اویس قرنی کا مکمل نام تاریخ ابن أبي خيثمة کے مطابق أُوَيْس بْن الخُليْص تھا- تاریخ خلیفہ بن الخیاط کے مطابق أويس القرني بن عامر بن جزي بن مالك بن عمرو بن مسعدة بن عمرو بن عصوان بن قرن بن ردمان تھا- تاریخ عباس الدوری کے مطابق امام يَحْيى بْن مَعِين نے کہا ُ أويس القرني اصل میں أويس بْن عَمْرو ہے
کہا جاتا ہے یہ کوفہ میں علی کے ساتھ رہے اور صوفیا کے مطابق علم لدنی حاصل کیا اور صوفیوں کا ایک سلسلہ اویسیہ ان سے منسوب ہے – ان کے لئے کہا جاتا ہے صفین میں شہید ہوئے لہذا ایک مقبرہ شام میں بتایا جاتا ہے جس کو ایک دہشت گرد تنظیم نے حال میں تباہ کر دیا ہے ان کی قبر میں سوائے مٹی کچھ نہ نکلا – اس گور کشائی کی تصاویر انٹر نیٹ پر موجود ہیں
طبقات الصوفية از أبو عبد الرحمن السلمي (المتوفى: 412هـ) میں اویس قرنی پر ایک باب موجود ہے
هرم بن حيان ان کے مرید تھے- ابن حبان کی کتاب مشاهير علماء الأمصار وأعلام فقهاء الأقطار کے مطابق
هرم بن حيان الازدي كان من العباد الخشن المتجردين للعبادة من أصدقاء أويس القرني
هرم بن حيان الازدي بہت سخت جان عبادت گزار تھے اویس قرنی کے دوستوں میں سے تھے
اویس قرنی زہاد کے لئے ایک پر کشش شخصیت تھے-
مستدرک میں حاکم ، اویس کے لئے لکھتے ہیں اویس اس امت کا راہب ہے
اویس قرنی کے بارے میں معلومات کا ماخذ صرف چند روایات ہیں جن کو کوفی اسیر بن جابر نے بیان کیا ہے
اسیر بن جابر کہتے ہیں: جب بھی یمن کے حلیف قبائل عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آتے تو عمران سے دریافت کرتے: کیا تم میں اویس بن عامر ہے؟ ایک دن اویس بن عامر کو پا ہی لیا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا: تم اویس بن عامر ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں- پھر عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا: قرن قبیلے کی شاخ مراد سے ہوں؟ انہوں نے کہا: ہاں
پھر عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا: تمہیں برص کی بیماری لاحق تھی، جو اب ختم ہوچکی ہے، صرف ایک درہم کے برابر جگہ باقی ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں- پھر عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا: تمہاری والدہ ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں
پھر عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں حدیث نبوی سنائی: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: تمہارے پاس یمن کے حلیف قبائل کے ساتھ اویس بن عامر آئے گا، اس کا تعلق قرن قبیلے کی شاخ مراد سے ہوگا، اسے برص کی بیماری لاحق تھی، جو کہ ختم ہو چکی ہے، صرف ایک درہم کے برابر باقی ہے، وہ اپنی والدہ کیساتھ نہایت نیک سلوک کرتا ہے، اگر اللہ تعالی پر قسم بھی ڈال دے تو اللہ تعالی اس کی قسم پوری فرما دے گا، چنانچہ اگر تم اس سے اپنے لیے استغفار کروا سکو ،تو لازمی کروانا-لہذا اب آپ میرے لیے مغفرت کی دعا کر یں، تو انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کیلئے مغفرت کی دعا فرمائی۔
پھر عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت کیا: آپ کہاں جانا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا: میں کوفہ جانا چاہتا ہوں
عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا کوفہ کے گورنر کے نام خط نہ لکھ دو؟ [آپ اسی کی مہمان نوازی میں رہو گے- تو انہوں نے کہا: میں گم نام رہوں تو مجھے زیادہ اچھا لگے گا- راوی کہتے ہیں: جب آئندہ سال حج کے موقع پر انکے قبیلے کا سربراہ ملا ، اور اس کی ملاقات عمر رضی اللہ عنہ سے ہوئی ، تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے اویس قرنی کے بارے میں استفسار کیا، تو اس نے جواب دیا کہ: میں اسے کسمپرسی اور ناداری کی حالت میں چھوڑ کر آیا ہوں- تو عمر رضی اللہ عنہ نے اسے بھی حدیث نبوی سنائی: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: تمہارے پاس یمن کے حلیف قبائل کے ساتھ اویس بن عامر آئے گا، اس کا تعلق قرن قبیلے کی شاخ مراد سے ہوگا، اسے برص کی بیماری لاحق تھی، جو کہ ختم ہو چکی ہے، صرف ایک درہم کے برابر باقی ہے، وہ اپنی والدہ کیساتھ نہایت نیک سلوک کرتا ہے، اگر اللہ تعالی پر قسم بھی ڈال دے تو اللہ تعالی اس کی قسم پوری فرما دے گا، چنانچہ اگر تم اس سے اپنے لیے استغفار کروا سکو ،تو لازمی کروانا- یہ آدمی بھی واپس جب اویس قرنی کے پاس آیا تو کہا: میرے لیے دعائے استغفار کر دو
اویس قرنی نے کہا: تم ابھی نیک سفر سے آئے ہو تم میرے لیے استغفار کرو- اس نے پھر کہا: میرے لیے استغفار کرو
اویس قرنی نے پھر وہی جواب دیا: تم ابھی نیک سفر سے آئے ہو تم میرے لیے استغفار کرو- اور مزید یہ بھی کہا کہ: کہیں تمہاری ملاقات عمر رضی اللہ عنہ سے تو نہیں ہوئی؟- آدمی نے کہا: ہاں میری ملاقات عمر رضی اللہ عنہ سے ہوئی ہے
تو اویس قرنی نے ان کیلئے استغفار کر دیا، اور پھر لوگوں کو اویس قرنی کے بارے میں معلوم ہونا شروع ہوگیا، تو اویس قرنی اپنا علاقہ چھوڑ کر چلے گئے۔ اس قصے کے راوی اسیر کہتے ہیں: میں نے انہیں ایک لباس دیا، تو جب بھی کوئی شخص انکا لباس دیکھتا تو کہتا: اویس کے پاس یہ لباس کہاں سے آگیا
محدثین کی متضاد آراء
دیکھتے ہیں محدثین اویس قرنی کی شخصیت پر کیا رائے رکھتے تھے
امام بخاری کی رائے
تاریخ الکبیر میں امام بخاری لکھتے ہیں
أُوَيس القرني. أصلَهُ من اليمن. فِي إسناده نَظَرٌ. المُرادِيّ.
اویس قرنی اصل میں یمن سے ہیں ان کی اسناد پر نظر ہے المرادی ہیں
امام احمد اور امام یحیی ابن معین کی رائے
كتاب العلل ومعرفة الرجال از امام احمد کے مطابق امام احمد کے بیٹے کہتے ہیں
– حَدثنِي أَبُو صَالح مُحَمَّد بن يحيى بن سعيد قَالَ سَمِعت أبي يحدث عَن شُعْبَة قَالَ سَأَلت عَمْرو بن مرّة عَن أويس الْقَرنِي فَلم يعرفهُ
مجھ کو ابو صآلح محمد بن یحیی بن سعید نے خبر دی بولے انہوں نے اپنے باپ سے سنا انہوں نے امام شعبہ سے روایت کیا کہ انہوں نے عمرو بن مرہ سے اویس قرنی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اس کو نا پہچانا
اسی کتاب میں ہے
حَدثنِي أبي قَالَ حَدثنَا أَبُو دَاوُد قَالَ أخبرنَا شُعْبَة قَالَ سَأَلت عَمْرو بن مرّة عَن أويس الْقَرنِي يعرفونه فِيكُم قَالَ لَا
شُعْبَة نے عمرو بن مرہ سے اویس قرنی کا پوچھا تو انہوں نے کہا نہیں جانتا
سیر الاعلام النبلاء از امام الذھبی کے مطابق امام عَمْرُو بنُ مُرَّةَ بنِ عَبْدِ اللهِ المُرَادِيُّ الْجملِي الْكُوفِي کے لئے ہے
قَالَ بَقِيَّةُ: قُلْتُ لِشُعْبَةَ: عَمْرُو بنُ مُرَّةَ؟ قَالَ: كَانَ أَكْثَرَهُم عِلْماً.
بقیہ نے کہا میں نے ِشُعْبَةَ سے پوچھا عَمْرُو بنُ مُرَّةَ؟ بولے ہم میں بہت علم والے تھے
عَمْرُو بنُ مُرَّةَ کا تعلق یمن سے تھا اور کوفہ میں رہتے تھے لہذا اویس قرنی کے حوالے سے نہایت مناسب ناقل ہو سکتے تھے- میزان الاعتدآل از الذھبی کے مطابق شعبہ کہتے ہیں یہ تدلیس نہیں کرتے تھے جبکہ وہ عام تھی
شعبہ کے اس قول کا ذکر امام یحیی بن معین نے بھی عباس الدوری سے کیا
ہمیں یقین ہے عمرو بن مرہ ان اویس قرنی کو جانتے تک نہ تھے لیکن ابن کثیر کتاب مسند الفاروق میں لکھتے ہیں
وقال الهيثم بن عدي ثنا عبد الله بن عمرو بن مُرَّة، عن أبيه، عن عبد الله بن سَلَمة، قال: غَزَونا أذربيجان زمنَ عمرَ بن الخطاب ومعنا أُوَيس القَرَني، فلمَّا رَجَعنا مَرِضَ علينا، فحَمَلناه، فلم يَستمسِك فمات، فنزلنا، فإذا قبر محفورٌ، وماءٌ مسكوبٌ، وكَفَنٌ، وحَنُوطٌ فغَسَّلناه، وكَفَّنَّاه، وصَلَّينا عليه، ودَفنَّاه، فقال بعضنا لبعض: لو رَجَعنا فعَلَّمنا قبرَه، فرَجَعنا، فإذا لا قبرٌ ولا أثرٌ.
فهذا مخالف للخبر الذي تقدَّم من أنَّه كان بصِفِّين، وهو أصحُّ من هذا، فإنَّ الهيثم بن عدي أخباري ضعيف، وزَعَم بعضهم أنَّه مات بالحيرة. وقيل: بصِفِّين، والله أعلم.
الهيثم بن عدي کہتے ہیں ہم سے عبد الله بن عمرو بن مرہ نے بیان کیا ان سے ان کے باپ عمرو بن مرہ نے عبد الله بن سلمہ سے بولے ہم نے عمر رضی الله عنہ کے دور میں أذربيجان میں جہاد کیا اور ہمارے ساتھ اویس قرنی تھے پس واپسی پر وہ بیمار ہو گئے اور صحیح نہ ہوئے اور مر گئے اور ان کو….. دفن کیا ہم سے بعض نے بعض سے کہا اگر ہم واپس لوٹے تو ان کی قبر دیکھیں گے پس ہم واپس لوٹے تو ان کی قبر نہ پائی نہ اس کا نشان
اس کی سند میں عمرو بن مرہ ہیں جبکہ وہ صریحآ اس سے انکاری تھے کہ وہ اویس کو پہچانتے تھے
ابن کثیر کہتے ہیں
پس یہ خبر مخالف ہے اس خبر سے جس میں ہے کہ وہ صِفِّين میں تھے اور وہ اس خبر سے زیادہ صحیح ہے کیونکہ الهيثم بن عدي اخباری ضعیف ہے اور بعض کا گمان ہے کہ اویس حرہ عراق میں مرے ، اور کہا جاتا ہے صِفِّين میں-الله کو پتا ہے
لیکن صفیین والی خبر کی سند میں عبد الرحمن بن ابی لیلی ہیں
لہذا نہ اویس قرنی کا جنگ صفین میں شامل ہونا ثابت ہے اور نہ کا جنگ أذربيجان میں شامل ہونا ثابت ہے
امام عقیلی کی رائے
کتاب الضعفاء الكبير از امام العقيلي المكي (المتوفى: 322هـ) میں اویس قرنی کو باقاعدہ ضعیف راویوں میں شمار کیا گیا ہے اور ان کے بارے میں تفصیل دی ہے جس کا مطلب ہے کہ امام عقیلی کے نزدیک یہ مجھول تھے
أُوَيْسٌ الْقَرَنِيُّ الزَّاهِدُ حَدَّثَنِي آدَمُ بْنُ مُوسَى قَالَ: سَمِعْتُ الْبُخَارِيَّ قَالَ: أُوَيْسٌ الْقَرَنِيُّ فِي إِسْنَادِهِ نَظَرٌ [ص:136]. أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى قَالَ: حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ: جِئْتُ إِلَى عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ قُلْتُ: أَخْبِرْنِي عَنْ أُوَيْسٍ الْقَرَنِيُّ تَعْرِفُونَهُ فِيكُمْ قَالَ: لَا. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَا: حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ قَالَ: حَدَّثَنَا قُرَادُ بْنُ نُوحٍ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا إِسْحَاقَ، وَعَمْرَو بْنَ مُرَّةَ عَنْ أُوَيْسٍ الْقَرَنِيِّ فَلَمْ يَعْرِفَاهُ. حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ قَالَ: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ: سَأَلْتُ عَمْرَو بْنَ مُرَّةَ عَنْ أُوَيْسٍ الْقَرَنِيِّ فَلَمْ يَعْرِفْهُ قَالَ زَيْدٌ: وَكَانَ أُوَيْسٌ مِنْ عَشِيرَتِهِ. حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ عَنْ شُعْبَةَ قَالَ: سَأَلْتُ عَمْرَو بْنَ مُرَّةَ عَنْ أُوَيْسٍ الْقَرَنِيِّ فَلَمْ يَعْرِفْهُ
اویس قرنی زاہد – مجھ سے آدم بن موسی نے روایت کیا کہا میں نے امام بخاری کو کہتے سنا اویس قرنی کی اسناد پر نظر ہے
ہم سے محمّد بن عیسیٰ نے بیان کیا بندر نے روایت کیا کہ ابو داود نے روایت کیا کہا شعبہ نے روایت کیا کہ ہم عمرو بن مرہ کے ہاں پہنچے میں نے کہا مجھ کو اویس قرنی کی خبر دیں کیا آپ ان کو جانتے ہیں اپنوں میں ؟ بولے نہیں
ہم سے محمّد بن علی بن زید اور محمّد بن اسمعیل (امام بخاری) نے بیان کیا کہا ہم سے عباس نے کہا ہم سے قراد نے کہا شعبہ نے بیان کیا کہا میں نے عمرو بن مرہ سے اویس قرنی کے متعلق پوچھا لیکن ان کو اس کا پتا نہ تھا – زید نے کہا اویس تو ان کے خاندان کے تھے ! ہم سے عبد الله نے بیان کیا ان کو ابو صآلح محمد بن یحیی بن سعید نے خبر دی بولے انہوں نے اپنے باپ سے سنا انہوں نے امام شعبہ سے روایت کیا کہ انہوں نے عمرو بن مرہ سے اویس قرنی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اس کو نا پہچانا
