پہلا اشکال توریت موسی پر نازل نہیں ہوئی ؟
دوسرا موسی کو الواح دی گئی نہ کہ توریت
تیسرا تمام انبیاء بنی اسرائیلی کہلائیں گے جن کے پاس بھی کتاب ہو
چوتھا ایک ہی کتاب سب کو دی گئی نہ کہ چار کتابیں
بھائی کراچی کے ایک عالم ہیں شیخ محمّد جنہوں نے ایک ادارہ بنا رکھا ہے جس کا نام ہے
INTERNATIONAL ISLAMIC PROPAGATION CENTER
جو کہ مسجد رحمانیہ روڈ کراچی میں ہے
آج ان کی ایک گفتگو جو انہوں نے ایک دیوبند کے مفتی عبدالباقی سے کی سنی – انہوں نے قرآن کے متعلق بہت ساری باتیں کیں – اگر آپ کے پاس وقت ہو تو پلیز تھوڑا سا وقت نکل کر تھوڑا بہت سن لیں اور ہمیں بتایں کہ کیا ان کو سنا جا سکتا ہے – تا کہ لوگوں کو حقیقت معلوم ہو سکے
https://www.youtube.com/user/iipcpakistan
الله آپ کو جزایۓ خیر دے – آمین
جواب
پہلا اشکال توریت موسی پر نازل نہیں ہوئی ؟
جواب قرآن میں ہے توریت کے تحت انبیاء حکم کرتے تھے اس سے انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ایک ہی کتاب تھی وہی تمام انبیاء کے پاس تھی
یہ بات صحیح ہے اور فہم کا فرق ہے
میرے نزدیک جب الله کہتا ہے کہ انبیاء سے کتاب پر میثاق لیا تو اس سے مراد ام الکتاب ہے جو لوح محفوظ میں تھی اسی کا متن قرآن میں توریت میں انجیل میں زبور میں ہے
لیکن جہاں تک احکام کا تعلق ہے تو وہ انجیل میں یا زبور میں نہیں تھے
زبور کے لئے قرآن میں ہے کہ اس میں اللہ کی تسبیح تھی ذکر تھا اور جنت کی خبر تھی اور انجیل میں احکام نہیں تھے صرف درس و تلقین تھی
احکام وہی توریت والے تھے جو تمام بنی اسرائیل پر لگ رہے تھے عیسیٰ علیہ السلام بھی اسی توریت پر عمل کا حکم کرتے تھے الگ سے انجیل میں کوئی حکم نہیں ملتا بلکہ واپس توریت پر حکم کا حکم تھا
——
قرآن میں ہے
وَلَمَّا جَآءَهُمْ كِتَابٌ مِّنْ عِندِ الله مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ
اور جب وہ لایا جو تصدیق کرتا ہے اس کی جو ان کے پاس الله کی کتاب میں موجود ہے
اہل کتاب کے پاس کتاب اللہ کی طرف سے ہے – اس کتاب کا نام ان موصوف کے نزدیک توریت نہیں ہے
یہ عجیب بات ہے
خیال رہے توریت کے معنی قانون ہیں یہ علمائے یہود کا قول ہے – قرآن میں اس کو قانون نہیں کہا گیا
یہود کے پاس توریت ہے قرآن میں ہے
مَثَلُ الذين حُمِّلُواْ التوراة ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الحمار يَحْمِلُ أَسْفَاراً
قرآن میں ہے
الذين يَتَّبِعُونَ الرسول النبي الأمي الذي يَجِدُونَهُ مَكْتُوباً عِندَهُمْ فِي التوراة والإنجيل
توریت و انجیل میں نبی الامی کا ذکر ہے
سورۃ الاعراف
وَكَتَبْنَا لَـهٝ فِى الْاَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَىْءٍ مَّوْعِظَةً وَّتَفْصِيْلًا لِّكُلِّ شَىْءٍۚ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَّاْمُرْ قَوْمَكَ يَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِـهَا ۚ سَاُرِيْكُمْ دَارَ الْفَاسِقِيْنَ
(145)
اور ہم نے اس کو تختیوں پر ہر قسم کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل لکھ دی، سو انہیں مضبوطی سے پکڑ لے اور اپنی قوم کو حکم کر کہ اس کی بہتر باتوں پر عمل کریں، عنقریب میں تمہیں نافرمانوں کا ٹھکانہ دکھاؤں گا۔
موصوف کا مدعا ہے کہ انبیاء جو دیا گیا ہے وہ کتاب کہا جائے اس کو توریت یا انجیل نہ کہا جائے – توریت اگر قانون ہے تو آمد النبی کا ذکر کون سا قانون ہے ؟
قرآن میں اہل کتاب سے بات ہوتی ہے تو ظاہر ہے انہی کی اصطلاحات کی سطح پر بات ہو گی
——–
موصوف کہتے ہیں موسی کو الواح دی گئی نہ کہ توریت – اس کو کتاب بھی کہا صحائف بھی کہا گیا
قرآن میں ہے
وَمُصَدِّقاً لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التوراة
تمہارے سامنے جو توریت ہے اس میں اس کی تصدیق ہے
اب ظاہر ہے یہ بحث بے کار ہے
===========
موصوف کہتے ہیں تمام انبیاء بنی اسرائیلی کہلائیں گے جن کے پاس بھی کتاب ہو
منٹ ٤٤
جواب یہ عجیب بات ہے ابراھیم علیہ السلام بنی اسرائیل میں سے نہیں بلکہ ان کے باپ ہیں
قرآن میں ہے ابراھیم کو صحف دیے
یہ پھر مغالطہ ہے
=============
موصوف کہتے ہیں
ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی کہ بنی اسمعیل میں کتاب نازل کر
اس سے موصوف نے استخراج کیا کہ اس میں الکتاب ہےاس کو قرآن نہیں کہا جائے
یہ وہی مغالطہ ہےجس کا موصوف بار بار اعادہ کر رہے ہیں کیونکہ یہ الکتاب جو آسمان میں ہے اس سے ہی توریت یا انجیل یا قرآن کو لیا گیا یعنی اصل الکتاب آسمان میں ہے اس کا متن زمین پر نازل ہوتا گیا
اصل کو الله نے بیان کیا جب قرآن میں ذکر کیا تو ١١٤ سورتیں بن گیا اسی اصل کتاب کی بات تھی لیکن ماحول و زمیں الگ تھی لہذا قرآن ہوا اور جب طور میں اسی اصل کتاب کی الله نے بات و شرح کی تو یہ توریت بنی -لیکن موصوف نے اس کو ملا دیا ہے کہ کتاب ایک ہی ہے جو نازل ہوئی گویا کہ قرآن حرفا حرفا وہی تھا جو توریت تھی
یہ عجیب بات ہے کیونکہ قرآن میں منافق مدینہ کا ذکر ہے جنگوں کا ذکر ہے یہ مضامین الگ ہیں موسی یا عیسیٰ کا سابقہ ان سے نہیں تھا
یہ کم فہمی ہے
الله فہم دے
–=====================
موصوف نے الکتاب سے نکالا کہ ایک ہی کتاب سب کو دی گئی نہ کہ چار کتابیں
پھر اس سے اہل کتاب کا مفہوم یہ نکلا کہ تمام انبیاء اہل کتاب ہیں جن کے پاس کتاب آئی اور یہود و نصرانی اہل کتاب نہیں وہ تو اپنے ہاتھ سے کتاب لکھتے تھے
یہ بھی مغالطہ ہے- اہل کتاب کے لئے قرآن میں ہے
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَسْتُمْ عَلَى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْرَاةَ وَالإِنْجِيلَ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ
اے اہل کتاب تم کچھ نہیں یہاں تک کہ توریت و انجیل کو قائم کرو
http://www.muhammadshaikh.com/urdu_pdf/essa_pbuh.pdf
جواب
اس میں آیات کا ترجمہ صحیح نہیں کیا گیا
یہ معلوم نہیں کہ یہ محمد شیخ کی حرکت ہے یا کسی اور ہی نے غلط ترجمہ کیا تھا
مثلا ص ١٢ پر سورہ النساء کی آیت کا ترجمہ کیا ہے
ان کے لئے ملتا جلتا کر دیا
جبکہ صحیح ہے
ان پر معاملہ مشتبہ کر دیا
مزید کہ الفاظ کا تشریحی اضافہ ہے کہ پورا کر دیا – اس شخص نے انجیل یوحنا کے الفاظ
http://biblehub.com/john/19-30.htm
پورا کر دیا کو اس آیت میں ڈال دیا ہے
——–
پورا کر دیا کی دلیل ص ١٠ پر پیش کی ہے کہ الله نفس کو پورا کرتا ہے سورہ الزمر – یہ بھی غلط مطلب ہے توفی کا مطلب پورا قبضہ میں لینا پکڑنا ہے اور اس آیت میں دو چیزوں کا ذکر ہے ایک موت کا دوسری نیند کا – توفی اس سے صریحا موت ثابت نہیں ہوتی
ہمارا روز نیند میں توفی ہو رہا ہے
صفحہ ١٣ پر بھی ترجمہ میں اضافہ ہے کہ عیسیٰ کا درجہ بلند کر دیا – یہ قرآن کے الفاظ نہیں ہیں
جواب
اس کتابچہ ص ١٢ پر لکھا ہے کہ وہ مقام جہاں مریم حمل لے کر گئیں وہ مکہ تھا ؟ اس کا کوئی ذکر دور دور تک آیات میں نہیں نہ قرآن میں ایسا کوئی ذکر ہے
گرمی کیا صرف سعودی عرب میں ہوتی ہے پڑوسی ملک اسرائیل میں نہیں ہوتی جہاں یروشلم یا گلیل ہے ؟
افسوس یہ شخص جاہل ہے
ص ٢٨ پر عائشہ رضی الله عنہا سے متعلق آیات افک کو مریم کی طرف موڑ دیا ہے
الله کی پناہ
گویا کہ مریم دور نبوی کی کوئی عورت تھیں جن پر چار گواہ طب کیے جا رہے ہیں – یہ تحریف قرآن ہے
سورہ الرعد کی آیت بھی پیش کر دی ہے کہ گویا عیسیٰ کی نسل بھی چلی ہے
جبکہ آیات میں عموم و خصوص ہوتا ہے
اس کا خصوص ظاہر ہے – کیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی نسل چلی؟ نہیں چلی
پھر اس میں ہے ازواجا یعنی ایک سے زائد بیویاں کیں جبکہ تمام انبیاء کی بہت سی بیویاں نہیں تھیں مثلا زکریا علیہ السلام یا آدم علیہ السلام
مفسرین کے مطابق آیت کا تعلق یہود کے قول سے ہے کہ محمد (ص) تو ہر وقت شادیان کرتا رہتا ہے اس پر قرآن میں کہا گیا کہ سابقہ انبیاء نے بھی شادی کی ہے نسل چلی ہے
یعنی رسول علیہ السلام کا شادی کرنا کوئی گناہ نہیں ہے
قرآن میں ہے
وجعلناه هدى لبني إسرائيل ذرية من حملنا مع نوح
بنی اسرائیل وہ ذریت ہیں جو نوح کے ساتھ کشتی میں سوار تھے
http://quran.ksu.edu.sa/tafseer/tabary/sura17-aya3.html
یعنی ذریت سے مراد نسل ہے
سورہ الرعد ٣٨
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً ۚ وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ ۗ لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ
ہم نے تم سے پہلے رسول بھیجے اور ان کے لئے بیویاں اور نسل کی – اور کسی رسول کے بس میں نہ تھا کہ کوئی نشانی لاتا الا یہ کہ الله کا اذن ہوتا -ہر انجام کتاب (میں لکھ دیا گیا) ہے
جواب
ان کی شادی کا اسلامی کتب میں کوئی ذکر نہیں ملا – انجیل کے مطابق یحیی اور عیسیٰ دونوں کی شادی نہیں ہوئی
آیات میں عموم و خصوص ہوتا ہے
اس کا خصوص ظاہر ہے – کیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی نسل چلی؟ نہیں چلی
پھر اس میں ہے ازواجا یعنی ایک سے زائد بیویاں کیں جبکہ تمام انبیاء کی بہت سی بیویاں نہیں تھیں مثلا زکریا علیہ السلام یا آدم علیہ السلام
مفسرین کے مطابق آیت کا تعلق یہود کے قول سے ہے کہ محمد (ص) تو ہر وقت شادیان کرتا رہتا ہے اس پر قرآن میں کہا گیا کہ سابقہ انبیاء نے بھی شادی کی ہے نسل چلی ہے
یعنی رسول علیہ السلام کا شادی کرنا کوئی گناہ نہیں ہے
قرآن کے مطابق
سورۃ البقرۃ
وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًاۖ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْـرَاهِيْمَ مُصَلًّى ؕ وَعَهِدْنَآ اِلٰٓى اِبْـرَاهِيْمَ وَاِسْـمَاعِيْلَ اَنْ طَهِّرَا بَيْتِىَ لِلطَّـآئِفِيْنَ وَالْعَاكِفِيْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ
(125)
اور جب ہم نے کعبہ کو لوگوں کے لیے عبادت گاہ اور امن کی جگہ بنایا، (اور فرمایا) مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بناؤ، اور ہم نے ابراھیم اور اسماعیل سے عہد لیا کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔
ایک بات کو نوٹ کر لیں کہ الله کا گھر ہمیشہ پاک تھا اور قیامت تک رہے گا –
سورۃ آل عمران
اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّـذِىْ بِبَكَّـةَ مُبَارَكًا وَّهُدًى لِّلْعَالَمِيْنَ
(96)
بے شک لوگوں کے واسطے جو سب سے پہلا گھر مقرر ہوا یہی ہے جو مکہ میں برکت والا ہے اور جہان کے لوگوں کے لیے راہ نما ہے
لیکن ہمارے محدثین نے اس میں بت رکھوا دیے – اور ان بتوں کو حضور صلی الله علیہ وسلم کے ہاتھوں تڑوا دیا- یہ بات ہے ہی قرآن کی آیات کے خلاف-
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1913 حدیث مرفوع مکررات 8 متفق علیہ 5
حمیدی، سفیان، ابن ابی نجیح، مجاہد، ابومعمر، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ فتح مکہ کے وقت جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) مکہ میں آئے تو کعبہ کے پاس تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی آپ اس لکڑی سے ہر بت کو ٹھوکا دے کر مذکورہ بالا آیت کی تلاوت فرما رہے تھے اور یہ آیت بھی پڑھ رہے تھے کہ ( جَا ءَ الْحَ قُّ وَمَا يُبْدِي ُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيْدُ ) 34۔ السبأ : 49) یعنی حق آگیا باطل مٹ گیا اور اب باطل لوٹ کر نہیں آئے گا۔
امید ہے کہ آپ کو سمجھ آ رہا ہو گا کہ یہود اور نصاریٰ نے کیسے روایات لکھوا دیں –
کیا صحیح بخاری کی یہ حدیث ہے
بخاری شریف کی ایک روایت ہے کہ جناب نبی کریمؐ نے جب بیت اللہ کے بت توڑے تو اُن میں حضرت ابراہیمؐ اور حضرت اسماعیلؐ کے بت بھی تھے۔ بت اس طریقے سے بنائے گئے تھے کہ ان کے ہاتھوں میں جوئے کے تیر پکڑائے گئے تھے۔ جناب نبی کریمؐ نے یہ دیکھ کر فرمایا قاتلھم اللّٰە اللہ ان کا بیڑا غرق کرے کہ مشرکین نے ان بزرگوں کے ہاتھوں میں بھی تیر پکڑا دیے حالانکہ ان کو پتہ تھا کہ ان بزرگوں نے زندگی میں کبھی لاٹری یا جوا نہیں کھیلا۔
جواب
صحیح بخاری کی حدیث ہے
جوئے کے نہیں پانسوں کے تیر تھے
4288 – حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَدِمَ مَكَّةَ، أَبَى أَنْ يَدْخُلَ البَيْتَ وَفِيهِ الآلِهَةُ، فَأَمَرَ بِهَا فَأُخْرِجَتْ، فَأُخْرِجَ صُورَةُ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ فِي أَيْدِيهِمَا مِنَ الأَزْلاَمِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” قَاتَلَهُمُ اللَّهُ، لَقَدْ عَلِمُوا: مَا اسْتَقْسَمَا بِهَا قَطُّ “، ثُمَّ دَخَلَ البَيْتَ، فَكَبَّرَ فِي نَوَاحِي البَيْتِ، وَخَرَجَ وَلَمْ يُصَلِّ فِيهِ تَابَعَهُ مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، وَقَالَ: وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
افسوس یہ شخص جاہل ہے – نہ اس کو تاریخ کا علم ہے نہ مشرک کے مذھب کا علم ہے صرف آیات کو دیکھ کر اپنا معنی نکالتا ہے
کعبہ میں بت رکھے جاتے تھے اس کو مورخ ہوں یا مفسر ہوں یا تمام فرقے ہوں کہتے آئے ہیں- الله تعالی نے ابراہیم کو حکم کیا کہ کعبه کو پاک رکھا جائے لیکن بعد میں انے والے عربوں نے اس میں بت رکھے – مشرک کے نزدیک کعبہ میں بت رکھنا اس کی توہین نہیں تھا اس میں ابراہیم و اسمعیل کی تصویریں بھی تھیں اور فرشتوں کے بت بھی تھے
مثلا کیا مسجد الاقصی ناپاک جگہ ہے یا پاک جگہ ہے ؟ لیکن وہاں رومیوں نے بت رکھے انبیاء کا قتل ہوا
اس آیت کا ترجمہ کیا ہے
وَاِذْ يَرْفَعُ اِبْـرَاهِيْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَاِسْـمَاعِيْلُ ؕرَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِـيْمُ
محمد شیخ کہتے ہیں
سورۃ البقرۃ
وَاِذْ يَرْفَعُ اِبْـرَاهِيْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَاِسْـمَاعِيْلُ ؕرَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِـيْمُ (127)
اور جب ابراھیم اور اسماعیل کعبہ کے قوائد بنا رہے تھے ، اے ہمارے رب ہم سے قبول کر، بے شک تو ہی سننے والا جاننے والا ہے۔
–
سورۃ المائدۃ
جَعَلَ اللّـٰهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيَامًا لِّلنَّاسِ وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ وَالْـهَدْىَ وَالْقَلَآئِدَ ۚ ذٰلِكَ لِتَعْلَمُوٓا اَنَّ اللّـٰهَ يَعْلَمُ مَا فِى السَّمَاوَاتِ وَمَا فِى الْاَرْضِ وَاَنَّ اللّـٰهَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْـمٌ
(97)
اللہ نے کعبہ کو بنایا جو کہ بزرگی والا گھر ہے لوگوں کے لیے قیام کا باعث کر دیا ہے اور عزت والے مہینے کو بھی اور حرم میں قربانی والے جانور کو بھی اور وہ جن کے گلے میں پٹہ ڈال کر کعبہ کو لے جائیں، یہ اس لیے ہے تاکہ تم جان لو کہ بے شک اللہ کو معلوم ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور بے شک اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔
ایک عہد کا ذکر بائبل میں بھی ہے –
اور میرا عہد جو میرے اور تیرے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے اور جسے تم مانو گے سو یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک فرزندِ نرینہ کا ختنہ کیا جائے۔
