ساتویں صدی ہجری کے آخری سالوں کا ذکر ہے جب السلطان الملك الناصر ناصر الدين محمد بن قلاوون کا دور تھا خبر پھیلی کہ أهل السويداء میں سے ایک نصرانی جس کو أَمِير آل مرا عساف بن أحمد بن حجى نے ملازم و کاتب رکھا ہوا تھا وہ شتم رسول کا مرتکب ہوا ہے ( البداية ج13 ص335 ذکر سنة أربع وتسعين وستمائة -)- ابن کثیر لکھتے ہیں
عساف بن أحمد بن حجي الذي كان قد أجار ذلك النصراني الذي سب الرسول عليه السلام قتل ، ففرح الناس بذلك
عساف بن أحمد بن حجي ،جس نے اجرت پر اس نصرانی کو رکھا تھا جس نے سب النبی کیا تھا ، اس کا قتل ہو گیا تو لوگ بہت خوش ہوئے
یعنی ایک مسلمان امیر عساف بن أحمد بن حجي کے قتل پر اہل مصر خوش ہوئے اور ساتھ ہی مسلمان امیر عساف کے کسی نصرانی ملازم پر الزام لگایا گیا کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی ہے – یہ نصرانی کتابت کرتا تھا –
تاریخ اسلام میں الذھبی لکھتے ہیں
وفيها كانت فتنة عسّاف بدمشق ورجْم العوامّ له، لكونه حمى نصرانيًا سبَّ النَّبيّ – صَلَّى الله عليه وسلم
ان دنوں دمشق میں فتنہ عساف ہوا اور لوگوں نے پتھر مارے کہ یہ نصرانییوں کا ہمدرد تھا جو سب النبی کا مرتکب تھا
الذھبی عساف ابن الأمير أَحْمَد بْن حجيّ، زعيم آل مرّي کے ترجمہ میں لکھتے ہیں
أعرابيّ شريف، مُطاع. وهو الَّذِي حمى النّصرانيّ الَّذِي سبّ، فدافع عَنْهُ بكلّ ممكن
یہ شریف عربی تھے ، تابعدار تھے اور اس نصرانی کے دوست تھے جس نے نبی کو گالی دی تھی ، پس انہوں نے اس کی ہر ممکن مدافعت کی
الذھبی مزید لکھتے ہیں
فطلع الشيخان زين الدِّين الفارقيّ، وتقيّ الدِّين ابن تيميّة فِي جمْع كبير من الصُلَحاء والعامّة إلى النّائب عزَّ الدِّين أيْبَك الحَمَويّ، وكلّماه فِي أمر الملعون، فأجاب إلى إحضاره وخرجوا، فرأى الناس عسافا، فكلّموه فِي أمره، وكان معه بدويّ، فقال: إنّه خيرٌ منكم. فرَجَمَتْه الخلق بالحجارة. وهرب عساف، فبلغ ذلك نائب السلطنة، فغضب لافتئات العوامّ. وإلا فهو مُسْلِم يحبّ اللَّه ورسوله، ولكن ثارت نفسه السّبعيّة التُّركيّة
اس شتم کی خبر زين الدِّين الفارقيّ اور تقيّ الدِّين ابن تيميّة اور صلحا و عوام نے نائب عزَّ الدِّين أيْبَك الحَمَويّ کو دی اور اس ملعون نصرانی کی حرکت پر کلام کیا تو نائب نے اس کو حاضر کرنے کا حکم کیا پس لوگ نکلے اس کو دیکھنے تو انہوں نے عساف کو پایا ، اس سے اس پر بات کی عساف کے ساتھ بدوی تھے ، پس عساف نے جوابا کہا کہ وہ نصرانی تم لوگوں سے بہتر ہے – یہ سن کر لوگوں نے پتھر مارے اور امیر عساف بھاگ کھڑے ہوئے ، اس کی خبر نائب سلطان کو دی گئی وہ غصے میں آیا کہ اگر عساف مسلمان ہے تو اس کو تو اللہ اور اس کے رسول سے محبت ہونی چاہیے نہ کہ یہ کہ اس نے اپنے دل کو ترکوں سے ملا دیا ہے
الوافي بالوفيات از صلاح الدين خليل بن أيبك بن عبد الله الصفدي (المتوفى: 764هـ) میں ہے
وَأما عساف هَذَا فَقتله جماز بن سُلَيْمَان وَهُوَ ابْن أخي عساف بِالْقربِ من الْمَدِينَة النَّبَوِيَّة
عساف کو اس کے بھتیجے جماز بن سُلَيْمَان نے مدینہ المنورہ کے قرب میں قتل کیا
ابن تغري بردي ، النجوم الزاهره الجزء السابع ص 363 ص 89 الجزء الثامن میں سن ٦٩٣ پر لکھتے ہیں في هذه السنة قتل الأمير عساف ابن الأمير أحمد بن حجي آل مرا أمير العرب – اس سال امیر عساف ابن الأمير أحمد بن حجي کا قتل ہوا –
