You may also send us your questions and suggestions via Contact form
Post for Questions
قارئین سے درخواست ہے کہ سوال لکھتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ سوال دینی مسئلہ پر ہونا چاہیے- وقت قیمتی شی ہے لہذا بے مقصد سوال سے پرہیز کریں – سوالات کے سیکشن کو غور سے دیکھ لیں ہو سکتا ہے وہاں اس کا جواب پہلے سے موجود ہو –
یاد رہے کہ دین میں غیر ضروری سوالات ممنوع ہیں اور انسانی علم محدود ہے
اپ ان شرائط پر سوال کر سکتے ہیں
اول سوال اپ کا اپنا ہونا چاہیے کسی ویب سائٹ یا کسی اور فورم کا نہیں ہونا چاہیے کہ اس کا مواد اپ وہاں سے یہاں کاپی کریں
دوم : جو جواب ملے اس کو اپ کسی اور ویب سائٹ پر پوسٹ کر کے اس پر سوال نہیں کریں گے نہ ہی اس ویب سائٹ کے کسی بلاگ کو پوسٹ کر کے کسی دوسری سائٹ سے جواب طلب کریں گے – یعنی اپ سوال کو اپنے الفاظ میں منتقل کریں اس کو کاپی پیسٹ نہ کریں اگر اپ کو کسی اور سے یہی بات پوچھنی ہے تو اپنے الفاظ میں پوچھیں
سوم کسی عالم کو ہماری رائے سے “علمی” اختلاف ہو تو اس کو بھی اپنے الفاظ میں منتقل کر کے اپ اس پر ہمارا جواب پوچھ سکتے ہیں
چہارم نہ ہی اپ ہماری ویب سائٹ کے لنک پوسٹ کریں کہ وہاں دوسری سائٹ پر لکھا ہو “اپ یہ کہہ رہے ہیں اور وہ یہ کہہ رہے ہیں ” یہ انداز مناظرہ کی طرف لے جاتا ہے جو راقم کے نزدیک دین کو کھیل تماشہ بنانے کے مترادف ہے
تنبیہ: شرائط کی خلاف ورزی کی صورت میں جوابات پر پابندی لگا دی جائے گی
as-salamu alaikum
wallaikumasalam
السلام عليكم
صدقہ فطر جب فرض نہیں تو اس کا مطلب شرک کرنے والے کو بھی دے سکتے ہیں؟
وعلیکم السلام
صدقہ فطر واجب ہے اور اس کو اسلامی حکومت کو دینے کا حکم نہیں ہے بلکہ اس کو عام فقراء کو خود دیا جاتا ہے
بعض فقہاء کا موقف ملتا ہے کہ واجب صدقات مثلاً نذر، صدقہ فطر، اور کفارہ وغیرہ کا مصرف صرف مسلمان ہیں
بعض کے نزدیک اہل کتاب کو دے سکتے ہیں
مصنف ابن أبي شیبة: (ما قالوا في الصدقة یعطي منها أهل الذمة، رقم الحدیث: 10410)
عن إبراهیم بن مهاجر قال: سألت إبراهیم عن الصدقة علی غیر أهل الإسلام، فقال: أما الزکاة فلا، وأما إن شاء رجل أن یتصدق فلا بأس
ابراہیم النخعی کا قول ہے کہ غیر اسلام کو زکوات نہیں دی جا سکتی البتہ صدقہ میں کچھ بھی دیا جا سکتا ہے
جہاں تک مسلمانوں کے فرقوں کا تعلق ہے تو ان کے فقراء کو دیا جا سکتا ہے
و اللہ اعلم
اسلام علیکم
کنا قعودا نکتب ما سمع من النبی فخرج علینا،فقال ما هذا تکتبون فقلنا ما نسمع منک فقال اکتاب مع کتاب الله؟ امحضوا
اکتاب الله واخلصوه
مسلم. ابن ماجه احمد
اس روایت کچھ وضاحت کردیں
جزاک الله خیر
السلام علیکم
مسند احمد میں یہ روایت ملی ہے
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كُنَّا قُعُودًا نَكْتُبُ مَا نَسْمَعُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجَ عَلَيْنَا، فَقَالَ: «مَا هَذَا تَكْتُبُونَ؟» فَقُلْنَا: مَا نَسْمَعُ مِنْكَ، فَقَالَ: «أَكِتَابٌ مَعَ كِتَابِ اللَّهِ؟» فَقُلْنَا: مَا نَسْمَعُ، فَقَالَ: «أَكِتَابٌ غَيْرُ كِتَابَ [ص:157] اللَّهِ امْحِضُوا كِتَابَ اللَّهِ، وَأَخْلِصُوهُ» قَالَ: فَجَمَعْنَا مَا كَتَبْنَا فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ، ثُمَّ أَحْرَقْنَاهُ بِالنَّارِ، قُلْنَا: أَيْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَتَحَدَّثُ عَنْكَ؟ قَالَ: «نَعَمْ تَحَدَّثُوا عَنِّي وَلَا حَرَجَ، وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ» قَالَ: فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَتَحَدَّثُ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ؟ قَالَ: «نَعَمْ، تَحَدَّثُوا عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا حَرَجَ، فَإِنَّكُمْ لَا تَحَدَّثُونَ عَنْهُمْ بِشَيْءٍ إِلَّا وَقَدْ كَانَ فِيهِمْ أَعْجَبَ مِنْهُ»
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم بیٹھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنتے تھے وہ لکھ لیتے تھے – آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے تھے اور پوچھا کہ تم لوگ کیا لکھ رہے ہو ؟ ہم نے کہا: ہم نے جو اپ سے سنا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا (قرآن) اللہ کی کتاب سے لکھا ہے؟ ہم نے کہا، “نہیں، لیکن ہم سب لکھتے ہیں جو ہم سنتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کچھ تم نے لکھا ہے اسے مٹا دو اور صرف کتاب اللہ رہنے دو ۔ لہٰذا ہم نے جو کچھ اقوال نبی میں لکھا تھا اسے ایک جگہ جمع کیا اور اسے آگ سے جلا دیا۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہمیں حدیث بیان کرنے کی اجازت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں میرے بارے میں حدیث بیان کرو اور اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن جو شخص جان بوجھ کر میرے بارے میں جھوٹ بولتا ہے وہ دوزخ میں اپنا مقام تیار کر لے۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم بنی اسرائیل کے بارے میں بیان کر سکتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں بنی اسرائیل کے بارے میں بیان کرو اور اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ تم ان کے بارے میں کچھ حیرت انگیز بات کے سوا بیان نہیں کرتے۔
روایت اس سند سے ضعیف ہے – اس میں عبد الرحمن بن زيد بن أسلم العدوي ہے جو کمزور راوی ہے
البتہ اس روایت کے بعض حصے دیگر صحیح اسناد سے معلوم ہیں مثلا جس نے مجھ پر جھوٹ بولا اس کا انجام جہنم ہے
یا بنی اسرائیل سے روایت کرنے میں حرج نہیں وغیرہ
——–
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نئے نئے سن 6 یا 7 ہجری میں ایمان لائے اور اصحاب صفہ میں آ کر بیٹھ گئے جو فقراء تھے وہاں کبھی کبھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم جاتے ان کو قرآن و حدیث بیان کرتے – ابو ہریرہ اور بعض اور اصحاب رسول قرآن اور حدیث کو ملا کر ایک ہی صفحہ یا مقام پر لکھ دیتے – اس میں خطرہ یہ تھا کہ بعد میں لوگ حدیث کو قرآن سمجھ لیں گے اور معلوم نہ ہو سکے گا کتاب اللہ کیا ہے اور قول نبی کیا ہے – لہذا اس سے بچنے کے لئے ابو ہریرہ کو منع کیا گیا کہ قرآن کے سوا کچھ مت لکھو
بعد میں معلوم ہے جب قرآن مکمل ہوا اور سورہ المائدہ میں آیا کہ دین مکمل ہوا تو ایک صحابی ابو شاہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھ کو خطبہ حجہ الوداع لکھوا دیں تو اپ نے حکم دیا کہ اس کو لکھا جائے
اسطرح واپس حدیث لکھنے کی عام اجازت امت کو دے دی گئی – علی رضی اللہ عنہ نے زکوات سے متعلق احکام اپنی نیام میں رکھ لئے
اور اصحاب رسول نے بھی جز بنا لئے
اور بنی اسرائیلیون کے اقوال بیان کرنے کی بھی اجازت دی گئی جو اسلام کے مطابق ہوں
و اللہ اعلم
السلام علیکم
کیا شیطانوں میں سے بعض سمندر سے نکل کر لوگوں پر قرآن پڑھیں گے ؟
صحیح مسلم کے مقدمے میں روایت ہے
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: «إِنَّ فِي الْبَحْرِ شَيَاطِينَ مَسْجُونَةً، أَوْثَقَهَا سُلَيْمَانُ، يُوشِكُ أَنْ تَخْرُجَ، فَتَقْرَأَ عَلَى النَّاسِ قُرْآنًا
عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سمندر میں شیاطین قید ہیں ، ان کو سلیمان نے قید کیا تھا ، مجھے شک ہے کہ یہ نکل جائیں گے اور لوگوں پر قرآن پڑھیں گے
یہ روایت متن میں منکر ہے
شیاطین کو قید کرنے کا تصور قرآن کے خلاف ہے کیونکہ اللہ نے ابلیس اور اس کے لشکروں کو مہلت دی ہے کہ وہ انسانوں کو گمراہ کریں – طَاوُسُ بْنُ كَيْسَانَ کا سماع عبد اللہ بن عمرو سے معلوم نہیں ہے – امام کرابیسی کے مطابق یہ مدلس ہے – کہا جاتا ہے کہ طاؤس ، ابن عباس رضی اللہ عنہ کا شاگرد تھا – یہ ارسال بہت کرتا ہے
أبو زرعة، ويعقوب بن شيبة نے اپنی مسند میں کہا ہے اس کی حدیث عن عمر وعلي مرسل، قال أبو حاتم: وعن عثمان مرسل، لم يسمع منه شيئا، وقد أدرك زمنه؛ لأنه قديم.
وفي كتاب ” الإشبيلي ” قال أبو محمد: لم يدرك طاوس معاذ بن جبل.
طَاوُسُ کا سماع نہ علی سے ہے نہ معاذ سے ہے نہ عثمان سے ہے ، نہ عمر سے ہے
اس نے عائشہ سے بھی روایت کیا ہے جبکہ ان سے کچھ نہیں سنا
وروى عن عائشة فقال ابن معين: “لا أراه سمع منها”. وقال أبو داود: لا أعلمه سمع منها”. “التدليس” (83 – 84).