لازم ہے کہ تیرے خانہ زاد اور تیرے زر خرید کا ختنہ کیا جائے اور میرا عہد تمہارے جسم میں ابدی عہد ہوگا۔ اور وہ فرزند نرینہ جسکا ختنہ نہ ہوا ہو اپنے لوگوں میں سے کاٹ ڈالا جائے کیونکہ اس نے میرا عہد توڑا۔
جواب
آیت کا ترجمہ ہے
وَاِذْ يَرْفَعُ اِبْـرَاهِيْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَاِسْـمَاعِيْلُ ؕرَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِـيْمُ
اور جب ابراھیم بیت الله کی بنیاد کو بلند کر رہا تھا اور اسمٰعیل – اے رب ہم سے اس (عمل) کو قبول کر بے شک تو سننے والا جاننے والا ہے
کہاں کی کہاں سے ملا دی گئی ہے
بائبل میں ہے ایک فرزندِ نرینہ کا ختنہ – اس کو اپ کہنا چاہتے ہیں کہ مناسک حج میں سے ہے ؟ کہ گویا جو بھی داخل ہو وہ بھی ختنہ کرائے؟ یہ ادھر ادھر کی ملا کر عجیب و غریب نتیجہ ہے
پھر آیت پیش کی الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ اس کا ترجمہ کیا کعبہ کے قوائد بنا رہے تھے – یہ لفظی تحریف ہے – کیا انبیاء نے شریعت سازی کی –
الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ اور الْقَوَاعِدَ للبَيْتِ میں فرق ہے
پھر اس کو وَالْـهَدْىَ وَالْقَلَآئِدَ ۚ سے ملا دیا
یعنی الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ (کعبہ کی بنیادوں) کو ہدی کے جانور کے قَلَآئِدَ یا پٹے سے ملا دیا ہے
یہ تماشہ اردو بولنے والے کے ساتھ ہی ہو سکتا ہے کوئی عرب سنے گا تو سر کے بال نوچے گا
محمد شیخ کہتے ہیں الله نے کعبہ کو خلق کیا اور روز ازل سے آج تک ایسا ہی ہے چٹان کا بنا ہوا – کعبہ ایک پہاڑ ہے
منٹ ١٣:١٥ پر
https://www.youtube.com/watch?v=i7kJ5dF9f_c
کعبہ انسان نے نہیں بنایا بلکہ زمین سے نکلا
جواب
جَعَلَ اللّـٰهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيَامًا لِّلنَّاسِ وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ وَالْـهَدْىَ وَالْقَلَآئِدَ ۚ ذٰلِكَ لِتَعْلَمُوٓا اَنَّ اللّـٰهَ يَعْلَمُ مَا فِى السَّمَاوَاتِ وَمَا فِى الْاَرْضِ وَاَنَّ اللّـٰهَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْـمٌ
(97)
اللہ نے کعبہ کو محترم گھر بنایا (مقرر کیا) ہے لوگوں کے لیے قیام کا باعث کر دیا ہے اور عزت والے مہینے کو بھی اور حرم میں قربانی والے جانور کو بھی اور وہ جن کے گلے میں پٹہ ڈال کر کعبہ کو لے جائیں، یہ اس لیے ہے تاکہ تم جان لو کہ بے شک اللہ کو معلوم ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور بے شک اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔
اس آیت میں جعل کا لفظ ہے جس کا مطلب بنایا ہوتا ہے یا مقرر کرنا یعنی اس مقام کو الله نے بیت الله کے طور پر مقرر کیا ہے
قرآن میں ہے
وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْهَا إِلَّا لنعلم
اور ہم نے جو قبلہ اس سے پہلے بنایا جس پر تم تھے تو وہ صرف جاننے کے لئے تھا
اگر محمد شیخ کی بات مانی جائے تو معلوم ہوا کہ ایک قبلہ اور بنایا تھا جس کو مسلمان و یہود کہتے ہیں یروشلم میں تھا
یہی اشتباہ یہود کو بھی اپنے قبلے پر تھا کہ الله نے جو مقام قبلے کے طور پر ان کے لئے مقرر کیا یہود کہتے ہیں کہ ایک چٹان تھا جو الله نے بنایا
لیکن اصل میں کعبہ ہو یا ہیکل سلیمانی کا قدس الاقدس ہو دونوں کو الله نے قبلہ کے طور پر مقرر کیا ہے اور یہ چٹانین نہیں ہیں بلکہ اس کی اینٹیں چٹان کی ضرور ہیں – اس میں فرق ہے چٹان ہونا اور اینٹ چٹان کی ہونے میں بڑا فرق ہے
کعبہ کو ابن زبیر کے دور میں جمادى الآخرة ٦٤ ھ میں گرایا گیا اور دوبارہ بنایا گیا جس میں حطیم کو اس میں شامل کر دیا گیا اس کے بعد مخالفین نے ابن زبیر کو قتل کرنے کے لئے کعبہ پر پتھر برسائے کیونکہ ابن زبیر نے اپنے اپ کو اس میں بند کر لیا تھا کعبہ ٹوٹا اور دوبارہ تعمیر ہوا (تعجيل المنفعة صـ453 ) جس میں حطیم کو واپس نکال دیا گیا
مزید یہ کہ قرآن میں ہے کہ بنی اسرائیل سے مراد ذریت نوح ہے
ذُرِّيَّةَ مَنْ حَـمَلْنَا مَعَ نُـوْحٍ ۚ اِنَّهٝ كَانَ عَبْدًا شَكُـوْرًا
(3)
اے ان کی نسل جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا تھا، بے شک وہ شکر گزار بندہ تھا۔
یہ ذھن میں رکھیں کہ بنی اسرائیل اسی نسل سے ہے جن کو حضرت نوح علیہ سلام نے اپنی کشتی میں سوار کیا تھا – جیسا کہ اوپر والی آیت سے ظاہر ہے-
بنی اسرئیل شروع سے چلی آ رہی ہے – حضرت نوح علیہ سلام پھر حضرت موسیٰ علیہ سلام اور پھر حضرت عیسٰی علیہ سلام کے زمانے میں بھی اس کا ذکر ہے اور حضرت عیسٰی علیہ سلام ان کو حضور صلی الله علیہ وسلم کی خبر بھی دے رہے ہیں
جواب
یہود بنی اسرائیل میں سے ہیں کیونکہ یہودیت ایک نسلی مذھب ہے جو اولاد اسحاق یا اسحاق علیہ السلام کی نسل ہے
اپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ یہود میں مشرف با یہود نہیں کیا جاتا کیونکہ ان کے مطابق الله نے وعدہ نجات صرف نسل ابراہیم کے لئے کیا ہے اور عربوں کو وہ نسل ابراہیم نہیں مانتے کیونکہ عرب تو جرہم والے تھے جو ہاجرہ علیہ السلام کے ساتھ مکہ میں آباد ہوئے جب زمزم وہاں نکلا – ہم کہتے ہیں نسل و قبیلہ تو شناخت کے طور پر ہے – مثلا ہم کہتے ہیں موسی ایک نبی اسرائیلی نبی تھے تو اس کا مطلب ہے اولاد یعقوب میں سے مسلم تھے
نصرانی بنی اسرائیل نہیں ہیں یہ نسلی مذھب نہیں اس میں رومن شامل ہوئے اور یہ آج دنیا کی سب قوموں میں موجود ہیں
مسلمان تعریفی نام ہے یعنی جو الله کا مطیع ہوا اس میں تمام انبیاء شامل ہیں سابقہ امتوں کے نیک و صالح لوگ بھی اسی میں ہیں اور امت محمد کے موحد اس میں ہیں – جب امت محمد نے اپنے اپ کو مسلم کہنا شروع کیا تو پھردور نبوی سے آج تک اس کے فرقوں کو بھی مسلم ہی کہا جاتا ہے – امت محمد میں مشرک بھی ہیں – عرف عام میں مسلمان سے مراد وہ ہے جو امت محمد کا ہو اسلام کے پانچ ارکان پر عمل کا دعوی کرتا ہو
قرآن کا حکم ہے
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
اے ایمان والوں الله کے لئے عدل کے گواہ بن کر کھڑے ہو اور ایسا نہ ہو کہ کسی قوم کی دشنمی تم کو اکسائے کہ عدل نہ کرو عدل کرو یہ تقوی کے قریب ہے اور الله سے ڈرو بے شک الله جانتا ہے جو تم کرتے ہو
یہود سے دشمنی میں حد یہ ہو گئی کہ اپ کہنے لگ گئے کہ وہ بنی اسرائیل بھی نہیں- اس طرح حقائق کو مسخ نہ کریں جس طرح اہل کتاب کرتے ہیں
اِنَّـآ اَنْزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيْـهَا هُدًى وَّنُوْرٌ ۚ يَحْكُمُ بِـهَا النَّبِيُّوْنَ الَّـذِيْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّـذِيْنَ هَادُوْا وَالرَّبَّانِيُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتَابِ اللّـٰهِ وَكَانُوْا عَلَيْهِ شُهَدَآءَ ۚ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَـرُوْا بِاٰيَاتِىْ ثَمَنًا قَلِيْلًا ۚ وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّـٰهُ فَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْكَافِرُوْنَ (44)
ہم نے تورات نازل کی کہ اس میں ہدایت اور روشنی ہے، اس پر اللہ کے فرمانبردار پیغمبر یہود کو حکم کرتے تھے اور اہل اللہ اور علماء بھی اس لیے کہ وہ اللہ کی کتاب کے محافظ ٹھہرائے گئے تھے اور اس کی خبر گیری پر مقرر تھے، سو تم لوگوں سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو اور میری آیتوں کے بدلے میں تھوڑا مول مت لو، اور جو کوئی اس کے موافق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے اتارا ہے تو وہی لوگ کافر ہیں۔
اس آیت میں واضح ہے کہ توریت کو انبیاء نے استمعال کیا یہود کو حکم کیا اور ان اہل کتاب میں سے یہودی اور ربانی اور احبار بھی حکم لیتے تھے
یہ کتاب معلوم ہے کہ موسی علیہ السلام پر نازل ہوئی ہے
یہود کے پاس توریت ہے قرآن میں ہے
مَثَلُ الذين حُمِّلُواْ التوراة ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الحمار يَحْمِلُ أَسْفَاراً
قرآن میں ہے
الذين يَتَّبِعُونَ الرسول النبي الأمي الذي يَجِدُونَهُ مَكْتُوباً عِندَهُمْ فِي التوراة والإنجيل
توریت و انجیل میں نبی الامی کا ذکر ہے
یہ توریت کیا ہے اگر یہ آسمانی کتاب نہیں ہے ؟ کیا یہود کی تحریر ہے اگر ہے تو الله اس کو نافذ کرنے کا حکم کیوں دیتا ہے ؟ اس پر خوش کیوں ہے کہ احبار نے اس کتاب کو قائم کیا ہے
اور کیا مصدر تھا جس پر سابقہ انبیاء چل رہے تھے مثلا زکریا علیہ السلام جس ہیکل سلیمانی میں متعین تھے اور وہاں اقلام ڈالے گئے وہ سب کیا ہے؟
زمان و مکان کا خیال رکھیں- مدینہ کے یہود پر تنقید کی گئی ہے کہ وہ کہتے ہیں الله کے ہاتھ بندھے ہیں
ذُرِّيَّةَ مَنْ حَـمَلْنَا مَعَ نُـوْحٍ ۚ اِنَّهٝ كَانَ عَبْدًا شَكُـوْرًا
(3)
اے ان کی نسل جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا تھا، بے شک وہ شکر گزار بندہ تھا۔
یہ ذھن میں رکھیں کہ بنی اسرائیل اسی نسل سے ہے جن کو حضرت نوح علیہ سلام نے اپنی کشتی میں سوار کیا تھا – جیسا کہ اوپر والی آیت سے ظاہر ہے-
بنی اسرائیل اور تم عالم نوح کی نسل سے ہے – اپ یا ہم کس کی نسل ہیں ؟ نوح کی ہی ہیں عرب بھی نوح کی نسل ہیں یہاں تک کہ ہندو بھی نوح کی نسل سے ہیں
کیونکہ تمام دنیا غرق ہوئی صرف کشتی نوح والے بچ گئے
وَجَاوَزْنَا بِبَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ الْبَحْرَ فَاَتْبَعَهُـمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُـوْدُهٝ بَغْيًا وَّعَدْوًا ۖ حَتّــٰٓى اِذَآ اَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّهٝ لَآ اِلٰـهَ اِلَّا الَّـذِىٓ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُـوٓا اِسْرَآئِيْلَ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ
(90)
اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کر دیا پھر فرعون اور اس کے لشکر نے ظلم اور زیادتی سے ان کا پیچھا کیا، یہاں تک کہ جب ڈوبنے لگا تو کہا میں ایمان لایا کہ کوئی معبود نہیں مگر جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں فرمانبرداروں میں سے ہوں۔
بنی اسرائیل وہ ہیں جو موسی کے ساتھ نکلے پھر ان میں بارہ قبائل بنا دیے گئے جو پانی کی تقسیم پر بنے
وَإِذِ اسْتَسْقَى مُوسَى لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِعَصَاكَ الْحَجَرَ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَشْرَبَهُمْ كُلُوا وَاشْرَبُوا مِنْ رِزْقِ اللَّهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ
بنی اسرائیل یا یہود کو یقینا الله نے تمام عالم پر فضیلت دی انہوں نے بچھڑے کی پوجا کی لیکن اللہ نے من و سلوی دیا انہوں نے الله کو دیکھنے کا مطالبہ کیا الله نے ان کو فرعون سے نجات دی یہ فضیلت نہیں تو اور کیا ہے
باقی اپ سورہ بقرہ پڑھ سکتے ہیں اس میں یہود پر تنقید کی جا رہی ہے اور بنی اسرائیل کا ذکر کیا جا رہا ہے اگر یہ دونوں گروہ ایک نہیں ہیں
تو غیر متعلق بات ہو گی
بنی اسرائیل عربی کا لفظ ہے اس کا مطلب نسل ہوتا ہے کہ اسرائیل کی نسل اور اسرائیل قرآن ہو حدیث ہو توریت ہو یا انجیل ہو سب میں اس کا مطلب یعقوب علیہ السلام ہی لیا جاتا ہے
اسرائیل یعقوب علیہ السلام کا لقب ہے قرآن میں ہے
كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلا لِبَنِي إِسْرَائِيلَ إِلا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِيلُ عَلَى نَفْسِهِ مِنْ قَبْلِ أَنْ تُنَـزَّلَ التَّوْرَاةُ قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ
ہر کھانا بنی اسرائیل کے لئے حلال تھا سوائے اس کے جو اسرائیل (یعقوب) نے اپنے اوپر حرام کیا توریت کے نزول سے پہلے پس توریت لاو اس کو پڑھو اگر تم سچے ہو
اس آیت میں یہ اسرائیل کون مجہول شخص ہے ؟
جو اپ کے بقول یعقوب علیہ السلام نہیں ہیں
سورہ الاحقاف میں ہے کہ عرب جو نسل نوح میں سے تھے ان سے رسول الله نے کہا
غور کریں اور فضول فلسفوں سے برات کا اظہار کریں
يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَلْبِسُونَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ
اے اہل کتاب تم کیوں حق و باطل کی تلبیس کرتے ہو اور حق چھپاتے ہو اور تم جانتے ہو
کیا یہود اور نصاریٰ کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ سلام نے اپنے بیٹے حضرت اسحاق علیہ سلام کی قربانی دی اور الله نے ایک منڈھا ان کی چھری کے نیچے بھیج دیا اور انہوں نے اس کی قربانی کر دی
جواب
یہ قرآن سورہ الصافات میں ہے
سوره الصافات میں ترتیب میں پہلے بیٹے کا ذکر ہے جس کی قربانی کا حکم دیا گیا (جو ظاہر ہے اسمعیل ہیں) اس کے بعد کہا گیا کہ اسحاق کی بھی بشارت دی تاکہ بتایا جائے کہ قربانی والا واقعہ اسمعیل کے ساتھ ہوا – قرآن اور توریت کی کتاب پیداش کے مطابق سارہ بانجھ تھیں لیکن اولاد کا ہونا الله کی نشانی تھا اولاد نہ ہونے کی وجہ سے سارہ نے ہاجرہ سے نکاح کا ابراہیم کو مشورہ دیا تھا ظاہر ہے کہ اگر اسحاق پیدا ہو چکے ہوتے تو یہ سب کرنے کی ضرروت نہ تھی اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ اسمعیل بڑے اور اسحاق چھوٹے تھے – اسمعیل اور اسحاق میں بائبل کے مطابق ١٣ سال کا فرق تھا قرآن کی سوره الصفافات میں جس طرح بیان ہوا ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ اسمعیل کی قربانی والے واقعہ کے بعد الله نے اسحاق کی بشارت دی
ابراہیم علیہ السلام کی چار زوج یا لونڈیاں تھیں
اول سارہ علیہ السلام – ان پر تمام ابراہیمی ادیان کا کہنا ہے کہ بیوی تھیں بابل کی تھیں
دوم ہاجرہ علیہ السلام ان پر یہود و نصاری کا کہنا ہے کہ یہ لونڈی تھیں جو شاہ مصر نے تحفتا دی – یہ شاہ مصر وہی ہے جو کذب ثلاثہ والی حدیث میں ظالم بادشاہ تھا اور بائبل اور حدیث کا بیان ایک ہے – البتہ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ہاجرہ بیوی تھیں
سوم قطورا ان کا ذکر بائبل میں ہے – حدیث میں ان کا ذکر نہیں ملا البتہ مسلمان مورخین نے ان کا ذکر کیا ہے
چہارم حجورا ان کا ذکر مورخین نے کیا ہے
قطورا پر ایک قول ہے کنعان سے تھیں
المعارف از ابن قتیبہ میں ہے
وتزوّج إبراهيم امرأة من الكنعانيين، يقال لها: قطورا، فولدت له أربعة نفر [1] . وتزوّج أخرى يقال لها: حجورا، فولدت له سبعة نفر./ 18/ فكان جميع ولد إبراهيم ثلاثة عشر رجلا. وعاش إبراهيم مائة وخمسا وسبعين سنة [2] .
ابن اسحاق اور ابن اثیر اور ابن خلدون کا کہنا ہے کنعان کی تھیں نام دیا ہے
قطورا بنت يقطن،
———-
قطورا پر ایک قول ہے یمنی جرهم سے تھیں
البدء والتاريخ
المؤلف: المطهر بن طاهر المقدسي (المتوفى: نحو 355هـ)
المعارف از ابن قتیبہ میں ہے
وتزوّج إبراهيم امرأة من الكنعانيين، يقال لها: قطورا، فولدت له أربعة نفر [1] . وتزوّج أخرى يقال لها: حجورا، فولدت له سبعة نفر./ 18/ فكان جميع ولد إبراهيم ثلاثة عشر رجلا. وعاش إبراهيم مائة وخمسا وسبعين سنة [2] .
