عام الفیل میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی جب ابرہہ حبشی کا لشکر تباہ ہوا اور کعبہ الله بچ گیا رحمت الہی عرب پر متوجہ ہوئی اور بنی اسمعیل علیہ السلام میں قریش میں عبد المطلب کے پوتے محمد صلی الله علیہ وسلم اس دنیا میں عالم ارواح سے عالم مادی میں آئے
محمّد کے والد نہ تھے عبد المطلب کی خوشی کا عالم تھا انہوں نے محمّد کو اٹھایا اور شعب ایمان از البیہقی کے مطابق کعبہ کے وسط میں سب سے بڑے بت ہبل پر پیش کیا اور وسیلہ سمجھتے ہوئے الله کی تعریف کی کہ مالک ارض و سما نے ہبل کے طفیل ان کو پوتا عطا کیا
عبد المطلب کو پتا نہ تھا کہ یہی بچہ بڑا ہو کر اس ہبل کو توڑ ڈالے گا اور حبل الله کو پکڑنے کا حکم کرے گا
محمّد صلی الله علیہ وسلم الله کی مخلوق تھے، الله کی طرف سے ہدایت کا نور ایمان تھے وہ خود ابو البشر آدم کی نسل سے تھے جن کو نوری مخلوق یعنی فرشتوں نے سجدہ کیا تھا اور یہ نوری مخلوق کا سجدہ ایک خاکی کو تھا تاکہ الله کے انعام پر ناری مخلوق یعنی ابلیس کو آزمائش میں ڈالا جائے
محمّد صلی الله علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں کبھی بھی اپنی پیدائش کا دن نہ منایا کیونکہ یہ دین نصاری کی طرح نہ تھا
رسول الله نے حکم دیا کہ دیگر مذہب والوں کی نقل نہ کی جائے یہاں تک کہ بال کی مقدار لباس اور خضاب تک پر حکم دیا کہ کہیں نصاری کی مشابہت نہ ہو لیکن افسوس
اس دین کو رہبان و صوفیاء نے بدل دیا کتاب كتاب النعمة الكبرى على العالم في مولد سيد ولد ادم از ابن حجر المکی کے مطابق
لیکن یہ تمام اقوال رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے نہیں ہیں یہ صوفیاء کے اقوال ہیں اور ان کی اسناد تک نہیں اس کتاب کا نسخہ انٹرنیٹ پر ہے
http://hakikatkitabevi.com/Arabic/44-nimatalkubra.pdf
جس کے مطابق یہ اقوال ان کے ہیں
غیر مقلدین کے امام ولی اللہ محدث دہلوی فیوض الحرمین میں صفحہ: ٢٧ پر لکھتے ہیں
’میں مکہ مکرمہ میں ولادت نبی کے روز مولد مبارک (جہاں آپ کی ولادت ہوئی)، میں حاضر ہوا تو لوگ درود شریف پڑھ رہے تھے اور آپ کی ولادت کا ذکر کر رہے تھے اور وہ معجزات بیان کر رہے تھے جو آپ کی ولادت کے وقت ظاہر ہوئے۔ تو میں نے اس مجلس میں انوار و برکات کا مشاہد ہ کیا، میں نے غور کیا تو معلو م ہواکہ یہ انوار ملائکہ کے ہیں جو ایسی مجالس میں مقرر کئے جاتے ہیں۔ اور میں نے دیکھا کہ انوار ملائکہ اور انوار رحمت آپس میں ملے ہوئے ہیں۔
اس امت میں بدعات کو مشروع کرنے میں احبار و رہبان کا ہاتھ ہے یہی وجہ ہے کہ کسی حدیث میں مولود نبی کا کوئی قصہ نہیں
رسول الله کی موجودگی ہی صحابہ کے لئے ہر لمحہ خوشی تھی لیکن انہوں نے اس پر کیا ہر وقت یا ١٢ تاریخ کو خوشیاں منائیں بلکہ مصطفی صلی الله علیہ وسلم نے کہا اس امت کی دو عیدیں ہیں اپنے دوست ابو بکر کو عید الفطر پر کہا
يَا أَبَا بَكْرٍ، إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا، وَهَذَا عِيدُنَا
اے ابو بکر ہر قوم کی عید ہے اور یہ عید ہماری عید ہے
یہ نہیں کہا کہ میری پیداش کا دن بھی عید ہے
بریلوی فرقہ کی جانب سے دلیل پیش کی جاتی ہے کہ جمعہ عید کا دن ہے اور روایت پیش کرتے ہیں
إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فِيهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيهِ قُبِضَ، وَفِيهِ النَّفْخَةُ، وَفِيهِ الصَّعْقَةُ، فَأَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيهِ
لیکن یہ روایت خود امام بخاری کی تاریخ الصغیر کے مطابق معلول ہے اور ضعیف ہے
ابن ماجہ کی روایت ہے
حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ خَالِدٍ الْوَاسِطِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ غُرَابٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي الْأَخْضَرِ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ هَذَا يَوْمُ عِيدٍ، جَعَلَهُ اللَّهُ لِلْمُسْلِمِينَ، فَمَنْ جَاءَ إِلَى الْجُمُعَةِ فَلْيَغْتَسِلْ، وَإِنْ كَانَ طِيبٌ فَلْيَمَسَّ مِنْهُ، وَعَلَيْكُمْ بِالسِّوَاكِ»
ابن عباس کہتے ہیں رسو ل الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جمعہ کا دن عید ہے
اس کی سند کمزور ہے سند میں صَالِحِ بْنِ أَبِي الْأَخْضَرِ جس کو امام نسائی، امام ابن معین، ابو زرعہ اور ابن حجر کی جانب سے ضعیف کہا گیا ہے
دوم جمعہ اگر عید ہے تو عید میلاد کا رسول الله نے ذکر کیوں نہ کیا جبکہ وہ بعض کے مطابق جمعہ سے بھی اہم ہے
صحیح بخاری کتاب النکاح میں ایک روایت 5101 میں راوی عروہ بن زبیر کہتے ہیں
وثُوَيْبَةُ مَوْلاَةٌ لِأَبِي لَهَبٍ: كَانَ أَبُو لَهَبٍ أَعْتَقَهَا، فَأَرْضَعَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا مَاتَ أَبُو لَهَبٍ أُرِيَهُ بَعْضُ أَهْلِهِ بِشَرِّ حِيبَةٍ، قَالَ لَهُ: مَاذَا لَقِيتَ؟ قَالَ أَبُو لَهَبٍ: لَمْ أَلْقَ بَعْدَكُمْ غَيْرَ أَنِّي سُقِيتُ فِي هَذِهِ بِعَتَاقَتِي ثُوَيْبَةَ
اور ثُوَيْبَةُ ابو لھب کی لونڈی تھیں جن کو ابو لھب نے آزاد کیا پس انہوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کی رضاعت کی جب ابو لھب مر گیا تو اس کے بعض گھر والوں نے اس سے پوچھا کیا حال ہے اس نے کہاجب سے تم کو چھوڑا ہے صرف انگلی برابر پلایا جاتا ہوں جس سے ثُوَيْبَةَ کو آزاد کیا تھا
ابو لھب نے ثُوَيْبَةَ کو رسول الله کو دودھ پلانے پر آزاد کیا تھا نہ کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش پر
سلفی عالم ابن تیمیہ جو دمشق کے باسی تھے اپنی کتاب اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم میں لکھتے ہیں
وكذلك ما يحدثه بعض الناس، إما مضاهاة للنصارى في ميلاد عيسى عليه السلام، وإما محبة للنبي صلى الله عليه وسلم، وتعظيمًا. والله قد يثيبهم على هذه المحبة والاجتهاد، لا على البدع- من اتخاذ مولد النبي صلى الله عليه وسلم عيدًا.
اور اسی طرح نبی صلی الله علیہ وسلم کے یوم ولادت کے موقع پر لوگ جو خوشیاں مناتے ہیں عسائیوں سے مشابہت میں کہ جس طرح وہ عیسیٰ کا یوم پیدائش مناتے ہیں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و تعظیم میں، تو الله کی قسم بے شک ان کو محبت و اجتہاد پر اجر ہو گا نہ کہ بدعت کا کہ انہوں نے رسول الله کے مولد کو عید کے طور پر اختیار کیا
شرم کا مقام ہے کہ ابن تیمیہ جو کتاب میں جگہ جگہ عیسائیوں پر شریعت میں اضافہ تنقید کر رہے ہیں ان کو اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں اتا اسی کتاب میں ابن تیمیہ اپنے الفاظ کی وضاحت لکھتے ہیں
فتعظيم المولد، واتخاذه موسمًا، قد يفعله بعض الناس، ويكون له فيه أجر عظيم لحسن قصده، وتعظيمه لرسول الله صلى الله عليه وسلم
پس میلاد رسول الله کی تعظیم اور اس کو بطور تہوار اختیار کرنا جیسا بعض لوگ کرتے ہیں تو اس میں ان کے لئے اجر عظیم ہے کیونکہ ان کا ارادہ اچھا ہے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تعظیم ہے
کہا گیا ہے کہ جس نے بدعتی کی تعظیم کی اس نے اسلام کو ڈھا دیا اور یہاں تو ایک مکمل بدعت کو ہی مشروع کر دیا گیا ہے
معلوم ہوا ٹھویں صدی تک بدعت کی اتنی کثرت تھی کہ نام نہاد سلف کے متببعین میں بھی صحیح اور غلط کی تمیز مٹ چکی تھی اور تعظیم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی مد میں اس کو جائز کر دیا گیا تھا
کتاب اقتضاء الصراط المستقیم پر مقدمہ لکھنے والے وہابی عالم شیخ ناصر العقل لکھتے ہیں
تہوار بھی شریعت کا حصہ ہیں، جس طرح قبلہ، نماز، روزہ وغیرہ ہیں ، اور تہواروں کو صرف عادات نہیں کہا جا سکتا، بلکہ تہواروں کے بارے میں کفار کیساتھ مشابہت اور انکی تقلید زیادہ خطرناک معاملہ ہے، اسی طرح اللہ کے مقرر کردہ تہواروں سے ہٹ کر خود ساختہ تہوار منانا ، “حکم بغیر ما انزل اللہ “کے زمرے میں شامل ہے، بغیر علم کے اللہ کی طرف کسی بات کی نسبت کرنے ، اس پر بہتان باندھنے، اور دینِ الہی میں بدعت شامل کرنے کے مترادف ہے
یعنی وہابی حضرات اپنی بات ابن تیمیہ کے منہ میں ڈال کر تلبیس کے مرتکب ہو رہے ہیں کیا دین میں فراڈ کرنا جھوٹ بولنا تلبیس کرنا منع نہیں ہے جو ابن تیمیہ کی بات میں قطع و برید کر کے کچھ کا کچھ کر دیا ہے بلکہ ان کو اس تہوار کا مخالف کہہ کر جگہ جگہ عید میلاد کے خلاف ان سے منسوب اقوال نقل کر دے ہیں جبکہ کتاب کے آخر میں وہ عید میلاد مشروع کر کے مرے
سلف میں سے بعض لوگ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے حوالے سے غلو اختیار کیے ہوئے تھے مثلا کتاب الابانہ الصغری از ابن مندہ میں ہے
ابن مندہ کہتے ہیں جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی والدہ نے ان کو جنا تو شام کے محلات روشن ہو گئے
ابن مندہ اسی کتاب میں دینی امور پر اجرت کو بھی بدعت کہتے ہیں
اور بدعت میں سے ہے اذان ، امامت اور تعلیم القران پر اجرت لینا
کیا یہ کتب سلف کی نہیں ہیں جو ان کو پیش نہیں کیا جاتا؟
الغرض ہر وہ کام جو نیکی سمجھ کر کیا جائے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی جانب سے اس پر حکم نہ ہو رد ہو جاتا ہے
عیسائیوں میں ایسٹرن آرتھوڈوکس چرچ ٧ جنوری کو عیسیٰ کی پیدایش مناتا ہے اور رومن کیتھولک چرچ ٢٥ دسمبر کو
حبشہ کے عیسائیوں میں بھی ٧ جنوری کو میلاد مسیح کا رواج ہے
اس میں جشن منانا شروع سے عیسائی روایت چلی آ رہی ہے
ہندووں میں کرشنا کی پیدائش جنم اشتھمی پر خوشی کی جاتی ہے
مسلمانوں کا سابقہ جب اس قسم کی قوموں سے ہوا تو ان میں بھی اس طرح کا دن بنانے کی خواہش جاگی اور اس کے لئے انہوں نے اپنی طرح سے بودے دلائل گھڑ لیے جو اپ اوپر دیکھ چکے ہیں اگر یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا حکم ہوتا تو حدیث کی کسی کتاب میں اس پر کوئی روایت ہوتی بلکہ یہ عید میلاد النبی تو روایات گھڑنے کے زمانے کے بھی بعد کی ایجاد ہے، یہی وجہ ہے کہ اس پر ضعیف تو چھوڑئیے موضوع روایت تک نہیں
========================================================
عید میلاد النبی پر سوالات ہیں
سوال: کیا نبی صلی الله علیہ وسلم کی پیداش پیر کو ہوئی؟
جواب
صحیح مسلم کی روایت ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، – وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى – قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ غَيْلَانَ بْنِ جَرِيرٍ، سَمِعَ عَبْدَ اللهِ بْنَ مَعْبَدٍ الزِّمَّانِيَّ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ صَوْمِهِ؟
اس میں اپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
قَالَ: وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الِاثْنَيْنِ؟ قَالَ: «ذَاكَ يَوْمٌ وُلِدْتُ فِيهِ، وَيَوْمٌ بُعِثْتُ – أَوْ أُنْزِلَ عَلَيَّ فِيهِ
اور پوچھا کہ پیر کا روزہ کیسا ہے ؟ فرمایا اس ہی دن تو میں پیدا ہوا یا فرمایا میری بعثت ہوئی یا قرآن نازل ہوا
—–
کتب حدیث میں تمام کتب میں اس کی سند میں عَبد اللهِ بْن مَعبَد، الزِّمّانِيّ، البَصرِيّ ہے جو ابی قتادہ سے اس کو روایت کرتا ہے
امام بخاری کے نزدیک یہ رویات صحیح نہیں ہیں کیونکہ عبد الله بن معبد الزماني بصری کا سماع ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے
بخاری تاریخ الکبیر میں عَبد اللهِ بْن مَعبَد، الزِّمّانِيّ، البَصرِيّ کے لئے کہتے ہیں
ولا نَعرِفُ سماعه من أَبي قَتادة.
