Questions answered by Abu Shahiryar
توریت
جواب
مسند احمد کی روایت ہے
حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ، قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا مُجَالِدٌ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ الله، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكِتَابٍ أَصَابَهُ مِنْ بَعْضِ أَهْلِ الْكُتُبِ، فَقَرَأَهُ عَلَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَغَضِبَ وَقَالَ: «أَمُتَهَوِّكُونَ فِيهَا يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ جِئْتُكُمْ بِهَا بَيْضَاءَ نَقِيَّةً، لَا تَسْأَلُوهُمْ عَنْ شَيْءٍ فَيُخْبِرُوكُمْ بِحَقٍّ فَتُكَذِّبُوا بِهِ، أَوْ بِبَاطِلٍ فَتُصَدِّقُوا بِهِ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ مُوسَى كَانَ حَيًّا، مَا وَسِعَهُ إِلَّا أَنْ يَتَّبِعَنِي
جابر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ عمر بن الخطاب رضی الله تعالی عنہ اپنے باتھوں میں اہل کتاب کی کوئی تحریر لے کر آئے ہے نبی صلی الله علیہ وسلم کے سامنے اس کو پڑھا اپ صلی الله علیہ وسلم غضب ناک ہوئے اور فرمایا کہ اے ابن الخطاب! کیا تم لوگوں کو تردد اور اضطراب میں ڈالنا چاہتے ہو ۔ وہ ذات جس کے ہاتھ میں میری جان ہے بے شک میں ایک پاکیزہ چمکدارشریعت تمہارے لئے لایا ہوں تم ان سے سوال نہ کرو جس کی وہ تمہیں سچی خبردیں پھر تم تکذیب کرو یا باطل کہیں اور تم تصدیق کر بیٹھو. وہ ذات جس کے باتھ میں میری جان ہے اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے اور تم مجھے چھوڑ کر ان کا اتباع کرتے تو تم ضرور گمراہ ہوجاتے۔
شعيب الأرناؤوط کہتے ہیں إسناده ضعيف اسکی اسناد ضعیف ہیں
یہ روایت متن کی تبدیلی کے ساتھ عَبْدِ الله بْنِ ثَابِتٍ سے بھی مروی ہے سند ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَبْدِ الله بْنِ ثَابِتٍ
سنن دارمی کے مطابق یہ کتاب جو عمر رضی الله تعالی عنہ پڑھ رہے تھے التَّوْرَاةِ تھی سند ہے
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ الله عَنْهُ
مسند احمد کے علاوہ بَيْهَقِيُّ كِتَابِ شُعَبِ الْإِيمَانِ میں اس کو مجالد کی سند سے نقل کرتے ہیں
مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں مبارکبوری لکھتے ہیں
فقد روي نحو عن ابن عباس عند أحمد وابن ماجه، وعن جابر عند ابن حبان، وعن عبد الله بن ثابت عند أحمد وابن سعد والحاكم في الكنى، والطبراني في الكبير، والبيهقي في شعب الإيمان
پس اسی طرح ابن عباس کی سند سے احمد اور ابن ماجہ نے اور جابر کی سند سے ابن حبان نے اور عبد الله بن ثابت سے احمد اور ابن سعد نے اور الحاکم نے لکنی میں اور طبرانی نے کبیر میں اور بیہقی نے شعب الإيمان میں روایت کیا ہے
اس روایت کی تمام اسناد میں راوی مُجَالِدُ بنُ سَعِيْدِ بنِ عُمَيْرِ بنِ بِسْطَامَ الهَمْدَانِيُّ المتوفی ١٤٤ ھ کا تفرد ہے
أَبُو حَاتِمٍ کہتے ہیں لاَ يُحْتَجُّ بِهِ اس سے دلیل نہ لی جائے
ابْنُ عَدِيٍّ کہتے ہیں اس کی حدیث: لَهُ عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرٍ أَحَادِيْثُ صَالِحَةٌ صالح ہیں
أَبُو سَعِيْدٍ الأَشَجُّ اس کو شِيْعِيٌّ یعنی شیعہ کہتے ہیں
الميموني کہتے ہیں ابو عبدللہ کہتے ہیں
قال أبو عبد الله: مجالد عن الشعبي وغيره، ضعيف الحديث. «سؤالاته» احمد کہتے ہیں مجالد کی الشعبي سے روایت ضعیف ہے
ابن سعد کہتے ہیں كان ضعيفا في الحديث، حدیث میں ضعیف ہے
المجروحین میں ابن حبان کہتے ہیں كان رديء الحفظ يقلب الأسانيد ويرفع، ردی حافظہ اور اسناد تبدیل کرنا اور انکو اونچا کرنا کام تھا
ابن حبان نے صحیح میں اس سے کوئی روایت نہیں لی
ابن حبان المجروحین میں لکھتے ہیں کہ امام الشافعی نے کہا
وَالْحَدِيثُ عَنْ مُجَالِدٍ يُجَالِدُ الْحَدِيثَ
اور مجالد يُجَالِدُ الْحَدِيثَ ہے
ابن حبان راوی مجالد بن سعید کی ایک مخدوش روایت المجروحین میں نقل کرتے ہیں
قَالَ أَبُو حَاتِم رَوَى مُجَالِدٌ عَنْ أَبِي الْوَدَّاكِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنِ النَّبِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ لَيَرَوْنَ أَعْلَى عِلِّيِّينَ كَمَا تَرَوْنَ الْكَوْكَبَ الدُّرِّيَّ فِي السَّمَاءِ
ابی سعید الخدری رضی الله تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرماتا کہ بے شک اہل جنت أَعْلَى عِلِّيِّينَ کو ایسے دیکھتے ہیں جسے آسمان میں تارہ
محدثین کے نزدیک اس مجروح روایت کو دلیل بناتے ہوئے ابو جابر دامانوی نے دین الخالص قسط اول میں لکھا تھا
سلف صالحین نے علیین اور سجین کو اعمال ناموں کے دفتر کے علاوہ روحوں کامسکن کہا ہےتوانکی یہ بات بالکل بے بنیاد نہیں
قارئین جس روایت کو محدثین راوی پر جرح میں پیش کر رہے ہیں فرقہ اہل حدیث اس کو دلیل میں پیش کر رہا ہے کیسا تضاد ہے. یہ ایک اعتراض تھا
مجالد کی کوئی روایت صحیح ابن حبان میں نہیں
بحر الحال مجالد کو دارقطنی ليس بثقة ثقه نہیں کہتے ہیں
بخاری تاریخ الکبیر میں لکھتے ہیں
كَانَ يَحيى القَطّان يُضَعِّفُهُ. يَحيى القَطّان اسکی تضعیف کرتے تھے
وكَانَ ابْن مَهديّ لا يروي عنه. ابْن مَهديّ اس سے روایت نہیں کرتے تھے
ابن حجر کہتے ہیں
ليس بالقوى و قد تغير فى آخر عمره
قوی نہیں اور آخری عمر میں تغیر ہو گیا تھا
نسائی کہتے ہیں ثقه ہے اور ليس بالقوى قوی نہیں بھی کہتے ہیں
امام مسلم نے صحیح میں الشّعبِيّ کی سند سے الطَّلَاق میں صرف ایک روایت نقل کی ہے. امام مسلم نے اس کی سند اس طرح پیش کی ہے
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا سَيَّارٌ، وَحُصَيْنٌ، وَمُغِيرَةُ، وَأَشْعَثُ، وَمُجَالِدٌ، وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ، وَدَاوُدُ، كُلُّهُمْ عَنِ الشَّعْبِيِّ،
یعنی سات راویوں بشمول َمُجَالِدٌ نے طلاق کی ایک روایت الشَّعْبِيِّ سے نقل کی ہے
بس صرف یہی روایت ہے جس پر اس کو صحیح مسلم کا راوی گردانا جاتا ہے
حیرت ہے کہ عرب علماء میں شعيب الأرناؤوط کے علاوہ عصر حاضر میں کوئی اس روایت کو ضعیف نہیں کہتا بلکہ سب شوق سے اس کو فتووں میں لکھتے ہیں
اس بحث کا لب لباب ہے کہ مجالد کی کتب سماوی کے بارے میں روایت منکر ہے
بخاری کی روایت ہے کہ ابن عبّاس کہتے ہیں
يا معشر المسلمين، كيف تسألون أهل الكتاب عن شيء، وكتابكم الذي أنزل الله على نبيكم صلى الله عليه وسلم أحدث الأخبار بالله، محضا لم يشب، وقد حدثكم الله: أن أهل الكتاب قد بدلوا من كتب الله وغيروا، فكتبوا بأيديهم الكتب، قالوا: هو من عند الله ليشتروا بذلك ثمنا قليلا، أولا ينهاكم ما جاءكم من العلم عن مسألتهم؟ فلا والله، ما رأينا رجلا منهم يسألكم عن الذي أنزل عليكم
اے مسلمانوں تم اہل کتاب سے کیسے سوال کر لیتے ہو ان چیزوں پر ان کا ذکر الله نے اس کتاب میں کیا ہے جو اس نے اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم پر نازل کی ہے … اور اللہ نے تم کو بتا دیا ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب بدلی اور اپنے ہاتھ سے لکھا اور کہا کہ یہ وہ ہیں جنہوں نے اس کو جو ان کے پاس ہے اس کو قلیل قیمت پر بیچ دیا- میں تم کو کیوں نہ منع کروں ان مسائل میں ان سے سوال کرنے سے جن کا علم تم کو آ چکا ہے- اللہ کی قسم میں نہیں دیکھتا کہ وہ تم سے سوال کرتے ہو جو تم پر نازل ہوا ہے
ابن عبّاس کی بات سے ظاہر ہے کہ یہ ان نو مسلموں کے لئے ہے جن کی تربیت رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے نہیں کی تھی اور وہ یہود و نصاری سے ان مسائل میں سوال کر رہے تھے جن کی وضاحت قران میں کی جا چکی ہے – ان میں کعب الاحبار تھے جو عمر کے دور میں ایمان لائے لیکن ابن عباس ان کے بیٹے نوف البکالی کو ابن عباس کذاب کہتے تھے
کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ العنکبوت آیت ٥١ میں فرمایا ہے کہ
أوَلَمْ يَكْفِهِمْ اَنَّآ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ يُتْلٰى عَلَيْهِمْ
ان کو کافی نہیں کہ ہم نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جو ان پر پڑھی جاتی ہے
لیکن اس آیت کی یہ تفسیر نہیں ابن کثیر مقدمہ میں لکھتے ہیں
وَمَعْنَى ذَلِكَ: أو لم يَكْفِهِمْ آيَةٌ دَالَّةٌ عَلَى صِدْقِكَ إِنْزَالُنَا الْقُرْآنَ عَلَيْكَ وَأَنْتَ رَجُلٌ أُمِّيٌّ
اور اس کا معنی ہے أو لم يَكْفِهِمْ آيَةٌ دال ہے کہ قرآن الله نے نازل کیا ہے اور اپ ایک امی رسول ہیں
قرآن میں النَّحْلِ ٤٣ یہ بھی ہے
وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
اور ہم نے اپ سے پہلے جن رسولوں کو بھیجا وہ سب مرد تھے ہم ان پر وحی کرتے تھے پس اہل ذکر سے پوچھ لو اگرتم (لوگوں) کو معلوم نہیں ہے
عربوں کو کہا جا رہا ہے کہ اہل کتاب سے پوچھ لو یہی تفسیر ابن عباس سے نقل کی گئی ہے. تفسیر ابن کثیر کے مطابق مُجَاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ الْمُرَادَ بِأَهْلِ الذِّكْرِ: أَهْلُ الْكِتَابِ
تفسیر ابن ابی حاتم ج ٧ ص ٢٨٨٤ کے مطابق
يَعْنِي فاسألوا أَهْل الذكر والكتب الماضية
پس اہل کتاب سے پوچھو اور کتب ماضی سے رجوع کرو
عَنْ ابْنِ عباس فسئلوا أَهْل الذِّكْرِ يَعْنِي مشركي قريش، إِنَّ محمدًا رسول الله في التوراة والإنجيل
سعید بن جبیر کہتے ہیں یہ عبدللہ بن سلام اور اہل توریت کے ایک گروہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے
عن سعيد بن جبير في قوله: فسئلوا أَهْل الذِّكْرِ قَالَ: نَزَلَتْ فِي عَبْد اللَّهِ بْنِ سَلامٍ ونفر مِنَ اهْل التوراة
ابوھریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک اور روایت ہے جو بخاری روایت کرتے
اہل کتاب (یہودی) تورات کو خود عبرانی زبان میں پڑھتے ہیں لیکن مسلمانوں کے لیے اس کی تفسیر عربی میں کرتے ہیں۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
تم اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ تم تکذیب کرو بلکہ یہ کہا کرو : آمنا بالله وما أنزل إليناہم ایمان لائے اللہ پر اور اس چیز پر جو ہماری طرف نازل کی گئی صحيح بخاري
اب ان کتب کا تمام زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے لہذا یہ مسئلہ نہیں ہو گا بلکہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی زندگی ہی میں صحابہ نے نبی صلی الله علیہ وسلم کے حکم پر عبرانی سیکھ لی تھی جس کا مقصد خط و کتابت تھا
بخاری میں نبی صلی الله علیہ وسلم کی حدیث ہے
بلغوا عني ولو آية، وحدثوا عن بني إسرائيل ولا حرج، ومن كذب علي متعمدا، فليتبوأ مقعده من النار
پہنچاؤ میری جانب سے خواہ ایک آیت ہی ہو اور روایت کرو بنی اسرائیل سے اس میں کوئی حرج نہیں اور جس کسی نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔
صحيح بخاري ، كتاب احاديث الانبياء ، باب : ما ذكر عن بني اسرائيل
اسرائیلیات اورسابقہ کتب سماوی میں فرق رکھنا ضروری ہے ان دونوں میں وہ چیزیں جو قرآن و حدیث سے متفق ہوں پیش کی جا سکتی ہیں لیکن ان کا مقصد احقاق حق اور تبین ہو تو کوئی حرج نہیں ہے ،قرآن میں خود کئی جگہ توریت و انجیل کا حوالہ دیا گیا ہے
قرآن سے متعلق
صحیح بخاری ۔ جلد اول ۔ وحی کا بیان ۔ حدیث 3
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول وحی کس طرح شروع ہوئی، اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ ہم نے تم پر وحی بھیجی جس طرح حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے بعد پیغمبروں پر وحی بھیجی ۔
راوی: یحیی بن بکیر , لیث , عقیل , ابن شہاب , عروہ بن زبیر, عائشہ
حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ بُکَيْرٍ قَالَ أَخْبَرَ نَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ فَکَانَ لَا يَرَی رُؤْيَا إِلَّا جَائَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلَائُ وَکَانَ يَخْلُو بِغَارِ حِرَائٍ فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ وَهُوَ التَّعَبُّدُ اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ قَبْلَ أَنْ يَنْزِعَ إِلَی أَهْلِهِ وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِکَ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَی خَدِيجَةَ فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا حَتَّی جَائَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَائٍ فَجَائَهُ الْمَلَکُ فَقَالَ اقْرَأْ فَقَالَ فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ قَالَ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّی بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ قُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّی بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ قَالَ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْجُفُ فُؤَادُهُ فَدَخَلَ عَلَی خَدِيجَةَ بِنْتِ خُوَيْلِدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَقَالَ زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَزَمَّلُوهُ حَتَّی ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ فَقَالَ لِخَدِيجَةَ وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ لَقَدْ خَشِيتُ عَلَی نَفْسِي فَقَالَتْ خَدِيجَةُ کَلَّا وَاللَّهِ مَا يُخْزِيکَ اللَّهُ أَبَدًا إِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُومَ وَتَقْرِي الضَّيْفَ وَتُعِينُ عَلَی نَوَائِبِ الْحَقِّ فَانْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّی أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّی ابْنَ عَمِّ خَدِيجَةَ وَکَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَکَانَ يَکْتُبُ الْکِتَابَ الْعِبْرَانِيَّ فَيَکْتُبُ مِنْ الْإِنْجِيلِ بِالْعِبْرَانِيَّةِ مَا شَائَ اللَّهُ أَنْ يَکْتُبَ وَکَانَ شَيْخًا کَبِيرًا قَدْ عَمِيَ فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ يَا ابْنَ عَمِّ اسْمَعْ مِنْ ابْنِ أَخِيکَ فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ يَا ابْنَ أَخِي مَاذَا تَرَی فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرَ مَا رَأَی فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي نَزَّلَ اللَّهُ عَلَی مُوسَی يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا يَا لَيْتَنِي أَکُونُ حَيًّا إِذْ يُخْرِجُکَ قَوْمُکَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَمُخْرِجِيَّ هُمْ قَالَ نَعَمْ لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمِثْلِ مَا جِئْتَ بِهِ إِلَّا عُودِيَ وَإِنْ يُدْرِکْنِي يَوْمُکَ أَنْصُرْکَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّيَ وَفَتَرَ الْوَحْيُ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ وَأَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيَّ قَالَ وَهُوَ يُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَةِ الْوَحْيِ فَقَالَ فِي حَدِيثِهِ بَيْنَا أَنَا أَمْشِي إِذْ سَمِعْتُ صَوْتًا مِنْ السَّمَائِ فَرَفَعْتُ بَصَرِي فَإِذَا الْمَلَکُ الَّذِي جَائَنِي بِحِرَائٍ جَالِسٌ عَلَی کُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَائِ وَالْأَرْضِ فَرُعِبْتُ مِنْهُ فَرَجَعْتُ فَقُلْتُ زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبَّکَ فَکَبِّر وَثِيَا بَکَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ فَحَمِيَ الْوَحْيُ وَتَتَابَعَ تَابَعَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ وَأَبُو صَالِحٍ وَتَابَعَهُ هِلَالُ بْنُ رَدَّادٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ وَقَالَ يُونُسُ وَمَعْمَرٌ بَوَادِرُهُ
یحیی بن بکیر، لیث، عقیل، ابن شہاب، عروہ بن زبیر ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ سب سے پہلی وحی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اترنی شروع ہوئی وہ اچھے خواب تھے، جو بحالت نیند آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیکھتے تھے، چنانچہ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خواب دیکھتے تو وہ صبح کی روشنی کی طرح ظاہر ہوجاتا، پھر تنہائی سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محبت ہونے لگی اور غار حرا میں تنہا رہنے لگے اور قبل اس کے کہ گھر والوں کے پاس آنے کا شوق ہو وہاں تحنث کیا کرتے، تحنث سے مراد کئی راتیں عبادت کرنا ہے اور اس کے لئے توشہ ساتھ لے جاتے پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس واپس آتے اور اسی طرح توشہ لے جاتے، یہاں تک کہ جب وہ غار حرا میں تھے، حق آیا، چنانچہ ان کے پاس فرشتہ آیا اور کہا پڑھ، آپ نے فرمایا کہ میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کرتے ہیں کہ مجھے فرشتے نے پکڑ کر زور سے دبایا، یہاں تک کہ مجھے تکلیف محسوس ہوئی، پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھ! میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، پھر دوسری بار مجھے پکڑا اور زور سے دبایا، یہاں تک کہ میری طاقت جواب دینے لگی پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھ! میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ تیسری بار پکڑ کر مجھے زور سے دبایا پھر چھوڑ دیا اور کہا پڑھ! اپنے رب کے نام سے جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا، پڑھ اور تیرا رب سب سے بزرگ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دہرایا اس حال میں کہ آپ کا دل کانپ رہا تھا چنانچہ آپ حضرت خدیجہ بنت خویلد کے پاس آئے اور فرمایا کہ مجھے کمبل اڑھا دو، مجھے کمبل اڑھا دو، تو لوگوں نے کمبل اڑھا دیا، یہاں تک کہ آپ کا ڈر جاتا رہا، حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سارا واقعہ بیان کر کے فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے، حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا ہرگز نہیں، اللہ کی قسم، اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو صلہ رحمی کرتے ہیں، ناتوانوں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے ہیں، محتاجوں کے لئے کماتے ہیں، مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی راہ میں مصیبتیں اٹھاتے ہیں، پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لے کر ورقہ بن نوفل بن اسید بن عبدالعزی کے پاس گئیں جو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے چچا زاد بھائی تھے، زمانہ جاہلیت میں نصرانی ہوگئے تھے اور عبرانی کتاب لکھا کرتے تھے۔چنانچہ انجیل کو عبرانی زبان میں لکھا کرتے تھے، جس قدر اللہ چاہتا، نابینا اور بوڑھے ہوگئے تھے، ان سے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا اے میرے چچا زاد بھائی اپنے بھتیجے کی بات سنو آپ سے ورقہ نے کہا اے میرے بھتیجے تم کیا دیکھتے ہو؟ تو جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا تھا، بیان کر دیا، ورقہ نے آپ سے کہا کہ یہی وہ ناموس ہے، جو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل فرمایا تھا، کاش میں نوجوان ہوتا، کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا، جب تمہاری قوم تمہیں نکال دے گی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا! کیا وہ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے جواب دیا، ہاں! جو چیز تو لے کر آیا ہے اس طرح کی چیز جو بھی لے کر آیا اس سے دشمنی کی گئی، اگر میں تیرا زمانہ پاؤں تو میں تیری پوری مدد کروں گا، پھر زیادہ زمانہ نہیں گذرا کہ ورقہ کا انتقال ہوگیا، اور وحی کا آنا کچھ دنوں کے لئے بند ہوگیا، ابن شہاب نے کہا کہ مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے بیان کیا کہ جابر بن عبداللہ انصاری وحی کے رکنے کی حدیث بیان کر رہے تھے، تو اس حدیث میں بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان فرما رہے تھے کہ ایک بار میں جا رہا تھا تو آسمان سے ایک آواز سنی، نظر اٹھا کر دیکھا تو وہی فرشتہ تھا، جو میرے پاس حرا میں آیا تھا ، آسمان و زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہوا تھا، مجھ پر رعب طاری ہوگیا اور واپس لوٹ کر میں نے کہا مجھے کمبل اڑھا دو مجھے کمبل اڑھا دو، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، (يٰا اَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَاَنْذِرْ Ą وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ Ǽ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ Ć ) اے کمبل اوڑھنے والے اٹھ اور لوگوں کو ڈرا اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر اور اپنے کپڑے کو پاک رکھ اور ناپاکی کو چھوڑ دے ، پھر وحی کا سلسلہ گرم ہوگیا اور لگاتار آنے لگی۔ عبداللہ بن یوسف اور ابو صالح نے اس کے متابع حدیث بیان کی ہے اور ہلال بن رواد نے زہری سے متابعت کی ہے، یونس اور معمر نے فوادہ کی جگہ بوادرہ بیان کیا۔========
==========
بھائی یہ احادیث صحیح مسلم اور صحیح بخاری میں بھی آئ ہیں – ان کیسےتاویل کریں گے
صحیح مسلم ۔ جلد اول ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 409
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف وحی کے آغاز کے بیان میں
راوی: زہیر بن حرب , ولید , ابن مسلم , اوزاعی , یحیی
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ قَالَ سَمِعْتُ يَحْيَی يَقُولُ سَأَلْتُ أَبَا سَلَمَةَ أَيُّ الْقُرْآنِ أُنْزِلَ قَبْلُ قَالَ يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ فَقُلْتُ أَوْ اقْرَأْ فَقَالَ سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَيُّ الْقُرْآنِ أُنْزِلَ قَبْلُ قَالَ يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ فَقُلْتُ أَوْ اقْرَأْ قَالَ جَابِرٌ أُحَدِّثُکُمْ مَا حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ جَاوَرْتُ بِحِرَائٍ شَهْرًا فَلَمَّا قَضَيْتُ جِوَارِي نَزَلْتُ فَاسْتَبْطَنْتُ بَطْنَ الْوَادِي فَنُودِيتُ فَنَظَرْتُ أَمَامِي وَخَلْفِي وَعَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي فَلَمْ أَرَ أَحَدًا ثُمَّ نُودِيتُ فَنَظَرْتُ فَلَمْ أَرَ أَحَدًا ثُمَّ نُودِيتُ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا هُوَ عَلَی الْعَرْشِ فِي الْهَوَائِ يَعْنِي جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام فَأَخَذَتْنِي رَجْفَةٌ شَدِيدَةٌ فَأَتَيْتُ خَدِيجَةَ فَقُلْتُ دَثِّرُونِي فَدَثَّرُونِي فَصَبُّوا عَلَيَّ مَائً فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ وَثِيَابَکَ فَطَهِّرْ
زہیر بن حرب، ولید، ابن مسلم، اوزاعی، یحیی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ قرآن کی سب سے پہلے کون سی آیات نازل ہوئیں فرمایا (يٰ اَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ) 74۔ المدثر : 1) میں نے کہا یا (اقْرَأْ) تو وہ کہنے لگے کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ قرآن میں سب سے پہلے کونسی آیات نازل ہوئیں تو انہوں نے فرمایا (يٰ اَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ) 74۔ المدثر : 1) میں نے کہا یا (اقْرَأْ) تو حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں تم سے وہ حدیث بیان کرتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے بیان کی تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں غار حرا میں ایک مہینہ تک ٹھہرا رہا جب میری ٹھہر نے کی مدت ختم ہوگئی تو میں وادی میں اتر کر چلنے لگا تو مجھے آوازی دی گئی میں نے اپنے آگے پیچھے اور دائیں بائیں دیکھا تو مجھے کوئی نظر نہ آیا اس کے بعد پھر آواز دی گئی اور میں نے نظر ڈالی تو مجھے کوئی نظر نہ آیا اس کے بعد مجھے پھر آواز دی گئی اور میں نے اپنا سر اٹھایا تو ہوا میں ایک درخت پر حضرت جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا مجھ پر اس مشاہدہ سے کپکپی طاری ہوگئی اور میں نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آکر کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو انہوں نے مجھے کپڑا اوڑھا دیا اور مجھ پر پانی ڈالا تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں (يٰ اَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ) 74۔ المدثر : 1)
=======
صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ تفاسیر کا بیان ۔ حدیث 2137
تفسیر سورت مدثر ابن عباس نے کہا عسیر بمعنے شدید سخت دشوار اور قسورہ کے معنی ہیں آدمیوں کا شور و غوغا اور ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اس کا معنی شیر ہے اور ہر سخت چیز قسورہ ہے مسنتفرۃ خوفزدہ ہو کر بھاگنے والے۔
راوی: یحیی , وکیع , علی ابن مبارک , یحیی بن ابی کثیر
حَدَّثَنَا يَحْيَی حَدَّثَنَا وَکِيعٌ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمُبَارَکِ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي کَثِيرٍ سَأَلْتُ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَوَّلِ مَا نَزَلَ مِنْ الْقُرْآنِ قَالَ يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُلْتُ يَقُولُونَ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِي خَلَقَ فَقَالَ أَبُو سَلَمَةَ سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ ذَلِکَ وَقُلْتُ لَهُ مِثْلَ الَّذِي قُلْتَ فَقَالَ جَابِرٌ لَا أُحَدِّثُکَ إِلَّا مَا حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ جَاوَرْتُ بِحِرَائٍ فَلَمَّا قَضَيْتُ جِوَارِي هَبَطْتُ فَنُودِيتُ فَنَظَرْتُ عَنْ يَمِينِي فَلَمْ أَرَ شَيْئًا وَنَظَرْتُ عَنْ شِمَالِي فَلَمْ أَرَ شَيْئًا وَنَظَرْتُ أَمَامِي فَلَمْ أَرَ شَيْئًا وَنَظَرْتُ خَلْفِي فَلَمْ أَرَ شَيْئًا فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَرَأَيْتُ شَيْئًا فَأَتَيْتُ خَدِيجَةَ فَقُلْتُ دَثِّرُونِي وَصُبُّوا عَلَيَّ مَائً بَارِدًا قَالَ فَدَثَّرُونِي وَصَبُّوا عَلَيَّ مَائً بَارِدًا قَالَ فَنَزَلَتْ يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ
یحیی ، وکیع، علی ابن مبارک، یحیی بن ابی کثیر سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ پوچھا کہ سب سے پہلے قرآن کی کون سی آیت نازل ہوئی؟ تو انہوں نے کہا (يٰ اَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ۔قُمْ فَاَنْذِرْ) 74۔ المدثر : 1۔2) نازل ہوئی میں نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ (اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِي خَلَقَ) سب سے پہلے نازل ہوئی تو ابوسلمہ نے کہا میں نے جابر بن عبداللہ سے اس کے متعلق پوچھا اور میں نے وہی کہا جو تم نے کہا حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں تم سے وہی بیان کرتا ہوں جو ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں حرا میں گوشہ نشین تھا جب میں نے گوشہ نشینی کی مدت کو پورا کرلیا تو میں وہاں سے اترا تو میں پکارا گیا ایک آواز سنی میں نے اپنی دائیں طرف دیکھا تو کچھ نظر نہ آیا۔ میں نے اپنے بائیں طرف دیکھا تو کچھ نظر نہ آیا تو میں نے سر اٹھایا تو ایک چیز دیکھی پھر میں خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آیا تو میں نے کہا مجھ کو کمبل اڑھا دو اور مجھ پر ٹھنڈا پانی بہاؤ آپ نے بیان کیا کہ لوگوں نے مجھے کمبل اڑھائے اور مجھ پر ٹھنڈا پانی بہایا پھر آیت (يٰ اَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ۔قُمْ فَاَنْذِرْ) 74۔ المدثر : 1۔2) نازل ہوئی
جواب
پہلی الوحی الاقرا کی آیات ہیں
جابر رضی الله عنہ نے اس کا مطلق انکار نہیں کیا کہ سوره الاقرا پہلی نہیں انہوں نے واقعہ کا اگلا حصہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا اور جو سنا وہ بیان کیا
عائشہ رضی اللہ عنہا نے واقعہ کا اگلا پچھلا دونوں حصوں کو سنا لہذا مکمل روایت کیا
پہلی اور دوسری الوحی میں مدت بہت تھی اس کو فَتْرة کہا جاتا ہے
یہ بات کہ مدثر الوحی ہوئی يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ بصری نے أَبَا سَلمَة بن عبد الرَّحْمَن بنِ عَوْفٍ الزُّهْرِيُّ سے روایت کیا انہوں نے جابر رضی الله عنہ سے روایت کیا
جابر وفات النبی کے وقت چھوٹے تھے یہاں تک کہ یہ خود ایک صحابیہ ام مبشر رضی الله عنہا سے روایات لیتے ہیں جو زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ رضی الله عنہ کی بیوی تھیں
یہاں تک کہ ام مبشر بھی ام المومنین حفصہ رضی الله عنہا سے جَابِرٍ، عَنْ أُمِّ مُبَشِّرٍ، عَنْ حَفْصَةَ روایت کرتی ہیں
یعنی جابر رضی الله عنہ نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا لیکن اتنا نہیں جتنا امہات المومنین رضی الله عنہما نے
یہاں تک کہ اصحاب رسول کو جب اپس میں کسی قول پر اشکال ہوتا کہ قول نبوی ہے یا نہیں تو وہ خود ام المومنین سے رجوع کرتے تھے
لہذا عمر مرتبہ اور علم کے حساب سے عائشہ رضی الله عنہا کی بات کو درجہ قبولیت حاصل ہے دوسرے اپ خود پڑھیں کہ ام المومنین نے جو دوسری الوحی کا ذکر کیا ہے جابر رضی الله عنہ نے صرف اتنا حصہ سنا تھا
محمّد بن اسحاق بن یسار وہ راوی ہے جو عائشہ رضی الله تعالی عنہا پر الزام لگاتا ہے کہ قرآن کی کچھ آیات بکری کھا گئی اس میں اس کا تفرد ہے. ان کے لئے ثقه سے لے کر دجال تک کے الفاظ ملتے ہیں اور شیعت سے بھی ان کی سوچ پراگندہ ہے
سنن ابن ماجہ کی روایت ہے
حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ. وَعَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: لَقَدْ نَزَلَتْ آيَةُ الرَّجْمِ وَرَضَاعَةُ الْكَبِيرِ عَشْرًا، وَلَقَدْ كَانَ فِي صَحِيفَةٍ تَحْتَ سَرِيرِي، فَلَمَّا مَاتَ رَسُولُ الله – صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – وَتَشَاغَلْنَا بِمَوْتِهِ، دَخَلَ دَاجِنٌ فَأَكَلَهَا.
ام المومنین عائشہ رضی الله تعالی عنہا سے روایت ہے رجم کی آیت اتری اور بڑے آدمی کو دس بار دودھ پلا دینے کی اور یہ دونوں آیتیں ایک صحیفہ پر لکھی تھیں میرے بستر کے تلے جب نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور ہم آپ کی وفات میں مشغو ل تھے بکری آئی اور وہ صحیفہ کھا گئی
شعیب الأرنؤوط تحقیق میں لکھتے ہیں
لا يصح، تفرد به محمَّد بن إسحاق -وهو المطلبي- وفي متنه نكارة. عبد الله بن أبي بكر: هو ابن محمَّد بن عمرو بن حزم.
وأخرجه أحمد (٢٦٣١٦)، وأبو يعلى (٤٥٨٧)، والطبراني في “الأوسط” (٧٨٠٥)، والدارقطني (٤٣٧٦) من طريق محمَّد بن إسحاق، عن عبد الله بن أبي بكر، بهذا الإسناد.
صحیح نہیں اس میں محمد بن إسحاق (بن يسار بن خيار المديني أبو بكر أبو عبد الله) کا تفرد ہے اور وہ المطلبي ہے اور اس روایت کے متن میں نکارت ہے. عبد الله بن أبي بكر، وہ ابن محمَّد بن عمرو بن حزم ہیں اور اس روایت کی تخریج احمد (٢٦٣١٦)، اور أبو يعلى (٤٥٨٧)، اورالطبراني نے “الأوسط” (٧٨٠٥)، اور الدارقطني (٤٣٧٦) نے محمَّد بن إسحاق، عن عبد الله بن أبي بکر کے طرق سے کی ہے
الزمخشري (المتوفى: 538هـ) کتاب الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل میں لکھتے ہیں
وأمّا ما يحكى: أن تلك الزيادة كانت في صحيفة في بيت عائشة رضى الله عنها فأكلتها الداجن فمن تأليفات الملاحدة والروافض
اور یہ جو بیان کیا جاتا ہے کہ وہ اضافہ ایک صحیفے میں عائشہ رضی الله تعالی عنہا کے گھر میں تھا اور اس کو بکری کھا گئی تو یہ ملاحدہ اور روافض کی تالیف ہے
الذہبی تاریخ الاسلام میں لکھتے ہیں امام محدثین یحییٰ بن سعید القطان ، محمد بن اسحاق سے روایت نہیں کرتے تھے
وقال ابْن معين: كَانَ يحيى القطَّان لا يَرْضَى ابْن إِسْحَاق، ولا يروي عَنْهُ.
روایت احمقآنہ ہے کیونکہ اگر ایسی آیات ہوتیں وہ تلاوت سے آگے جاتیں ان کا ایک ہی تحریری نسخہ نہیں ہو سکتا تھا
اس کے علاوہ یہی محمد بن اسحاق بیان کرتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے وقت عائشہ رضی الله عنہآ نے اپنا چہرہ پر ہاتھ مارے
مسند احمد اور مسند ابی یعلی کی حدیث ہے
حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مِهْرَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ عَبَّادٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ تَقُولُ: مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ سَحْرِي وَنَحْرِي، وَفِي بَيْتِي لَمْ أَظْلِمْ فِيهِ أَحَدًا. فَمِنْ سَفَهِي وَحَدَاثَةِ سِنِّي أَنَّ «رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُبِضَ وَهُوَ فِي حِجْرِي، ثُمَّ وَضَعْتُ رَأْسَهُ عَلَى وِسَادَةٍ وَقُمْتُ أَلْتَدِمُ مَعَ النِّسَاءِ وَأَضْرِبُ وَجْهِي
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ عَبَّادٍ، قَالَ [ص:369]: سَمِعْتُ عَائِشَةَ، تَقُولُ: «مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ سَحْرِي، وَنَحْرِي وَفِي دَوْلَتِي، لَمْ أَظْلِمْ فِيهِ أَحَدًا، فَمِنْ سَفَهِي وَحَدَاثَةِ سِنِّي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ قُبِضَ وَهُوَ فِي حِجْرِي، ثُمَّ وَضَعْتُ رَأْسَهُ عَلَى وِسَادَةٍ، وَقُمْتُ أَلْتَدِمُ مَعَ النِّسَاءِ، وَأَضْرِبُ وَجْهِي
اروا الغلیل میں البانی اس کو حسن کہتے ہیں
عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی میرے گلے کے پاس اور وہ میری جاگیر میں تھے کسی پر ظلم نہ کیا اور یہ میری سفاہت و نا تجربہ کاری ہے کہ رسول الله کی جان قبض ہوئی اوروہ میرے حجرے میں تھے ، میں نے ان کا سر تکیہ پر رکھا اور میں عورتوں کے ساتھ کھڑی ہوئی اپنے چہرے پر مارا
یہ روایت بھی محمد بن اسحاق بیان کرتا ہے کہ عائشہ رضی الله عنہا کے خلاف
روایت بعد کی پیدا وار ہے کیونکہ عربی میں دَوْلَتِي (جاگیر) کا لفظ عباسی دور خلافت میں سب سے پہلے استمعال ہوا
اس کی سند میں يحيى بن عباد بن عبد الله بن الزبير ہے جس سے بخاری و مسلم نے روایت نہیں لی ہے
حجرہ عائشہ میں رسول الله کی وفات ہوئی اور وہیں تدفین ہوئی تو ابن اسحاق کا کہنا
وتشاغَلنا بمَوته، دخلَ داجنٌ فأكلها
ہم انکی موت میں مشغول ہوئے اور بکری آ کر آیات کھا گئی
کیسے صحیح ہو سکتا ہے کیونکہ وہ تو کسی بھی وقت خالی نہ رہا ہو گا
قال أبو بکر کَانَ فِی کِتَابِ أَبِی: حَدَّثَنَا رَجُلٌ، فَسَأَلْتُ أَبِی: مَنْ هُوَ؟ فَقَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ صُهَیْبٍ، عَنْ عَوْفِ بْنِ أَبِی جَمِیلَةَ، أَنَّ الْحَجَّاجَ بْنَ یُوسُفَ، غَیَّرَ فِی مُصْحَفِ عُثْمَانَ أَحَدَ عَشَرَ حَرْفًا قَالَ: کَانَتْ فِی الْبَقَرَةِ (لَمْ یَتَسَنَّ وَانْظُرْ) فَغَیَّرَهَا {لَمْ یَتَسَنَّهْ} [البقرة: 259] بِالْهَاءِ، وَکَانَتْ فِی الْمَائِدَةِ (شَرِیعَةً وَمِنْهَاجًا) فَغَیَّرَهُ {شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا} [المائدة: 48] ، وَکَانَتْ فِی یُونُسَ (هُوَ الَّذِی یَنْشُرُکُمْ) فَغَیَّرَهُ {یُسَیِّرُکُمْ} [یونس: 22] ، وَکَانَتْ فِی یُوسُفَ (أَنَا آتِیکُمُ بِتَأْوِیلِهِ) فَغَیَّرَهَا {أَنَا أُنَبِّئُکُمْ بِتَأْوِیلِهِ} [یوسف: 45] ، وَکَانَتْ فِی الْمُؤْمِنِینَ (سَیَقُولُونَ لِلَّهِ لِلَّهِ لِلَّهِ) ثَلَاثَتُهُنَّ، فَجَعَلَ الْآخَرَیْنِ (اللَّهُ اللَّهُ) ، وَکَانَ فِی الشُّعَرَاءِ فِی قِصَّةِ نُوحٍ (مِنَ الْمُخْرَجِینَ) ، وَفِی قِصَّةِ لُوطٍ (مِنَ الْمَرْجُومِینَ) ، فَغَیَّرَ قِصَّةَ نُوحٍ {مِنَ الْمَرْجُومِینَ} [الشعراء: 116] ، وَقِصَّةَ لُوطٍ {مِنَ الْمُخْرَجِینَ} [الشعراء: 167] ، وَکَانَتْ فِی الزُّخْرُفِ (نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَهُمْ مَعَائِشَهُمْ) فَغَیَّرَهَا {مَعِیشَتَهُمْ} [الزخرف: 32] ، وَکَانَتْ فِی الَّذِینَ کَفَرُوا (مِنْ مَاءٍ غَیْرِ یَسِنٍ) فَغَیَّرَهَا {مِنْ مَاءٍ غَیْرِ آسِنٍ} [محمد: 15] ، وَکَانَتْ فِی الْحَدِیدِ (فَالَّذِینَ آمَنُوا مِنْکُمْ وَاتَّقَوْا لَهُمْ أَجْرٌ کَبِیرٌ) فَغَیَّرَهَا {مِنْکُمْ وَأَنْفَقُوا} [الحدید: 7] ، وَکَانَتْ فِی إِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ (وَمَا هُوَ عَلَى الْغَیْبِ بِظَنِینٍ) فَغَیَّرَهَا {بِضَنِینٍ} {التکویر: 24}
المصاحف لابن ابی داود
جواب
عوف بن أبى جميلة سن ٦٠ یا ٦١ میں پیدا ہوئے
قال بندار كان قدريا رافضيا شيطانا
بندار نے کہا یہ قدری رافضی شیطان تھے
حجاج بن یوسف ٩٥ ہجری میں ہلاک ہوئے
——–
روایت میں انقطاع ہے کیونکہ عوف بن أبى جميلة نے یہ نہیں بتایا کہ ان کو کس نے خبر کی کہ قرآن میں ایسا لکھا تھا لیکن حجاج نے بدلا
یہ روایت متروک ہے عباد بن صهيب أبو بكر الكليبي بصري متروک الحدیث ہے
ابو داود سجستانی کہتے ہیں کہ اپنی کتاب سؤالات أبي عبيد الآجري أبا داود السجستاني في الجرح والتعديل میں کہتے ہیں کہ
سألت أبا دَاوُد عَن عَبّاد بْن صُهَيب3 فَقَالَ: “كَانَ قدرياً صدوقًا”
————–
الحافظ أبو عبد الله شمس الدين الذهبي اپنی کتاب سیر اعلام النبلاء میں لکھتے ہیں کہ
عَوْفُ بنُ أَبِی جَمِیْلَةَ أَبُو سَهْلٍ الأَعْرَابِیُّ : الإِمَامُ، الحَافِظُ، أَبُو سَهْلٍ الأَعْرَابِیُّ، البَصْرِیُّ، وَلَمْ یَکُنْ أَعْرَابِیاً، بَلْ شُهِرَ بِهِ.
