صحيح البخاري: كِتَابُ الرِّقَاقِ (بَابُ رَفْعِ الأَمَانَةِ) صحیح بخاری: کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں (باب: ( آخر زمانہ میں ) دنیا سے امانت داری کا اٹھ جانا)
6497 .
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا حُذَيْفَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثَيْنِ، رَأَيْتُ أَحَدَهُمَا وَأَنَا أَنْتَظِرُ الآخَرَ: حَدَّثَنَا: «أَنَّ الأَمَانَةَ نَزَلَتْ فِي جَذْرِ قُلُوبِ الرِّجَالِ، ثُمَّ عَلِمُوا مِنَ القُرْآنِ، ثُمَّ عَلِمُوا مِنَ السُّنَّةِ» وَحَدَّثَنَا عَنْ رَفْعِهَا قَالَ: يَنَامُ الرَّجُلُ النَّوْمَةَ، فَتُقْبَضُ الأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِهِ، فَيَظَلُّ أَثَرُهَا مِثْلَ أَثَرِ الوَكْتِ، ثُمَّ يَنَامُ النَّوْمَةَ فَتُقْبَضُ فَيَبْقَى أَثَرُهَا مِثْلَ المَجْلِ، كَجَمْرٍ دَحْرَجْتَهُ عَلَى رِجْلِكَ فَنَفِطَ، فَتَرَاهُ مُنْتَبِرًا وَلَيْسَ فِيهِ شَيْءٌ، فَيُصْبِحُ النَّاسُ يَتَبَايَعُونَ، فَلاَ يَكَادُ أَحَدٌ يُؤَدِّي الأَمَانَةَ، فَيُقَالُ: إِنَّ فِي بَنِي فُلاَنٍ رَجُلًا أَمِينًا، وَيُقَالُ لِلرَّجُلِ: مَا أَعْقَلَهُ وَمَا أَظْرَفَهُ وَمَا أَجْلَدَهُ، وَمَا فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةِ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ وَلَقَدْ أَتَى عَلَيَّ زَمَانٌ وَمَا أُبَالِي أَيَّكُمْ بَايَعْتُ، لَئِنْ كَانَ مُسْلِمًا رَدَّهُ عَلَيَّ الإِسْلاَمُ، وَإِنْ كَانَ نَصْرَانِيًّا رَدَّهُ عَلَيَّ سَاعِيهِ، فَأَمَّا اليَوْمَ: فَمَا كُنْتُ أُبَايِعُ إِلَّا فُلاَنًا وَفُلاَنًا
حکم : صحیح 6497 .
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا ، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبردی، کہاہم سے اعمش نے بیان کیا، کہاان سے زید بن وہب نے ، کہا ہم سے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوحدیثیں ارشاد فرمائیں ۔ ایک کا ظہور تو میں دیکھ چکا ہوں اور دوسری کا منتظر ہوں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا کہ امانت لوگوں کے دلوں کی گہرائیوں میں اترتی ہے ۔ پھر قرآن شریف سے۔ پھر حدیث شریف سے اس کی مضبوطی ہوتی جاتی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے اس کے اٹھ جانے کے متعلق ارشاد فرمایا کہ ” آدمی ایک نیند سوئے گا اور ( اسی میں ) امانت اس کے دل سے ختم ہوئے گی اور اس بے ایمانی کا ہلکا نشان پڑجائے گا ۔ پھر ایک اور نیند لے گا اب اس کا نشان چھالے کی طرح ہوجائے گاجیسے تو پاؤں پر ایک چنگاری لڑھکائے تو ظاہر میں ایک چھالا پھول آتا ہے اس کو پھولا دیکھتا ہے ، پر اندر کچھ نہیں ہوتا۔ پھر حال یہ ہوجائے گا کہ صبح اٹھ کر لوگ خرید وفروخت کریں گے اور کوئی شخص امانت دار نہیں ہوگا۔ کہا جائے گا کہ بنی فلاں میں ایک امانت دار شخص ہے ۔ کسی شخص کے متعلق کہا جائے گا کہ کتنا عقل مند ہے، کتنا بلند حوصلہ ہے اور کتنا بہادر ہے۔ حالانکہ اس کے دل میں رائی برابر بھی ایمان ( امانت ) نہیں ہوگا ۔ “ ( حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ) میں نے ایک ایسا وقت بھی گذارا ہے کہ میں اس کی پروا نہیں کرتا تھاکہ کس سے خرید وفروخت کرتا ہوں ۔ اگر وہ مسلمان ہوتا تو اس کو اسلام ( بے ایمانی سے ) روکتا تھا۔ اگر وہ نصرانی ہوتا تو اس کا مددگار اسے روکتا تھا لیکن اب میں فلاں اور فلاں کے سوا کسی سے خرید وفروخت ہی نہیں کرتا۔
—
کے بعد یہ لکھا ہوا ہے
قَالَ الْفِرَبْرِىُّ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ حَدَّثْنا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ فَقَالَ سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ عَاصِمٍ یَقُولُ سَمِعْتُ أَبَا عُبَیْدٍ یَقُولُ قَالَ الأَصْمَعِىُّ وَأَبُو عَمْرٍو وَغَیْرُهُمَا جَذْرُ قُلُوبِ الرِّجَالِ الْجَذْرُ الأَصْلُ مِنْ کُلِّ شَىْءٍ ، وَالْوَکْتُ أَثَرُ الشَّىْءِ الْیَسِیرُ مِنْهُ ، وَالْمَجْلُ أَثَرُ الْعَمَلِ فِى الْکَفِّ إِذَا غَلُظَ
ابن حجر اس پر کہتے ہیں کہ
قوله قال الفربری ثبت ذلک فی روایة المستملی وحده وأبو جعفر الذی روى عنه هنا هو محمد بن أبی حاتم البخاری وراق البخاری أی ناسخ کتبه وقوله حدثت أبا عبد الله یرید البخاری
جواب
امام بخاری کے کئی شاگرد تھے اس میں دو کا یہاں ذکر ہے
محمد بن أبی حاتم البخاری وراق البخاری
اور فربری کا
دونوں نے امام بخاری سے صحیح کو لیا لیکن فربری نے اپنے نسخے پر محمد بن أبی حاتم البخاری وراق البخاری کے بھی بعض جملے لکھے جو امام بخاری نے ان محمد بن أبی حاتم البخاری وراق البخاری سے کہے تھے یہ کچھ نوٹ یا تبصرہ کی مانند ہیں
یعنی الف کے دو شاگرد ہیں ب اور ج
ب نے الف سے لکھا
ج نے الف سے لکھا
پھر الف کا انتقال ہوا اور ب نے ج کے نوٹ بھی اپنے نسخے میں شامل کیے
صحيح البخاري: كِتَابُ العِلْمِ (بَابٌ كَيْفَ يُقْبَضُ العِلْمُ) صحیح بخاری: کتاب: علم کے بیان میں (باب: علم کس طرح اٹھا لیا جائےگا)
100 .
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ العَاصِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ اللَّهَ لاَ يَقْبِضُ العِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ العِبَادِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ العِلْمَ بِقَبْضِ العُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا»
قَالَ الفِرَبْرِيُّ: حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ هِشَامٍ نَحْوَهُ
حکم : صحیح 100 .
