اہل حدیث اور غیر مقلدوں میں سے بعض نے عثمانی کی تحسین کی اور بعض نے صوفیوں کی مدد کی مثلا خواجہ قاسم وغیرہ نے اور دعوی کیا کہ اس قسم کے قصوں کو اہل بدعت ( یعنی بریلویوں) نے گھڑا
راقم کو ملا کہ امام النسفی کا حوالہ لوگ بھلا بیٹھے ہیں – جس سے معلوم ہوا کہ یہ قصہ بریلویوں نے نہیں گھڑا بلکہ یہ ایک قدیم قصہ ہے
مشہور قصہ ہے کہ ابراہیم بن ادھم ١٤ سال میں بلخ سے مکہ پہنچے – انیس الارواح از عثمان ہارونی مرتبہ معین الدین چشتی، ص ١٧، ١٨ پر حکایت لکھی ہے کہ عثمان ہارونی نے
اس حکایت میں ضعیفہ ، رابعة العدوية (المتوفی ١٣٥ ھ یا ١٨٥ ھ) جن کا مکمل نام رابعة بنت اسماعيل أم عمرو العدوية ہے. ان کو أم الخير بھی کہا جاتا ہے کا ذکر ہے جو یہ دعوی کرتی تھیں کہ یہ الله کی عبادت جنّت حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ الله کی خوشنودی کے لئے کرتی ہیں (یعنی باقی صوفی ایسا کرتے تھے مثلا ابراہیم بن ادھم بلخی)
عثمانی صاحب نے اس قصہ پر جرح کی کہ اس میں صوفیوں کو علم غیب کی خبر دی گئی ہے البتہ راقم کو ملا کہ امام نسفی نے اس قصہ کو قبول کیا
إبْرَاهِيمَ بْنِ أَدْهَمَ کے حوالے سے بیان کیا جاتا ہے کہ وہ بلخ سے مکہ پہنچے تو کعبہ وہاں نہ تھا رابعہ بصری کی زیارت کو گیا ہوا تھا – یہ قصہ عربوں میں مشہور ہوا اور بعض فقہاء نے ان پر کفر کا فتوی دیا جنہوں نے اس قصہ کو بیان کیا
الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار از الحصكفي الحنفي (المتوفى: 1088هـ) میں ہے
قُلْت: لَكِنْ فِي عَقَائِدِ التَّفْتَازَانِيُّ جَزَمَ بِالْأَوَّلِ تَبَعًا لِمُفْتِي الثَّقَلَيْنِ النَّسَفِيِّ، بَلْ سُئِلَ عَمَّا يُحْكَى أَنَّ الْكَعْبَةَ كَانَتْ تَزُورُ وَاحِدًا مِنْ الْأَوْلِيَاءِ هَلْ يَجُوزُ الْقَوْلُ بِهِ؟ فَقَالَ: خَرْقُ الْعَادَةِ عَلَى سَبِيلِ الْكَرَامَةِ لِأَهْلِ الْوِلَايَةِ جَائِزٌ عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ،
میں کہتا ہوں لیکن عقائد التَّفْتَازَانِيُّ ( شَرْحِهِ عَلَى الْعَقَائِدِ النَّسَفِيَّةِ) میں جزم سے ہے کہ مفتی ثقلین امام النَّسَفِيِّ سے سوال ہوا اس حکایت پر کہ کعبہ نے اولیاء الله میں سے ایک کی زیارت کی ، کہ کیا یہ کہنا جائز ہے ؟ پس امام نسفی نے جواب دیا اہل سنت میں اہل ولایت کی کرامت کے لئے خرق عادت جائز ہے
