پیش لفظ
امام احمد بن حنبل کو امام بخاری کا استاد کہا جاتا ہے ، لیکن اگر ان کی کتب احاديث کا مطالعہ کیا جائے تو دونوں میں حیرت انگیز تفاوت پایا جاتا ہے – زیرنظر مضمون سن ٨٠ کی دہائی میں شمارہ حبل الله میں شائع ہوا تھا، جو مسند احمد بن حنبل اور صحیح بخاری کے سلسلے میں ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی رحمہ الله علیہ کے تحقیقی مقالہ کے طور پر چھپا تھا- اس کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ تاریخ کے حوالے سے امام بخاری اور امام احمد کے منہج میں فرق ہے جو ان کی کتب کا تقابل کرنے سے واضح ہوتا ہے – مزید یہ کہ امام بخاری نے اپنی صحیح میں امام احمد سے براہ راست کوئی بھی روایت بیان نہیں کی جبکہ دونوں ہم عصر تھے اور امام احمد کے لئے مشھور کیا گیا ہے کہ وہ امام بخاری کے استاد تھے – علم دوستوں کے لئے اس مضمون کو کتابی شکل دی گئی ہے
عصر حاضر کے عرب محققین دکتور شعیب الأرنؤوط ، دکتور احمد شاکر اور ناصر الدین البانی نے اس مضمون میں پیش کردہ مسند احمد کی بعض روایات کو صحیح کہا ہے اور بعض کو ضعیف- لہذا ان محقیقن کے اختلاف و اجماع کا بھی حاشیہ میں ذکر کر دیا گیا ہے تاکہ دیکھا جا سکے کہ عرب محققین کی ان آراء کو قبول کرنے سے خود صحیح بخاری کی روایات ہی مشکوک ہو جاتی ہیں – واضح رہے کہ ہمارے نزدیک اس مضمون میں پیش کردہ مسند احمد کی تمام روایات ضعیف ہیں اور اس پر ویب سائٹ پر پہلے سے کافی مواد موجود ہے جو محققین کے لئے قابل غور ہے-
دیگر مباحث
اہل سنت میں رافضیت کے بیچ
مستشرقین واقدی اور مسند احمد
امام احمد اور عمار (رضی) کا قتل
امام احمد اور حدیث کساء
————-
حرف آخر
امام احمد کا علی رضی الله عنہ کے مخالفین کے حوالے سے بغض کا انداز تھا وہ معاویہ رضی الله عنہ کو خلفیہ نہیں مانتے تھے اور ان کو بادشاہ قرار دیتے تھے – امام احمد کے نزدیک معاویہ رضی الله عنہ کی خلافت شروع ہونے سے پہلے ہی حقیقی خلافت ختم ہو چکی تھی – امام احمد کے نزدیک اگرچہ اس پر کوئی صحیح حدیث نہیں کہ معاویہ یا لشکر شام نے عمار رضی الله عنہ کا قتل کیا- امام احمد حدیث کساء کو بھی منکر قرار دیتے تھے – امام احمد اس سے بھی منع کرتے کہ کوئی امیر یزید سے روایت بھی کرے
امام احمد کے نزدیک وہ شخص لائق کرم نہیں جو معاویہ رضی الله عنہ کو گالی دے
وقال ابن هانيء: وسئل (يعني أبا عبد الله أحمد بن حنبل) عن الذي يشتم معاوية أيصلى خلفه؟ قال: لا يصلى خلفه ولا كرامة. «سؤالاته» (296) .
ابن هانيء: نے کہا میں نے احمد سے پوچھا کیا اس کے پیچھے نماز پڑھ لوں جو معاویہ کو گالی دے ؟ کہا اس کے پیچھے نماز مت پڑھو نہ عزت کرو
البتہ احمد نے حب علی میں مسند میں شیعیت کی راویات کو اکھٹا کر دیا جو بغداد میں اس دور میں سر چڑھ چکی تھی –
یہ کتاب بہت عرصہ پہلے پڑھی تھی – یہ بہت اچھی کاوش ہے – ماشاءاللہ
جزاکم الله خیرا
السلام وعلیکم و رحمت الله
مندرجہ ذیل روایت کی کیا حیثیت ہے ؟؟
كنا نتحدث أن أفضل أهل المدينة علي بن أبي طالب۔
(فضائل الصحابہ لاحمد بن حنبل، مسند البزار)
روافض حضرت علی رضی الله عنہ کو سب سے افضل ثابت کرنے کے لیے یہ روایت پیش کرتے ہیں
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قثنا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، نا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: كُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّ أَفْضَلَ أَهْلِ الْمَدِينَةِ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ.