یہ پورا واقعہ کوئی سیاسی قتل معلوم ہوتا ہے کیونکہ اگر واقعی امیر عساف واقعی عابد و نیک تھے تو وہ نصرانی کی اس طرح مدد بالکل نہ کرتے اور نہ یہ ممکن تھا کہ امیر عساف دمشق سے نکل کر مدینہ منورہ تک بغیر مسلمانوں کی مدد کے پہنچ جاتے – صلاح الدين خليل بن أيبك بن عبد الله الصفدي (المتوفى: 764هـ) کے مطابق امیر عساف کا قتل سن ٦٩٤ ھ بمطابق ١٢٩٥ ع میں ہوا – ترک یا منگول مسلمان دمشق پر حملہ کی تیاری کر رہے تھے – ممکن ہے کہ الأمير عساف کی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہوں – آل مرا عربوں میں بدوی تھے اور ان کا کنٹرول تجارت پر تھا اپنے اونٹوں پر سامان لادھ کر لے جاتے تھے
نائب دمشق نے امیر عساف کے نصرانی کاتب کو گرفتار کیا اور جان بخشی کی شرط رکھی کہ یہ مسلمان ہو جائے تو جان بچ جائے گی – الذھبی (بحوالہ تاریخ اسلام ) جو اس دور میں دمشق میں ہی تھے فرماتے ہیں
وبلغ النّصرانيَّ الواقعةُ فأسلم
نصرانی نے واقعہ جان کر اسلام قبول کیا
لیکن متشدد علماء نے اس اسلام کو قبول کرنے سے انکار کر دیا – ان سب کے لیڈر امام ابن تیمیہ بن گئے انہوں نے قبول اسلام کو رد کر دیا – یہ معلوم ہے کہ دین میں کوئی کافر یا اہل کتاب کا فرد اسلام قبول کر لے تو پرانے گناہ معاف ہو جاتے ہیں لیکن ابن تیمیہ نے لوگوں کا ایک ہجوم لیا اور نائب حاکم کے سامنے بلوہ کیا کہ اس نصرانی کا ایمان معتبر نہیں ہے – نائب حاکم دمشق نے ابن تیمیہ کو قید کرنے کا حکم دیا اور قید خانہ میں ابن تیمیہ نے کتاب الصارم المسلول علی شاتم الرسول لکھی جس میں ابن تیمیہ نے موقف پیش کیا ہے کہ اگر کوئی ذمی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرے گا تو اس کا قتل واجب ہے اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی اور نہ اس کا اسلام قبول ہو گا – یہ فتوی اسلام کے بنیادی اعتقادات سے متصادم ہے جس کے مطابق سب سے بڑے گناہ شرک تک کی معافی ہے – ذمی اگر شرک سے توبہ کر لے تو اس کو قتل کرنا حرام ہے – واضح رہے کہ اگر کوئی مسلم شتم کا مرتکب ہو تو اس کو مرتد سمجھا جاتا ہے اور تین دن قید کر کے توبہ کا آپشن دیا جائے گا – بصورت دیگر اس کا قتل کر دیا جاتا ہے –
ابن تیمیہ کا ذمی شاتم پر یہ فتوی مشہور ہو گیا اور مملکوک حکمران کو فتوی کی قوت پتا چلی اور ابن تیمیہ کو مستقبل کے فتووں کے لئے چن لیا گیا ، ان کو قید خانہ سے نکال کر ، ان کی رائے پر عمل کیا گیا یعنی نصرانی کا سر قلم کر دیا گیا-
المقفى الكبير از تقي الدين المقريزي (المتوفى: 845 هـ = 1440 م) میں ہے
فخاف النصرانيّ عاقبة هذه الفتنة وأسلم. فعقد النائب عنده مجلسا حضره قاضي القضاة وجماعة من الشافعيّة، وأفتوا بحقن دم النصرانيّ، بعد الإسلام
یہ نصرانی ڈر گیا اس فتنہ کے بعد ، اسلام لے آیا ، پس نائب کی ایک مجلس جس میں قاضي القضاة اور شوافع کے علماء شریک تھے کے بعد فتوی دیا گیا کہ اب اسلام قبول کرنے کے بعد بھی اس نصرانی کا قتل ہے