قطورا سے ٤ – حجورا سے ٧ – ایک ہاجرہ سے- ایک سارہ سے
– ابن قتیبہ کے مطابق کل ملا کر ١٣ لڑکے ہوئے
حضرت موسیٰ علیہ سلام کو جو کتاب دی گئی کیا اس کا نام قرآن میں آیا ہے اور وہ کس زبان میں تھی – کیا تاریخ میں کچھ ملتا ہے
جواب
موسی کے لئے لوح یا تختی پر لکھا گیا یعنی پتھر کی سل پر یا لکڑی کی تختی پر کیونکہ یہ لکھا جانا عالم ارضی میں ہوا
الله تعالی اپنے عرش پر تھے موسی کوہ طور پر لیکن الله کے حکم سے الفاظ تحتی پر ظاہر ہو رہے تھے
لوح عربی کا لفظ ہے انگلش میں اس کو
Tablet
کہتے ہیں
عالم ارضی کی تمام چیزیں تغیر کا شکار ہیں
قرآن لوح محفوظ میں ہے یہ عالم بالا کی خبر ہے جہاں کسی چیز پر تغیر نہیں اتا اس بنا پر اس کو خاص کرنے کے لئے محفوظ تختی یا محفوظ سل نہیں کہا جاتا بلکہ لوح کہا جاتا ہے
موسی کی توریت یا انجیل یا قرآن یا زبور یہ تمام الکتاب کا جز ہیں جو لوح محفوظ میں عالم بالا میں ہے اس کو الکتاب بھی کہا جاتا ہے – موسی کی کتاب کا نام التوراة کئی بار قران میں آیا ہے – یہود کہتے ہیں یہ معدوم رسم الخط میں تھی جس کو
paleo hebrew alphabet
کہا جاتا ہے
سورۃ یونس
(مکی، آیات 109)
فَاِنْ كُنْتَ فِىْ شَكٍّ مِّمَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ فَاسْاَلِ الَّـذِيْنَ يَقْرَءُوْنَ الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ لَقَدْ جَآءَكَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُـوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَـرِيْنَ
سو اگر تمہیں اس چیز میں شک ہے جو ہم نے تیری طرف اتاری تو ان سے پوچھ لے جو تجھ سے پہلے کتاب پڑھتے ہیں، بے شک تیرے پاس تیرے رب سے حق بات آئی ہے سو شک کرنے والوں میں ہرگز نہ ہو۔
کیا شک کی صورت میں پوچھنے کے لئے یہود اور نصاریٰ سے پوچھنے کا کہا گیا ہے
اور کیا وہ یہود سچی بات کو بتا دیں گے – وہ کیسے سچی بات کو بتا سکتے ہیں
جواب
مشرکین مکہ سے کہا جا رہا ہے کہ یہ قرانی نصحت اس سے قبل اہل کتاب کی کتابوں میں بھی بیان ہوئی ہے
یہاں ورقه بن نوفل اور ان کے جیسے لوگ مراد ہیں
پلیز ان لیکچر کا ضرور جواب دیں – کیوں کہ ان میں نے بہت عقائد ہم مسلمانوں میں بھی ہیں
کیا جن کتب کے حوالے دیے جا رہے ہیں وہ صحیح ہیں
جواب
ان صاحب کے کلام میں بہت اضطراب ہے اور ان کو ان باتوں کی سمجھ نہیں جس پر یہ وڈیو ہے
اول سوال عقائد پر ہوا لیکن ان صاحب نے کلام معاملات اور احکام و شریعت پر شروع کر دیا
دوم تو اپ کو جان لینا چاہے کہ یہ صاحب یہود کے “عقائد” پر بات کرتے کرتے ایک دم نصرانی کتاب یا پاول کی کتب کا حوالہ دینے لگ جاتے ہیں
داڑھی بڑھانا- سر کے بال یا سر ڈھکنا یا ختنہ کرنا یہ عقائد نہیں ہیں یہ احکام ہیں جو اسلام کے بھی احکام ہیں ان کی تشریح الگ ہو سکتی ہے
دھاگہ باندھنا : یہود آجکل ایسا تعویذ کے طور کرتے ہیں – ان کا حوالہ صحیح ہے
لیکن
ان آیات میں تعویز کا ذکر نہیں ہے
Deut. 6:4 ¶ “Hear, O Israel: dThe LORD our God, the LORD is one.2
Deut. 6:5 You eshall love the LORD your God with all your heart and with all your soul and with all your might.
Deut. 6:6 And fthese words that I command you today shall be on your heart.
Deut. 6:7 gYou shall teach them diligently to your children, and shall talk of them when you sit in your house, and when you walk by the way, and when you lie down, and when you rise.
Deut. 6:8 hYou shall bind them as a sign on your hand, and they shall be as frontlets between your eyes.
Deut. 6:9 iYou shall write them on the doorposts of your house and on your gates.
ان آیات کو بطور تعویذ نہیں لٹکایا جاتا
——–
یہود انسان کا قتل فورا کر دیں گے کیونکہ ہے آنکھ کے بدلے آنکھ وغیرہ -یہاں بھی خلط مبحث کر دیا ہے – یہ تو قصاص لینے کا توریت کا حکم ہے – یہ الله کا حکم ہے اس کا خاص ذکر سورہ المائدہ میں ہے کہ یہ الله نے حکم دیا
——
١ Timothy
ایک نصرانی کتاب ہے
تو یہ ان صاحب کے کلام کا اضطراب ہے – پادری نصرانی میں ہوتا ہے – یہود میں نہیں
—-
ان صاحب نے کہا ابراہیم نے کلہاڑی سے بت توڑے – ایسا یہود کی کس کتاب میں لکھا ہے – یہود کا انہوں نے کوئی حوالہ نہیں دیا
میرے علم کے مطابق ایسا ان کی کتب میں نہیں لکھا – یہ قرآن میں ہے
——-
زنا کی سزا رجم ہے اس کا حکم رسول الله نے دیا تو یہ من جانب الله ہے
——
Deutronomy
جنگ کرو – لوگوں کو غلام بنا لو – مال غمیمت حاصل کرو
ارے حد ہو گئی – یہ الله کے حکم کا مذاق اڑا رہا ہے
یہ توریت کا حکم تھا کہ ارض مقدس میں داخل ہو وہاں جا کر قتل ہی کرنا تھا اس پر جب یہود نے محمد شیخ کی طرح سخت سستی دکھائی تو الله نے اس زمین کو چالیس سال ان پر حرام کر دیا
—-
مردے کا چالیس دن سوگ کا ذکر بھی خلط ملط ہے
Gen. 50:1 ¶ Then Joseph fell on his father’s face and wept over him and kissed him.
Gen. 50:2 And Joseph commanded his servants the physicians to wembalm his father. So the physicians embalmed Israel.
Gen. 50:3 Forty days were required for it, for that is how many are required for embalming. And the Egyptians wept for him seventy days.
یوسف علیہ السلام نے مصر میں اپنے خادم مصریوں کو حکم دیا کہ یعقوب کو حنوط کر دیں اس میں ٤٠ دن لگ گئے اور ستر دن تک روتے رہے
یہ یہود نے لکھا ہے یہ اس حنوط کی وجہ سے ہوا
لیکن یہ عموم نہیں ہے خاص ہے
مجھے اس قصے پر شک ہے – لیکن کیا یہود کے نزدیک یہ حکم عام ہے ؟ اس حوالے سے ان کو تلمود کا حوالہ دینا چاہیے تھا
——
نصرانی عقیدہ کا ذکر کیا ہے
Mark 16:19 ¶ So then the Lord Jesus, after he had spoken to them, was taken up into heaven and sat down at the right hand of God.
موصوف نے کہا عیسیٰ کا آسمان پر جانا اور آنا نصرانی عقیدہ ہے
راقم کہتا ہے صحیح بات ہے لیکن یہ مسلمانوں کا بھی عقیدہ ہے کہ عیسیٰ واپس آئیں گے
——–
عیسیٰ نے کہا
Luke 12:49 “I came to cast fire on the earth, and would that it were already kindled!
اس کو تنقیدی انداز میں ذکر کیا ہے
راقم کہتا ہے یہ تو انبیاء کا قول رہا ہے کہ جنگ و جہاد کرو اس میں اشکال کیا ہے
باپ بیٹے کا دشمن ہو بیوی شوہر سے الگ ہو تو یہ کام مکی دور میں ہوا جب لوگوں نے اسلام قبول کیا
——
Luke 14:26 “If anyone comes to me and does not hate his own father and mother and wife and children and brothers and sisters, yes, and even his own life, he cannot be my disciple.
اس کو تنقیدی انداز میں ذکر کیا ہے
راقم کہتا ہے کہ یہ انبیاء کا قول ہے کہ شرک کو چھوڑ دو اور ہم سے اتنی مجبت کرو جو ماں باپ سے بڑھ کر ہو
ایسا حدیث میں بھی ہے
——–
Luke 19:27 But as for these enemies of mine, who did not want me to reign over them, bring them here and slaughter them before me.’”
اس کو تنقیدی انداز میں ذکر کیا ہے
راقم کہتا ہے یہ جہاد کا حکم ہے جو عیسیٰ نے دیا تھا اس میں کوئی اشکال نہیں ہے
جنگ ہوتی ہے تو قتل ہی ہوتا ہے
الله نے قتال کو پسند کیا ہے
——-
١٦: ٤٧ منٹ پر کہا
یہود نے اپنی مملکت کا نام اسرائیل رکھا کیونکہ یہود نے الله تعالی سے کشتی لڑی نعوذ باللہ
The man asked him, “What is your name?”
“Jacob,” he answered.
28 Then the man said, “Your name will no longer be Jacob, but Israel,[a] because you have struggled with God and with humans and have overcome.”
29 Jacob said, “Please tell me your name.”
But he replied, “Why do you ask my name?” Then he blessed him there.
30 So Jacob called the place Peniel,[b] saying, “It is because I saw God face to face, and yet my life was spared.”
یہ حوالہ صحیح ہے – اور یہود پر الله کی مار ہو جو یہ لکھا
——
بنی اسرائیل
اور ہم نے موسٰی کو کتاب دی اور اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنایا کہ میرے سوا کسی کو کارساز نہ بناؤ۔
اس آیت پر ان صاحب کا فہم ہے کہ تمام انسان بنی اسرائیل ہیں ! یہ نہایت عجیب فہم ہے – موسی کو کتاب دی اس کا ذکر توریت کے طور پر قرآن میں موجود ہے
وَكَيْفَ يُحَكِّمُونَكَ وَعِنْدَهُمُ التَّوْرَاةُ فِيهَا حُكْمُ اللَّهِ ثُمَّ يَتَوَلَّوْنَ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ وَمَا أُولَئِكَ بِالْمُؤْمِنِينَ (43) إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآَيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ (44) وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنْفَ بِالْأَنْفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (45)﴾ (سورة المائدة)
اور وہ تجھے کس طرح منصف بنائیں گے حالانکہ ان کے پاس تورات ہے جس میں اللہ کا حکم ہے پھر اس کے بعد ہٹ جاتے ہیں، اور یہ مومن نہیں ہیں۔
ہم نے تورات نازل کی کہ اس میں ہدایت اور روشنی ہے، اس پر اللہ کے فرمانبردار پیغمبر یہود کو حکم کرتے تھے اور اہل اللہ اور علماء بھی اس لیے کہ وہ اللہ کی کتاب کے محافظ ٹھہرائے گئے تھے اور اس کی خبر گیری پر مقرر تھے، سو تم لوگوں سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو اور میری آیتوں کے بدلے میں تھوڑا مول مت لو، اور جو کوئی اس کے موافق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے اتارا ہے تو وہی لوگ کافر ہیں۔
——
۔سورہ بنی اسرائیل میں ہے
وَاٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتَابَ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِّبَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِىْ وَكِيْلًا (2)
اور ہم نے موسٰی کو کتاب دی اور اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنایا کہ میرے سوا کسی کو کارساز نہ بناؤ۔
ذُرِّيَّةَ مَنْ حَـمَلْنَا مَعَ نُـوْحٍ ۚ اِنَّهٝ كَانَ عَبْدًا شَكُـوْرًا (3)
اے ان کی نسل جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا تھا، بے شک وہ شکر گزار بندہ تھا۔
اس پر موصوف کا کہنا ہے کہ نوح کی تمام نسل بنی اسرائیلی ہے جبکہ یہاں ہے کہ بنی اسرائیل اسی نسل میں سے ہیں جو نوح کی ہے
راقم کہتا ہے عرب بھی نوح کی نسل میں سے ہیں
لیکن یہ موصوف اس کو الٹا سیدھا کر کے تمام انسانیت کو نوح کی نسل کہنے کی بجائے تمام کو بنی اسرائیلی قرار دے رہے ہیں جو غلط فہمی ہے
——
سورہ جاثیہ
وَلَقَدْ آتَيْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ
اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب اور حکمت اور نبوت عطا کی اور انہیں پاک رزق عطا کیا اور انہیں تمام دنیا جہان سے فضیلت دی
اس پر موصوف کا کہنا ہے یہ مملکت اسرائیل والوں سے متعلق نہیں ہے – یعنی یہ یہود کے لئے نہیں ہے- موصوف سمجتھے ہیں کہ اگر ان آیات سے مراد یہود لے لئے جائیں تو یہود افضل ہو جاتے ہیں – یہ بھی کج فہمی ہے
راقم کہتا ہے الله نے بنی اسرائیلی انبیاء کو یعنی نسل یعقوب میں انے والے انبیاء کو کتاب دی یعنی زبور انجیل توریت دی عربوں میں تو صرف ایک کتاب قرآن نازل ہوئی ہے – پھر ان کے بنی اسرائیلی انبیاء کو حکومت دی یعنی سلیمان و داود اور موسی کو اور ان کو ارض مقدس دیا جہاں برکت تھی تو یہ احسان نسل یعقوب پر الله نے کیا اس پر ہمارا ایمان ہے – لیکن جو شری ہیں ان کا اس میں ذکر نہیں ہے –
سادہ سوال ہے کہ اسرائیل کون شخص ہے جس کی نسل کی بات ہو رہی ہے موصوف کے نزدیک یہ نوح کی نسل میں کسی مجہول کا لقب ہے جو شاذ و منکر قول ہے
وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ تَهْتَدُوا ۗ قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
الله نے کہا یہودی یا نصرانی نہیں بلکہ ملت ابراہیم کو لو – کیونکہ دور نبوی میں بنی اسرائیل کے دس قبیلے اپنی انفرادیت کھو چکے تھے سب اپنے اپ کو یہودا
Judah
کہواتے تھے اسی سے عربی میں ان کا نام یہود نکلا
اصل میں یہ قبائلی عصبیت کا قول تھا کہ ہم قبیلہ یہود سے ہیں دینی نام نہیں تھا
تو الله نے کہا قبائلی نام تم سب نے اپنا لیا ہے اپنے اپ کو ملت ابراہیم کہو نہ کہ سب ایک قبیلہ بن جاو
جواب
اسرائیل یعقوب علیہ السلام کا لقب ہے قرآن میں ہے
كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلا لِبَنِي إِسْرَائِيلَ إِلا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِيلُ عَلَى نَفْسِهِ مِنْ قَبْلِ أَنْ تُنَـزَّلَ التَّوْرَاةُ قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ
ہر کھانا بنی اسرائیل کے لئے حلال تھا سوائے اس کے جو اسرائیل (یعقوب) نے اپنے اوپر حرام کیا توریت کے نزول سے پہلے پس توریت لاو اس کو پڑھو اگر تم سچے ہو
روایات کے مطابق اس میں اونٹ کا ذکر ہے جو یہود کے بقول حرام ہے اور رسول الله نے اس کو کھایا ہے لہذا یہود نے اعتراض کیا کہ یہ حرام کھانا ہے – الله تعالی نے بتایا کہ یعقوب کا یہ عمل توریت سے قبل تھا اب توریت لاو اس کو پڑھو کہ یہ حرمت کا حکم کہاں ہے
یعنی یہ توریت میں نہیں لکھا ہے
⇑ کیا چوہے مسخ شدہ یہودی ہیں ؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/علم-الحدیث/
قرآن نے اس طرح اثبات کر دیا کہ اسرائیل کوئی غلط نام نہیں ہے بلکہ یعقوب کا نام ہے
اس حوالے سے جو یہودی جاہلوں نے گھڑا اس سے ہم کو کوئی سروکار نہیں ہے
کہ ہم یہ کہنے لگ جائیں کہ یہود بنی اسرائیل یا اسرائیل کے بیٹے نہیں ہیں ہم اسرائیل کے بیٹے ہیں جیسا محمد شیخ کہہ رہے ہیں گویا ہم سب یعقوب کی نسل ہیں
قرآن میں ہے
یونس
وَجَاوَزْنَا بِبَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ الْبَحْرَ فَاَتْبَعَهُـمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُـوْدُهٝ بَغْيًا وَّعَدْوًا ۖ حَتّــٰٓى اِذَآ اَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّهٝ لَآ اِلٰـهَ اِلَّا الَّـذِىٓ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُـوٓا اِسْرَآئِيْلَ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ
(90)
اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کر دیا پھر فرعون اور اس کے لشکر نے ظلم اور زیادتی سے ان کا پیچھا کیا، یہاں تک کہ جب ڈوبنے لگا تو کہا میں ایمان لایا کہ کوئی معبود نہیں مگر جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں فرمانبرداروں میں سے ہوں۔
اس سے ظاہر ہے کہ نبی اسرائیل وہ ہیں جو مصر میں آباد تھے ان کو بچا لیا گیا اور ال فرعون غرق ہوئے
اگر یہ کہا جائے کہ بنی اسرائیل نوح کی نسل تھے تو یہ قول ال فرعون پر بھی صادق اتا ہے کیونکہ تمام عالم نوح کی نسل میں سے ہے
چاہے ہندو ہو یا بدھ مت کا ہو یا مشرک ہو
کیا شیطان جن تھا یا فرشتہ – یہاں قرآن کی کچھ آیات کا حوالہ دیا ہے محمد شیخ صاحب نے
یہ دو آیات پیش کی ہیں
١.
سورۃ البقرۃ
وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلَآئِكَـةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ اَبٰى وَاسْتَكْبَـرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِـرِيْنَ
اورجب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس کہ اس نے انکار کیا اورتکبر کیا اورکافروں میں سے ہو گیا۔
٢.
