحدثنا فنعرف وننكر كان قد كبر. ہم ان سے روایت کرتے تو انکار کرتے یا روایت لے لیتے
عبد اللہ آخری عمر میں مختلط ہو گئے تھے
حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ قَالَ: كان عبد اللَّه بن سلمة قد كبر، فكان يحدثنا فتعرف وتنكر.
شعبہ نے ذکر کیا کہ عمرو نے جب سنا اس وقت تک عبد اللہ بوڑھے ہو چکے تھے پس حدیث سن کر انکار کرتے یا لیتے
یہ سند اس طرح مضبوط نہیں رہتی
بارہ منافق کون تھے ؟
طبرانی کبیر میں ہے
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا الزُّبَيْرُ بْنُ بَكَّارٍ، قَالَ: ” تَسْمِيَةُ أَصْحَابِ الْعَقَبَةِ:
الزُّبَيْرُ بْنُ بَكَّارٍ نے گھاٹی والے لوگوں پر ذکر کے کہ ان میں تھے
مُعْتِبُ بْنُ قُشَيْرِ بْنِ مُلَيْلٍ مِنْ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ شَهِدَ بَدْرًا، وَهُوَ الَّذِي قَالَ: يَعِدُنَا مُحَمَّدٌ كُنُوزَ كِسْرَى وَقَيْصَرَ، وَأَحَدُنَا لَا يَأْمَنُ عَلَى خَلَائِهِ. وَهُوَ الَّذِي قَالَ: لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ مَا قُتِلْنَا هَاهُنَا ” قَالَ الزُّبَيْرُ: ” وَهُوَ الَّذِي شَهِدَ عَلَيْهِ الزُّبَيْرُ بِهَذَا الْكَلَامِ.
وَدِيعَةُ بْنُ ثَابِتِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ وَهُوَ الَّذِي قَالَ: إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ ونَلْعَبُ، وَهُوَ الَّذِي قَالَ: مَالِي أَرَى قُرَّاءَنَا هَؤُلَاءِ أَرْغَبَنَا بُطُونًا وأَجْبَنَنَا عِنْدَ اللِّقَاءِ.
وَجِدُّ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ نَبِيلِ بْنِ الْحَارِثِ مِنْ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، وَهُوَ الَّذِي قَالَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ: يَا مُحَمَّدُ، مَنْ هَذَا الْأَسْوَدُ كَثِيرٌ شَعْرُهُ، عَيْنَاهُ كَأَنَّهُمَا قِدْرَانِ مِنْ صُفْرٍ، يَنْظُرُ بِعَيْنَيْ شَيْطَانٍ، وَكَبِدُهُ كَبِدُ حِمَارٍ، يُخْبِرُ الْمُنَافِقِينَ بِخَبَرِكَ، وَهُوَ الْمُجْتَرُّ بِخُرْئِهِ؟
وَالْحَارِثُ بْنُ يَزِيدَ الطَّائِيُّ، حَلِيفٌ لِبَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، وَهُوَ الَّذِي سَبَقَ إِلَى الْوَشَلِ الَّذِي نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَمَسَّهُ أَحَدٌ، فَاسْتَقَى مِنْهُ.
وَأَوْسُ بْنُ قَيْظِيٍّ، وَهُوَ مِنْ بَنِي حَارِثَةَ، وَهُوَ الَّذِي قَالَ: إِنَّ بُيُوتَنَا عَوْرَةٌ، وَهُوَ جَدُّ يَحْيَى بْنِ سَعِيدِ بْنِ قَيْسٍ،
وَالْجَلَّاسُ بْنُ سُوَيْدِ بْنِ الصَّامِتِ، وَهُوَ مِنْ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، وَبَلَغَنَا أَنَّهُ تَابَ بَعْدَ ذَلِكَ.
وَسَعْدُ بْنُ زُرَارَةَ مِنْ بَنِي مَالِكِ بْنِ النَّجَّارِ، وَهُوَ الْمُدَخِّنُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ أَصْغَرَهُمْ سِنًّا وَأَخْبَثَهُمْ.