معلمی نے کہا ہے
أخذ كثيرًا من علم ابن عباس – رضي الله عنهما – ثم كان بعد ذلك
يرسل عن ابن عباس
اس نے ابن عباس سے بہت سا علم لیا ہے پھر ان سے ارسال بھی کیا ہے یعنی جو نہیں سنا تھا اس کو بھی ابن عباس سے منسوب کر دیا ہے
راقم کی تحقیق کے مطابق اس کا سماع ابن عباس سے بھی تمام روایات پر نہیں ہے –
شيطان قرآن کیسے پڑھیں گے جبکہ اس میں سورہ المومنون کی آیت ہے
وَقُل رَّبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ
وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَن يَحْضُرُونِ
اور کہو اے رب میں شیطان کی اکساہٹوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اس سے کہ یہ میرے قریب پھٹکیں
سلیمان علیہ السلام نے جن جنات کو کام پر لگا رکھا تھا وہ ان کی وفات پر جان گئے تھے کہ ان کو مزید اب کام کی ضرورت نہیں – سورہ سبا میں ہے
فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَىٰ مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنسَأَتَهُ ۖ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَن لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ
اسلام علیکم
اکیا احادیث قرآن کا تفسیر هے؟؟یا قرآن کا مکمل کرنا؟
کیا احادیث حکم قطعی هے؟یا احکام کا توضیح و تشریح؟
بہاے ایک دوست مجسے سوال کیا
پلیز رہنمائی فرمائیں
قرآنی دلیل کے ساتھ
جزاکم الله خیر
السلام علیکم
قرآن کلام اللہ ہے اپنے متن میں واضح ہے کہ اس میں اللہ تعالی کا حکم کیا ہے – اللہ نے اس کو فرقان کہا ہے یعنی حق و باطل کو واضح کرنے والا کلام کہا ہے
قران کی تفسیر اس کی آیات خود کرتی ہیں – اس کی حفاظت من جانب اللہ شروع نزول سے ہے
احادیث اضافی معلومات کے درجہ میں ہیں – مثلا نماز پڑھو تو کس طرح پڑھو اور اسی طرح دیگر عبادات کی غلطیوں کی تفصیل اور صحیح طریقہ
اسطرح احادیث قرآن کی تفسیر نہیں ہیں بلکہ اضافی علم ہے جو فریضہ عبادات کے ادا کرنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھایا
اصل کے حساب ہے قرآن و حدیث دونوں اللہ کے الہام ہیں
حدیث کی حفاظت من جانب امت ہے – اس پر علماء نے کتب لکھی ہیں اور اس میں صحیح و غلط سب کو جمع کیا گیا ہے تاکہ مزید تحقیق کی جا سکے اور حدیث کی سند پر تحقیق کا آغاز سن ٧٠ سے ١٠٠ ہجری کے درمیان ہے
احادیث علم نظری ہیں قطعی نہیں ہیں – احادیث اگر قرائن کے مطابق ہوں تو ان کو قبول کیا جاتا ہے الا یہ کہ کوئی علت کسی پر واضح ہو مثلا متعدد احادیث میں علت پائی گئی ان کو علل کی کتب میں امثال کے طور پر بیان کیا گیا
اس طرح صحیح بخاری و مسلم محض دو علماء کا اجتھاد ہے کہ کوئی صحیح حدیث سند متصل ہے اور قابل قبول ہے اس کو عرفا صحیح متصور کیا جاتا ہے
لیکن بعد میں علماء نے اس کی بعض احادیث کو معلول بھی قرار دیا ہے
حدیث میں ٩٩ فی فصد خبر واحد ہیں اور یہ علم نظری کے درجہ میں ہیں ان کو اس وقت تک قبول کیا جائے گا جب تک کوئی علت معلوم نہ ہو
السلام علیکم
کیا بیوی اپنے شوہر کو میت کو غسل دے سکتی ہے؟
کیا شوہر اپنی بیوی کی میت کو غسل دے سکتا ہے؟
کیا وفات کے بعد بیوی اور شوہر کا رشتہ ختم ہوجاتا ہے؟
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُؤَمَّلِ، ثنا الْفَضْلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الشَّعْرَانِيُّ، ثنا النُّفَيْلِيُّ، ثنا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عَوْنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، وَعُمَارَةُ بْنُ الْمُهَاجِرِ، عَنْ أُمِّ جَعْفَرٍ، زَوْجَةِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، قَالَتْ: حَدَّثَتْنِي أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ قَالَتْ: «غَسَّلْتُ أَنَا وَعَلِيٌّ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»
حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : میں نے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی کو غسل دیا ۔
عن عائشة قالت رجع رسول اللہ صلی اللہ علیه وآله وسلم من جنازة بالبقیع وأنا أجد صداعا فی راسی و أقول وارأساہ، فقال:بل انا وارأساہ ماضرک لومت قبلی فغسلتک و کفنتک، ثم صلیت علیک و دفنتک‘‘ (احمد، ابن ماجہ،نیل الاوطار:2؍58)
م المومنین سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اللہ کےرسول ﷺ جنت البقیع میں جنازہ سے فارغ ہوکر واپس لوٹتے تو میرا سردرد کررہا تھا۔ اور اس وجہ سے میں’’ہائے میرا سر‘‘ کہہ رہی تھی۔ تو آپؐ نے فرمایا: ’’یہ الفاظ تو میں کہوں، اگر تم مجھ سے پہلے فوت ہوگئیں تو تمہیں کوئی ضرر نہیں، میں خود تمہیں غسل دوںگا ، کفن پہناؤں گا، تمہاری نماز جنازہ پڑھ کر خود تمہیں دفن کروں گا۔‘‘
عن اسمآء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنها، أن فاطمة رضی اللہ عنها أوصت أن یغسلھا علی رضی اللہ تعالیٰ عنه‘‘ (رواہ الدارقطنی، بلوغ المرام:2؍550)
سیدہ اسماء بنت عمیسؓ فرماتی ہیں کہ حضرت فاطمۃ الزہراؓ نے وصیت کی تھی کہ انہیں ان کے شوہر حضرت علیؓ غسل دیں۔‘‘
وغسل ابن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنه إمرأته حین ماتت‘‘ (کشف الغمۃ عن جمیع الامۃ 1؍163)
سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کی زوجہ محترمہ جب فوت ہوئیں تو انہوں نےاپنی بیوی کو خود غسل دیا۔‘‘
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ان کی بیوی اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے غسل دیا
کیا یہ سب صحیح ہیں؟
میت کو کیا شوہر یا بیوی غسل دے سکتے ہیں اس میں فقہاء کا اختلاف ہے – امام شافعی نے ضعیف احادیث سے دلیل لی ہے جن کا آپ نے ذکر کیا
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُؤَمَّلِ، ثنا الْفَضْلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الشَّعْرَانِيُّ، ثنا النُّفَيْلِيُّ، ثنا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عَوْنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، وَعُمَارَةُ بْنُ الْمُهَاجِرِ، عَنْ أُمِّ جَعْفَرٍ، زَوْجَةِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، قَالَتْ: حَدَّثَتْنِي أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ قَالَتْ: «غَسَّلْتُ أَنَا وَعَلِيٌّ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»
حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : میں نے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی کو غسل دیا ۔
مستدرک حاکم کی روایت ہے – سند میں أُمِّ جَعْفَرٍ، زَوْجَةِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ مجہول ہے
عن عائشة قالت رجع رسول اللہ صلی اللہ علیه وآله وسلم من جنازة بالبقیع وأنا أجد صداعا فی راسی و أقول وارأساہ، فقال:بل انا وارأساہ ماضرک لومت قبلی فغسلتک و کفنتک، ثم صلیت علیک و دفنتک‘‘ (احمد، ابن ماجہ،نیل الاوطار:2؍58)
م المومنین سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اللہ کےرسول ﷺ جنت البقیع میں جنازہ سے فارغ ہوکر واپس لوٹتے تو میرا سردرد کررہا تھا۔ اور اس وجہ سے میں’’ہائے میرا سر‘‘ کہہ رہی تھی۔ تو آپؐ نے فرمایا: ’’یہ الفاظ تو میں کہوں، اگر تم مجھ سے پہلے فوت ہوگئیں تو تمہیں کوئی ضرر نہیں، میں خود تمہیں غسل دوںگا ، کفن پہناؤں گا، تمہاری نماز جنازہ پڑھ کر خود تمہیں دفن کروں گا۔‘‘
یہ روایت محمد بن اسحاق کی سند سے ہے اور اس کو ام المومنین کے حوالے سے جھوٹ بولنے کی عادت ہے – اس کے پانچ جھوٹ اپنی کتاب وفات النبی میں بیان کر چکا ہوں
اس روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم نہیں تھا کہ آیا عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات ان سے پہلے ہے یا بعد میں ہے
دوسری طرف اس کی تصحیح کرنے والے ہیں جن کے نزدیک حواب کے کتوں والی روایت صحیح ہے – اسی طرح یہ بھی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے خواب میں تین چاند اپنے حجرہ میں دیکھے
یعنی ایک طرف تو روایات ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو علم ہے کہ رسول اللہ کی وفات ہونے والی ہے جبکہ رسول اللہ کو اس کا علم نہیں
یہ قابل غور ہے
اور یہ روایت ابن اسحاق کی وجہ سے ضعیف ہے
عن اسمآء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنها، أن فاطمة رضی اللہ عنها أوصت رضی اللہ تعالیٰ عنه‘‘ (رواہ الدارقطنی، بلوغ المرام:2؍550)
سیدہ اسماء بنت عمیسؓ فرماتی ہیں کہ حضرت فاطمۃ الزہراؓ نے وصیت کی تھی کہ انہیں ان کے شوہر حضرت علیؓ غسل دیں۔‘‘
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْبَاقِي بْنُ قَانِعٍ , نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ , نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَنْدَلٍ , نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نَافِعٍ الْمَدَنِيُّ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى , عَنْ عَوْنِ بْنِ مُحَمَّدٍ , عَنْ أُمِّهِ , [ص:448] عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ , أَنَّ فَاطِمَةَ «أَوْصَتْ أَنْ يُغَسِّلَهَا زَوْجُهَا عَلِيٌّ وَأَسْمَاءُ فَغَسَّلَاهَا»
سند میں عبد اللہ بن صندل مجہول ہے
وغسل ابن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنه إمرأته حین ماتت‘‘ (کشف الغمۃ عن جمیع الامۃ 1؍163)
سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کی زوجہ محترمہ جب فوت ہوئیں تو انہوں نےاپنی بیوی کو خود غسل دیا۔‘‘
أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَةَ، أنبأ أَبُو عَمْرِو بْنُ مَطَرٍ، أنبأ أَحْمَدُ بْنُ الْحُسَيْنِ الْحَذَّاءُ، ثنا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى بْنِ الْأَنْصَارِيِّ، ثنا عَلِيُّ بْنُ ثَابِتٍ، حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْمُهَاجِرِ الْبَجَلِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ: ” أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ [ص:557] رَضِيَ اللهُ عَنْهُ غَسَّلَ امْرَأَتَهُ حِينَ مَاتَتْ ”
سند میں إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْمُهَاجِرِ کا علم نہیں کون ہے
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ان کی بیوی اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے غسل دیا
موطا امام مالک میں ہے
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ بْنُ أَنَسٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ عُمَيْسٍ امْرَأَةَ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ” غَسَّلَتْ أَبَا بَكْرٍ حِينَ تُوُفِّيَ، فَخَرَجَتْ، فَسَأَلَتْ مَنْ حَضَرَهَا مِنَ الْمُهَاجِرِينَ، فَقَالَتْ: إِنِّي صَائِمَةٌ، وَإِنَّ هَذَا يَوْمٌ شَدِيدُ الْبَرْدِ فَهَلْ عَلَيَّ مِنْ غُسْلٍ؟ قَالُوا: لا
راوی عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ نے کا سماع اسماء سے ثابت نہیں
عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ کی پیداش کا بھی علم نہیں کب کی ہے
امام مالک اور اسماء کے درمیان کم از کم دو راوی درکار ہیں
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ «أَوْصَى أَسْمَاءَ بِنْتَ عُمَيْسٍ أَنْ تُغَسِّلَهُ»
یہاں سند منقطع ہے
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ «حِينَ حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ، أَوْصَى أَسْمَاءَ بِنْتَ عُمَيْسٍ أَنْ تُغَسِّلَهُ، وَكَانَتْ صَائِمَةً، فَعَزَمَ عَلَيْهَا لَتُفْطِرَنَّ»
یہ بھی منقطع سند ہے
حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ «أَسْمَاءَ بِنْتَ عُمَيْسٍ أَوَّلُ مَنْ أَحْدَثَتِ النَّعْشَ»
سند منقطع ہے
الغرض یہ روایات ضعیف ہیں – سندا مضبوط نہیں
دور نبوی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج خدیجہ و زینب رضی اللہ عنہما کی وفات ہوئی – کسی روایت میں نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان ازواج کے غسل میں شامل ہوئے
اس بنا پر قرین و مناسب یہی ہے کہ مرد کو مرد غسل دیں اور عورت کو عورت ہی غسل دے
دور نبوی میں اصحاب رسول کا کسی صحیح حدیث میں نہیں ملتا کہ وہ اپنی فوت شدہ بیوی کو چھوتے تھے
بیوی کا شوہر سے رشتہ ختم ہو جاتا ہے تبھی اس کی عدت شروع ہوتی ہے – عدت طلاق پر بھی ہوتی ہے لہذا اس سے دلیل یہی ملتی ہے کہ عورت اب نکاح میں نہیں اور بعد عدت دوسرا نکاح کر سکتی ہے
اس میں استثنی صرف امہات المومنین کا ہے کہ ان پر عدت نہیں ہے – ان کا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے باقی رہے گا
اگر مرد کی بیوی مر جائے اور اس کا نکاح بیوی سے باقی رہ گیا ہے تو وہ اپنی سالی سے شادی نہیں کر سکتا کیونکہ دو بہنوں کو جمع کرنا منع ہے
اس بنا پر بھی یہی دلیل بنتی ہے کہ نکاح ختم ہوا
السلام علیکم پھر اس وقت ایماندار کے لیئے کیا حکم ہے جب اس کی بیوی فوت ہوجائے اور فرقہ والوں کی عورتیں غسل دینے کے پیسے وصول کریں جس کو وہ ایماندار ناجائز اور اس کے غسل دینے کو بھی درست نہیں سمجھتا وہ واحد ایماندار اس وقت اپنی بیوی کو خود غسل دے یا پیسے دیکر غسل کفن وغیرہ کروائے
غسل دینا گھر کی خواتین بھی کر سکتی ہیں
https://mohaddis.com/View/Sahi-Bukhari/T2/1253
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کی وفات ہوئی تو ان کے سابقہ شوہر یعنی عثمان رضی اللہ عنہ نے غسل نہیں دیا بلکہ انصار کی عورتوں نے دیا
مزید یہ کہ: أدخلو ا الجنة أنتم و ازواجکم تحبرون ترجمہ: داخل ہو جاؤ جنت میں تم اور تمہاری بیویاں تمہیں خوش کر دیا جائے گا ” (سورہ زخرف: 70)
قرآن ميں ہے کہ میاں بیوی اگر نیک ہیں تو وہ بہشت میں بھی ایک ساتھ رہیں گے. پہر اسکا کیا ہوگا. ؟ قرآن تو نکاح ٹوٹنے کی بات نہیں کر رھا. ٹھیک ھے دنیا میں عدت پوری کرے دوسرا نکاح کرے دنیاوی حساب سے زندگی گذارنی ہوتی ھے. لیکن قرآن میں یہ بات
تو ھے کہ دونوں بہشت میں ایک ساتھ خوش و خرم رھیں گے.
