مندرجہ ذیل تحریر راقم کی کتاب وفات النبی کا فٹ نوٹ ہے
صحیح بخاری کی ایک روایت ہے جس میں صلح حدیبیہ کا ذکر ہے الفاظ کا ترجمہ ہے
وَلَيْسَ يُحْسِنُ أَنْ يَكْتُبَ، فَكَتَبَ مَكَانَ رَسُولُ اللهِ
اپ صلی الله علیہ وسلم لکھنے میں اچھے نہیں تھے پس (متن صلح میں رسول الله نے ) رَسُولُ اللهِ کے مقام پر لکھا
کتاب شرح الطيبي على مشكاة المصابيح از الطيبي (743هـ) میں ہے
قال القاضي عياض: احتج بهذا أناس علي أن النبي صلى الله عليه وسلم كتب ذلك بيده, وقالوا: إن الله تعالي أجرى ذلك علي يده, إما بأن كتب القلم بيده وهو غير عالم بما كتب, أو بأن الله تعالي علمه ذلك حينئذ, زيادة في معجزته كما علمه ما لم يعلم, وجعله تاليا بعدما لم يكن يتلو بعد النبوة, وهو لا يقدح في وصفه بالأمي.
قاضی عیاض نے کہا لوگوں نے دلیل لی ہے نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے لکھا اور کہا الله تعالی نے ان کے ہاتھ پر اس تحریر کو جاری کر دیا – جہاں تک قلم سے لکھنے کا تعلق ہے اور وہ اس سے لا علم تھے کیا لکھ رہے ہیں یا الله نے اس وقت ان کو علم دے دیا اس وقت اور یہ رسول الله کے معجزات میں ہے جو الله نے علم دیا
فتح الباری میں ہے اس وقت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا لکھنا معجزہ تھا
. وقول الباجي أنه -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- كتب بعد أن لم يكتب وأن ذلك معجزة أخرى
عمدة القاري شرح صحيح البخاري از عینی میں ہے
وَقَالَ السُّهيْلي: وَالْحق أَن قَوْله: فَكتب، أَي: أَمر عليا أَن يكْتب. قلت: هُوَ بِعَيْنِه الْجَواب الثَّانِي. (الثَّالِث) : أَنه كتب بِنَفسِهِ خرقاً للْعَادَة على سَبِيل المعجزة،
السُّهيْلي نے کہا حق یہ ہے کہ قول انہوں نے لکھا تو یہ انہوں نے علی کو حکم کیا کہ لکھیں اور میں عینی کہتا ہوں … ان کا لکھنا خرق عادت میں سے معجزہ تھا
یعنی اگر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے خود لکھا تو وہ اس وقت کا معجزہ تھا
صحیح مسلم میں ہے
فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَرِنِي مَكَانَهَا فَأَرَاهُ مَكَانَهَا فَمَحَاهَا وَكَتَبَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہا مجھے دکھاو وہ جگہ – پس اپ کو دکھایا گیا تو اپ نے اس کو مٹا دیا اور لکھا ابن عبد الله
یعنی رسول الله نے محمد رسول الله کے الفاظ مٹا کر کر دیا محمد بن عبد الله لکھا
امام مسلم کے نزدیک یہ کوئی معجزہ نہیں تھا صرف اتنا ہی اپ صلی الله علیہ وسلم نے کیا کہ رسول الله ہٹا کر ابن عبد الله کر دیا
امام مسلم الفاظ لائے ہیں کہ رسول اللہ کو پوچھنا پڑا کہ کہاں رسول اللہ لکھا ہے یعنی اگر یہ تمام معجزہ ہو رہا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پھر کسی صحابی سے پوچھنے کی ضرورت ہی نہ تھی کہ کہاں کیا لکھا ہے
اس طرح امام مسلم کے نزدیک یہ معجزہ نہیں ہے اور امام بخاری کے نزدیک یہ معجزہ ہوا