مملوک حکمرانوں نے اب ابن تیمیہ سے سیاسی فتوے طلب کرنے شروع کیے تاکہ ادر گرد کے مسلمان و غیر مسلم علاقوں پر حملے کیے جا سکیں – ابن تیمیہ نے بھی شاہ کا مصاحب بننے میں کوئی دیر نہیں کی مثلا ابن تیمیہ نے آرمینی عیسائیوں کے خلاف مملوک حکمرانوں کے حق میں فتوی دیا -دوسری طرف مشرق سے منگول مسلمان جو مصرو شام کی طرف بڑھ رہے تھے ان کے خلاف فتوے کے لئے مملوک حکمرنوں کو یہاں ابن تیمیہ کی ضرورت پڑی- ابن تیمیہ نے فتوی دیا کہ یہ منگول مسلمان التتار صرف نام کے مسلمان ہیں اور باطن میں یہ چنگیز خان کے حکم پر چلتے ہیں نہ کہ الله کے قانون پر لہذا چاہے یہ کلمہ گوہوں یا نماز پڑھتے ہوں ان کو بے دریغ قتل کیا جائے – اس طرح اسلام میں مسلمانوں کو ہی قتل کرنے والی تنظیموں کی بنیاد ڈالی گئی اور اس پر مواد و فتاوی پیش کیے گئے جو آج تک بدنام زمانہ تنظیموں کے لئے مشعل راہ ہیں –
بہر حال اہل دمشق صف آراء ہوئے اور منگول مسلمانوں سے لڑے اور ان کو بتایا گیا کہ امام ابن تیمیہ نے لوح محفوظ تک کو دیکھ لیا ہے – نعوذ با للہ من تلک الخرفات
ابن قیم اپنی کتاب مدارج السالکین میں لکھتے ہیں کہ امام ابن تیمیہ کی نظر لوح محفوظ پر پڑی ان پر مستقبل اشکار ہوا – لکھتے ہیں
أخبر أصحابه بدخول التتار الشام سنة تسع وتسعين وستمائة وأن جيوش المسلمين تكسر وأن دمشق لا يكون بها قتل عام ولا سبي عام وأن كلب الجيش وحدته في الأموال: وهذا قبل أن يهم التتار بالحركة ثم أخبر الناس والأمراء سنة اثنتين وسبعمائة لما تحرك التتار وقصدوا الشام: أن الدائرة والهزيمة عليهم وأن الظفر والنصر للمسلمين وأقسم على ذلك أكثر من سبعين يمينا فيقال له: قل إن شاء الله فيقول: إن شاء الله تحقيقا لا تعليقا وسمعته يقول ذلك قال: فلما أكثروا علي قلت: لا تكثروا كتب الله تعالى في اللوح المحفوظ: أنهم مهزومون في هذه الكرة وأن النصر لجيوش الإسلام
ترجمہ : ابن تیمیہ نے ٦٩٩ ھجری میں اپنے اصحاب کو شام میں تاتاریوں کے داخل ہونے اور مسلمانوں کے لشکر کے شکست کھانے کی خبر دے دی تھی اور یہ بھی بتلا دیا تھا کہ دمشق قتل اور اندھا دھند گرفتاریوں سے محفوظ رہے گا البتہ لشکر اور مال کا نقصان ہو گا ، یہ پیشن گوئی تاتاریوں کی یورش سے پہلے ہی کی تھی – اس کے بعد پھر ٧٠٢ ھجری میں جبکہ تاتاری شام کی طرف بڑھ رہے تھے ، اس وقت عام لوگوں اور امراء و حکام کو خبر دی کہ تاتاری شکست کھائیں گے اور مسلمان فوج کامیاب و فتح مند ہو گی اور اس پر آپ نے ستر سے زیادہ بار قسم کھائی ، کسی نے عرض کیا : ان شاء الله کہیے ، آپ نے فرمایا : ان شاء الله تحقیقاً نہ کہ تعلیقاً (یعنی اگر الله چاہے تو ایسا ہو گا نہیں بلکہ الله ایسا ہی چاہے گا) (ابن قیم) کہتے ہیں کہ میں نے آپ کو یہ بھی کہتے ہوۓ سنا کہ جب لوگوں نے اس پیشن گوئی پر بہت کثرت سے کلام کیا ، تو میں (ابن تیمیہ ) نے کہا : بہت بولنے کی ضرورت نہیں ، الله تعالیٰ نے لوحِ محفوظ میں لکھ دیا ہے کہ وہ اس مرتبہ ضرور شکست کھائیں گے اور مدد و نصرت مسلمان فوجوں کے قدم چومے گی – (مدارج السالکین ، جلد ٢ ، صفحہ ٤٥٨
ابن تیمیہ نے اپنے خواب یا کشف کی بنیاد پر لوح محفوظ پر تحریر کا اس قسم کا دعوی کیا –بہر حال دمشق بچ گیا
During the last years of the seventh century Hijri when al-Sultan al-Ma’alih al-Nasir Nasir al-Din Muhammad ibn Qalaawon’s was ruling on Egypt, a case was filed against a Christian from Ahl al-Suida, whom Amer al-Mara Asaf Ibn Ahmad ibn Hajji, a Muslim had employed as a scribe.
