کیا قربانی ایک فوت شدہ انسان کی طرف سے بھی کی جا سکتی ہے – قربانی سے مراد یہ جو بقر عید پر کی جاتی ہےاور کیا قربانی ایک زندہ انسان کی طرف سے بھی کی جا سکتی ہے یا نہیں – یہنی اس انسان کی طرف سے جس پر قربانی واجب نہیں – یا قربانی کے برابر قیمت کسی انسان کو دے کر اس کی مدد کی جا سکتی ہے – کیا اس سے قربانی جتنا ثواب ہو گا
============
کیا کسی فوت شدہ آدمی کی طرف سے حج بدل کیا جا سکتا ہے – یا ایک ایسے آدمی کی طرف سے جس پر حج فرض نہیں اور وہ ابھی تک زندہ ہے اس کی تین سورتیں ہو سکتی ہیں
١.وہ آدمی زندہ ہو صحت مند ہو لیکن اس کے پاس وسائل نہ ہوں
٢.
وہ آدمی جو ابھی تک زندہ ہو لیکن اس کی صحت اچھی نہ ہو یا بوڑھا ہو
وغیرہ
جواب
فوت شدہ کا عمل ختم ہوا- اب ورثاء جو نیک عمل کریں گے اس کا ثواب اس کو ہو گا اگر زندگی میں نیکی کی تلقین کی تھی سعد بن عبادہ رضی الله عنہ کی والدہ والا واقعہ مخصوص ہے
————
جس پر قربانی واجب نہیں اس کے لئے اپ کو قربانی کرنے کی ضرورت ہے ؟اس کو اپ اپنی قربانی کا گوشت صدقه کر دیں
——–
ایک آدمی بیمار ہو لیکن مال دار ہو وہ کسی کو پیسے دے کر حج پر بھیج سکتا ہے
————-
جس کے پاس مال نہیں اس پر حج فرض نہیں
جواب
کان انسان کے سر میں لگے ہیں
الأذنان من الرأس
اس روایت کو ابن القطان نے صحیح کہا ہے
سنن ابو داود میں ہے
حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حمادٌ. (ح) وحدثنا مسدَّدٌ وقتيبةُ، عن حماد بن زيدٍ، عن سنان بن ربيعة، عن شهر بن حوشب، عن أبي أمامة، وذكر وضوء النبيِّ صلي الله عليه وسلم ، قال: كان رسول الله صلي الله عليه وسلم يمسح المأقين، قال: وقال: “الأذنان من الرأس” قال سليمان بن حرب: يقولها أبو أمامة. قال قتيبةُ: قال حمادٌ: لا أدري هو من قول النبي صلي الله عليه وسلم أو من أبي أمامة، يعني: قصة الأذنين. قال قتيبةُ: عن سنان أبي ربيعة. قال أبو داود: هو ابنُ ربيعة كنيتُهُ: أبو ربيعة” انتهى.
اس میں راوی کو ابہام ہے کہ یہ صحابی کا قول ہے یا رسول الله کا
فقہ کا اصول ہے کہ کسی مسئلہ میں قول نبوی نہیں تو قول صحابی لیا جائے گا – اس بنا پر کان کا مسح ہے
سنن نسائی میں کان کے مسح کو رسول الله کا طریقہ کہا گیا ہے
«بَاطِنِهِمَا بِالسَّبَّاحَتَيْنِ وَظَاهِرِهِمَا بَإِبْهَامَيْهِ
کان کے سوراخ والے حصہ کا مسح شہادت والی انگلی سے کیا اور سر والی جانب کا مسح اپنے انگوٹھے کے ساتھ فرمایا۔
سنن النسائي، کتاب الطھارۃ، باب مسح الأذنین مع الرأس وما یستدل بہ علی أنھما من الرأس
گردن کے مسح پر حسن احادیث ہیں
عن ابن عمرؓ ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال من توضا ومسح بیدیہ علی عنقہ و فی الغل یوم القیامہ ۔تلخیص الحبیر ج1 ص 288
ترجمہ :حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا جس شخص نے وضوء کیا اور ہاتھوں کے ساتھ گردن کا مسح کیا تو قیامت کے دن گردن میں طوق کے پہنائے جانے سے اس کی حفاظت کی جائے گی ۔
ابن حجر نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے تلخیص الحبیر ج1 ص 288 ۔ شوکانی نے بھی اس کی تصحیح کی ہے ۔ نیل الاوطار ج1 ص 123 مکتبہ دارالمعرفہ لبنان۔
حدیث: حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنْ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّهُ «رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُ رَأْسَهُ حَتَّى بَلَغَ الْقَذَالَ، وَمَا يَلِيهِ مِنْ مُقَدَّمِ الْعُنُقِ بِمَرَّةً» قَالَ الْقَذَالُ: السَّالِفَةُ الْعُنقُ
مسند احمد ج3 ص 481 حدیث نمبر 15951
ترجمہ :حضرت طلحہ بروایت اپنے والد ، اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ اپنے سر پر مسح کر رہے ہیں یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اپنے ہاتھ) سر کے آخری حصے اور اس سے متصل گردن کے اوپر کے حصے تک ایک بار لے گئے ۔
: شعيب نے اس کو ضعیف کہا ہے
شعیب نے مسند احمد کی تعلیق میں ابن حجر کا قول لکھا ہے کہ حدیث میں الفاظ سے لوگوں نے گردن مراد لی ہے
وحديث المقدام بن معديكرب، وفيه: فلما بلغ مسح رأسه وضع كفيه على مقدم رأسه، ثم مر بهما حتى بلغ القفا. وحديث المقدام إسناده ضعيف. … قال الحافظ في “التلخيص”: ولعل مستند البغوي في مسح القفا (يعني العنق هنا
یہ روایات ضعیف ہیں لیکن فقہ میں انہی کو حسن کہا جاتا ہے اور دلیل لی جاتی ہے – لیکن جو مضبوط اسناد ہیں ان میں گردن کا مسح کا ذکر نہیں ہے
یعنی یہ گردن کا مسح ایک اضافی عمل ہے ضروری نہیں اگر پانی ہے تو کیا جا سکتا ہے – پانی کم ہے تو نہ کیا جائے
حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا وكيع، حدثنا عبد الرحمن بن زيد بن اسلم، عن ابيه، عن عطاء بن يسار، عن ابي سعيد الخدري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” من نام عن الوتر او نسيه فليصل إذا ذكر وإذا استيقظ “.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو وتر پڑھے بغیر سو جائے، یا اسے پڑھنا بھول جائے تو جب یاد آئے یا جاگے پڑھ لے“۔
جواب
اس کی سند صحیح نہیں ہے
العلل امام احمد میں ہے
وكان أبي يضعف عبد الرحمن بن زيد بن أسلم، وذلك أنه روى هذا الحديث، عن أبيه، عن عطاء بن يسار، عن أبي سعيد، عن النبي – صلى الله عليه وسلم
میرے باپ ایک حدیث کی وجہ سے عبد الرحمان بن زید کو ضعیف کہتے کہ اس نے یہ عن أبيه، عن عطاء بن يسار، عن أبي سعيد، عن النبي – صلى الله عليه وسلم سے روایت کی
قال الترمذي: ضعيف في الحديث، ضعفه أحمد بن حنبل، وعلي بن المديني، وغيرهما من أهل الحديث، وهو كثير الغلط. «جامع الترمذي»
ترمذی نے کہا یہ بہت غلطیاں کرتا ہے اور احمد علی المدینی اور دیگر محدثین نے اس کو ضعیف کہا ہے
صحیح بخاری میں ہے
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ اوْصَانِي خَلِيلِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَلَاثٍ صِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَرَكْعَتَيْ الضُّحَى وَأَنْ أُوتِرَ قَبْلَ أَنْ أَنَامَ
ابو ہریرہ نے کہا رسول الله نے وصیت کی وتر سونے سے پہلے پڑھ لو
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اجْعَلُوا آخِرَ صَلَاتِكُمْ بِاللَّيْلِ وِتْرًا
ابن عمر نے کہا رسول الله نے حکم کیا آخری نماز وتر کی کرو
جو تہجد میں اٹھ نہ سکے اس کو چاہیے کہ وتر پڑھ کر سو جائے
وتر کا وقت فجر سے پہلے تک ہے
اب اگر اپ تهجد مين اٹھنا بھول گئیں تو صبح ہونے کے بعد نوافل پڑھ سکتی ہیں وتر نہیں
وَكَانَ نَبِيُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى صَلَاةً أَحَبَّ أَنْ يُدَاوِمَ عَلَيْهَا، وَكَانَ إِذَا غَلَبَهُ نَوْمٌ، أَوْ وَجَعٌ عَنْ قِيَامِ اللَّيْلِ صَلَّى مِنَ النَّهَارِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً،
عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ رسول کریمﷺ جب کبھی غلبۂ نیند یا کسی تکلیف کی بنا پر قیام اللیل نہ کر پاتے تو دن میں 12 رکعتیں ادا فرماتے
رسول الله کا معمول ١١ رکعات تھا جس میں وتر طاق ہوتے یا تو ایک رکعت یا تین یا پانچ
لیکن وتر نوافل ملا کر ١١ رکعتین تھیں بھول جانے پر اپ صلی الله علیہ وسلم دوسرے دن ١٢ رکعتین پڑھتے
۔ بخاری جلد 1 کتاب نمبر 10 حدیث نمبر 566 روایت عائشہ رضی اللہ عنھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عصر کے بعد دو رکعت کبھی نہی چھوڑتے تھے یعنی ہمیشہ پڑھتے تھے۔
2۔ بخاری جلد 1 کتاب نمبر 10 حدیث نمبر 562 روایت ابوھریرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عصر کے بعد سورج غروب ہونے تک کوئی نماز نہی پڑھتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد سے لیکر سورج غروب ہونے تک کسی بھی نوافل یا سنت سے منع فرمایا ہے۔
جواب