رد المحتار على الدر المختار از ابن عابدين، محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز عابدين الدمشقي الحنفي (المتوفى: 1252هـ) میں ہے کہ ابن عابدین نے کہا
قَالَ إنَّمَا الْعَجَبُ مِنْ بَعْضِ فُقَهَاءِ أَهْلِ السُّنَّةِ حَيْثُ حَكَمَ بِالْكُفْرِ عَلَى مُعْتَقِدِ مَا رُوِيَ عَنْ إبْرَاهِيمَ بْنِ أَدْهَمَ إلَخْ ثُمَّ قَالَ: وَالْإِنْصَافُ مَا ذَكَرَهُ الْإِمَامُ النَّسَفِيُّ حِينَ سُئِلَ عَنْ مَا يُحْكَى أَنَّ الْكَعْبَةَ كَانَتْ تَزُورُ وَاحِدًا مِنْ الْأَوْلِيَاءِ هَلْ يَجُوزُ الْقَوْلُ بِهِ؟ فَقَالَ: نَقْضُ الْعَادَةِ عَلَى سَبِيلِ الْكَرَامَةِ لِأَهْلِ الْوِلَايَةِ جَائِزٌ عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ. اه
اہل سنت کے بعض فقہاء پر حیرت ہوئی جنہوں نے ان لوگوں پر کفر کا فتوی دیا جو اعتقاد رکھ رہے تھے اس پر جو إبْرَاهِيمَ بْنِ أَدْهَمَ سے روایت کیا گیا ہے اور انصاف وہ ہے جو امام نسفی المتوفی ٥٣٧ ھ نے ذکر کیا
اس طرح اس قصہ کو کرامت ولی کے زمرے میں قبول کر لیا گیا
افسوس علم غیب کی نقاب کشائی کا کسی متکلم امام کو خیال تک نہ آیا
ابراھیم کی مقبولیت اہل حدیث میں بھی ہو چلی تھی اور امام الذھبی نے سیر الاعلام النبلاء میں ذکر کیا
عِصَامُ بنُ رَوَّادٍ: سَمِعْتُ عِيْسَى بنَ حَازِمٍ النَّيْسَابُوْرِيَّ يَقُوْلُ:
كُنَّا بِمَكَّةَ مَعَ إِبْرَاهِيْمَ بنِ أَدْهَمَ، فَنَظَرَ إِلَى أَبِي قُبَيْسٍ (2) ، فَقَالَ: لَوْ أَنَّ مُؤْمِناً، مُسْتكمِلَ الإِيْمَانِ، يَهزُّ الجَبَلَ لَتَحَرَكَ.
فَتَحَرَّكَ أَبُو قُبَيْسٍ، فَقَالَ: اسْكُنْ، لَيْسَ إِيَّاكَ أَرَدْتُ
عيْسَى بنَ حَازِمٍ نے ذکر کیا کہ ہم مکہ میں تھے إِبْرَاهِيْمَ بنِ أَدْهَمَ نے جبل ابو قُبَيْسٍ پر نظر ڈالی اور کہا اگر تو مومن ہے ایمان کامل ہے تو یہ پہاڑ سرک جائے – پس جبل ابو قُبَيْسٍ ہلنے لگا – ابراھیم نے کہا رک جا یہ ارادہ نہیں تھا
پھر اس حکایت کا دوسری سند سے ذکر کیا
عَنْ مَكِّيِّ بنِ إِبْرَاهِيْمَ، قَالَ: قِيْلَ لابْنِ أَدْهَم: مَا تَبلُغُ مِنْ كَرَامَةِ المُؤْمِنِ؟
قَالَ: أَنْ يَقُوْلَ لِلْجَبَلِ: تَحرَّكْ، فَيَتحَرَّكُ.
قَالَ: فَتَحَرَّكَ الجَبَلُ، فَقَالَ: مَا إِيَّاكَ عَنَيْتُ
اس طرح محدثین بھی مان رہے تھے کہ ابراھیم نام کا بلخی و سنٹرل ایشیا کا صوفی مکہ کے پہاڑوں کو ہلا رہا تھا
https://www.islamic-belief.net/%D8%A7%D8%A8%D8%B1%D8%A7%DB%81%DB%8C%D9%85-%D8%A8%D9%86-%D8%A7%D8%AF%DA%BE%D9%85/