السلام علیکم
اللہ تعالی نے جو کہا ہے وہی اس کو پورا کرے گا
شریعت کے قوانین دنیا کے لئے ہیں جو ہر امت کے لئے الگ الگ تھے – آخرت میں اللہ تعالی سب جنتوں پر تمام امتوں پر ایک ہی حکم جاری کرے گا
( ادخلوا الجنة ) أي يقال لهم ادخلوا الجنة ، أو يا عبادي الذين آمنوا ادخلوا الجنة . ( أنتم وأزواجكم ) المسلمات في الدنيا . وقيل : قرناؤكم من المؤمنين . وقيل : زوجاتكم من الحور العين
یہاں ازواج سے مراد حور ہے
مرد کے مرنے کے بعد اس کی بیوی دوسری شادی کر سکتی ہے – اس طرح اس کے دو زوج ہو گئے
جنت میں تو کسی ایک شوہر کے ہی ساتھ ہو گی یا ہو سکتا ہے ان دونوں میں سے کسی کے ساتھ رہنا پسند نہ کرے
پہلے شوہر سے نکاح ختم ہوا اسی بنا پر عدت ہوئی
اسلام علیکم
بہاے
اقرآن کے سوره بقره آیت106 کا مطلب اگلے شرایع کاکچھ احکام کا منسوخ یا اسے اچھی حکم لانا مفهوم ہے یا قرآن کےآیت دوسری آیت سے منسوخ هونا؟؟
کچھ لوگ کا مانا ہے کہ اگلے شرایع کا احکام منسوخ هونا مطلب ہے نا کے قرآن کا قرآن سے منسوخ ہونا
پلیز رہنمائی فرمائیں
جزاکم الله خیرا
سلام علیکم
سوره بقره آیت106 کا تعلق قرآن کی آیات اور سابقہ کتب دونوں سے ہے – قرآن میں ہے کہ
لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّ مِنْهَاجًاؕ
https://www.dawateislami.net/quran/surah-al-maidah/ayat-48/translation-1/tafseer
یہود توریت پر عمل کرتے ہیں اور نصرانی اس کو مکمل منسوخ سمجھتے ہیں
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے توریت کا احکام کو یہود پر نافذ کیا ہے
اس لئے وہ حکم جس پر نبی نے عمل کیا ہو اس کو لیا جائے گا
https://www.islamic-belief.net/%d8%aa%d9%88%d8%b1%db%8c%d8%aa-%da%a9%db%92-%d8%aa%db%8c%d9%86-%d8%ad%da%a9%d9%85/
قرآن میں آیات ہیں ان میں ایک حکم آیا پھر دوسرا حکم دیا گیا
اس طرح پہلا حکم منسوخ سمجھا جاتا ہے
مثلا حرام مہینوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگیں کی ہیں اس کی اجازت دی گئی سورہ الحج میں سورہ بقرہ میں
پھر منسوخ ہوا سورہ المائدہ میں
و اللہ اعلم
السلام وعليكم
کیا قرآن کی تلاوت کرنے سے پہلے بسم اللہ لازمی پڑھنی چاہیے؟
قرآن کی تلاوت سے پہلے
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
پڑھنے کا حکم ہے
بسم اللہ پڑھنا ضروری نہیں مستحسن ہے
السلام علیکم
کیا یہ حدیث صحیح ہے؟
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں علی رضی اللہ عنہ کی معیت میںیمن کی طرف ایک غزوہ میں گیا، میں نے ان کے رویہ میں سختی دیکھی، سو جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آیا تو میں نے آپ کے سامنے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ذکر کر کے ان کی شان میں کچھ نازیبا الفاظ کہے۔ پھر میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ متغیر ہو نے لگا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے بریدہ! کیا میں مومنین پر ان کی جانوں سے زیادہ حق نہیں رکھتا؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں جس کامولیٰ ہوں، علی بھی اس کا مولیٰ ہے۔ دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں: میں جس کا دوست ہوں، علی رضی اللہ عنہ بھی اس کا دوست ہے
مسند احمد:10958
کیا اس طرح کی کوئی دوسری روایت صحیح یا حسن ہے؟
جس کامولیٰ ہوں، علی بھی اس کا مولیٰ ہے۔
کچھ اور بھی روایت ہیں۔ کچھ یہاں منشن کر رہا ہوں اور کچھ یہاں نہیں ہے۔
مسند احمد 23959
حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا حنش بن الحارث بن لقيط النخعي الاشجعي ، عن رياح بن الحارث ، قال: جاء رهط إلى علي بالرحبة، فقالوا: السلام عليك يا مولانا، قال: كيف اكون مولاكم وانتم قوم عرب؟ قالوا: سمعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم غدير خم، يقول: ” من كنت مولاه، فإن هذا مولاه” ، قال رياح: فلما مضوا تبعتهم، فسالت من هؤلاء؟ قالوا: نفر من الانصار فيهم ابو ايوب الانصاري ..
ریاح بن حارث کہتے ہیں کہ ایک گروہ ” رحبہ ” میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا ” السلام علیک یا مولانا ” حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تمہارا آقا کیسے ہوسکتا ہوں جبکہ تم عرب قوم ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غدیر خم کے مقام پر یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں جس کا مولیٰ ہوں علی بھی اس کے مولیٰ ہیں جب وہ لوگ چلے گئے تو میں بھی ان کے پیچھے چل پڑا اور میں نے پوچھا کہ یہ لوگ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ کچھ انصاری لوگ ہیں جن میں حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں۔
مسند احمد – 961
حدثنا حسين بن محمد ، وابو نعيم ، المعنى، قالا: حدثنا فطر ، عن ابي الطفيل ، قال: جمع علي رضي الله عنه الناس في الرحبة، ثم قال لهم: انشد الله كل امرئ مسلم سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم غدير خم ما سمع، لما قام، فقام ثلاثون من الناس، وقال ابو نعيم: فقام ناس كثير، فشهدوا حين اخذه بيده، فقال للناس: اتعلمون اني اولى بالمؤمنين من انفسهم؟ قالوا: نعم يا رسول الله، قال:” من كنت مولاه، فهذا مولاه، اللهم وال من والاه، وعاد من عاداه”، قال: فخرجت وكان في نفسي شيئا، فلقيت زيد بن ارقم، فقلت له: إني سمعت عليا رضي الله تعالى عنه يقول كذا وكذا، قال: فما تنكر؟ قد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ذلك له .
ابوالطفیل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے صحن کوفہ میں لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا جس مسلمان نے غدیرخم کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سناہو میں اسے قسم دے کر کہتاہوں کہ اپنی جگہ پر کھڑا ہوجائے چناچہ تیس آدمی کھڑے ہوگئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کیا تم لوگ نہیں جانتے کہ مجھے مسلمانوں پر ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ حق حاصل ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کیوں نہیں پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ دبا کر فرمایا جس کا میں محبوب ہوں علی بھی اس کے محبوب ہونے چاہئیں اے اللہ، اے اللہ! جو علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرتا ہے تو اس سے محبت فرما اور جو اس سے دشمنی کرتا ہے تو اس سے دشمنی فرما میں وہاں سے نکلا تو میرے دل میں اس کے متعلق کچھ شکوک و شبہات تھے چناچہ میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے ملا اور عرض کیا کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس اس طرح کہتے ہوئے سنا ہے انہوں نے
—فرمایا تمہیں اس پر تعجب کیوں ہورہا ہے؟
میں نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔
مسند احمد -641
حدثنا محمد بن عبد الله ، حدثنا الربيع يعني ابن ابي صالح الاسلمي ، حدثني زياد بن ابي زياد ، سمعت علي بن ابي طالب رضي الله عنه ينشد الناس، فقال:” انشد الله رجلا مسلما سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول يوم غدير خم ما قال، فقام اثنا عشر بدريا فشهدوا”.
زاذان کہتے ہیں کہ میں نے صحن مسجد میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو لوگوں کو اللہ کی قسم دے کر یہ پوچھتے ہوئے سنا کہ غدیر خم کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کون حاضر تھا اور کس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سنا تھا؟ اس پر بارہ بدری صحابہ کھڑے ہو گئے اور ان سب نے گواہی دی۔
مسند احمد – 950
حدثنا عبد الله، حدثنا علي بن حكيم الاودي ، انبانا شريك ، عن ابي إسحاق ، عن سعيد بن وهب ، وعن زيد بن يثيع ، قالا: نشد علي الناس في الرحبة: من سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول يوم غدير خم إلا قام، قال: فقام من قبل سعيد ستة، ومن قبل زيد ستة، فشهدوا انهم سمعوا رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لعلي رضي الله عنه يوم غدير خم:” اليس الله اولى بالمؤمنين؟”، قالوا: بلى، قال:” اللهم من كنت مولاه فعلي مولاه، اللهم وال من والاه، وعاد من عاداه”.