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ أَيْمَنَ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي أَنَّهُ سَمِعَ عَائِشَةَ قَالَتْ وَالَّذِي ذَهَبَ بِهِ مَا تَرَكَهُمَا حَتَّى لَقِيَ اللَّهَ وَمَا لَقِيَ اللَّهَ تَعَالَى حَتَّى ثَقُلَ عَنْ الصَّلَاةِ وَكَانَ يُصَلِّي كَثِيرًا مِنْ صَلَاتِهِ قَاعِدًا تَعْنِي الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّيهِمَا وَلَا يُصَلِّيهِمَا فِي الْمَسْجِدِ مَخَافَةَ أَنْ يُثَقِّلَ عَلَى أُمَّتِهِ وَكَانَ يُحِبُّ مَا يُخَفِّفُ عَنْهُمْصحیح بخاری کتاب مواقیت الصلاۃ باب ما یصلى بعد العصر من الفوائت ونحوھا ح 590اس ذات کی قسم جس نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو وفات دی ہے آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے یہ دو رکعتیں کبھی نہیں چھوڑیں حتى کہ خالق حقیقی سے جاملے ۔ اور آپ صلى اللہ علیہ وسلم اس وقت تک رفیق اعلى سے نہیں ملے جبتک آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے لیے نماز مشکل نہیں ہوئی اور آپ صلى اللہ علیہ وسلم اکثر بیٹھ کر نماز ادا کرتے تھے یعنی عصر کے بعد والی دو رکعتیں اور نبی صلى اللہ علیہ وسلم یہ دو رکعتیں پڑھتے تھے لیکن مسجد میں نہیں بلکہ گھر میں پڑھتے تھے کیونکہ آپ کو ڈر تھا کہ کہیں امت پر مشقت نہ ہو اور آپ صلى اللہ علیہ وسلم امت کے لیے تخفیف پسند فرماتے تھے۔
مسند احمد میں ہےحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، وَمَسْرُوقٍ، أَنَّهُمَا قَالَا: نَشْهَدُ عَلَى عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: ” مَا كَانَ يَوْمُهُ الَّذِي يَكُونُ عِنْدِي إِلَّا صَلَّاهُمَا (2) رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي ” تَعْنِي: الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ
یہ عمل رسول الله خود کرتے تھے اس کا حکم نہیں کرتے تھے
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ أَبِي [ص:121] أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: ” أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ بَيْعَتَيْنِ، وَعَنْ لِبْسَتَيْنِ وَعَنْ صَلاَتَيْنِ: نَهَى عَنِ الصَّلاَةِ بَعْدَ الفَجْرِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ العَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَعَنِ اشْتِمَالِ الصَّمَّاءِ، وَعَنْ الِاحْتِبَاءِ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ، يُفْضِي بِفَرْجِهِ إِلَى السَّمَاءِ، وَعَنِ المُنَابَذَةِ، وَالمُلاَمَسَةِ ”
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ۔”رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد نماز سے منع فرمایا، یہاں تک کہ سورج غروب ہوجائے اور نماز ِصبح کے بعد ،حتی کہ سورج طلوع ہوجائے۔(صحیح بخاری : ٥٨٨ ، صحیح مسلم : ٨٢٥)
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ المَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ قَزَعَةَ، مَوْلَى زِيَادٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ، وَقَدْ غَزَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ غَزْوَةً، قَالَ: أَرْبَعٌ سَمِعْتُهُنَّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ قَالَ: – يُحَدِّثُهُنَّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، فَأَعْجَبْنَنِي وَآنَقْنَنِي: ” أَنْ لاَ تُسَافِرَ امْرَأَةٌ مَسِيرَةَ يَوْمَيْنِ لَيْسَ مَعَهَا زَوْجُهَا، أَوْ ذُو مَحْرَمٍ، وَلاَ صَوْمَ يَوْمَيْنِ الفِطْرِ وَالأَضْحَى، وَلاَ صَلاَةَ بَعْدَ صَلاَتَيْنِ بَعْدَ العَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَلاَ تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلاَثَةِ مَسَاجِدَ: مَسْجِدِ الحَرَامِ، وَمَسْجِدِي، وَمَسْجِدِ الأَقْصَى ”
صحیح بخاری ١٨٦٤ میں ہے
یہ رسول الله امت کو حکم کرتے تھے البتہ میں اس آخری روایت وَلاَ تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلاَثَةِ مَسَاجِدَ: مَسْجِدِ الحَرَامِ، وَمَسْجِدِي، وَمَسْجِدِ الأَقْصَى کو صحیح نہیں سمجھتا
جواب یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے پڑھی ہیں جو فرض سے الگ ہیں لوگوں کی جانب سے ان رکعات کو سنت موکدہ کہا گیا ہے سنت موکدہ اور غیر موکدہ یہ سب متاخرین کی تقسیم ہیں- موکدہ مطلب جس کی جن کی تاکید کی جبکہ حدیث میں ان سنتوں کی تاکید کا کوئی ذکر نہیں – سنت بھی نفل ہیں جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے پڑھے اور یہ تمام ١٢ رکعت ہیں
اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:سمعت رسول اﷲﷺ یقول: «من صلّىٰ اثنتی عشرة رکعة في یوم ولیلة بُني له بهن بیت في الجنة» (صحیح مسلم:٧٢٨)
ترجمہ:میں نے رسول اللہﷺ سے سنا كہ جو شخص دن اور رات میں ١٢ رکعات پڑھ لے، اُن کی وجہ سے اس کے لئے جنت میں ایک محل بنا دیا جاتا ہے۔
اس روایت میں کوئی تاکید نہیں ہے کہ یہ ضرور پڑھے ورنہ گناہ ہے – تاکیدی حکم الگ ہیںاب اپ جمع کریں جس کو سنت موکدہ کہا جاتا ہے ان کی تعداد ہے
فجر کی دو سنت ظہر کی چھ مغرب کی دواور عشاء کی دو رکعات ٹوٹل ہوا بارہ
اس طرح یہ نفل ہیں جو ١٢ کی تعداد میں پڑھے گئےالله نے ہم پر پانچ وقت کی نماز فرض کی ہے – اس کے بعد جنت میں محل چاہیے تو یہ مزید بارہ رکعات پڑھ لیں
واجب وہ ہے جو فرض نہیں لیکن کیا گیا اس میں نماز جنازہ ہے نماز عید ہے اور اس پر فقہاء کی رائے ہے کہ محلہ میں سے چند لوگ یا شہر کے لوگ کر دیں تمام نہ بھی کریں تو کافی ہے
Sahih Muslim Hadees # 2666
وحَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ أُمَيَّةَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا غَطَفَانَ بْنَ طَرِيفٍ الْمُرِّيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: حِينَ صَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّهُ يَوْمٌ تُعَظِّمُهُ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَإِذَا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ إِنْ شَاءَ اللهُ صُمْنَا الْيَوْمَ التَّاسِعَ» قَالَ: فَلَمْ يَأْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ، حَتَّى تُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
حسن بن علی حلوانی ، ابن ابی مریم ، یحییٰ بن ایوب ، اسماعیل بن امیہ ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کے دن روزہ رکھا اور اس کے روزے کا حکم فرمایا تو انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اس دن تو یہودی اور نصاریٰ تعظیم کرتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب آئندہ سال آئے گا تو ہم نویں تاریخ کا بھی روزہ رکھیں گے راوی نے کہا کہ ابھی آئندہ سال نہیں آیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ۔
بھائی اس حدیث کے مطابق تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اگلے سال یہودو نصارہ کی مخالفت میں نو کا روزہ رکھنے کا بھی ارادہ تھا اب سوال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں معلوم تھا کہ یہود کا کلنڈر عربوں کے کلنڈر سے مختلف ہے اگلے سال یہ دونوں مہینے نہیں مل پائے گے یہودکی النسی کی وجہ سے۔ پھر بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اگلے سال نو کا روزہ رکھنے کا ارادہ کیا پلیز اس بارے میں رہنمائی فرما دیجیئے جزاک اللہ۔
جواب
یہ روایت میرے نزدیک صحیح نہیں معلول ہے
اس کی علت ہے
اول : سند میں أبو غطفان بن طريف ہے جو مجہول ہے – لسان میزان میں ہے
أبو غطفان [الظاهر أنه أبو غطفان بن طريف المري] عن أبي هريرة. لا يدرى من هو. قال الدارقطني: مجهول.
