جواب رفع عیسیٰ کے بعد بعثت نبوی کے دوران لوگ تھے جو اہل کتاب کے موحدین تھے وہ آیات الله پڑھتے تھے اور نبی کے منتظر تھے اس نبی کے انتظار میں وفات بھی ہوئیاسی طرح صابی بھی اہل کتاب کے لوگ ہیں جو زبور کو مانتے ہیں اور یحیی علیہ السلام کو نبی کہتے ہیں
ان تمام کا فیصلہ الله تعالی کریں گے کہ جو ان پر اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو
[ ( إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئِينَ وَالنَّصَارَى وَالْمَجُوسَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا إِنَّ اللَّهَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ ) الحج/17]
سورہ آل عمران میں اھل کتاب کے بارے میں ارشاد فرمایا ؎
لَيْسُوا سَوَاءً ۗ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ يَتْلُونَ آيَاتِ اللَّهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُونَ (113) يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَأُولَٰئِكَ مِنَ الصَّالِحِينَ (114) وَمَا يَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَلَن يُكْفَرُوهُ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالْمُتَّقِينَ (115)
یہ سب اھل کتاب ایک جیسے نہیں ہیں ان میں وہ گروہ بھی ھے جو ساری رات قیام میں اللہ کی آیات( تورات و انجیل ) پڑھتے رھتے ہیں اور سجدہ ریز رھتے ہیں ،ایمان رکھتے ہیں اللہ پر اور آخرت کے دن پر ، نیکی کے لئے کہتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں اور خیرات( ویلفئیر) کے کاموں میں بھاگم بھاگ شرکت کرتے ہیں اور یہ صالح لوگ ہیں ، اور جو کچھ انہوں نے بھلائی کی ھو گی اس کی ناقدری نہیں کی جائے گی اور اللہ متقی لوگوں سے بخوبی واقف ہے
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے انے کے بعد اہل کتاب جو سچے تھے وہ ان پر ایمان لے آئے اور جو طاغوت کے پجاری تھے اسی کفر میں رہ گئے
لہذا آخری دور نبوی کے سالوں ٩ ہجری میں میں سوره المائدہ میں سب کا ذکر کیا
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَسْتُمْ عَلَىٰ شَيْءٍ حَتَّىٰ تُقِيمُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ ۗ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم مَّا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا ۖ فَلَا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (68) إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئُونَ وَالنَّصَارَىٰ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (69) المائدہ ـ
کہہ دیجئے کہ اے اھل کتاب تب تک تمہارے پلے کچھ نہیں جب تک کہ تم قائم نہ کرو تورات کو اور انجیل کو اورجو نازل کیا گیا ھے تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے اور یقینا جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا جاتا ھے اس سے ان کی سرکشی اور کفر مزید بڑھ جاتا ھے ، پس آپ کافر قوم پر افسوس مت کھائیں ، بےشک جو لوگ ایمان لائے اور جو یہود ہیں اور صابی اور عیسائی ہیں جو بھی ایمان لایا اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور صالح اعمال کیئے انہیں نہ کوئی خوف ھے نہ ہی کوئی غم لاحق ھو گا ـ
یعنی توریت و انجیل پر اگر اہل کتاب کا عمل نہیں تو سب کو تم کچھ بھی نہیں کہہ کر ان سب کو جہنمی قرار دیا گیا ہے
سوره بقرہ اور سوره حج کی آیات سن ٢ کی ہیں اور المائدہ سن ٩ ہجری کی ہے اس میں فیصلہ سنا دیا گیا لہذا اسی سیاق سے پچھلی سورتوں کو سمجھنا ہو گا
بلعم باعور ( بلعم بن باعوراء یا بلعام بن ياعر یا بلعم بن أَبَر یا بِلْعَامُ ) ایک فرضی کردار ہے – یہودی و نصرانی کہتے ہیں یہ ایک غیر اسرائیلی نبی تھا
راقم کہتا ہے یہ بنی اسرائیلی گھڑنت ہے اس کے قصے کا اصل مقصد انبیاء کی کردار کشی تھا کہ ایسے انبیاء بھی تھے جو بنی اسرائیلی نہیں تھے كنعاني تھے ان کو اسم اعظم تک کا علم تھا لیکن چونکہ وہ بنی اسرائیل کی غنڈہ گردی کے خلاف نصحت کرتے تھے الله ان کی دعا کو پھیر دیتا قبول نہ کرتا
راقم کہتا ہے یہ سب جاہل اہل کتاب کا تراشیدہ قصہ ہے
=========
بائبل کتاب گنتی باب ٢٢ سے ٢٤ میں ہے
http://gospelgo.com/a/urdu_bible.htm