عَوْفُ بنُ أَبِی جَمِیْلَةَ کو کس نے یہ خبر دی یہ سوال ہے ؟
کیونکہ قرآن میں یہ تبدیلی کب کی گئی ؟ اور کیا یہ قرات شام و حجاز و عراق ہر جگہ ہے ؟
https://www.islamic-belief.net/قرآن-اور-قرات-عشرہ/
————
عباد بن صهيب اکثر محدثین کے نزدیک متروک ہے – متروک اتنی بڑی جرح ہے کہ ثقاہت کا ادنی درجہ صدوق اب کچھ نہیں
جواب سوره کہف الله تعالی نے اہل کتاب کے کچھ سوالات کے جوابات کے سلسے میں نازل کی ہے
اہل کتاب کے سوالات تو ہم تک نہیں پہنچے لیکن تاریخ کی کتب میں اس پر کچھ وضاحت ملتی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہود کا ان شخصیات و قوموں پر اختلاف تھا یہود کے نزدیک
اول موسی و خضر والے واقعہ میں موسی بن عمران علیہ السلام نہیں کوئی اور ہے
دوم خضر، ذی القرنین کے ساتھی تھے اور انہوں نے آب حیات پیا ہوا تھا
– سوم ذی القرنین پر بھی اختلاف ہے کہ کون ہے؟ بائبل میں ان کا تذکرہ نہیں ہے
چہارم یاجوج ماجوج کون ہیں ؟ حزقی ایل کی کتاب کے مطابق یاجوج ایک شخص ہے اور ماجوج قوم ہے
کتاب البدء والتاريخ از المطهر بن طاهر المقدسي (المتوفى: نحو 355هـ) کے مطابق
زعم وهب أن اسم الخضر بليا بن ملكان بن بالغ بن عابر بن ارفخشد بن سام بن نوح وكان أبوه ملكا وقال قوم الخضر بن عاميل من ولد إبراهيم وفي كتاب أبي حذيفة أن ارميا هو الخضر صاحب موسى وكان الله أخّر نبوّته إلى أن بعثه نبيا زمن ناشية الملك قبل أن يغزو نصر بيت المقدس وكثير من الناس يزعمون أنه كان مع ذي القرنين وزيراً له وابن خالته وروى عن ابن عباس رضي الله عنه أن الخضر هو اليسع وإنما سمي خضرا لأنه لما شرب من عين الجنة لم يدع قدمه بالأرض إلا اخضر ما حوله فهذا الاختلاف في الخضر قالوا وهو لم يمت لأنه أعطى الخلد إلى النفخة الأولى موكل بالبحار ويغيث المضطرين واختلفوا في موسى الذي طلبه فقيل هو موسى بن عمران وقال أهل التوراة أنّه موسى بن منشا ابن يوسف بن يعقوب وكان نبيا قبل موسى بن عمران [2] كان قد قصّ الله خبرهما في القرآن المجيد عز من قائل وَإِذْ قال مُوسى لِفَتاهُ لا أَبْرَحُ حَتَّى أَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِيَ حُقُباً 18: 60 إلى آخر القصة وقد ذكرتهما بمعانيها ودعاويها في المعاني،،،
وھب بن منبہ نے دعوی کیا کہ خضر کا نام بليا بن ملكان بن بالغ بن عابر بن ارفخشد بن سام بن نوح ہے اور ان کا باپ ایک بادشاہ تھا اور ایک قوم نے کہا خضر بن عاميل (نام تھا) ابراہیم کی اولاد میں اور ابی حذیفه کی کتاب میں ہے کہ ارمیا ہی خضر ہے جو موسی کے صاحب تھے اور الله نے ان کی نبوت کو موخر کیا ….یہاں تک کہ انہوں نے بیت المقدس کی نصرت کی اور بہت سے لوگوں نے دعوی کیا کہ وہ ذی القرنین کے ساتھ تھے اور اس کے وزیر تھے اور ان کے خالہ زاد بھائی تھے اور ابن عبّاس رضی الله عنہ سے روایت کیا جاتا ہے کہ الخضر ہی الیسع ہیں اور ان کو خضر اس لئے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے جنت کی نہر میں سے پیا تھا اور ان کے قدم زمین پر پڑنے سے اس کے ارد گرد سبزہ ہوتا ہے تو یہ اختلاف ہے خضر سے متعلق اور کہا جاتا ہے ان کی موت نہیں ہوئی کیونکہ ان کو صور میں پھونکنے تک زندگی حاصل ہے موکل سمندر پر ہیں اور مضطر کی دعا سنتے ہیں اور ان کے بارے میں اختلاف ہے کہ موسی نے جن کو طلب کیا تھا پس کہا جاتا ہے کہ وہ موسی بن عمران ہیں اور اہل توریت کہتے ہیں وہ موسى بن منشا ابن يوسف بن يعقوب جو موسی بن عمران سے قبل نبی تھے جن کے قصے کی خبر الله نے قرآن میں دی ہے کہا وَإِذْ قالمُوسى لِفَتاهُ لا أَبْرَحُ حَتَّى أَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِيَ حُقُباً 18: 60 سے آخر تک
کتاب المنتظم فی تاريخ الأمم والملوك از ابن الجوزی (المتوفى: 597هـ) کے مطابق
الخضر قَدْ كَانَ قبل موسى، قَالَ الطبري : كَانَ فِي أَيَّام أفريدُونَ الْمَلِك بْن أثفيان. قَالَ: وقيل: إنه كَانَ عَلَى مقدمة ذي الْقَرْنَيْنِ الأكبر، الَّذِي كَانَ أَيَّام إِبْرَاهِيم.
وذي الْقَرْنَيْنِ عِنْدَ قوم هُوَ أفريدُونَ، وزعم بَعْضهم أَنَّهُ من ولد من كَانَ آمن بالخليل عَلَيْهِ السَّلام، وهاجر مَعَهُ من أرض بابل.
وَقَالَ عَبْد الله بْن شوذب: الخضر من ولد فارس .
وَقَالَ ابْن إِسْحَاق: هُوَ من سبط هَارُون بْن عمران.
وقول من قَالَ: إنه كَانَ فِي زمان أفريدُونَ أَكْثَر من ألف سَنَة، والخضر قديم إلا أَنَّهُ لما كَانَ ذكره لَمْ ينبغ إلا في زمان موسى ذكرناه هاهنا.
خضر موسی سے قبل تھے طبری کہتے ہیں یہ شاہ (ایران) افریدوں بن أثفيان کے دور میں تھے اور کہا : کہا جاتا ہے کہ ذی القرنین کے سالار تھے جو ابراہیم کے دور میں تھے
اور ذی القرنین ایک قوم کے نزدیک افریدوں ہے اور ان میں بعض کا دعوی ہے کہ وہ ابراہیم پر ایمان لائے اور ان کے ساتھ ہجرت کی بابل میں اور عَبْد اللَّهِ بْن شوذب کہتے ہیں خضر فارس میں پیدا ہوئے اور محمد بن اسحاق کہتے ہیں وہ ہارون بن عمران کی نسل میں سے ہیں اور جو کہتے ہیں کہ ذی القرنین افریدوں کے دور میں تھے تو وہ ہزار سال سے زیادہ ہے اور خضر تو پرانے ہیں پس جب ان کا اس میں دور ذکر ہوتا ہے تو ان کو موسی کے دور تک نہیں پہنچاتا
کتاب الکامل از ابن الأثير (المتوفى: 630هـ) کے مطابق
قَالَ أَهْلُ الْكِتَابِ: إِنَّ مُوسَى صَاحِبَ الْخَضِرِ هُوَ مُوسَى بْنُ مَنْشَى بْنِ يُوسُفَ بْنِ يَعْقُوبَ، وَالْحَدِيثُ الصَّحِيحُ عَنِ النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَنَّ مُوسَى صَاحِبَ الْخَضِرِ هُوَ مُوسَى بْنُ عِمْرَانَ عَلَى مَا نَذْكُرُهُ. وَكَانَ الْخَضِرُ مِمَّنْ كَانَ أَيَّامَ أَفْرِيدُونَ الْمَلِكِ بْنِ أَثْغِيَانَ فِي قَوْلِ عُلَمَاءِ أَهْلِ الْكُتُبِ الْأُوَلِ قَبْلَ مُوسَى بْنِ عِمْرَانَ.
وَقِيلَ: إِنَّهُ بَلَغَ مَعَ ذِي الْقَرْنَيْنِ الْأَكْبَرِ الَّذِي كَانَ فِي أَيَّامِ إِبْرَاهِيمَ الْخَلِيلِ، وَإِنَّهُ بَلَغَ مَعَ ذِي الْقَرْنَيْنِ نَهْرَ الْحَيَاةِ فَشَرِبَ مِنْ مَائِهِ وَلَا يَعْلَمُ ذُو الْقَرْنَيْنِ وَمَنْ مَعَهُ، فَخُلِّدَ وَهُوَ حَيٌّ عِنْدَهُمْ إِلَى الْآنِ.
وَزَعَمَ بَعْضُهُمْ: أَنَّهُ كَانَ مِنْ وَلَدِ مَنْ آمَنَ مَعَ إِبْرَاهِيمَ، وَهَاجَرَ مَعَهُ، وَاسْمُهُ بَلْيَا بْنُ مَلْكَانَ بْنِ فَالَغَ بْنِ عَابِرِ بْنِ شَالَخَ بْنِ أَرْفَخْشَذَ بْنِ سَامِ بْنِ نُوحٍ، وَكَانَ أَبُوهُ مَلِكًا عَظِيمًا. وَقَالَ آخَرُونَ: ذُو الْقَرْنَيْنِ الَّذِي كَانَ عَلَى عَهْدِ إِبْرَاهِيمَ أَفْرِيدُونُ بْنُ أَثْغِيَانَ، وَعَلَى
مَقْدَمَتِهِ كَانَ الْخَضِرُ.
اہل کتاب کہتے ہیں موسی جو خضر کے صاحب تھے وہ مُوسَى بْنُ مَنْشَى بْنِ يُوسُفَ بْنِ يَعْقُوبَ تھے اور صحیح حدیث میں ہے کہ موسی جو خضر کےصاحب تھے وہ موسی بن عمران ہیں … اورخضر جوشاہ افریدوں کے دور میں تھے جیسا اہل کتاب کے علماء کا قول ہے تو وہ تو موسی بن عمران سے پہلے کے ہیں
اور کہا جاتا ہے خضر ذی القرنین الاکبر کے ساتھ تھے جو ابراہیم کے دور میں تھے اور وہ ذی القرنین کے ساتھ آب حیات تک پہنچے اور انہوں نے اس میں سے پیا ، ذی القرنین اور ان کے ساتھ والوں کو پتا نہیں تھا، پس خضر کو حیات جاویداں ملی اور وہ زندہ ہیں اب بھی
اور بعض نے دعوی کیا کہ وہ ان ایمان والوں کی اولاد میں سے ہیں جو ابراہیم پر ایمان لائے اور ان کے ساتھ ہجرت کی اور ان کا نام بَلْيَا بْنُ مَلْكَانَ بْنِ فَالَغَ بْنِ عَابِرِ بْنِ شَالَخَ بْنِ أَرْفَخْشَذَ بْنِ سَامِ بْنِ نُوحٍ ہے اور ان کے باپ ایک عظیم بادشاہ تھے اور دوسرے کہتے ہیں ذی القرنین جو ابراہیم کے دور میں تھے أَفْرِيدُونُ بْنُ أَثْغِيَانَ تھے اور ان کے سالار خضر تھے
کتاب البداية والنهاية از ابن کثیر (المتوفى: 774هـ) کے مطابق
قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْكِتَابِ إِنَّ مُوسَى هَذَا الَّذِي رَحَلَ إِلَى الْخَضِرِ هُوَ مُوسَى بْنُ مِيشَا بْنِ يُوسُفَ بْنِ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْخَلِيلِ وَتَابَعَهُمْ عَلَى ذَلِكَ بَعْضُ مَنْ يَأْخُذُ مِنْ صُحُفِهِمْ وَيَنْقُلُ عَنْ كُتُبِهِمْ مِنْهُمْ نَوْفُ بْنُ فَضَالَةَ الْحِمْيَرِيُّ الشَّامِيُّ الْبِكَالِيُّ. وَيُقَالُ إِنَّهُ دِمَشْقِيٌّ وَكَانَتْ أُمُّهُ زَوْجَةَ كَعْبِ الْأَحْبَارِ وَالصَّحِيحُ الَّذِي دَلَّ عَلَيْهِ ظَاهِرُ سِيَاقِ الْقُرْآنِ وَنَصُّ الْحَدِيثِ الصَّحِيحِ الصَّرِيحِ الْمُتَّفَقِ عَلَيْهِ أَنَّهُ مُوسَى بْنُ عِمْرَانَ صَاحِبُ بَنِي إِسْرَائِيلَ. قَالَ الْبُخَارِيُّ حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا عمر بْنُ دِينَارٍ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبِكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى صَاحِبَ الْخَضِرِ لَيْسَ هُوَ مُوسَى صَاحِبَ بَنِي إِسْرَائِيلَ. قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ.
بعض اہل کتاب کہتے ہیں کہ موسی جنہوں نے خضر کے ساتھ سفر کیا وہ مُوسَى بْنُ مِيشَا بْنِ يُوسُفَ بْنِ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْخَلِيلِ ہیں اور اس قول کی اتباع جو کرتے ہیں جو ان کے کچھ صحف لیتے ہیں اور ان کی کتابوں سے نقل کرتے ہیں جن میں نَوْفُ بْنُ فَضَالَةَ الْحِمْيَرِيُّ الشَّامِيُّ الْبِكَالِيُّ ہیں اور ان کو دمشقی بھی کہا جاتا ہے اور ان کی ماں کعب الاحبار کی بیوی تھیں …. سعید بن جبیر نے ابن عبّاس سے کہا نوف البکالی کہتا ہے کہ موسی جو صاحب الخضر تھے وہ بنی اسرئیل والے موسی نہیں ہیں ابن عبّاس نے کہا جھوٹ بولتا ہے الله کا دشمن
الكامل از ابن اثیر میں ذكر ملك أفريدون میں اثیر لکھتے ہیں
وهو أفريدون بن أثغيان ، وهو من ولد جم شيد . وقد زعم بعض نسابة الفرس أن نوحا هو أفريدون الذي قهر الضحاك ، وسلبه ملكه ، وزعم بعضهم أن أفريدون هو ذو القرنين صاحب إبراهيم الذي ذكره الله في كلامه العزيز ، وإنما ذكرته في هذا الموضع لأن قصته في أولاده الثلاثة شبيهة بقصةنوح على ما سيأتي ولحسن سيرته ، وهلاك الضحاك على يديه ، ولأنه قيل إن هلاك الضحاك كان على يد نوح . اور فارس کے بعض نسب والوں نے دعوی کیا کہ نوح ہی افریدوں ہے جن کی جنگ الضحاك سے ہوئی تھی اور وہ أفريدون بن أثغيان ہیں جو جمشید کی اولاد میں سے ہیں اور ان سے ملک چھنا اور بعض نے دعوی کیا کہ افریدوں ذی القرنین ہیں جن کا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے …
وأما باقي نسابة الفرس فإنهم ينسبون أفريدون إلى جم شيد الملك. اور بقیہ نسب فارس والوں نے افریدوں کی نسبت جمشید سے کی ہے
اس بحث کا لب لباب ہے
اس اختلاف میں جو چیز ظاہر ہوتی ہے وہ یہ کہ موسی و خضر ہم عصر ہیں- خضر انسان تھے- قرآن کے مطابق موسی علیہ السلام صاحب تورات ہیں کوئی اور نہیں – ذی القرنین اور خضر ہم عصر نہیں، بلکہ ذی القرنین ایک بہت قدیم بادشاہ ہیں جب تاریخ لکھنے کا بھی آغاز نہیں ہوا تھا- قدیم ایرانی و فارسی نساب نے ذی القرنین کو شاہ افریدوں کہا گیا ہے جن کا ذکر قدیم فارس کی داستانوں میں ملتا ہے- یہودی شاید بابل کی غلامی کے دور میں ان سے واقف ہوئے
سکندر ، ذی القرنین نہیں جیسا کہ بعض مفسرین کا دعوی ہے -سکندر تو موسی علیہ السلام کے بھی بعد کا ہے جبکہ ذی القرنین کا دور شاید ابراہیم علیہ السلام سے بھی پہلے کا ہے- بعض لوگوں نے ذی القرنین کی دیوار کو دیوار چین سے بھی نسبت دی ہے جو سن ٢٢٠ سے ٢٠٦ قبل مسیح میں بنی ہے- لھذا ذی القرنین اور سکندر ایک نہیں ہیں- ابو الکلام آزاد کی تحقیق کے مطابق ذی القرنین سے مراد قدیم ایرانی بادشاہ کوروش ہے جن کا دور ٥٣٩ سے ٥٣٠ قبل مسیح تھا لیکن یہ بھی بعد کے ہیں اور ذی القرنین نہیں ہیں یہ مغالطہ اس لئے ہوا کہ کوروش اور سنکندر دونوں کو سینگ والے تاج پہنے قدیم سکوں میں دکھایا گیا ہے سکندر نے بھی فارس میں سکونت اختیار کی اور وہ خالص بت پرست تھا اور کوروش قدیم اہرمن و یزدان والا دھرم رکھتا تھا – قرآن کے مطابق ذی القرنین مسلمان اور موحد تھا
کوروش اور سکندر دونوں کو قدیم سکوں افریدوں سے نسبت دینے کے لئے سینگوں والا تاج پہنے دکھایا گیا کیونکہ افریدوں کو ایک عادل شاہ کہا جاتا ہے
عرب جغرافیہ دان اور یاجوج ماجوج
عرب جغرافیہ دانوں نے زمین کو سات نصف دائروں یا اقلیم میں تقسیم کیا شمال کی جانب علاقہ جہاں کے بارے میں معلومات نہیں تھیں وہ یاجوج ماجوج کا مسکن تھا اس سے نیچے کا علاقہ جافث کی نسل یعنی نوح کی نسل سمجھا جاتا تھا جن میں چین کے لوگ ترک ، بلغار، الخزر، الن ، مغار، سلاوو، فرانک لوگ شامل تھے- بحيرة خوارزم، سیحون اور جیحوں کے دریا بھی اسی اقلیم میں ہیں- الخزر ایک یہودی ریاست تھی جو عباسیوں کے دور میں بھی موجود تھی اور اس کے پاس کے مسلمان علاقے اس کو خراج بھی دیتے تھے
یاجوج ماجوج بھی بائبل کے مطابق جافث کی نسل سے ہیں – ان کے اور باقی انسانوں کے درمیان بلند پہاڑ حائل ہیں اور ایک دیوار جو ذی القرنین نے بنائی موجودہ بنی آدم اور ان کے درمیان حائل ہے
أبو عبد الله أحمد بن محمد بن إسحاق الهمداني المعروف بابن الفقيه (ت 365) نے اس دیوار کا تذکرہ کتاب البلدان میں کیا ہے کتاب المسالك والممالك جو أبي القاسم عبيد الله بن عبد الله المعروف بابن خرداذبه المتوفى 300 هـ کی تالیف ہے اس میں ذکر ہے کہ ایک شخص سلام الترجمان ، الخليفة الواثق (227- 232 هـ) کے حکم پر سد يأجوج ومأجوج تک گیا
ہارون رشید کے پوتے خلیفہ واثق ٨٤٢ سے ٨٤٧ ع نے ایک روز سن ٨٤٢ ع میں خواب دیکھا کہ سد ذی القرنین ٹوٹ گئی ہے انہوں نے اس کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ایک ہوشیارشخص سلام کو جو تیس زبانوں میں طاق تھے صورت حال جاننے کے لئے بھیجا – سلام ٨٤٤ع میں واپس آئے اور تمام واقعات کتاب کی صورت میں لکھے جن کو ابن الفقيه نے ان سے سن کر اپنی کتاب میں لکھا –
بحر الحال ہمارے نزدیک یہ قصہ گوئی صرف خلیفہ کی خواہش پر ہوئی کیونکہ ایک طویل سفر کے بعد سلام ترجمان کو کچھ تو عجیب و غریب بیان کرنا ہی تھا
قرآن کے مطابق یاجوج ماجوج قومیں ہیں
سد ذی القرنین قیامت کی نشانی ہے اسی وقت ظاہر ہو گی
هذا رحمة من ربي فإذا جاء وعد ربي جعله دكاء وكان وعد ربي حقا
اس میں کافی اختلاف ہے
اول: اصحاب رسول کہتے ہیں حکمران یا امراء ہیں
دوم بعض تابعین کے اقوال ہیں کہ اس سے مراد حاکم ہیں اور بعض کہتے ہیں اہل علم و فقہ ہیں- یہ اختلاف کی وجہ سے ہوا یہاں تک کہ ابن زبیر تک سے ابن عباس کا اختلاف ہوا اور ابن عباس کو مکہ چھوڑنا پڑا -گویا اولو الامر کی اطاعت ابن عباس نے نہیں کی ان کا ابن زبیر سے اختلاف ہوا – ابن زبیر نے ابن عباس کو اندھا کہا
صحیح مسلم
لیکن ابن عباس رضی الله عنہ نے پھر بھی آیات کا مفہوم نہ بدلا
تفسیر طبری میں ہے
حدثنا الحسن بن الصباح البزار قال، حدثنا حجاج بن محمد، عن ابن جريج قال، أخبرني يعلى بن مسلم، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس أنه قال:”يا أيها الذين آمنوا أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم”، نزلت في رجل بعثه النبي صلى الله عليه وسلم على سرية
ابن عباس نے کہا یہ آیت ایک شخص کے سلسلے میں اتری جس کو سریہ پر بھیجا گیا تھا
احمد شاکر کے مطابق سند میں ثقات ہیں
معلوم ہوا کہ ابن عباس کا موقف صحیح سند سے یہی ہے کہ اس آیت میں حکمران مراد ہیں
سوم امام بخاری کا صحیح میں موقف ہے کہ اس سے مراد اہل علم ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک عباسی خلفاء کا عقیدہ صحیح نہیں
==================================
تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ، ثنا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ وَوَكِيعٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَأُولِي الأَمْرِ مِنْكُمْ قَالَ: أُمَرَاءُ السَّرَايَا.
ابو ہریرہ نے کہا اس سے مراد سریہ کے امیر ہیں
سریہ یعنی جنگی جھڑپ جس میں نبی نے شرکت نہیں کی
——–
تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے
حَدَّثَنَا أَبِي ثنا أَبُو غَسَّانَ مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ فِي هَذِهِ الآيَةِ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الأَمْرِ مِنْكُمْ قَالَ: أُولِي الْخَيْرِ.
جابر بن عبدالله نے کہا یہ نیک لوگ ہیں
سند میں عبد الله بن محمد بن عقیل ضعیف ہے
قال أبو حاتم و عدة : لين الحديث ، و قال ابن خزيمة : لا أحتج به
اس سے دلیل نہیں لی جا سکتی
حدیث میں کمزور ہے
————
تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے
حَدَّثَنَا أَبِي، ثنا أَبُو صَالِحٍ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَوْلَهُ: وَأُولِي الأَمْرِ مِنْكُمْ يَعْنِي: أَهْلَ الْفِقْهِ وَالدِّينِ، وَأَهْلَ طَاعَةِ اللَّهِ الَّذِينَ يُعَلِّمُونَ النَّاسَ مَعَانِيَ دِينِهِمْ ويأمرونهم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهُوهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ، فَأَوْجَبَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ طَاعَتَهُمْ عَلَى الْعِبَادِ.
ابن عباس نے کہا یہ اہل فقہ اور دین ہیں اور اہل اطاعت ہیں
سند میں عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ کا ابن عباس سے سماع نہیں ہے
تفسیر طبری میں ہے
حدثنا الحسن بن الصباح البزار قال، حدثنا حجاج بن محمد، عن ابن جريج قال، أخبرني يعلى بن مسلم، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس أنه قال:”يا أيها الذين آمنوا أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم”، نزلت في رجل بعثه النبي صلى الله عليه وسلم على سرية
ابن عباس نے کہا یہ آیت ایک شخص کے سلسلے میں اتری جس کو سریہ پر بھیجا گیا تھا
احمد شاکر کے مطابق سند میں ثقات ہیں
—————
تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَوْلَهُ: وَأُولِي الأَمْرِ مِنْكُمْ قَالَ: أولوا الْعِلْمِ وَالْفِقْهِ. وَرُوِيَ عَنِ الْحَسَنِ، وَالْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ وَعَطَاءٍ وَإِبْرَاهِيمَ نَحْوُ ذَلِكَ.
مجاہد اور بہت سوں نے کہا کہ یہ اہل علم و فقہ ہیں
اس طرح کے بہت سے اقوال ابن أبي نجيح نے مجاہد سے منسوب کیے ہیں
وقال إبراهيم بن الجنيد قلت ليحيى بن معين أن يحيى بن سعيد يعني القطان يزعم أن بن أبي نجيح لم يسمع التفسير من مجاهد
محدثین کا کہنا ہے کہ ابن أبي نجيح کا سماع مجاہد سے نہیں ہے
حدثنا الحسن بن يحيى قال، أخبرنا عبد الرزاق قال، أخبرنا معمر، عن الحسن في قوله:”وأولي الأمر منكم”، قال: هم العلماء.
حسن بصری نے کہا اہل علم ہیں
معمر نے حسن سے روایت کیا ہے
وقال أحمد بن حنبل لم يسمع من الحسن
سند منقطع ہے
تفسیر طبری میں ہے
حدثني المثنى قال، حدثنا إسحاق قال، حدثنا ابن أبي جعفر، عن أبيه، عن الربيع، عن أبي العالية في قوله:”وأولي الأمر منكم”، قال: هم أهل العلم، ألا ترى أنه يقول: (وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الأمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ) [سورة النساء: 83]
ابو عالیہ نے کہا اس سے مراد اہل علم ہیں کیا تم دیکھتے نہیں کہ قول ہے
اور اس کو الله کے رسول اور اولی الامر کی طرف لوٹا دو کہ وہ جان سکیں
یہ تابعین کے اقوال ہیں
—–
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَجَّاجِ الْحَضْرَمِيُّ بِحَضْرَمَوْتَ، ثنا الْخَصِيبُ بْنُ نَاصِحٍ، ثنا الْمُبَارَكُ بْنُ فَضَالَةَ، عَنِ الْحَسَنِ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَأُولِي الأَمْرِ مِنْكُمْ قَالَ: أُولِي الْعِلْمِ وَالْفِقْهِ وَالْعَقْلِ وَالرَّأْيِ.
حسن بصری نے کہا اہل علم و فقہ و عقل و رائے ہیں
سند میں مبارک ضعیف ہے
تفسیر طبری میں ہے
حدثني يونس قال، أخبرنا ابن وهب قال، قال ابن زيد في قوله: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الأمْرِ مِنْكُمْ) قال: قال أبي: هم السلاطين. وقرأ ابن زيد: (تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ) [سورة آل عمران: 26] ، وإنما نقول: هم العلماء الذي يُطيفون على السلطان، (1) ألا ترى أنه أمرهم فبدأ بهم، بالولاة فقال (2) “إن الله يأمركم أن تؤدوا الأمانات إلى أهلها”؟ و”الأمانات”، هي الفيء الذي استأمنهم على جمعه وقَسْمه، والصدقات التي استأمنهم على جمعها وقسمها =”وإذا حكمتم بين الناس أن تحكموا بالعدل” الآية كلها. فأمر بهذا الولاة. ثم أقبل علينا نحن فقال: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الأمْرِ مِنْكُمْ) .
ابن زید نے کہا میرے باپ نے کہا یہ سلاطین ہیں اور ابن زید نے آیت قرات کی اور کہا یہ کہتے ہیں یہ علماء ہیں جو سلطان کے تحت ہوں کیا تم دیکھتے نہیں کہ ان کے حکم شروع ہوتے ہیں ولاة سے الله تعالی نے فرمایا الله تم کو امانات ادا کرنے کا حکم کرتا ہے اور امانات یہ الفيء کی قسم میں ہے جس کو جمع و تقسیم کیا جاتا ہے اور صدقات جس پر یہ لوگ مامور ہیں اور کہا جب لوگوں کے درمیان حکم کرو تو عدل کرو پس اس طرح الولاة کا حکم ہوا
=========
راقم کہتا ہے کہ اس سے مراد حکمران ہی ہیں لیکن بہت سے تابعین جو ابن زبیر کے دور خلافت میں تھے وہ ابن عباس کو پسند کرتے تھے اور انہوں نے ابن عباس سے علم لیا اور کہنا شروع کیا کہ ان آیات سے مراد حکمران نہیں اہل علم ہیں یعنی ابن عباس – اسی طرح ابن زبیر کے بعد بنو امیہ کا دور ہوا تو بھی یہ حجاج کو پسند نہ کرتے اور اس قسم کے فتوی دیتے تھے
جبکہ آیت واضح ہے کہ امراء مراد ہیں
=========
امام بخاری نے جماعت کے مفھوم کو اہل اقتدار کی اطاعت سے نکال کر اہل علم کی طرف کیا لہذا امام بخاری صحیح میں باب قائم کرتے ہیں
باب قوله تعالى: {وكذلك جعلناكم أمة وسطا} [البقرة: 143] وما أمر النبي صلى الله عليه وسلم بلزوم الجماعة، وهم أهل العلم
اور الله کا قول {وكذلك جعلناكم أمة وسطا} [البقرة: 143] اور نبی صلی الله علیہ وسلم کا حکم کہ جماعت کو
پکڑو اور وہ اہل علم ہیں
یعنی اہل اقتدار یا اولوالامر کی اطاعت سے نکال کر اس کو علماء کی اطاعت قرار دیا
اس کی دوسری مثال صحیح میں ہی ہے جہاں امام بخاری باب قائم کرتے ہیں
باب إذا اجتهد العامل أو الحاكم، فأخطأ خلاف الرسول من غير علم، فحكمه مردود لقول النبي صلى الله عليه وسلم: «من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد
باب کہ جب گورنر یا حاکم اجتہاد کرے اور اس میں خطا کرے خلاف رسول بغیر علم کہے تو وہ قول مردود ہے نبی صلی الله علیہ وسلم کے قول کی بنا پر کہ جس نے ایسا عمل کیا جس کا ہم نے حکم نہیں دیا تو وہ رد ہے
امام بخاری صحیح میں باب قول الله تعالى: {وأمرهم شورى بينهم میں لکھتے ہیں
ورأى أبو بكر قتال من منع الزكاة، فقال عمر: كيف تقاتل الناس وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله، فإذا قالوا: لا إله إلا الله عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا بحقها وحسابهم على الله ” فقال أبو بكر: والله لأقاتلن من فرق بين ما جمع رسول الله صلى الله عليه وسلم «ثم تابعه بعد عمر فلم يلتفت أبو بكر إلى مشورة إذ كان عنده حكم رسول الله صلى الله عليه وسلم في الذين فرقوا بين الصلاة والزكاة وأرادوا تبديل الدين وأحكامه» وقال النبي صلى الله عليه وسلم: «من بدل دينه فاقتلوه
اور ابو بکر نے زکات کے انکاریوں سے قتال کیا اور عمر نے کہا آپ کیسے قتال کر سکتے ہیں لوگوں سے اور بے شک رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہا ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے قتال کروں جب تک وہ لا
الہ الا اللہ نہ کہہ دیں اور جب کہہ دیں تو ان کا خوں اور مال مجھ سے بچ گئے سوائے حق کے اور ان کا حساب الله کے ذمے ہے پس ابو بکر نے کہا کہ الله کی قسم میں قتال کروں گا جو اس چیز میں فرق کرے جس پر رسول للہ نے جمع کیا پھر عمر ان کے تابع ہوئے اور ابو بکر نے ان سے مشورہ نہیں کیا کیونکہ ان کے پاس رسول الله کا حکم تھا ان کے لئے جو فرق کریں نماز اور زکات میں اور دین کو تبدیل کریں اور اس کے احکام کو اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جو دین بدلے اس کو قتل کرو
===========
امام بخاری کے نزدیک ان قبائل نے دین کو تبدیل کیا اور اس وجہ سے مرتد قرار پائے
امام بخاری نے یہ موقف اس لئے اختیار کیا کیونکہ ان کے نزدیک عباسی خلفاء کا عقیدہ خلق قرآن غلط تھا انہوں نے اس پر کتاب خلق الافعال العباد بھی لکھی اور کہا جو خلق قرآن کا موقف رکھے وہ جھمی ہے اس کے پیچھے نماز نہیں ہو گی
امت کے شروع کے خلفاء مثلا خلفاء جو اصحاب رسول ہیں اہل علم میں سے ہیں- ابو بکر بطور حاکم فیصلہ کر سکتے ہیں
لیکن محدثین نے لگتا ہے اس کو خلط ملط کر دیا ابو بکر کو خلیفہ کم اہل علم لے لیا اور سمجھا کہ اہل علم بھی وہ فیصلے کر سکتے ہیں جو حاکم کرتا ہے
اس لطیف فرق میں تفریق نہ کرنے کی وجہ سے علماء نے حکومت کے معاملات میں مداخلت کرنا شروع کر دی
راقم کے نزدیک اس آیت کے مفہوم کو بدلنا صحیح نہیں جو الله نے کہہ دیا وہ ظاہر ہے حکمران ہیں – ان سے اختلاف ایک الگ بحث ہے لیکن مفہوم بدل کر اس کو اہل علم کی طرف موڑنا صحیح نہیں ہے
یاد رہے علماء صرف فتوی دے سکتے ہیں لیکن گورنمنٹ احکام کو نافذ کرتی ہے اور حد قائم کرنے کا اختیار حکومت کے پاس ہے
صدقات جمع کرنے ان کو تقسیم کرنے کا اختیار حکومت کے پاس ہے
اگر آیت کا مفہوم اسطرح بدل تو پھر قرآن کے باقی احکام کو نافذ کون کرے گا – اس پر بھی علماء کو لیا جائے گا – علماء کا زکواة کھانا حلال ہو جاتا ہے ان کا قتل و ارتاد کے فتوی دینا جائز ہو جاتا ہے – حکومت کے ہوتے نجی حکومت قائم کرنا جائز ہو جاتا ہے
یہ فساد فی الارض کی طرف لے کر جائے گا
اگرچہ طبری نے تفسیر میں ہر طرح کے اقوال جمع کیے ہیں لیکن وہ خود آیت وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الأمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ کی تفسیر میں کہتے ہیں
قال أبو جعفر: وأولى الأقوال في ذلك بالصواب، قول من قال: هم الأمراء والولاة = لصحة الأخبار عن رسول الله صلى الله عليه وسلم بالأمر بطاعة الأئمة والولاة فيما كان [لله] طاعةً، وللمسلمين مصلحة،
اور اولی اقوال اس سلسلے جو ٹھیک ہیں وہ وہ ہیں جن میں ہے کہ یہ امراء اور ولات ہیں ان خبروں کی صحت کی بنا پر جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے مروی ہیں کہ ائمہ اور الولاة کی اطاعت کرو جس میں الله کی اطاعت ہو اور مسلمانوں کی اصلاح ہو
قال أبو جعفر: يعني جل ثناؤه بقوله:”ولو ردوه”، الأمر الذي نالهم من عدوهم [والمسلمين] ، إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وإلى أولي أمرهم يعني وإلى أمرائهم
طبری نے کہا الله کا قول کہ اس کو لوٹاو یعنی حکم .. رسول الله کی طرف اور اولی امر کی طرف یعنی امراء کی طرف
جواب
محدث ابن الصلاح المتوفی ٦٤٣ ھ (بحوالہ فتح الباری از ابن حجر) کہتے ہیں
وَقَالَ بن الصَّلَاحِ هُوَ حَيٌّ عِنْدَ جُمْهُورِ الْعُلَمَاءِ
خضر جمہور علماء کے نزدیک اب بھی زندہ ہیں
امام النووی المتوفی ٦٧٦ ھ شرح صحیح مسلم میں لکھتے ہیں
جُمْهُورُ الْعُلَمَاءِ عَلَى أَنَّهُ حَيٌّ مَوْجُودٌ بَيْنَ أَظْهُرِنَا وَذَلِكَ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ عِنْدَ الصُّوفِيَّةِ وَأَهْلِ الصَّلَاحِ وَالْمَعْرِفَةِ
جمہور علماء کے نزدیک وہ زندہ ہیں اور ہمارے ساتھ موجود ہیں اور یہ بات صوفیہ اور أَهْلِ الصَّلَاحِ وَالْمَعْرِفَةِ میں متفق ہے
کتاب شذرات الذهب في أخبار من ذهب از ابن العماد العَكري الحنبلي، أبو الفلاح (المتوفى: 1089هـ) کے مطابق
قيل: كان ملكا وقيل بشرا وهو الصحيح، ثم قيل: إنه عبد صالح ليس بنبيّ وقيل: بل نبيّ هو الصحيح. والصحيح عندنا أنه حيّ، وأنه يجوز أن يقف على باب أحدنا مستعطيا له، أو غير ذلك.