والظاهر أنه أبو غطفان بن طريف المري فما هو بمجهول قد وثقه غير واحد. انتهى. وهو في التهذيب ويبعد هذا الظاهر أن مثل الدارقطني لا يخفى عليه حال المري وقد جزم بأن هذا مجهول.
أبو غطفان [ظاہر ہوتا ہے کہ یہ أبو غطفان بن طريف المري] أبي هريرة سے روایت کرتا ہے نا معلوم کون ہے اور دارقطنی نے کہا مجہول ہے
اور ظاہر ہے کہ أبو غطفان بن طريف المري جو مجہول نہیں ہے اس کو ایک سے زائد نے ثقہ کہا ہے انتھی اور یہ التہذیب میں بھی ہے اور بعید ہے کہ دارقطنی پر اس کا حال مخفی رہا ہو اور ان کا جزم یہ ہے کہ یہ مجہول ہے
راقم کہتا ہے یہ مجہول ہے اس کے ابن سعد نے صرف یہ لکھا ہے یہ مروان کا کاتب تھا
نسائی نے الکنی میں کسی أَبُو غطفان کو ثقہ کہا ہے لیکن واضح نہیں کہ یہی مراد ہے یا کوئی اور ہے
کتاب مَنْ تَكلَّم فيه الدَّارقطني في كتاب السنن من الضعفاء والمتروكين والمجهولين (فيه أكثر من مائتي ترجمة ليست في سنن الدارقطني المطبوع) از المؤلف: محمد بن عبد الرحمن بن محمد بن أحمد بن التقي سليمان بن حمزة المقدسي ثم الصالحي ناصر الدين المعروف بابن زريق (المتوفى: 803هـ) کے مطابق دارقطنی نے اس کو قوی نہیں بھی کہا ہے
أبو غطفان المري عن أبي هريرة. ليس بالقوي (1). قاله الدارقطني
دوسری علت اس کے متن میں ہے
يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّهُ يَوْمٌ تُعَظِّمُهُ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى
اس دن کی تعظیم یہود و نصرانی کرتے ہیں
راقم کہتا ہے یہ قول حقیقت کے خلاف ہے – نصرانی اس دن کی کوئی تعظیم نہیں کرتے
یاد رہے کہ نصرانییوں کے مطابق توریت کلعدم ہے اور عیسیٰ کے صلیب کا حکم بھی یوم عید فسخ کو دیا گیا تھا لہذا یہ دن ان کے نزدیک لائق تعظیم نہیں ہے
تیسری علت
یہ واقعہ پہلی ہجری کا ہے جب یہود سے خبر ملی کہ یوم عاشور عید فسخ کا دن ہے
اس کے بعد دو ہجری میں رمضان کے روزے فرض ہوئے اور عاشور کا روزہ نفلی کر دیا گیا
گویا ١١ سال تک دس کا ہی روزہ رکھا جاتا رہا اور بارہویں سال جب مدینہ میں یہود کے اکا دکا افراد تھے خیال ہوا کہ یہود کی مخالفت ہونی چاہیے کہ کہ روایت میں ہے میں اگلے سال (یعنی ١٢ ھ میں بھی زندہ رہا تو) نو تاریخ کا روزہ بھی رکھوں گا – یہ سب ممکنات میں سے نہیں ہے
معاویہ رضی الله عنہ سے مروی ہے
«هَذَا يَوْمُ عَاشُورَاءَ، وَلَمْ يُفْرَضْ عَلَيْنَا صِيَامُهُ،
یہ دن یوم عَاشُورَاءَ ہے اس کا روزہ فرض نہیں ہے
یہ حدیث معاویہ نے اس وقت سنائی جب حج کیا تو وہاں سب کو خبر کیوں نہیں کی کہ نو کا روزہ بھی رکھنا چاہیے
مسلم نے ایک روایت دی ہے کہ ابن عباس نے نو تاریخ کا روزہ رکھا اور اس کو یوم عاشورا قرار دیا
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ، عَنْ حَاجِبِ بْنِ عُمَرَ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ الْأَعْرَجِ، قَالَ: انْتَهَيْتُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، وَهُوَ مُتَوَسِّدٌ رِدَاءَهُ فِي زَمْزَمَ، فَقُلْتُ لَهُ: أَخْبِرْنِي عَنْ صَوْمِ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ: «إِذَا رَأَيْتَ هِلَالَ الْمُحَرَّمِ فَاعْدُدْ، وَأَصْبِحْ يَوْمَ التَّاسِعِ صَائِمًا»، قُلْتُ: هَكَذَا كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُهُ قَالَ: «نَعَمْ»
الْحَكَمِ بْنِ الْأَعْرَجِ نے کہا ہم ابن عباس کے پاس رکے .. وہ زمزم کے پاس تھے ان سے میں نے کہا مجھ کو یوم عَاشُورَاءَ کے روزے کی خبر دیں – کہا جب محرم کا چاند دیکھو گننا شروع کرو اور نو کی صبح ہو تو تم روزے سے ہو – میں نے پوچھا کیا اسی طرح رسول الله صلی الله علیہ وسلم رورہ رکھتے تھے ؟ ابن عباس نے کہا ہاں
اس کی سند میں حاجب بن عمر بن عبد الله بن إسحاق ہے اور الحكم بن عَبد اللَّهِ بن إسحاق الأعرج البَصْرِيّ ہے دونوں بہت مضبوط نہیں
یہ روایت شاذ ہے – اس کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم تو رکھتے ہی نو تاریخ کا روزہ تھے
ابن عباس سے ہی مروی دوسری روایت میں ہے کہ دس محرم کا دن عَاشُورَاءَ کا دن تھا
بحث اس روایت پر ہو رہی ہے کہ نو کا رکھنے کا انہوں نے سوچا لیکن وفات ہو گئی یعنی یہ متضاد روایات ہیں جبکہ صحیح مسلم کی اس روایت میں ہے نو کا روزہ رسول الله بھی رکھتے تھے جو یوم عَاشُورَاءَ تھا
متابعت بھی ضعیف ہے – امام مسلم نے ایک اور حدیث دی ہے
وحَدَّثَنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَبُو كُرَيْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَيْرٍ، – لَعَلَّهُ قَالَ: – عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “لَئِنْ بَقِيتُ إِلَى قَابِلٍ لَأَصُومَنَّ التَّاسِعَ” وَفِي رِوَايَةِ أَبِي بَكْرٍ: قَالَ: يَعْنِي يَوْمَ عَاشُورَاء. , (م) 134 – (1134)
اسی سند و متن سے ابن ماجہ اور مسند احمد میں ہے
اس کی سند میں القاسم بن عَبَّاس بن مُحَمَّد بن معتب بن أَبي لهب القرشي الهاشمي ہے – امام علي بْن المديني سے اس پر سوال ہوا کہا
لم يروه عنه غير ابن أَبي ذئب، والقاسم مجهول
اس سے ابن أَبي ذئب کے سوا کوئی روایت نہیں کرتا اور قاسم مجہول ہے
عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے:
كان يومُ عاشوراءَ تصومُه قريشٌ في الجاهليةِ، وكان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يصومُه، فلما قَدِمَ المدينةَ صامه وأمَر بصيامِه، فلما فُرِضَ رمضانُ ترك يومَ عاشوراءَ، فمَن شاء صامه ومَن شاء ترَكَه .(صحيح البخاري:2002)
ترجمہ : قریش کے لوگ دورِ جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ روزہ رکھتے تھے۔ پھر جب آپ مدینہ تشریف لے آئے تو تب بھی عاشوراء کا روزہ رکھتے اور صحابہ کرام کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا آپ نے حکم دے رکھا تھا۔ البتہ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کی فرضیت ختم ہوگئی۔ لہٰذا اب جو چاہے یہ روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔
یہ روایت متنا اس حدیث سے زیادہ صحیح ہے جس میں ہے کہ یہود کی عید فسخ کی وجہ سے یہ روزہ رکھا گیا
ایک آدمی کے تین بیٹے ہیں وہ تینوں کماتے ہیں لیکن وہ رہتے اکٹھے ہیں تو کیا تینوں بیٹوں پر قربانی کرنا لازم ہو جائے گایا صرف ابا کر لیں تو پوری فیملی کی طرف سے قربانی اد ا ہو جائے گی؟بال اور ناخن نہ کاٹنا صرف قربانی کرنے والے کیلے ہیں یا تمام گجر کے افراد کیلئے یہ حکم ہو گا؟
جواب اگر تینوں بیٹے ایک گھر میں ہیں اور کھانا بھی مل کر کھاتے ہیں تو ایک قربانی کافی ہےلیکن اگر یہ مرد شادی شدہ ہیں ان کی ہنڈیا الگ الگ پکتی ہے تو ان سب کو الگ الگ قربانی کرنی ہے
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی نو ازواج ایک وقت میں تھیں لیکن کسی حدیث میں نہیں کہ ہر ایک کے لئے قربانی الگ الگ ہوتی ہوترمذی میں ہے
بَابُ مَا جَاءَ أَنَّ الشَّاةَ الوَاحِدَةَ تُجْزِي عَنْ أَهْلِ البَيْتِ (ایک بکری کی قربانی ایک گھر کے تمام افراد کی طرف سے کافی ہو جاتی ہے )عَطَاءَ بْنَ يَسَارٍ يَقُولُ: سَأَلْتُ أَبَا أَيُّوبَ الأَنْصَارِيَّ: كَيْفَ كَانَتِ الضَّحَايَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: كَانَ الرَّجُلُ يُضَحِّي بِالشَّاةِ عَنْهُ وَعَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، فَيَأْكُلُونَ وَيُطْعِمُونَ حَتَّى تَبَاهَى النَّاسُ، فَصَارَتْ كَمَا تَرَى.هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَعُمَارَةُ بْنُ عَبْدِ اللهِ مَدِينِيٌّ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ العِلْمِ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ، وَاحْتَجَّا بِحَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ ضَحَّى بِكَبْشٍترجمہ :عطا بن یسار کہتے ہیں ،میں نے ابو ایوب انصاری سے پوچھا ،کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں قربانیاں کس طرح کرتے تھے ،انہوں نے بتایا کہ :ہر آدمی ایک بکری اپنی اور اپنے سارے گھر والوں کی طرف قربان کرتا تھا ،اور سب اسی کو خود بھی کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے ؛لیکن بعد میں لوگوں نے فخر ونمود کا مظارہ کیا ،اور اب جو صورت ہے وہ تم دیکھ رہے ہو امام ترمذی کہتے ہیں :یہ حدیث حسن صحیح ہے ،اور امام احمد بن حنبل اور اسحاق بن راھویہ اور دیگر کئی اہل علم کا یہی قول ہے ؛
صحیح بخاری میں ہےحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ هُوَ ابْنُ أَبِي أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو عَقِيلٍ زُهْرَةُ بْنُ مَعْبَدٍ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ هِشَامٍ، وَكَانَ قَدْ أَدْرَكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَهَبَتْ بِهِ أُمُّهُ زَيْنَبُ بِنْتُ حُمَيْدٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بَايِعْهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هُوَ صَغِيرٌ» فَمَسَحَ رَأْسَهُ، وَدَعَا لَهُ، وَكَانَ يُضَحِّي بِالشَّاةِ الوَاحِدَةِ عَنْ جَمِيعِ أَهْلِهِ
رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سارے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرتے تھے
ناخن اور بال کاٹنا اس کے لئے ہے جو قربانی کر رہا ہو
ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم ماہ ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کسی کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے بالوں اور ناخنوں کو روکے رکھے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، وَعَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، وَعَنِ الأَعْرَجِ يُحَدِّثُونَهُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ أَدْرَكَ مِنَ الصُّبْحِ رَكْعَةً قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَقَدْ أَدْرَكَ الصُّبْحَ، وَمَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ العَصْرِ قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فَقَدْ أَدْرَكَ العَصْرَ
جس نے طلوع آفتاب سے پہلے نماز فجر کی ایک رکعت کو پا لیا اس نے گویا نماز فجر کو پا لیا اور جس نے غروب آفتاب سے پہلے عصر کی ایک رکعت پا لی وہ نماز عصر پانے میں کامیاب ہو گیا۔(صحیح بخاری ،مواقیت :۵۷۹)———–حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، وَاسْمُهُ يَحْيَى بْنُ مَالِكٍ الْأَزْدِيُّ وَيُقَالُ الْمَرَاغِيُّ، وَالْمَرَاغُ حَيٌّ مِنَ الْأَزْدِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «وَقْتُ الظُّهْرِ مَا لَمْ يَحْضُرِ الْعَصْرُ، وَوَقْتُ الْعَصْرِ مَا لَمْ تَصْفَرَّ الشَّمْسُ، وَوَقْتُ الْمَغْرِبِ مَا لَمْ يَسْقُطْ ثَوْرُ الشَّفَقِ، وَوَقْتُ الْعِشَاءِ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ، وَوَقْتُ الْفَجْرِ مَا لَمْ تَطْلُعِ الشَّمْسُ
ظہر كا وقت زوال سے ليكر آدمى كے سائے كے برابر ہونے ( يعنى ) عصر كا وقت شروع ہونے تك رہتا ہے، اور عصر كا وقت سورج كے زرد ہونے تك ہے، اور مغرب كا وقت سرخى غائب ہونے تك ہے، اور عشاء كا وقت درميانى نصف رات تك ہے، اور صبح كى نماز كا وقت طلوع فجر سے ليكر سورج طلوع ہونے تك ہے، جب سورج طلوع ہو جائے تو نماز پڑھنے سے رك جاؤ كيونكہ وہ شيطان كے سينگوں كے درميان طلوع ہوتا ہے”
صحيح مسلم حديث نمبر 612
—————-
وہابی صالح المنجد کے نزدیک اس سے دو وقت نکلتے ہیںhttps://islamqa.info/ur/9940” اور عصر كا وقت اس وقت تك ہے جب تك سورج زرد نہ ہو ”
عصر كى ابتدائى وقت ہم معلوم كر چكے ہيں كہ ظہر كا وقت ختم ہونے ( يعنى ہر چيز كا سايہ اس كے برابر ہونے كے وقت ) سے شروع ہوتا ہے، اور عصر كى انتہاء كے دو وقت ہيں:
( 1 ) اختيارى وقت:
يہ عصر كے ابتدائى وقت سے ليكر سورج زرد ہونے تك ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” عصر كا وقت جب تك سورج زرد نہ ہو جائے ”
يعنى جب تك سورج پيلا نہ ہو جائے، اس كا گھڑى كے حساب سے موسم مختلف ہونے كى بنا پر وقت بھى مختلف ہو گا.