سورۃ الکھف
وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلَآئِكَـةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ ؕ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّهٖ ۗ اَفَتَتَّخِذُوْنَهٝ وَذُرِّيَّتَهٝٓ اَوْلِيَـآءَ مِنْ دُوْنِىْ وَهُـمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۚ بِئْسَ لِلظَّالِمِيْنَ بَدَلًا
اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو تو سوائے ابلیس کے سب نے سجدہ کیا، وہ جنوں میں سے تھا سو اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی، پھر کیا تم مجھے چھوڑ کر اسے اور اس کی اولاد کو کارساز بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں، بے انصافوں کو برا بدل ملا۔
جواب
ابلیس کے بارے میں ہے
وَكَانَ مِنَ الْكَافِـرِيْنَ
وہ کافروں میں سے تھا
كَانَ مِنَ الْجِنِّ
وہ جن میں سے تھا
اس سے معلوم ہوا کہ ابلیس جن ہی تھا اور کافر جن تھا- جن مومن بھی ہو سکتا ہے جن کا ذکر سورہ جن میں ہے
ابلیس کو کافر کہا گیا
ابلیس کو تخلیق کا علم الله کی طرف سے ہوا جس طرح ہم کو علم ہے کہ ہم کو مٹی سے خلق کیا گیا
یعنی مخلوق جن کو ہم سے پہلے یہ علم دیا گیا کہ ان کو الله کی عبادت کرنی ہے وہ اگ سے پیدا کیے گئے ہیں
—-
اگر ہم کہیں کہ ابلیس فرشتہ تھا تو وہ تو کہتا ہے کہ وہ اگ سے پیدا ہوا گویا فرشتے اگ سے پیدا ہوئے
اور پھر تمام فرشتے جن بن جائیں گے کیونکہ قرآن ہی میں ہے جن اگ سے پیدا ہوئے
یہ مغالطہ در مغالطہ ہے –
لہذا جو معلوم ہے وہ صحیح ہے کہ جنات اگ سے پیدا کیے گئے اور ابلیس جن تھا فرشتہ نہ تھا
میرا خیال ہے کہ الله تعالی نے ایک تو خبر دی کہ وہ مخلوق میں سے جنوں میں سے تھا اور اس کا انکار کرنا اس کو معلوم تھا لہذا الله نے اس کو آزمائش میں ڈالا لیکن الله علیم و خبیر کو علم تھا کہ نتیجہ کیا نکلے گا لہذا ابلیس کی قلبی کیفیت کا ذکر کیا کہ وہ کافروں میں سے تھا
اب اشکال یہ جنم لیتا ہے کہ اگر وہ کافروں میں سے تھا تو وہ جنت میں کیا کر رہا تھا؟ اسی اشکال سے بچنے کے لئے لوگوں نے ترجمہ میں تبدیلی کی جس سے یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے – اس کا جواب یہ ہے کہ ابلیس خود پسندی کا شکار ہو چکا تھا اور جنت تک رسائی پانے کی وجہ سے غرور میں مبتلا ہوا – اس سے قبل متقی تھا لیکن عزت ملنے پر اس میں تکبر آیا اور عناصر اربعہ میں سے اگ کو مٹی پر فوقیت دینے لگا کہ یہ میرا عنصر تخلیق ہے میں سب سے افضل ہوں – الله کے علم میں تھا کہ ابلیس کے قلب میں کیا آ رہا ہے لیکن اس کو اس کے حال پر رہنے دیا اور آدم کی تخلیق کا اعلان کیا کہ جیسے ہی اس میں روح آئے سات آسمان میں سب اس کے آگے سجدے میں جھک جائیں
و الله اعلم
کان من سادی عربی ہے کہ وہ تھا – قرآن عربی میں ہے اور اس میں کوئی اشکال نہیں کہ یہ صغیہ ماضی ہے
——
غلط ترجمہ کرنے والوں نے اس ترجمہ کو صحیح ثابت کرنے کے لئے شرح کی ہے
مثلا تفسیر قرطبی ص ٣١١ میں ہے
https://www.mediafire.com/folder/m2y2373314zsi/تفسیر_قرطبی_ترجمہ_الجامع_لأحكام_القرآن_المعروف_بتفسير_القرطبي_تأليف_أبو_عبد_الله_محمد_بن_أحمد_بن_أبو_بكر_بن_فرح_القرطبي
http://www.mediafire.com/file/g5mstz528hu15h4/سب+سے+پہلے+کون+ترجمہ+الأوائل+لابن+أبي+عاصم+والطبراني+والسيطي+مترجم+محمد+عظیم+حاصلپوری.pdf
کہ اس آیت میں لفظ کان کو لفظ صار لیا جائے کہ وہ ہو گیا جیسا کہ سورہ ہود میں ولد نوح کے لئے ہے
فکان من المغرقین
ابن فورک نے کہا یہ قول غلط ہے – پھر قرطبی نے نقل کیا کہ اکثر تاویل کرنے والوں کا قول ہے کہ الله کے علم میں تھا یہ کفر کرے گا
اس رائے کو قرطبی نے پسند کیا
لیکن اردو مترجم نے اس تفسیر کا ترجمہ کرتے وقت الفاظ قرآن کا ترجمہ ص ٣٠٥ واپس وہی کر دیا ہے کہ وہ کافروں میں سے ہو گیا
——-
ابلیس کو اپ فرشتہ مانیں یا جن دونوں صورتوں میں وہ ایک ذہنی کشمکش میں رہا ہے پہلے مومن تھا اسی لئے جنت میں تھا لیکن جب سجدہ کا وقت آیا اس وقت تک کافر ہو چکا تھا
=======
فكان من المغرقين
سورة الهود ٤٣
DR. GHALI
so he was (among) the drowned.
—–
DR. MUSTAFA KHATTAB, THE CLEAR QURAN
and his son was among the drowned.
—–
YUSUF ALI
and the son was among those overwhelmed in the Flood.
———–
SHAKIR
so he was of the drowned.
———
PICKTHALL
so he was among the drowned.
———-
MUHSIN KHAN
so he (the son) was among the drowned.
ان سب کا ترجمہ ہے کہ وہ غرق ہو جانے والوں میں سے تھا
لیکن اردو میں اس کو ہو گیا ترجمہ کیا گیا ہے
—-
محمد جوناگڑھی
اس نے جواب دیا کہ میں تو کسی بڑے پہاڑ کی طرف پناه میں آجاؤں گا جو مجھے پانی سے بچا لے گا، نوح ﴿علیہ السلام﴾ نے کہا آج اللہ کے امر سے بچانے واﻻ کوئی نہیں، صرف وہی بچیں گے جن پر اللہ کا رحم ہوا۔ اسی وقت ان دونوں کے درمیان موج حائل ہوگئی اور وه ڈوبنے والوں میں سے ہوگیا
الله تعالی نے
فرشتوں کو حکم کیا گیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سوال ہے کہ ابلیس کو کیوں طنز و تشنیع کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ حکم تو اس جنس کے لئے نہیں تھا – اس اشکال کی بنیاد کر بعض کا کہنا ہے کہ ابلیس فرشتہ تھا اور پھر نکتہ سنجی کی کہ اگ کی قسمیں ہیں – جنات کی اگ الگ تھی اور ابلیس کی اگ الگ
راقم کہتا ہے یہ جھل صریح ہے قرآن میں ہے
وَالْجَانَّ خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَارِ السَّمُومِ
اور جن کو نار سموم سے خلق کیا گیا
اور قرآن میں ہے
وخلق الجان من مارج من نار
اور جنات کو اگ کی لفٹوں سے پیدا گیا
اس طرح اگر ہم تقسیم کریں تو ہم قرآن سے ہی کئی قسم کے انسان پیدا کر دیں گے وہ جن کو مٹی سے پیدا کیا گیا وہ جن کو سنسناتی مٹی سے پیدا کیا گیا وہ جن کو گیلی مٹی سے پیدا کیا گیا وہ جن کو سڑی ہوئی مٹی سے پیدا کیا گیا اور ہے بار ان سب کو فرستوں سے سجدہ کرایا گیا – ظاہر ہے یہ قول غلط ہے تو اسی طرح جنات کی تقسیم بھی نہیں کی جا سکتی
یہ قول کہ ابلیس فرشتہ تھا یہ قول یہود کا ہے جو فالن انجیل
Fallen Angels
کا تصور رکھتے ہیں
اب جب ابلیس کافر ہو گیا تو اس کے بعد اس کا آنا جانا جنت میں کسیے ہو گیا – اور وہ حضرت آدم علیہ سلام اور اماں حوا علیہ سلام کو ورغلا گیا – ایک کافر کیسے جنت کے مزے لیتا رہا
جب اس کو کافر ڈکلئیر کر دیا گیا تو پھر یہ بات کہاں سے آ گئی
کیا کافر جنت کی سیر کرتا رہا
پلیز اس کی وضاحت کر دیں
جواب
اپ نے پہلے کہا تھا کہ کہ ابلیس فرشتہ تھا کافروں میں سے ہو گیا – اس موقف پر بھی یہی سوال آئے گا یعنی دونوں صورتوں میں یہ بات پیدا ہو گی کہ ابلیس اگر کافر ہو گیا تو جنت میں کیسے اتا رہا؟ جواب : اس کا قرآن میں کوئی ذکر نہیں کہ کیسے اتا رہا – ہم قرائن کی بنیاد پر کہیں گے کہ الله نے اس کو چھوٹ کا وعدہ دے دیا تھا کہ وہ آدم و بنی آدم کو بہکا سکتا ہے لہٰذا اس وعدہ الہی کی عملی شکل کے طور پر جنت تک اس کی رسائی پر قدغن نہیں لگائی گئی
و اللہ اعلم
سورۃ الصف
وَاِذْ قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَـمَ يَا بَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّـٰهِ اِلَيْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَىَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ يَّاْتِىْ مِنْ بَعْدِى اسْمُهٝٓ اَحْـمَدُ ۖ فَلَمَّا جَآءَهُـمْ بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ مُّبِيْنٌ
(6)
اور جب عیسٰی بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل! بے شک میں اللہ کا تمہاری طرف رسول ہوں (اور) تورات جو مجھ سے پہلے ہے اس کی تصدیق کرنے والا ہوں اور ایک رسول کی خوشخبری دینے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا اس کا نام احمد ہو گا، پس جب وہ واضح دلیلیں لے کر ان کے پاس آگیا تو کہنے لگے یہ تو صریح جادو ہے۔
اب اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ بنی اسرائیل صرف یہود اور نصاریٰ ہی ہیں تو یہ گروہ جو بنی اسرائیل سے ہی ہے جو ایمان لایا اور غالب رہا وہ کہاں گیا – الله نے ان کو تم جہانوں پر فضیلت دی
جواب
سورہ بقرہ میں مخاطب بنی اسرائیلی یہود ہیں نہ کہ نصرانی کیونکہ دور نبوی میں نصرانی کسی نسل کے لوگ نہیں تھے ان میں رومی شامل تھے افریقی بھی تھے چینی میں بھی تھے اور عربوں میں بھی نصرانی تھے لہذا فضیلت بنی اسرائیل سے مراد نصرانی نہیں یہود ہیں
الله نے بنی اسرائیل کو فضیلت دی تو وہیں ذکر ہے کہ ان کو فرعون سے نجات دی- یہ ہے ان کی فضیلت -ان کو من و سلوی دیا جبکہ دیگر امتوں کو یہ نہیں ملا – اس وقت بنی اسرائیل میں کافر مشرک گوسالہ پرست مومن سبھی تھے – مصر سے یہ سب نکلے تھے موسی نے فرعون سے کہا
کہ بنی اسرائیل کو جانے دے جبکہ موسی پر مصر میں چند لوگ ایمان لائے تھے
سوره يونس مين ہے
فَمَا آمَنَ لِمُوسَىٰ إِلَّا ذُرِّيَّةٌ مِّن قَوْمِهِ عَلَىٰ خَوْفٍ مِّن فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِمْ أَن يَفْتِنَهُمْ ۚ
پس موسیٰ ( علیہ السلام ) پر ان کی قوم میں سے صرف قدرے قلیل آدمی ایمان لائے وہ بھی فرعون سے اور اپنے حکام سے ڈرتے ڈرتے کہ کہیں ان کو تکلیف پہنچائے
سورہ طہ میں ہے الله نے موسی و ہارون کو حکم کیا
فَاْتِيَاهُ فَقُوْلَآ اِنَّا رَسُوْلَا رَبِّكَ فَاَرْسِلْ مَعَنَا بَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ وَلَا تُعَذِّبْـهُـمْ
اس کے پاس جاو اور کہو ہم دونوں تمہارے رب کے رسول ہیں ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو جانے دو ، اور انہیں عذاب و تکلیف سے دوچار نہ کرو
یہان بنی اسرائیل میں تمام قوم مراد ہے صرف ایمان والے چند لوگ مراد نہیں ہیں
تو ان لوگوں پر الله نے احسان کیا ان کو عذاب سے نجات دی من و سلوی دیا جبکہ یہ ملے جلے لوگ مومن و مشرک سب تھے
پھرباوجود ان میں تمام مسلم نہ تھے الله نے ارض مقدس ان کے لئے لکھ دی وہاں ان پر سرکشی کی وجہ سے عذاب بھی آیا ان کو غلام بنایا گیا اور ان سب کو یہود کا نام ملا کیونکہ جو قبیلہ باقی رہا اس کا نام ان کو ملا باقی گیارہ قبائل منتشر ہو گئے – اس وجہ سے آج یہود بھی اپنے اپ کو اسی قبیلہ سے روشناس کراتے ہیں
———
اسی حال میں ان میں عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت ہوئی اور یہود دو گروہوں میں بٹ گئے ایک عیسیٰ کو حق پر ماننے والا دوسرا ان کو فراڈ قرار دینے والا – اس میں جو عیسیٰ کو حق مانتا تھا وہ باقی رہا ان کے مخالف ان کو قتل نہ کر سکے اور عیسیٰ بھی بچ گئے اس کا ذکر سورہ صف میں ہے کہ حواریوں کو ظالم یہودی قتل نہ کر سکے بلکہ یہود پر رومیوں کا عذاب آیا ان کا قتل ہوا اور رومیوں نے نصرانی مذھب قبول کر لیا
قرآن میں ہے کہ عیسیٰ کی وجہ سے بنی اسرائیل کا اک گروہ ایمان لایا اور ایک نے کفر کیا – یہ صرف بنی اسرائیل میں تفریق کا ذکر ہے پھر وہ جو مومن بنی اسرائیل کا گروہ تھا اس کو تمام عالم پر فضیلت نہیں دی اس کو اس کافر دشمن یہودی و بنی اسرائیلی گروہ پر مدد دی گئی
فَاَيَّدْنَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا عَلٰى عَدُوِّهِـمْ فَاَصْبَحُوْا ظَاهِرِيْنَ
——
آج یہود سے مراد وہ لوگ ہیں جو عیسیٰ اور محمد علیہما السلام کی نبوت کے انکاری ہیں اور قرآن میں بھی ان کو یہود ہی کہا گیا ہے
وہ گروہ بنی اسرائیل جو عیسیٰ کا ماننے والا تھا وہ وقت کے ساتھ معدوم ہو گیا اور ان میں الوہیت عیسیٰ کا عقیدہ پیدا ہوا اس کا ذکر بھی قرآن سورہ مریم میں ہے
فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا
جواب
عام آدمی یا آدم علیہ السلام کے لئے جب روح کا لفظ اتا ہے تو اس سے مراد انسانی روح ہے
اس آیت میں اس کا ذکر ہے
سورۃ ص
فَاِذَا سَوَّيْتُهٝ وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِىْ فَقَعُوْا لَـهٝ سَاجِدِيْنَ
(72)
پھرجب میں اسے پورے طور پر بنا لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو اس کے لیے سجدہ میں گر پڑنا۔
——–
روح سے مراد الله کا امر یا حکم ہے
سورۃ الاسراء
وَيَسْاَلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ ۖ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّىْ وَمَآ اُوْتِيْتُـمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا
(85)
اور یہ لوگ تجھ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں، کہہ دو روح میرے رب کے حکم میں سے ہے اور تمہیں جو علم دیا گیا ہے وہ بہت ہی تھوڑا ہے۔
میرے نزدیک زیادہ صحیح یہ ہے کہ یہ آیت الروح یا امر یا الوحی سے متعلق ہے نہ کہ انسانی روح سے متعلق
سورۃ النحل
يُنَزِّلُ الْمَلَآئِكَـةَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰى مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٓ ٖ اَنْ اَنْذِرُوٓا اَنَّهٝ لَآ اِلٰـهَ اِلَّآ اَنَا فَاتَّقُوْنِ
(2)
وہ اپنے بندوں سے جس کے پاس چاہتا ہے فرشتوں کو روح (یا امر) دے کر بھیج دیتا ہے یہ کہ خبردار کردو کہ میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں پس مجھ سے ڈرتے رہو۔
سورۃ غافر
رَفِـيْعُ الـدَّرَجَاتِ ذُو الْعَرْشِۖ يُلْقِى الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰى مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ لِيُنْذِرَ يَوْمَ التَّلَاقِ
(15)
وہ اونچے درجوں والا عرش کا مالک ہے، اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے روح اپنے حکم سے ڈالتا ہے تاکہ وہ ملاقات (قیامت) کے دن سے ڈرائے۔
سورة الشورى
وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا ۚ مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَـٰكِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِي بِهِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا ۚ وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
﴿٥٢﴾
ہم نے اپنے حکم سے ایک روح تمہاری طرف وحی کی ہے – تمہیں کچھ پتہ نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے، مگر اُس روح (الله کی الوحی ) کو ہم نے ایک روشنی بنا دیا جس سے ہم راہ دکھاتے ہیں اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں یقیناً تم سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر رہے ہو
سورۃ النحل
يُنَزِّلُ الْمَلَآئِكَـةَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰى مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٓ ٖ اَنْ اَنْذِرُوٓا اَنَّهٝ لَآ اِلٰـهَ اِلَّآ اَنَا فَاتَّقُوْنِ
(2)
وہ اپنے بندوں سے جس کے پاس چاہتا ہے فرشتوں کو روح (وحی) دے کر بھیج دیتا ہے یہ کہ خبردار کردو کہ میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں پس مجھ سے ڈرتے رہو۔
ان سب میں روح کو امر یا حکم یا الوحی کے مترادف بیان کیا گیا ہے
اپ نے جو ترجمے دیے ہیں ان میں نے تصحیح کی ہے کیونکہ لوگوں نے روح کے لفظ کو ترجمہ سے نکال دیا تھا
——
قرآن میں ایک اور مفہوم میں بھی روح کا لفظ ہے – یہ الروح اس سے الگ ہے جس کا ذکر الوحی کے حوالے سے قرآن میں ہے – تمام عالم فرشتوں سے بھرا ہے – ہمارے ساتھ کراما کاتبین ہیں اور جتنے انسان ہیں اتنے ہی فرشتے یا اس زائد اس عالم ارضی میں ہوئے
یہ سب الله کے حکم پر عمل کر رہے ہیں اور آسمان پر چڑھتے اترتے ہیں لیکن ان میں سب سے زیادہ جس فرشتے کو اہمیت ہے وہ جبریل ہیں جو الوحی پر مقرر تھے یا کوئی ایسا خاص حکم ہو غیر نبی کو کیا جائے- اس لئے ان کو خاص کر نے کے لئے روح القدس کہا جاتا ہے –
یہودی روح القدس سے مراد بھی الوحی کا آنا لیتے ہیں اور اس کو ناموس بھی کہا جاتا ہے
ناموس
Nomos
یونانی لفظ ہے جو نیک روح کا ترجمہ ہے –
اور عربی لغت مختار الصحاح کے مطابق عرب اہل کتاب اس کو روح القدس کے لئے بولتے ہیں اس سے مراد جبریل ہیں
یہ لفظ ورقه بن نوفل نے رسول الله سے بولا تھا کہ تم پر ناموس آیا ہے
اور ٨٩ بار یہ ناموس کا لفظ عہد نامہ جدید میں پاول کے خطوط میں آیا ہے
زبور کتاب ٥١ آیت ١١ میں روح القدس کا لفظ ہے
Psa. 51:11 Cast me not away from your presence, and take not your Holy Spirit from me.
