علم حدیث ٤

[محدثین نے ابوعوانہ کی کتب کو جلا دیا ؟ ]
جواب
کوفہ میں اعمش بعض روایات بیان کرتا تھا جن کو محدثین رد کر چکے تھے ان میں سے ایک تھیحَدِيثُ عَلِيٍّ: «أَنَا قَسِيمُ النَّارِعلی نے کہا میں جہنم کی اگ کی تقسیم کرنے والا ہوں
ان روایات کو ابو عوانہ نے ایک جگہ جمع کیا –
باب التَّغْلِيظُ عَلَى مَنْ كَتَبَ الْأَحَادِيثَ الَّتِي فِيهَا طَعْنٌ عَلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
818 – أَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ حَمْدُونَ، قَالَ: ثَنَا حَنْبَلٌ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: كَانَ سَلَّامُ بْنُ أَبِي مُطِيعٍ أَخَذَ كِتَابَ أَبِي عَوَانَةَ الَّذِي فِيهِ ذِكْرُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَحْرَقَ أَحَادِيثَ الْأَعْمَشِ تِلْكَ
http://shamela.ws/browse.php/book-1077#page-859

819 – وَأَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: ثَنَا مُهَنَّى، قَالَ: سَأَلْتُ أَحْمَدَ، قُلْتُ: حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ خِدَاشٍ، قَالَ: قَالَ سَلَّامٌ: وَأَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: ثَنَا يَحْيَى، قَالَ: سَمِعْتُ خَالِدَ بْنَ خِدَاشٍ، قَالَ: جَاءَ سَلَّامُ بْنُ أَبِي مُطِيعٍ إِلَى أَبِي عَوَانَةَ، فَقَالَ: هَاتِ هَذِهِ الْبِدَعَ الَّتِي قَدْ جِئْتَنَا بِهَا مِنَ الْكُوفَةِ، قَالَ: فَأَخْرَجَ إِلَيْهِ أَبُو عَوَانَةَ كُتَبَهُ، فَأَلْقَاهَا فِي التَّنَّورِ، فَسَأَلْتُ خَالِدًا مَا كَانَ فِيهَا؟ قَالَ: حَدِيثُ الْأَعْمَشِ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اسْتَقِيمُوا لِقُرَيْشٍ» ، وَأَشْبَاهِهِ، قُلْتُ لِخَالِدٍ: وَأَيْشِ؟ قَالَ: حَدِيثُ عَلِيٍّ: «أَنَا قَسِيمُ النَّارِ» ، قُلْتُ لِخَالِدٍ: حَدَّثَكُمْ بِهِ أَبُو عَوَانَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ؟ قَالَ: نَعَمْ.
820 – وَأَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: سَلَّامُ بْنُ أَبِي مُطِيعٍ مِنَ الثِّقَاتِ مِنْ أَصْحَابِ أَيُّوبَ، وَكَانَ رَجُلًا صَالِحًا، حَدَّثَنَا عَنْهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، ثُمَّ قَالَ أَبِي: كَانَ أَبُو عَوَانَةَ وَضَعَ كِتَابًا فِيهِ مَعَايِبُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِيهِ بَلَايَا، فَجَاءَ إِلَيْهِ سَلَّامُ بْنُ أَبِي مُطِيعٍ، فَقَالَ: يَا أَبَا عَوَانَةَ، أَعْطِنِي ذَلِكَ الْكِتَابَ، فَأَعْطَاهُ، فَأَخَذَهُ سَلَّامٌ فَأَحْرَقَهُ
http://shamela.ws/browse.php/book-1077#page-860

21 – أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ الْمَرُّوذِيُّ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: اسْتَعرْتُ مِنْ صَاحِبِ حَدِيثٍ كِتَابًا، يَعْنِي فِيهِ الْأَحَادِيثَ الرَّدِيئَةَ، تَرَى أَنْ أُحَرِّقَهُ، أَوْ أُخَرِّقُهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، لَقَدِ اسْتَعَارَ سَلَّامُ بْنُ أَبِي مُطِيعٍ مِنْ أَبِي عَوَانَةَ كِتَابًا، فِيهِ هَذِهِ الْأَحَادِيثُ، فَأَحْرَقَ سَلَّامٌ الْكِتَابَ، قُلْتُ: ” فَأَحْرِقُهُ؟ قَالَ: نَعَمْ
822 – أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، قَالَ: ثَنَا الْفَضْلُ بْنُ زِيَادٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ وَدَفَعَ إِلَيْهِ رَجُلٌ كِتَابًا فِيهِ أَحَادِيثُ مُجْتَمِعَةٌ، مَا يُنْكَرُ فِي أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْوَهُ، فَنَظَرَ فِيهِ، ثُمَّ قَالَ: «مَا يَجْمَعُ هَذِهِ إِلَّا رَجُلُ سُوءٍ» ، وَسَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: بَلَغَنِي عَنْ سَلَّامِ بْنِ أَبِي مُطِيعٍ أَنَّهُ جَاءَ إِلَى أَبِي عَوَانَةَ، فَاسْتَعَارَ مِنْهُ كِتَابًا كَانَ عِنْدَهُ فِيهِ بَلَايَا، مِمَّا رَوَاهُ الْأَعْمَشُ، فَدَفَعَهُ إِلَى أَبِي عَوَانَةَ، فَذَهَبَ سَلَّامٌ بِهِ فَأَحْرَقَهُ، فَقَالَ رَجُلٌ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: أَرْجُو أَنْ لَا يَضُرَّهُ ذَلِكَ شَيْئًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ؟ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: يَضُرُّهُ؟ بَلْ يُؤْجَرُ عَلَيْهِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ
823 – أَخْبَرَنِي حَرْبُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْكَرْمَانِيُّ، قَالَ: سَأَلْتُ إِسْحَاقَ يَعْنِي ابْنَ رَاهَوَيْهِ، قُلْتُ: رَجُلٌ سَرَقَ كِتَابًا مِنْ رَجُلٍ فِيهِ رَأْيُ جَهْمٍ أَوْ رَأْيُ الْقَدَرِ؟ قَالَ: ” يَرْمِي بِهِ، قُلْتُ: إِنَّهُ أُخِذَ قَبْلَ أَنْ يُحَرِّقَهُ أَوْ يَرْمِيَ بِهِ، هَلْ عَلَيْهِ قَطْعٌ؟ قَالَ: لَا قَطْعَ عَلَيْهِ، قُلْتُ لِإِسْحَاقَ: رَجُلٌ عِنْدَهُ كِتَابٌ فِيهِ رَأْيُ الْإِرْجَاءِ أَوِ الْقَدَرِ أَوْ بِدْعَةٌ، فَاسْتَعَرْتُهُ مِنْهُ، فَلَمَّا صَارَ فِي يَدِي أَحْرَقْتُهُ أَوْ مَزَّقْتُهُ؟ قَالَ: لَيْسَ عَلَيْكَ شَيْءٌ
824 – أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ الْمَرُّوذِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: «لَا نَقُولُ فِي أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا الْحُسْنَى»
827 – أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَاضِرَ، وَرَأَيْتُ، فِي كُتُبِهِ أَحَادِيثَ مَضْرُوبٌ عَلَيْهَا، فَقُلْتُ: مَا هَذِهِ الْأَحَادِيثُ الْمَضْرُوبُ عَلَيْهَا؟ فَقَالَ: هَذِهِ الْعَقَارِبُ، نَهَانِي ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ أَنْ أُحَدِّثَ بِهَا
اس پر محدثین نے اعتراض کیا کہ اس قسم کی بے سروپا روایات کیوں اکٹھی کی ہیںلہذا اس کتاب میں اعمش کی  روایات ایک محدث کی طرف سے جلا دی گئیں اور بعض نے اس کتاب کو دیکھ کر صرف أستغفر الله کہا
معلوم ہوا کہ یہ روایت کرنا ہی معیوب تھا اس بنا پر محدثین نے دوسروں کی احادیث کی کتب کو جلا دیا

[/EXPAND]

[کیا رسول الله  آیات بھول جاتے تھے پھر کوئی اور تلاوت کرتا تو ان کو یاد اتا ؟]

صحيح البخاري: كِتَابُ فَضَائِلِ القُرْآنِ (بَابُ اسْتِذْكَارِ القُرْآنِ وَتَعَاهُدِهِ) صحیح بخاری: کتاب: قرآن کے فضائل کا بیان (باب: قرآن مجید کو ہمیشہ پڑھتے اور یاد کرتے رہنا)
5032
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَرْعَرَةَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِئْسَ مَا لِأَحَدِهِمْ أَنْ يَقُولَ نَسِيتُ آيَةَ كَيْتَ وَكَيْتَ بَلْ نُسِّيَ وَاسْتَذْكِرُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ أَشَدُّ تَفَصِّيًا مِنْ صُدُورِ الرِّجَالِ مِنْ النَّعَمِ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ مِثْلَهُ تَابَعَهُ بِشْرٌ عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ عَنْ شُعْبَةَ وَتَابَعَهُ ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَبْدَةَ عَنْ شَقِيقٍ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
حکم : صحیح 5032
ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے منصور نے ، ان سے ابو وائل نے اور ان سے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت برا ہے کسی شخص کا یہ کہنا کہ میں فلاں فلاں آیت بھول گیا بلکہ یوں ( کہنا چاہیے ) کہ مجھے بھلادیا گیا اور قرآن مجید کا پڑھنا جاری رکھو کیونکہ انسانوں کے دلوں سے دور ہوجانے میں وہ اونٹ کے بھاگنے سے بھی بڑھ کر ہے ۔ ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے جریر بن عبد الحمید نے ، اوران سے منصور بن معتمر نے پچھلی حدیث کی طرح ۔ محمد بن عرعرہ کے ساتھ اس کو بشر بن عبد اللہ نے بھی عبد اللہ بن مبارک سے ، انہوں نے شعبہ سے روایت کیا ہے اور محمد بن عرعرہ کے ساتھ اس کو ابن جریج نے بھی عبد ہ سے ، انہوں نے شقیق بن مسلمہ سے ، انہوں نے عبد اللہ بن مسعود سے ایسا ہی روایت کیا ہے ۔