( 2 ) اضطرارى وقت:
يہ سورج زرد ہونے سے ليكر غروب آفتاب تك ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” جس نے سورج غروب ہونے سے قبل عصر كى ايك ركعت پا لى اس نے عصر كى نماز پالى ”
———-
صحیح مسلم کی روایت پر محدثین کہتے ہیں یہ مرفوع ہے یا نہیں اس میں کلام ہے مسند البزار میں ہےوَسَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ فَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَشُعْبَةُ رَفَعَهُ عَنْهُ مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْوَاسِطِيُّ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ عَنْهُ غَيْرُهُ، وَرَفَعَهُ هِشَامٌ، وَهَمَّامٌ، وَاسْمُ أَبِي أَيُّوبَ يَحْيَى بْنُ مَالِكٍ سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ نے اس کو مرفوع کیا ہے- شعبہ سے اس کو مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْوَاسِطِيُّ، نے مرفوع روایت کیا ہے لیکن اوروں نے ، هِشَامٌ، وَهَمَّامٌ نے اس کو مرفوع کیا ہے
یعنی یہ عبد الله بن عمرو کا قول ہے حدیث نبوی ہے یا نہیں اس می راوی اختلاف کرتے ہیں
========
صحیح بخاری کی روایت میں یہ مسائل نہیں جو صحیح مسلم کی سند میں ہیں
جواب
مصنف عَبْدُ الرَّزَّاقِ، 8156 ہے
– عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ قَالَ: سَمِعْتُ بِلَالًا يَقُولُ: «مَا أُبَالِي لَوْ ضَحَّيْتُ بِدِيكٍ، وَلَأَنْ أَتَصَدَّقَ بِثَمَنِهَا عَلَى يَتِيمٍ أَوْ مُغَبَّرٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أُضَحِّيَ بِهَا» قَالَ: فَلَا أَدْرِي أَسُوَيْدٌ قَالَهُ مِنْ قِبَلِ نَفْسِهِ أَوْ هُوَ مِنْ قَوْلِ بِلَالٍ
عِمْرَانَ بْنِ مُسْلِمٍ نے کہا سوید بن غفله نے کہا بلال نے کہا مجھے کوئی پرواہ نہیں اگر میں مرغا ذبح کروں … عِمْرَانُ بْنُ مُسْلِمٍ الْجُعَفِيُّ الْكُوفِيُّ الضَّرِيرُ نے کہا نا معلوم یہ سوید نے خود اپنی طرف سے کہا یا یہ قول بلال رضی الله عنہ ہے
اس میں سند صحیح ہے البتہ ابہام ہے کہ یہ قول کس کا ہے سوید صحابی نہیں ہے
صحيح مسلم: كِتَابُ الطَّهَارَةِ (بَابٌ تَبْلُغُ الْحِلْيَةُ حَيْثُ يَبْلُغُ الْوُضُوءُ) صحیح مسلم: کتاب: پاکی کا بیان (زیور وہاں تک پہنچے گا جہاں تک وضو کا پانی پہنچے گا)
586
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا خَلَفٌ يَعْنِي ابْنَ خَلِيفَةَ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: كُنْتُ خَلْفَ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَهُوَ يَتَوَضَّأُ لِلصَّلَاةِ فَكَانَ يَمُدُّ يَدَهُ حَتَّى تَبْلُغَ إِبْطَهُ فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ مَا هَذَا الْوُضُوءُ؟ فَقَالَ: يَا بَنِي فَرُّوخَ أَنْتُمْ هَاهُنَا؟ لَوْ عَلِمْتُ أَنَّكُمْ هَاهُنَا مَا تَوَضَّأْتُ هَذَا الْوُضُوءَ، سَمِعْتُ خَلِيلِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «تَبْلُغُ الْحِلْيَةُ مِنَ الْمُؤْمِنِ، حَيْثُ يَبْلُغُ الْوَضُوءُ»
حکم : صحیح 586
ابو حازم سے روایت ہے ، انہوں نےکہا: میں ابو ہریرہ کے پیچھے کھڑا تھا اور وہ نماز کے لیے وضو کر رہے تھے ، وہ اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ،یہاں تک کہ بغل تک پہنچ جاتا، میں نے ان سے پوچھا: اے ابو ہریرہ ! یہ کس طرح کا وضو ہے؟ انہوں نے جواب دیا: اے فروخ کی اولاد (اے بنی فارس)! تم یہاں ہو ؟ اگر مجھے پتہ ہوتا کہ تم لوگ یہاں کھڑے ہو تو میں اس طرح وضو نہ کرتا ۔ میں نے ا پنے خلیل کو فرماتے ہوئے سناتھا:’’ مومن کازیور وہاں پہنچے گا جہاں اس کے وضو کا پانی پہنچے گا۔جواب
اس کی سند صحیح ہے لیکن اس میں وضو میں اضافہ ہے جو ابو ہریرہ رضی الله عنہ کا اجتہاد ہےابو ہریرہ یہ وضو دوسروں سے چھپاتے بھی تھے کیونکہ یہ معروف میں سے نہیں تھا
[EXPAND عرفہ کے روزے پر مزید سوالات ہیں]
سنن أبي داؤد: كِتَابُ الصَّیامِ (بَابٌ فِي صَوْمِ الْعَشْرِ) سنن ابو داؤد: کتاب: روزوں کے احکام و مسائل (باب: عشرہ ذی الحجہ میں روزوں کا بیان)
2437
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنِ الْحُرِّ بْنِ الصَّبَّاحِ، عَنْ هُنَيْدَةَ بْنِ خَالِدٍ عَنِ امْرَأَتِهِ، عَنْ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ تِسْعَ ذِي الْحِجَّةِ، وَيَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، أَوَّلَ اثْنَيْنِ مِنَ الشَّهْرِ وَالْخَمِيسَ.
حکم : صحیح 2437
امہات المؤمنین میں سے ایک کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحجہ کے ( پہلے ) نو دن ، عاشورہ محرم ، ہر مہینے میں تین دن اور ہر مہینے کے پہلے سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے ۔
اب کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے یہ روزہ حاجیوں پر نہیں ہے لیکن دوسرے لوگوں کے لئے ہے جو حج پر نہیں ہیں
جواب شعیب نے مسند احمد میں اس کو ضعيف لاضطرابه قرار دیا ہے
قال الدكتور أحمد الغامدي، مدير عام هيئة الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر بمنطقة مكة سابقًا، إن حديث فضل صيام يوم عاشوراء وتكفير الصيام لسنة ماضية هو حديث “ضعيف” بعكس ما هو مشتهر.