بنی اسرا ئیلیوں نے موآب کے میدان کا سفر کیا ۔ انہوں نے یردن ندی کے پار یریحو کے قریب خیمہ ڈا لا ۔ 2 اموری لوگوں کے ساتھ بنی اسرا ئیلیوں نے جو کچھ کیا تھا صفور کے بیٹے بلق نے اسے دیکھا تھا ۔ اور مو آب بہت زیادہ ڈراہوا تھا کیوں کہ وہاں اسرائیل کے بہت لوگ تھے ۔ موآب بنی اسرا ئیلیوں سے بہت ڈرا ہوا تھا ۔ 3 4 موآب کے قائدین مدیان کے بزرگوں سے کہا ، ” لوگوں کا یہ بڑا گروہ ہمارے چاروں طرف کی تمام چیزوں کو اسی طرح تباہ کر دے گا جیسے کوئی گائے میدان کی گھاس چر جاتی ہے ۔” اس وقت صفور کا بیٹا بلق موآب کا بادشاہ تھا ۔ 5 اس نے کچھ آدمیوں کو بعور کے بیٹے بلعام کو بُلا نے کے لئے بھیجا ۔ بلعام ندی کے قریب فتور نام کے علاقے میں تھا ۔ بلق نے کہا ، ” لوگوں کی ایک نئی قوم مصر سے آئی ہے ۔ وہ اتنی زیادہ ہیں کہ پورے ملک میں پھیل سکتی ہیں ۔ انہوں نے ٹھیک ہمارے پاس خیمہ ڈالا ہے ۔ 6 آؤ اور میری خاطر ان پر لعنت کرو کیونکہ وہ ہم سے زیادہ طاقتور ہیں ۔ تب میں ان لوگوں کو ہرا سکوں گا اور انہیں ملک سے باہر پھینک دونگا ۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ تم جس کسی کو بھی دعا دو گے وہ برکت و فضل پائے گا ۔ اور جس کسی کو لعنت دو گے وہ ملعون ہو گا ۔” 7 موآب اور مدیان کے بزرگ بلعام سے بات چیت کرنے گئے ۔ ان لوگوں نے اس کی خدمت کے لئے اپنے ساتھ رقم اسے دینے کیلئے لے گئے تب ان لوگوں نے اسے وہ سب کچھ بتایا جو بلق نے کہا تھا ۔ 8 بلعام نے ان سے کہا ، ” یہاں رات میں رکو ۔میں خداوند سے باتیں کروں گا ۔ اور جو جواب وہ مجھے دیگا وہ تم سے کہوں گا ۔ اس لئے اس رات موآبی لوگوں کے قائد اس کے ساتھ ٹھہرے ۔ 9 خدا بلعام کے پاس آیا اور اس نے پوچھا ، ” تمہارے ساتھ یہ کون لوگ ہیں ؟ ” 10 بلعام نے خدا سے کہا ، ” موآب کے بادشاہ صفور کا بیٹا بلق نے انہیں مجھ کو ایک پیغام دینے کو بھیجا ہے ۔ 11 پیغام یہ ہے : لوگوں کی ایک نئی قوم مصر سے آئی ہے ۔ وہ تعداد میں اتنی زیادہ ہیں کہ تمام ملک میں پھیل سکتی ہیں۔ اس لئے آؤ اور میرے لئے ان پر لعنت کر۔ تب ممکن ہے کہ ان سے لڑنے میں کامیاب ہو سکوں۔ اور اپنے ملک کو چھو ڑنے کیلئے اُن پر دباؤ ڈال سکوں ۔” 12 لیکن خدا نے بلعام سے کہا، ” اُن کے ساتھ مت جا ؤ ۔ تمہیں ان لوگوں پر لعنت نہیں کرنی چا ہئے ۔ کیونکہ ان پر میرا فضل و کرم ہے ۔” 13 دوسرے دن صبح بلعام اُٹھا اور بلق کے قائدین سے کہا ، ” اپنے ملک کو وا پس جاؤ ۔ خداوند مجھے تمہارے ساتھ جانے نہیں دیگا ۔” 14 اس لئے موآبی قائدین بلق کے پاس واپس گئے اور اس سے انہوں نے یہ باتیں کیں۔ انہوں نے کہا ، ” بلعام نے ہم لوگوں کے ساتھ آنے سے انکار کردیا ۔” 15 اس لئے بلق نے دوسرے قائدین کو بلعام کے پاس بھیجا اُس بار اُس نے پہلی بار کے مقابلہ میں بہت زیادہ آدمی بھیجے اور یہ قائد پہلی بار کے قائدین کے مقابلہ میں بہت زیادہ اہم تھے ۔ 16 وہ بلعام کے پاس گئے اور انہوں نے اس سے کہا ، ” صفور کا بیٹا بلق تم سے کہتا ہے : مہربانی کر کے اپنے کو یہاں آنے سے کسی کو روکنے نہ دو ۔ 17 جو میں تم سے مانگتا ہوں اگر تم وہ کروگے تو میں تمہیں بہت زیادہ معاوضہ دونگا ۔ آؤ ان لوگوں پر لعنت کرو اور میری مدد کرو ۔” 18 لیکن بلعام نے اُن لوگوں کو جواب دیا اس نے کہا ، ” مجھے خداوند اپنے خدا کا حکم ماننا چا ہئے ۔ میں اس کے حکم کے خلاف کچھ نہیں کر سکتا ۔ میں بڑا چھوٹا کچھ بھی اس وقت تک نہیں کر سکتا جب تک خداوند نہیں کہتا کہ اگر بادشاہ بلق اپنے سونے چاندی بھرے خوبصورت گھر دے تو بھی اپنے خداوند کے خلاف کچھ نہیں کرو ں گا ۔ 19 لیکن تم بھی ان دوسرے لوگوں کی طرح آج کی رات یہاں ٹھہر سکتے ہو اور میں رات میں معلوم کروں گا کہ وہ مجھے اور کچھ کہتا ہے ۔ ” 20 اس رات خدا بلعام کے پاس آیا ۔ خدا نے کہا ، ” یہ لوگ تمہیں اپنے ساتھ لے جانے کے لئے پھر سے بُلانے آ گئے ہیں ۔ اس لئے تم ان کے ساتھ جا سکتے ہو لیکن تم صرف وہی کرو جو میں تم سے کرنے کو کہوں ۔ ” 21 دوسری صبح بلعام اٹھا اور اپنے گدھے پر زین رکھی ۔ تب وہ موآبی قائدین کے ساتھ گیا ۔ 22 بلعام اپنے گدھے پر سوار تھا اس کے خادموں میں سے دو اس کے ساتھ تھے ۔ جب بلعام سفر کررہا تھا خدا اس پر غصّہ میں آ گیا۔ اس لئے خداوند کا فرشتہ بلعام کے سامنے سڑک پر کھڑا ہو گیا ۔ فرشتہ بلعام کو رو کنے جا رہا تھا ۔ 23 بلعام کے گدھے نے خداوند کے فرشتہ کو سڑک پر کھڑا دیکھا ۔ فرشتہ کے ہاتھ میں ایک تلوار تھی۔ اس لئے گدھا سڑک سے مُڑا اور کھیت میں چلا گیا ۔ بلعام فرشتہ کو نہیں دیکھ سکتا تھا اس لئے وہ گدھے پر بہت غصّہ کیا ۔ اس نے گدھے کو مارا اور اسے سڑک پر لوٹنے پر مجبور کیا ۔ 24 بعد میں خداوند کا فرشتہ دوسری جگہ پر کھڑا ہوا جہاں سڑک تنگ ہو گئی تھی ۔ یہ دو انگور کے باغوں کے درمیان کی جگہ تھی ۔ وہاں سڑک کے دونوں جانب دیواریں تھی ۔ 25 گدھے نے خداوند کے فرشتے کو پھر دیکھا ۔ اس لئے گدھا ایک دیوار سے سٹ کر نکلا ۔ اس سے بلعام کا پیر دیوار سے چھِل گیا ۔ اس لئے بلعام نے اپنے گدھے کو پھر مارا ۔ 26 اس کے بعد خداوند کا فرشتہ دوسری جگہ پر کھڑا ہوا ۔ یہ دوسری جگہ تھی جہاں سڑک تنگ ہو گئی تھی ۔ وہاں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں گدھا مُڑ سکے ۔ دائیں یا بائیں نہیں مُڑ سکتا تھا ۔ 27 گدھے نے خداوند کے فرشتے کو دیکھا اس لئے گدھا بلعام کو اپنی پیٹھ پر لئے ہو ئے زمین پر بیٹھ گیا ۔ بلعام گدھے پر بہت غصّہ میں تھا اس لئے اس نے اپنے ڈنڈے سے اسے پیٹا ۔ 28 تب خداوند نے گدھے کو بولنے کی قوت دی ، ” گدھے بلعام سے کہا تم مجھ پر کیوں غصّہ میں ہو؟ میں نے تمہارے ساتھ کیا کیا ہے ؟ تم نے مجھے تین بار ما را ہے ۔” 29 بلعام نے گدھے کو جواب دیا ، ” تم نے دوسروں کی نظر میں مجھے بے وقوف بنا یا ہے اگر میرے ہاتھ میں تلوار ہوتی تو میں ابھی تمہیں مار ڈالتا ۔” 30 لیکن گدھے نے بلعام سے کہا ، ” میں تمہارا اپنا گدھا ہوں جس پر تم کئی برسو ں سے سواری کرتے ہو اور تم جانتے ہو کہ میں نے ایسا اِس سے پہلے کبھی نہیں کیا ہے ۔ ” یہ صحیح ہے ” بلعام نے کہا ۔ 31 تب خداوند نے بلعام کو سڑک پر کھڑے فرشتہ کو دکھایا ۔ بلعام نے خداوند کا فرشتہ اور اس کی تلوار کو دیکھا تب بلعام نے اپنا سر زمین کی طرف جھکا یا ۔ 32 تب خداوند کا فرشتہ بلعام سے پوچھا ، ” تم نے اپنے گدھے کو تین بار کیوں مارا ؟ میں خود تم کو روکنے آیا ہوں کیونکہ تیرا راستہ میرے بر خلا ف ہے ۔ 33 تیرے گدھے نے مجھے دیکھا اور وہ تین بار مجھ سے مُڑا ۔ اگر گدھا مُڑا نہ ہو تا تو میں تم کو مار ڈالا ہوتا ۔ لیکن میں تمہارے گدھے کو نہیں مارتا ۔” 34 تب بلعام نے خداوند کے فرشتے سے کہا ، ” میں نے گناہ کیا ہے ۔ میں یہ نہیں جانتا تھا کہ تم سڑک پر کھڑے ہو ۔ اگر میں بُرا کر ہا ہوں تو میں گھر واپس ہو جا ؤں گا ۔” 35 خداوند کے فرشتے نے بلعام سے کہا ، ” نہیں ! تم ان لوگوں کے ساتھ جا سکتے ہو ۔ لیکن ہوشیار رہو ۔ وہی باتیں کہو جو میں تم سے کہنے کیلئے کہوں گا ۔ اس لئے بلعام بلق کے بھیجے گئے قائدین کے ساتھ گیا ۔ 36 بلق نے سُنا کہ بلعام آرہا ہے اس لئے بلق اس سے ملنے کے لئے ارنون کی سرحد پر موآبی شہر کو گیا ۔ یہ اس کے ملک کا کو نہ تھا ۔ 37 جب بلق نے بلعام کو دیکھا تو اس نے بلعام سے کہا ، ” میں نے اس سے پہلے تم کو آنے کیلئے کہا تھا اور یہ بھی بتا یا تھا کہ یہ انتہا ئی اہم ہے ۔ تم ہمارے پاس کیوں نہیں آئے ؟ کیا یہ سچ ہے کہ میں تجھے معاوضہ یا انعام دینے کے قابل نہیں ہوں؟ ” 38 لیکن بلعام نے جواب دیا ، ” میں اب تمہا رے پاس آیا ہوں۔ لیکن میں ڈرتا ہوں کہ میں شاید وہ نہ کر سکوں جو تم مجھ سے کرنے کی امید رکھتے ہو ۔ مٹیں صرف وہی باتیں تم سے کہہ سکتا ہوں جو خداوند خدا مجھ سے کہنے کو کہتا ہے ” 39 تب بلعام بلق کے ساتھ قرئیہ حصریت کو گیا ۔ 40 بلق نے کچھ مویشی اور کچھ بھیڑ قربانی کے لئے ذبح کئے ۔ اس نے کچھ گوشت بلعام اور کچھ اس کے ساتھ کے قائدین کو دیا ۔ 41 اگلی صبح بلق بلعام کو باما ت بعل شہر کو لے گیا۔ اس جگہ سے وہ بنی اسرا ئیلیوں کی چھا ؤنی کے سب سے نزدیکی حصّے کو دیکھ سکتے تھے ۔
Numbers 23
1 بلعام نے کہا ، ” یہاں سات قربانگاہیں بناؤ اور میرے لئے سات بیل اور سات مینڈھے تیار کرو ۔” 2 بلق نے وہ سب کیا جو بلعام نے کہا تھا ۔ تب بلعام نے ہر ایک قربان گاہ پر ایک بیل اور ایک مینڈھے کی قربانی کی ۔ 3 تب بلعام نے بلق سے کہا ، ” اُس قربان گاہ کے نزدیک ٹھہرو ۔ میں دُوسری جگہ جاتا ہوں ہو سکتا ہے خدا وند وہاں آئے اور مجھے اطلاع دے کہ مجھے کیا کہنا چاہئے تب میں تجھے بتاؤنگا ۔” تب بلعام ایک اُونچی جگہ پر گیا ۔ 4 خدا اُس جگہ پر بلعام کے پاس آیا اور بلعام نے کہا ، ” میں نے سات قربان گاہیں تیّار کی اور میں نے ہر ایک قربان گاہ پر ایک بیل اور ایک مینڈھے کی قربانی پیش کی ۔” 5 تب خدا وند نے بلعام کو وہ بتایا جو اُسے کہنا چاہئے ۔ تب خدا وند نے کہا ، ” بلق کے پاس جاؤ اور اُن باتوں کو کہو جو میں نے کہنے کے لئے بتائی ہیں ۔” 6 اِس لئے بلعام بلق کے پاس واپس آیا ۔ بلق جب قربان گاہ کے پاس کھڑا تھا اور موآب کے تمام قائدین اُس کے ساتھ کھڑے تھے ۔ 7 تب بلعام نے اپنا پیغام سنایا : موآب کے بادشاہ بلق نے مجھے ارام(سیریا) سے بُلایا ۔ مشرق کی پہاڑ سے بلق نے مجھ سے کہا ، ” آؤ اور میرے لئے یعقوب کے خلاف کہو ۔ آؤ اور بنی اسرائیلیوں کے خلاف کہو ۔” 8 خدا اُن کے خلاف نہیں ہے میں بھی ان کے خلاف نہیں کہہ سکتا خدا وند نے انکا برا ہونے کے لئے نہیں کہا ہے میں بھی ویسا نہیں کر سکتا ۔ 9 میں اُن لوگوں کو پہاڑ پر سے دیکھتا ہوں ۔ میں ایسے لوگوں کو دیکھتا ہوں جو اکیلے رہتے ہیں ۔ وہ لوگ اپنے آپ کو قوموں کے حصّہ نہیں مانتے ۔ 10 یعقوب کے لوگوں کو کون گِن سکتا ہے ۔ وہ دھول کے ذراّت سے بھی زیادہ ہیں ۔ بنی اسرائیلیوں کی چوتھائی کو بھی کوئی گِن نہیں سکتا ۔ مجھے ایک اچھے آدمی کی طرح مرنے دو ۔ میرا خاتمہ ان کی طرح ہونے دو ۔ 11 بلق نے بلعام سے کہا ، ” تم نے ہمارے لئے کیا کیا ہے ؟میں نے تم کو اپنے دشمنوں پر لعنت کرنے کے لئے بُلایا تھا لیکن اس کے بجائے تم نے انہیں دعا دی ۔” 12 لیکن بلعام نے جواب دیا ، ” مجھے وہی کہنا چاہئے جو خدا وند مجھ سے کہلوانا چاہتا ہے ۔” 13 لیکن بلق نے کہا ، ” اس لئے میرے ساتھ دوسری جگہ پر آؤ اس جگہ سے تم لوگوں کو دیکھ سکتے ہو ۔ لیکن تم ان کے ایک حصّہ کو ہی دیکھ سکتے ہو ۔ تم سبھی کو نہیں دیکھ سکتے ۔ اور اس جگہ سے تم میری خاطر ان پر لعنت کرو ۔” 14 اِس لئے بلق بلعام کو صوفیم کے میدان میں لے گیا یہ پسگہ پہاڑ کی چوٹی پر تھا ۔ بلق نے اس جگہ پر سات قربان گاہیں بنائیں ۔ تب بلق نے ہر ایک قربان گاہ پر قربانی کے لئے ایک بیل اور ایک مینڈھا پیش کیا ۔ 15 اِس لئے بلعام نے بلق سے کہا ، ” اس قربان گاہ کے پاس کھڑے رہو ۔ میں اس جگہ پر خدا سے ملنے جاؤنگا ۔” 16 اِس لئے خدا وند بلعام کے پاس آیا اور اس نے بلعام کو بتایا کہ وہ کیا کہے تب خدا وند نے بلعام کو بلق کے پاس واپس جانے اور اُن باتوں کو کہنے کو کہا ۔ 17 اس لئے بلعام بلق کے پاس گیا بلق جب قربان گاہ کے پاس کھڑا تھا ۔ موآب کے قائد اُس کے ساتھ تھے ۔ بلق نے اُسے آتے ہوئے دیکھا اور اُس سے پو چھا ، ” خدا وند نے کیا کہا ؟” 18 تب بلعام نے یہ باتیں کہیں : ” بلق کھڑے رہو اور میری بات سنو ۔ صفور کے بیٹے بلق میری بات سنو! 19 خدا انسان نہیں ہے ۔ وہ جھوٹ نہیں کہے گا ۔ خدا انسان کا بیٹا نہیں اگر خدا وند کہتا ہے کہ وہ کچھ کرے گا تو ضرور کریگا ۔ اگر خدا وند وعدہ کرتا ہے تو اپنے وعدے کو ضرور پورا کرے گا ۔ 20 خدا وند نے مجھے انہیں دعا دینے کا حکم دیا ہے ۔ خدا وند نے اُنہیں خیر و برکت عطا کی ہے ۔ اس لئے میں اُسے بدل نہیں سکتا ۔ 21 یعقوب کے لوگوں میں کوئی قصور وار نہ تھا ۔ بنی اسرائیل کوئی گناہ نہیں کئے تھے ۔ خداوند ان کا خدا ہے ۔ اور وہ اُن کے ساتھ ہے ۔ اور بادشاہ کی للکار ان لوگوں کے بیچ ہے ۔ 22 خدا اُنہیں مصر سے باہر لایا ۔ اِسرائیل کے وہ لوگ جنگلی سانڈ کی طرح طاقتور ہیں ۔ 23 کوئی جادوئی قوّت نہیں جو یعقوب کے لوگوں کو شکست دے سکے ۔اِسرائیل کے خلاف کوئی جادو استعمال نہیں کیا جا سکتا ۔ یعقوب اور بنی اسرائیلیوں کے بارے میں لوگ کہیں گے : ‘ دیکھو خدا کیسے کیسے عظیم کام کئے ۔” 24 لوگ شیر ببّر کی طرح طاقتور ہونگے ۔ وہ شیر کی طرح لڑیں گے ۔ وہ اس وقت تک آرام نہیں کریں گے جب تک کہ وہ اپنے شکار کو مار کر کھا نہ جائے اور اسکے مردہ جسم سے خون پی نہ جائے ۔” 25 تب بلق نے بلعام سے کہا ، ” تم نے اُن لوگوں کے لئے نہ دعا کی اور نہ ہی ان پر لعنت کی ۔” 26 بلعام نے جواب دیا میں نے پہلے ہی تم سے کہہ دیا ، ” میں صرف وہی کہوں گا جو خدا وند مجھ سے کہنے کے لئے کہتا ہے ۔ ” 27 تب بلق نے بلعام سے کہا اس لئے تم میرے ساتھ دُوسری جگہ پر چلو ممکن ہے کہ خدا خوش ہو جائے اور تمہیں اس جگہ سے بد دعا دینے دے ۔ 28 اس لئے بلق بلعام کو ہور پہاڑ کی چوٹی پر لے گیا ۔ یہ پہاڑ ریگستان کے کونے پر واقع ہے ۔ 29 بلعام نے کہا ، ” یہاں سات قربان گاہیں بناؤ تب سات سانڈ اور سات مینڈھے قربان گاہوں پر قربانی کے لئے تیّار کرو ۔” 30 بلق نے وہی کیا جو بلعام نے کہا ۔ بلق نے ہر ایک قربان گاہ پر ایک بیل اور ایک مینڈھا کی قربانی پیش کی ۔
