سن ٢٠٠ ہجری کے اس پاس مسلمانوں میں زہد پر کتب لکھنے کا رواج ہوا – لہذا اس دور میں لکھی گئی کچھ کتب یہ تھیں
الزہد عبد الله بن مبارک ١٨١ ھ
الزہد المعافى بن عمران بن نفيل بن جابر الأزدي الموصلي ١٨٥ ھ
الزہد الوکیع ١٩٧ ھ
الزہد اسد بن موسی ٢١٢ ھ
الزہد ابن ابی الدنیا ٢٨١ ھ
الزہد ابن ابی عاصم ٢٨٧ ھ
الزہد از امام احمد بن حنبل ٢٤١ ھ
الزہد ہناد بن السری ٢٤٣ھ
الزهد لأبي داود السجستاني ٢٧٥ ه
الزهد محمد بن إدريس بن المنذر بن داود بن مهران الحنظلي الرازي 277 ھ
الزهد وصفة الزاهدين أبو سعيد بن الأعرابي البصري الصوفي 340 ھ
إن كتابوں کو لکھنے کا مقصد صحیح و ضعیف روایات کو ایک جگہ جمع کرنا تھا جو ایک محدث کے پاس ہوتیں لیکن ان کتب میں ہر طرح کا رطب و یابس نقل کر دیا گیا
اس میں احادیث رسول ، تابعین کے اقوال’ علماء کی آراء ہر طرح کی چیز لکھ دی گئی اور یہ صنف بہت پسند کی گئی – ان کتب میں ہر وہ چیز جس سے رونا آئے اس کو لکھ دیا گیا مثلا آخرت کا عذاب، قبر کا عذاب، بلا سند انبیاء کے اقوال، خواب وغيره – إس صنف میں کوئی اصول تھا ہی نہیں – ہر بات ترغیب و ترہیب کے نام پر لکھ دی گئی، نہ ائمہ حدیث کی جرح و تعدیل تھی نہ ضعف کا حکم اور سب سے افسوس ناک بات کہ یہ کام محدثین نے خود کیا- آج ان کا دفاع کرنے والے کہتے ہیں انہوں نے سند دے دی ہے لہذا اس کو دیکھیں لیکن انھیں خود اس کا خیال کیوں نہیں آیا کہ خود ان محدثین کے دور میں اس فن میں کتنے لوگ طاق تھے
اس کے بعد اس امت میں زہاد محدثین آئے جنہوں نے اور ضعیف احادیث لکھیں جو متقدمین نے چھوڑ دی تھیں مثلا
الزہد البیہقی
الزہد نعیم بن حماد
گرتی دیوار کو ایک آخری دھکا انہی جسے محدثین نے دیا اور آپ ان کی کتب دیکھ سکتے ہیں اس میں کیا کیا لکھ گئے ہیں جن کو بعد میں صوفیا نے اپنے مخصوص عقائد کے لئے استعمال کیا مثلا ایک جھوٹی روایت کہ عمر خطبہ دینے لگے اور کہتے یا ساریہ الجبل – عمر منبر رسول پر تھے اور فارس میں ٢٣ ھ میں ہونے والی جنگ کا منظر منبر رسول سے نظر آ رہا تھا اور وہیں سے سارية بن زنيم بن عمرو الكناني کو ہدایات دی جا رہی تھیں – مسلمانوں کے خلیفہ کا یہ محیر العقول واقعہ محدثین مثلا امام البیہقی نے بیان کیا اور روایت بعد میں بہت سے عقائد برباد کر گئی
اس کے بعد احادیث جمع نہ ہوئیں کیونکہ وہ کسی نہ کسی کتاب میں تھیں اب محدثین زہاد کا دور ختم ہوا اور خالص صوفیاء کا دور شروع ہوا جن میں الغزالی اتے ہیں اور عبد القادر جیلانی وغیرہم
یہ لوگ بھی عجیب قصے مکاشفے بیان کرتے تھے اور سند سے روایت لکھنے کا رواج نہ رہا لہذا زہد کی کتب قصوں کا وعظ کا مجموعہ بن گئیں
ابن الجوزی نے اس دور میں ہر طرح کی کتاب لکھی جن میں بعض میں ضعیف روایات
کی بھر مار ہے اور یہاں تک کہ بعد میں انہوں نے اس غلطی کو سدھارنے کے لئے الموضوعات جمع کیں
آٹھویں صدی آتے آتے ابن عربی جیسے ائمہ صوفیا نے زہد کو باقاعدہ ایک فلسفے کے طور پر پیش کیا اور کائنات کی حقیقت کو ماہیت کو بدل دیا گیا – دوسری طرف ابن تیمیہ و ابن قیم السبکی جسے لوگ تھے جو صوفیا کے خلاف تھے لیکن مکاشفوں کے قائل تھے
ابن تیمیہ کتاب مجموعة الرسائل والمسائل میں لکھتے ہیں
وأما المعجزات التي لغير الأنبياء من باب الكشف والعلم فمثل قول عمر في قصة سارية، وأخبار أبي بكر بأن ببطن زوجته أنثى، وأخبار عمر بمن يخرج من ولده فيكون عادلاً. وقصة صاحب موسى في علمه بحال الغلام، والقدرة مثل قصة الذي عنده علم من الكتاب. وقصة أهل الكهف، وقصة مريم، وقصة خالد بن الوليد وسفينة مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي مسلم الخولاني، وأشياء يطول شرحها. فإن تعداد هذا مثل المطر. وإنما الغرض التمثيل بالشيء الذي سمعه أكثر الناس. وأما القدرة التي لم تتعلق بفعله فمثل نصر الله لمن ينصره وإهلاكه لمن يشتمه.