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، ان سے مالک نے ہشام بن عروہ سے، انھوں نے اپنے باپ سے نقل کیا، انھوں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے نقل کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے۔ بلکہ وہ ( پختہ کار ) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔
فربری نے کہا ہم سے عباس نے بیان کیا، کہا ہم سے قتیبہ نے، کہا ہم سے جریر نے، انھوں نے ہشام سے مانند اس حدیث کے۔
—-
ابن حجر عسقلانی اس روایت پر کہتے ہیں
قوله «قال الفربری»
هذا من زیادات الراوی عن البخاری فی بعض الأسانید وهی قلیلة
اور بدر الدین عینی عمدة القاری شرح صحیح البخاری میں کہتے ہیں کہ
قال الفِرَبْرِیُّ : حدّثنا عبَّاسٌ قالَ : حدّثنا قُتیْبَةُ ، حدّثنا جَریرٌ عنْ هِشَامٍ نحْوَهُ
هذا من زیادات الراوی عن البخاری فی بعض الأسانید وهی قلیلة . والفربری ، بکسر الفاء وفتحها وفتح الراء وإسکان الباء الموحدة : نسبة إلى فربر ، وهی قریة من قرى بخارى على طرف جیحون ، وهو أبو عبد اللَّه محمد بن یوسف بن مطر بن صالح بن بشر . وقال الکلاباذی : کان سماع الفربری من البخاری ( صحیحه ) مرتین : مرة بفربر سنة ثمان وأربعین ومائتین ، ومرة ببخارى سنة ثنتین وخمسین ومائتین . ولد سنة إحدى وثلاثین ومائتین ، ومات سنة عشرین وثلثمائة
اس کا مطلب ہے فربری نے بخاری کے نسخہ میں تین مقام پر اپنی سند سے روایت بیان کی
[صحیح بخاری کے ایک راوی مُحَمَّدُ بْنُ یُوسُفَ الْفِرَبْرِىُّ اپنی سند ڈائریکٹ امام بخاری سے دیتے ہیں]
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یُوسُفَ الْفِرَبْرِىُّ وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ الْبُخَارِىُّ قَالَ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ سُفْیَانَ قَالَ إِذَا قُرِئَ عَلَى الْمُحَدِّثِ فَلاَ بَأْسَ أَنْ یَقُولَ حَدَّثَنِى . قَالَ وَسَمِعْتُ أَبَا عَاصِمٍ یَقُولُ عَنْ مَالِکٍ وَسُفْیَانَ الْقِرَاءَةُ عَلَى الْعَالِمِ وَقِرَاءَتُهُ سَوَاءٌ.
لنک
http://library.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?idfrom=63&idto=63&bk_no=0&ID=51
http://hadith.al-islam.com/Page.aspx?pageid=192&BookID=24&PID=63
https://sunnah.com/bukhari/3/5#!
جب وہ ڈائریکٹ امام بخاری سے سن رہے ہیں تو بچ میں دوسرے راوی ڈالنے کی کیا ضرورت ہے ان کو بعض اوقات تو بغیر نام لئے کہہ دیتے ہیں کہ
قلت لِأَبِی عبد اللَّهِ من یقول سمعت رَسُولَ اللَّهِ صلى الله علیه وسلم جُنْدَبٌ قال نعم جُنْدَبٌ
جیسا کہ اس حدیث میں ہے
لنک
http://islamicurdubooks.com/Sahih-Bukhari/Sahih-Bukhari-.php?hadith_number=7152
یہ ایسا کیوں کرتے ہیں
ابن حجر اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ
وأبو عبد الله المذکور هو المصنف والسائل له الفربری وقد خلت روایة النسفی عن ذلک
اور بدر الدین عینی عمدة القاری شرح صحیح البخاری میں لکھتے ہیں کہ