اور ہم (محدثین) نہیں جانتے کہ ابی قتادہ سے اس کا سماع ہو
سوال : عید میلاد ایک اچھا طریقه ہے اس کا حکم حدیث میں بھی ہے
حضرت جریربن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے اسلام میں نیک طریقہ ایجاد کیا اور اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کیا گیا، اس کے لیے بھی اس پرعمل کرنے والوں کی مثل اجر لکھا جاۓ گا، اور ان کے اجروں میں سے کوئی کمی نہیں ہوگی ، اور جس نے اسلام میں کسی برے طریقہ کو ایجاد کیا اور اس کے بعد اس پرعمل کیا گیا ، اس کے لیے بھی اس پرعمل کرنے والوں کی مثل گناہ لکھا جائے گا اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔
(مسلم شریف،باب:علم کا بیان، حدیث نمبر:6800، مسلم شریف،باب:زکوۃ کا بیان، حدیث نمبر:2351،
جامع ترمذی،باب:علم کا بیان،حدیث نمبر:2481، سنن ابنِ ماجہ، باب:اس شخص کا بیان جس نے اچھا یا براطریقہ ایجاد کیا، حدیث نمبر:203)
بدعتِ حسنہ کی مثالیں
مندرجہ ذیل میں ان کاموں کا ذکر ہے جو نہ حضور ﷺ کہ زمانے میں اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہما کہ زمانے میں تھے۔
کلمہ:
٭ ہر مسلمان چھ کلمے یاد کرتا ہے ۔یہ چھ کلمے ان کی تعداد ان کی ترکیب کہ یہ پہلا کلمہ ہے،یہ دوسرا کلمہ ہے اور ان کے نام ہیں۔سب بدعت ہیں جن کا قرونِ ثلاثہ(صحابہ اور تابعین کا زمانا) میں پتہ بھی نہیں تھا۔
قرآن:
٭ قرآن پر اعراب لگانا۔
٭ اس کی جلد یں تیار کرنا۔
٭ اس کو اردو اور مختلف زبانوں میں ترجمہ و تفسیر کرنا۔
٭ اس پر غلاف چڑھانااور اعلٰی طباعت میں شائع کروانا۔
حدیث:
٭ حدیث کو کتابی شکل میں جمع کرنا۔مثلاً صحاح ِ ستّہ وغیرہ۔
٭ حدیث کی اسناد بیان کرنا۔بخاری ، مسلم، ترمذی ، ابنِ ماجہ وغیرہ ۔
٭ حدیث کی قسمیں بنانا، مثلاً صحیح ، حسن، ضعیف،موضوع وٖغیرہ اور ان کو ترتیب دیناکہ اول نمبر صحیح ہے۔دوم نمبر ضعیف۔پھر ان کے نام مقرر کرنا کہ حرام و حلال چیزیں حدیث صحیح سے ثابت ہوں گی۔ اور فضائل میں ضعیف بھی معتبر ہوگی۔ غرضیکہ سارا فنِ حدیث ایسی بدعت ہے۔ جس کا قرونِ ثلاثہ میں ذکر بھی نہیں نہ تھا۔
نماز :
٭ نماز میں زبان سے نیت کرنا ۔
٭ ہر سال پورے رمضان میں جماعت کے ساتھ بیس تراویح پڑھنا، محفلِ شبینہ یا چند روزہ تراویح میں قرآن مجید مکمل سنانے کا اتنظام کرنا۔
٭ جمہس میں مروجہ خطبہ پڑھنا، اور خطبے سے پہلے تقریر کرنا۔
٭ ہمیشہ نماز کو ایک ہی وقت میں پڑھنا۔ مثلاً ظہر کو ہمیشہ 1:30 پڑھنا۔
روزہ:
٭ روزہ افطار کرتے وقت زبان سے دعا کرنا۔اور سحری کے وقت دعا کرنا۔
زکوۃ:
٭ زکوۃ ادا کرتے وقت تصویر والی کرنسی استعمال کرنا۔
ایمان :
٭ مسلمان کے بچہ بچہ کو ایمانِ مجمل اور ایمانِ مفصل یاد کرایا جاتا ہے۔ ایمان کی دو قسمیں اور ان کے یہ دونوں نام بدعت ہیں۔قرونِ ثلاثہ میں اس کا پتہ نہیں ہے۔
حج:
٭ ریل گاڑیوں، ہوائی جہاز اور موٹر وں کے ذریعہ حج کرنا۔ موٹروں میں عرافات شریف جانابدعت ہے اُس زمانہ پاک میں نہ یہ سواریاں تھیں نہ ان کے ذریعہ حج ہوتا تھا۔
طریقت:
٭ طریقت کے تقریباً سارے مشاغل اور تصوف کے تقریباً سارے مسائل بدعت ہیں مراقبے، چلے، پاس انفاس، تصورِ شیخ، ذکر کے اقسام سب بدعت ہیں۔
چار سلسلے :
٭ شریعت وطریقت دونوں کے چار چار سلسلے یعنی حنفی ، شافعی ، مالکی ، حبنبلی اسی طرح قادری ، چشتی ، نقشبندی، سہروردی یہ سب سلسلے بالکل بدعت ہیں۔ ان میں سے بعض کے تو نام تک بھی عربی نہیں۔ جیسے چشتی یا نقشبندی ، کوئی صحابی ، تا بعی، حنفی ، قادری نہ ہوۓ۔
مساجد:
٭ مساجد میں قرآن مجید اور تسبیح وغیرہ رکھنا ،مینار ، گنبد اور محراب بنوانا۔
دینی مدارس:
٭ دینی مدارس میں درسِ قرآ ن ، درسِ حدیث ، دورہ تفسیرِ قرآن، دورہ حدیث ، ختمِ بخاری شریف یا کوئی دینی تقریب منعقد کرنا۔
٭ دینی مدارس کا قیام اور ان کا نصاب و نظام ۔مثلاً درسِ نظامی کا کورس، اس کا امتحان لیے کا طریقہ ، پھر اسناد کی تقسیم یہ سب بدعت ہیں۔
٭ نام کے ساتھ علامہ ، مفتی ، مفتی اعظیم ، شیخ الحدیث، شیخ القران، حکیمُ امّت وغیرہ جیسے القابات لگانا ، اور مدرسے سے سندِ فراغت حاصل کرنا۔
نکاح نامہ:
٭ نکاح نامے کو تحریری شکل دینا۔
سئہ روزہ:
٭ لوٹے اور بستر سمیت تبلیغی سئہ روزہ یا چلاّ لگانا۔
٭ سالانہ تبلیغی اجتماع کرنا اور اس میں لوگوں کو جمع کرنا۔
اذان:
٭ لاؤد اسپیکر پر اذان دینا۔
جواب
ان میں بہت سی بدعات ہیں اور بہت سی سہولتیں ہیں جن کا اجراء نیکی میں آسانی کے لئے کیا گیا ہے مثلا
قرآن پڑھنا نیکی معلوم ہے اس میں عجمیوں کی آسانی اور لحن کا مسئلہ نہ ہو اعراب لگائے گئے لہذا یہ سہولت ہے
لاوڈ اسپیکر بھی سہولت ہے کہ یہ خطبہ کی اور اذان کی آواز لوگوں تک پہنچا دیتا ہے
احادیث کی تقسیم بھی علم تک پہچنا ہے جو اصلی قول نبی کی تلاش ہے اور رسول الله کی حدیث دوسرے تک پہنچانا نیکی معلوم ہے
اس طرح سہولت قرار دے کر ان کی تعبیر کی جاتی ہے
تصوف یقینا ایک بدعت ہے یہ رهبانیت ہے
ایسی نیکی جس کو نبی صلی الله علیہ وسلم کر سکتے تھے لیکن نہیں کیا وہ بدعت ہے مثلا دور نبوی میں گاڑی نہیں ریل نہیں لحن کا مسئلہ نہیں ضعیف احادیث نہیں لہذا بعد میں علم میں سچ کو اور صحیح کو برقرار رکھنے کے لئے کسی طریقہ کو رائج کرنا بدعت نہیں ہے
عید میلاد نبی صلی الله علیہ وسلم کر سکتے تھے لیکن نہیں کی لہذا یہ بدعت ہی ہے
علم ہیت اور پیر کا دن
ربیع الاول کی دس تاریخ کو ١١ ہجری پیر کا دن بنتا ہے
http://www.islamicity.org/Hijri-Gregorian-Converter/?AspxAutoDetectCookieSupport=1
June 4, 632
—-
http://www.oriold.uzh.ch/static/hegira.html
اس کے مطابق
١٣ ربیع الاول کا دن پیر کا تھا
یعنی علم ہیت کے حساب سے بھی ١٢ ربیع الاول وفات کی تاریخ اور پیر کا دن نہیں بنتا
پیدائش النبی پر نور نکلا
خالد بن معدان رحمہ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمیں آپ اپنے بارے میں بتلائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میں اپنے والد ابراہیم کی دعا اور عیسی کی دی ہوئی خوشخبری ہوں، میری والدہ جب امید سے ہوئیں تو [انہیں ایسا محسوس ہوا کہ] گویا ان کے جسم سے روشنی نکلی ہے جس کی وجہ سے سرزمین شام میں بصری کے محل روشن ہو گئے )
خالد بن معدان رحمہ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمیں آپ اپنے بارے میں بتلائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میں اپنے والد ابراہیم کی دعا اور عیسی کی دی ہوئی خوشخبری ہوں، میری والدہ جب امید سے ہوئیں تو [انہیں ایسا محسوس ہوا کہ] گویا ان کے جسم سے روشنی نکلی ہے جس کی وجہ سے سرزمین شام میں بصری کے محل روشن ہو گئے )
اس روایت کو ابن اسحاق نے اپنی سند سے بیان کیا ہے: (سیرت ابن ہشام: 1/66) اور انہی کی سند سے امام طبری نے اسے اپنی تفسیر طبری : (1/566) میں اور امام حاکم نے اپنی کتاب مستدرک : (2/600) میں روایت کیا ہے، اور ساتھ امام حاکم یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح سند والی ہے، لیکن بخاری اور مسلم نے اسے روایت نہیں کیا، ان کے اس تبصرے پر امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔
مزید کیلیے دیکھیں: سلسلہ صحیحہ: (1545)(سیرت ابن ہشام: 1/66) اور انہی کی سند سے امام طبری نے اسے اپنی تفسیر طبری : (1/566) میں اور امام حاکم نے اپنی کتاب مستدرک : (2/600) میں روایت کیا ہے، اور ساتھ امام حاکم یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح سند والی ہے، لیکن بخاری اور مسلم نے اسے روایت نہیں کیا، ان کے اس تبصرے پر امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔
مزید کیلیے دیکھیں: سلسلہ صحیحہ:
(1545)
جواب
ابن اسحاق امام مالک کے ہم عصر ہیں اور واقدی امام احمد کے دونوں میں 60 سال کا فرق ہے اس دور میں غلو مسلمانوں میں شروع ہو چکا تھا ان کو کسی طرح یہ ثابت کرنا تھا کہ ان کے نبی سب سے افضل ہیں
