متفرق ٢

جواب

أَئِمَّةً مُضِلِّينَ یعنی گمراہ کرنے والے ائمہ یا حکمران مراد ہیں کیونکہ دور نبوی میں ائمہ کا لفظ امراء کے لئے استمعال ہوتا تھا نہ کہ علماء کے لئے

ایک دوسری حدیث میں ہے
انظر صَحِيح الْجَامِع: 1553 , والصحيحة: 1127
إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي فِي آخِرِ زَمَانِهَا: إيمَانًا بِالنُجُومِ , وَحَيْفَ السُّلْطَانِ , وَتَكْذِيبًا بِالْقَدَرِ
آخری زمانے میں مجھے خوف ہے ظالم سلطان سے

اور ایک حدیث میں ہے
وَعَنْ عمرو بن سفيان السلمي – رضي الله عنه – قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ – صلى الله عليه وسلم -: ” مَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي إِلَّا ثَلَاثا: شُحٌّ مُطَاعٌ (1) وَهَوًى مُتَّبَعٌ، وَإِمَامٌ ضَالٌّ
خوف ہے لالچی کا ، بہکے ہوئے کا، اور امام گمراہ کا

امام یعنی حاکم

صحیح بخاری میں ہے
وَعَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ قَالَ: دَخَلَ أَبُو بَكْرٍ – رضي الله عنه – عَلَى امْرَأَةٍ مِنْ أَحْمَسَ , يُقَالُ لَهَا: زَيْنَبُ , فَرَآهَا لَا تَكَلَّمُ , فَقَالَ: مَا لَهَا لَا تَكَلَّمُ؟ , قَالُوا: حَجَّتْ مُصْمِتَةً (1) فَقَالَ لَهَا: تَكَلَّمِي , فَإِنَّ هَذَا لَا يَحِلُّ, هَذَا مِنْ عَمَلِ الْجَاهِلِيَّةِ , فَتَكَلَّمَتْ فَقَالَتْ: مَنْ أَنْتَ؟ , قَالَ: امْرُؤٌ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ , قَالَتْ: أَيُّ الْمُهَاجِرِينَ؟ , قَالَ: مِنْ قُرَيْشٍ , قَالَتْ: مِنْ أَيِّ قُرَيْشٍ أَنْتَ؟ , قَالَ: إِنَّكِ لَسَئُولٌ (2) أَنَا أَبُو بَكْرٍ , فَقَالَتْ: مَا بَقَاؤُنَا عَلَى هَذَا الْأَمْرِ الصَّالِحِ (3) الَّذِي جَاءَ اللهُ بِهِ بَعْدَ الْجَاهِلِيَّةِ؟ , قَالَ: بَقَاؤُكُمْ عَلَيْهِ مَا اسْتَقَامَتْ بِكُمْ أَئِمَّتُكُمْ (4)
قَالَتْ: وَمَا الْأَئِمَّةُ؟ , قَالَ: أَمَا كَانَ لِقَوْمِكِ رُءُوسٌ وَأَشْرَافٌ يَأمُرُونَهُمْ فَيُطِيعُونَهُمْ؟ , قَالَتْ: بَلَى , قَالَ: فَهُمْ مِثْلُ أُولَئِكِ عَلَى النَّاسِ

ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے اور ان سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ قبیلہ احمس کی ایک عورت سے ملے ان کا نام زینب بنت مہاجر تھا۔ آپ نے دیکھا کہ وہ بات ہی نہیں کرتیں دریافت فرمایا کیا بات ہے یہ بات کیوں نہیں کرتیں؟ لوگوں نے بتایا کہ مکمل خاموشی کے ساتھ حج کرنے کی منت مانی ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: اجی بات کرو اس طرح حج کرنا تو جاہلیت کی رسم ہے، چنانچہ اس نے بات کی اور پوچھا آپ کون ہیں؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں مہاجرین کا ایک آدمی ہوں۔ انہوں نے پوچھا کہ مہاجرین کے کس قبیلہ سے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ قریش سے، انہوں نے پوچھا قریش کے کس خاندان سے؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس پر فرمایا تم بہت پوچھنے والی عورت ہو، میں ابوبکر ہوں۔ اس کے بعد انہوں نے پوچھا جاہلیت کے بعد اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں یہ دین حق عطا فرمایا ہے اس پر ہم (مسلمان) کب تک قائم رہ سکیں گے؟ آپ نے فرمایا اس پر تمہارا قیام اس وقت تک رہے گا جب تک تمہارے
امام (الْأَئِمَّةُ) حاکم سیدھے رہیں گے۔ اس خاتون نے پوچھا امام (الْأَئِمَّةُ) سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا: کیا تمہاری قوم میں سردار اور اشراف لوگ نہیں ہیں جو اگر لوگوں کو کوئی حکم دیں تو وہ اس کی اطاعت کریں؟ اس نے کہا کہ کیوں نہیں ہیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ امام (الْأَئِمَّةُ) سے یہی مراد ہیں۔

آیت کے ترجمے بتاتے ہیں کہ .نبیوں کا قتل.ہوتا تھا اور بتاتے ہیں نہیں ہوتا ہے .

1. اور نبیوں کو نا حق قتل کرتے ہیں (2:61) یہ آیت بتارہی ہے کہ نبیوں کا قتل ہوتا تھا ۔ نیچے کی آیت دیکھیے ۔
ہم اپنے پیغمبروں اور ایمان والوں کو بچالیتے ہیں (10:103) اس آیت میں بتایا جارہا ہے پیغمبروں کو اور ایمان والوں کو الله بچا لیتے ہیں ۔
(2:61)اور (10:103) کی یہ آیتیں کے ترجمے بھی آپسمیں ٹکرارہی ہیں ۔
غور کرنے کی بات ہے پیغمبر کا قتل ممکن ہی نہیں ، کیونکہ الله اپنا پیغام دھیرے دھیرے نبی پر اتارتا ہے ۔اگر اس درمیان میں نبی کا قتل ہوتا ہے نبی کا پیغام ادھورا رہ جاتا ہے ۔اور دین نا مکمل کہلائیگا ۔ اور اگر پیغام مکمل ہوجاتا ہے تو نبی کا کام ختم ہوجاتا ہے ۔ پھر دشمن کیوں قتل کریگا ۔

اور نبییوں کو ناحق قتل کرتے ہیں ۔ کا صحیح ترجمہ نبییوں کو ناحق ذلیل کرنے کی تدبیریں کرتے تھے .نبیوں کے پیغام کو سنا ان سنا کرنا۔۔ بھائی اس کا جواب عنایت فرما دیں

جواب

ایک لوگوں کا رسولوں کو قتل کرنا
دوم الله کا عذاب سے قوم كه هلاك کرنا

سوره یونس میں الله کے عذاب کا ذکر ہے

فَهَلْ يَنْتَظِرُونَ إِلَّا مِثْلَ أَيَّامِ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِهِمْ قُلْ فَانْتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُنْتَظِرِينَ (102) ثُمَّ نُنَجِّي رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا كَذَلِكَ حَقًّا عَلَيْنَا نُنْجِ الْمُؤْمِنِينَ (103)
تو کیا یہ اس کے منتظر ہیں سوائے اس کے کہ ان دنوں کی طرح ہو ان سے قبل پر گزرے- کہو پس انتظار کرو میں تمھارے ساتھ انتظار کروں گا پھر ہم اپنے رسولوں کو بچا لیں گے اور جو ان کے ساتھ ایمان لائے اور ہم پر حق ہے کہ ہم مومنوں کوبچا لیں

سوره بقرہ میں ہے کہ لوگوں نے رسولوں کو قتل کیا جو عذاب الہی نہیں ہے آزمائش ہے

انبیاء کا قیل ہوتا رہا ہے بنی اسرائیل کی تاریخ اس پر گواہ ہے – اور رسولوں کا بھی قتل ہوا ہے

سوره مائدہ میں ہے
كُلَّمَا جَاءَهُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَى أَنْفُسُهُمْ فَرِيقًا كَذَّبُوا وَفَرِيقًا يَقْتُلُونَ
جب بھی ان کے پاس کوئی رسول جو ان کے دل کو نہیں بھایا تو (رسولوں کے) ایک گروہ کا انکار کیا اور (رسولوں کے) ایک گروہ کو قتل کیا

قرآن میں ہے
وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل أفإن مات أوقتل انقلبتم على أعقابكم..
اور محمد نہیں مگر ایک رسول- اس سے قبل بھی رسول گزرے ہیں تو کیا اگر یہ موت سے ہم کنار ہو جائے یا قتل ہو جائے تو تم اپنی گردنوں پر پلٹ جاؤ گے ؟

سوره ال عمران
قُلْ قَدْ جَاءَكُمْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِي بِالْبَيِّنَاتِ وَبِالَّذِي قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوهُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِين
کہو بے شک مجھ سے قبل بھی بینات لے کر رسول آئے اور جن کا تم نے قتل کیا – تو کیوں قتل کیا ؟ اگر تم سچے ہو

نبی اور رسول ہم معنی ہیں کوئی فرق نہیں- نبی مطلب جو غیب کی خبر دے – رسول مطلب جو الله کا سفیر ہو
تفسیر سوره ال عمران
[Exegesis V. 139
⇓ Two Illuminated Clouds of Quran
https://www.islamic-belief.net/literature/english-booklets/
میں اس پر تبصرہ ہے

جواب

{إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَنْ يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذلِكَ سَبِيلًا (150) أُولئِكَ هُمُ الْكافِرُونَ حَقًّا وَأَعْتَدْنا لِلْكافِرِينَ عَذابًا مُهِينًا (151)}

اغلبا یہ یہود و نصاری سے متعلق ہے کہ وہ انبیاء میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو شمار نہیں کرتے اور عرب میں انے والے انبیاء مثلا صالح اور ہود علیہ السلام کے بھی انکاری ہیں
رسول الله یا صالح یا ہود علیھما السلام واقعی الله کے نبی تھے یہ ہمیں قرآن سے پتا چلا ہے لیکن یہود کہتے ان کا توریت میں یا کتب سماوی میں ذکر نہیں اس لئے نہیں مانتے