Ibn Katheer mentioned in his History the Beginning and the End:
“People were happy as the (Muslim) Asaf ibn Ahmad ibn Hajji was killed, who had hired the Christian that uttered blasphemous things.”
This statement shows that the people of Egypt were happy with the killing of a Muslim Amir, Asaf ibn Ahmad ibn Hajji. Also, a Christian scribe was accused of uttering blasphemous things against the Messenger of Allah (peace and blessings of Allah be upon him).
Al-Dhahabi writes in The History of Islam:
“In those days, there were riots in Damascus, and people pelted stones that a Muslim employer had sympathies towards his Christian scribe who was guilty of blasphemy against the prophet.”
Al-Dhahabi mentioned that Asaf ibn Ameer Ahmad ibn Hajji was:
“An Arab, a gentleman, a supporter of Government, and he had a Christian friend who was blasphemous, but Asaf supported and helped his Christian friend. ”
All these statements show that Asaf was an Arab, subservient, and had a Christian friend accused of uttering abusive things against the Prophet.
Al-Dhahabi informed more:
“The news of this accusation was given to Zain al-Din al-Farqi and Taqi al-Din Ibn Taymiyah. The people spoke to Deputy Az al-Din Aybak al-Hamvi and spoke on the deeds of this cursed Christian. The deputy ordered that the Christian be presented before him. ( Later when police went to capture Christian scribe , his employer Asaf said to the police:) “This Christian scribe is better than you people” – on hearing this, people pelted stones, and Amir Asaf (the employer) ran away (and went into hidding). The whole account was narrated to the Deputy of Sultan that if Asaf is a true Muslim, then he should have shown love towards Allah and His Messenger and should not have mingled his heart with the Turks (Mongols).”
Readers might be surprised to read that the Christian scribe issue was somehow connected to the Mongols but no historian mentioned it except Al-Dhahabi.
Al-Wafi Al-Wafayat by Salah al-Din Khaleel ibn Aybak ibn ‘Abd-Allaah al-Safadi (al-Mutafi: 764AH) narrated:
“Later Asaf (The employer) was killed by his nephew Jamaz bin Sulaiman in the vicinity of Madina (Arabia).”
I say: The whole incident seems to be a political assassination because if Amir Asaf was indeed a nobleman, and Christian had really uttered anything blasphemous, he would not have helped the accused Christian in this way. Also, it is impossible that Amir Asaf would have left the Egypt/Syria and reached Madina (City of Prophet) without the help of Muslims.
Salah al-Din Khaleel ibn Aybak ibn ‘Abd-Allaah al-Safadi (died. 764AH): “Amir Asaf was killed in 694 AD (1295 AD).”