سعید بن وہب اور زید بن یثیع کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے صحن کوفہ میں لوگوں کو قسم دے کر فرمایا کہ جس شخص نے غدیر خم کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا میرے حوالے سے کوئی ارشاد سنا ہو تو وہ کھڑا ہو جائے، اس پر سعید کی رائے کے مطابق بھی چھ آدمی کھڑے ہو گئے اور زید کی رائے کے مطابق بھی چھ آدمی کھڑے ہو گئے، اور ان سب نے اس بات کی گواہی دی کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غدیر خم کے موقع پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ ”کیا اللہ کو مومنین پر کوئی حق نہیں ہے؟“ سب نے عرض کیا: کیوں نہیں! فرمایا: ”اے اللہ! جس کا میں مولیٰ ہوں، علی بھی اس کے مولیٰ ہیں، اے اللہ! جو علی سے دوستی کرے تو اس سے دوستی فرما، اور جو اس سے دشمنی کرے تو اس سے دشمنی فرما۔“
———
صرف یہی نہیں بلکہ ایک کثیر تعداد میں روایات ہیں۔ جس کا میں مولا اس کا علی مولا۔
4-6 روایات نہیں
بلکہ اس ٹاپک پر بے شمار روایات ہیں۔ کیا سب کی سب ضعیف ہیں وہ بھی اتنی کثرت کے ساتھ؟
میں نے آپ کا اس حوالے سے سوال جواب پڑھا ہے لیکن اس میں نہ ان سب روایات کا ذکر ہےاور یہ بھی صاف نہیں ہے ایک عام مسلمان کا اس حوالے سے کیا عقیدہ ہونا چاہیئے؟
اور سب کی سب اگر ضعیف قرار دی جائینگی تو اماموں نے یعنیامام شافعی وغیرہ نے مولا لفظ کی وضاحت کیوں کی؟ اگر سند ضعیف ہو تو بھی متن مشھور ہے۔
سلام علیکم
اس طرح کی روایت صحیح بخاری میں بھی ہے
یہ قصہ صحیح و ضعیف سندوں سے ہے
مولی کا لفظ عربی میں بہت سے معنی رکھتا ہے اور سیاق و سباق سے اس کا تعین ہوتا ہے
جب کلام مختصر ہو تو اس کا سادہ مطلب ہی لیا جا سکتا ہے
لہذا مولی کا مطلب دوست اس واقعہ کے تناظر میں سب سے بہتر ہے
سندیں اس واقعہ کی بہت ہیں اور بیشتر ضعیف ہیں لہذا یہ تواتر میں شمار کی جاتی ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کی تعریف کی گئی انہوں نے مال میں خمس میں ان کا حصہ خود لے لیا یعنی لونڈی حاصل کر لی
یہ شرع میں وہ لے سکتے تھے لہذا ان کی سرزنش نہیں کی گئی
لیکن اس طرح خود حاصل کرنے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنا دوست و ساتھی ہی قرار دیا
حاطب بن ابی بلتہ کا واقعہ تو ان سے زیادہ خطرناک تھا جس میں وہ خط مکہ والوں کو بھیج رہے تھے لیکن ان کو ساتھی و اہل بدر ہی کہا گیا
اسلام علیکم
تقدیر ایمان کے اصول سے ہے
قران کے کون سے نص ثابت ہے؟؟؟
جزاک الله خیر
و علیکم السلام
ہمیں قرآن کی ہر آیت پر ایمان لانا ہے اور اس میں ہے
إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ } (القمر:49)
وما من دابة في الأرض ولا طائر يطير بجناحيه إلا أمم أمثالكم ما فرطنا في الكتاب من شيء ثم إلى ربهم يحشرون } (الأنعام:38)
أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاءِ وَالأَرْضِ إِنَّ ذَلِكَ فِي كِتَابٍ إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ ) الحج/70
وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيراً ) الفرقان
اس سے معلوم ہوا کہ تقدیر لکھی گئی ہے
اہل سنت کے متکلمین نے تقدیر کے لکھے جانے پر ایمان کو لازمی قرار دیا کیونکہ معتزلہ وغیرہ اس کو لازم نہیں کر رہے تھے اور قدری فرقہ نمودار ہوا جس کے نزدیک اللہ نے انسان کی تقدیر مقرر نہیں کی
اگر ہم مان لیں کہ اللہ نے تقدیر مقرر نہیں کی تو کوئی بھی شخص نبی و رسول بن سکتا ہے
کسی کا رسول مقرر ہونا تقدیر کا حصہ ہے
السلام علیکم
لہسن کو لوگ کپڑے میں باندھ کر بچے کے گلے میں باندھ دیتے ہیں کہ اس کی خوشبو سے چیسٹ انفیکشن صحیح ہوجاتا ہے کیا ایسا کرنا درست ہے؟
و علیکم السلام
لہسن ، پیاز وغیرہ ایسا لوگ کرتے ہیں لیکن سائنس و مذھب میں اس کی دلیل نہیں ہے
ایک دوسری قسم کے لوگ بھی ہیں مثلا
بعض لہسن و پیاز پر جادو کر کے باندھتے ہیں
یہ توہم پرستی و شرک میں سے ہیں
السلام علیکم
میری تحقیق کے مطابق عمرہ کامندرجہ ذیل طریقہ درست ہے اگر اس تحریر میں غلطی ہے تو اصلاح کر دیں۔شکریہ
٭عمر ہ میں داخل ہو نے کی نیت کو احرام کہتے ہیں ۔
٭عمرہ کرنے والے کو احرام باندھتے وقت ((لبّیک عمرۃً))یا((اللّٰھم لبّیک عمرۃً )) کا لفظ زبان سے کہنا مستحب ہے ۔
٭ مرد ایک بغیر سلی تہہ بند اور ایک چادر (یعنی جو بنیان ‘موزہ ‘پائجامہ ‘ اور قمیص شلوار وغیرہ کی طرح عضو کے برابر سلی ہوئی نہ ہوں ) میں احرام باندھے گا۔اور بہتر ہے کہ چادر ولنگی دونوں سفید ہوں۔
٭احرام کی نیت کرنے سے پہلے غسل کرنا ‘خوشبو لگانا ‘اور (ناخن تراشنا ‘مونچھیں کاٹنا ‘موے زیر ناف مونڈنا ‘اور بغل کے بالوں کی ) صفائی کرنا مستحب ہے۔
٭احرام کی دو رکعت کے نام سے دو رکعت نماز پڑھنا ثابت نہیں ہے ۔ہاں اگر فرض نماز کے وقت اتفاقاًاحرام باندھنا پڑ جائے تو پہلے فرض نماز پڑھ لے پھر احرام باندھ لے۔
٭احرام باندھنے کے بعد تلبیہ پکارنا یعنی (( لبّیک اللھم لبیک۔لبیک لا شریک لک لبیک۔ان الحمد والنعمۃ لک والملک لاشریک لک))’’میں حاضر ہوں ‘ اے اللہ میں حاضر ہوں ‘ میں حاضر ہوں ‘ تیرا کوئی شریک نہیں ‘ یقینا سب تعریف تیرے ہی لئے ہے ‘ ساری نعمتیں تیری ہی ہیں ‘ اور ساری بادشاہت تیری ہی ہے ‘ تیرا کوئی شریک نہیں ۔‘‘کہنا مسنون ہے ۔مرد بلند آواز سے پکاریں گے اور عورتیں پست آواز سے۔
٭طواف شروع کرتے وقت عمرہ کرنے والا تلبیہ کہنے یعنی’’ لبیک‘‘ پکارنے سے رک جائیگا ۔
٭احرام کا لباس اگر میلا ہو جائے تو اس کو نکالنا اور بدلنا جائز ہے ۔اور احرام کا لباس محرم کو اپنے گھر میں سفر سے پہلے پہننا جائز ہے ۔لیکن احرام کی نیت میقات کے پاس ہی کرے گا ۔
٭عورت کے لئے احرام کا کو ئی مخصوص رنگ کا لباس نہیں ‘ جیسے کالا یا سبز ‘ جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے ۔
٭محرمہ عورت کے لئے دستانے پہننا ‘ یا نقاب لگانا ‘ جائز نہیں۔اس لئے کہ یہ دونوں عضو کے برابر سلے گئے ہیں ۔اور آپ ﷺ کا فرمان ہے :’’محرمہ عورت نہ نقاب لگائے اور نہ دستانے پہنے ‘‘ [بخاری]
{طواف}
٭طواف کعبہ کے سات چکر لگانے ہیں ۔ہر چکر حجر اسودکے سامنے سے شروع ہو گا اور اسی پر ختم ہو گا۔
٭عمرہ کرنے والا طواف کے دوران کعبہ کو اپنی بائیںجانب رکھے گا۔
٭عمرہ کرنے والے کو طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل کرنا مسنون ہے۔رمل ’’قریب قریب قدم رکھ کر تیز چلنے کو ‘‘کہتے ہیں۔
٭ اسی طرح پورے طواف میں اضطباع کرنا سنت ہے ۔ اضطباع ’’اپنی چادر کے درمیانی حصہ کواپنے داہنے کندھے کے نیچے کرنے ‘ اوراس کے دونوں کناروں کو بائیں کندھے پر رکھنے کو ‘‘کہتے ہیں ۔
٭عمرہ کرنے والا جب طواف سے فارغ ہو جائے تو اضطباع ختم کر دیگا ۔
٭طوا ف کرنے والے کو حجر اسود کا استلام کرنا ‘ یعنی اپنے ہاتھ سے اس کو چھونا ‘اور اس کے پاس سے گزرتے وقت اس کو بوسہ دینا مسنون ہے ۔اگر بوسہ نہ دے سکے تو اپنے ہاتھ سے اس کو چھوئے اور اپنے ہاتھ کو بوسہ دے ‘ اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو کسی چیز سے جو اس کے پاس ہو جیسے چھڑی وغیرہ سے اس کو چھوئے لیکن اس چیز کو بوسہ نہ دے ‘ اور اگر یہ بھی نہ کر سکے تودور سے ہی اپنے ہاتھ سے اس کی طرف اشارہ کرے مگر ہاتھ کو بوسہ نہ دے ۔
٭طواف میں حجر اسود کو چھوتے وقت یا اس کی طرف اشارہ کرتے وقت ’’اللّٰہ اکبر‘‘کہنا مسنون ہے ۔
٭طواف کرنے والے کے لئے رکن یمانی کو اپنے ہاتھ سے چھونامسنون ہے۔نہ کہ بوسہ دینا۔ اگر بھیڑ کی وجہ سے اس کو چھو نہ سکے تو اشارہ نہیں کرے گا۔
٭دونوں رکن شامی کو بوسہ دینا ‘ یا ان کی طرف اشارہ کرنا مشروع نہیں ۔کیو نکہ اللہ کے نبی ﷺ سے ثابت نہیں۔
٭حجر اسود اور رکن یمانی کے درمیان ((رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الْآٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ))پڑھنا مستحب ہے۔
٭طواف کے ہر چکر کے لئے کوئی خاص ذکر یا دعا ثابت نہیں ۔بلکہ دوران طواف قرآن پڑھنا یا اللہ کے نبی ﷺ سے وارد شدہ دعائوں میں سے دعا کرنا جائز ہے۔
٭جس کو طواف کے چکروں میں شک پڑ جائے کہ کتنے چکر لگائے ہیں تو وہ کم تعداد کو راجح قرار دے کر بقیہ چکر پورے کر لے۔
{مقام ابراہیم}