اب قرآن کو دیکھتے ہیں اس میں بھی یہی مفہوم ہے کہ روح القدس فرشتہ ہے جو الوحی لاتا ہے اور قرآن کہتا ہے یہ جبریل ہیں
قرآن مين سورہ بقرہ میں اس کی وضاحت کی گئی
قل من كان عدوا لجبريل فإنه نزله على قلبك بإذن الله
کہ یہ جبریل ہیں جو قلب محمد پر اس کو نازل کر رہے ہیں
یعنی جبریل جب الوحی یا حکم لے کر جائیں تو اس وقت وہ روح القدس کہلاتے ہیں
سورۃ النحل
قُلْ نَزَّلَـهٝ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ لِيُـثَبِّتَ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَهُدًى وَبُشْـرٰى لِلْمُسْلِمِيْنَ
(102)
اِن سے کہو کہ اِسے تو روح القدس نے ٹھیک ٹھیک میرے رب کی طرف سے بتدریج نازل کیا ہے تاکہ ایمان لانے والوں کے ایمان کو پختہ کرے اور فرماں برداروں کو زندگی کے معاملات میں سیدھی راہ بتائے اور اُنہیں فلاح و سعادت کی خوش خبری دے
یہی روح جبریل ہیں جو عیسیٰ پر بھی نازل ہوئے
سورۃ البقرۃ
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهٖ بِالرُّسُلِ ۖ وَاٰتَيْنَا عِيْسَى ابْنَ مَرْيَـمَ الْبَيِّنَاتِ وَاَيَّدْنَاهُ بِـرُوْحِ الْقُدُسِ ؕ اَفَكُلَّمَا جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ بِمَا لَا تَهْوٰٓى اَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَـرْتُـمْ فَفَرِيْقًا كَذَّبْتُـمْ وَفَرِيْقًا تَقْتُلُوْنَ
(87)
اور بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اس کے بعد بھی پے در پے رسول بھیجتے رہے، اور ہم نے عیسیٰ مریم کے بیٹے کو نشانیاں دیں اور روح القدس سے اس کی تائید کی، کیا جب تمہارے پاس کوئی رسول وہ حکم لایا جسے تمہارے دل نہیں چاہتے تھے تو تم اکڑ بیٹھے، پھر ایک جماعت کو تم نے جھٹلایا اور ایک جماعت کو قتل کیا۔
ان کو الروح الامین بھی کہا جاتا ہے
سورۃ الشعراء
نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ
(193)
اسے لے کر تیرے دل پر امانت دار روح اتری ہے
لیلہ القدر میں بھی جبریل کا حکم کے ساتھ نزول ہوتا ہے
سورۃ القدر
تَنَزَّلُ الْمَلَآئِكَـةُ وَالرُّوْحُ فِيْـهَا بِاِذْنِ رَبِّـهِـمْ مِّنْ كُلِّ اَمْرٍ
(4)
اس میں فرشتے اور روح نازل ہوتے ہیں اپنے رب کے حکم سے ہر کام پر۔
——
غیر نبی مریم علیہ السلام پر بھی فرشتہ آیا
سورۃ مریم
فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِـهِـمْ حِجَابًاۖ فَاَرْسَلْنَـآ اِلَيْـهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَـهَا بَشَـرًا سَوِيًّا
(17)
اور لوگوں کی طرف پردہ ڈال دیا تو ہم نے اپنی روح کو بھیجا جو ان کے سامنے ایک آدمی بن کر پیش ہوا
یہ فرشتہ بشر کی صورت حاضر ہوا
سورۃ مریم
فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِـهِـمْ حِجَابًاۖ فَاَرْسَلْنَـآ اِلَيْـهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَـهَا بَشَـرًا سَوِيًّا
(17)
اور لوگوں کی طرف پردہ ڈال دیا تو ہم نے اپنی روح کو بھیجا جو ان کے سامنے ایک آدمی بن کر پیش ہوا
یہاں روح الله کا کلام نہیں ہے ورنہ یہ نصرانی عقیدہ ہو جائے گا کہ الله کا کلام عیسیٰ کی صورت بن گیا لہذا روح سے مراد فرشتہ ہے نہ کہ امر – اسی روح کے مسئلہ کو نہ سمجھ پانے کی وجہ سے نصرانی عقیدہ ہے کہ الله کا کلام (لوگوس) غیر مخلوق ہے وہ امر تھا جو روح القدس تھا مجسم ہوا اور روح بن کر مریم کے بطن میں اتر گیا اس بنا پر ان کا کفریہ عقیدہ ہے کہ نعوذ باللہ – الله – باپ بیٹا اور روح القدس ہیں
لب لباب ہوا کہ روح کا لفظ تین مفاہیم میں اتا ہے
اول روح بطور انسانی روح
دوم بطور الله کا امر جو انبیاء پر آیا
سوم روح بطور روح القدس جو جبریل علیہ السلام ہیں
روح پھونکنا الله کا کام ہے جیسے اس نے حضرت آدم علیہ سلام میں پھونکی – بد قسمتی سے ہمارے ہاں روح کو ایک ہی چیز بنا کر پیش کیا گیا -اور ترجمہ میں ڈنڈیاں ماری گئی
سورۃ التحریم
وَمَرْيَـمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِىٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيْهِ مِنْ رُّوْحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَاتِ رَبِّهَا وَكُـتُبِهٖ وَكَانَتْ مِنَ الْقَانِتِيْنَ
(12)
اور مریم عمران کی بیٹی (کی مثال بیان کرتا ہے) جس نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا پھر ہم نے اس میں اپنی طرف سے روح پھونکی اور اس نے اپنے رب کی باتوں کو اور اس کی کتابوں کو سچ جانا اور وہ عبادت کرنے والو ں میں سے تھی۔
اس آیت میں الله خود کہہ رہا ہے کہ ہم نے اپنی طرف سے اس میں روح پھونکی
جواب
جو آیات دیں ان کو ملا کر دیکھیں فرشتہ مریم علیہ السلام کے پاس آیا ان کے سامنے ایک بشر کی صورت ظاہر ہوا مریم نے اللہ کی پناہ مانگی – فرشتے نے خبر دی کہ وہ الله کا فرشتہ ہے ان کو بیٹا دینے آیا ہے اور اس نے الله کے حکم سے روح عیسیٰ ان کے بطن میں پھونک دی
فَنَفَخْنَا فِيْهِ مِنْ رُّوْحِنَا
ہم نے اس میں اپنی روحوں میں سے ایک روح پھونک دی
ممکن ہے کہ یہ ایسا ہی ہو جیسا کہ ہر ماں کے پیٹ میں فرشتہ آ کر روح پھونکتا ہے
لیکن مریم کے بطن میں جو مادہ خلق ہوا اور عیسیٰ کا جسم بنا جس میں روح ڈالی گئی وہ خالصتا الله کا کام تھا
اس کی وجہ ہے کہ قرآن میں ہے
قَالَ اِنَّمَآ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّكِۖ لِاَهَبَ لَكِ غُلَامًا زَكِيًّا
فرشتے نے کہا میں آیا ہوں کہ تجھ کو ایک پاک لڑکا دوں
فرشتہ نے لڑکا دیا – یہاں خبریہ نہیں ہے کہ الله بیٹا دے رہا ہے بلکہ فرشتہ نے اس کو اپنی طرف مضاف کیا ہے اور کہا ہے میں بیٹا دے رہا ہوں اور الله تعالی نے اس کو بیان کیا
اس میں کوئی اشکال نہیں ہے الله تعالی کیا فرشتوں سے کام نہیں لیتا؟ یقینا لیتا ہے اور پھر اس کی نسبت اپنی طرف کرتا ہے کیونکہ فرشتہ الله کے حکم کے علاوہ کچھ اور نہیں کرتا
اختلاف قرات میں اس آیت کو الگ الگ پڑھا جاتا ہے – قرآن کی دس متواتر قرات کو دیکھا جائے تو یہ معاملہ حل ہو جاتا ہے
قرأ أبو عمرو ونافع في رواية ورش وقالون عنه (ليهب لك) بالياء (ربك غلاما) الباقون (لاهب) بالهمزة
http://www.hodaalquran.com/rbook.php?id=10432&mn=1
—–
اہل مدینہ کی قرات : نافع بن عبد الرحمن بن أبي نعيم المدني المتوفی ١٦٩ ھ ان کی قرات کی سند ابی بن کعب اور ابو ہریرہ رضی الله عنہما تک جاتی ہے ان کی قرات کی سند قالون سے ہے اور ورش سے ہے
اہل بصرہ کی قرات : أبو عمرو بن العلاء البصري المتوفی ١٦٨ ھ کی قرات کی سند سعید بن جبیر اور مجاہد تک جاتی ہے
ان سب کی قرات میں ہے
ليهب لك غلام زكيأ
کہ وہ (الله) تجھ کو ایک لڑکا دے
————-
باقی جن میں عاصم بن بھدلہ کی قرات ہے اس میں ہے
لِأَهَبَ لَكِ غُلَامًا زَكِيًّا
کہ میں تجھ کو لڑکا دوں
یعنی جبریل نے الله کے حکم سے روح پھونکی – اس کو تشریحی اختلاف کہا جا سکتا ہے
سورۃ یونس
وَمَا كَانَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ اَنْ يُّفْتَـرٰى مِنْ دُوْنِ اللّـٰهِ وَلٰكِنْ تَصْدِيْقَ الَّـذِىْ بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيْلَ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيْهِ مِنْ رَّبِّ الْعَالَمِيْنَ
(37)
https://www.youtube.com/watch?v=UXCEFgqJsVY&feature=em-subs_digest
جواب
اور یہ قرآن الله کے سوا اور کون گھڑ سکتا ہے – بلکہ یہ تو تصدیق ہے جو تمہارے سامنے ہے اور الکتاب کی تفصیل ہے جس میں شک نہیں ہے کہ رب العالمین کی طرف سے ہے
الکتاب وہی عالم بالا میں لوح محفوظ کی طرف اشارہ ہے کہ یہ قرآن جو زمین پر آ رہا ہے وہ الکتاب کی تفصیل ہے
ان کو یہاں اشتباہ ہوا ہے یہاں پڑھائی یا لکھائی کا کوئی ذکر نہیں ہے – قرآن کا مطلب پڑھنے والی چیز ہے اس کو کتاب بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ جب مکمل ہو گی تو کتاب کی شکل میں ہو گی مثلا سورہ بقرہ میں ہے
یہ کتاب ہے جس میں شک نہیں
جبکہ اس وقت تک قرآن کتاب کی شکل میں نہیں تھا اور مکمل بھی نہیں ہوا تھا صرف مکی سورتیں تھیں
سابقہ کتاب سماوی کو بھی اللہ نے قرآن ہی کہا ہے مثلا توریت کو قرآن کہا ہے
سورۃ یونس
وَمَا كَانَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ اَنْ يُّفْتَـرٰى مِنْ دُوْنِ اللّـٰهِ وَلٰكِنْ تَصْدِيْقَ الَّـذِىْ بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيْلَ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيْهِ مِنْ رَّبِّ الْعَالَمِيْنَ
یہاں بَيْنَ يَدَيْهِ سے مراد کتاب سماوی کب ہوا – اگر ایسی بات ہے تو کتب کے نام کیوں لئے گیۓ
جواب
بَيْنَ يَدَيْهِ عربی میں محاورہ ہے یعنی جو چیز سامنے ہو یا لفظی ترجمہ کریں تو ہو گا جو ہاتھوں کے درمیان ہے
ظاہر ہے جو چیز اپ کے ہاتھ میں ہو وہ اپ کی نظر کے سامنے ہو گی
لغت میں اس کا ترجمہ
ہاتھوں میں یا سامنے کیا گیا ہے
https://www.almaany.com/en/dict/ar-en/بَيْنَ-يَدَيْهِ/
اس کا ترجمہ
before
بھی کیا گیا ہے یعنی
put before
کے مفہوم میں کہ سامنے رکھنا
یہ الفاظ بہت بار قرآن میں آئے ہیں
قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ
سورہ بقرہ
٩٧
—–
نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَأَنْزَلَ التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ
سورہ ال عمران
٣
—–
مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ وَآتَيْنَاهُ الْإِنْجِيلَ فِيهِ هُدًى وَنُورٌ وَمُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةً لِلْمُتَّقِينَ
سورہ مائدہ
٤٦
—–
وَهَذَا كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ مُصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ
سورہ الانعام
—
الغرض وہ کتاب سماوی جو پہلے سے اہل کتاب کے پاس ہیں ان کو بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ کہا گیا یعنی یہود کے ہاتھوں میں جو توریت ہے یعنی یہ انسانوں کی بات ہو رہی ہے
==============
اپ نے جو لنک بھیجا ہے
اس میں اس محمد شیخ نے ترجمہ ١:١٢ منٹ کیا ہے
یہ پڑھائی الله کے علاوہ کوئی نہیں جو اس کو گھڑ لے لیکن تصدیق کرتی ہے جو اس کے دونوں ہاتھوں کے درمیان ہے
کس کے ہاتھوں کے درمیان ہے ؟ رسول الله یا اہل کتاب ؟ کا کے ہاتھوں کی بات ہو رہی ہے
مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ وَآتَيْنَاهُ الْإِنْجِيلَ فِيهِ هُدًى وَنُورٌ وَمُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةً لِلْمُتَّقِينَ
سورہ مائدہ ٤٦ میں وضاحت آ گئی کہ اہل کتاب کے ہاتھوں میں جو ہے ان کی کتب سماوی التَّوْرَاةِ کی بات ہو رہی ہے
وَقَفَّيْنَا عَلٰٓى اٰثَارِهِـمْ بِعِيْسَى ابْنِ مَرْيَـمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ ۖ وَاٰتَيْنَاهُ الْاِنْجِيْلَ فِيْهِ هُدًى وَّنُـوْرٌۙ وَّمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ وَهُدًى وَّمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِيْنَ (46)
اور ہم نے ان کے پیچھے انہیں کے قدموں پر مریم کے بیٹے عیسیٰ کو بھیجا جو اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا تھا، اور ہم نے اسے انجیل دی جس میں ہدایت اور روشنی تھی، ان کے پاس جو تورات ہے اس کی تصدیق کرنے والی تھی اور وہ راہ بتانے والی تھی اور ڈرنے والوں کے لیے نصیحت تھی۔
سورہ مائدہ ٤٦ میں وضاحت آ گئی کہ اہل کتاب کے ہاتھوں میں جو ہے ان کی کتب سماوی التَّوْرَاةِ کی بات ہو رہی ہے
بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ
یہاں نام موجود ہے کہ عیسیٰ نے تصدیق کی توریت کی جو ان کے ہاتھوں میں ہے یا سامنے ہے
یہی کام رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا توریت کی تصدیق کی کہ اللہ کی کتاب ہے
جواب
ایک قول ہے کہ ان پر نیند طاری کی گئی اور اٹھا لیا گیا دوسرا ہے کہ ان کو قبضہ میں لے کر اٹھایا گیا موت نہیں ہوئی تیسرا ہے کہ تین ساعتوں کے موت طاری کی گئی اس میں اٹھایا گیا
ان سب کے مطابق عیسیٰ کی اصل موت واقع نہیں ہوئی
—–
ایک منقطع السند قول ابن عباس سے مروی ہے کہ موت واقع ہوئی
لیکن علی بن ابی طلحہ کا سماع ابن عباس سے نہیں ہے
لہذا صحیح توفی کا ظاہری مطلب ہی ہے کہ زندہ قبضہ میں لیا بلند کیا گیا
وَاِذْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتَابَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ
اور ہم نے موسی کو کتاب فرق کرنے والی دی کہ تم ہدایت لو
سورۃ آل عمران
مِنْ قَبْلُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَاَنْزَلَ الْفُرْقَانَ ۗ اِنَّ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيَاتِ اللّـٰهِ لَـهُـمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌ ۗ وَاللّـٰهُ عَزِيْزٌ ذُو انْتِقَامٍ
جواب
سورۃ البقرۃ
وَاِذْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتَابَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ
اور ہم نے موسی کو کتاب فرق کرنے والی دی کہ تم ہدایت لو
یہاں واو عطف ہے جو تفسیر کر رہا ہے – یہ عربی کا انداز ہے اس واو کو اور کے مفہوم میں نہیں لیا جاتا بلکہ تشریحی لیا جاتا ہے خیال رہے کہ اس دور میں فل اسٹاپ یا کاما نہیں تھے
سورۃ آل عمران
نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَأَنزَلَ التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ
مِنْ قَبْلُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَاَنْزَلَ الْفُرْقَانَ ۗ اِنَّ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيَاتِ اللّـٰهِ لَـهُـمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌ ۗ وَاللّـٰهُ عَزِيْزٌ ذُو انْتِقَامٍ
اس نے تم پر کتاب نازل کی حق کے ساتھ تصدیق کرنے والی جو ان کے ہاتھوں میں ہے اور نازل کیا توریت و انجیل کو * اس سے قبل اس نے انسانوں کی ہدایت کے لئے اور نازل کیا فرق کرنے والی کو- جو اللہ کی آیات کا کفر کرتے ہیں ان کے لئے شدید عذاب ہے اور الله زبردست انتقام لینے والا ہے
نوٹ یہاں آیت کو بیچ میں سے توڑا گیا ہے لیکن اس کا متن پچھلی آیت سے جڑا ہے
فرق کرنے والی کتاب توریت و قرآن ہے یہ اس کی خاص بات ہے اس لئےقرآن میں وضاحت کے طور پر ذکر کیا ہے
سورۃ الانبیاء
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰى وَهَارُوْنَ الْفُرْقَانَ وَضِيَـآءً وَّذِكْرًا لِّلْمُتَّقِيْنَ
اور بے شک ہم نے موسی و ہارون کو فرق کرنے والی اور روشنی اور نصحت متقییوں کے لئے دی
سورۃ الفرقان
تَبَارَكَ الَّـذِىْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِيَكُـوْنَ لِلْعَالَمِيْنَ نَذِيْـرًا
با برکت ہے وہ جس نے فرق کرنے والی کو نازل کیا اپنے بندے پر کہ تمام عالمین کے لئے ڈرانے والی ہو
سورۃ آل عمران
وَاِنَّ مِنْـهُـمْ لَفَرِيْقًا يَّلْوُوْنَ اَلْسِنَتَـهُـمْ بِالْكِتَابِ لِتَحْسَبُوْهُ مِنَ الْكِتَابِ وَمَا هُوَ مِنَ الْكِتَابِۚ وَيَقُوْلُوْنَ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّـٰهِ وَمَا هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّهِۚ وَيَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّـٰهِ الْكَذِبَ وَهُـمْ يَعْلَمُوْنَ
اور ان میں ایک گروہ ہے جو کتاب میں زبان کی کروٹ کرتا ہے کہ گمان کریں کہ وہ کتاب میں سے ہے جبکہ وہ اس میں سے نہیں ہے اور کہتے ہیں یہ الله کی طرف سے ہے اور جنکہ وہ اللہ کی طرف سے نہیں ہوتا اور یہ الله پر جھوٹ بولتے ہیں اور یہ جانتے ہیں
فرقان یا روشنی یا نصحت ایک ہی چیز پر واو عطف لگا کر شرح کی گئی ہے یعنی کتاب الله توریت
اس واو کا ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیں- کر دیں تو بھی مطلب اس کا شرح ہے -مثلا
(قد جاءكم من الله نور وكتاب مبين ) المائدة (١٥ )
الله کی طرف سے تمھارے پاس نور اور کتاب مبین آ چکے
بریلوی کہتے ہیں یہ واو الگ کرتا ہے کتاب الله الگ ہے نور الگ ہے اور وہ رسول الله ہیں ہم اس طرح کی تمام واو کو تفسیر کہتے ہیں
یہی اصول یہاں بھی ہے کہ اس واو میں تشریح کی گئی ہے
عرب نحوی أبو جعفر النَّحَّاس المتوفى: 338هـ کی کتاب إعراب القرآن کی کتاب میں ہے
وَالْفُرْقانَ عطف على الكتاب. قال الفراء: وقطرب «1» : يكون وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ أي التّوراة، ومحمدا صلّى الله عليه وسلّم الفرقان. قال أبو جعفر: هذا خطأ في الإعراب والمعنى، أما الإعراب فإن المعطوف على الشيء مثله وعلى هذا القول يكون المعطوف على الشيء خلافه، وأما المعنى فقد قال فيه جلّ وعزّ: وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسى وَهارُونَ الْفُرْقانَ
اور فرقان واو عطف ہے – الفراء کا کہنا ہے ممکن ہے کہ موسی کو کتاب توریت دی اور محمد صلی الله علیہ وسلم کو فرقان – أبو جعفر النَّحَّاس نے کہا یہ قول معنی اور اعراب میں غلط ہے – تو اعراب میں ہے کہ جس چیز کی طرف معطوف کیا جائے وہ اسی کی جیسی ہو اور اس الفراء کے قول میں ہو جاتا ہے کہ معطوف الگ ہے (یعنی توریت و فرقان کو الگ کرنا) اور معنی میں غلطی یہ ہے کہ الله تعالی نے کہا بے شک ہم نے موسی و ہارون کو فرقان دیا
یعنی ابو جعفرالنَّحَّاس کے مطابق جو ترجمہ میں کر رہا ہوں وہ صحیح ہے
کتاب اور فرقان ایک ہی ہے
اور محمد شیخ نے بھی ان کو مخنث ثابت کرنے کی کوشش کی ہے
http://www.muhammadshaikh.com/urdu_pdf/maryam_pbuh.pdf
جواب
https://www.youtube.com/watch?v=LEWXF31BQW8
محمد شیخ نے ٧:٠٠ منٹ پر کہا مریم دونوں جنس کیری کر رہی تھیں
======
راقم کہتا ہے یہ سب بیووقوفی کی باتیں ہیں –
جب الله تعالی نے کہہ دیا کہ سب کن کے کہنے سے ہوا تو اس کی سائنسی توجیہ کرنے کی ہم کو ضرورت نہیں کہ ہم کہیں کہ وہ مخنث تھیں اور پھر اپنے ہی نطفے سے وہ حاملہ ہو گئیں – مریم علیہ السلام کا ذکر قرآن میں ماں کے طور پر ہے – مخنث کو کوئی ماں نہیں کہتا اس کو تمام عالم میں مرد کے صیغے سے پکارا جاتا ہے مریم علیہ السلام کے لئے واضح آیا ہے کہ وہ مونث تھیں
وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ آيَةً وَآوَيْنَاهُمَا إِلَىٰ رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينٍ سورہ مومنوں
اگر مریم ایک انوکھی مخنث تھیں اور ان کی جیسی اور بھی ہوں گی ان کے بچے بھی ہوئے ہوں گے اور یہود کے علم میں بھی ہو گا کہ یہ تو مکمل عورت نہیں اس کے ساتھ ایسا ہوا ہے
تو یہ تمام نہ تو الله کا کمال رہنا ہے نہ معجزہ بنتا ہے
جبکہ الله تعالی مسلسل بیان کر رہا ہے کہ یہ معجزہ تھا
اہل کتاب کے بعض باطنی فرقوں کے نزدیک مریم اور یحیی علیہ السلام نعوذ باللہ مخنث تھے مثلا کہا جاتا ہے کہ مشہور مونا لیزا کی تصویر اصل میں مریم علیہ السلام کی تصویر ہے جو ایک مخنث کی تصویر ہے اسی طرح اسی جاہل لیونارڈو نے یحیی علیہ السلام کی بھی اسی قسم کی ایک تصویر بنائی تھی – یہ قول نصرانیوں سے مسلمانوں میں آیا ہے کہ مریم ایک مخنث تھیں کیونکہ ان کے تمام فرقے اس کے قائل نہیں کہ مریم ایک پاک باز عورت تھیں
سورۃ الاحقاف
وَمِنْ قَبْلِـهٖ كِتَابُ مُوْسٰٓى اِمَامًا وَّرَحْـمَـةً ۚ وَهٰذَا كِتَابٌ مُّصَدِّقٌ لِّسَانًا عَرَبِيًّا لِّيُنْذِرَ الَّـذِيْنَ ظَلَمُوْاۖ وَبُشْرٰى لِلْمُحْسِنِيْنَ
کیا اس کا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے
اس سے قبل موسی کی کتاب رہبر و رحمت تھی- اور یہ کتاب عربی زبان کی تصدیق کرتی ہے – تا کہ وہ خبر دار کرے ان لوگوں کو جو ظلم کرتے ہیں اور احسان کرنے والوں کے لئے بشارت ہے
جواب
اس سے قبل موسی کی کتاب (توریت) رہبر و رحمت تھی اور یہ کتاب (قرآن) اس (توریت) کی تصدیق کرتی ہے عربی میں زبان میں کہ ظلم کرنے والوں کو ڈرائے اور احسان کرنے والوں کے لئے بشارت ہے
اپ نے جو ترجمہ کیا وہ غلط ہے
عربی زبان کی تصدیق کی کیا ضرورت ہے ؟ کس قسم کی تصدیق زبان کی درکار ہے ؟
یہ معنی غلط سلط ہے
سورۃ البقرۃ
مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّلّـٰهِ وَمَلَآئِكَـتِهٖ وَرُسُلِهٖ وَجِبْرِيْلَ وَمِيْكَالَ فَاِنَّ اللّـٰهَ عَدُوٌّ لِّلْكَافِـرِيْنَ
(98)
جو شخص اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبرائیل اور میکائیل کا دشمن ہو، تو بیشک اللہ بھی ان کافروں کا دشمن ہے۔
یہاں فرشتوں کو الگ بیان کیا گیا اور جبرائیل اور میکائیل کو الگ – کیا یہ دونوں فرشتے نہیں – پلیز وضاحت کر دیں
جواب
یہ آیت سورہ بقرہ کی ہے اس میں یہود کا رد ہو رہا ہے کہ ان کو جبریل ومِيْكَالَ کا دشمن کہا گیا
اسلام میں قرآن و حدیث میں جبریل و مِيْكَالَ کو فرشتے ہی کہا گیا ہے لیکن فرشتوں میں جن کا یہود سب سے زیادہ ذکر کرتے ہیں وہ جبریل میکائل اور ابلیس (یہود کے مطابق یہ فرشتہ ہے) ہیں – اس بنا پر اس آیت میں الگ سے ان کا خاص ذکر کیا ہے – تفسیروں میں ہے کہ یہود کا کہنا تھا کہ بابل کا بادشاہ بخت نصر جب بچہ تھا تو ہم نے اس کو قتل کرنے کسی کو بھیجا لیکن جبریل نے روک دیا – بعد میں اس بادشاہ نے یروشلم برباد کیا – اس وجہ سے یہودی کہتے جبریل یہود کا دشمن فرشتہ ہے – میری معلومات جو یہودی لٹریچر پر ہیں ان میں ہے کہ فرشتوں کو اور ابلیس کو متضاد ڈیوٹی الله تعالی نے دی ہوئی ہے – ابلیس بھی یہود کے مطابق آسمان میں ایک فرشتہ ہے جو یہود کے دشمنوں کو اکساتا ہے لیکن بنو اسرائیل کا خاص فرشتہ مِيْكَالَ ہے جو جبریل سے بھی زیادہ طاقت ور ہے وہ ان کی مدد کرتا ہے
اس آیت میں الله نے عمومی ذکر کیا ہے کہ فرشتوں سے دشمنی اصل میں الله سے دشمنی ہے
قرآن میں جنت کا ذکر ہے
فِيهِما فاكِهَةٌ وَنَخْلٌ وَرُمَّان
اس میں ہوں گے پھل اور کھجور اور انار
اب ہم یہ نہیں کہیں گے کہ کھجور اور انار پھل نہیں تھے
و الله اعلم
وَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا نَجَّيْنَا هُوْدًا وَّالَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا مَعَهٝ بِرَحْـمَةٍ مِّنَّاۚ وَنَجَّيْنَاهُـمْ مِّنْ عَذَابٍ غَلِيْظٍ
(58)
سورۃ البقرۃ
اَمْ تَقُوْلُوْنَ اِنَّ اِبْـرَاهِيْمَ وَاِسْـمَاعِيْلَ وَاِسْحَاقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطَ كَانُـوْا هُوْدًا اَوْ نَصَارٰى ۗ قُلْ ءَاَنْتُـمْ اَعْلَمُ اَمِ اللّـٰهُ ۗ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهَادَةً عِنْدَهٝ مِنَ اللّـٰهِ ۗ وَمَا اللّـٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ
(140)
ان آیات میں کا لفظ ہے لیکن ترجمہ کرتے وقت ایک مقام پر ہود کیا جاتا ہے اور ایک مقام پر یہود
ا
ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے
یا تم کہتے ہو کہ ابراھیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور قبیلے جو هود یا نصرانی کے تھے، کہہ دو کیا تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ؟ اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو گواہی چھپائے جو اس کے پاس اللہ کی طرف سے ہے، اور اللہ بے خبر نہیں اس سے جو تم کرتے ہو۔
کیا ہم قرآن کی عربی کو عبرانی زبان پر پرکھیں گے – قرآن میں ہی ہے کہ الله کے کلمات کو کوئی نہیں بدل نہیں سکتا
سورۃ الانعام
وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا ۚ لَّا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهٖ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْـمُ
اللہ کے کلمات تبدیل نہیں ہوتے۔
جواب
ہود علیہ السلام عرب عاربہ میں بھیجے گئے یعنی قدیم عربوں میں جو ابراہیم سے بھی قبل گزرے ہیں – لفظ ہود کا مصدر الگ زبان و علاقہ ہے
لیکن عربی میں منصوب حالت میں انے کی وجہ سے ہودا بولا گیا
اور اپ نے دو الگ الفاظ کو مکس کر دیا
سادہ بات ہے کہ هُوْدًا اور ھادوا میں فرق ہے یہ دو الگ الفاظ ہیں
وَالَّذِينَ هادُوا
والواو فاعل (الواو) عاطفة (الذين) اسم موصول معطوف على الاسم الأول في محلّ نصب (هادوا
هادُوا نصب کی وجہ سے اس حال میں ہے
——
فَبِظُلْمٍ مِنَ الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا عَلَيْهِمْ طَيِّباتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ كَثِيراً
اس ظلم کی وجہ سے ہم نے هادُوا (یہود) پر طیبات کو حرام کر دیا جو حلال تھا
ظاہر ہے اگر هادُوا سے مراد ہود علیہ السلام نہیں ہیں اس کے علاوہ سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود کی بات کی جا رہی ہے
قرآن میں ہے
وَاِلٰى عَادٍ اَخَاهُـمْ هُوْدًا
اور عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھیجا
اگر ترجمہ کیا جائے یہ ترجمہ کہ عاد کی طرف ان کے بھائی یہود کو بھیجا ، تو نہ تو یہ سیاق و سباق پر پورا اترتا ہے نہ ہی صحیح کلام ہے نہ حقیقیت ہے
یہاں بھائی کا لفظ ہے جس سے ظاہر ہے قوم نہیں ایک شخص مراد ہے
سورہ بقرہ کی آیت کا ترجمہ صحیح ہے
اَمْ تَقُوْلُوْنَ اِنَّ اِبْـرَاهِيْمَ وَاِسْـمَاعِيْلَ وَاِسْحَاقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطَ كَانُـوْا هُوْدًا اَوْ نَصَارٰى ۗ قُلْ ءَاَنْتُـمْ اَعْلَمُ اَمِ اللّـٰهُ ۗ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهَادَةً عِنْدَهٝ مِنَ اللّـٰهِ ۗ وَمَا اللّـٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ
(140)
یا تم کہتے ہو کہ ابراھیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اس کی اولاد یہودی یا نصرانی تھے، کہہ دو کیا تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ؟ اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو گواہی چھپائے جو اس کے پاس اللہ کی طرف سے ہے، اور اللہ بے خبر نہیں اس سے جو تم کرتے ہو۔
یہاں بھی اگر ہود علیہ السلام اور نصرانی ترجمہ کر دیا جائے تو یہ غلط سلط ترجمہ ہو جائے گا کوئی نتیجہ نہ نکلے گا
اسی طرح قرآن میں ہے
إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا للَّذِينَ هَادُوا} [المائدة: 44]
ہم نے توریت کو نازل کیا جس میں ہدایت و نور ہے اس سے یہود کے لئے حکم کرتے وہ انبیاء جو مسلمان تھے
ظاہر ہے ہود اور ھادوا الگ الفاظ ہیں- ہود علیہ السلام تو ایک شخص ہیں جبکہ ھادوا سے مراد یہودی ہیں – لہذا جو ترجمہ متدوال ہے وہ ہی صحیح ہے
وَقَالُوا لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَى تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ
اور یہ کہتے ہیں جنت میں داخل نہ ہو گا جو یہودی یا نصرانی ہو
ظاہر ہے یہ ترجمہ صحیح ہے
ہود تو ایک شخص تھے جبکہ یہود ایک قوم ہیں
اصل میں الله نے وہ لفظ بولا جو عبرانی میں یہود کا نام ہے
Yehudah
اس کو اصل عبرانی میں یہودا بولا جاتا تھا – فارس کی غلامی میں ارض مقدس کا نام یہودا فارسیوں نے رکھا- اس کے بعد اس صوبہ میں تمام قبائل اپنے اپ کو یہودا کہنے لگے اور تمام بنی اسرائیلی چاہے کسی بھی قبیلے کا ہو اس کو یہودی کہا جانے لگا
یہی لفظ عربی میں ہودا یا یہود ہو گیا
اپ نے کہا بقرہ کی آیت کا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے
اَمْ تَقُوْلُوْنَ اِنَّ اِبْـرَاهِيْمَ وَاِسْـمَاعِيْلَ وَاِسْحَاقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطَ كَانُـوْا هُوْدًا اَوْ نَصَارٰى ۗ قُلْ ءَاَنْتُـمْ اَعْلَمُ اَمِ اللّـٰهُ ۗ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهَادَةً عِنْدَهٝ مِنَ اللّـٰهِ ۗ وَمَا اللّـٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ
(140)
یا تم کہتے ہو کہ ابراھیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور قبیلے جو هود یا نصرانی کے تھے، کہہ دو کیا تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ؟ اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو گواہی چھپائے جو اس کے پاس اللہ کی طرف سے ہے، اور اللہ بے خبر نہیں اس سے جو تم کرتے ہو۔
جواب
الفاظ جو هود یا نصرانی کے تھے، نہیں ہو سکتا کیونکہ ہود عرب عاربہ میں ایک نبی گزرے ہیں اور یہود و نصاری کے مطابق عرب میں کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا
لہذا یہ ترجمہ غلط ہے
الله کا کلام یہود سے چل رہا ہے ہم تو سن رہے ہیں کہ یہود یہ کہتے تھے اللہ تعالی تو ان کا جواب دے رہے ہیں- جو یہود نے کہا وہ ان کی تاریخ ہے جس میں کوئی قبیلہ اپنی شناخت باقی نہ رکھ سکا سوائے یہودا قبیلہ کے اور تمام بنی اسرائیل اپنے اپ کو یہودا کہنے لگے
اس پر الله تعالی نے کلام کیا ہے – اپ اپنے تئیں معنی متعین کریں گے تو اپ یہ سمجھ ہی نہ سکیں گے کہ یہود کے کس اشکال کا جواب دیا جا رہا ہے – اپ کو دیکھنا پڑے گا کہ یہود کا کیا موقف تھا اور ہے اور قرآن نے ان کی کس بات کا جواب دیا ہے اور الله کا حکم بھی ہے
فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ
خود عربی کے متعدد الفاظ عبرانی کے ہی ہیں وہیں سے آئے ہیں – عربی لغت میں اور شروحات میں ان کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے
اپ کے نزدیک توریت بھی عربی میں تھی– اپ کے قول کا مطلب ہوا کہ مصر میں اور اس سے قبل سب انبیاء اور ان کی نسلیں عربی بولتے تھے – یہ قول زبانوں کی تاریخ سے لا علمی کا ہے
بخاری کی حدیث میں ہے
وَشَبَّ الْغُلامُ وَتَعَلَّمَ الْعَرَبِيَّةَ مِنْهُمْ
اور لڑکا (اسمعیل) جوان ہوا اور ان (قبیلہ جرھم) سے عربی (بھی ) سیکھ لی
یعنی عربی صرف اسمعیل نے سیکھی – اسحاق و ابراہیم و یعقوب و سارہ یا موسی یہ نہیں بولتے تھے
اپ کے اس قول سے احادیث کا بھی انکار ہوتا ہے تاریخ لغت و لسان کا بھی اور یہ قول محض خیالی و افسانوی ہے
اپ نے آیت کا غلط ترجمہ کیا ہے
سورۃ الاحقاف
وَمِنْ قَبْلِـهٖ كِتَابُ مُوْسٰٓى اِمَامًا وَّرَحْـمَـةً ۚ وَهٰذَا كِتَابٌ مُّصَدِّقٌ لِّسَانًا عَرَبِيًّا لِّيُنْذِرَ الَّـذِيْنَ ظَلَمُوْاۖ وَبُشْرٰى لِلْمُحْسِنِيْنَ
اس سے قبل موسی کی کتاب رہبر و رحمت تھی- اور یہ کتاب عربی زبان کی تصدیق کرتی ہے – تا کہ وہ خبر دار کرے ان لوگوں کو جو ظلم کرتے ہیں اور احسان کرنے والوں کے لئے بشارت ہے
عربی زبان کی کوئی تصدیق نہی کی جاتی- کسی عرب مفسر کو بھی یہ اچھوتے خیال نہیں آئے کہ عربی کی فضیلت اس طرح تمام زبانوں پر قائم کرے
قرآن میں ہے بنی اسرائیل کو ارض مقدس میں داخلے کے وقت حکم دیا
وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّداً وَقُولُوا حِطَّةٌ
دروازے سے داخل ہو حِطَّةٌ (مالک گناہ ہوئے) کہتے ہوئے
حِطَّةٌ کا لفظ عربی میں مستعمل نہیں ہے – یہ عبرانی کا لفظ
hatta
ہے جس کا مطلب گناہ ہے
اس سے معلوم ہوا کہ دشت میں بنو اسرائیل عبرانی بولتے تھے –
اسی طرح ایل کا لفظ عبرانی ہے کو فرشتوں کے ناموں میں ہے
قَالَ فِي (إِيلٌ) مِنْ أَسْمَاءِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ عِبْرَانِيٌّ أَوْ سُرْيَانِيٌّ
: تفسير القرآن الحكيم (تفسير المنار) المؤلف: محمد رشيد بن علي رضا
—
وَجِبْرِيلُ اسْمٌ عِبْرَانِيٌّ لِلْمَلَكِ الْمُرْسَلِ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى بِالْوَحْيِ لِرُسُلِهِ مُرَكَّبٌ مِنْ كَلِمَتَيْنِ
التحرير والتنوير از محمد الطاهر التونسي (المتوفى : 1393هـ)
—
مشرک عربوں نے انکار کیا کہ رحمان کوئی عربی کا لفظ ہے
مثلا
قَالُوا وَمَا الرَّحْمَنُ} [الفرقان: 60]
انہوں نے کہا یہ رحمان کیا ہوتا ہے
مسلمان عربوں نے اقرار کیا کہ یہ عبرانی کا لفظ ہے
قال أبو بكر محمد بن القاسم بن (5) بشار: سألت أبا العباس (6) لم جمع بين الرحمن والرحيم؟ فقال: لأن الرحمن عبراني فأتى معه الرحيم العربي
التَّفْسِيرُ البَسِيْط المؤلف: أبو الحسن علي بن أحمد بن محمد بن علي الواحدي،
قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ الزَّجَّاجُ فِي مَعَانِي الْقُرْآنِ: وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى:” الرَّحِيمُ” عربي و” الرحمن” عِبْرَانِيٌّ، فَلِهَذَا جَمَعَ بَيْنَهُمَا.