راقم کہتا ہے رسول الله کے ہاتھ میں انگوٹھی ہوتی تھی جس پر آپ نے محمد رسول الله کندہ کروا رکھا تھا ممکن ہے اس مہر والی انگوٹھی کو دیکھ کر اس وقت لکھا ہو
مجموعہ احادیث میں روایت میں یہ الفاظ
وَلَيْسَ يُحْسِنُ أَنْ يَكْتُبَ، فَكَتَبَ مَكَانَ رَسُولُ اللهِ اور رسول الله لکھنے میں اچھے نہیں تھے پس اپ نے اس جگہ رسول الله لکھا
صرف ابی اسحاق الکوفی نے روایت کیے ہیں جو کوفہ کے شیعہ ہیں اور شیعہ کے نزدیک رسول الله صلی الله علیہ وسلم لکھنا جانتے تھے – اہل سنت اس کے انکاری ہیں جو قرآن کے مطابق ہے
سنن ابن ماجہ میں ہے کہ رسول الله نے معراج پر جنت کے دروازے پر پڑھا کہ نیکی کا ثواب دس گنا ہے
حدثنا عبيد الله بن عبد الكريم حدثنا هشام بن خالد حدثنا خالد بن يزيد وحدثنا أبو حاتم حدثنا هشام بن خالد حدثنا خالد بن يزيد بن أبي مالك عن أبيه عن أنس بن مالك قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم رأيت ليلة أسري بي على باب الجنة مكتوبا الصدقة بعشر أمثالها والقرض بثمانية عشر فقلت يا جبريل ما بال القرض أفضل من الصدقة قال لأن السائل يسأل وعنده والمستقرض لا يستقرض إلا من حاجة
اس کی سند میں خالد بن يزيد بن أبي مالك هانئ، أبو هاشم الهمداني الشامي، أخو عبد الرحمن. متروک الحدیث ہے
راقم نزدیک رسول الله صلی الله علیہ وسلم لکھنا نہیں جانتے تھے
ڈاکٹر عثمانی رحمہ اللہ علیہ کا موقف ہے کہ یہ واقعہ معجزہ تھا سب نے دیکھا کہ رسول اللہ جو لکھنا نہیں جانتے تھے، انہوں نے اس وقت اپنے نام مبارک کے ساتھ رسول اللہ کے الفاظ کو خود مٹا دیا
اہل تشیع کے اقوال
كتاب تفسير القمي ج2 ص309_313 میں ہے
حدثني أبي عن ابن ابي عمير عن ابن سنان عن ابي عبد الله (ع) قال: كان سبب نزول هذه السورة وهذا الفتح العظيم ان الله عزوجل أمر رسول ….. فقال رسول الله أنا رسول الله وان لم تقروا، ثم قال امح يا علي ! واكتب محمد بن عبد الله، فقال أمير المؤمنين عليه السلام، ما أمحو اسمك من النبوة ابدا، فمحاه رسول الله صلى الله عليه وآله بيده.
رسول الله نے ہاتھ سے الفظ مٹا دیے
الفصول المهمة في أصول الأئمة – الحر العاملي میں روایات ہیں
محمد بن الحسن الصفار في بصائر الدرجات، عن أحمد بن محمد عن ابي عبد الله البرقي، عن جعفر بن محمد الصوفي، قال: سمعت ابا جعفر محمد بن علي الرضا ع، وقلت له: يابن رسول الله لم سمى النبي، الامي ؟ قال ما يقول الناس (1) ؟ قلت: يقولون: انما سمى الامي لانه لم يكتب فقال: كذبوا، عليهم لعنة الله، انى يكون ذلك والله تعالى يقول في محكم كتابه: (هو الذي بعث في الاميين رسولا منهم يتلوا عليهم آياته ويزكيهم ويعلمهم الكتاب (2) والحكمة فكيف يعلمهم ما لم يحسن ؟ والله لقد كان رسول الله (ص) يقرأ ويكتب باثنين وسبعين لسانا وانما سمى الامي لانه كان من مكة ومكة من امهات القرى وذلك قول الله في كتابه: (لتنذر أم القرى ومن حولها).