الدكتور أحمد الغامدي، مدير عام هيئة الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر بمنطقة مكة نے کہا صحیح مسلم کی ابو قتادہ والی حدیث ضعیف ہے
http://www.ajel.sa/local/1798686
وقال نصًّا، إن الحديث “رواه عبدالله بن معبد الزماني عن أبي قتادة، وعبدالله بن معبد لا يعرف له سماع عن أبي قتادة، قاله البخاري في الكبير، وأخرج ابن عدي الحديث في الكامل وقال: (وهذا الحديث هو الحديث الذي أراد البخاري أن عبدالله بن معبد لا يعرف له سماع من أبي قتادة)، وهذا يعني أن البخاري يضعف إسناده بالانقطاع، وإقرار من نقل ذلك يعد موافقة له” حسب قوله
عرفہ کا روزہ رکھنے پر گناہ معاف ہونے والی جس حدیث کو امام مسلم نے بیان کیا ہے امام بخاری کے نزدیک اس کی سند میں انقطاع ہے
مَيْمُونَةَ رضی الله عنہا کی صحیح مسلم میں روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے روزہ نہیں رکھاامام بخاری اس سلسلے میں صرف ایک حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے روزہ نہیں رکھا
صحیح بخاری کی روایت 1658 ہے
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنَا سَالِمٌ قَالَ: سَمِعْتُ عُمَيْرًا مَوْلَى أُمِّ الفَضْلِ، عَنْ أُمِّ الفَضْلِ، شَكَّ النَّاسُ يَوْمَ عَرَفَةَ فِي صَوْمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، «فَبَعَثْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَرَابٍ فَشَرِبَهُ» أُمِّ الْفَضْلِ بِنْتِ الْحَارِثِ کہتی ہیں ہم نے یوم عرفہ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس دودھ بھیجا یہ دیکھنے کہ روزہ ہے یا نہیں تو اپ نے وہ دودھ پی لیا
موطا امام مالک کی روایت ١٣٨٩ یا ٣٨٨ ہے
عقبة بن عامر الجهني عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: “إن أيام الأضحى وأيام التشريق ويوم عرفة عيدنا أهل الإسلام أيام أكل وشرب
نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا یوم عرفہ اوریوم النحر اور ایام تشریق ہم اہل اسلام کی عید کےدن ہیں اوریہ سب کھانے پینے کے دن ہیں ۔
البناية شرح الهداية از المؤلف: أبو محمد محمود بن أحمد بن موسى بن أحمد بن حسين الغيتابى الحنفى بدر الدين العينى (المتوفى: 855هـ) میں ہے
وكره صوم يوم عرفة عند الشافعي – رَحِمَهُ اللَّهُ
امام شافعی یوم عرفہ کے دن روزہ سے کراہت کرتے
قولی حدیث میں اس دن کو کھانے پینے کا دن کہا گیا ہے
موطأ میں ہے کہ عائشہ رضی الله عنہا عرفہ کا روزہ رکھتی تھیں –
وَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، أَنَّ عَائِشَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ كَانَتْ «تَصُومُ يَوْمَ عَرَفَةَ»، [ص:376] قَالَ الْقَاسِمُ: وَلَقَدْ رَأَيْتُهَا عَشِيَّةَ عَرَفَةَ، يَدْفَعُ الْإِمَامُ ثُمَّ تَقِفُ حَتَّى يَبْيَضَّ مَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ النَّاسِ مِنَ الْأَرْضِ، ثُمَّ تَدْعُو بِشَرَابٍ فَتُفْطِرُ
اس کی سند میں یحیی بن سعید انصاری مدلس ہے
اعمال کا دارومدار نیت پر ہے – اس دن روزہ رکھا جا سکتا ہے لیکن اپ لوگوں کو اس کی صحیح خبر دیں تو قباحت نہیں ہے
مثلا ١٥ شعبان کا روزہ بدعت ہے لیکن ہم کو معلوم ہوا کہ عائشہ رضی الله عنہا اپنے روزے شعبان میں مکمل کرتی تھیں ظاہر ہے اس دور میں ١٥ شعبان کا وجود نہ تھا
کہنے کا مقصد ہے دن الله کے ہیں کسی بھی دن نیکی کا عمل کیا جا سکتا ہے لیکن اگر دن کسی بدعت سے متصف ہو تو اس دن اپ تبلیغ بھی کریں کہ ایسا ایسا کرنا بدعت ہے
عبادتایام حج میں بعض کام حاجی کریں گے لیکن مقیم بھی ان کو کرے گا مثلا قربانیاسی طرح حاجی روزہ نہیں رکھے گا اور مقیم بھی روزہ نہیں رکھے گا
قیود بھی ہیں بعض کام حاجی نہیں کرے گا حاجی شکار نہیں کرے گا لیکن مقیم کرے گا
[/EXPAND]
جواب
موطا میں ہےأَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ الْمَكِّيُّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَى عَنْ أَكْلِ لُحُومِ الضَّحَايَا بَعْدَ ثَلاثٍ» ، ثُمَّ قَالَ بَعْدَ ذَلِكَ: «كُلُوا وَتَزَوَّدُوا وَادَّخِرُوا» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا بَأْسَ بِالادِّخَارِ بَعْدَ ثَلاثٍ وَالتَّزَوُّدِ، وَقَدْ رَخَّصَ فِي ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ أَنْ كَانَ نَهَى عَنْهُ، فَقَوْلُهُ الآخَرُ نَاسِخٌ لِلأَوَّلِ، فَلا بَأْسَ بِالادِّخَارِ وَالتَّزَوُّدِ مِنْ ذَلِكَ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
جابر بن عبد الله نے خبر دی کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنے سے منع کیا پھر اس کے بعد کہا اس کو کھا کو یا اور ذخیرہ کر لو – امام محمد نے کہا ہم اسی کو لیتے ہیں اور ذخیرہ کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے تین دن یا اس سے زائد میں اور اس کی رخصت رسول الله نے دی ہے ممانعت کے بعد لہذا پہلا قول منسوخ ہوا اور یہی قول ابو حنیفہ اور دیگر ائمہ کا ہے
قربانی کے حصہ دار بنانا مستحب ہے جیسا صدقات میں ہےوَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ * لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [المعارج:24-25]أور إن کے اموال میں معلوم حق ہے سائل کا اور محروم کا
اس طرح تین حصے ہوئے اپ خود – سائل و محروم جس میں رشتہ دار و غرباء ہو سکتے ہیں – اگر رشتہ دار متمول ہیں تو ان کو دینا ضروری نہیں ہے
جواب
اول ایصال ثواب
اس میں مرنے والے کو ثواب پہنچانے کے لئے عبادات کی جاتی ہیں اس کے بعد الله سے دعا کی جاتی ہے کہ ہمارے اس عمل کا ثواب فلاں شخص کو دے دیا جائے
یہ کام رشتہ داروں کے حوالے سے کیا جاتا ہے
یہ بدعت ہے
دوم نذر یا فتوح کرنا
اس عقیدہ کا مطلب ہے