—
تفسیر نفسی میں ہے
إذ قال {يُوسُفَ} اسم عبراني لا عربى
یوسف عربی نام ہی نہیں
تفسير النسفي (مدارك التنزيل وحقائق التأويل) المؤلف: أبو البركات عبد الله النسفي (المتوفى: 710هـ)
ويوسف اسم عبراني، وقيل عربى وليس بصحيح، لأنه لو كان عربياً لا نصرف لخلوّه عن سبب آخر سوى التعريف
عیسیٰ بھی غیر عربی نام ہے
وفي القاموس عيسى عليه الصلاة والسلام اسم عبرانيّ أو سريانيّ
حَاشِيةُ الشِّهَابِ عَلَى تفْسيرِ البَيضَاوِي
یہ چند امثال ہیں
یہ تمام عرب مفسر و نحوی و لغوی ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ نام عربی کے نہیں ظاہر ہے جو زبان بولی جاتی ہے اسی میں نام رکھا جاتا ہے
اپ نے نکتہ سنجی کی ہے
//
قرآن میں ہی ہے کہ الله کے کلمات کو کوئی نہیں بدل نہیں سکتا
سورۃ الانعام
وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا ۚ لَّا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهٖ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْـمُ
اللہ کے کلمات تبدیل نہیں ہوتے۔
///
اس کا اس بحث سے تعلق اپ نے یہ بنایا ہے کہ اصل توریت و انجیل و زبور یہ سب عربی میں تھیں تمام لوگ عربی بولتے تھے اور سمجھتے لکھتے تھے پھر انہوں نے پہلے عربی کو بدلا اور اس کو عبرانی کر دیا
یہ خیال محض فسانہ ہے – اگر ایسا ہوتا تو حدیث میں اس کا ذکر ہوتا اور دنیا کہتی کہ آثار قدیمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ مشرق وسطی میں ہر مقام پر عربی بولی لکھی سمجھی جاتی تھی جبکہ عربی کا کوئی وجود ان علاقوں میں نہیں ملا
اپ تکے بازی نہ کریں اور متن قرآن کو اپنے خیال کی بھینٹ مت چڑھائیں
اللہ کے کلمات لَّا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهٖ کا مطلب ہے الله کا وعدہ تبدیل نہیں ہو گا
ایک زبان میں ہی کلمات بدل سکتے ہیں مثلا عربی کا قرآن ہے لیکن قرات دس متواتر چلی آ رہی ہیں جن میں الفاظ بھی بدل رہے ہیں – میں نے تو صرف سورہ فاتحہ کا تقابل کیا ہے
سورہ فاتحہ میں ملک یوم الدین اگر اپ پڑھیں تو لوگ اپ کو سمجیں گے کہ غلط قرات کر دی کیونکہ دس متواتر قرات میں اختلاف کا اردو بولنے والوں کو علم نہیں ہے – بعض مسلمان ممالک ہیں جہاں صبح و شام نماز میں مالک یوم الدین کی بجائے ملک یوم الدین پڑھا جاتا ہے
اپ ان تمام قرات کو جمع کریں اور تقابل کر کے دیکھ لیں ان میں الفاظ بھی بدل جاتے ہیں
تمام مسلمان فرقے ان قراتوں کو متواتر مانتے ہیں اور سعودی عرب اور دیگر ممالک میں ریڈیو پر الگ الگ سند سے یہ قرات کی بھی جاتی ہے ان میں الفاظ الگ الگ بھی ہیں یعنی وہ قرات جو میں یہاں لکھتا ہوں وہ وہ ہے جو بر صغیر میں چلتی ہے جس کو حفص بن عاصم کی سند سے جانا جاتا ہے
سورۃ الحاقۃ
اِنَّهٝ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِيْمٍ
(40)
یہاں قَوْلُ رَسُوْلٍ سے کیا مراد ہے
جواب
اس پر دو قول ہیں
اول : رسول کریم سے مراد فرشتہ جبریل ہیں
تفسیر طبری میں ہے
حدثنا بشر، قال: ثنا يزيد، قال: ثنا سعيد، عن قتادة، أنه كان يقول: (إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ) يعني: جبريل.
حدثنا ابن عبد الأعلى، قال: ثنا ابن ثور، عن معمر، عن قتادة، أنه كان يقول: (إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ) قال: هو جبريل.
دوسرا قول ہے کہ قرآن میں ہی ہے
وَلَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَهُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ وَجَاءَهُمْ رَسُولٌ كَرِيمٌ
کہ فرعون کے پاس رسول کریم کو بھیجا اس سے مراد موسی علیہ السلام ہیں لہذا
تفسیر طبری میں ہے
قوله: (إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ) يقول تعالى ذكره: إن هذا القرآن لقول رسول كريم، وهو محمد صلى الله عليه وسلم يتلوه عليهم.
اس قول سے مراد خود رسول اللہ ہیں کہ قرآن ان کا قول ہے یعنی ان کی تلاوت ہے
سورہ مائدہ میں ہے
وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ يَا قَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّـٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ اَنْبِيَآءَ وَجَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا ۖ وَاٰتَاكُمْ مَّا لَمْ يُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِيْنَ (20)
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم! اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب کہ تم میں نبی پیدا کیے اور تمہیں بادشاہ بنایا، اور تمہیں وہ دیا جو جہان میں کسی کو نہ دیا تھا۔
يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِىْ كَتَبَ اللّـٰهُ لَكُمْ وَلَا تَـرْتَدُّوْا عَلٰٓى اَدْبَارِكُمْ فَـتَنْقَلِبُوْا خَاسِرِيْنَ (21)
اے میری قوم! اس پاک زمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے لیے مقرر کر دی اور پیچھے نہ ہٹو ورنہ نقصان میں جا پڑو گے۔
قَالُوْا يَا مُوْسٰٓى اِنَّ فِيْـهَا قَوْمًا جَبَّارِيْنَۖ وَاِنَّا لَنْ نَّدْخُلَـهَا حَتّـٰى يَخْرُجُوْا مِنْـهَاۚ فَاِنْ يَّخْرُجُوْا مِنْـهَا فَاِنَّا دَاخِلُوْنَ (22)
انہوں نے کہا اے موسیٰ! بے شک وہاں ایک زبردست قوم ہے، اور ہم وہاں ہرگز نہ جائیں گے یہاں تک کہ وہ وہاں سے نکل جائیں، پھر اگر وہ وہاں سے نکل جائیں تو ہم ضرور داخل ہوں گے۔
کیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ مکہ سے متعلق ہے؟
سورہ طہ میں ہے
فَلَمَّآ اَتَاهَا نُـوْدِىَ يَا مُوْسٰى (11)
پھر جب وہ اس کے پاس آئے تو آواز آئی کہ اے موسٰی۔
اِنِّـىٓ اَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ ۖ اِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى (12)
میں تمہارا رب ہوں سو تم اپنی جوتیاں اتار دو، بے شک تم پاک وادی طوٰی میں ہو۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ موسی تو وادی طوٰی میں تھے جو پہلے ہی مقدس تھی تو اب وہ اپنی قوم کو کسی اور ارض مقدس کی طرف کیوں لے جا رہے تھے
جواب
موسی علیہ السلام کی قوم کا مسکن مصر سے نکلنے کے بعد ارض مقدس کنعان کو قرار دیا گیا جو اصل میں ابراہیم و اسحاق و یعقوب کا مسکن تھا اور وہاں ان کو مسجد الاقصی کی تعمیر کرنی تھی
ظاہر ہے اس سے مراد مکہ نہیں جس کو قرآن وادی غیر ذی زرع کہتا ہے
قرآن میں سورہ شعراء میں ہے
پھر اس ارض مقدس میں جو مسجد الاقصی تھی اس کو دو بار تباہ کیا گیا – اس کا ذکر قرآن میں سورہ الاسراء یا بنی اسرائیل میں ہے – کعبه کو ظاہر ہے تباہ نہیں کیا گیا اس کی حفاظت کی گئی
موسی وادی مقدس میں تھے لیکن ان کو قوم کے لئے وہ مقام چھوٹا تھا – الله کو ان کو ایک بڑی آبادی میں تبدیل کرنا تھا لہذا ان کو کہا گیا کہ اپنے ابا و اجداد کے اصل علاقے کی طرف منتقل ہو
حدیث کے مطابق موسی علیہ السلام نے حج کیا ہے لیکن وہ اپنی زندگی میں اس ارض مقدس میں داخل نہ ہو سکے کیونکہ الله نے یہ زمین ٤٠ سال ان پر حرام کر دی اور پھر یوشع بن نون علیہ السلام کے دور میں اس میں داخل ہوئے
الغرض یروشلم ہی ارض مقدس ہے جوقوم موسی کو الله نے دی تھی اسی زمین پر انبیاء کا ظہور ہوا ہے اور مکہ میں اسمعیل علیہ السلام کے بعد صرف ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کی بعثت ہوئی ہے
وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَلَا تَكُن فِي مِرْيَةٍ مِّن لِّقَائِهِ ۖ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ
اورتحقیق ہم نے موسی کو کتاب دی بس تو اس کتاب کے ملنے سے شک میں نہ ہو اور ہم نے اس کو بنی اسرائیل کے لئے ہدایت بنایا
===
يَآ اَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيْـرًا مِّمَّا كُنْتُـمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْـرٍ ۚ قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّـٰهِ نُـوْرٌ وَّكِتَابٌ مُّبِيْنٌ
جواب
اور ہم نے موسٰی کو کتاب دی تو تم ان (موسی) سے ملنے پر شک میں نہ آنا اور ہم نے اس (کتاب) کو بنی اسرائیل کے لئے ہدایت بنایا
سورہ سجدہ
یہ ضمیر کا معاملہ ہے
اس سے پچھلی آیت سے جوڑ دین
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِآيَاتِ رَبِّهِ ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْهَا إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ مُنْتَقِمُونَ (22) وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَلَا تَكُنْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقَائِهِ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِبَنِي إِسْرَائِيلَ
تو ضمیر ربه پر پلٹنے کی وجہ سے ترجمہ ہو گا
تم اپنے رب سے ملنے پر شک میں نہ آنا
اس میں لقاء کا لفظ ہے جس کا مطلب ملاقات ہے کسی چیز کا حاصل کرنا نہیں بلکہ کسی ذات سے ملاقات کرنا
لہذا درست ترجمہ دو ہیں
تم اپنے رب سے ملنے پر شک میں نہ آنا
تم موسی سے ملنے پر شک میں نہ آنا
یہ دو ترجمے صحیح ہیں
التبيان في إعراب القرآن از المؤلف : أبو البقاء عبد الله بن الحسين بن عبد الله العكبري (المتوفى : 616هـ) میں اس کا ذکر ہے
قَالَ تَعَالَى {وَلَقَد آتَيْنَا مُوسَى الْكتاب فَلَا تكن فِي مرية من لِقَائِه وجعلناه هدى لبني إِسْرَائِيل}
قَوْلُهُ تَعَالَى: (مِنْ لِقَائِهِ) : يَجُوزُ أَنْ تَكُونَ الْهَاءُ ضَمِيرَ اسْمِ اللَّهِ؛ أَيْ مِنْ لِقَاءِ مُوسَى اللَّهَ، فَالْمَصْدَرُ مُضَافٌ إِلَى الْمَفْعُولِ؛ وَأَنْ يَكُونَ ضَمِيرَ مُوسَى؛ فَيَكُونَ مُضَافًا إِلَى الْفَاعِلِ.
وَقِيلَ: يَرْجِعُ إِلَى الْكِتَابِ؛ كَمَا قَالَ تَعَالَى: (وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ) [النَّمْلِ: 6] .
وَقِيلَ: مِنْ لِقَائِكَ يَا مُحَمَّدُ مُوسَى، صَلَّى اللَّهُ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمَا، لَيْلَةَ الْمِعْرَاجِ.