اور جہاں تک معجزات غیر انبیاء کے علم و کشف کے باب میں ہے تو اس کی مثال ساریہ کا عمر والا قصہ ہے — ان قصوں کی تعداد اس قدر ہے جیسے بارش
اپنی دوسری کتابوں النبوات، قاعدة عظيمة في الفرق بين عبادات أهل الإسلام والإيمان وعبادات أهل الشرك والنفاق، الفرقان بين أولياء الرحمن وأولياء الشيطان، منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية میں ابن تیمیہ نے اس کا کئی بار اس قصہ کا ذکر کشف کی دلیل کے طور پر کیا
بلکہ دقائق التفسير الجامع لتفسير ابن تيمية میں وضاحت کرتے ہیں
وَعمر رَضِي لما نَادَى يَا سَارِيَة الْجَبَل قَالَ إِن لله جُنُودا يبلغون صوتي وجنود الله هم من الْمَلَائِكَة وَمن صالحي الْجِنّ فجنود الله بلغُوا صَوت عمر إِلَى سَارِيَة وَهُوَ أَنهم نادوه بِمثل صَوت عمر
اور عمر نے جب ساریہ کو پہاڑ کی ندا کی تو کہا الله کے لشکر ہیں جو میری آواز لے کر جاتے ہیں اور الله کے لشکر فرشتے ہیں اور نیک جنات پس الله کے لشکروں نے عمر کی آواز ساریہ تک پہنچائی اور وہ ان کو آواز دیتے تھے عمر کی آواز کی طرح
اب کوئی پیر اپنے مریدوں کو یہ کہے کہ میری آواز مدینہ میں جاتی ہے اور رسول الله پر صلوه و سلام لوگ وہاں سنتے ہیں تو اس کو رد کرنے کی سلفیوں کے پاس کیا دلیل ہے
ابن تیمیہ اپنی زہد پر کتاب الزهد والورع والعبادة میں لکھتے ہیں
قد نوه بِذكرِهِ وأعلنه فِي الْمَلأ الْأَعْلَى مَا بَين خلق جَسَد آدم وَنفخ الرّوح فِيهِ كَمَا فِي حَدِيث ميسرَة الْفجْر قَالَ قلت يَا رَسُول الله مَتى كنت نَبيا وَفِي رِوَايَة مَتى كتبت نَبيا فَقَالَ وآدَم بَين الرّوح والجسد رَوَاهُ أَحْمد
اور بے شک رسول الله کو الْمَلأ الْأَعْلَى میں بلند (مقام دیا گیا ) جسد آدم کی تخلیق اور اس میں نفخ روح سے بھی پہلے جیسا حَدِيث ميسرَة الْفجْر میں ہے کہ میں نے رسول الله سے پوچھا آپ کب نبی ہوئے بولے جب آدم روح و جسد کے بیچ تھے احمد نے روایت کیا
آج اس روایت کو تصوف کی ہر کتاب میں لکھا جاتا ہے
ابن قیم کتاب مدارج السالكين بين منازل إياك نعبد وإياك نستعين میں کشف رحمائی کی بہت سی مثالیں دیتے ہیں
هُوَ مِثْلُ كَشْفِ أَبِي بَكْرٍ لَمَّا قَالَ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: إِنَّ امْرَأَتَهُ حَامِلٌ بِأُنْثَى، وَكَشْفِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَمَّا قَالَ: يَا سَارِيَةَ الْجَبَلِ، وَأَضْعَافُ هَذَا مِنْ كَشْفِ أَوْلِيَاءِ الرَّحْمَنِ.
اور کشف رحمانی کی مثال ابو بکر کا کشف ہے جب انہوں نے عائشہ کے لئے کہا کہ میری بیوی کو ایک لڑکی کا حمل ہوا اور کشف عمر اس کی مثال ہے جب انہوں نے اے ساریہ پہاڑ کہا اور یہ تمام کشف رحمان کی مثال ہیں
اب اگر کوئی پیر یہ دعوی کرے کہ میں ماؤں کے پیٹ میں کیا ہے یہ بھی بیا سکتا ہوں تو سلفی حضرات کیا کہیں گے
الغرض قصے کہانیاں اس قدر پھل گئیں کہ ان کی تحقیق مفقود ہوئی اور عقیدے خراب ہوئے چاہے سلفی ہوں یا غیر سلفی
ایسی ہی زہد کی کتب سے تبلیغی نصاب لکھا گیا اور آج غیر مقلدین اس پر جرح کرتے ہیں
سچ ہے اندھے کو اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا