ان احادیث کی تحقیق چاہیے
صحيح مسلم: كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ (بَابُ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَعْبُدَ دَوْسٌ ذَا الْخَلَصَةِ) صحیح مسلم: کتاب: فتنے اور علامات ِقیامت (باب: قیامت نہیں آئے گی یہاں تک کہ (قبیلہ) دوس”ذوالخلصہ”کی عبادت کرے گا)
7299 . حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ وَأَبُو مَعْنٍ زَيْدُ بْنُ يَزِيدَ الرَّقَاشِيُّ وَاللَّفْظُ لِأَبِي مَعْنٍ قَالَا حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ الْعَلَاءِ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا يَذْهَبُ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ حَتَّى تُعْبَدَ اللَّاتُ وَالْعُزَّى فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ كُنْتُ لَأَظُنُّ حِينَ أَنْزَلَ اللَّهُ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ أَنَّ ذَلِكَ تَامًّا قَالَ إِنَّهُ سَيَكُونُ مِنْ ذَلِكَ مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ رِيحًا طَيِّبَةً فَتَوَفَّى كُلَّ مَنْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةِ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ فَيَبْقَى مَنْ لَا خَيْرَ فِيهِ فَيَرْجِعُونَ إِلَى دِينِ آبَائِهِمْ
حکم : صحیح 7299
. خالد بن حارث نے ہمیں حدیث بیان کی،کہا:ہمیں عبدالحمید بن جعفر نے اسود بن علاء سے حدیث بیان کی،انھوں نے ابو سلمہ سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی،انھوں نے کہا: کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رات اور دن اس وقت تک ختم نہ ہوں گے جب تک لات اور عزیٰ (جاہلیت کے بت) پھر نہ پوجے جائیں گے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں تو سمجھتی تھی کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ”اللہ وہ ہے جس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تاکہ اس کو سب دینوں پر غالب کرے اگرچہ مشرک لوگ برا مانیں“کہ یہ وعدہ پورا ہونے والا ہے (اور اسلام کے سوا اور کوئی دین غالب نہ رہے گا)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہو گا، ایسا ہی ہو گا۔ پھر اللہ تعالیٰ ایک پاکیزہ ہوا بھیجے گا کہ جس سے ہر مومن مر جائے گا، یہاں تک کہ ہر وہ شخص بھی جس کے دل میں دانے کے برابر بھی ایمان ہے اور وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جن میں بھلائی نہیں ہو گی۔ پھر وہ لوگ اپنے (مشرک) باپ دادا کے دین پر لوٹ جائیں گے۔
============
صحيح مسلم: كِتَابُ الْإِيمَانِ (بَابُ ذَهَابِ الْإِيمَانِ آخَرِ الزَّمَانِ) صحیح مسلم: کتاب: ایمان کا بیان (باب: آخری زمانے میں ایمان کا رخصت ہو جانا)
375 . حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى لَا يُقَالَ فِي الْأَرْضِ: اللهُ، اللهُ ”
حکم : صحیح 375 . حماد نے کہا: ہمیں ثابت نے حضرت انس سے حدیث سنائی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ قیامت قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ ( وہ وقت آ جائے گا جب) زمین میں اللہ اللہ نہیں کہا جارہا ہو گا۔
جواب
پہلی روایت جس میں لات و عزی کی پوجا کا ذکر ہے اس کی سند میں الْأَسْوَدِ بْنِ الْعَلَاءِ کا تفرد ہے
اس کو ابن حبان اور عجلی نے ثقہ کہا ہے اور أبو العرب نے اس کا شمار ضعیف میں کیا ہے اور أَبُو زُرْعَة نے اس کو شيخ ليس بالمشهور غیر مشھور کہا ہے
الغرض روایت بہت مضبوط نہیں ہے حسن کہہ سکتے ہیں
——-
دوسری روایت کہ الله الله نہیں کہا جا رہا ہو گا اس کو بصریوں نے انس رضی الله عنہ سے روایت کیا ہے
ترمذی میں ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى لَا يُقَالَ فِي الأَرْضِ: اللَّهُ اللَّهُ “: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ المُثَنَّى قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الحَارِثِ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، نَحْوَهُ وَلَمْ يَرْفَعْهُ وَهَذَا أَصَحُّ مِنَ الحَدِيثِ الأَوَّلِ
ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ نے حمید سے انہوں نے انس سے انہوں نے رسول الله سے روایت کیا … ترمذی نے کہا حدیث حسن ہے پھر خالد نے بھی اس کو حمید سے روایت کیا اور انس سے نقل کیا رفع نہ کیا اور یہ حدیث اصح ہے پہلی سے
یعنی امام ترمذی کے نزدیک یہ انس کا قول ہے نبی صلی الله علیہ وسلم کی حدیث نہیں ہے
علل ترمذی میں اس روایت پر امام بخاری کا قول ہے کہ یہ مضطرب روایت ہے اور یہ مرفوع حدیث نہیں ہے
تاریخ طبری میں اسے نصرانی کہا گیا جبکہ طبقات ابنِ سعد، الفاروق اور تاریخ ابنِ خلدون میں اسے مجوسی لکھا گیا ہے
جبکہ صاحبِ عیون الاخبار اپنی کتاب کی جلد ج۲ص۱۴۳ به نقل از کتاب فصل الخطاب فی تاریخ قتل عمر بن خطاب ص ۱۷۸ میں کچھ اس طرح نقل کرتے ہیں۔ “انه قد تشرف بالاسلام بعد سکناه المدینه“ یعنی وہ مدینہ میں سکونت کے بعد مشرف بہ اسلام ہو گئے تھے
شیعہ علماء نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ ابو لولوہ مسلمان تھا اور امیر المومنین علی بن ابی طالب کے شیعوں میں سے تھا۔ دیکھیے (سفینۃ البحار، میرزا عبداللہ قمی، ج7،ص559) جبکہ ذہبی نے المختصر فی الرجال میں کہا ہے کہ ابو لولوہ عبداللہ بن ذکوان کا بھائی تھا، عبداللہ ثقہ اور حدیث میں قابل اعتبار اور اہل مدینہ کے بزرگ محدثین اور فقہاء میں سے تھے۔اور پھر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے فرزند عبیداللہ نے اپنے والد کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے ابو لولوہ کی بیٹی کو قتل کردیا ، امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ اور مقداد اور دیگر صحابہ نے ابو لولوہ کے قتل کا قصاص لینے کے لیے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مطالبہ کیا لیکن انہوں نے قصاص لینے سے انکار کردیا (دیکھیے، تاریخ الطبری، ج3،ص302) اگر ابو لولوہ اور اسکی بیٹی مسلمان نہ تھے تو صحابہ کرام اور امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ اس کے قتل کے قصاص کا مطالبہ کیوں کررہے ہیں۔
اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا قول مرسلا نقل کرتے ہیں (روی عن ابن عباس: کان ابو لولوہ مجوسیا) ابن عباس سے روایت ہے کہ ابو لولوہ مجوسی اور آتش پرست تھا۔ شیعہ اس دلیل پر اعتراض کرتے ہیں کہ اگر ابو لولوہ کافر تھا تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس کو مدینہ میں داخل کیوں ہونے دیا۔مسلمان یا کافر کا فیصلہ نہ بھی ہو لیکن یہ بات عقید ہے کہ وہ ایک منافق اور قاتل تھا۔
جواب
مجوسی کو مشرک کے زمرے میں نہیں لیا گیا ان کو اہل کتاب کے زمرے میں لیا گیا ہے
مشرک پر مکہ میں داخلہ نہیں ہے لیکن مدینہ کا اس سے کیا تعلق ہے
مشرک کو عرب سے نکال دینا والی حدیث میرے نزدیک ضعیف ہے کتاب وفات النبی میں اس پر بحث ہے
———-
متاخرین نے اس میں اختلاف کیا ہے
ابن قیم نے کتاب أحكام أهل الذمة میں لکھا ہے
لَا فَرْقَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ عَبَدَةِ الْأَوْثَانِ، وَلَا يَصِحُّ أَنَّهُمْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ
مجوس میں اور بت پرستوں میں فرق نہیں ہے اور نہ یہ صحیح ہے کہ یہ اہل کتاب میں سے ہیں
بغوی کہتے ہیں
وَاخْتَلَفُوا فِي أَنَّ الْمَجُوسَ: هَلْ هُمْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أَمْ لَا؟ فَرُوِيَ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ لَهُمْ كِتَابٌ يَدْرُسُونَهُ فَأَصْبَحُوا، وَقَدْ أُسْرِيَ عَلَى كِتَابِهِمْ، فَرُفِعَ مِنْ بَيْنِ أَظْهُرِهُمْ. وَاتَّفَقُوا عَلَى تَحْرِيمِ ذَبَائِحِ الْمَجُوسِ وَمُنَاكَحَتِهِمْ بِخِلَافِ أَهَّلِ الْكِتَابَيْنِ
مجوس پر اختلاف ہے کہ کیا اہل کتاب ہیں یا نہیں – علی سے روایت ہے کہ ان کی کتاب تھی … اس پر اتفاق ہے کہ ان کا ذبیحہ حرام ہے
التلخيص الحبير از ابن حجر میں ہے کہ یہ سند حسن ہے کہ
وَرَوَاهُ ابْنُ أَبِي عَاصِمٍ فِي كِتَابِ النِّكَاحِ بِسَنَدٍ حَسَنٍ قَالَ: نَا إبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَجَّاجِ، نَا أَبُو رَجَاءٍ جَارٌ لِحَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، نَا الْأَعْمَشُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ قَالَ: كُنْت عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَذَكَرَ مَنْ عِنْدَهُ الْمَجُوسَ، فَوَثَبَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ فَقَالَ: أَشْهَدُ بِاَللَّهِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – لَسَمِعَهُ يَقُولُ: «إنَّمَا الْمَجُوسُ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ، فَاحْمِلُوهُمْ عَلَى مَا تَحْمِلُونَ عَلَيْهِ أَهْلَ الْكِتَابِ» .
ابن ابی عاصم نے حسن روایت دی کہ عمر نے کہا مجوس اہل کتاب ہیں
الخبر في كنز العمال: عن علي قال: كان المجوس أهل كتاب وكانوا متمسكين بكتابهم
أخرجه الثعلبي في تفسيره (الكشف والبيان:ج10ص171) عن عبدالله بن يوسف قال: حدّثنا عمر بن محمد بن بحير قال: حدّثنا عبدالحميد بن حميد الكشي، عن الحسن بن موسى قال: حدّثنا يعقوب بن عبدالله القمي قال: حدّثنا جعفر بن أبي المغيرة عن ابن (ابري) قال: لما هزم المسلمون أهل أسفندهان انصرفوا فجاءهم يعني عمر فاجتمعوا، فقالوا: أي شيء تجري على المجوس من الأحكام فأنهم ليسوا بأهل كتاب وليسوا من مشركي العرب، فقال: علي بن أبي طالب: بل هم أهل الكتاب وكانوا متمسكين بكتابهم
عبد الرحمن بن أبزى مختلف في صحبته، وممن جزم بأن له صحبة خليفة بن خياط والترمذي ويعقوب بن سفيان وأبو عروبة والدارقطني والبرقي وبقي بن مخلد وغيرهم وفي صحيح البخاري من حديث ابن أبي المجالد انه سأل عبدالرحمن ابن أبزي وابن أبي أوفى عن السلف فقالا كنا نصيب المغانم مع النبي ، الحديث. ثقة روى له الستة (تهذيب التهذيب:ج6ص121تر277) وجعفر بن أبي المغيرة القمي ثقة (تهذيب التهذيب:ج2ص92تر165) ويعقوب بن عبد اه52 القمي قال عنه النسائي ليس به بأس ووثقه الطبراني وابن حبان وقال عنه الدارقطني ليس بالقوي (تهذيب التهذيب:ج11ص342تر653) والحسن بن موسى الأشيب ثقة روى له الستة (تهذيب التهذيب:ج2ص279تر560)
یہ روایت حسن ہے
بہر الحال اہل سنت جب کہتے ہیں کہ ابو لولو مجوسی تھا تو اس سے مراد اس کا چھپا ہونا ہے اگرچہ وہ نماز پڑھتا ہو یا مسلمان بنتا ہو
جواب
کہا جاتا ہے یہ روایت عراق کے بارے میں ہے
جواب
صحیح ابن حبان میں اس روایت پر ابن حبان نے لکھا ہے
مدینہ کا مشرقی حصہ بحرین ہے، اور مسیلمہ کذاب یہیں کا رہنے والا تھا، اور مسیلمہ کذاب کا ظہور اسلام میں سب سے پہلا فتنہ تھا” انتہی
یعنی ان کے دور تک اس کو مدینہ کا مشرق ہی سمجھا جاتا تھا
سمت اور جہت کی اہمیت ہے – عراق مشرق میں ہے یا مدینہ کے شمال میں ہے ؟ ظاہر ہے شمال میں سیدھا اوپر ہے –
—-
ابن عمر سے مروی روایت : المعجم الأوسط میں ہے
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: نا حَمَّادُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ابْنِ عُلَيَّةَ قَالَ: نا أَبِي قَالَ: نا زِيَادُ بْنُ بَيَانٍ قَالَ: نا سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْفَجْرِ، ثُمَّ انْفَتَلَ، فَأَقْبَلَ عَلَى [ص:246] الْقَوْمِ، فَقَالَ: «اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي مُدِّنَا وَصَاعِنَا، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَامِنَا ويَمَنِنَا» فَقَالَ رَجُلٌ: وَالْعِرَاقُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَسَكَتَ، ثُمَّ قَالَ: «اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي مُدِّنَا وَصَاعِنَا، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي حَرَمِنَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي شَامِنَا ويَمَنِنَا» فَقَالَ رَجُلٌ: وَالْعِرَاقُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: «مِنْ ثَمَّ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ، وَتَهِيجُ الْفِتَنُ
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز ادا فرمانے کے بعد متقدیوں کی طرف منہ کر کے دُعا فرمائی اے اللہ ہمارے واسطے مدینہ میں برکت دے اور ہمارے واسطے مد اور صاع میں برکت دے اے اللہ حرم میں ہمارے لئے برکت دے شام اور یمن میں برکت دے ایک شخص نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عراق (کیلئے بھی برکت کی دُعا کیجئے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے پھر فرمایا اے اللہ ہمارے واسطے مدینہ میں برکت دے اور ہمارے واسطے مد اور صاع میں برکت دے اے اللہ حرم میں ہمارے لئے برکت دے شام اور یمن میں برکت دے (اس پر) ایک آدمی نے گزارش کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عراق (کیلئے بھی برکت کی دُعا کیجئے) تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے پھر دُعا فرمائی اے اللہ ہمارے واسطے مدینہ میں برکت دے اور ہمارے واسطے مد اور صاع میں برکت دے اے اللہ حرم میں ہمارے لئے برکت دے شام اور یمن میں برکت دے (اس پر پھر) ایک آدمی نے گزارش کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عراق (کیلئے بھی برکت کی دُعا کیجئے) تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (میں وہاں کیلئے کیسے دُعا کروں) جبکہ وہاں شیطان کا سینگ ظاہر ہوگا اور فتنے فساد جوش ماریں گے۔
اس کی سند میں زياد بن بيان ہے
الذھبی کہتے ہیں ، لم يصح حديثه. اس کی حدیث صحیح نہیں
وقال البخاري: في إسناد حديثه نظر. بخاری کہتے ہیں فیہ نظر
یہ جرح ہے
——–
مسند البزار میں ہے
وحَدَّثناه بِشْر بْنُ آدَمَ: حَدَّثَنِي جَدِّي أَزْهَرُ بْنُ سَعْد، حَدَّثنا ابْنِ عَوْنٍ، عَن نافعٍ، عَن ابْنِ عُمَر؛ أَن رَسولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم قَالَ: اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَامِنَا قَالُوا: يَا رَسولَ اللهِ وَفِي يَمَنِنَا قَالَ: اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَامِنَا قَالُوا: يَا رَسولَ اللهِ وَفِي عِرَاقِنَا قَالَ: هُنَالِكَ الزَّلازِلُ وَالْفِتَنُ وَبِهَا، أَوْ قَالَ: مِنْهَا يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ
اس کی سند میں بشر بن آدم [د، ت، ق] .
عن جده لأمه أزهر السمان
ہے جو قوی نہیں ہے
——-
دور نبوی میں نجد سے مراد کیا ہے – حدیث ہی میں ہے
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے (یمن سے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ سونا بھیجا تو آپ نے اسے چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا، اقرع بن حابس حنظلی ثم المجاشعی، عیینہ بن بدر فزاری، زید طائی بنی نبہان والے اور علقمہ بن علاثہ عامری بنو کلاب والے، اس پر قریش اور انصار کے لوگوں کو غصہ آیا اور کہنے لگے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کے بڑوں کو تو دیا لیکن ہمیں نظرانداز کر دیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں صرف ان کے دل ملانے کے لیے انہیں دیتا ہوں (کیونکہ ابھی حال ہی میں یہ لوگ مسلمان ہوئے ہیں) پھر ایک شخص سامنے آیا، اس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، کلے پھولے ہوئے تھے، پیشانی بھی اٹھی ہوئی، ڈاڑھی بہت گھنی تھی اور سر منڈا ہوا تھا۔ اس نے کہا اے محمد! اللہ سے ڈرو ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر میں ہی اللہ کی نافرمانی کروں گا تو پھر اس کی فرمانبرداری کون کرے گا؟ اللہ تعالیٰ نے مجھے روئے زمین پر دیانت دار بنا کر بھیجا ہے۔ کیا تم مجھے امین نہیں سمجھتے؟ اس شخص کی اس گستاخی پر ایک صحابی نے اس کے قتل کی اجازت چاہی، میرا خیال ہے کہ یہ حضرت خالد بن ولید تھے، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے روک دیا، پھر وہ شخص وہاں سے چلنے لگا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص کی نسل سے یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ) اس شخص کے بعد اسی کی قوم سے ایسے لوگ جھوٹے مسلمان پیدا ہوں گے، جو قرآن کی تلاوت تو کریں گے، لیکن قرآن مجید ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، دین سے وہ اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتاہے، یہ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے، اگر میری زندگی اس وقت تک باقی رہے تو میں ان کو اس طرح قتل کروں گا جیسے قوم عاد کا (عذاب الٰہی سے) قتل ہوا تھا کہ ایک بھی باقی نہ بچا۔
اس حدیث میں ہے
“انصار کے لوگوں کو غصہ آیا اور کہنے لگے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کے بڑوں کو تو دیا”
صحیح بخاری میں نجد کا ذکر ہے
سَمِعْتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم يقول : مُهَلُّ أهلِ المدينةِ ذُو الحُلَيْفَةَ، ومُهَلُّ أهلِ الشأْمِ مَهْيَعَةُ، وهي الجُحْفَةُ، وأَهْلِ نَجْدٍ قَرْنٌ . قال ابنُ عمرَ رَضِيَ اللهُ عنهما : زعَموا أن النبيَّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم قال – ولم أَسْمَعْهُ – : ومُهَلُّ أهلِ اليمنِ يَلَمْلَمُ .
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا تھا کہ مدینہ والو ں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ ذولحلیفہ اور شام والوں کے لئے مہیعہ یعنی حجفہ اور نجد والوں کے لئے قرن منازل۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ لوگ کہتے تھے کہ نبی کریم نے فرمایا کہ یمن والے احرام یلملم سے باندھیں لیکن میں نے اسے آپ سے نہیں سنا۔
نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے علاقے کے نجد سے متعلق ہی یہ کہا ہے کیونکہ اگر ایک نام کے بہت سے مقام ہوں تو اشتباہ ہو جائے گا کہ کہاں کا
مثلا کوئی دبئی میں کہے حیدر آباد میں بہت بارش ہوئی
پاکستانی بولے تو سب سوچیں گے یہ پاکستان کے حیدر آباد کا کہہ رہا ہے لیکن ہو سکتا ہے یہ اخبار میں انڈیا کی خبر ہو
عموم یہ ہے کہ جو جس علاقے کا ہو وہ اگر وضاحت نہ کرے کہ کون سا مقام مراد ہے تو اس قائل کے علاقے کا ہی مقام لیا جاتا ہے
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَاحِدِ، حَدَّثَنَا الشَّيْبَانِيُّ، حَدَّثَنَا يُسَيْرُ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: قُلْتُ لِسَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، هَلْ سَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: فِي الخَوَارِجِ شَيْئًا؟ قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ، وَأَهْوَى بِيَدِهِ قِبَلَ العِرَاقِ: «يَخْرُجُ مِنْهُ قَوْمٌ يَقْرَءُونَ القُرْآنَ، لاَ يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الإِسْلاَمِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ»
يُسَيْرُ بْنُ عَمْرٍو نے کہا میں نے سہل بن حنیف سے کہا کیا اپ نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ انہوں نے خوارج کے بارے میں کچھ کہا ہو ؟ سہل نے کہا میں نے سنا اپ نے فرمایا اور ہاتھ سے عراق کی طرف اشارہ کیا کہ یہاں سے قوم نکلے گی جو قرآن پڑھیں گے لیکن یہ ان کی گردن سے نیچے نہ جائے گا اسلام سے ایسا نکلیں گے جیسے کمان سے چھوڑنا جانے والا تیر
کتب حدیث میں اس روایت میں أَبِي إِسْحَاقَ سلیمان بن أبى سليمان الشَّيْبَانِيِّ کا تفرد ہے یہ ثقہ ہیں
اس روایت کے مطابق یہ قوم عراق میں ہے دوسری حدیث
صحیح بخاری میں روایت ہے جس میں ایک شخص عَبْدُ اللَّهِ بْنُ ذِي الخُوَيْصِرَةِ التَّمِيمِيُّ اتا ہے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تقسیم مال پر جرح کرتا ہے – اپ صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں اس کی نسل میں سے ایک قوم نکلے گی جو دین سے ایسا نکلے گی جیسے تیر کمان سے –
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف نے اور ان سے ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تقسیم فرما رہے تھے کہ عبداللہ بن ذی الخویصرہ تمیمی آیا اور کہا: یا رسول اللہ! انصاف کیجئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ افسوس اگر میں انصاف نہیں کروں گا تو اور کون کرے گا۔ اس پر عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے اجازت دیجئیے کہ میں اس کی گردن مار دوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں اس کے کچھ ایسے ساتھی ہوں گے کہ ان کی نماز اور روزے کے سامنے تم اپنی نماز اور روزے کو حقیر سمجھو گے لیکن وہ دین سے اس طرح باہر ہو جائیں گے جس طرح تیر جانور میں سے باہر نکل جاتا ہے۔ تیر کے پر کو دیکھا جائے لیکن اس پر کوئی نشان نہیں
راوی کہتا ہے وَأَظُنُّهُ قَالَ: «لَئِنْ أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُودَ میں گمان کرتا ہوں انہوں نے کہا میں ان کو پاتا تو ثمود کی طرح قتل کرتا بعض اوقات راویوں نے قوم عاد کے الفاظ استمعال کیے ہیں
عبداللہ بن ذی الخویصرہ تمیمی کا تعلق بنو تمیم سے ہے جو عرب کے نجد میں آباد تھا
لہذا یہ قول کہ تیر کی طرح نکل جائیں گے بنو تمیم کی وجہ سے واپس نجد پر بھی پلٹا ہے
==========
اس قسم کی بہت سی روایات ہیں جن میں ان الفاظ کو خوارج پر لگایا گیا ہے لیکن اصحاب رسول کا عمل اس سے الگ ہے وہ خوارج کو مسلمان اور اہل قبلہ ہی مانتے ہیں اسلام سے خارج نہیں سمجھتے محدثین بھی ان کی حدیث لکھتے ہیں خود بخاری نے بھی لکھی ہے – ابن عباس ان کو شاگرد بناتے ہیں
اس پر تفصیلا یہاں بحث ہے
https://www.islamic-belief.net/خوارج-سے-متعلق-روایات/
روایت کہ لوگ اس دین سے نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکلتا ہے اس میں صرف بنو تمیم کے ایک شخص کا ذکر ہے کہ اس کی نسل کے لوگ
وہ لوگ جو علی سے متنفر ہوئے اور ان سے لڑے ان پر اس حدیث کو ثبت کیا گیا ہے لیکن اس کو حتما نہیں کہا جا سکتا کہ یہ انہی سے متعلق ہیں یا نہیں
کیونکہ خوارج کو بعد میں اصحاب رسول نے حج بھی کرنے دیا ہے اور ان کو شاگرد بھی بنایا ہے اور محدثین نے حدیث بھی لی ہے
باقی مولوی لوگ کیا کہتے رہتے وہ سب ان کی آراء ہیں
——-
بنو تمیم دجال پر سخت ہوں گے
صحیح بخاری میں ہے
اس کو أَبُو زُرْعَة هَرِمٌ بْن عَمْرو بْن جرير بْن عَبد اللَّه البجلي الكوفي نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کیا ہے
لیکن تہذیب الکمال میں ہے کہ
وكان انقطاعه إلى أَبِي هُرَيْرة، وسمع من جده أحاديث
أَبُو زُرْعَة هَرِمٌ بْن عَمْرو بْن جرير بْن عَبد اللَّه البجلي الكوفي کا ابو ہریرہ سے انقطاع ہے اس نے حدیث اپنے دادا سے سنی ہے یعنی جریر رضی الله عنہ سے
لہذا یہ روایت منقطع ہے
جواب یہ حدیث مسلم میں ہے
عبدالوارث ابن عبدالصمد بن عبدالوارث حجاج بن شاعر، عبدالوارث بن عبدالصمد ابی جدی حسین بن ذکوان بن بریدہ ، حضرت عامر بن شراحیل شعبی سے روایت ہے کہ اس فاطمہ بنت قیس، ضحاک بن قیس کی بہن سے پوچھا کہ مجھے ایسی حدیث روایت کی جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنی ہو اور اس میں کسی اور کا واسطہ بیان نہ کرنا فاطمہ نے کہا اگر تم چاہتے ہو تو میں ایسی حدیث روایت کرتی ہوں انہوں نے فاطمہ سے کہا ہاں ایسی حدیث مجھے بیان کرو تو انہوں نے کہا میں نے ابن مغیرہ سے نکاح کیا اور وہ ان دنوں قریش کے عمدہ نوجوان میں سے تھے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد میں شہید ہو گئے پس جب میں بیوہ ہوگئی تو عبدالرحمن بن عوف نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک جماعت میں مجھے پیغام نکاح دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے آزاد کردہ غلام اسامہ بن زید کے لئے پیغام نکاح دیا اور میں یہ حدیث سن چکی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو مجھ سے محبت کرتا ہے اسے چاہئے کہ وہ اسامہ سے محبت کرے پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھ سے (اس معاملہ میں)گفتگو کی تو میں نے عرض کیا میرا معاملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس سے چاہیں میرا نکاح کر دیں آپ نے فرمایا ام شریک کے ہاں منتقل ہو جا اور ام شریک انصار میں سے غنی عورت تھیں اور اللہ کے راستہ میں بہت خرچ کرنے والی تھیں اس کے ہاں مہمان آتے رہتے تھے تو میں نے عرض کیا میں عنقریب ایسا کروں گی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو ایسا نہ کر کیونکہ ام شریک ایسی عورت ہیں جن کے پاس مہمان کثرت سے آتے رہتے ہیں میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ تجھ سے تیرا دو ٹپہ گر جائے یا تیری پنڈلی سے کپڑا ہٹ جائے اور لوگ تیرا وہ بعض حصہ دیکھ لیں جسے تو ناپسند کرتی ہو بلکہ تو اپنے چچا زاد عبداللہ بن عمرو بن ام مکتوم کے ہاں منتقل ہو جا اور وہ قریش کے خاندان بن فہر سے تعلق رکھتے ہیں (اور وہ اسی خاندان سے تھے جس سے فاطمہ بنت قیس تھیں) میں ان کے پاس منتقل ہوگئی جب میری عدت پوری ہوگئی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نداء دینے والے کی آواز سنی جو کہہ رہا تھا نماز کی جاعت ہونے والی ہے پس میں مسجد کی طرف نکلی اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی اس حال میں کہ میں عورتوں کی اس صف میں تھی جو مردوں کی پشتوں سے ملی ہوئی تھی جب رسول اللہ نے اپنی نماز پوری کرلی تو مسکراتے ہوئے منبر پر تشریف فرما ہوئے تو فرمایا ہر آدمی اپنی نماز کی جگہ پر ہی بیٹھا رہے پھر فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ میں نے تمہیں کیوں جمع کیا ہے صحابہ نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی قسم میں نے تمہیں کسی بات کی ترغیب یا اللہ سے ڈرانے کے لئے جمع نہیں کیا میں نے تمہیں صرف اس لئے جمع کیا ہے کہ تمیم داری نصرانی آدمی تھے پس وہ آئے اور اسلام پر بیعت کی اور مسلمان ہو گئے اور مجھے ایک بات بتائی جو اس خبر کے موافق ہے جو میں تمہیں دجال کے بارے میں پہلے ہی بتا چکا ہوں چنانچہ انہوں نے مجھے خبر دی کہ وہ بنو لخم اور بنو جذام کے تیس آدمیوں کے ساتھ ایک بحری کشتی میں سوار ہوئے پس انہیں ایک ماہ تک بحری موجیں دھکیلتی رہیں پھر وہ سمندر میں ایک جزیرہ کی طرف پہچنے یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا تو وہ چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر جزیرہ کے اندر داخل ہوئے تو انہیں وہاں ایک جانور ملا جو موٹے اور گھنے بالوں والا تھا بالوں کی کثرت کی وجہ سے اس کا اگلا اور پچھلا حصہ وہ نہ پہچان سکے تو انہوں نے کہا تیرے لئے ہلاکت ہو تو کون ہے اس نے کہا اے قوم اس آدمی کی طرف گرجے میں چلو کیونکہ وہ تمہاری خبر کے بارے میں بہت شوق رکھتا ہے پس جب اس نے ہمارا نام لیا تو ہم گھبرا گئے کہ وہ کہیں جن ہی نہ ہو پس ہم جلدی جلدی چلے یہاں تک کہ گرجے میں داخل ہوگئے وہاں ایک بہت بڑا انسان تھا کہ اس سے پہلے ہم نے اتنا بڑا آدمی اتنی سختی کے ساتھ بندھا ہوا کہیں نہ دیکھا تھا اس کے دونوں ہاتھوں کو گردن کے ساتھ باندھا ہوا تھا اور گھٹنوں سے ٹخنوں تک لوہے کی زنجیروں سے جکڑا ہوا تھا ہم نے کہا تیرے لئے ہلاکت ہو تو کون ہے اس نے کہا تم میری خبر معلوم کرنے پر قادر ہو ہی گئے ہو تو تم ہی بتاؤ کہ تم کون ہو؟ انہوں نے کہا ہم عرب کے لوگ ہیں ہم دریائی جہاز میں سوار ہوئے پس جب ہم سوار ہوئے تو سمندر کو جوش میں پایا پس موجیں ایک مہینہ تک ہم سے کھیلتی رہیں پھر ہمیں تمہارے اس جزیرہ تک پہنچا دیا پس ہم چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں سوار ہوئے اور جزیرہ کے اندر داخل ہو گئے تو ہمیں بہت موٹے اور گھنے بالوں والا جانور ملا جس کے بالوں کی کثرت کی وجہ سے اس کا اگلا اور پچھلا حصہ پہچانا نہ جاتا تھا ہم نے کہا تیرے لئے ہلاکت ہو تو کون ہے اس نے کہا میں جساسہ ہوں ہم نے کہا جساسہ کیا ہوتا ہے ؟
اس نے کہا گرجے میں اس آدمی کا قصد کرو کیونکہ وہ تمہاری خبر کا بہت شوق رکھتا ہے
پس ہم تیری طرف جلدی سے چلے اور ہم گھبرائے اور اس (جساسہ جانور) سے پر امن نہ تھے کہ وہ جن ہو
اس نے کہا مجھے بیسان کے باغ کے بارے میں خبر دو ہم نے کہا اس کی کس چیز کے بارے میں تم خبر معلوم کرنا چاہتے ہو اس نے کہا میں اس کی کھجوروں کے پھل کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں ہم نے اس سے کہا ہاں پھل آتا ہے اس نے کہا عنقریب یہ زمانہ آنے والا ہے کہ وہ درخت پھل نہ دیں گے اس نے کہا مجھے بحیرہ طبریہ کے بارے میں خبر دو ہم نے کہا اس کی کس چیز کے بارے میں تم خبر معلوم کرنا چاہتے ہو اس نے کہا کیا اس میں پانی ہے ہم نے کہا اس میں پانی کثرت کے ساتھ موجود ہے اس نے کہا عنقریب اس کا سارا پانی ختم ہو جائے گا اس نے کہا مجھے زغر کے چشمہ کے بارے میں بتاؤ ہم نے کہا اس کی کس چیز کے بارے میں تم معلوم کرنا چاہتے ہو اس نے کہا کیا اس چشمہ میں وہاں کے لوگ اس کے پانی سے کھیتی باڑی کرتے ہیں ہم نے کہا ہاں یہ کثیر پانی والا ہے اور وہاں کے لوگ اس کے پانی سے کھیتی باڑی کرتے ہیں پھر اس نے کہا مجھے امیوں کے نبی کے بارے میں خبر دو کہ اس نے کیا کیا ہم نے کہا وہ مکہ سے نکلے اور یثرب یعنی مدینہ میں اترے ہیں اس نے کہا کیا راستے میں عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جنگ کی ہے ہم نے کہا ہاں اس نے کہا اس نے اہل عرب کے ساتھ کیا سلوک کیا ہم نے اسے خبر دی کہ وہ اپنے ملحقہ حدود کے عرب پر غالب آگئے ہیں اور انہوں نے اس کی اطاعت کی ہے اس نے کہا کیا ایسا ہو چکا ہے ہم نے کہا ہاں اس نے کہا ان کے حق میں یہ بات بہتر ہے کہ وہ اس کے تابعدار ہو جائیں اور میں تمہیں اپنے بارے میں خبر دیتا ہوں کہ میں مسیح دجال ہوں عنقریب مجھے نکلنے کی اجازت دے دی جائے گی پس میں نکلوں گا اور میں زمین میں چکر لگاؤں گا اور چالیس راتوں میں ہر ہر بستی پر اتروں گا مکہ اور مدینہ طبیہ کے علاوہ کیونکہ ان دونوں پر داخل ہونا میرے لئے حرام کردیا جائے گا اور اس میں داخل ہونے سے مجھے روکا جائے گا اور اس کی ہر گھاٹی پر فرشتے پہرہ دار ہوں گے حضرت فاطمہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی کو منبر پر چبھویا اور فرمایا یہ طبیہ ہے یہ طبیہ ہے یہ طیبہ ہے یعنی مدینہ ہے کیا میں نے تمہیں یہ باتیں پہلے ہی بیان نہ کر دیں تھیں لوگوں نے عرض کیا جی ہاں، فرمایا بے شک مجھے تمیم کی اس خبر سے خوشی ہوئی ہے کہ وہ اس حدیث کے موافق ہے جو میں نے تمہیں دجال اور مدینہ اور مکہ کے بارے میں بیان کی تھی آگاہ رہو دجال شام یا یمن کے سمندر میں ہے، نہیں بلکہ مشرق کی طرف ہے وہ مشرق کی طرف ہے وہ مشرق کی طرف ہے اور آپ نے اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کیا پسمیں نے یہ حدیث رسول اللہ سے یاد کر لی۔
جواب
اس حدیث کو حدیث الجساسہ کہا جاتا ہے یعنی جاسوس والی حدیث
اس کی تمام اسناد کو اگر اکھٹا کیا جائے توواضح ہوتا ہے کہ یہ روایت معلول ہے
وہابی عالم محمد بن صالح عثيمین اس کو رد کرتے ہیں – حال ہی میں عرب محقق دکتور حاكم المطيري کی تحقیق کے ساتھ کتاب دراسة لحديث الجساسة وبيان ما فيه من العلل في الإسناد والمتن ٢٠٠٩ چھپی ہے جس میں اس روایت کو معلول کہا گیا ہے اس میں اس کے تمام طرق جمع کیے گئے ہیں- مالکی فقیہ عالم سعيد الكملي نے اس کو رد کیا ہے
اس روایت کی تین سندیں ہیں ایک میں شعبی ہیں اور دوسری میں ابی سلمہ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ہیں تیسری میں يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ ہیں جو فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا سے اس کو نقل کرتے ہیں ایک چوتھی سند ہے جس میں ابْنِ بُرَيدة اس کو اپنے باپ بریدہ رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں – اس کے علاوہ الشعبی کا کہنا ہے کہ اس متن کو عائشہ اور ابو ہریرہ رضی الله عنہما نے بھی روایت کیا تھا
ابی سلمہ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ کی سند
ابی سلمہ کی سند سے مسند الحارث بن أبي أسامة میں ابی داود میں اور الضعفاء عقیلی میں مسند أبي يعلى میں نقل ہوئی ہے جس میں اس کو جابر بن عبد الله سے نقل کیا گیا ہے اس کی سند کو شعَيب الأرنؤوط سنن ابو داود پر تحقیق میں ضعیف کہتے ہیں- ابی سلمہ اس کو ابو سعید الخدری رضی الله عنہ سے بھی نقل کرتے ہیں جس کا ذکر مسند احمد ، الضعفاء عقیلی میں ہے – حدیث جساسہ کے حوالے سے علل دارقطنی میں دارقطنی ابی سلمہ کی سند کو کہتے ہیں حديث أبي سلمة أصح
لیکن اس طرق کو المعجم ابو یعلی ، سنن ابی داود اس سند سے بیان کیا گیا ہے
ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ
اس میں ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ مدلس ہیں اور سندوں میں عن سے روایت کر رہے ہیں
شعَيب الأرنؤوط – محَمَّد كامِل قره بللي نے سنن ابو داود پر تعلیق میں اس کے متن کو ضعيف بهذه السياقة قرار دیا ہے
کتاب علل الکبیر میں ہے کہ ترمذی نے امام بخاری سے اس روایت پر سوال کیا تو انہوں نے کہا
يرويه الزهري، عن أبي سلمة، عن فاطمة ابنة قيس. قال البخاري: وحديث الشعبي عن فاطمة بنت قيس في الدَّجَّال هو حديث صحيح
اس کو الزہری نے ابی سلمہ سے انہوں نے فاطمہ بنت قیس سے روایت کیا ہے اور بخاری کہتے ہیں شعبی کی حدیث صحیح ہے
ترمذی اس روایت کو حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ کہتے ہیں لیکن قابل حیرت ہے کہ خود بخاری نے اس کو صحیح میں نقل نہیں کیا!
کتاب علل الکبیر پر علماء کا ایک گروہ شک کرتا ہے کہ یہ ثابت نہیں ہے اس کو ابو طالب قاضی کی کتاب کہا جاتا ہے یہاں تک کہ علماء کا اس پر بھی اختلاف ہے کہ اس میں ابو طالب القاضی کون ہے- علل کے ایک محقق حمزة ديب مصطفى في تحقيقه لعلل الترمذي الكبير نے اس کو ائمہ شافعیہ میں سے أبو طالب محمود بن علي بن أبي طالب بن عبدالله بن الرجاء التميمي الأصبهاني ، المعروف بالقاضي قرار دیا ہے جبکہ علل کی ترتیب جو ابو طالب سے ہے اس کی سند میں الشيخ أبو القاسم خلف بن عبد الملك بن بشكوال الأنصار ي القرطبي کا ذکر ہے-یہ بات صبحي السامرائي اور ابو المعاطی کی تحقیق سے جو علل ترمذی چھپی ہے اس میں ص ٢٠ پر ہےکہ ابو طالب القاضی نے اس کو ابن بشکوال سے لیا
اور کتاب التكملة لكتاب الصلة از ابن الأبار، محمد بن عبد الله بن أبي بكر القضاعي البلنسي (المتوفى: 658هـ) ج: 4 ص: 33 کے مطابق ابن بشكوال سے عقيل بن عطية بن أبي أحمد جعفر بن محمد بن عطية القضاعي يكنى أبا طالب وأبا المجد المتوفی ٦٠٨ ہجری نے روایت کیا ہے
عقيل بن عَطِيَّة بن أبي أَحْمد جَعْفَر بن مُحَمَّد بن عَطِيَّة الْقُضَاعِي يكنى أَبَا طَالب وَأَبا الْمجد ولد بمراكش وأصل سلفه من طرطوشة وروى بالأندلس وَغَيرهَا عَن أبي الْقَاسِم بن بشكوال
بیہقی نے سب سے پہلے اس کتاب کی نسبت امام ترمذی سے کی ہے جو پانچویں صدی کے ہیں جو غیر ترتیب شدہ تھی – پھر اس کی ترتیب ابو طالب مجھول نے کی یعنی ٦٠٠ ہجری میں اس کتاب کا ذکر شروع ہوا کہ یہ امام ترمذی کی ہے اس سے قبل کسی نے اس کتاب کو اس ترتیب کی ساتھ امام ترمذی کی کتاب قرار نہیں دیا ہے
ماہ نامہ اشاعۃ الحدیث، شمارہ: ۱۲۹-۱۳۲ ،ص: ۱۳۳، ۱۳۴ میں ندیم ظہیر نے اس کتاب کی نسبت امام ترمذی سے رد کی ہے لکھتے ہیں
یہ مسلّم حقیقت ہے کہ موجودہ العلل الکبیر مولف کے زمانے میں اس کے معاصرین علماء اور تلامذہ میں قطعاً معروف نہ تھی
ابْنِ بُرَيدة کی سند
صحیح ابن حبان میں اس کی سند ہے
حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ أَنَّهُ قَالَ لِفَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ
يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ بھی سند میں ہے
ان کے لئے ابو داود کہتے ہیں قَالَ أَبُو دَاوُدَ: لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عَائِشَةَ. ان کا عائشہ رضی الله عنہا سے سماع نہیں ہے (بحوالہ سیر الاعلام البنلا)- میزان الاعتدال از الذھبی میں ہے
عثمان بن دحية قال فيه: ضال مضل ابن دحية ان کو گمراہ اور گمراہ کرنے والا کہتے تھے
دیگر محدثین ان کو ثقہ کہتے ہیں
لہذا يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ ایک تو مختلف فیہ ہے دوم ان کا سماع عائشہ رضی الله عنہا سے نہیں ہے تو ان سے پہلے وفات پانے والی فاطمہ رضی الله عنہا سے کیسا ہوا ؟ سوم سند میں بریدہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں
علل ابی حاتم میں ہے کہ ابن ابی حاتم نے اپنےباپ اور سے سوال کیا
وسألتُ أَبِي وَأَبَا زُرْعَةَ عَنْ حديثِ بَشير بْنِ المُهاجِر ، عَنِ ابْنِ بُرَيدة ، عَنْ أَبِيهِ؛ فِي قصَّة الجَسَّاسَة : مَا عِلَّته؟
فَقَالا: لَهُ عَوْرة. قلتُ: وَمَا هي؟
قالا: روى عبد الوارث ، عن حُسين ابن ذَكْوان المعلِّم، عَنِ ابْنِ بُرَيدة، عَنِ الشَّعبي، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْس، عن النبيِّ (ص) فِي ذَلِكَ. قَالا: فَأَفْسَدَ هَذَا الحديثُ حديثَ بشير
اور میں نے اپنے باپ سے اور أَبَا زُرْعَةَ سے َبشير بْنِ المُهاجِر کی ابْنِ بُرَيدة سے ان کی اپنے باپ سے الجَسَّاسَة کے قصہ والی روایت کا پوچھا کہ اس کی علت کیا ہے پس کہا یہ چھپی ہوئی ہے میں نے پوچھا کیا ہے کہا اس کو عبد الوارث ، عن حُسين ابن ذَكْوان المعلِّم، عَنِ ابْنِ بُرَيدة، عَنِ الشَّعبي، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْس، عن النبيِّ (ص) نے اسی طرح روایت کیا ہے پس اس حدیث میں فساد بَشير بْنِ المُهاجِر کی حدیث میں ہے
یعنی اس کی ایک سند میں غلطی ہے کہ اس کو عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کی سند سے بیان کر دیا گیا ہے اسی علت کا ذکر شعيب الأرنؤوط کرتے ہیں اور صحیح ابن حبان کی تخریج میں کہتے ہیں
قلت: وقد انفرد المؤلف بإخراجه من هذا الطريق، ولعبد الله بن بريدة فيه شيخ آخر، فقد أخرجه بأطول مما هنا مسلم “2942” “119” في الفتن: باب قصة الجساسة، وأبو داود “4326” في الملاحم: باب في خبر الجساسة، والطبراني 24/”958″، وفي الأحاديث الطوال “47”، وابن منده في “الإيمان” “1058” من طريق الحسين بن ذكوان المعلم، عن عبد الله بن بريدة، عن الشعبي، عن فاطمة بنت قيس. وانظر ما بعده.
یعنی عبد الله بن بريدة، عن الشعبي سے بھی اس کو روایت کیا گیا ہے- گویا اس طرق میں غلطیاں ہیں اور اس میں بھی الشعبی کا تفرد ہے
شعبی کے سماع کا مسئلہ
سندوں میں ان علتوں کے بعد ایک بڑا مسئلہ الشعبی کے سماع کا ہے
کتاب جامع التحصیل از العلائی کے مطابق
عامر بن شراحيل الشعبي أحد الأئمة روى عن علي رضي الله عنه وذلك في صحيح البخاري وهو لا يكتفي بمجرد إمكان اللقاء كما تقدم وعن طائفة كثيرة من الصحابة لقيهم وأرسل عن عمر وطلحة بن عبيد الله وابن مسعود وعائشة وعبادة بن الصامت رضي الله عنهم قال أبو زرعة الشعبي عن عمر مرسل وعن معاذ بن جبل كذلك وقال بن معين ما روى عن الشعبي عن عائشة مرسل وكذلك قال أبو حاتم وقال أيضا لم يسمع الشعبي من عبد الله بن مسعود ولا من بن عمر ولم يدرك عاصم بن عدي وما يمكن أن يكون سمع من عوف بن مالك الأشجعي ولا أعلم سمع الشعبي بالشام إلا من المقدام أبي كريمة ولا أدري سمع من سمرة أم لا لأنه أدخل بينه وبينه رجلا هذا كله كلام أبي حاتم وقال إسحاق بن منصور قلت ليحيى بن معين الشعبي إن الفضل يعني بن عباس حدثه وأن أسامة يعني بن زيد حدثه قال لا شيء وكذلك قال أحمد بن حنبل وعلي بن المديني وقال أبو حاتم لا يمكن أن يكون أدركهما وقال بن معين الشعبي عن عمرو بن العاص مرسل وقال بن المديني
عامر بن شراحيل الشعبي ائمہ میں سے ایک ہیں علی رضی الله عنہ سے روایت کی ہے جو صحیح بخاری میں ہے اور یہ امکان لقاء کی بنیاد پر کافی نہیں ہے جیسا کہ گزرا ہے اور بہت سوں سے روایت کرتے ہیں جن میں وہ صحابہ ہیں جن سے ملاقات ہوئی اور ارسال کرتے ہیں عمر سے ، طلحہ بن عبید الله سے ابن مسعود سے عائشہ سے عبادہ بن الصامت سے رضی الله عنہم ابو ذرعہ کہتے ہیں الشعبی کی عمر سے روایت مرسل ہے اور معاذ بن جبل سے اور ابن معین کہتے ہیں جو بھی الشعبی عائشہ سے روایت کرتے ہیں مرسل ہے اور اسی طرح ابن ابی حاتم کہتے ہیں الشعبی نے عبد الله ابن مسعود سے کچھ نہ سنا اور نہ ابن عمر سے اور نہ انہوں نے عاصم بن عدي کو پایا اور یہ بھی ممکن نہیں کہ عوف بن مالك الأشجعي سے سنا ہو اور نہیں جانتا کہ شام میں انہوں نے سوائے المقدام أبي كريمة کے کسی اور سے سنا ہو اور نہیں جانتا کہ سمرہ بن جندب سے سنا ہو
فاطمہ بنت قیس المتوفی ٥٠ ھ سے بھی الشعبي کا سماع نہیں ہو سکتا جبکہ عائشہ رضی الله عنہا المتوفی ٥٧ ھ سے ان کا سماع ثابت نہیں ہے – تاریخ الاسلام الذھبی کے مطابق فاطمہ کی وفات سن ٥٠ کے بعد میں ہوئی اور الأعلام از الزركلي الدمشقي کے مطابق سن ٥٠ ھ میں ہوئی
جس طرح الشعبی کا سماع فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا سے مشکوک ہے اسی طرح يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ کا سماع بھی کیونکہ اس دونوں کا سماع عائشہ رضی الله عنہا سے ثابت نہیں ہے جن کی وفات فاطمہ بنت قیس کے اس پاس ہے
كتاب الضعفاء لأبي زرعة الرازي کے مطابق
لقي الشعبي فاطمة بنت قيس بالحيرة
الشعبي کی ملاقات فاطمہ بنت قیس سے الحيرة میں ہوئی
الحيرة عراق کا شہر ہے
کتاب المعرفة والتاريخ از يعقوب بن سفيان بن جوان الفارسي الفسوي، أبو يوسف (المتوفى: 277هـ کے مطابق
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ثنا سُفْيَانُ قَالَ ثنا مُجَالِدٌ عَنِ الشَّعْبِيِّ قَالَ: قَدِمَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ الْكُوفَةَ عَلَى أَخِيهَا الضَّحَّاكِ بْنِ قيس، وكان عاملا عليها، فأتيناها فسألناها.
الشَّعْبِيِّ کہتے ہیں کہ فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ اپنے بھائی الضَّحَّاكِ بْنِ قيس کے ساتھ کوفہ آئیں اور الضَّحَّاكِ بْنِ قيس وہاں عامل ہوئے وہاں فاطمہ سے سوال کیے
یہ تضاد ہوا کوفہ اور الحيرة الگ الگ شہر ہیں دونوں میں سات کلو میٹر دوری ہے جو قرن اول میں ایک شہر سے دوسرے شہر کا فاصلہ بنتا ہے
کتاب المعجم الصغير لرواة الإمام ابن جرير الطبري کے مطابق الضَّحَّاكِ بْنِ قيس کا انتقال فتنة مرج راهط میں سن ٦٤ ھ میں ہوا
الذہبی کی سیر الاعلام النبلاء کے مطابق
وَقَالَ شَبَابٌ : مَاتَ زِيَادُ بنُ أَبِيْهِ سَنَةَ ثَلاَثٍ وَخَمْسِيْنَ بِالكُوْفَةِ، فَوَلاَّهَا مُعَاوِيَةُ الضَّحَّاكَ، ثُمَّ صَرَفَهُ، وَوَلاَّهُ دِمَشْقَ، وَوَلَّى الكُوْفَةَ ابْنَ أُمِّ الحَكَمِ. فَبَقيَ الضَّحَّاكُ عَلَى دِمَشْقَ حَتَّى هَلكَ يَزِيْدُ.
شباب کہتے ہیں کہ سن ٥٣ ھ میں زِيَادُ بنُ أَبِيْهِ کی وفات پر الضَّحَّاكِ بْنِ قيس کو معاویہ رضی الله عنہ نے کوفہ پر عامل مقرر کیا پھر ہٹا دیا اور دمشق پر مقرر کیا اور کوفہ پر ابن ام الحکم کو مقرر کیا اور دمشق پر الضَّحَّاكِ بْنِ قيس کو باقی رکھا گیا یہاں تک کہ یزید ہلاک ہوا
الضَّحَّاكِ بْنِ قيس کوفہ سن ٥٣ ھ میں پھنچے جبکہ بہت سوں نے فاطمہ کی وفات اس سے قبل بیان کی ہے
بعض محدثین کا اس روایت کو صحیح کہنا اس بنیاد پر تھا کہ الشعبی کا سماع امکان لقاء کی بنیاد پر فاطمہ سے ممکن ہے لیکن جب فاطمہ کے بھی بعد انتقال کرنے والے ابن عمر سے ان کا سماع ثابت نہیں تو فاطمہ بنت قیس سے بھی مشکوک ہو جاتا ہے
الْمُحَرَّرَ بْنَ أَبِي هُرَيْرَةَ اور الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ کی سند
مسند حمیدی میں اس روایت کے آخر میں ہے
قَالَ الشَّعْبِيُّ: فَلَقِيتُ الْمُحَرَّرَ بْنَ أَبِي هُرَيْرَةَ فَحَدَّثَنِي بِهِ عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَزَادَ فِيهِ «وَمَكَّةَ» وَقَالَ: مِنْ نَحْوِ الْمَشْرِقِ مَا هُوَ مِنْ نَحْوِ الْمَشْرِقِ مَا هُوَ قَالَ الشَّعْبِيُّ فَلَقِيتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ فَحَدَّثَنِي بِهِ عَنْ عَائِشَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذَلِكَ
شعبی کہتے ہیں میری الْمُحَرَّرَ بْنَ أَبِي هُرَيْرَةَ ملاقات سے ہوئی انہوں نے اپنے باپ سے انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ایسا ہی روایت کیا اور میری ملاقات قاسم بن محمد سے ہوئی انہوں نے عائشہ سے انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ایسا ہی روایت کیا
لیکن ایسا امام محمد یا الْمُحَرَّرَ بْنَ أَبِي هُرَيْرَةَ نے صرف شعبی کو ہی کیوں بتایا کسی اور سے روایت کیوں نہ کیا ؟
متن کے مسائل
روایت کا متن بھی نا قابل فہم ہے
نَخْلِ بَيْسَانَ ، عَيْنِ زُغَرَ اور بحر طبریہ سب الغور اردن میں ہیں اور وادی اردن کا حصہ ہیں – دیکھئے کتاب الأعلاق الخطيرة في ذكر أمراء الشام و الجزيرة از ابن شداد الحلبي (المتوفى: 684هـ) –ان علاقوں کا خروج دجال کی بجائے یاجوج ماجوج کے خروج سے تعلق ہے جو دجال کے بعد آئیں گے اور بحر طبریہ کا پانی پی جائیں گے لہذا دجال کو اس کی کیا خبر – یہ تو رسول الله کو علم دیا گیا تھا نہ کہ دجال کو
اس کے علاوہ اس روایت میں دجال کے جاسوس کا عجیب و غریب ذکر ہے کہ وہ ایک بہت بالوں والا جانور ہے- یہ اصل میں عیسائیوں کی کتاب مکاشفہ
Book of Revelations
کا اثر لگتا ہے جس میں سمندر سے ایک جانور کے نکلنے کا ذکر ہے اور اس روایت میں بھی دجال کو سمندر میں کسی جزیرہ میں بتایا گیا ہے جو مشرق میں ہے
بالوں والا دجال کا جاسوس کیا کتاب مکاشفہ کا یہ حیوان ہے ؟ اسی بنا پر اہل کتاب میں دجال کو
Beast
کہا جاتا ہے جو جساسہ کی تفصیل سے مطابقت رکھتا ہے اگرچہ روایت میں اس کو دجال کا جاسوس کہا گیا ہے جو آزاد گھوم رہا ہے اس کا آقا دجال قید ہے آخر یہ جانور اس کو چھڑا کیوں نہیں لیتا ؟ اور ١٤٠٠ سو سال سے بھی اوپر سے قید ہے سمندری ہوا اور زنگ کا کوئی تذکرہ نہیں ہے
اس روایت کے الفاظ ہیں
فانطلقنا سراعا حتى دخلنا الدير فإذا فيه أعظم إنسان رأيناه قط
تمیم داری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم جلدی سے اس گرجے میں پہنچے تو ہم نے ایک بڑا دیو ہیکل انسان دیکھا کہ اس سے قبل ہم نے ویسا کوئی انسان نہیں دیکھا تھا۔
یہ دیگر احادیث کے خلاف ہے جن کے مطابق دجال کا قد ایک عام انسان جیسا ہی ہے وہ دیو ہیکل نہیں ہے کہ اس جیسا قد کا آدمی تمیم داری نے اپنی زندگی میں نہ دیکھا تھا
اصلا اہل کتاب نصرانی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ دجال شیطان کا مجسم ہے اور عیسیٰ نعوذباللہ بطور رب ، دجال بطور شیطان مقابلہ ہو گا لہذا اس کو ایک بہت بڑا کہا گیا ہے
دوسری طرف صحیح حدیث میں ہے کہ دجال دو لوگوں پر ہاتھ رکھے کعبہ کا طواف کرے گا ظاہر ہے جو دیو ہیکل ہو وہ کسی کا سہارا کیوں لے گا
بعض علماء کے نزدیک دجال کا جاسوس عورت ہے اور چونکہ یہ علماء اس کے قائل ہیں کہ شیطان عورت کی صورت میں اتا ہے انہوں نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ جساسہ ایک عورت نما شیطان تھا
کتاب المفاتيح في شرح المصابيح از الحسين بن محمود بن الحسن، مظهر الدين الزَّيْدَانيُّ الكوفي الضَّريرُ الشِّيرازيُّ الحَنَفيُّ المشهورُ بالمُظْهِري (المتوفى: 727 هـ) کے مطابق
وفي هذا الحديث رُوِي: أن الجساسة امرأة، وفي الحديث المتقدم رُوِي: أن الجساسة دابة، ويحتمل أن الجمعَ بين الحديثين: أن للدجال جاسوسين دابة وامرأة؛ ففي الحديث المتقدم قد رُئيت الدابة، وفي هذا الحديث قد رُئيت المرأة.
ويحتمل أن كلاهما شيطان واحد، إلا أن في الحديث الأول: أنه قد رُئي على صورة دابة، وفي هذا الحديث: على صورة امرأة، والشيطانُ يتصوَّرُ على أية صورة شاء.
اور اس حدیث میں روایت کیا گیا ہے کہ جساسہ ایک عورت ہے اور جو حدیث گزری اس میں روایت کیا گیا ہے کہ جساسہ جانور ہے اور ممکن ہے کہ جمع بین الحدیثین ہو جائے کہ دجال کا جاسوس عورت اور جانور ہے پس پچھلی حدیث میں ہے انہوں نے جانور دیکھا اور اس میں ہے عورت دیکھی اور ممکن ہے یہ ایک شیطان ہو سوائے اس کے کہ حدیث اول میں انہوں نے اس کو صورت جانور دیکھا ہو اور اس حدیث میں عورت کی صورت اور شیطان تو کسی بھی صورت میں آ سکتا ہے
راقم اس قول کا انکار کرتا ہے کہ شیطان کسی بھی صورت میں آ سکتا ہے اس پر تفصیل جنات کے سیکشن میں ہے
سنن ابو داود کی روایت جو الزہری عن ابی سلمہ کی سند سے ہے اس میں ہے
يجر شعره، ينزو فيما بين السماء والأرض
دجال کے بال زمیں و آسمان کے درمیان جو ہے اس کو بھر رہے تھے
یعنی دجال کوئی انسان نہیں کوئی بہت بڑا جانور ہے
اس بنا پر شعیب نے سنن ابو داود میں خاص طور پر امام زہری کا ذکر کیا ہے
وخالفه أيضاً في وصف الدَّجَّال حيث قال: يجر شعره، ينزو فيما بين السماء والأرض، وقال الشعبي في روايته: دخلنا الدير، فإذا فيه أعظم إنسان رأيناه قط خلقاً وأشده وثاقاً، مجموعة يداه إلى عنقه.
زہری نے دجال کے وصف میں مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ اس کے بال زمیں و آسمان کو بھر رہے تھے اور شعبی نے روایت میں کہا ہے ہم کلیسا میں داخل ہوئے اس میں ایک بہت دیو ہیکل انسان تھا ایسا خلق میں نہیں دیکھا جس کو زنجیروں سے جکڑا ہوا تھا
یعنی امام زہری دجال کو ایک جانور بتاتے تھے اور شعبی اس کو أعظم إنسان قرار دیتے تھے
علماء کا اختلاف
مجموع فتاوى ورسائل فضيلة الشيخ محمد بن صالح العثيمين کے مطابق سوال 148 ہوا
سئل فضيلة الشيخ: ذكرتم في الفتوى السابقة رقم “147”: أن الدجال غير موجود الآن، وهذا الكلام ظاهره يتعارض مع حديث فاطمة بنت قيس في الصحيح، عن قصة تميم الداري، فنرجو من فضيلتكم التكرم بتوضيح ذلك؟ .
فأجاب بقوله: ذكرنا هذا مستدلين بما ثبت في الصحيحين، عن النبي – صلى الله عليه وآله وسلم -، قال: «إنه على رأس مائة سنة لا يبقى على وجه الأرض ممن هو عليها اليوم أحد» .
فإذا طبقنا هذا الحديث على حديث تميم الداري صار معارضا له؛ لأن ظاهر حديث تميم الداري أن هذا الدجال يبقى حتى يخرج، فيكون معارضا لهذا الحديث الثابت في الصحيحين، وأيضا فإن سياق حديث تميم الداري في ذكر الجساسة في نفسي منه شيء، هل هو من تعبير الرسول – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أو لا
شیخ محمد بن صالح العثيمين سے سوال ہوا : اپ نے ذکر کیا کہ دجال ابھی موجود نہیں ہے اور اپ کا کلام حدیث فاطمہ بنت قیس سے معارض ہے جو صحیح میں ہے روایت کیا ہے قصہ تمیم الداری کا پس ہم اپ کی توضیح اس پر چاہتے ہیں
پس شیخ نے جواب دیا : ہم نے ذکر کیا جو دلیل کرتا ہے صحیح میں ثابت قول ہے نبی صلی الله علیہ وسلم سے کہ ١٠٠ سال کے پورا ہونے پر زمین پر کوئی زندہ نہ رہے گا – پس جب اس حدیث کو تمیم داری کی حدیث پر رکھتے ہیں تو یہ اس سے متعارض ہے جو صحیحین میں ثابت ہے اور ساتھ ہی اس حدیث میں جاسوس کا ذکر ہے جس سے دل میں چیز ہے کہ یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تعبیر تھی بھی یا نہیں
جن دلائل کی بنیاد پر کہا جاتا ہے خضر فوت ہوئے انہی کی بنیاد پر حدیث جساسہ کو قبول نہیں کیا جا سکتا
کتاب موسوعة العلامة الإمام مجدد العصر محمد ناصر الدين الألباني میں “فتاوى جدة” (2/ 00:28:10) البانی کا جواب اس پر ہے
مداخلة: قوله عليه الصلاة والسلام: «ما من نفس منفوسة يمر عليها مائة عام وهي حية يومئذ» أو كما قال.
الشيخ: هذا الذي يقول بهذا الكلام هو جاهل بعلم أصول الفقه، ما من نص عام إلا وقد خصص، وهذا من ذاك
رسول الله کا قول ہے کہ کوئی نفس سو سال تک زندہ نہ ہو گا جو آج زندہ ہے ؟
البانی نے جواب دیا یہ کلام اسی کا ہو ہو سکتا ہے جو اصول فقہ سے جاہل ہو – کوئی نص عام نہیں جس میں خصوص نہ ہو اور اس میں ایسا ہی ہے
البانی اس کے قائل تھے کہ دجال دور نبوی سے بھی پہلے سے ہے
کتاب سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة میں لکھتے ہیں
تقدم من حديث فاطمة بنت قيس وجابر رضي الله
عنهم في خبر الجساسة والدجال؛ فإن فيه أن الدجال كان موجوداً في زمن النبي
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وأنه كان موثقاً بالحديد في بعض جزائر البحر
اور حدیث فاطمہ بنت قیس اور جابر رضی الله عنہما میں جاسوس کی خبر ہے اور دجال کی کہ دجال دور نبوی میں موجود تھا اور اس کو لوہے کی زنجیر سے سمندر کے جزائر میں قید کیا ہوا ہے
کتاب قصة المسيح الدجال ونزول عيسى میں البانی دور کی کوڑی لاتے ہیں
اعلم أن هذه القصة صحيحة – بل متواترة – لم ينفرد بها تميم الداري كما يظن بعض الجهلة من المعلقين على (النهاية) لابن كثير (ص 96 – طبعة الرياض) فقد تابعه عليها أبو هريرة وعائشة وجابر كما يأتي
جان لو کہ یہ قصہ صحیح ہے – بلکہ متواتر ہے – اس میں تمیم الداری کا تفرد نہیں ہے جیسا النهاية في الفتن والملاحم از ابن کثیر (ص 96 – طبعة الرياض) پر بعض تعلیق لگانے والوں نے اپنی جہالت کی بنا پر کر لیا ہے کیونکہ اس کی متابعت میں عائشہ اور جابر اور ابو ہریرہ کی روایات ہیں جو آ رہی ہیں
لیکن البانی نے جن روایات کو متابعت قرار دیا ہے ان میں الجساسة کا ذکر ہی نہیں وہ دوسری روایات ہیں
تواتر کی تعریف پر یہ جساسہ والی روایت نہیں اترتی اس کو صرف فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا نے روایت کیا ہے ان سے کوفیوں نے شام و یمن کا کوئی راوی اس کو روایت نہیں کرتا
راقم کو اس حوالے سے یہ کتاب معلوم ہے
النهاية في الفتن والملاحم – تأليف الحافظ عماد الدين بن كثير تصحيح وتعليق الشيخ إسماعيل الأنصاري – مطابع مؤسسة النور الرياض – الطبعة الأولى ١٣٨٨هـ.
كتاب الفتن والملاحم – النهاية من تاريخ الحافظ عماد الدين ابن كثير، تصحيح وتعليق الشيخ إسماعيل الأنصاري، قدم للطبعة الأولى الشيخ علي الحمد الصالحي، وكذا للطبعة الثانية سنة 14033هـ، وأعده الشيخ الصالحي لطبعة ثالثة، أضاف لها زيادات في المقدمة بخط يده، وهذا الكتاب طبع بالاشتراك بين مؤسسة النور ومكتبة الحرمين.
اغلبا البانی اس میں اسماعیل انصاری یا علي الحمد الصالحي پر جرح کر رہے ہیں
یہ سلفی علماء کا اس روایت پر فساد و اختلاف ہے ایک دوسرے پر جھل کا فتوی لگا رہے ہیں
مودودی صاحب (ترجمان القرآن۔ربیع الاول ۴۵ھ؍ فروری۴۶ء) سے سوال ہوا تو انھوں نے کہا
میں نے جس چیز کو افسانہ قرار دیا ہے وہ یہ خیال ہے کہ دجال کہیں مقید ہے
دوسری طرف بعض اہل حدیث اور دیوبندی علماء دجال کے جزیرے میں قید والی روایت سے ثابت کرتے ہیں کہ دجال امریکہ کے پاس کسی جزیرہ میں برموادا ٹرائی اینگل بحر اوقیانوس میں ہے جبکہ روایت میں یہ بات عرب کے مشرق کے لئے ہے
دوسری طرف آج تک عرب علماء کی طرف سے یہ نہیں کیا گیا کہ جزیرہ العرب کے مشرقی جزائر میں بحرین، عمان قطر اور امارات کے جزائر میں علماء کی ٹیم بھیج کر دجال کا تعین کریں – یہاں تک کہ بعض سلفی علماء پر اس روایت کے متن کی نکارت ظاہر ہوئی اور اس روایت کا رد کیا گیا
تمیم داری رضی الله عنہ شام منتقل ہو گئے تھے یہ روایت کوئی بھی شامی روایت نہیں کرتا بلکہ صرف فاطمہ بیت قیس رضی الله عنہاسے شعبی نے روایت کی ہے – ممکن ہے اس وقت وہ اختلاط کا شکار ہوں جو ایک بشری کمزروی ہے
دجال کے خروج سے متعلق روایات میں کہا گیا ہے کہ وہ شام و عراق کے بیچ سے نکلےگا یا اس کے ساتھ اصفہان کے لوگ ہوں گے اگر اس جاسوس والی روایت کو صحیح مانا جائے تواس کی باقی روایات سے تطبیق نا ممکن ہو جاتی ہے یہ بھی اس جاسوس والی روایت کے غریب اور منکر ہونے کا ایک سبب ہے
شیعوں کی کتاب موسوعة أحاديث امير المؤمنين علي کے مطابق
حدَّثنا محمّد بن إبراهيم بن إسحاق ـ رضي اللّه عنه ـ قال: حدَّثنا عبد العزيز ابن يحيى الجلوديّ بالبصرة قال: حدَّثنا الحسين بن معاذ قال: حدَّثنا قيس بن حفص قال: حدَّثنا يونس بن أرقم، عن أبي سيّار الشيباني، عن الضحّاك بن مزاحم، عن النَّزال ابن سبرة قال: خطبنا أمير الموَمنين عليُّ بن أبي طالب ـ عليه السلام ـ فحمدَ اللّهَ عزَّ وجلَّ وأثنى عليه وصلّى على مُحمدٍ وآلهِ، ثمَّ قال: سَلُوني أيُّها النَّاسُ قَبْلَ أن تَفقِدُوني ـ ثلاثاً ـ فقامَ إليه صعصَعَةُ بن صُوحانَ فقال: يا أمير الموَمنين متى يخرجُ الدَّجّالُ؟ فقال لهُ علي _ عليه السلام _
علی رضی الله عنہ سے سوال ہوا کہ دجال کہاں نکلے گا انہوں نے جو نشانیاں بتائیں ان میں تھا
فَقَامَ إِليهِ الاَصْبَغُ بنُ نَباتَةَ فَقَالَ: يا أَميرَ الموَمنينَ مَنَ الدَّجَّالُ؟ فقالَ: ألا إنَّ الدَّجَّالَ صَائِدُ بنُ الصَّيْدِ، فَالشَّقيُّ مَن صَدَّقَهُ، والسَّعِيْدُ مَنْ كَذَّبَهُ، يَخْرِجُ مِنْ بَلْدَةٍ يُقالُ لَها أصفَهَانُ، مِنْ قَرْيَةٍ تُعْرَفُ باليَهُودِيّةِ
علی نے کہا دجال صَائِدُ بنُ الصَّيْدِ ہے … یہ ایک شہر سے نکلے گا جس کو اصفہان کہا جاتا ہے جو یہود کے شہر کے طور پر مشہور ہے
سنن ابن ماجه: كِتَابُ الْفِتَنِ (بَابُ فِتْنَةِ الدَّجَالِ، وَخُرُوجِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، وَخُرُوجِ يَأْجُوجَ، وَمَأْجُوجَ) سنن ابن ماجہ: کتاب: فتنہ و آزمائش سے متعلق احکام و مسائل (باب: دجال کافتنہ‘حضرت عیسی ابن مریمکا نزول اوریاجوج وماجوج کا ظہور)
4074 . حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ قَالَتْ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ وَصَعِدَ الْمِنْبَرَ وَكَانَ لَا يَصْعَدُ عَلَيْهِ قَبْلَ ذَلِكَ إِلَّا يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَاشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَى النَّاسِ فَمِنْ بَيْنِ قَائِمٍ وَجَالِسٍ فَأَشَارَ إِلَيْهِمْ بِيَدِهِ أَنْ اقْعُدُوا فَإِنِّي وَاللَّهِ مَا قُمْتُ مَقَامِي هَذَا لِأَمْرٍ يَنْفَعُكُمْ لِرَغْبَةٍ وَلَا لِرَهْبَةٍ وَلَكِنَّ تَمِيمًا الدَّارِيَّ أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي خَبَرًا مَنَعَنِي الْقَيْلُولَةَ مِنْ الْفَرَحِ وَقُرَّةِ الْعَيْنِ فَأَحْبَبْتُ أَنْ أَنْشُرَ عَلَيْكُمْ فَرَحَ نَبِيِّكُمْ أَلَا إِنَّ ابْنَ عَمٍّ لِتَمِيمٍ الدَّارِيِّ أَخْبَرَنِي أَنَّ الرِّيحَ أَلْجَأَتْهُمْ إِلَى جَزِيرَةٍ لَا يَعْرِفُونَهَا فَقَعَدُوا فِي قَوَارِبِ السَّفِينَةِ فَخَرَجُوا فِيهَا فَإِذَا هُمْ بِشَيْءٍ أَهْدَبَ أَسْوَدَ قَالُوا لَهُ مَا أَنْتَ قَالَ أَنَا الْجَسَّاسَةُ قَالُوا أَخْبِرِينَا قَالَتْ مَا أَنَا بِمُخْبِرَتِكُمْ شَيْئًا وَلَا سَائِلَتِكُمْ وَلَكِنْ هَذَا الدَّيْرُ قَدْ رَمَقْتُمُوهُ فَأْتُوهُ فَإِنَّ فِيهِ رَجُلًا بِالْأَشْوَاقِ إِلَى أَنْ تُخْبِرُوهُ وَيُخْبِرَكُمْ فَأَتَوْهُ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَإِذَا هُمْ بِشَيْخٍ مُوثَقٍ شَدِيدِ الْوَثَاقِ يُظْهِرُ الْحُزْنَ شَدِيدِ التَّشَكِّي فَقَالَ لَهُمْ مِنْ أَيْنَ قَالُوا مِنْ الشَّامِ قَالَ مَا فَعَلَتْ الْعَرَبُ قَالُوا نَحْنُ قَوْمٌ مِنْ الْعَرَبِ عَمَّ تَسْأَلُ قَالَ مَا فَعَلَ هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي خَرَجَ فِيكُمْ قَالُوا خَيْرًا نَاوَى قَوْمًا فَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ فَأَمْرُهُمْ الْيَوْمَ جَمِيعٌ إِلَهُهُمْ وَاحِدٌ وَدِينُهُمْ وَاحِدٌ قَالَ مَا فَعَلَتْ عَيْنُ زُغَرَ قَالُوا خَيْرًا يَسْقُونَ مِنْهَا زُرُوعَهُمْ وَيَسْتَقُونَ مِنْهَا لِسَقْيِهِمْ قَالَ فَمَا فَعَلَ نَخْلٌ بَيْنَ عَمَّانَ وَبَيْسَانَ قَالُوا يُطْعِمُ ثَمَرَهُ كُلَّ عَامٍ قَالَ فَمَا فَعَلَتْ بُحَيْرَةُ الطَّبَرِيَّةِ قَالُوا تَدَفَّقُ جَنَبَاتُهَا مِنْ كَثْرَةِ الْمَاءِ قَالَ فَزَفَرَ ثَلَاثَ زَفَرَاتٍ ثُمَّ قَالَ لَوْ انْفَلَتُّ مِنْ وَثَاقِي هَذَا لَمْ أَدَعْ أَرْضًا إِلَّا وَطِئْتُهَا بِرِجْلَيَّ هَاتَيْنِ إِلَّا طَيْبَةَ لَيْسَ لِي عَلَيْهَا سَبِيلٌ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى هَذَا يَنْتَهِي فَرَحِي هَذِهِ طَيْبَةُ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا فِيهَا طَرِيقٌ ضَيِّقٌ وَلَا وَاسِعٌ وَلَا سَهْلٌ وَلَا جَبَلٌ إِلَّا وَعَلَيْهِ مَلَكٌ شَاهِرٌ سَيْفَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ
حکم : ضعيف السند، صحيح المتن دون الجمل: ” منعني القيلولة … نبيكم “، ” ما أنا … سائلتكم “، ” يظهر … التشكي “، ” بين عمان وبيسان “، ” فزفر ثلاث زفرات ”
حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک دن رسول اللہ ﷺ نماز ادا کرنے کے بعد منبر پر تشریف فرما ہوئے، حالانکہ اس سے پہلے آپ ﷺ صرف جمعہ کے دن (خطبہ جمعہ کے لئے) منبر پر تشریف رکھتے تھے۔ لوگوں کو اس سے پریشانی ہوئی۔ کوئی کھڑا تھا، کوئی بیٹھا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ہاتھ سے اشارہ فرمایا کہ بیٹھ جاؤ۔ (پھر فرمایا ) ‘‘اللہ کی قسم! اس جگہ میں کوئی ایسی ترغیب و ترہیب والی بات بتانے کھڑا نہیں ہوا جس سے تمہیں فائدہ ہو۔ لیکن میرے پاس تمیم داری آئے اور مجھے ایک خبر دی جس سے مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ مجھے دوپہر کو خوشی اور آنکھوں کی ٹھنڈک کی وجہ سے نیند نہیں ائی، اس لئے میں نے چاہا کہ تمہارے نبی کی خوشی سے تم سب کو آگا کر دوں۔ مجھے تمیم داری کے ایک چچازاد نے بتایا کہ (سمندری سفر کے دوران میں ) باد مخالف انہیں ایک غیر معروف جزیرے تک لے گئی۔ وہ جہاز کی کشتیوں میں بیٹھ کر جزیرے میں پہنچے۔ انہیں بڑی بڑی پلکوں والی ایک سیاہ فام چیز ملی۔ انہوں نے اسے کہا: تو کون ہے؟ اس نے کہا: میں جساسہ ہوں۔ انہوں نے کہا: ہمیں (وضاحت سے) بتا۔ اس نے کہا: میں نہ تمہیں کچھ بتاؤں گی، نہ تم سے کچھ پوچھوں گی۔ لیکن یہ مندر جو تمہیں نظر آرہا ہے، اس میں جاؤ۔ وہاں ایک آدمی ہے جس کی شدید خواہش ہے کہ تم اسے کچھ بتاؤ اور وہ تمہیں کچھ بتائے۔ وہ اس مندر میں گئے اور اس شکص کے پاس جا پہنچے، دیکھا تو ایک بڑی عمر کا آدمی ہے جو خوب جکڑا ہوا ہے۔ اس سے بہت رنج و غم ظاہر ہو رہا ہے، بہت ہائے وائے کر رہا ہے۔ اس نے ان سے کہا: کہاں سے آئے ہو؟ انہوں نے کہا: شام سے۔ اس نے کہا:عربوں کا کیا حال ہے؟ وہ بولے: ہم عرب کے لوگ ہیں، تو کس چیز کے بارے میں پوچھتا ہے؟ اس نے کہا: تمہارے اندر جو آدمی (نبی ﷺ) ظاہر ہوا ہے اس کا کیا حال ہے؟ وہ بولے: اچھا حال ہے۔ اس (نبی ﷺ) نے قوم کا مقابلہ کیا تو اللہ ن ے اسے قوم پر غلبہ عطا فرما دیا۔ اب وہ سب (اہل عرب) متحد ہیں۔ ان کا معبود بھی ایک ہے اور دین بھی ایک ہے۔ اس نے کہا: زُغُر چشمے کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: اچھا ہے۔ لوگ اس سے کھیتی کو پانی دیتے اور خود پینے کے لئے پانی بھرتے ہیں۔ اس نے کہا: بیسان اور عمان کے درمیان کے کھجوروں کے درختوں کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: ہر سال پھل دیتے ہیں۔ اس نے کہا: بحیرہ طبریہ کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: اس کا پنی اتنا زیادہ ہے کہ کناروں سے اچھلتا ہے۔ اس نے تین بار ٹھنڈی سانس لی، پھر بولا: اگر میں اس قید سے چھوٹ گیا تو زمین کا کوئی علاقہ نہیں رہے گا جس پر میرے یہ قدم نہ لگیں، سوائے طیبہ کے۔ اس پر میرا بس نہیں چلے گا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ‘‘یہ سن کر میری خوشی کی انتہا ہو گئی (بےحد خوشی ہوئی)۔ یہ (مدینہ منورہ ہی) طیبہ ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس کے ہر تنگ اور کھلے راستے پر، ہر میدان اور پہاڑ پر قیامت تک کے لئے فرشتے تلواریں سونتے کھڑے ہیں‘‘۔
جواب
یہ ابن ماجہ کی روایت ہے اس کی سند کو دجال کے حوالے سے عصر حاضر کے محققین شعیب و البانی رد کرتے ہیں
یہاں اس کا ترجمہ کیا گیا ہے
فَإِذَا هُمْ بِشَيْخٍ مُوثَقٍ شَدِيدِ الْوَثَاقِ
دیکھا تو ایک بڑی عمر کا آدمی ہے جو خوب جکڑا ہوا ہے
اور الفاظ
انہیں بڑی بڑی پلکوں والی ایک سیاہ فام چیز ملی۔ انہوں نے اسے کہا: تو کون ہے؟ اس نے کہا: میں جساسہ ہوں۔
سے دلیل لی جاتی ہے کہ جساسہ ایک عورت ہے
جبکہ صحیح مسلم میں جساسہ کو جانور اور دجال کو بھی بہت بالوں والا کہا گیا ہے یہاں تک کہ صحیح مسلم کے مطابق
فانطلقنا سراعا حتى دخلنا الدير فإذا فيه أعظم إنسان رأيناه قط
ہم جلدی سے اس گرجے میں پہنچے تو ہم نے ایک بڑا دیو ہیکل انسان دیکھا کہ اس سے قبل ہم نے ویسا کوئی انسان نہیں دیکھا تھا۔
ابن ماجہ کی روایت صحیح مسلم سے الگ ہے
اگر ان تمام احادیث کو جمع کیا جائے جن میں یہ بیان ہوا ہے کہ الدجال مکہ اور مدینہ میں داخل نہ ہو گا تو وہ احادیث یہ ہیں
پہلی حدیث
مسند احمد کی روایت ہے کہ عائشہ رضی الله تعالی عنہا نے کہا
الْحَرَمَانِ عَلَيْهِ حَرَامٌ مَكَّةُ، وَالْمَدِينَةُ
حرم مکہ و مدینہ، دجال پر حرام ہیں
اس کی سند میں الشعبي ہیں جن کا سماع عائشہ رضی الله عنہا سےثابت نہیں ہے
انہی سے مروی مسند احمد کی روایت ہے
لَا يَدْخُلُ الدَّجَّالُ مَكَّةَ وَلَا الْمَدِينَةَ
الدجال مکہ و مدینہ میں داخل نہ ہو گا
ان دونوں روایتوں کی اسناد میں الشعبي موجود ہیں
عامر بن شراحيل الشعبي کے لئے کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) میں لکھا ہے
وقال بن معين ما روى عن الشعبي عن عائشة مرسل
ابن معین کہتے ہیں جو الشعبي، عائشة سے روایت کرتے ہیں وہ سب مرسل ہے
دوسری حدیث
صحیح مسلم اور مسند احمد میں حدیث ہے جس میں أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنہ اور ابْنَ صَائِدٍ کی بحث نقل ہوئی ہے جس میں ابْنَ صَائِدٍ کہتا ہے کہ الدجال مکہ میں داخل نہ ہو گا- لیکن اس کی سند ہے
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا دَاوُدُ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ،
اس کی سند میں أَبُو نَضْرَةَ العَبْدِيُّ المُنْذِرُ بنُ مَالِكِ بنِ قُطَعَةَ ہیں
الذھبی سیر الاعلام میں لکھتے ہیں
وَقَالَ ابْنُ حِبَّانَ فِي (الثِّقَاتِ) : كَانَ مِمَّنْ يُخْطِئُ،
ابن حبان ثقات میں لکھتے ہیں یہ وہ ہیں جو غلطی کرتے ہیں
وَقَالَ ابْنُ سَعْدٍ : ثِقَةٌ، كَثِيْرُ الحَدِيْثِ، وَلَيْسَ كُلُّ أَحَدٍ يُحْتَجُّ بِهِ.
ابن سعد کہتے ہیں ثقہ ہیں کثیر الحدیث ہیں اور ہر ایک سے دلیل نہیں لی جا سکتی
تیسری حدیث
مسند احمد کی ہی روایت ہے کہ
حَدَّثَنَا بَهْزٌ، وَعَفَّانُ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ الله بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَجِيءُ الدَّجَّالُ فَيَطَأُ الْأَرْضَ إِلَّا مَكَّةَ وَالْمَدِينَةَ
حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ الله بْنِ أَبِي طَلْحَةَ سے وہ انس رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ الدجال ہر زمین پر جائے گا سوائے مکہ و مدینہ کے
بخاری میں بھی یہ إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ الله بْنِ أَبِي طَلْحَةَ کی سند سے نقل ہوئی ہے جس میں الفاظ ہیں ليس من بلد إلا سيطؤه الدجال، إلا مكة، والمدينة ایسا کوئی شہر نہیں جن میں دجال کا تسلط نہ ہو جائے سوائے مکہ و مدینہ کے
لیکن تسلط اور دخول الگ الگ چیزیں ہیں لہذا بخاری کی اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ دجال مکہ میں داخل نہ ہو گا کیونکہ بخاری کی حدیث میں ہے
حدثنا إبراهيم بن المنذر، حدثنا أبو ضمرة، حدثنا موسى، عن نافع، قال عبد الله: ذكر النبي صلى الله عليه وسلم، يوما بين ظهري الناس المسيح الدجال، فقال: ” إن الله ليس بأعور، ألا إن المسيح الدجال أعور العين اليمنى، كأن عينه عنبة طافية، وأراني الليلة عند الكعبة في المنام، فإذا رجل آدم، كأحسن ما يرى من أدم الرجال تضرب لمته بين منكبيه، رجل الشعر، يقطر رأسه ماء، واضعا يديه على منكبي رجلين وهو يطوف بالبيت، فقلت: من هذا؟ فقالوا: هذا المسيح ابن مريم، ثم رأيت رجلا وراءه جعدا قططا أعور العين اليمنى، كأشبه من رأيت بابن قطن، واضعا يديه على منكبي رجل يطوف بالبيت، فقلت: من هذا؟ قالوا: المسيح الدجال
عبد الله کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے ذکر کیا کہ خبر دار مسیح الدجال داہنی آنکھ سے کانا ہے جسے کہ پھولا انگور ہو اور رات کو اس کو مجھے دکھایا گیا نیند میں … وہ ابن قطن جیسا تھا اور آدمی کے کندھے پر ہاتھ رکھے کعبہ کا طواف کر رہا تھا میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ کہا مسیح الدجال
انبیا کا خواب وحی ہے – پس صحیح حدیث میں ہے کہ دجال مکہ میں آئے گا اور کعبہ کا طواف بھی کرے گا
اس روایت کو امام مالک بھی الموطا میں بیان کرتے ہیں
کتاب الكواكب الدراري في شرح صحيح البخاري از شمس الدين الكرماني (المتوفى: 786هـ) میں شارح کہتے ہیں
فإن قلت يحرم على الدجال دخول مكة قلنا إنما هو في زمن خروجه على الناس ودعواه الباطل وأيضاً لفظ الحديث أنه لا يدخل وليس فيه نفس الدخول في الماضي
اگر کہے کہ الدجال پر مکہ میں داخلے پر پابندی ہے تو ہم کہتے ہیں بے شک وہ پابندی اس کے لوگوں پر خروج کے دور میں ہے اور … حدیث کے الفاظ میں یہ شامل نہیں کہ ماضی میں بھی اس پر فی نفسہ داخلے پر پابندی ہو گی
حدیث میں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو دجال کی خبر سنے تو اس سے دور رہے کیونکہ وہ اگر اس کے پاس گیا تو اس کو مومن سمجھے گا
امام بخاری نے ایسی کوئی حدیث اپنی صحیح میں نہیں لکھی جس میں ان کا اشارہ ہو کہ الدجال یہودی ہوگا بلکہ انہوں نے جو احادیث پیش کی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ الدجال ایک مسلمان ہو گا جس کا دعوی الوہیت کی حدود پر ہو گا
وہ شہر جس میں دجال کا مکمل داخلہ بند ہو گا وہ مدینہ النبی صلی الله علیہ وسلم ہے
سنن الترمذی کی حدیث ہے البانی اس کو صحیح کہتے ہیں
حدثنا محمد بن بشار وأحمد بن منيع قالا حدثنا روح بن عبادة حدثنا سعيد ابن أبي عروبة عن أبي التياح عن المغيرة بن سبيع عن عمرو بن حريث عن أبي بكر الصديق قال حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم قال الدجال يخرج من أرض بالمشرق يقال لها خراسان يتبعه أقوام كأن وجوههم المجان المطرقة
ابو بکر رضی الله تعالی عنہ نے روایت کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الدجال مشرق کی زمین خراسان سے نکلے گا جس کے پیچھے قوم چلے گی جن کے چہرے چمکتی و دمکتی ڈھال جسے ہوں گے
خراسان سے مراد موجودہ پاکستان کا خیبر پختون خواہ ، افغانستان اور ایران کا اوپر کا علاقہ ہے
کتاب الضعفاء الكبير از عقیلی کے مطابق
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ قَالَ: لَمْ يَسْمَعِ ابْنُ أَبِي عَرُوبَةَ مِنْ أَبِي التَّيَّاحِ
ابن معین کہتے ہیں کہ ابن ابی عروبہ نے ابی التَّيَّاحِ سے کچھ نہیں سنا
لہذا یہ روایت مظبوط نہیں ہے
صحیح مسلم کی حدیث ہے
حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ أَبِي مُزَاحِمٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللهِ، عَنْ عَمِّهِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «يَتْبَعُ الدَّجَّالَ مِنْ يَهُودِ أَصْبَهَانَ، سَبْعُونَ أَلْفًا عَلَيْهِمُ الطَّيَالِسَةُ»
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الدجال کی اتباع اصفہان کے ستر
ہزار یہودی کریں گے جن پر الطَّيَالِسَةُ (ایک لباس) ہو گا
اصفہان خراسان میں نہیں بلکہ قدیم فارس میں ہے جو خراسان سے الگ علاقہ تھا
لیکن اس سے حتمی طور پر متعین نہیں ہوتا کہ دجال بھی اصفہان سے ہو گا یہ صرف اس کے مدد گار ہوں گے
ایک روایت ہے جو ابن عمر رضی الله عنہ سے مروی ہے جس میں ہے کہ
ان الْفِتْنَةَ تَجِيءُ مِنْ هَاهُنَا وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنَا الشَّيْطَانِ
یقیناً فتنہ یہاں سے آئے گا اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کیا جہاں سے شیطان کے سینگ طلوع ہوتے ہیں
ابن عمر سے ہی مروی دوسری روایت میں ہے
قَالَ: ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَامِنَا، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي يَمَنِنَا» قَالُوا: يَا رَسُولَ الله، وَفِي نَجْدِنَا؟ قَالَ: اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَامِنَا، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي يَمَنِنَا» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَفِي نَجْدِنَا؟ فَأَظُنُّهُ قَالَ فِي الثَّالِثَةِ: «هُنَاكَ الزَّلاَزِلُ وَالفِتَنُ، وَبِهَا يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ رواہ احمد ،بخاری،ترمذی
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یا اللہ ہمارے شام میں برکت عطا فرما- یا اللہ ہمارے لیے ہمارے یمن میں برکت عطا فرما – لوگوں نے کہا اور ہمارے نجد میں؟ آپ نے فرمایا: یا اللہ ہمارے شام میں برکت عطا فرما- یا اللہ ہمارے یمن میں برکت عطا فرما- لوگوں نے کہا یا رسول اللہ اور ہمارے نجد میں؟ میرا خیال ہے کہ شاید آپ نے تیسری بار فرمایا کہ وہاں زلزلے ہوں گے اور فتنے ہوں گے اور وہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہوگا۔
نجد مدینہ کے مشرق میں ہے لہذا یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اسی علاقے کو کہا گیا ہے جو عرب میں نجد کے نام سے معروف ہے
اس کے علاوہ مسند احمد کی روایت ہے
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا حَنْظَلَةُ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ الله بْنِ عُمَرَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يُشِيرُ بِيَدِهِ يَؤُمُّ الْعِرَاقَ: “هَا، إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا، هَا، إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا، – ثَلَاثَ مَرَّاتٍ مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ
ابن عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو عراق کی طرف اشارہ کرتے دیکھا، کہا ادھر فتنہ ہے، وہاں، ادھر فتنہ ہے – تین دفعہ کہا- جہاں سے شیطان کا شینگ طلوع ہوتا ہے
عراق مدینہ کے شمال میں ہے نہ کہ مشرق میں- زمین کے جغرافیہ سے لا علم بعض مفتیوں نے نجد اور عراق کو ایک کر دیا ہے حالانکہ نبی صلی الله علیہ وسلم خود ایک تاجر تھے اور شام کا سفر بھی کر چکے تھے- سفر میں سمت اور جہت بہت اہم چیز ہوتی ہے- لہٰذا نجد کا مشرق میں ہونا جانتے تھے اور عراق کا شمال میں ہونا بھی جانتے تھے – اس بنیادی فرق کی بنا پر ان روایات میں ایک ہی طرح تطبیق ممکن ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے عراق اور نجد دونوں کے لئے کہا کہ وہاں فتنہ ہو گا- لہذا مدینہ کے مشرق میں نجد میں اور عراق دونوں میں فتنوں کا واقع ہونا بتایا گیا ہے
جواب
ابو داود میں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ قُرَّةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا فَسَدَ أَهْلُ الشَّامِ فَلَا خَيْرَ فِيكُمْ، لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي مَنْصُورِينَ لَا يَضُرُّهُمُ مَنْ خَذَلَهُمْ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ
ترمذی میں اس کی سند ہے
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا فَسَدَ أَهْلُ الشَّامِ فَلاَ خَيْرَ فِيكُمْ، لاَ تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي مَنْصُورِينَ لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ
اس کی تمام اسناد میں قرہ بن آیاس ہیں
کتاب جامع التحصیل از العلائی کے مطابق
قرة بن إياس والد معاوية بن قرة أنكر شعبة أن يكون له صحبة والجمهور أثبتوا له الصحبة والرواية
قرة بن إياس ….. شعبہ نے انکار کیا ہے کہ یہ صحابی تھے اور جمہور کہتے ہیں کہ ثابت ہے کہ صحابی ہیں
امام شعبہ کی اس رائے کی وجہ احمد العلل میں بتاتے ہیں
قال عبد الله بن أحمد: حدثني أبي. قال: حدَّثنا سليمان ابو داود، عن شعبة، عن معاوية -يعني ابن قرة – قال: كان أبي يحدثنا عن النبي – صلى الله عليه وسلم -، فلا أدري سمع منه، أو حدث عنه
عبد الله بن احمد اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ سلیمان نے شعبہ ہے انہوں نے معاویہ سے روایت کیا کہ
میرے باپ قرہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے تھے پس میں نہیں جانتا کہ انہوں نے سنا تھا یا صرف ان
کی بات بیان کرتے تھے
جب معاویہ بن قرہ کو خود ہی شک ہو کہ باپ نے واقعی رسول الله سے سنا بھی تھا یا نہیں تو آج ہم اس کو کیسے قبول کر لیں؟
لہذا روایت ضعیف ہے
جواب
قحطان کا قبیلہ عربوں کا قدیم یمنی قبیلہ ہے جرھم کے لوگ اسی قبیلے سے نکلے تھے جن کا ایک پڑاؤ مکہ میں ہوا اور جرھم کی ایک خاتون سے اسمعیل علیہ السلام کا نکاح ہوا اس سے قریش نکلے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ بارہ خلفاء قریش میں سے ہوں گے
اس کے علاوہ بعض روایات میں ہے کہ قحطان کا کوئی شخص بھی عمل دار ہو گا- روایت سرسری سی ہے اور اغلبا راوی مبہم انداز میں کہنا چاہتا ہے کہ خلافت قریش سے نکل کر قحطان میں چلی جائے گی – یہ گمان بعض قحطان مخالف راویوں کو ہوا جب قحطان کی اکثریت علی رضی الله عنہ کے کیمپ میں شامل ہوئی اور ان کے ساتھ جنگ جمل اور صفین میں لڑی اور لگنے لگا کہ قحطان سے خلیفہ ہو جائے گا- بعض قحطانیوں نے اختلاف کیا اور بالاخر ایک قحطانی عبد الرحمن ابن ملجم بن عمرو نے علی رضی الله عنہ کا قتل کیا
بعض محدثین اس روایت کی علتوں کو بھانپ نہ سکے اور یہ روایت متفق علیہ بن گئی
صحيح بخاري كي روایت ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي الغَيْثِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ، حَتَّى يَخْرُجَ رَجُلٌ مِنْ قَحْطَانَ، يَسُوقُ النَّاسَ بِعَصَاهُ»
صحیح مسلم کی سند ہے
وَحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي الْغَيْثِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَخْرُجَ رَجُلٌ مِنْ قَحْطَانَ يَسُوقُ النَّاسَ بِعَصَاهُ»
سالم أَبِي الغَيْثِ ، ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک قحطان قبیلے کا ایک شخص نہ نکلے جو لوگوں کو اپنی چھڑی سے ہانکے گا.
موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله کے مطابق امام احمد کہتے ہیں
سالم، أبو الغيث المدني، مولى عبد الله بن مطيع. قال أبو الحسن الميموني، عن أحمد بن حنبل، وسألته عن أبي الغيث، الذي يروي، عن أبي هريرة. فقال: لا أعلم أحداً روى عنه إلا ثور، وأحاديثه متقاربة
سالم، أبو الغيث المدني، مولى عبد الله بن مطيع. أبو الحسن الميموني نے کہا امام احمد سے اس پر سوال کیا تو انہوں نے کہا اس سے سوائے ثور کوئی اور روایت نہیں کرتا اس کی احادیث سرسری یا واجبی سی ہیں
مقارب الحدیث یا وأحاديثه متقاربة اس وقت بولا جاتا ہے جب راوی بہت مشھور نہ ہو اور اس کی مرویات میں کوئی خاص بات نہ ہو بلکہ واجبی سی ہوں
مغلطاي کتاب إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال میں کہتے ہیں
وقال أحمد بن حنبل: أبو الغيث سالم- الذي يروي عنه ثور ثقة، وقال: وقال مرة أخرى: ليس بثقة.
امام احمد نے کہا أبو الغيث سالم جس سے ثور روایت کرتا ہے ثقہ ہے اور دوسری دفعہ کہا ثقہ نہیں ہے
میزان الآعتدال از الذھبی کے مطابق ابن معین نے بھی اسکو ثقہ اور پھر غیر ثقہ کہا
لہذا یہ راوی مشتبہ ہو گیا اور روایت اس سند سے ضروری نہیں صحیح ہو
كتاب الفتن از ابو نعیم کی روایت ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ ثَوْرٍ، وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ أَوْسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: وَجَدْتُ فِي بَعْضِ الْكُتُبِ: يَوْمَ غَزَوْنَا يَوْمَ الْيَرْمُوكِ «أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ أَصَبْتُمُ اسْمَهُ، عُمَرُ الْفَارُوقُ قَرْنٌ مِنْ حَدِيدٍ أَصَبْتُمُ اسْمَهُ، عُثْمَانُ ذُو النُّورَيْنِ أُوتِيَ كِفْلَيْنِ مِنَ الرَّحْمَةِ لِأَنَّهُ قُتِلَ مَظْلُومًا أَصَبْتُمُ اسْمَهُ، ثُمَّ يَكُونُ سَفَّاحٌ، ثُمَّ يَكُونُ مَنْصُورٌ، ثُمَّ يَكُونُ مَهْدِيُّ، ثُمَّ يَكُونُ الْأَمِينُ، ثُمَّ يَكُونُ سِينٌ وَسَلَامٌ، يَعْنِي صَلَاحًا وَعَافِيَةً، ثُمَّ يَكُونُ أَمِيرُ الْغَضَبِ، سِتَّةٌ مِنْهُمْ مِنْ وَلَدِ كَعْبِ بْنِ لُؤَيٍّ، وَرَجُلٌ مِنْ قَحْطَانَ، كُلُّهُمْ صَالِحٌ لَا يُرَى مِثْلُهُ»
عُقْبَةَ بْنِ أَوْسٍ، عبد الله بن عمرو سے روایت کرتا ہے کہ میں نے بعض کتب میں پایا جنگ یرموک کے دن …. قحطان کا آدمی یہ سب صالح ہیں ان سا کوئی نہیں
سؤالات ابن الجنيد لأبي زكريا يحيى بن معين کے مطابق
قال ابن الغلابي: يزعمون أن عقبة بن أوس السدوسي لم يسمع من عبد الله بن عمرو
ابن الغلابي کہتے ہیں (محدثین) دعوی کرتے ہیں کہ عقبہ نے عبد الله بن عمرو سے نہیں سنا
مسند احمد اور صحیح بخاری کی روایت ہے
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، يُحَدِّثُ أَنَّهُ بَلَغَ مُعَاوِيَةَ وَهُوَ عِنْدَهُ فِي وَفْدٍ مِنْ قُرَيْشٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ يُحَدِّثُ أَنَّهُ سَيَكُونُ مَلِكٌ مِنْ قَحْطَانَ، فَغَضِبَ مُعَاوِيَةُ، فَقَامَ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّ [ص:65] رِجَالًا مِنْكُمْ يُحَدِّثُونَ أَحَادِيثَ لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ، وَلَا تُؤْثَرُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أُولَئِكَ جُهَّالُكُمْ، فَإِيَّاكُمْ وَالْأَمَانِيَّ الَّتِي تُضِلُّ أَهْلَهَا، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ هَذَا الْأَمْرَ فِي قُرَيْشٍ، لَا يُنَازِعُهُمْ أَحَدٌ إِلَّا أَكَبَّهُ اللَّهُ عَلَى وَجْهِهِ، مَا أَقَامُوا الدِّينَ»
امام الزُّهْرِيِّ کہتے ہیں کہ مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ نے بتایا کہ وہ معاویہ کے پاس پہنچے اور وہ ایک قریشی وفد کے ساتھ تھے – عبد الله بن عمرو نے کہا کہ عنقریب بادشاہت قحطان میں سے ہو گی اس پر معاویہ غضب ناک ہوئے اور کہا الله کی حمد کی جس کا وہ اہل ہے پھر کہا پس مجھے پہنچا ہے کہ تم میں سے بعض مرد ایسی احادیث بیان کرتے ہو جو کتاب الله میں نہیں ہیں نہ ہی اثر میں ہیں جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ملا ، یہ لوگ تمہارے جاہل ہیں ان سے بچو اور انکی خواہشات سے جس سے گمراہ ہوئے پس میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے انہوں نے کہا یہ امر قریش میں رہے گا اس میں کسی کا جھگڑا نہ ہو گا سواۓ اس کے کہ وہ اوندھآ ہو جائے گا اپنے چہرے پر – جب تک یہ دین قائم کریں
اسکی سند میں بِشْرُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ ہے جو اپنے باپ سے روایت کر رہا ہے محدثین کا اس پر اختلاف ہے کہ اس نے اپنے باپ سے سنا یا نہیں- امام یحیی ابن معین اور امام احمد کے مطابق نہیں سنا- یعنی مسند احمد کی یہ روایت خود امام احمد کے نزدیک منقطع ہے لیکن امام بخاری نے اس کو متصل سمجھ لیا ہے
صحیح بخاری کی سند ہے
حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، يُحَدِّثُ
اسکی سند میں أبو اليمان الحكم بن نافع البهرانى الحمصى جو شُعَيْبِ بنِ أَبِي حَمْزَةَ سے روایت کر رہے ہیں جن کے لئے الذھبی کتاب سير أعلام النبلاء میں لکھتے ہیں
سَعِيْدُ بنُ عَمْرٍو البَرْذَعِيُّ: عَنْ أَبِي زُرْعَةَ الرَّازِيِّ، قَالَ: لَمْ يَسْمَعْ أَبُو اليَمَانِ مِنْ شُعَيْبٍ إِلاَّ حَدِيْثاً وَاحِداً، وَالبَاقِي إِجَازَةً
سَعِيْدُ بنُ عَمْرٍو البَرْذَعِيُّ نے أَبِي زُرْعَةَ الرَّازِيِّ سے روایت کیا انہوں نے کہا ابو اليَمَانِ نے شُعَيْبٍ سے صرف ایک ہی حدیث روایت کی اور باقی اجازہ ہے
تهذيب الكمال کے مطابق احمد کہتے ہیں
فَكَانَ وَلَدُ شُعَيْبٍ يَقُوْلُ: إِنَّ أَبَا اليَمَانِ جَاءنِي، فَأَخَذَ كُتُبَ شُعَيْبٍ مِنِّي بَعْدُ، وَهُوَ يَقُوْلُ: أَخْبَرَنَا. فَكَأَنَّهُ اسْتَحَلَّ ذَلِكَ، بِأَنْ سَمِعَ شُعَيْباً يَقُوْلُ لِقَوْمٍ: ارْوُوْهُ عَنِّي.
قَالَ إِبْرَاهِيْمُ بنُ دَيْزِيْلَ: سَمِعْتُ أَبَا اليَمَانِ يَقُوْلُ: قَالَ لِي أَحْمَدُ بنُ حَنْبَلٍ: كَيْفَ سَمِعْتَ الكُتُبَ مِنْ شُعَيْبٍ؟ قُلْتُ: قَرَأْتُ عَلَيْهِ بَعْضَهُ، وَبَعْضُهُ قَرَأَهُ عَلَيَّ، وَبَعْضُهُ أَجَازَ لِي، وَبَعْضُهُ مُنَاوَلَةً. قَالَ: فَقَالَ فِي كُلِّهِ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ
شُعَيْبٍ کے بیٹے کہتے تھے کہ أَبَا اليَمَانِ میرے پاس آیا اور مجھ سے والد کی کتب لیں اور کہنے لگا اخبرنا! پس اس نے اس کو جائز سمجھا اور میرے والد ایک قوم سے کہتے یہ مجھ سے روایت (کیسے) کرتا ہے
إِبْرَاهِيْمُ بنُ دَيْزِيْلَ نے کہا میں نے أَبَا اليَمَانِ کو کہتے سنا وہ کہتے مجھ سے امام احمد نے کہا تم شُعَيْبٍ سے کتاب کیسے سنتے ہو ؟ میں نے کہا بعض میں اس پر پڑھتا ہوں اور بعض وہ مجھ کو سناتا ہے اور بعض کی اس نے اجازت دی اور بعض کا مناولہ کہا میں نے اس سب پر کہا اخبرنا شُعَيْبٌ
یعنی أَبَا اليَمَانِ الحكم بن نافع اس کا کھلم کھلا اقرار کرتے تھے کہ ہر بات جس پر وہ اخبرنا شُعَيْبٌ کہتے ہیں اس میں سے ہر حدیث ان کی سنی ہوئی نہیں ہے
حدیث منکر ہے خلافت قریش سے نکل کر منگول اور ترکوں میں چلی گئی اور قحطانیوں کو نہ ملی جیسا کہ گمان تھا
امام احمد ، امام بخاری و مسلم کے دور میں خلافت عباسیوں یعنی قریشیوں کے پاس ہی تھی ان کو نہیں پتا تھا کہ سینٹرل ایشیا کی اقوام کو منتقل ہو جائے گی
الذھبی سیر الاعلام النبلاء ج ١٠ ص ٦٠٥ میں اس روایت کے تحت لکھتے ہیں
وَرَوَاهُ: شُعْبَةُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، فَقَالَ: كَانَ مُحَمَّدُ بنُ جُبَيْرٍ يُحَدِّثُ عَنْ مُعَاوِيَةَ، عَنِ النَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فِي الأُمَرَاءِ، فَقَالَ صَالِحٌ جَزَرَةُ، وَالزُّهْرِيُّ: إِذَا قَالَ: كَانَ فُلاَنٌ يُحَدِّثُ، فَلَيْسَ هُوَ بِسَمَاعٍ.
امام شُعْبَةُ، امام الزُّهْرِيِّ سے روایت کرتے ہیں کہ محمد بن جبیر ، معاویہ رضی الله عنہ سے روایت کرتا ہے وہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے امراء کے بارے میں (رجل قحطانی والی روایت) اس پر صالح جَزَرَةُ اور الزہری نے کہا جب یہ روایت کرے کہ فلاں نے بیان کیا تو سمجھ لو سماع نہیں ہے
الذھبی مزید کہتے ہیں
قُلْتُ: خَبَرُ الأُمَرَاءِ غَرِيْبٌ، مُنْكَرٌ، وَالأَمْرُ اليَوْمَ لَيْسَ فِي قُرَيْشٍ
میں کہتا ہوں الأُمَرَاءِ والی خبر منکر ہے اور آج امر (خلافت) قریش کے پاس نہیں ہے
جواب
مسند احمد مستدرک الحاکم کی روایت ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ” يَخْرُجُ الدَّجَّالُ فِي خَفْقَةٍ مِنَ الدِّينِ، وَإِدْبَارٍ مِنَ الْعِلْمِ، فَلَهُ أَرْبَعُونَ لَيْلَةً يَسِيحُهَا فِي الْأَرْضِ، الْيَوْمُ مِنْهَا كَالسَّنَةِ، وَالْيَوْمُ مِنْهَا كَالشَّهْرِ، وَالْيَوْمُ مِنْهَا كَالْجُمُعَةِ، ثُمَّ سَائِرُ أَيَّامِهِ كَأَيَّامِكُمْ هَذِهِ، وَلَهُ حِمَارٌ يَرْكَبُهُ عَرْضُ مَا بَيْنَ أُذُنَيْهِ أَرْبَعُونَ ذِرَاعًا
ابی زبیر المکی ، جابر رضی الله عنہ سے روایت کرتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا دجال نکلے گا جب دین کمزور ہو گا اور علم اٹھا ہو گا پس دجال کے لئے چالیس دن ہوں گے جس میں زمین کی سیر کرے ایک دن سال جیسا ہو گا ایک دن ایک ماہ جیسا اور ایک دن جمعہ جیسا اور باقی دن عام دنوں جیسے اور اس کا ایک گدھا ہو گا جس کی یہ سواری کرے گا اس کے دو کانوں کے درمیان کی چوڑائی چالیس بازو ہو گی
شعيب الأرنؤوط اور الذهبي کہتے ہیں اس کی اسناد مسلم کی شرط پر ہیں
امام حاکم صحیح سمجھتے ہیں اور البانی ضعیف کہتے ہیں
لیکن روایت ابی زبیر مدلس سے ہے اور انکی وہی روایت لی جاتی ہے جو لیث بن سعد کے طرق سے ہوں البتہ امام مسلم نے اس اصول سے اختلاف کیا ہے اور اسی سند سے روایت صحیح مسلم میں ہے جہاں متن میں گدھے کا ذکر نہیں ہے
اس روایت میں منفرد بات دجال کا گدھا ہے جو اصل میں یہود کے انبیاء کی کتاب زکریا سے لیا گیا ہے جس کے مطابق
مسیح ایک گدھے پر سوار ہو کر یروشلم آئے گا اور ایسا عیسیٰ علیہ السلام کے لئے انجیل میں ہےکہ وہ گدھے پر سوار ہو کر گلیل سے یروشلم میں داخل ہوئے یہ عسائیوں کے ہاں دلیل ہے کہ عیسیٰ مسیح تھے البتہ یہود کے مطابق یہ پیشنگوئی پوری ہونا باقی ہے
اس روایت میں دجال کے اوپر اس قول کو ثبت کیا گیا ہے جو محل نظر ہے یہود کے انبیا کی کتب میں تضاد ہے بعض میں ہے مسیح گھوڑے پر آئے گا اور بعض میں ہے گدھے پر آئے گا یہ اہل کتاب کے تضادات ہیں جن کا حل ان کے پاس نہیں ہے
چھٹی صدی کے حنبلی عالم عبد الغني المقدسي الدمشقي الحنبلي، أبو محمد، تقي الدين (المتوفى: 600هـ) نے کتاب أخبار الدجال میں روایت پیش کی اور اس کو صحیح کہا
أحمد بن حنبل ثنا محمد بن جعفر نا شعبة عن قتادة سمعت أبا الطفيل قال مررت على حذيفة بن أسيد فقلت ما يقعدك وقد خرج الدجال قال اقعد فذكر الحديث وقال فيه ثلاث علامات أنه أعور وربكم ليس بأعور ولا يسخر [ص:14] له من الدواب إلا حمار رجس على رجس مكتوب بين عينيه كافر يقرأه كل مؤمن كاتب أو غير كاتب
صحيح.
أبا الطفيل کہتے ہیں میں حذیفہ رضی الله عنہ کے پاس سے گزرا میں نے ان سے کہا آپ بیٹھے کیوں ہیں اور دجال نکلے گا انہوں نے کہا یہاں بیٹھو اور تین علامات ذکر کیں کہ وہ کانا ہے اور تمہارا رب کانا نہیں اور وہ جونوروں میں کسی پر مسخر نہ ہو پائے گا سوائے گدھے کے گندگی میں گندگی اور اس کی آنکھوں کے بیچ کافر لکھا ہو گا جس کو ہر مومن پڑھے گا چاہے لکھتا ہو یا نہ لکھتا ہو
روايت صحیح نہیں ہے کیونکہ ابو طفیل خود صحابی نہیں مختلف فیہ ہے اور یہ مختار ثقفی کے ساتھی بن کر ہلاک ہوئے
گدھے کا ذکر اس روایت میں رجس من رجس سے کیا گیا ہے لہذا متن منکر ہے
جواب
اس میں بعض روایات لوگوں نے بیان کی ہیں
والذي نفسي بيدِه ، ليُوشكنَّ أن ينزلَ فيكم ابنُ مريمَ حكمًا مقسطًا ، فيكسرُ الصليبَ ، ويقتلُ الخنزيرَ ، ويضعُ الجزيةَ ، ويفيضُ المالُ حتى لا يقبلَه أحدٌ(صحيح البخاري: 2222
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے ہاتھـ میں میری جان ہے، عنقریب تمہارے مابین عیسی بن مریم حاکم وعادل بن کر نزول فرمائیں گے، صلیب توڑیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ ختم کریں گے، اور مال کی اتنی فراوانی ہوگی کہ کوئی لینے والا نہ ہوگا۔
اس سے بعض لوگوں نے استنباط کیا ہے کہ وہ نبی نہیں حاکم ہوں گے حالانکہ یہ دو الگ باتیں ہیں نبی ہونا ایک وھبی چیز ہے جو کسب سے حاصل نہیں ہوتی جبکہ حاکم وہی بنتا ہے جس کی شخصیت پر لوگ جمع ہوں
مسند احمد کی حدیث ہے
والذي نفسي بيده لو أن موسى صلى الله عليه وسلم كان حيا ما وسعه إلا أن يتبعني(رواه أحمد 3/387
نبی صلی الله علیہ فرمان ہے : قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اگر موسی بھی زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوتا۔
یہ روایت مُجَالِدٌ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ کی سند سے کتابوں میں ہے اور اس میں مجالد بن سعید کا تفرد ہے جو ایک ضعیف راوی ہے
اس روایت کا مکمل متن منکر ہے اور اس میں توریت پڑھنے سے عمر رضی الله عنہ کو منع کیا گیا ہے جبکہ قرآن میں اہل ذکر سے سوال کا حکم ہے تو توریت پڑھنے سے منع کرنا کیسے حدیث نبوی ہو سکتا ہے ؟
ابن حبان جیسے متساہل محدث جو بہت فراغ دل ہیں کہتے ہیں : كان رديء الحفظ يقلب الأسانيد ويرفع یہ ردی حافظہ رکھتا تھا اور اسناد کو بدلتا اور ان کو بلند کر تا تھا
یعنی جس سے سنا نہ ہو اس تک لے جاتا
ایک اور روایت پیش کی جاتی ہے
حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا المُقْرِئُ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ مِشْرَحِ بْنِ هَاعَانَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لو كانَ بَعدي نبيٌّ لَكانَ عُمَرُ بنُ الخطَّابِ(صحيح الترمذي: 3686
نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمربن خطاب ہوتاے
اس سے دلیل لی جاتی ہے کہ رسول الله کے بعد اگر نبی ہوتے تو عیسی بن مریم نہیں بلکہ عمربن خطاب ہوتا۔
اس کو ایک راوی مشرح بن هاعان بیان کرتا ہے ابن حبان کہتے ہیں يروي عن عقبة مناكير لا يتابع عليها.عقبہ بن عامر سے روایات نقل کرتا ہے جن کی متابعت کوئی نہیں کرتا – ابن الجوزي کہتے ہیں لا يحتج به نا قابل دلیل ہے
یہ ان کے دلائل ہیں جو انتہائی کمزور ہیں – اور جو صحیح سند سے ہیں ان میں کسی میں نہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام نبی نہ رہیں گے
عیسیٰ علیہ السلام کو جنت میں اور دیگر انبیا کو بھی جنت میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ملوایا گیا ہر دفعہ تعارف میں نبی بتایا گیا
الله تعالی نے ازل میں انبیاء سے میثاق لے لیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی مدد کریں گے یہ سب اسی کے تحت ہو گا اور کسی کی نبوت معطل نہیں ہو گی
جواب
دجال کا خروج اور اس کے اعمال کا تعلق فتن و آثار قیامت سے ہے جس میں غیر معمولی واقعات ہوں گے اس بنا پر اس سے متعلق بہت سی متضاد روایات ہماری کتب میں ہیں کیونکہ بات جب ترغیب و ترھیب کی ہو یا فضائل انبیاء کی ہو تو اس میں حسن روایت بھی صحیح سمجھی گئی ہے اس کی مثال صحیح مسلم میں دجال کی وہ روایات ہیں جو صحیح بخاری میں نہیں ہیں
صحیح مسلم کی تمیم داری والی روایت صحیح نہیں معلول ہے
⇓ حدیث میں آتا ہے کہ الدجال مدینہ کے مشرق میں کسی جزیرے میں قید ہے کیا یہ حدیث صحیح ہے
https://www.islamic-belief.net/q-a/فتن-و-آثار/
ابن صیاد ایک نو مسلم تھا جس کی ماں یہودی تھیں پھر ایمان لے آئیں لیکن ابن صیاد پر کہانت کا اثر تھا اس کے پاس شیاطین اتے تھے جو اس کو عالم بالا کی خبریں دیتے اس میں اس کو جنت کی خبر تھی کہ اس کی مٹی سفید ہے اور یہ شیطان جنت سے نکلنے سے پہلے دیکھ چکا ہے
اس کی والدہ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو اپنے بیٹے کا حال بتایا اور اس کی اس کیفیت کا راز جاننے کے لئے رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس سے ملنے گئے
اگر رسول الله نعوذ باللہ ایک جھوٹے نبی ہوتے تو اس کا خفیہ قتل کرا دیتے لیکن ملحدین کو یہ نظر نہیں آیا
———— ابن صیاد جب بچہ تھا—————-
ابن صیاد جب بچہ تھا تو اس میں بچپنا بھی تھا مثلا اس کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے انصار کے قبیلہ بني مَغَالَة کے بچوں کے ساتھ کھیلتے دیکھا تو اس سے کہا
حرملہ بن یحیی بن عبد اللہ بن حرملہ بن عمران تجیبی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سالم بن عبد اللہؓ، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک جماعت میں ابن صیاد کی طرف نکلے یہاں تک کہ اسے بنی مغالہ کے مکانوں کے پاس بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے پایا اور ابن صیاد ان دنوں قریب البلوغ تھا اور اسے کچھ معلوم نہ ہو سکا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس کی کمر پر ضرب ماری، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن صیاد سے فرمایا: کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ ابن صیاد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھ کر کہا کہ: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم امیوں کے رسول ہیں! پھر ابن صیاد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: کیا آپؐ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوڑ دیا
ظاہر ہے کہ ایک بچہ ایسی بات بول سکتا ہے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بھی اس کو اسی طرح لیا
اس نے لیکن کہا کہ اس پر القا ہوتا ہے جس میں اسکو خبر ملتی ہے
واضح رہے کہ کسی حدیث میں نہیں کہ ابن صیاد کو دجال سمجھتے ہوئے مدینہ کے مسلمان بچوں نے اس کے ساتھ کھیلنا ترک کر دیا یا مسلمانوں نے اپنے بچوں کو اس کے پاس جانے سے منع کیا
نووی کتاب تهذيب الأسماء واللغات میں اس پر لکھتے ہیں
وكان عنده كهانة. قال: ومات بالمدينة فى الأكثر، وقيل: فُقد يوم الحرة فلم يُوجد، وكانت الحرة فى زمن يزيد سنة ثلاث وستين
اور ان کے پاس کہانت تھی اور یہ مدینہ میں مرے اور کہا جاتا ہے حرہ کے دن یزید کے دور میں سن ٦٣ ھ میں کسی کو نہ ملے
لیکن یہ صیغہ تمریض ہے جس میں سند نہیں ہے لہٰذا مطلقا کسی نے نہیں کہا کہ یہی دجال تھے
کیونکہ دجال کا قتل عیسیٰ کے ہاتھوں ہے
سنن ابو داود کی حدیث ہے
حدَّثنا أحمدُ بنُ إبراهيم، حدَّثنا عُبيدُ الله -يعني ابن موسى- حدَّثنا شيبانُ، عن الأعمش، عن سالمٍ عن جابر، قال: فَقَدنا ابنَ صيَّاد يومَ الحرَّة
الأعمش نے سالم ابن أبي الجعد سے روایت کیا کہ ابن صیاد حرہ کے دن ہم سے کھو گیا
یہ روایت راقم کے نزدیک ضعیف ہے الأعمش مدلس عن سے روایت کرتا ہے
سالم بن أبي الجعد بھی مدلس ہے عن سے روایت کرتا ہے
كوثَر المَعَاني الدَّرَارِي في كَشْفِ خَبَايا صَحِيحْ البُخَاري از الشنقيطي
قَالَ الْخَطَّابِيِّ: اخْتَلَفَ السَّلَفُ فِي أَمْرِ ابْنِ صَيَّادٍ بَعْدَ كِبَرِهِ فَرُوِيَ أَنَّهُ تَابَ مِنْ ذَلِكَ الْقَوْلِ وَمَاتَ بِالْمَدِينَةِ، وَأَنَّهُمْ لَمَّا أَرَادُوا الصَّلَاةَ عَلَيْهِ كَشَفُوا وَجْهَهُ حَتَّى يَرَاهُ النَّاسُ وَقِيلَ لَهُمْ: اشْهَدُوا.
الْخَطَّابِيِّ کہتے ہیں سلف کا ابن صیاد کے امر پر اختلاف ہے پس روایت کیا جاتا ہے کہ اس نے اپنے اقوال سے توبہ لر لی تھی مدینہ میں مرے اور جب ان کی نماز جنازہ پڑھی گئی تو چہرہ کھول کر لوگوں کو دکھایا گیا
یعنی لوگوں پر واضح کیا گیا کہ ان کا جنازہ ہوا
———— ابن صیاد جب جوان ہوا تو رسول الله کی وفات ہو چکی تھی———–
ابن صیاد کی شادی بھی ہوئی اور اولاد بھی کسی روایت میں نہیں کہ اس کو دجال سمجھتے ہوئے مسلمانوں نے اس کو بیٹی دینے سے انکار کیا
بلکہ اس کی اولاد موطا امام مالک میں راوی ہے
عمارة ابن عبد الله ابن صياد اس کے بیٹے ہیں اور مدینہ کے فقہا میں سے ہیں
الإصابة في تمييز الصحابة از ابن حجر کے مطابق
وكان من خيار المسلمين من أصحاب سعيد بن المسيّب
ابن صیاد کے بیٹے اچھے مسلمانوں میں سے تھے سعید بن المسیب کے ساتھیوں میں سے
تاریخ زبیر بن بکار کے مطابق عمارة ابن عبد الله ابن صياد خلیفہ الولید بن عبد الملک کے دور تک زندہ تھے
یعنی ابن صیاد پر جو بھی شک ہو وہ صرف اس تک محدود تھا
ابن صیاد نے حج بھی کیا لیکن اس کی اس مخصوص کیفیت کی وجہ سے اصحاب رسول کو اس سے کراہت ہوتی تھی
ابن صیاد خود کہتا تھا يقولون إني الدجال. والدجال كافر
یہ مجھے دجال کہتے ہیں جبکہ وہ کافر ہے
ابن صیاد کے حوالے سے یہ سب مسائل اس وقت پیدا ہوئے جب مدینہ میں ایک عورت نے اس کو جنا اور یہ پیدائشی کانا تھا (مسند احمد) لہذا اس کا سنتے ہی اغلبا لوگوں کو دجال کا خیال آیا
اس کا امر مشتبہ ہوا جب اس نے اپنے اوپر القا ہونے کا دعوی بھی کر دیا اس طرح دجال کی جو نشانیاں تھیں وہ اس میں جمع ہونا شروع ہوئیں اور اسی وجہ سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس سے سوال جواب کیا
طبقات ابن سعد کے مطابق وغزا مع المسلمين ابن صیاد نے مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں حصہ بھی لیا اگر تمام اصحاب رسول اس کو دجال ہی سمجھتے تو اس کو جہاد میں شامل ہی نہ کرتے
لیکن جیسا ہم نے لکھا ابن صیاد خود ایسی بآتیں کرتا جس سے لوگوں کو اس پر شک ہوتا اور ختم ہوتا مثلا ابو سعید الخدری رضی الله عنہ سے اس نے کہا
ألستم أعلم الناس بحديث رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ألم يقل رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إنه عقيم لا يولد له، وقد خلفت ولدي بالمدينة؟ ألم يقل رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إنه لا يدخل مكة ولا المدينة؟ ألست من أهل المدينة، وأنا هوذا أنطلق إِلَى مكة؟ قال: فوالله ما زال يجيء بهذا حتى قلت فلعله مكذوب عليه، ثم قال: يا أبا سَعِيد، والله لأخبرنك خبرًا حقًا، والله إني لأعرفه وأعرف والده، وأين هو الساعة من الأرض، فقلت: تبا لك سائر اليوم.
رسول الله نے فرمایا دجال بے اولاد ہو گا جبکہ میری اولاد ہے
انہوں نے بتایا وہ مدینہ میں داخل نہ ہو گا جبکہ میں مدینہ میں ہوں اور مکہ جا رہا ہوں
اے ابو سعید و الله میں تم کو ایک سچی خبر دوں میں اس دجال کو جانتا ہوں اور اسکی ماں کو بھی اور یہ بھی کہ وہ اس وقت زمین میں کہاں ہے
ابو سعید الخدری نے کھا بربادی ہو تیرے لئے سارا دن
صحیح مسلم
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ لِي ابْنُ صَائِدٍ: وَأَخَذَتْنِي مِنْهُ ذَمَامَةٌ: هَذَا عَذَرْتُ النَّاسَ، مَا لِي وَلَكُمْ؟ يَا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ أَلَمْ يَقُلْ نَبِيُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّهُ يَهُودِيٌّ» وَقَدْ أَسْلَمْتُ، قَالَ: «وَلَا يُولَدُ لَهُ» وَقَدْ وُلِدَ لِي، وَقَالَ: «إِنَّ اللهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَيْهِ مَكَّةَ» وَقَدْ حَجَجْتُ، قَالَ: فَمَا زَالَ حَتَّى كَادَ أَنْ يَأْخُذَ فِيَّ قَوْلُهُ، قَالَ: فَقَالَ لَهُ: أَمَا، وَاللهِ إِنِّي لَأَعْلَمُ الْآنَ حَيْثُ هُوَ، وَأَعْرِفُ أَبَاهُ وَأُمَّهُ، قَالَ: وَقِيلَ لَهُ: أَيَسُرُّكَ أَنَّكَ ذَاكَ الرَّجُلُ؟ قَالَ فَقَالَ: لَوْ عُرِضَ عَلَيَّ مَا كَرِهْتُ
یحیی بن حبیب، محمد بن عبد الاعلی، معتمر، ابو نضرہ، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابن صائد نے مجھ سے ایسی بات کہی جس سے مجھے شرم آئی، کہنے لگا کہ لوگوں کو تو میں نے معذور جانا اور تمہیں میرے بارے میں اصحابِ محمدؐ کیا ہوگیا؟ کیا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےیہ نہیں فرمایا کہ دجال یہودی ہوگا؛ حالانکہ میں اسلام لا چکا ہوں اور کہنے لگا کہ اور اس کی اولاد نہ ہوگی؛ حالانکہ میری تو اولاد بھی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے اس پر مکہ کو حرام کردیا ہے، میں تحقیق حج کر چکا ہوں اور وہ مسلسل ایسی باتیں کرتا رہا قریب تھا کہ میں اس کی باتوں میں آجاتا، اس نے کہا: اللہ کی قسم! میں جانتا ہوں کہ وہ اس وقت کہاں ہے اور میں اس کے باپ اور ماں کو بھی جانتا ہوں اور اس سے کہا گیا: کیا تجھے یہ بات پسند ہے کہ تو ہی وہ آدمی ہو؟ اس نے کہا: اگر یہ بات مجھ پر پیش کی گئی تو میں اسے ناپسند نہیں کروں گا۔
دوسری سند امام مسلم نے دی ہے
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا دَاوُدُ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: صَحِبْتُ ابْنَ صَائِدٍ إِلَى مَكَّةَ، فَقَالَ لِي: أَمَا قَدْ لَقِيتُ مِنَ النَّاسِ، يَزْعُمُونَ أَنِّي الدَّجَّالُ، أَلَسْتَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «إِنَّهُ لَا يُولَدُ لَهُ» قَالَ: قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: فَقَدْ وُلِدَ لِي، أَوَلَيْسَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «لَا يَدْخُلُ الْمَدِينَةَ وَلَا مَكَّةَ» قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: فَقَدْ وُلِدْتُ بِالْمَدِينَةِ، وَهَذَا أَنَا أُرِيدُ مَكَّةَ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ لِي فِي آخِرِ قَوْلِهِ: أَمَا، وَاللهِ إِنِّي لَأَعْلَمُ مَوْلِدَهُ وَمَكَانَهُ وَأَيْنَ هُوَ، قَالَ: فَلَبَسَنِي
نوٹ
دجال یہودی ہو گا یہ الفاظ اس روایت میں صرف راوی سُلَيْمَانُ بنُ طَرْخَانَ أَبُو المُعْتَمِرِ التَّيْمِيُّ بصری کے ہیں دیگر راوی اس کو نہیں بولتے
امام بخاری نے جو احادیث روایت کی ہیں ان کے مطابق دجال مومن ہونے کا دعوی کرے گا نہ کہ یہودی ہونے کا
یعنی ابن صیاد خود مشکوک باتیں کرتا اس وجہ سے لوگ بھی اس پر مختلف رائے ہو گئے
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ امت میں ٣٠ دجال ہوں گے جن روایات میں ہے کہ ابن صیاد دجال ہے وہاں اس کا یہی مفھوم ہے کہ ممکن ہے یہ ٣٠ میں سے ایک ہے
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو جو الوحی آئی وہ اپ نے امت کو بتائی ابن صیاد کے معاملے میں جو بھی علم دیا گیا وہ اپ نے اصحاب کو بتایا
شوکانی نیل الاوطار میں لکھتے ہیں
النَّوَوِيُّ: قَالَ الْعُلَمَاءُ: قِصَّةُ ابْنِ صَيَّادٍ مُشْكِلَةٌ وَأَمْرُهُ مُشْتَبِهٌ، وَلَكِنْ لَا شَكَّ أَنَّهُ دَجَّالٌ مِنْ الدَّجَاجِلَةِ، وَالظَّاهِرُ أَنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – لَمْ يُوحَ إلَيْهِ فِي أَمْرِهِ بِشَيْءٍ، وَإِنَّمَا أُوحِيَ إلَيْهِ بِصِفَاتِ الدَّجَّالِ، وَكَانَ فِي ابْنِ صَيَّادٍ قَرَائِنُ مُحْتَمِلَةٌ. فَلِذَلِكَ كَانَ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – لَا يَقْطَعُ فِي أَمْرِهِ بِشَيْءٍ.
نووی کہتے ہیں علماء نے کہا ہے کہ ابن صیاد کا قصہ مشکل ہے اور اس کا امر مشتبہ ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ یہ دجالوں میں سے دجال تھا اور جو ظاہر ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو اس سلسلے میں الوحی نہیں ہوئی بلکہ انکو دجال کی صفات پر الوحی ہوئی اور ابن صیاد کے قرائن ان صفات سے ملتے تھے جس پر احتمال ہوتا اس وجہ سے رسول الله نے اس کے امر پر کسی چیز کو ختم نہیں کیا
البیہقی کتاب الاسماء و الصفات میں کہتے ہیں
اختلف الناس في أمر ابن صياد اختلافاً كثيراً هل هو الدجال؟”
لوگوں کا اس امر میں اختلاف ہے کہ کیا ابن صیاد دجال تھا؟
أبو بكر ابن العربي في “عارضة الأحوذي” 9/ 106: میں کہتے ہیں
الصحيح أن الدَّجَّال ليس بابن صياد، فإن ابن صياد كان بالمدينة صبياً،
صحیح یہ ہے کہ ابن صیاد دجال (اکبر) نہیں ہے اور یہ مدینہ میں لڑکا تھا
فتح الباري لابن حجر (13 / 326 – 327) . کے مطابق
بیہقی اور ابن کثیر النهاية في الفتن والملاحم میں کہتے ہیں
الصحيح أن الدجال غير ابن صياد، وأن ابن صياد كان دجالًا من الدجاجلة
صحیح یہ ہے کہ دجال (اکبر) ابن صیاد نہیں ہے اور ابن صیاد دجالوں میں سے ایک دجال تھا
ابن تیمیہ الفرقان بين أولياء الرحمن وأولياء الشيطان میں کہتے ہیں
وتوقف النبي صلى الله عليه وسلم في أمره حتى تبين له فيما بعد أنه ليس هو الدجال، لكنه من جنس الكهان
اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے اسکے امر پر توقف کیا یہاں تک کہ اس کا امر واضح ہوا کہ یہ الدجال (اکبر) نہیں ہے لیکن کاہنوں کی جنس میں سے ہے
صحیح بخاری میں جابر بن عبد الله کا قول ہے کہ ابن صیاد دجال ہے کیونکہ عمر نے بھی ایسا نبی صلی الله علیہ وسلم کے سامنے کہا لیکن انہوں نے انکار نہیں کیا
جابر بن عبد الله رضی الله عنہ کے قول کی یہی تاویل ہے کہ ابن صیاد کو دجالوں میں سے ایک دجال سمجھا گیا نہ کہ مسیح الدجال
عبد بن حمید، روح بن عبادہ، ہشام، ایوب، حضرت نافع سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی ابن صیاد سے مدینہ کے کسی راستہ میں ملاقات ہوگئی تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے ایسی بات کہی جو اسے غصہ دلانے والی تھی، پس وہ اتنا پھولا کہ راستہ بھر گیا، پھر ابن عمر رضی اللہ عنہ ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس حاضر ہوئے اور انہیں یہ خبر مل چکی تھی تو انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: اللہ آپ پر رحم فرمائے! آپ نے ابن صائد کے بارے میں کیا ارادہ کیا تھا؟ کیا آپ نہیں جانتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دجال کسی پر غصہ کرنے کی وجہ سے ہی نکلے گا۔
الفاظ فَانْتَفَخَ حَتَّى مَلَأَ السِّكَّةَ یعنی وہ پھولا کہ رستہ بند ہوا محاوراتی ہیں کوئی غصہ میں پھول جائے
یہ الفاظ عربی میں اب نہیں بولے جاتے لہذا اس کا ذکر غریب الحدیث میں ہے اور لغت میں السکہ کا مطلب کھجور کی بآڑھ ہے
یعنی یہ ایک تنگ جگہ ہو گی جہاں یہ کلام ہوا
ابو داود کی روایت
حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، أَخْبَرَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُمَيْعٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ عَلَى الْمِنْبَرِ: «إِنَّهُ بَيْنَمَا أُنَاسٌ يَسِيرُونَ فِي الْبَحْرِ، فَنَفِدَ طَعَامُهُمْ، فَرُفِعَتْ لَهُمْ جَزِيرَةٌ، فَخَرَجُوا يُرِيدُونَ الْخُبْزَ، فَلَقِيَتْهُمُ [ص:120] الْجَسَّاسَةُ» قُلْتُ لِأَبِي سَلَمَةَ: وَمَا الْجَسَّاسَةُ؟ قَالَ: امْرَأَةٌ تَجُرُّ شَعْرَ جِلْدِهَا وَرَأْسِهَا، قَالَتْ: فِي هَذَا الْقَصْرِ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، وَسَأَلَ عَنْ نَخْلِ بَيْسَانَ، وَعَنْ عَيْنِ زُغَرَ، قَالَ: هُوَ الْمَسِيحُ، فَقَالَ: لِي ابْنُ أَبِي سَلَمَةَ: إِنَّ فِي هَذَا الْحَدِيثِ شَيْئًا مَا حَفِظْتُهُ، قَالَ: شَهِدَ جَابِرٌ أَنَّهُ هُوَ ابْنُ صَيَّادٍ، قُلْتُ: فَإِنَّهُ قَدْ مَاتَ، قَالَ: وَإِنْ مَاتَ، قُلْتُ: فَإِنَّهُ أَسْلَمَ، قَالَ: وَإِنْ أَسْلَمَ، قُلْتُ فَإِنَّهُ قَدْ دَخَلَ الْمَدِينَةَ، قَالَ: وَإِنْ دَخَلَ الْمَدِينَةَ
سنن ابو داؤد، کتاب الملاحم
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں : جابر نے پورے وثوق سے کہا : یہی ابن صیاد ہے ، تو میں نے کہا : وہ تو مر چکا ہے ، اس پر انہوں نے کہا : مر جانے دو ، میں نے کہا : وہ تو مسلمان ہو گیا تھا ، کہا : ہو جانے دو ، میں نے کہا : وہ مدینہ میں آیا تھا ، کہا : آنے دو ، اس سے کیا ہوتا ہے
البانی اسکو ضعيف الإسناد کہتے ہیں اس کی سند میں الوليد بن جميع ہے
قال ابن حبان: فحش تفرده فبطل الاحتجاج به.
ابن حبان کہتے ہیں اس کا تفرد فحش ہے جس سے دلیل باطل ہے
ملحدین عقل سلیم سے عاری ہیں ان کو سوچنا چاہیے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم پر ایک نہیں ہزاروں لوگ انکی زندگی میں ہی ایمان لائے اور یہ وہ لوگ تھے جو عرب شاعروں کی شاعری سنتے تھے کاہنوں کے پاس جاتے تھے اور وہ الوحی میں اور کہانت میں اور شاعری میں فرق بخوبی سمجھتے تھے وہ کوئی جدی پشتی مسلمان نہیں تھے جن کی نگاہیں قرآن سنتے ہی جھک گئیں انہوں نے تمام حالات و واقعات کو جاننے کے بعد اسلام کو قبول کیا تھا
ستکون فتنه تستنظف العرب قتلاها فی النار،السان فیها اشد من وقع السیف «
(تهذیب الکمال للمزی ۹۴۱)
کیا یہ روایت صحیح ہے؟
جواب
یہ روایت زياد بن سليم ، ويُقال: ابن سُلَيْمان کے ترجمہ میں اس کتاب میں ہے
أَخْبَرَنَا بِهِ أَبُو إِسْحَاقَ ابن الدَّرَجِيِّ، قال: أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرِ بْنِ الْفَاخِرِ وغَيْرُ واحِدٍ، قَالُوا: أَخْبَرَتْنا فَاطِمَةُ بِنْتُ عَبد اللَّهِ، قَالَتْ: أخبرنا أَبُو بَكْرِ بْنِ رِيذَةَ، قال: أخبرنا أَبُو الْقَاسِمِ الطَّبَرَانِيُّ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو مُسْلِمٍ الْكَشِّيُّ، وعَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ قَالا: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْهَالِ، قال: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ طَاوُسَ، عَنْ زِيَادٍ سيمين كوش، عَنْ عَبد اللَّهِ بْنِ عَمْرو، عَنِ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم، قال: تَكُونُ فِتْنَةٌ تَسْتَنْظِفُ الْعَرَبَ، قَتْلاهَا فِي النَّارِ، اللِّسَانُ فِيهَا أَشَدُّ وقْعًا مِنَ السَّيْفِ.
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ایک فتنہ ہو گا جو عرب کو صاف کر دے گا ان کے مردے اگ میں ہوں گے زبان اس میں تلوار سے سخت چلے گی
یہ روایت مسند احمد میں بھی ہے شعيب الأرنؤوط کہتے ہیں اس میں راوی زياد بن سيماكوش ہے جو مجھول ہے لہذا یہ روایت ضعیف ہے
حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ زِيَادِ بْنِ سِيمَاكُوشَ ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” تَكُونُ فِتْنَةٌ تَسْتَنْظِفُ (2) الْعَرَبَ، قَتْلَاهَا فِي النَّارِ، اللِّسَانُ فِيهَا أَشَدُّ مِنْ وَقْعِ السَّيْفِ
سنن ابو داود میں سند ہے
حدَّثنا محمدُ بنُ عُبيدٍ، حدَّثنا حمادُ بنُ زيدٍ، حدَّثنا ليثٌ، عن طاووس، عن رجُلٍ يقال له: زياد
عن عبدِ الله بنِ عمرو، قال: قال رسولُ الله – صلَّى الله عليه وسلم -: “إنها ستكون فتنةٌ تستنظِفُ العرَبَ، قَتْلاها في النَّارِ، اللسانُ فيها أشدُّ مِنْ وقْعِ السَّيفِ
یہاں اس کا نام صرف زیاد لکھا گیا ہے ولدیت ظاہر نہیں کی گئی
ابو داود نے اس کے تحت لکھا ہے
قال أبو داود: رواه الثوريُّ عن ليثِ، عن طاووسٍ، عن الأعجَمِ.
طاؤس نے اس کو عجمیوں سے روایت کیا ہے
لہذا اس قول سے اور مسند احمد کی سند سے ظاہر ہے کہ یہ کوئی عجمی مجھول ہے
أحمد محمد شاكر مسند احمد پر تحقیق میں لکھتے ہیں
اس کی سند صحیح ہے
أحمد محمد شاكر نے ایک لمبی بحث کر کے اس کو صحیح کہا ہے لیکن وہ اس راوی کی ثقاہت پر کوئی کلمہ نہ لا سکے صرف فارسی لغت سے یہ ثابت ہوا کہ یہ نام اہل فارس کے نزدیک صحیح ہے
راقم کہتا ہے جب اپ کے پاس جرح و تعدیل کا کوئی کلمہ ہی نہیں تو روایت صحیح کیسے ہوئی؟
امام المزی سے غلطی ہوئی اور اس کو زياد بن سليم بنا دیا جبکہ یہ زیاد مہجول تھا
صحيح مسلم: كِتَابُ الْإِمَارَةِ (بَابُ إِذَا بُويِعَ لِخَلِيفَتَيْنِ) صحیح مسلم: کتاب: امور حکومت کا بیان
(باب: دب دو خلیفوں کے لیے بیعت لی جائے)
4799 . وحَدَّثَنِي وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا بُويِعَ لِخَلِيفَتَيْنِ، فَاقْتُلُوا الْآخَرَ مِنْهُمَا
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جب دو خلیفوں کے لیے بیعت لی جائے تو ان میں سے دوسرے کو قتل کر دو
ایک طرف یزید اور دوسری طرف حضرت حسسیں راضی الله دونو کی بیت جاری تھی – اب ان میں سے اس حدیث کے مطابق قتل کا حقدار کون تھا
جواب
صحیح مسلم
وحَدَّثَنِي وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا بُويِعَ لِخَلِيفَتَيْنِ، فَاقْتُلُوا الْآخَرَ مِنْهُمَا»
سَعِيدُ بْنُ إِيَاسٍ الْجُرَيْرِيُّ کی سند
سندا یہ روایت سَعِيدُ بْنُ إِيَاسٍ الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ کی سند سے نقل ہوئی ہے
سَعِيدُ بْنُ إِيَاسٍ الْجُرَيْرِيُّ البصری المتوفی ١٤٤ ھ سے اس روایت کو (صحیح مسلم میں) خالد بن عبد الله نے سنا ہے
العلل از عبد الله بن احمد میں ہے
وقال عبد الله: حدثني أبي. قال: سألت ابن علية عن الجريري. فقلت: له: يا أبا بشر، أكان الجريري اختلط؟ قال: لا، كبر الشيخ فرق
عبد الله نے کہا میرے باپ احمد نے بیان کیا کہ میں نے ابن علیہ سے پوچھا الجریری کے بارے میں
ابن علیہ سے میں نے کہا اے ابا بشر کیا الجریری مختلط تھے انہوں نے کہا نہیں بوڑھے عمر رسیده تھے لہذا فرق آ گیا تھا
اس دور میں بصرہ میں سن ١٣٢ ھ میں الطاعون آیا (الکامل از ابن عدی) اور اسکے بعد الجريري میں یہ اختلاط کی کیفیت پیدا ہوئی اور بہت سے محدثین نے کہا کہ اس میں ہم نے ان سے سنا اور وہ واقعی مختلط تھے
اسی کتاب میں ہے قبل موته بسبع سنين یہ اختلاط یا کیفیت الجريري پر مرنے سے قبل سات سال رہی
ابن علیہ کے برعکس امام يحيى بن سعيد القطان سختی سے الجریری کی عالم اختلاط والی روایات کا انکار کرتے
یہ روایت خالد بن عبد الله الواسطی کی سند سے ہے لیکن خالد بن عبد الله الواسطی کا واضح نہیں کہ انہوں نے الجریری سے کب سنا محققین کے مطابق بخاری نے ان سے متابعت میں روایت لی ہے
مسند البزار میں ابوہریرہ رضی الله عنہ کی سند سے ہے
حَدَّثنا مُحَمد بن رزق الله الكلواذاني، قَال: حَدَّثنا عَبد الصمد، قَال: حَدَّثنا أَبُو هلال، عَن قَتادة، عَن سَعِيد، عَن أَبِي هُرَيرة، عَن النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم قال: إذا بويع لخليفتين فاقتلوا الآخر منهما.
اس میں قتادہ مدلس ہیں
أبي هلال الراسبي: وهو محمد بن سليم ہے
کتاب ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق از الذھبی کے مطابق
صالح الحديث قال النسائي ليس بالقوي وتركه القطان
یہ امام القطان کے نزدیک متروک ہے
امام احمد کا قول ہے
وهو مضطرب الحديث عن قتادة. «الجرح والتعديل» 7/ (1484) .
ابو ہلال قتادہ سے روایت کرنے میں مضطرب ہے
یعنی ابو ہریرہ رضی الله عنہ والی روایت تو ضعیف ہے ابو سعید الخدری رضی الله عنہ میں واضح نہیں کہ اس میں اختلاط کا عمل دخل ہے یا نہیں
==================
یہ روایت منفرد ہے اور اس قسم کی روایت بہت سے اصحاب رسول کو بیان کرنی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں ملتا دوم اس میں بصریوں کا تفرد ہے
جو حسین رضی الله عنہ کے بہت بعد پیدا ہوئے ہیں مثلا الجریری اور قتادہ وغیرہ
صحیح مسلم- مسند احمد – سنن نسائی – سنن ابو داود میں ہے
عرفجہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّهُ سَتَكُونُ هَنَاتٌ وَهَنَاتٌ، فَمَنْ أَرَادَ أَنْ يُفَرِّقَ أَمْرَ هَذِهِ الْأُمَّةِ وَهِيَ جَمِيعٌ، فَاضْرِبُوهُ بِالسَّيْفِ كَائِنًا مَنْ كَانَ
’’مستقبل میں فتنے اور فسادات ہوں گے، پس جو شخص اُمت کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنا چاہے تو اسے تہہ تیغ کر دو چاہے کوئی بھی ہو
سند میں زياد بن علاقة بن مالك الثعلبي، أبو مالك الكوفي کا تفرد ہے
قال الأزدي في كتابه: «المخزون»: إثر حديث رواه عن عيسى بن عقيل، وهذا حديث لا يحفظ إلا عن زياد بن علاقة على سوء مذهبه وبراءتي من مذهبه كان منحرفا عن أهل بيت نبيه صلى الله عليه وسلم زائغا عن الحق.
الأزدي نے اپنی کتاب المخزون میں کہا وہ حدیث جو …. زیاد بن علاقہ نے روایت کی ہے وہ بد مذھب ہے اور میں اس کے مذھب سے برات کرتا ہوں یہ اہل بیت سے منحرف تھا حق سے دور
راقم کے نزدیک یہ روایت حسین رضی الله عنہ کے خلاف ہے
راوی کی بدعت کی موید روایت نہیں لی جا سکتی
تحقیق درکار ہے
سنن أبي داؤد: كِتَابُ السُّنَّةِ (بَابٌ فِي الْخُلَفَاءِ) سنن ابو داؤد: کتاب: سنتوں کا بیان
(باب: خلفاء کا بیان)
4656 . حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ أَبُو عُمَرَ الضَّرِيرُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ أَنَّ سَعِيدَ بْنَ إِيَاسٍ الْجُرَيْرِيَّ أَخْبَرَهُمْ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ الْعُقَيْلِيِّ عَنِ الْأَقْرَعِ- مُؤَذِّنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ-، قَالَ: بَعَثَنِي عُمَرُ إِلَى الْأُسْقُفِّ، فَدَعَوْتُهُ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: وَهَلْ تَجِدُنِي فِي الْكِتَابِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: كَيْفَ تَجِدُنِي؟ قَالَ: أَجِدُكَ قَرْنًا، فَرَفَعَ عَلَيْهِ الدِّرَّةَ، فَقَالَ: قَرْنٌ مَهْ؟ فَقَالَ: قَرْنٌ حَدِيدٌ، أَمِينٌ شَدِيدٌ، قَالَ كَيْفَ تَجِدُ الَّذِي يَجِيءُ، مِنْ بَعْدِي؟ فَقَالَ: أَجِدُهُ خَلِيفَةً صَالِحًا غَيْرَ أَنَّهُ يُؤْثِرُ قَرَابَتَهُ، قَالَ عُمَرُ: يَرْحَمُ اللَّهُ عُثْمَانَ- ثَلَاثًا-، فَقَالَ: كَيْفَ تَجِدُ الَّذِي بَعْدَهُ! قَالَ: أَجِدُهُ صَدَأَ حَدِيدٍ، فَوَضَعَ عُمَرُ يَدَهُ عَلَى رَأْسِهِ، فَقَالَ: يَا دَفْرَاهُ! يَا دَفْرَاهُ! فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ! إِنَّهُ خَلِيفَةٌ صَالِحٌ، وَلَكِنَّهُ يُسْتَخْلَفُ حِينَ يُسْتَخْلَفُ, وَالسَّيْفُ مَسْلُولٌ، وَالدَّمُ مُهْرَاقٌ. قَالَ أَبو دَاود الدَّفْرُ: النَّتْنُ .
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے مؤذن جناب اقرع رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے عیسائیوں کے مذہبی سردار کے پاس بھیجا ۔ میں اسے بلا لایا ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا : کیا تم اپنی کتاب میں میرا ذکر پاتے ہو ؟ کہا : ہاں ۔ پوچھا کیسے ؟ کہا : میں پاتا ہوں کہ آپ ایک قرن ہیں ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا درہ اس پر بلند کیا اور پوچھا ” قرن “ سے کیا مراد ہے ؟ کہا : بہت سخت فولادی قلعہ ، انتہائی امین ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا جو میرے بعد آئے گا اس کے بارے میں کیا پاتے ہو ؟ کہا : وہ ایک صالح خلیفہ ہو گا ، صرف اتنا ہو گا کہ وہ اپنے قرابت داروں کو ترجیح دے گا ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے ، تین بار کہا ۔ پھر پوچھا : ان کے بعد جو آئے گا اس کے بارے میں کیا پاتے ہو ؟ کہا : میں اسے پاتا ہوں کہ وہ لوہے کا زنگ ہو گا ۔ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھ لیا اور کہا : اے بدبودار ! اے بدبودار ! ( کیا کہہ رہے ہو ؟ ) تو اس نے کہا : امیر المؤمنین ! یہ صالح خلیفہ ہو گا مگر جب اسے یہ منصب ملے گا تو تلواریں نکلی ہوئی ہوں گی اور خون بہائے جا رہے ہوں گے ۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے کہا کہ «الدفر» کے معنی ہیں ” بدبو “ ۔
جواب
یہ روایت اہل کتاب کی ہے یا نہیں یہ تو بعد کا سوال ہے پہلے اپنے ثقہ مسلمانوں سے تو نمٹ لیں
اس کی سند میں کون ہے ؟ مجھول راوی ہے
شعَيب الأرنؤوط کہتے ہیں
إسناده ضعيف، الأقرع مؤذن عمر بن الخطاب -وإن وثقه العجلي وذكره ابن حبان- قال عنه الذهبي في “الميزان”: لا يُعرف. تفرد عنه شيخ. قلنا: فهو مجهولٌ، ثم إن في متنه نكارة شديدة.
اس کی سند ضعیف ہے الأقرع جو عمر بن خطاب کا موذن ہے اگرچہ اس کو عجلی نے ثقہ کہا ہے جس کا ذکر ابن حبان نے کیا ہے یہ امام الذھبی نے مطابق المیزان ، میں ہے : میں اس کو نہیں جانتا … ہم کہتے ہیں یہ مجھول ہے اور اس روایت کے متن میں شدید نکارت ہے
الغرض ضعیف و منکر ہے
اس کی سند میں عبد الله بن شقيق العقيلي کا تفرد ہے جو ثقہ ہیں لیکن ناصبی مشھور ہیں
امام احمد کہتے ہیں
وكان يحمل على علي «تهذيب الكمال» 15/ (3333) . یہ علی پر الزام دھرتے
قال ابن خراش: ثقة كان يبغض عليا
ابن خراش کہتے ہیں یہ علی رضی الله عنہ سے بغض رکھتے تھے
صحيح مسلم: كِتَابُ الزَّكَاةِ (بَابُ ذِكْرِ الْخَوَارِجِ وَصِفَاتِهِمْ) صحیح مسلم: کتاب: زکوٰۃ کے احکام و مسائل (باب: خوارج اور ان کی صفات)
2459 . حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَكُونُ فِي أُمَّتِي فِرْقَتَانِ فَتَخْرُجُ مِنْ بَيْنِهِمَا مَارِقَةٌ يَلِي قَتْلَهُمْ أَوْلَاهُمْ بِالْحَقِّ
قتادہ نے ابو نضر ہ سے اور انھوں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی،انھوں نے کہا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”میری امت کے دو گروہ ہوں گے ان دونوں کےدرمیان سے،دین میں سے تیزی سے باہر ہوجانے والے نکلیں گے،انھیں وہ گروہ قتل کرے گا جو دونوں گروہوں میں سے زیادہ حق کے لائق ہوگا۔”
جواب
یہ روایت قَتَادَةُ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ کی سند سے کتابوں میں ہے اور یہ سند بہت اچھی نہیں ہے
قتادہ مدلس کا عنعنہ ہے اور اس کی سند میں أَبُو نَضْرَةَ العَبْدِيُّ المُنْذِرُ بنُ مَالِكِ بنِ قُطَعَةَ ہیں
الذھبی سیر الاعلام میں لکھتے ہیں
وَقَالَ ابْنُ حِبَّانَ فِي (الثِّقَاتِ) : كَانَ مِمَّنْ يُخْطِئُ،
ابن حبان ثقات میں لکھتے ہیں یہ وہ ہیں جو غلطی کرتے ہیں
وَقَالَ ابْنُ سَعْدٍ : ثِقَةٌ، كَثِيْرُ الحَدِيْثِ، وَلَيْسَ كُلُّ أَحَدٍ يُحْتَجُّ بِهِ.
ابن سعد کہتے ہیں ثقہ ہیں کثیر الحدیث ہیں اور ہر ایک سے دلیل نہیں لی جا سکتی
اس کے علاوہ یہ عَوْفٌ الْأَعْرَابِيُّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ کی سند سے بھی ہے
یہ بھی اسی قسم کی کمزور ہے
اور اس کے علاوہ یہ
عَلِيُّ بْنُ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ،
کی سند سے بھی ہے
یہ بھی اتنی ہی کمزور ہے
عَلِيُّ بْنُ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، اور عوف کٹر شیعہ بھی ہیں
روایت میں بصریوں کا تفرد ہے
ایک دور میں بصرہ میں خوارج کھات لگا کر قتل کرتے تھے ابو نضرہ، قتادہ ، اور عوف اور علی بن زید اسی دور کے ہیں
مسند البزار میں ہے
حدثنا محمد بن المثنى، قالَ: حَدَّثَنا أبو الوليد، قالَ: حَدَّثَنا أبو عوانة , عن قتادة , عن أبي نضرة , عن أبي سعيد أحسبه رفعه قال: تكون أمتي فرقتين يخرج بينهما مارقة يلي قتلهم أولاهما بالحق.