اس میں کسی بزرک کو خوش کرنے اس کے نام نذر کیا جاتا ہے یعنی کوئی کھانا یا جانور اس سے منسوب کیا جاتا ہے سمجھا جاتا ہے کہ یہ کھانا پھر برزخ میں اس بزرگ پر پیش ہوتا ہے وہ خوش ہوتا ہے کہ واہ کیا کھانا پہنچایا ہے پھر یہ بزرگ جن کی روح اس عالم میں کہیں بھی جا سکتی ہے اس کے علم میں اتا ہے کہ یہ کام تو فلاں صاحب نے کیا
لہذا قبر پر جب نذر کرنے والے اتے ہیں (اور اکثر یہ لنگر مزار پر ہی بٹتا ہے ) دعا کرتے ہیں تو ولی الله ان لوگوں سے خوش ہو کر ان کی عرضداشت کو لے کر الله کے حضور جاتے ہیں
یہ حرام ہے
یعنی یہ نذر و نیاز کرنا
service charges
ہے – اپنی دعا الله تک پہنچانے کے لئے یہ چارجز بزرگ کو دیے جاتے ہیں
اس کے دلائل
مصنف ابن ابی شیبہ میں عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ سے منسوب کیا گیا
غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ قَمْطَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: «الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ، فَإِذَا مَاتَ الْمُؤْمِنُ يُخْلَى بِهِ يَسْرَحُ حَيْثُ شَاءَ وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ»
دنیا مومن کا قید خانہ او رکافر کی بہشت ہے۔ جب مومن مرتاہے اس کی راہ کھول دی جاتی ہے کہ جہاں چاہے سیر کرے
اس کی سند میں يَحْيَى بْنِ قَمْطَةَ کو ابن حبان اور عجلی نے ثقہ قرار دیا ہے
کتاب كشف الخفاء ومزيل الإلباس از إسماعيل بن محمد بن عبد الهادي الجراحي العجلوني الدمشقي، أبو الفداء (المتوفى: 1162هـ) میں روایت “الدنيا سجن المؤمن، وجنة الكافر کی بحث میں العجلوني لکھتے ہیں حدیث میں ہے
فإذا مات المؤمن تخلى سربه يسرح حيث شاء
”جب مسلما ن مرتا ہے اُس کی راہ کھول دی جاتی ہے، جہاں چاہے جائے۔
انہی الفاظ کا ذکر فتاوی رضویہ میں ہے
وھذا لفظ امام ابن المبارك قال ان الدنیا جنۃ الکافر وسجن المؤمن وانما مثل المؤمن حین تخرج نفسہ کمثل رجل کان فی سجن فاخرج منہ فجعل یتقلب فی الارض ویتفسح فیھا١[1]۔ولفظ ابی بکر ھکذا الدنیا سجن المومن وجنۃ لکافر فاذا مات المومن یخلی سربہ یسرح حیث شاء
اور یہ روایت امام ابن مبارك کے الفاظ ہیں۔ ت) بیشك دنیا کافر کی جنت اور مسلمان کی زندان ہے، اور ایمان والے کی جب جان نکلتی ہے توا س کی کہاوت ایسی ہے جیسے کوئی قید خانہ میں تھا اب اس سے نکال دیا گیا کہ زمین میں گشت کرتاا ور بافراغت چلتا پھرتا ہے۔(اور روایت ابوبکر کے الفاظ یہ ہیں۔ ت) دنیا مسلمان کا قید خانہ او رکافر کی بہشت ہے۔ جب مسلمان مرتاہے اس کی راہ کھول دی جاتی ہے کہ جہاں چاہے سیر کرے۔
http://www.dawateislami.net/bookslibrary/1454/page/722
کتاب فيض القدير شرح الجامع الصغير از المناوي القاهري (المتوفى: 1031هـ) کے مطابق
قوله (وصلوا علي وسلموا فإن صلاتكم تبلغني حيثما كنتم) أي لا تتكلفوا المعاودة إلي فقد استغنيتم بالصلاة علي لأن النفوس القدسية إذا تجردت عن العلائق البدنية عرجت واتصلت بالملأ الأعلى ولم يبق لها حجاب فترى الكل كالمشاهد بنفسها أو بإخبار الملك لها وفيه سر يطلع عليه من يسر له.
اپ صلی الله علیہ وسلم کا قول کہ تمہارا درود مجھ تک پہنچ جاتا ہے جہاں کہیں بھی تم ہو یعنی .. تم جو درود کہتے ہو مجھ پر تو بے شک نفوس قدسیہ ( پاک جانیں) جب بدن کے عَلاقوں سے جدا ہوتی ہیں ، یہ ارواح بلند ہوتی ہیں اور عالمِ بالا سے مل جاتی ہیں اور ان کے لئے کوئی پردہ نہیں رہتا اور سب کچھ خود دیکھتی ہیں یا بادشاہت کی خبریں پاتی ہیں اور اس میں راز ہے جس کی اطلاع وہ پاتے ہیں جو کھوج کریں
اس کو حجة الله البالغة میں شاہ ولی الله نے بھی بیان کیا ہے
فَإِذا مَاتَ انْقَطَعت العلاقات، وَرجع إِلَى مزاجه، فلحق بِالْمَلَائِكَةِ، وَصَارَ مِنْهُم، وألهم كالهامهم، وسعى فِيمَا يسعون فِيهِ.
جب اولیاء الله مر جاتے ہیں ان کے علاقات ٹوٹ جاتے ہیں اور وہ اپنے اصل مزاج پر آ جاتے ہیں اور فرشتوں سے مل جاتے ہیں اور ان پر فرشتوں کی طرح الہام شروع ہو جاتا ہے اور وہ بھی جدو جہد کرتے ہیں جیسے فرشتے کرتے ہیں
نذر کو فتوح بھی کہا جاتا ہے
جب علماء نے یہ مان لیا کہ ارواح فرشتوں کی طرح الہام پاتی کہیں بھی جا سکتی ہیں ان کو علم ہو جاتا ہے تو پھر اسی قسم کے لوگوں نے کشف قبور اور قبروں سے فیض کا سلسلہ جاری کیا اور اس میں صاحب قبر کو خوش کرنے کے نام کی نذر کرتے ہیں
عمل کا مدار نیت پر ہے
جب ارادہ ہو کہ صاحب قبر کی نذر کرنی ہے تو پھر برابر ہے کہ ذبح کرتے وقت غیر الله کا نام لیا گیا یا نہیں – یہ جانور غیر الله سے منسوب ہو چکا
کیونکہ یہ ذبح کرنا عبادت ہے جس کا فیصلہ ظاہر پر نہیں دل پر کیا تھا -اس پر اس کا فیصلہ ہوتا ہے اور الله کو دلوں کا حال خوب معلوم ہے
جب نماز جیسی چیز میں دکھاوا منع ہے تو قربانی میں اصول الگ کیسے ہو گئے ؟
سنن أبي داؤد: كِتَابُ الصَّیامِ (بَابٌ فِي صَوْمِ الْعَشْرِ) سنن ابو داؤد: کتاب: روزوں کے احکام و مسائل (باب: عشرہ ذی الحجہ میں روزوں کا بیان)
2437
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنِ الْحُرِّ بْنِ الصَّبَّاحِ، عَنْ هُنَيْدَةَ بْنِ خَالِدٍ عَنِ امْرَأَتِهِ، عَنْ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ تِسْعَ ذِي الْحِجَّةِ، وَيَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، أَوَّلَ اثْنَيْنِ مِنَ الشَّهْرِ وَالْخَمِيسَ.
حکم : صحیح 2437
امہات المؤمنین میں سے ایک کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحجہ کے ( پہلے ) نو دن ، عاشورہ محرم ، ہر مہینے میں تین دن اور ہر مہینے کے پہلے سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے ۔
اب کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے یہ روزہ حاجیوں پر نہیں ہے لیکن دوسرے لوگوں کے لئے ہے جو حج پر نہیں ہیں
جواب شعیب نے مسند احمد میں اس کو ضعيف لاضطرابه قرار دیا ہے
قال الدكتور أحمد الغامدي، مدير عام هيئة الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر بمنطقة مكة سابقًا، إن حديث فضل صيام يوم عاشوراء وتكفير الصيام لسنة ماضية هو حديث “ضعيف” بعكس ما هو مشتهر.