جواب
بھول جانا انبیاء کی بشریت ہے مثلا موسی مچھلی کو بھول گئے جب خضر سے ملاقات کرنے نکلے
فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهُ إِلَّا الشَّيْطَانُ} [الكهف مچھلی کو تو میں بھول ہی گیا اور اس کو شیطان نے ہی بھلایا ہے
صحیح بخاری میں ہے رسول الله نے فرمایاإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ، أَنْسَى كَمَا تَنْسَوْنَ، فَإِذَا نَسِيتُ فَذَكِّرُونِي،بے شک میں تمہارے جیسا بشر ہوں ، بھول جاتا ہوں جیسے تم بھولتے ہو ، جب میں بھولوں تو یاد دلا دو
قَاضِى عِيَاض صحیح مسلم کی شرح میں کہتے ہیں يجوز على النبى – عليه السلام – من النسيان یہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے لئے جائز ہے کہ بھول جائیں اس کی مثال قَاضِى عِيَاض نے دی کہ نماز میں بھول گئے بھر سجدہ سہو کیا
قاضی کے مطابق صوفیاء اورالْأُصُولِيِّينَ میں أَبَا المظفر الاسفرايني کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے بھول و نسیان کو منسوب نہیں کیا جا سکتا – ابن حجر نے فتح الباری میں اس رائے کو   قَوْلٌ ضَعِيفٌ قرار دیا ہے
بدر الدين العينى نے عمدة القاري شرح صحيح البخاري میں لکھا ہےقيل: كَيفَ جَازَ نِسْيَان الْقُرْآن عَلَيْهِ. وَأجِيب: بِأَن النسْيَان لَيْسَ بِاخْتِيَارِهِ.کہا جاتا ہے : کیسے جائز ہے قرآن میں بھول جانا ؟ اور جواب دیا گیا : کہ بھول جانے پر اختیار نہیں ہوتا
راقم کہتا ہے یہاں معاملہ الوحی کے بھول جانے کا ہے جو معمولی بات نہیں ہے – الوحی تو قلب محمد صلی الله علیہ وسلم پر آئی ہے جس کو صرف الله ہی بھلا سکتا ہے
سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسَى إِلَّا مَا شَاءَ الله

ہم اپ پر پڑھیں گے تو اپ بھول نہ سکیں گے سوائے وہ جو اللہ چاہےالأعلى
الله چاہے تو اپنے نبی کو آیات بھلا سکتا ہے لیکن اس آیت کا اس حدیث سے کیا جوڑ ہے ؟ الله جو آیات بھلا دیتا ہے وہ آیات وہ ہیں جو منسوخ کی گئی ہیں اور اس کے بدلے اس جیسی یا اس سے بہتر آیات دی گئی ہیں
ہشام بن عروہ کی روایت کوفہ عراق والوں نے لی ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم  آیات بھول جاتے تھےاس روایت کو ہشام سے ان لوگوں نے لیا ہے
أَبُو الصَّلْت زَائِدَة بن قدامَة الثَّقَفِيّ الکوفی – عِيسَى بن يُونُس بن أبي إِسْحَاق عَمْرو السبيعِي الْهَمدَانِي الْكُوفِي – أبو أسامة حماد بن أسامة الكوفى – أبو الحسن على بن مسهر القرشى الكوفى – أبو محمد عبدة بن سليمان الكلابى الكوفى – أبو سفيان وكيع بن الجراح بن مليح الكوفى – أَبُو مُعَاوِيَة مُحَمَّد بن حَازِم الضَّرِير التَّمِيمِي السَّعْدِيّ الْكُوفِي – ابُو هِشَامٍ عَبْدُ اللهِ بنُ نُمَيْرٍ أ الهَمْدَانِيُّ الکوفی
عراق میں ہشام نے بعض روایات بیان کیں جن پر امام مالک کو بھی اعتراض رہا اگرچہ معلوم نہیں ان میں کون کون سی روایات تھیں
روایت کے الفاظ ہیں يرحمه الله لقد اذكرني كذا وكذا آية كنت انسيتها من سورة كذا وكذا

االله اس پر رحم کرے اس نے یاد کرا دیں وہ اور وہ آیات جن کو میں بھول گیا تھا اس اس سورت میں سے
المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم میں أبو العبَّاس لکھتے ہیں

قال ابن السيِّد البطليوسي : كذا وكذا : كناية عن الأعداد المعطوف بعضها على بعض ؛ من أحد وعشرين إلى تسعة وتسعين

ابن السيِّد البطليوسي نے کہا كذا وكذا یہ کنایہ ہے اعداد کی طرف گیارہ سے لے کر ننانوے تک

مزید لکھا

وإذا قال : له عندي كذا كذا درهمًا ؛ فهي كناية عن الأعداد ؛ من أحد عشر إلى تسعة عشر ، هذا اتفاق من الكوفيين والبصريين . وقال الكوفيون خاصة

اگر کہے میرے پاس كذا كذا درہم ہیں تو یہ اعداد پر کنایہ ہے اس میں گیارہ سے لے کر انیس تک ہے اس پر کوفیوں بصریوں کا اتفاق ہے اور یہ کہا ہے خاص کر کوفیوں نے

مزید کہا

فيكون قوله ـ صلى الله عليه وسلم ـ : (( كذا وكذا آية )) ؛ [ أنه ] أقل ما يحمل عليه إحدى وعشرون

رسول اللہ کا کہنا كذا وكذا آية تو یہ کم از کم گیارہ آیات تھیں
عربی ادب کی اس بحث کا حاصل یہ ہوا کہ روایت کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم کم از کم گیارہ آیات بھول گئے تھے اور یہ روایت کوفیوں کی بیان کردہ ہے
شارحین کی اس روایت پر نکتہ سنجی ہے کہ یہ آیات رسول الله صلی الله علیہ وسلم جان بوجھ کر نہیں نسیان کی وجہ سے بھولے ایسا متعدد نے کہا مثلافتح المنعم شرح صحيح مسلم  المؤلف: الأستاذ الدكتور موسى شاهين لاشين: كنت أسقطتها من سورة كذا أي كنت أسقطتها نسيانًا لا عمدًا،
صحیح بخاری میں ہے

حَدَّثَنا بِشْرُ بْنُ آدَمَ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَارِئًا يَقْرَأُ مِنَ اللَّيْلِ فِي المَسْجِدِ، فَقَالَ: «يَرْحَمُهُ اللَّهُ لَقَدْ أَذْكَرَنِي كَذَا وَكَذَا آيَةً أَسْقَطْتُهَا مِنْ سُورَةِ كَذَا وَكَذَا

االله رحم کرے اس پر اس نے یاد دلا دیں وہ اور وہ آیات جو اس سورہ میں اور اس سورہ میں سے گر گئیں تھیں

گر گئیں یعنی منسوخ ہو گئیں تھیں – اگرچہ اس صریح بات کو تمام شارحین نے منسوخ آیات یا قرات قرار نہیں دیا ہے البتہ مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ملا علی القاری نے کہا
وَيَكُونُ مَعْنَى قَوْلِهِ نَسِيَ، أَيْ نُسِخَتْ تِلَاوَتُهُ

اور ممکن ہے کہ قول نبوی میں بھول گیا یعنی ان کی تلاوت منسوخ ہوئی تھا
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو بعض آیات بھلا دی گئیں اس کا مطلب ہے کہ اس کے جیسی دوسری آیت دی یا حکم منسوخ ہوا
بعض آیات ہیں جن کی قرات منسوخ ہوئی اور حکم باقی رہا مثلا رجم-بعض آیات ہیں جن کا حکم منسوخ ہوا اور قرآن میں موجود ہیں مثلا روزے کی چند آیات
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا فرمان کہ ان صحابی نے گر جانے والی آیات کی قرات کی سے معلوم ہوا کہ یہ شخص جس کا قرآن رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سنا اس کی قرات باطل تھی کیونکہ وہ  منسوخ آیات کی قرات کر رہا تھا جو رسول الله بھول چکے تھے – اس شخص کو اصلاح کی ضرورت تھی – اس کو خبر کی جاتی کہ تو منسوخ آیات کی قرات کیوں کر رہا ہے ؟ لیکن ایسا روایت میں بیان نہیں ہوا کہ رسول الله نے اس کو طلب کر کے نئی آیات قرات کرنے کا حکم دیا یا خبر دی ہو کہ یہ قرات اب منسوخ ہوئی – دوسری طرف اگر یہ وہ آیات تھیں جن کا حکم منسوخ ہوا لیکن قرات باقی رہی تو ایسا ممکن نہیں کہ یہ آیات رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو بھلا دی گئی ہوں

ابن حجر نے فتح الباری میں کہا لَمْ أَقِفْ عَلَى تَعْيِينِ الْآيَاتِ الْمَذْكُورَةِ

کون سی آیات تھیں ان کا تَعْيِينِ نہیں ہو سکا
اس روایت کی تہہ میں عجیب بات ہے جو غور کرے اس پر اس کی نکارت ظاہر ہو سکتی ہے
[/EXPAND]

[سورج غروب ہونے پر کہاں جاتا ہے ؟]

صحيح البخاري: كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ (بَابُ صِفَةِ الشَّمْسِ وَالقَمَرِ بِحُسْبَانٍ) صحیح بخاری: کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیوں کر شروع ہوئی (باب : سورہ رحمن کی اس آیت کی تفسیر کہ سورج اور چاند دونوں حسا ب سے چلتے ہیں ۔)

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لِأَبِي ذَرٍّ حِينَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ: «أَتَدْرِي أَيْنَ تَذْهَبُ؟»، قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّهَا تَذْهَبُ حَتَّى تَسْجُدَ تَحْتَ العَرْشِ، فَتَسْتَأْذِنَ فَيُؤْذَنُ لَهَا وَيُوشِكُ أَنْ تَسْجُدَ، فَلاَ يُقْبَلَ مِنْهَا، وَتَسْتَأْذِنَ فَلاَ يُؤْذَنَ لَهَا يُقَالُ لَهَا: ارْجِعِي مِنْ حَيْثُ جِئْتِ، فَتَطْلُعُ مِنْ مَغْرِبِهَا، فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى: {وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ العَزِيزِ العَلِيمِ} [يس: 38]

حکم : صحیح 3199

ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ، ان سے اعمش نے ، ان سے ابراہیم تیمی نے ، ان سے ان کے باپ یزید بن شریک نے اور ان سے ابو ذرغفاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سورج غروب ہوا تو ان سے پوچھا کہ تم کو معلوم ہے یہ سورج کہاں جاتا ہے ؟ میں نے عرض کی کہ اللہ اور اس کے رسول ہی کو علم ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جاتا ہے اور عرش کے نیچے پہنچ کر پہلے سجدہ کرتا ہے ۔ پھر ( دوبارہ آنے ) کی اجازت چاہتا ہے اور اسے اجازت دی جاتی ہے اور وہ دن بھی قریب ہے ، جب یہ سجدہ کرے گا تو اس کا سجدہ قبول نہ ہو گا اور اجازت چاہے گا لیکن اجازت نہ ملے گی ۔ بلکہ اس سے کہا جائے گا کہ جہاں سے آیا تھا وہیں واپس چلا جا ۔ چنانچہ اس دن وہ مغربی ہی سے نکلے گا ۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴾ وَالشَّمسُ تَجرِی لِمُستَقَرٍّ لَّہَا ذٰلِک َتَقدِیرُ العَزِیزِ العَلِیم﴿ ( یٰس ٓ : ۸۳ ) میں اسی طرف اشارہ ہے ۔

اس کے حاشیہ میں یہ لکھا ہے سلفی علماء نے

حدیث حاشیہ: اس حدیث میں منکرین حدیث نے کئی اشکال پیدا کئے ہیں، ایک یہ کہ سورج زمین کے نیچے جاتا ہے نہ عرش کے نیچے۔ اور دوسری روایت میں یہ مضمون موجود ہے تغرب فی عین حمئۃ دوسرے یہ کہ زمین اور آسمان گول کرے ہیں تو سورج ہر وقت عرش کے نیچے ہے۔ پھر خاص غروب کے وقت جانے کے کیا معنی؟ تیسرے سورج ایک بے روح اور بے عقل جسم ہے اس کا سجدہ کرنا اور اس کو اجازت ہونے کے کیا معنی؟ چوتھے اکثر حکیموں نے مشاہدہ سے معلوم کیا ہے کہ زمین متحرک اور سورج ساکن ہے تو سورج کے چلنے کے کیا معنے؟ پہلے اشکال کا جواب یہ ہے کہ جب زمین کروی ہوئی تو ہر طرح سے عرش کے نیچے ہوئی اس لیے غروب کے وقت یہ کہہ سکتے ہیں کہ سورج زمین کے نچیے گیا اور عرش کے نیچے گیا۔ دوسرے اشکال کا جواب یہ ہے کہ بے شک ہر نقطے اور ہر مقام پر سورج عرش کے نیچے ہے اور وہ ہر وقت اپنے مالک کے لیے سجدہ کررہا ہے اور اس کے آگے بڑھنے کی اجازت مانگ رہا ہے لیکن چونکہ ہر ملک والوں کا مغرب اور مشرق مختلف ہے اس لیے طلوع اور غروب کے وقت کو خاص کیا۔ تیسرے اشکال کا جواب یہ کہ کہاں سے معلوم ہوا کہ سورج بے جان اور بے عقل ہے۔ بہت سی آیات و احادیث سے سورج اور چاند اور زمین اور آسمان سب کا اپنے اپنے درجہ میں صاحب روح ہونا ثابت ہے۔ چوتھے اشکال کا جواب یہ ہے کہ بہت سے حکیم اس امر کے بھی قائل ہیں کہ زمین ساکن ہے اورسورج اس کے گرد گھومتا ہے اور اس بارے میںطرفین کے دلائل متعارض ہیں۔ اور ظاہر قرآن و حدیث سے تو سورج اور چاند اور تاروں ہی کی حرکت نکلتی ہے۔ ( مختصر از وحیدی ) آیت شریفہ والشمس تجري لمستقرلہا ( یٰس: 38 ) میں مستقر سے مراد بقائے عالم کا انقطاع ہے یعنی الی انقطلاع بقاءمدۃ العالم اماقولہ مستقرلہا تحت العرش فلا ینکران یکون لہا استقراءتحت العرش من حیث لاندرکہ ولا نشاہدہ و انما اخبر عن غیب فلا نکذبہ ولا نکیفہ لان علمنا لا یحیط بہ۔ انتہیٰ کلام الطیبی

شیعہ حضرت کا یہ اعترض ہے
http://www.imgrum.org/media/977427206680765884_1742540152

جواب

یہ روایت بلا جرح محمد باقر المجلسيى نے بھی کتاب بحار الأنوار ج ٥٥ ص ٢١٠ میں نقل کی ہے
وعن أبى ذر – ره – قال: كنت مع النبي صلى الله عليه وآله في المسجد عند غروب الشمس، فقال: يا باذر (9) أتدري أين تغرب الشمس ؟ قلت: الله ورسوله أعلم، فقال: إنها تذهب حتى تسجد تحت العرش فتستأذن في الرجوع، فيؤذن لها، فذلك قوله (والشمس تجري لمستقر لها

مجلسی نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا

آج کے دور میں ہم پر واضح ہوا ہے کہ زمین ، سورج کے گرد کھوم رہی ہے اور محور پر بھی گھوم رہی ہے آج سے ٢٠٠ سال پہلے لوگوں کو اس کا علم نہیں تھا
لہذا قدیم شیعوں نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا

لیکن سورج کا مغرب کے طلوع ہونا بطور قیامت کی نشانی اہل تشیع اور اہل سنت میں معروف ہے

الخصال – از الصدوق – ص 431 – 432 کی روایت ہے

عن أبي الطفيل ( 2 ) ، عن حذيفة بن أسيد قال : اطلع علينا رسول الله صلى الله عليه وآله من غرفة له ونحن نتذاكر الساعة ، قال رسول الله صلى الله عليه وآله : لا تقوم الساعة حتى تكون عشر آيات : الدجال ، والدخان ، وطلوع الشمس من مغربها ، ودابة الأرض ، و يأجوع ومأجوج ، وثلاث خسوف : خسف بالمشرق وخسف بالمغرب وخسف بجزيرة ‹ صفحة 432 › العرب ، ونار تخرج من قعر عدن تسوق الناس إلى المحشر ، تنزل معهم إذا نزلوا وتقيل معهم إذا قالوا . عشر خصال جمعها الله عز وجل لنبيه وأهل بيته صلوات الله عليهم

حذيفة بن أسيد کہتے ہیں ان کو رسول الله صلى الله عليه وآله نے خبر دی اپنے غرفة میں اور ہم وہاں قیامت کا ذکر کر رہے تھے رسول الله صلى الله عليه وآله نے فرمایا قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ دس نشانیاں ہوں دجال دھواں سورج کا مغرب سے طلوع ہونا دابه الارض یاجوج اور ماجوج تین خسوف مغرب مشرق اور عرب میں اور اگ جو عدن کی تہہ سے نکلے گی اور لوگوں کو محشر کی طرف جمع کرے گی

یہی روایت صحیح مسلم میں بھی ہے

مصطفى البغا صحیح بخاری کی تعلیق میں کہتے ہیں
السموات والأرض وغيرهما من العوالم كلها تحت العرش ففي أي موضع سقطت وغربت فهو تحت العرش
آسمان ہوں یا زمین اور دیگر ان عالموں میں سب عرش کے نیچے ہیں جو جہاں سے بھی سورج طلوع ہو یا غروب وہ عرش کے نیچے ہی ہوا

یہ روایت ایک ہی سند سے ہے
عَنْ الْأَعْمَشِ, عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ, عَنْ أَبِيهِ, عَنْ أبِي ذَرٍّ
اس میں اعمش مدلس ہے

اس میں اعمش کا تفرد ہے جو مدلس ہے اور ذخیرہ احادیث میں اس مخصوص روایت کی ہر سند میں اس نے عن سے ہی روایت کیا ہے

کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق

وقال سفيان الثوري لم يسمع الأعمش حديث إبراهيم في الوضوء من القهقهة منه

سفيان الثوري کہتے ہیں کہ الأعمش نے ابراہیم کی حدیث وضو میں قہقہہ پر نہیں سنی

احمد یہ بات العلل میں کہتے ہیں

قال سفيان: لم يسمع الأعمش حديث إبراهيم في الضحك.

کتاب المعرفة والتاريخ کے مطابق امام احمد کہتے تھے کہ ابراہیم سے روایت کرنے میں اگر اعمش یا منصور غلطی کریں تو فوقیت منصور کودو

وقال الفضل بن زياد: سمعت أبا عبد الله أحمد بن حنبل، وقيل له: إذا اختلف

منصور، والأعمش، عن إبراهيم فبقول من تأخذ؟ قال: بقول منصور، فإنه أقل سقطاً

تدليس الإسناد کے حوالے سے علم حدیث کی کتابوں میں یہ بات موجود ہے کہ اسناد میں گڑبڑ ہوئی ہے مثلا أبو عوانة نے عن الأعمش عن إبراهيم التيمي، عن أبيه، عن أبي ذر کی سند سے روایت کیا ہے

أن النبي – صلى الله عليه وسلم – قال: فلان في النار ينادي، يا حنان يا منان.

قال أبو عوانة: قلت للأعمش سمعت هذا من إبراهيم؟ قال: لا، حدثني به حكيم بن جبير عنه.

ابو عوانة کہتے ہیں میں نے اعمش سے پوچھا تم نے یہ روایت ابراہیم سے سنی ہے ؟ بولے نہیں اس کو حكيم بن جبير نے ان سے روایت کیا ہے دیکھئے معرفة علوم الحديث ص: 105 پر

اسی طرح العلل دارقطنی میں ہے

وَسُئِلَ عَنْ حَدِيثِ شُعْبَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاتَيْنِ تَنْتِطَحَانِ.

فَقَالَ: تَفَرَّدَ بِهِ أَبُو دَاوُدَ، عَنْ شُعْبَةَ، وَلَا يَثْبُتُ عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الحديث.

الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ کی سند سے روایت ہے اس کو دارقطنی کہتے ہیں اعمش سے ثابت نہیں ہے

اب مثالیں موجود ہیں کہ اعمش جب عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ کی سند سے روایت کرتے ہیں تو بعض اوقات انہوں نے تدلیس کی ہے

اگر روایت سندا صحیح ہے تو قرآن مين ہے

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَسْجُدُ لَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَكَثِيرٌ مِّنَ النَّاسِ ۖ وَكَثِيرٌ حَقَّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ ۗ وَمَن يُهِنِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِن مُّكْرِمٍ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ
سوره الحج
سورج الله کو سجدہ کرتا ہے اس کی ماہیت و کیفیت الله کے علم میں ہے حدیث میں اغلبا کہا گیا کہ سورج کا غروب ہونا اس کا سجدہ کرنا ہے
و الله اعلم

وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ العَزِيزِ العَلِيمِ} [يس: 38] اور سورج چل رہا ہے اپنے مستقر کی طرف یہ مقدر ہے (الله) زبردست جاننے والے کی طرف ہے

[/EXPAND]

[حیض کی حالت ميں امہات المومنین سے  رسول  صلی الله علیہ وسلم   مباشرت کرتے]

بخاری کتاب الحیض جلد 1 صفحہ 44 ۔۔عائشہ رضی فرماتی ہیں کہ حیض کی حالت ميں آپ صلی الله علیہ وسلم مجھے تہ پوش پہننے کا حکم دیتے ۔اور اس کے بعد مجھ سے مباشرت کرتے ۔۔۔صفحہ نمبر 662… آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھ کر اپنی ازواج کے بوسے لیتے اور ان سے مباشرت فرمایا کرتے
جواب
قرآن سوره البقرۃ ٢٢٢ میں ہےوَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَلوگ آپ سے حیض کے متعلق پوچھتے ہیں کہہ دیجئے کہ حیض ایک قسم کی اذیت ہے، اس لیے دوران حیض میں بیویوں سے دور رہیے اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ان کے قریب مت جائیے اور پاک ہونے کے بعد ان کے پاس جائیے جیسا کہ الله نے حکم کیا ہے
آیت میں جیسا کہ الله نے حکم کیا ہے اور قرب کے الفاظ کنایہ ہیں جماع کے لئے – آیت میں حالت حیض میں جماع کی ممانعت ہے – بوسہ لینے پر پابندی نہیں ہے
صحیح بخاری حدیث ٣٠٠ میں عائشہ رضی الله عنہا نے فرمایاوَكَانَ يَأْمُرُنِي، فَأَتَّزِرُ، فَيُبَاشِرُنِي وَأَنَا حَائِضٌرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے تہ پوش پہننے کا حکم دیتے اور اس کے بعد مجھے چھوتے تھے اور میں حائضہ ہوتی
مباشرت کا مطلب عربی میں اصل میں ملامس کرنا ، چھونا ہے جماع کرنا ہمیشہ اس کا مطلب نہیں ہے بلکہ جماع کرنا اب اس لفظ کا فقہی مفہوم ہے جو قرآن و حدیث سے استنباط کر کے لیا گیا ہے
شرح الطيبي على مشكاة المصابيح المسمى میں ہےفيباشرني)) أي يضاجعني، ويواصل بشرته بشرتي دون جماعفيباشرني یعنی ساتھ لیٹتے اور چھوتے ، جماع کے بغیر
قسطلانی شرح بخاری میں لکھتے ہیں(فيباشرني) عليه الصلاة والسلام أي تلامس بشرته بشرتيیعنی چھوتے
شارحین کا ایسا ہی کہنا ہے
قرآن نے جب کہا عورتوں سے دور رہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کو گھر سے نکال دیا جائے – کہنے کا مقصد ہے قرب کا تعین کیسے ہو گا کہ یہ قرب ہے یہ قرب نہیں ہے؟ آیت میں قرب کہنا کنایہ ہے کہ فرج کو استعمال نہیں کیا جائے گا کیونکہ وہاں سے خون اتا ہے غور طلب ہے کہ کیا مباشرت کا مطلب عربی میں اصلا چھونا ہے یا جماع کرنا ؟
قرآن میں ہےوَلا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِاور عورتوں کو مت چھونا جب تم مسجدوں میں معتکف ہو
اردو میں مباشرت کنایہ نہیں ہے یہ بطور لفظ جماع کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے لہذا اردو میں ترجمہ کرتے ہیںاور عورتوں سے جماع مت کرنا جب تم مسجدوں میں معتکف ہومقصد کے حساب سے ترجمہ درست ہے لیکن یہ عربی الفاظ کا ترجمہ نہیں ہے الفاظ کا فقہی مطلب سمجھ کر اردو میں کیا گیا ترجمہ ہے
لسان عرب از ابن منظور میں ہےأَراد بالمباشَرَةِ المُلامَسَةَ وأَصله مِنْ لَمْس بَشَرَةِ الرَّجُلِ بَشَرَةَ المرأَة،مباشرت سے ارادہ ملامس کرنا (چھونا) ہے اور اس کا اصل ہے کہ مرد عورت کی جلد کو چھوتا ہے
والبَشَرَةُ والبَشَرُ: ظَاهِرُ جِلْدِ الإِنسانانسان کی ظاہر جلد کو البشر یا البشرہ کہا جاتا ہے
عربي لغت لمطلع على ألفاظ المقنع میں ہےقال الجوهري: مباشرة المرأة: ملامستها.لغوی الجوهري نے کہا عورت سے مباشرت ہے اس کو چھونا
لب لباب ہے کہ عربی میں مباشرت کا لفظی مطلب چھونا ہے لیکن اس کا اب فقہی مطلب ہوا ہے جماع کرنا کیونکہ قرآن میں جب مباشرت یا چھونے سے منع کیا تو اصل میں یہ کنایہ تھا جماع کرنے پر – لیکن یہ عربی کا ارتقاء ہے دور نبوی کی عربی میں مباشرت لغوا چھونا ہی تھا جس میں لوگ جانتے تھے کہ کہاں کہاں آیات میں اس کو کس مقصد کے تحت بولا گیا ہے – جب مسلمانوں نے یہ سمجھ لیا کہ الله تعالی جب قرآن مجامعت یا وطی کے عربی الفاظ کی بجائے صرف چھونا کہتا ہے تو وہاں مباشرت سے اس کی مراد جماع کرنا ہوتا ہے تو لفظ مباشرت کے مفہوم میں جماع کرنا بھی آ گیا – واضح رہے کہ یہ مطلب اصحاب رسول نے سمجھا تھا جو ان کو قرآن پر غور سے ملا

[/EXPAND]

[لا يحمدونه کا کیا مطلب ہے ؟]
١.
محدیثین جب اپنی حدیث کی کتاب میں کسی راوی کے اوپر جرح کرتے ہے۔ جب ہم ان کی کتب ضعفاء دیکھتے ہے۔ تو وہ اس راوی کا نام نہیں رہتا ہے-مثال مصعب بن شیبہ جو صحیح مسلم کے راوی ہے امام دارقطنی نے اپنی سنن میں جرح کی ہے۔ مگر جب امام دارقطنی کی کتاب الضعفاء کو دیکھتے ہے تو مصعب بن شیبہ کا نام نہیں ہے۔ تو ایسی صورت حال میں محدث کی کس بات کا اعتبار ہوگا۔
٢
-لا يحمدونه کے اصطلاحی معنی کیا ہے کیا اسکو جرح میں شمار کیا جائے یا تعدیل میں؟ ازراہ کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔

جواب
تاریخ الاسلام از الذھبی میں ہے
مُصْعَب بْن شَيْبة بن جبير بن شيبة2 -م4- بن عثمان الحجبي المكي القرشي العبدري، عَن صفيّة بنت شَيْبة عمّه أَبِيهِ، وطَلْق بْن حبيب. وعَنْه ابنه زُرَارة وزكريّا بْن أَبِي زائدة، وابن جُرَيْج، ومِسْعَر، وآخرون، قَالَ أبو حاتم، لا يحمدونه. وقَالَ الدارَقُطْنيُّ: لَيْسَ بالقويّ، احتجّ بِهِ مُسْلِم وغيره.
اس میں مُصْعَب بْن شَيْبة کا ذکر ہے اس پر ابی حاتم کا کہنا ہے لا يحمدونه اس کی تعریف نہیں کی جاتی لہذا جرح ہےالجرح والتعديل المؤلف: أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ) میں ان الفاظ کی شرح خود ابی حاتم نے کر دی ہےنا عبد الرحمن قال سألت ابى عن مصعب بن شيبة فقال لا يحمدونه، وليس بقوىعبد الرحمان نے کہا میں نے ابی حاتم سے مصعب بن شيبة پر پوچھا کہا اس کی تعریف نہیں کرتے اور یہ قوی نہیں ہے لا يحمدونه کی اور مثالیں بھی ہیں مثلا میزان از الذھبی میں مسهر بن عبد الملك بن سلع الهمداني کے ترجمہ میں ہے ابو داود نے کہا أصحابنا لا يحمدونه ہمارے اصحاب حدیث اس کی تعریف نہیں کرتے
دارقطنی نے اس کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہےقال الدارقطنى: ليس بالقوى ولا بالحافظ. وقال فى موضع آخر: ضعيف، وقال: منكر الحديثمُصْعَبُ بْنُ شَيْبَةَ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ وَلَا بِالْحَافِظِ یہ سنن دارقطنی میں ہےمُصْعَبُ بْنُ شَيْبَةَ ضَعِيفٌ یہ بھی سنن دارقطنی میں ہےمصعب منكر الحديث یہ قول الإلزامات والتتبع میں ہےیہ کتب دارقطنی کی معروف ہیں ان اقوال کا بھی اعتبار ہو گا اور کیا گیا ہے
دارقطنی کی کتاب الضعفاء الضعفاء والمتروكون میں تمام راوی نہیں ہیں جن کو انہوں نے ضعیف قرار دیا ہے

[/EXPAND]

[عائشہ رضی الله عنہا نے کلام نبوی پر اعتراض کیا ؟]

رقم الحديث: 23987
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا صَفْوَانُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا رَاشِدُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” لَا يَقْطَعُ صَلَاةَ الْمُسْلِمِ شَيْءٌ إِلَّا الْحِمَارُ ، وَالْكَافِرُ ، وَالْكَلْبُ ، وَالْمَرْأَةُ ” فَقَالَتْ عَائِشَةُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، لَقَدْ قُرِنَّا بِدَوَابِّ سُوءٍ .عائشہ رضی الله عنہا نے کہا  رسول الله صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا نماز نہ ٹوٹے گی الا یہ کہ گدھا یا کافر یا کتا یا عورت گزر جائے – پس عائشہ نے کہا میں نے کہا یا رسول الله اپ نے  تو ہمیں بد چوپایوں میں کر دیا

نيل الأوطار میں محمد بن علي بن محمد بن عبد الله الشوكاني اليمنيالمتوفى: 1250هـ لکھتے ہیں کہ
وَعَنْ عَائِشَةَ عِنْدَ أَحْمَدَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «لَا يَقْطَعُ صَلَاةَ الْمُسْلِمِ شَيْءٌ إلَّا الْحِمَارُ وَالْكَافِرُ وَالْكَلْبُ وَالْمَرْأَةُ، لَقَدْ قُرِنَّا بِدَوَابِّ السُّوءِ» . قَالَ الْعِرَاقِيُّ: وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ
http://shamela.ws/browse.php/book-9242/page-793
جواب
مسند احمد کی روایت صحیح نہیں ہے
شعيب الأرنؤوط کہتے ہیںإسناده ضعيف وفي متنه نكارة، راشد بن سعد – وهو المَقْرَئي الحُبْراني الحمصي – قد عنعن في روايته عن عائشة، وقد قال الحافظ في “التقريب”: كثير الإرسال، وذكر الحاكم فيما نقل مغلطاي وابن حجر أن الدارقطني ضعفه.—–سند کے رجال ثقہ بھی ہوں تو ان کا ارسال و تدلیس کا معاملہ رہتا ہے
فتح الباری ابن رجب میں ہےوخرج الإمام أحمد ثنا أبو المغيرة: ثنا صفوان: ثنا راشد بن سعد، عن عائشة، قالت: قال رسول الله – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – ((لا يقطع صلاة المسلم شيء، إلا الحمار والكافر والكلب والمرأة)) . قالت عائشة: يا رسول الله، لقد قرنا بدواب سوء.هذا منقطع؛ راشد لَمْ يسمع من عَائِشَة بغير شك.
یہ روایت منقطع ہے اس میں کوئی شک نہیں راشد کا سماع عائشہ سے نہیں ہے

[/EXPAND]

[امام احمد کو رحمہ الله لکھا گیا ؟]

ایک اقتباس میں کہا گیا ہے

میں نے ڈاکٹر مسعودالدین عثمانی کی تنظیم اور مبالغہ آمیز کتابچو سے یہ حاصل لیا ہے کہ وہ امام احمد بن حنبل کو کافر،مشرک اور سب سے بڑا طاغوت سمجھتاہے حالانکہ وہ اس فتوے پر احمدبن حنبل کے ہم عصرمیں سے اور انکے بعد آنے والے آج تک کے جید علماء میں سے کوئی تائید یا حمایت پیش نہیں کرسکتے-
یہ مبالغہ تو ایک طرف رکھ دے مگر اس سے زیادہ غلو کی انتہاء یہ ہے کہ مذکورہ تنظیم والے انکو بھی کافر اور مرتد سمجھتے ہیں جو احمد بن حنبل یا انکو مسلم سمجھنے والے کو مسلم سمجھتا ہو یا احمد بن حنبل کو مسلم سمجھنے والے کو “رحمہ اللہ” لکھتا ہو- العیاذ بااللہ
عرض ہے کہ مسلم صرف مسلم ہی کو دعا دیتا ہے جیسا کہ مذکورہ تنظیم میں بھی یہ بات اٹل ہے اور مذکورہ تنظیم انکو اپنی تنظیم سے نکال کر مرتد کا فتوی دیتے ہیں جو احمد بن حنبل کو مسلم سمجھنے والے کیلئے “رحمہ اللہ” جیسے دعائیہ کلمات اپنی تحریروں میں ارقام کرتے ہیں-
لھذا ہم ذیل میں چند ان شخصیات کے حوالے درج کرتے ہیں جنہوں نے ڈائرکٹ احمد بن حنبل کو ہی “رحمہ اللہ” جیسے دعائیہ الفاظ سے دعا دے کر انکے مسلم ہونے کی گواہی دی ہے۔جو مذکورہ تنظیم کیلئے انکی انتہائے جہالت پرسوالیہ نشان ہے اور جس سے انکا احمد بن حنبل اور انکے اس تار عنکبوت جیسے دعوے میں پھنسے کچھ نا سمجھ لوگوں کیلئے تحقیق کے دروازے پر دستک کے مترادف ہے-
1)امام بخاری نے احمد بن حنبل کو الضعفاء الصغیر میں رحمہ اللہ کہاہے 32/1،صحیح بخاری 85/1،رقم:377،
2)امام بخاری کے استاد علی ابن المدینی بھی احمد بن حنبل کو رحمہ اللہ کہہ کر دعادیتے تھے (مشیخة ابن البخاری ص110)
3)سنن ابی داود کا مؤلف امام ابوداود السجستانی بھی احمد بن حنبل کو “رحمہ اللہ علیہ” جیسے دعائیہ الفاظ سے یاد کرتے تھے
دیکھئیے: مسائل الامام احمد لابی داودالسجستانی 214،92/1،السنن الکبری للبیھقی رقم 18333
4)جامع الترمذی کا مولف امام محمد بن عیسی الترمذی(المتوفی:256ھ) بھی احمد بن حنبل کو رحمہ اللہ جیسے دعائیہ الفاظ سے یاد کرتے تھے دیکھئے:ترمذی ،کتاب الطھارہ-باب فی النھی عن استقبال القبلة یغائط او بول،رقم:8-بیروت
5)مشہور امام حافظ ثقہ ابوزرعة الرازی (المتوفی:264)جیسے لوگ جسکو رحمہ اللہ کہے اسے کون ٹال سکتا ہے (العلل لابن ابی حاتم ص 506)

جواب

میں… نے ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی کی تنظیم اور مبالغہ آمیز کتابچو سے یہ حاصل لیا ہے کہ وہ امام احمد بن حنبل کو کافر، مشرک اور سب سے بڑا طاغوت سمجھتاہے

یہ تین فتوی ہیں  – یہ تین ڈاکٹر عثمانی کی کس کتاب میں موجود ہیں ؟
میرے علم میں کہیں بھی اس طرح نہیں لکھا
یہ لکھا ہے کہ عقیدہ عود روح رکھنا کفر ہے کتاب عذاب البرزخ میں – اس سے بات نکلی تھی کہ یہ عقیدہ عود روح  احمد کی کتاب الصلوہ میں لکھا ہے

⇓  کیا کتاب الصلوۃ امام احمد کی نہیں ہے اور المدونه کیا امام مالک کی کتاب ہے ؟

محدثین و فقہاء سے متعلق

اس کو ڈاکٹر عثمانی نے بطور عکس پیش کیا کہ احمد کا یہ عقیدہ تھا

اس پر زبیر علی ہے اس کے چمچہ دامانوی نے لکھا کہ یہ کتاب ثابت نہیں ہے اور دوسری طرف شور کرتے رہے احمد کو کافر کہہ دیا گیا ہے

اس پر دلیل دی گئی کہ امام احمد کے دیگر عقائد بھی ہیں جو اہل حدیث کے نزدیک صحیح نہیں
مثلا انبیاء کا قبروں سے زائر کو پہچاننا امام بیہقی نے بیان کیا ہے
اس ویب سائٹ پر احمد کا عقیدہ موجود ہے کہ ان کے نزدیک رسول الله کو عرش عظیم پر بیٹھا دیا جائے گا
اور احمد تعویذ کرتے
وسیلہ انبیاء لیتے
تعویذ کلمات دھو دھو کر پیتے

یہ بدعات و بد عقیدہ باتیں احمد کے بیٹوں اور ابو داود نے بیان کی ہیں
لہذا گھر کے چراغوں کی خبر کو چھپا کر ادھر ادھر کی بات نہ کریں
اصل مدعا پر بات کی جائے کہ عقیدہ کی خرابی امام احمد سے آئی ہے جو فرقوں میں پھیلی ہے

=======

امام بخاری نے احمد بن حنبل کو الضعفاء الصغیر میں رحمہ اللہ کہاہے 32/1،صحیح بخاری 85/1،رقم:377،
تبصرہ
امام بخاری کی کتاب الضعفاء الصغیر ہے جس کے دو ایڈیشن ہیں ایک برصغیر کا نسخہ ہے جو حلب سے بہ چھپا ہے اور دوسرا عرب ملک سے
صرف بر صغیر کے نسخہ میں تحریف ہے کہ بے شمار ائمہ کے نام ہیں لیکن صرف امام احمد کو کتاب میں حفص بن سليمان الأسدي کے ترجمہ میں رحمہ الله لکھا گیا ہے

الضعفاء الصغير
المؤلف: محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري، أبو عبد الله (المتوفى: 256هـ)
المحقق: محمود إبراهيم زايد
الناشر: دار الوعي – حلب
الطبعة: الأولى، 1396 هـ

حَفْص بن سُلَيْمَان الْأَسدي أَبُو عمر عَن عَلْقَمَة بن مرقد تَرَكُوهُ وَقَالَ أَحْمد بن حَنْبَل رَحمَه الله تَعَالَى قَالَ يحيى

كتاب الضعفاء
المؤلف: محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري، أبو عبد الله (المتوفى: 256هـ)
المحقق: أبو عبد الله أحمد بن إبراهيم بن أبي العينين
الناشر: مكتبة ابن عباس
الطبعة: الأولى 1426هـ/2005مـ
عدد الأجزاء: 1

حفص بن سليمان الأسدي: أبو عمر، عن علقمة بن مرثد، تركوه، قال أحمد بن حنبل وعلي: قال يحيى
http://al-maktaba.org/book/8632/41#p2

اصل میں الفاظ تھے قال أحمد بن حنبل وعلي: لیکن کسی کاتب کی غلطی سے برصغیر کے نسخہ میں ہو گیا وَقَالَ أَحْمد بن حَنْبَل رَحمَه الله تَعَالَى اور امام علی المدینی کا نام غائب ہو گیا جس کو بعد میں دار الوعي والوں نے چھاپا
================

2)امام بخاری کے استاد علی ابن المدینی بھی احمد بن حنبل کو رحمہ اللہ کہہ کر دعادیتے تھے (مشیخة ابن البخاری ص110)
تبصرہ
اس قول کے متعدد راویوں کی توثیق ممکن نہیں ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو حَفْصٍ عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَعْمَرٍ الْمُؤَدِّبُ، قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَضِيَاءُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ الْخَرِيفِ إِجَازَةً مِنْ بَغْدَادَ، قَالَا: أَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْبَاقِي بْنِ مُحَمَّدٍ الْأَنْصَارِيُّ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَنَحْنُ نَسْمَعُ، أَنَا أَبُو الْغَنَائِمِ بْنُ الدَّجَاجِيِّ، أَنَا أَبُو نَصْرٍ أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ شَاهْ الْمَرْوَرُوذِيُّ قَدِمَ عَلَيْنَا لِلْحَجِّ فِي ربيع الأول سنة ثَمَان وَثَلَاثِينَ سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ سَعِيدِ ِبْنِ مَعْدَانَ يَقُولُ سَمِعْتُ شُعَيْبَ بْنَ الْحَسَنِ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا شُعَيْبٍ يَقُولُ سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيَّ يَقُولُ: قَالَ لِي سَيِّدِي أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ – رَحِمَهُ اللَّهُ ” لَا تُحَدِّثْ إِلَّا مِنْ كِتَابٍ
عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيَّ نے کہا مجھ سے میرے سردار احمد بن حنبل الله رحم کرے نے کہا صرف کتاب سے روایت کرو

سند میں نہ صرف ابو شعیب مجہول ہے بلکہ سند میں بیشتر افراد کی توثیق بھی نہیں ملی

=====================

3)سنن ابی داود کا مؤلف امام ابوداود السجستانی بھی احمد بن حنبل کو “رحمہ اللہ علیہ” جیسے دعائیہ الفاظ سے یاد کرتے تھے
دیکھئیے: مسائل الامام احمد لابی داودالسجستانی 214،92/1،السنن الکبری للبیھقی رقم 18333

تبصره:
الكتاب: مسائل الإمام أحمد رواية أبي داود السجستاني
المؤلف: أبو داود سليمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشير بن شداد بن عمرو الأزدي السِّجِسْتاني (المتوفى: 275هـ)
تحقيق: أبي معاذ طارق بن عوض الله بن محمد
الناشر: مكتبة ابن تيمية، مصر
الطبعة: الأولى، 1420 هـ – 1999 م

سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ رَحِمَهُ اللَّهُ، قِيلَ لَهُ» لَا يُصَلِّي الْإِمَامُ بَيْنَ التَّرَاوِيحِ، وَلَا النَّاسُ؟ قَالَ: لَا يُصَلِّي الْإِمَامُ وَلَا النَّاسُ
سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ رَحِمَهُ اللَّهُ، وَقِيلَ لَهُ» قَمِيصُ الْمَرْأَةِ؟ قَالَ: يُخَيَّطُ، قِيلَ: يُكَفُّ وَيُزَرَّرُ؟ قَالَ: نَعَمْ، وَلَا يُزَرَّرُ عَلَيْهَا «.

اس کتاب میں ابو داود نے امام احمد کے اقوال لا تعداد مرتبہ لکھے ہیں مگر صرف دو مقام پر احمد کے نام کے ساتھ ٍ رَحِمَهُ اللَّهُ کا لاحقہ لگا ہے

یہ کسی کاتب کا کمال ہے

یہی الفاظ اور لوگوں نے بھی نقل کیے ہیں کہ ابو داود نے مسائل احمد میں اس کا ذکر کیا لیکن وہ رحمہ الله کے الفاظ نقل نہیں کرتے

الكتاب: الجامع لعلوم الإمام أحمد – الفقه
الإمام: أبو عبد الله أحمد بن حنبل
المؤلف: خالد الرباط، سيد عزت عيد [بمشاركة الباحثين بدار الفلاح] الناشر: دار الفلاح للبحث العلمي وتحقيق التراث، الفيوم – جمهورية مصر العربية
الطبعة: الأولى، 1430 هـ – 2009 م

قال أبو داود: سمعت أحمد بن حنبل، قيل له: لا يصلي الإمام بين التراويح ولا الناس؟
قال: لا يصلي الإمام، ولا الناس.
“مسائل أبي داود” (446)

خالد الرباط اور سيد عزت عيد کے مطابق اصل الفاظ میں رحمہ الله کا اضافہ مشکوک تھا لہذا انہوں نے ان کو حذف کیا

اسی طرح یہ دونوں لکھتے ہیں
قال أبو داود: سمعت أحمد بن حنبل، وقيل له: قميص المرأة؟
قال: يخيط.
قيل: يكف ويزرر؟
قال: نعم، ولا يزرر عليها.
“مسائل أبي داود” (1003)

اس میں بھی رحمہ الله کے الفاظ حذف کر دیےہیں – معلوم ہوا رحمہ الله کا اضافہ محفوط نہیں تھا

کیا یہ لوگ ڈاکٹر عثمانی سے متاثر ہیں؟
==========

4)جامع الترمذی کا مولف امام محمد بن عیسی الترمذی(المتوفی:256ھ) بھی احمد بن حنبل کو رحمہ اللہ جیسے دعائیہ الفاظ سے یاد کرتے تھے دیکھئے:ترمذی ،کتاب الطھارہ-باب فی النھی عن استقبال القبلة یغائط او بول،رقم:8-بیروت

سنن ترمذی کے الفاظ ہیں
وهكذا قال إسحق بن إبراهيم وقال أحمد بن حنبل رحمه الله إنما الرخصة من النبي صلى الله عليه وسلم في استدبار القبلة بغائط أو بول وأما استقبال القبلة فلا يستقبلها كأنه لم ير في الصح راء ولا في الكنف أن يستقبل القبلة.
یہ الفاظ ایک نسخہ میں ہیں

لیکن محققین مثلا احمد شاکر اور بشار عواد وغیرہ نے رحمہ الله کے الفاظ اپنے اپنے نسخوں میں نقل نہیں کیے

الكتاب: سنن الترمذي
المؤلف: محمد بن عيسى بن سَوْرة بن موسى بن الضحاك، الترمذي، أبو عيسى (المتوفى: 279هـ)
تحقيق وتعليق:
أحمد محمد شاكر (جـ 1، 2)
ومحمد فؤاد عبد الباقي (جـ 3)
وإبراهيم عطوة عوض المدرس في الأزهر الشريف (جـ 4، 5)
الناشر: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي – مصر
الطبعة: الثانية، 1395 هـ – 1975 م
عدد الأجزاء: 5 أجزاء

وَهَكَذَا قَالَ إِسْحَاقُ، وقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: إِنَّمَا الرُّخْصَةُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي اسْتِدْبَارِ الْقِبْلَةِ بِغَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ، فَأَمَّا اسْتِقْبَالُ الْقِبْلَةِ فَلَا يَسْتَقْبِلُهَا، كَأَنَّهُ لَمْ يَرَ فِي الصَّحْرَاءِ وَلَا فِي الْكُنُفِ أَنْ يَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ

یہاں رحمہ الله کے الفاظ موجود نہیں ہیں

الكتاب: الجامع الكبير – سنن الترمذي
المؤلف: محمد بن عيسى بن سَوْرة بن موسى بن الضحاك، الترمذي، أبو عيسى (المتوفى: 279هـ)
المحقق: بشار عواد معروف
الناشر: دار الغرب الإسلامي – بيروت
سنة النشر: 1998 م
عدد الأجزاء: 6

وقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: إِنَّمَا الرُّخْصَةُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي اسْتِدْبَارِ الْقِبْلَةِ بِغَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ، فَأَمَّا اسْتِقْبَالُ الْقِبْلَةِ فَلاَ يَسْتَقْبِلُهَا، كَأَنَّهُ لَمْ يَرَ فِي الصَّحْرَاءِ وَلاَ فِي الْكُنُفِ أَنْ يَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ.

بشار عواد معروف اور احمد شاکر نے امام احمد کے نام کے ساتھ رحمہ الله کے الفاظ نقل نہیں کیے
کیا یہ دونوں ڈاکٹر عثمانی سے متاثر ہیں؟
========
5)مشہور امام حافظ ثقہ ابوزرعة الرازی (المتوفی:264)جیسے لوگ جسکو رحمہ اللہ کہے اسے کون ٹال سکتا ہے (العلل لابن ابی حاتم ص 506)

تبصرہ

الكتاب: العلل لابن أبي حاتم
المؤلف: أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ)
تحقيق: فريق من الباحثين بإشراف وعناية د/ سعد بن عبد الله الحميد و د/ خالد بن عبد الرحمن الجريسي
الناشر: مطابع الحميضي
الطبعة: الأولى، 1427 هـ – 2006 م
عدد الأجزاء: 7 (6 أجزاء ومجلد فهارس)

وسمعتُ (7) أَبَا زُرْعَةَ (8) يَقُولُ: سمعتُ أَحْمَدَ بْنَ حنبل ح (1) يَقُولُ: حديثُ أَبِي الأَحْوَص (2) ، عَنْ سِماك (3) ، عن القاسم ابن عبد الرحمن، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي بُرْدَة: خطأٌ؛ الإسنادُ والكلامُ:
فَأَمَّا الإسنادُ: فإنَّ شَرِيكً (4) وأيُّوبَ ومحمدً (5) ابني جابرٍ رَوَوْهُ (6) عَنْ سِمَاك، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عبد الرحمن، عَنِ ابْنِ بُرَيْدة (7) ، عَنْ أَبِيهِ، عن النبيِّ (ص) كما روى (8) الناسُ: فَانْتَبِذُوا فِي كُلِّ وِعَاءٍ، وَلا تَشْرَبُوا مُسْكِرًا (9) .
قَالَ أَبُو زُرْعَةَ: كَذَا أَقُولُ: هَذَا خطأٌ! أمَّا (10) الصَّحيحُ:

یہاں احمد کے نام کے ساتھ رحمہ الله ایک نسخہ میں تھا محقق نے وضاحت کی
في (ف) : «رضي الله عنه» بدل: «رحمه الله»
نسخہ ف میں «رضي الله عنه کی بجائے رحمہ الله لکھا ہے

کتاب العلل از ابی حاتم میں ساٹھ مرتبہ احمد بن حنبل لکھا ہوا ہے لیکن صرف ایک مقام پر کسی کاتب نے رحمہ الله کر دیا اور کسی دوسرے نے رضی الله عنہ کر دیا

اہل سنت کے آج بقول رضی الله عنہ صرف اصحاب رسول کے لئے ہے – جبکہ جب یہ کاتب لکھتے تھے تو ائمہ تک کو رضی الله عنہ لکھ دیتے تھے
عجیب بات یہ ہے کہ اصحاب رسول میں سے کسی پر بھی نہ رحم کی دعا ہوتی ہے نہ ان کو رضی الله عنہ لکھا گیا لیکن امام احمد کو رضی الله عنہ لکھا گیا

=====

باقی حوالے بے کار ہیں کیونکہ یہ متاخرین متاثرین ہیں احمد کے ہم عصر لوگ نہیں ہیں

امام احمد اور امام بخاری میں اختلاف تھا

⇓ صحیح بخاری اور امام احمد سے رو گردانی

⇓ مسئلہ لفظ احمد اور بخاری
https://www.islamic-belief.net/history/

امام ترمذی اور حنبلی ائمہ دشمن تھے
⇓ کیا نبی صلی الله علیہ وسلم کو روز محشر عرش عظیم پر بٹھایا جائے گا ؟

الأسماء و الصفات


[/EXPAND]

[دین میں اہل کتاب سے سوال کرنا ؟]

قرآن سورہ النحل آیت ٤٣ میں موجود ہے
فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ
اہل ذکر سے پوچھو اگر تم کو معلوم نہیں ہے

اس میں مشرکوں کو کہا جا رہا ہے کہ تمام انبیاء مرد تھے اگر معلوم کرنا ہے تو اہل کتاب سے پوچھ لو

دوسری طرف صحیح بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اہل کتاب سے سوال مت کرو

حدیث نمبر: 7522
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حاتم بن وردان نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ایوب نے بیا کیا ‘ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ تم اہل کتاب سے ان کی کتابوں کے مسائل کے بارے میں کیونکر سوال کرتے ہو ‘ تمہارے پاس خود اللہ کی کتاب موجود ہے جو زمانہ کے اعتبار سے بھی تم سے سب سے زیادہ قریب ہے ‘ تم اسے پڑھتے ہو ‘ وہ خالص ہے اس میں کوئی ملاوٹ نہیں۔

حدیث نمبر: 7523
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ‘ انہیں زہری نے ‘ انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ اے مسلمانو! تم اہل کتاب سے کسی مسئلہ میں کیوں پوچھتے ہو۔ تمہاری کتاب جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی ہے وہ اللہ کے یہاں سے بالکل تازہ آئی ہے ‘ خالص ‘ ہے اس میں کوئی ملاوٹ نہیں ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے خود تمہیں بتا دیا ہے کہ اہل کتاب نے اللہ کی کتابوں کو بد ل ڈالا۔ وہ ہاتھ سے ایک کتاب لکھتے اور دعویٰ کرتے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے تھوڑی پونچی حاصل کریں ‘ تم کو جو خدا نے قرآن و حدیث کا علم دیا ہے کیا وہ تم کو اس سے منع نہیں کرتاکہ تم دین کی باتیں اہل کتاب سے پوچھو۔ خدا کی قسم ہم تو ان کے کسی آدمی کو نہیں دیکھتے کہ جو کچھ تمہارے اوپر نازل ہوا ہے اس کے متعلق وہ تم سے پوچھتے ہوں۔

جواب

صحیح احادیث میں موجود ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دی ہے کہ اہل کتاب کی بات دین میں بیان کی جا سکتی ہے جو اسلام سے مطابقت رکھتی ہو حدیث میں ہے

رواه أحمد وأبو داود عن أبي هريرة بلفظ: “حدثوا عن بني إسرائيل ولا حرج”.
ورواه البخاري من حديث عبد الله بن عمرو بلفظ: “بلغوا عني ولو آية، وحدثوا عن بني إسرائيل ولا حرج، ومن كذب علي متعمداً، فليتبوأ مقعده من النار”.

ابن عبّاس کا قول ان اسرائیلیات کے رد میں ہے جو متشابھات ہیں مثلا اللہ تعالی سے متعلق اہل کتاب کی روایات جن کی اسلام میں تائید نہیں ہے

كتاب السنة از أبو بكر بن أبي عاصم وهو أحمد بن عمرو بن الضحاك بن مخلد الشيباني (المتوفى: 287هـ) کے مطابق ایک روایت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی رد کی اور البانی سمجھتے ہیں زیر بحث روایت ہو گی

ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ثنا ابْنُ ثَوْرٍ عَنْ مَعْمَرٍ عن ابن طاووس عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: حَدَّثَ رَجُلٌ بِحَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ فَانْتَفَضَ: قال ابن عباس ما بال هؤلاء يجدّون (يحيدون) عند محكمه ويهلكون عند متشابهه.

البانی کے مطابق اغلبا الفاظ يحيدون ہیں اور يجدّون غیر محفوظ ہیں

ابن عباس رضی الله عنہ نے فرمایا يحيدون جھٹک دو (رد کرو) جب کوئی شخص ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث روایت کرے – ابن عباس نے کہا ان جیسوں کو کیا ہوا ہے کہ محکمات سے ہٹ گئے اور متشابھات سے ہلاک ہوئے

البانی کتاب ظِلال الجنة في تخريج السنة میں کہتے ہیں

يعني استنكارا لما سمع من حديث أبي هريرة, ولم أقف على من نبه على المراد بهذا الحديث, ويغلب على الظن أنه حديث “إن اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ” وهو حديث صحيح, مخرج في “سلسلة الأحاديث الصحيحة” 860.