أبي نضرة نے أبي سعيد رضی الله عنہ سے روایت کیا أحسبه رفعه گمان ہے انہوں نے اس کو رفع کیا یعنی رسول الله کا قول قرار دیا
راقم کے خیال میں یہ روایت رفع کی گئی ہے یہ ابو سعید رضی الله عنہ کا قول لگتا ہے
ابوسعید رضی الله عنہ کی ایک دوسری روایت ہے
صحیح بخاری کی حدیث ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ المُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَهَّابِ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، وَعَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ: أَنَّهُمَا أَتَيَا أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ، فَسَأَلاَهُ عَنْ الحَرُورِيَّةِ: أَسَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: لاَ أَدْرِي مَا الحَرُورِيَّةُ؟ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «يَخْرُجُ فِي هَذِهِ الأُمَّةِ – وَلَمْ يَقُلْ مِنْهَا – قَوْمٌ تَحْقِرُونَ صَلاَتَكُمْ مَعَ صَلاَتِهِمْ، يَقْرَءُونَ القُرْآنَ لاَ يُجَاوِزُ حُلُوقَهُمْ، – أَوْ حَنَاجِرَهُمْ – يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ، فَيَنْظُرُ [ص:17] الرَّامِي إِلَى سَهْمِهِ، إِلَى نَصْلِهِ، إِلَى رِصَافِهِ، فَيَتَمَارَى فِي الفُوقَةِ، هَلْ عَلِقَ بِهَا مِنَ الدَّمِ شَيْءٌ
ابی سلمہ اور عطا بن یسار کہتے ہیں وہ ابی سعید الخدری کے پاس پہنچے اور ان سے حروریہ پر سوال کیا کہ انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے حروریہ کے متعلق کچھ سنا تھا ؟ ابو سعید رضی الله عنہ نے کہا ان کو نہیں پتا کہ حروریہ کیا ہے- میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا کہ اس امت میں اور انہوں نے نہیں کہا اس میں سے ایک قوم نکلے گی جو اپنی نماز کو تمہاری نماز سے حقیر سمجھیں گے قرآن پڑھیں گے جو حلق سے نیچے نہیں جائے گا ۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر جانور میں سے پار نکل جاتا ہے اور پھر تیر پھینکنے والا اپنے تیر کو دیکھتا ہے اس کے بعد جڑ میں (جو کمان سے لگی رہتی ہے) اس کو شک ہوتا ہے شاید اس میں خون لگا ہو مگر وہ بھی صاف
ابو سعید الخدری رضی الله عنہ نے حروریہ پر براہ راست اس روایت کو ثبت نہیں کیا بلکہ کہا اس امت میں ایک قوم نکلے گی یعنی ابو سعید رضی الله عنہ نے اس میں دور کا تعین نہیں کیا اور یقینا وہ اس کو اپنے دور میں نہیں سمجھتے تھے ورنہ کہتے یہ فلاں گروہ ہے
جواب مسند احمد اور سنن ترمذی کی روایت ہے
حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَابِتِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ يَخَامِرَ، عَنْ مُعَاذٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” عُمْرَانُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ خَرَابُ يَثْرِبَ، وَخَرَابُ يَثْرِبَ خُرُوجُ الْمَلْحَمَةِ، وَخُرُوجُ الْمَلْحَمَةِ فَتْحُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ، وَفَتْحُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ خُرُوجُ الدَّجَّالِ “. ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى فَخِذِ الَّذِي حَدَّثَهُ أَوْ مَنْكِبِهِ، ثُمَّ قَالَ: ” إِنَّ هَذَا لَحَقٌّ (1) كَمَا أَنَّكَ هَاهُنَا “. أَوْ كَمَا ” أَنَّكَ قَاعِدٌ ” يَعْنِي: مُعَاذًا
مُعَاذٍ رضی الله عنہ نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بیت المقدس کی آبادی، مدینہ کی بربادی ہے اور مدینہ کی بربادی ملحمہ (خون ریز جنگیں) کا نکلنا ہے اور ملحمہ کا نکلنا الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ کی فتح ہے اور الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ کی فتح دجال کا خروج ہے
اس کی سند ضعیف ہے سند میں عبد الرحمن بن ثوبان ہے جس کی وجہ سے مسند احمد کی تعلیق میں شعيب الأرنؤوط نے اس روایت کو رد کیا ہے
نسائی نے اس راوی کو ليس بالقوي قرار دیا ہے
ابو حاتم کہتے ہیں وتغير عقله في آخر یہ آخری عمر میں تغیر کا شکار تھے
ضعفاء العقيلي کے مطابق امام احمد نے کہا لم يكن بالقوي في الحديث حدیث میں قوی نہیں ہے
الكامل في ضعفاء الرجال کے مطابق يَحْيى نے کہا یہ ضعیف ہے
ابو داود میں روایت کی سند میں ہے جو شعَيب الأرنؤوط – محَمَّد كامِل قره بللي کے مطابق ضعیف ہے اور البانی نے صحيح الجامع: 4096 , المشكاة: 5424 میں اس کو صحیح کہا ہے
راقم کے نزدیک شعَيب الأرنؤوط – محَمَّد كامِل قره بللي کی تحقیق صحیح ہے
اس متن کا ایک دوسرا طرق ہے جو مصنف ابن ابی شیبہ میں ح 37209 ہے
حَدَّثَنَا – أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ مَكْحُولٍ، أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، قَالَ: ” عِمْرَانُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ خَرَابُ يَثْرِبَ وَخَرَابُ يَثْرِبَ خُرُوجُ الْمَلْحَمَةِ , وَخُرُوجُ الْمَلْحَمَةِ فَتْحُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ , وَفَتْحُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ خُرُوجُ الدَّجَّالِ , ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى مَنْكِبِ رَجُلِ وَقَالَ: وَاللَّهِ إِنَّ ذَلِكَ لَحَقٌّ “
اس روایت کی علت امام بخاری اور ابن ابی حاتم نے اپنی کتاب تاریخ اور علل میں ذکر کی ہے کہ ابو اسامہ نے عبد الرحمان بن یزید بن تمیم کا نام غلط لیا ہے اور دادا کا نام ابن جابر کہا ہے
لہذا سندا یہ روایت سخت ضعیف ہے اس کا کوئی طرق صحیح نہیں
ملحمہ سے مراد
Armageddon
ہے
جس کی اسلام میں کوئی دلیل نہیں ہے یہ یہود کی بڑھ ہے جس میں ان کے مطابق یہود تمام دنیا پر غالب ہوں گے
مستدرک الحاکم کی روایت ہے
أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحُسَيْنِ الْقَاضِي بِمَرْوَ، ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْبَرْنِيُّ، ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يُوسُفَ بْنِ حِمَاسٍ، عَنْ عَمِّهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لَتُتْرَكَنَّ الْمَدِينَةُ عَلَى خَيْرِ مَا كَانَتْ تَأْكُلُهَا الطَّيْرُ وَالسِّبَاعُ
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تم مدینہ چھوڑ دو گے جبکہ اس میں خیر ہو گا اس میں کھانے والوں میں صرف پرندے اور گدھ رہ جائیں گے
امام حاکم نے اس کو مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے لیکن البانی نے “الضعيفة” (4299) میں اس سند کو ضعیف کہا ہے کیونکہ اس سند سے صحیح ابن حبان میں متن میں اضافہ ہے
أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِدْرِيسَ الْأَنْصَارِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يُوسُفَ بْنِ حِمَاسٍ، عَنْ عَمِّهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: “لَتُتْرَكَنَّ الْمَدِينَةُ عَلَى أَحْسَنِ مَا كَانَتْ، حَتَّى يَدْخُلَ الْكَلْبُ فَيُغَذِّي عَلَى بَعْضِ سَوَارِي الْمَسْجِدِ، أَوْ عَلَى الْمِنْبَرِ”، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَلِمَنْ تَكُونُ الثِّمَارُ ذَلِكَ الزَّمَانَ؟ قَالَ: “لِلْعَوَافِي: الطَّيْرِ وَالسِّبَاعِ”. (رقم طبعة با وزير: 6735) , (حب) 6773 [قال الألباني]: ضعيف – “الضعيفة” (4299).
صحیح ابن حبان میں ہے کہ یہاں تک کہ کتے مسجد و منبر پر فضلہ کریں ہے البانی نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے
تاریخ مدینہ از ابن شبہ میں ہے
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو هَارُونَ الْعَبْدِيُّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ [ص:281]، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَيَخْرُجَنَّ أَهْلُ الْمَدِينَةِ مِنَ الْمَدِينَةِ ثُمَّ لَيَعُودُنَّ إِلَيْهَا، ثُمَّ لَيَخْرُجَنَّ مِنْهَا ثُمَّ لَا يَعُودُونَ إِلَيْهَا، وَلَيَدَعَنَّهَا وَهِيَ خَيْرُ مَا تَكُونُ مُونِعَةٌ» ، قِيلَ: فَمَنْ يَأْكُلُهَا؟ قَالَ: «الطَّيْرُ وَالسِّبَاعُ»
اس کی سند میں ابو ہارون العبدی ہے جو متروک ہے
صحیح بخاری میں ہے
حَدَّثَنا أَبُو اليَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ المُسَيِّبِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «يَتْرُكُونَ المَدِينَةَ عَلَى خَيْرِ مَا كَانَتْ، لاَ يَغْشَاهَا إِلَّا العَوَافِ – يُرِيدُ عَوَافِيَ السِّبَاعِ وَالطَّيْرِ – وَآخِرُ مَنْ يُحْشَرُ رَاعِيَانِ مِنْ مُزَيْنَةَ، يُرِيدَانِ المَدِينَةَ، يَنْعِقَانِ بِغَنَمِهِمَا فَيَجِدَانِهَا وَحْشًا، حَتَّى إِذَا بَلَغَا ثَنِيَّةَ الوَدَاعِ، خَرَّا عَلَى وُجُوهِهِمَا» , (خ) 1874
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہمیں شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا کہ مجھے سعید بن مسیب نے خبر دی، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ مدینہ کو بہتر حالت میں چھوڑ جاؤ گے پھر وہ ایسا اجاڑ ہو جائے گا کہ پھر وہاں وحشی جانور، درند اور پرند بسنے لگیں گے اور آخر میں مزینہ کے دو چرواہے مدینہ آئیں گے تاکہ اپنی بکریوں کو ہانک لے جائیں لیکن وہاں انہیں صرف وحشی جانور نظر آئیں گے آخر ثنیۃ الوداع تک جب پہنچیں گے تو اپنے منہ کے بل گر پڑیں گے۔
جس کی سند میں أبو اليمان الحكم بن نافع البهرانى الحمصى جو شُعَيْبِ بنِ أَبِي حَمْزَةَ سے روایت کر رہے ہیں جن کے لئے الذھبی کتاب سير أعلام النبلاء میں لکھتے ہیں
سَعِيْدُ بنُ عَمْرٍو البَرْذَعِيُّ: عَنْ أَبِي زُرْعَةَ الرَّازِيِّ، قَالَ: لَمْ يَسْمَعْ أَبُو اليَمَانِ مِنْ شُعَيْبٍ إِلاَّ حَدِيْثاً وَاحِداً، وَالبَاقِي إِجَازَةً
سَعِيْدُ بنُ عَمْرٍو البَرْذَعِيُّ نے أَبِي زُرْعَةَ الرَّازِيِّ سے روایت کیا انہوں نے کہا ابو اليَمَانِ نے شُعَيْبٍ سے صرف ایک ہی حدیث روایت کی اور باقی اجازہ ہے
تهذيب الكمال کے مطابق احمد کہتے ہیں
فَكَانَ وَلَدُ شُعَيْبٍ يَقُوْلُ: إِنَّ أَبَا اليَمَانِ جَاءنِي، فَأَخَذَ كُتُبَ شُعَيْبٍ مِنِّي بَعْدُ، وَهُوَ يَقُوْلُ: أَخْبَرَنَا. فَكَأَنَّهُ اسْتَحَلَّ ذَلِكَ، بِأَنْ سَمِعَ شُعَيْباً يَقُوْلُ لِقَوْمٍ: ارْوُوْهُ عَنِّي.
قَالَ إِبْرَاهِيْمُ بنُ دَيْزِيْلَ: سَمِعْتُ أَبَا اليَمَانِ يَقُوْلُ: قَالَ لِي أَحْمَدُ بنُ حَنْبَلٍ: كَيْفَ سَمِعْتَ الكُتُبَ مِنْ شُعَيْبٍ؟ قُلْتُ: قَرَأْتُ عَلَيْهِ بَعْضَهُ، وَبَعْضُهُ قَرَأَهُ عَلَيَّ، وَبَعْضُهُ أَجَازَ لِي، وَبَعْضُهُ مُنَاوَلَةً. قَالَ: فَقَالَ فِي كُلِّهِ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ
شُعَيْبٍ کے بیٹے کہتے تھے کہ أَبَا اليَمَانِ میرے پاس آیا اور مجھ سے والد کی کتب لیں اور کہنے لگا اخبرنا! پس اس نے اس کو جائز سمجھا اور میرے والد ایک قوم سے کہتے یہ مجھ سے روایت (کیسے) کرتا ہے
إِبْرَاهِيْمُ بنُ دَيْزِيْلَ نے کہا میں نے أَبَا اليَمَانِ کو کہتے سنا وہ کہتے مجھ سے امام احمد نے کہا تم شُعَيْبٍ سے کتاب کیسے سنتے ہو ؟ میں نے کہا بعض میں اس پر پڑھتا ہوں اور بعض وہ مجھ کو سناتا ہے اور بعض کی اس نے اجازت دی اور بعض کا مناولہ کہا میں نے اس سب پر کہا اخبرنا شُعَيْبٌ
یعنی أَبَا اليَمَانِ الحكم بن نافع اس کا کھلم کھلا اقرار کرتے تھے کہ ہر بات جس پر وہ اخبرنا شُعَيْبٌ کہتے ہیں اس میں سے ہر حدیث ان کی سنی ہوئی نہیں ہے
صحیح مسلم کی روایت ہے
و حَدَّثَنِي عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ جَدِّي حَدَّثَنِي عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّهُ قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَتْرُکُونَ الْمَدِينَةَ عَلَی خَيْرِ مَا کَانَتْ لَا يَغْشَاهَا إِلَّا الْعَوَافِي يُرِيدُ عَوَافِيَ السِّبَاعِ وَالطَّيْرِ ثُمَّ يَخْرُجُ رَاعِيَانِ مِنْ مُزَيْنَةَ يُرِيدَانِ الْمَدِينَةَ يَنْعِقَانِ بِغَنَمِهِمَا فَيَجِدَانِهَا وَحْشًا حَتَّی إِذَا بَلَغَا ثَنِيَّةَ الْوَدَاعِ خَرَّا عَلَی وُجُوهِهِمَا
ترجمہ : عبدالملک بن شعیب بن لیث، عقیل بن خالد، ابن شہاب، سعید بن مسیب، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ لوگ مدینہ کو خیر پر ہونے کے باوجود چھوڑ دیں گے اور درندے اور پرندے مدینہ میں رہیں گے پھر قبیلہ مزنیہ کے دو چرواہے مدینہ آنے کے ارادے سے اپنی بکریوں کو ہنکاتے ہوئے لائیں گے تو مدینہ میں وحشی جانوروں کو پائیں گے یہاں تک کہ جب وہ وداع پہاڑی کے پاس پہنچیں گے تو وہ اپنے چہروں کے بل گر پڑیں گے
اس کی سند میں عقيل بن خالد بن عقيل الأيلي، أبو خالد الأموي ہے جس کو امام یحیی بن سعید سختی سے رد کرتے
امام احمد کے بیٹے نقل کرتے ہیں
وقال عبد الله: حدثني أبي. قال: ذكرنا عد يحيى بن سعيد حديثًا من حديث عقيل، فقال لي يحيى: يا أبا عبد الله عقيل، وإبراهيم بن سعد!! عقيل، وإبراهيم بن سعد!! كأنه يضعفهما
میرے باپ نے ذکر کیا کہ یحیی کے سامنے عقیل کی حدیث کا ہم نے ذکر کیا انہوں نے کہا اے ابو عبد الله عقیل اور ابراہیم بن سعد، عقیل اور ابراہیم بن سعد جیسا کہ وہ تضعیف کر رہے ہوں
صحیح مسلم میں ہے
حَدَّثَني زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو صَفْوَانَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، ح وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، وَاللَّفْظُ لَهُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “لِلْمَدِينَةِ لَيَتْرُكَنَّهَا أَهْلُهَا عَلَى خَيْرِ مَا كَانَتْ مُذَلَّلَةً لِلْعَوَافِي” يَعْنِي السِّبَاعَ وَالطَّيْرَ
: زہیر بن حرب، ابوصفوان، عبداللہ بن عبدالملک، یونس بن یزید، حرملہ بن یحیی، ابن وہب یونس بن شہاب، سعید بن مسیب، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ والوں کے لئے فرمایا کہ لوگ اسے خیر پر ہونے کے باوجود درندوں اور پرندوں کے لئے چھوڑ دیں گے
یہ سند صحیح ہے
اس میں وقت کا تعین نہیں ہے
بعض روایات میں اتا ہے کہ دجال کی آمد پر مدینہ میں زلزلہ آئے گا اور منافقین مدینہ چھوڑ دیں گے
مدینہ لوگ چھوڑ دیں گے لیکن مزنیہ کے چرواہے مدینہ کے باہر ہوں گے – روایت کے الفاظ میں بہت ابہام ہے اور وضاحت نہیں آئی کہ ایسا کیوں ہو گا
جس رات نبی ﷺ کو معراج ہوئی تو آپ کی ملاقات ابراہیم علیہ السلام ،موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام سے ہوئی وہ آپس میں قیامت کے بارے میں بات چیت کرنے لگے(۱) سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام سے اس بابت پوچھا مگر انہیں اس کے بابت علم نہ تھا پھر موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا انہیں بھی اس کا علم نہ تھا پھر عیسیٰ علیہ السلام سے اس متعلق بات کرنے کو کہا گیا مجھے قیامت قائم ہونے سے قبل کی باتیں بتائی گئی ہیں مگر اس کا قائم ہونا اللہ کے سواء کوئی نہیں جانتا ہے پھر انہوں نے دجال کے ظاہر ہونے کا ذکر کیا اور فرمایا میں نازل ہو کر اسے قتل کروں گا اور لوگ اپنے گھروں کو واپس لوٹ رہے ہوں گے پھر ان کو یاجوج ماجوج ملیں گے وہ ہر ٹیلے سے اتر رہے ہوں گے اور جس (نہر یا چشمے) پر سے گزریں گے تو اس کو ختم کردیں گے اور کوئی چیز ایسی نہ بچے گی جس کو برباد نہ کر دیں پس پھر لوگ اللہ سے فریاد کریں گے اور میں بھی اللہ سے دعا کروں گا کہ ان کو ہلاک کر دے پھر ساری زمین میں ان کے جسموں کی بو پھیل جائے گی پھر لوگ اللہ سے فریاد کریں گے اور میں بھی دعا کروں گا پس اللہ بارش برسائے گا جو ان کو بہا کر سمندر میں پھینک دے گی پھر پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر دیا جائے گا اور زمین کو چمڑے کی طرح کر دیا جائے گا اور مجھے بتایا گیا ہے کہ جب یہ واقع ہوجائے گا تو قیامت اتنی قریب ہو گی کہ جیسے حاملہ عورت (جس کا وقت قریب ہو) کے گھر والوں کو پتا نہیں ہوتا کہ کس وقت زچگی ہو جائے گی
جواب
سنن ابن ماجہ کی روایت ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارِ قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ قَالَ: حَدَّثَنَا الْعَوَّامُ بْنُ حَوْشَبٍ قَالَ: حَدَّثَنِي جَبَلَةُ بْنُ سُحَيْمٍ، عَنْ مُؤْثِرِ بْنِ عَفَازَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: ” لَمَّا كَانَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَقِيَ إِبْرَاهِيمَ، وَمُوسَى، وَعِيسَى فَتَذَاكَرُوا السَّاعَةَ، فَبَدَءُوا بِإِبْرَاهِيمَ فَسَأَلُوهُ عَنْهَا، فَلَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ مِنْهَا عِلْمٌ، ثُمَّ سَأَلُوا مُوسَى، فَلَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ مِنْهَا عِلْمٌ، فَرُدَّ الْحَدِيثُ إِلَى عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، فَقَالَ: قَدْ عُهِدَ إِلَيَّ فِيمَا دُونَ وَجْبَتِهَا، فَأَمَّا وَجْبَتُهَا فَلَا يَعْلَمُهَا إِلَّا اللَّهُ، فَذَكَرَ خُرُوجَ الدَّجَّالِ، قَالَ: فَأَنْزِلُ، فَأَقْتُلُهُ فَيَرْجِعُ النَّاسُ إِلَى بِلَادِهِمْ فَيَسْتَقْبِلُهُمْ يَأْجُوجُ، وَمَأْجُوجُ وَهُمْ {مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ} [الأنبياء: 96] ، فَلَا يَمُرُّونَ بِمَاءٍ إِلَّا شَرِبُوهُ، وَلَا بِشَيْءٍ إِلَّا أَفْسَدُوهُ، فَيَجْأَرُونَ إِلَى اللَّهِ، فَأَدْعُو اللَّهَ أَنْ يُمِيتَهُمْ، فَتَنْتُنُ الْأَرْضُ مِنْ رِيحِهِمْ، فَيَجْأَرُونَ إِلَى اللَّهِ، فَأَدْعُو اللَّهَ، فَيُرْسِلُ السَّمَاءَ بِالْمَاءِ، فَيَحْمِلُهُمْ فَيُلْقِيهِمْ فِي الْبَحْرِ، ثُمَّ تُنْسَفُ الْجِبَالُ، وَتُمَدُّ الْأَرْضُ مَدَّ الْأَدِيمِ، فَعُهِدَ إِلَيَّ مَتَى كَانَ ذَلِكَ، كَانَتِ السَّاعَةُ مِنَ النَّاسِ، كَالْحَامِلِ الَّتِي لَا يَدْرِي أَهْلُهَا مَتَى تَفْجَؤُهُمْ بِوِلَادَتِهَا ” قَالَ الْعَوَّامُ: ” وَوُجِدَ تَصْدِيقُ ذَلِكَ فِي كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى: حَتَّى إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُمْ {مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ} [الأنبياء: 96]
اس کی سند میں مسائل ہیں
شعيب الأرنؤوط اور البانی دونوں اس روایت کو ضعیف قرار دیتے ہیں
اس میں مؤثر بن عفازة الشيباني کو مجھول کہا گیا ہے
اس راوی کو عجلی اور ابن حبان نے ثقہ کہا ہے جو ان کا طریقہ ہے کہ مستور راویوں کو بھی ثقہ شمار کرتے ہیں
روایت کا متن منکر ہے
اس کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام جب یاجوج و ماجوج کو قتل کر دیں گے تو پھر پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر دیا جائے گا اور زمین کو چمڑے کی طرح کر دیا جائے گا اور مجھے بتایا گیا ہے کہ جب یہ واقع ہوجائے گا تو قیامت اتنی قریب ہو گی کہ جیسے حاملہ عورت (جس کا وقت قریب ہو) کے گھر والوں کو پتا نہیں ہوتا کہ کس وقت زچگی ہو جائے گی
جبکہ عیسیٰ قرب قیامت میں آئیں گے تو کئی سال مسلمان ایمان کے ساتھ رہیں گے اور قیامت کفار پر قائم ہو گی جبکہ اس روایت میں اس کو مسلمانوں پر قائم کیا جا رہا ہے
جواب
صحیح بخاری کی روایت ہے
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ، أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا حَدِيثًا طَوِيلًا عَنِ الدَّجَّالِ فَكَانَ فِيمَا يُحَدِّثُنَا بِهِ أَنَّهُ، قَالَ: “يَأْتِي الدَّجَّالُ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْهِ أَنْ يَدْخُلَ نِقَابَ الْمَدِينَةِ، فَيَنْزِلُ بَعْضَ السِّبَاخِ الَّتِي تَلِي الْمَدِينَةَ، فَيَخْرُجُ إِلَيْهِ يَوْمَئِذٍ رَجُلٌ وَهُوَ خَيْرُ النَّاسِ، أَوْ مِنْ خِيَارِ النَّاسِ، فَيَقُولُ: أَشْهَدُ أَنَّكَ الدَّجَّالُ الَّذِي حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثَهُ، فَيَقُولُ الدَّجَّالُ: أَرَأَيْتُمْ إِنْ قَتَلْتُ هَذَا ثُمَّ أَحْيَيْتُهُ هَلْ تَشُكُّونَ فِي الْأَمْرِ ؟، فَيَقُولُونَ: لَا، فَيَقْتُلُهُ، ثُمَّ يُحْيِيهِ، فَيَقُولُ: وَاللَّهِ مَا كُنْتُ فِيكَ أَشَدَّ بَصِيرَةً مِنِّي الْيَوْمَ، فَيُرِيدُ الدَّجَّالُ أَنْ يَقْتُلَهُ فَلَا يُسَلَّطُ عَلَيْهِ”. ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے خبر دی، ان سے ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے دجال کے متعلق ایک طویل حدیث بیان کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں یہ بھی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دجال آئے گا اور اس کے لیے ناممکن ہو گا کہ مدینہ کی گھاٹیوں میں داخل ہو۔ چنانچہ وہ مدینہ منورہ کے قریب کسی شور والی زمین پر قیام کرے گا۔ پھر اس دن اس کے پاس ایک مرد مومن جائے گا اور وہ افضل ترین لوگوں میں سے ہو گا۔ اور اس سے کہے گا کہ میں گواہی دیتا ہوں اس بات کی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بیان فرمایا تھا۔ اس پر دجال کہے گا کیا تم دیکھتے ہو اگر میں اسے قتل کر دوں اور پھر زندہ کروں تو کیا تمہیں میرے معاملہ میں شک و شبہ باقی رہے گا؟ اس کے پاس والے لوگ کہیں گے کہ نہیں، چنانچہ وہ اس صاحب کو قتل کر دے گا اور پھر اسے زندہ کر دے گا۔ اب وہ صاحب کہیں گے کہ واللہ! آج سے زیادہ مجھے تیرے معاملے میں پہلے اتنی بصیرت حاصل نہ تھی۔ اس پر دجال پھر انہیں قتل کرنا چاہے گا لیکن اس مرتبہ اسے مار نہ سکے گا۔
جواب
یہ روایت اس سند سے ہے
عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ
اس میں عُبَيْدُ اللهِ بنُ عَبْدِ اللهِ بنِ عُتْبَةَ الهُذَلِيُّ المَدَنِيُّ کا تفرد ہے
اس متن کی ایک اور روایت صحیح مسلم میں ہے جس میں جبر بن نوف البکالی ہے کعب احبار کا پوتا ہے
اگرچہ محدثین نے ان افراد کو ثقہ کہا ہے لیکن ہم کو معلوم ہے کہ محدثین کے مطابق ثقہ غلطی بھی کر سکتا ہے
یہ بات کہ دجال مردوں کو زندہ کرے گا اصحاب رسول میں صرف ابو سعید الخدری رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں اس قدر عظیم بات کوئی اور صحابی بیان نہیں کرتا
مسیح علیہ السلام کو الله تعالی نے کچھ معجزات دیے جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم یا کسی اور نبی کو نہیں دیے مثلا وہ کوڑھی کو بحکم الہی ٹھیک کرتے تھے ، مردہ کو الله کے حکم سے زندہ کرتے تھے ، اور جنم سے نابینا کو بحکم الہی بینا کرتے تھے
بابل اور فارس کی غلامی میں یہود نے کتب انبیا گھڑیں اور مسیح کا تصور تراشا کہ داود یا یوسف کی نسل سے ایک مسیح آئے گا جو محیر العقول کام کرے گا- وہ مسیح کوئی رسول یا نبی نہ ہو گا بلکہ ایک حاکم جیسا ہو گا جو ان کو غلامی سے نجات دلائے گا –
یہود و نصاری کے مطابق مسیح کے کی خبر یسعیاہ نے عیسیٰ سے آٹھ صدیوں قبل اس طرح دی
Book of Isaiah chapter 35
Say to those who have an anxious heart,
“Be strong; fear not!
Behold, your God
will come with vengeance,
with the recompense of God.
He will come and save you.”
Then the eyes of the blind shall be opened,
and the ears of the deaf unstopped;
then shall the lame man leap like a deer,
and the tongue of the mute sing for joy.
For waters break forth in the wilderness,
and streams in the desert;
the burning sand shall become a pool,
and the thirsty ground springs of water;
کہو ان سے جن کے دل متذذب ہیں
ڈرو مت مظبوط رہو
خبردار تمہارا رب
انتقام کے ساتھ نمودار ہو گا
الله کی جانب سے بدلہ
وہ آ کر تم کو بچائے گا
اندھے کی اس وقت آنکھ کھل جائے گی
بہرے کے کان بند نہ رہیں گے
لنگڑا ہرن کی طرح دوڑے گا
اور گونگے کی زبان اس وقت گنگنائے گی
پس ویرانے میں پانی بہے گا
اور نہریں صحرا میں
اور جلتی ریت ، ایک حوض ہو گی
اور سوکھی زمین ، پانی کا چشمہ
یسعیاہ باب ٣٥ آیات 4 سے 7 تک
یہود میں ان آیات کی بنیاد پر ایک مسیح کا انتظار تھا جو جنم کے اندھے کو بینا کرے، بہرے کو سامع الصوت کرے، لنگڑے کو ٹھیک کر دے، گونگے کو زبان دے دے –
یسعیاہ باب ٢٦ آیت ١٩ ہے
Your dead shall live; their bodies shall rise.
You who dwell in the dust, awake and sing for joy!
For your dew is a dew of light,
and the earth will give birth to the dead.
تمھارے مردے جی اٹھیں گے ان کے اجسام زندہ ہوں گے
تم وہ جو خاک میں ہو اٹھو اور گیت گاؤ
کیونکہ تمہاری اوس، روشی کی شبنم ہے
اور زمیں مردہ کو جنم دے گی
اس آیت کی بنیاد پر یہود کہتے ہیں کہ مسیح مردوں کو بھی زندہ کرے گا
اس کے علاوہ کتاب یسعیاہ کے باب ٥٣ کی آیات 4 ہے
Surely he has borne our griefs
and carried our sorrows;
yet we esteemed him stricken,
smitten by God, and afflicted.
یقینا اس نے غم دور کیے
اور ہمارے غم لے گیا
اور ہم ہیں کہ اس کو عزت دیتے ہیں مارا ہوا
اللہ کی پھٹکار اور وبا سے آلودہ
ان آیات کی بنیاد پر مسیح کو بعض یہودی حلقوں میں کسی وبا سے آلودہ بھی کہا جاتا ہے اور اس کے لئے کوڑھی مسیح کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے- کوڑھی کو ٹھیک کرنا یہود میں شفا دینا نہیں ہے بلکہ گناہ سے پاک کرنا کہا جاتا ہے- کوڑھ کا مرض یہود کے مطابق گناہوں کی وجہ سے ہوتا ہے لہذا مسیح آ کر ان کے گناہ دھو ڈالے گا اور یہودی کوڑھی (گناہ گار) ٹھیک ہو جائیں گے لیکن آوروں کی گارنٹی نہیں ہے – لہذا یہودی مسیح کو کوڑھی مسیح یا
Lepper Messiah
بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ کوڑھیوں (گناہ گاروں) کے ساتھ رہے گا وغیرہ وغیرہ
مسیح تو باقی کتب انبیا کے مطابق صرف ایک بادشاہ تھا جو داود یا یوسف کی نسل سے تھا لیکن یسعیاہ کے نام سے لکھی اس کتاب میں اس سے اتنے سارے معجزات منسوب کر دیے گئے – الله نے یہود کی اس شدید خواہش کو پورا کیا – عیسیٰ ابن مریم رسول الله کو مسیح بنا دیا اور وہ معجزات بھی دے دے جو کسی اور نبی کو نہ ملے- عیسیٰ علیہ السلام قرآن کے مطابق ان شرطوں کو پورا کر گئے اور وہ المسیح تھے-
یہود کے مطابق شرائط پوری نہیں ہوئیں مثلا ایک رسول ، مسیح کیسے ہو گیا ؟ عیسیٰ (علیہ السلام ) خود حاکم نہ تھا – عیسیٰ (علیہ السلام) کا نسب واضح نہیں وہ خود کو ایک کنواری کی اولاد کہتا تھا – اس کا باپ نہ تھا نہ وہ داود کی نسل سے تھا نہ یوسف کی نسل سے – یہود کے نزدیک عیسیٰ نے یسعیاہ کی کتاب میں بیان کردہ شرائط میں سے کوئی بھی شرط پوری نہیں کی اور موجودہ اناجیل میں کہیں بھی یسعیاہ کی کتاب کی شرط ویرانے میں پانی کا بہنا اور تپتی ریت (اگ) کا پانی ہونا بیان نہیں کیا گیا لہذا ان کے مطابق نعوذ باللہ عیسیٰ مسیح نہ تھا
اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر کوئی دجال سے متعلق روایات دیکھے تو پتا چلتا ہے کہ یہود کا تصور مسیح پوری شدت کے پورا کیا جائے گا اور ان کے مزموعہ مسیح کو کچھ چھوٹ دی جائے گی کہ وہ وہ کر سکے جو یہود کے مطابق صرف المسیح کا خاصہ ہے- احادیث کے مطابق مسیح الدجال اپنے ساتھ جنت لائے گا جس میں اگ ہو گی لیکن وہ اصل میں پانی ہو گا اور جس کو وہ پانی کہےگا وہ اصل میں اگ ہو گی (یہ یسعیاہ کی آیت پوری ہو گی)- وہ حاکم بنے گا – لہذا یسعیاہ کی کتاب کی شرائط اب جب پوری ہوں گی تو یہی چیز ایک عظیم فتنہ ہو گی اور لوگوں کو اس فتنہ میں ڈالا جائے گا
متقدمین محدثین کی رائے
امام مسلم کے شاگرد امام ابو اسحاق کے مطابق یہ خضر علیہ السلام ہیں لہذا صحیح مسلم میں محدث ابو اسحاق کا قول اس روایت کے تحت لکھا ہوا ہے
قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ: “يُقَالُ إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ هُوَ الْخَضِرُ عَلَيْهِ السَّلَامُ
ابو اسحاق إبراهيم بن سفيان نے کہا: کہا جاتا ہے یہ خضر ہوں گے
یہ صحیح مسلم کی کتاب کے راوی ہیں –
کتاب إبراهيم بن محمد بن سفيان رواياته وزياداته وتعليقاته على صحيح مسلم
المؤلف: عبد الله بن محمد حسن دمفو
الناشر: مجلة الجامعة الإسلامية بالمدينة المنورة
کے مطابق
هو أبو إسحاق إبراهيم بن محمد بن سفيان النيسابوري1، ولم تذكر المصادر سنةَ ولادته، ويظهر أنَّها كانت في النصف الأول من القرن الثالث؛ لأنَّ الإمام مسلماً رحمه الله فرغ من كتابة الصحيح سنة خمسين ومائتين، كما ذكر العراقي2، ثم أخذ يمليه على الناس حتى فرغ من ذلك لعشر خلون من رمضان سنة سبع وخمسين ومائتين، كما نصَّ على ذلك ابن سفيان3، وعاش ابن سفيان بعد ذلك حتى أول القرن الرابع كما سيأتي.