کہا جاتا ہے وہ (خضر) فرشتہ تھے اور کہا جاتا ہے بشر تھے اور یہ صحیح ہے پھر کہا جاتا ہے کہ وہ ایک صالح بندے تھے نبی نہیں تھے اور یہ صحیح ہے اور ہمارے نزدیک یہ صحیح ہے کہ وہ زندہ ہیں اور یہ بھی جائز ہے کہ کسی کے در پر رکیں اور دیں یا اسی طرح دیگر
شیعوں کے نزدیک بھی خضر زندہ ہیں
کتاب ديوان المبتدأ والخبر في تاريخ العرب والبربر ومن عاصرهم من ذوي الشأن الأكبر از عبد الرحمن بن محمد بن محمد، ابن خلدون أبو زيد، ولي الدين الحضرمي الإشبيلي (المتوفى: 808هـ) کے مطابق
ومنهم من يقول إنّ كمال الإمام لا يكون لغيره فإذا مات انتقلت روحه إلى إمام آخر ليكون فيه ذلك الكمال وهو قول بالتّناسخ ومن هؤلاء الغلاة من يقف عند واحد من الأئمّة لا يتجاوزه إلى غيره بحسب من يعيّن لذلك عندهم وهؤلاء هم الواقفيّة فبعضهم يقول هو حيّ لم يمت إلّا أنّه غائب عن أعين النّاس ويستشهدون لذلك بقصّة الخضر
اور ان شیعوں میں سے بعض کہتے ہیں کہ بے شک امام کے کمالات کسی اور کے لئے نہیں پس جب وہ مرتے ہیں ان کی روحیں دوسرے امام میں جاتی ہیں اور یہ قول التناسخ ہے اور ان غالیوں میں سے … بعض کہتے ہیں کہ وہ مرے نہیں ہیں بلکہ لوگوں کی آنکھوں سے غائب ہیں اور اس پر دلیل قصہ خضر سے لیتے ہیں
ابن کثیر کتاب البداية والنهاية میں لکھتے ہیں کہ خضر کی وفات ہو چکی ہے جو مناسب ہے
وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ قَالَءَأَقْرَرْتُمْ} [آل عمران: 81
فَأَخَذَ الله مِيثَاقَ كُلِّ نَبِيٍّ عَلَى أَنْ يُؤْمِنَ بِمَنْ يَجِيءُ بَعْدَهُ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ، وَيَنْصُرُهُ، فَلَوْ كَانَ الْخَضِرُ حَيًّا فِي زَمَانِهِ، لَمَا وَسِعَهُ إِلَّا اتِّبَاعُهُ، وَالِاجْتِمَاعُ بِهِ، وَالْقِيَامُ بِنَصْرِهِ
اگر خضر زندہ ہوتے کو نبی علیہ السلام کی مدد کرتے
ابو اسحاق إبراهيم بن سفيان جو صحیح مسلم کے ایک راوی ہیں ان کے مطابق خضر زندہ ہیں اور دجال جس شخص کو قتل نہ کر سکے گا وہ خضر ہوں گے
امام مسلم نے صحیح میں روایت لکھی
– (2938) حَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ، وَالْحَسَنُ الْحُلْوَانِيُّ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ – وَأَلْفَاظُهُمْ مُتَقَارِبَةٌ، وَالسِّيَاقُ لِعَبْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا – يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ – حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا حَدِيثًا طَوِيلًا عَنِ الدَّجَّالِ، فَكَانَ فِيمَا حَدَّثَنَا، قَالَ: ” يَأْتِي، وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْهِ أَنْ يَدْخُلَ نِقَابَ الْمَدِينَةِ، فَيَنْتَهِي إِلَى بَعْضِ السِّبَاخِ الَّتِي تَلِي الْمَدِينَةَ، فَيَخْرُجُ إِلَيْهِ يَوْمَئِذٍ رَجُلٌ هُوَ خَيْرُ النَّاسِ – أَوْ مِنْ خَيْرِ النَّاسِ – فَيَقُولُ لَهُ: أَشْهَدُ أَنَّكَ الدَّجَّالُ الَّذِي حَدَّثَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثَهُ، فَيَقُولُ الدَّجَّالُ: أَرَأَيْتُمْ إِنْ قَتَلْتُ هَذَا، ثُمَّ أَحْيَيْتُهُ، أَتَشُكُّونَ فِي الْأَمْرِ؟ فَيَقُولُونَ: لَا، قَالَ فَيَقْتُلُهُ ثُمَّ يُحْيِيهِ، فَيَقُولُ حِينَ يُحْيِيهِ: وَاللهِ مَا كُنْتُ فِيكَ قَطُّ أَشَدَّ بَصِيرَةً مِنِّي الْآنَ – قَالَ: فَيُرِيدُ الدَّجَّالُ – أَنْ يَقْتُلَهُ فَلَا يُسَلَّطُ عَلَيْهِ “، قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ: «يُقَالُ إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ هُوَ الْخَضِرُ عَلَيْهِ السَّلَامُ»
یعنی امام ابو اسحاق کے نزدیک خضر ابھی تک زندہ ہیں
الكتاب: شرح الطيبي على مشكاة المصابيح المسمى بـ (الكاشف عن حقائق السنن)
المؤلف: شرف الدين الحسين بن عبد الله الطيبي (743هـ)
کے مطابق
قوله: ((خير الناس)) ((حس)): قال معمر: بلغني أن الرجل الذي يقتله الدجال الخضر عليه السلام.
بہترین انسانوں میں سے معمر نے کہا ہم تک پہنچا ہے یہ شخص خضر ہوں گے
إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري
المؤلف: أحمد بن محمد بن أبى بكر بن عبد الملك القسطلاني القتيبي المصري، أبو العباس، شهاب الدين (المتوفى: 923هـ)
الناشر: المطبعة الكبرى الأميرية، مصر
کے مطابق
فيخرج إليه) من المدينة (يومئذٍ رجل هو خير الناس أو من خير الناس) قيل هو الخضر (فيقول: أشهد أنك الدجال الذي حدّثنا رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- حديثه)
کہا جاتا ہے یہ خضر ہوں گے
عمدة القاري شرح صحيح البخاري میں بدر الدين العينى (المتوفى: 855هـ) نے یہی قول لکھا ہے
قَوْله: فَيخرج إِلَيْهِ رجل قيل هُوَ الْخضر، عَلَيْهِ السَّلَام.
کتاب مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح از ملا قاری میں اس روایت کی شرح میں لکھا ہے
وَتَقَدَّمَ أَنَّهُ الْخَضِرُ – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ
کتاب الكوثر الجاري إلى رياض أحاديث البخاري از الكوراني میں ہے
فيقتله ثم يحييه فيقول: والله ما كنت فيك أشد بصيرة مني اليوم) أي في هذه الساعة، وذلك لأنه وجد العلامات التي ذكرها رسول الله – صلى الله عليه وسلم -، قيل: ذلك الرجل هو الخضر والله أعلم
راقم اس قول کو قبول نہیں کرتا
القسطلاني کی کتاب إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري کا ہے جس میں ابن حجر کی بات پیش کی گئی ہے
=========
وقال ابن العربي: سمعت من يقول إن الذي يقتله الدجال هو الخضر وهذه دعوى لا برهان لها. قال الحافظ ابن حجر: قد يتمسك من قاله بما أخرجه ابن حبان في صحيحه من حديث أبي عبيدة بن الجراح رفعه في ذكر الدجال لعله يدركه بعض من رآني أو سمع كلامي الحديث ويعكر عليه قوله في رواية لمسلم شاب ممتلئ شبابًا ويمكن أن يجُاب بأن من جملة خصائص الخضر أن لا يزال شابًّا ويحتاج إلى دليل
ابن العربی نے کہا میں نے سنا جس نے کہا کہ یہ شخص جس کو دجال قتل نہ کر سکے گا خضر
ہوں گے اور اس دعوی کی کوئی برہان نہیں ہے اور ابن حجر نے کہا بلا شبہ اس میں تمسک کیا ہے اس پر جو ابن حبان نے صحیح میں حدیث ابو عبیدہ بن الجراح تخریج کی ہے جس میں ذکر دجال ہے کہ ہو سکتا ہے بعض اس کو پائیں جنہوں نے نے مجھ کو دیکھا یا کلام سنا الحدیث
اور روایت میں آ رہا ہے ایک مسلم جوان جوانی سے بھر پور اور ممکن ہے اس کا جواب دیا ہو کہ یہ خصائص خضر کے ہیں کہ ان کی جوانی کو زوال نہیں ہے لیکن اس پر دلیل درکار ہے
==========
راقم کہتا ہے
صحیح ابن حبان کی روایت ہے
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَزْدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُرَاقَةَ
عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: “إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ قَبْلِي إِلَّا وَقَدْ أَنْذَرَ قَوْمَهُ الدَّجَّالَ، وَإِنِّي أُنْذِرُكُمُوهُ”، قَالَ: فَوَصَفَهُ لَنَا، وَقَالَ: “لَعَلَّهُ أَنْ يُدْرِكَهُ بَعْضُ مَنْ رَآنِي، أَوْ سَمِعَ كَلَامِي”، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قُلُوبُنَا يَوْمَئِذٍ مثلها اليوم؟ فقال: “أو خير
أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو کہتے سنا کہ بے شک مجھ سے پہلے کوئی نبی نہیں گزرا الا یہ کہ اس نے اپنی قوم کو دجال سے ڈرایا اور میں تم کو ڈراتا ہوں -… ہو سکتا ہے اس کو بعض پائیں جنہوں نے مجھ کو دیکھا یا میرا کلام سنا
یعنی اقتباس میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ممکن ہے محدثین نے اس رائے کا استخراج اس طرح کیا ہو کہ صحیح ابن حبان کی اوپر والی حدیث کے مطابق ان کے نزدیک خضر نے نبی صلی الله علیہ وسلم کا کلام سنا اور پھر ان کی ملاقات دجال سے ہوئی کیونکہ خضر علیہ السلام کی جوانی کو زوال نہیں ہے – اس رائے کو ابن حجر نے رد کیا ہے کہ خضر کی جوانی کو زوال نہیں پر دلیل نہیں ہے لیکن انہوں نے اس بات کو رد نہیں کیا کہ محدثین یا سلف نے ایسا کوئی موقف نہیں رکھا تھا
ابن تیمیہ مجموع الفتاوى ج ٤ ص ٢٢٩ میں خضر کی زندگی پر کہتے ہیں جب سوال ہوا
هَلْ هُوَ حَيٌّ إلَى الْآنَ وَإِنْ كَانَ حَيًّا فَمَا تَقُولُونَ فِيمَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: ” {لَوْ كَانَ حَيًّا لَزَارَنِي} ” هَلْ هَذَا الْحَدِيثُ صَحِيحٌ أَمْ لَا؟
کیا یہ اب تک زندہ ہیں؟ اور اگر زندہ ہیں تو کیا فرماتے ہیں اس قول پر جو نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا گیا ہے جس میں فرمایا اگر زندہ ہوتے تو ملتے – کیا یہ حدیث صحیح ہے یا نہیں؟
ابن تیمیہ نے جواب دیا
وَأَمَّا حَيَاتُهُ: فَهُوَ حَيٌّ. وَالْحَدِيثُ الْمَذْكُورُ لَا أَصْلَ لَهُ وَلَا يُعْرَفُ لَهُ إسْنَادٌ بَلْ الْمَرْوِيُّ فِي مُسْنَدِ الشَّافِعِيِّ وَغَيْرِهِ: أَنَّهُ اجْتَمَعَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ قَالَ إنَّهُ لَمْ يَجْتَمِعْ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ قَالَ مَا لَا عِلْمَ لَهُ بِهِ فَإِنَّهُ مِنْ الْعِلْمِ الَّذِي لَا يُحَاطُ بِهِ. وَمَنْ احْتَجَّ عَلَى وَفَاتِهِ بِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ” {أَرَأَيْتُكُمْ لَيْلَتَكُمْ هَذِهِ فَإِنَّهُ عَلَى رَأْسِ مِائَةِ سَنَةٍ لَا يَبْقَى عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ مِمَّنْ هُوَ عَلَيْهَا الْيَوْمَ أَحَدٌ} ” فَلَا حُجَّةَ فِيهِ فَإِنَّهُ يُمْكِنُ أَنْ يَكُونَ الْخَضِرُ إذْ ذَاكَ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ. وَلِأَنَّ الدَّجَّالَ – وَكَذَلِكَ الْجَسَّاسَةُ – الصَّحِيحُ أَنَّهُ كَانَ حَيًّا مَوْجُودًا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بَاقٍ إلَى الْيَوْمِ لَمْ يَخْرُجْ وَكَانَ فِي جَزِيرَةٍ مِنْ جَزَائِرِ الْبَحْرِ. فَمَا كَانَ مِنْ الْجَوَابِ عَنْهُ كَانَ هُوَ الْجَوَابَ عَنْ الْخَضِرِ وَهُوَ أَنْ يَكُونَ لَفْظُ الْأَرْضِ لَمْ يَدْخُلْ فِي هَذَا الْخَبَرِ أَوْ يَكُونُ أَرَادَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْآدَمِيِّينَ الْمَعْرُوفِينَ وَأَمَّا مَنْ خَرَجَ عَنْ الْعَادَةِ فَلَمْ يَدْخُلْ فِي الْعُمُومِ
جہاں تک ان کی حیات کا تعلق ہے تو وہ زندہ ہیں- … اور جس نے خضر کی وفات پر نبی صلی الله علیہ وسلم کے قول سے دلیل لی کہ اس رات جو سطح زمیں پر زندہ ہے وہ سو سال پورا ہونے پر نہ ہو گا اس میں ان کے لئے حجت نہیں ہے یہ تبھی ممکن ہے کہ جب خضر (اس وقت) سطح زمیں پر ہی ہوں اور بے شک دجال اور جساسہ صحیح ہے کہ یہ زندہ موجود ہیں عہد نبوی میں اس دن تک جزیرہ میں ہیں اس سے نہیں نکلے ہیں جو سمندر کے جزیروں میں سے ہے – پس جو جواب اس پر ہے وہی ہمارا جواب خضر پر ہے کہ اس خبر ({لَوْ كَانَ حَيًّا لَزَارَنِي}) میں زمین کا لفظ نہیں ہے اور ہو سکتا ہے نبی صلی الله علیہ وسلم کی مراد مشھور لوگ ہوں اور جو عادت سے الگ ہو اس کو عموم میں شمار نہیں کیا جاتا
یعنی ابن تیمیہ خضر کے زندہ ہونے کے قائل تھے لیکن ابن قیم نے المنار المنيف میں لکھا ہے
وَسُئِلَ عَنْهُ شَيْخُ الإِسْلامِ ابْنُ تَيْمِيَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ فَقَالَ: “لَوْ كَانَ الْخَضِرُ حَيًّا لَوَجِبَ عَلَيْهِ أَنْ يَأْتِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيُجَاهِدُ بَيْنَ يَدَيْهِ وَيَتَعَلَّمُ مِنْهُ وَقَدْ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ بَدْرٍ: “اللَّهُمَّ إِنْ تُهْلَكْ هَذِهِ الْعِصَابَةُ لا تُعْبَدْ فِي الأَرْضِ” وكانوا ثلاث مئة وَثَلاثَةِ عَشَرَ رَجُلا مَعْرُوفِينَ بِأَسْمَائِهِمْ وَأَسْمَاءِ آبَائِهِمْ وَقَبَائِلِهِمْ فَأَيْنَ كَانَ الْخَضِرُ حِينَئِذٍ؟
اور میں نے شیخ ابن تیمیہ سے سوال کیا انہوں نے کہا اگر خضر زندہ ہوتے ان پر واجب ہوتا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئیں اور ان کے ساتھ مل کر جہاد کریں اور بدر کے دن رسول الله نے فرمایا اے الله اگر اس گروہ کو آج ہلاک کر دیا گیا تو تیری عبادت کوئی نہ کرے گا اور وہ ٣١٣ معروف مرد تھے جن کے نام اور ان کے باپوں کے اور قبائل کے نام معلوم ہیں تو اس وقت خضر کہاں تھے؟
یعنی ابن قیم کے مطابق ابن تیمیہ خضر کی وفات کے قائل تھے
یہ تضاد رائے کب ہوا ؟ کیا ابن قیم نے جھوٹ باندھا یا سمجھنے میں ان سے غلطی ہوئی یا ابن تیمیہ نے اپنے موقف سے رجوع کیا واضح نہیں ہے
سورہ المائدہ کی آیت ٥٥ ہے
إنما وليكم الله ورسوله والذين آمنوا الذين يقيمون الصلاة ويؤتون الزكاة وهم راكعون
بے شک الله تمہارا دوست ہے اور اس کا رسول اور وہ جو ایمان لائے جو نماز قائم کرتے ہیں، الزكاة دیتے ہیں اور وہ جو رکوع کرتے ہیں
تفسیر الطبری کے مطابق یہ آیت عبادہ بن صامت جو بنی عوف سے تھے کے لئے اتری تھی
تفسير البغوي کے مطابق
روي عن ابن عباس رضي الله عنهما أنها نزلت في عبادة بن الصامت وعبد الله بن أبي بن سلول حين تبرأ عبادة من اليهود ، وقال : أتولى الله ورسوله والذين آمنوا ، فنزل فيهم من قوله : ” ياأيها الذين آمنوا لا تتخذوا اليهود والنصارى أولياء ” ، إلى قوله : ” إنما وليكم الله ورسوله والذين آمنوا ” يعني عبادة بن الصامت وأصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم . وقال جابر بن عبد الله : جاء عبد الله بن سلام إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله إن قومنا قريظة والنضير قد هجرونا وفارقونا وأقسموا أن لا يجالسونا ، فنزلت هذه الآية ، فقرأها عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال : ” يا رسول الله رضينا بالله وبرسوله وبالمؤمنين أولياء ” . وعلى هذا التأويل أراد بقوله : ( وهم راكعون ) [ ص: 73 ] صلاة التطوع بالليل والنهار ، قاله ابن عباس رضي الله عنهما .
ابن عبّاس نے روایت کیا ہے کہ یہ عبادہ بن صامت اور عبد الله بن أبي بن سلول کے لئے نازل ہوئیں جو مسلمان تھے لیکن یہود ان سے اسلام لانے کی بنا پر الجھتے تھے
تفسير القرآن العظيم لابن أبي حاتم کی ایک ضعیف روایت کے مطابق یہ علی کے لئے نازل ہوئی کیونکہ انہوں نے نماز میں انگوٹھی صدقه کی
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ ثنا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنِ أَبُو نُعَيْمٍ الأَحْوَلُ، ثنا مُوسَى بْنُ قَيْسٍ الْحَضْرَمِيُّ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ قَالَ: تَصَدَّقَ عَلِيٌّ بِخَاتَمِهِ وَهُوَ رَاكِعٌ فَنَزَلَتْ إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ الله وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصلاة ويؤتون الزكاة وهم راكعون
اس کی سند میں موسى بن قيس الحضرمى ہے جس کو
صدوق ، شیعیت کا الزام ہے ابن حجر : صدوق رمى بالتشيع
قال العقيلي: من الغلاة في الرفض کہتے ہیں رافضی غالیوں میں سے کہتے ہیں
ایک دوسری سند ہے
حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمُرَادِيُّ، ثنا أَيُّوبُ بْنُ سُوَيْدٍ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ أَبِي حَكِيمٍ فِي قَوْلِهِ: إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ الله ورسوله والذين آمنوا قَالَ: عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ.
اس میں عُقْبَةَ بْنِ أَبِي حَكِيم مجھول ہے
تیسری سند ہے
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ، ثنا عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَبُو حَفْصٍ عَنِ السُّدِّيِّ قَوْلَهُ: إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ الله وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا قَالَ: هُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَعَلِيٌّ مِنْهُمْ
اس میں إسماعيل بن عبد الرحمن بن أبى كريمة السدى ہے
ابن حجر : صدوق يهم و رمى بالتشيع
الذهبي وَكَانَ مِنْ شِيعَةِ الكُوْفَةِ وَقِيْلَ: كَانَ غَالِياً.
اس میں بھی شیعیت ہے اور غالی ہے
حالت نماز میں صدقه کرنے کا مطلب ہے نماز میں خشوع کو چھوڑنا، ادھر ادھر دیکھنا، پھر انگوٹھی کا اتارنا اور اس انداز میں دینا کہ لینے والا اس کو صدقه بھی سمجھے- سب اس کو عمل کثیر بنا دیتے ہیں جو نماز کو باطل کرنے کے لئے کافی ہے – ظاہر ہے جس نماز میں سلام کرنا تک منع ہے اس میں صدقه کرنا کیسے قابل ستائش ہو سکتا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ جب کوئی دلیل نہ ملی تو غالیوں نے اس قسم کی روایات بیان کیں
جواب یہ آیت سے واضح ہے کہ اس سے مراد دنیا نہیں جنت ہے تبھی عند ربھم کہا گیا ہے
سوره ال عمران کی آیات ہیں
وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ الله أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ (169) فَرِحِينَ بِما آتاهُمُ الله مِنْ فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ أَلاَّ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ (170
اور وہ لوگ جو الله کی راہ میں قتل ہوئے (شہداء) ان کو مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس (نعمتوں میں سے) کھاتے ہیں، خوش ہیں، جو انہیں الله کی طرف سے فضل میں ملا ہے اور استبشار کرتے ہیں ان کے بارے میں جو ان سے ابھی نہیں ملے ہیں (یعنی دنیا میں جو رفقائے کار تھے) ، نہ ان کو کوئی خوف ہے نہ ہی وہ غم کرتےہیں
ان آیات میں بتایا گیا ہے وہ لوگ جو الله کے لئے قتل ہو رہے ہیں وہ معدوم نہیں ہو رہے ان کے اجسام گھائل ہوۓ ہوں یا ان کا مثلہ کیا گیا ھو کہ جسد ہی نہ رہا ھو لیکن وہ اب الله کی دی ہوئی خاص نعمتوں کو پا رہے ہیں اور جنت میں ہیں
شہداء کہاں ہیں؟ مسلم کی حدیث میں اس کی وضاحت آتی ہے کہ اب وہ رحمان کے عرش کے نیچے قندیلوں میں ہیں اور سبز پرندوں میں ہیں
ان آیات اور حدیث میں آئی ہوئی اس شرح کا یکسر انکار کر کے کہا جاتا ہے شہداء ان زمینی گھڑوں میں زندہ ہیں
شہید کو تو فورا جنت میں داخل کیا جاتا ہے سوره یٰسین میں ہے کہ انبیاء کی دعوت کی تصدیق کرنے والے کا قتل ہوتا ہے اور اس کو جنت میں پہنچا دیا جاتا ہے
قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ قالَ يا لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ (26) بِما غَفَرَ لِي رَبِّي وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ
کہا گیا :جنت میں داخل ہو جا، اس نے کہا: اے کاش میری قوم جان لیتی کہ کس چیز پر میرے رب نے مغفرت کی اور مجھے مکرمین میں شامل کر دیا
معلوم ہوا کہ شہداء تو جنت میں ہیں
سوره نساء کی آیت ٦٩ میں ہے
مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ الله عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا
ان لوگوں کے ساتھ جن پر الله نے انعام کیا نبیوں صدیقین شہداء صالحین
بخاری کی حدیث میں اتا ہے کہ ہر نبی کو اختیار دیا جاتا ہے کہ چاہے تو دنیا لے یا آخرت. جب نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات کا وقت آیا تو عائشہ رضی الله تعالی عنہا کہتی ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہی آیت پڑھی
فَسَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، وَأَخَذَتْهُ بُحَّةٌ، يَقُولُ: {مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ الله عَلَيْهِمْ} [النساء: 69] الآيَةَ فَظَنَنْتُ أَنَّهُ خُيِّرَ
پس اس وقت میں جان گئی کہ آپ نے (دنیا کی رفاقت چھوڑنے کا) فیصلہ کر لیا
آخر ایسا کیوں نہ ہوتا کہ لا عیش الا عیش الاخره (کوئی زندگی نہیں سوائے آخرت کی زندگی کے) کہنے والا نبی دنیا میں رہنا پسند کرتا
کیا اس کے بعد بھی ایسا ہو سکتا ہے الله کے نبی اسی مدینہ والی قبر ہی میں زندہ ہوں ؟ نہیں ہرگز نہیں
ثناء الله امرتسری فتوی دیتے ہیں
اسمعیل سلفی کتاب مسئلہ حیات النبی میں شہداء کی برزخی زندگی کی وضاحت ابن جریر کے حوالے سے کرتے ہیں
عبدالرحمان کیلانی کتاب روح عذاب القبر اور سماع الموتی میں صفحہ ١٠٠ پر لکھتے ہیں
قرآن کی آیت میں بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ کہا گیا ہے اور مسلم کی حدیث میں مکمل وضاحت بھی آ گئی ہے اس کا اس دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے
لہذا عبد الرحمان کیلانی کی یہ بات نامکمل اور قرآن و حدیث کے خلاف ہے
زبیر علی زئی کتاب توضیح الاحکام میں لکھتا ہے
انبیاء اور شہداء جنت میں ہیں یہاں تک تو بات صحیح ہے اس کے بعد الجھی ہوئی تقریر سمجھ سےباہر ہے اگر وہ جنت میں ہیں تو پھر قبر میں کیسے زندہ ہیں دنیاوی اور برزخی کی بحث بالکل غیر واضح ہے
افسوس ایک نبی کی وفات ہوئی اس کی امت کے سب سے اہم ولی نے اس کو مردہ قرار دیا سب نے دفنا دیا لیکن یہ کہتے ہیں کہ جیسے ہی قبر میں رکھا گیا زندہ ہو گئے ان پر امت کے اعمال پیش ہونے لگے اور وہ قبر سے اذان دینے لگ گئے، وہ سلام کا جواب دینے لگ گئے
یہ بد عقیدگی نہیں تو اور کیا ہے
جواب
قرآن کی سوره المومنون کی ٩٩ اور ١٠٠ آیات ہیں
حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ (99) لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ
یہاں تک کہ ان میں جب کسی کو موت اتی ہے تو کہتا ہے اے رب مجھے لوٹا دے تاکہ صالح اعمال کروں ہرگز نہیں یہ تو صرف ایک قول ہے جو کہہ رہا ہے اور اب ان کے درمیان برزخ حائل ہے یہاں تک کہ ان کو دوبارہ اٹھایا جائے
اس کا مفھوم ہے کہ اب موت کے بعد اس دنیاوی جسد میں قیامت تک روح نہیں آ سکتی اور اس دنیا اور روح کے درمیان آڑ ہے
المسند فی عذاب القبر ص ٨٦ پر ارشد کمال لکھتے ہیں
لیکن ص ١٦٦ پر لکھتے ہیں
کیا یہ اپنی ہی کہی ہوئی بات کا رد نہیں؟
رفیق طاہر لکھتے ہیں
الله تعالى کا فرمان ہے ” حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ” یعنی “حتى کہ جب ان میں سے کسی ایک کو موت آتی ہے “۔ اس آیت مبارکہ میں ” أَحَدَهُمُ ” سے مراد وہ زندہ سلامت انسان ہے جو فاسق و فاجر ہے ۔ اور اس بارہ میں “نام نہاد مسلمین” سمیت کسی بھی ذی شعور کو اختلاف نہیں ہے ۔اور بات بھی طے شدہ ہے کہ مرنے سے قبل وہ روح وجسد کا مجموعہ تھا , نہ صرف روح یا صرف جسم !۔یعنی ” أَحَدَهُمُ ” سے مراد روح وجسم کا مجموعہ ہے ۔ اور اس ” أَحَدَهُمُ “کے روح وجسم کا مجموعہ ہونے پر کسی کو کوئی اختلاف نہیں ۔اسی متفق علیہ بات کو ذہن نشیں کرنے کے بعد ہم چلتے ہی اسی آیت کے اگلے حصہ کی طرف اور وہ ہے ” قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ ” یعنی “وہ کہتا ہے اے میرے رب مجھے لوٹا دو” ۔ یعنی مرنے کے بعد وہ کہتا ہے کہ مجھے لوٹا دیا جائے ۔ اب یہاں ” نام نہاد مسلمین” نے تلبیس سے کام لیا اور یہ باور کروانے کی کوشش کی ہے کہ مرنے کے بعد مرنے والے کی روح کہتی ہے کہ مجھے واپس میرے جسم میں لوٹا دو ۔ جبکہ اللہ تعالى نے فرمایا ہے ” قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ ” (وہ کہتا ہے کہ مجھے لوٹا دو ) یہ نہیں کہا کہ ” قَالَ رُوْحُہُ رَبِّ ارْجِعُونِ ” (اسکی روح کہتی ہے کہ مجھے لوٹاؤ) ۔ بات انتہائی سادہ سی ہے کہ اللہ کے فرمان ” قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ ” میں لفظ “قال” کا مرجع “احدہم” ہے ۔ یعنی جسے موت آئی تھی وہی کہہ رہا کہ مجھے لوٹاؤ ۔ اور یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ موت روح وجسد کے مجموعہ کو آئی تھی ۔ سو مرنے کے بعد روح وجسد کا مجموعہ ہی کہتا ہے کہ مجھے لوٹاؤ ۔ یعنی وہ دنیا میں لوٹ کر نیک اعمال کرنے کا خواہاں ہوتا ہے ۔ لہذا اس آیت سے ہی یہ بات ثابت ہوئی کہ مرنے کے بعد مرنے والے کی روح اسکے جسم میں لوٹتی ہے اور روح وجسد کا مجموعہ اللہ تعالى سے دوبارہ دنیا میں جانے کا مطالبہ کرتا ہے , لیکن اسکا یہ مطالبہ پورا نہیں کیا جائے گا ۔بلکہ اس مرنے والے (روح وجسد کے مجموعہ) اور دنیا میں لوٹ جانے کے درمیان قیامت تک کے لیے ایک برزخ (آڑ اور رکاوٹ) ہے ۔
قرآن کی ایک صفت ہے کہ اس میں باطل داخل نہیں ھو سکتا
لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنْزِيلٌ مِنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ سوره فصلت
باطل نہ تو اسکے سامنے سے آسکتا ہے اور نہ پیچھے سے , یہ بہت ہی باحکمت اور تعریف کیے گئے کی طرف سے نازل شدہ ہے
قرآن ہی میں ہے کہ مرنے والے کی روح روک لی جاتی ہے امساک روح کا کیا مفہوم رہ جائے گا اگر اس تشریح کو مان لیا جائے
رفیق طاہر صاحب کہتے ہیں روح کا امساک تھوڑی دیر کے لئے ہوتا ہے اور اس کے بعد وہ قبر میں آ جاتی ہے اور اگرچہ جسد مٹی مٹی ہو جاتا ہے لیکن قیامت تک قبر میں صرف روح اور عجب الذنب رہ جاتی ہے
أبو بكر الجزائري کی کتاب أيسر التفاسير لكلام العلي الكبير جو مكتبة العلوم والحكم، المدينة المنورة، المملكة العربية السعودية سے چھپی ہے اس میں اس میں ان آیات کی تشریح اس طرح کی گئی ہے
أي رأى ملك الموت وأعوانه وقد حضروا لقبض روحه {قال رب ارجعون1} أي أخروا موتي كي أعمل صالحاً فيما تركت العمل فيه بالصلاح، وفيما ضيعت من واجبات قال تعالى رداً عليه {كلا} 2 أي لا رجوع أبداً، {إنها كلمة هو قائلها} لا فائدة منها ولا نفع فيها، {ومن ورائهم برزخ} أي حاجز مانع من العودة إلى الحياة وهو أيام الدنيا كلها حتى إذا انقضت عادوا إلى الحياة، ولكن ليست حياة عمل وإصلاح ولكنها حياة حساب وجزاء هذا معنى قوله: {ومن ورائهم برزخ إلى يوم يبعثون}
یعنی موت کے فرشتے اور اس کے مددگاروں کو دیکھتا ہے جو اس کی روح قبض کرنے کے لئے حاضر ہوتے ہیں کہتا ہے اے رب واپس بھیج دے یعنی موت کو موخر کر دے تاکہ نیک عمل کر لے جس کو چھوڑ دیا .. الله تعالی رد کرتا ہے کہ ہرگز نہیں یعنی کوئی لوٹانا کبھی بھی نہیں ہو گا بے شک یہ ایک صرف قول ہے جس کا فائدہ نہیں نفع نہیں اور ان کے پیچھے آڑ ہے یعنی رکاوٹ جو مانع ہے عود زندگی کے لئے جو دنیا کے ایام تھے یہاں تک کہ یہ ختم ہو تو زندگی کی طرف عود ہو لیکن یہ حیات عمل اور اصلاح کی زندگی نہیں بلکہ یہ تو حساب اور جزا کی زندگی ہے اور یہ معنی ہے قول اور ان کے پیچھے برزخ حائل ہو واپس زندہ ہونے تک
اس وضاحت سے واضح ہے کہ ان حنبلی عالم کے نزدیک یہ مکالمہ قبر میں نہیں بلکہ اسی دنیا میں ہوتا ہے
قرآن کی سوره الانعام کی ٩٣ آیت ہے
وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُوأَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ
فرشتے جان نکلتے وقت اخراج نفس کرتے ہیں
پھر سوره تکویر میں کہا
وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ (التکویر: 7) اور جب روحیں (اپنے جسموں سے) ملا دی جائیں گی
وہی نفس جس کو سوره الانعام کی آیت ٩٣ کے مطابق جسد سے نکالا گیا تھا اس کو واپس ڈالا جا رہا ہے
رفیق طاہر لکھتے ہیں
ثُمَّ ‘تھوڑے سے وقفے کے بعد’ أَمَاتَهُ ‘ اس کو موت دی۔’ فَ ‘ موت دینے کے فوراً بعد ’ أَقْبَرَهُ‘ اس کو قبر دے دی۔تو نتیجہ کیا نکلا کہ مرنے کے بعد بندے کا جسم اور روح جہاں پر بھی ہو، چاہے وہ چارپائی پر پڑا ہو، چاہے زمین کے نیچے دبا دیا گیا ہو، چاہے ریزہ ریزہ ہوگیا ہو، جل کر راکھ ہوجائے، وہ اس کی قبر ہے۔مرنے کے بعد بندے کا جسم اور روح جہاں پر ہوگی ، وہ اس کےلیے قبر ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے: ’ ثُمَّ أَمَاتَهُ ‘ اللہ تعالیٰ نے اس بندے کو موت دی” فَأَقْبَرَهُ [عبس : 21]“ پھر ا س کو قبر بھی دی۔تو برزخی قبر جس کو وہ لوگ جو عذاب قبر کے منکر نہیں ہیں ، مانتے ہیں کہ قبر کے اندر عذاب ہوتا ہے ، لیکن کہتےہیں کہ اس قبر میں نہیں بلکہ اوپر والی قبرمیں … تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہ تونہیں کہا: ’فاقبر روحہ‘ اللہ نے اس کی روح کو قبر دی، ۔ جس کو اللہ نے موت دی ہے اسی کو اللہ نے قبر دی ہے۔روح وجسم کے مجموعے کو ، ایک انسان کو ، تو قبر بھی اکیلی روح کو نہیں، اکیلے جسم کو نہیں۔ ’فاقبرروحہ‘ ’فاقبر جسدہ‘ اللہ نے نہیں کہا کہ اللہ نے اس کی روح کو قبر دی، یا اللہ نے اس کے جسم کو قبر دی۔کیا کہا ہے: ” ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ [عبس : 21] “ اللہ نے اس روح وجسم کے مجموعے کو ، حضرت انسان کو موت دی اور پھر اسی روح وجسم کے مجموعے کو قبر بھی عطا کی ہے۔تو اسی ایک آیت سے یہ بھی پتہ چل گیا کہ مرنے کے فوراً بعد بندے کا جسم اور روح جہاں پر ہوتی ہے وہ اس کےلیے قبر ہے۔
یہاں مشکل یہ ہے کہ رفیق طاہر صاحب موت کا مفھوم واضح نہیں کرتے موت میں تو روح جسد سے نکل لی جاتی ہے تو جس شخصیت کو موت اتی ہے وہ خود دو میں تقسیم ہو جاتا ہے ایک اس کا جسد جو دنیا میں ہے اور ایک اس کی روح جس کو فرشتے نکال کر لیے جا چکے ہیں اب اگر انسان قبر میں رکھیں گے تو صرف دنیاوی جسد کو وہ بھی وقفے کے بعد لہذا جس قبر کو مرنے کے فورا بعد دیا گیا ہے وہ قبر اس دنیا میں نہیں
رفیق طاہر موت پر لکھتے ہیں
اور قرآن مجید میں ہی اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے کہ بندے کے جسم میں روح ہوتی ہے اور بندہ مردہ ہوتا ہے۔لہٰذا یہ تعریف کرنا موت کی کہ روح کا جسم سے نکل جانا موت ہے ، یہ تعریف ہی غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الزمر میں بیان فرمایا ہے: ” اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا “ اللہ روحوں کو نکال لیتا ہے ، موت کے وقت بھی نکال لیتا ہے اور نیند کے وقت بھی نکال لیتا ہے۔ نیند کے وقت اللہ روح کو کیا کرتا ہے ، نکال لیتا ہے۔ اچھا ! سوئے ہوئے کو مردہ کہتے ہو یا زندہ؟زندہ ہی مانتے ہیں ناں سارے؟اللہ تعالیٰ کہہ رہے ہیں کہ اس کے اندر روح کوئی نہیں۔ اللہ نے روح کو نکال لیا ہے ، پھر اللہ سوئے ہوئے کی روح کو نکال لیتا ہے اور حالت نیند میں جس کو موت دینی ہوتی ہے ، اس کی روح کو تھوڑی دیر کےلیے روک لیتا ہے۔ جس کو موت نہیں دینی ہوتی ، اس کی روح کو واپس جسم میں لوٹا دیتا ہے ، جس میں روح واپس آتی ہے تو بندہ جاگ جاتا ہے، بیدا رہوجاتا ہے۔ یعنی نیند کی حالت میں بندے کے اندر روح نہیں ہوتی، اللہ روح کو نکال لیتا ہے۔ لیکن کیا وہ مردہ ہے؟ نہیں۔ ساری کائنات اس کو زندہ مانتی ہے کہ یہ زندہ ہے، مردہ نہیں ہے۔ لہٰذا موت کی یہ تعریف کرنا کہ روح جسم سے نکل جائے تو موت ہوتی ہے ، غلط قرار پاتی ہے۔ موت کی یہ صحیح تعریف نہیں ہے۔ صحیح تعریف موت کی کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نےقرآن مجید میں دی ہے۔: ” أَمْواتٌ غَيْرُ أَحْيَاء [النحل : 21] “ مردہ ہیں، زندہ نہیں۔ یہ موت کی تعریف ہےکہ دنیوی زندگی کے ختم ہوجانے کا نام موت ہے
توفی کا مطلب قبض کرنا ہے نہ کہ نکالنا
راغب الأصفهانى (المتوفى: 502هـ) اپنی کتاب المفردات في غريب القرآن میں لکھتے ہیں
وقوله: كُلُّ نَفْسٍ ذائِقَةُ الْمَوْتِ [آل عمران/ 185] فعبارة عن زوال القوّة الحيوانيَّة وإبانة الرُّوح عن الجسد
اور (الله تعالیٰ کا ) قول : : كُلُّ نَفْسٍ ذائِقَةُ الْمَوْتِ [آل عمران/ 185] پس یہ عبارت ہے قوت حیوانی کے زوال اور روح کی جسد سے علیحدگی سے
ابن تیمیہ اپنی کتاب أمراض القلب وشفاؤها میں موت الْمُثبت کے بارے میں لکھتے ہیں
هُوَ فِرَاق الرّوح الْبدن وہ روح اور بدن کی فراقت ہے
ابن تیمیہ کتاب الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح میں لکھتے ہیں
وَكَذَلِكَ سَلَفُ الْأُمَّةِ وَأَئِمَّتُهَا يَعْرِفُونَ وُجُودَ النَّفْسِ الَّتِي هِيَ رُوحُ الْإِنْسَانِ الَّتِي تُفَارِقُ بَدَنَهُ حِينَ الْمَوْتِ
اور اسی طرح سلف امت اورائمہ وجود نفس کو مانتے ہیں جو روح انسان ہے جو موت کے وقت بدن سے علیحدہ ہوتی ہے
الله نے کہا
{الله يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا} [الزمر: 42]
الله نفس کو قبض کرتا ہے موت کے وقت اور جو نہیں مرا اس کا نیند کے وقت
اور دوسرے مقام پر کہا
{حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ} [الأنعام: 61]
یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت اتی ہے ہمارے فرشتے ان کو قبض کرتے ہیں اور چوکتے نہیں
روح اور جسم کے مجموعے کو موت آئی لیکن قبض صرف روح یا نفس ہوئی یہاں پر تَوَفَّتْهُ کی ضمیر أَحَدَكُمُ کی طرف ہے لیکن توفی صرف روح ہوئی جسد کو اس دنیا میں ہی چھوڑ دیا گیا
اس آیت کی روشنی میں سوره المومنون کی آیت کو سمجھا جا سکتا ہے
قرآن میں ہے
فَلَوْلَا إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ (83) وَأَنْتُمْ حِينَئِذٍ تَنْظُرُونَ (84) وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ وَلَكِنْ لَا تُبْصِرُونَ (85) فَلَوْلَا إِنْ كُنْتُمْ غَيْرَ مَدِينِينَ (86) تَرْجِعُونَهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (87
پھر کیوں نہیں (روح کو واپس لوٹا لیتے) جب وہ (پرواز کرنے کے لئے) حلق تک آپہنچتی ہے
اور تم اس وقت دیکھتے ہی رہ جاتے ہو
اور ہم اس (مرنے والے) سے تمہاری نسبت زیادہ قریب ہوتے ہیں لیکن تم (ہمیں) دیکھتے نہیں ہو
پھر کیوں نہیں (ایسا کر سکتے) اگر تم کسی کی مِلک و اختیار میں نہیں ہو
کہ اس (رُوح) کو واپس پھیر لو اگر تم سچّے ہو
یہاں پر روح کا لفظ نہیں لیکن قرآن کے سیاق و سبق سے واضح ہے کہ یہ سب روح کے بارے میں ہے
اور کہا
{قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ} [السجدة: 11]
کہو تم کو موت کا فرشتہ قبض کرے گا جو تم پر مقرر ہے اور پھر تم اپنے رب کی طرف لوٹائے جاؤ گے
مرنے والا الله کے پاس پہنچ جاتا ہے جبکہ اس کا جسد اسی دنیا میں رہ جاتا ہے موت کے فرشتے نے قبض کی کو کیا نفس کو یا جسد کو اگر آپ اس پر غور کریں گے تو آپ کو یہ بات سمجھ میں آ سکتی ہے
دوئم عود روح جس روایت پر جان نثار کر رہے ہیں خود اس میں موت کی وضاحت کی گئی ہے کہ
زاذان کی روایت جس کا رفیق طاہر ترجمہ کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
پھر فرمایا “جب مؤمن دنیا سے رخصت اور آخرت کے سفر پر گامزن ہوتا ہے تو اسکے پاس ایسے سفید چہروں والے فرشتے آسمان سے اترتے ہیں گویا کہ انکے چہرے سورج ہیں , انکے پاس جنت کے کفنوں میں سے ایک کفن ہوتا ہے اور جنت کی خوشبو میں سے ایک خوشبو ہوتی ہے , حتى کہ وہ اسکی تاحد نگاہ بیٹھ جاتے ہیں , پھر ملک الموت آتا ہے اور اسکے سر کے پاس بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے ” اے پاک جان اللہ کی مغفرت اور رضا مندی کی طرف نکل چل ” آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “تو وہ ایسے بہہ کر نکلتی ہے جیسے مشکیزے کے منہ سے قطرہ بہتا ہے , تو وہ اسے پکڑ لیتا ہے , اور جونہی وہ اسے پکڑتا وہ (دیگر فرشتے) پل بھر بھی اسکے ہاتھ میں نہیں رہنے دیتے بلکہ اسے لے لیتے ہیں اور اس کفن اور خوشبو میں ڈال دیتے ہیں۔
عود روح کی روایت میں موت کا یہ مفھوم غلط ہے تو اس کو کیوں مانتے ہیں؟
اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ موصوف روح جسم میں آنے کو زندگی مانتے ہیں لیکن اس کے نکلنے کو موت ماننے کے لئے تیار نہیں موصوف لکھتے ہیں
اسی طرح ایک بہت بڑا اعتراض وہ یہ بنا کرپیش کرتے ہیں کہ اگر قبر والی زندگی کو مان لیا جائے توتین زندگیا ں اور تین موتیں ہوجاتی ہیں۔حالانکہ الہ نے قرآن میں کہا ہے کہ دو زندگیاں اور دوموتیں ہیں۔ بات صرف وہی ہے کہ سمجھ نہیں آئی۔ سمجھے کا قصور ہے۔ انسان پیدا ہوتا ہے ۔کہاں پر؟ ماں کے پیٹ میں۔ روح جب جسم کے اندر ڈالی جاتی ہے ، اس وقت بچہ کہاں ہوتا ہے؟ ماں کے پیٹ میں۔ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے کہ اس کے اندر روح ڈالی جاتی ہے، وہ مخصوص مدت پوری کرنے کے بعد پیٹ سے باہر آجاتا ہے۔
موصوف یہ بھی لکھتے ہیں
اللہ نے کہیں بھی یہ نہیں کہاکہ روح قیامت کے دن ڈالی جاتی ہے، یا روح قیامت کے دن ڈالی جائے گی، اس سے پہلے نہیں۔
افسوس کہ پورے قرآن کا مفھوم ہی بدل کے رکھ دیا ہے صرف عود روح والی روایت کے لئے جس کو اہل علم رد کر چکے ہیں . کیا قرآن میں یہ نہیں
ثُمَّ إِنَّكُمْ بَعْدَ ذلِكَ لَمَيِّتُونَ (15) ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ تُبْعَثُونَ (16
پھر اس کے بعد تمہیں موت آ کر رہے گی پھر اس کے بعد تم قیامت کے دن زندہ کیے جاؤ گے
اس بحث کا لب لباب یہ ہے کہ سوره المومنون کی آیت کے الفاظ اے رب واپس بھیج دے کی تین تشریحات ہیں
اول روح فرشتے نکال کر الله کے پاس لے جاتے ہیں اور روح الله سے کہتی ہے کہ واپس لوٹا دے
دوئم انسان موت کے فرشتے کو دیکھ کر کہتا ہے کہ موت کو موخر کر دے
سوئم روح قبر میں لوٹنے کے بعد کہتی ہے کہ واپس دنیا میں بھیج دے
ہمارا عقیدہ ہے کہ دوئم اور سوئم تشریحات درست نہیں کیونکہ روح اس میں دنیا میں ہی ہے لہذا ارْجِعُونِ لوٹانے کا کوئی مفھوم رہتا ہی نہیں
جواب
عود روح کے قائلین کا یہ دعوی ہے کہ اعادہ روح قبر میں سوال و جواب کے لئے ہوتا ہے اور پھر واپس روح کو جنت و جہنم میں بھیج دیا جاتا ہے اس کے حوالے سے وہ جو روایت پیش کرتے ہیں جس کو اہل علم نے منکر بتایا ہے لیکن پسند اپنی اپنی ہوتی ہے
رفیق طاہر، زاذان کی عود روح والی روایت کے دفاع میں لکھتے ہیں
اب بد آدمی جو ہوتا ہے ، یہ ذرا قابل غور بات ہے۔عثمانیوں کا کیا عقیدہ ہے کہ عذاب وثواب اس زمین والی قبر میں نہیں بلکہ آسمانوں والی قبر میں ہوتا ہے ، اس بات کا بڑا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں، اب دیکھتے جائیے گا کہ ہوتا کیا ہے۔ اور جو بد آدمی ہے اس کی روح کو نکالا جاتا ہے، شدت کے ساتھ ، سختی کے ساتھ ، بدبودار ٹاٹ کے اندر اس کو لپیٹا جاتا ہے۔ اور اس کو آسمانوں پر لے جایا جاتا ہے، آسمانوں کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے ، لیکن دروازہ آسمان کا نہیں کھلتا۔ ساتھ ہی نبی نے قرآن کی یہ آیت تلاوت کردی۔ کہ یہ ظالم لوگ ” لاَ تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاء “ ان کےلیےآسمانوں کے دروازے نہیں کھولے جاتے۔ ” وَلاَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ “یہ جنت میں بھی نہ جائیں گے ” حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ [الأعراف : 40] “ حتی کہ اونٹ سوئی کے سوراخ میں سے داخل ہوجائے۔جب تک اونٹ سوئی کے سوراخ میں سے داخل نہیں ہوجاتا تب تک نہ توا ن کےلیے آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور نہ ہی یہ جنت میں داخل ہوسکیں گے۔ اب اللہ تعالیٰ تو کہہ رہے ہیں کہ ظالموں کےلیے آسمان کے دروازے کھولے ہی نہیں جائیں گے ، قرآن ہے یہ۔ اور نبی نے بتایا ہے ، دلیل قرآن کی آیت پڑھ کر سنائی ہے۔ مسند احمد کے اندر یہ روایت تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ آسمان کے دروازے تو کھلے ہی نہیں تم کس آسمانی قبر میں اسے عذاب دے رہے ہو؟کہیں آسمانی قبر میں عذاب دے کر تم نے سوئی کے سوراخ میں سے اونٹ کو داخل تو نہیں کردیا؟ اللہ کے قرآن کی آیت کے منکر تو نہیں ہوگئے کہیں ؟ دوسروں پر کفر کے فتووں کی توپ چلانے والے ذرا خود ہوش کے ناخن لیں۔ اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں: ” لاَ تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاء وَلاَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ “ دونوں کام نہیں ہوسکتے۔نہ آسمان کے دروازے کھلیں اور نہ یہ جنت میں جائیں۔ ” حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ “پھر نبی فرمارہے ہیں کہ اس کی روح کو وہیں سے پھینک دیا جاتا ہے۔ اور ساتھ ہی آپ نے ایک اور آیت پڑھ دی۔ ” فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاء “ کافروں کی مثال اللہ نے قرآن میں بھی بیان کی ہے۔ کہ یہ ایسا ہے کہ گویا آسمان سے گرا ہے۔ ” فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ “ یا پرندوں نے اسے اچکا ہے ” أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ [الحج : 31] “ یا ویران دور کی جگہ پر اس کو ہوا لے کر پہنچ جاتی ہے۔ اپنے عقیدے کی دلیل کےلیے نبی نے آیت پڑھی ہے۔ ”فتعاد روحہ فی جسدہ“ اس کی روح اس کے جسم کے اندر لوٹا دی جاتی ہے۔
جواب
قرآن کی جس آیت کو راویوں نے اس منکر روایت میں پرویا ہے وہ سوره الاعراف کی آیت ٤٠ ہے
إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِينَ
بے شک جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور تکبر کیا ان کے لئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے اور نہ ہی وہ جنت میں داخل ہوں گے حتیٰ کہ اونٹ سوئی کے ناکے سے گزر جائے اور اسی طرح ہم مجرموں کو بدلہ دیتے ہیں
قال أبو عبد الله سفيان بن سعيد بن مسروق الثوري الكوفي (المتوفى: 161هـ) في تفسيره : سفيان عَنْ لَيْثٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنِ بن عَبَّاسٍ فِي قَوْلِ اللَّهِ لا تفتح لهم أبواب السماء لقول ولا عمل .