Numbers 24
1 بلعام کو معلوم ہوا کہ خداوند اسرا ئیل کو فضل و برکت دینا چا ہتا ہے ۔ اسی لئے بلعام کسی طرح کے جا دو منتر کی طرف نہیں مُڑا جیسا کہ اس نے پہلے کیا تھا ۔ بلکہ وہ اپنا رُخ ریگستان کی طرف کر لیا ۔ 2 بلعام نے ریگستان کے پا ر تک دیکھا اور سبھی بنی اسرا ئیلیوں کو دیکھ لیا وہ الگ الگ اپنے خاندانی گروہ کے علا قے میں خیمہ ڈالے ہو ئے تھے ۔ تب خدا کی روح بلعام پر آئی ۔ 3 اور بلعام نے یہ الفاظ کہے :” یہ پیغام بعور کے بیٹے بلعام کی طرف سے ۔ میں جن چیزوں کے متعلق کہہ رہا ہوں انہیں صاف دیکھ رہا ہوں ۔ 4 یہ الفا ظ ویسا ہی کہے گئے تھے جیسا کہ میں نے خدا کے الفا ظ سنے تھے ۔ میں ان چیزوں کو دیکھ سکتا ہوں جنکا کہ خدا قادرمطلق نے دیکھنے کی اجا زت دی ہے ۔ میں ان چیزوں کو کہتا ہوں جسے میں دیکھ سکتا ہوں۔ جب میں کھلی ہو ئی آنکھوں سے انکے سامنے سجدہ کرتا ہوں ۔ 5 “یعقوب کے لوگو ! تمہا رے خیمے بہت خوبصورت ہیں ۔ اے بنی اسرا ئیلیو تمہا رے بسنے کی جگہ بہت خوبصورت ہے ۔ 6 تمہا رے خیمے وادی کی طرح ملک کے ایک کونے سے دوسرے کو نے تک پھیلے ہو ئے ہیں ۔ یہ ندی کے کنا رے اُگے باغ کی طرح ہیں ۔ یہ خداوند کی طرف سے بوئی گئی فصل کی طرح ہے۔ یہ ندیوں کے کنا رے اُگے دیو دار کے خوبصورت درختوں کی طرح ہیں۔ 7 تمہیں پینے کے لئے ہمیشہ پانی ملے گا۔ تمہیں فصلیں اُگا نے کے لئے موافق پانی ملے گا ۔ تمہا رے بادشا ہ اجاج سے بڑھ کر ہو گا ۔ تیری سلطنت کو عروج حا صل ہو گا۔ 8 خدا ان لوگوں کو مصر سے باہر لا یا۔ وہ اتنے طاقتور ہیں جیسے کو ئی جنگلی سانڈ ۔ وہ اپنے تمام دشمنوں کو شکست دینگے ۔ وہ اپنے دُشمنوں کی ہڈیاں چور کر دینگے ۔ وہ اپنے تیروں سے دشمنوں کو مار ڈا لیں گے ۔ 9 ” وہ اُس شیر ببر کی طرح ہے جو سو رہا ہے ۔ کو ئی آدمی اتنی ہمت وا لا نہیں جو اسے جگا دے ۔ کو ئی آدمی جو تمہیں دعا دے گا وہ دعا پا ئے گا ۔ اور کو ئی آدمی جو تمہیں لعنت دیگا لعنت پا ئیگا ۔” 10 تب بلعام پر بلق بہت غصّہ ہو ا ۔ بلق نے بلعام سے کہا ، ” میں چا ہتا ہوں کہ تم آؤ اور ہم لوگوں کے دشمنوں پر لعنت کرو ۔ لیکن تم نے اُن کو دعا دی ہے ۔ تم نے انہیں تین بار دعا دی ہے ۔ 11 اب رخصت ہو اور گھر جا ؤ ۔ میں نے کہا تھا کہ میں تمہیں بہت زیادہ معاوضہ دونگا ۔ لیکن خداوند نے تمہیں انعام حاصل کرنے سے محروم کیا ہے ۔” 12 بلعام نے بلق سے کہا ، ” تم نے آدمیوں کو میرے پاس بھیجا ۔ اُن آدمیوں نے مجھ سے آنے کیلئے کہا لیکن میں نے اُن سے کہا ۔ 13 ‘ بلق اپنا سونے چاندی سے بھرا گھر مجھ کو دے سکتا ہے لیکن میں تب بھی صرف وہی بات کہہ سکتا ہوں۔ جسے کہنے کے لئے خداوند حکم دیتا ہے ۔ میں اچھا یا بُرا بالکل کچھ نہیں کرسکتا ۔ مجھے وہی کرنا چا ہئے جو خداوند کا حکم ہو ۔’ کیا تمہیں یاد نہیں کہ میں نے یہ باتیں تمہا رے لوگوں سے کہیں ؟ 14 اب میں اپنے لوگوں کے بیچ جا رہا ہوں لیکن تم کو ایک بات کی ہدایت کر نا چا ہتا ہوں۔ میں تم سے کہنا چا ہتا ہوں کہ مستقبل میں بنی اسرا ئیل تمہا رے لوگوں کے ساتھ کیا کریں گے ؟” 15 تب بلعام نے یہ باتیں کہیں ۔ ” بعور کے بیٹے بلعام کے یہ الفاظ ہیں : یہ اس آدمی کے الفاظ ہیں جو چیزوں کو صاف صاف دیکھ سکتا ہے ۔ 16 یہ اس آدمی کے الفا ظ ہیں جو خدا کی باتیں سنتا ہے ۔ سچے خدانے مجھے علم دیا ہے ۔ میں نے وہ دیکھا ہے جسے خدائے تعالیٰ قادرِ مطلق نے مجھے دکھا نا چا ہا ہے ۔ میں جو کچھ دیکھتا ہوں وہی سچا ئی کے ساتھ کہتا ہوں۔ 17 ” میں خداوند کو دیکھتا ہوں لیکن اب نہیں ۔ میں اسکو آتا ہوا دیکھتا ہوں لیکن جلد نہیں۔ یعقوب کے خاندان سے ایک ستارہ آئے گا ۔ بنی اسرا ئیلیوں میں سے ایک نیا حاکم آئے گا ۔ وہ حاکم موآبی لوگوں پر ظلم کریگا اور اسے مار ڈالے گا۔ وہ حاکم شعیر کے سبھی بیٹوں پر ظلم کرے گا اور اسے مار ڈالے گا۔ 18 ملک ادوم کی شکست ہو گی ۔ نئے بادشاہ کا دُشمن شعیر شکست کھا جا ئے گا ۔ بنی اسرا ئیل طاقتور ہو جا ئیں گے ۔ 19 ” یعقوب کے خاندا ن سے ایک نیا حاکم آئے گا۔ شہر میں زندہ بچے تمام لوگوں کو وہ حاکم تباہ کر یگا۔” 20 تب بلعام نے اپنے عمالیقی لوگوں کو دیکھا اور ان سے یہ باتیں کہیں: ” سبھی قومو ں میں عمالیق سب سے پہلی قوم تھی ۔ لیکن عما لیق بھی تباہ کیا جا ئے گا ۔” 21 تب بلعام نے قینیوں کو دیکھا اور ان سے یہ باتیں کہیں :” تمہیں بھروسہ ہے کہ تمہا را ملک اسی طرح محفوظ ہے جیسے کسی اونچے کھڑے پہا ڑ پر بنا گھونسلہ۔” 22 لیکن قینیو! تم تباہ کئے جا ؤ گے ۔ اسور تمہیں قیدی بنا ئے گا ۔ 23 تب بلعام نے یہ الفاظ کہے : کو ئی آدمی نہیں رہ سکتا جب خدا یہ کرتا ہے ۔ 24 پر کتّیم کے ساحل سے جہاز آئیں گے ۔ وہ جہا ز اسور اور عبر کو شکست دیں گے ۔ لیکن وہ لو گ بھی تباہ کر دئے جا ئیں گے ۔ 25 تب بلعام اٹھا اپنے گھر کو واپس ہو گیا اور بلق بھی اپنا رستہ اختیار کیا