—
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْجُنَيْدِ، قَالَ: نا يَحْيَى بْنُ السَّكَنِ، قَالَ: نا شُعْبَةُ، قَالَ: نا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: «كُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّ أَفْضَلَ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ابْنُ أَبِي طَالِبٍ»
—
سند میں کوفی أَبِي إِسْحَاقَ، شیعہ ہے
مدلس بھی ہے عن سے ہے
ایک اہل حدیث کے اعتراضات الجواب:یہ عبارات ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی صاحب کی دجل اور اکاذیب پر مبنی ایک کتاب کا حاصل ہے جس میں اس نے بخاری و مسند احمد کا موازنہ پیش کیا ہے-اس کتاب کے مطالعے سے ڈاکٹر صاحب کی فہمِ حدیث کا اندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے کہ وہ کس قدر حدیث کے فہم سے نا آشنا تھے یا وہ حدیث کے معاملے میں کس قدر دجل و فریب کے مرتکب تھے-مثلًا یہاں پر ڈاکٹر صاحب کی کتاب سے جو استفادہ پیش ہوا ہے اس پر تبصرہ ملاحظہ کریں
بخاری میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے متعلق احادیث پیش کرنے کے بعد دعوی کیا گیا ہے کہ
*اس کے برعکس لیکن مسند احمد بن حنبل کی روایت بیان کرتی ہے کہ ابوبکرؓ خلافت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں نہیں تھے بلکہ علی رضی کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم خلیفہ بنانا چاہتے تھے*
عرض ہے بخاری کی جن احادیث کے باب میں مسند احمد کیلئے *برعکس* کے لفظ سے جس دجل و فریب دینے کی سعی کی جاتی ہے ان میں سے
1)پہلی حدیث وہ ہے جس میں ہے
*لَقَدْ هَمَمْتُ أَوْ أَرَدْتُ أَنْ أُرْسِلَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ وَابْنِهِ فَأَعْهَدَ أَنْ يَقُولَ الْقَائِلُونَ أَوْ يَتَمَنَّى الْمُتَمَنُّونَ* (بخاری،کتاب المرضی،باب قَوْلِ الْمَرِيضِ إِنِّي وَجِعٌ،رقم 5666/بخاری،کتاب الاحکام،باب الاستخلاف،رقم 7217)
میرا ارادہ ہوتا تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے کو بلاوا بھیجوں اور انہیں ( خلافت کی ) وصیت کر دوں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے بعد کہنے والے کچھ اور کہیں ( کہ خلافت ہمارا حق ہے ) یا آرزو کرنے والے کسی اور بات کی آرزو کریں
یہی حدیث امام احمد ابن حنبل نے مسند احمد میں بھی روایت کی ہے دیکھئے مسند احمد، مُسْنَدُ الصِّدِّيقَةِ عَائِشَةَ بِنْتِ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،رقم 25113
معلوم ہوا کہ خلافت ابوبکر میں بخاری و مسند احمد میں کوئی تصادم نہیں اور مسند احمد پر سند پیش ہونے کے باوجود فرد جرم عائد کرنا یقینًا دجل و فریب ہے( *والعیاذ بااللہ* )
2)دوسری حدیثِ بخاری وہ ہے جس میں ہے کہ
ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ پھر آنا۔ اس نے کہا اگر میں آؤں اور آپ کو نہ پاؤں تو؟ گویا وہ وفات کی طرف اشارہ کر رہی تھی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
*إِنْ لَمْ تَجِدِينِي فَأْتِي أَبَا بَكْرٍ*
اگر تم مجھے نہ پا سکو تو ابوبکر کے پاس چلی آنا
(بخاری،کتاب فضائل اصحاب النبی،رقم 3659/بخاری ،کتاب الاحکام،باب الاستخلاف رقم 7220/بخاری،کتاب الاعتصام،باب الْأَحْكَامِ الَّتِي تُعْرَفُ بِالدَّلَائِلِ،رقم 7360)