سفیان ثوری اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ ابن عبّاس رضی الله تعالی عنہ کہتے ہیں: آسمان کے دروازے نہ کھلیں گے سے مراد قول اور عمل (کی پذیرائی نہ ہونا) ہے
و قال محمد علي الصابوني في تفسيره صفوة التفاسير : {لاَ تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السمآء} كناةي عن عدم قبول العمل، فلا يقبل لهم دعاء أو عمل.
الصابوني تفسير صفوة التفاسير میں کہتے ہیں : یہ الفاظ عدم قبول عمل پر کنایہ ہیں، پس نہ انکی دعا قبول ھو گی نہ عمل
و في تفسير الطبري : حَدَّثَنِي الْمُثَنَّى قَالَ: ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ: ثني مُعَاوِيَةُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَوْلُهُ: {إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ} [الأعراف: 40] يَعْنِي: «لَا يَصْعَدُ إِلَى اللَّهِ مِنْ عَمَلِهِمْ شَيْءٌ». و أيضا عن مجاهد : حَدَّثَنَا ابْنُ وَكِيعٍ، قَالَ: ثنا أَبِي، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ: {لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ} [الأعراف: 40] قَالَ: «لَا يَصْعَدُ لَهُمْ كَلَامٌ وَلَا عَمَلٌ». و أيضا عن إبراهيم النخعي : حَدَّثَنَا مَطَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الضَّبِّيُّ، قَالَ: ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، قَالَ: ثنا شَرِيكٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، فِي قَوْلِهِ: {لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ} [الأعراف: 40] ، قَالَ: «لَا يَرْتَفِعُ لَهُمْ عَمَلٌ وَلَا دُعَاءٌ».
تفسیر طبری میں ابن عبّاس رضی الله تعالی عنہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد ہے کہ ان کے عمل میں سے کوئی بھی شے الله کی طرف نہ اٹھے گی اور مجاہد کہتے ہیں آسمان کے دروازے نہ کھلیں گے سے مراد ہے کہ نہ کلام اوپر جائے گا نہ عمل اور ابراہیم النخعي کہتے ہیں نہ عمل اوپر جائے گا نہ ان کی پکار
یہ تفسیر کہ آسمان کے دروازے نہ کھلیں گے سے مراد روح کا اوپر نہ جانا ہے صرف شیعہ راویوں مثلا زاذان، منہال بن عمرو، عدی بن ثابت، عمرو بن ثابت ، السُّدِّيِّ یعنی إسماعيل بن عبد الرحمن بن أبي كريمة نے بیان کیا ہے
قرآن کی سوره الحج کی آیت ٣١ کوبھی متن میں پرویا گیا ہے
وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ
اور جس نے الله کے ساتھ شرک کیا پس یہ ایسا ہے کہ آسمان سے گرے اور پرندے اچک لیں یا اندھی کس بیابان میں پھینک دے
اس آیت میں بھی وضاحت کی گئی ہے کہ شرک ایسا جرم ہے کہ آسمان سے گر کر پاش پاش ھو جائے یا پرندے کھا جائیں اور اندھی اڑا دے کہ کوئی نشانی باقی نہ رہے
لیکن راویوں نے اس آیت کو اپنے مدعا میں بیان کیا ہے لہذا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ روح اسی ارضی قبر میں ہی رہے گی قیامت تک
مستدرک الحاکم کی ایک روایت میں عبد الله بن سلام رضی الله عنہ کا قول ہے
، وَإِنَّ الْجَنَّةَ فِي السَّمَاءِ، وَإِنَّ النَّارَ فِي الْأَرْضِ
بے شک جنت آسمان میں اور جہنم زمین میں ہے
یہ ایک شاذ روایت ہے قرآن میں ہے کہ جنت و جہنم کے درمیان اعراف ہے جو بلند مقام ہے اگر جہنم اس زمیں میں ہے تو یہ زمین فانی نہیں
قرآن میں سوره القمر میں ہے کہ الله نے قوم نوح کو عذاب دیا اور ان کو پانی میں ڈبو دیا
فَفَتَحْنَا أَبْوَابَ السَّمَاءِ بِمَاءٍ مُنْهَمِرٍ
هم نے آسمان کے دروازے کھول دیے نہروں جیسے پانی کے ساتھ
آسمان کے دروازے کھلے ہیں کفار مر رہے ہیں اور روحیں جلدی جلدی جہنم میں ڈالی جا رہی ہیں
زمین پر اس وقت پانی ہی پانی ہے
وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُونًا
اور ہم نے زمیں کو پھآڑ کر چشموں میں بدل دیا
یعنی قبریں ختم کسی کی بھی قبر نہ رہی
عود روح کے قائلین کا عقیدہ ہے کہ سوره الاعراف کی آیت ٤٠میں کنایہ نہیں بلکہ اصول بیان کیا گیا ہے
لیکن عود روح کے قائلین نے ابھی تک خود بھی نہیں سمجھا کہ زاذان کی عود روح والی روایت ان کے عقیدے کے خلاف ہے. روح قبر میں ہی رہے گی کیونکہ آسمان کے دروازے اب کافر کی روح کے لئے نہیں کھل سکتے جبکہ وہ یہ عقیدہ پیش کرتے ہیں کہ عود روح تھوڑی دیر ہوتا ہے پھر روح جہنم میں جاتی ہے
دامانوی ، عذاب قبر کی حقیقت میں لکھتے ہیں
روح کے قبض ہونے اور قبر کے سوال و جواب کے بعد کافر و منافق اور نافرمان کی روح کو جہنم میں داخل کر دیا جاتا ہے جہاں وہ عذاب سے دوچار ہوتی رہتی ہے۔ یہی عذاب جہنم ہے اور اس کی میت کو قبر میں عذاب دیا جاتا ہے اور یہ عذاب قبر ہے۔ اور جب قیامت قائم ہو گی تو عذابِ قبر ختم ہو جائے گا اور صرف عذابِ جہنم باقی رہ جائے گا
سوال یہ ہے کہ اب روح جہنم میں کیسے پہنچ گئی؟
ابن حزم کتاب الفصل في الملل والأهواء والنحل میں لکھتے ہیں
فيبلوهم الله عز وَجل فِي الدُّنْيَا كَمَا شَاءَ ثمَّ يتوفاها فترجع إِلَى البرزخ الَّذِي رَآهَا فِيهِ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم لَيْلَة أسرى بِهِ عِنْد سَمَاء الدُّنْيَا أَرْوَاح أهل السَّعَادَة عَن يَمِين آدم عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام وأرواح أهل الشقاوة وَعَن يسَاره عَلَيْهِ السَّلَام
پس الله عزوجل ان (انسانوں) کو دنیا میں آزماتا ہے پھر موت دیتا ہے اور البرزخ میں پلٹاتا ہے جس کو اس نے رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم کو معراج کی رات دکھایا تھا کہ آسمان دنیا پر اہل سعادت کی ارواح آدم عَلَيْهِ الصَّلَاة
وَالسَّلَام کے دائیں جانب اور اہل شقاوت کی ارواح ، آدم عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام کی بائیں طرف تھیں.
امام مسلم باب عرض مقعد الميت من الجنة أو النار عليه وإثبات عذاب القبر والتعوذ منہ میں روایت کرتے ہیں
و في صحيح المسلم رواية عن أبي هريرة : قال وإن الكافر إذا خرجت روحه – قال حماد وذكر من نتنها وذكر لعنا – ويقول أهل السماء روح خبيثة جاءت من قبل الأرض قال فيقال انطلقوا به إلى آخر الأجل .
ابی ھریرہ رضی الله تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ
بے شک جب کافر کی روح نکلتی ہے … اہل السماء کہتے ہیں خبیث روح ہے جو زمین کی طرف سے آئی ہے پس کہا: کہتے ہیں اس کو آخری اجل (قیامت) تک کے لئے لے جاؤ
مسلم کی روایت سے واضح ہے کہ جہنم ، زمین میں نہیں بلکہ آسمان میں ہے . سوره الذاريات آیت ٢٢ میں ہے
وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ
اور آسمان میں ہی تمہارا رزق ہے اور وہ جس کا وعدہ کیا گیا ہے
زاذان کی روایت کے مطابق مومن کی روح بھی آسمان پر نہیں رہتی بلکہ الله تعالی حکم دیتے ہیں
وأعيدوه إلى الأرض فإني منها خلقتهم وفيها أعيدهم ومنها أخرجهم تارة أخرى
اس روح کو زمین کی طرف پلٹ دو پس میں نے ان کو اس سے تخلیق کیا ہے اور اسی میں لوٹاؤں گا اوراسی سے دوسری بار نکالوں گا
مومن کی روح قبر میں کہتی ہے فيقول رب أقم الساعة حتى أرجع إلى أهلي وما لي
اے رب قیامت قائم کر تاکہ میں اپنے اہل و مال سے ملوں
اس روایت میں یہ کہیں بھی نہیں کہ روح کو واپس جسد سے نکالا جائے گا اور جنت یا جہنم میں لے جایا جائے گا جہاں ممکن ہے کہ اس کی ملاقات اپنے اہل سے ھو لیکن روح قبر میں ہی رہ جاتی ہے قیامت تک کے لئے
ابن عبد البر التمھید ج ١٤ ص ١٠٩ میں کہتے ہیں کہ البراء بن عازب کی روایت سے
وَقَدِ اسْتَدَلَّ بِهِ مَنْ ذَهَبَ إِلَى أَنَّ الْأَرْوَاحَ عَلَى أَفْنِيَةِ الْقُبُورِ
اور بے شک اس سے انہوں نے استدلال کیا ہے جو اس کے قائل ہیں کہ ارواح قبروں کے میدانوں میں (قبرستان) ہیں
ابن عبد البر الاستذکار ج ٣ ص ٨٩ میں کہتے ہیں کہ
أَنَّهَا قَدْ تَكُونُ عَلَى أَفَنِيَّةِ قُبُورِهَا لَا عَلَى أَنَّهَا لَا تَرِيمُ وَلَا تُفَارِقُ أَفَنِيَّةَ الْقُبُورِ
بے شک ارواح قبرستانوں میں ہیں اور یہ ان کو نہیں چھوڑتیں
زاذان کی روایت میں یہ بھی ہے کہ
عود روح کے بعدجسد پر عذاب ہوتا ہے اورایک اندھا فرشتہ مقرر کیا جاتا ہے جو جسد کو مارتا ہے کہ اس میں سے روح نکل جاتی ہے اور پھر دوبارہ اعادہ روح ہوتا ہے
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح کے مطابق
(فَيَصِيرُ تُرَابًا، ثُمَّ يُعَادُ فِيهِ الرُّوحُ) كَرَّرَ إِعَادَةَ الرُّوحِ فِي الْكَافِرِ بَيَانًا لِشِدَّةِ الْعَذَابِ
جسد مٹی ھو جاتا ہے پھر اعادہ روح ہوتا ہے تاکہ کافر پر عذاب کی شدت ھو
یعنی روح جسد سے نکلتی اور واپس عود کرتی رہتی ہے
السیوطی کتاب قوت المغتذي على جامع الترمذي میں لکھتے ہیں
إذ روح غير الشهيد ممن يؤخر للحساب لا يدخل الجنة عند مفارقتها للبدن فقد ورد: ” أرواح المؤمنين على أفنية قُبُورهم “.
اگر روح غیر شہید کی ھو جس پر حساب موخر ہے ، وہ جنّت میں جسم چھوڑنے پر داخل نہیں ہوتی جیسا کہ آیا ہے مومنین کی ارواح قبرستانوں کے میدان میں ہیں
أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676هـ) کتاب المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج میں لکھتے ہیں
الْمُعَذَّبُ عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ الْجَسَدُ بِعَيْنِهِ أَوْ بَعْضُهُ بَعْدَ إِعَادَةِ الرُّوحِ إِلَيْهِ أَوْ إِلَى جُزْءٍ مِنْهُ وَخَالَفَ فِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ جَرِيرٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بن كرام وطائفة فقالوا لايشترط إِعَادَةُ الرُّوحِ قَالَ أَصْحَابُنَا هَذَا فَاسِدٌ لِأَنَّ الْأَلَمَ وَالْإِحْسَاسَ إِنَّمَا يَكُونُ فِي الْحَيِّ
معذب ، اہل السنت کے نزدیک جسد بعینہ ہے یا اس کے بعض حصے اس میں إِعَادَةِ الرُّوحِ ہونے کے بعد اور اس کی مخالفت کی ہے محمّد بن جریر اور عبدللہ بن کرام اور ایک گروہ نے اور کہا کہ إِعَادَةِ الرُّوحِ عذاب کی شرط نہیں. ہمارے اصحاب کہتے ہیں یہ فاسد قول ہے بے شک الم و احساس زندہ کے لئے ہے
اس کا مطلب یہ ہوا کہ إِعَادَةِ الرُّوحِ کوئی استثنائی معامله نہیں بلکہ روح جسد ہی میں رہتی ہے
أنور شاه بن معظم شاه الكشميري الديوبندي (المتوفى: 1353هـ)کتاب فيض الباري على صحيح البخاري میں لکھتے ہیں
فإن البدنَ بدون الروح جمادٌ لا حِرَاكَ له، والرُّوحُ بدون البدن معطَّلةٌ عن الأفعال، فاحتاج أحدُهما إلى الآخر، فلمَّا اشتركا في الكَسْبِ اشتركا في الأجر، أو الوِزْرِ أيضًا
بدن بغیر روح کے ایک جمادی چیز ہے جس میں حرکت نہیں ہوتی اور روح بغیر بدن کے عمل سے خالی ہے ان دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کا محتاج ہے پس جب کسب عمل میں یہ دونوں شریک ہیں تو اجر میں بھی شریک ہونے چاہیے ہیں
اس بحث کا لب لباب ہے کہ زاذان کی منکر روایت سے جو نتائج نکلتے ہیں اس پر عود روح کے قائلین خود متفق نہیں دوئم یہ روایت نہ صرف متن میں غیر واضح ہے بلکہ قرآن و احادیث صحیحہ کے خلاف بھیہے یہی وجہ ہے کہ الذھبی سیر الاعلام النبلاء میں اس روایت کے لئے کہتے ہیں
حَدِيْثُهُ فِي شَأْنِ القَبْرِ بِطُوْلِهِ فِيْهِ نَكَارَةٌ وَغَرَابَةٌ
المنھال بن عمرو کی قبر کے بارے میں طویل روایت میں نکارت اور غرابت ہے
الذہبی کے ہم عصر ابن تیمیہ نے اس کے بر عکس اس روایت کا دفاع کیا اور ابن قیم نے کتاب الروح میں اس کو عقیدے کی کلید بنا دیا
جواب
بخاری کی حدیث ہے
کتاب تفسیر قرآن، سورۃ تبت یدا ابی لھب وتب: حدیث نمبر 4973
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ {وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ} وَرَهْطَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ، خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حَتَّى صَعِدَ الصَّفَا فَهَتَفَ ” يَا صَبَاحَاهْ ”. فَقَالُوا مَنْ هَذَا، فَاجْتَمَعُوا إِلَيْهِ. فَقَالَ ” أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخْبَرْتُكُمْ أَنَّ خَيْلاً تَخْرُجُ مِنْ سَفْحِ هَذَا الْجَبَلِ أَكُنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ ”. قَالُوا مَا جَرَّبْنَا عَلَيْكَ كَذِبًا. قَالَ ” فَإِنِّي نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَىْ عَذَابٍ شَدِيدٍ ”. قَالَ أَبُو لَهَبٍ تَبًّا لَكَ مَا جَمَعْتَنَا إِلاَّ لِهَذَا ثُمَّ قَامَ فَنَزَلَتْ {تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ} وَقَدْ تَبَّ هَكَذَا قَرَأَهَا الأَعْمَشُ يَوْمَئِذٍ.
ترجمہ: ہم سے یوسف بن موسٰی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو اسامہ نے، کہا ہم سے اعمش نے، کہا ہم سے عمرو بن مرہ نے، انہوں نے سعید بن جبیر سے، انہوں نے ابن عباسؓ سے، انہوں نے کہا جب (سورہ شعراء کی) یہ آیت اتری وَ اَنذِر عَشِیرَتَکَ الاَقرَبِینَ وَرَھطَکَ مِنھُمُ المُخلِصِینَ تو رسول اللہﷺ (مکہ سے) باہر نکلے۔ صفا پہاڑ پر چڑھ گئے۔ وہاں پکارا ارے لوگو ہوشیار ہو جاؤ۔ مکہ والے کہنے لگے یہ کون ہے۔ وہ سب (رسول اللہﷺ کے پاس جا کر) جمع ہو گئے۔ آپؐ نے فرمایا بتاؤ تو سہی اگر میں تم کو یہ خبر دوں کہ دشمن کے سوار اس پہاڑ کے تلے سے نکلنے والے ہیں تو تم میری بات سچ مانو گے۔ انہوں نے کہا (بیشک) کیونکہ ہم نے آپؐ کو آج تک کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا (چناچہ اسی وجہ سے آپؐ کو صادق اور امین کا لقب دے رکھا تھا)۔ آپؐ نے فرمایا۔ تو پھر میری بات سنو میں تم کو آگے آنے والے قیامت کے سخت عذاب سے ڈراتا ہوں۔ یہ سن کو ابو لہب مردود کہنے لگا ارے تو تباہ ہو تو نے ہم کو اس لئے جمع کیا تھا (نا حق پریشان کیا) ۔ آخر آپؐ اٹھ کھڑے ہوئےاور اس وقت اللہ تعالٰی نے یہ سورت اتاری تَبَّت یَدَا اَبِی لَھَبٍ ۔ اعمش نے یو ں پڑھا ہے وَ قَد تَبَّ جس دن یہ حدیث روایت کی۔
بخاری کی اس روایت کے راوی آعمش ہیں
کتاب ایمان از ابن مندہ میں اس روایت کے بعد ہے کہ الفاظ وَرَهْطَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ کے لئے محدث آعمش نے کہا
قَالَ الْأَعْمَشُ: وَهَكَذَا هِيَ فِي قِرَاءَةِ عَبْدِ اللَّهِ. قَالَ: فَقَالُوا: مَا جَرَّبْنَا عَلَيْهِ كَذْبَةٍ. قَالَ: وَهَذِهِ هِيَ قِرَاءَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَقِرَاءَتُهُ فِي مُصْحَفِهِ عَلَى هَذَا
آعمش نے کہا کہ ایسا ہی قرات ابن مسعود رضی الله عنہ میں تھا أَبُو أُسَامَةَ نے کہا کہ ہم ان آعمش کو جھوٹا نہیں سمجھتے انہوں (آعمش) نے کہا کہ ایسا ہی ابن مسعود کے مصحف میں تھا
النووی شرح المسلم میں کہتے ہیں
الظاهر أن هذا كان قرآنا أنزل ثم نسخت تلاوته ولم تقع هذه الزيادة في روايات البخاري
ظاہر ہے یہ قرآن میں نازل ہوئی پھر اس کی تلاوت منسوخ ہوئی اور یہ بخاری میں روایت ہوئی
راقم کی رائے میں یہ آیت نہیں بلکہ تشریح ہے کیونکہ سوره الشعراء کی آیت تھی اپنے گھر والوں کو ڈراؤ اس کے بعد تشریح لکھی گئی کہ وَرَهْطَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ ان میں سے خلوص والوں کو جمع کرو
عثمان رضی الله عنہ کے حکم پر جب مصحف جلائے گئے اس وقت علی اور ابن مسعود کے مصحف نہیں جلائے گئے تھے یا کہہ لیں انہوں نے ایسا نہیں کیا صحابہ آیات کے ساتھ ہی شرح لکھ لیتے تھے عائشہ رضی الله عنہا کے لئے اتا ہے کہ انہوں نے مصحف لکھنے کا حکم دیا لیکن کہا کہ جب قرآن کی آیت حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ ایے تو اس میں العصر کا اضافہ لکھ دینا لهذا بہت سے مصحف میں تشریحی اضافے موجود رہے
دوم قرآن کی دس قرات ہیں اور سب الگ ہیں (معنوی طور سے سب ایک ہیں الفاظ کی تبدیلی ہے) برصغیر اور مشرق وسطی میں عاصم بن ابی النجود کی قرات ہے – کوفہ اور یمن میں قرات عبد الله ابن مسعود اور معآذ بن جبل مشھور تھی اور آعمش بھی کوفی ہیں اور عاصم کے شاگرد ہیں لہذا ان کو تشریحی الفاظ سے مغالطہ ہوا کہ گویا یہ قرات کا حصہ ہیں ہم تک جو قرات آئی ہے اس میں یہ الفاظ نہیں ہیں لہذا یہ اضافہ تشریحی ہے
کتاب فصل الخطاب في تحريف كتاب رب الأرباب – الشيخ حسين النوري الطبرسي کے مطابق ورهطك منهم المخلصين. سے مراد ہیں
قال علي وحمزة وجعفر والحسن والحسين وآل محمد صلوات الله عليهم خاصة.
حالانکہ چچا حمزہ تو اس دعوت ذی عشرہ کے بہت بعد ایمان لائے- حسن حسین پیدا نہ ہوئے تھے اور چچا عباس رضی الله عنہ کا تو ذکر ہی نہیں اور چچا ابی طالب تو آخری وقت تک ایمان نہ لائے ان کا ذکر بھی نہیں ، چچاابو لھب کا قرآن میں ہے وہ کافر مرا
اب اگر الفاظ تشریحی ہیں تو ان سے کیا مراد ہے بات یہ ہے کہ ایک خاندان میں سینکڑوں لوگ ہوتے ہیں دعوت توحید کس کو دی جائے اس کی وضاحت ہے کہ چند مخلص لوگوں کو دو جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے گمان کے مطابق ایمان لا سکتے تھے لیکن ان پر اس وقت خاندان میں بزرگ افراد میں کوئی بھی ایمان نہ لایا جبکہ واضح ہے کہ یہ دعوت سب سے پہلے انہی کے لئے تھی فتح الباری از ابن حجر کے مطابق واقدی کا قول ہے کہ ٤٥ لوگوں کی دعوت کی گئی
ابن اسحاق اور بیہقی کے مطابق صرف چالیس لوگ تھے
انذار تو کافر و مسلم دونوں کے لئے ہے اور صحیح بخاری میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس دعوت میں اپنی بیٹی فاطمہ کو الله کے عذاب سے ڈرایا کہ اے فاطمہ اپنے آپ کو عذاب الله سے بچاؤ
يَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ وَيَا صَفِيَّةُ بِنْتَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِنِّي لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، سَلُونِي مِنْ مَالِي مَا شِئْتُمْ
ایک اور زاویہ: کہا جاتا ہے کہ ان آیات کے نزول کے بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک دعوت کی جس کو دعوت ذی عشیرہ کہا جاتا ہے اس میں خاندان والوں کو جمع کیا اس کے بعد توحید کی دعوت دی اور کوئی نہ تھا جو ایمان لاتا صرف ایک بچہ علی رضی الله عنہ تھے جو ایمان لائے
لیکن اسی بخاری کی وَرَهْطَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ والی روایت میں ہے کسی دعوت کا ذکر نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم صفا پر کھڑے ہوئے اور تمام قریش کو ڈرایا جس پر ابو لھب نے برا بھلا کہا اور سوره لھب نازل ہوئی
لہذا تاریخ کی کتب کے مطابق ایک دعوت ہوئی جس میں خاندان والے تھے جبکہ صحیحین کے مطابق کوئی دعوت نہ ہوئی اب جب دعوت ہی نہیں ہوئی تو علی کا بچپن میں ایمان لانا ثابت نہیں ہوتا
یہ ایسا ہے کہ وَرَهْطَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ والی روایت کو مانا جائے تو دعوت ذی عشیره ثابت نہیں ہوتی
جواب
ابن کثیر کی کتاب البداية والنهاية دیکھی اس میں وہ عبد الله بن عمرو کی روایت پر کہتے ہیں
وَرَفْعُهُ فِيهِ نَكَارَةٌ، لَعَلَّهُ مِنَ الزَّامِلَتَيْنِ اللَّتَيْنِ أَصَابَهُمَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو يَوْمَ الْيَرْمُوكِ مِنْ كُتُبِ أَهْلِ الْكِتَابِ، فَكَانَ يُحَدِّثُ مِنْهُمَا أَشْيَاءَ غَرَائِبَ.
اور اس میں نکارت کو بلند کیا ہے لگتا ہے ان اونٹنیوں والی کتب جو اہل کتاب میں سے تھیں جو ان کے ہاتھ لگیں یوم یرموک میں پس اس سے غریب چیزیں روایت کرتے
اس بات کو سات دفعہ کتاب میں ابن کثیر نے لکھا ہے جس سے صحابی رسول صلی الله علیہ وسلم سے ان کے بغض کا اندازہ ہوتا ہے
اس کتاب البداية والنهاية میں ابن کثیر ج ٢ ص ٢٩٩ کہتے ہیں کہ انکی روایات
وكان فيهما إسرائيليات يحدث منها وَفِيهِمَا مُنْكَرَاتٌ وَغَرَائِبُ.