طبری نے تفسیر میں یہی کہا ہے
قال أبو جعفر: يعني بقوله جل ثناؤه:”إن الذين يكفرون بالله ورسله”، من اليهود والنصارى=”ويريدون أن يفرقوا بين الله ورسله”، بأن يكذبوا رسل الله الذين أرسلهم إلى خلقه بوحيه، ويزعموا أنهم افتروا على ربهم. (1) وذلك هو معنى إرادتهم التفريقَ بين الله ورسله، بنِحْلتهم إياهم الكذب والفريةَ على الله، وادِّعائهم عليهم الأباطيل=”ويقولون نؤمن ببعض ونكفر ببعض”، يعني (2) أنهم يقولون:”نصدِّق بهذا ونكذِّب بهذا”، كما فعلت اليهود من تكذيبهم عيسى ومحمدًا صلى الله عليهما وسلم، وتصديقهم بموسى وسائر الأنبياء قبله بزعمهم. وكما فعلت النصارى من تكذيبهم محمدًا صلى الله عليه وسلم، وتصديقهم بعيسى وسائر الأنبياء قبله بزعمهم=”ويريدون أن يتخذوا بين ذلك سبيلا”، يقول: ويريد المفرِّقون بين الله ورسله، الزاعمون أنهم يؤمنون ببعض ويكفرون ببعض، أن يتخذوا بين أضعاف
قولهم:”نؤمن ببعض الأنبياء ونكفر ببعض”=”سبيلا”، يعني: طريقًا إلى الضلالة التي أحدثوها، والبدعة التي ابتدعوها، يدعون أهل الجهل من الناس إليه

یعنی اہل کتاب کے جھوٹے علماء جو حق کو چھپا رہے ہیں وہ جہنمی ہیں

أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ
الله اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کرنے والے

انبیاء میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی گئی
تلك الرسل فضلنا بعضهم على بعض منهم من كلم الله ورفع بعضهم درجات وآتينا عيسى ابن مريم البينات وأيدناه بروح القدس ولو شاء الله ما اقتتل الذين من بعدهم من بعد ما جاءتهم البينات ولكن اختلفوا فمنهم من آمن ومنهم من كفر ولو شاء الله ما اقتتلوا ولكن الله يفعل ما يريد

جتنا قرآن مين اور حدیث میں اس فضیلت کا ذکر آیا صحیح ہے
لیکن یہ کہنا کہ ہمارے نبی تمام انبیاء سے افضل ہیں وہ کائنات کی تخلیق کی وجہ ہیں یا سرور کائنات ہیں یہ سب غلو ہے

نصرانيون کو کہا گیا کہ تین رب یا الوہیت مسیح کا عقیدہ غلو ہے
يا أهل الكتاب لا تغلوا في دينكم ولا تقولوا على الله إلا الحق إنما المسيح عيسى ابن مريم رسول الله وكلمته ألقاها إلى مريم وروح منه فآمنوا بالله ورسله ولا تقولوا ثلاثة انتهوا خيرا لكم إنما الله إله واحد سبحانه أن يكون له ولد له ما في السموات وما في الأرض وكفى بالله وكيلا

صحيح مسلم: كِتَابُ اللِّبَاسِ وَالزِّينَةِ (بَابُ تَحرِیمِ لُبسِ الحَرِیرِوَغَیرِ ذٰالِکَ لِلرِّجَالِ) صحیح مسلم: کتاب: لباس اور زینت کے احکام (باب: مردوں کے لیے ریشم وغیرہ (کی مختلف اقسام )پہننا حرا م ہے ۔)

5409 .

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ مَوْلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ وَكَانَ خَالَ وَلَدِ عَطَاءٍ قَالَ أَرْسَلَتْنِي أَسْمَاءُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ فَقَالَتْ بَلَغَنِي أَنَّكَ تُحَرِّمُ أَشْيَاءَ ثَلَاثَةً الْعَلَمَ فِي الثَّوْبِ وَمِيثَرَةَ الْأُرْجُوَانِ وَصَوْمَ رَجَبٍ كُلِّهِ فَقَالَ لِي عَبْدُ اللَّهِ أَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنْ رَجَبٍ فَكَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ الْأَبَدَ وَأَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنْ الْعَلَمِ فِي الثَّوْبِ فَإِنِّي سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّمَا يَلْبَسُ الْحَرِيرَ مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ فَخِفْتُ أَنْ يَكُونَ الْعَلَمُ مِنْهُ وَأَمَّا مِيثَرَةُ الْأُرْجُوَانِ فَهَذِهِ مِيثَرَةُ عَبْدِ اللَّهِ فَإِذَا هِيَ أُرْجُوَانٌ فَرَجَعْتُ إِلَى أَسْمَاءَ فَخَبَّرْتُهَا فَقَالَتْ هَذِهِ جُبَّةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْرَجَتْ إِلَيَّ جُبَّةَ طَيَالِسَةٍ كِسْرَوَانِيَّةٍ لَهَا لِبْنَةُ دِيبَاجٍ وَفَرْجَيْهَا مَكْفُوفَيْنِ بِالدِّيبَاجِ فَقَالَتْ هَذِهِ كَانَتْ عِنْدَ عَائِشَةَ حَتَّى قُبِضَتْ فَلَمَّا قُبِضَتْ قَبَضْتُهَا وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلْبَسُهَا فَنَحْنُ نَغْسِلُهَا لِلْمَرْضَى يُسْتَشْفَى بِهَا

حکم : صحیح 5409

حضرت اسماء بنت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آزاد کردہ غلام عبداللہ(کیسان) سے روایت ہے، جو کہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کا مولیٰ اور عطاء کے لڑکے کا ماموں تھا نے کہا کہ مجھے اسماء رضی اللہ عنہا نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس بھیجا اور کہلایا کہ میں نے سنا ہے کہ تم تین چیزوں کو حرام کہتے ہو، ایک تو کپڑے کو جس میں ریشمی نقش ہوں، دوسرے ارجوان (یعنی سرخ ڈھڈھاتا) زین پوش کو اور تیسرے تمام رجب کے مہینے میں روزے رکھنے کو، تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رجب کے مہینے کے روزوں کو کون حرام کہے گا؟ جو شخص ہمیشہ روزہ رکھے گا ( سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہمیشہ روزہ علاوہ عیدین اور ایام تشریق کے رکھتے تھے اور ان کا مذہب یہی ہے کہ صوم دہر مکروہ نہیں ہے)۔ اور کپڑے کے ریشمی نقوش کا تو نے ذکر کیا ہے تو میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ حریر (ریشم) وہ پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں، تو مجھے ڈر ہوا کہ کہیں نقشی کپڑا بھی حریر (ریشم) نہ ہو اور ارجوانی زین پوش، تو خود عبداللہ کا زین پوش ارجوانی ہے۔ یہ سب میں نے جا کر سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے کہا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جبہ موجود ہے، پھر انہوں نے طیالسی کسروانی جبہ (جو ایران کے بادشاہ کسریٰ کی طرف منسوب تھا) نکالا جس کے گریبان پر ریشم لگا ہوا تھا اور دامن بھی ریشمی تھے۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یہ جبہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات تک ان کے پاس تھا۔ جب وہ فوت ہو گئیں تو یہ جبہ میں نے لے لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو پہنا کرتے تھے اب ہم اس کو دھو کر اس کا پانی بیماروں کو شفاء کے لئے پلاتے ہیں۔

——————–

کیا یہ شرک نہیں ہے؟

جواب

نبی صلی الله علیہ وسلم کا پسینہ لوگ عطر کے طور پر استمعال کرتے تھے – نبی صلی الله علیہ وسلم کے بالوں میں قدرتی خوشبو تھی اور چونکہ خوشبو اپ کو یاد دلاتی رہتی ہے اصحاب رسول نبی صلی الله علیہ وسلم کے بال لیتے تھے کہ اس میں پسینہ لگا ہوتا اس سے مہک اتی اور اس طرح رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی یاد تازہ رہتی
بہت سے اصحاب مدینہ کے نہیں بلکہ دور دراز علاقوں کے تھے – حج کے موقعہ پر جب اپ نے بال منڈھوائے تو وہ اصحاب میں بانٹ دیے

ثمامہ سے روایت ہے کہ امِ سلیم کے پاس ایک شیشی میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک پسینہ اور چند موئے مبارک محفوظ تھے انس رضی اللہ عنہ نے اپنے کفن میں اسی عرق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بطورِ خوشبو لگانے کی وصیت کی، ثمامہ کا بیان ہے

فلما حضر أنس بن مالک الوفاةُ أوصي إلي أن يُجْعل في حنوطه من ذالک السُّکِ، قال : فجُعل في حنوطه.

جب انس رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے مجھے وصیت فرمائی کہ ان کے حنوط میں اس خوشبو کو ملایا جائے۔ ثمامہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے حنوط میں وہ خوشبو ملائی گئی۔

حمید سے روایت ہے کہ
توفي أنس بن مالک فجعل في حنوطه سکة أو سک ومسکة فيها من عرق رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم .
جب انس رضی اللہ عنہ نے وفات پائی تو ان کے حنوط میں ایسی خوشبو ملائی گئی جس میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینے کی خوشبو تھی۔

1. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 249، رقم : 715
2. بيهقي، السنن الکبري، 3 : 406، رقم : 6500

چند روایات میں ہے کہ یہ بال شفا کے لئے استعمال ہوتے تھے

روایت کے مطابق جبہ کو دھو کر مریض کو پلایا جاتا تھا
صحیح مسلم میں اور دیگر کتاب میں اس روایت کی سند میں عبد الله بن كيسَان أَبُو عمر مولَى أَسمَاء بنت أبي بكر الْقرشِي التَّيْمِيّ الْمَكِّيّ ہے
ان سے بخاری و مسلم نے روایت لی ہے لیکن ان کو ثقہ متقدمین میں صرف ابو داود نے کہا ہے متاخرین میں ابن حبان اور ابن خلفؤن نے ثقہ کہا ہے
عبد الله سے اس روایت کو دو لوگوں نے سنا ایک مُغِيرَةَ بْنِ زِيَادٍ نے اور دوسرے عبد الملك بن أبى سليمان نے

مُغِيرَةَ بْنِ زِيَادٍ جب اس کو روایت کرتے ہیں تو وہ اس کا ذکر نہیں کرتے کہ جبہ دھو کر پلایا جاتا تھا جبکہ عبد الملك بن أبى سليمان اس کا ذکر کرتے ہیں
اس راوی کی ایک حدیث حديثه في الشفعة کو منکر کہا جاتا ہے اور اس کاسماع انس رضی الله عنہ سے نہیں ہے
شعبہ نے اس کی روایت کا رد کیا ہے اور کہا کہ اگر اس نے ایک اور منکر روایت کی تو میں اس کو ترک کر دوں گا
راقم کو لگتا ہے کہ عبد الملك بن أبى سليمان کچھ گڑبڑ بیان کر گیا ہے جو مغیرہ نے بیان نہیں کیا
ابن حجر نے کہا صدوق له أوهام یہ صدوق ہے لیکن اس کو وہم ہوتا ہے

مسند اسحاق میں ہے
أَخْبَرَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، نا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ عَطَاءٍ، فِي الْعَلَمِ فِي الثَّوْبِ قَالَ: أَرَادَ أَنْ يَفْتَتِحَ حَدِيثًا , ثُمَّ قَالَ: هَذَا [ص:134] أَخْبَرَنِي رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ وَاسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ مَوْلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ , قَالَ لَهُ عَطَاءٌ: حَدِّثْ، فَحَدَّثَ بَيْنَ يَدَيْ عَطَاءٍ
عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، نے عَطَاءٍ بن ابی رباح سے کپڑوں کے حوالے سے معلومات پر روایت کیا اور عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ (یا عَطَاءٍ بن ابی رباح ؟) نے حدیث شروع کرنے کا ارادہ کیا کہا پھر کہا مجھ کو قوم میں سے شخص جس کو عبدالله مولی اسماء کہا جاتا تھا نے خبر دی کہ عَطَاءٍ نے اس سے کہا خبر دو پس عبدالله مولی اسماء نے روایت کیا عَطَاءٍ کے سامنے

عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ نے اس روایت کو عَطَاءٍ بن ابی رباح سے لیا یا عبد الله مولی اسماء سے لیا ؟ صحیح مسلم میں عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ نے اس کو براہ راست عبدالله مولی اسماء سے روایت کیا ہے عَطَاءٍ بن ابی رباح کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے

وقال أبو داود: قلت لأحمد: عبد الملك بن أبي سليمان؟ قال: ثقة. قلت: يخطئ؟ قال: نعم، وكان من أحفظ أهل الكوفة، إلا أنه رفع أحاديث عن عطاء. «سؤالاته» (358) .
ابو داود نے کہا میں نے امام احمد سے عبد الملك بن أبي سليمان کا پوچھا احمد نے کہا ثقہ ہے – میں نے کہا کیا غلطی کرتا ہے ؟ احمد نے کہا ہاں لیکن کوفہ میں احفظ ہے سوائے اس کے کہ یہ یہ عطا بن ابی رباح سے احادیث رفع کرتا ہے

یعنی عبد الملك بن أبي سليمان کا سماع عطاء سے نہیں ہے عَطَاءٍ بن ابی رباح تک سند لے جاتا ہے

الغرض راقم کو لگتا ہے کہ صحیح مسلم کی اس روایت کی سند منقطع ہے جس میں جبہ سے شفا کا ذکر ہے – اغلبا عبد الملک کو خود یاد نہیں کہ کس سے اس روایت کو لیا لیکن اس نے اس قول کو عبد الله مولی اسماء سے منسوب کر دیا ہے – ساتھ ہی عَطَاءٍ بن ابی رباح کا ذکر بھی کر دیا ؟ روایت کے مطابق یہ مکالمہ تو عبد الله مولی اسماء اور عَطَاءٍ بن ابی رباح کے درمیان ہوا- عبد الملک نے اس کو عَطَاءٍ بن ابی رباح سے لیا جبکہ محدثین کے مطابق عَطَاءٍ بن ابی رباح تک عبد الملک سند رفع کر دیتا ہے

———–
صحیح بخاری میں عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ سے مروی ہے

أَرْسَلًنِي أَهْلِي إِلَي أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم بِقَدَحٍ مِنْ مَاءٍ، وَقَبَضَ إِسْرَائِيْلُ ثَلَاثَ أَصَابِعَ مِنْ قُصَّةٍ فِيْهِ شَعَرٌ مِنْ شَعَرِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم ، وَکَانَ إِذَا أَصَابَ الإِنْسَانَ عَيْنٌ أَوْ شَيئٌ بَعَثَ إِلَيْهَا مِخْضَبَهُ فَاطَّلَعْتُ فِي الْجُلْجُلِ فَرَأَيْتُ شَعَرَاتٍ حُمْرًا.

مجھے میرے گھر والوں نے اُم سلمہ رضی اﷲ عنہا کے پاس پانی کا ایک پیالہ دے کر بھیجا۔ (اسرائیل نے تین انگلیاں پکڑ کر اس پیالے کی طرح بنائیں) جس میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا موئے مبارک تھا، اور جب کبھی کسی کو نظر لگ جاتی یا کوئی بیمار ہو جاتا تو وہ اُم سلمۃ رضی اﷲ عنہا کے پاس (پانی کا) برتن بھیج دیتا۔ پس میں نے برتن میں جھانک کر دیکھا تو میں نے چند سرخ بال دیکھے۔

تاریخ مدینہ از ابن شبہ میں ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ، أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَأَخْرَجَتْ جُلْجُلًا مِنْ فِضَّةٍ فِيهِ شَعَرَاتٌ مِنْ شَعَرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَاطَّلَعْتُ فِيهِ فَإِذَا صِبْغٌ أَحْمَرُ، فَكَانَ إِذَا اشْتَكَى أَحَدُنَا أَتَاهَا بِإِنَاءٍ فَخَضْخَضَتْهُ فِيهِ، فَشَرِبَ مِنْهُ وَتَوَضَّأَ

اس روایت کو عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ سے تین راوی نقل کرتے ہیں ایک سَلَّامُ بْنُ أَبِي مُطِيعٍ ہیں دوسرے أَبُو مُعَاوِيَةَ شَيْبَانَ ہیں اور تیسرے اسرائیل ہیں
ان تین میں صرف إسرائيل بن يونس بن أبى إسحاق السبيعى الهمدانى اس کو بیان کرتے ہیں کہ بال پانی میں ڈالے جاتے شفا کے لئے
إسرائيل بن يونس بن أبى إسحاق السبيعى الهمدانى صحیح بخاری کے راوی ہیں لیکن محدثین نے اس کو ضعیف بھی کہا ہے
ابن سعد نے کہا اس کی تضعیف بھی کی جاتی ہے – ابن حزم اور ابن المديني نے ضعیف کہا ہے
يحيى القطان نے اس سے روایت نہیں کیا

چونکہ یہ صرف اسرائیل نے روایت کیا ہے راقم اس کو منفرد شاذ قول کہتا ہے
——

کتاب بَهْجَة المحَافِل وأجمل الوَسائل بالتعريف برواة الشَّمَائل از إبراهيم بن إبراهيم بن حسن اللقاني، أبو الإمداد، برهان الدين المالكي (المتوفى: 1041هـ) اور الإصابة في تمييز الصحابة از ابن حجر کے مطابق

ورواه ابن السكن من طريق صفوان بن هبيرة عن أبيه قال: قال لي ثابت البناني قال لي أنس بن مالك: هذه شعرة من شعر رسول الله صلى الله عليه وسلم فضعها تحت لساني، قال: فوضعتها تحت لسانه فدفن وهي تحت لسانه.
ثابت البنانی بیان کرتے ہیں کہ مجھے انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک بال مبارک ہے، پس تم اسے میری (تدفین کے وقت) اسے زبان کے نیچے رکھ دینا۔ وہ کہتے ہیں : میں نے وہ بال مبارک آپ رضی اللہ عنہ کی زبان کے نیچے رکھ دیا اور انہیں اس حال میں دفنایا گیا کہ وہ بال ان کی زبان کے نیچے تھا۔

راقم کہتا ہے اس کو صفوان بن هبيرة نے روایت کیا ہے جو ضعیف ہے

Sahih Bukhari Hadees # 6576

وحَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْمُغِيرَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ “”أَنَا فَرَطُكُمْ عَلَى الْحَوْضِ وَلَيُرْفَعَنَّ مَعِي رِجَالٌ مِنْكُمْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ لَيُخْتَلَجُنَّ دُونِي، ‏‏‏‏‏‏فَأَقُولُ يَا رَبِّ:‏‏‏‏ أَصْحَابِي، ‏‏‏‏‏‏فَيُقَالُ:‏‏‏‏ إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ””، ‏‏‏‏‏‏تَابَعَهُ عَاصِمٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي وَائِلٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ حُصَيْنٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي وَائِلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حُذَيْفَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اپنے حوض پر تم سے پہلے ہی موجود رہوں گا اور تم میں سے کچھ لوگ میرے سامنے لائے جائیں گے پھر انہیں میرے سامنے سے ہٹا دیا جائے گا تو میں کہوں گا کہ اے میرے رب! یہ میرے ساتھی ہیں لیکن مجھ سے کہا جائے گا کہ آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد دین میں کیا کیا نئی چیزیں ایجاد کر لی تھیں۔ اس روایت کی متابعت عاصم نے ابووائل سے کی، ان سے حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا۔

اس حدیث میں اصحابی کے الفاظ سے بعض کہتے ہیں اس سے مراد نبی علیہ کے صحابی تھے اور امتی ترجمہ نہیں کرنا چاہیےکیا یہ بات صحیح ہے؟؟

جواب

اصحابی سے مراد
منافق ہو سکتے ہیں کیونکہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو مدینہ کے تمام منافقین کا علم نہیں تھا
سوره توبہ میں ہے

امتی جنہوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے ملاقات نہیں کی وہ اصحاب رسول نہیں لہذا پہلا قول بھی ممکن ہے کہ حدیث میں اصحابی سے مراد غیر معروف اصحاب رسول ہیں

صحیح بخاری میں ہے نبی صلی الله علیہ وسلم کہیں گے
سُحْقًا سُحْقًا لِمَنْ بَدَّلَ بَعْدِي
دور دور ہو جس نے میرے بعد بدلا

صحیح بخاری میں ہے
إِنَّهُمْ لَمْ يَزَالُوا مُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ مُنْذُ فَارَقْتَهُمْ
یہ اس سے نہیں ہٹے کہ مرتد ہوئے جب اپ نے ان کو چھوڑا

بغوی نے شرح السنہ میں کہا
وَلَمْ يرْتَد أحد بِحَمْد اللَّه من أَصْحَاب النَّبِيّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنَّمَا ارْتَدَّ قوم من جُفَاة الْعَرَب.
اور الحمد للہ اصحاب میں سے کوئی مرتد نہ ہوا سوائے عربوں کی ایک قوم کے

بخاری کے شاگرد فربری کا کہنا ہے
قال محمدُ بنُ يوسفَ الفِرَبرِيُّ: ذُكِرَ عن أبي عبدِ اللهِ عن قَبيصة قالَ: هُمُ المُرْتَدُّونَ الذين ارتدُّوا على عَهْدِ أبي بكرٍ، فقاتَلهُم أبو بكرٍ رضي الله عنه
میں نے عبد الله سے اس روایت کا ذکر کیا کہا یہ وہ مرتد ہیں جنہوں نے ابو بکر کے دور میں ارتاد کیا تو ابو بکر نے ان سے قتال کیا