٭طواف کے بعد مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھنا مستحب ہے ‘ پہلی رکعت میں (سورہ فاتحہ کے بعد )سورہ کافرون اور دوسری رکعت میں سورہ اخلاص پڑھے گا۔
٭مقام ابراہیم کے پاس نماز کے لئے جاتے ہوئے اللہ کا فرمان(( وَاتَّخِذُوْامِنْ مَّقَامِ اِبْرَاھِیْمَ مُصَلّٰی))’’تم مقام ابراہیم کو جا ئے نماز مقرر کر لو‘‘ پڑھنا مسنون ہے۔
٭اگر بھیڑ کی وجہ سے مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نہ پڑھ سکے تو مسجد کے کسی دوسرے حصہ میں پڑھ لے ۔
٭دو رکعت نماز سے فراغت کے بعد آب زمزم پینا مستحب ہے۔
{سعی}
٭سعی : صفا اور مروہ کے درمیان سات چکر ہیں۔صفا سے شروع کرے گا اور مروہ پر ختم کرے گا۔
٭پہلے چکر میں صفا کے قریب ہوتے وقت اللہ کا فرمان((اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِاللّٰہِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ أَوِاعْتَمَرَفَلا َجُنَاحَ عَلَیْہِ أَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْراً فَاِنَّ اللّٰہَ شَاکِرٌعَلِیْمٌ))کو پڑھنا ۔اور اس کے بعد ((أبدابما بدأاللّٰہ بہ))کا کہنا مسنون ہے ۔اور یہ صرف سعی کے پہلے چکر میں کہے گا ۔
٭صفا پر اتنا چڑھنا مستحب ہے کہ کعبہ کو دیکھ لے اور اپنے دونوں ہاتھ یہ دعا پڑھتے ہو ئے اٹھائے((اللّٰہ أکبر‘اللّٰہ أکبر‘اللّٰہ أکبر)) اس کے بعد تین مرتبہ ۔((لا الٰہ الاّ اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھوعلٰی کلّ شییئٍ قدیر،لا الٰہ الاّ اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ أنجز وعدہ ونصر عبدہ وھزم الاحزاب وحدہ ))اس کے بعد جو چاہے دعا کرے۔
٭جب مروہ پر جائے تو بھی یہی دعا پڑھنے کے بعد اپنی جو چاہے دعا کرے۔
٭سعی کرنے والا جب دو سبز نشانوں کے درمیان سے گزرے تو اس شرط کیساتھ تیزی سے چلے کہ دوسروں کو تکلیف نہ ہو۔با قی سعی کی جگہ میں عام چال چلے۔
٭سعی کے دوران اس کا احرام اس کے دونوں کندھوں پر رہے گا۔
٭اگر دوران سعی نماز کھڑی ہو جائے تو پہلے نماز پڑھ لے پھر اپنی بقیہ سعی مکمل کر لے ۔
٭سعی میں کوئی خاص دعا یا ذکر نہیں بلکہ جو چاہے دعا کر سکتا ہے۔
٭سعی کے لئے اگرچہ وضوشرط نہیں لیکن با وضوہونا افضل ہے ۔
{بال منڈوانا یا چھوٹے کروانا}
٭سر کے بال منڈوانا یا چھوٹے کروانا عمرہ کے واجبات میں سے ہے ۔بالوں کو منڈوانا ان کو چھوٹا کروانے سے افضل ہے ۔نبی کریم ﷺ نے بال منڈوانے والوں کے لئے تین بار دعا فرمائی ‘ اور چھوٹا کروانے والوں کے لئے ایک بار۔
٭سر کی تمام جانب سے پورے طور پر بال چھوٹا کرانا ضروری ہے ۔ایک طرف کے چھوٹے کرانا جبکہ دوسری طرف کے چھوڑ دینا کافی نہیں۔
٭عورت اپنے سر کے بال چھوٹے کروائے گی اور وہ اس طرح کہ اپنے بالوں کی ہر چوٹی سے انگلی کے سرے کے برابر کاٹ لے گی ۔
٭بال منڈوا لینے یا چھوٹا کروا لینے کے بعد عمرہ کرنے والا اپنے احرام سے حلال ہو جائیگا ۔اور اس سے اس کا عمرہ پورا ہو جائیگا ۔
اس میں کوئی صریح غلطی نہیں ہے – ٹھیک لگ رہا ہے
السلام علیکم
1اگر کوئی دبئی سے عمرہ کرنے جا رہا اور پہلے مدینہ لے جایا جائے گا تو میقات کونسی ہوگی کہاں سے اِحرام باندھے گے؟
2-چھوٹے بچے بھی احرام باندھے گے؟
3-ریاض الجنۃ میں عمرہ کرنے والے لازمی نفل پڑھتے ہیں اسکا حج وعمرہ سے کوئی تعلق ہے؟
4-قبر نبوی کی زیارت سنت نہیں ہے؟
5-اپ کو پیکج دیا جاتا یے کہ اپ کو مدینہ میں فلاں فلاں مقام پر لے جایا جائے گا مثلا جنت البقیع اور شہدائے احد کی قبریں پر لیکر جایا جاتا یے اسی طرح اور دیگر مقامات پر تو کیا وہاں عبرت کیلے بھی نہیں جا سکتے۔کوئی ہر روز مدینہ تو نہیں جاتا عمرے اور حج کے دوران ان مقامات کو بھی مومن دیکھ لے تو اس میں کیا قباحت ہے؟
و علیکم السلام
مدینہ سے میقات ذي الحليفة سے شروع ہو جاتا ہے
اگر آپ پاکستان سے مدینہ جا رہے ہیں اور ہوائی جہاز میں ہیں تو ممکن ہے کہ اپ حدود حرم میں داخل ہو جائیں بلا احرام کے یعنی فضا میں
یہ صحیح نہ ہو گا لہذا بہتر ہے کہ اس کو چیک کر لیں کہ فلائٹ پاتھ کیا ہے
چھوٹے بچے بھی احرام باندھیں گے
ریاض الجنه کا عمرہ و حج سے کوئی تعلق نہیں
اگر آپ عمرہ کر رہے ہیں تو دعاؤں میں یاد رکھیں
اللہ آپ کا عمرہ قبول کرے
قبر نبی کی زیارت سنت کیسے ہے ؟ سنت تو نبی کا عمل ہے اور قبر ان کی وفات کے بعد بنی ہے
وہ زائر جو مدینہ کا باسی نہ ہو قبر النبی تک پہنچ جائے تو اس کو دیکھ سکتا ہے
اور ابن عمر رضی اللہ عنہ کے طریقے پر السلام علی النبی و ابی بکر و عمر کہہ سکتا ہے جس کا مقصد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سنانا نہ ہو
جنت البقیع اور شہدائے احد کی قبور پر جایا جا سکتا ہے السلام علیک یا اہل القبور کہہ سکتے ہیں
عمرہ سے پہلے مدینہ دیکھ سکتے ہیں شرعا کوئی قباحت نہیں
چھوٹے بچے 6-8 سال کے عمرہ کیسے ادا کرینگے؟
اسی طرح جس طرح بڑے کرتے ہیں حالت احرام میں
السلام علیکم،
میں نے آپ کا جواب پڑھا ہے لیکن اس حوالے سے کچھ احادیث ہیں جو آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں:
«قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا افضي احدكم بيده الي فرجه، وليس بينهما ستر ولا حجاب فليتوضاء»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص اپنا ہاتھ شرمگاہ کو پہنچائے اور (ہاتھ اور شرمگاہ) دونوں کے درمیان کوئی پردہ نہ ہو تو وہ وضو کرے۔“ [صحيح ابن حبان رقم الحديث 1115]، [بيهقي ص 130، 131 ج 1]، [مستدرك حاكم ص 138 ج1]، [دارقطني ص 1447 ج1]، [طبراني صغير ح 110]، [طبراني الاوسط ح 8829، 6664، 8904]
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ منقول ہے کہ: «اذا افضي احدكم بيده الي فرجه، وليس بينهما ستر ولا حجاب فليتوضاء» [صحيح ابن حبان 1118] ” جب تم میں سے کسی نے اپنی شرمگاہ کو اپنے ہاتھ سے چھو لیا اور ان (ہاتھ اور شرمگاہ) کے درمیان کوئی رکاوٹ یا پردہ نہ ہو اسے وضو کرنا چاہئے۔“
اس حدیث کو امام حاکم اور ابن السکن اور ابن عبدالبر نے صحیح کہا ہے۔ [تحفة الاحوذي: 227/1]
ما رواه أحمد، قال: ثنا عبدالجبار بن محمد (يعني: الخطابي) حدثني بقية، عن محمد بن الوليد الزبيدي، عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، قال: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: ((من مس ذكره فليتوضأ، وأي امرأة مست فرجها فلتتوضأ
[إسناده حسن
جزاک اللہ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں:
«قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا افضي احدكم بيده الي فرجه، وليس بينهما ستر ولا حجاب فليتوضاء»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص اپنا ہاتھ شرمگاہ کو پہنچائے اور (ہاتھ اور شرمگاہ) دونوں کے درمیان کوئی پردہ نہ ہو تو وہ وضو کرے۔“ [صحيح ابن حبان رقم الحديث 1115]، [بيهقي ص 130، 131 ج 1]، [مستدرك حاكم ص 138 ج1]، [دارقطني ص 1447 ج1]، [طبراني صغير ح 110]، [طبراني الاوسط ح 8829، 6664، 8904]
اس کو صحیح کہنے والے متاخرین ہیں قرن سوم میں جب محدث البزار نے اس کو درج کیا تو لکھا
حَدَّثنا سَعِيد بن بحر القراطيسي، قَال: حَدَّثنا معن بن عيسى، قَال: حَدَّثنا يزيد بن عَبد الملك عن الْمَقْبُرِيّ، عَن أبي هُرَيرة، قَالَ: قَالَ رَسُول اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم: إذا أفضى أحدكم بيده إلى فرجه ليس بينهما سترة، ولاَ حجاب فليتوضأ.
وَهَذَا الْحَدِيثُ لاَ نعلمُهُ يُرْوَى عَن أَبِي هُرَيرة بهذا اللفظ إلاَّ من هذا الوجه ويزيد بن عَبد الملك لين الحديث
سند میں یزید بن عبد الملک لین الحدیث ہے یعنی حدیث میں کمزور ہے
يزيد بن عبد الملك بن المغيرة بن نوفل بن الحارث القرشى الهاشمى النوفلى ، أبو المغيرة و يقال أبو خالد المدنى ( والد يحيى )
الطبقة : 6 : من الذين عاصروا صغارالتابعين
الوفاة : 167 هـ بـ المدينة
روى له : ق ( ابن ماجه )
رتبته عند ابن حجر : ضعيف
رتبته عند الذهبي : ضعف
قَالَ أبو حاتم: مُنْكَر الحديث.
وقال ابن عَدِيّ: ضعيف.
ذكره الدَّارَقُطْنِيّ في «الضعفاء والمتروكين» (592) ، وقال مدني.
• وقال ضعيف. «تهذيب التهذيب» 4 423.