اس میں راقم کو کوئی شک نہیں ہے لیکن ان مسلمانوں نے جو طریقه اختیار کیا وہ صحیح نہیں تھا مثلا اہل کتاب نے جو جھوٹی باتیں مشھور کر رکھی تھیں ان کی ان مسلموں نے ایسی تاویل کی کہ یہ باتیں اسلام کے حق میں ہو جائیں یہ روایات پرو پیگنڈا کا ایک نہایت منفی انداز تھا مثلا اہل کتاب میں مشھور تھا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے دوران سفر کسی نسطوری نصرانی سے علم لیا جس کے بعد نبوت کا دعوی کیا یہ کتب آج چھپ چکی ہیں ابن اسحاق نے اس کا جواب دینا ضروری سمجھا اور وہ بھی اس طرح کہ نسطوری راہب بحیرہ سے نبی صلی الله علیہ وسلم کی بچپن میں ملاقات کا واقعہ بیان کیا جو کذب تھا
نصرانی راہب کو نسطوری اس لیے بیان کیا جاتا ہے کیونکہ وہ کتھلویک یا آرتھوڈوکس چرچ کا نہیں تھا ان دونوں کا مخالف تھا
اسی طرح انجیل یوحنا کے مطابق عیسیٰ ایک نور تھا جو مجسم ہوا باب اول آیات ایک تا ١٤ میں یہ عقیدہ بیان ہوا ہے مسلمان اس ڈور میں پیچھے کیوں رہتے انہوں نے بھی بیان کیا کہ رسول الله جب پیدا ہوئے تو نور نکلا جس سے شام اور بصرہ عراق روشن ہو گئے کیونکہ بصرہ اور شام میں اس وقت قیصر نصرانی کی حکومت تھی گویا ہمارا نبی دنیا میں آیا تو اس کا نور عیسیٰ سے بڑھ کر تھا
اس طرح کی بہت سی اور روایات ہیں جو صرف نصرانیوں سے مقابلے پر بنانی گئی ہیں
شام کے محلات روشن ہوئے پر روایات مسند احمد میں ہیں جن کو بہت ذوق و شوق سے تمام فرقوں کے لوگ بیان کرتے ہیں یہاں تک کہ عصر حاضر کے علماء میں البانی ( صحيح لغيره – “الصحيحة” (1546 و 1925)) اور شعيب الأرنؤوط – عادل مرشد بھی مسند احمد پر تعلیق میں اس کو صحیح لغیرہ کہتے ہیں
مسند احمد کی سند ہے
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ السُّلَمِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” إِنِّي عِنْدَ اللهِ فِي أُمِّ الْكِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّينَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِينَتِهِ، وَسَأُنَبِّئُكُمْ بِتَأْوِيلِ ذَلِكَ، دَعْوَةِ أَبِي إِبْرَاهِيمَ وَبِشَارَةِ عِيسَى قَوْمَهُ، وَرُؤْيَا أُمِّي الَّتِي رَأَتْ أَنَّهُ خَرَجَ مِنْهَا نُورٌ أَضَاءَتْ لَهُ قُصُورُ الشَّامِ، وَكَذَلِكَ تَرَى أُمَّهَاتُ النَّبِيِّينَ صَلَوَاتُ اللهِ عَلَيْهِمْ
سند میں سعيد بن سويد شام حمص کا ہے میزان الاعتدال از الذھبی کے مطابق
امام البخاري: لا يتابع في حديثه.
امام بخاری کہتے ہیں اس کی حدیث کی متا بعت نہیں کی جاتی
البزار المتوفی ٢٩٢ ھ بھی اس کو مسند میں بیان کرتے ہیں کہتے ہیں
وَهَذَا الْحَدِيثُ لا نَعْلَمُهُ يُرْوَى عَن رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم بِإِسْنَادٍ مُتَّصِلٍ عَنْهُ بِأَحْسَنَ مِنْ هَذَا الإِسْنَادِ وَسَعِيدُ بْنُ سُوَيْدٍ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ
یہ حدیث ہم نہیں جانتے کہ اس کو اس سے اچھی متصل اسناد سے رسول اللہ سے کسی نے روایت کیا ہو سوائے اس سند کے اور سعید بن سوید شام کا ایک آدمی ہے جس میں برائی نہیں ہے
یعنی امام بخاری اور البزار کا اس راوی پر اختلاف تھا ایک اس میں کوئی برائی نہیں جانتا تھا اور دوسرا اس کی روایات کو منفرد کہتا تھا
صحیح ابن حبان میں ابن حبان نے اسی سند سے اس روایت کو علامت نبوت میں شمار کیا ہے اور اسی سند کو تلخیص مستدرک میں امام الذھبی نے صحیح کہا ہے
راقم کہتا ہے روایت چاہے سعید بن سوید کی سند سے ہو یا کسی اور کی سند سے اس میں شامیوں کا تفرد ہے اور ان شامیوں کو اپنے پروسٹیوں اہل کتاب پر ثابت کرنا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا نور عیسیٰ علیہ السلام سے بڑھ کر ہےاور یہ شامیوں کا غلو ہے
Sahih bukhri 5101 hadith pr tehqiq chaiye
Jis mn abu lahab ne kha k muje shaubiya ko azad krne ki wajh se is ungli k darmiyn se baz ad wafat pani milta hai
——
Sir sahih tarikh ul islam wal tareekh book jo aap ne seerat pr btai thi us mn
Nabi s.a.w ki birth aisy likhi hai hijrat se 53 saal phle 2 shanbeh ko hoi.. Yeh 2 شنبہ hai kya or neche hawale mn unhon ne sahih muslim mn ibn e abbas se is ka hawala likha hai
2 sanbeh clear kr dy plz
——-
Sir sahih hadith se maloom hota hai k Aap s.a.w monday ko 570 ce mn year of elephent mn paida huye. Or 632 ce mn 62 year ki umr mn rehlat hoi…. Birth date 12 rabi ulawal or din monday ka kha jata hai
Jab k ik site muje mili jo gorgeian date ko hijri mn convert krti hai… I dont know k yeh site sahi hai k nahi mn link paste krti hon ap dekh k bta do … Berhal is site k mutabik 12 rabi ul awal 570 eswi mn friday ko thi jab k monday 8 rabi ul awl ko ah rha hai ap link check kren
https://planetcalc.com/540/
Kisi muhadis ya kisi aima mn se kya kisi ne Aap s.a.w ki pedaish 8 rabi ul awal btai hai agr btai hai tu un k naam k 7 unka hawala b bta dein kindly
Or death ki date 632 ce 11 hijri monday k din btai jati hai es saal.mn rabi ul awal mn monday in dates mn ata hai 7,14,21,28 ab yhn nai pta k kis ashre mn rehlat hoi….. Mutlb yeh hua k in dates mn se kisi date mn Aap s.a.w ka intaqal hoa
صحیح بخاری کتاب النکاح میں ایک روایت 5101 میں راوی عروہ بن زبیر کہتے ہیں
وثُوَيْبَةُ مَوْلاَةٌ لِأَبِي لَهَبٍ: كَانَ أَبُو لَهَبٍ أَعْتَقَهَا، فَأَرْضَعَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا مَاتَ أَبُو لَهَبٍ أُرِيَهُ بَعْضُ أَهْلِهِ بِشَرِّ حِيبَةٍ، قَالَ لَهُ: مَاذَا لَقِيتَ؟ قَالَ أَبُو لَهَبٍ: لَمْ أَلْقَ بَعْدَكُمْ غَيْرَ أَنِّي سُقِيتُ فِي هَذِهِ بِعَتَاقَتِي ثُوَيْبَةَ
اور ثُوَيْبَةُ ابو لھب کی لونڈی تھیں جن کو ابو لھب نے آزاد کیا پس انہوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کی رضاعت کی جب ابو لھب مر گیا تو اس کے بعض گھر والوں نے اس سے پوچھا کیا حال ہے اس نے کہاجب سے تم کو چھوڑا ہے صرف انگلی برابر پلایا جاتا ہوں جس سے ثُوَيْبَةَ کو آزاد کیا تھا
ابو لھب نے ثُوَيْبَةَ کو رسول الله کو دودھ پلانے پر آزاد کیا تھا نہ کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش پر
——
نوٹ یہ قول رسول الله کے چچا ابو لھب کے کن گھر والوں کا تھا ؟ کیونکہ اس کے بیٹے دور نبوی میں ہی مر گئے تھے – میرے خیال میں چچا ابو لھب کی نسل ہی نہیں چلی- دوم میرے نزدیک مردوں کی خبر خواب سے نہیں مل سکتی – اغلبا امام بخاری کا یہ عقیدہ ہو گا میرا نہیں ہے
دو شنبہ پیر کا دن ہے
—
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش کا دن صحیح سند سے معلوم نہیں ہے
جو روایت امام مسلم نے دی وہ منقطع ہے
سوال: کیا نبی صلی الله علیہ وسلم کی پیداش پیر کو ہوئی؟
جواب
صحیح مسلم کی روایت ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، – وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى – قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ غَيْلَانَ بْنِ جَرِيرٍ، سَمِعَ عَبْدَ اللهِ بْنَ مَعْبَدٍ الزِّمَّانِيَّ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ صَوْمِهِ؟
اس میں اپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
قَالَ: وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الِاثْنَيْنِ؟ قَالَ: «ذَاكَ يَوْمٌ وُلِدْتُ فِيهِ، وَيَوْمٌ بُعِثْتُ – أَوْ أُنْزِلَ عَلَيَّ فِيهِ
اور پوچھا کہ پیر کا روزہ کیسا ہے ؟ فرمایا اس ہی دن تو میں پیدا ہوا یا فرمایا میری بعثت ہوئی یا قرآن نازل ہوا
—–
کتب حدیث میں تمام کتب میں اس کی سند میں عَبد اللهِ بْن مَعبَد، الزِّمّانِيّ، البَصرِيّ ہے جو ابی قتادہ سے اس کو روایت کرتا ہے
امام بخاری کے نزدیک یہ رویات صحیح نہیں ہیں کیونکہ عبد الله بن معبد الزماني بصری کا سماع ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے
بخاری تاریخ الکبیر میں عَبد اللهِ بْن مَعبَد، الزِّمّانِيّ، البَصرِيّ کے لئے کہتے ہیں
ولا نَعرِفُ سماعه من أَبي قَتادة.