یہی حدیث امام احمد ابن حنبل نے دو مرتبہ مسند احمد کے اندر روایت کی ہے دیکھئے مسند احمد،مُسْنَدُ الْمَدَنِيِّينَ،حَدِيثُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، رقم نمبر 16755 اور رقم نمبر 16767)
لھذا اس دجل و فریب سے بھی پردہ اٹھ گیا
3)تیسری حدیثِ بخاری وہ ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
*مُرُوا أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ*
ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے(صحیح بخاری،کتاب الاذان،باب حَدِّ الْمَرِيضِ أَنْ يَشْهَدَ الْجَمَاعَةَ،رقم 664)
یہی حدیث امام احمد ابن حنبل مسند احمد میں تقریبًا 10 مرتبہ لائے ہیں مثلًا دیکھئے مسند احمد،مُسْنَدُ الصِّدِّيقَةِ عَائِشَةَ بِنْتِ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،رقم24647 اور رقم25258)
لھذا یہ کوشش بھی جہالت یا جھوٹ اور عیاری پر مبنی تھی
4)علی رضی اللہ عنہ سے ابوبکر صدیق کی فضیلت صرف امام بخاری نے ذکر نہیں کی ہے بلکہ تقریبًا 23 مرتبہ علی رضی اللہ عنہ سے امام احمد ابن حنبل نے مسند احمد کی اندر بھی ذکر کی ہے
لھذا یہ سہارا بھی کبیت العنکبوت ثابت ہوا
5)اے علی میرے بعد اگر تم خلیفہ بنے تو اہل نجران کو جزیرة العرب سے نکال دینا
پہلی بات یہ ہے کہ اس روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کی نفی بالکل بھی نہیں ہے کیونکہ ابوبکر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کے بعد ہی تھے،عمر رضی اللہ عنہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تھے اور اسی طرح عثمان و علی رضی اللہ عنہما بھی ان کے بعد تھے *یعنی بعد ترتیب کو مستلزم نہیں ہے*
دوسری بات یہ ہے کہ امام احمد ابن حنبل نے اس روایت کی سند بیان کی ہے جو کہ *ضعیف جدًا* ہے اسلئے وہ اس روایت کی وبال سے برئ الذمہ ہے جیسا کہ ہم نے پہلے یہ ثابت کیا ہے کہ سند بیان کرنے سے محدث ضعیف روایت کے وبال سے برئ ہوجاتا ہے
تیسری بات اسی معنی کی حدیث امام ترمذی اور امام دارمی نے نقل کی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ سے کہا ہے کہ اھل نجران کو جزیرة العرب سے نکال دو اسلئے ڈاکٹر صاحب کے اس فتوے کا امام ترمذی اور امام دارمی بھی شکار ہوجاتے ہیں
6)بخاری میں عائشہ رضی اللہ عنھا کی جس حدیث میں ہے کہ
*مَتَى أَوْصَى إِلَيْهِ*
اس نے کب اس(علی)کے بارے میں وصیت کی(بخاری،کتاب الوصایا،باب الوصایا،رقم 2741/بخاری کتاب المغازی،رقم 4459)
اس کے بارے میں صاحب نے یہ جھوٹا دعوی کیا کہ گویا کہ بخاری نے وصیت کے معاملے میں احمد ابن حنبل کی شدت کیساتھ تردید اسی حدیثِ عائشہ سے کی ہے حالانکہ امام احمد ابن حنبل نے مسند احمد میں یہی حدیثِ عائشہ روایت کیا ہے دیکھئے مسند احمد،مُسْنَدُ الصِّدِّيقَةِ عَائِشَةَ بِنْتِ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،رقم 24039
لھذا اس دجل کی بھی قلعی کھل گئی
7)بخاری میں ہے *لَا يَبْقَيَنَّ فِي الْمَسْجِدِ بَابٌ إِلَّا سُدَّ إِلَّا بَابُ أَبِي بَكْرٍ*
مسجد میں سوائے ابوبکر کے دروازے کے سارے دروازے بند ہونے چاہئیے(بخاری،کتاب الصلاة،باب الْخَوْخَةِ وَالْمَمَرِّ فِي الْمَسْجِدِ،رقم466/ بخاری،کتاب فضائل اصحاب النبی،رقم3654/بخاری،کتاب مناقب الانصار،رقم 3904)