یعنی انکار کیا جب ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث سنی اور میں نہیں جان سکا کہ کون سی حدیث مراد تھی جس کی خبر دی اور جو گمان غالب ہے وہ یہ کہ یہ حدیث ہے کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا اور یہ حدیث صحیح ہے اس کی تخریج الصحیحہ ٨٦٠ میں کی ہے

[/EXPAND]

[اہل حدیث  کے مطابق قرآن میں شبھات ہیں ]

سنن الدارمی میں ہے

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ ابْنُ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْأَشَجِّ: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: ” إِنَّهُ [ص:241] سَيَأْتِي نَاسٌ يُجَادِلُونَكُمْ بِشُبُهَاتِ الْقُرْآنِ، فَخُذُوهُمْ بِالسُّنَنِ، فَإِنَّ أَصْحَابَ السُّنَنِ أَعْلَمُ بِكِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ
تعليق المحقق حسين سليم أسد الداراني : إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح وباقي رجاله ثقات

امير المومنين عمر رضي اللہ عنہ فرماتے ہيں عنقريب کچھ لوگ پيدا ہوں گے جو قرآن کے شبھات  پر تم سے جھگڑا کريں گے انہيں سنن (سنتوں) سے پکڑو کيوں کہ سنت سے واقف حضرات کتاب اللہ (کے صحيح مفہوم) کو خوب جانتے ہيں

جواب
راقم کہتا ہے اس کی سند منقطع ہے عمر بن الاشج راوي جو عمر رضي اللہ عنہ سے روايت کرنے والے ہيں ان کا سماع عمر سے ثابت نہیں ہے

الإبانة الكبرى لابن بطة میں اس کو بكير بن عبد الله بن الأشج  سے بھی روایت کیا گیا ہے یہ بھی منقطع ہے  – اس اثر کی تائيد میں ایک دوسرا اثر پیش کیا جاتا ہے جو علي رضي اللہ عنہ سے روايت کیا گیا ہے جس کو لالکائي نے شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة ميں روايت کيا ہے
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَلِيٍّ الْمُقْرِئُ , قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ , قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ الْمَرْوَزِيُّ , قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْمَرْوَزِيُّ , قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ , قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ: «سَيَأْتِي قَوْمٌ يُجَادِلُونَكُمْ فَخُذُوهُمْ بِالسُّنَنِ؛ فَإِنَّ أَصْحَابَ السُّنَنِ أَعْلَمُ بِكِتَابِ اللَّهِ»
یہاں امام موسى الكاظم بن جعفر الصادق اپنے پڑ پڑ دادا علی رضی اللہ عنہ  کی بات نقل کر رہے ہیں سند منقطع ہے

اس روایت کو انکارِ حديث کے فتنہ کے حوالے سے پیش کرنے والے احمق ہیں – جب یہ اثر منقطع ہے تو اس کے عیب کو چھپا کر ہر قسم کا منطقع السند متن حلق سے اتروانا محدثین کا شیوا نہیں ہے

قرآن میں اللہ تعالی نے مشابھات کا ذکر کیا ہے جس کا انکار کوئی فرقہ نہیں کرتا البتہ اس میں کیا محکمات میں شبھات رہ گئے ہیں ؟ ایسا قول باطل ہے قرآن میں موجود ہے

مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ
ہم نے اس کتاب میں کچھ نہیں چھوڑا ہے

جو حديث کا   علم رکھتے ہيں ان کو چاہيے کہ وہ اس قسم کی منقطع روایات کو پیش نہ کریں ورنہ وہ اپنا مقدمہ خود کمزور کریں گے

[/EXPAND]

[نبی صلی اللہ علیہ وسلم جذبات میں آ کر تنقید کرتے تھے ؟ ]
سنن ابو داود ٤٦٥٩ میں ہے

حدَّثنا أحمدُ بنُ يونس، حدَّثنا زائدةُ بن قُدامة الثَّقفيُّ، حدَّثنا عمر ابن قيس الماصِرُ، عن عمرو بن أبي قُرَّة، قال:
كان حذيفةُ بالمَدَائن، فكانَ يَذْكُرُ أشياءَ قالها رسولُ الله-صلى الله عليه وسلم- لأناسِ من أصحابه في الغضب، فينطلق ناسٌ مِمن سَمعَ ذلك مِنْ حذيفة فيأتون سلمان، فيذكرون له قولَ حذيفة، فيقول سلمانُ: حذيفةُ أعلم بما يقول، فيرجِعُون إلى حذيفة، فيقولون له: قد ذكرنا قولَك لسلمانَ فما صدَّقَكَ ولا كَذَّبكَ، فأتى حذيفةُ سلمانَ، وهو في مَبْقَلةِ فقال: يا سلمان، ما يمنعكَ أن تُصَدِّقني بما سمعتُ من رسول الله-صلى الله عليه وسلم-؟ فقال سلمان: إن رسولَ الله -صلى الله عليه وسلم – كان يَغْضَبُ، فيقول في الغضب لناس من أصحابه، ويَرضَى، فيقول في الرِّضا لناسٍ من أصحابه، أما تنتهي حتى تورِّثَ رجالاً حبَّ رجالٍ ورجالاً بُغْضَ رجال، وحتى تَوقِعَ اختلافاً وفُرقةً؟ ولقد علمتَ أن رسولَ الله -صلى الله عليه وسلم – خطب، فقال: “أيُّما رجُلِ من أمتى سببتُه سَبّةً أو لعنته لَعنةً في غضبي، فإنما أنا مِنْ ولدِ آدمَ أغضبُ كما يغضَبون، وإنما بعثني رحمةً للعالمين، فاجْعَلْها عليهم صلاةً يومَ القيامة” والله لتنتهينَ أو لأكتبنَّ إلى عُمَرَ

عمرو بن ابی قرہ کہتے ہیں کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ مدائن میں تھے اور وہ ان باتوں کا ذکر کیا کرتے تھے ، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب میں سے بعض لوگوں سے غصہ کی حالت میں فرمائی تھیں ، پھر ان میں سے کچھ لوگ جو حذیفہ سے باتیں سنتے چل کر سلمان رضی اللہ عنہ کے پاس آتے اور ان سے حذیفہ رضی اللہ عنہ کی باتوں کا تذکرہ کرتے تو سلمان رضی اللہ عنہ کہتے : حذیفہ ہی اپنی کہی باتوں کو بہتر جانتے ہیں ، تو وہ لوگ حذیفہ کے پاس لوٹ کر آتے اور ان سے کہتے : ہم نے آپ کی باتوں کا تذکرہ سلمان سے کیا تو انہوں نے نہ آپ کی تصدیق کی اور نہ تکذیب ، یہ سن کر حذیفہ سلمان کے پاس آئے ، وہ اپنی ترکاری کے کھیت میں تھے کہنے لگے : اے سلمان ! ان باتوں میں میری تصدیق کرنے سے آپ کو کون سی چیز روک رہی ہے جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہیں ؟ تو سلمان نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلاشبہ کبھی غصے میں اپنے بعض اصحاب سے کچھ باتیں کہہ دیتے اور کبھی خوش ہوتے تو خوشی میں اپنے بعض اصحاب سے کچھ باتیں کہہ دیتے ، تو کیا آپ اس وقت تک باز نہ آئیں گے جب تک کہ بعض لوگوں کے دلوں میں بعض لوگوں کی محبت اور بعض دوسروں کے دلوں میں بعض کی دشمنی نہ ڈال دیں اور ان کو اختلاف میں مبتلا نہ کر دیں ، حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا : ” میں نے اپنی امت کے کسی فرد کو غصے کی حالت میں اگر برا بھلا کہا یا اسے لعن طعن کی تو میں بھی تو آدم کی اولاد میں سے ہوں ، مجھے بھی غصہ آتا ہے جیسے انہیں آتا ہے ، لیکن اللہ نے مجھے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے تو ( اے اللہ ) میرے برا بھلا کہنے اور لعن طعن کو ان لوگوں کے لیے قیامت کے روز رحمت بنا دے “ اللہ کی قسم یا تو آپ اپنی اس حرکت سے باز آ جائیں ورنہ میں عمر بن الخطاب ( امیر المؤمنین ) کو لکھ بھیجوں گا ۔

اس سند کو صحیح کہا گیا ہے البتہ راقم کے نزدیک یہ روایت اشکال سے خالی نہیں ہے – اس کی سند میں راوی عمر بن قيس الماصر مختلف فیہ ہے اس پر جرح بھی ہے اور اس متن میں اس کا تفرد ہے –

تاريخ أسماء الضعفاء والكذابين از ابن شاهين میں ہے
قال عثمان بن أبي شيبة: عمر بن قيس الماصر: ضعيف في الحديث مرجئ

اجری نے ابو داود کا قول ذکر کیا
قال الأوزاعي: أول من تكلم في الإرجاء رجلٌ من أهل الكوفة يقال له: قيس الماصر.

ذكر من اختلف العلماء ونقاد الحديث فيه از ابن شاهين (المتوفى: 385هـ) کے مطابق
روى ابْن شاهين عَن يحيى بن معِين من رِوَايَة الْعَبَّاس بن مُحَمَّد عَنهُ أَنه قَالَ عمر بن قيس الْمَكِّيّ لقبه سندل وَهُوَ ضَعِيف
وَكَذَا قَالَ الْمفضل عَن يحيى
ابن حبان نے عمر بْن قيس الماصر اور عمر بن قيس سندل کو دو الگ الگ راوی گردانا ہے

تہذیب میں ابن حجر کا قول ہے
قال ابن حزم: عمر بن قيس مجهول

اس کی سند میں مجہول راوی بھی ہے لیکن یہاں سنن ابو داود میں راوی نے تدلیس کی ہے – امام علی المدینی نے اپنی کتاب العلل میں ذکر کیا ہے
قَالَ عَلِيٌّ حَدِيثُ سَلْمَانَ أَيُّمَا رَجُلٍ سَبَبْتُهُ أولعنته رَوَاهُ زَائِدَةُ عَنْ عُمَرَ بْنِ قَيْسٍ الْمَاصِرِ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي قُرَّةَ عَنْ رَجُلٍ عَنْ سلمَان فأفسده
امام علی کے بقول یہاں سند میں زَائِدَةُ نے عن رجل کہا تھا
راقم کہتا ہے کہ اغلبا ابو داود نے اس سند میں خود ہی تصحیح کر دی ہے اور اس میں عن رجل حذف کر دیا

ارجاء کا قول تھا کہ اصحاب رسول کے گناہ کبیرہ پر وہ کافر نہیں ہیں – اس روایت میں ذکر ہے کہ سلمان کو اعتراض ہوا کہ اگر نبی نے بعض اصحاب پر تنقید کی تو اس کو حذیفہ نے چھپا کیوں نہیں دیا – اس طرح اس سے ثابت ہوا کہ کتم علم جائز ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جذبات کے تحت تنقید کرتے تھے اس کو سنجیدگی سے نہ لیا جائے

راقم کہتا ہے یہ روایت منکر ہے اور سند میں راوی کا تفرد ہے جس پر جرح بھی ہے

[/EXPAND]