امام مسلم المتوفی ٢٦١ ھ نے ابو اسحاق کو صحیح املا کرائی سن ٢٥٧ ہجری رمضان تک
یعنی یہ الفاظ کہ کہا جاتا ہے یہ خضر ہوں گے یہ الفاظ امام مسلم نے نہیں امام ابو اسحاق نے املا کرتے وقت شامل کر دیے یا بعد میں جب صحیح مسلم دوسروں کو املا کرائی تو اپنی بات روایت کی شرح کے طور پر پیش کی
یہ بات صیغہ تمریض سے ہے لیکن یہ بات یاد رہے کہ قرون ثلاثہ کے محدثین جب صیغہ تمریض استمعال کریں اور تضعیف نہ کریں تو وہ قول قبولیت پر بوتا ہے
اس پر علم حدیث کے سیکشن میں تفصیلی جواب موجود ہے
صحیح ابن حبان کے مطابق
قَالَ مُعْمَرٌ: يَرَوْنَ أَنَّ هَذَا الرَّجُلَ الَّذِي يَقْتُلُهُ الدَّجَّالُ ثُمَّ يُحْيِيهِ: الْخَضِرُ
مُعْمَرٌ نے کہا محدثین دیکھتے تھے کہ یہ شخص جس کو دجال قتل کرنے کے بعد زندہ کر سکے گا یہ خضر ہوں گے
بغوی نے شرح السنہ میں یہی قول نقل کیا ہے کہ معمر نے کہا
وَبَلَغَنِي أَنَّهُ الْخَضِرُ الَّذِي يَقْتُلُهُ الدَّجَّالُ، ثُمَّ يُحْيِيهِ
مجھ تک پہنچا کہ یہ خضر ہیں
یعنی ان محدثین کے نزدیک یہ واقعہ خاص صرف ایک دفعہ کا ہے عموم نہیں ہے
شارحین کی آراء
اس روایت کو اسی صورت قبول کیا گیا ہے کہ خضر زندہ ہیں
الكتاب: شرح الطيبي على مشكاة المصابيح المسمى بـ (الكاشف عن حقائق السنن)
المؤلف: شرف الدين الحسين بن عبد الله الطيبي (743هـ)
کے مطابق
قوله: ((خير الناس)) ((حس)): قال معمر: بلغني أن الرجل الذي يقتله الدجال الخضر عليه السلام.
بہترین انسانوں میں سے معمر نے کہا ہم تک پہنچا ہے یہ شخص خضر ہوں گے
إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري
المؤلف: أحمد بن محمد بن أبى بكر بن عبد الملك القسطلاني القتيبي المصري، أبو العباس، شهاب الدين (المتوفى: 923هـ)
الناشر: المطبعة الكبرى الأميرية، مصر
کے مطابق
فيخرج إليه) من المدينة (يومئذٍ رجل هو خير الناس أو من خير الناس) قيل هو الخضر (فيقول: أشهد أنك الدجال الذي حدّثنا رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- حديثه)
کہا جاتا ہے یہ خضر ہوں گے
عمدة القاري شرح صحيح البخاري میں بدر الدين العينى (المتوفى: 855هـ) نے یہی قول لکھا ہے
قَوْله: فَيخرج إِلَيْهِ رجل قيل هُوَ الْخضر، عَلَيْهِ السَّلَام.
کتاب مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح از ملا قاری میں اس روایت کی شرح میں لکھا ہے
وَتَقَدَّمَ أَنَّهُ الْخَضِرُ – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ
کتاب الكوثر الجاري إلى رياض أحاديث البخاري از الكوراني میں ہے
فيقتله ثم يحييه فيقول: والله ما كنت فيك أشد بصيرة مني اليوم) أي في هذه الساعة، وذلك لأنه وجد العلامات التي ذكرها رسول الله – صلى الله عليه وسلم -، قيل: ذلك الرجل هو الخضر والله أعلم
بیشتر شارحین نے اس روایت کی تاویل اسی قول پر کی ہے جو محدثین سے ملا ہے کہ خضر زندہ ہیں البتہ متاخرین مثلا ابن حجر وغیرہ نے اس کا انکار کیا ہے
راقم اس قول کو قبول نہیں کرتا کہ خضر زندہ ہیں
القسطلاني کی کتاب إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري کا ہے جس میں ابن حجر کی بات پیش کی گئی ہے
وقال ابن العربي: سمعت من يقول إن الذي يقتله الدجال هو الخضر وهذه دعوى لا برهان لها. قال الحافظ ابن حجر: قد يتمسك من قاله بما أخرجه ابن حبان في صحيحه من حديث أبي عبيدة بن الجراح رفعه في ذكر الدجال لعله يدركه بعض من رآني أو سمع كلامي الحديث ويعكر عليه قوله في رواية لمسلم شاب ممتلئ شبابًا ويمكن أن يجُاب بأن من جملة خصائص الخضر أن لا يزال شابًّا ويحتاج إلى دليل
ابن العربی نے کہا میں نے سنا جس نے کہا کہ یہ شخص جس کو دجال قتل نہ کر سکے گا خضر
ہوں گے اور اس دعوی کی کوئی برہان نہیں ہے اور ابن حجر نے کہا بلا شبہ اس میں تمسک کیا ہے اس پر جو ابن حبان نے صحیح میں حدیث ابو عبیدہ بن الجراح تخریج کی ہے جس میں ذکر دجال ہے کہ ہو سکتا ہے بعض اس کو پائیں جنہوں نے نے مجھ کو دیکھا یا کلام سنا الحدیث
اور روایت میں آ رہا ہے ایک مسلم جوان جوانی سے بھر پور اور ممکن ہے اس کا جواب دیا ہو کہ یہ خصائص خضر کے ہیں کہ ان کی جوانی کو زوال نہیں ہے لیکن اس پر دلیل درکار ہے
صحیح ابن حبان کی روایت سے استدلال
خضر زندہ ہیں اور ان کی دجال سے ملاقات ہوئی پر محدثین کے نزدیک یہ حدیث دلیل ہے
صحیح ابن حبان کی روایت ہے
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَزْدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُرَاقَةَ
عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: “إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ قَبْلِي إِلَّا وَقَدْ أَنْذَرَ قَوْمَهُ الدَّجَّالَ، وَإِنِّي أُنْذِرُكُمُوهُ”، قَالَ: فَوَصَفَهُ لَنَا، وَقَالَ: “لَعَلَّهُ أَنْ يُدْرِكَهُ بَعْضُ مَنْ رَآنِي، أَوْ سَمِعَ كَلَامِي”، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قُلُوبُنَا يَوْمَئِذٍ مثلها اليوم؟ فقال: “أو خير
أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو کہتے سنا کہ بے شک مجھ سے پہلے کوئی نبی نہیں گزرا الا یہ کہ اس نے اپنی قوم کو دجال سے ڈرایا اور میں تم کو ڈراتا ہوں -… ہو سکتا ہے اس کو بعض پائیں جنہوں نے مجھ کو دیکھا یا میرا کلام سنا
یعنی اقتباس میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ممکن ہے محدثین نے اس رائے کا استخراج اس طرح کیا ہو کہ صحیح ابن حبان کی اوپر والی حدیث کے مطابق ان کے نزدیک خضر نے نبی صلی الله علیہ وسلم کا کلام سنا اور پھر ان کی ملاقات دجال سے ہوئی کیونکہ خضر علیہ السلام کی جوانی کو زوال نہیں ہے – اس رائے کو ابن حجر نے رد کیا ہے کہ خضر کی جوانی کو زوال نہیں پر دلیل نہیں ہے لیکن انہوں نے اس بات کو رد نہیں کیا کہ محدثین یا سلف نے ایسا کوئی موقف نہیں رکھا تھا
ابن حجر کے مطابق دجال زندہ کرے گا
فتح الباری میں ابن حجر نے خطابی کا قول دیا ہے
قال الخطابي فإن قيل كيف يجوز أن يجري الله الآية على يد الكافر فإن إحياء الموتى آية عظيمة من آيات الأنبياء فكيف ينالها الدجال وهو كذاب مفتر يدعي الربوبية فالجواب أنه على سبيل الفتنة للعباد إذ كان عندهم ما يدل على أنه مبطل غير محق في دعواه وهو أنه أعور مكتوب على جبهته كافر يقرؤه كل مسلم فدعواه داحضة مع وسم الكفر ونقص الذات والقدر إذ لو كان إلها لأزال ذلك عن وجهه وآيات الأنبياء سالمة من المعارضة فلا يشتبهان
خطابی نے کہا : اگر یہ کہا جائے کہ ایک کافر کے ہاتھ سے الله نشانی کو کیسے جاری کرے جبکہ مردوں کو زندہ کرنا ایک عظیم معجزہ ہے جو انبیاء کو دیا گیا ،تو یہ معجزہ دجال کو کیسے ملے گا جبکہ وہ مفتری کذاب ہے اور رب ہونے کا دعویدار ہوگا پس اس کا جواب یہ ہے کہ : یہ بندوں کی آزمائش کیلئے ہوگا ، کیونکہ ان کے پاس دجال دعوی کے جھوٹا ہونے کے دلیل ہوں گی کہ وہ ایک آنکھ سے کانا ہوگا ، اس کی پیشانی پر ’’ کافر ‘‘ لکھا ہوگا جسے ہر مسلم پڑھ سکے گا تو ان ذاتی نقائص و عیوب کی موجودگی میں اس کا دعوی باطل ثابت ہورہا ہوگا ،کیونکہ اگر وہ اپنے دعوے کے مطابق رب ہوتا تو یہ نشانیاں مٹا لیتا ،اور دوسری طرف انبیاء علیہم السلام کی نشانیاں ہر قسم کے عیب سے پاک ہوتے ہیں ، پس یہ نشانیاں ایک سی نہیں ہیں
خطابی کا قول ہے لیکن دجال مردوں کو زندہ نہیں کرتا رہے گا روایت میں یہ ایک خاص واقعہ ہے اور متن دلالت کرتا ہے کہ یہ صرف ایک بار ہو گا اسی بنا پر متقدمین محدثین نے اس میں شخص کو خضر کہا ہے کہ وہ ان کے نزدیک زندہ ہیں لہذا دجال کا اس میں کوئی کمال نہ ہو گا
کتاب شرح مصابيح السنة للإمام البغوي از الكَرمانيّ، الحنفيُّ، المشهور بـ ابن المَلَك (المتوفى: 854 هـ) کے مطابق
قال الكلاباذي: في الحديث دليل على أنَّ الدجال لا يقدر على ما يريده، وإنما يفعل الله ما يشاء عند حركته في نفسه، ومحل قدرته ما شاء الله أن يفعله؛ اختبارًا للخلق وابتلاء لهم؛ ليهلك من هلك عن بينة، ويحيى من حي عن بينة، ويضل الله الظالمين، ويفعل الله ما يشاء.
الكلاباذي نے کہا : اس حدیث میں دلیل ہے کہ دجال ہر اس چیز پر قادر نہ ہو گا جو وہ چاہے گا اور بے شک الله تعالی یہ کریں گے جو وہ چاہیں گے ، دجال کی ان حرکات پر اور اس (دجال) کی قدرت کا مقام ، الله کے چاہنے میں ہے – یہ ایک آزمائش ہے خلق کے لئے اور ابتلاء ہے ان کے لئے کہ جو ہلاک ہو وہ نشانی پر ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ نشانی پر زندہ رہے اور الله ظالموں کو گمراہ کرتا ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے
یعنی الكلاباذي کا کہنے کا مطلب ہے کہ دجال کی ان حرکات کے پیچھے الله تعالی کی قدرت کارفرما ہو گی وہ اس کے ذریعہ انسانوں کو آزمائش میں ڈالے گا اور مخلوق کا امتحان لے گا- دجال دھوکہ میں ہو گا کہ یہ سب وہ کر رہا ہے اور اس کے ساتھ لوگ بھی یہی سمجھیں گے لیکن حقیقت میں یہ سب الله کے حکم سے پس پردہ ہو رہا ہو گا
قم باذن الدجال؟
راقم کہتا ہے ٹھیک ہے دجال خود دھوکے میں ہو گا لیکن اس کی وجہ سے عام لوگ بھی دھوکہ کھائیں گے اور جھوٹے مسیح کو اصلی سمجھیں گے لہذا خطابی کا قول قابل قبول نہیں ہے جبکہ دیگر احادیث کے مطابق مومن اس کو پہچائیں جائیں گے لیکن احیاء الموتی ایک ایسا عمل ہے جو الله اور اس کے رسولوں کے علاوہ کوئی نہیں کر سکتا تو اس قدر چھوٹ دجال کو نہیں مل سکتی
عصر حاضر میں بعض لوگوں نے اس کو شعبدہ بازی اور بعض نے سائنسی ٹیکنا لوجی کہہ کر اس روایت کو قبول کیا ہے
سانس روح کے وجود کی انکاری ہے اور موت میں عمل دخل ہی روح کا ہے لہذا یہ اقوال قابل قبول نہیں ہیں
متقدمین محدثین نے اس روایت کو اس شرح کے تحت قبول کیا ہے کہ خضر زندہ ہیں اور دجال کا تماشہ انہی کے ساتھ ہو گا
راقم خضر کو ایک حکیم سمجھتا ہے جن کا انتقال ہو چکا ہے اور اس بنا پر اس روایت کو صحیح نہیں کہتا کیونکہ اس روایت کو محدثین نے اس تاویل پر قبول کیا ہے کہ خضر زندہ ہیں اور دجال ان کو مارنے کا جو تماشہ کرے گا وہ اصل میں کچھ بھی نہیں کیونکہ یہ خضر کے ساتھ ہو گا جن کو مارا نہیں جا سکتا – اب اگر یہ مانا جائے کہ خضر کی وفات ہو چکی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس روایت کی تاویل ممکن نہیں ہے
اس واقعہ سے اصلی اور نقلی مسیح میں التباس بھی پیدا ہو گا اور یہ اگر دجال کا کسی شخص کو زندہ کرنا ایک بار ہو گا تو جو دیکھے گا وہی مانے گا – جو اس واقعہ کا عینی شاہد نہ ہو وہ قبول نہیں کرے گا لہذا اگر یہ ایک دفعہ ہو گا تو اس کا فائدہ کیا ہے؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ دجال مسلسل اس کو کرے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کو اصلی مسیح سمجھیں
اس بنیاد پر اس روایت کے متن میں ابہام ہے اور راقم اس کو صحیح نہیں کہتا
اس روایت کی شرح کر دیں
حَدَّثَنَا الحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا الوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ العَلاَءِ بْنِ زَبْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ بُسْرَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا إِدْرِيسَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَوْفَ بْنَ مَالِكٍ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ وَهُوَ فِي قُبَّةٍ مِنْ أَدَمٍ، فَقَالَ: ” [ص:102] اعْدُدْ سِتًّا بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ: مَوْتِي، ثُمَّ فَتْحُ بَيْتِ المَقْدِسِ، ثُمَّ مُوْتَانٌ يَأْخُذُ فِيكُمْ كَقُعَاصِ الغَنَمِ، ثُمَّ اسْتِفَاضَةُ المَالِ حَتَّى يُعْطَى الرَّجُلُ مِائَةَ دِينَارٍ فَيَظَلُّ سَاخِطًا، ثُمَّ فِتْنَةٌ لاَ يَبْقَى بَيْتٌ مِنَ العَرَبِ إِلَّا دَخَلَتْهُ، ثُمَّ هُدْنَةٌ تَكُونُ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ بَنِي الأَصْفَرِ، فَيَغْدِرُونَ فَيَأْتُونَكُمْ تَحْتَ ثَمَانِينَ غَايَةً، تَحْتَ كُلِّ غَايَةٍ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا
مجھ سے حميدي نے بيان کيا، کہا ہم سے وليد بن مسلم نے بيان کيا، کہا ہم سے عبداللہ بن علاء بن زبير نے بيان کيا، انہوں نے بيان کيا کہ ميں نے بسر بن عبيداللہ سے سنا، انہوں نے ابوادريس سے سنا، کہا کہ ميں نے عوف بن مالک رضي اللہ عنہ سے سنا، آپ نے بيان کيا کہ ميں غزوہ تبوک کے موقع پر نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم کي خدمت ميں حاضر ہوا، آپ اس وقت چمڑے کے ايک خيمے ميں تشريف فرما تھے? آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا، کہ قيامت کي چھ نشانياں شمار کر لو، ميري موت، پھر بيت المقدس کي فتح، پھر ايک وبا جو تم ميں شدت سے پھيلے گي جيسے بکريوں ميں طاعون پھيل جاتا ہے پھر مال کي کثرت اس درجہ ميں ہو گي کہ ايک شخص سو دينار بھي اگر کسي کو دے گا تو اس پر بھي وہ ناراض ہو گا? پھر فتنہ اتنا تباہ کن عام ہو گا کہ عرب کا کوئي گھر باقي نہ رہے گا جو اس کي لپيٹ ميں نہ آ گيا ہو گا? پھر صلح جو تمہارے اور بني الاصفر (نصارائے روم) کے درميان ہو گي، ليکن وہ دغا کريں گے اور ايک عظيم لشکر کے ساتھ تم پر چڑھائي کريں گے اس ميں اسي جھنڈے ہوں گے اور ہر جھنڈے کے ماتحت بارہ ہزار فوج ہو گي (يعني نو لاکھ ساٹھ ہزار فوج سے وہ تم پر حملہ آور ہوں گے)
جواب
معجم الکبير از طبراني کے مطابق اس کي سند ہے
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ دُحَيْمٍ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي، ثنا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ زَبْرٍ، حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ وَاقِدٍ، عَنْ بُسْرِ بْنِ عُبَيْدِ اللهِ، حَدَّثَنِي أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ، حَدَّثَنِي عَوْفُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي خَيْمَةٍ مِنْ أَدَمٍ، فَتَوَضَّأَ وُضُوءًا مَكِينًا فَقَالَ: «يَا عَوْفُ، اعْدُدْ سِتًّا بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ» قُلْتُ: وَمَا هِيَ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: «مَوْتِي» قَالَ: فَوَجَمْتُ لَهَا قَالَ: «قُلْ إِحْدَى» قُلْتُ: إِحْدَى ” وَالثَّانِيَةُ: فَتْحُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ، وَالثَّالِثَةُ: مُوتَانٌ فِيكُمْ كَنُعَاسِ الْغَنَمِ، وَالرَّابِعَةُ: إِفَاضَةُ الْمَالِ حَتَّى يُعْطَى الرَّجُلُ مِائَةَ دِينَارٍ فَيَظَلَّ يَسْخَطُهَا، ثُمَّ فِتْنَةٌ لَا يَبْقَى بَيْتُ مِنَ الْعَرَبِ إِلَّا دَخَلَتْهُ، وَهُدْنَةٌ تَكُونُ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ بَنِي الْأَصْفَرِ ثُمَّ يَغْدِرُونَ، فَيَأْتُونَكُمْ تَحْتَ ثَمَانِينَ غَايَةً، كُلُّ غَايَةٍ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا ”
يعني عَبْدُ اللهِ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ زَبْرٍ اور بُسْرِ بْنِ عُبَيْدِ اللهِ کے درميان زَيْدُ بْنُ وَاقِدٍ، ہے
عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَلاءِ بْنِ زَبْرٍ نے بعض اسناد ميں کہا ہے اس نے بسر سے سنا ہے اور تحديث کيا ہے
ابن حجر کے مطابق يہ فَهُوَ مِنَ الْمَزِيدِ فِي مُتَّصِلِ الْأَسَانِيدِ کي مثال ہے
أبو إدريس الخولانى عائذ الله بن عبد الله بن عمرو المتوفي 80 ھ ہيں
عَوْفُ بْنُ مَالِكٍ رضي الله عنہ ابو بکر رضي الله عنہ کے دور ميں شام حمص منتقل ہوئے اور عبد الملک بن مروان کي خلافت کے شروع ميں ان کي وفات ہوئي
بحث
روایت کے مطابق
پہلی نشانی : رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا دار فانی سے کوچ کرنا ہے
دوسری نشانی فتح بیت المقدس ہے جو ١٧ ہجری میں دور عمر رضی الله عنہ میں ہوئی
تیسری نشانی وبا کا پھیلنا ہے
چوتھی نشانی فتنہ پھیلنا
پانچویں نشانی مال کی کثرت
چھٹی نشانی رومیوں سے صلح
تیسری نشانی سے مراد وبا کا پھیلنا ہے اور اس کا ذکر روایات میں ہے کہ یہ دور عثمان میں ہوا یہاں تک کہ اس نے عثمان رضی الله عنہ تک کو نہ چھوڑا
سن ٣١ ہجری کا واقعہ ہے جو صحیح البخاری میں ہی ہے
حدیث نمبر: 3717حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَرْوَانُ بْنُ الْحَكَمِ، قَالَ: أَصَابَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رُعَافٌ شَدِيدٌ سَنَةَ الرُّعَافِ حَتَّى حَبَسَهُ عَنِ الْحَجِّ وَأَوْصَى فَدَخَلَ عَلَيْهِ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ، قَالَ: “اسْتَخْلِفْ، قَالَ: وَقَالُوهُ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَمَنْ فَسَكَتَ فَدَخَلَ عَلَيْهِ رَجُلٌ آخَرُ أَحْسِبُهُ الْحَارِثَ، فَقَالَ: اسْتَخْلِفْ، فَقَالَ: عُثْمَانُ وَقَالُوا، فَقَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَمَنْ هُوَ فَسَكَتَ، قَالَ: فَلَعَلَّهُمْ قَالُوا الزُّبَيْرَ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: أَمَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّهُ لَخَيْرُهُمْ مَا عَلِمْتُ وَإِنْ كَانَ لَأَحَبَّهُمْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ”
.ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن مسہر نے، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ مجھے مروان بن حکم نے خبر دی کہ جس سال نکسیر پھوٹنے کی بیماری پھوٹ پڑی تھی اس سال عثمان رضی اللہ عنہ کو اتنی سخت نکسیر پھوٹی کہ آپ حج کے لیے بھی نہ جا سکے، اور (زندگی سے مایوس ہو کر) وصیت بھی کر دی، پھر ان کی خدمت میں قریش کے ایک صاحب گئے اور کہا کہ آپ کسی کو اپنا خلیفہ بنا دیں۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا: کیا یہ سب کی خواہش ہے، انہوں نے کہا جی ہاں۔ آپ نے پوچھا کہ کسے بناؤں؟ اس پر وہ خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد ایک دوسرے صاحب گئے۔ میرا خیال ہے کہ وہ حارث تھے،۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ آپ کسی کو خلیفہ بنا دیں، آپ نے ان سے بھی پوچھا کیا یہ سب کی خواہش ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، آپ نے پوچھا: لوگوں کی رائے کس کے لیے ہے؟ اس پر وہ بھی خاموش ہو گئے، تو آپ نے خود فرمایا: غالباً زبیر کی طرف لوگوں کا رجحان ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میرے علم کے مطابق بھی وہی ان میں سب سے بہتر ہیں اور بلاشبہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظروں میں بھی ان میں سب سے زیادہ محبوب تھے۔
بعض علماء کے نزدیک اس کا مطلب الگ ہے یہاں وبا مراد نہیں ہے قحط مراد ہے – شرح السنہ میں بغوی کہتے ہیں
الْمُوتَانِ، بِضَمِّ الْمِيمِ: هُوَ الْمَوْتُ، وَبِالْفَتْحِ: هُوَ الأَرْضُ الَّتِي لَمْ تُحْيَ
الموتان سے مراد زمین ہے جو بنجر ہو
یعنی عرب میں قحط ہو گا اور لوگ مریں گے جیسے بکریاں مر جاتی ہیں
يه عام الرمادة کی خبر ہے جو سنة 17هـ، کے آخر اور سنة 18هـ، کے شروع میں خلافة عمر بن الخطاب. میں ہوا
یہاں تک کہ اس کو راکھ کا سال کہا جاتا ہے
چوتھی نشانی عظیم فتنہ ہے اور اس سے مراد عثمان رضی الله عنہ کا قتل کا فتنہ ہے
پانچویں نشانی مال کی کثرت ہے
ایسا دور معاویہ رضی الله عنہ کے لئے معلوم ہے کہ مال کی کثرت تھی
امت میں غرباء کی تعداد سے ظاہر ہے کہ یہ آج کل کی بات نہیں ہے کیونکہ اب تو ٨٠ فی صد مسلمان غریب ہیں
چھٹی نشانی رومیوں کا حملہ ہے
بنی الاصفر عرب رومیوں کے لئے بولتے تھے مثلا قیصر روم نے ابو سفیان رضی الله عنہ کو طلب کیا اور ان سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے متعلق سوالات کیے – احادیث کے مطابق ابو سفیان رضی الله عنہ نے کہا
هَذَا مَلِكُ بَنِي الْأَصْفَرِ يَخَافُهُ
یہ بنی الاصفر کا بادشاہ بھی ان (رسول الله) سے ڈر رہا ہے
رومیوں کو عرب بعد میں البيزنطيين بولنے لگ گئے تھے (اردو میں بازنطینی) کیوںکہ
Byzantine
ان کا رومی میں اصل نام تھا
بنی الاصفر اب معدوم ہیں مسلمان عرصہ ہوا ان سے لڑ چکے اور ان کے شہر قُسْطَنْطِينَةَ کو حاصل کر چکے
بنو امیہ اور عباسیوں نے الروم سے معاہدے کیے ہیں صلیبی جنگوں میں ہوئے ہیں اور ٹوٹے بھی ہیں
سلطنت الروم سن ٨٥٦ ہجری میں ختم ہو گئی جب عثمانی ترکوں نے کو فتح کیا
لہذا اس روایت کو مستقبل یا عصر حاضر پر لاگو نہیں کیا جا سکتا یہ نشانیاں پوری ہو چکیں جس طرح شق القمر ہو چکا جو قیامت کی نشانی تھا
ستصالحون الروم صلحآ امنا وتغزون أنتم و هم عدوا من ورائکم
احمد ابوداود
فعند ذلک تغدر الروم وتجمع للملحتمة
بخاری
کیا یہ صلح قرب قیامت میں ھو گا؟
جواب
اپ نے جو روایت پیش کی ہے یہ صحیح بخاری کی نہیں ہے
یہ سنن ابو داود میں مسند احمد میں اور سنن ابن ماجہ میں ہے
البانی اور : شعَيب الأرنؤوط نے اس کو صحیح قرار دیا ہے
سند ہے
حدیث نمبر: 4292
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِيَّةَ، قَالَ: مَالَ مَكْحُولٌ، وابْنُ أَبِي زَكَرِيَّا إِلَى خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ وَمِلْتُ مَعَهُمْ فَحَدَّثَنَا، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنِ الْهُدْنَةِ، قَالَ: قَالَ جُبَيْرٌ: انْطَلِقْ بِنَا إِلَى ذِي مِخْبَرٍ ٍ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَيْنَاهُ فَسَأَلَهُ جُبَيْرٌ عَنِ الْهُدْنَةِ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: “سَتُصَالِحُونَ الرُّومَ صُلْحًا آمِنًا فَتَغْزُونَ أَنْتُمْ وَهُمْ عَدُوًّا مِنْ وَرَائِكُمْ فَتُنْصَرُونَ وَتَغْنَمُونَ وَتَسْلَمُونَ ثُمَّ تَرْجِعُونَ، حَتَّى تَنْزِلُوا بِمَرْجٍ ذِي تُلُولٍ فَيَرْفَعُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ النَّصْرَانِيَّةِ الصَّلِيبَ فَيَقُولُ: غَلَبَ الصَّلِيبُ فَيَغْضَبُ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَيَدُقُّهُ فَعِنْدَ ذَلِكَ تَغْدِرُ الرُّومُ وَتَجْمَعُ لِلْمَلْحَمَةِ”.
حسان بن عطیہ کہتے ہیں کہ مکحول اور ابن ابی زکریا: خالد بن معدان کی طرف چلے، میں بھی ان کے ساتھ چلا تو انہوں نے ہم سے جبیر بن نفیر کے واسطہ سے صلح کے متعلق بیان کیا، جبیر نے کہا: ہمارے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ذی مخبر نامی ایک شخص کے پاس چلو چنانچہ ہم ان کے پاس آئے، جبیر نے ان سے صلح کے متعلق دریافت کیا، تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: “عنقریب تم رومیوں سے ایک پر امن صلح کرو گے، پھر تم اور وہ مل کر ایک ایسے دشمن سے لڑو گے جو تمہارے پیچھے ہے، اس پر فتح پاؤ گے، اور غنیمت کا مال لے کر صحیح سالم واپس ہو گے یہاں تک کہ ایک میدان میں اترو گے جو ٹیلوں والا ہو گا، پھر نصرانیوں میں سے ایک شخص صلیب اٹھائے گا اور کہے گا: صلیب غالب آئی، یہ سن کر مسلمانوں میں سے ایک شخص غصہ میں آئے گا اور اس کو مارے گا، اس وقت اہل روم عہد شکنی کریں گے اور لڑائی کے لیے اپنے لوگوں کو جمع کریں گے”۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۲۷۶۷)، (تحفة الأشراف: ۳۵۴۷) (صحیح)
اس روایت میں صحابی نے نام کا گھپلا ہے کوئی (ابو داود، صحیح ابن حبان) ذِي مِخْبَرٍ کہتا ہے تو کوئی (ابن ماجہ، مسند احمد ) ذِي مِخْمَرٍ سند میں کہتا ہے
لہذا سنن ابو داود ٤٢٩٢ ہی میں ہے کہ ابو داود کو خود شک تھا کہ نام کیا ہے
ذي مِخْمَرٍ، الشك من أبي داود- رجُلٍ من أصحابِ النبي
صحیح ابن حبان کے مطابق یہ صحابی حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے بھتیجے تھے – اور سنن ابو داود کے مطابق یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے خادم تھے
سنن ابو داود کی حدیث ٤٤٥ کے مطابق
عَنْ ذِي مِخْبَرٍ الْحَبَشِيِّ وَكَانَ يَخْدُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
یہ رسول الله کے خدمت گزار تھے
اور صحیح ابن حبان ٦٧٠٩ کے مطابق یہ ذَا مِخْبَرِ ابْنَ أَخِي النَّجَاشِيِّ ہیں گویا شاہی خاندان سے تھے
راقم کہتا ہے یہ تضاد ہے کیونکہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے معاشرے کے محترم افراد کو خادم یا ملازم کر دیا ہو
اگر یہ حبشی تھے تو ان کا نام عربی میں کیسے ہے؟ ذی مخبر کا مطلب ہے خبر والا – یہ نام ہے یا کنیت یا لقب کچھ واضح نہیں ہے
اس کے علاوہ اس میں خالد بن معدان کا تفرد ہے جو اصحاب رسول سے مرسل روایت کرتے ہیں البتہ یہاں جبير بن نفير بن مالك بن عامر الحضرمى سے اور وہ ذی مخبر سے روایت کر رہے ہیں
امام بخاری نے تاریخ الکبیر میں ان صحابی کی ایک اور روایت بیان کی ہے
قَالَ أَبو اليَمان: حدَّثنا حَرِيز بْنُ عُثمان، عن راشد، عن أبي حَيٍّ المُؤَذن، عَنْ ذِي مِخبَر الحَبَشيّ، عَنِ النَّبيِّ صَلى اللَّهُ عَلَيه وسَلم: كَانَ هَذا الأَمرُ فِي حِميَرَ، فَنَزَعَهُ اللَّهُ مِنهُم، وجَعَلَهُ فِي قُرَيش، وسَيَعُودُ إِلَيهِم”.