قوله : قلت لأبی عبد الله أبو عبد الله هو البخاری ، والقائل له هو الفربری ، ولیس هذا فی روایة النسفی
آپ سے وضاحت چاہیے – امید ہے کہ آپ ضررور جواب دیں گے
جواب
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یُوسُفَ الْفِرَبْرِىُّ وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ الْبُخَارِىُّ
یہ فربری کی سند نہیں عبيد الله کی سند ہے جو فربری کے شاگرد ہیں یہ ان کا اس مقام پر اضافہ ہے
فيض الباري على صحيح البخاری اور التوشيح شرح الجامع الصحيح میں اس ایسا ہی ہے
حَدَّثَنَا عبيد الله وَأَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ الْفِرَبْرِىُّ وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْبُخَارِىُّ قَالَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ سُفْيَانَ قَالَ إِذَا قُرِئَ عَلَى الْمُحَدِّثِ
یہ الصَّغانّي کے نسخہ میں ہے اور اس کی سند بھی فربری تک جاتی ہے
باقی عینی اور ابن حجر نے ایسا کچھ نہیں کہا جس سے اختلاف ہو
فربری کبھی امام بخاری کو ابو عبد الله کنیت سے بھی کہتے ہیں
قال محمد بن يوسف الفربري: ذكر عن أبي عبد الله،
——–
یہ اسناد چند مقام پر ناقل کتاب کی سند کی وجہ سے ہیں
[/EXPAND]
[امام بخاری کہتے ہیں تقیہ قیامت تک جاری رہے گا۔؟]
صحیح بخاری کی روایت ہے کہ حضرت حسن بصری سے۔ التقیت الله یوم القیامه۔ تقیہ قیامت تک جاری رہے گا۔ اب کیا کہیں گے
جواب
وَقَالَ الحَسَنُ: «التَّقِيَّةُ إِلَى يَوْمِ القِيَامَةِ
فتح الباری میں اس پر ہے
مِنْ رِوَايَةِ عَوْفٍ الْأَعْرَابِيِّ عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ قَالَ التَّقِيَّةُ جَائِزَةٌ لِلْمُؤْمِنِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ إِلَّا أَنَّهُ كَانَ لَا يَجْعَلُ فِي الْقَتْلِ تَقِيَّةً
اس کی سند میں عَوْفٍ الْأَعْرَابِيِّ ہے جو بصرہ کا شیعہ ہے اس پر جرح بھی ہے
[/EXPAND]
[امام بخاری اپنی کتاب میں اپنی تاریخ وفات لکھ کر مرے ؟]
امام بخاری اپنی کتاب التاریخ الأوسط (الصغیر) للبخاری جلد ٢ صفحہ ٣٦٧ میں لکھتے ہیں کہ
مَاتَ أَبُو عبد الله مُحَمَّد بن إِسْمَاعِیل البُخَارِیّ رَحمَه الله فِی سنة سِتّ وَخمسین وَمِائَتَیْنِ لَیْلَة الْفطر من یَوْم الْجُمُعَة عِنْد صَلَاة الْعشَاء وَدفن یَوْم الْفطر بعد صَلَاة الظّهْر وَمَات بسمرقند فِی قَرْیَة یُقَال لَهَا خرتنک وَدفن بهَا رَحْمَة الله عَلَیْهِ ورضوانه
جواب
یہ ناقل کتاب کے الفاظ ہیں
اس کا علم میں ہونا چاہیے کہ دور قدیم میں کتب پبلشر سے نہیں لی جاتی تھیں- آدمی اعلان کرتا تھا کہ اس نے کتاب لکھی ہے اس سے جا کر لوگ اس کی کتاب سنتے اور لکھتے تھے
ایسا تمام کتب میں ہے
[/EXPAND]
[خلف بن سالم المخرمى کی کتاب الجمل و صفین پر سوال ہے]
تحقیق چاہیے
أَخْبَرَنِي عِصْمَةُ بْنُ عَاصِمٍ، قَالَ: قَالَ حَنْبَلٌ: أَرَدْتُ أَنْ أَكْتُبَ كِتَابَ صِفِّينَ وَالْجَمَلَ عَنْ خَلَفِ بْنِ سَالِمٍ، فَأَتَيْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ أُكَلِّمُهُ فِي ذَاكَ وَأَسْأَلُهُ، فَقَالَ: «وَمَا تَصْنَعُ بِذَاكَ وَلَيْسَ فِيهِ حَلَالٌ وَلَا حَرَامٌ؟ وَقَدْ كَتَبْتُ مَعَ خَلَفٍ حَيْثُ كَتَبَهُ، فَكَتَبْتُ الْأَسَانِيدَ وَتَرَكْتُ الْكَلَامَ، وَكَتَبَهَا خَلَفٌ، وَحَضَرْتُ عِنْدَ غُنْدَرٍ وَاجْتَمَعْنَا عِنْدَهُ، فَكَتَبْتُ أَسَانِيدَ حَدِيثِ شُعْبَةَ وَكَتَبَهَا خَلَفٌ عَلَى وَجْهِهَا» ، قُلْتُ لَهُ: وَلِمَ كَتَبْتَ الْأَسَانِيدَ وَتَرَكْتَ الْكَلَامَ؟ قَالَ: أَرَدْتُ أَنْ أَعْرِفَ مَا رَوَى شُعْبَةُ مِنْهَا. قَالَ حَنْبَلٌ: فَأَتَيْتُ خَلَفًا فَكَتَبْتُهَا، فَبَلَغَ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ فَقَالَ لِأَبِي: خُذِ الْكِتَابَ فَاحْبِسْهُ عَنْهُ، وَلَا تَدَعْهُ يَنْظُرُ فِيهِ ”
السنة لأبي بكر بن الخلال جلد ٤ صفحہ ٤٦٤
جواب
حنبل بن اسحاق نے کہا میں نے ارادہ کیا کہ خلف بن سالم المخرمى أبو محمد المهلبى (المتوفی ٢٣١ ھ) سے کتاب صفین و جمل لکھوں پس میں امام احمد کے پاس گیا اس پر ان سے کلام کیا اور سوال کیا- پس احمد نے کہا :تم نے یہ کیا (بتنگڑ) بنا دیا ہے اس (کتاب) میں کیا حلال و حرام (کا مسئلہ) ہے ؟ (یعنی لکھ لو) – میں نے خلف سے لکھا جیسا اس نے لکھا پس اسناد لکھیں اور کلام ترک کر دیا اور اس کو پیچھے لکھا اور غُنْدَرٌ مُحَمَّدُ بنُ جَعْفَرٍ الهُذَلِيُّ کے پاس پہنچا اور ہم ان کے پاس جمع ہوئے پس ہم نے شعبہ کی احادیث کی اسناد لکھ لیں اور اس (خلف کے) نسخہ کے پیچھے (غندر کے نسخہ کی اسناد کو) بھی لکھا – میں نے غندر سے کہا اپ نے اسناد لکھیں کلام چھوڑ دیا تھا؟ غندر نے کہا میں نے ارادہ کیا کہ میں دیکھوں شعبہ نے ان (راویوں) سے کیا روایت کیا ہے – حنبل بن اسحاق نے کہا میں نے کتاب کے پیچھے دیکھا کیا لکھا ہے اس کو امام احمد کے پاس لایا ان سے کہا اس کتاب کو لیں اور یہ چھپا دیں اور اس پر نظر نہ ڈالیں
قَالَ أَحْمَدُ بنُ حَنْبَلٍ: قَالَ غُنْدَرٌ: لَزِمْتُ شُعْبَةَ عِشْرِيْنَ سَنَةً.
أحمد نے کہا غندر نے کہا میں نے ٢٠ سال شعبہ کو لازم رکھا یعنی ساتھ رہا
غندر شعبہ کی احادیث کو جانتے تھے اور خلف بن سالم نے اسناد میں شعبہ سے روایت کیا تھا لہذا کتاب حنبل لے کر غندر کے پاس پہنچے اس کی اسناد کا ان لوگوں نے غندر کی اسناد سے تقابل کیا ان کو چیک کرنے کے لئے اور متن دونوں غندر اور حنبل نے چھوڑ دیا جو ظاہر کرتا ہے ان کو اسناد پر شک تھا – پھر خلف کی کتاب کو احمد کے پاس لائے اور کہا یہ چھپا دیں یعنی یہ پہلے اپ نے جو کہا تھا کہ اس میں کیا حلال و حرام ہے اس میں تو یہ کچھ ہے
الذھبی نے مُحَمَّدُ بنُ جَعْفَرٍ غُنْدَرٌ کا ذکر خلف بن سالم کے مشائخ میں سے کیا ہے
امام احمد نے خلف کی تعریف کی ہے کہ یہ کذاب نہیں تھے
قال ابن أبي خيثمة: قلت ليحيى رجل وجب عليه الحد في قرية يزعم أنه ثقة. قال من هو؟ قلت: خلف بن سالم، قال: ذاك إنما شتم بنت حاتم مرة واحدة.
ابن أبي خيثمة:نے کہا : میں نے یحیی سے کہا ایک مرد ہے جو دعوی کرتا ہے ثقہ ہے اس قریہ میں اس پر حد واجب ہے – بولے کون؟ میں نے کہا خلف بن سالم- یحیی نے کہا اس نے بنت حاتم کو ایک بار گالی دی تھی
[/EXPAND]
[معجم الشيوخ الكبير للذهبي میں امام ذھبی نے اپنی تاریخ وفات کے بعد مرنے والوں کی وفات کا ذکر کیا ہے ]
معجم الشيوخ الكبير للذهبي امام ذھبی کی ایک مشہور کتاب ہے
امام ذہبی خود ٧٤٨ھ میں اس دنیا سے چلے گئے اور اس کتاب میں لکھ رہے ہیں کہ
١.
مُحَمَّدُ بْنُ جَابِرِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْفَقِیهُ الْمُقْرِئُ الْمُحَدِّثُ الرَّحَّالُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْوَادِی آشِی ثُمَّ التُّونُسِیُّ الْمَالِکِیُّ
تُوُفِّیَ مُحَمَّدُ بْنُ جَابِرٍ فِی رَبِیعٍ الأَوَّلِ سَنَةَ تِسْعٍ وَأَرْبَعِینَ وَسَبْعِ مِائَةٍ.
لنک
http://shamela.ws/browse.php/book-12531/page-592
٢.
عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الْکَافِی بْنِ عَلِیِّ بْنِ تَمَّامٍ قَاضِی الْقُضَاةِ الْحَافِظُ الْعَلامَةُ الْبَارِعُ عَالِمُ الدِّیَارِ الْمِصْرِیَّةِ تَقِیُّ الدِّینِ أَبُو الْحَسَنِ الْقَاضِی زَیْدُ الدِّینِ السُّبْکِیُّ الْمِصْرِیُّ الشَّافِعِیُّ الْمُحَدِّثُ :
تُوُفِّیَ قَاضِی الْقُضَاةِ سَنَةَ سِتٍّ وَخَمْسِینَ وَسَبْعِ مِائَةٍ بِالْقَاهِرَةِ
لنک
http://shamela.ws/browse.php/book-12531/page-447
خود امام ذھبی اس دنیا سے چلے گئے تو پھر انہوں نے اپنی موت کے بعد مرنے والے کی تاریخ وفات کیسے لکھ دی؟؟؟؟
حیرت ہے کہ کتاب کے محقق نے بھی اس بارے میں کوئی حاشیہ آرائی نہیں کی ہے واضح رہے کہ اصل مخطوطہ میں بھی یہی عبارت موجود ہے
ایسی غلطیاں اگر ہوتی رہتی ہیں تو ان غلطیوں کا ثبوت چاہیے ، جس نے غلطی کی نشاندہی کی ہے وہ اصل متن میں نہ کہ حاشیہ پر ؟ کتاب کے محقق نے اس مقام پر کوئی حاشیہ آرائی نہیں کی ہے، لہٰذا یہ کسی اور کی غلطی ہے اس کا ثبوت چاہئے، نیز جب اس طرح کی خلاف واقعہ بات اصل متن میں درج ہے تو اس بات کی کیا گیارنٹی ہے کہ یہ کتاب صحیح ہے
جواب ضرور دیں پلیز پلیز
جواب
اس کتاب کا نسخہ جو مکتبہ الصدیق سے محقق محمد حبيب ألهيلة کی تحقیق کے ساتھ ہے اس میں ان دونوں مقامات پر موجود ہے کہ یہ الفاظ ایک دوسرے خط سے حاشیہ میں نسخہ میں اصل متن کے ساتھ لکھے تھے
جو ظاہر ہے کہ الذہبی کے بعد اس میں ناقل نے شامل کیے
عکس یہاں دیکھ سکتے ہیں
https://www.islamic-belief.net/wp-content/uploads/2017/08/معجم-شیوخ-میں-اضافہ٢.png
https://www.islamic-belief.net/wp-content/uploads/2017/08/معجم-شیوخ-میں-اضافہ١.png
[/EXPAND]
[مُحَمَّد بن يُونُس الْجمال کون ہے اور امام مسلم نے اس کا نام اپنی صحیح میں کیوں حذف کیا ]
جواب
امام حاکم نے تسمية من أخرجهم البخاري ومسلم میں
المزی نے تہذیب الکمال میں
الذھبی نے سیر الاعلام النبلاء اور تاریخ الاسلام میں اور روایت بھی دی جو صحیح مسلم میں نہیں
اور راقم کو صحیح مسلم کی شروحات میں بھی یہ روایت نہیں ملی
یہ روایت متاخرین کو نہیں ملی ایسا کہا
بشار عواد معروف نے تہذیب الکمال کے حاشیہ میں
ابن حجر نے : و لم يثبت أن مسلما روى عنه یہ ثابت نہیں مسلم نے اس سے روایت کیا لیکن لسان المیزان میں کہا قيل: إن مسلما روى عنه کہا جاتا ہے مسلم نے اس سے روایت کیا ہے
=========
اغلبا اس سے مسلم نے صحیح سے باہر کسی کتاب میں روایت کیا ہے جو اب موجود نہیں ہے
[/EXPAND]
[صحیح مسلم کی وہ اسناد جن میں حدثني غير واحد من اصحابنا ہے ان کا کیا کریں؟]
مثلا
فواد عبدالباقی حدیث نمبر: 1557
وحدثني غير واحد من اصحابنا، قالوا: حدثنا إسماعيل بن ابي اويس ، حدثني اخي ، عن سليمان وهو ابن بلال ، عن يحيى بن سعيد ، عن ابي الرجال محمد بن عبد الرحمن ، ان امه عمرة بنت عبد الرحمن ، قالت: سمعت عائشة ، تقول: سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، صوت خصوم بالباب عالية اصواتهما، وإذا احدهما يستوضع الآخر، ويسترفقه في شيء، وهو يقول: والله لا افعل، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم عليهما، فقال: ” اين المتالي على الله لا يفعل المعروف؟ قال: انا يا رسول الله، فله اي ذلك احب ”
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دروازے پر جھگڑنے کی آواز سنی، دونوں آوزیں بلند تھیں۔ ایک کہتا تھا: مجھے کچھ معاف کر دے اور میرے ساتھ رعایت کر۔ دوسرا کہتا تھا: قسم اللہ کی! میں کبھی معاف نہیں کروں گا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا: ”وہ کہاں ہے جو اللہ کی قسم کھاتا تھا نیکی نہ کرنے پر۔“ ایک شخص بولا: میں ہوں یا رسول اللہ! اس کو اختیار ہے جیسا چاہے۔
جواب
اس طرح کی بارہ روایات صحیح مسلم میں ہیں
یہ روایات سندا ضعیف سمجھی جائیں گی کیونکہ یہ مجہولین سے ہیں لیکن ان کا متن دیگر صحیح اسناد سے معلوم ہے لہذا ان روایات کو متنا صحیح سمجھا جاتا ہے
———-
اصول حدیث کی نظر میں اس قسم کی سند صحیح نہیں ہے
قال القاضي إذا قال الراوي حدثني غير واحد أو حدثني الثقة أو حدثني بعض أصحابنا فليس هو من المقطوع ولا هو من المرسل ولا من المعضل عند أهل الفن بل هو من باب الرواية عن المجهول وهذا الذي قاله القاضي هو الصواب
اہل فن کے نزدیک یہ روایت مجہول سے ہے
قال الحافظ ابن حجر: “ولا يقبل حديث المبهم ما لم يسم؛ لأن شرط قبول الخبر عدالة راويه، ومن أبهم اسمه لا يعرف، فكيف تعرف عدالته؟
حدیث میں نام نہ ہو تو اس ابہام والی روایت کو نہیں لیا جا سکتا کیونکہ عدالت راوی کا علم نہیں ہے
http://shamela.ws/browse.php/book-25955/page-200
============
راقم کا گمان ہے کہ یہ امام بخاری کا نام چھپایا جا رہا ہے صحیح بخاری میں حدیث 2705 ہے