وَقَيْسُ بْنُ قَهْدٍ مِنْ بَنِي مَالِكِ بْنِ النَّجَّارِ.
وَسُوَيْدٌ
وَدَاعِسٌ، وَهُمَا مِنْ بَنِي بَلْحُبْلى وَهُمَا مِمَّنَ جَهَّزَ ابْنُ أُبَيٍّ فِي تَبُوكَ يُخَذِّلَانِ النَّاسَ.
وَقَيْسُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَهْلٍ،
وَزَيْدُ بْنُ اللَّصِيتِ، وَكَانَ مِنْ يَهُودِ قَيْنُقَاعَ، فَأَظْهَرَ الْإِسْلَامَ، وَفِيهِ غِشُّ الْيَهُودِ، وَنِفَاقُ مَنْ نَافَقَ.
وَسَلَامَةُ بْنُ الْحُمَامِ، مِنْ بَنِي قَيْنُقَاعَ، فَأَظْهَرَ الْإِسْلَامَ “
زبیر بن بکار کے مطابق یہ منافق تھے
ابن هشام نے السيرة (4: 143) میں ان بارہ منافقوں کے نام لئے ہیں جنہوں نے جنگ تبوک سے واپس آنے پر اپ کو مسجد ضرار انے کی دعوت دی
فقال: وكان الذين بنوه اثنا عشر رجلا:
خذام بن خالد من بني عبيد بن زيد أَحَدِ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ ومن داره أخرج مسجد الشقاق
وثعلبة بن حاطب من بَنِي أُمَيَّةَ بْنِ زَيْدٍ
ومعتب بن قشير من بني ضبيعة بن زيد
وأبو حبيبة بن الأعزر من بني ضبيعة ابن زيد
وعباد بن حنيف أخو سهل بن حنيف مِنْ بَنِي عَمْرِو بْنِ عوف
وجارية بن عامر وابناه
مجمع بن جارية
وزيد بن جارية
ونبتل بن الحرث من بني ضبيعة
وبحزج من بني ضبيعة و
بجاد بن عثمان من بني ضبيعة
ووديعة بن ثابت وهو من بَنِي أُمَيَّةَ بْنِ زَيْدٍ رهط أبي لُبَابَةَ بْنِ عَبْدِ الْمُنْذِرِ.
یہ وہ بارہ منافق ہیں جن کے اغلبا نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابی حذيفة رضی اللہ عنہ سے ذکر کیے
الدبيلة کا ذکر
شیعہ کتاب الکافی کی روایت ہے
علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن النوفلي، عن السكوني، عن جعفر، عن آبائه عليهم السلام قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله: إن الله لاإله إلا هو ليدفع بالصدقة الداء و الدبيلة
امام جعفر نے اپنے باپ دادا سے روایت کیا کہ بلا شبہ خدا جس کے سوا کوئی اور معبود نہیں وہ ہر بیماری و الدبيلة کو صدقه سے ہٹا دیتا ہے
قال الفيروز آبادي: الدبل: الطاعون
الفيروز آبادي نے کہا الدبل سے طاعون مراد ہے
الدبيله : الطاعون ، ودمل يظهر في الجوف ويقتل صاحبه غالبا . ( مجمع البحرين ـ دبل ـ 5 : 369 ) ہ
قال ابن الاثير: ذات الجنب: هي الدبيلة
ابن اثیر کا کہنا ہے ذات الجنب ہی الدبيلة ہے
طاعون سے معاذ بن جبل ، ابو درداء وغیرہ کی وفات ہوئی ہے اور اہل سنت میں طاعون میں مرنے والے کو حدیث نبوی کی وجہ سے شہید کا درجہ دیا جاتا ہے
کتاب معارف از ابن قتیبہ میں ہے
وولى «معاوية» الخلافة عشرين سنة إلا شهرا. وتوفى ب «دمشق» سنة ستين. وهو ابن اثنتين وثمانين سنة.
وقال ابن إسحاق: مات وله ثمان وسبعون سنة. وكانت علّته الناقبات «2» [1]- يعنى: الدّبيلة [2] .
ابن اسحاق نے ذکر کیا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات الدّبيلة سے ہوئی