This shows that this event occurred when Turkish or Mongol Muslims were preparing to attack Damascus. It is possible that Asaf’s sympathies were with Mongol muslims. His Tribe of Mar’ahs were nomads among Arabs, and they controlled trade and carried goods on their camels. Asaf belonged to the same tribe.
Later, the Deputy of Damascus arrested the Christian scribe Amir Asaf and stipulated that he would be saved if he became a Muslim. Al-Dhahabi (mentioned in History of Islam) who was in Damascus at that time:
” On this verdict, the accused Christian converted to Islam after learning about it.”
However, the extremist scholars in Egypt and Syria refused to accept his acceptance of Islam. Imam ibn Taymiyyah became their leader, and these scholars rejected the Christian’s acceptance of Islam. It is known that if a disbeliever or a person of the People of the Book converts to Islam, the old sins are forgiven. Still, Ibn Taymiyah took a crowd of people and pleaded to the deputy governor that this christain must be executed.
Ibn Taymiyah wrote the book called Al-Saram al-Maslol Ali Shatam al-Rasool; In the book, Ibn Taymiyah argued that if a person commits blasphemy in the glory of the Messenger of Allaah (peace and blessings of Allaah be upon him), his repentance cannot be accepted, nor the accuser can convert to become a Muslim.
Suppose this opinion of Ibn Taymiyah is accepted. In that case, this fatwa conflicts with the fundamental beliefs of Islam, according to which the greatest sin is the sin of association (Shirk), which is also forgivable if a person accepts Islam. It is haraam to kill a Muslim if he repents of shirk – it should be noted that if a Muslim is guilty of blasphemy, he is considered an apostate, and he will be given the option of repentance by imprisoning him for three days – otherwise, he would have been killed as an apostate.
Ibn Taymiyah’s fatwa became famous on The Dhimmi Christian, and the Mamaluk rulers realized fatwa’s power and they appointed Ibn Taymiyah as Judge to get fatwas in their favor. Eventually, the Christian was beheaded.
Al-Muqafi al-Kabeer by Taqi al-Din al-Muqarizi (died 845 A.H. )
“This Christian got afraid, after this temptation, he accepted Islam, so after a meeting of the deputy in which the scholars of Qazi al-Qadaat and Shuafa were participating, the fatwa was given that the Christian should be killed even after converting to Islam.”
The Mamlok rulers now started seeking political fatwas from Ibn Taymiyah to attack Egypt’s Muslim and non-Muslim areas. Ibn Taymiyah also did not delay becoming the king’s master; for example, Ibn Taymiyah gave a fatwa against Armenian Christians in favor of the Mamlok rulers. Mamloks were afraid of the Mongol Muslims, who were advancing towards Egypt and Syria. Mamlok rulers needed another fatwa, and here again, Ibn Taymiyah gave fatwa that these Mongol Muslims are Muslims only for name-sake and they in actuality follow the command of Genghis Khan, not the law of Allah. So whether they pray to Allah or not, they should be killed indiscriminately. In this way, the framework was laid for the future organizations that kill Muslims in Islam.
Nevertheless, the People of Damascus fought the Mongol Muslims and were told that Imam Ibn Taymiyah had seen the iron safe – Nauz Balla min Tilak al-Kharfat
Ibn Qayyim mentioned in his book Madaraj al-Salqin that Imam Ibn Taymiyah saw the Loh Mahfuz (The Protected Tablet in Heaven), and the future was revealed to him. Ibn Qayyim wrote
Translation: Ibn Taymiyah had informed his companions, in 699 Hijri, about the entry of Mongols into Syria and the defeat and also foretold them that Damascus would be protected from murder and indiscriminate arrests. However, the army and wealth would be lost; this was predicted before the Mogol’s had already been destroyed – then in 702 Hijri, while Mongols were moving towards Syria, they informed the general public and the nobles and authorities that the Mongols would be defeated. The Muslim army would be victorious, and he swore at it more than seventy times. Ibn Al-Qayyim (Ibn Al-Qayyim) said I asked Ibn Taymiyah: “I heard you people are discussing too much on this prophecy, I (Ibn Taymiyah) say: There is no need to speak a lot. Page 458)
This is plain evidence that Ibn Taymiyah claimed that he could see Loh Mahfuz (The Protected Tablet in Heaven) based on his dream or kashaf (vision of The Hidden).