اور ہم (محدثین) نہیں جانتے کہ ابی قتادہ سے اس کا سماع ہو
https://www.islamic-belief.net/innovations-in-islam/عید-میلاد-النبی/
———
ربیع الاول کی دس تاریخ کو ١١ ہجری پیر کا دن بنتا ہے
http://www.islamicity.org/Hijri-Gregorian-Converter/?AspxAutoDetectCookieSupport=1
June 4, 632
—-
http://www.oriold.uzh.ch/static/hegira.html
اس کے مطابق
١٣ ربیع الاول کا دن پیر کا تھا
یعنی علم ہیت کے حساب سے بھی ١٢ ربیع الاول وفات کی تاریخ اور پیر کا دن نہیں بنتا
⇑ کیا ١٢ تاریخ کو بروز پیر رسول صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش و وفات ہوئی
https://www.islamic-belief.net/q-a/تاریخ/
Aap s.amw ki pedaish pr ha,rat jibrail a.s ne jande nasab kiye
In riways ki haqiqat kya hai
Rasool’Allah ﷺ Ki Wiladat Ko Eid Kehna Kaisa ?
Aaiye Pahele Hum Eid Ka Matlab Samajh Lete Hai Eid Ka Lugvi Ma’ina ( Meaning ) Hai Khushi Agar Koi Arabi Khushi Ka Lafz Arabi Mein Kahega To Wo Yaahi Kahega ” Eid ” ishe Samjhane K Liye Qur’aan-e-Kareem wa Furqan-ul-Hameed Surah Maida Ki Ayat No. 114 Ek Ayat Pesh-e-Khidmat Hai,
” Essa ibn-e-Mariyam Ne Arz Ki Aye Allah ! Aye Rab Hamare ! Hum Par Aasman Se Ek Kuwan Utar K Woh ( Kuwan Utarne Ka Din ) Hamare Liye Eid Ho, Hamare Aglo’n Aur Pichlo Ki ”
is Ayat Se Maloom Huwa K Jis Din Allah Ki Khas Rehmat Nazil Ho Us Din Ko Eid Manana Aur Khushi Manana Allah Ka Shukar Ada Karna Ambiya Ka Tarika Hai Tabhi To Hazrat Essa عليه السلام Ne Dua Mangi.
Aap Khud Faisla Kare K Jis Din Hazrat Essa عليه السلام Par Kuwan Jaisi Nemat Utri To Wo Un K Agly Aur Pichlo’n K Liye Eid Ho To Jis Din Saare Alam K Liye-o-Jaha’n K Liye Jo Zaat Rehmat Hai Un Ki Wiladat Ho To Us Din Musalmano K Liye Eid Yaani Khushi Kaise Na Ho ?
Special Event Occurred During Milaad-e-Mustafa ﷺ
Riwayat No. 01
Hazrat-e-Fatimah Binteh Abdullah رضى الله تعالى عنه Farmati Hai’n, ” Huzoor ﷺ Ki Wiladat K Waqt Mein Ne Sitaaro Ko Dekha K Aasman Se Niche Utar Aaye Hai ”
( Mawahib-ul-Ladduniya, Jild No. 01, Page No. 22 )
Riwayat No. 02
Hazrat-e-Fatimah Binte Abdullah رضى الله تعالى عنه Farmati Hai’n, ” Huzoor ﷺ Ki Wiladat K Waqt Mein Ne Dekha K Saara Ghar Noor Se Pur Tha ”
( Hujjatullahi Alal Alameen, Page No. 227 )
Riwayat No. 03
” Aaqa ﷺ Ki Wiladat K Waqt Aap Ki Walida K Pas Aasman Se 4 Aurate’n Aayi,
1 ) Hazrat Hawwah
2 ) Hazrat Saarah
3 ) Hazrat Haajrah
4 ) Hazrat Aasiyah ”
( Tafsir-e-Alam Nashrah, Page No. 95 )
Riwayat No. 04
Rasool’Allah ﷺ Ki Wiladat Ki Khushi Mein Allah Kareem Ne Us Din / Raat Tamam Maao’n Ko Bete Ki Khushi Se Nawaza.
Books References:
Khasa’is-ul-Kubra, Jild No. 01, Page No. 117
Anwar-e-Muhammadiya, Page No. 22
Seerat-ul-Halbia, Jild No. 01, Page No. 78
Mawahib-ul-Laddunya, Jild No. 01, Page No. 111
Jhande Lehrana Kis Ki Sunnat Hai ?
Saboot No. 01
Hazrat-e-Amina رضى الله تعالى عنه Farmati Hai’n Ki,
” Jab Muhammad ﷺ Ki Wiladat Huwi Us Waqt Hazrat Jibreel علیہ السلام Ne 3 Jhandey Nasab Kiye Ek Magrib Mein, Ek Mashrik Mein Aur Ek Kaabe Ki Chat Par ”
is Riwayat Ko Shah Abdul Haq Muhaddees Dahelvi ﺭﺣﻤﺘﻪ ﺍﻟﻠﻪ عليه Ne Apni Kitab “Madarij-un-Nabuwa ” Jild No. 02 Mein Naqal Kiya Hai.
Saboot No. 02
Hadees Shareef Mein Aata Hai K Jab Sarkar ﷺ Madina Shareef Mein Dakhil Huwe To Aap K Haath Mein Sabz Jhanda Tha.
( Wafa Al Wafa, Jild No. 01, Page No. 243 )
Saboot No. 03
Huzoor ﷺ Ki Peda’ish Par Hazrat Jibraeel علیہ السلام Ne Jhandey Garhey.
( Khasais Al Qubra, Jild No. 01, Page No. 82 )
Naat-e-Mustafa ﷺ Padhna Kis Ki Sunnat Hai ?
Saboot No. 01
Huzoor ﷺ Hazrat Hassan رضی الله عنہ K Liye Masjid-e-Nabawi Shareef Mein Mimbar
Rakhte Aur Hazrat Hassan رضی الله عنہ Us Par Khade Ho Kar Huzoor ﷺ Ki Shaan-e-Aqdas Mein Natiya Ashaar Padhte The Aur Huzoor ﷺ Farmate Jab Tak Hassan Mere Baare Mein Naatiya Aur Fakhariya Ashaar Padhta Rahega To Beshak Allah Ta’ala Ruh-ul-uqdas ( Hazrat Jibrail عليه السلام ) K Zariye Hassan Ki Madad Farmata Hai ”
( Sunan Abu Dawood, Kitab-ul-Adab, Baab Fi’Shaar, Jild No. 05, Page No. 176, Hadees No. 5015 )
( Sunan Tirmizi, Kitab-ul-Adab, Baab Fi’inshad’Shaar, Jild No. 03, Page No. 561-562, Hadees No. 2846 )
Saboot No. 02
Hadees Mein Hai Ki Ek Sahabi رضی الله عنہ Ne Arz Kiya K Mujhe Huzoor ﷺ Ki Wo Waali Naat Sunao Jo Turait Mein Hai ”
( Mishkaat Shareef, Bab-ul-Fazail, Syed-ul-Mursaleen, Page No. 512 )
Kya Ab Bhi Naat Nahi Padhoge ?
Sahaba-e-ikraam Ki Sunnat Par Amal Nahi Karoge ?.
وروى عن عثمان بن أبى العاصى عن أمه أم عثمان الثقفية- واسمها فاطمة بنت عبد الله- قالت: لما حضرت ولادة رسول الله- صلى الله عليه وسلم- رأيت البيت حين وقع قد امتلأ نورا، ورأيت النجوم تدنو حتى ظننت أنها ستقع على «2» . رواه البيهقى.