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ منقول ہے کہ: «اذا افضي احدكم بيده الي فرجه، وليس بينهما ستر ولا حجاب فليتوضاء» [صحيح ابن حبان 1118] ” جب تم میں سے کسی نے اپنی شرمگاہ کو اپنے ہاتھ سے چھو لیا اور ان (ہاتھ اور شرمگاہ) کے درمیان کوئی رکاوٹ یا پردہ نہ ہو اسے وضو کرنا چاہئے۔“
اس حدیث کو امام حاکم اور ابن السکن اور ابن عبدالبر نے صحیح کہا ہے۔ [تحفة الاحوذي: 227/1]
اس کی سند اوپر والی ہی ہے
قال ابن عبد البر: كان هذا الحديث لا يعرف إلا من رواية يزيد، حتى رواه أصبغ بن الفرج، عن ابن القاسم، عن نافع بن أبي نعيم ويزيد جميعاً عن المقبري، فصح الحديث
ابن عبد البر نے لکھا تھا کہ یہ روایت محض یزید کی سند سے معلوم تھی یہاں تک کہ اس کو نافع کی سند سے بھی روایت کیا گیا جس پر اب یہ صحیح سند ہو گئی
لیکن تمام کے نزدیک ایسا نہیں ہے کیونکہ نافع بْنُ أَبِي نُعَيْمٍ کے لئے امام احمد کا کہنا ہے کہ
وليس بشئ في الحديث
اس کے پاس حدیث کی کوئی چیز نہیں
اور الذھبی نے اس کا شمار غیر مضبوط راویوں میں کیا ہے
اس کو عُقبَةَ بنِ عبدِ الرحمنِ، عن محمدِ بنِ عبدِ الرحمنِ بنِ ثَوبانَ کی سند سے بھی روایت کیا گیا ہے جس میں راوی مجہول ہے
عقبة بن عبد الرحمن : قال ابن المديني: شيخ مجهول
ما رواه أحمد، قال: ثنا عبدالجبار بن محمد (يعني: الخطابي) حدثني بقية، عن محمد بن الوليد الزبيدي، عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، قال: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: ((من مس ذكره فليتوضأ، وأي امرأة مست فرجها فلتتوضأ
یہاں سند میں عمرو بن شعیب ہے جس کی حدیث ہم کسی بھی حوالے سے صحیح نہیں سمجھتے اس راوی پر بحث ڈاکٹر عثمانی کتاب تعویذات کا شرک میں کر چکے ہیں
السلام علیکم
ایک خاتون مسئلہ بتاتی ہے کہ اس کے شوہر نے تین بار طلاق معلق دی ہیں ایک دینے کے بعد دوسری طلاق ایک مہینے بعد دی اور تیسری تین مہینے بعد دی اور کہتی ہیں کہ الفاظ یہ تھے اگر فلاں سے بات کی تو طلاق ہے اور فلاں سے اچانک سے بات ہو گی انجانے میں اسکی بیوی کو یاد نہیں رہا تو کیا اچانک سے فلاں سے بات کرنے سے طلاق ہو جائے گی؟
پہلا
بیوی بے شک ایک سال سے الگ ہے مگر عدت تو وہی ہوگی جو بتادی گئی ہے ۔
دوسرا
طلاق معلق بھی واقع ہوگی
السلام علیکم
کفایت اللہ سنابلی کہتے ہیں اگر طلاق معلق کا مقصد بیوی کو فلاں کام سے روکنا ہے مقصد طلاق دینا نہیں ہے تو طلاق نہیں ہوگی دلیل بخاری کی پہلی حدیث ہے ان الاعمال بالنیات دی ہے
https://youtu.be/NusXfj_3-vY?si=Dh_aheQJvqsKCUon
و علیکم السلام
اگر طلاق کا مقصد کچھ اور ہے اور اس کی بیوی کو خبر تک نہیں ہے کہ محض ڈراوا ہے تو بیوی کے لئے یہ طلاق ہی ہے
مرد کا مذاق ہے جس کا اس کو الگ عذاب ہونا چاہئے
سنابلی کی بات جاہلانہ ہے
سوچ تو غیب ہے
سماعت اور بصارت اصل ہے
عمل کا تعلق نیت سے ہے – اس حدیث میں ایک شخص ہجرت کرتا ہے شادی کے لئے اس پر یہ فرمان نبوی تھا
اس کا تعلق طلاق کے مسائل سے نہیں ہے
السلام علیکم
رضاعت کی مدت کتنے سال ہے دو سال یا ڈھائی؟
اور رضاعت کتنا دودھ پینے سے ثابت ہوتی ہے؟
مائیں دو سال دودھ پلائیں گی اس کے دوران ہی رضاعت کو غیر ماں اگر کر دے تو وہ رضاعی ماں بن جائے گی
کتنی بار پیا اس کی تعداد کہیں نہیں ہے
ایک عورت نے لے پالک بچے کو دودھ نہیں پلایا اب بچہ بالغ ہو چکا ہے تو اب وہ لے پالک بچہ عورت کا نامحرم ہے اس نے اپنا دودھ نہیں پلایا جس سے وہ محرم بن جاتا ایسی صورت میں وہ بچہ گھر میں رہ سکتا ہےیا نہیں؟ اور اس خاتون کا شوہر بھی وفات پا چکا ہے اب گھر میں ایک لے پالک بچہ اور وہ عورت رہتے ہیں اس بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟
لے پالک بچہ نا محرم ہے – عورت کو اس سے پردہ کرنا ہو گا
ایک گھر میں اگر یہ دونوں الگ الگ کمروں میں ہوں تو رہ سکتے ہیں لیکن گھر میں اس سے پردہ ہی رہے گا
السلام علیکم
ایک شخص نے کسی سے پیسوں سے بزنس شروع کیاجس کے پیسے تھے اس نے بزنس کرنے والے شخص کو اس شرط پر دئیے کہ وہ ہرافٹ دیگا اور وہ دیتا بھی ہے اور اس نے جتنے پیسے دئیے وہ ویسے کے ویسے اس کو واپس کریگا جب پیسے دینے والا مانگے گا کیا یہ سود ہے سود کے متعلق وضاحت کر دیجیے کہ سود کسے کہتے ہیں؟
سود ہے
ابن باز ابن عثيمين ،کفایت اللہ سنابلی کے نزدیک حالت حیض میں طلاق نہیں ہوتی دوسری طرف مصطفی امن پوری وغیرہ وہ بھی اہل حدیث ہیں کے نزدیک ہو جاتی ہے دلائل دونوں کے مضبوط ہیں۔ایسی صورت میں عام قاری کس کی مانے ؟
https://forum.mohaddis.com/threads/%D8%AF%D9%88%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D8%AD%DB%8C%D8%B6-%D8%AF%DB%8C-%DA%AF%D8%A6%DB%8C-%D8%B7%D9%84%D8%A7%D9%82-%DA%A9%D8%A7-%D8%AD%DA%A9%D9%85.33766/
https://youtu.be/DzOUqA3qjqw?si=5AOngMfUtq9yNQC4
حیض میں دی گئی طلاق کو شمار کیا گیا تھا۔ (بخاری، کتاب الطلاق، باب اذا طلقت الحائض تعتدّ بذلک الطلاق
غلط طریقے سے طلاق ایک دی وہ ہو گئی – ابن عمر رضی اللہ عنہ کی سرزنش کی گئی کہ یہ طریقہ درست نہیں تھا لیکن اب رجوع کرو پھر دوسری طلاق دو حالت طہر میں
حائضہ عورت كى طلاق جمہور فقھاء كے مطابق يہ طلاق واقع ہو جائيگى
عبد اللہ بن عمر سے دونوں طرح کی روایات منقول ہیں، یہ بھی
موجود ہے کہ اس طلاق کو شمار کیا گیا اور یہ بھی مذکور ہے کہ اس کو لغو کہا گیا،اس لیے ہمیں اصل کی طرف رجوع کرنا چاہیےاور اصل طریقہ وہی ہے جسے قرآن کریم نے بیان کردیا ہے کہ عورتوں کو طلاق ان کی عدت کے مطابق دو اور جب عدت سے ہٹ کر طلاق دی گئی تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ و سلم نے سخت غصے کا اظہار کیا اور اس کو اللہ کی نافرمانی قرار دیا،ہمارے معاشرے میں اکثر طلاقیں بدعی ہی ہوتی ہیں یعنی اس معاملے اللہ کی کھلی بغاوت ہوتی ہے،طلاق کا وہی طریقہ درست ہے جو ہمیں قرآن مجید نے بتلایا اور پھر حدیث رسول نے بھی اس کی وضاحت فرما دی،
یہاں میں آپ سے ایک سوال پوچھتا ہوں کیا بدعت والی نماز اللہ کے ہاں قبول ہے؟ کیا بدعت والا روزہ اللہ کے ہاں مقبول ہے؟
اگر نہیں تو پھر طلاق بدعی کیسے واقع ہو گئی؟اگر ہم کسی ایک بدعی چیز کو تسلیم کریں گے تو پھر ہر بدعی عمل کو قبول کرنا پڑے گا،تین طلاق یک لخت دینا بھی بدعی طلاق کہلاتا ہے اسکو بھی تسلیم کرنا پڑے گا۔
یہ تحریر محدث فورم سے لی گی ہے اس پر تبصرہ کر دیں۔
ایک سوال یہ بھی ہے جو لوگ تین طلاق کو تین ہی شمار کرتے ہیں انکے پاس قرآن کی کونسی دلیل ہے؟
اور اپ نے حیض والی طلاق کے متعلق اپنا موقف ظاہر نہیں کیا قرآن میں ہی ہے کہ جب طلاق دو عدت میں ہی دو تو عدت سے مراد حالت طہر ہے؟
کتاب بلا عنوان میں اس پر بحث کر دی ہے
میرا موقف وہی ہے جو فقہاء کا شروع سے ہے کہ تین طلاق ایک ہی ساتھ واقع ہو جاتی ہیں
صحیح طریقے سے نہ دی گئی طلاق بھی ہو جاتی ہے
اس میں کوئی ابہام نھی ہے
ذبح کر کے ایک جانور کو مارنا ہے – اگر کوئی پیٹ میں چاقو مار دے تو بھی جانور مر جائے گا
اسی طرح طلاق کا طریقہ ہے لیکن اگر اس کو اسی طرح نہ کیا تو بھی ہو جائے گی
حالت حیض میں طلاق ہو جاتی ہے یا نہیں ہوتی ان دونوں اقوال میں ایک قول صحیح ہے یقینا اب کوئی غلط اجتہاد کرتا ہے تو بہرحال اسکو ایک ثواب تو ملے گا یہ کونسا عقیدے کا مسئلہ ہے؟
اجتہاد تو ان چیزوں میں کیا جاتا ہے جن میں قول رسول موجود نہ ہو
یہاں تو واضح حدیث ہے کہ حالت حیض کی طلاق کو طلاق لیا گیا ہے
اس میں کوئی اشکال نہیں ہے
آپ نے کہا یہ کون سا عقیدے کا مسئلہ ہے گویا کہ اس معاملے میں بد احتیاطی کی جا سکتی ہے – ہمارا یہ طریقہ نہیں کہ مسائل کو عقائد کو غیر عقائد میں تقسیم کر کے ایک میں غیر محتاط وریہ اپنایا جائے
اگر طلاق واقع ہوگی تھی تو اللہ کے نبی نے کیوں فرمایا کہ پاکی کی حالت میں دینا اسی طلاق سے علیحدگی کروا دیتےجب ہوگی تھی معلوم ہوا کہ حالت حیض میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شمار نہیں کی. جن روایات میں اتا ہے شمار کی وہ ضعیف ہیں عبداللہ بن عمر کے فتوے دونوں طرح کے موجود ہیں۔
اپ نے جانور کے زبح کی مثال پیش کی کہ اسکو زبح نہیں پیٹ میں چھری ماری گی تو بھی مرگیا تو پیٹ میں چھری مارنے سے حلال ہو جائے گا مر تو جانور گیا ہے لیکن حلال نہیں ہوا۔
اپ کے نزدیک قرآن میں کہاں ایا ہے کہ جیسے بھی طلاق دو ہو جائے گی؟
قرآن میں طلاق کا طریقہ تو سورت طلاق میں بیان ہوا ہے کنڈیشن لگائء ہے اللہ نے کہ جب طلاق دینے لگو تو عدت میں دو اس ایت کا کیا کرینگے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تشریح کی کہ اس سے مراد پاکی کی حالت ہے۔
ابن عمر رضی اللہ عنہ نے پہلی طلاق دی تھی جس میں واپس رجوع کی گنجائش ہوتی ہے – انہوں نے طلاق بائن نہیں دی تھی – لیکن اس طلاق کو انہوں نے حالت حیض میں دیا اس پر ان کو منع کیا گیا کہ اس بار یہ غلط ہوا ہے اپنی بیوی سے رجوع کرو پھر حالت طہر میں طلاق دو
اس کو طلاق شمار کیا گیا تبھی اس کے حوالے روایات میں رجوع کا لفظ آیا ہے
کس نے کہہ دیا کہ وہ روایات ضعیف ہیں ؟ اس کی کیا دلیل ہے ؟ صحیح بخاری میں اس حوالے سے رجوع کا ہی لفظ ہے
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ، حَدَّثَنِي يُونُسُ بْنُ جُبَيْرٍ، سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ، فَقَالَ: «طَلَّقَ ابْنُ عُمَرَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَسَأَلَ عُمَرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا، ثُمَّ يُطَلِّقَ مِنْ قُبُلِ عِدَّتِهَا»
قرآن میں ہے کہ طلاق دو بار ہے یعنی یہ ارادہ اور اس کا اظہار ہے – دوبار طلاق میں رجوع باقی رہتا ہے طلاق تو ہو جاتی ہے – تیسری بار میں طلاق بائن ہو جائے گی
جانور کو قتل کرنا ہے یا مارنا ہے یہ تو محض لفظی نزاع ہے – اگر کوئی کام حلال طریقے سے نہ ہو تو کیا نہیں ہو گا؟ اس کی دلیل کیا ہے ؟
{يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ} (4)، أنْ قال: إن هذه الآية نزلت [في] أن يطلق الرجل امرأته واحدة إذا طهرت قبل الجماع ثم يتركها حتى تنقضي العدة.
اس کا تعلق پہلی طلاق دینے سے متعلق ہے
اگر اس پروسیجر کو فالو نہ کیا تو اس کا گناہ الگ ہے
السلام علیکم محترم ! ہم دیکھتے ہیں کہ آج اہل علم تکفیر کے موضوع پر تین گرہوں میں منقسم ہیں !