اس کے بعد امام عقیلی نے تین روایات لکھیں
وَحَدِيثُهُ حَدَّثَنَا بِهِ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ سَالِمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، ح، وَحَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو ظُفُرٍ عَبْدُ السَّلَامِ بْنِ مُطَهَّرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، جَمِيعًا عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أُسَيْرِ بْنِ جَابِرٍ: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ لِأُوَيْسٍ الْقَرَنِيِّ: اسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: أَنْتَ أَحَقُّ أَنْ تَسْتَغْفِرَ لِي إِنَّكَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: خَيْرُ التَّابِعِينَ رَجُلٌ مِنْ قَرْنٍ يُقَالُ لَهُ: أُوَيْسٌ
أُسَيْرِ بْنِ جَابِرٍ کہتے ہیں عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے اویس قرنی سے کہا ہمارے لئے دعا کریں – انہوں نے کہا آپ اصحاب رسول میں سے ہیں اور میں آپ کے لئے دعا کرو – عمر بولے میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ التَّابِعِينَ میں سے بہترین شخص اویس اس جگہ کا ہے جس کو قرن کہا جاتا ہے
یعنی قرن جگہ کا نام ہے نہ کہ شخص کا نام
اس کے بعد امام عقیلی نے دوسری روایت لکھی
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمَدَنِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَبِي أَوْفَى، عَنْ أُسَيْرِ بْنِ جَابِرٍ قَالَ: كَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِذَا أَتَتْ عَلَيْهِ أَمْدَادُ الْيَمَنِ سَأَلَهُمْ أَفِيكُمْ أُوَيْسٌ؟ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ، وَقَالَ فِيهِ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «يَأْتِي عَلَيْكَ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ مَعَ أَمْدَادِ أَهْلِ الْيَمَنِ مِنْ مُرَادٍ ثُمَّ مِنْ قَرَنٍ كَانَ بِهِ بَرَصٌ فَبَرَأَ مِنْهُ إِلَّا مَوْضِعَ دِرْهَمٍ، لَهُ وَالِدَةٌ هُوَ بِهَا بَرٌّ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ»
أُسَيْرِ بْنِ جَابِرٍ کہتے ہیں عمر نے کہا کہ جب یمن کی امداد پہنچے تو ان میں اویس کےبارے میں پوچھنا- اس کے بعد ایک طویل روایت نقل کی اور اس میں ہے کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو کہتے سنا کہ تمہارے پاس اویس بن عامر آئے گا اہل یمن کی امداد میں سے اس کو برص تھا جو ختم ہوا صرف ایک درہم برابر رہ گیا ہے
اس کے بعد امام عقیلی نے تیسری روایت لکھی
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ: حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُبَارَكُ بْنُ فَضَالَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الْأَصْفَرِ مَوْلَى صَعْصَعَةَ بْنِ مُعَاوِيَةَ عَنْ صَعْصَعَةَ بْنِ مُعَاوِيَةَ قَالَ: كَانَ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ رَجُلًا مِنْ قَرْنٍ، وَكَانَ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ، وَكَانَ مِنَ التَّابِعِينَ، فَذَكَرَهُ أَيْضًا بِطُولِهِ، وَقَالَ فِيهِ: إِنَّ عُمَرَ قَالَ: أَخْبَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنَّهُ يَكُونُ فِي التَّابِعِينَ رَجُلٌ يُقَالَ لَهُ أُوَيْسٌ يَخْرُجُ بِهِ وَضَحٌ وَيَدْعُو اللَّهَ أَنْ يُذْهِبَهُ فَيُذْهِبَهُ. . .» وَذَكَرَ الْحَدِيثَ قَالَ: لَيْسَ مِنْهُمْ أَحَدٌ تَبَيَّنَ سَمَاعًا مِنْ عُمَرَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ شَبُّوَيْهِ قَالَ: حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ الْمُبَارَكِ قَالَ: سَأَلْتُ الْمُعْتَمِرَ عَنِ الْحَدِيثِ الَّذِي يُرْوَى عَنْ أَبِيهِ عَنْ هَرِمٍ وَأُوَيْسٍ الْقَرَنِيِّ حِينَ الْتَقَيَا فَقَالَ الْمُعْتَمِرُ: لَيْسَ مِنْ حَدِيثِ أَبِي