مسند البزار میں ہے کہ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی الله عنہ نے اس کو روایت کیا پھر کہا
قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: ادْعُ اللَّهِ أَلا يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ
الله سے دعا کرو کہ مجھے ان میں سے نہ کرے

مسند الشامییں از طبرانی میں ہے
فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ أَنْ لَا يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ , قَالَ: «لَسْتَ مِنْهُمْ» , فَمَاتَ قَبْلَ عُثْمَانَ بِسَنَتَيْنِ
ابو درداء نے کہا دعا کرو الله ان میں سے نہ کرے – لوگوں نے کہا اپ ان میں سے نہیں پس ان کی وفات قتل عثمان سے دو سال پہلے ہوئی

اس روایت پر ایک تابعی نے کہا
قَالَ: فَكَانَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ أَنْ نَرْجِعَ عَلَى أَعْقَابِنَا أَوْ نُفْتَتَنَ عَنْ دِينِنَا
اے الله ہم پناہ مانگتے ہیں کہ اپنی گردنوں پر پلٹ جائیں اور دین میں فتنہ کا شکار ہوں

کتاب الشريعة از الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) میں ہے
قَالَ أَبُو بَكْرٍ النَّيْسَابُورِيُّ: ذَكَرْتُ هَذَا الْحَدِيثَ لِإِبْرَاهِيمَ الْأَصْبَهَانِيِّ فَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ , كَتَبَ بِهِ إِلَيْنَا يُونُسُ قَالَ أَبُو بَكْرٍ النَّيْسَابُورِيُّ: وَسَمِعْتُ أَبَا إِبْرَاهِيمَ الزُّهْرِيَّ وَذَكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ فَقَالَ: هَذَا فِي أَهْلِ الرِّدَّةِ
ابو بکر نیشاپوری نے کہا ہم نے اس حدیث کا ابراہیم سے ذکر کیا تو کہا عجیب روایت ہے اور انہوں نے یہ یونس کو لکھ بھیجی اور ابو ابراہیم الزہری نے کہا یہ اہل الردہ یعنی مرتدوں کے حوالے سے ہے

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لَيَرِدَنَّ عَلَى الْحَوْضِ رِجَالٌ مِمَّنْ صَحِبَنِي وَرَآنِي حَتَّى إِذَا رُفِعُوا إِلَيَّ اخْتُلِجُوا دُونِي فَلَأَقُولَنَّ: رَبِّ , أَصْحَابِي , فَلَيُقَالَنَّ: إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ ”
میرے اصحاب میں سے مرد جنہوں نے مجھے دیکھا اور صحبت اختیار کی ہو گی میرے حوض پر لائے جائیں گے
راقم کے نزدیک سند منقطع ہے حسن نے ابی بکرہ سے سماع نہیں کیا

البتہ امام بخاری کے مطابق حسن بصری کا ابی بکرہ سے سماع ہے

بخاری و مسلم میں اسی حدیث میں الفاظ یہ بھی ہیں
إِنَّهُمْ مِنِّي یہ مجھ سے ہیں

یعنی میرے رشتہ دار ہیں

جن احادیث میں مجھ میں سے ہیں اتا ہے اس میں مراد خاندان نبوی کے افراد لئے جاتے ہیں

یعنی اصحاب رسول اس روایت سے خوف کھاتے
محدثین کہتے یہ مرتدوں کے لئے ہے
روایت میں الفاظ امتی بھی ہیں یعنی تمام امت میں کوئی بھی ہو سکتا ہے
مراد منافقین بھی ہو سکتے ہوں
خاندان نبوی کے افراد بھی لئے جا سکتے ہیں

یہ تمام احتمالات ممکن ہیں
الله سے دعا کریں ہم ان میں سے نہ ہوں

Sahih Muslim Hadees # 534

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، أَنَّ زَيْدًا، حَدَّثَهُ أَنَّ أَبَا سَلَّامٍ، حَدَّثَهُ عَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْعَرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تَمْلَأُ الْمِيزَانَ، وَسُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تَمْلَآَنِ – أَوْ تَمْلَأُ – مَا بَيْنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَالصَّلَاةُ نُورٌ، وَالصَّدَقَةُ بُرْهَانٌ وَالصَّبْرُ ضِيَاءٌ، وَالْقُرْآنُ حُجَّةٌ لَكَ أَوْ عَلَيْكَ، كُلُّ النَّاسِ يَغْدُو فَبَايِعٌ نَفْسَهُ فَمُعْتِقُهَا أَوْ مُوبِقُهَا»

حضرت ابو مالک اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’پاکیزگی نصف ایمان ہے ۔ الحمد لله ترازو کو بھر دیتا ہے ۔ سبحان الله اور الحمد لله آسمانوں سے زمین تک کی وسعت کو بھر دیتے ہیں ۔ نماز نور ہے ۔ صدقہ دلیل ہے ۔ صبر روشنی ہے ۔ قرآن تمہارے حق میں یا تمہارے خلاف حجت ہے ہر انسان دن کا آغاز کرتا ہے تو ( کچھ اعمال کے عوض ) اپنا سودا کرتا ہے ، پھر یا تو خود آزاد کرنےوالا ہوتا ہے خود کو تباہ کرنے والا ۔ ‘ ‘

اگر اتمام حجت صرف نبی ھی کر سکتا ھے غیر نبی نہیں کر سکتا ؟ قادیانی اورمرزائ کو کافر قرار دینا یہ اتمام حجت میں نہیں آتا تو پھر اسے کیا کہے گے؟

جواب

اتمام حجت لغوی طور پر دلیل مکمل ہونا- – اصطلاحا اس کا ذکر انبیاء و رسل کے حوالے سے ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی قوموں پر اتمام حجت کر دیا اور اس کے بعد ان کی قوم یا تو ایمان لائی یا فنا ہو گئیں
یہ الله کی سنت ہے جس میں تبدیلی نہیں ہے اس کا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے
عذاب کا عمل اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک انبیاء اپنی قوموں کے بیچ ہوتے ہیں اور اس میں آسمانی عذاب یا زمینی جنگ سب ہو سکتا ہے
سوره فاطر میں ہے
وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِنْ جَاءَهُمْ نَذِيرٌ لَيَكُونُنَّ أَهْدَى مِنْ إِحْدَى الْأُمَمِ فَلَمَّا جَاءَهُمْ نَذِيرٌ مَا زَادَهُمْ إِلَّا نُفُورًا (42) اسْتِكْبَارًا فِي الْأَرْضِ وَمَكْرَ السَّيِّئِ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ فَهَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلًا وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا (43) أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَكَانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعْجِزَهُ مِنْ شَيْءٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ إِنَّهُ كَانَ عَلِيمًا قَدِيرًا

اب اس سے منسلک بعض اور مباحث بھی ہیں
اول: بعض انبیاء کی قوموں کو معدوم کر دیا گیا کہ ان کی خبر تک نہیں
دوم : بعض انبیاء کی قوموں کو باقی بھی رکھا گیا مثلا بنی اسرائیل انبیاء کا قتل کرتے رہے لیکن باقی رہے

اس بنا پر بعض لوگوں نے یہ رائے اختیار کی کہ نبی اور رسول میں فرق ہے – لیکن راقم اس رائے سے متفق نہیں ہے
بنی اسرائیل کو باقی رکھا گیا کیونکہ یہ حامل کتاب الله قومیں تھیں ان میں تمام کافر نہ تھے مومن بھی تھے جبکہ وہ قومیں جو مکمل معدوم هو گئیں وہ وہ تھیں جن میں ایمان والے صرف چند لوگ تھے مثلا قوم نوح یا قوم ثمود یا عاد مکمل تباہ ہو گئیں

حجت کیا ہے

[سورة الأنعام (6) : آية 83] الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ (82) وَتِلْكَ حُجَّتُنا آتَيْناها إِبْراهِيمَ عَلى قَوْمِهِ نَرْفَعُ دَرَجاتٍ مَنْ نَشاءُ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ

دعوت اس طرح دی جائے کہ صحیح و غلط عقائد کا فرق واضح ہو جائے اور مخالف کا عقیدہ مشرکانہ ثابت ہو جائے تو یہ حجت ہے – مثلا ظلم یا شرک مشرک قوموں نے کیا لیکن اس کو گناہ سمجھتے ہوئے نہیں نیکی سمجھتے ہوئے اور اس میں انبیاء و رسل اور فرشتوں کا وسیلہ لینے والے مشرکین مکہ ہوں یا کواکب پرست ابراہیم کی قوم ہو- ان سب پر اتمام حجت ہوا اور دلیل سے ثابت کیا گیا کہ یہ شرک کر رہے ہیں جو قوم مان بھی گئی اس کے بعد انہوں نے اس کو چھوڑا نہیں بلکہ توجیہ کی
اور اپ نے پڑھا ہو گا جب ابراہیم نے تمام اصنام کو توڑ کر ایک صنم چھوڑ دیا اور قوم سے کہا اس سے کلام کرو
تو اس وقت
سورہ انبیاء
قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا فَاسْأَلُوهُمْ إِنْ كَانُوا يَنْطِقُونَ (63) فَرَجَعُوا إِلَى أَنْفُسِهِمْ فَقَالُوا إِنَّكُمْ أَنْتُمُ الظَّالِمُونَ

قوم مان گئی کہ وہ مشرک ہے
—-
یہی اتمام حجت نبی صلی الله علیہ وسلم نے مکہ والوں پر کیا اس کے بعد مشرکین نے کہا
الزمر
أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ۚ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَىٰ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ (3)
کہ ہم ان کی عبادت اس لئے کر رہے ہیں کہ قرب الہی حاصل ہو

یہ اتمام حجت ہوا انبیاء نے مخالف کو مشرک ثابت کر دیا جس کا اقرار قوم نہیں کر رہی تھی

اپ نے جو روایت پیش کی ہے یہ ضعیف ہے سند میں سلام بن أبى سلام : ممطور ، الحبشى الشامى ہے جس کو مجھول کہا جاتا ہے اور اسکا سماع ابی مالک رضی الله عنہ سے نہیں ہے

ممطور أبو سلام الحبشي روى عن حذيفة وأبي مالك الأشعري وذلك في صحيح مسلم وقال الدارقطني لم يسمع منهما
دارقطنی کہتے ہیں اس کا سماع نہیں ہے