ایک نقطہ نظر خوارج والا ہے اس کے بھی کئی گروہ پیروکار ہین مثلا جماعت المسلمین ، ڈاکٹر عثمانی س خود کو منسوب کرنے والے تمام گروہ، داعش و طالبان القاعدہ وغیرہ
دوسرا گروہ اہلِ سنت علماء کا ہے جو تکفیر کرتے ہیں لیکن مطلق معین کے فرق کے ساتھ ان میں دیوبند بریلوی اہل حدیث شامل ہیں
تیسرا گروہ تکفیر کا قائل ہی نہیں اسے خلاف شرع کہتا ہے حرام کہتا ہے ان کے بقول تکفیر کا حق رب نے کسی انسان کو دیا ہی نہیں ان میں پرانے دور کے مرجئیہ ہیں اور آج کے جدت پسند فکر فراہی و جاوید غامدی
ایک طالب علم کے لئے صھٰح نقطہ نظع قرآن و حدیث کی روشنی میں کونسا صحیح ہے !
خصوصا جاوید غامدی کے مؤقف پر تفصیلی رد درکار ہے کہ آج کل ان کے ویڈیو کلپش بہت وائرل ہین کہ رب نے یہ اختیار کسی کو دیا ہی نہیں رسول و صحابہ کے بعد اب کسی کو اختیار ہی نہیں قرآن میں جو کچھ وارڈ ہے یا جو نبی نے کسی کی تکفیر کی تو وہ ان پر اتمام حجت تھا ، نبی کے علاوہ کوئی اتمام حجت نہیں کرسکتا وغیرہ وغیرہ
اور کیا کوئی عالم یا کوئی گروہ کسی بھی دوسرے انسان یا گروہ کی معین یعنی نام لے کر تکفیر کرنے کافر و مشرک قرار دینے کا اختیار رکھتا ہے قرآن و سنہ کی روشنی میں سنتِ نبوی و فہم صحابہ اور تابعین و آئمہ محدثین کی زندگی سے مثالوں کو ساتھ تفصیلی وضاحت فرمائیں
و علیکم السلام
اتمام حجت تو اللہ تعالی کرتا ہے جب وہ آیات واضح کر دیتا ہے تو اقوام پر اتمام حجت ہو جاتا ہے – قرآن اللہ کی آخری کتاب ہے اس سے اب اتمام حجت رہتی دنیا تک ہوتا رہے گا – اسی لئے اب کسی رسول و نبی کی ضرورت نہیں ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں پر ارتاد کا حکم جاری کیا ہے اور ان کو کافر قرار دے کر قتل کیا گیا ہے – کسی حدیث میں نہیں کہ یہ حکم خاص رسول اللہ کے لئے تھا – اسی طرح ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جھوٹے انبیاء و رسول کو قتل کیا ہے – مانعین زکوات کو قتل کیا ہے – ان لوگوں کا نام لے کر ان کی تکفیر کی گئی تھی سب کو معلوم ہے کہ یہ اکثر قبائل کے سردار تھے
تفصیلی بحث کتاب الدین النصیحہ اول و دوم میں ہے
خوارج کے نزدیک گناہ کبیرہ کے مرتکب یعنی قاتل و شرابی جہنمی تھے – اس دور میں اصحاب رسول کے عقائد ایک ہی تھے
اسی طرح وہابی تکفیری فرقوں کے نزدیک نماز کا تارک بھی کافر ہے
عثمانی صاحب کی تکفیر عقائد کی بنیاد پر ہے گناہ کبیرہ کرنے یا نماز یا روزہ چھوڑنے پر نہیں ہے
اس لئے آپ کو صحیح علم نہیں کہ ان لوگوں کے موقف میں کیا کیا فرق ہے
اسی طرح بنو امیہ کے دور میں جعد بن درہم کی تکفیر کی گئی -بعد میں منصور الحلاج کی تکفیر کی گئی
ان کا رد کوئی احمق ہی کر سکتا ہے – اگر وہ عقیدہ نہ رہے جو قرآن میں ہے تو انسان کافر ہو جاتا ہے
اس کے لئے اللہ نے اپنا کلام واضح کر دیا ہے
و من لم یحکم والی سورہ المائدہ کی آیات کا یہی مطلب ہے
اسلام کے سوا باقی تمام ادیان کے ماننے والوں کو غیر مسلم کہا جاتا ہے۔ یہی تعبیر اُن لوگوں کے لیے بھی ہے جو کسی دین یا مذہب کو نہیں مانتے۔ یہ کوئی تحقیر کا لفظ نہیں ہے، بلکہ محض اِس حقیقت کا اظہار ہے کہ وہ اسلام کے ماننے والے نہیں ہیں۔ اِنھیں بالعموم کافر بھی کہہ دیا جاتا ہے، لیکن ہم نے اپنی کتابوں میں بہ دلائل واضح کر دیا ہے کہ تکفیر کے لیے اتمام حجت ضروری ہے اور یہ صرف خدا ہی جانتا اور وہی بتا سکتا ہے کہ کسی شخص یا گروہ پر فی الواقع اتمام حجت ہو گیا ہے اور اب ہم اُس کو کافر کہہ سکتے ہیں۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد یہ حق اب کسی فرد یا گروہ کو بھی حاصل نہیں رہا کہ وہ کسی شخص کو کافر قرار دے۔
یہی معاملہ اُن لوگوں کا ہے جو اسلام کو چھوڑ کر کوئی دوسرا مذہب اختیار کر لیں یا سرے سے لامذہب ہو جائیں۔ اُن کے بارے میں بھی اِس کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ غیرمسلم ہو گئے ہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ کسی پیدایشی مسلمان پر اسلام کی حقانیت کس قدر واضح تھی، اِس کے بارے میں پورے یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ چیز خدا ہی کے جاننے کی ہے اور وہی دلوں کے احوال سے واقف ہے۔ ہم جس چیز کو نہیں جانتے، اُس پر حکم لگانے کی جسارت بھی ہم کو نہیں کرنی چاہیے۔ ہمارا کام یہی ہے کہ ہمیں اگر خدا نے اپنے دین کا کچھ علم دیا ہے تو ہم لوگوں کو توحید اور شرک اور اسلام اور کفر کا فرق سمجھائیں اور اُن کے لیے دین کے حقائق کی وضاحت کرتے رہیں۔ اِس سے آگے لوگوں کے کفر و ایمان اور اُن کے لیے جنت اور جہنم کے فیصلے کرنا ہمارا کام نہیں ہے۔ یہ خدا کا کام ہے اور اِسے خدا ہی کے سپرد رہنا چاہیے۔
اِس کے بعد اُن لوگوں کا معاملہ ہے جو مسلمان ہیں، اپنے مسلمان ہونے کا اقرار، بلکہ اُس پر اصرار کرتے ہیں، مگر کوئی ایسا عقیدہ یا عمل اختیار کر لیتے ہیں جو عام طور پر اسلام کی تعلیمات کے منافی سمجھا جاتا ہے یا کسی آیت یا حدیث کی کوئی ایسی تاویل اختیار کر لیتے ہیں جسے کوئی عالم یا علما یا دوسرے تمام مسلمان بالکل غلط سمجھتے ہیں، مثلاً امام غزالی اور شاہ ولی اللہ جیسے بزرگوں کا یہ عقیدہ کہ توحید کا منتہاے کمال وحدت الوجود ہے یا محی الدین ابن عربی کا یہ نظریہ کہ ختم نبوت کے معنی یہ نہیں ہیں کہ نبوت کا مقام اور اُس کے کمالات ختم ہو گئے ہیں، بلکہ صرف یہ ہیں کہ اب جو نبی بھی ہو گا، وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کا پیرو ہوگا یا اہل تشیع کا یہ نقطۂ نظر کہ مسلمانوں کا حکمران بھی مامور من اللہ ہوتا ہے جسے امام کہا جاتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اِس منصب کے لیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا تقرر اِسی اصول کے مطابق خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے کر دیا گیا تھا جسے قبول نہیں کیا گیا یا علامہ اقبال جیسے جلیل القدر مفکر کی یہ راے کہ جنت اور دوزخ مقامات نہیں، بلکہ احوال ہیں۔
یہ اور اِس نوعیت کے تمام نظریات و عقائد غلط قرار دیے جا سکتے ہیں، اِنھیں ضلالت اور گمراہی بھی کہا جا سکتا ہے، لیکن اِن کے حاملین چونکہ قرآن و حدیث ہی سے استدلال کر رہے ہوتے ہیں، اِس لیے اُنھیں غیرمسلم یا کافر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اِن نظریات و عقائد کے بارے میں خدا کا فیصلہ کیا ہے؟ اِس کے لیے قیامت کا انتظار کرنا چاہیے۔ دنیا میں اِن کے حاملین اپنے اقرار کے مطابق مسلمان ہیں، مسلمان سمجھے جائیں گے اور اُن کے ساتھ تمام معاملات اُسی طریقے سے ہو ں گے، جس طرح مسلمانوں کی جماعت کے ایک فرد کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔ علما کا حق ہے کہ اُن کی غلطی اُن پر واضح کریں، اُنھیں صحیح بات کے قبول کرنے کی دعوت دیں، اُن کے نظریات و عقائد میں کوئی چیز شرک ہے تو اُسے شرک اور کفر ہے تو اُسے کفر کہیں اور لوگوں کو بھی اُس پر متنبہ کریں، مگر اُن کے متعلق یہ فیصلہ کہ وہ مسلمان نہیں رہے یا اُنھیں مسلمانوں کی جماعت سے الگ کر دینا چاہیے، اِس کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے۔ اِس لیے کہ یہ حق خدا ہی دے سکتا تھا اور قرآن و حدیث سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ اُس نے یہ حق کسی کو نہیں دیا ہے۔
یہ تحریر کسی جاہل کی ہے جس کو علم نہیں کہ اتمام حجت کتاب اللہ سے انسانیت کا ہو رہا ہے
اس کا انکار کرنے والے جھمنی ہو رہے ہیں اور اس کتاب کے حاملین میں بھی ایسے عقائد کے لوگ ہیں جن پر اصحاب رسول نے کفر کا فتوی دے کر ان کو قتل کیا ہے
ہمارے لئے ابو بکر رضی اللہ عنہ کا فتوی کافی ہے جس کی بنیاد پر نئے نبی کا دعوی کرنے والے کا قتل ہوتا ہے زکوات کا انکار کرنے پر کہ اس کو اسلامی حکومت کو نہیں دیا جائے گا اس کا قتل ہوتا ہے
اور اسی کی تائید اہل سنت نے کی ہے
آپ نے جو قتباس پیش کیا وہ کسی اس شخص کا ہے جو اہل سنت میں سے نہیں ہے
یہ محترم جاوید احمد غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ ہے ان کے مضمون “مسلم اور غیر مسلم ” کا اقتباس ہے یہ
Ap fikr e Ghamdi o Firkr e Frahi ka takfeer sy mutalik mufasil Rad kerien
اس اقتباس سے غامدی صاحب کا تصور معلوم ہوا تو یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ اس منہج پر نہیں جو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ہے
اس طرح غامدی صاحب اس عقیدے و منہج پر نہیں جو اصحاب رسول کا ہے
مجھے بس اس سوال کا جواب چاہیے اگر حیض کی حالت میں دی گی طلاق معتبر ہے تو دوبارہ طلاق کا حکم کیوں دیا گیا؟اللہ کے نبی کہتے ابن عمر اگرچہ اپ نے سنت کے خلاف کام کیا لیکن طلاق ہو گی ہے۔اور ہر اس عالم کی بات غلط ثابت ہو رہی ہے چاہے جمہور علماء کا گروہ ہو چاہے فقہاء ہو جو کہتے ہیں حالت حیض میں طلاق ہو جاتی ہے تو میرا سوال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ حکم کیوں دیا ابن عمر کو طلاق دینے کا۔حنفی بھی یہی کہتے ہیں کہ طلاق ہو جاتی ہے سوال یہ ہے اگر ہو جاتی ہے تو نبی نے ابن عمر کو دوبارہ طلاق دینے کا حکم کیوں دیا؟؟؟؟؟؟؟؟؟.
؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَيْمَنَ مَوْلَى عُرْوَةَ يَسْأَلُ ابْنَ عُمَرَ وَ أَبُو الزُّبَيْرِ يَسْمَعُ، قَالَ: كَيْفَ تَرَى فِي رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ حَائِضًا ؟ قَالَ: طَلَّقَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ عُمَرُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَرَدَّهَا عَلَيَّ وَلَمْ يَرَهَا شَيْئًا، وَقَالَ: إِذَا طَهُرَتْ فَلْيُطَلِّقْ أَوْ لِيُمْسِكْ ، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَقَرَأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ فِي قُبُلِ عِدَّتِهِنَّ 0 . قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ يُونُسُ بْنُ جُبَيْرٍ وَ أَنَسُ بْنُ سِيرِينَ وَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ وَ زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ وَ أَبُو الزُّبَيْرِ وَ مَنْصُورٌ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، مَعْنَاهُمْ كُلُّهُمْ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا حَتَّى تَطْهُرَ ثُمَّ إِنْ شَاءَ طَلَّقَ وَإِنْ شَاءَ أَمْسَكَ، قالَ أَبُو دَاوُدَ: وَكَذَلِكَ رَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَأَمَّا رِوَايَةُ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، وَ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا حَتَّى تَطْهُرَ ثُمَّ تَحِيضَ ثُمَّ تَطْهُرَ ثُمَّ إِنْ شَاءَ طَلَّقَ وَإِنْ شَاءَ أَمْسَكَ ، قالَ أَبُو دَاوُدَ: وَرُوِيَ عَنْ عَطَاءٍ الْخُرَاسَانِيِّ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، نَحْوَ رِوَايَةِ نَافِعٍ وَ الزُّهْرِيِّ، وَالْأَحَادِيثُ كُلُّهَا عَلَى خِلَافِ مَا قَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ.
عبدالرحمن بن ایمن مولیٰ عروہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سوال کیا اور ابوالزبیر سن رہے تھے ۔ کہا کہ آپ کا اس شخص کے بارے میں کیا خیال ہے جس نے اپنی بیوی کو حیض کے دنوں میں طلاق دی ہو ؟ انہوں نے کہا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اپنی بیوی کو حیض کے دنوں میں طلاق دے دی تھی ۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے حالانکہ وہ حیض سے ہے ۔ تو عبداللہ نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے اس بیوی کو مجھ پر لوٹا دیا اور اسے کچھ نہ سمجھا ۔ اور فرمایا :’’ جب یہ پاک ہو جائے تو پھر طلاق دے یا روک لے ۔“ ابن عمر کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ( اس طرح ) پڑھا : يا أيها النبي إذا طلقتم النساء فطلقوهن في قبل عدتهن ’’ اے نبی ! جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو انہیں ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو ۔:: امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس روایت کو یونس بن جبیر ، انس بن سیرین ، سعید بن جبیر ، زید بن اسلم ، ابوالزبیر اور منصور بواسطہ ابووائل نے ابن عمر سے روایت کیا ہے ۔ اور ان سب کی روایات کا مفہوم ایک ہی ہے کہ نبی ﷺ نے اسے حکم دیا کہ رجوع کر لو حتیٰ کہ وہ پاک ہو جائے ، پھر چاہو تو طلاق دے دو اور چاہو تو روک لو ۔ ۔
اس حدیث میں عبداللہ بن عمر کہتے ہیں اس طلاق کو جو حالت حیض میں دی گی کچھ نہ سمجھا۔
قرآن میں سورت طلاق مں طلاق دینے کا طریقہ بتایا گیا ہے اس میں اللہ نے کنڈیشن لگائی ہے کہ عدت میں طلاق دو۔
حنفی جو دلیل لیکر اتے ہیں وہ سورت الاحزاب کی آیت 49ہےکہ
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اِذَا نَكَحْتُـمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُـمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ
اے ایمان والو جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر انہیں طلاق دے دو۔
تو وہ اس آیت سے دلیل لیتے ہیں کہ جیسےبھی کوئی طلاق دے ہو جائے گی۔
لیکن یہاں طلاق کا طریقہ نہیں بتایا جا رہا طلاق کا طریقہ سورت طلاق میں بتایا گیا ہے کنڈیشن بھی اللہ نے لگائء کہ عدت یعنی طہر میں طلاق دو
اورقرآن میں رجوع کا تو ورڈ نہیں ہےبلکہ
امساک کا ورڈ یے
اَلطَّـلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَاِمْسَاكٌ بِمَعْرُوْفٍ
بخاری کی جو روایت پیش کی جاتی ہے کیا اسکی سند متصل ہے؟کیا یہ بخاری کی روایت معلق نہیں ہے ملاحظہ فرمائیں:
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : حُسِبَتْ عَلَيَّ بِتَطْلِيقَةٍ .
یہ طلاق جو میں نے حیض میں دی تھی مجھ پر شمار کی گئی ۔
Sahih Bukhari#5253
کتاب طلاق کے مسائل کا بیان
ابو زبیر کی روایت شاذ ہے اور اس پر ابو داود نے تبصرہ بھی کیا ہے
قالَ أَبُو دَاوُدَ: وَكَذَلِكَ رَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَأَمَّا رِوَايَةُ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، وَ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا حَتَّى تَطْهُرَ ثُمَّ تَحِيضَ ثُمَّ تَطْهُرَ ثُمَّ إِنْ شَاءَ طَلَّقَ وَإِنْ شَاءَ أَمْسَكَ ، قالَ أَبُو دَاوُدَ: وَرُوِيَ عَنْ عَطَاءٍ الْخُرَاسَانِيِّ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، نَحْوَ رِوَايَةِ نَافِعٍ وَ الزُّهْرِيِّ، وَالْأَحَادِيثُ كُلُّهَا عَلَى خِلَافِ مَا قَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ
ابو داود نے کہا کہ تمام احادیث میں یہی ہے کہ طلاق کے بعد رجوع کا حکم دیا گیا اور ایسا دیگر نے بھی روایت کیا جیسا نافع اور زہری نے روایت کیا اور یہ سب اس کے خلاف ہیں جو ابو زبیر نے روایت کیا
امام شافعی نے بھی یہی کہا ہے کہ ابو زبیر کی حدیث ثابت نہیں ہے بلکہ اس کے مخالف احادیث ثابت ہیں
نقل المنذري في “تهذيبه” عن الشافعي قوله: ونافع أثبت عن ابن عمر من ابن الزبير، والأثبت من الحديثين أولى أن يقال به إذا خالفه.
خطابی نے بھی یہی کہا ہے کہ ابن جبیر کی حدیث ثابت ہے
وقال الخطابي: حديث يونس بن جبير (أي الذي قبل هذا) أثبت من هذا
صحیح بخاری میں اس حوالے سے ابن جبیر کی سند سے رجوع کا ہی لفظ ہے
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ، حَدَّثَنِي يُونُسُ بْنُ جُبَيْرٍ، سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ، فَقَالَ: «طَلَّقَ ابْنُ عُمَرَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَسَأَلَ عُمَرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا، ثُمَّ يُطَلِّقَ مِنْ قُبُلِ عِدَّتِهَا»
اس کی سند متصل ہے
اس طرح اپ نے جو حدیث ابو داود سے پیش کی اس کے متن پر محدثین کو اعتراض ہے – بیشتر رویوں نے یہی روایت کیا ہے طلاق کے بعد رجوع کا حکم دیا گیا اور اسی سے اخذ کیا گیا ہے کہ پہلی طلاق ہو گئی اسی لئے رجوع کا حکم دیا جا رہا ہے
امساک کا مطلب ہے کہ دو طلاق کے بعد بھی اپنے پاس روک سکتے ہیں
https://shamilaurdu.com/hadith/muslim/1173/
اس حدیث میں مشرکین سے مراد یہود ہیں یا مشرکین مکہ جنکی قبریں اکھڑوا کر مسجد نبوی تعمیر کی گی؟
مشرکوں کی قبریں
اسلام علیکم
کیا ناسخ اور منسوخ کے بارےمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےکوئی مرفوع روایت ہے ؟کے قرآن میں یہ آیت منسوخ ھے اور اے آیت ناسخ؟
جزاک اللہ خیر
وعلیکم السلام – اس حوالے سے مرفوع حدیث نہیں ہے – اصحاب رسول پر موقوف روایات ہیں
اسلام علیکم
حدیث کاجگہ شریعت مے کیا ہے؟ ؟
کیا ہم جسے قرآن پرمکلف ہے حدیث پربھی مکلف ہے؟
پلیز رہنمائی فرمائیں
و علیکم السلام
اللہ تعالی نے فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو – حدیث سے حکم نبوی کا علم ہوتا ہے
لہذا حدیث پر عمل سنت کہلاتا ہے اور اس کا کرنا ثواب ہے
لب لباب ہوا کہ ہم قرآن و حدیث صحیح پر مکلف ہیں
نوٹ : قرآن و صحیح حدیث دونوں ہم تک انسانوں کی سند سے پہنچے ہیں یعنی ایک قاری نے دوسرے قاری کوقرآن سنایا اور پھر اس کو اجازہ دیا اور اس طرح قرآن کا متن ہم تک آیا
اسی طرح صحیح حدیث ہے- ایک راوی نے دوسرے کو بتائی ، اجازہ دیا اور پھر اس کو بعض محدثین نے صحیح سند کے
تحت کتب میں جمع کیا
https://www.islamic-belief.net/%d9%82%d8%b1%d8%a2%d9%86-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d9%82%d8%b1%d8%a7%d8%aa-%d8%b9%d8%b4%d8%b1%db%81/
اسلام علیکم
صلیت مع النبی صلی الله علیه وسلم رکعتین و مع ابوبکر رکعتین ومع عمررضی الله عنهما رکعتین ثم تفرقت بکم الطرق فیالیت حظی من اربع رکعتیان متقبلتان
بخاری ۱۶۵۷ مسلم۶۹۵
پلیز اس روایت کو وضاحت کردیں
جزاک اللہ خیر
وعلیکم السلام
https://mohaddis.com/View/Sahi-Bukhari/T2/1657
ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث کے تحت دور عثمان رضی اللہ عنہ میں منی میں دو کی بجائے چار رکعت پڑھی گئیں
اس کا انہوں نے ذکر کیا کہ یہ صحیح نہیں کیا گیا
اغلبا اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض اصحاب رسول رضی اللہ عنہم کا ارادہ مکہ میں قیام کا تھا اور انہوں نے مسافر کی نماز کی بجائے مقیم کے طریقہ کو لیا
اس پر شرح میں لکھا ہے
اتفق العلماء على أن الحاج القادم مكة يقصر الصلاة بها وبمنى وسائر المشاهد، لأنه عندهم فى سفر، إذ ليست مكة دار إقامة إلا لأهلها أو لمن أراد الإقامة بها، وكان المهاجرون قد فرض عليهم ترك المقام بها، فلذلك لم يَنْوِ رسول الله (صلى الله عليه وسلم) الإقامة بمكة ولا بمنى
علماء نے اتفاق کیا ہے کہ جو حاجی مکہ آتا ہے وہ وہاں، منی، اور دیگر مقدس مقامات پر اپنی نمازیں کم کرتا ہے کیونکہ ان کے لیے یہ سفر سمجھا جاتا ہے۔ مکہ صرف اس کے مقامی باشندوں یا ان لوگوں کے لیے مستقل قیام کی جگہ ہے جو وہاں بسنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مہاجرین پر مکہ میں اپنا مقام چھوڑنا واجب تھا، اس لیے رسول اللہ نے مکہ یا منی میں قیام کا ارادہ نہیں کیا ۔
اغلبا اس پر اصحاب رسول کا اختلاف تھا کہ مہاجر صحابی مکہ میں مقیم کی نماز پڑھے گا یا نہیں
و اللہ اعلم