فاطمة بنت عبد الله نے کہا آسمان کے تارے اتر آئے
روایت سائنس کے مطابق غلط ہے
دوم اس کی سند معلوم نہیں ہوئی
——-
Hazrat jibrail ne 3 jagah jande nasb kiye Nabi s.a.w ki pedaish k din
Or baki hadesi ki b tehqiq bta dein jo mere comment mn hai
Imam syuti
Alhavi lil fatawah mb khty hai 1/196 Nabi s.a.w ne apni pedaish k khushi k izhar k liye bakra zibah kiya
Kya yeh sahih hai
طبقات ابن سعد میں ہے
قال: أخبرنا محمد بن عمر بن واقد الأسلمي قال: حدّثني عليّ بن يزيد بن عبد الله بن وهب بن زَمْعَة عن أبيه عن عمته قالت: كنّا نسمع أن رسول الله، – صلى الله عليه وسلم -، لما حملت به آمنة بنت وهب كانت تقول: ما شعرتُ أني حملت به، ولا وجدت له ثقلةً كما تجد النساء، إلا أني قد أنكرت رفع حيضي وربما كانت ترفعني وتعود، وأتاني آتٍ وأنا بين النائم واليقظان فقال: هل شعرت أنك حملت؟ فكأني أقول ما أدري؛ فقال: إنك قد حملتِ بسيّد هذه الأمّة ونبيّها، وذلك يوم الاثنين، قالت: فكان ذلك مّما يَقّن عندي الحملَ، ثمّ أمهلني حتى إذا دنا ولادتي أتاني ذلك الآتي فقال: قولي أعيذه بالواحد الصّمَد من شر كل حاسد، قالت: فكنتُ أقول ذلك، فذكرت ذلك لنسائي، فقُلْن لي: تعلّقي حديدا في عضُدَيْكِ وفي عنقكِ، قالت: ففعلت، قالت: فلم يكن تُرِك عليّ إلَّا أيّامًا فأجده قد قُطع، فكنت لا أتعلّقه.قال: وأخبرنا محمد بن عمر بن واقد قال: حدثني محمَّد بن عبد الله عن الزهري قال: قالت آمنة لقد علقت به فما وجدت له مشقة حتى وضعته
آمنہ نے کہا ہیں: میں سونے اور جاگنے کی کیفیت میں تھی کہ کوئی آنے والا (فرشتہ) آیا، اس نے کہا کیا آپ کو علم ہے کہ آپ ماں بننے والی ہیں؟ گویا کہ میں نہ جانتی تھی تو اس نے کہا آپ اس امت کے سردار اور نبی کی ماں بننے والی ہیں۔ اور یہ پیر کا دن ہے – ….میرے پاس آنے والا فرشتہ آیا اس نے ہدایت کی جب اس کی ولادت ہوجائے تو یہ دعا پڑھنا اعیذہ اعیذہ بالواحد من شر کل حاسد“ یعنی میں ہر حاسد و بدخواہ کے شر سے اسے اللہ وحدہ لاشریک کی پناہ و حفاظت میں دیتی ہوں“ پھر اس کا نام محمد صلّی اللہ علیہ وسلم رکھنا کیونکہ ان کا نام تورات و انجیل میں احمد صلّی اللہ علیہ وسلم ہے زمین و آسمان والے سب ان کی تعریف کریں گے قرآن ان کی کتاب ہے۔
سند میں عليّ بن يزيد بن عبد الله بن وهب بن زَمْعَة مجہول الحال ہے
——
خصائص الکبری میں پیدائش کی روایت تفصیل سے ہے نعوذباللہ جس کے مطابق اپ صلی الله علیہ وسلم کس طرح اپنی ماں سے باہر نکلے بیان کیا گیا ہے
اسی میں ہے کہ
وأبصرت تِلْكَ السَّاعَة مَشَارِق الأَرْض وَمَغَارِبهَا وَرَأَيْت ثَلَاثَة أَعْلَام مضروبات علما فِي الْمشرق وعلما فِي الْمغرب وعلما على ظهر الْكَعْبَة فأخذني الْمَخَاض فَولدت مُحَمَّدًا صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَلَمَّا خرج من بَطْني نظرت إِلَيْهِ فَإِذا أَنا بِهِ سَاجِدا
آمنہ نے کہا من نے مشرق و مغرب میں دیکھا اور تین جھنڈے دیکھے ایک مشرق میں ایک مغرب میں ایک کعبہ پر اور محمد باہر آیا تو سجدے میں تھا
کتاب شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية از کے مطابق اس واقعہ کی سند اس کتاب میں ہے
وذكر أبو سعيد عبد الملك النيسابوري في كتابه المعجم الكبير كما نقله عنه صاحب كتاب السعادة والبشرى عن كعب في حديثه الطويل، ورواه أبو نعيم من حديث ابن عباس
یہ کعب الاحبار اور ابن عباس سے مروی ہے
اس کو نقل کر کے السيوطي نے لکھا ہے
قال السيوطي في الخصائص الكبرى (1/ 83) بعد أن ذكر أثراً آخر عن ابن عباس: “هذا الأثر والأثران قبله فيها نكارة شديدة ولم أورد في كتابي هذا أشد نكارة منها ولم تكن نفسي لتطيب بإيرادها لكني تبعت الحافظ أبا نعيم في ذلك
اور اثر میں اور اس قسم کے اثار میں جو گزرے بہت نکارت ہے اور میں نے اپنی کتابوں میں اس سے زیادہ شدید منکر روایات نقل نہیں کی ہیں اور نہ میرا دل خوش ہے ہے لیکن ابو نعیم کی اتباع کی ہے
یہ طویل روایت ابو نعیم اصبہانی نے دلائل النبوہ میں دی ہے
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ ثنا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّبَّاحِ قَالَ: ثنا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَمْرٍو الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَكَانَ مِنْ دَلَالَاتِ حَمْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ كُلَّ دَابَّةٍ كَانَتْ لِقُرَيْشٍ نَطَقَتْ تِلْكَ اللَّيْلَةَ وَقَالَتْ: حُمِلَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ وَهُوَ أَمَانُ الدُّنْيَا وَسِرَاجُ أَهْلِهَا وَلَمْ يَبْقَ كَاهِنَةٌ مِنْ قُرَيْشٍ وَلَا قَبِيلَةٌ مِنْ قَبَائِلِ الْعَرَبِ إِلَّا حُجِبَتْ عَنْ صَاحِبَتِهَا , وَانْتُزِعَ عِلْمُ الْكَهَنَةِ وَلَمْ يَكُنْ سَرِيرُ مَلِكٍ مِنْ مُلُوكِ الدُّنْيَا إِلَّا أَصْبَحَ مَنْكُوسًا وَالْمَلِكُ مُخْرَسًا لَا يَنْطِقُ يَوْمَهُ ذَلِكَ وَمَرَّتْ وُحُوشُ الْمَشْرِقِ إِلَى وُحُوشِ الْمَغْرِبِ بِالْبُشَارَاتِ , وَكَذَلِكَ الْبِحَارِ يُبَشِّرُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا بِهِ فِي كُلِّ شَهْرٍ مِنْ شُهُورِهِ نِدَاءٌ فِي الْأَرْضِ وَنِدَاءٌ فِي السَّمَاءِ: أَنْ أَبْشِرُوا؛ فَقَدْ آنَ لِأَبِي الْقَاسِمِ أَنْ يَخْرُجَ إِلَى الْأَرْضِ مَيْمُونًا مُبَارَكًا فَكَانَتْ أُمُّهُ تُحَدِّثُ عَنْ نَفْسِهَا وَتَقُولُ: أَتَانِي آتٍ حِينَ مَرَّ بِي مِنْ حَمْلِهِ سِتَّةُ أَشْهُرٍ فَوَكَزَنِي بِرِجْلِهِ فِي الْمَنَامِ وَقَالَ: يَا آمِنَةُ إِنَّكِ قَدْ حَمَلْتِ بِخَيْرِ الْعَالَمِينَ طُرًّا فَإِذَا وَلَدْتِيهِ فَسَمِّيهِ مُحَمَّدًا وَاكْتُمِي شَأْنَكِ. قَالَ: فَكَانَتْ تَقُولُ: لَقَدْ أَخَذَنِي مَا يَأْخُذُ النِّسَاءَ وَلَمْ يَعْلَمْ بِي أَحَدٌ مِنَ الْقَوْمِ ذَكَرٌ وَلَا [ص:611] أُنْثَى وَإِنِّي لَوَحِيدَةٌ فِي الْمَنْزِلِ وَعَبْدُ الْمُطَّلِبِ فِي طَوَافِهِ قَالَتْ: فَسَمِعْتُ وَجْبَةً شَدِيدَةً وَأَمْرًا عَظِيمًا فَهَالَنِي ذَلِكَ وَذَلِكَ يَوْمُ الِاثْنَيْنِ فَرَأَيْتُ كَأَنَّ جَنَاحَ طَيْرٍ أَبْيَضَ قَدْ مَسَحَ عَلَى فُؤَادِي فَذَهَبَ عَنِّي كُلُّ رُعْبٍ وَكُلُّ فَزَعٍ وَوَجَعٍ كُنْتُ أَجِدُهُ , ثُمَّ الْتَفَتُّ فَإِذَا أَنَا بِشَرْبَةٍ بَيْضَاءَ وَظَنَنْتُهَا لَبَنًا , وَكُنْتُ عَطْشَى , فَتَنَاوَلْتُهَا فَشَرِبْتُهَا فَأَضَاءَ مِنِّي نُورٌ عَالٍ , ثُمَّ رَأَيْتُ نِسْوَةً كَالنَّخْلِ الطِّوَالِ كَأَنَّهُنَّ بَنَاتُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ يُحَدِّقْنَ بِي فَبَيْنَا أَنَا أَعْجَبُ وَأَقُولُ: وَاغَوْثَاهْ مِنْ أَيْنَ عَلِمْنَ بِي هَؤُلَاءِ وَاشْتَدَّ بِيَ الْأَمْرُ وَأَنَا أَسْمَعُ الْوَجْبَةَ فِي كُلِّ سَاعَةٍ أَعْظَمَ وَأَهْوَلَ فَإِذَا أَنَا بِدِيبَاجٍ أَبْيَضَ قَدْ مُدَّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَإِذَا قَائِلٌ يَقُولُ: خُذُوهُ عَنْ أَعْيُنِ النَّاسِ قَالَتْ: وَرَأَيْتُ رِجَالًا قَدْ وَقَفُوا فِي الْهَوَاءِ بِأَيْدِيهِمْ أَبَارِيقُ فِضَّةٍ وَأَنَا يَرْشَحُ مِنِّي عَرَقٌ كَالْجُمَانِ أَطْيَبُ رِيحًا مِنَ الْمِسْكِ الْأَذْفَرِ وَأَنَا أَقُولُ: يَا لَيْتَ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ قَدْ دَخَلَ عَلَيَّ وَعَبْدُ الْمُطَّلِبِ عَنِّي نَاءٍ قَالَتْ: فَرَأَيْتُ قِطْعَةً مِنَ الطَّيْرِ قَدْ أَقْبَلَتْ مِنْ حَيْثُ لَا أَشْعُرُ حَتَّى غَطَّتْ حُجْرَتِي مَنَاقِيرُهَا مِنَ الزُّمُرُّدِ وَأَجْنِحَتُهَا مِنَ الْيَوَاقِيتِ فَكَشَفَ لِي عَنْ بَصَرِي فَأَبْصَرْتُ سَاعَتِي مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا , وَرَأَيْتُ ثَلَاثَ أَعْلَامٍ مَضْرُوبَاتٍ: عَلَمٌ فِي الْمَشْرِقِ , وَعَلَمٌ فِي الْمَغْرِبِ , وَعَلَمٌ عَلَى ظَهْرِ الْكَعْبَةِ وَأَخَذَنِي الْمَخَاضُ وَاشْتَدَّ بِيَ الْأَمْرُ جِدًّا فَكُنْتُ كَأَنِّي مُسْتَنِدَةٌ إِلَى أَرْكَانِ النِّسَاءِ , وَكَثُرْنَ عَلَيَّ حَتَّى كَأَنَّ الْأَيْدِي مَعِي فِي الْبَيْتِ وَأَنَا لَا أَرَى شَيْئًا، فَوَلَدْتُ مُحَمَّداً صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا خَرَجَ مِنْ بَطْنِي دُرْتُ فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ فَإِذَا أَنَا بِهُ سَاجِدٌ قَدْ رَفَعَ إِصْبَعَيْهِ كَالْمُتَضَرِّعِ الْمُبْتَهِلِ ثُمَّ رَأَيْتُ سَحَابَةً بَيْضَاءَ قَدْ أَقْبَلَتْ مِنَ السَّمَاءِ تَنْزِلُ حَتَّى غَشِيَتْهُ فَغُيِّبَ عَنْ وَجْهِي، فَسَمِعْتُ مُنَادِيًا يَقُولُ: طُوفُوا بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَرْقَ الْأَرْضِ وَغَرْبَهَا وَأَدْخِلُوهُ الْبِحَارَ كُلَّهَا؛ [ص:612] لِيَعْرِفُوهُ بِاسْمِهِ وَنَعْتِهِ وَصُورَتِهِ وَيَعْلَمُوا أَنَّهُ سُمِّيَ فِيهَا الْمَاحِيَ؛ لَا يَبْقَى شَيْءٌ مِنَ الشِّرْكِ إِلَّا مُحِيَ بِهِ فِي زَمَنِهِ ثُمَّ تَجَلَّتْ عَنْهُ فِي أَسْرَعِ وَقْتٍ فَإِذَا بِهِ مُدْرَجٌ فِي ثَوْبٍ صُوفٍ أَبْيَضَ أَشَدِّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ وَتَحْتَهُ حَرِيرَةٌ خَضْرَاءُ قَدْ قَبَضَ عَلَى ثَلَاثِ مَفَاتِيحَ مِنَ اللُّؤْلُؤِ الرَّطْبِ الْأَبْيَضِ وَإِذَا قَائِلٌ يَقُولُ: قَبَضَ مُحَمَّدٌ عَلَى مَفَاتِيحِ النَّصْرِ وَمَفَاتِيحِ الرِّيحِ وَمَفَاتِيحِ النُّبُوَّةِ وَلِمَوْلِدِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَعَ الْآيَاتُ الْعَجِيبَةُ مِمَّا رُوِيَ مِمَّا تَقَدَّمَ ذِكْرُهُ فِي مَوْضِعِهِ مِنْهَا مَا قَالَهُ الْيَهُودِيُّ الَّذِي قَدِمَ مَكَّةَ تَاجِرًا فِي اللَّيْلَةِ الَّتِي وُلِدَ فِيهَا: إِنَّهُ وُلِدَ فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ نَبِيُّ هَذِهِ الْأُمَّةِ بِهِ شَامَةٌ بَيْنَ كَتِفَيْهِ فِيهَا شَعَرَاتٌ مُتَوَالِيَاتٌ لَا يَرْضَعُ لَيْلَتَيْنِ. فَعَجِبَ الْقَوْمُ مِنْ حَدِيثِهِ فَقَامُوا حَتَّى دَخَلُوا عَلَى آمِنَةَ فَقَالُوا: أَخْرِجِي ابْنَكِ فَنَظَرَ إِلَيْهِ وَإِلَى الشَّامَةِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ فَخَرَّ الْيَهُودِيُّ مَغْشِيًّا عَلَيْهِ فَلَمَّا أَفَاقَ قَالُوا لَهُ: مَا لَكَ؟ قَالَ: ذَهَبَتْ وَاللَّهِ نُبُوَّةُ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَخَرَجَ الْكِتَابُ مِنْ أَيْدِيهِمْ وَهَذَا الْمَوْلُودُ يَقْتُلُهُمْ وَيُبَيِّنُ أَخْبَارَهُمْ وَلَيَسْطُوَنَّ بِكُمْ يَا مَعْشَرَ الْعَرَبِ وَحُجِبَ الشَّيْطَانُ فِي تِلْكَ اللَّيْلَةِ مِنِ اسْتِرَاقِ السَّمْعِ وَرُمُوا بِالشُّهُبِ وَنَطَقَتِ الْكُهَّانُ وَالسَّحَرَةُ مِثْلَ شِقٍّ وَسَطِيحٍ وعُظَمَاءُ الْمُلُوكِ بِمَا رَأَتْ فِي تِلْكَ اللَّيْلَةِ كَكِسْرَى وَارْتِجَاسِ إِيوَانِهِ وَخُمُودِ النِّيرَانِ وَغَيْضِ الْمَاءِ وَفَيْضِ الْأَوْدِيَةِ وَرُؤْيَا الْمُؤبِذَانِ كَمَا تَقَدَّمَ ذِكْرُهُ بِأَسَانِيدَ فِي بَابِ مَوْلِدِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَمَّا قَوْلُهُ تَعَالَى: وَرَحْمَةً مِنَّا فَنَبِيُّنَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَفَهُ اللَّهُ تَعَالَى بِأَعَمِّ الرَّحْمَةِ وَأَكْمَلِهَا فَقَالَ: {وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ} [الأنبياء: 107]
[ص:613] فَمَنْ صَدَّقَهُ وَآمَنَ بِهِ؛ فَإِنَّهُ يَرْحَمُهُ اللَّهُ تَعَالَى فِي الدَّارَيْنِ وَمَنْ لَمْ يُصَدِّقْهُ أَمِنَ فِي حَيَاتِهِ مِمَّا عُوقِبَ بِهِ الْمُكَذِّبُونَ مِنَ الْأُمَمِ: الْخَسْفِ وَالْمَسْخِ وَالْقَذْفِ وَقَدْ تَقَدَّمَ بَيَانُ هَذَا. فَإِنْ قُلْتَ: إِنَّ عِيسَى كَانَ يَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللَّهِ تَعَالَى. قُلْنَا: إِنَّ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَظِيرَهُ فَإِنَّ عُكَّاشَةَ بْنَ مِحْصَنٍ انْقَطَعَ سَيْفُهُ يَوْمَ بَدْرٍ فَدَفَعَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جِذْلًا مِنْ حَطَبٍ وَقَالَ: قَاتِلْ بِهَذَا فَعَادَ فِي يَدِهِ سَيْفًا شَدِيدَ الْمَتْنِ أَبْيَضَ الْحَدِيدِ طَوِيلَ الْقَامَةِ فَقَاتَلَ بِهِ حَتَّى فَتَحَ اللَّهُ تَعَالَى عَلَى الْمُسْلِمِينَ ثُمَّ لَمْ يَزَلْ يَشْهَدُ بِهِ الْمَشَاهِدَ إِلَى أَيَّامِ الرِّدَّةِ فَالْمَعْنَى الَّذِي بِهِ أَمْكَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُصَيِّرَ الْخَشَبَةَ حَدِيدًا وَيَبْقَى عَلَى الْأَيَّامِ هُوَ الْمَعْنَى الَّذِي خَلَقَ بِهِ عِيسَى مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ , ثُمَّ اسْتِمَاعُ التَّسْبِيحِ وَالتَّقْدِيسِ وَالتَّهْلِيلِ مِنَ الْحَجَرِ الصُّمِّ فِي يَدِهِ , وَشَهَادَةُ الْأَحْجَارِ وَالْأَشْجَارِ لَهُ بِالنُّبُوَّةِ , وَأَمْرُهُ لِلْأَشْجَارِ بِالِاجْتِمَاعِ , وَالِالْتِزَاقِ , وَالِافْتِرَاقِ , كُلُّ ذَلِكَ جَانَسَ إِحْيَاءَ الْمَوْتَى وَطَيَرَانَ الْمُصَوَّرِ مِنَ الطَّيْرِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ. فَإِنْ قَالَ: إِنَّ عِيسَى كَانَ يُبْرِئُ الْعِمْيَانَ , وَالْأَكْمَهَ , وَالْأَبْرَصَ , بِإِذْنِ اللَّهِ. قُلْنَا: إِنَّ قَتَادَةَ بْنَ النُّعْمَانِ نَدَرَتْ حَدَقَتُهُ يَوْمَ أُحُدٍ مِنْ طَعْنَةٍ أُصِيبَ فِي عَيْنِهِ فَأَخَذَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى
—
اس کی سند میں أبو بكر بن عبد الله بن أبي مريم الغساني الشامي ہے جو سخت ضعیف ہے
قال ابن حبان: هو رديء الحفظ، وهو عندي ساقط الاحتجاج به إذا انفرد.
ابن حبان نے کہا ردی حافظہ کا مالک تھا اور میرے نزدیک اس کی منفرد روایت ساقط دلیل ہے
Sir ik bat kahu… Kya pta yeh esterahtan sitaron ka utrna likha ho… Murad yeh b ho sakti hai k chudwen raat ho saktu hai es se murad…… Or uper ap ne 2 naam b likhy hai
Usmam bin abi aas or.. Umm usman saqifa yeh kon hai
نہیں ایسا نہیں ہے
یہ اردو ادب نہیں عربی ہے اس میں قسم کا کلام نہیں ہوتا
Mere mimbe or qabr ka drmiyn jannat k tukru mn ik tukrs hai
Is sawal ka link yhn paste kr dein
اس روایت کے متن میں اضطراب ہے
بعض اوقات راوی کہتا ہے میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کے الفاظ ہیں
اور بعض نے کہا میری قبر اور منبر کے درمیان کہا
——-
اس حدیث کے ان دونوں الفاظ سے ثابت ہوا کہ قبر نبی جنت کا حصہ نہیں کیونکہ اس میں قبر اور منبر کے درمیان کو جنت کہا گیا ہے
اصل میں یہ مقام اصل مسجد النبی ہے جس کا ذکر ہو رہا ہے اس کا قبر سے کوئی تعلق ہی نہیں
کیونکہ میرے گھر اور منبر کے درمیان مسجد النبی ہے
Kha jata hai hazrat aisha k ghar ka darwaza masjid mn khuta hai jab Nabi s.a.w itekaf krty to usi mukam pr teht laganaty. To us ghr k darwzae se gatt k rakha gya mimber masjid mn
میری کچھ سمجھ نہیں آیا یہ کیا لکھا ہے
اردو میں لکھنا شروع کریں
جب بھی حلال نظر آئے تو دعا کرنی چاہیے یا صرف رمضان کے چاند کیلئے دعا کرنی ثابت ہے؟
چاند دیکھ کر دعا کرنے والی روایت صحیح نہیں ہے
اس کی روایت کے تمام طرق ضعیف ہیں لہٰذا حسن لغیرہ درجے کی ہے – فقہاء نے البتہ اس ضعیف روایت سے دلیل لی ہے
عید میلاد النبی کب سے منانا شروع ہوئی
ميلاد النبي كا أغاز انہی علاقوں میں ہوا جہاں عید میلاد النبی عیسیٰ بنائی جاتی تھی
جب نصرانی ایمان لائے تو انہوں نے اس کو جاری رکھا اور آغاز شام سے ہوا
اس کی وجہ یہ تھی کہ شام میں نصرانییں کی کثرت تھی اور رسول الله کی پیدائش پر نور نکلا والی روایات میں بھی اہل شام کا تفرد ہے
اہل سنت میں سے بعض جو عید میلاد النبی کو بدعت کہتے ہیں وہ اس تہوار کو باطنی شیعوں کی ایجاد کہتے ہیں اور کہتے ہیں عید میلاد فاطمی دور(362ھ تا 567ھ کے درمیان ) میں ایجاد ہوئی اور اسے ایجاد کرنے والے فاطمی خلفاء ہی تھے
فاطمی باطنی عقائد رکھتے تھے آجکل ان کو خوجہ کہتے ہیں جو کراچی یمن اور ممبئی میں آباد ہیں
لیکن اپ غور کریں اصل میں جن روایات سے اس بدعت کا جواز لیا جاتا ہے (یعنی پیدائش نبی کے قصے) وہ سب شام میں ١٢٠ ہجری سے پہلے کی ہیں یعنی دور بنو امیہ کے آخر اور بنو عباس کے شروع میں اس قسم کی غلو پر منبی روایات بیان کی گئی ہیں
تو ٣٠٠ سال بعد انے والے اس کے موجد کیوں قرار دیے جائیں؟
بعض کہتے ہیں کہ یہ یہودیوں اور مجوسیوں کی ایجاد ہے گویا کہ شیعہ تمام کے تمام یہودی و مجوسی ہوئے یہ بھی منفی پروپیگنڈا ہے نہ ان لوگوں کو تحقیق سے کچھ علاقہ ہے نہ تاریخ کی خبر ہے
Baatni aqaid se kya murad hai
باطنی عقائد اہل تشیع کے بعض فرقوں کے ہیں
ان کے مطابق قرآن میں کوڈ لینگویج ہے اور اس کوڈ کو تاویل سے کھولا جائے گا
قرآن کا مطلب ظاہر پر نہیں لیا جا سکتا کیونکہ رسول الله دشمنوں یعنی ابو بکر اور عمر کے درمیان گھرے ہوئے تھے لہذا الله تعالی نے کوڈ میں رسول الله اور مومنوں سے کلام کیا
یہ تصور باطنی عقیدہ کی جڑ ہے
اسماعیلی اور بوہرہ فرقہ باطنی شیعہ ہوتے ہیں
مزید دیکھ سکتی ہیں