ان إسرائيليات میں سے تھیں جن کو عبد اللہ روایت کرتے اور ان میں منکرات اور غریب روایات تھیں
جن روایات پر ابن کثیر نے عبد الله بن عمرو پر إسرائيليات بیان کرنے کا الزام لگآیا ہے وہ سات روایات ہیں ان سات روایات کو
رَبِيعَةَ بْنِ سَيْفٍ ( منکرات روایت کرنے کے لئے مشھور ہے قال البخارى : عنده مناكير) نے
مُجَاهِدٍ ( سماع میں اختلاف ہے اختلف في روايته عن عبد الله بن عمرو فقيل لم يسمع منه جامع التحصيل في أحكام المراسيل از العلائي (المتوفى: 761هـ) ) نے
وهب بن جابر الخيوانى ( مجھول ہے دیکھئے میزان الآعتدال از الذھبی) نے
حيي بن عبد الله بن شريح المعافري (ضعیف) نے روایت کیا ہے جو یا تو ضیف ہیں یا مجھول ہیں یا منکر روایت بیان کرنے کے لئے مشھور ہیں تو عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ کا کیا قصور ہے
تفسیر ابن کثیر میں سوره العمران ، الانعام میں بھی اس کو دہرایا
إنه من مفردات ابن لهيعة ، وهو ضعيف ، والأشبه – والله أعلم – أن يكون موقوفاً على عبد الله بن عمرو بن العاص ، ويكون من الزاملتين اللتين أصابها يوم اليرموك
بے شک اس میں ابن لهيعة کا تفرد ہے جو ضعیف ہے اور مجھ کو شبہ ہے الله کو پتا ہے کہ یہ روایت عبد الله بن عمرو بن موقوف ہے ہو سکتا ہے یہ ان میں سے جو دو اونٹنیوں پر لدی ہوئی تھیں
راقم کہتا ہے ابن کثیر کا قول باطل ہے
موطآ امام مالک کی روایت ہے
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: ” كَانَ فِيمَا أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى مِنَ الْقُرْآنِ: عَشْرُ رَضَعَاتٍ مَعْلُومَاتٍ يُحَرِّمْنَ، ثُمَّ نُسِخْنَ بِخَمْسٍ مَعْلُومَاتٍ، فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُنَّ مِمَّا يُقْرَأُ مِنَ الْقُرْآنِ
امام مالک نے خبر دی انکو عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ نے خبر دی انکو عمرہ نے انہوں نے عائشہ رضی الله عنہا سے روایت کیا کہ اللّٰه نے قرآن میں پہلے یہ نازل کیا تھا کہ دس رضعات سے حرمت ثابت ہوتی ہے۔ (دس بار دودھ پینے سے)۔ پھر اسے پانچ رضعات سے منسوخ کر دیا گیا۔ اور جب رسول اللّٰه کی وفات ہوئی تو یہ الفاظ قرآن میں قراءت کئے جا رہے تھے
جواب
امام مالک کی سند سے یہ صحیح مسلم، سنن النسائی، سنن ابی داود وغیرہ میں روایت ہوئی ہے صرف امام بخاری نے اس کو درج نہیں کیا ہے
فقہاء کی ایک جماعت اس روایت کو صحیح کہتی اور دلیل لیتی ہے اور ایک جماعت رد کرتی ہے اسی طرح اہل تشیع بھی اس کو رد کرتے ہیں
کتاب الأباطيل والمناكير والصحاح والمشاهير از الجورقاني (المتوفى: 543هـ) کے مطابق
وَقَدْ أَخَذَ بِهَذَا الْحَدِيثِ قَوْمٌ مِنَ الْفُقَهَاءِ مِنْهُمْ: الشَّافِعِيُّ وَإِسْحَاقُ وَغَيْرُهُمَا، وَجَعَلُوا الْخَمْسَ حَدًّا بَيْنَ مَا يُحَرِّمُ وَبَيْنَ مَا لَا يُحَرِّمُ
اور اس حدیث کے فقہاء کی ایک قوم نے اخذ کیا ہے جن میں شافعی اور اسحاق اور دیگر ہیں کہ پانچ بار کی حد ہے جس سے حرمت اور غیر حرمت ہوتی ہے- یعنی شوافع میں پانچ بار دودھ پلانے سے حرمت رضاعت ہو جائے گی- کتاب مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه از أبو يعقوب المروزي الكوسج (المتوفى: 251هـ) کے مطابق امام احمد کہتے تھے إن ذهب ذاهب إلى خمس رضعات لم أعبه اگر وہ پانچ رضعات تک جائے تو کوئی عیب نہیں ہے- لیکن بعد میں حنابلہ میں اس مسئلہ میں کئی رائے ہوئیں مثلا ابن قدامہ کتاب الهادي یا عمدة الحازم میں کہتے ہیں وَاخْتَلَفَ أَصْحَابُنَا في حَدِّ الرَّضْعَةِ اور ہمارے اصحاب کا حد رضاعت میں اختلاف ہے- امام مالک کے بیان کردہ عائشہ رضی الله عنہا کے اثر کے نیچے موطآ میں لکھا ہے وليس العمل على هذا اور اس پر(مسلمانوں کا) عمل نہیں ہے-
شعيب الأرنؤوط کتاب الإحسان في تقريب صحيح ابن حبان میں اس روایت کی تعلیق میں لکھتے ہیں
قال الإمام البغوي في (شرح السنة) 9/81: اختلف أهل العلم فيما تثبت به الحرمة من الرضاع، فذهب جماعة من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم إلى أنه لا تثبت بأقل من خمس رضعات متفرقات، وبه كانت تفتي عائشة وبعض أزواج النبي صلى الله عليه وسلم، وهو قول عبد الله بن الزبير، وإليه ذهب الشافعي وإسحاق، وقال أحمد: إن ذهب ذاهب إلى قول عائشة في خمس رضعات، فهو مذهب قوي، وذهب أكثر أهل العلم على أن قليل الرضاع وكثيره محرّم، يروى ذلك عن ابن عباس، وابن عمر، وبه قال سعيد بن المسيِّب، وعروة بن الزبير، والزهري، وهو قول سفيان الثوري، ومالك، والأوزاعي، وعبد الله بن المبارك، ووكيع، وأصحاب الرأي، وذهب أبو عبيد، وأبو ثور، وداود إلى أنه لا يحرم أقل من ثلاث رضعات، لقوله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “لَا تحرِّم المصَّة ولا المصتان”، ويحكى عن بعضهم أن التحريم لا يقع بأقل من عشر رضعات، وهو قول شاذ
امام البغوي شرح السنة میں کہتے ہیں اہل علم کا اختلاف ہے کہ حرمت رضاعت میں کیا ثابت ہے پس ایک اصحاب رسول کی جماعت کا اور دیگر کا مذھب ہے کہ پانچ مختلف رضعات سے کم بار پر حرمت ثابت نہیں ہوتی اور اسی پر عائشہ اور بعض ازواج نبی فتوی دیتیں تھیں اور یہی قول ہے عبد الله بن زبیر کا اور اس پر مذھب ہے شافعی کا اسحاق کا اور امام احمد کہتے ہیں اگر میں جاؤں تو قول عائشہ پر جاؤں گا کہ حرمت پانچ رضعات پر ہے اور یہ مذھب قوی ہے اور اکثر اہل علم کا مذھب ہے کہ چاہے کم ہو یا زیادہ حرمت ہو جاتی ہے جو روایت کیا جاتا ہے ابن عباس و ابن عمر سے اور ایسا ہی سعید بن مسیب اور عروہ نے امام الزہری نے کہا یہ قول ہے سفیان ثوری کا مالک کا الأوزاعي کا عبد الله بن مبارک کا وکیع کا اصحاب رائے کا – ابو عبید، ابو ثور اور داود کا مذھب ہے کہ حرمت نہیں ہوتی تین رضعات سے کم پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے قول کے مطابق ایک دو بار چوسنے پر حرمت نہیں ہے اور بعض کی طرف سے بیان کیا گیا ہے کہ دس رضعات سے کم پر حرمت نہیں ہوتی اور یہ قول شاذ ہے
بعض احناف متقدمین کے نزدیک عائشہ رضی الله عنہا کی صحیح مسلم کی روایت معلول ہے اور کتاب شرح مشكل الآثار میں امام ابو جعفر طحاوی کہتے ہیں
قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: وَهَذَا مِمَّنْ لَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَاهُ كَمَا ذَكَرْنَا غَيْرَ عَبْدِ [ص:312] اللهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ وَهُوَ عِنْدَنَا وَهْمٌ مِنْهُ , أَعْنِي: مَا فِيهِ مِمَّا حَكَاهُ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا , أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُوُفِّيَ وَهُوَ مِمَّا يُقْرَأُ مِنَ الْقُرْآنِ؛ لِأَنَّ ذَلِكَ لَوْ كَانَ كَذَلِكَ لَكَانَ كَسَائِرِ الْقُرْآنِ , وَلَجَازَ أَنْ يُقْرَأَ بِهِ فِي الصَّلَوَاتِ وَحَاشَ لِلَّهِ أَنْ يَكُونَ كَذَلِكَ , أَوْ يَكُونَ قَدْ بَقِيَ مِنَ الْقُرْآنِ مَا لَيْسَ فِي الْمَصَاحِفِ الَّتِي قَامَتْ بِهَا الْحُجَّةُ عَلَيْنَا , وَكَانَ مَنْ كَفَرَ [ص:313] بِحَرْفٍ مِمَّا فِيهَا كَافِرًا , وَلَكَانَ لَوْ بَقِيَ مِنَ الْقُرْآنِ غَيْرُ مَا فِيهَا لَجَازَ أَنْ يَكُونَ مَا فِيهَا مَنْسُوخًا لَا يَجِبُ الْعَمَلُ بِهِ , وَمَا لَيْسَ فِيهَا نَاسِخٌ يَجِبُ الْعَمَلُ بِهِ , وَفِي ذَلِكَ ارْتِفَاعُ وُجُوبِ الْعَمَلِ بِمَا فِي أَيْدِينَا , مِمَّا هُوَ الْقُرْآنُ عِنْدَنَا , وَنَعُوذُ بِاللهِ مِنْ هَذَا الْقَوْلِ وَمِمَّنْ يَقُولُهُ.
امام طحآوی کہتے ہیں؛ اور ہم نہیں جانتے اس کو کسی نے روایت کیا ہو سوائے عبد الله بن ابی بکر کے اور یہ انکا وہم ہے – کافی ہے جو عائشہ رضی الله عنہا سے حکایت کیا جاتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور وہ قرآن میں جو تھا اس کی تلاوت کرتے تھے اور اگر ایسا (کچھ قرآن میں) ہوتا تو تمام قرآن ( کے نسخوں ) میں ایسا ہوتا اور جائز ہوتا کہ اس کو پنج وقتہ نماز میں بھی پڑھا جائے اور حاشا للہ ایسا نہیں ہے اور…. اور جو اس کے ایک حرف کا بھی انکار کرے کافر ہے اور اگر قرآن میں جو باقی ہے یہ سب نہیں ہے تو یہ (عمل) منسوخ ہے اس پر عمل نہیں رہا اور اس میں جو ناسخ ہے اس پر عمل واجب ہے اور اس بات سے اس قرآن پر جو ہاتھوں میں ہے عمل اٹھ جاتا ہے اور ہم الله سے اس قول پر پناہ مانگتے ہیں اور جو بھی ایسا کہے
یعنی امام طحآوی اور احناف متقدمین سرے سے اس روایت کو صحیح ہی نہیں سمجھتے
شعيب الأرنؤوط کتاب الإحسان في تقريب صحيح ابن حبان میں اس روایت کی تعلیق میں لکھتے ہیں
وقول عائشة: فَتُوُفِّيَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ فيما يقرأ في القرآن: أرادت به قرب عهد النسخ من وفات رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى كان بعض من لم يبلغه النسخ يقرؤه على الرسم الأول، لأن النسخ لا يتصور بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم، ويجوز بقاء الحكم مع نسخ التلاوة كالرجم في الزنى حكمه باق مع ارتفاع التلاوة في القرآن، لأن الحكم يثبت بأخبار الآحاد، ويجب العمل به، والقرآن لا يثبت بأخبار الآحاد، فلم يجز كِتبته بين الدفتين
اور عائشہ کا قول : پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور یہ قرآن میں تلاوت کی جاتی تھیں تو انکا مقصد ہے کہ وفات النبی سے قبل اس دور میں جب نسخ کا دور تھا یہاں تک کہ بعض کو انکی منسوخیت نہیں پہنچی تو وہ اس کو رسم اول پر کی تلاوت کرتے رہے کیونکہ نسخ کا تصور رسول الله کے بعد متصور نہیں ہے اور یہ جائز ہے کہ حکم باقی رہے اور تلاوت منسوخ ہو جائے جیسے کہ رجم میں ہوا کہ اس کا حکم باقی ہے اور تلاوت قرآن میں سے اٹھ گئی ہے کیونکہ حکم ثابت ہے اخبار احاد سے اور اس پر عمل واجب ہے اور قرآن اخبار احاد سے ثابت نہیں ہوتا لہذا اس حکم کا دفتیں میں لکھنا جائز نہیں
شعيب الأرنؤوط نے اس کے برعکس اس روایت کو صحیح کہا ہے اور اس کی تاویل کی ہے
اہل تشیع کے نزدیک روایت کی حیثیت
کتاب الخلاف – الطوسي – ج 5 – ص 97 – 98 کے مطابق
. وروي عن النبي عليه السلام أنه قال : الرضاعة من المجاعة يعني : ما سد الجوع . وقال عليه السلام : الرضاع ما أنبت اللحم وشد العظم . وروى سفيان بن عيينة ، عن هشام بن عروة ، عن أبيه ، عن عبد الله بن الزبير : أن النبي عليه السلام قال : لا تحرم المصة ولا المصتان ولا الرضعة ولا الرضعتان . وروي عن عائشة أنها قالت : كان فيما أنزل الله في القرآن أن عشر رضعات معلومات يحرمن ، ثم نسخن بخمس معلومات ، فتوفي رسول الله صلى الله عليه وآله وهي مما يقرأ من القرآن . ووجه الدلالة أنها أخبرت أن عشر رضعات كان فيما أنزله ، وقولها : ( ثم نسخن بخمس رضعات ) قولها ، ولا خلاف أنه لا يقبل قول الراوي أنه نسخ ‹ صفحة 98 › كذا لكذا إلا أن يبين ما نسخه ، لينظر فيه هل هو نسخ أم لا ؟
اور روایت کیا گیا ہے نبی علیہ السلام سے کہ رضاعت المجاعة میں ہے یعنی بھوک مٹانے پر اور آپ علیہ السلام نے فرمایا رضاعت ہے جس پر گوشت پنپے اور ہڈی مظبوط ہو اور سفيان بن عيينة ، عن هشام بن عروة ، عن أبيه ، عن عبد الله بن الزبير سے روایت ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا حرمت نہیں ہوتی ایک دو بار چوسنے سے اور عائشہ سے روایت ہے انہوں نے کہا اللّٰه نے قرآن میں پہلے یہ نازل کیا تھا کہ دس رضعات سے حرمت ثابت ہوتی ہے۔ (دس بار دودھ پینے سے)۔ پھر اسے پانچ رضعات سے منسوخ کر دیا گیا۔ اور جب رسول اللّٰه کی وفات ہوئی تو یہ الفاظ قرآن میں قراءت کئے جا رہے تھے اور وجہ دلیل یہ ہے کہ دس بار پلانے کی آیت نازل ہوئی تھی اور ان کا قول کہ پھر پانچ سے منسوخ ہوئی اور اس میں اختلاف نہیں کہ راوی کا قول قبول نہیں کیا جائے گا جب وہ کہے یہ اور یہ منسوخ ہے اور واضح نہ کرے کہ کیا نسخ ہے کہ دیکھیں کہ کیا یہ منسوخ تھا بھی یا نہیں
یعنی اہل تشیع اس عائشہ رضی الله عنہا کی روایت کو قبول ہی نہیں کرتے – ان کے ہاں کوئی حد رضاعت پر نہیں ملتی – اہل تشیع کے بعض جہلاء نے اس روایت سے قرآن پر اعتراضات کیے ہیں جبکہ انکی اپنی کتب شاہد ہیں کہ یہ روایت ان کے ہاں قبول نہیں کی جاتی
بڑے آدمی کا حکم
سنن الکبری البیہقی میں ہے
كَانَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا تَأْمُرُ بَنَاتِ أَخِيهَا أَنْ يُرْضِعْنَ مَنْ أَحَبَّتْ عَائِشَةُ أَنْ يَرَاهَا وَيَدْخُلُ عَلَيْهَا خَمْسَ رَضَعَاتٍ فَيَدْخُلُ عَلَيْهَا وَأَبَتْ أُمُّ سَلَمَةَ وَسَائِرُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُدْخِلْنَ عَلَيْهِنَّ مِنَ النَّاسِ بِتِلْكَ الرَّضَاعَةِ حَتَّى يُرْضِعْنَ فِي الْمَهْدِ وَقُلْنَ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا وَاللهِ مَا نَرَى لَعَلَّهَا رُخْصَةٌ لِسَالِمٍ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دُونَ النَّاسِ
عائشہ رضی الله عنہا اپنی بھتیجیوں کو حکم کرتیں کہ وہ (کسی شخص کو) پانچ بار دودھ پلا دیں جس کو وہ چاہتییں کہ ان کے پاس آئیں اور حجرہ میں داخل ہوں ، پس وہ داخل ہوتے اور ام سلمہ اور باقی ازواج رسول اس پر کہتیں کہ یہ رضاعت تو پالنے (پنگوڑے) میں ( پیدائش سے دو سال کی مدت) ہی ہو سکتی ہے اور عائشہ سے کہتیں کہ ہم نہیں سمجھتیں کہ یہ رخصت سالم کے سوا رسول الله نے کسی اور کو دی
یہ الفاظ سنن الکبری از البیہقی، مسند احمد اور سنن ابو داود میں بیان ہوئے ہیں- یہ اضافہ راوی امام الزہری یا عروہ بن زبیر کا جملہ ہے- یہ اضافہ باقی راوی بیان نہیں کرتے
سنن الکبری از البیہقی کی سند الليث بن سعد عن عقيل بن خالد الأيلي عَنِ ابْنِ شِهَابٍ سے ہے
کتاب ميزان الاعتدال في نقد الرجال از الذھبی کے مطابق
وقال أحمد بن حنبل: ذكر عند يحيى القطان إبراهيم بن سعد وعقيل، فجعل كأنه يضعفهما
احمد کہتے ہیں يحيى القطان سے عقیل اور ابراہیم بن سعد کا ذکر ہوا انہوں نے ایسا کیا کہ گویا دونوں ضعیف ہیں
ابو داود میں بھی یہ اضافہ بیان ہوا ہے جہاں اسکی سند میں عنبسة بن خالد الأموي ہے امام احمد کہتے
أي شئ خرج علينا من عنبسة؟ هل روى عنه غير أحمد بن صالح
کوئی سی ایسی چیز ہے جو عنبسة نے بیان کی اور اس سے احمد بن صالح کے سوا اور کون ہے جو روایت کرے؟
يحيى بن بكير عنبسة کو مجنون أحمق کہتے ہیں (ميزان الاعتدال في نقد الرجال از الذھبی ) اور تاریخ الاسلام از الذھبی کے مطابق یحیی بن بکیر کہتے ما كَانَ أهلا للأخذ عَنْهُ اس قابل نہیں کہ اس سے اخذ کیا جائے
یہ اضافہ مسند احمد میں ابن أخي الزهري کی سند سے بھی آیا ہے جس کا نام محمد بن عبد الله بن مسلم ہے جو مختلف فيه ہے ابن معين اس کو ضعیف کہتے ہیں اور المروذي کے مطابق امام احمد ضعیف گردانتے تھے
یعنی عائشہ رضی الله عنہا سے منسوب یہ عمل صرف امام الزہری کی سند سے ہے جو تین راویوں نے بیان کیا ہے اور تینوں اتنے مظبوط نہیں کہ اس کو قبول کیا جائے – البتہ لوگوں نے اس اضافہ کو شروحات میں بیان کیا ہے اس کی تاویلات کی ہیں لیکن یہ اضافہ اوٹ پٹانگ قسم کی بات ہے –
صحيح بخارى و مسلم ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے وہ بيان كرتى ہيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ميرے ہاں تشريف لائے تو ميرے پاس ايك شخص بيٹھا ہوا تھا آپ نے فرمايا عائشہ يہ كون ہے ؟ تو ميں نے عرض كيا: يہ ميرا رضاعى بھائى ہے، آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا
اے عائشہ ديكھو كہ تمہارے بھائى كون ہيں، كيونكہ رضاعت بھوك سے ہوتى ہے
جب عائشہ رضی الله عنہ خود روایت کریں کہ رضاعت بھوک سے ہے تو ایک بڑی عمر کےشخص کے لئے اس کا حکم کیسے کر سکتی ہیں؟
رضاعت کی شرائط بچے کی دو سال کے عمر کے اندر کی ہے اس کے بعد ممکن نہیں ہے یہی فتوی ابن مسعود رضی الله عنہ سے مصنف عبد الرزاق میں بیان ہوا ہے
جواب
کعبه الله کی وجہ سے سال کے چار ماہ حرمت والے ہیں کیونکہ ان کا تعلق حج سے ہے صحیح بخاری کے مطابق یہ چار ماہ ذو القعدةِ، وذو الحجّةِ، والمحرّمِ، ورجبُ ہیں کیونکہ ذو القعدةِ، وذو الحجّةِ، والمحرّمِ میں حج کا سفر اور حج ہوتا ہے اور رجب میں عمرہ کیا جاتا ہے
یہ مہینے عربوں میں معروف تھے اور ہر شخص کے علم میں انکی حرمت تھی لیکن مشرکین خود انکی پاسداری نہیں کرتے تھے وہ مہینوں کو النسی سے بدل دیتے تھے لہذا جو حرمت وقت کی قید میں بندھی ہے وہ انسانی ہاتھوں میں تبدیل ہوتی رہی تھی – رسول اللہ صلی الله عالیہ وسلم کی مدینہ آمد پر ان مہینوں کی حرمت کی پابندی وقتی ہٹا دی گئی
سوره البقرہ میں ہے
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ وَصَدٌّ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِندَ اللَّـهِ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّىٰ يَرُدُّوكُمْ عَن دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا
ترجمہ:آپ سے حرمت والے مہینے میں لڑائی کے متعلق پوچھتے ہیں کہہ دو اس میں لڑنا بڑا (گناہ) ہے اور الله کے راستہ سے روکنا اور اس کا انکار کرنا اور مسجد حرام سے روکنا اور اس کے رہنے والوں کو اس میں سے نکالنا الله کے نزدیک اس سے بڑا گناہ ہے اور فتنہ انگیزی تو قتل سے بھی بڑا جرم ہے اور وہ تم سے ہمیشہ لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں اگر ان کا بس چلے۔
سوره البقرہ سن ٢ ہجری میں نازل ہوئی ہے اس میں گنجائش پر بحث ہے کہ حرمت والے مہینے میں قتال کیوں جائز کیا جا سکتا ہے- اس کا جواب دیا گیا کہ مشرکین مکہ کسی قاعدے کا احترام نہیں کر رہے لہذا اس ایسا کیا جا رہا ہے لیکن ان مہینوں کی حرمت مسلمہ ہے
آیات میں مضمر ہے کہ وقت انے پر اس حکم کو تبدیل کیا جائے گا
لہذا بعد میں سن 9 ہجری کے ذو الحجہ میں ان مہینوں میں قتال پر پابندی لگا دی گئی کیونکہ مکہ فتح ہوا اور مشرکین کا نظم باقی نہ رہا لہذا واپس وہی نظم الہی حدود حرم پر نافذ کر دیا گیا
سوره التوبہ میں ہے
إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَات وَالأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ
بے شک اللہ کے ہاں ١٢ ماہ ہیں جس دن سے الله نے زمیں و آسمان کو خلق کیا ان میں چار حرمت والے ہیں
سوره المائدہ قرآن کی آخر میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے ہے جو دس ہجری میں نازل ہوئی ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّـهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَائِدَ وَلَا آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّن رَّبِّهِمْ وَرِضْوَانًا وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَن صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَن تَعْتَدُوا وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖإِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿ المائدة٢﴾
ترجمہ: اے ایمان والو! الله کی نشانیوں کو حلال نہ سمجھو اور نہ حرمت والے مہینے کو اور نہ حرم میں قربانی ہونے والے جانور کو اور نہ ان جانوروں کو جن کے گلے میں پٹے پڑے ہوئے ہوں اور نہ حرمت والے گھر کی طرف آنے والوں کو جو اپنے رب کا فضل اور اس کی خوشی ڈھونڈتے ہیں اور جب تم احرام کھول دو پھر شکار کرو اور تمہیں اس قوم کی دشمنی جو کہ تمہیں حرمت والی مسجد سے روکتی تھی اس بات کا باعث نہ بنے کہ زیادتی کرنے لگو اور آپس میں نیک کام اور پرہیز گاری پر مدد کرو اورگناہ اور ظلم پر مدد نہ کرو اور الله سے ڈرو بے شک الله سخت عذاب دینے والا ہے۔
سوره التوبہ سن 9 ہجری میں حج کے موقعہ پر نازل ہوئی ہے لہذا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان مہینوں میں لشکر کشی پر لوگوں کو 9 ہجری تک بھیجا – کتاب الأغصان الندية شرح الخلاصة البهية بترتيب أحداث السيرة النبوية از أبو أسماء محمد بن طه کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ٧٣ لشکر کشیاں کیں
سَرَايا الرَّسُولِ -صلى الله عليه وسلم- وهي ثلاث وسبعون سريةً:
1 – سرية حمزة بن عبد المطلب إلي سيف البحر في رمضان من السنة الأولي للهجرة.
2 – سرية عبيدة بن الحارث إلى بطن رابغ في شوال من السنة الأولى للهجرة.
3 – سرية سعد بن أبي وقاص إلى الخرار في ذي القعدة من السنة الأولى للهجرة.
—————— دوسری ہجری ———————————————
4 – سرية سعد بن أبي وقاص إلى حي من كنانة في رجب من السنة الثانية للهجرة.
5 – سرية عبد الله بن جحش إلى نخلة في رجب من السنة الثانية للهجرة.
6 – سرية عمير بن عدي لقتل عصماء بنت مروان في رمضان من السنة الثانية للهجرة.
7 – سرية سالم بن عمير إلى أبي عفك اليهودي في شوال من السنة الثانية للهجرة.
—————— تیسری ہجری ———————————————
8 – سرية محمَّد بن مسلمة لقتل كعب بن الأشراف في ربيع الأول من السنة الثالثة للهجرة.
9 – سرية زيد بن حارثة إلى القردة في جمادى الآخرة من السنة الثالثة للهجرة.
—————— چوتھی ہجری ———————————————
10 – سرية أبي سلمة إلى طليحة الأسدي في المحرم من السنة الرابعة للهجرة.
11 – سرية عبد الله بن أنيس إلى خالد الهذلي في المحرم من السنة الرابعة للهجرة.
12 – سرية الرجيعِ في صفر من السنة الرابعة للهجرة.
13 – سرية بئر معونة في صفر من السنة الرابعة للهجرة.
14 – سرية عمرو بن أمية لقتل أبي سفيان في السنة الرابعة للهجرة.
—————— پانچویں ہجری ———————————————
15 – سرية عبد الله بن عتيك لقتل أبي رافع سلام بن أبي الحقيق اليهودي في ذي الحجة من السنة الخامسة للهجرة.
—————— چھٹی ہجری ———————————————
16 – سرية محمد بن مسلمة إلى القرطاء في المحرم من السنة السادسة للهجرة.
17 – سرية عكاشة إلى الغمر في ربيع الأول من السنة السادسة للهجرة.
18 – سرية محمد بن مسلمة إلى ذي القصة في ربيع الآخر من السنة السادسة للهجرة.
19 – سرية أبي عبيدة إلى ذي القصة في ربيع الآخر من السنة السادسة للهجرة.
20 – سرية زيد بن حارثة إلى بني سليم بالجموم في ربيع الآخر من السنة السادسة للهجرة.
21 – سرية زيد بن حارثة إلى العيص في جمادى الأولى من السنة السادسة للهجرة.
22 – سرية زيد بن حارثة إلى الطرف في جمادى الآخرة من السنة السادسة للهجرة.
23 – سرية زيد بن حارثة إلى حسمى في جمادى الآخرة من السنة السادسة للهجرة.
24 – سرية زيد بن حارثة إلى وادي القرى في رجب من السنة السادسة للهجرة.
25 – سرية عبد الرحمن بن عوف إلى دومة الجندل في شعبان من السنة السادسة للهجرة.
26 – سرية علي بن أبي طالب إلى فدك في شعبان من السنة السادسة للهجرة.
27 – سرية زيد بن حارثة إلى أم قرفة في رمضان من السنة السادسة للهجرة.
28 – سرية عبد الله بن رواحة إلى أسير بن زارم في شوال من السنة السادسة للهجرة.
29 – سرية كرز بن جابر إلى العرنيين في شوال من السنة السادسة للهجرة.
30 – سرية الخبط في السنة السادسة للهجرة.
31 – سرية بني عبس في السنة السادسة للهجرة.
—————— ساتویں ہجری ———————————————
32 – سرية أبان بن سعيد قبل نجد في السنة السابعة للهجرة.
33 – سرية غالب بن عبد الله الليثي إلى بني ثعلبة في صفرٍ من السنة السابعة للهجرة.
34 – سرية أبي بكر إلى بني فزارة بنجدٍ في شعبان من السنة السابعة للهجرة.
35 – سرية عمر بن الخطاب إلى تربة في شعبان من السنة السابعة للهجرة.
36 – سرية بشير بن سعدٍ إلى بني مرة بفدك في شعبان من السنة السابعة للهجرة.
37 – سرية غالب بن عبد الله الليثي إلى الميفعة في رمضان من السنة السابعة للهجرة.
38 – سرية بشير بن سعد إلى يمن وجبار في شوال من السنة السابعة للهجرة.
39 – سرية أبي العوجاء السلمي إلى بني سليم في ذي الحجة من السنة السابعة للهجرة.
—————— آٹھویں ہجری ———————————————
40 – سرية غالب بن عبد الله الليثي إلى بني الملوح بالكديد في صفر من السنة الثامنة للهجرة.
41 – سرية غالب بن عبد الله الليثي إلى فدك في صفر من السنة الثامنة للهجرة.
42 – سرية شجاع بن وهب الأسدي إلى بني عامر في ربيع الأول من السنة الثامنة للهجرة.
43 – سرية كعب بن عمير الغفاري إلى ذات أطلاح في ربيع الأول من السنة الثامنة للهجرة.
44 – سرية زيد بن حارثة إلى مدين في السنة الثامنة للهجرة.
45 – سرية مؤتة في جمادى الأولى من السنة الثامنة للهجرة.
46 – سرية ذات السلاسل في جمادى الآخرة من السنة الثامنة للهجرة.
47 – سرية أبي قتادة إلى خضرة في شعبان من السنة الثامنة للهجرة.
48 – سرية أبي حدردٍ إلى الغابة في شعبان من السنة الثامنة للهجرة.
49 – سرية أبي قتادة إلى إضمٍ في رمضان من السنة الثامنة للهجرة.
50 – سرية أسامة بن زيد إلى الحرقات في السنة الثامنة للهجرة.
51 – سرية خالد بن الوليد لهدم العُزى في رمضان من السنة الثامنة للهجرة.
52 – سرية عمرو بن العاص لهدم سواع في رمضان من السنة الثامنة للهجرة.
53 – سرية سعد بن زيد الأشهلي لهدم مناة في رمضان من السنة الثامنة للهجرة.
54 – سرية خالد بن الوليد إلى بني جذيمة في شوال من السنة الثامنة للهجرة.
55 – سرية قيس بن سعد بن عبادة إلى صُداءٍ في السنة الثامنة للهجرة.
56 – سرية أوطاس في شوال من السنة الثامنة للهجرة.
57 – سرية الطفيل بن عمرو الدوسي لهدم ذي الكفين في شوال من السنة الثامنة للهجرة.
—————— نویں ہجری ———————————————
58- سرية عيينة بن حصن إلى بني تميم في المحرم من السنة التاسعة للهجرة.
59 – سرية قطبة بن عامر إلى خثعم في صفر من السنة التاسعة للهجرة.
60 – سرية الضحاك بن سفيان إلى القرطاء في ربيع الأول من السنة التاسعة للهجرة.
61 – سرية علقمة بن مجزر إلى الأحباش بجدة في ربيع الآخر من السنة التاسعة للهجرة.
62 – سرية علي بن أبي طالب لهدم الفلس في ربيع الآخر من السنة التاسعة للهجرة.
63 – سرية عكاشة بن محصن إلى الجناب في ربيع الآخر من السنة التاسعة للهجرة.
64 – سرية طلحة بن عبيد الله لحرق بيت سويلم اليهودي في رجب من السنة التاسعة للهجرة.
65 – سرية خالد بن الوليد إلى أكيدر ملك دومة في رجب من السنة التاسعة للهجرة.
66 – سرية خالد بن الوليد إلى خثعم في السنة التاسعة للهجرة.
67 – سرية أبي سفيان والمغيرة بن شعبة لهدم اللات في رمضان من السنة التاسعة للهجرة.
68 – سرية خالد بن سعيد بن العاص إلى اليمن في السنة التاسعة للهجرة.
—- نو ہجری کے بعد — ذو القعدةِ، وذو الحجّةِ، والمحرّمِ، ورجبُ – کی حرمت کا حکم نافذ العمل ———-
69 – سرية خالد بن الوليد إلى بني عبد المدان بنجران في ربيع الأول من السنة العاشرة للهجرة.
70 – سريةٌ إلى رعية السحيمي في السنة العاشرة للهجرة.
71 – سيرة علي بن أبي طالب إلى اليمن في رمضان من السنة العاشرة من الهجرة.
72 – سرية جرير بن عبد الله البجلي لهدم ذي الخلصة في رمضان من السنة العاشرة للهجرة.
73 – سرية زيد بن حارثة إلى البلقاء بالشام في صفر من السنة الحادية عشر للهجرة.
جب مشرکین کا نظم حدود حرم پر باقی نہ رہا تو واپس وہی نظم الہی حدود حرم پر نافذ کر دیا گیا جو شروع سے حکم تھا کہ چار مہینوں کی حرمت قائم کی جائے
قیامت کے دن کی طوالت کو بیان کرتے ہوئے قرآن سورۃ الحج میں بیان کر رہا ہے کہ
وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَن يُخْلِفَ اللَّـهُ وَعْدَهُ وَإِنَّ يَوْمًا عِندَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ
﴿47﴾
ترجمہ: اور (یہ لوگ) تم سے عذاب کے لئے جلدی کر رہے ہیں اور خدا اپنا وعدہ ہرگز خلاف نہیں کرے گا۔ اور بےشک تمہارے پروردگار کے نزدیک ایک روز تمہارے حساب کے رو سے ہزار برس کے برابر ہے ۔
سورۃ السجدۃ میں بیان ہے کہ:
يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ ﴿سورۃ السجدۃ:5﴾
وہ آسمان سے لے کر زمین تک ہر کام کی تدبیر کرتا ہے پھراس دن بھی جس کی مقدار تمہاری گنتی سے ہزار برس ہو گی وہ انتظام اس کی طرف رجوع کرے گا۔
ان دونوں آیات کے مقابلے میں اب ایک اور آیت ملاحظہ فرمائیں:
تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ
(سورۃ المعارج: 4)
فرشتے اور اہلِ ایمان کی روحیں اس کے پاس چڑھ کر جاتی ہیں (اور وہ عذاب) اس دن ہو گا جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے.
سورۃ الحج اور سورۃ السجدۃ کی آیات میں تو قیامت کا دن ایک ہزار برس کا قرار دیا جا رہا ہے لیکن سورۃ المعارج کی آیت میں قیامت کی طوالت پچاس ہزار سال کے برابر بیان کی جارہی ہے،گویا قیامت کے دن کو قرآن کو ایک مقام (سورۃ الحج: 47، اور السجدۃ:5) پر ایک ہزار سال کے برابر بیان کر رہا ہے اور دوسرے مقام (سورۃ المعارج: 5) پر پچاس ہزار سال کے برابر قرار دے دیا۔
پلیز اس کی وضاحت کر دیں
الله آپ کو جزایۓ خیر دے امین
جواب
پہلی آیت ہے
وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَن يُخْلِفَ اللَّـهُ وَعْدَهُ وَإِنَّ يَوْمًا عِندَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ
﴿47﴾
ترجمہ: اور (یہ لوگ) تم سے عذاب کے لئے جلدی کر رہے ہیں اور الله اپنا وعدہ ہرگز خلاف نہیں کرے گا۔ اور بےشک تمہارے رب کے نزدیک ایک روز تمہارے حساب کے رو سے ہزار برس کے برابر ہے ۔
یہاں الله کے نزدیک ایک یوم کی مقدار انسانی نسبت پر کی گئی ہے کہ
الله کے نزدیک ایک دن = انسان کے ہزار سال
برابر ہے
سورۃ السجدۃ میں بیان ہے کہ:
يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ ﴿سورۃ السجدۃ:5﴾
وہ آسمان سے لے کر زمین تک ہر کام کی تدبیر کرتا ہے پھر وہ (تدبیری حکم پر نتیجہ) اوپر جاتا ہے اس کی طرف ایک دن میں جس کی مقدار تمہاری گنتی سے ہزار برس ہے ۔
یہاں پر اس کا ترجمہ صحیح کیا گیا ہے کہ جو بھی الله کا حکم ہوتا ہے وہ آسمان سے زمین کی طرف اتا ہے یا واپس اس کا حکم اوپر جاتا ہے جو اگر انسان سفر کرے تو ہزار سال برابر ہے
تیسری آیت ہے
تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ
(سورۃ المعارج: 4)
فرشتے اورالروح اس کے پاس چڑھ جاتے ہیں اس دن جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے.
اوپر ترجمہ غلط ہے الروح سے مراد ایک واحد الروح ہے جو جبریل ہیں نہ کہ اہل ایمان کی روحیں دوم اس میں قیامت کا ذکر نہیں ہے
یعنی جہاں سے حکم زمین پر اتا ہے وہ مقام اس سے پہلے اتا ہے جہاں تک فرشتے جاتے ہیں
ان تینوں آیات میں کہیں بھی قیامت کا ذکر نہیں ہے پہلی آیت میں صرف عذاب کا ذکر ہے جو مرتے ہی شروع ہو جاتا ہے
ابو عبید قاسم اس پر ایک روایت پیش کرتے ہیں کہ ابن عباس رضی الله عنہ سے کسی نے یہ سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ میں کتاب الله پر وہ نہیں بول سکتا جس کا علم نہ ہو
قال أبو عبيد: حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، عن أيوب، عن ابن أبي مليكة، قال: سأل رجل ابن عباس عن: يوم كان مقداره ألف سنة؟.
فقال له ابن عباس: فما يوم كان مقداره خمسين ألف سنة؟.
فقال الرجل: إنما سألتك لتحدثني!.
فقال ابن عباس: هما يومان ذكرهما الله في كتابه، الله أعلم بهما.
فكَرِهَ أن يقول في كتاب الله ما لا يعلم.
اس کی سند میں ایوب السختیانی ہے جو مدلس ہے اور عن سے روایت کر رہے ہیں
تفسیر بغوی میں سوره الحج کی تفسیر میں لکھا ہے
[سورة الحج (22) : الآيات 52 الى 53]
وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلا نَبِيٍّ إِلاَّ إِذا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنْسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آياتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (52) لِيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطانُ فِتْنَةً لِلَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ وَالْقاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَفِي شِقاقٍ بَعِيدٍ (53)
قَوْلُهُ تَعَالَى: وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلا نَبِيٍّ إِلَّا إِذا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ، الْآيَةَ.
«1467» قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ كَعْبٍ الْقُرَظِيُّ وَغَيْرُهُمَا مِنَ الْمُفَسِّرِينَ: لَمَّا رَأَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَلِّي قَوْمِهِ عَنْهُ وَشَقَّ عَلَيْهِ مَا رَأَى مِنْ مُبَاعَدَتِهِمْ عَمَّا جَاءَهُمْ بِهِ مِنَ اللَّهِ تَمَنَّى فِي نَفْسِهِ أَنْ يَأْتِيَهُ مِنَ اللَّهِ مَا يُقَارِبُ بَيْنَهُ
وَبَيْنَ قَوْمِهِ لِحِرْصِهِ عَلَى إِيمَانِهِمْ، فكان يوما في مجلس لقريش فأنزل الله تعالى سورة والنجم فَقَرَأَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَلَغَ قَوْلَهُ: أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى (19) وَمَناةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرى (20) [النجم: 19- 20] أَلْقَى الشَّيْطَانُ عَلَى لِسَانِهِ بِمَا كَانَ يُحَدِّثُ بِهِ نَفْسَهُ وَيَتَمَنَّاهُ: تِلْكَ الْغَرَانِيقُ الْعُلَى وَإِنَّ شَفَاعَتَهُنَّ لِتُرْتَجَى، فَلَمَّا سَمِعَتْ قُرَيْشٌ ذَلِكَ فَرِحُوا بِهِ وَمَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قِرَاءَتِهِ، فَقَرَأَ السُّورَةَ كُلَّهَا وَسَجَدَ فِي آخِرِ السُّورَةِ فَسَجَدَ الْمُسْلِمُونَ بِسُجُودِهِ وَسَجَدَ جَمِيعُ مَنْ فِي الْمَسْجِدِ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَلَمْ يَبْقَ فِي الْمَسْجِدِ مُؤْمِنٌ وَلَا كَافِرٌ إِلَّا سَجَدَ إِلَّا الْوَلِيدُ بْنُ الْمُغِيرَةِ وَأَبُو أُحَيْحَةَ سَعِيدُ بْنُ العاصِ فَإِنَّهُمَا أَخَذَا حَفْنَةً مِنَ الْبَطْحَاءِ وَرَفَعَاهَا إِلَى جَبْهَتَيْهِمَا وَسَجَدَا عَلَيْهَا لِأَنَّهُمَا كَانَا شَيْخَيْنِ كَبِيرَيْنِ فَلَمْ يَسْتَطِيعَا السُّجُودَ، وَتَفَرَّقَتْ قُرَيْشٌ وَقَدْ سَرَّهُمْ مَا سَمِعُوا مِنْ ذِكْرِ آلِهَتِهِمْ وَيَقُولُونَ قَدْ ذَكَرَ مُحَمَّدٌ آلِهَتَنَا بِأَحْسَنِ الذِّكْرِ، وَقَالُوا قَدْ عَرَفْنَا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَيَخْلُقُ وَيَرْزُقُ وَلَكِنَّ آلِهَتَنَا هذه تشفع لنا عنده، فإن جعل لها محمد نَصِيبًا فَنَحْنُ مَعَهُ، فَلَمَّا أَمْسَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَاهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ مَاذَا صَنَعْتَ لَقَدْ تَلَوْتَ عَلَى النَّاسِ مَا لَمْ آتِكَ بِهِ عَنِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَحَزِنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُزْنًا شَدِيدًا وَخَافَ من الله خوفا كبيرا [1] فَأَنْزَلَ اللَّهُ هَذِهِ الْآيَةَ يُعَزِّيهِ وَكَانَ بِهِ رَحِيمًا، وَسَمِعَ بِذَلِكَ مَنْ كَانَ بِأَرْضِ الْحَبَشَةِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَلَغَهُمْ سُجُودُ قُرَيْشٍ. وَقِيلَ: [قد] [2] أَسْلَمَتْ قُرَيْشٌ وَأَهْلُ مَكَّةَ فَرَجَعَ أَكْثَرُهُمْ إِلَى عَشَائِرِهِمْ، وَقَالُوا: هُمْ أَحَبُّ إِلَيْنَا حَتَّى إِذَا دَنَوْا مِنْ مَكَّةَ بَلَغَهُمْ أَنَّ الَّذِي كَانُوا تُحَدَّثُوا بِهِ [3] مِنْ إِسْلَامِ أَهْلِ مَكَّةَ كَانَ بَاطِلًا فَلَمْ يَدْخُلْ أَحَدٌ إِلَّا بِجِوَارٍ أَوْ مُسْتَخْفِيًا فَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ قَالَتْ قُرَيْشٌ: نَدِمَ مُحَمَّدٌ عَلَى مَا ذَكَرَ مِنْ مَنْزِلَةِ آلِهَتِنَا عِنْدَ اللَّهِ فَغَيَّرَ ذَلِكَ وَكَانَ الْحَرْفَانِ اللَّذَانِ أَلْقَى الشَّيْطَانُ عَلَى لِسَانُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ وَقَعَا فِي فَمِ كُلِّ مُشْرِكٍ فَازْدَادُوا شَرًّا إِلَى مَا كَانُوا عَلَيْهِ، وَشِدَّةً عَلَى مَنْ أَسْلَمَ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَهُوَ الَّذِي يَأْتِيهِ جِبْرِيلُ بِالْوَحْيِ عَيَانًا، وَلَا نَبِيٍّ، وَهُوَ الَّذِي تَكُونُ نُبُوَّتُهُ إِلْهَامًا أو مناما، فكل رَسُولٍ نَبِيٌّ، وَلَيْسَ كُلُّ نَبِيٍّ رَسُولًا. إِلَّا إِذَا تَمَنَّى، قَالَ بَعْضُهُمْ: أَيْ: أَحَبَّ شَيْئًا وَاشْتَهَاهُ وحدّث به نفسه مما لَمْ يُؤْمَرْ بِهِ أَلْقَى الشَّيْطَانُ في أمنيته يعني مُرَادِهِ. وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: إِذَا حَدَّثَ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي حديثه ما وجد إِلَيْهِ سَبِيلًا، وَمَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا تَمَنَّى أَنْ يُؤْمِنَ بِهِ قومه ولم يتمنى ذَلِكَ نَبِيٌّ إِلَّا أَلْقَى الشَّيْطَانُ عَلَيْهِ مَا يَرْضَى بِهِ قَوْمُهُ فَيَنْسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ.