========
قصہ گھرنٹ ہے کیونکہ اس میں کہا گیا کہ مصر سے نکلتے ہی مواب اور کنعان والے بنی اسرائیل کے مخالف ہو چلے تھے وہ علاقے کے نبیوں سے یا اولیاء سے بنی اسرائیل کے خلاف دعا کرواتے جو وہ بادل نخواستہ کرتے – جبکہ قرآن کہتا ہے کہ ارض مقدس سر زمیں کنعان و مواب میں موسی اور ان کی قوم داخل ہی نہ ہو سکے – چالیس سال تک صحراء میں ہی بھٹکتے رہے
اس قصے سے اہل کتاب ثابت کرتے ہیں کہ انبیاء صرف بنی اسرائیل کے ہی ہیں جو غیر بنی اسرائیل کے تھے ان کی نبوت صلب ہو گئی جیسے ہی انہوں نے بنی اسرائیل کے خلاف زبان کھولی
اس بنا پر ان کے معابد میں اس قصے کو دلیل کے طور پیش کیا جاتا ہے کہ نعوذ باللہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ایک جھوٹے نبی تھے
تلمود کے مطابق بلعم کے واقعہ کے بعد موسی نے بددعا دی کہ آج کے بعد کوئی غیر بنی اسرائیلی شخص نبی نہ بن سکے
یروشلم میں حشر دوم سے قبل یہودی شوری تھی جس کو
Sanhedrin
صنحدرن کہا جاتا ہے- وہ یہ فتوی دیتی تھی کہ کون نبی ہے کون نہیں ہے اور اسی صنحدرن کا فتوی تھا کہ عیسیٰ نبی نہیں ہے کیونکہ یہ (نعوذ باللہ) ابن الله ہونے کا دعوی کر رہا ہے جیسا بائبل میں بیان ہوا ہے
یمنی یہودی اس کے خلاف کہتے تھے ان کے نزدیک غیر بنی اسرائیل میں بھی نبی ہو سکتا ہے اور یہ اہم بات ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اوائل اسلام میں جتنے بھی یہودی دور نبوی اور دور خلفاء میں اسلام قبول قبول کرنے والے اکثر یمنی یہودی تھے – اس کے برعکس عراق و بابل و شام کے یہودی اپنے عقیدے پر قائم رہے
اہل کتاب نے موجودہ توریت پر تحقیق کی ہے اور ان کے مطابق موجودہ توریت اصل میں متخالف عقیدوں کے یہودیوں کی کتب کا مجموعہ ہے اس کو
Documentary Hypothesis
کہا جاتا ہے – راقم اس قول سے متفق ہے اور میری تحقیق میں توریت کتاب استثنا باب ١٢ سے ٢٢ ہی صرف اصل توریت ہے – باقی سب قصے ہیں جو یہود نے جمع کیے ان کی صحت دکھے بغیر ان کو اصل توریت کے شروع میں اور آخر میں لگا دیا یا انہوں نے واقعات کو گھڑا
Documentary Hypothesis
کے مطابق بلعم کا قصہ اس گروہ نے بیان کیا جو کتاب استثنا کے خلاف تھا یعنی اصل توریت کو چھپاتا تھا
——
ابن کثیر نے اس کا ایک نام بَلْعَامُ (یا بُلْعُمُ ) ابْنُ بَاعُورَ بْنِ شُهُومَ بن قوشتم ابن مَابَ بْنِ لُوطِ بْنِ هَارَانَ بھی ذکر کیا ہے یعنی ال لوط میں سے تھا
بلعم باعور پر تفسیروں میں متضاد قصے ہیں کوئی اس کو بنی اسرائیل کا کہتا ہے کوئی کنعان کا کوئی بلقاء نامی کسی بستی کا کوئی موسی کا سفیر کہتا ہے تو کوئی اس کو یمن کا کہتا ہے کوئی غیر بنی اسرائیلی لیکن ال لوط کا کہتا ہے اور یہ تمام اقوال راویوں نے اصحاب رسول سے منسوب کیے ہیں
ہمارے مفسرین نے اپنی تفسیروں میں اس قصے کو سورہ اعراف کی آیت وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِيَ آتَيْنَاهُ کے حوالے سے بلاسند نقل کیا ہے کوئی صحابی اس کو بني إسرائيل کا بتا رہا ہے تو کوئی کنعان کا کہتا ہے مثلا
البحر المديد في تفسير القرآن المجيد از أبو العباس أحمد بن محمد الفاسي الصوفي (المتوفى: ١٢٢٤ ھ) نے اس کو بیان کیا ہے
وقال ابن عباس: هو رجل من الكنعانيين، اسمه: «بلعم» ، كان عنده الاسم الأعظم، فلما أراد موسى قتل الكنعانيين، وهم الجبارون، سألوه أن يدعو على موسى باسم الله الأعظم، فأبى، فألحوا عليه حتى دعا ألا يدخل المدينة، ودعا موسى عليه. فالآيات التي أعطيها، على هذا: اسم الله الأعظم
ابن عباس کا کہنا ہے یہ غیر بني إسرائيل کا تھا
تفسیر البغوي الشافعي (المتوفى : 510هـ) میں ہے
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هُوَ بَلْعَمُ بْنُ بَاعُورَاءَ. وقال مجاهد: بلعام بن باعور. وَقَالَ عَطِيَّةُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: كَانَ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ.