http://ismaili.net/heritage/node/12545
پورے سال میں جب بھی ہلال یعنی بارہ مہینوں میں بارہ بار چاند نظر آئے گا تو ہر دفعہ نظر آنے والے ہلال کیلئے دعا کی جائے گی یا پھر صرف رمضان کے ہلال کیلئے ہو گی
چاند دیکھ کر دعا کرنے والی روایت صحیح نہیں ہے
اس کی روایت کے تمام طرق ضعیف ہیں لہٰذا حسن لغیرہ درجے کی ہے – فقہاء نے البتہ اس ضعیف روایت سے دلیل لی ہے
———–
میرے علم میں اس کو رمضان سے مخصوص کرنے کی ضرورت نہیں ہے
Jumma ko eid kehna is pr mujood hadith kya sahih hai.. Matan.tarjuma o tehkeek bta dein
اپ اس بلاگ کو پڑھ بھی رہی ہیں یا نہیں اس میں یہ سب موجود ہے
بریلوی فرقہ کی جانب سے دلیل پیش کی جاتی ہے کہ جمعہ عید کا دن ہے اور روایت پیش کرتے ہیں
إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فِيهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيهِ قُبِضَ، وَفِيهِ النَّفْخَةُ، وَفِيهِ الصَّعْقَةُ، فَأَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيهِ
لیکن یہ روایت خود امام بخاری کی تاریخ الصغیر کے مطابق معلول ہے اور ضعیف ہے
ابن ماجہ کی روایت ہے
حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ خَالِدٍ الْوَاسِطِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ غُرَابٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي الْأَخْضَرِ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ هَذَا يَوْمُ عِيدٍ، جَعَلَهُ اللَّهُ لِلْمُسْلِمِينَ، فَمَنْ جَاءَ إِلَى الْجُمُعَةِ فَلْيَغْتَسِلْ، وَإِنْ كَانَ طِيبٌ فَلْيَمَسَّ مِنْهُ، وَعَلَيْكُمْ بِالسِّوَاكِ»
ابن عباس کہتے ہیں رسو ل الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جمعہ کا دن عید ہے
اس کی سند کمزور ہے سند میں صَالِحِ بْنِ أَبِي الْأَخْضَرِ جس کو امام نسائی، امام ابن معین، ابو زرعہ اور ابن حجر کی جانب سے ضعیف کہا گیا ہے
Aap s.a.w ki pedaish pr shetan roya…
Ibne katheer khty hai. Bidya wan niya mn tehqeq chahiye
قرطبی نے اس روایت کو ابن الانباری کے حوالہ سے اپنی تفسیر میں بایں سند ذکر کیا ہے :
وَذَكَرَ ابْنُ الْأَنْبَارِيِّ فِي كِتَابِ الرَّدِّ لَهُ: حَدَّثَنِي أبي حَدَّثَنِي أَبُو عُبَيْدِ اللَّهِ الْوَرَّاقُ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا شَيْبَانُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: إِنَّ إِبْلِيسَ لَعَنَهُ اللَّهُ رَنَّ أَرْبَعَ رَنَّاتٍ : حِينَ لُعِنَ، وَحِينَ أُهْبِطَ مِنَ الْجَنَّةِ، وَحِينَ بُعِثَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحِينَ أُنْزِلَتْ فَاتِحَةُ الْكِتَابِ، وَأُنْزِلَتْ بِالْمَدِينَةِ.
البدایہ از ابن کثیر میں ہے
وروى أبوالديبع عن جرير بن عبد الحسيب عن منصور عن مجاهد.
قال رن إبليس أَرْبَعَ رَنَّاتٍ،
حِينَ لُعِنَ، وَحِينَ أُهْبِطَ، وَحِينَ بعث النبي صلى الله عليه وسلم وحين أنزلت (الحمد لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ) [الفاتحة: 2] وأنزلت بالمدينة.
العظمة از المؤلف: أبو محمد عبد الله بن محمد بن جعفر بن حيان الأنصاري المعروف بأبِي الشيخ الأصبهاني (المتوفى: 369هـ) میں ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو يَعْلَى، حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى قَالَ: رَنَّ إِبْلِيسُ أَرْبَعًا حِينَ لُعِنَ، وَحِينَ أُهْبِطَ، وَحِينَ بُعِثَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبُعِثَ عَلَى فَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ، وَحِينَ أُنْزِلَتِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، قَالَ: نَزَلَتْ بِالْمَدِينَةِ وَكَانَ يُقَالُ الرَّنَّةُ وَالنَّخِرَةُ مِنَ الشَّيْطَانِ فَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ رَنَّ أَوْ نَخَرَ ”
یہ منصور بن معتمر ثقہ شیعہ نے مجاہد سے قول منسوب کیا ہے
مجاہد کے تفسیری قول اور منفرد اقوال ناقابل قبول ہیں مثلا ان کا ایک قول تھا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بیٹھا دیا جائے گا – اس پر عقیدہ وہابی لوگوں کا ہے
دوسرا قول تھا کہ ہاروت و ماروت بابل میں قید فرشتے ہیں
راقم دونوں کا انکار کرتا ہے مجاہد کی منکرات میں شمار کرتا ہے
شیطان کا رونا دھونا بھی اسی قسم کی بات ہے -گویا کہ اس کو پل پل کی خبر رہی کہ نبی صلی الله علیہ وسلم پر کیا نازل ہو رہا ہے جبکہ قرآن میں ہے کہ شیطان کو الوحی سے دور رکھا گیا ہے
——–
اہل تشیع کی کتب مثلا بحار الأنوار میں یہ قول امام جعفر سے منسوب ہے
بالإسناد عن ابن أبي عمير، عن هشام بن سالم، عن الصادق عليه
السلام قال: امر إبليس بالسجود لآدم، فقال: يا رب وعزتك إن أعفيتني من السجود لآدم
لأعبدنك عبادة ما عبدك أحد قط مثلها، قال الله جل جلاله: إني احب أن اطاع من حيث
اريد. وقال: إن إبليس رن أربع رنات أولهن يوم لعن، ويوم اهبط إلى الأرض، وحيث بعث
(1) محمد صلى الله عليه وآله على فترة من الرسل، وحين انزلت ام الكتاب، ونخر
نخرتين: حين أكل آدم من الشجرة، وحين اهبط من الجنة
سير أعلام النبلاء: 5 / 407. میں ہے
وقال أبو نعيم الملائي: سمعت حماد بن زيد يقول: رأيت منصور بن المعتمر صاحبكم، وكان من هذه الخشبية، وما اراه يكذب. قلت: الخشبية: هم الشيعة
حماد بن زید نے کہا میں نے منصور بن المعتمر تمہارے صاحب کو دیکھا اور یہ الخشبية میں سے تھا لیکن میں نے نہیں دیکھا جھوٹ بولتا ہو الذھبی نے کہا میں کہتا ہوں الخشبية یہ شیعہ تھے
الخشبية پر کچھ معلومات میری کتاب جو المہدی سے متعلق ہیں ان میں ہے کہ یہ لاٹھی سے قتل کرتے تھے اور ان کے نزدیک امام غائب تھا جب ظاہر ہو گا تو تلوار سے قتل کریں گے
الخشبية کے امام زید بن علی تھے جن کو سولی دی گئی لہذا اہل سنت میں بعض کی رائے ہے کہ الخشبية سے مراد وہ لکڑی کی طرف اشارہ ہے جس پر زید کو اموی خلیفہ ہشام بن عبد الملک کے دور میں سولی دی گئی
شیعہ کتاب أصحاب الامام الصادق (ع) – عبد الحسين الشبستري کے مطابق
كان بتريا ومن أنصار الشهيد زيد بن علي بن الحسين ومن الداعين الى بيعته
منصور بن معتمر اصحاب زید بن علی میں ہے تھے پھر محمد بن عبد الله المہدی کے ساتھیوں میں شامل ہوئے
منصور کے ایک سوتیلے بھائی ان کی ماں کی طرف سے محمد بن علي بن الربيع تھے جو شیعہ اور اصحاب امام جعفر میں سے تھے ممکن ہے ان سے یہ قول ہوتا منصور کو ملا اور منصور نے اس کو مجاہد سے منسوب کیا
اہل سنت میں منصور بن معتمر سے صحاح ستہ میں روایات لی گئی ہیں
Jab riwayt masoob krny wala siqqa ravi hai
Toh phir kya qabil e qubool nahi… Or ao ne kha k munkir qol hai…m magr kesy
علم حدیث میں یہ بات معلوم ہے کہ ثقہ بھی منکر روایات بیان کر دیتا ہے
ثقہ کہنے سے تمام روایات صحیح نہیں ہو جاتیں
چاند دیکھنے کے بارے میں آپ نے کہا ہے کہ یہ ضعیف ہے لیکن فقہا نے استدلال کیا ہے میرا سوال یہ ہے کہ ہم ضعیف حدیث جو حسن لغیرہ کے درجے پر پہنچ جائے یا نہ بھی پہنچے تو اس سے دلیل لے سکتے ہیں اگر عقائد میں خرابی نہ ہو تو؟؟؟
فقہاء امام مالک امام ابو حنیفہ اور امام شافعی وہ مسائل جس میں قرآن و حدیث نہ ہو ان میں قیاس کےقائل ہیں
امام احمد کہتے ہیں قیاس کی بجائے ضعیف حدیث لو اور اس دور کے محدثین نے یہی کیا سنن اربعہ والوں نے ضعیف احادیث سے استدلال کیا ہے مثلا ابو داود – نسائی – ابن ماجہ اور ترمذی
میں خود قیاس کا قائل ہوں – ضعیف حدیث کو چھوڑ دینا بہتر ہے
مثلا بظاہر ضعیف حدیث کو حسن کہہ کر ترمذی نے لیا ہے لیکن ہمارے فرقے اس سے بد عقیدہ ہوئے ہیں
بات صرف اپ تک محدود نہیں رہے گی آگے جائے گی انے والے لوگ کہیں گے کہ ہم سے پہلے والے اس سے دلیل لیتے تھے پھر عقیدہ کا کوئی ایسا پہلو نکل سکتا ہے جو اپ ابھی سوچ نہیں رہیں
Jab un k samne dalil di jati k falan muhadus ne is riwayt ko zaef kha hai to kha jata hai k inhone ne i eid melad ko jaiz kha hai
Ye dekhein
-;- عید میلاد النبی -؛- ٦
،، صلی اللہ علیہ والہ وسلم ،،
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم
سلف صالحین کے اقوال کی روشنی میں دیکھیں
حضرت امام قسطلانی شارح بخاری رحمتہ اللہ علیہ مواھب اللدینہ میں فرماتے ہیں =
لازال اھل الاسلام یحتفلون بشھر مولدہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم
ترجمہ = حضور علیہ السلام کے پیدائش کے مہینہ میں اھل اسلام ہمیشہ سے محفلیں منعقد کرتے چلے آ رہے ہیں اور خوشی کے ساتھ کھانا پکاتے رہے ہیں اور دعوت طعام کرتے ہیں اور ان راتوں میں انواع و اقسام کی خیرات کرتے رہے ہیں اور سرور ظاہر کرتے چلے آۓ ہیں اور نیک کاموں میں ہمیشہ زیادتی کرتے آۓ ہیں