———-
البتہ اپ پہلے اصطلاحات کو سمجھیں – انبیاء کو ان کو قوم کی طرف بھیجا جاتا ہے – قوم میں سب کافر ہوتے ہیں پھر کچھ ایمان لاتے ہیں جو ایمان لاتے ہیں وہ قوم نہیں امت کہلاتے ہیں
اتمام حجت قوم پر ہوتا ہے امت پر نہیں
امت سے مراد اہل قبلہ ہیں جن میں مسلمانوں کے تمام فرقے اتے ہیں لیکن ان میں بھی وقت کے ساتھ شرک کی تحلیل ہو جاتی ہے لہذا امت موسی میں آج یہودی ہیں اور امت عیسیٰ میں آج نصرانی ہیں اور امت محمد میں اس کے تمام فرقے ہیں
——
اتمام حجت انبیاء کر چکے اپنی اپنی قوموں پر-

اپ قرآن پڑھیں اور دیکھیں صحیح عقیدہ کیا ہے کیا کوئی غلط عقیدہ تو اختیار نہیں کر رکھا – یہ اصلاح عقائد ہے
قرآن میں ربانی اہل کتاب کا ذکر ہے یہ انبیاء نہیں تھے لیکن دور فترت میں جب کوئی نبی نہیں تھا یعنی عیسیٰ اور نبی صلی الله علیھما کے درمیان کا دور تھا اس وقت لوگ توریت و انجیل کو اگرچہ تبدیل شدہ تھی لیکن غور سے پڑھنے کی وجہ سے وہ صحیح عقیدہ رکھتے تھے جان چکے تھے کہ دین کو کہاں تبدیل کر دیا گیا ہے

قادیانی لوگ ایک دوسرے شخص کو نبی مانتے ہیں جس پر الوحی بھی بقول ان کے اتی ہے چونکہ یہ قرآن کے خلاف ہے لہذا یہ کفر ہوا
اس میں اتمام حجت کہاں سے آیا؟ کیونکہ اپ جس قرآن سے اتمام کر رہے ہیں وہ اس کے بعد بھی الوحی انے کے قائل ہیں ان کی جدید الوحی کے مطابق نیا نبی آ سکتا ہے
ان کی دانست میں اس طرح تو اتمام حجت نہیں ہو سکتا

جواب

کسی ایک فقہی مسلک کے امام کی آراء کو لینا تقلید کہا جاتا ہے یعنی اگر کوئی صرف امام احمد کے اقوال کو یا اسی مسلک سے منسلک ائمہ حنابلہ کے اقوال کو لے تو یہ تقلید ہے
اس اکتفا کو تقلید ہی کہا جائے گا اگر اپ نے دیگر ائمہ کی آراء کو نہیں سمجھا
قرآن و حدیث میں اس کا ذکر نہیں ہے کیونکہ تقلید کا کانسپٹ بعد کی ایجاد ہے
=========

یاد رہے کہ اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم کا اپس کا اختلاف رائے ہی تھا جو مسلک کی شکل بن گیا کوفہ کا مسلک، ابن مسعود رضی الله عنہ کے اقوال تھے، مصر میں معاذ بن جبل، حجاز میں عائشہ ابن عمر اور ابن عباس رضی الله عنہم تھے اس طرح شروع میں اہل حجاز اور اہل عراق کا مسلک بنا بھر حجاز کا مسلک امام مالک نے لیا اور کوفہ کا امام ابو حنیفہ نے ان کی وفات کے بعد امام احمد اور شافعی کا دور ہوا – امام احمد ضعیف حدیث کو رائے پر مقدم رکھتے تھے قیاس کے مخالف تھے – امام شافعی ضعیف کی بجائے رائے بھی لیتے تھے – اس طرح احمد اور شافعی مسلک الگ ہوا
آج ہمارے پاس احادیث ہیں لیکن جن کو آج ضعیف کہا جاتا ہے اس دور میں ان کو فقہ میں قبول کیا جاتا تھا کیونکہ ضعیف لوگوں کے درمیان ہی رہتا تھا لوگ اس ضعیف کی بعض باتوں کو لیتے تھے بعض کو رد کرتے تھے
لہذا اگر اپ تحقیق کریں تو معلوم ہو گا کہ بہت سی روایات جو سفیان ثوری روایت کرتے ہیں وہ خود ان پر عمل نہیں کرتے بلکہ مخالف حدیث پر عمل کرتے ہیں جبکہ لوگ سفیان کا قول لے لیتے ہیں
مثلا جنازہ میں نماز میں فاتحہ پڑھنا یہ امام سفیان کی روایت ہے لیکن ترمذی کہتے ہیں ان کا مذھب اس پر نہیں ہے
پیدائش پر کان میں اذان دینا اس کو ضعیف کہا جاتا ہے لیکن ترمذی کہتے ہیں اس پر اہل علم کا عمل ہے
عقیقہ کرنا امام مالک کے نزدیک بدعت ہے
وغیرہ وغیرہ
یعنی قرن دوم میں ہی ائمہ امت میں اختلاف تھا اور یہ مسلکی اختلاف ختم نہیں ہوا بڑھتا چلا گیا –

یہاں تک کہ چاروں ائمہ ٣ طلاق کو طلاق بائن کہتے ہیں یعنی اب مرد و عورت جدا ہوئے لیکن ٨ویں صدی میں ابن تیمیہ نے اس مسئلہ کو پھیلایا کہ تین طلاق پر مرد و عورت جدا نہیں ہوں گے
اس موقف پر غیر مقلدیت کا آغاز ہوا جس میں فقہ امام احمد میں تبدیلی کر کے ابن تیمیہ نے غیر مقلدیت کا وجود رکھا
=========

اصحاب رسول میں سے کسی کی اتباع تقلید نہیں ہے لیکن آج کل جب عام لوگ بلا تحقیق کسی ایک مسلک کو ہی لیتے ہیں تو اس کو تقلید کہا جاتا ہے

جواب

مثلا عید کی نماز میں ایک شخص نے نماز سے پہلے قربانی کر دی اپ نے اس کو جائز کیا لیکن کہا صرف تیرے لئے ہے
اسی طرح قرآن یاد ہونے پر ایک غریب صحابی کا ایک عورت سے نکاح کر دیا
یہ مخصوص واقعات ہیں عموم سے الگ ہیں

ایسا ہی اس واقعہ میں ہے جو صرف ان لوگوں ابوحذیفہ کی بیوی اور سالم رضی الله عنہما کے لئے خاص کیا گیا ہے
یہ بات فقہاء اور شارحین حدیث نے بیان کی ہے اس کو عموم کوئی نہیں کہتا

جواب

صلح حدیبیہ کے موقعہ پر عروہ بن مسعود ثقفی رضی الله عنہ قریش کے سفیر تھے اس وقت کافر تھے صلح کرتے وقت ان کی اور ابو بکر رضی الله عنہ کی تکرار ہوئی تو ابو بکر نے گالی دی

امْصَصْ بَظْرَ اللات
جا الات کی شرم گاہ چاٹ

یعنی اسی شرک میں پڑے رہو جس میں مبتلا ہو
الات دیوی تھی جس کا مندر طائف کے پاس تھا عروہ ثقفی بھی اسی علاقے کا تھا ہو سکتا ہے کہ الات کے پجاریوں کے خاندان کا ہو

محقق مصطفى البغا وضاحت کرتے ہیں
وكان من عادة العرب أن يقولوا لمن يسبونه أو يشتمونه امصص بظر أمه فاستعار أبو بكر رضي الله عنه ذلك في اللات لتعظيمهم إياها فقصد المبالغة في سبه واللات اسم لصنم من أصنام قريش أو أنصابهم
عربوں میں گالی کی عادت میں تھا کہ کسی کو گالی دیتے تو کہتے جا اپنی ماں کی شرم گاہ چاٹ اس کو ابو بکر نے الات پر لگایا … جو عربوں کا بت تھا

وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ كَذَلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ مَرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
الأنعام
اور گالی مت دو ان کو جن کو یہ پکار رہے ہیں کہ یہ الله کو بغیر علم گالی دیں گے – اس طرح ہم سجا دیتے ہیں ہر امت کا عمل اس پر یہاں تک کہ پلٹ کر اپنے رب تک پہنچیں تو ہم بتائیں گے کہ کیا کرتے پھر رہے تھے
قرآن میں بتوں کو برا کہنے کی ممانعت ہے اغلبا جذبات میں ابو بکر رضی الله عنہ ایسا کہہ گئے

عُرْوَةُ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر تنقید کی تھی
فَقَالَ عُرْوَةُ عِنْدَ ذَلِكَ: أَيْ مُحَمَّدُ أَرَأَيْتَ إِنِ اسْتَأْصَلْتَ أَمْرَ قَوْمِكَ، هَلْ سَمِعْتَ بِأَحَدٍ مِنَ العَرَبِ اجْتَاحَ أَهْلَهُ قَبْلَكَ، وَإِنْ تَكُنِ الأُخْرَى، فَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَرَى وُجُوهًا، وَإِنِّي لَأَرَى أَوْشَابًا مِنَ النَّاسِ خَلِيقًا أَنْ يَفِرُّوا وَيَدَعُوكَ
عُرْوَةُ نے کہا اے محمد کیا تم دیکھتے نہیں کہ تمہارے اس کام نے تمہاری قوم کا استیصال کیا- کیا تم نے سنا ہے کہ عربوں میں سے کہ اپنے گھر والوں پر چڑھ ڈورا ہو وغیرہ وغیرہ

یعنی عُرْوَةُ نے کہا تمہارے خاندان والے مکہ ہی میں ہیں اور تم ہمارے مکہ والوں ہی کے خلاف سازش اور جنگ کرتے ہو

ظاہر ہے یہ سن کر رجل مومن ابو بکر کو غصہ آنا ہی تھا – عروہ سے کہا

فَقَالَ لَهُ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ: امْصُصْ بِبَظْرِ اللَّاتِ، أَنَحْنُ نَفِرُّ عَنْهُ وَنَدَعُهُ؟
تو الات کی شرم گاہ چاٹ کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے راہِ فرار اختیار کریں گے اور آپ کو چھوڑ دیں گے

=========
اللَّاتَ، َالْعُزَّى اور مَنَاةَ کی تفصیل یہاں ہے
⇑ أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الأُخْرَى
https://www.islamic-belief.net/history/

جواب

كعب بن مالك رضي الله عنه حين جاءه خبر توبة الله عليه . رواه البخاري (4418) ومسلم (2769) .کعب بن مالک کی توبہ کے واقعہ میں سجدہ شکر کا ذکر ہے