یہ بھی لکھا ہے
فَدَعَا مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ أَنْ يُنْزَعَ عَنْهُ الِاسْمُ الْأَعْظَمُ وَالْإِيمَانُ، فَنَزَعَ اللَّهُ عَنْهُ الْمَعْرِفَةَ وَسَلَخَهُ منها فخرجت منه صورة كَحَمَامَةٍ بَيْضَاءَ،
موسی نے اس کے خلاف دعا کی تو اس سے الِاسْمُ الْأَعْظَمُ کا علم اور ایمان جاتا رہا اور کبوتری کے انڈے کی شکل میں اس سے نکل آیا
ایک قول ابن مسعود سے منسوب کیا گیا ہے
عن ابن مسعود – رضي الله عنه – في هذه الآية قال: نزلت في بلعم بن أَبَر. أخرجه الطبري في تفسيره (10/ 567)، والنسائي في الكبرى (11193)، وابن أبي حاتم (1616)، والطبراني (9064)، وورد عن ابن عباس – رضي الله عنهما – قال: نزلت في بَلْعَم بن باعرا رجل من مدينة الجبارين وكذا روي عن مجاهد، أخرجه الطبري في تفسيره (10/ 568)، وانظر تفاصيل القصة عند الطبري (10/ 576).
تفسیر طبری میں ہے
حدثنا ابن حميد قال: حدثنا جرير، عن منصور، عن أبي الضحى، عن مسروق، عن ابن مسعود، في قوله: (واتل عليهم نبأ الذي آتيناه آياتنا) قال: رجل من بني إسرائيل يقال له: بَلْعَم بن أَبَر.
ابن مسعود نے اس آیت پر کہا یہ بني إسرائيل کے ایک شخص بَلْعَم بن أَبَر کے بارے میں ہے
سند میں أَبُو الضُّحَى، مُسْلِمُ بْنُ صُبَيْحٍ کا تفرد ہے
اسی سند سے مستدرک حاکم میں ہے
أَخْبَرَنِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ الْحَمِيدِ الصَّنْعَانِيُّ بِمَكَّةَ، ثنا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبَّادٍ، ثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنْبَأَ الثَّوْرِيُّ، عَنِ الْأَعْمَشِ، وَمَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ ” {وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِي آتَيْنَاهُ آيَاتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا} [الأعراف: 175] قَالَ: هُوَ بَلْعَمُ بْنُ بَاعُورَاءَ ”
أَبُو الضُّحَى، مُسْلِمُ بْنُ صُبَيْحٍ نے اب نام بدل کر بَلْعَمُ بْنُ بَاعُورَاءَ کر دیا ہے
راقم سمجھتا ہے کہ اس قول کو ابن مسعود رضی الله عنہ سے منسوب کیا گیا ہے
تفسير حدائق الروح والريحان في روابي علوم القرآن از محمد الأمين بن عبد الله الأرمي العلوي الهرري الشافعي میں ہے
وقال (2) ابن مسعود: هو رجل من بني إسرائيل، بعثه موسى إلى ملك مدين داعيا إلى الله، فرشاه الملك، وأعطاه الملك على أنّ يترك دين موسى، ويتابع الملك على دينه، ففعل وأضل الناس بذلك.