یہ ترجمہ کرنا کہ اس کتاب کے ملنے سے عربی کے حساب سے غلط ہے کیونکہ یہ اردو کا انداز ہے کہ ملاقات کو ملنا کہا جاتا ہے لیکن عربی میں یہ انداز نہیں ہے
يَآ اَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيْـرًا مِّمَّا كُنْتُـمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْـرٍ ۚ قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّـٰهِ نُـوْرٌ وَّكِتَابٌ مُّبِيْنٌ
اے اہل کتاب بے شک تمھارے پاس ہمارے رسول آئے جنہوں نے تمہارے اوپر بہت کچھ واضح کیا جو تم کتاب میں چھپا رکھتے ہو اور بہت کچھ معاف کیا بلا شبہ تمہارے پاس الله کی طرف سے نور اور کتاب مبین آ چکی
قرآن میں ہے
إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ يَحْكُمُ بِهَا النبِيونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا
ہم نے توریت کو نازل کیا جس میں ہدایت و نور ہے اس سے فرمانبردار نبیوں نے حکم کیا یہود کے لئے
یعنی توریت منزل من الله ہے جس سے یہود پر الله کا حکم نافذ کیا جاتا تھا
رسول الله نے توریت پر حکم دیا ہے اس کی مثال حدیث میں موجود ہے کہ رجم کا حکم توریت سے لیا گیا ارتاد اور عہد شکنی کی سزا توریت کے مطابق ہے
توریت کا مطلب قانون ہے یہ یہود کا قول ہے
قرآن میں موجود ہے کہ توریت میں الله کا حکم لکھا تھا آنکھ کے بدلے آنکھ .. یہ حکم قرآن میں موجود نہیں تھا جبکہ یہ سن ٩ ہجری کا دور ہے جب سورہ مائدہ نازل ہوئی یہاں تک کہ اس حکم کو قرآن میں بیان کیا گیا
اس سے ظاہر ہے کہ قرآن اور توریت دو الگ کتب ہیں ایک ہی نہیں تھیں ان کی زبان ان کے احکام میں فرق ہو سکتا ہے لیکن اصل میں دونوں من جانب الله تھیں
اس کی مثال اس طرح بھی ہے کہ قرآن میں حج کا حکم فرض ہے جبکہ حج قرآن کے مطابق صرف اسمعیل و ابراہیم و محمد علیھما السلام نے کیا ہے
ظاہر ہے اگر ایک ہی کتاب ہوتی تو تمام انبیاء پر حج فرض ہو جاتا ہے اور ہم کو معلوم ہے کہ سب نے حج بیت الله نہیں کیا
الجان اور الجن ایک ہی مخلوق نہیں ہے۔ الجان وہ مخلوق ہیں جو اگ سے بنائی گئی تھی اور وہ اب اس دنیا میں موجود نہیں ہے۔ الجن اگ والی مخلوق نہیں ہے بلکہ ہر وہ چیز جو ہمارے نظر سے اوجھل ہو اس چیز پر جن کا اطلاق ہوتا ہے مثلا جو انسان پہاڑی علاقوں میں رہتے ہیں اور عام معاشرے سے ان کا رابطہ نہ ہو تو ان پر بھی جنات کا اطلاق ہوتا ہے اس کے علاوہ وہ انسان جو عام معاشرے میں رہتے ہیں لیکن انکے کرتوت باقی لوگوں سے پوشیدہ یا خفیہ ہوتے ہیں تو ان پر بھی جنات کا اطلاق ہوتا ہے۔ عرب معاشرے میں اس بندے کو بھی جن کہا جاتا ہے جو کسی جگہ میں جاکر بہت جلدی واپس پہنچھتا ہے یعنی اپنا کام انتہائی جلدی سے ختم کرتا ہے۔ کچھ لوگ الجان کی تعریف اسی طرح کرتے ہیں کہ الجان ادم کے طرح پہلا جن تھا جس کو اللہ پاک نے اگ سے بنایا تھا اور پھر اس ایک الجان سے جنات وجود میں اگئے لیکن یہ مفروضہ قران کے خلاف ہے کیونکہ قران کے مطابق الجان انسانوں کے طرح مخلوق تھے اور اس کی دلیل سورہ رحمن میں ملتا ہے۔ سورہ رحمن کے ایت نمبر 14 اور 15 میں اللہ پاک کا ارشاد پاک ہے:
خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ صَلۡصَالٍ کَالۡفَخَّارِ ﴿ۙ۱۴۔
وَ خَلَقَ الۡجَآنَّ مِنۡ مَّارِجٍ مِّنۡ نَّارٍ ﴿ۚ۱۵}۔
اس نے انسان کو بجنے والی مٹی سے پیدا کیا جو ٹھیکری کی طرح تھی ۔ اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا۔
ایت نمبر 14 میں اللہ پاک انسان کی پیدائیش کا زکر کرتا ہے صرف ایک ادم کی نہیں بلکہ تمام انسانی مخلوق کا زکر کر رہا ہے جبکہ ایت نمبر 15 میں اللہ پاک الجان کی پیدائیش کا زکر کر رہا ہے تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان اور الجان دو الگ الگ مخلوق ہیں اور الجان ایک ہی بندہ یعنی جنات کا جد مراد نہیں ہے بلکہ الجان سے مراد وہ تمام مخلوق مراد ہے جس کو اگ سے بنایا گیا تھا۔ اگر الجان جنات کی جد کا نام ہے تو پھر اس ایت میں اللہ پاک اس کو انسان کے ہم منصب کے طور پر یا انسان کے مقابلے میں استعمال نہیں کرتا بلکہ اس ایت میں پھر اللہ پاک الجان کے بجائے جنات یا جن کا لفظ استعمال کرتا اور یا الجان کے مقابلے میں انسان کے بجائے ادم کا نام لکھتا لیکن نہیں کیونکہ الجان ہی انسان کے ہم منصب مخلوق ہے جو اگ سے بنائے گئے تھے۔
سورہ رحمن ایت نمبر 74 میں اللہ پاک فرماتا ہے:
لَمۡ یَطۡمِثۡہُنَّ اِنۡسٌ قَبۡلَہُمۡ وَ لَا جَآنٌّ ﴿ۚ۷۴﴾
ان کو ہاتھ نہیں لگایا کسی انسان یا جن نے اس سے قبل ۔
اس ایت میں بھی اللہ پاک نے انسان کے مقابلے میں الجان کا لفظ استعمال کیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ انس یا انسان کا ہم منصب الجان ہی ہے اور اس ایت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ الجان جنات کی جد کا نام نہیں ہے بلکہ الجان خود ایک مخلوق ہیں کیونکہ اس الجان کو اللہ پاک نے اس ایت میں انسان کے ہم منصب کے طور پر استعمال کیا۔ اگر الجان جنات کی جد کا نام ہوتا تو پھر اس کو اللہ پاک کبھی بھی انسان کے ہم منصب یا مقابلے میں استعمال نہیں کرتا بلکہ پھر اللہ پاک اس کو ادم کے مقابلے میں استعمال کرتا۔
سورہ رحمن کے ان دلائیل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ الجان جنات کے جد کا نام نہیں ہے بلکہ انسان کا ہم منصب مخلوق ہے جس کو اگ سے بنایا گیا تھا۔
بھائی اس کا تحقیقی جواب درکار ہے ۔۔۔جزاک اللہ
جواب
کہا گیا الجان خود ایک مخلوق ہے
الجان وہ مخلوق ہیں جو اگ سے بنائی گئی تھی اور وہ اب اس دنیا میں موجود نہیں ہے۔
الجان سے مراد وہ تمام مخلوق مراد ہے جس کو اگ سے بنایا گیا تھا۔
——
الجن پوشیدہ مخلوق ہے
اس میں جو لوگ شہروں میں نہ رہتے وہ شامل ہیں
=================
راقم کہتا ہے میرا سوال یہ ہے کہ یہ کس نے خبر دی کہ الجان اب معدوم ہیں
جیسا کہا ہے الجان وہ مخلوق ہیں جو اگ سے بنائی گئی تھی اور وہ اب اس دنیا میں موجود نہیں ہے؟۔
اس قول پر نص قرانی درکار ہے
جو لوگ شہروں میں نہ رہتے وہ شامل ہیں – اس قول پر کسی لغت سے دلیل درکار ہے
سورہ جن میں کیا لکھا ہے
http://quranurdu.org/72
جنات کان لگا کر سنتے
وَاَنَّا لَمَسْنَا السَّمَآءَ فَوَجَدْنَاهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيْدًا وَشُهُبًا (8)
اور ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو ہم نے اسے سخت پہروں اور شعلوں سے بھرا ہوا پایا۔
وَاَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْـهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْـعِ ۖ فَمَنْ يَّسْتَمِـعِ الْاٰنَ يَجِدْ لَـهٝ شِهَابًا رَّصَدًا (9)
اور ہم اس کے ٹھکانوں (آسمانوں) میں سننے کے لیے بیٹھا کرتے تھے، پس جو کوئی اب کان دھرتا ہے تو وہ اپنے لیے ایک انگارہ تاک لگائے ہوئے پاتا ہے۔
جس نے یہ اقتباس لکھا ہے اس کو بتانا چاہیے کہ کیا جن وہ ہیں جو شہروں میں نہیں
رہتے ؟ یا کوئی اور مخلوق جس پر شہاب پھینکا جاتا ہے
راقم کہتا ہے الجان الجن کی جمع ہے – یہ عربی لغت میں موجود ہے
عربی میں جن چھپی ہوئی چیزوں پر بولا جاتا ہے یا وہ جو چھپا دے
فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَىٰ كَوْكَبًا
جب رات طاری ہوئی یا رات نے سب چھپا دیا
http://quran.ksu.edu.sa/tafseer/katheer/sura6-aya76.html
جن سے ہی جنین کا لفظ ہے جو حمل میں ہوتا ہے
اس کا یہ مطلب نہیں کہ سب عورتیں جنوں کو پیدا کرتی ہیں
جان کا لفظ عربی میں
جن پر
شیطان پر
سانپ پر
استعمال ہوتا ہے
یہ سیاق و سباق سے طے کیا جاتا ہے کہ الجان میں جنات و شیطان مراد ہیں یا الجان میں سانپ مرد ہیں
جان یا سانپ کا ذکر
سورہ النمل میں ہے
وَأَلْقِ عَصَاكَ ۚ فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَانٌّ وَلَّىٰ مُدْبِرًا وَلَمْ يُعَقِّبْ
اپنا عَصَا پھینک – پس جب اسکو دیکھا جان کی طرح پھڑک رہا ہے وہ (موسی) پیٹھ پھیر کر بھاگا اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھا
ایک روایت میں الفاظ ہیں
أنه سئل عن قتل الجان
انہوں نے الجان کے قتل پر سوال کیا
غریب الحدیث از خطابی میں ہے
الجانُّ: حية بيضاء كبيرة،
الجان سفید اژدھا ہے
یہاں جان پر ال لگا ہے یعنی کوئی مخصوص سانپ ہے جس کی وضاحت کی گئی کہ سیفد اژدھا
امام بخاری صحیح میں لکھتے ہیں
وَالحَيَّاتُ أَجْنَاسٌ، الجَانُّ وَالأَفَاعِي وَالأَسَاوِدُ
حیات (یعنی سانپوں) کی جنس ہیں
الجان اور الأَفَاعِي اور الأَسَاوِدُ
الأَفَاعِي سے ہی اردو میں افعی کا لفظ نکلا ہے جو سانپ پر استعمال ہوتا ہے
———–
جان کا لفظ اسم الجمع کے طور پر
عربی میں یہ بات معلوم ہے کہ الف لام لگنے پر اسم معرفہ ہو جاتا ہے اس بنا پر الجان اسم معرفہ جمع ہے لہذا اگر جان پر الجان آئے تو سانپ نہیں مخلوق جن لیا جائے گا
سورہ رحمان
خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ صَلۡصَالٍ کَالۡفَخَّارِ ﴿ۙ۱۴۔
وَ خَلَقَ الۡجَآنَّ مِنۡ مَّارِجٍ مِّنۡ نَّارٍ ﴿ۚ۱۵}۔
ان آیات سے یہ معلوم ہوا کہ الجان کو اگ کے شُّعْلةُ سے بنایا
اور یہی قول شیطان کا ہے کہ مجھ کو اگ سے بنایا
اس میں نکتہ سنجی کی جاتی ہے کہ شیطان کو اگ سے اور الجان کو اگ کی پلٹ سے بنایا
لیکن یہ بے وقوفی کی باتیں ہیں کیونکہ اصلا عنصر ایک ہی رہتا ہے
گیلی مٹی ہو سنسناتی مٹی ہو بلبلوں والی مٹی ہو اس سے مختلف طرح کے انسان قرآن نے نہیں بنائے ان سب کا اطلاق آدم پر کیا ہے
سائنس میں اگ جلتی ہوئی گیس ہے جس میں آکسیجن ہو اور ریایکشن میں کاربن ڈآئی آکسائڈ اور پانی نکل رہا ہو
اس تناظر میں اگ یا اگ کی لپٹ میں کوئی فرق نہیں رہتا
الجان کو انسان کے ہم منصب کے طور پر یا انسان کے مقابلے میں استعمال اس لئے کیا گیا کیونکہ جنات و انسان مکلف مخلوقات ہیں
==========
نوٹ : وہ سانپ جو آبادی میں رہتے ہوں ان کو جان کے علاوہ عوامر بھی کہتے ہیں
لسان العرب میں ہے
العَوامِرُ الحيّات التي تكون في البيوت
عوامر وہ سانپ ہیں جو گھروں میں رہتے ہیں
صحیح مسلم کی حدیث میں الفاظ ہیں
إن لهذه البيوت عوامر فإذا رأيتم شيئا منها فحرجوا عليها ثلاثا فإن ذهب وإلا فاقتلوه فإنه كافر
ان گھروں میں سانپ ہیں پس جب تم ان کو دیکھو تو تین دن دیکھو اگر نہیں جائیں تو ان کو قتل کر دو یہ کافر ہیں
عربی میں عامر کا مطلب آباد کرنے والا ہے اور اسی مادہ سے عوام اور پھر عوامر نکلا ہے
بعض راویوں نے اس میں خلط ملط کر دیا مثلا صحیح مسلم میں ہے
إِنَّ بِالْمَدِينَةِ جِنًّا قَدْ أَسْلَمُوا، فَإِذَا رَأَيْتُمْ مِنْهُمْ شَيْئًا، فَآذِنُوهُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، فَإِنْ بَدَا لَكُمْ بَعْدَ ذَلِكَ، فَاقْتُلُوهُ، فَإِنَّمَا هُوَ شَيْطَانٌ
مدینہ میں جن ہیں جو مطیع ہو گئے ہیں ان کو دیکھو تو ان کو تین دن کا اذن دو اس کے بعد قتل کر دو کیونکہ یہ شیطان ہے
الفاظ ہیں مدینہ میں جن ہیں اور دوسری حدیث میں ہے عوامر ہیں یعنی سانپ کی بات کی گئی تھی
ان کو قتل کر دو تو یہ قتل سانپ کا ہی ممکن ہے جن کا قتل ہم نہیں کر سکتے وہ اپنی ہیت نہیں بدلتے اور جو سمجھتے ہیں کہ جن ہیت بدل سکتے ہیں جب وہ دیکھیں گے کہ کوئی مارنے آ رہا ہے وہ غائب ہو جائیں گے
لہذا صحیح بات یہی ہے کہ درست ترجمہ ہو گا
إِنَّ بِالْمَدِينَةِ جِنًّا قَدْ أَسْلَمُوا، فَإِذَا رَأَيْتُمْ مِنْهُمْ شَيْئًا، فَآذِنُوهُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، فَإِنْ بَدَا لَكُمْ بَعْدَ ذَلِكَ، فَاقْتُلُوهُ، فَإِنَّمَا هُوَ شَيْطَانٌ
مدینہ میں سانپ ہیں جو مطیع ہو گئے ہیں ان کو دیکھو تو ان کو تین دن کا اذن دو اس کے بعد قتل کر دو کیونکہ یہ شیطان (بمعنی شریر) ہیں
قران میں جہاں کہی بھی “من قبل” کا لفظ اجائے یعنی قران میں جب بھی قبل، قبلکم، قبلھم وغیرہ الفاظ سے پہلے اگر لفظ “من” اجائے تو پھر وہ چیز ضرور ماضی کا حصہ ہوتا ہے
سب سے پہلے تو یہ بات ذھن میں رکھئے کہ قران میں اللہ پاک جان کی پیدائیش کا زکر اگ سے کررہا ہے۔ قران میں ایک بھی ایت ایسی نہیں ہے جس میں اللہ پاک جن کی پیدائیش کا زکر اگ سے کرتا ہو۔ اس کے علاوہ اس ایت میں سب سے بڑا دلیل “من قبل” ہے۔ قران میں جہاں کہی بھی “من قبل” کا لفظ اجائے یعنی قران میں جب بھی قبل، قبلکم، قبلھم وغیرہ الفاظ سے پہلے اگر لفظ “من” اجائے تو پھر وہ چیز ضرور ماضی کا حصہ ہوتا ہے اور اس چیز کا وجود پھر حاضر وقت میں نہیں ہوتا۔ اس کے قران میں لا تعداد دلائیل موجود ہیں لیکن تحریر کے اختصار کے لیے میں ان میں سے صرف چند دلائیل پیش کرونگا:
پہلا دلیل:
سورہ الحج ایت نمبر 78 میں اللہ پاک فرماتا ہے:
مِلَّۃَ اَبِیۡکُمۡ اِبۡرٰہِیۡمَ ؕ ہُوَ سَمّٰىکُمُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ۬ ۙ مِنۡ قَبۡلُ وَ فِیۡ ہٰذَا ۔
دین اپنے باپ ابراہیم ( علیہ السلام ) کا قائم رکھو اسی اللہ نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے اس قرآن سے پہلے اور اس قران میں بھی۔
اس ایت میں اللہ پاک فرماتا ہے کہ اس قران سے پہلے ہم نے پہلے شریعتوں میں بھی تمہارا نام مسلم رکھا تو قران کے نزول کے وقت وہ پرانے لوگ یا شریعت جس کا نام المسلمین رکھا وہ قران کے نزول کے وقت موجود نہیں تھے۔ من قبل کا مطلب یہ ہوا کہ قران کے نزول کے وقت جن لوگوں کے لئے المسلمین کا نام رکھا وہ لوگ موجود نہیں تھے بلکہ پہلے گزرچکے تھے۔
دوسرا دلیل:
سورہ ال عمران ایت نمبر 144 میں اللہ پاک فرماتا ہے:
وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ ۔
اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہے بلکہ رسول ہے ان سے پہلے بہت سے رُسول گزر چکے ہیں۔
اس ایت میں بھی “من قبل” کا لفظ ایا ہے جس کے زریعے اللہ پاک یہ فرمارہا ہے کہ محمد علیہ السلام سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں یعنی محمد علیہ السلام جب مبعوث ہورہا تھا تو محمد علیہ السلام سے پہلے جتنے بھی رسول تھے وہ اس دنیا سے چلے گئے تھے۔ تو “من قبل” ہمیشہ کے لئے اس بات کے لئے استعمال ہوتا ہے جس کا خاتمہ پہلے ہوچکا ہو اور وہ بات یا وہ چیز ماضی کا حصہ بن چکا ہو تو بلکل اسی طرح ادم کے پیدائیش کے وقت ادم سے پہلے تمام جنات کا خاتمہ “من قبل” سے ہوچکا تھا۔
تیسری دلیل:
سورہ ال عمران ایت نمبر 137 میں اللہ پاک فرماتا ہے:
قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ سُنَنٌ ۙ فَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَانۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الۡمُکَذِّبِیۡنَ ﴿۱۳۷﴾
تم سے پہلے بھی ایسے واقعات گُزر چکے ہیں ، سُو زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ ( آسمانی تعلیم کے ) جُھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا؟
اس ایت میں اللہ پاک فرماتا ہے کہ تم سے پہلے بہت سے واقعات گزر چکے ہیں یعنی یہ واقعات ماضی کا حصہ بن چکی ہیں اب وہ واقعات موجود نہیں ہے تو اس ایت میں بھی “من قبل” نے یہ ثابت کردیا کہ قران میں جہاں کہی بھی قبل، قبلکم یا قبلھم سے پہلے “من” اجائے تو وہ بات، واقعہ یا چیز ماضی کا حصہ ہوتی ہے اور اس کا وجود موجودہ وقت میں نہیں ہوتا۔
چھودویں دلیل:
سورہ ال عمران ایت نمبر 3 میں اللہ پاک فرماتا ہے:
نَزَّلَ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ وَ اَنۡزَلَ التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ ۙ مِنۡ قَبۡلُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ اَنۡزَلَ الۡفُرۡقَانَ۔
اس ایت میں اللہ پاک فرماتا ہے کہ اس قران سے پہلے ہم نے تورات اور انجیل کو لوگوں کے ھدایت کے لئے نازل کی تھی۔ اس ایت میں بھی “من قبل” نے یہ ثابت کیا کہ “من قبل” جس بات، حکم یا چیز کے ساتھ اجائے تو وہ بات، حکم یا چیز ماضی کا حصہ ہوتی ہے اور وہ موجودہ وقت میں موجود نہیں ہوتا۔ اللہ پاک نے پرانے کتابوں کو ختم کرکے نیا کتاب یعنی قران نازل کیا۔ قران کے نزول سے پرانے کتابیں منسوخ ہوگئی۔
جواب
عربی زبان قرآن نازل ہونے سے پہلے سے ہے اور اس میں قبل کا مطلب وہی ہے جو اردو میں لفظ پہلے کا ہے – یہ نہیں کہ جس کی بات ہو رہی ہے وہ یقینا معدوم وجود ہے
نبی صلی الله علیہ وسلم سے پہلے انبیاء آئے ان کی وفات ہوئی لیکن ان سے پہلے سے امت موسی و امت عیسیٰ موجود ہے یا یہود و نصرانی موجود ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہود و نصرانی معدوم ہیں
مثلا قرآن میں ہے
وَمِنْ قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَى إِمَامًا وَرَحْمَةً وَهَذَا كِتَابٌ مُصَدِّقٌ لِسَانًا عَرَبِيًّا لِيُنْذِرَ الَّذِينَ ظَلَمُوا وَبُشْرَى لِلْمُحْسِنِينَ
سورہ الاحقاف
اور اس سے قبل موسی کی کتاب امام و رحمت تھی
اس کا مطلب یہ نہیں کہ موسی کی کتاب دنیا سے معدوم ہو گئی بلکہ قرآن میں ہے
سورہ مائدہ
قُلْ يَاأَهْلَ الْكِتَابِ لَسْتُمْ عَلَى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ
اے اہل کتاب تم کچھ نہیں یہاں تک کہ تم توریت و انجیل کو قائم کرو
یعنی دور نبوی میں یہ کتب موجود تھیں تبھی ان کو قائم کرنے کی بات ہو رہی ہے – اہل کتاب کے علماء کو علم تھا کہ اصل توریت کیا ہے اصل انجیل کیا ہے لیکن اس کو قائم نہیں کر رہے تھے
قرآن میں ہے جنات کو انسانوں سے قبل تخلیق کیا یہ نہیں کہ یہ معدوم ہو گئے
عقل کی بات ہے کہ انبیاء وفات پا گئے لہذا ان کے حوالے دے کر یا معذب قوموں کے حوالے دے کر یہ ثابت کرنا کہ قبل سے مراد عدم وجود ہے جہالت ہے
کیونکہ ظاہر ہے ان کی وفات ہو گئی
قرآن سورہ حدید میں ہے
لا يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُولَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا}
تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے فی سبیل اللہ دیا ہے اور قتال کیا ہے وه (دوسروں کے) برابر نہیں،
یہاں ہے من قبل اور جنات والی آیت میں بھی من قبل ہے
والجان خلقناه من قبل من نار السموم ( 27 )
سورہ حجر
سورہ بقرہ ٨٩ میں ہے یہود پہلے (بحث میں) فتح پاتے
وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَ
اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ یہودی دور نبوی تک معدوم ہو گئے
مشرکین مکہ کے لئے کہا
لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ
سورہ ال عمران
یہ لوگ من قبل گمراہی میں تھے
اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ گمراہ لوگ مر گئے