نبی صلی الله علیہ وسلم کے حوالے سے روایت ہے
وَعَن سعد بن أبي وَقاص قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نم مَكَّةَ نُرِيدُ الْمَدِينَةَ فَلَمَّا كُنَّا قَرِيبًا مِنْ عَزْوَزَاءَ نَزَلَ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ فَدَعَا اللَّهَ سَاعَةً ثُمَّ خَرَّ سَاجِدًا فَمَكَثَ طَوِيلًا ثُمَّ قَامَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ سَاعَةً ثُمَّ خَرَّ سَاجِدًا فَمَكَثَ طَوِيلًا ثُمَّ قَامَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ سَاعَةً ثُمَّ خَرَّ سَاجِدًا قَالَ: «إِنِّي سَأَلْتُ رَبِّي وَشَفَعْتُ لِأُمَّتِي فَأَعْطَانِي ثُلُثَ أُمَّتِي فَخَرَرْتُ سَاجِدًا لِرَبِّي شُكْرًا ثُمَّ رَفَعْتُ رَأْسِي فَسَأَلْتُ رَبِّي لِأُمَّتِي فَأَعْطَانِي ثُلُثَ أُمَّتِي فَخَرَرْتُ سَاجِدًا لِرَبِّي شُكْرًا ثُمَّ رَفَعْتُ رَأْسِي فَسَأَلْتُ رَبِّي لِأُمَّتِي فَأَعْطَانِي الثُّلُثَ الْآخِرَ فَخَرَرْتُ سَاجِدًا لِرَبِّي شُكْرًا» . رَوَاهُ أَحْمد وَأَبُو دَاوُد

1496 – وَعَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – قَالَ: «خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – مِنْ مَكَّةَ نُرِيدُ الْمَدِينَةَ، فَلَمَّا كُنَّا قَرِيبًا مِنْ عَزْوَزَاءَ، نَزَلَ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ، فَدَعَا اللَّهَ سَاعَةً، ثُمَّ خَرَّ سَاجِدًا، فَمَكَثَ طَوِيلًا، ثُمَّ قَامَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ سَاعَةً، ثُمَّ خَرَّ سَاجِدًا، فَمَكَثَ طَوِيلًا، ثُمَّ قَامَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ سَاعَةً، ثُمَّ خَرَّ سَاجِدًا، قَالَ: إِنِّي سَأَلْتُ رَبِّي، وَشَفَعْتُ لِأُمَّتِي، فَأَعْطَانِي ثُلُثَ أُمَّتِي، فَخَرَرْتُ سَاجِدًا لِرَبِّي شُكْرًا، ثُمَّ رَفَعْتُ رَأْسِي، فَسَأَلْتُ رَبِّي لِأُمَّتِي، فَأَعْطَانِي ثُلُثَ أُمَّتِي، فَخَرَرْتُ سَاجِدًا لِرَبِّي شُكْرًا، ثُمَّ رَفَعْتُ رَأْسِي، فَسَأَلْتُ رَبِّي لِأُمَّتِي، فَأَعْطَانِي الثُّلُثَ الْآخِرَ، فَخَرَرْتُ سَاجِدًا لِرَبِّي) شُكْرًا» . رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَأَبُو دَاوُدَ.
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فر ماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے لئے مکہ سے روانہ ہوئے ، پس جب ہم ”غروزاء” ( ایک جگہ کا نام ہے ) کے قریب آگئے تو آپ (اونٹ سے )اتر ے پھر دست مبارک اٹھا کر کچھ دیر دعا فر ماتے رہے ، اس کے بعد سجدہ میں چلے گئے اور دیر تک سجدہ ہی میں رہے پھر (سجدہ سے ) اٹھے اور دوبارہ دعا فر مائی ، پھر سجدہ میں چلے گئے ، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار کیا اور فر مایا! میں نےاپنے رب سے اپنی امت (کی مغفرت) کے لئے سفارش کی تھی تو میرے رب نے مجھے تہائی امت ( کی مغفرت کی بشارت ) دیدی تو میں نے اس پر شکر کا سجدہ کیا پھر میں نے (سجدہ سے ) سر اٹھایا اور امت کے لئے درخواست پیش کی تو اور تہائی امت دیدی ( دوسری بار ) پھر میں نے ( سجدہ سے ) اٹھایا اور امت کے لئے در خواست پیش کی تو اس مرتبہ اللہ تعالیٰ نے باقی تہائی امت بھی دیدی، اس پر بھی میں نے سجدہ شکر کیا . ( مشکوٰۃ باب السجود الشکر ص 131)
سند ضعیف ہے

شعیب کہتے ہیں
إسناده ضعيف لضعف موسى بن يعقوب، وجهالة يحيى بن الحسن بن عثمان

جواب

Sunnan e Abu Dawood Hadees # 2194

حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَبِيبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ مَاهَكَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ثَلَاثٌ جَدُّهُنَّ جَدٌّ وَهَزْلُهُنَّ جَدٌّ:‏‏‏‏ النِّكَاحُ وَالطَّلَاقُ وَالرَّجْعَةُ .

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں کہ انہیں چاہے سنجیدگی سے کیا جائے یا ہنسی مذاق میں ان کا اعتبار ہو گا، وہ یہ ہیں: نکاح، طلاق اور رجعت ۔

سند ضعیف ہے بعض نے اس کو حسن کہا ہے اور بعض نے صحیح لغیرہ کہہ دیا ہے
لیکن میرے نزدیک اس میں راوی کا تفرد ہے سند قابل قبول نہیں

الذھبی نے مشتدرک میں اس روایت پر کہا ہے
فيه لين يعني عبد الرحمن بن حبيب بن أردك
اس میں کمروزی ہے یعنی عبد الرحمن بن حبيب بن أردك

جواب

اس پر کوئی صحیح روایت نہیں ہے

موطا میں ہے کہ امام مالک کو یہ بات پہنچی یعنی یہ مشہور ہوا تھا لیکن یہ مشہور اہل بیت کے متروک الحدیث شخص الْحُسَيْنُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنُ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ نے کیا اس کی تفصیل یہ ہے

پہلا طرق
اس کی تخریج کی ہے الترمذي (سننه – 1018) وأبو يعلى (مسنده – 45) والمروزي (مسند أبي بكر – 43) عبد الرحمن بن أبي بكر متروک کی سند سے
يحيى بن سعيد :- ’ضعيف الحديث‘
وقال الإمام أحمد :- ’منكر الحديث‘
وقال الإمام البخاري :- ’منكر الحديث‘ )
وقال الإمام النسائي :- ’متروك الحديث‘
(انظر:- الكامل في الضعفاء لابن عدي 4/295)
——-
دوسری سند ہے
اس طرق سے تخریج کی ہے ابن ماجه في (سننه- 1628) وأبو يعلى في (مسنده – 23,22) وابن عدي في (الكامل – 3/760) والطبري في (تاريخه -3/213) ان سب نے محمد بن إسحاق عن حسين بن عبد الله کی سند سے روایت کیا ہے

اس میں الْحُسَيْنُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنُ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ہے جو متروک ہے
أَبُو زُرْعَةَ وَغَيْرُهُ: ليس بقوي.
وقال النسائي: متروك.

—————
تیسری سند
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے
عِيسَى بْنُ يُونُسَ , عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ , عَنْ أَبِيهِ , أَنَّهُمْ شَكُّوا فِي قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْنَ [ص:428] يَدْفِنُونَهُ؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ النَّبِيَّ لَا يُحَوَّلُ عَنْ مَكَانِهِ , يُدْفَنُ حَيْثُ يَمُوتُ» فَنَحَّوْا فِرَاشَهُ فَحَفَرُوا لَهُ مَوْضِعَ فِرَاشِهِ ”

مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي أَبِي، أَنَّ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَدْرُوا أَيْنَ يَقْبُرُونَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى قَالَ أَبُو بَكْرٍ: رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: “لَنْ يُقْبَرَ نَبِيٌّ إِلَّا حَيْثُ يَمُوتُ” فَأَخَّرُوا فِرَاشَهُ، وَحَفَرُوا لَهُ تَحْتَ فِرَاشِه.

اس کی سند منقطع ہے
ابن جریج المتوفی ١٥٠ ہجری ہیں ان کا نام ہے عبد الملك بن عبد العزيز بن جُرَيْج
ابن جریج کے والد نے ابو بکر سے شکوہ کیا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو کہاں دفنا دیا
وقال حرب بن إسماعيل: قال أحمد بن حنبل: هو عبد الملك بن عبد العزيز بن جريج، وأبوه يروي عن عائشة، وذهب أحمد إلى أنه لم يلق عائشة. «بحر الدم»
احمد کہتے ہیں ابن جریح کے والد کا عائشہ سے سماع نہیں معلوم ہوا ابو بکر سے بھی ممکن نہیں ہے

شعیب مسند احمد میں کہتے ہیں
وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، ابن جريج: هو عبد الملك بن عبد العزيز بن جريج، ووالده عبد العزيز بن جريج لم يدرك أبا بكر، على لين فيه
یہ منقطع ہے

————
چوتھی سند
سنن الکبری نسائی میں روایت کا متن ہے
أن الناس قالوا لأبي بكر: أين يدفن رسول الله – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -؟ قال: في المكان الذي قبض الله فيه روحه، فإن الله لم يقبض روحه إلا في مكان طيب. فعلموا أنه قد صدق
اس کی سند اتنی مظبوط نہیں
کتاب الاغتباط بمن رمي من الرواة بالاختلاط از سبط ابن العجمي (المتوفى: 841هـ) کے مطابق سلمة بن نبيط بن شريط الأشجعي قال البخاري يقال اختلط بآخره بخاری کہتے ہیں آخری عمر میں اختلاط کا شکار تھے- کتاب إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي (المتوفى: 762هـ)کے مطابق وذكره العقيلي في جملة الضعفا عقیلی نے ان کا ذکر ضعیف راویوں میں کیا ہے

متن میں اور نکارت بھی ہے
———
یہ تمام طرق قابل رد ہیں ان میں متروکین ہیں انقطاع ہے

انبیاء وہاں دفن نہیں ہوئے جہاں وفات ہوئی اس کی مثال ہے کہ یوسف علیہ السلام کی ہڈیاں ایک جھیل میں اس کی تہہ میں سے بنی اسرائیل نے خروج مصر کے وقت نکالیں