ابن مسعود نے کہا یہ بنی اسرائیل کا تھا موسی کا مشرک بادشاہ کی طرف سفیر تھا اس کے ساتھ مل گیا اور لوگوں کو گمراہ کیا
راقم کہتا ہے یہ قول کیسے صحیح ہے – بنی اسرائیل تو صحراء میں بھٹک رہے تھے اور کنعان میں داخلے سے ہی انکار کر چکے تھے جیسا قرآن میں ہے تو یہ واقعہ کب ہوا ایسا ممکن نہیں کہ یہ ہوا ہے – موسی علیہ السلام کو تو حکم دیا گیا کہ کنعان پر حملہ کرو انہوں نے ایک خفیہ مشن کنعان پر بھیجا جس نے واپس آ کر کہا کہ ہم نہیں لڑیں گے تم اور تمہارا رب لڑے گا
قَالَ فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ ۛ أَرْبَعِينَ سَنَةً ۛ يَتِيهُونَ فِى ٱلْأَرْضِ ۚ فَلَا تَأْسَ عَلَى ٱلْقَوْمِ ٱلْفَٰسِقِينَ
افسوس ابن کثیر کا ذہن اس طرف گیا لیکن انہوں نے غور نہیں کیا تفسیر میں لکھا
وَأَجْمَعُوا عَلَى أَنَّ بِلْعَامَ بْنَ بَاعُورَا أَعَانَ الْجَبَّارِينَ بِالدُّعَاءِ عَلَى مُوسَى، قَالَ: وَمَا ذَاكَ إِلَّا بَعْدَ التِّيهِ، لِأَنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ التِّيهِ لَا يَخَافُونَ مِنْ مُوسَى وَقَوْمِهِ، هَذَا اسْتِدْلَالُهُ،
اس پر اجماع ہے کہ بِلْعَامَ بْنَ بَاعُورَا جو ہے وہ سرکشوں میں سے تھا اپنی اس دعا کی وجہ سے جو موسی پر کی اور کہا کہ یہ واقعہ بعد دشت التیہ ہوا کیونکہ اس دشت سے قبل تو بنی اسرائیل اور موسی سے یہ ڈرتے نہیں تھے یہ استدلال ہے
راقم کہتا ہے کہ موسی کی خود وفات اسی دشت تیہ میں ہوئی وہ بنی اسرائیل کے ساتھ ہی اس صحرا میں رہے یہاں تک کہ ٤٠ سال گزر گئے اور اس دوران موسی علیہ السلام کی وفات ہوئی – یعنی کنعان (ارض مقدس) والوں سے ان کی کوئی ملاقات نہ ہوئی
—–
تفسیر مراح لبيد لكشف معنى القرآن المجيد از المؤلف: محمد بن عمر نووي الجاوي البنتني إقليما، التناري بلدا (المتوفى: 1316هـ) میں ہے
قال ابن عباس وابن مسعود ومجاهد رحمهم الله تعالى: نزلت هذه الآية في بلعم بن باعوراء، وذلك لأن موسى عليه السلام قصد بلده الذي هو فيه وغزا أهله وكانوا كفارا، فطلبوا منه أن يدعو على موسى عليه السلام وقومه وكان مجاب الدعوة
ابن عباس و ابن مسعود اور مجاہد نے کہا یہ بلعم بن باعوراء کے بارے میں ہے اور یہ اس وقت ہوا جب موسی نے ایک شہر جہاں لوگ مشرک تھے پر غزوہ کا قصد کیا تو اہل شہر نے بلعم بن باعوراء کو طلب کیا کہ وہ موسی اور ان کی قوم کے خلاف دعا کرے اور اس کی دعا قبول ہوتی تھی
تفسیر طبری میں ہے
حدثني محمد بن سعد قال: ثني أبي قال: ثني عمي قال: ثني أبي، عن أبيه، عن ابن عباس، قوله: (واتل عليهم نبأ الذي آتيناه آياتنا فانسلخ منها) قال: هو رجل يدعى بلعم، من أهل اليمن.
ابن عباس نے کہا یہ یمن کے شخص بلعم کے بارے میں ہے
راقم کہتا ہے سند میں عطیہ العوفی سخت ضعیف ہے اور یہ بلعم اب یمنی ہو گیا ہے
تفسیر طبری میں ہے
حدثني المثنى قال: حدثنا عبد الله بن صالح قال: حدثني معاوية، عن علي، عن ابن عباس، قوله: (واتل عليهم نبأ الذي آتيناه آياتنا فانسلخ منها) قال: هو رجل من مدينة الجبارين يقال له: بلعم
علی بن ابی طلحہ کا سماع ابن عباس سے نہیں ہے
علي بن أبي طلحة قال دحيم لم يسمع التفسير من بن عباس وقال أبو حاتم علي بن أبي طلحة عن بن عباس مرسل
شیعہ تفسیروں میں بھی اس کا ذکر ہے اور تفسیر قمی میں اسکو ال فرعون کے ہمدردوں میں سے کہا گیا ہے جس کو اسم اعظم کا علم تھا اس کی دعا قبول ہوتی تھی
عن الحسين بن خالد عن أبي الحسن الرضا عليه السلام أنه أعطى بلعم بن باعورا الاسم الأعظم فكان يدعو به فيستجيب له فمال الى فرعون فلما مر فرعون في طلب موسى وأصحابه، قال فرعون لبلعم: ادع الله على موسى وأصحابه ليحبسه علينا
امام أبي الحسن الرضا نے کہا بلعم بن باعورا کو اسم الأعظم دیا گیا تھا وہ اس سے دعا کرتا تو قبول ہوتی پس فرعون اس کی طرف مائل ہوا اور موسی اور ان کے اصحاب کو طلب کیا اور اس سے کہا الله سے موسی اور ان کے اصحاب کے لئے دعا کرو
مستدرك سفينة البحار از علي النمازي میں ہے
بلعم بن باعور كان من ولد لوط يعرف اسم الله الأعظم فمال إلى فرعون وآثر الحياة الدّنيا وأراد الدعاء على موسى وبني إسرائيل
بلعم بن باعور کا تعلق لوط علیہ السلام کی اولاد سے تھا وہ اسم الله الأعظم جانتا تھا پس فرعون اس کی طرف مائل ہوا .. اور اس نے ارادہ کیا کہ موسی اور ان کی قوم کے خلاف دعا کرے
یعنی یہ بنی اسرائیل کا نہیں تھا یہ بنی لوط کا تھا
بحار الأنوار محمد باقر المجلسيى میں ہے
قال الصادق عليه السلام: لا يكون في الجنة من البهائم سوى حمارة بلعم ابن باعور
امام جعفر نے کہا چوپائے جنت میں نہیں جائیں گے سوائے بلعم ابن باعور کے گدھے کے
شیعوں کے بقول بلعم تو فرعون کا درباری ال لوط علیہ السلام میں سے تھا
گویا نسل ابراہیم اور نسل لوط میں بیر تھا جو فرعون کو بھی پتا تھا
یاللعجب
——-
عبد الله بن عمرو رضی الله کا اس آیت پر کہنا تھا کہ اس میں جو شخص مراد ہے وہ أمية بن أبي الصلت الثقفي ہے
قال ابن أبي حاتم: حدثنا يونس بن حبيب، حدثنا أبو داود، حدثنا شعبة، أخبرني يعلى بن عطاء قال: سمعت نافع بن عاصم يقول: سمعت عبد الله بن عمرو يقول في هذه الآية (واتل عليهم نبأ الذي آتيناه آياتنا فانسلخ منها) ، قال: هو أمية بن أبي الصلت الثقفي.
ابن حجر نے ابن حجر في الفتح (7/154) میں اس قول کی سند کو قوی قرار دیا ہے وروى ابن مردويه بإسناد قوي عن عبد الله بن عمرو ابن العاص.