صَعْصَعَةَ بْنِ مُعَاوِيَةَ کہتے ہیں اویس بن عآمر، قرن کا رہنے والا ہے – اور وہ اہل کوفہ میں سے ہے اور التَّابِعِينَ میں سے ہے پھر ایک طویل روایت نقل کی اس میں ہے کہ عمررضی الله عنہ نے کہا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بے شک التَّابِعِينَ میں سے ایک شخص ہو گا جس کو اویس کہا جاتا ہے … امام عقیلی کہتے ہیں عبد الله ابن مبارک نے الْمُعْتَمِرَ سے سوال کیا اس حدیث پر جو انہوں نے اپنے باپ اور انہوں نے هَرِمٍ اور َأُوَيْسٍ الْقَرَنِيِّ سے روایت کی- پس جب الْمُعْتَمِرُ سے ملے تو انہوں نے کہا یہ میرے باپ کی روایت نہیں
امام عقیلی نے ان تین روایات سے ثابت کیا کہ یہ کردار واضح نہیں – اویس کو قرن کا باسی کہا جاتا ہے – کوئی اس مقام کو یمن میں کہتا ہے تو کوئی کوفہ میں بتاتا ہے
امام ابن ابی حاتم کی رائے
كتاب: العلل لابن أبي حاتم از ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ) میں ہے
وسألتُ أَبِي عَنْ حديثٍ رَوَاهُ أَبُو بَكْرُ بْنُ أَبِي عَتَّاب الأَعْيَن ، عَنِ أَبِي صَالِحٍ ، عَنِ اللَّيث، عَنْ سَعِيدٍ المَقبُري، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عن النبيِّ (ص) قَالَ: يَدْخُلُ الجَنَّةَ بِشَفَاعَةِ رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي أَكْثَرُ مِنْ مُضَرَ وبَنِي تَمِيمٍ، فَقِيلَ: مَنْ هُوَ يَا رسولَ اللَّهِ؟ قَالَ: أُوَيْسٌ القَرَنيُّ؟
قَالَ أَبِي: هَذَا الحديثُ لَيْسَ هُوَ فِي كِتَابِ أَبِي صَالِحٍ، عَنِ اللَّيث؛ نظرتُ فِي أَصْلِ اللَّيث، وَلَيْسَ فِيهِ هَذَا الْحَدِيثُ، وَلَمْ يذكُر أَيْضًا اللَّيثُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ خَبَرً ، ويحتملُ أَنْ يكونَ سَمِعَهُ مِنْ غَيْرِ
ابن ابی حاتم نے اپنے باپ ابی حاتم سے پوچھا حدیث جس کو أَبُو بَكْرُ بْنُ أَبِي عَتَّاب الأَعْيَن ، عَنِ أَبِي صَالِحٍ ، عَنِ اللَّيث، عَنْ سَعِيدٍ المَقبُري، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، کی سند سے روایت کیا گیا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جنت میں میری شفاعت سے میری امت میں سے ایک شخص داخل ہو گا جو مُضَرَ وبَنِي تَمِيمٍ سے ہے پس کہا یہ کون ہے یا رسول الله فرمایا اویس قرنی
میرے باپ ابی حاتم نے کہا یہ حدیث ہے جو ابی صالح کی کتاب میں نہ تھی جس کو لیث نے روایت کیا اور میں نے ان کی کتاب دیکھی اس میں بھی نہ تھی لھذا میں سمجھتا ہوں یہ ابی صالح نے کسی اور سے سنی ہو گی
بَنِي تَمِيمٍ مدینہ کے مشرق میں آباد تھے نہ کہ یمن یا کوفہ میں- اس سے یہ معاملہ اور بھی لجھ جاتا ہے
کتاب ذخيرة الحفاظ (من الكامل لابن عدي) از ابن القيسراني (المتوفى: 507هـ) ابن ابی حاتم کی کتاب العلل کی جیسی روایت پیش کر کے لکھتے ہیں
حَدِيث: سَيكون فِي أمتِي رجل يُقَال لَهُ: أويس بن عبد الله الْقَرنِي، وان شَفَاعَته فِي أمتِي منل ربيعَة، وَمُضر. رَوَاهُ أَبُو الْوَلِيد (وهب بن حَفْص) الْحَرَّانِي: عَن أبي عمر حَفْص بن عمر، عَن الحكم بن أبان، عَن عُثْمَان بن حَاضر، عَن ابْن عَبَّاس. قَالَ ابْن عدي: ووهب هَذَا كَذَّاب. وَأوردهُ فِي تَرْجَمته فانه خصّه بِهِ، وَإِن كَانَ فِي إِسْنَاده ضعفاء ومجاهيل.