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مولد شریف کی قرأت کا اہتمام خاص کرتے چلے آۓ ہیں جس کی برکتوں سے ان پر اللہ کا فضل ہوتا ہے اور اس کے خواص سے یہ عمل مجرب ہے کہ انعقاد محفل میلاد اس سال میں موجب امن و امان ہوتا ہے اور ہر مقصود و مراد پانے کے لۓ جلدی آنے والی خوشخبری ہوتی ہے تو اللہ تعالی اس شخص پر بہت رحمتیں فرماۓ جس نے ماہ میلاد مبارک کی ہر رات کو عید بنا لیا تا کہ یہ عید میلاد سخت ترین علت و مصیبت ہو جائے اس شخص پر جس کے دل میں مرض اور عناد ہے
” تفسیر روح البیان جلد نہم ص ۵۶ ”
علامہ اسماعیل حقی نے فرمایا
من تعظیمہ عمل المولد اذا لم یکن فیہ منکر قال الامام السیوطی قدس سرہ یستحب لنا اظہارِ الشکر بمولدہ علیہ السلام. .الخ
میلاد شریف کرنا بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک تعظیم ہے جب وہ منکرات سے خالی ہو – امام سیوطی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہمارے لۓ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت پر شکر کا اظہار کرنا مستحب ہے
” لسان العیون سیرت حلبیہ میں علامہ برہان الدین حلبی نے فرمایا ”
ترجمہ = ہمیشہ سے اہل اسلام تمام اطراف والے اور بڑے بڑے شہروں والے ربیع الاول شریف کے مہینے کی راتوں میں صدقات کرتے ہیں اور اس مہینہ میں مولد شریف کی قرأت میں محافل منعقد کرتے ہیں
میلاد شریف کا انعقاد حرمین شریفین کے ساتھ مختص نہیں بلکہ تمام عالم اسلام کا معمول ہے جیسا کہ مذکورہ بالا عبارت سے ثابت ہے
“اب تمام اہل اسلام ایک طرف ہیں اور منکر میلاد دوسری طرف تو انصاف کریں حق کس جانب ہے ”
تفسیر روح البیان جلد نہم ص ۵۶ پر ہے
امام ابن جوزی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میلاد شریف منعقد کرنا سارے سال کے لۓ باعث امان ہے اور جلد مقصد حاصل ہونے کے لۓ ایک خوشخبری ہے
علامہ قسطلانی شارح بخاری اور علامہ برہان الدین حلبی کے الفاظ پر غور فرمائیں کہ وہ فرما رہے ہیں کہ اہل اسلام کا ہمیشہ سے یہ طریقہ چلا آ رہا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مہینہ ولادت میں اظہار سرور کرتے ہیں صدقات و خیرات کرتے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت بیان کرنے کے لۓ محافل منعقد کرتے ہیں تو ان دونوں کے قول سے ثابت ہوا کہ ان چیزوں کے استحباب پر امت مسلمہ کا اجماع ہے تو اب اجماع کے خلاف کرنے والے پر
من شذ شذ فی النار
یعنی جو جماعت کی مخالفت کرے گا وہ نار میں جاۓ گا سچا آۓ گا امام ابن جوزی ، امام قسطلانی شارح بخاری اور علامہ سید برہان الدین حلبی رحمتہ اللہ علیہم کے فرمان پر غور کرنے سے یہ چند امور معلوم ہوۓ
۱=ماہ میلاد ( ربیع الاول ) میں انعقاد محفل اہل اسلام کا طریقہ رہا ہے
۲= کھانے پکانے کا اہتمام ، انواع و اقسام میں خیرات و صدقات ماہ میلاد کی راتوں میں اہل اسلام ہمیشہ کرتے رہے ہیں
۳= ماہ ربیع الاول میں خوشی و مسرت کا اظہار مسلمانوں کا شیوہ ہے
۴ = ماہ میلاد کی راتوں میں زیادہ سے زیادہ نیک کام کرنا مسلمانوں کا پسندیدہ طریقہ چلا آیا ہے
۵= ماہ ربیع الاول میں میلاد شریف اور قرأت میلاد پاک کا اہتمام خاص کرنا مسلمانوں کا محبوب طرز ہے
۶= میلاد کی برکتوں سے میلاد کرنے والوں پر اللہ تعالی کا فضل عمیم ہمیشہ سے ظاہر ہوتا چلا آیا ہے
۷= محفل میلاد کے خواص سے مجرب خاصہ ہے کہ جس سال محافل میلاد منعقد کی جائیں وہ تمام سال امن و امان سے گزرتا ہے
۸= انعقاد محافل میلاد مطلب پانے کے لۓ بشریٰ عاجلہ ( جلد آنے والی خوشخبری ہے )
۹= میلاد پاک کی راتوں کو عید منانے والے مسلمان اللہ تعالی کی رحمتوں کے اہل ہیں
۱۰ = ربیع الاول شریف میں میلاد پاک کی محفلیں منعقد کرنا اور ماہ میلاد کی ہر رات کو عید میلاد منانا ان لوگوں کے لۓ سخت مصیبت ہے جن کے دلوں میں نفاق کا مرض اور بغض رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری ہے ۔۔
Kia jawab hoga iska
ایک دور میں یہ مسلمانوں کا عمومی عمل رہا تھا کہ حجاز میں عراق میں مصر میں تصوف کا دور دورہ تھا بڑے بڑے علماء صوفی تھے جن میں یہ تمام لوگ ہیں جن کے نام اوپر ہیں – یہ لوگ حیات فی القبر کے قائل تھے اور رسول الله اور تمام انبیاء کی قبور پر جمع ہونا نیکی سمجھا جاتا تھا اس کا پرچار کیا جاتا تھا اور اسی طرح مولود شریف منایا جاتا
https://ur.wikipedia.org/wiki/علی_بن_برہان_الدین_حلبی#وفات
گیارہویں صدی ہجری کا ہے
——-
https://ar.wikipedia.org/wiki/شهاب_الدين_القسطلاني
اور
الامام السیوطی
دسویں صدی ہجریکے ہیں
——-
روح البيان کے مولف إسماعيل حقي بن مصطفى الإستانبولي الحنفي الخلوتي , المولى أبو الفداء (المتوفى: 1127هـ یہ بارہویں صدی کے ہیں
یعنی دسویں صدی اور اس کے بعد سے عید میلاد کا روز بڑھا ہے
=========
میرا سوال ہے کہ قرون ثلاثہ میں یہ نیکی کیوں نہیں کی جاتی تھی جس کو خیر القرون کہا جاتا ہے؟
ایک طرف تو میلاد منانے پر اس دور میں بقول شخصے اجماع ہوا تھا تو پھر ان نیکیوں کے عالم میں کیا بات ہوئی کہ تمام عالم اسلام پر انگریز کی حکومت ہو گئی؟
Sid unkidaleel haxrat mavia ki hadith k sahaba masjid mn baithy zikr kr rahy thy or Nabi ne kha k fariston ne mehfil ko gher rakha hai
Jab kha jata hai k eid sirf 2 hai is pr eid ka lafz na bolein or khte hai is se mjrad kushi hai jesy k surah maida ki ayat e khuwan mn hai
To kya kha jae
یہ بات صحیح ہے کہ الله کا ذکر کرنے والی محفل پر فرشتے اتے ہیں ایسا حدیث میں بیان ہوا ہے لیکن اصول یہ بھی ہے کہ یہ اجتماع سنت کا ہو عمل رسول سے ثابت ہو جبکہ عید میلاد رسول الله نے نہیں کی نہ صحابہ کو حکم کیا
سورہ المائدہ میں امت عیسیٰ کی عید کا ذکر ہے کہ مائدہ نازل ہونے کے دن کو عید منائیں گے یعنی امت عیسیٰ کا پیمان تھا لیکن بعد میں جب انہوں نے اس دین کو بدلا تو اس کو عید میلاد المسیح کر دیا یعنی اس وعدے کو بدل دیا جو الله سے کیا تھا
عید تو اجتماعی خوشی کا دن ہے جس میں سب مسلمان خوش ہوں تو پیدائش النبی کی عید منانے کا رسول الله نے حکم کیوں نہیں کیا؟
Dalial un nubuwa ki riwayt k Aap s..w 12 rabi ul awal.ko paida hoye kesi hai
اس کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ قریش النسی سے مہینوں کی ترتیب بدل دیتے تھے اس لئے جو ربیع الاول تھا وہ واقعی وہی مہینہ تھا ثابت نہیں ہوتا
دوم سندا یہ بات ثابت نہیں ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ الْفَضْلِ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ سُفْيَانَ قَالَ: حَدَّثَنِي عَمَّارُ بْنُ الْحَسَنِ النَّسَائِيُّ قَالَ: حَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ الْفَضْلِ قَالَ: قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ: «وُلِدَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْإِثْنَيْنِ عَامَ الْفِيلِ لِاثْنَتَيْ عَشْرَةَ لَيْلَةٍ مَضَتْ مِنْ شَهْرِ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ»
إس مين سَلَمَةُ بْنُ الْفَضْلِ ہے جو متروک ہے
یہ قول مورخ ابن اسحاق کا ہے جو خود سو سال بعد کا ہے امام ملک کا ہم عصر ہے
اس میں ہے جب رَبِيعٍ الْأَوَّلِ کی بارہ رات گزر گئیں پھر پیدا ہوئے
یعنی 12 کی صبح میں دن میں
عید میلاد النبی، ایک سنگین غلطی کی نشاندہی۔۔۔۔۔!!
(پہلی قسط)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ جس ربیع الاول میں ہوئی ہے وہ ہرگز(پھر دہرائیے)ہرگز خالص قمری تقویم کا ربیع الاول نہیں تھا،بلکہ خالص قمری تقویم کا ربیع الاول تو دورِ نبوی میں کبھی بھی کسی بھی طرح کی خوشى كا مہینہ نہیں رہا۔
“ربيع الاول اور اس كے متعلقات “کے عنوان پر میرا کوئی ایک سو سے زائد صفحات پر مقالہ ششماہی مجلہ “السیره عالمی” شماره نمبر 32 میں اور اس کے مزید متعلقہ امور مع مکمل حسابى قواعد شماره نمبر 33 میں شائع ہو چکے ہیں۔
===========
شکریہ
یہ مراسلات مل گئے اور اچھی تحقیق ہے
میرا بھی یہی کہنا ہے مدینہ میں بھی جس سال عاشورہ کا روزہ رکھا گیا وہ عید فسخ سے اس لئے ملا کیونکہ یہودی النسی سے ماہ بدل رہے تھے اور عرب بھی
دونوں کا مقصد تھا کہ تہوار بہار میں ہو جب موسم ٹھنڈا ہو
یعنی عید فسخ اور حج بہار میں آئے
اس بنا پر یوم عاشور وہ ہوا جو عید فسخ تھی
——–
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش بھی کس ماہ ہوئی معلوم نہیں ہے