امام احمد ابن حنبل نے یہی حدیث مسند احمد میں روایت کی ہے دیکھئے مسند احمد،مُسْنَدُ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،رقم 11134 اور رقم 11863
اسلئے یہ اعتراض نہیں بلکہ جہالت یا فریب تھا
8)مسند احمد کی *باب علی رضی عنه* سے متعلق زید بن ارقم کی جس حدیث کو ذریعہ تقابل بنایا جاتا ہے تو اس کے بارے میں عرض ہے
(الف) یہ روایت مسند احمد میں زید ابن ارقم،عبداللہ ابن عباس اور سعد بن مالک رضی اللہ عنھم سے ضعیف،مجہول اور منکر طرق سے مروی ہے دیکھئے مسند احمد رقم 1511 سعد بن مالک اور رقم3061 ابن عباس اور رقم19287 زید بن ارقم
اور یہ کوئی نئی بات نہیں کہ سند لانے سے محدث برئ ہوجاتا ہے
(ب) عبداللہ ابن عباس کی روایت امام ترمذی نے بھی روایت کی ہے دیکھئے رقم 3732 اورامام ترمذی امام بخاری کے شاگر رشید ہے-
امام بخاری کی ایک اور شاگرد رشید احمد بن شعیب النسائی نے تو باقاعدہ باب علی پر باب باندھا ہے
*باب ﻗَﻮْﻝِ اﻟﻨَّﺒِﻲِّ ﺻَﻠَّﻰ اﻟﻠﻪُ ﻋلیہ ﻭَﺳَﻠَّﻢَ ﺃُﻣِﺮْﺕُ ﺑِﺴَﺪِّ ﻫَﺬِﻩِ اﻷَْﺑْﻮَاﺏِ ﻏَﻴْﺮَ ﺑﺎﺏ ﻋﻠﻲ* (السنن الکبری للنسائی)
اور السنن الکبری کے اندر مذکورہ روایت ایک بار نہیں بلکہ 5 مرتبہ بیان کیا ہے
امام بخاری کی اور شاگرد ابن ابی عاصم نے عبداللہ بن ارقم،عبداللہ ابن عباس اور عبداللہ ابن عمر سے یہ روایت تین دفعہ بیان کی ہے دیکھئے السنة لابن ابی عاصم رقم 1384،1351،1326-
اور اسی طرح امام نسائی کے شاگرد امام طبرانی نے بھی المعجم الاوسط میں مذکورہ روایت بیان کی ہے رقم 3930 اور المعجم الکبیر میں بھی بیان کی ہے رقم 2031
یہ تو صرف ان کی ایک مثال کی دجل و فریب کی وضاحت تھی مزید بھی اس سے زیادہ ڈاکٹر صاحب کی مذکورہ کتابچے سے ڈاکٹر صاحب کی فہم حدیث سے نا آشنائی یا دجل و فریب کی قلعی کھل سکتی ہے
ان لوگوں کو ڈاکٹر عثمانی کی کتاب سمجھ میں نہیں آئی کیونکہ ان کو سمجھ ہی نہیں آیا کہ کتاب کا مدعا کیا ہے
شیعہ مسلک والوں کی وہ کتب پڑھی ہوں جو وہ اہل سنت کے لئے لکھتے ہیں اگر وہ کسی نے پڑھی ہوں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ عثمانی صاحب کے کام کا کیا مقام ہے
شیعیت کو رواج اہل سنت کی دو کتب سے ملتا ہے ایک مسند احمد دوسری مستدرک حاکم – ان دونوں کتب میں شیعی مواد جمع کیا گیا
عثمانی صاحب کو اعتراض ان روایات پر تھا کہ ان کو جمع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی
اسناد محدث نے دے دی ہیں یہ تو تاریخ طبری وغیرہ پر بھی کہا جاتا ہے لیکن انہی با سند کتب سے ہی اہل سنت میں معاویہ کو کیا کچھ نہیں کہا جا رہا ؟
امام احمد خود اس کے قائل تھے کہ معاویہ کی بادشاہت تھی ملوکیت تھی اصل خلافت ختم ہو چکی تھی
اس پر حوالہ جات میری کتب میں موجود ہیں
یہ موقف انہی محدثین کا بنا تھا تو شیعی رجحان پر جا چکے تھے
مسند احمد میں شیعیت کے لئے خام مال جمع کیا گیا ہے جس سے کسی کو انکار نہیں
سلیمان ندوی کے بقول کہ مستشرقین نے بھی مسند کو پسند کیا ہے
ظاہر ہے کچھ تو ہے جو ہر طبقہ پسند کرتا ہے
ان کے نزدیک اس سے امام احمد کی عظمت کا پہلو نکلتا ہے
ہمارے نزدیک ان کی تنقیص کا پہلو نکلتا ہے
یہ زاویہ کا فرق ہے
————–
میں نے عثمانی صاحب کی کتاب کی تعلیق اور ضمیمہ میں راویوں پر امام احمد کے اقوال بھی دے دیے ہیں
ان کی شیعی آراء کی وجوہات اور حدود بھی ضمیمہ میں دے دی ہیں