اس اوپر والی روایت کو ایک دوسری سند سے بھی بیان کیا گیا ہے جس میں ابن عدی کے مطابق کذاب ہیں اور ضعیف اور مجھول بھی ہیں
ابن قُطْلُوْبَغَا کی رائے
ابن قُطْلُوْبَغَا کتاب الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة میں أُسَيْر بن جابر العَبْدي الكوفي لکھتے ہیں
في القلب من روايته عن أويس القرني، إلا أنه حكى ما حكى عن إنسان مجهول لا يُدرَى من هو
یہ اویس قرنی والی روایت کا مصدر ہیں، بلاشبہ انہوں نے جو کہنا چاہا کہا ایک مجھول انسان سے جس کو میں نہیں جانتا کون ہے
یعنی ابن قُطْلُوْبَغَا نے بھی اویس قرنی کو ایک مجھول شخص قرار دیا
ابن عدی کی رائے
کتاب الكامل في ضعفاء الرجال میں لکھتے ہیں
وَلَيْسَ لأُوَيْسٍ مِنَ الرِّوَايَةِ شَيْءٌ، وإِنَّما لَهُ حِكَايَاتٌ وَنُتَفٌ وَأَخْبَارٌ فِي زُهْدِهِ وَقَدْ شَكَّ قَوْمٌ فِيهِ إِلا أَنَّهُ مِنْ شُهْرَتِهِ فِي نَفْسِهِ وَشُهْرَةِ أَخْبَارِهِ لا يَجُوزُ أَنْ يُشَكَّ فيه وليس لَهُ مِنَ الأَحَادِيثِ إِلا الْقَلِيلُ فَلا يَتَهَيَّأُ أَنْ يُحْكَمَ عَلَيْهِ الضَّعْفُ بَلْ هُوَ صَدُوقٌ ثِقَةٌ مِقْدَارِ مَا يُرْوَى عَنْهُ.
قَالَ الشَّيْخُ: مَالِكٌ يُنْكِرُهُ يَقُولُ لَمْ يكن
اویس کے لئے کہانیاں ہیں اور خبریں ہیں ان کے زہد کے بارے میں اور بے شک ایک قوم کو ان کے بارے میں شک ہے لیکن ان کی شہرت فی نفسہ ہے اور شہرت خبر پر جائز نہیں کہ ان کے بارے میں شک کیا جائے اور احادیث میں ان کے لئے بہت کم آیا ہے جو اس طرح کا نہیں کہ ان کو ضعیف کہہ دیا جائے بلکہ ان کا درجہ صدوق ثقہ کا ہے جو ان سے روایت ہوا ہے
ابن عدی کہتے ہیں امام مالک نے اس کا انکار کیا ہے اور کہا یہ نہیں ہو سکتا
امام مسلم کی رائے
امام مسلم محدثین سے الگ رائے رکھتے ہیں اور انہوں نےآلضعفاء الكبير از امام العقيلي کی پہلی روایت جو سَعِيدٌ الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أُسَيْرِ بْنِ جَابِرٍ کی سند سے ہے اس کو صحیح میں لکھا ہے اور اس کو قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ أُسَيْرِ بْنِ جَابِرٍ کی سند سے بھی لکھا ہے
امام مسلم کی صحیح کی دونوں روایتیں امام عقیلی نے بڑے ضعیف راویوں پر کتاب آلضعفاء الكبير میں پیش کی اور اویس قرنی کو ایک مجھول کے طور پر پیش کیا
ابن صاعد کی رائے
تاریخ دمشق میں ابن عساکر لکھتے ہیں
أخبرنا أبو غالب بن البنا أنا أبو محمد الجوهري أنا أبو عمر بن حيوية حدثنا يحيى بن محمد بن صاعد قال أسانيد أحاديث أويس صحاح رواها الثقات
يحيى بن محمد بن صاعد سن ٢٢٨ ھ میں پیدا ہوئے ٣١٨ ھ میں فوت ہوئے – قاضی تھے ان سے ابن حَيَّوَيْه أبو عمر ٣٨٢ ھ نے سنا ہے – يحيى بن محمد بن صاعد کہتے ہیں
اویس قرنی کی اسناد صحیح ہیں جن کو ثقات نے روایت کیا ہے
العجلى کی رائے
أبو الحسن أحمد بن عبد الله بن صالح العجلى الكوفى (المتوفى: 261هـ) نے کتاب الثقات میں اویس کا شمار تابعین میں کیا ہے
معلوم ہوا کہ اویس قرنی بعض محدثین کے نزدیک مجھول تھے اور بعض کے نزدیک ایک حقیقی شخص تھے
خود أُسَيْرِ بْنِ جَابِرٍ جن پر اویس قرنی کی روایت کا دارومدار ہے ان کو ابن حزم ليس بالقوي، قوی راوی نہیں کہتے ہیں
اویس کا منہج
اویس بدعتی تھے- کتاب : حلية الأولياء وطبقات الأصفياء از ابو نعیم اور مسند الفاروق از ابن کثیر میں ہے
عن أصبغ بن زيد قال كان أويس القرني إذا أمسى يقول : هذه ليلة الركوع ، فيركع حتى يصبح ، وكان يقول إذا أمسى : هذه ليلة السجود ، فيسجد حتى يصبح