عبداللہ بن عباس اور محمد بن کعب القرظی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم قریش کی اسلام سے بے رغبتی پر انتہائی افسردہ وغمگین تھے، اور قریش کے جانب سے دعوت اسلام کو پزیرائی حاصل نہ ہونے پر سخت مایوس تھے، ان کے دل میں شدت میں سے یہ چاہت تھی کہ اللہ کی جانب سے کوئی ایسا کلام نازل ہو جو موحدین اور مشرکین کے درمیان دوری کو قربت میں تبدیل کردے۔ ایک مرتبہ پیغمبر اسلام بیت اللہ میں قریش کی ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ پر اللہ کی جانب سے وحی کا نزول شروع ہو اور آپ نے سورة النجم کی قراءت شروع کی اور جب ان آیات تک پہنچے افراٴیتم اللات و العزیٰ و مناة الثالثة الاخریٰ تو شیطان نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی زبان سے یہ الفاظ جاری کرا دئیےتلک الغرانیق العلیٰ و ان شفاعتھن لترتجی ﴿یعنی یہ لات اور منات بہت بلند پایہ کے بت ہیں اور یقیناً ان کی شفاعت بھی اللہ کے ہاں قبول کی جائے گی﴾ مشرکین آپ کی زبان سے اپنے معبودین کے لئے یہ الفاظ سن کر انتہائی مسرور ہوئے پیغمبر اسلام نے اپنی تلاوت مکمل کرنے کے بعد سجدہ تلاوت کیا تو اس مجلس میں موجود تمام مشرکین بھی سجدہ ریز ہو گئے اور بیت اللہ میں موجود کوئی بھی مومن اور مشرک ایسا نہ بچا جو سجدہ ریز نہ ہوا ہو۔ اس مجلس میں موجود ولید بن مغیرہ اور ابواحیحہ سعید بن العاص جو دونوں انتہائی ضعیف تھے اور سجدہ کرنے پر قادر نہ تھے اس لئے دونوں نے زمین سےمشت بھر مٹی اٹھا کر پیشانی سےتک لے گئے اور اس پر سجدہ کیا۔ اس کے بعد مجلس برخاست ہوئی اور قریش کے لوگ بے حد خوش ہوئے کہ آج محمد نے پہلی دفعہ قریش کے معبودین کا ذکر اچھے الفاظ میں کیا اور انہوں نے کہا کہ آج ہمیں معلوم ہوگیا کہ اللہ ہی زندگی اور موت دیتا ہے وہی رزق دیتا ہے اور تخلیق کرتا ہے اور ہمارے یہ معبود یعنی لات و منات اللہ کے ہاں ہماری سفارش کریں گے، پس اگر محمد ہمارے معبودوں کو ایسے بہتر الفاظ کے ساتھ یاد کرے گا تو ہم بھی اس کے ساتھ ہیں۔ پھر شام کو جبرائیل پیغمبر محمد کے پاس آئے اور کہا کہ اے محمد آج تم نے کیا کیا؟ آج تم نے قریش کے سامنے وہ کلام تلاوت کیا جوتم پر اللہ کی طرف سے نازل نہیں ہوا تھا، یہ سن کر تو آپ صلی الله علیہ وسلم بے حد غمگین ہوگئے اور ان پر خشیت الہٰی کی کیفیت طاری ہو گئی۔ تو اللہ کو رحم آیا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی تسلی کیلئے یہ آیت نازل کی۔
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّـهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّـهُ آيَاتِهِ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
ترجمہ: اور ہم نے آپ سے قبل بھی جتنے رسول اور پیغمبر بھیجے ان میں سے ہر ایک ﴿کے ساتھ یہ واقعہ ضرور پیش آیا کہ﴾ جب انہوں نے ﴿اللہ کے کلام کو﴾ پڑھا تو شیطان نے ان کے پڑھنے میں اپنی جانب سے الفاظ شامل کر دیئے، پھر اللہ شیطان کےشامل کئے ہوئے الفاظ کوتو ختم کر دیتا ہے اور آپنی آیات کوبرقرار رکھتا ہے اور اللہ تو بہت ہی خبر رکھنے والا اور سیانا ہے۔
جب یہ آیت نازل ہوئی تو مشرکین مکہ نے کہا محمد ہمارے معبودوں کا اچھے الفاط میں تذکرہ کرنے پر شرمندہ ہے اس لئے اس نے اپنا کلام بدل لیا۔﴿بحوالہ تفسیر بغوی در تفسیر سورة الحج آیت نمبر ۵۲﴾
لنک
http://library.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?flag=1&bk_no=51&surano=22&ayano=52
جواب
جواب یہ واقعہ اپنے اضطراب کے ساتھ کئی اور تفاسیر میں بھی بیان ہوا ہے مثلا
تفسير مقاتل بن سليمان المتوفی ١٥٠ ھ
تفسير يحيى بن سلام المتوفی ٢٠٠ ھ
تفسیر الطبری ٣١٠ ھ
تفسیر ابن أبي زَمَنِين المتوفی ٣٩٩ ھ
تفسیر الثعلبي، أبو إسحاق المتوفى ٤٢٧ھ
تفسیر بغوی
ان آیات کے الفاظ عربوں میں مشهور تھے اور یہ دیویوں کا بھجن تھے
فَإِنَّ شَفَاعَتَهَا هِيَ الْمُرْتَجَى وَإِنَّهَا لِمَنَ الْغَرَانِيقِ الْعُلَى
یہ تو بلند پرند نما حسین (دیویاں) ہیں اور بے شک ان کی شفاعت قبول کی جاتی ہے
لہذا یہ کوئی ایسی آیات نہ تھی جو مشرکین نہ سنتے ہوں
ابن كثير الدمشقي نے اور الألوسي اس واقعہ کا انکار کیا اور ابن حجر المصري نے اس کا استقرار اور ابن حجر عسقلانی نے کہا ہے کہ اس کا کوئی اصل تھا جس پر البانی نے ابن حجر عسقلانی پر جرح کی ہے
ابن تیمیہ نے اس کی تاویل کی ہے اپنے فتاوی ج ١٠ ص ٢٩١ میں کہتے ہیں
قَالَ هَذَا أَلْقَاهُ الشَّيْطَانُ فِي مَسَامِعِهِمْ وَلَمْ يَلْفِظْ بِهِ الرَّسُولُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
یہ شیطان کا القا تھا مشرکین کے کانوں پر اور یہ رسول الله کے الفاظ نہ تھے
الذھبی نے سير أعلام النبلاء ج 1 ص 149 پر اس کا ذکر کیا ہے اور کوئی جرح نہیں کی ہے
الزمخشري معتزلی نے الکشاف میں اس کو بیان کیا ہے کوئی جرح نہیں کی
دكتور عمر عبد السلام التدمري تاريخ ألإسلام از الذھبی پر اپنی تعلیق میں لکھتے ہیں
وقال الحافظ البيهقي في دلائل النبوّة 2/ 62: هذه القصة غير ثابتة من جهة النقل. وبيّن جرح رواتها وطعن حملة العلم فيهم. وفي «البحر» أنّ هذه القصة سئل عنها محمد بن إسحاق صاحب «السيرة» فقال: هذا من وضع الزنادقة. وقال أبو منصور الماتريديّ: الصّواب أنّ قوله «تلك الغرانيق إلخ» من جملة إيحاء الشيطان إلى أوليائه من الزّنادقة، والرسالة بريئة من هذه الرواية.
وقال القاضي عياض في الشفاء 2/ 28: يكفيك أنّ هذا الحديث لم يخرجه أحد من أهل الصّحة، ولا رواه ثقة بسند سليم متصل، مع ضعف نقلته، واضطراب رواياته، وانقطاع إسناده، واختلاف كلماته.
وقد فصّل القاضي عياض عدم صحّة هذه الرواية من عدّة وجوه يحسن مراجعتها. في كتابه الشفاء 2/ 116- 123، وانظر تفسير القرطبي 12/ 82، والنويري في نهاية الأرب 16/ 235- 241.
بیہقی نے دلائل النبوه میں کہا ہے یہ قصہ غیر ثابت ہے نقلی لحاظ سے اور البحر از أبو حيان میں ہے کہ ابن اسحاق سے اس قصہ پر سوال ہوا تو کہا یہ زنادقه کا گھڑا ہوا ہے اور ابو منصور ماتریدی کہتے ہیں ٹھیک یہ قول ہے کہ تلک الغرانیق کا قول شیطان کی اپنے اولیاء پر وحی ہے اور قاضی عیاض کہتے ہیں یہی کافی ہے کہ اہل صحت میں سے کسی نے اس کی تخریج نہیں کی نہ اس کے راوی متصل سند ہیں ثقاہت کے ساتھ پھر انکا نقل میں کمزور ہونا ہے اور روایات کا اضطراب ہے اور اسناد میں انقطاع ہے اور کلمات کا اختلاف ہے انتھی
اس پورے قصے کو محمد بن قيس بن مخرمة اور محمد بن کعب سے محمد بن السائب بن بشر الکلبی المتوفی ١٤٦ ھ منسوب کرتا ہے اسی طرح أبي العالية البصرى المتوفی ٩٣ ھ، السدی کوفی مَولَى قَيس بْن مَخرَمَة المتوفی ١٢٧ ھ ، قتادہ بصری المتوفی ١١٨ ھ نے بھی اس پر تبصرے کیے ہیں اس کے علاوہ اس کو عثمان بن الأسود مکی المتوفی ١٥٠ھ ، عن سعيد بن جبير المتوفی ٩٥ ھ ، عن ابن عباس کی سند سے بھی بیان کیا گیا ہے مثلا اسباب النزول الواحدی میں اور ابن مردويه میں
اسی طرح أبي بشر جعفر بن إياس بصری المتوفی ١٢٦ ھ کی سند سے یہ سعید بن جبیر کا مرسل قول ہے
لہذا سب سے پہلے اس واقعہ کا ذکر بصریوں مثلا رفيع بْن مهران بصري المعروف بأبي العالية الرياحي المتوفی ٩٠ یا ٩٣ ھ نے مرسل روایت کیا ہے اور قتادہ البصری المتوفی ١١٨ھ نے روایت کیا ہے – قتادہ خود بھی أَبُو الْعَالِيَةِ البصری کے شاگرد ہیں دونوں مدلس ہیں -ایک طرف تو بصرہ میں اس کو قتادہ بیان کرتے ہیں دوسری طرف مکہ میں سعید بن جبیر المتوفی ٩٥ ھ بھی ابن عباس سے اس کو روایت کرتے ہیں- یعنی لگ بھگ سن ٨٠ ھ کے بعد اس قصہ کا دور شروع ہوا اور اس کا گڑھ بصرہ تھا وہاں سے یہ مکہ پہنچا اور اس کو ابن عباس رضی الله سے منسوب کیا گیا ہے
کتاب المعرفۃ والتاریخ: 2/148 از الفسوی کے مطابق شعبہ نے کہا
لم يسمع قتادة من أبي العالية إلا ثلاثة أشياء. قلت ليحيى عدها، قال قول على رضي الله عنه القضاه ثلاثة، وحديث: لا صلاه بعد العصر، وحديث يونس بن متى.
قتادہ نے ابی العالیہ سے صرف تین چیزیں سنیں میں نے یحیی سے کہا ان کو گن دیجیے کہا علی رضی الله عنہ کا قول فیصلوں کے بارے میں اور حدیث کہ عصر کے بعد نماز نہیں اور حدیث یونس بن متی
یعنی بصرہ میں اس روایت کا منبع قتادہ ہوئے جو اس کا ذکر کرتے ہیں یہ سخت مدلس تھے اور روایت جس سے سن لیں اس کا نام بعض اوقات نہیں لیتے
امام یحیی بن معین نے فرمایا: “لم يلق سَعِيد بن جبير، ولا مجاهدا ولا سُلَيْمان بن يسار” قتادہ نے سعید بن جبیر، مجاہد، اور سلیمان بن یسار میں سے کسی کو نہیں پایا۔ سوالات ابن الجنید: ص 26
یعنی سعید بن جبیر المتوفی ٩٥ ھ کو یہ روایت قتادہ سے نہیں ملی
اس کی دو سندیں ہیں
أَبِي بِشْرٍ بصری ( جعفر بن إياس، وهو ابن أبي وَحْشِيَّة المتوفی ١٢٤ ھ )، عَن سَعِيد بْنِ جُبَير، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ
المعجم الكبير از طبرانی اور مسند البزار
اور
عُثْمَانُ بْنُ الأَسْوَدِ المکی المتوفی ١٤٧ ھ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ
یعنی ایک بصری اور ایک مکی نے اس روایت کو سعید بن جبیر سے منسوب کیا ہے اس میں جعفر بن ایاس کو محدثین ثقہ کہتے ہیں اور عُثْمَانُ بْنُ الأَسْوَدِ کو بھی ثقہ کہتے ہیں
یعنی محدثین کے مطابق اس روایت کا بار سعید بن جبیر نے اٹھا لیا کیونکہ اس کی سند میں ثقات ہیں ابن عباس رضی الله عنہ کے شاگردوں میں اس کو صرف سعید بن جبیر ہی روایت کرتے ہیں
حجاج بن یوسف نے سعید بن جبیر کو قتل کیوں کیا؟ اس سوال کا جواب شاید یہ روایت ہے
روایت پسندی صحیح نہیں ہے سنن دارمی کی روایت ہے
أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ أَنَّهُ حَدَّثَ يَوْمًا بِحَدِيثٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَجُلٌ: فِي كِتَابِ اللَّهِ مَا يُخَالِفُ هَذَا، قَالَ: «لَا أُرَانِي أُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتُعَرِّضُ فِيهِ بِكِتَابِ اللَّهِ، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمَ بِكِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى مِنْكَ»
سعید بن جبیر نے ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بیان کی تو ایک شخص نے کہہ دیا : قرآن میں اس کےخلاف بات موجود ہے۔ اس پر انہوں نے فرمایا : میں تجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کر رہا ہوں اور تو اس کے خلاف اللہ کی کتاب پیش کر رہا ہے ! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی کتاب کے مندرجات کو تجھ سے بڑھ کر جانتے تھے۔
آج علماء یہی کہہ رہے ہیں کہ غرانیق والی روایت باوجود یہ کہ سعید بن جبیر سے ثقات نے روایت کی ہے یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ قرآن میں اس کے خلاف موجود ہے کہ رسول الله سے غلطی نہیں ہو سکتی لہٰذا راقم کہتا ہے اس قسم کی روایات کا بار راویوں پر ہے
البانی نے نصب المجانيق لنسف قصة الغرانيق میں اس کی اسناد کو جمع کیا اور کہا ہے کہ تمام ضعیف ہیں بلکہ موضوع ہیں – علماء جو اس روایت کے خلاف ہیں وہ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ قتادہ یا سعید بن جبیر نے اس قسم کی فضول روایت کیوں بیان کی
سوره حج کی آیات مدنی ہیں اور سوره النجم مکی سوره ہے ظاہر ہے اتنے طویل عرصے کے بعد اس پر تبصرہ کوئی معنی نہیں رکھتا
سوره الحج کی آیات ہے
وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آيَاتِنَا مُعَاجِزِينَ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّـهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّـهُ آيَاتِهِ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ لِّيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ فِتْنَةً لِّلَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ ۗ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ
جو ہماری نشانیوں کو ناکام کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ جہنم کے لوگ ہیں اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی نبی و رسول نہ بھیجا سوائے اس کے کہ جب وہ تمنا (خواہش) کرے تو شیطان اس کی تمنا میں اپنا القا ڈالے پھر ہم مستحکم کرتے ہیں اپنی نشانیوں کو اور الله بہت جاننے والا حکمت والا ہے تاکہ شیطان نے جو القا کیا ہے اس کو ان لوگوں کے لئے فتنہ بنا دے جن کے دلوں میں مرض ہے اور ان کے دلوں کی کاٹ بنا دے اور بے شک ظالم لوگوں کے لئے علیحدگی کی دوری ہے
یعنی ہر نبی و رسول کی خواہش میں شیطان نے اپنی خواہش ملانے کی کوشش کی اور الله نے اپنی نشانیوں کو اثبات عطا کیا آیات کا سیاق و سباق ہے کہ مدینہ میں مسلمانوں کو مشرکین مکہ سے قتال کی اجازت دی گئی ہے مشرکین عذاب کے لئے جلدی کر رہے ہیں اور الله اپنی نشانیوں کو مستحکم کر رہا ہے کہ اس نے رسول الله کو پہلے ہی خبر دی تھی کہ الله انکی مدد کرے گا لیکن رسول کی خواہش تھی کہ سارے مشرکین مسلمان ہو جائیں شیطان نے اس تمنا کو بڑھاوا دیا اورالله نے اس تمنا میں شیطانی القا کو ختم کر دیا اور ظالم لوگ یعنی منافقین کے دلوں کا روگ بنا دیآ
انبیاء میں خواہش و تمنا ہوتی ہے کہ کوئی شخص ایمان لے آئے لیکن وہ بد نصیب نہیں لاتا مثلا نوح علیہ السلام کا بیٹا یا ابو جھل وغیرہ جن پر انبیاء کو خواہش تھی کہ ایمان لائیں لیکن نہیں لائے یہی القا شیطانی ہے کہ الله کہتا ہے وہ باطل کی کمر توڑ دے گا لیکن نبی کو خواہش ہوتی کہ سب ایمان لائیں
جواب
طبری کی ایک روایت کے مطابق یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے کاتب تھے پس جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم انکو املا کراتے تو کہتے سمیعآ علیما لیکن یہ لکھ دیتے علیما حکیما اور جب رسول الله کہتے علیما حکیما یہ لکھ دیتے سمیعا علیما- (لیکن رسول اللہ بعد میں اس پر کوئی اعتراض نہ کرتے) پس عبد الله کو اس پر شک ہوا اور وہ کافر ہو گیا
اس روایت کی سند میں اسباط بن نصر اور السدی ہے- دونوں سخت ضعیف ہیں
ان کا ایک قصہ مفسرین نے سوره المومنون کے لئے لکھا ہے جو مکی سوره ہے کہ
رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر جب و لقد خلقنا الانسان من سلالہ من طین نازل ہوئی اور اس آیت تک پہنچے ثم انشاناہ خلقا آخر عبد الله کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا فتبارک الله احسن الخالقین – اس پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہا اس کو لکھ دو – عبد الله نے اس وقت تو لکھ دیا لیکن شک میں آ گیا کہ محمد (صلی الله علیہ وسلم) تو جو میں لقمہ دیتا ہوں اسکو ہی وحی بنا دیتے ہیں
آپ دیکھ سکتے ہیں کس قدر بکواس اور لچر بات کی گئی ہے نہ صرف رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے لئے بلکہ ایک صحابی کے لئے بھی- افسوس مفسرین نے اس بات کو تفسیر میں لکھا ہے مثلا بیضآوی وغیرہ نے ، امام حاکم صاحب مستدرک نے، طبری نے-
سنن ابو داود میں انکے قصہ میں ہے کہ فتح مکہ کے روز جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم لوگوں سے بیعت لے رہے تھے تو عثمان رضی الله عنہ اپنے اس رضاعی بھائی عبد اللہ کو لائے اور رسول الله سے درخواست کی کہ اس سے بھی بیعت لے لیں آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنا چہرہ دوسری طرف کر لیا- عثمان کے تین بار اصرار پر آپ نے بیعت لے لی- اور پھر رسول الله صلی الله علیہ وسلم اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا تم میں کوئی عقل مند نہ تھا جو اس کو برداشت نہ کر پاتا اور اس عبد الله کا قتل کرتا؟ اصحاب نے کہا یا رسول الله ہم کو آپ کے دل کا حال معلوم نہیں آپ آنکھ سے اشارہ کر دیتے – رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہا کہ رسول الله کے لئے مناسب نہیں کہ دھوکہ والے آنکھ ہو
اس کی سند میں اسباط بن نصر اور السدی ہے دونوں ضعیف ہیں
النسائي: كِتَابُ المُحَارَبَة (بَابٌ الْحُكْمُ فِي الْمُرْتَدِّ) سنن نسائی: کتاب: کافروں سے لڑائی اور جنگ کا بیان
(باب: مرتد کا حکم)
4072 .
أَخْبَرَنَا الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ دِينَارٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُفَضَّلٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ قَالَ: زَعَمَ السُّدِّيُّ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ فَتْحِ مَكَّةَ أَمَّنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ، إِلَّا أَرْبَعَةَ نَفَرٍ وَامْرَأَتَيْنِ وَقَالَ: «اقْتُلُوهُمْ، وَإِنْ وَجَدْتُمُوهُمْ مُتَعَلِّقِينَ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ، عِكْرِمَةُ بْنُ أَبِي جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ خَطَلٍ وَمَقِيسُ بْنُ صُبَابَةَ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي السَّرْحِ»، فَأَمَّا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ خَطَلٍ فَأُدْرِكَ وَهُوَ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ فَاسْتَبَقَ إِلَيْهِ سَعِيدُ بْنُ حُرَيْثٍ وَعَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ فَسَبَقَ سَعِيدٌ عَمَّارًا، وَكَانَ أَشَبَّ الرَّجُلَيْنِ فَقَتَلَهُ، وَأَمَّا مَقِيسُ بْنُ صُبَابَةَ فَأَدْرَكَهُ النَّاسُ فِي السُّوقِ فَقَتَلُوهُ، وَأَمَّا عِكْرِمَةُ فَرَكِبَ الْبَحْرَ، فَأَصَابَتْهُمْ عَاصِفٌ، فَقَالَ أَصْحَابُ السَّفِينَةِ: أَخْلِصُوا، فَإِنَّ آلِهَتَكُمْ لَا تُغْنِي عَنْكُمْ شَيْئًا هَاهُنَا. فَقَالَ عِكْرِمَةُ: وَاللَّهِ لَئِنْ لَمْ يُنَجِّنِي مِنَ الْبَحْرِ إِلَّا الْإِخْلَاصُ، لَا يُنَجِّينِي فِي الْبَرِّ غَيْرُهُ، اللَّهُمَّ إِنَّ لَكَ عَلَيَّ عَهْدًا، إِنْ أَنْتَ عَافَيْتَنِي مِمَّا أَنَا فِيهِ أَنْ آتِيَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَضَعَ يَدِي فِي يَدِهِ، فَلَأَجِدَنَّهُ عَفُوًّا كَرِيمًا، فَجَاءَ فَأَسْلَمَ، وَأَمَّا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي السَّرْحِ، فَإِنَّهُ اخْتَبَأَ عِنْدَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، فَلَمَّا دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ إِلَى الْبَيْعَةِ، جَاءَ بِهِ حَتَّى أَوْقَفَهُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بَايِعْ عَبْدَ اللَّهِ، قَالَ: فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَنَظَرَ إِلَيْهِ، ثَلَاثًا كُلَّ ذَلِكَ يَأْبَى، فَبَايَعَهُ بَعْدَ ثَلَاثٍ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ: «أَمَا كَانَ فِيكُمْ رَجُلٌ رَشِيدٌ يَقُومُ إِلَى هَذَا حَيْثُ رَآنِي كَفَفْتُ يَدِي عَنْ بَيْعَتِهِ فَيَقْتُلُهُ» فَقَالُوا: وَمَا يُدْرِينَا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا فِي نَفْسِكَ، هَلَّا أَوْمَأْتَ إِلَيْنَا بِعَيْنِكَ؟ قَالَ: «إِنَّهُ لَا يَنْبَغِي لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ خَائِنَةُ أَعْيُنٍ»
حکم : صحیح 4072
حضرت مصعب بن سعد اپنے والد محترم (حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ ) سے بیان فرماتے ہیں: جس دن مکہ مکرمہ فتح ہوا، رسول اللہﷺ نے چار مردوں اور دو عورتوں کے سوا تمام لوگوں کو امان دے دی۔ آپ نے فرمایا: ’’اگر تم ان کو کعبہ شریف کے پردوں سے لٹکا وہا پائو، تب بھی قتل کر دو۔‘‘ (وہ چار مرد یہ تھے:) عکرمہ بن ابی جہل، عبداللہ بن خطل، مقیس بن صبابہ اور عبداللہ بن سعد بن ابی سرح۔ عبداللہ بن خطل کعبے کے پردوں سے لٹکا ہوا پایا گیا۔ حضرت سعید بن حریث اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالٰی عنہ اس کی طرف لپکے۔ سعید عمار سے پہلے پہنچ گئے کیونکہ وہ عمار کی نسبت جوان تھے۔ انہوں نے اسے قتل کر دیا۔ مقیس بن صبابہ کو لوگوں نے بازار میں پکڑ لیا اور قتل کر دیا۔ عکرمہ بھاگ کر سمندر میں کشتی پر سوار ہو گیا۔ بہت تیز ہوا چل پڑی۔ (کشتی طوفان میں پھنس گئی۔) کشتی والے کہنے لگے: اب خالص اللہ تعالیٰ کو پکارو کیونکہ تمہارے معبود (بت وغیرہ) یہاں (طوفان میں) تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتے۔ عکرمہ نے کہا: اگر سمندر میں خالص اللہ تعالیٰ کو پکارنے کے علاوہ نجات نہیں تو خشکی میں بھی خالص اللہ تعالیٰ کو پکارے بغیر نجات نہیں مل سکتی۔ اے اللہ! میں تجھ سے عہد کرتا ہوں کہ اگر تو مجھے اس مصیبت سے، جس میں میں پھنس چکا ہوں، بچا لے تو میں ضرور حضرت محمدﷺ کے پاس جا کر اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے دوں گا اور مجھے یقین ہے کہ میں انہیں بہت زیادہ معاف کرنے والا اور احسان کرنے والا پائوں گا۔ پھر وہ آئے اور مسلمان ہو گئے۔ باقی رہا عبداللہ بن ابی سرح! تو وہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس چھپ گیا۔ جب رسول اللہﷺ نے لوگوں کو بیعت کے لیے بلایا تو حضرت عثمان اسے لے کر آئے حتیٰ کہ اسے بالکل آپ کے پاس کھڑا کر دیا اور عرض کی: اے اللہ کے رسول! عبداللہ سے بیعت لے لیں۔ آپ سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگے۔ تین بار حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہی گزارش کی۔ آپ ہر دفعہ (عملاً) انکار فرما رہے تھے۔ آخر تیسری بار کے بعد آپ نے بیعت لے لی، پھر آپ اپنے صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’کیا تم میں کوئی سمجھ دار شخص نہیں تھا کہ جب تم دیکھ رہے تھے کہ میں نے اس کی بیعت لینے سے ہاتھ روک رکھا ہے تو کوئی شخص اٹھتا اور اسے قتل کر دیتا۔‘‘ انہوں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! ہمیں معلوم نہ تھا کہ آپ کے دل میں کیا ہے؟ آپ آنکھ سے ہلکا سا اشارہ فرما دیتے۔ آپ نے فرمایا: ’’نبی کے لائق نہیں کہ اس کی آنکھ خائن ہو۔‘‘
اوپر دی گئی تمام روایات چار راویوں کا بیان کردہ قصہ ہیں جن میں ہیں
پہلی سند : إسماعيل بن عبد الرحمن بن أبى كريمة السدى المتوفی ١٢٧ ھ سے اسباط بن نصر کی روایت
اسباط بن نصر – ابن معين اور أبو نعيم اسکو ضعیف کہتے ہیں – النسائي ليس بالقوي قوی نہیں کہتے ہیں – کتاب الجرح و التعدیل کے مطابق
حرب بن إسماعيل: قلت لأحمد: أسباط بن نصر الكوفي، الذي يروي عن السدي، كيف حديثه؟ قال: ما أدري، وكأنه ضعفه.
حرب بن إسماعيل نے احمد سے پوچھا کہ اسباط بن نصر جو السدی سے روایت کرتا ہے اس کی حدیث کیسی ہے ؟ احمد نے کہا کیا پتا گویا کہ اس کو ضعیف گردانآ
اسباط کا استاد إسماعيل بن عبد الرحمن بن أبى كريمة السدى المتوفی ١٢٧ ھ ہے
الشَّعْبِيَّ اس کے لئے کہتے
إِنَّ إِسْمَاعِيْلَ قَدْ أُعْطِيَ حَظّاً مِنَ الجَهْلِ بِالقُرْآنِ
نے شک السدی کو قرآن پر جھل بکنے کا ایک حصہ عطا کیا گیا ہے
أبو حاتم کہتے ہیں لا يحتج بقوله اس کے قول سے دلیل نہ لی جائے
دوسری سند : حازم بن عطاء، أبو خلف الأعمى کی روایت
حازم بن عطاء، أبو خلف الأعمى – ابی حاتم کہتے ہیں منكر الحديث، ليس بالقوي منکر حدیث ہے قوی نہیں ہے – الذھبی کہتے ہیں ضعفوه اس کی تضعیف کی گئی ہے- يحيى بن معين اس کو کذاب کہتے ہیں – ابن حجر متروک کہتے ہیں
تیسری سند: شرحبیل بن سعد المدنی المتوفی ١٢٣ ھ کی روایت
شرحبیل بن سعد المدنی المتوفی ١٢٣ ھ – ابن سعد طبقات میں کہتے ہیں وليس يحتج به اس قابل نہیں کہ دلیل لی جائے – أبو حاتم ضعيف الحديث کہتے ہیں – الدارقطني بھی ضعيف کہتے ہیں – یحیی ابن معین بھی ضعیف کہتے ہیں – امام مالک ليس بثقة کہتے ہیں – يحيى القطان کہتے ہیں ہم اس سے کچھ روایت نہیں کرتے – ابن الجارود: ليس بشيء، ضعيف، کوئی چیز نہیں ضعیف ہے اور أبو العرب وابن السكن والبلخي والعقيلي نے الضعفاء میں شمار کیا ہے – الساجي ضعيف کہتے ہیں
ابن حبان نے ثقات میں شمار کیا ہے- امام حاکم نے اس احمق کی روایت مستدرک میں لکھ کر “دینی خدمت” کی
سوره المومنون مکی سوره ہے اور مورخین کے بقول ابن ابی السرح کا ارتاد مدینہ میں ہوا جس سے ظاہر ہے یہ سب بکواس ہے
چوتھی سند
سنن النسائي 4074 : كِتَابُ المُحَارَبَة (بَابُ تَوْبَةِ الْمُرْتَدِّ) سنن نسائی: کتاب: کافروں سے لڑائی اور جنگ کا بیان باب: مرتد کی توبہ قبول ہو سکتی ہے
. أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: أَنْبَأَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: فِي سُورَةِ النَّحْلِ: {مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ} [النحل: 106] إِلَى قَوْلِهِ {لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ} [النحل: 106] فَنُسِخَ، وَاسْتَثْنَى مِنْ ذَلِكَ فَقَالَ: {ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ هَاجَرُوا مِنْ بَعْدِ مَا فُتِنُوا ثُمَّ جَاهَدُوا وَصَبَرُوا إِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَحِيمٌ} [النحل: 110] «وَهُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ الَّذِي كَانَ عَلَى مِصْرَ كَانَ يَكْتُبُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَزَلَّهُ الشَّيْطَانُ، فَلَحِقَ بِالْكُفَّارِ، فَأَمَرَ بِهِ أَنْ يُقْتَلَ يَوْمَ الْفَتْحِ، فَاسْتَجَارَ لَهُ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، فَأَجَارَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے سورہ نحل کی آیت: {مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنْ بَعْدِ اِیْمَانِہٖٓ اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ …} ’’جو شخص اپنے ایمان لانے کے بعد کفر کرے، سوائے اس کے جس پر جبر کیا گیا اور اس کا دل ایمان پر مطمئن تھا، لیکن جس نے کفر کے لیے اپنا سینہ کھول دیا (راضی خوشی کفر کیا) تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔‘‘ کے بارے میں فرمایا کہ پھر اسے منسوخ کر دیا گیا، یعنی اس سے یہ مستثنیٰ کر لیا گیا۔ {ثُمَّ اِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا …} ’’پھر تیرا رب ان لوگوں کو جنہوں نے آزمائش میں پڑنے کے بعد ہجرت کی، پھر جہاد کیا اور صبر کیا (ثابت قدم رہے) بے شک آپ کا رب ان (آزمائشوں) کے بعد (ان لوگوں کو) بہت معاف فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘ اس سے مراد عبداللہ بن سعد بن ابو سرح ہیں جو (بعد میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور خلافت میں) مصر کے گورنر رہے۔ رسول اللہﷺ کے لیے (وحی و خطوط وغیرہ) لکھا کرتے تھے۔ شیطان نے انہیں پھسلا دیا اور وہ کافروں سے جا ملے۔ فتح مکہ کے دن آپ نے ان کے قتل کا حکم جاری فرما دیا لیکن حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کیل یے پناہ مانگی تو رسول اللہﷺ نے انہیں پناہ دے دی (اور ان کا اسلام قبول کر لیا
یہ روایت صحیح نہیں کیونکہ اس میں سوره النحل کی مکی سوره میں آیات میں ناسخ و منسوخ قرار دیا گیا ہے
ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِيْنَ هَاجَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا فُتِنُوْا ثُمَّ جٰهَدُوْا وَصَبَرُوْٓا ۙ اِنَّ رَبَّكَ مِنْۢ بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ
النحل آیت ١١٠ ہے
سند میں عَلِيُّ بنُ الحُسَيْنِ بنِ وَاقِدٍ أَبُو الحَسَنِ المَرْوَزِيُّ ہے جس کو أَبُو حَاتِمٍ: ضَعِيْفُ الحَدِيْثِ کہا ہے
الحُسَيْنِ بنِ وَاقِدٍ مدلس بھی ہے اور یہاں عنعنہ ہے
روایت کا سیاسی مقصد
روایت اصلا عثمان رضی الله عنہ پر الزام لگانے کے لئے گھڑی گئی ہے – عثمان رضی الله عنہ اور عبد الله بن سعد بن ابی السرح رضی الله عنہ رضاعی بھائی تھے – عبد الله رضی الله عنہ کو عثمان رضی الله عنہ نے اپنے دور خلافت میں مصر کا گورنر مقرر کیا- مصر ایک زرخیز علاقہ تھا اور وہاں سے کافی مال اتا تھا اس پر بہت سوں کی نظر تھی- عثمان رضی الله عنہ نے اپنے لے پالک محمد بن ابی حذیفہ کو عبد الله رضی الله عنہ کا نائب بنا کر مصر بھیجا – وہاں عبد الله کی غیر موجودگی میں محمد نے ” بغاوت ” کی اور خود سب کنٹرول میں لیا- عثمان رضی الله عنہ نے علی کے سوتیلے بیٹے محمد بن ابی بکر کو محمد بن ابی حذیفہ کی جگہ بھیجا کیونکہ دونوں دوست تھے اور ممکن تھا یہ مسئلہ حل ہو جاتا لیکن نمک حرام ابن ابی حذیفہ نے ابن ابی بکر کو کہا کہ عثمان نے تمہارے قتل کا آرڈر بھیجا ہے -اس کے بعد دونوں اس جھوٹے الزام کی آڑ میں مدینہ پر چڑھ دوڑارے اور عثمان رضی الله عنہ کا قتل کیا – عبد الله رضی الله عنہ اس وقت مصر میں نہیں تھے جب ان کو اس بغآوت کا علم ہوا وہ شام چلے گئے اور کسی بھی جنگ میں حصہ نہ لیا اور شام میں ہی وفات پا گئے
سن ١٠٠ ہجری کے پاس جا کر اس سارے بلوے کو سند جواز دینے کے لئے یہ روایآت بنا دی گئیں کہ عثمان رضی الله عنہ کے رضاعی بھائی تو مرتد تھے- تاریخآ نبی صلی الله علیہ وسلم نے مرتدین کا قتل ہی کرایا مثلا ابن حنطل مرتد کو فتح مکہ پر کعبہ کی دیوار کے ساتھ قتل کرنے کا حکم دیا- اگر ایسا ہوتا تو صحیح سندوں سے یہ ہم تک ١٠٠ ہجری سے پہلے ہی آ جاتا
جواب
سوره الاحزاب قرآن کی ایک اہم سورہ ہے اس میں جنگ خندق پر بحث ہے اس میں پردے کا حکم ہے اس میں زینب
بنت جحش سے نکاح کا حکم ہے
زينب بنت جحش رضی الله عنہا سے شادی کے حوالے سے کتاب جمل من أنساب الأشراف میں بلاذری نے لکھا ہے
ويقال إنه تزوجها رجوعه من غزاة المريسيع، وكانت المريسيع فِي شعبان سنة خمس. ويقال إنه تزوجها في سنة ثلاث
اور کہا جاتا ہے ان سے نکاح کیا غزوۂ مُرَیسیع سے واپس پر اور غزوۂ مُرَیسیع شعبان سن ٥ ہجری میں ہوا اور کہا جاتا ہے سن 3 ہجری میں کیا
واقعہ افک غزوہ بنی مصطلق یا غزوۂ مُرَیسیع سے واپسی پر پیش آیا جو٥ ہجری میں ہوا اس وقت تک پردے کی آیات نازل ہو چکی تھیں جیسا کہ بخاری کی حدیث میں ہے اور یہ حکم سوره الاحزاب کا ہی ہے لہذا یہ ممکن نہیں کہ زینب رضی الله عنہا سے سن ٥ میں نکاح کیا ہو کیونکہ زینب سے نکاح کا حکم بھی سوره الاحزاب میں ہے
سوره الاحزاب کی ابتدائی آیات میں ہی پہلے زینب بنت جحش رضی الله عنہا سے نکاح کا حکم ہے –
زینب بنت جحش سے نکاح کے بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دعوت دی جس میں بعض حضرات زیادہ دیر رہے اور رسول الله نے ان کو جانے کا بھی نہیں کہا – صحیح بخاری کی روایت کے مطابق
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: أَنَا أَعْلَمُ النَّاسِ بِهَذِهِ الآيَةِ: آيَةِ الحِجَابِ ” لَمَّا أُهْدِيَتْ زَيْنَبُ بِنْتُ جَحْشٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَتْ مَعَهُ فِي البَيْتِ صَنَعَ طَعَامًا وَدَعَا القَوْمَ، فَقَعَدُوا يَتَحَدَّثُونَ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ ثُمَّ يَرْجِعُ، وَهُمْ قُعُودٌ يَتَحَدَّثُونَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ} [الأحزاب: 53] إِلَى قَوْلِهِ {مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ} [الأحزاب: 53] فَضُرِبَ الحِجَابُ وَقَامَ القَوْمُ ”
رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب گئے تو دیکھا گھر میں لوگ ہیں پس آپ کو حیا آئی اور آپ چلے گئے اور الله نے حجاب کی آیت نازل کی
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ
السندی کہتے ہیں کہ زینب رضی الله عنہا سے سن 3 ہجری میں نکاح کیا
زينب بنت جحش، أمُّ المؤمنين رضي الله عنها، هي أَسَدِيَّةٌ، تزوَّجها النبيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سنة ثلاث
غزوة الأحزاب ، غزوة بني المصطلق سے پہلے ہوا کیونکہ سن ٥ میں غزوة بني المصطلق ہوا تھا
لہذا امہات المومنین کو پردے کے جو احکام سوره الاحزاب میں دیے گئے وہ سن 3 میں دیے گئے ہیں نہ کہ سن ٥ ہجری میں
اسی میں یہ آیت ہے کہ الله نے تم پر سے رجس کو دور کر دیا ہے
اس وقت تک حسین رضی الله عنہ کی پیدائش نہیں ہوئی تھی – نسب قريش از أبو عبد الله الزبيري (المتوفى: 236هـ) کے مطابق
والحسين بن علي، ويكنى أبا عبد الله؛ وولد لخمس لخمس ليال خلون من شعبان سنة أربع من الهجرة
حسین بن علی سن ٤ ہجری میں شعبان میں پانچ راتیں کم پیدا ہوئے
لہذا یہ روایت جو حدیث کساء یا چادر والی روایت کے نام سے مشھور ہے صحیح نہیں ہے منکر ہے
جی یہ بات ابن مسعود رضی الله عنہ کے حوالے سے بیان کی جاتی ہے
صحیح بخاری میں ہے
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ أَبِي لُبَابَةَ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، ح وَحَدَّثَنَا عَاصِمٌ، عَنْ زِرٍّ، قَالَ: سَأَلْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ، قُلْتُ: يَا أَبَا المُنْذِرِ إِنَّ أَخَاكَ ابْنَ مَسْعُودٍ يَقُولُ كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ أُبَيٌّ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لِي: «قِيلَ لِي فَقُلْتُ» قَالَ: فَنَحْنُ نَقُولُ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ کہتے ہیں میں نے ابی بن کعب سے پوچھا کہ اپ کے بھائی ابن مسعود ایسا ایسا کہتے ہیں ابی نے کہا میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے اس پر سوال کیا تھا انہوں نے کہا کہو کہ میں نے کہا – پس ہم وہ کہتے ہیں جیسا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہا
اس روایت میں زر بن حبیش کا تفرد ہے اور علماء نے اس کو رد کر دیا ہے ابن حزم کہتے ہیں یہ بات جھوٹ ہے یعنی صحیح بخاری کی یہ روایت کذب ہے
ابن حزم المحلی میں کہتے ہیں
وكل ما روي عن ابن مسعود من أن المعوذتين وأم القرآن لم تكن في مصحفه، فكذب موضوع لا يصح،
ہر وہ بات جس میں روایت کیا گیا ہو کہ ابن مسعود المعوذتين کو مصحف کا حصہ نہیں مانتے تھے کذب ہے موضوع ہے صحیح نہیں ہے
النووي في “شرح المهذب” 3/396 میں کہتے ہیں
أجمع المسلمون على أن المعوذتين والفاتحة وسائر السُّور المكتوبة في المصحف قُرآن، وأن من جحد شيئاً منه كفر، وما نُقِل عن ابن مسعود في الفاتحة والمعوذتين باطل ليس بصحيح عنه.