الدكتور أحمد الغامدي، مدير عام هيئة الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر بمنطقة مكة نے کہا صحیح مسلم کی ابو قتادہ والی حدیث ضعیف ہے
http://www.ajel.sa/local/1798686
وقال نصًّا، إن الحديث “رواه عبدالله بن معبد الزماني عن أبي قتادة، وعبدالله بن معبد لا يعرف له سماع عن أبي قتادة، قاله البخاري في الكبير، وأخرج ابن عدي الحديث في الكامل وقال: (وهذا الحديث هو الحديث الذي أراد البخاري أن عبدالله بن معبد لا يعرف له سماع من أبي قتادة)، وهذا يعني أن البخاري يضعف إسناده بالانقطاع، وإقرار من نقل ذلك يعد موافقة له” حسب قوله
عرفہ کا روزہ رکھنے پر گناہ معاف ہونے والی جس حدیث کو امام مسلم نے بیان کیا ہے امام بخاری کے نزدیک اس کی سند میں انقطاع ہے
مَيْمُونَةَ رضی الله عنہا کی صحیح مسلم میں روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے روزہ نہیں رکھاامام بخاری اس سلسلے میں صرف ایک حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے روزہ نہیں رکھا
صحیح بخاری کی روایت 1658 ہے
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنَا سَالِمٌ قَالَ: سَمِعْتُ عُمَيْرًا مَوْلَى أُمِّ الفَضْلِ، عَنْ أُمِّ الفَضْلِ، شَكَّ النَّاسُ يَوْمَ عَرَفَةَ فِي صَوْمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، «فَبَعَثْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَرَابٍ فَشَرِبَهُ» أُمِّ الْفَضْلِ بِنْتِ الْحَارِثِ کہتی ہیں ہم نے یوم عرفہ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس دودھ بھیجا یہ دیکھنے کہ روزہ ہے یا نہیں تو اپ نے وہ دودھ پی لیا
موطا امام مالک کی روایت ١٣٨٩ یا ٣٨٨ ہے
عقبة بن عامر الجهني عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: “إن أيام الأضحى وأيام التشريق ويوم عرفة عيدنا أهل الإسلام أيام أكل وشرب
نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا یوم عرفہ اوریوم النحر اور ایام تشریق ہم اہل اسلام کی عید کےدن ہیں اوریہ سب کھانے پینے کے دن ہیں ۔
البناية شرح الهداية از المؤلف: أبو محمد محمود بن أحمد بن موسى بن أحمد بن حسين الغيتابى الحنفى بدر الدين العينى (المتوفى: 855هـ) میں ہے
وكره صوم يوم عرفة عند الشافعي – رَحِمَهُ اللَّهُ
امام شافعی یوم عرفہ کے دن روزہ سے کراہت کرتے
قولی حدیث میں اس دن کو کھانے پینے کا دن کہا گیا ہے
موطأ میں ہے کہ عائشہ رضی الله عنہا عرفہ کا روزہ رکھتی تھیں –
وَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، أَنَّ عَائِشَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ كَانَتْ «تَصُومُ يَوْمَ عَرَفَةَ»، [ص:376] قَالَ الْقَاسِمُ: وَلَقَدْ رَأَيْتُهَا عَشِيَّةَ عَرَفَةَ، يَدْفَعُ الْإِمَامُ ثُمَّ تَقِفُ حَتَّى يَبْيَضَّ مَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ النَّاسِ مِنَ الْأَرْضِ، ثُمَّ تَدْعُو بِشَرَابٍ فَتُفْطِرُ
اس کی سند میں یحیی بن سعید انصاری مدلس ہے
اعمال کا دارومدار نیت پر ہے – اس دن روزہ رکھا جا سکتا ہے لیکن اپ لوگوں کو اس کی صحیح خبر دیں تو قباحت نہیں ہے
مثلا ١٥ شعبان کا روزہ بدعت ہے لیکن ہم کو معلوم ہوا کہ عائشہ رضی الله عنہا اپنے روزے شعبان میں مکمل کرتی تھیں ظاہر ہے اس دور میں ١٥ شعبان کا وجود نہ تھا
کہنے کا مقصد ہے دن الله کے ہیں کسی بھی دن نیکی کا عمل کیا جا سکتا ہے لیکن اگر دن کسی بدعت سے متصف ہو تو اس دن اپ تبلیغ بھی کریں کہ ایسا ایسا کرنا بدعت ہے
عبادتایام حج میں بعض کام حاجی کریں گے لیکن مقیم بھی ان کو کرے گا مثلا قربانیاسی طرح حاجی روزہ نہیں رکھے گا اور مقیم بھی روزہ نہیں رکھے گا
قیود بھی ہیں بعض کام حاجی نہیں کرے گا حاجی شکار نہیں کرے گا لیکن مقیم کرے گا
جواب
جب ہجرت ہوئی اس وقت سال میں مہینے النسی سے بدلے جاتے تھے – اس طرح ذو الحجه مارچ- اپریل کے مہینے میں کیا جاتا تھا تاکہ بہار میں حج ہو سکے موسم اچھا ملے
اور یہی کام یہودی کرتے تھے وہ عید فسخ
Passover
کو بہار میں کرتے تھے
عید فسخ یعنی خروج مصر کی عید
اس وجہ سے اتفاقا محرم اور عید فسخ مل گئے تھے اور یہ ہجرت کے پہلے سال محض اتفاق تھا
یہود میں عربوں کا کلنڈز آج بھی نہیں چلتا ان کا اپنا عبرانی کلینڈر ہے جو اسلام سے قدیم ہے
یعنی وہ دس محرم کو کوئی عید نہیں مناتے وہ عید فسخ ابیب یا نسان
Abib or Nissan
کے مہینے میں کرتے ہیں جو ان کے کلنڈر کا مہینہ ہے اور اس میں النسی کے طریقہ سے ایڈجسٹمنٹ کرتے ہیں
یعنی دس محرم کا خروج مصر سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ اس کو ہر سال سمجھا جائے – خروج مصر ابیب یہودی کلنڈر میں اتا ہے جو کسی بھی اسلامی مہینے میں آ سکتا ہے
مثلا آج
2nd of Tishrei, 5778
کا دن ہے یہود کے کلنڈر میں
https://www.hebcal.com/converter/
یعنی یہود میں سال کا ساتواں ماہ چل رہا ہے اور عید فسخ کا دن پہلے مہینہ میں اتا ہے
لیکن مسلمانوں میں محرم کا ماہ آ گیا ہے
کہنے کا مقصد ہے کہ تاریخی طور پر یہ محض ایک اتفاق تھا کہ النسی کی وجہ سے ابیب اور محرم ایک ہی مہینہ میں آ گئے اور ایسا ہوا کہ یہود اور مسلمان خروج مصر کی عید فسخ پر دونوں نے روزہ رکھا- اس کو عموم نہیں سمجھنا چاہیے
نوٹ
مشرکین مکہ بھی اس دن روزہ رکھتے تھے
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دس محرم کا روزہ رکھا یہ صرف ایک وقتی حکم تھا جو ہجرت کے پہلے سال کے لئے ہوا
اس کے بعد اس کو نفلی کر دیا گیا کہ جو چاہے وہ رکھے
⇑ دس محرم کا روزہ کا تعلق کس چیز سے ہے؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/عبادت/
نو محرم کا روزہ رکھنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ نو یا دس محرم کے دن کا یہود سے اب کوئی تعلق نہیں رہا ہے
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، وَمُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: “مَنْ نَسِيَ صَلَاةً فَلْيُصَلِّ إِذَا ذَكَرَهَا، لَا كَفَّارَةَ لَهَا إِلَّا ذَلِكَ، وَأَقِمْ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي”، قَالَ مُوسَى : قَالَ هَمَّامٌ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ بَعْدُ وَأَقِمْ الصَّلَاةَ للذِّكْرَى، وَقَالَ حَبَّانُ : حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، حَدَّثَنَا أَنَسٌ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ. ہم سے ابونعیم فضل بن دکین اور موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، ان دونوں نے کہا کہ ہم سے ہمام بن یحییٰ نے قتادہ سے بیان کیا، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی نماز پڑھنا بھول جائے تو جب بھی یاد آ جائے اس کو پڑھ لے۔ اس قضاء کے سوا اور کوئی کفارہ اس کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ اور (اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ) نماز میرے یاد آنے پر قائم کر۔ موسیٰ نے کہا کہ ہم سے ہمام نے حدیث بیان کی کہ میں نے قتادہ رضی اللہ عنہ سے سنا وہ یوں پڑھتے تھے نماز پڑھ میری یاد کے لیے۔ حبان بن ہلال نے کہا، ہم سے ہمام نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے، کہا ہم سے انس رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، پھر ایسی ہی حدیث بیان کی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف ایک یا دو نمازوں کا ذکر ہے جو قضاء ہوئیں – اس میں دوسری نماز سے پہلے پہلے پچھلی نماز کی قضاء پڑھی گئی ہے