أصبغ بن زيد کہتا ہے ایک شام، اویس قرنی کہتے آج کی رات رکوع کی رات ہے پس وہ رکوع کرتے حتی کہ صبح ہو جاتی اور اسی طرح کسی شام کہتے آج کی رات سجدے کی رات ہے اور سجدہ کرتے حتی کہ صبح ہو جاتی
لگتا ہے اویس کسی صوفی تحریک کا حصہ تھے جس کا مقصد مسلمانوں میں اس قسم کی بدعتی مشقتیں رواج دینے کے لئے ان کو یمن سے خاص مقصد کے تحت کوفہ بھیجا گیا تھا جہاں زہد کے نام پر اس قسم کی عبادت کی تلقین کی جا رہی تھی
کوفہ سے اویس دمشق پہنچے- تاریخ ابن عساکر میں ہے کہ ان کا مرید هرم بن حيان العبدي دمشق أويس القرني کو طلب کرنے پہنچا- کہا جاتا ہے عمر رضی الله عنہ کی شہادت کی خبر بھی اویس کو تھی جو انہوں نے هرم بن حيان العبدي کو دی اور وہ جب مدینہ پہنچا تو معلوم ہوا خبر سچی تھی
شب برات کے حلوہ کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ اویس قرنی کے لئے پکایا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے دانت توڑ ڈالے تھے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے دانتوں پر احد کی جنگ میں زخم لگا تھا-
اہل تشیع اور اویس قرنی
شیعوں میں بھی اویس قرنی ایک معتبر شخصیت ہیں
وسائل الشيعة (آل البيت) – الحر العاملي – ج 30 – ص 322 – میں ہے
اويس القرني – بفتح الراء – : أحد الزهاد الثمانية ، قاله العلامة والكشي عن الفضل بن شاذان
اویس قرنی – زہاد میں سے ایک .. علامہ اور کشی نے کہا الفضل بن شاذان کی روایت سے
کتاب الإرشاد – الشيخ المفيد – ج 1 – ص ٣١٦ میں ہے ایک شخص علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا کہ میں قتال کروں گا علی نے پوچھا
فقال له : ” ما اسمك ؟ ” قل أويس ، قال : ” أنت أويس القرني ؟ ” قال : نعم ، قال : ” الله أكبر ، أخبرني حبيبي رسول الله صلى الله عليه وآله أني أدرك رجلا من أمته يقال له أويس القرني ، يكون من حزب الله ورسوله ، يموت على الشهادة ، يدخل في شفاعته مثل ربيعة ومضر
تیرا نام کیا ہے ؟ بولا اویس – علی نے کہا کیا تم ہی اویس قرنی ہو ؟ بولا جی – علی نے کہا الله اکبر مجھ کو میرے پیارے رسول الله صلی الله علیہ وآله نے بتایا تھا کہ میں ان کی امت میں سے ایک شخص سے ملوں گا جس کو اویس قرنی کہا جائے گا جو الله اور اس کے رسول کے گروہ کا ہے شہادت کی موت مرے گا اور شفاعت ملے گی ربيعة ومضر (مدینہ کے دو مشرقی قبائل) کی طرح
یعنی شیعوں کے ہاں اویس قرنی کی علی کے ساتھ لڑتے شہادت ہوئی اور سننیوں کے ہاں وہ کوفہ سے شام پہنچے اور وہاں مرے- علی رضی الله عنہ تو کوفہ شہادت عثمان کے بعد گئے اس سے قبل اویس کی اگر عمررضی الله عنہ سے ملاقات ہوئی تو علی اس وقت کہاں تھے
خوراج اور اویس قرنی
خوارج کے مطابق اویس قرنی شروع میں اصحاب علی میں تھے پھر اصحاب عبد الله بن وھب بن گئے اور علی کے خلاف لڑتے ہوئے جنگ نہروان میں شہید ہوئے
شرح كتاب النيل وشفاء العليل للقطب اطفيش
اباضی کتب کے مطابق علی کو بتایا گیا کہ انہوں نے اہل حق سے جنگ میں اویس کا قتل کر دیا ہے علی نے انکار کیا کہ یہ اویس نہیں لیکن جب حقیقت جانی تو پچھتائے
خوارج کے مطابق ان کا نسب ہے
أويس القَرَني، وهو أوَيس بن عمرو بن جزء بن قيس ابن مالك بن عمرو بن عصوان بن قَرَن بن ردمان بن ناجية بن مراد
الأنساب از الصحاري
اغلبا اویس ایک صوفی یا زاہد تھے جن کی ملاقات نہ عمر سے ہوئی نہ علی سے-امام بخاری کی رائے ہمارے نزدیک قابل توجہ ہے کہ اویس کی روایات پر نظر ہے
==============================