جو المعوذتين کو قرآن میں نہ مانے کافر ہے اور جو ابن مسعود کے حوالے سے نقل کیا جاتا ہے باطل ہے صحیح نہیں ہے
کتاب الام از شافعی میں ہے
أخبرنا حفص عن الأعمش عن إبراهيم عن عبد الرحمن بن يزيد قال : كان عبد الله يكره أن يقرأ القرآن في أقل من ثلاث ، وهم يستحبون أن يقرأ في أقل من ثلاث أخبرنا وكيع عن سفيان الثوري عن أبي إسحاق عن عبد الرحمن بن يزيد قال : رأيت عبد الله يحك المعوذتين من المصحف ويقول : لا تخلطوا به ما ليس منه وهم يروون { عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قرأ بهما في صلاة الصبح } وهما مكتوبتان في المصحف الذي جمع على عهد أبي بكر ثم كان عند عمر ثم عند حفصة ثم جمع عثمان عليه الناس ، وهما من كتاب الله عز وجل وأنا أحب أن أقرأ بهما في صلاتي .
سند قابل قبول ہے
مسند حمیدی کی روایت ہے
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا عَبْدَةُ بْنُ أَبِي لُبَابَةَ، وَعَاصِمُ ابْنُ بَهْدَلَةَ أَنَّهُمَا سَمِعَا زِرَّ بْنَ حُبَيْشٍ يَقُولُ: سَأَلْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ عَنِ الْمُعَوِّذَتَيْنِ فَقُلْتُ: يَا أَبَا الْمُنْذِرِ إِنَّ أَخَاكَ ابْنَ مَسْعُودٍ يَحْكِيهِمَا مِنَ الْمُصْحَفِ قَالَ إِنِّي سَأَلَتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قِيلَ لِي «قُلْ» فَقُلْتُ: فَنَحْنُ نَقُولُ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
عَبْدَةُ بْنُ أَبِي لُبَابَةَ، وَعَاصِمُ ابْنُ بَهْدَلَةَ دونوں زر بن حبیش سے روایت کرتے ہیں کہ ابن مسعود الْمُعَوِّذَتَيْنِ کو مصحف سے مٹا دیتے
مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت میں الفاظ ہیں
قُلْتُ لِأُبَيٍّ: إِنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ لَا يَكْتُبُ الْمُعَوِّذَتَيْنِ فِي مُصْحَفِهِ
زر نے ابی سے کہا بے شک ابن مسعود الْمُعَوِّذَتَيْنِ کو مصحف میں نہیں لکھتے تھے
یہ بات ابن سیرین بھی کہتے ہیں مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ قَالَ: «كَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ لَا يَكْتُبُ الْمُعَوِّذَتَيْنِ»
صحیح ابن حبان میں ہے
إِنّهما ليستا من القرآن، فلا تجعلوا فيه ما ليس منه
ابن مسعود کہتے کہ یہ قرآن میں سے نہیں ہیں پس اس میں شامل نہ کرو جو اس میں نہ ہو
الهيثمي کتاب موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان میں اس روایت پر کہتے ہیں
قلت فِي إِسْنَاده عَاصِم بن أبي النجُود وَقد ضعف.
میں کہتا ہوں اس کی اسناد میں عاصم ہیں جو ضعیف ہیں
بہرحال یہ روایت ایک مشکل ہے کیونکہ حدیث نبوی کے مطابق اگر کسی کو قرآن سیکھنا ہو تو ابن مسعود سے سیکھے اور دوسری مشکل یہ ہے کہ عاصم بن ابی النجود کی قرات پر قرآن پڑھا جاتا ہے جس کی سند علی اور ابی بن کعب تک جاتی ہے
عاصم قرات کے امام ہیں لیکن حدیث میں ضعیف ہیں
اغلبا ابن مسعود ان کو دعا سمجھتے تھے نہ کہ قرآن کی سورتیں لیکن جمہور اصحاب رسول اس کو پڑھتے تھے اور قرآن کی سورت ہی سمجھتے تھے
شیعہ عالم الطباطبائي تفسیر المیزان میں لکھتے ہیں
أقول: و في هذا المعنى روايات كثيرة من طرق الفريقين على أن هناك تواترا قطعيا من عامة المنتحلين بالإسلام على كونهما من القرآن، و قد استشكل بعض المنكرين لإعجاز القرآن أنه لو كان معجزا في بلاغته لم يختلف في كون السورتين من القرآن مثل ابن مسعود، و أجيب بأن التواتر القطعي كاف في ذلك على أنه لم ينقل عنه أحد أنه قال بعدم نزولهما على النبي (صلى الله عليه وآله وسلم) أو قال بعدم كونهما معجزتين في بلاغتهما بل قال بعدم كونهما جزء من القرآن و هو محجوج بالتواتر.
میں الطباطبائي کہتا ہوں: ان معنوں کی بہت سی روایات دونوں فریقین (اہل سنت و اہل تشیع) کے پاس ہیں اور وہاں تواتر قطعی سے ہے کہ یہ قرآن میں سے ہیں (بخلاف اس کے ) جو اسلام کے حوالے سے فریبی کہتے ہیں اور بعض اعجاز قرآن کے منکرین کا کہنا ہے اگر قرآن کی بلاغت کوئی معجزہ ہوتا تو پھر ابن مسعود کی مثال ہے کہ (وہ ان کو سورتیں نہیں کہتے) اور اس کا جواب ہے کہ تواتر قطعی کافی ہے اس کے لئے
«الذی خلق السماوات والارض و ما بینهما فی ستةایام ثم الستوی علی العرش الرحمن فاسال به خبیرا »
الفرقان ۵۹
اس آيت کا اور سورۃ فصلت كا آيات ٩/١٠/١١/١٢ جمع اور تطبیق کیسے کریے پلیز و ضاحت کردے
جزاکم الله خیرا
جواب
الله تعالی نے سوره فرقان میں کہا
وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو ان کے بیچ ہے چھ دن میں خلق کیا پھر عرش پر مستوی ہوا
اور سوره فصلت میں جو تفصیل ہے اس کے مطابق
دو دن میں زمین اور اس کے پہاڑ سوره فصلت ٩ سے ١٠
(یعنی مٹی ، تحت الثری کا لاوا چٹانیں اور پہاڑ)
تیسرا چوتھا پانچواں اور چھٹا دن
تیسرے دن کو ملا کے اگلے چار دن میں زمین کا سب سامان معیشت سوره فصلت ١٠
اور ساتھ ہی ان چار دنوں میں سے دو دن میں سات آسمان بنائے سوره فصلت ١١
(یعنی افلاک اور زمینی نباتات جو سورج پر منحصر ہیں یہ سب ملا کر چار دن میں بنے)
———–
نوٹ
یاد رہے کہ سائنس کے مطابق پودے اور درخت سورج کی روشنی چاہتے ہیں اس لئے آسمان میں سورج اور زمین پر بناتات کا ایک بہت گہرا تعلق ہے ان کو ایک ساتھ بنایا گیا
سورج اور زمین کا فاصلہ اور زمین کا ٢٣ ڈگری کا جھکاؤ بہت اہم ہے تھوڑی سی تبدیلی کی صورت میں تمام بناتات بھسم ہو جائیں گی
عن ابو سعید الخدری قال: اصبنا نسأ من بیسی أوطاس لهن أذواج فکر هنا أن نقع علیهن و لهن أذواج فسألنا النبی فنزلت و المحصنات…..سوره نسأ آیت ۲۴
تفسیر طبری جلد ۵/مسلم،نسایی،ابوداود
کیا یہ روایت صحیح ہے؟
جواب
یہ روایت ترمذی مسند احمد میں بھی ہے
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ البَتِّيُّ، عَنْ أَبِي الخَلِيلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ قَالَ: أَصَبْنَا سَبَايَا يَوْمَ أَوْطَاسٍ وَلَهُنَّ أَزْوَاجٌ فِي قَوْمِهِنَّ، فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَزَلَتْ: ” {وَالمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ} [النساء: 24] ”
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ جنگ اوطاس میں ہمیں کچھ ایسی قیدی عورتیں ہاتھ آئیں جن کے شوہر ان کی قوم میں موجود تھے، تو لوگوں نے اس بات کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا، اس پر آیت «والمحصنات من النساء إلا ما ملكت أيمانكم» نازل ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- ثوری نے عثمان بتی سے اور عثمان بتی نے ابوالخلیل سے اور ابوالخلیل نے ابو سعید خدری رضی الله عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی، ۳-
امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث میں علقمہ سے روایت کا ذکر نہیں ہے۔ (جب کہ پچھلی سند میں ہے) اور میں نہیں جانتا کہ کسی نے اس حدیث میں ابوعلقمہ کا ذکر کیا ہو سوائے ہمام کے، ۴- ابوالخلیل کا نام صالح بن ابی مریم ہے۔
صحیح مسلم میں ہے
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ الْقَوَارِيرِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ صَالِحٍ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ أَبِي عَلْقَمَةَ الْهَاشِمِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، ” أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ بَعَثَ جَيْشًا إِلَى أَوْطَاسَ، فَلَقُوا عَدُوًّا، فَقَاتَلُوهُمْ فَظَهَرُوا عَلَيْهِمْ، وَأَصَابُوا لَهُمْ سَبَايَا، فَكَأَنَّ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَحَرَّجُوا مِنْ غِشْيَانِهِنَّ مِنْ أَجْلِ أَزْوَاجِهِنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَأَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي ذَلِكَ: {وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ} [النساء: 24]، أَيْ: فَهُنَّ لَكُمْ حَلَالٌ إِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُهُنَّ
اور سنن ابو داود میں ہے
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ صَالِحٍ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ أَبِي عَلْقَمَةَ الْهَاشِمِيِّ،عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ”بَعَثَ يَوْمَ حُنَيْنٍ بَعْثًا إِلَى أَوْطَاسَ، فَلَقُوا عَدُوَّهُمْ فَقَاتَلُوهُمْ فَظَهَرُوا عَلَيْهِمْ وَأَصَابُوا لَهُمْ سَبَايَا، فَكَأَنَّ أُنَاسًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَحَرَّجُوا مِنْ غِشْيَانِهِنَّ مِنْ أَجْلِ أَزْوَاجِهِنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِي ذَلِكَ: وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ سورة النساء آية 24، أَيْ فَهُنَّ لَهُمْ حَلَالٌ إِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُهُنَّ”.
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ حنین کے دن مقام اوطاس کی طرف ایک لشکر روانہ کیا تو وہ لشکر اپنے دشمنوں سے ملے، ان سے جنگ کی، اور جنگ میں ان پر غالب رہے، اور انہیں قیدی عورتیں ہاتھ لگیں، تو ان کے شوہروں کے مشرک ہونے کی وجہ سے بعض صحابہ کرام نے ان سے جماع کرنے میں حرج جانا، تو اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں یہ آیت نازل فرمائی: «والمحصنات من النساء إلا ما ملكت أيمانكم» “اور (حرام کی گئیں) شوہر والی عورتیں مگر وہ جو تمہاری ملکیت میں آ جائیں” (سورۃ النساء: ۲۴) تو وہ ان کے لیے حلال ہیں جب ان کی عدت ختم ہو جائے۔
سنن نسائی میں ہے
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر اوطاس کی طرف بھیجا ۱؎ وہاں ان کی دشمن سے مڈبھیڑ ہو گئی، اور انہوں نے دشمن کا بڑا خون خرابہ کیا، اور ان پر غالب آ گئے، انہیں ایسی عورتیں ہاتھ آئیں جن کے شوہر مشرکین میں رہ گئے تھے، چنانچہ مسلمانوں نے ان قیدی باندیوں سے صحبت کرنا مناسب نہ سمجھا، تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی: «والمحصنات من النساء إلا ما ملكت أيمانكم» “اور (حرام کی گئیں) شوہر والی عورتیں مگر وہ جو تمہاری ملکیت میں آ جائیں” (النساء: ۲۴) یعنی یہ عورتیں تمہارے لیے حلال ہیں جب ان کی عدت پوری ہو جائے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الرضاع ۹ (۱۴۵۶)، سنن ابی داود/النکاح ۴۵ (۲۱۵۵)، سنن الترمذی/تفسیر سورة النسائ۵ (۳۰۱۷)، (تحفة الأشراف: ۴۴۳۴) (صحیح)
البانی اور شعَيب الأرنؤوط اس کو صحیح کہتے ہیں امام ترمذی حسن کہتے ہیں اس کی سعید بن ابی عروبہ عن قتادہ والی سند صحیح سمجھی گئی ہے
راقم کہتا ہے اس روایت کی سند معلول ہے اس میں علت ہے سند میں یزید بن زریع ہیں جنہوں نے سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ سے اختلاط میں سنا ہے
ابن حجر تہذیب میں کہتے ہیں
وقال ابن السكن كان يزيد بن زريع يقول اختلط سعيد في الطاعون يعني سنة 132 وكان القطان ينكر ذلك ويقول إنما اختلط قبل الهزيمة قلت والجمع بين القولين ما قال أبو بكر البزار أنه ابتدأ به الاختلاط سنة “133” ولم يستحكم ولم يطبق به وأستمر على ذلك ثم استحكم به أخيرا
اور ابن السکن کہتے ہیں یزید بن زریع نے کہا سعید بن ابی عروبہ کو اختلاط طاعون پر سن ١٣٢ میں ہوا اور القطان نے اس کا انکار کیا اور کہا ہزیمت پر ہوا اور ان اقوال میں اس طرح جمع ممکن ہے جو البزار نے کہا کہ ان کے اختلاط کی ابتداء سن ١٣٣ میں ہوئی لیکن مستحکم نہ تھی اور اس میں استحکام ہوتا گیا یہاں تک کہ آخر میں مستحکم ہو گیا
ابن حجر کے مطابق سن ١٣٣ میں سعید کو اختلاط شروع ہو چکا تھا اور کلابازی کے مطابق سن ١٣٩ ھ میں ابن زریع نے سنا
الهداية والإرشاد في معرفة أهل الثقة والسداد از أبو نصر البخاري الكلاباذي (المتوفى: 398هـ) کے مطابق
وَقَالَ الْغلابِي نَا ابْن حَنْبَل قَالَ نَا يزِيد قَالَ مر بِنَا سعيد بن أبي عرُوبَة قبل سنة 39 فسمعنا مِنْهُ
الْغلابِي کہتے ہیں ابن حنبل نے کہا ہم سے یزید نے بیان کیا کہ سعید ہمارے پاس ١٣٩ ھ سے پہلے گزرے جب ہم نے سنا
یعنی یزید کا سماع ١٣٣ سے ١٣٩ کے درمیان بھی ہے جو سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ کا عالم اختلاط ہے
===================
طحاوی مشکل الآثار میں اس کو پیش کرتے ہیں پھر کہتے ہیں اس آیت کے مفھوم پر اصحاب رسول کا اختلاف ہے
قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: وَقَدْ كَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِ اخْتَلَفُوا فِي الْمُحْصَنَاتِ الْمُرَادَاتِ بِمَا ذُكِرَ فِي هَذِهِ الْآيَةِ مَنْ هُنَّ؟ فَرُوِيَ عَنْ عَلِيٍّ وَعَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا فِي ذَلِكَ:
اور اصحاب رسول نے اس میں اختلاف کیا ہے کہ اس میں الْمُحْصَنَاتِ سے کون مراد ہے پس علی اور ابن مسعود رضی الله عنہما نے روایت کیا ہے
قَدْ حَدَّثَنَا أَبُو شُرَيْحٍ، وَابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلِيٍّ، وَابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ} [النساء: 24] ، قَالَ عَلِيٌّ: ” الْمُشْرِكَاتُ إِذَا سُبِينَ حَلَلْنَ بِهِ ” وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: ” الْمُشْرِكَاتُ وَالْمُسْلِمَاتُ ” قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: فَكَانَ تَأْوِيلُ هَذِهِ الْآيَةِ عِنْدَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَلَى الْمُحْصَنَاتُ الْمَسْبِيَّاتُ الْمَمْلُوكَاتُ بِالسِّبَاءِ، وَكَانَ عِنْدَ ابْنِ مَسْعُودٍ [ص:75] عَلَى اللَّاتِي طَرَأَتْ عَلَيْهِنَّ الْإِمْلَاكُ مِنَ الْإِمَاءِ بِالسِّبَاءِ وَبِمَا سِوَاهُ، وَمِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَانَ يَقُولُ: بَيْعُ الْأَمَةِ طَلَاقُهَا، وَقَدْ تَابَعَهُ عَلَى ذَلِكَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ابن مسعود سے روایت ہے کہ اس آیت میں الْمُحْصَنَاتِ سے مراد مشرکہ عورتیں اور مسلمان عورتیں ہیں
اور علی سے مروی ہے کہ یہاں مشرکہ ہیں جب وہ حلال ہو جائیں
ابن عباس کہتے ہیں
فَكَانَ الْمُحْصَنَاتُ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ الْمُرَادَاتُ فِي هَذِهِ الْآيَةِ هُنَّ الْأَرْبَعُ اللَّاتِي يَحْلِلْنَ لِلرَّجُلِ
اس میں وہ عورتیں ہیں جو آدمی کے لئے چار ہیں
یعنی ایک مرد چار شادیاں کر سکتا ہے اگر اس کی ابھی چار بیویاں ہیں تو وہ مزید نہیں لے سکتا
اس کے بعد طحاوی نے اس میں علی رضی الله عنہ کا قول پسند کیا ہے
اور نہیں ہے کسی نبی کی شان یہ شان کہ خیانت کرے اور جو کوئی خیانت کرے گا اور لے کرآئے گا (اپنے ہمراہ) خیانت کی ہوئی چیز کو قیامت کے دن پھر پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ہر نفس کو جو اس نے کمایا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا
(آل عمران آیت 161)
اس آیت کی تفسیر میں تفسیر ابن کثیر جلد اول صفحہ 599 پر لکھا ہے ابن عباس سے مروی ہے کہ غزوہ بدر کے مال غنیمت سے ایک چادر گم ہو گئی تو صحابہ کرام نے گمان کیا کہ شاید حضور نے یہ چادر لے لی ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فر مائی
جواب
تفسیر ابن کثیر کا اقتباس ہے
وَقَالَ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ: حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْمُسَيَّبُ بْنُ وَاضِحٍ، حَدَّثَنَا أبو إسحاق الفزاري عن سفيان بن خَصِيفٍ عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: فَقَدُوا قَطِيفَةً يَوْمَ بَدْرٍ فَقَالُوا: لَعَلَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَهَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَما كانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَغُلَّ أَيْ يخون.
وقال ابن جرى «2» : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا خَصِيفٌ، حَدَّثَنَا مِقْسَمٌ، حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ أَنَّ هَذِهِ الْآيَةَ وَما كانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَغُلَّ نَزَلَتْ فِي قَطِيفَةٍ حَمْرَاءَ فُقِدَتْ يَوْمَ بَدْرٍ، فقال بعض الناس: لعل رسول الله أخذها، فَأَكْثَرُوا فِي ذَلِكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَما كانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَغُلَّ وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِما غَلَّ يَوْمَ الْقِيامَةِ وَكَذَا رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ جَمِيعًا عَنْ قُتَيْبَةَ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ زِيَادٍ بِهِ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ، عَنْ خَصِيفٍ، عَنْ مِقْسَمٍ يَعْنِي مُرْسَلًا.
ان روایات کی سند مظبوط نہیں ہے خُصَيْفُ بنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ مختلف فیہ ہے اس کا تفرد ہے بعض نے اس کو ثقہ کہا ہے لیکن
الامام أحمد ضعيف الحديث
وقال النسائي ليس بالقوي
ونقل ابن أبي حاتم عن يحيى بن سعيد أنه قال: كنا تلك الأيام نتجنب حديث خصيف وما كتبت عن خصيف بالكوفة شيئا إنما كتبت عن خصيف بأخرة وكان يحيى يضعف خصيفا.
یہ راوی آخری عمر میں اختلاط کا شکار تھا لہذا اس روایت سے دلیل نہیں لی جا سکتی
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ
﴿67﴾
اے رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجیئے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی، اور آپ کو اللہ تعالیٰ لوگوں سے بچا لے گا بےشک اللہ تعالیٰ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
شعیوں کے مطابق یہ آیت غدیر میں نازل ہوئی اور اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا حکم تھا۔
ایک روایت میں ہے کہ یہ واقعہ (سنہ2 ھجری ) کا ہے۔ اس آیت کے نازل ہوتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سر نکال کر چوکیداروں سے فرمایا: جاؤ اب میں اللہ کی پناہ میں آگیا، تمہاری چوکیداری کی ضرورت نہیں رہی ۔
(سنن ترمذي:3046، قال الشيخ الألباني:صحیح)
تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ یہ آیت آخری دنوں کی ہے ۔ تو پھر اس حدیث کی تطبیق یا تاویل کیسے ہوگی۔
جواب
اہل سنت کے مطابق الله کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بہادر اور نڈر تھے لیکن روافض کے نزدیک ایسا نہیں تھا ان کے نزدیک علی کی امامت کا حکم معراج پر دیا گیا لیکن رسول الله نے اس کو امت پر پیش نہیں کیا اس کے بعد آخری دور میں حجه الوداع سب سے اہم موقعہ تھا کہ یہ کیا جاتا لیکن وہاں بھی اعلان نہ کیا یہاں تک کہ الله تعالی نے حکم کیا اور غدیر خم پر واپس جانے والے قافلے کو رکنے کا حکم دیا گیا اور عجلت میں علی کے بارے میں تقریر کی جس کی روایات ہم تک پہنچی ہیں
اہل سنت کے مطابق غدیر خم پر علی پر معترض اصحاب رسول جو یمن سے انے تھے ان کی تالیف کے لئے نبی صلی الله علیہ وسلم نے تقریر کی
اہل تشیع کے مطابق علی کی امامت و وصی ہونے پر نص ظاہر ہوئی کہ مولی کہہ دیا
دما دم مست قلندر کی طرح شیعہ حضرات نے اس روایت کے اتنے طرق پیش کیے کہ یہ حد تواتر تک جا پہنچے لیکن اہل سنت پھر بھی مان کے نہیں دیے
کتاب تذکرہ الحفاظ میں الذہبی کہتے ہیں کہ
اس کے کثرت طرق نے مجھے ششدر کر دیا
محدثین نے کہا کہ اس کا پھیلنا ہی اس کا ضعیف ہونا ہے
نصب الراية لأحاديث الهداية از الزيلعي (المتوفى: 762هـ) نے کہا
وَحَدِيثِ: مَنْ كُنْت مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ3، بَلْ قَدْ لَا يُزِيدُ الْحَدِيثَ كَثْرَةُ الطُّرُقِ إلَّا ضَعْفًا
اور حدیث میں جس کا دوست اس کا علی دوست بلکہ اس نے کثرت طرق ہونے نے اس کے ضعف میں اضافہ کیا
اب ایک ہی رستہ رہا کہ ثابت کیا جائے کہ قران میں اس پر آیت ہے لہذا ڈھونڈ ڈھانڈ کے سوره المائدہ کی یہ آیت ملی
اس آیت کا سیاق و سباق اہل کتاب کے حوالے سے ہے انہی کا ذکر ہے
سوره المائدہ سن ٩ ہجری کی ہے حج ١٠ ہجری میں ہوا
گویا سوره المائدہ کی یہ آیت ایک سال بعد آئی جس میں خود علی کا ذکر نہیں ہے
تفسیر المنار میں رشید رضا کہتے ہیں
وَقَدِ اخْتَلَفَ مُفَسِّرُو السَّلَفِ فِي وَقْتِ نُزُولِ هَذِهِ الْآيَةِ، فَرَوَى ابْنُ مَرْدَوَيْهِ، وَالضِّيَاءُ فِي الْمُخْتَارَةِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبُو الشَّيْخِ، عَنِ الْحُسْنِ، وَعَبْدِ بْنِ حُمَيْدٍ، وَابْنِ جَرِيرٍ، وَابْنِ أَبِي حَاتِمٍ، وَأَبُو الشَّيْخِ، عَنْ مُجَاهِدٍ مَا يَدُلُّ عَلَى أَنَّهَا نَزَلَتْ فِي أَوَائِلِ الْإِسْلَامِ وَبَدْءِ الْعَهْدِ بِالتَّبْلِيغِ الْعَامِّ، وَكَأَنَّهَا عَلَى هَذَا الْقَوْلِ وُضِعَتْ فِي آخِرِ سُورَةٍ مَدَنِيَّةٍ لِلتَّذْكِيرِ بِأَوَّلِ الْعَهْدِ بِالدَّعْوَةِ فِي آخِرِ الْعَهْدِ بِهَا، وَرَوَى ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ، وَابْنُ مَرْدَوَيْهِ، وَابْنُ عَسَاكِرَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّهَا نَزَلَتْ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ فِي عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ. وَرَوَتِ الشِّيعَةُ عَنِ الْإِمَامِ مُحَمَّدٍ الْبَاقِرِ أَنَّ الْمُرَادَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ النَّصُّ عَلَى خِلَافَةِ عَلِيٍّ بَعْدَهُ، وَأَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَخَافُ أَنْ يَشُقَّ ذَلِكَ عَلَى بَعْضِ أَصْحَابِهِ، فَشَجَّعَهُ اللهُ تَعَالَى بِهَذِهِ الْآيَةِ.
اور سلف میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ یہ آیت (يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ) کب نزول ہوئی پس ابن مردویہ اور الضیاء المختارہ میں ابن عباس سے مروی ہے اور ابو الشیخ میں حسن سے اور تفسیر عبد بن حمید اور ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ میں مجاہد سے جو دلالت کرتا ہے کہ یہ اسلام کے شروع میں نازل ہوئی … اور پھر یاد دہانی کے کے آخری مدنی سورت میں بھی اس کو نازل کیا گیا … اور ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ اور ابن عساکر نے ابو سعید الخدری سے روایت کیا ہے کہ یہ غدیر خم پر علی کے لئے نازل ہوئی – اور شیعوں نے روایت کیا امام الباقر سے کہ اس میں بما انزل الیہ سے مراد علی کی خلافت پر نص ہے اور نبی صلی الله علیہ وسلم خوف زدہ رہتے کہ ان کے بعض اصحاب پر یہ گراں گزرے گا پس اللہ نے ان کو اس آیت سے حوصلہ دیا
کتاب تفسیر الحدیث از دروزة محمد عزت کے مطابق
فقد روى الطبرسي المفسر الشيعي عن الكلبي عن أبي صالح عن ابن عباس وعن جابر بن عبد الله أن الله أمر رسوله بتنصيب علي رضي الله عنه إماما بعده، فتخوّف أن يقول الناس إنه حابى ابن عمه فأنزل الله الآية فأعلن النبي بعد نزولها في غدير خمّ ولاية علي
اور الطبرسی شیعہ مفسر نے عن الكلبي عن أبي صالح عن ابن عباس وعن جابر بن عبد الله کی سند سے روایت کیا ہے کہ الله نے رسول الله کو حکم کیا کہ علی کو اپنے بعد امام مقرر کر دیں، پس وہ خوف زدہ ہوئے کہ لوگ کہیں گے کہ اپنے چچا زاد کو مقرر کیا پس الله نے آیت نازل کی اور اس آیت کے نزول کے بعد نبی نے علی کی ولایت پر اعلان کیا غدیر خم پر
یہ روایات خود شیعہ مثلا الکلبی وغیرہ کی سند سے ہیں لہذا یہ تفسیری اقوال اہل سنت میں رواج نہ پا سکے اور ان کو ہمیشہ مخالف کا جذباتی پروپگنڈا ہی سمجھا گیا ہے
اگر ایسا ہوتا تو صحیح اسناد سے یہ بات پہنچ جاتی
دوم ابو سعید الخدری اور جابر بن عبد الله رضی الله عنہما جو من کنت مولاہ کے راوی تھے انہوں نے ال علی کو کبھی بھی امامت و خلافت کا حق دار نہ سمجھا بلکہ یزید بن معاویہ کی بیعت کی
سوره المائدہ کی آیت اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي حجه الوداع پر آئی یعنی دین مکمل ہوا اس کی بنیادی تعلیمات پہنچ گئیں اب یہ عجیب بات نہیں کہ امت کو امامت جیسے اہم عقیدہ کا پتا ہی نہیں اور دین مکمل ہو گیا؟
الزَّانِي لَا يَنْكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا
يَنْكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ وَحُرِّمَ ذَلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ (3)
زانی سے نکاح نہ کرے مگر زانیہ یا مشرکہ اور زانیہ سے نکاح نہ کرے مگر زانی یا مشرک اور مومنوں پر یہ حرام ہیں
جواب
کتاب الناسخ والمنسوخ في القرآن العزيز وما فيه من الفرائض والسنن از أبو عُبيد القاسم بن سلاّم بن عبد الله الهروي البغدادي (المتوفى: 224هـ) کے مطابق
فَكَانَتِ الْآيَةُ عِنْدَ بَعْضِهِمْ مَنْسُوخَةً لَا يُعْمَلُ بِهَا وعِنْدَ آخَرِينَ مُحْكَمَةً مَعْمُولًا بِهَا
یہ آیت بعض کے نزدیک منسوخ ہیں ان پر عمل نہیں ہے اور متاخرین کے نزدیک محکم ہیں ان پر عمل ہے
کتاب الناسخ والمنسوخ از أبو جعفر النَّحَّاس أحمد بن محمد بن إسماعيل بن يونس المرادي النحوي (المتوفى: 338هـ) کے مطابق منسوخ کا قول سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ کا ہے اور نسخ آیت {وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى} [النور: 32] ہے
لہذا وہ کہتے ہیں
وَهَذَا الْقَوْلُ الَّذِي عَلَيْهِ أَكْثَرُ الْعُلَمَاءِ وَأَهْلِ الْفُتْيَا يَقُولُونَ: إِنَّ مَنْ زَنَا بِامْرَأَةٍ فَلَهُ أَنْ يَتَزَوَّجَهَا وَلِغَيْرِهِ أَنْ يَتَزَوَّجَهَا وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ عُمَرَ، وَسَالِمٍ، وَجَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، وَعَطَاءٍ، وَطَاوُسٍ، وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، رَوَى عَنْهُ ابْنُ وَهْبٍ أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الرَّجُلِ يَزْنِي بِامْرَأَةٍ ثُمَّ يُرِيدُ نِكَاحَهَا، قَالَ ذَلِكَ لَهُ بَعْدَ أَنْ تَسْتَبْرِئَ مِنْ وَطْئِهَا وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ وَأَصْحَابِهِ [ص:583] وَقَالَ الشَّافِعِيُّ فِي الْآيَةِ الْقَوْلُ فِيهَا كَمَا قَالَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ إِنَّهَا مَنْسُوخَةٌ وَمِمَّنْ قَالَ بِالْقَوْلِ الثَّانِي: إِنَّ النِّكَاحَ هَاهُنَا الْوَطْءُ ابْنُ عَبَّاسٍ
امام الشافعی کا قول بھی اس کے منسوخ ہونے پر ہے
کیا کوئی جنت یا جہنم میں داخل ہونے کے بعد باہر آسکتا ہے؟اورکفار کے رفاہی کاموں کا کیا حکم ہے؟
سورہ “ہود” کی آیت نمبر (106، 107) کے مطابق جہنمی ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہیں گے، اور کبھی باہر نہیں نکل پائیں گے، جبکہ میں نے “صحیح بخاری “میں پڑھا ہے کہ کچھ جہنمیوں پر اللہ تعالی احسان کرتے ہوئے انہیں جنت میں داخل کردیگا ، اس لئے کہ ان کے دل میں کچھ نہ کچھ ایمان ہوگا، تو ان دونوں میں سے کون سی بات ٹھیک ہے؟
جواب
سوره الھود میں آیات ہیں
فَأَمَّا الَّذِينَ شَقُوا فَفِي النَّارِ لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَشَهِيقٌ (106) خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ (107)
جو شقی ہیں وہ اگ میں ہوں گے وہاں ان کے لئے زَفِيرٌ وَشَهِيقٌ ہے
وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے جب تک آسمان و زمین باقی ہیں الا یہ کہ تمہارا رب کچھ چاہے بے شک وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے
شقی سے مراد مشرک و کافر ہیں
———-
میں نے “صحیح بخاری “میں پڑھا ہے کہ کچھ جہنمیوں پر اللہ تعالی احسان کرتے ہوئے انہیں جنت میں داخل کردیگا ، اس لئے کہ ان کے دل میں کچھ نہ کچھ ایمان ہوگا
یعنی یہ ایمان والے مومن ہوں گے چاہے کم ایمان ہی ہو ان کو نکال لیا جائے گا کیونکہ یہ شقی نہیں ہوں گے
و الله اعلم
ایک تفسیر میں تھا کہ:الاحزاب آیت ۳۳ ( یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت) یہ صرف علی،فاطمه،اور امام حسن اور امام حسین کے لئے ہے- ازواج رسول الله کے لئے نہیں ہے کیونکہ اگر ازواج رسول الله کے لئے ہوتا تو ضمیر مونث [عنکن] ہوتا تا کہ سیاق و سباق تھیک بنتا
پلیز وضاحت کردے
جزاکم اللہ خیرا
جواب
قرآن نے سارہ علیہ السلام کو اہل بیت کہا ہے
سوره الھود میں ہے
قَالُوا أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ رَحْمَتُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
فرشتوں نے کہا تم الله کے حکم پر تعجب کرتی ہو الله کی رحمت و برکت ہے تم پر اے اہل بیت بے شک وہ حمید و مجید ہے
یعنی ایک عورت بھی اہل بیت میں سے ہیں
یہ سادہ عربی ہے ہم کہتے ہیں گھر والی یا گھر والے تو کیا اس میں بیوی شامل نہیں ہوتی ؟
مونث کے لئے جمع کا صیغہ بھی اتا ہے
یرید الله لیذهب عنگم الرجس اهل البیت
عنکم میں جمع کا صیغہ ہے
بعض اوقات دو پر بھی جمع کا صیغہ اتا ہے
{وهل أتاك نبأ الخصم إذ تسوروا المحراب} (ص:21)
اور کیا تم کو خبر پہنچی جھگڑے گی جب وہ محراب میں چڑھ آئے
ابن عاشور التحریر و التنویر میں لکھتے ہیں
وأكثر استعمال العرب وأفصحه في ذلك أن يعبروا بلفظ الجمع مضافاً إلى اسم المثنى لأن صيغة الجمع قد تطلق على الاثنين في الكلام فهما يتعاوران
اور عرب اکثر استمعال میں اور فصاحت کرتے ہوئے عبارت کرتے ہیں لفظ جمع سے جو مضاف ہوتا ہے اسم المثنی پر کیونکہ جمع کا صیغہ کا اطلاق تثنیہ پر کلام میں ہوتا ہے
اسی طرح قرآن میں ہے
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا
چور اور چورنی کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں
یہاں دو ہیں چور اور چورنی لیکن أَيْدِيَهُمَا میں جمع ہے
یعنی دو کے لئے جمع کا صیغہ استمعال ہوتا ہے اب چاہے یہ مرد ہوں یا عورتیں
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اس آیت کے نزول کے وقت یہ ازواج تھیں
سودہ بنت زمعہ رضی الله عنہا
عائشہ رضی الله عنہا
حفصہ بنت عمر رضی الله عنہا
زينب بنت جحش رضی الله عنہا
یہ چار امہات ہیں ان پر جمع کا صیغہ بولا جا سکتا ہے
سوره الاحزاب قرآن کی ایک اہم سورہ ہے اس میں جنگ خندق پر بحث ہے اس میں پردے کا حکم ہے اس میں زینب
بنت جحش سے نکاح کا حکم ہے
زينب بنت جحش رضی الله عنہا سے شادی کے حوالے سے کتاب جمل من أنساب الأشراف میں بلاذری نے لکھا ہے
ويقال إنه تزوجها رجوعه من غزاة المريسيع، وكانت المريسيع فِي شعبان سنة خمس. ويقال إنه تزوجها في سنة ثلاث
اور کہا جاتا ہے ان سے نکاح کیا غزوۂ مُرَیسیع سے واپس پر اور غزوۂ مُرَیسیع شعبان سن ٥ ہجری میں ہوا اور کہا جاتا ہے سن 3 ہجری میں کیا
السندی کہتے ہیں کہ زینب رضی الله عنہا سے سن 3 ہجری میں نکاح کیا
راقم کی تحقیق ہے کہ یہ آیت سن ٣ ہجری سے ٤ ہجری کے درمیان نازل ہوئی کیونکہ اس میں پردہ کی آیات ہیں جو زینب رضی الله عنہا سے نکاح کے بعد آئی ہیں
زینب بنت جحش سے نکاح کے بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دعوت دی جس میں بعض حضرات زیادہ دیر رہے اور رسول الله نے ان کو جانے کا بھی نہیں کہا – صحیح بخاری کی روایت کے مطابق
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: أَنَا أَعْلَمُ النَّاسِ بِهَذِهِ الآيَةِ: آيَةِ الحِجَابِ ” لَمَّا أُهْدِيَتْ زَيْنَبُ بِنْتُ جَحْشٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَتْ مَعَهُ فِي البَيْتِ صَنَعَ طَعَامًا وَدَعَا القَوْمَ، فَقَعَدُوا يَتَحَدَّثُونَ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ ثُمَّ يَرْجِعُ، وَهُمْ قُعُودٌ يَتَحَدَّثُونَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ} [الأحزاب: 53] إِلَى قَوْلِهِ {مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ} [الأحزاب: 53] فَضُرِبَ الحِجَابُ وَقَامَ القَوْمُ ”
رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب گئے تو دیکھا گھر میں لوگ ہیں پس آپ کو حیا آئی اور آپ چلے گئے اور الله نے حجاب کی آیت نازل کی
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ
السندی کا بھی یہی کہنا ہے کہ یہ سن ٣ میں ہے
کتاب الاستيعاب في معرفة الأصحاب از ابن عبد البر کے مطابق
زينب بنت جحش زوج رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سے نکاح سن ٣ میں ہوا
وَقَالَ أَبُو عبيدة: إنه تزوجها فِي سنة ثلاث من التاريخ
جواب
سوره بقرہ کی آیت ١٠٢ ہے
واتبعوا ما تتلو الشياطين على ملك سليمان وما كفر سليمان ولكن الشياطين كفروا يعلمون الناس السحر وما أنزل على الملكين ببابل هاروت وماروت وما يعلمان من أحد حتى يقولا إنما نحن فتنة فلا تكفر فيتعلمون منهما ما يفرقون به بين المرء وزوجه وما هم بضارين به من أحد إلا بإذن الله ويتعلمون ما يضرهم ولا ينفعهم ولقد علموا لمن اشتراه ما له في الآخرة من خلاق ولبئس ما شروابه أنفسهم لو كانوا يعلمون
اور (یہود) لگے اس (علم) کے پیچھے جو شیطان مملکت سلیمان کے حوالے سے پڑھتے تھے اور سلیمان نے تو کفر نہیں کیا، بلکہ شیاطین نے کفر کیا جو لوگوں کو سحر سکھاتے تھے اور جو بابل میں فرشتوں هاروت وماروت پر نازل ہوا تھا تو (وہ بھی) اس میں سے کسی کو نہ سکھاتے تھے حتی کہ کہتے ہم فتنہ ہیں، کفر مت کر! لیکن وہ (یہودی) پھر بھی سیکھتے، تاکہ مرد و عورت میں علیحدگی کرائیں اور وہ کوئی نقصان نہیں کر سکتے تھے الا یہ کہ الله کا اذن ہو- اور وہ ان سے (سحر) سیکھتے جو نہ فائدہ دے سکتا تھا نہ نقصان- اوروہ جانتے تھے کہ وہ کیا خرید رہے ہیں، آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہ ہو گا اور بہت برا سودا کیا اگر ان کو پتا ہوتا
اس آیت کا ترجمہ کرتے وقت عالم لوگ بھی جہالت کا مظاہرہ کرتے ہیں
غیر مقلد عالم ثنا الله امرتسری تفسیر میں ترجمہ کرتے ہیں
غیر مقلدین کے شیخ عرب و عجم محمد بدیع الدین راشدی نے اس پر باقاعدہ کتاب لکھی ہے
http://kitabosunnat.com/kutub-library/qissa-haroot-o-maroot-aur-jadoo-ki-haqiqat
یہ غلطی عربی بولنے والے قرطبی نے بھی کی اور قرآن میں معنوی تحریف کی
اس کتاب میں محمد بدیع الدین راشدی نے قرطبی کا حوالہ دیا
یہاں غیر مقلدین کے شیخ عرب و عجم راشدی اور ثناء الله کا ترجمہ دیکھا جا سکتا ہے کہ کس قدر لغت عرب سے لا علم ہیں
سوال ہے کہ یہ ترجمے عربیت کے کن اصولوں کی بنیاد پر کیے گئے ہیں ؟
امام حاکم نے اپنی مستدرک ، 2/535 پر ایک روایت درج کی ہے
3822 – أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَعْقُوبَ الثَّقَفِيُّ، ثنا عُبَيْدُ بْنُ غَنَّامٍ النَّخَعِيُّ، أَنْبَأَ عَلِيُّ بْنُ حَكِيمٍ، ثنا شَرِيكٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ قَالَ: {اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ} [الطلاق: 12] قَالَ: سَبْعَ أَرَضِينَ فِي كُلِّ أَرْضٍ نَبِيٌّ كَنَبِيِّكُمْ وَآدَمُ كآدمَ، وَنُوحٌ كَنُوحٍ، وَإِبْرَاهِيمُ كَإِبْرَاهِيمَ، وَعِيسَى كَعِيسَى «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ»
[التعليق – من تلخيص الذهبي] 3822 – صحيح
ابن عباس نے سورہ طلاق کی 12ویں آیت کے تفسیر میں فرمایا کہ 7 زمین ہیں، اور ہر زمین میں تمہارے نبی کی مانند نبی ہے، آدم کی مانند آدم ہے، نوح کی مانند نوح ہے، ابراہیم کی مانند ابراہیم ہے، عیسی کی مانند عیسی ہے۔
امام حاکم فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے، اگرچہ لکھی نہیں گئی
علامہ الذھبی نے بھی اسے صحیح کہا ہے
یہ روایت بیہقی نے اپنی کتاب الاسماء و الصفات، 2/267 پر بھی درج کی ہے۔ نیز اس سے ملتی جلتی روایت اگلے صفحے پر درج کی ہے
832 – وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ، أنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِي، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحُسَيْنِ، ثنا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسَ، ثنا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: {اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ} [الطلاق: 12] قَالَ: فِي كُلِّ أَرْضٍ نَحْوَ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ. إِسْنَادُ هَذَا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا صَحِيحٌ، وَهُوَ شَاذُّ بِمُرَّةَ، لَا أَعْلَمُ لِأَبِي الضُّحَى عَلَيْهِ مُتَابِعًا وَاللَّهُ أَعْلَمُ
یعنی ابن عباس نے اس آیت کی ضمن میں فرمایا کہ ہر زمین پر ابراہیم علیہ السلام کی مانند نبی ہے۔
بیہقی فرماتے ہیں کہ یہ سند ابن عباس تک صحیح ہے تاہم انہوں نے اسے شاذ قرار دیا کہ مرۃ کے علاوہ کسی نے ابی ضحی سے اس کی متابعت میں روایت بیان نہیں کی
یاد رہے کہ یہ روایت تفسیر طبری، 23/469 پر بھی درج ہے۔ اور وہاں ایک اور روایت بھی ملتی ہے
حدثنا عمرو بن عليّ، قال: ثنا وكيع، قال: ثنا الأعمش، عن إبراهيم بن مهاجر، عن مجاهد، عن ابن عباس، في قوله: (اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الأرْضِ مِثْلَهُنَّ) قال: لو حدثتكم بتفسيرها لكفرتم وكفركم تكذيبكم بها.