امام محمد بن علي الرضا کو جعفر بن محمد الصوفي نے کہتے سنا جب اس نے سوال کیا کہ اے رسول الله کے بیٹے نبی کو امی کیوں نام دیتے ہیں ؟ امام نے کہا لوگ کیا کہتے ہیں ؟ میں نے کہا کہتے ہیں یہ امی تھے کہ یہ لکھ نہیں سکتے تھے – امام نے کہا یہ جھوٹ بولتے ہیں ان پر اللہ کی لعنت ہو یہ کہاں تھے جب اللہ نے کتاب محکم میں کہا
هو الذي بعث في الاميين رسولا منهم يتلوا عليهم آياته ويزكيهم ويعلمهم الكتاب
اور حکمت کیسے وہ جان گئے اگر وہ لکھنے پڑھنے میں اچھے نہ ہوتے ؟
اللہ تعالی کی قسم بے شک رسول الله سات یا آٹھ زبانوں میں پڑھنا لکھنا جانتے تھے اور ان کو امی تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ مکی ہیں اور مکہ کو ام القری کہا جاتا ہے
راقم کہتا ہے اس کی سند میں محمد بن خالد البرقي ہے جس کو من أصحاب امام أبي الحسن موسى میں شمار کیا گیا ہے
اس نے اس روایت کو جعفر بن محمد الصوفي سے لیا ہے جو مجہول ہے
مستدركات علم رجال الحديث – الشيخ علي النمازي الشاهرودي – ج ٢ – الصفحة ٢٠٢
2785 – جعفر بن محمد الصوفي (يعني بايع الصوف):
لم يذكروه. وهو من أصحاب مولانا الجواد عليه السلام.
الفصول المهمة في أصول الأئمة – الحر العاملي میں روایت ہے
وعن عبد الله بن عامر، عن ابن ابى نجران، عن يحيى بن عمرو، عن أبيه، عن ابي عبد الله ع وسئل عن قول الله تبارك وتعالى: وأوحى الي هذا القرآن لانذركم به ومن بلغ ؟ قال: بكل لسان.
يحيى بن عمرو نے اپنے باپ سے روایت کیا کہ انہوں نے امام جعفر سے پوچھا الله تعالی کے قول پر وأوحى الي هذا القرآن لانذركم به ومن بلغ تو فرمایا ہر زبان میں
راقم کہتا ہے ابن ابی نجران مجہول ہے – الخوئی اس کی کوئی بھی تعدیل پیش نہیں کر سکے صرف کہا اس سے بہت سی روایات ہیں
الفصول المهمة في أصول الأئمة – الحر العاملي میں روایت ہے
– وعن الحسن بن علي، عن أحمد بن هلال، عن خلف بن حماد، عن عبد الرحمن بن الحجاج، قال: قال أبو عبد الله ع: ان النبي (ص) كان يقرأ ما يكتب ويقرأ ما لم يكتب
عبد الرحمن بن الحجاج نے روایت کیا کہ امام جعفر نے کہا رسول الله ہر لکھی تحریر پڑھ سکتے تھے ہے وہ بھی جو نہیں لکھا ہوا
راقم کہتا ہے نجاشی نے لکھا ہے : قال النجاشي: عبد الرحمان بن الحجاج البجلي: مولاهم، كوفي، بياع السابري، سكن بغداد، ورمي بالكيسانية، روى عن أبي عبد الله وأبي الحسن (عليه السلام)
عبد الرحمان بن الحجاج کیسانیہ فرقے کا تھا یعنی یہ محمد حنفیہ کو امام کہتا تھا غالی تھا
سند میں خلف بن حماد بن ناشر بھی ہے – ابن الغضائري : خلف بن حماد بن ناشر بن الليث الاسدي كوفي – أمره مختلط
اس کا امر مختلط ہے
اہل تشیع کے ہاں متضاد اقوال بھی ہیں – بحار الانوار ج16 ص132 میں ہے
أبي، عن سعد، عن ابن عيسى، عن البزنطي، عن أبان، عن الحسن الصيقل قال: سمعت أبا عبد الله عليه السلام يقول: كان مما من الله عزوجل به على نبيه صلى الله عليه واله أنه كان اميا لا يكتب ويقرؤ الكتاب.
امام جعفر نے کہا رسول الله نہ لکھ سکتے تھے نہ پڑھ سکتے تھے
أخرج الصدوق في علل الشرائع عن ابن الوليد عن سعد عن ابن عيسى عن الحسين بن سعيد ومحمد البرقي عن ابن أبي عمير عن هشام بن سالم عن أبي عبد الله عليه السلام قال : كان النبي يقرأ الكتاب ولا يكتب.
امام جعفر نے کہا نبی پڑھ سکتے تھے لکھ نہیں پاتے تھے