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي يَعْقُوبَ، ثنا الْقَاسِمُ بْنُ الْقَاسِمِ السَّيَّارِيُّ الْمَرْوَزِيُّ، ثنا أَبُو الْمُوَجِّهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو بِغَيْرِ حَدِيثٍ، وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ مُوسَى، ثنا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ عَلِيٍّ السَّيَّارِيُّ، ثنا خَالِي أَبُو الْعَبَّاسِ الْقَاسِمُ بْنُ الْقَاسِمِ السَّيَّارِيُّ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ عَبَّادِ بْنِ سَلْمٍ، وَكَانَ مِنَ الزُّهَّادِ ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدَةَ النَّافِقَانِيُّ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُبَيْدَةَ الْعَامِرِيُّ، ثنا سُورَةُ بْنُ شَدَّادٍ الزَّاهِدُ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَدْهَمَ، عَنْ مُوسَى بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أُوَيْسٍ الْقَرَنِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ لِلَّهِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمًا مِائَةً غَيْرَ وَاحِدٍ مَا مِنْ عَبْدٍ يَدْعُو بِهَذِهِ الْأَسْمَاءِ إِلَّا وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ إِنَّهُ وِتْرٌ يُحِبُّ الْوِتْرَ هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ» إِلَى قَوْلِهِ «الرَّشِيدُ الصَّبُورُ» مِثْلُ حَدِيثِ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، حَدِيثُ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ صَحِيحٌ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ، وَحَدِيثُ الثَّوْرِيِّ عَنْ إِبْرَاهِيمَ فِيهِ نَظَرٌ لَا صِحَّةَ لَهُ
الله کے ننانوے نام ہیں ، سو میں سے ایک کم، جن سے جب بندہ پکارے تو جنت واجب ہو جاتی ہے – الله وتر ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے- وہ الله جس کے سوا کوئی الہ نہیں وہ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ» سے لے کر «الرَّشِيدُ الصَّبُورُ ہے
ابو نعیم نے کہا وَحَدِيثُ الثَّوْرِيِّ عَنْ إِبْرَاهِيمَ فِيهِ نَظَرٌ لَا صِحَّةَ لَهُ
سفیان کی ابراہیم بن آدھم سے حدیث پر نظر ہے اس کی صحت نہیں ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْهُذَيْلِ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ الْعَنْبَرِيُّ، ثنا عَمْرٌو شَيْخٌ كُوفِيٌّ، عَنْ أَبِي [ص:87] سِنَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ حُمَيْدَ بْنَ صَالِحٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أُوَيْسًا الْقَرَنِيَّ، يَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «احْفَظُونِي فِي أَصْحَابِي فَإِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يَلْعَنَ آخِرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَوَّلَهَا وَعِنْدَ ذَلِكَ يَقَعُ الْمَقْتُ عَلَى الْأَرْضِ وَأَهْلِهَا فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ فَلْيَضَعْ سَيْفَهُ عَلَى عَاتِقِهِ ثُمَّ لِيلْقَ رَبَّهُ تَعَالَى شَهِيدًا فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ فَلَا يَلُومَنَّ إِلَّا نَفْسَهُ»
اویس قرنی نے کہا رسول الله نے فرمایا
اس کی سند منقطع ہے – اویس کا سماع رسول الله صلی الله علیہوسلم سے نہیں یہ صحابی بھی نہیں
اویس قرنی مجہول ہے