جواب

صحیح بخاری – حدیث نمبر: 1390 — کتاب: جنازے کے احکام و مسائل – باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی قبروں کا بیان ۔ [صحیح بخاری] رواۃ الحدیث: عائشة بنت ابي بكر الصديق ( 4049 ) ، عروة بن الزبير الاسدي ( 5594 ) ، هلال بن ابي حميد الجهني ( 8087 ) ، الوضاح بن عبد الله اليشكري ( 8153 ) ، موسى بن إسماعيل التبوذكي ( 7721 ) ، حدیث ۔۔۔ ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا ‘ ان سے ہلال بن حمید نے ‘ ان سے عروہ نے اور ان سے ام المؤمنین عائشہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے اس مرض کے موقع پر فرمایا تھا جس سے آپ ﷺ جانبر نہ ہو سکے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی یہود و نصاریٰ پر لعنت ہو ۔ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنا لیا ۔ اگر یہ ڈر نہ ہوتا تو آپ ﷺ کی قبر بھی کھلی رہنے دی جاتی ۔ لیکن ڈر اس کا ہے کہ کہیں اسے بھی لوگ سجدہ گاہ نہ بنا لیں ۔ اور ہلال سے روایت ہے کہ عروہ بن زبیر نے میری کنیت (ابوعوانہ یعنی عوانہ کے والد) رکھ دی تھی ورنہ میرے کوئی اولاد نہ تھی ۔ … حدیث متعلقہ ابواب: قبر کی شکل کوہان نما ہونی چاہئے ۔ ایسی مسجد جس میں قبر یا مزار ہو ، میں نماز پڑھنا منع ہے ۔ اولیاء صلحاء اور شہداء میں جن جن کے اجسام کو جب تک اللہ تعالیٰ قبروں میں محفوظ رکھنا چاہیں وہ بھی مٹی کے اثر سے محفوظ رہتے ہیں ۔

گرشتہ امتوں کے حوالے سے معلوم تھا کہ انہوں نے انبیاء کی قبروں کو مسجد بنا دیا اس بنا پر یہ کیا گیا
ابو بکر اور عمر رضی الله عنہما کی خواہش تھی کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ دفن ہوں

تین چاند والی روایت مضطرب المتن اور سندا مضبوط نہیں
موطا امام مالک ۔ جلد اول ۔ کتاب الجنائز ۔ حدیث 489
مردہ کے دفن کے بیان میں
راوی:
عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ رَأَيْتُ ثَلَاثَةَ أَقْمَارٍ سَقَطْنَ فِي حُجْرَتِي فَقَصَصْتُ رُؤْيَايَ عَلَی أَبِي بَکْرٍ الصِّدِّيقِ قَالَتْ فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدُفِنَ فِي بَيْتِهَا قَالَ لَهَا أَبُو بَکْرٍ هَذَا أَحَدُ أَقْمَارِکِ وَهُوَ خَيْرُهَا
و حَدَّثَنِي عَنْ مَالِك عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِمَّنْ يَثِقُ بِهِ أَنَّ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ وَسَعِيدَ بْنَ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ تُوُفِّيَا بِالْعَقِيقِ وَحُمِلَا إِلَى الْمَدِينَةِ وَدُفِنَا بِهَا
یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ ام المومنین عائشہ صدیقہ نے کہا میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے حجرے میں تین چاند گر پڑے سو میں نے اس خواب کو ابوبکر صدیق سے بیان کیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو حضرت عائشہ کے حجرہ میں دفن ہو چکے تھے ابوبکر نے کہا کہ ان تین چاندوں میں سے ایک چاند آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور یہ تینوں چاندوں میں بہتر ہیں

موطا کی سند ضعیف ہے – يحيى بن سعيد الأنصاري مدلس نے عن سے روایت کیا ہے
یہ منقطع بھی ہے کیونکہ دیگر اسناد میں یحیی نے ان کو ابن المسیب سے روایت کیا ہے جس کا ذکر نیچے آ رہا ہے
——–

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْمُطَرِّزُ , أَيْضًا , قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَاتِمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ , عَنْ أَيُّوبَ , عَنْ أَبِي قِلَابَةَ , أَنَّ عَائِشَةَ , رَحِمَهَا اللَّهُ [ص:2366] رَأَتْ فِي الْمَنَامِ كَأَنَّ قَمَرًا جَاءَ يَهْوِي مِنَ السَّمَاءِ فَوَقَعَ فِي حُجْرَتِهَا , ثُمَّ قَمَرٌ ثُمَّ قَمَرٌ , ثَلَاثَةُ أَقْمَارٍ فَقَصَّتْهَا عَلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنْ صَدَقَتْ رُؤْيَاكِ دُفِنَ خَيْرُ أَهْلِ الْأَرْضِ ثَلَاثَةٌ فِي بَيْتِكِ , أَوْ قَالَ: فِي حُجْرَتِكِ. قَالَ أَيُّوبُ: فَحَدَّثَنِي أَبُو يَزِيدَ الْمَدِينِيُّ قَالَ: لَمَّا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدُفِنَ , قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: يَا عَائِشَةُ هَذَا خَيْرُ أَقْمَارِكِ
اس میں عبد الله بن زيد أبو قلابة الجرمي مدلس کا عنعنہ ہے
الحافظ الضياء کہتے ہیں ولا يعرف له سماع من عائشة رضي الله عنهم
اس کا سماع عائشہ رضی الله عنہا سے معلوم نہیں
—–

طبرانی میں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو يَزِيدَ يُوسُفُ بْنُ يَزِيدَ الْقَرَاطِيسِيُّ، ثنا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، ثنا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، يَقُولُ: قَالَتْ عَائِشَةُ لِأَبِي بَكْرٍ: ” رَأَيْتُ ثَلَاثَةَ أَقْمَارٍ سَقَطْنَ فِي حُجْرَتِي، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: يُدْفَنُ فِي بَيْتِكِ ثَلَاثَةٌ هُمْ خَيْرُ أَهْلِ الْأَرْضِ “. قَالَ يَحْيَى: فَسَمِعْتُ النَّاسَ يَتَحَدَّثُونَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا قُبِضَ فِي بَيْتِهَا، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: «أَحَدُ أَقْمَارِكِ، وَهُوَ خَيْرُهَا»

وقال أبو حاتم سعيد بن المسيب عن عائشة رضي الله عنها إن كان شيئا من وراء الستر
ابو حاتم نے کہا ابن مسیب کا عائشہ رضی الله عنہا سے روایت کرنا اگر اس پر کچھ پردے کے پیچھے ہے

ان الفاظ کوعدم سماع پر سمجھا گیا ہے اور مدلسن پر کتاب میں بیان ہوا ہے – یعنی یہ واضح نہیں کہ ابن مسیب نے کب کیسے ام المومنین سے سنا
امام بخاری نے ابن مسیب کی عائشہ رضی الله عنہا سے کوئی روایت نہیں لکھی البتہ امام مسلم نے شواہد میں ایک لکھی ہے

——–
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْفَضْلِ الْأُسْفَاطِيُّ، ثنا مُوسَى بْنُ عَبْدِ اللهِ السَّلَفِيُّ، ثنا عُمَرُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَبَحُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «هَلْ أَحَدٌ مِنْكُمْ رَأَى رُؤْيَا؟» ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: يَا رَسُولَ اللهِ رَأَيْتُ ثَلَاثَةَ أَقْمَارٍ هَوَيْنَ فِي حُجْرَتِي، فَقَالَ لَهَا: ” إِنْ صَدَقَتْ رُؤْيَاكِ دُفِنَ فِي بَيْتِكِ – أُرَاهُ قَالَ: – أَفْضَلُ أَهْلِ الْجَنَّةِ ” فَقُبِضَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ أَفْضَلُ أَقْمَارِهَا، ثُمَّ قُبِضَ أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ قُبِضَ عُمَرُ، فَدُفِنُوا فِي بَيْتِهَا

حسن بصری کا کسی بدری صحابی سے سماع نہیں ہے
——-

مستدرک حاکم
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حَمْشَاذٍ، ثنا جُنَيْدُ بْنُ حَكِيمٍ الدَّقَّاقُ، ثنا مُوسَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ السُّلَمِيُّ، ثنا عُمَرُ بْنُ حَمَّادِ بْنِ سَعِيدٍ الْأَبَحُّ، عَنِ ابْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْجِبُهُ الرُّؤْيَا، قَالَ: «هَلْ رَأَى أَحَدٌ مِنْكُمْ رُؤْيَا الْيَوْمَ» ، قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: رَأَيْتُ كَأَنَّ ثَلَاثَةَ أَقْمَارٍ سَقَطْنَ فِي حُجْرَتِي، فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنْ صَدَقَتْ رُؤْيَاكِ دُفِنَ فِي بَيْتِكِ ثَلَاثَةٌ هُمْ أَفْضَلُ أَوْ خَيْرُ أَهْلِ الْأَرْضِ» ، فَلَمَّا تُوُفِّيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدُفِنَ فِي بَيْتِهَا، قَالَ لَهَا أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: هَذَا أَحَدُ أَقْمَارِكِ وَهُوَ خَيْرُهَا، ثُمَّ تُوُفِّيَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ فَدُفِنَا فِي بَيْتِهَا

عمر بن حماد بن سعيد الابح. منکر الحدیث ہے ابن حبان کے نزدیک متروک ہے
——–
أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مَحْبُوبِ بْنِ فُضَيْلٍ، التَّاجِرُ الْمَحْبُوبِيُّ بِمَرْوَ، ثَنَا أَبُو عِيسَى مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى بْنِ سَوْرَةَ الْحَافِظُ بِتِرْمِذَ، ثَنَا سَهْلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْجَارُودِيُّ، ثَنَا مَسْعَدَةُ بْنُ الْيَسَعِ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: ” رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ كَأَنَّ ثَلَاثَةَ أَقْمَارٍ سَقَطْنَ فِي حُجْرَتِي فَقَصَصْتُ رُؤْيَايَ عَلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَلَمَّا دُفِنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: هَذَا أَحَدُ أَقْمَارِكِ وَهُوَ خَيْرُهَا «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ»

مَسْعَدة بْن اليَسَع الباهليُّ البصْريّ کذاب ہے
——-

اس روایت میں اضطراب بھی ہے بعض میں ہے کہ اس خواب کی تاویل ابو بکر رضی الله عنہ نے کی اور بعض میں ہے نبی صلی الله علیہ وسلم نے کی
امام بخاری و مسلم نے اس حدیث کو صحیح میں شامل نہیں کیا

روایت ہے صحابہ ستارے ہیں لیکن اس خواب میں سب کو چاند کہا گیا ہے
یاد رہے کہ یوسف علیہ السلام نے خواب دیکھا بھائی ستارہ تھے اور والدین سورج وچاند
لیکن اس خواب والی میں حفظ مراتب نظر نہیں آ رہا یعنی نبی اور امتی تینوں کو چاند کہہ دیا گیا ہے
متن صحیح معلوم نہیں ہو رہا