رسول الله نے فرمایا یہ خلافت حمیر میں تھی، پس الله نے ان سے جھگڑا کیا اور اس کو قریش کے لئے کر دیا اور پھر یہ ان میں واپس پلٹ جائے گی
حمیر یمن کی ریاست تھی جو یہودی تھی اور حبشہ کے نصرانیوں کی ان سے جنگ تھی- اس تناظر میں یہ قول نبوی دیکھا جائے تو یہ بات کہ یہ خلافت قریش سے نکل کر حمیر میں واپس جائے گی ایک منکر قول ہے لہذا اس کو بیان نہیں کیا جاتا جبکہ یہ بھی ان صحابی کی
روایت تھی – اس روایت کی سند میں ہر راوی ایسا ہے جس کو کسی محدث نے ثقہ یا لاباس بہ کوئی برائی نہیں قرار دیا ہے- لہذا روایت پسندوں کے اصول پر یہ صحیح السند ہے- لیکن وہ اس کو چھپا کر رکھتے ہیں کہ امر خلافت قریش سے حمیری یمنیوں کے پاس جائے گا ایسا ایک قول نبوی روایت کیا جاتا تھا
نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر اس چیز کو توڑ دیتے جس پر صلیب کی تصویر بنی ہوتی لیکن جن سے معاہدہ ہو جائے ان کے ساتھ یہ سلوک نہیں کیا گیا لہذا کسی جذباتی مسلمان کا صلیب توڑنا صحیح نہیں ہے – جب اہل کتاب سے صلح ہو گئی ہو تو ایسا کرنا عہد شکنی ہے اور کیا اعلان کر کے صلیب توڑنا ابن مریم علیہ السلام سے پہلے کسی کے لئے جائز ہے؟
صحیح بخاری کی روایت ہے
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے زہری نے بیان کیا، کہا کہ مجھے سعید بن مسیب نے خبر دی، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک ابن مریم کا نزول ایک عادل حکمران کی حیثیت سے تم میں نہ ہو جائے۔ وہ صلیب کو توڑ دیں گے، سوروں کو قتل کر دیں گے اور جزیہ قبول نہیں کریں گے۔ (اس دور میں) مال و دولت کی اتنی کثرت ہو جائے گی کہ کوئی قبول نہیں کرے گا۔
ایک عام مسلمان کا امیر کی اجازت کے بغیر کوئی عمل کرنا غیر شرعی ہے یہ اوالامر کی نافرمانی ہے لہذا ان شواہد کی روشنی میں یہ قول نبوی نہیں ہو سکتا
لہذا اپ نے جو روایت پیش کی وہ روایت منکر المتن ہے
ابن عدی کتاب الکامل میں ایک اور روایت پر کہتے ہیں
وَهَذَا الْحَدِيثُ، وَإِنْ كَانَ مُسْتِقيمَ الإِسْنَادِ فَإِنَّهُ مُنْكَرُ الْمَتْنِ
اور یہ حدیث اگرچہ اس کی اسناد سیدھی ہیں یہ منکر المتن ہے
یہی رائے راقم کی اپ کی پیش کردہ روایت پر ہے
———-
مختصرُ استدرَاك الحافِظ الذّهبي على مُستدرَك أبي عبد اللهِ الحَاكم از ابن ملقن کے مطابق الذھبی نے اس روایت کو منقطع قرار دیا تھا البتہ آجکل مستدرک کی تلخیص میں صحیح لکھا ہے – یہ تحریف ہوئی یا نسخوں میں غلطی ہوئی واضح نہیں ہے
کیا یہ روایت صحیح ہے اور ایسی ہی ایک روایت میں ان الفاظ کے بجائے اس کے لئے میں تمہاری طرف سے کافی ہوں یہ الفاظ ہیں تم سب کی طرف سے میں کافی ہوں
قال الامام احمد بن حنبل : ثنا حرب بن شداد عن یحیی بن ابی کثیر قال حدثنی الحضرمی بن لاحق ان ذکوان اباصالح اخبرہ ان عائشة اخبرتہ ، قال ابوحاتم ابن حبان : اخبرنا عمران بن موسٰی بن مجاشع حدثنا عثمان بن ابی شیبة حدثنا الحسنبن موسٰی الاشیب حدثنا عن یحیی بن ابی کثیر عن الحضرمی بن لاحق عن ابی صالح عن عائشة قالت : ”دخل علیّ رسول اﷲﷺ وانا ابکی فقال لی : ما یبکیک؟فقلت : یارسول اﷲ ذکرت الدجال فبکیت فقال رسول اﷲﷺفلا تبکین فان یخرج الدجال وانا حیّ کفیتکموہ وان مت(وفی روایة) وان یخرج الدجال بعدی فان ربکم عزوجل لیس باعور وانہ یخرج فی یھودیة (وفی روایة) وانہ یخرج مع الیھود اصبھان حتی یاتی المدینة فینزل ناحیھا ولھا یومئذ سبعة ابواب علی کل نقب منھا ملکان فیخرج الیہ شرار اھلھا حتی الشام مدینة بفلسطین بباب لد وقال : ابوداؤد مرة : حتی یاتی فلسطین باب لد فینزل عیسٰی علیہ السلام فیقتلہ ثم یمکث عیسٰی علیہما السلام فی الارض اربعین سنة عدلا و حکما مقسطا.“
ام المومنین عائشہ صدیقہ طاھرۃ مطاھرۃ صلوٰت ﷲ علیہا فرماتی ہیں : رسول ﷲﷺ میرے پاس تشریف لائے اور اس وقت میں رورہی تھی رسول ﷲﷺنے مجھ سے فرمایا: تمہیں کس چیز نے رلایا؟میں نے عرض کیا یا رسول ﷲﷺ آپ نے دجال کا ذکر کیا اس لئے مجھے(اس کے خوف سے )رونا آرہا ہے رسول ﷲﷺنے فرمایا :تم مت رو اگر دجال میری زندگی میں نکلا تو اس کے لئے میں تمہاری طرف سے کافی ہوں اور اگر مجھے موت نے آلیااور اگردجال میرے بعد نکلا پس تمہارا رب عزوجل کانا نہیں ہے بے شک دجال اصفہان کے یہودیوں کے ہمراہ نکلے گا یہاں تک کہ مدینہ پہنچے گا اور مدینہ کے نواح میں نازل ہوجائے گا اور اس دن مدینہ کے سات دروازے ہونگے اور ہر دروازے پر دوفرشتے پہرہ دے رہے ہونگے اور مدینہ کے بدترین لوگ دجال کی طرف پہنچ جائیں گے یہاں تک کہ شام جا پہنچیں گے شام کے شہر فلسطین کے باب لد پر ،ایک دفعہ ابوداؤد نے یوں کہا : یہاں تک کہ دجال فلسطین میں باب لد پر آئے گا پس عیسیٰ علیہما السلام نازل ہوکر اسے قتل کردیں گے پھر اس کے بعد عیسیٰ علیہما السلام زمین پر چالیس برس ٹہریں گے امام عادل حاکم مقسط ہوکر۔
علامہ شعیب ارناؤط مسند احمد کی تحقیق میں اسے ( إسناده حسن ) کہتے ہیں
امام مصنف ابن ابی شیبہ ، اور کتاب السنۃ لاحمد بن حنبل ؒ میں مروی ہے
مسند کے الفاظ ہیں
” إِنْ يَخْرُجِ الدَّجَّالُ وَأَنَا حَيٌّ كَفَيْتُكُمُوهُ، وَإِنْ يَخْرُجْ بَعْدِي ، فَإِنَّ رَبَّكُمْ عَزَّ وَجَلَّ لَيْسَ بِأَعْوَرَ،‘‘
اور مصنف ابن ابی شیبہ میں یہاں الفاظ یہ ہیں
«فَلَا تَبْكِي فَإِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا حَيٌّ أَكْفِيكُمُوهُ , وَإِنْ أَمُتْ فَإِنَّ رَبَّكُمْ لَيْسَ بِأَعْوَرَ ‘‘
اور السنۃ ۔۔ کے لفظ یہ ہیں
«فَلَا تَبْكِي فَإِنَّهُ إِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا حَيٌّ أَكْفِيكُمُوهُ، وَإِنْ مُتُّ فَإِنَّ رَبِّي لَيْسَ بِأَعْوَرَ»
کیا ان سب کا مطلب ایک جیسا ہی ہے
جواب
اس کی سند میں الحضرمي بن لاحق پر محدثین کا اختلاف ہے بعض کہتے ہیں مجھول ہے بعض کہتے ہیں اس نام کے دو لوگ تھے
الحضرمي بن لاحق پر واضح نہیں کون ہے
یہ روایت اس سند سے بھی ہے
أخبرنا عبد الرزاق عن معمر عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنِ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ الْأَنْصَارِيَّةِ
لیکن یہ ضعیف ہے
دجال رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام قرب قیامت میں قتل کریں گے تو رسول الله ایسا کیوں کہتے کہ اگر وہ میری زندگی میں نکلا
لہذا یہ منکر روایت ہے
بھائی اس کے بارے میں تحقیق چاہیے ۔۔ دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوگا
جواب
حدیث میں ہے کہ دجال سے جو ملاقات کرے گا وہ اس کو مومن سمجھے گا اور خبردار وہ کانا ہے تمہارا رب کانا نہیں ہے
اس کی آنکھوں کے بیچ میں کفر لکھا ہو گا
یہ روایت انس رضی الله عنہ کی ہے البتہ صحیح بخاری میں ہے کہ ابن عباس نے کہا کہ انہوں نے اس کو نہیں سنا
عن مجاهدٍ أنَّه سَمِعَ ابنَ عباسٍ رضيَ الله عنهما- وذكروا له الدَّجَّالَ: بينَ عينَيْهِ مكتوبٌ: كافرٌ، أو كَ فَ رَ؟ – قالَ: لم أسْمَعْهُ
مجاہد نے کہا میں نے ابن عباس سے سنا کہ دجال کا ذکر ہوا کہ اس کی آنکھوں کے بیچ لکھا ہو گا کافر یا ک ف ر ؟ ابن عباس نے کہا میں نے یہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے نہیں سنا
—–
اس ک ف ر والی روایت کو بصریوں مثلا شُعْبَةُ، قَتَادَةَ ، شُعَيْبُ بْنُ الْحَبْحَابِ، حُمَيْدٍ الطویل نے انس سے روایت کیا ہے کہ ک ف ر لکھا ہو گا اور حجاج بن محمد المصيصى بغدادی نے کہا قتادہ نے کہا تھا کافر لکھا ہو گا یعنی حروف نہیں بلکہ کوئی کلمہ کفر
اس کا ذکر مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، وَحَجَّاجٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يُحَدِّثُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا وَقَدْ أَنْذَرَ أُمَّتَهُ الْأَعْوَرَ الْكَذَّابَ، أَلَا إِنَّهُ أَعْوَرُ، وَإِنَّ رَبَّكُمْ لَيْسَ بِأَعْوَرَ، مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ: ك ف ر ” قَالَ حَجَّاجٌ: ” كَافِرٌ
اسی طرح بصرہ کے شُعَيْبُ بْنُ الْحَبْحَابِ اس روایت میں ک ف ر تو توڑ کر بیان کرتے تھے
امام مسلم نے صحیح میں یہ روایت نقل کی ہے
امام بخاری نے کافر لکھا ہو گی روایت انس رضی الله عنہ کی سند سے بیان کی ہے
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنَا قَتَادَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَا بَعَثَ اللَّهُ مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا أَنْذَرَ قَوْمَهُ الأَعْوَرَ الكَذَّابَ، إِنَّهُ أَعْوَرُ وَإِنَّ رَبَّكُمْ لَيْسَ بِأَعْوَرَ، مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ كَافِرٌ
یعنی ک ف ر کو توڑا نہیں ہے
——–
حدیث کے الفاظ کا سادہ مطلب بعض بصری راویوں نے لیا ہے کہ
ك ف ر
لکھا ہو گا
لیکن اس پر راقم سمجھتا ہے کہ دجال دو متضاد دعوے کرے گا مسلمانوں کے لئے مسلمان بنے گا اور دیگر اقوام جو اوتار کی قائل ہیں ان کے لئے خود کو اوتار کہے گا – اغلبا وہ جمع بین المذاھب کی کسی تحریک کا قائد ہو گا
اس کی آنکھوں کے بیچ کفر لکھا ہونے کا مطلب ہو سکتا ہے
٧٨٦ لکھا ہو
⇓ ہم بسم الله کی جگہ ٧٨٦ لکھتے ہیں کیا یہ صحیح ہے ؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/متفرق/
یا
مہر سلیمانی یا ربع الحزب بنا ہو
یا
عبرانی کا حرف
X
بنا ہو
ابن کثیر ، النهاية في الفتن والملاحم کے بقول دجال کے ماتھے پر ک ف ر ہی لکھا ہو گا
أَنَّهُ كِتَابَةٌ حِسِّيَّةٌ لَا مَعْنَوِيَّةٌ
یہ حسی طور پر ہو گا نہ کہ معنوی طور پر
جواب
صحیح مسلم میں ہے
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى لَا يُقَالَ فِي الْأَرْضِ: اللهُ، اللهُ ”
حماد بن سلمہ نے ثابت سے روایت کیا انہوں نے انس سے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا قیامت قائم نہ ہو گی حتی کہ کوئی نہ ہو گا جو زمین پر کہے الله الله
سند مضبوط نہیں ہے حماد بن سلمہ اختلاط کا شکار ہوئے تھے
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لَا تَقُومُ السَّاعَةُ عَلَى أَحَدٍ يَقُولُ: اللهُ، اللهُ
قیامت قائم نہ گی انمیں سے کسی پر بھی جو کہے الله الله
اس میں عَبْدُ الرَّزَّاقِ، کا تفرد ہے آخری عمر میں مختلط تھے
یہ دونوں روایات بصریوں کی ہیں –
صحیح بخاری میں ہے
حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ أَنَّهُ سَمِعَ الزُّهْرِيَّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُنَّ أَنَّهَا قَالَتْ: اسْتَيْقَظَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ النَّوْمِ مُحْمَرًّا وَجْهُهُ يَقُولُ: «لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ فُتِحَ اليَوْمَ مِنْ رَدْمِ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مِثْلُ هَذِهِ» وَعَقَدَ سُفْيَانُ تِسْعِينَ أَوْ مِائَةً قِيلَ: أَنَهْلِكُ وَفِينَا الصَّالِحُونَ؟ قَالَ: «نَعَمْ إِذَا كَثُرَ الخَبَثُ»
زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ رَضِيَ اللَّهُ عنہا کہتی ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نیند سے اٹھے اور اپ کے چہرہ پر سرخی تھی اور کہہ رہے تھے الله کے سوا کوئی اله نہیں ، عرب کے لئے بر بادی ہے اس شر سے جو قریب ہوا- آج کے دن یاجوج و ماجوج کے لئے رستہ کھل گیا ، اتنا – اور سفیان نے ٩٠ یا ١٠٠ بنایا کہا گیا : ہم ہلاک ہوں گے اور ہم میں صالح بھی ہوں گے ؟ فرمایا : ہاں کیونکہ خبث بڑھ جائے گا
امام بخاری کے مطابق الله الله کہنے والے صالحین پر یاجوج ماجوج چڑھ دوڑئیں گے
راقم کے نزدیک یاجوج ماجوج قیامت کی آخری نشانی ہیں
——
امام وکیع نے اس قول علی کو صحیح کہا ہے
حَدَّثَنَاهُ الْأَعْمَشُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ سُوَيْدٍ نے کہا میں نے علی رضی الله عنہ سے سنا : اسلام میں نقص آئے گا یہاں تک کہ کوئی الله الله نہ کہے گا
جواب
ابن کثیر نے کتاب میں کہا ہے
وَقَدْ تَمَسَّكَ بِهَذَا الْحَدِيثِ طَائِفَةٌ مِنَ الْعُلَمَاءِ كَابْنِ حَزْمٍ وَالطَّحَاوِيِّ وَغَيْرِهِمَا فِي أَنَّ الدَّجَّالَ مُمَخْرِقٌ1 مُمَوِّهٌ لَا حَقِيقَةَ لِمَا يُبْدِي لِلنَّاسِ مِنَ الْأُمُورِ الَّتِي تُشَاهَدُ فِي زَمَانِهِ
ان احادیث سے علماء کے ایک گروہ مثلا ابن حزم اور امام طحاوی نے تمسک کیا ہے کہ دجال ایک شعبدہ باز ہو گا جو حقیقت پر منبی نہ گا جب وہ ان امور کو اپنے زمانے کے لوگوں کو دکھائے گا
ابن کثیر نے اسی کتاب میں کہا
وَهَذَا كُلُّهُ لَيْسَ بمخرفة بل له حقيقة
دجال کے کام در حقیقت ہوں گے ان میں شعبدہ بازی نہ ہو گی
راقم کو اس کا علم نہیں ہے کہ اس کی حقیقت کیا ہے
اس روایت کو قیامت کے اثار صغری میں شمار کیا جاتا ہے اور دس نشانیوں کو اثار الکبری کہا جاتا ہے
لیکن اگر اپ اس حدیث کو غور سے دیکھیں تو یہ بہت سخت قول ہے
اس کا مطلب ہے کہ ایمان مکہ سے نکل جائے گا اور مدنیہ سے بھی نکل جائے گا
مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ أَحْمَدَ: وَسَمِعْتُهُ أَنَا مِنَ ابْنِ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ الْإِسْلَامَ بَدَأَ غَرِيبًا، وَسَيَعُودُ كَمَا بَدَأَ (1) ، فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ “، قِيلَ: وَمَنِ الْغُرَبَاءُ؟ قَالَ: ” النُّزَّاعُ مِنَ الْقَبَائِلِ
عَبْدِ اللهِ نے کہا نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اسلام اجنبت میں شروع ہوا اور ایسا ہی ہو جائے گا پس خوش خبری ہو اجنبییوں کے لئے – کہا گیا اجنبی کون ؟ فرمایا قبائل کا فساد
شعيب الأرنؤوط کے نزدیک سند مسلم کی شرط پر صحیح ہے
مسند ابویعلی میں ہے
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو صَخْرٍ، أَنَّ أَبَا حَازِمٍ، حَدَّثَهُ، عَنِ ابْنٍ لِسَعْدٍ، قَالَ، سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ الْإِيمَانَ بَدَأَ غَرِيبًا، وَسَيَعُودُ كَمَا بَدَأَ، فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ يَوْمَئِذٍ إِذَا فَسَدَ النَّاسُ، وَالَّذِي نَفْسُ أَبِي الْقَاسِمِ بِيَدِهِ لَيَأْرِزَنَّ الْإِسْلَامُ بَيْنَ هَذَيْنِ الْمَسْجِدَيْنِ كَمَا تَأْرِزُ الْحَيَّةُ فِي جُحْرِهَا»
سعد بن ابی وقاص نے کہا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کو فرماتے سنا ایمان اجنبیت میں شروع ہوا اور ایسا ہی ہو جائے گا پس خوشخبری ہو اجنبی کے لئے اس روز لوگوں میں فساد ہو گا اور وہ جس کے ہاتھ میں ابو قاسم کی جان ہے ایمان سانپ کی طرح دو مسجدوں کے درمیان سرکے گا جیسے سانپ بل میں جاتا ہے
حسين سليم أسد نے اس کو صحیح قرار دیا ہے
صحیح بخاری میں ہے
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ المُنْذِرِ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِنَّ الإِيمَانَ لَيَأْرِزُ إِلَى المَدِينَةِ كَمَا تَأْرِزُ الحَيَّةُ إِلَى جُحْرِهَا»
أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، نے کہا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نے فرمایا ایمان مدینہ کی طرف سرکے گا جیسے سانپ اپنے بل کی طرف اتا ہے
اس روایت کے متن میں یہ ہے کہ
ایمان مسجدوں کے درمیان کہا گیا ہے مسجد النبی اور مسجد الحرام میں قرار نہیں دیا گیا
ایمان مدینہ میں کہا گیا ہے مسجد النبی کو اس سے نکال دیا گیا ہے
یہ سب عرب قبائل کے فساد کے وقت ہو گا – ایسا متعدد بار ہوا جنگ جمل بھی قبائل کا فساد ہے – بنو امیہ اور بنو عباس کا فساد بھی قبائل کا اپس کا فساد ہے
بعض کے نزدیک روایت کا حصہ جس میں ہے کہ ایمان مدینہ میں آئے گا یہ حدیث پوری ہوئی
عمدة القاري شرح صحيح البخاري میں بدر الدين العينى (المتوفى: 855هـ) نے کہا
قلت: هَذَا إِنَّمَا كَانَ فِي زمن النَّبِي، صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، وَالْخُلَفَاء الرَّاشِدين إِلَى انْقِضَاء الْقُرُون الثَّلَاثَة، وَهِي تسعون سنة، وَأما بعد ذَلِك فقد تَغَيَّرت الْأَحْوَال وَكَثُرت الْبدع خُصُوصا فِي زَمَاننَا هَذَا على مَا لَا يخفى.
یہ بات دور نبوی کی تھی اور خلفاء راشدین سے تین قرون پورے ہونے تک اور یہ ٩٠ سال ہیں پس ان کے بعد تغیر آیا ہے اور بدعات کی کثرت ہوئی ہے اس زمانے میں جو کسی سے مخفی نہیں
كشف المشكل من حديث الصحيحين میں ابن جوزی کا قول ہے
(إِن الْإِيمَان ليأرز إِلَى الْمَدِينَة)) أَي يجْتَمع إِلَيْهَا بِهِجْرَة الْمُهَاجِرين
ایمان مدینہ کی طرف سرکے گا یعنی جمع ہو گا جب مہاجرین (اصحاب رسول) نے اس کی طرف ہجرت کی تھی
یعنی یہ قول دور نبوی میں پورا ہو چکا یا العينى کے بقول اس میں نوے سال کی مدت کا ذکر ہے
مصابيح الجامع از بدر الدين المعروف بالدماميني، وبابن الدماميني (المتوفى: 827 هـ) کے مطابق
قال الداودي: كان هذا في حياة النبي – صلى الله عليه وسلم -] (4)، والقَرْن الذي يليه، ومن يليه -أيضاً
الداودي نے کہا ایسا رسول الله کی زندگی میں ہوا اور اس قرن میں جو ان کے دور سے ملا ہوا ہے اور وہ جو اس سے ملا ہوا ہے
یعنی الداودي کے بقول اس حدیث کی شرح خیر القرون قرنی والی روایت سے ہوتی ہے یہ وقت گزر چکا
پھر اس پر اور قول بھی ہیں ملا علی القاری نے مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں کہا
وَهَذَا إِخْبَارٌ عَنْ آخِرِ الزَّمَانِ حِينَ يَقِلُّ الْإِسْلَامُ، وَقِيلَ: هَذَا فِي زَمَنِ النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – لِاجْتِمَاعِ الصَّحَابَةِ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ فِيهَا، أَوِ الْمُرَادُ بِالْمَدِينَةِ جَمِيعُ الشَّامِ فَإِنَّهَا مِنَ الشَّامِ خُصَّتْ بِالذِّكْرِ لِشَرَفِهَا، وَقِيلَ: الْمُرَادُ الْمَدِينَةُ وَجَوَانِبُهَا وَحَوَالَيْهَا لِيَشْمَلَ مَكَّةَ فَيُوَافِقَ رِوَايَةَ الْحِجَازِ وَهَذَا أَظْهَرُ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ.
یہ آخری زمانہ میں ہو گا جب اسلام کی قلت ہو گی اور کہا گیا کہ دور نبوی میں ہو چکا جب اصحاب رسول اس میں جمع ہوئے یا مدینہ سے مراد ملک شام ہے کیونکہ شام کی فضیلت ہے اور کہا گیا مدینہ کا قرب و جوار ہے اس میں مکہ شامل ہے جو حجاز ہے اور یہ ظاہر ہے و الله اعلم
مدینہ میں ایمان ہوتا تو ساتویں صدی ہجری میں اس میں جھل کا مظاہرہ نہ ہوتا جس کا ذکر وہابی مفتی بن باز کرتے ہیں
عبد العزيز بن عبد الله بن باز (المتوفى: 1420هـ) اپنے فتویٰ جو کتاب فتاوى نور على الدرب ج ٢ ص ٣٣٢ میں چھپا ہے میں گنبد الخضرا پر کہتے ہیں کہ
لا شك أنه غلط منه، وجهل منه، ولم يكن هذا في عهد النبي – صلى الله عليه وسلم – ولا في عهد أصحابه ولا في عهد القرون المفضلة، وإنما حدث في القرون المتأخرة التي كثر فيها الجهل، وقل فيها العلم وكثرت فيها البدع، فلا ينبغي أن يغتر بذلك
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ غلطی ہے اور جھل ہے، اور یہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور میں نہ تھا، نہ ہی صحابہ کے دور میں تھا ، نہ ہی قرون اولی میں تھا، اور بے شک اس کو بعد میں آنے والے زمانے میں بنایا گیا جس میں جھل کی کثرت تھی اور علم کی کمی تھی اور بدعت کی کثرت تھی پس یہ جائز نہیں کہ اس سے دھوکہ کھایا جائے
یہ شواہد اشارہ کرتے ہیں کہ ایمان مسجدوں سے نکل گیا اور اب اپ مسجد النبی دیکھ سکتے ہیں جہاں صبح و شام قبر پر ہجوم ہے لوگ حیات النبی کا عقیدہ اور سماع عند القبر کا عقیدہ رکھتے ہیں
راقم کے نزدیک دجال ایک مسلمان ہے جو کعبہ کا طواف کرے گا
مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ؛ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: «أُرَانِي اللَّيْلَةَ عِنْدَ الْكَعْبَةِ. فَرَأَيْتُ رَجُلاً آدَمَ. كَأَحْسَنِ مَا أَنْتَ رَاءٍ مِنْ أُدْمِ الرِّجَالِ. لَهُ لِمَّةٌ كَأَحْسَنِ مَا أَنْتَ رَاءٍ مِنَ اللِّمَمِ. قَدْ رَجَّلَهَا فَهِيَ تَقْطُرُ مَاءً. مُتَّكِئاً عَلَى رَجُلَيْنِ، أَوْ عَوَاتِقِ رَجُلَيْنِ. يَطُوفُ بِالْكَعْبَةِ. فَسَأَلْتُ: مَنْ هذَا؟
فَقِيلَ: هذَا الْمَسِيحُ بْنُ مَرْيَمَ – ثُمَّ إِذَا أَنَا بِرَجُلٍ جَعْدٍ قَطَطٍ . أَعْوَرِ الْعَيْنِ الْيُمْنَى. كَأَنَّهَا عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ. فَسَأَلْتُ: مَنْ هذَا؟
فَقِيلَ: هذَا الْمَسِيحُ الدَّجَّالُ
مالک ، نافع سے وہ عبد الله بن عمر رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
میں نے رات میں نیند میں کعبہ کے پاس آدمیوں میں سے ایک بہت خوب آدمی دیکھا ….دو آدمیوں پر سہارا لئے کعبہ کا طواف کر رہا تھا میں نے پوچھا کون ہے کہا گیا مسیح ابن مریم- پھر ایک انگور کی طرح پھولی انکھ سے کانے کو دیکھا جس کے بال گھونگھر والے تھے – پوچھا یہ کون ہے کہا مسیح دجال ہے
موطا امام مالک
وہ روایات جن میں ہے دجال مکہ میں داخل نہ ہو گا وہ میرے نزدیک شاذ و ضعیف ہیں
دابه الارض مکہ میں صفا سے نکلے گا
أخبار مكة وما جاء فيها من الأثار از أبو الوليد بالأزرقي (المتوفى: 250هـ) کی روایت ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عِمْرَانَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: تَخْرُجُ الدَّابَّةُ مِنْ تَحْتِ الصَّفَا
عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو نے کہا دابه الارض کوہ صفا کی تہہ سے نکلے گا
اس کی سند بطور شاہد صحیح ہے
واختلف في روايته عن عبد الله بن عمرو فقيل لم يسمع منه قلت أخرج له البخاري عنه حديثين
اس میں اختلاف ہے کہ مجاہد کا سماع عبدالله بن عمرو سے ہے یا نہیں البتہ امام بخاری نے ان کی روایت صحیح میں لی ہے
اخبار مکہ از أبو عبد الله محمد بن إسحاق بن العباس المكي الفاكهي (المتوفى: 272هـ) کی روایت ہے
وَحَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ قَالَ: ثنا أَبُو شِبْلٍ مُهَنَّا عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ كَرِيزٍ، وَقَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ أَخَذَ نَعْلَهُ وَقَالَ: ” لَوْ شِئْتُ أَنْ لَا أَنْتَعِلَ حَتَّى أَضَعَ رِجْلَيَّ حَيْثُ تَخْرُجُ الدَّابَّةُ مِنْ قِبَلِ أَجْيَادَ مِمَّا يَلِي الصَّفَا
عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو نے کہا دابه الارض ان چٹانوں سے نکلے گا جو کوہ صفا سے ملی ہیں
اس سند میں انقطاع ہے
المقصد العلي في زوائد أبي يعلى الموصلي از الهيثمي (المتوفى: 807هـ) کی رویات ہے
حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَامِرٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ فَذَكَرَ بِهَذِهِ التَّرْجَمَةِ أَحَادِيثَ يَقُولُ فِيهَا: وَبِهِ.
فَمِنْهَا: عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ: أَلا أُرِيكُمُ الْمَكَانَ الَّذِي قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ دَابَةَ الأَرْضِ تَخْرُجُ مِنْهُ» .
فَضَرَبَ بِعَصَاهُ الشِّقَّ الَّذِي فِي الصَّفَا
ابْنِ عُمَرَ نے کہا میں تم کو مکان دکھا دوں جس کے لئے رسول الله نے فرمایا یہاں سے دابه الارض نکلے گا پس انہوں نے کوہ صفا پر اپنے عصا سے ضرب لگائی
اس کی سند صحیح ہے
یہ اقوال ثابت کرتے ہیں کہ ایمان مکہ میں نہیں ہو گا اسی بنا پر دابه الارض وہاں سے نکلے گا
و الله اعلم
یہ روایت کئی سندوں سے ہے
اول
حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ جَدِّهِ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ
امام بخاری و مسلم نے یہ سند دی ہے
میزان الاعتدال میں ہے
عقبة بن خالد [ع] السكوني. عن عبيد الله بن عمر.
وقال العقيلي: لا يتابع على حديثه.
عقیلی کہتے ہیں اس کی حدیث کی متابعت نہیں ہوتی
البتہ دوسری سند میں متابعت ہے دوسری سند ہے
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ
یہاں محمد بن عمرو بن علقمة بن وقاص الليثي نے أبي سلمة بن عبد الرحمن سے روایت کیا ہے
يَحْيى بْنِ سَعِيد القطان اس محمد بن عمرو بن علقمة سے روایت لینا پسند نہیں کرتے تھے
قَالَ السعدي مُحَمد بن عَمْرو بْن علقمة ليس بقوي الحديث ويشتهى حديثه
السعدي نے کہا مُحَمد بن عَمْرو بْن علقمة کی روایت قوی حدیث نہیں ہے
یعنی متابعت بھی مضبوط نہیں ہے البتہ بعض محدثین کے نزدیک یہ راوی قابل قبول ہے
بہر حال شیخین کے نزدیک یہ روایت صحیح ہے
دیگر اسناد کتاب الفتن از نعیم بن حماد میں ہیں
وَقَدِ انْحَسَرَ الْفُرَاتُ عَنْ جَبَلٍ مِنْ ذَهَبٍ
قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مُهَاجِرٍ، وَحَدَّثَنِي الْجُنَيْدُ بْنُ مَيْمُونٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ
اور
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُهَاجِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي جُنَيْدُ بْنُ مَيْمُونٍ، عَنْ ضِرَارِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ
الْجُنَيْدُ بْنُ مَيْمُونٍ مجہول ہے
قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ نُعَيْمٌ: – حَدَّثَنِي غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنِ ابْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،
سند میں – حَدَّثَنِي غَيْرُ وَاحِدٍ مجہول ہیں
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ ضِرَارِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ أَبِي فَرْوَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ
ضِرَارِ بْنِ عَمْرٍ مبہم ہے اور إِسْحَاقَ بْنِ أَبِي فَرْوَةَ مجہول ہے
حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، ثَنَا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ، ابن معین کے نزدیک قوی نہیں دیگر کے نزدیک ثقہ ہیں لیکن سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ، مختلط بھی ہوئے ہیں
-==========
راقم کو اس کی صحت پر عدم اطمینان ہے – اس روایت میں ابو ہریرہ رضی الله عنہا کا تفرد ہے معلوم نہیں کہ دیگر اصحاب رسول نے اس کو بیان کیوں نہیں کیا خاص کر ابن مسعود رضی الله عنہ اور ابو موسی اور علی اور زید بن ارقم جنہوں نے فرات کے پاس جا کر گھر بسایا ان سے اس قسم کی کوئی روایت منقول نہیں ہے جبکہ اگر ایسا ہوتا تو لوگ سب سے پہلے ان سے سوال کرتے