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَخِي، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي الرِّجَالِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أُمَّهُ عَمْرَةَ بِنْتَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَتْ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، تَ
اور صحیح مسلم کی سند ہے
وحَدَّثَنِي غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِنَا، قَالُوا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، حَدَّثَنِي أَخِي، عَنْ سُلَيْمَانَ وَهُوَ ابْنُ بِلَالٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي الرِّجَالِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أُمَّهُ عَمْرَةَ بِنْتَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَتْ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ
[/EXPAND]
[قران کے علاوہ پیغمبر پر کوئی دوسری چھپی ہوئی چیز نازل نہی ہوئی]
قران کے علاوہ پیغمبر پر کوئی دوسری چھپی ہوئی چیز نازل نہی ہوئی۔ …. محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اللہ کے طرف سے صرف قران نازل ہوا تھا اور قران کے علاوہ کوئی اور چیز نازل نہی ہوئی تھی لہازا قران کے علاوہ کسی اور کتاب کو حجت ماننا شرک ہے
جواب
یہ قول جاہلانہ ہے – آیات سے مطلب کشید کیا گیا ہے اور ایسا کرنے والے کو عذاب ہو گا کیونکہ اس نے کلام الله کو بدلنے کی کوشش کی ہے
انبیاء کو حکم کس طرح ہوتا ہے ؟ کیا صرف قرآن سے ہوتا ہے کوئی اور القا یا الوحی نہیں ہوتی؟ یہ شخص کہنا چاہتا ہے کہ دور نبوی میں الوحی صرف قرآن تھا
افسوس یہ جاہل ہے
جبگ بدر میں تین ہزار فرشتے نازل ہوئے یہ بعد میں سوره الانفعال میں تبصرے میں خبر دی گئی جبکہ واقعہ پہلے ہوا تھا
نبی صلی الله علیہ وسلم کو حج کا حکم ہوا – اپ مدینہ سے نکلے لیکن اپ کو مشرکین نے حدیبیہ میں روک لیا- خواب الوحی ہے
ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں اسمعیل علیہ السلام کی قربانی کا حکم ہوا جو الوحی یا من جانب الله سمجھا گیا
بنو قریظہ کے محاصرے کے وقت درخت کاٹ دیے گئے بعد میں سوره الحشر میں اس پر تبصرہ ہوا کہا گیا یہ الله کا حکم تھا
قرآن میں خود موجود ہے کہ انبیاء پر تحریری الوحی کے علاوہ بھی الوحی ہوئی ہے
یہ شخص کہنا چاہتا ہے کہ صرف وہ لوگ ہی نبی ہیں جن پر کتب نازل ہوئیں جن کو صحف یا کتب نہیں ملیں وہ انبیاء و رسل نہیں ہیں
قرآن میں بے شمار مثالیں ہیں
موسی علیہ السلام کو توریت طور پر خروج مصر کے بعد ملی لیکن الله کا حکم تو مصر میں بھی آ رہا تھا وہ کیا الوحی نہیں تھا
اگر اصول بنے گا تو تمام انبیاء پر لاگو کرنا ہو گا
——-
⇓ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو شارع مجاز کہا جا سکتا ہے ؟ کہا جاتا ہے
⇓ کچھ لوگ یہ عیقدہ رکھتے ہیں کہ حضور صلی الله وسلم کو چیزوں کو حرام اور حلال کرنے کا اختیار تھا
[/EXPAND]
جواب
جواب
جواب
جواب
جواب
جواب
جواب