ابن عباس نے فرمایا کہ اگر میں اس کی تفسیر تمہیں بیان کروں تو تم کفر کرو گے، اور کفر یہ ہے کہ تم اس کی تکذیب کرو گے
اب ہم دیکھتے ہیں کہ ابن کثیر نے البدایہ و النھایہ، طبع دارالفکر، 1/21 پر اس کے بارے میں کیا درج کیا ہے
فرماتے ہیں کہ
وَهَكَذَا مَا يَذْكُرُهُ كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَتَلَقَّاهُ عَنْهُمْ طَائِفَةٌ مِنْ عُلَمَائِنَا مِنْ أَنَّ هَذِهِ الْأَرْضَ مِنْ تُرَابٍ وَالَّتِي تَحْتَهَا مِنْ حَدِيدٍ وَالْأُخْرَى مِنْ حِجَارَةٍ مِنْ كِبْرِيتٍ وَالْأُخْرَى مِنْ كَذَا فَكُلُّ هَذَا إِذَا لَمْ يُخْبَرْ بِهِ وَيَصِحَّ سَنَدُهُ إِلَى مَعْصُومٍ فَهُوَ مَرْدُودٌ عَلَى قَائِلِهِ. وَهَكَذَا الْأَثَرُ الْمَرْوِيُّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ فِي كُلِّ أَرْضٍ مِنَ الْخَلْقِ مِثْلُ مَا فِي هذه حَتَّى آدَمَ كَآدَمِكُمْ وَإِبْرَاهِيمَ كَإِبْرَاهِيمِكُمْ فَهَذَا ذَكَرَهُ ابْنُ جَرِيرٍ مُخْتَصَرًا وَاسْتَقْصَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي الْأَسْمَاءِ وَالصِّفَاتِ وَهُوَ مَحْمُولٌ إِنْ صَحَّ نَقْلُهُ عَنْهُ على أنه أخذه ابن عباس رضى الله عنه عَنِ الْإِسْرَائِيلِيَّاتِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ
یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ اہل کتاب میں کثیر لوگوں نے بیان کیا اور ہمارے علمائ میں ایک گروہ ان سے ملا کہ زمین کی ایک تہہ مٹی کی ہے، اس کے نیچے لوہے کی ہے، اس کے نیچے پتھروں کی وغیرہ ۔ اب اگر اس کی خبر ہمیں معصوم نے نہیں دی اور ان تک سند صحیح نہیں ہے، تو یہ مردود قول ہے۔ اسی طرح کی ایک روایت ابن عباس سے بھی مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہر وہ زمین جو اس طرح سے بنائی گئی ہے، اسی کی مانند ہے حتی کہ آدم آدم کی مانند، ابراہیم ابراہیم کی مانند۔ یہ ابن جریر نے مختصر صورت میں درج کی اور بیہقی نے الاسماء و الصفات میں- اور اگر یہ روایت ابن عباس سے صحیح ہے تو ہم اسے اس پر محمول کریں گے کہ یہ ابن عباس نے اسرائیلیات سے اخذ کی ہے۔
جواب
راقم نے اپنی زندگی میں اہل کتاب کی کسی کتاب میں یہ قول نہیں دیکھا لہذا ابھی اس کو اسرائیلیات نہیں کہا جا سکتا
یہ قول متشابھات جیسا ہے اس کو مان لینے سے ہمارے دین میں کوئی فرق نہیں اتا نہ انکار کرنے سے اتا ہے
اللہ تعالی نے بہت سی باتیں محشر کے لئے چھوڑ دی ہیں کیونکہ ہم سب نہیں سمجھ اور جان سکتے
ہم آیات کو مانتے ہیں اس سے زیادہ ہماری سمجھ سے بالا ہے
ہماری کہکشاں
milky way
ہے
اس کے علاوہ عالم میں کہاں کہاں زندگی ہے ہم کو معلوم نہیں ہے اگر ایسا ہے تو کمال ہے
الله کر سکتا ہے
ابن ابی حاتم اپنی تفسیر کے ج 10، ص 3241-3242 پر ایک واقعہ نقل کرتے ہیں پورا واقعہ تو نقل نہیں کریں گے، جتنا ہمارے موضوع سے متعلق ہے، وہی ترجمہ کریں گے
فرماتے ہیں کہ
قَوْلُهُ تَعَالَى: وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَانَ وَأَلْقَيْنَا عَلَى كُرْسِيِّهِ جَسَدًا ثُمَّ أَنَابَ
18355 – وَبِسَنَدٍ قَوَيٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: أَرَادَ سُلَيْمَانُ عَلَيْهِ السَّلامُ أَنْ يَدْخُلَ الْخَلاءَ فَأَعْطَى الْجَرَادَةَ خَاتَمَهُ وَكَانَتِ امْرَأَتُهُ، وَكَانَتْ أَحَبَّ نِسَائِهِ إِلَيْهِ فَجَاءَ الشَّيْطَانُ فِي صُورَةِ سُلَيْمَانَ فَقَالَ لَهَا: هَاتِي خَاتَمِي فَأَعْطَتْهُ فَلَمَّا لَبِسَهُ دَانَتْ لَهُ الْجِنُّ وَالْإِنْسُ وَالشَّيَاطِينُ، فَلَمَّا خَرَجَ سُلَيْمَانُ عَلَيْهِ السَّلَامُ مِنَ الْخَلَاءِ قال لها: هَاتِي خَاتَمِي فَقَالَتْ: قَدْ أَعْطَيْتُهُ سُلَيْمَانَ قَالَ: أَنَا سُلَيْمَانُ قَالَتْ: كَذَبْتَ لَسْتَ سُلَيْمَانَ فَجَعَلَ لَا يَأْتِي أَحَدًا يَقُولُ: أَنَا سُلَيْمَانُ إِلا كَذَّبَهُ حَتَّى جَعَلَ الصِّبْيَانُ يَرْمُونَهُ بِالْحِجَارَةِ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ عَرَفَ أَنَّهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَقَامَ الشَّيْطَانُ يَحْكُمُ بَيْنَ النَّاسِ.
فَلَمَّا أَرَادَ اللَّهُ تَعَالَى أَنْ يَرُدَّ عَلَى سليمان عليه السلام سلطانه ألْقَى فِي قُلُوبِ النَّاسِ إِنْكَارَ ذَلِكَ الشَّيْطَانِ فَأَرْسَلُوا إِلَى نِسَاءِ «1» سُلَيْمَانَ عَلَيْهِ السَّلامُ فَقَالُوا لهن أيكون من سليمان شيء؟ قلنا: نَعَمْ إِنَّهُ يَأْتِينَا وَنَحْنُ حُيَّضٌ، وَمَا كَانَ يَأْتِينَا قَبْلَ ذَلِكَ
قوی سند کے ساتھ ابن عباس سے نقل کیا گیا ہے کہ جب سلیمان علیہ السلام بیت الخلاء میں جاتے، اپنی انگوٹھی جرادہ کو دیتے، جو کہ ان کی بیوی تھی، اور سب سے عزیز تھی۔ شیطان حضرت سلیمان کی صورت میں اس کے پاس آیا، اور کہا کہ مجھے میری انگوٹھی دو۔ تو اس نے دے دی۔ جب اس نے پہن لی، تو سب جن و انس و شیطان اس کے قابو میں آ گئے۔ جب سلیمان علیہ السلام نکلے، تو اس سے کہا کہ مجھے انگوٹھی دو۔ اس نے کہا کہ وہ تو میں سلیمان کو دے چکی ہوں۔ آپ نے کہا کہ میں سلیمان ہوں۔ اس نے کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو، تم سلیمان نہیں۔ پس اس کے بعد ایسا کوئی نہیں تھا کہ جس سے انہوں نے کہا ہو کہ میں سلیمان ہوں، اور ان کی تکذیب نہ کی گئی ہو۔ یہاں تک کہ بچوں نے انہیں پتھروں سے مارا۔ جب انہوں نے یہ دیکھا تو سمجھ گئے کہ یہ اللہ کا امر ہے۔ شیطان لوگوں میں حکومت کرنے لگا- جب اللہ نے اس بات کا ارادہ کیا کہ حضرت سلیمان کو ان کی سلطنت واپس کی جائے تو انہوں نے لوگوں کے دلوں میں القا کیا کہ اس شیطان کا انکار کریں۔ پس وہ ان کی بیویوں کے پاس گئے اور ان سے پوچھا کہ آپ کو سلیمان میں کوئی چیز نظر آئی؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! اب وہ ہمارے پاس حیض کے دونوں میں بھی آتے ہیں، جب کہ پہلے ایسا نہیں تھا۔
یہی واقعہ ابن کثیر نے بھی اپنی تفسیر، ج 7، ص 59-60 میں درج کیا ہے۔ سند کے بارے میں انہوں نے بھی یہی کہا ہے کہ
إسناده إلى ابن عباس رضي الله عنهما قَوِيٌّ، وَلَكِنَّ الظَّاهِرَ أَنَّهُ إِنَّمَا تَلَقَّاهُ ابْنُ عباس رضي الله عنهما إِنْ صَحَّ عَنْهُ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَفِيهِمْ طائفة لا يعتقدون نبوة سليمان عليه الصلاة والسلام فَالظَّاهِرُ أَنَّهُمْ يَكْذِبُونَ عَلَيْهِ، وَلِهَذَا كَانَ فِي هذا السِّيَاقِ مُنْكَرَاتٌ مِنْ أَشَدِّهَا ذِكْرُ النِّسَاءِ فَإِنَّ المشهور عن مجاهد وغير واحد من أئمة السلف أَنَّ ذَلِكَ الْجِنِّيَّ لَمْ يُسَلَّطْ عَلَى نِسَاءِ سليمان بل عصمهن الله عز وجل منه تشريفا وتكريما لنبيه عليه السلام. وَقَدْ رُوِيَتْ هَذِهِ الْقِصَّةُ مُطَوَّلَةً عَنْ جَمَاعَةٍ من السلف رضي الله عنهم كَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَزَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ وَجَمَاعَةٍ آخَرِينَ وَكُلُّهَا مُتَلَقَّاةٌ مِنْ قَصَصِ أَهْلِ الْكِتَابِ، والله سبحانه وتعالى أعلم بالصواب.
اس کی سند ابن عباس تک قوی ہے۔ لیکن بظاہر یہ ان کو اہل کتاب سے ملی جسے انہوں نے صحیح مانا۔ جب کہ ان میں ایک گروہ تھا جو کہ حضرت سلیمان کی نبوت کا منکر تھا۔ اور بظاہر ان کی تکذیب کرتا تھا۔ اور اس میں شدید منکر باتیں ہیں خاص کر بیویوں والی۔ اور مجاھد اور دیگر ائمہ سے مشہور ہے کہ جن ان کی بیویوں پر مسلط نہیں ہوا تھا۔ بلکہ اللہ نے ان کی عصمت رکھی اور شرف و تکریم بخشا۔ اور یہ واقعہ سلف میں ایک جماعت نے نقل کیا جیسا کہ سعید بن مسیت، زید بن اسلم، اور بعد کی ایک جماعت نے بھی جن کو یہ اہل کتاب کے قصوں سے ملا
جواب
تفسیر ابن حاتم ٩٠٠ صفحات کی کتاب ہے اس میں کسی بھی روایت پر سند قوی یا ضعیف یا صحیح نہیں ملتا
یہ واحد روایت 18355 ہے جس پر وَبِسَنَدٍ قَوَيٍ سند قوی ملتا ہے لیکن حیرت ہے کہ اس کی سند ابن ابی حاتم نے نہیں دی
لگتا ہے اس میں تصرف و تحریف ہوئی ہے جب سند ہے ہی نہیں تو قوی کیسے ہوئی؟
کتاب
: الدخيل في التفسير
كود المادة: GUQR5333
المرحلة: ماجستير
المؤلف: مناهج جامعة المدينة العالمية
الناشر: جامعة المدينة العالمية
کے مطابق
اس کی سند ہے
ومن أنكرها أيضًا ما قال ابن أبي حاتم: حدثنا علي بن حسين، قال: حدثنا محمد بن العلاء وعثمان بن أبي شيبة وعلي بن محمد، قال: حدثنا أبو معاوية، قال: أخبرنا الأعمش، عن المنهال بن عمرو، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس -رضي الله عنهما- في قوله – تعال ى-: {وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَانَ وَأَلْقَيْنَا عَلَى كُرْسِيِّهِ جَسَدًا ثُمَّ أَنَابَ}، قال: أراد سليمان -عليه الصلاة والسلام- أن يدخل الخلاء وكذا وكذا؛ ذكر الرواية التي سبق ذكرها
اس کی سند میں المنهال بن عمرو ہے جو ضعیف ہے
جواب
وہ من لم یحکم کی آیات یہود و نصاری کے تناظر میں ہیں کہ یہ حکم کرتے وقت وہ نہیں کرتے جو الله کا ہے
خاص کر توحید کے معاملے میں
————
سوره المائدہ آیت ٥٠ میں ہے
آپ ان کے درمیان اس (فرمان) کے مطابق فیصلہ فرمائیں جو اﷲ نے نازل فرمایا ہے اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں اور آپ ان سے بچتے رہیں کہیں وہ آپ کو ان بعض (احکام) سے جو اللہ نے آپ کی طرف نازل فرمائے ہیں پھیر (نہ) دیں، پھر اگر وہ (آپ کے فیصلہ سے) روگردانی کریں تو آپ جان لیں کہ بس اﷲ ان کے بعض گناہوں کے باعث انہیں سزا دینا چاہتا ہے، اور لوگوں میں سے اکثر نافرمان (ہوتے) ہیں
———–
یعنی اہل کتاب کی خواہش پر فیصلہ نہ کرو
مستدرک الحاکم کی روایت ہے
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمَوْصِلِيُّ، ثنا عَلِيُّ بْنُ حَرْبٍ، ثنا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حُجَيْرٍ، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: إِنَّهُ ” لَيْسَ بِالْكُفْرِ الَّذِي يَذْهَبُونَ إِلَيْهِ إِنَّهُ لَيْسَ كُفْرًا يَنْقِلُ عَنِ الْمِلَّةِ {وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ} [المائدة: 44] كُفْرٌ دُونَ كُفْرٍ
ابن عباس رضی الله عنہ نے کہا : جو اس طرف گئے (اغلبا خوارج مراد ہیں) یہ کفر نہیں- یہ کفر نہیں جو ان کو ملت سے نکالا جائے
اور وہ جو الله کے نازل کردہ حکم کے مطابق حکم نہ کریں وہ کافر ہیں
کفر (امیر)، کفر(باللہ) سے الگ ہے
سفیان ثوری کی تفسیر کے مطابق ابن عباس اس آیت پر کہتے
قال: هي كفره، وليس كمن كفر بالله واليوم الآخر
یہ انکار تو ہے لیکن الله اور یوم آخرت کے انکار جیسا نہیں ہے
تفسیر عبد الرزاق میں ہے
عبد الرزاق في “تفسيره” (1 / 191) عن معمر، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، قال: سئل ابن عباس عن قوله: {وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ الله فأولئك هم الكافرون} ، قال: هي كفر، قال ابن طاوس: وليس كمن كفر بالله وملائكته وكتبه ورسله.
ابن عباس سے اس آیت پر سوال ہوا کہا یہ کفر ہے- ابن طاوس نے کہا لیکن الله اور اس کی کتابوں اور فرشتوں کا کفر کرنے جیسا نہیں ہے
خوارج کہتے تھے کہ جس نے قرآن کی کسی آیت پر اجتہادی غلطی کی وہ بھی کافر ہے اور اس آیت کو لگاتے اس میں مسئلہ یہ تھا کہ وہ اس آیت کو اصحاب رسول پر لگا رہے تھے جن کے ایمان پر قرآن گواہ ہے – اصحاب رسول نے بردباری کا مظاہرہ کیا اور اس پر کہا کہ خوارج کافر نہیں ہیں وہ امیر یعنی علی کی اطاعت سے خارجی ہیں لیکن ان کا یہ انکار ، کفر نہیں ہے
یا کیہہ لیں ابن عباس کے نزدیک خوارج کافر نہیں تھے
اور یہاں تک کہ کوئی غلط موقف اپنا لے لیکن الله ، اس کی کتاب ، قبلہ ، رسولوں اور فرشتوں کا اقراری ہو تو کافر نہیں تھا
خیال رہے کہ سن ٣٧ ہجری میں خوارج اور اصحاب رسول میں عقیدے کوئی اختلاف نہیں تھا بلکہ معاملات پر تھا جو بگڑ کر تاویل قرآن کا اختلاف بن گیا
بیہقی نے نہ جانے کس طرح اس کو صفات و اسماء کی بحث بنا دیا
سنن الکبری بیہقی نے اس قول پر لکھا ہے
قَالَ الشَّيْخُ رَحِمَهُ اللهُ: ” فَكَأَنَّهُمْ أَرَادُوا بِتَكْفِيرِهِمْ مَا ذَهَبُوا إِلَيْهِ مِنْ نَفْيِ هَذِهِ الصِّفَاتِ الَّتِي أَثْبَتَهَا اللهُ تَعَالَى لِنَفْسِهِ وَجُحُودِهِمْ لَهَا بِتَأْوِيلٍ بَعِيدٍ , مَعَ اعْتِقَادِهِمْ إِثْبَاتَ مَا أَثْبَتَ اللهُ تَعَالَى , فَعَدَلُوا عَنِ الظَّاهِرِ بِتَأْوِيلٍ , فَلَمْ يَخْرُجُوا بِهِ عَنِ الْمِلَّةِ وَإِنْ كَانَ التَّأْوِيلُ خَطَأً , كَمَا لَمْ يَخْرُجْ مَنْ أَنْكَرَ إِثْبَاتَ الْمُعَوِّذَتَيْنِ فِي الْمَصَاحِفِ كَسَائِرِ السُّوَرِ مِنَ الْمِلَّةِ
قَالَ الشَّيْخُ رَحِمَهُ اللهُ: ” فَكَأَنَّهُمْ أَرَادُوا بِتَكْفِيرِهِمْ مَا ذَهَبُوا إِلَيْهِ مِنْ نَفْيِ هَذِهِ الصِّفَاتِ الَّتِي أَثْبَتَهَا اللهُ تَعَالَى لِنَفْسِهِ وَجُحُودِهِمْ لَهَا بِتَأْوِيلٍ بَعِيدٍ , مَعَ اعْتِقَادِهِمْ إِثْبَاتَ مَا أَثْبَتَ اللهُ تَعَالَى , فَعَدَلُوا عَنِ الظَّاهِرِ بِتَأْوِيلٍ , فَلَمْ يَخْرُجُوا بِهِ عَنِ الْمِلَّةِ وَإِنْ كَانَ التَّأْوِيلُ خَطَأً , كَمَا لَمْ يَخْرُجْ مَنْ أَنْكَرَ إِثْبَاتَ الْمُعَوِّذَتَيْنِ فِي الْمَصَاحِفِ كَسَائِرِ السُّوَرِ مِنَ الْمِلَّةِ
پس وہ لوگ ان کی تکفیر کا ارادہ رکھتے تھے ان کے لئے جو اس طرف گئے کہ صفات کی نفی کرتے جو الله نے اپنے لئے ثابت کی ہیں اور ان کی تاویل بعید پر اس عقیدے کے ساتھ کہ جو الله نے ثابت کیا ہے اس کو مانیں … پس (ابن عباس) ان کو ملت سے نہیں نکالا باوجود یہ کہ ان کی تاویل غلط تھی – ایسے ہی جو سوره فلق و الناس کا اقرار نہیں کرتے ان بھی ملت سے خارج نہیں کیا گیا
و الله اعلم
پھر اس روز جن و انس سے ان کے گناہ کا سوال نہ ہو گا
سورۃ الرحمن آیت ۳۹
حالانکه وہ دن حساب کا دن ہے
پلیز اس آیت کی کچھ وضاحت کر دیں
جواب
روز محشر الله تعالی ہر انسان کا نامہ عمل اس پر پیش کر دیں گے اور میزان میں عمل رکھ کر دکھا دیا جائے گا کہ کیا فیصلہ ہے
ہر ہر بندے سے الله تعالی سوال نہیں کریں گے
کفار کے چہرے سیاہ ہوں گے اور مومنوں کے زندہ ہونے پر سفید
کفار سے سوال ہو گا
فَوَرَبِّكَ لَنَسْأَلَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ
تمھارے رب کی قسم ہم ان سب سے سوال کریں گے اس پر جو انہوں نے عمل کیا
امام بخاری صحیح میں کہتے ہیں
وقال عدة من أهل العلم في قوله : ” فوربك لنسألنهم أجمعين عما كانوا يعملون ” عن لا إله إلا الله
اہل علم کہتے ہیں آیت ہم ضرور سوال کریں گے ان سب سے جو یہ عمل کرتے ہیں یہ کوئی الہ نہیں سوائے الله کے سے متعلق ہے
لہذا علماء کہتے ہیں سوره الرحمان کی آیات سے مراد صرف مومن ہیں
—-
محشر میں فیصلہ کے بعد کفار کا مذاق اڑانے کے لئے بھی سوال ہو گا
وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْئُولُونَ
ذرا ان کو روکو ان سے سوال کرنے ہیں
و الله اعلم
——-
یا الله یا مالک الملک اپنے حساب اور سوال سے بچا آمین
4987 . حدثنا موسى بن إسماعيل، عن إبراهيم بن سعد، حدثنا ابن شهاب، عن عبيد بن السباق، أن زيد بن ثابت ـ رضى الله عنه ـ قال أرسل إلى أبو بكر مقتل أهل اليمامة فإذا عمر بن الخطاب عنده قال أبو بكر ـ رضى الله عنه ـ إن عمر أتاني فقال إن القتل قد استحر يوم اليمامة بقراء القرآن وإني أخشى أن يستحر القتل بالقراء بالمواطن، فيذهب كثير من القرآن وإني أرى أن تأمر بجمع القرآن. قلت لعمر كيف تفعل شيئا لم يفعله رسول الله صلى الله عليه وسلم قال عمر هذا والله خير. فلم يزل عمر يراجعني حتى شرح الله صدري لذلك، ورأيت في ذلك الذي رأى عمر. قال زيد قال أبو بكر إنك رجل شاب عاقل لا نتهمك، وقد كنت تكتب الوحى لرسول الله صلى الله عليه وسلم فتتبع القرآن فاجمعه فوالله لو كلفوني نقل جبل من الجبال ما كان أثقل على مما أمرني من جمع القرآن قلت كيف تفعلون شيئا لم يفعله رسول الله صلى الله عليه وسلم قال هو والله خير فلم يزل أبو بكر يراجعني حتى شرح الله صدري للذي شرح له صدر أبي بكر وعمر ـ رضى الله عنهما ـ فتتبعت القرآن أجمعه من العسب واللخاف وصدور الرجال حتى وجدت آخر سورة التوبة مع أبي خزيمة الأنصاري لم أجدها مع أحد غيره {لقد جاءكم رسول من أنفسكم عزيز عليه ما عنتم} حتى خاتمة براءة، فكانت الصحف عند أبي بكر حتى توفاه الله ثم عند عمر حياته ثم عند حفصة بنت عمر ـ رضى الله عنه ـ.
روایت میں عبید ابن السباق مجہول النسب راوی شامل ھے جس سے ابن شھاب زھری روایت کر رھا ھے ، ابن شہاب زھری جیسے شخص کا نام آتے ھی ھمارے محدثین کی آنکھوں پر تقدس کی پٹی چڑھ جاتی ھے اور اس کے بعد وہ جو کچھ ان کو کھلا دیتا ھے بلا حیل و حجت کھا لیتے ھیں قرآن جیسی خدا کی حفاظت میں محفوظ کتاب پر وار کرنے کے لئے ایک ایسے شخص کی بات پر اعتبار کر لینا جس کے باپ دادا پردادا کا نام و نسب کسی کو پتہ نہیں ، جس کی سوائے اس روایت کے جو کہ سرے سے جھوٹی اور من گھڑت ھے ، اور دوسری روایت جو مذی سے متعلق ھے جو کہ خلاف عقل ھے ،کوئی تیسری حدیث ذخیرہ حدیث میں نہیں پائی جاتی یہ شخص ھمیشہ اس سے روایت کرتا ھے جو اس کی پیدائش سے پہلے مر چکا ھوتا ھے ،،(عبید ابن السباق پیدائش 50 ھجری بقول امام بخاری در تاریخ کبیر – تاریخ وفات زید بن ثابتؓ 48 ھجری بقول ابن حجر بقلم خود ) اس عبید ابن سباق کواس کی پیدائش سے دو سال پہلے رحمِ مادر میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہہ رہے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے بلوایا اور عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس تھے ، جنگ یمامہ کے زمانہ میں اورکہا کہ اے زید یہ عمر میرے پاس آیا ہے اور کہہ رہا ہے کہ جنگ میں بہت خونریزی ہوئی ہے اور بہت سے قرآن کے قاری شہید ہوگئے ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ اور جنگوں میں بھِ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہ سکتا ہے جس کی وجہ سے قرآن کا بڑا ذخیرہ یا بہت زیادہ قرآن ضائع ہوجائے گا اس لئے عمر کہتا ہے کہ میں اس لئے آیا ہوں تاکہ قرآن کے جمع کا حکم دیا جائے –تو میں نے عمر کو کہا کہ میں وہ کام کیسے کروں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہں کیا تو عمر نے کہا کہ یہ کام بہت ضروری ہے اور بہتر اور خیر ہے اور اس پر اصرار کرتا رہا تاکہ اللہ پاک نے اس معاملہ میں میرا سینہ کھول دیا اور شرح صدر کردیا – زید نے کہا کہ مجھے ابوبکر نے کہا کہ تو نوجوان آدمی ہے اور ہم نے تجھے کسی تہمت میں بھی ملوث نہیں پایا اور تم رسول اللہ کے لئے بھی وحی لکھتے تھے اس لئے قرآن کی تلاش کرو اور پھر اس کو جمع کرو-سو اللہ کی قسم اگر یہ لوگ مجھے پہاڑ کو ادھر ادھر کرنے کو کہتے تو مجھے اتنا بھاری نہ لگتا جتنا یہ جمع القرآن والا کام بھاری ہے- تو میں نے ان کو کہا کہ آپ یہ کام کیسے کع رہے ہو جو رسول نے نہیں کیا تو ابوبکر نے کہا کہ قسم سے یہ اچھا کام ہے اور مجھے بار بار کھتے رہے تاکہ میرا بھی شرح صدر ہوگیا پھر میں جمع قرآن کے پیچھے پڑگیا اور کھجور کے لکڑیوں، ہڈیوں ، پتھروں اور لوگوں کے سینوں سے قرآن کو جمع کیا اور مجھے سورہ توبہ کی آخری آیت نہیں مل رہ تھی آخر وہ صرف ایک ہی صحابی ابو خزیمہ انصاری کے پاس ملیں – یعنی لقد جاءکم رسول من انفسکم سے آخر سورہ تک – پھر یہ جمع کردہ صحیفے ابوبکر کے پاس رہے ان کی وفات کے بعد عمر کے پاس اور ان کی وفات کے بعد ام المومنین حفصہ بنت عمر کے پاس رہے-
۔
1- عبید ابن سباق حضرت زید بن ثابتؓ کی وفات کے دو سال بعد پیدا ھوا ھے ، امام بخاری اگر ابن شھاب کے تقدس سے ھپناٹائز نہ ھوتے اور ابن شھاب سے آگے اس کے شیخ عبید ابنِ السباق کی حقیقت پر نظر مار لیتے تو اس کے داؤ میں کبھی نہ آتے ، جبکہ خود امام بخاری اپنی تاریخ کبیر میں اس راوی کی پیدائش 50 ھجری اور وفات 118 ھجری 68 سال کی عمر میں لکھتے ھیں تو پھر وہ اپنے پیدا ھونے سے دو سال پہلے 48 ھجری میں فوت ھو جانے والے صحابی سے روایت پر لازم چونک جاتے ،، عجیب تماشہ ھے کہ اس کے ترجمے میں لوگ یہ تو لکھ دیتے ھیں کہ اس نے ام المومنین سے بھی حدیث روایت کی ھے ، جبکہ ساری امھات المومنین اس کی پیدائش سے پہلے یا بچپن میں فوت ھو گئ تھیں ،، ابن عباس روایت کا ذکر ھے مگر اس کی کوئی روایت ذخیرہ حدیث میں موجود نہیں جو ابن عباس سے مروی ھو یا امھات المومنین سے مروی ھو ، اس کے ترجمے میں یہ بڑے بڑے نام ڈالنے کا مقصد صرف اس کے شیئر کا گراف بلند کرنا مقصود ھے ، ورنہ بخاری کا راوی ھو اور ایک حدیث بیان کر کے غائب ھو جائے ، اور بعد والے اگر امام بخاری کی عظمت کی پٹی کا ایک کونا اٹھا کر ایک آنکھ سے بھی اس عبید کی حقیقت کی چھان بین کر لیتے تو کبھی قرآن پر ایک کاری وار کا ذریعہ نہ بنتے ۔
جواب
طبقات ابن سعد کے مطابق
عُبَيْدُ بْنُ السَّبَّاقِ الثَّقَفِيُّ. رَوَى عَنْ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ فِي الْمَذْيِ , وَرَوَى عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ
عُبَيْدُ بْنُ السَّبَّاقِ الثَّقَفِيُّ نے سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ رضی الله عنہ سے الْمَذْيِ کے حوالے سے روایت کیا ہے اور ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنہ سے بھی
امام بخاری کے مطابق ام المومنین جویرہ رضی الله عنہا سے روایت ہے اور زید بن ثابت رضی الله عنہ سے بھی
ابن ابی حاتم کہتے ہیں
عبيد بن السباق روى عن اسامة بن زيد وسهل بن حنيف وابن عباس وميمونة روى عنه الزهري سمعت أبي يقول ذلك
ان اصحاب سے بھی انہوں نے روایت کیا ہے
———–
جن صاحب کی یہ تحریر ہے ان کو اعتراض اس پر ہے کہ عُبَيْدُ بْنُ السَّبَّاقِ الثَّقَفِيُّ سن ٥٠ ھ میں پیدا ہوا – بقول ان کے ایسا تاریخ الکبیر از امام بخاری میں ہے – لیکن راقم کو یہ قول تاریخ الکبیر میں نہیں ملا
———
قرآن میں ہے کہ مشورہ کرو- لیکن یہ ان معاملات میں ہے جن میں حاکم ضروری سمجھے بعض اوقات
Executive Order
جاری کیا جاتا ہے
اسی لئے امیر کی اطاعت کا حکم ہے
اولوالامر کی اطاعت کا انکار اس پر نہیں ہوتا کہ انہوں نے مشورہ تو کیا ہی نہیں
مثلا جو زکوه نہیں دیے رہے ان سے قتال ابو بکر رضی الله عنہ کا
Executive Order
ہے
اور اسی طرح جمع القرآن بھی
—————————-
موصوف نے کہا
9- اب مزید وار کیئے جا رھے ھیں تا کہ ثابت کیا جائے کہ سورتیں اور آیتیں خلفاء راشدین نے اپنی پسند کے مطابق ترتیب دیں ،مثلاً ایک روایت میں کہلوایا گیا کہ جب سورہ توبہ کے آخر والی دو آیات ملیں تو عمؓر نے کہا کہ اگر یہ تین آیتیں ھوتیں تو ھم ان کی نئ سورت بنا دیتے مگر چونکہ یہ دو ھیں لہذا ان کو آخری نازل ھونے والی سورت میں رکھ دو ،، گویا عمر و ابوبکر بیٹھ کر آیتوں کی تعداد و ترتیب طے کر رھے تھے
—-
راقم کہتا ہے ایک صحیح روایت کو غلط ثابت کرنے کے لئے ایک ضعیف سے استدلال قائم کیوں کیا جا رہے ہے
اس کی روایت کی سند صحیح نہیں
کتاب المصاحف از ابن ابی داود کی روایت ہے
حَدَّثَنا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى قَالَ: حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ قَالَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادٍ، عَنْ أَبِيهِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ: أَتَى الْحَارِثُ بْنُ خُزَيْمَةَ بِهَاتَيْنِ الْآيَتَيْنِ مِنْ آخِرِ السُّورَةِ: {لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ} إِلَى قَوْلِهِ: {رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ} [التوبة: 129] إِلَى عُمَرَ فَقَالَ: مَنْ مَعَكَ عَلَى هَذَا؟ قَالَ: لَا أَدْرِي وَاللَّهِ إِلَّا أَنِّي أَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَوَعَيْتُهَا وَحَفِظْتُهَا، فَقَالَ عُمَرُ: ” وَأَنَا أَشْهَدُ لَسَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: لَوْ كَانَتْ ثَلَاثَ آيَاتٍ لَجَعَلْتُهَا سُورَةً عَلَى حِدَةٍ، فَانْظُرُوا سُورَةً مِنَ الْقُرْآنِ فَأَلْحِقُوهُمَا، فَأَلْحَقْتُهَا فِي آخِرِ بَرَاءَةَ ”
سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہے اور وہ ضعیف ہے
عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ نے کہا الْحَارِثُ بْنُ خُزَيْمَةَ دو آیات لے کر عمر کے پاس گئے وغیرہ
سوال وہی اتا ہے کہ کیا الْحَارِثُ بْنُ خُزَيْمَةَ کی وفات سے پہلے عباد نے ان سے سنا یا نہیں؟
بھائی یہ کسی جاہل کی بات ہے
الله تعالی نے قرآن میں سوره الاعلی فرمایا
إن هذا لفي الصحف الأولى صحف إبراهيم وموسى
یہ پچھلے صحف میں بھی تھا موسی و ابراہیم کے مصحف میں
اسی طرح کہا
وآتينا داود زبورا
اور داود کو زبور دی
النساء ١٦٣ میں
و کتبنا له فى الألواح من کل شىء موعظة)
اور ہم نے موسی کے لئے الواح پر نصحت کی ہر چیز لکھ دی
الاعراف آیت ١٤٥ میں
توریت الله تعالی نے اپنی قدرت سے لکھی کہ کلام الہی کے الفاظ الواح پر ظاہر ہوتے گئے اس میں کسی فرشتہ کا ذکر نہیں ملتا کہ اس نے لکھا
پھر قرآن عربی میں ہے اور انبیاء میں عربی بولنے والے صرف رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ہمیں علم ہے باقی کی زبان بھی الگ ہیں