جواب

کیا فعل قبیح ہے – کیا نہیں اس کا فیصلہ ہم نہیں کرتے – یہ الله کا کام ہے – ایک چیز کرنے میں بد صورت لگتی ہے لیکن اگر الله کا حکم ہو تو وہی کرنا ہوتا ہے وہی نیکی ہوتی ہے
متعہ کی اجازت دی گئی اس پر احادیث معلوم ہیں – کوئی ایک دو نہیں بہت ہیں – اس پر ابن عباس رضی الله عنہ کو موقف بھی معلوم ہے
فقہائے امت نے اس پر بحث کی ہے

قَالَ مُحَمَّدٌ: الْمُتْعَةُ مَكْرُوهَةٌ،
امام محمد نے کہا متعہ مکروہ ہے

مکروہ کا مطلب حرام نہیں ہے

امام احمد نے کہا
أجتنبها أعجب إليّ
امام احمد نے کہا میں اس سے اجتناب کو پسند کروں گا

صحیح بخاری میں ہے کہ ابن عباس متعہ کا فتوی دیتے تھے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا [ص:13] شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ: سُئِلَ عَنْ مُتْعَةِ النِّسَاءِ «فَرَخَّصَ»، فَقَالَ لَهُ مَوْلًى لَهُ: إِنَّمَا ذَلِكَ فِي الحَالِ الشَّدِيدِ، وَفِي النِّسَاءِ قِلَّةٌ؟ أَوْ نَحْوَهُ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «نَعَمْ»

أَبِي جَمْرَةَ نے کہا میں نے ابن عباس کو کہتے سنا ان سے متعہ عورتوں سے کرنے پر سوال ہوا پس انہوں نے اس کی اجازت دی ان سے ایک آزاد کردہ غلام نے کہا یہ اس وقت ہے جب حالت شدید ہو عورتیں کم ہوں ابن عباس نے کہا ہاں

جس نے یہ کہا کہ حکم نہیں دیا وہ پہلے تحقیق سے یہ ثابت کرے کہ یہ تمام اسناد ضعیف ہیں
کہتے ہیں جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے

اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہم تک اس کے شواہد بھی ہوتے کہ ایسا نہیں کیا گیا

٠=========

⇓ کیا معاویہ رضی الله عنہ نے متعہ کیا؟
⇓ کیا معاویہ رضی الله عنہ نے متعہ کیا دوسرا سوال ہے ؟
⇓ ربيعة بن أمية بن خلف الجمحي پر کیا معلومات ہیں؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/تاریخ/
————–

⇓ متعہ کے بارے میں محدثین میں اختلاف تھا؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/محدثین-و-فقہاء-سے-متعلق/
———–

تقلید کی مخالفت میں ابن مسعود اور ابن عباس رضی الله عنہ کا قول ہے
https://www.islamic-belief.net/q-a/متفرق/

جواب

تعظیما کھڑا ہونے پر حدیث میں ممانعت ہے

عبد الله بن بريدة، قال: سمعت معاوية بن أبي سفيان يقول: قال رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “من أحب أن يستجمَّ له الرجال قياماً، وجبت له النار”.
أخرجه الطحاوي في “شرح مشكل الآثار” (1125) ، والخطيب في “تاريخه

عن عبد الله بن بريدة، قال: سمعت معاوية بن أبي سفيان يقول: قال رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “من أحب أن يستجمَّ له الرجال قياماً، وجبت له النار”.
الطحاوي في “شرح مشكل الآثار” (1125) ، والخطيب في “تاريخه”

معاویہ نے کہا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جس نے پسند کیا کہ لوگ اس کے لیے کھڑے ہوں اس پر اگ واجب ہوئی

———
کعب بن مالک کی غَزْوَةِ تَبُوكَ کے حوالے سے توبہ والی روایت میں ہے کہ جب میں مسجد النبی میں داخل وہ
فَقَامَ إلَيَّ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللهِ يُهَرْوِلُ حَتَّى صَافَحَنِي وَهَنَّأَنِي،
طلحہ کھڑے ہوئے بھاگ کر آئے اور مصافحہ کیا

یہ خوشی میں ہوا
———-

بنو قریظہ کے فیصلے کے وقت سعد بن معاذ زخمی حالت میں آئے نبی نے حکم دیا
قُومُوا إِلَى سَيِّدِكُمْ
اپنے سردار کے لئے کھڑے ہو

سعد قبیلہ اوس کے سردار تھے – سعد زخمی تھے
————-

حَدَّثَنَا يُونُسُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى الْمَدِينِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: ” كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَدْخُلَ بَيْتَهُ قُمْنَا
ابو ہریرہ رضی الله عنہ نے روایت کیا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم جب گھر جانے کا ارادہ کرتے ہم کھڑے ہو جاتے یہاں تک کہ وہ گھر میں داخل ہوتے

کسی نے ابو ہریرہ کو جھڑکا کہ رسول الله کے حوالے سے متضاد خبریں مت دے
فَقَالَ قَائِلٌ: كَيْفَ تَقْبَلُونَ هَذِهِ الْأَحَادِيثَ , وَأَنْتُمْ تَرْوُونَ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يُخَالِفُهَا

سند میں هلال بن أبي هلال المدني ہے جس کو الذھبی اور احمد نے مجہول کہا ہے
——-

حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَسَنِ الْهَاشِمِيُّ، ثنا ابْنُ كِنَانَةَ، ثنا مِسْعَرٌ، عَنْ أَبِي الْعَدَبَّسِ، عَنْ أَبِي خَلَفٍ، عَنْ أَبِي مَرْزُوقٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: أَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَتَوَكَّأُ عَلَى عُودٍ مِنْ سَلَمٍ، فَلَمَّا رَأَيْنَاهُ قُمْنَا، فَقَالَ
إِذَا رَأَيْتُمُونِي فَلَا تَقُومُوا كَمَا يَصْنَعُ الْأَعَاجِمُ، تُعَظِّمُ عُظَمَاءَهَا»
أَبِي أُمَامَةَ نے روایت کیا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا جب مجھے دیکھو عجمیوں کی طرح کھڑے مت ہو

————

عَنْ عَائِشَة بِنْتِ طَلْحَة عَنْ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ عَائِشَة رضی اللہ عنها أَنَّہَا قَالَتْ مَا رَأَیْتُ أَحَدًا کَانَ أَشْبَہَ سَمْتًا وَہَدْیًا وَدَلاًّ – وَقَالَ الْحَسَنُ حَدِیثًا وَکَلاَمًا وَلَمْ یَذْکُرِ الْحَسَنُ السَّمْتَ وَالْهدْیَ وَالدَّلَّ – بِرَسُولِ اللَّہِ -صلی اللہ علیه وسلم- مِنْ فَاطِمَة کَرَّمَ اللَّہُ وَجْهها کَانَتْ إِذَا دَخَلَتْ عَلَیْه قَامَ إِلَیْها فَأَخَذَ بِیَدِہَا وَقَبَّلَها وَأَجْلَسَها فِی مَجْلِسِه وَکَانَ إِذَا دَخَلَ عَلَیْها قَامَتْ إِلَیْه فَأَخَذَتْ بِیَدِہِ فَقَبَّلَتْه وَأَجْلَسَتْه فِی مَجْلِسِها»

سنن ابی داود، سنن ترمذی

ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ میں نے چال چلن، گفتگو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہ فاطمہ کے کسی کو نہیں دیکھا جب وہ آپ کے پاس تشریف لاتیں تو آپ کھڑے ہوجاتے ان کی طرف ان کا ہاتھ پکڑتے انہیں بوسہ دیتے اور انہیں اپنی خاص نشست پر بٹھاتے اور جب آپ ان کے پاس تشریف لاتے تو وہ بھی آپ کی طرف کھڑی ہوتیں آپ کو بوسہ دیتیں اور آپ کو اپنی جگہ پر بٹھلاتیں۔

اس کو لوگوں نے صحیح کہا ہے لیکن میں کہتا ہوں ضعیف ہے اس کی سند میں الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو ہے جو شیعی پروپیگنڈا کر رہا ہے
الذھبی نے تلخیص مستدرک میں اس کو نہیں لکھا اور
حذفه الذهبي من التلخيص لضعفه
اس کے ضعیف ہونے کی وجہ سے

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی چار بیٹیاں تھیں لہذا اس میں فاطمہ کے لئے یہ بیان ہوا ہے اور بیٹیوں کے لئے یہ بیان نہیں ہوا لہذا یہ صحیح نہیں ہو سکتا کیونکہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے عمل میں توازن تھا

بیہقی نے الآداب للبيهقي میں کہا

وَأَمَّا حَدِيثُ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ فِي كَرَاهِيَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِيَامَهُمْ لَهُ، وَحَدِيثُ أَبِي أُمَامَةَ فِي ذَلِكَ وَقَوْلُهُ: «لَا تَقُومُوا كَمَا تَقُومُ الْأَعَاجِمُ يُعَظِّمُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا» . فَإِنَّمَا هِيَ وَاللَّهُ أَعْلَمُ إِذَا كَانَ الْقِيَامُ عَلَى وَجْهِ التَّعْظِيمِ لَا التَّكْرِيمِ مَخَافَةَ الْكِبْرِ
انس کی حدیث جس میں کراہت کا ذکر ہے اور ابو امامہ کی حدیث جس میں ہے کہ عجمیوں کی طرح تعظیم نہ کرو تو والله اعلم یہ تعظیم کے لئے ہے تکریم کے لئے نہیں ہے تکبر کی مخالفت میں

بیہقی کی نکتہ سنجی کی وجہ سے شوافع تکریم میں کھڑے ہوتے ہیں احناف اس کے خلاف ہیں وہ کھڑا ہونا تعظیم کہتے ہیں منع کرتے ہیں

کیا یہ حدیث صحیح ہے

حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ «أَتَى النَّبِيُّ صلّى الله عليه وسلم سُبَاطَةَ قَوْمٍ فَبَالَ قَائِمًا، ثُمَّ دَعَا بِمَاءٍ فَجِئْتُهُ بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ»

جواب

روایت صحیح ہے

کتاب العلل از عبد الله بن امام احمد میں ہے
قال عبدالله – ابن أحمد بن حنبل -: حدثني أبي قال: حدثنا عفان قال أخبرنا حماد بن سلمة، قال أخبرنا عاصم بن بهدله، وحماد بن أبي سليمان، عن أبي وائل عن المغيرة بن شعبة – رضي الله عنه -: ((أَنَّ رسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَى سُبَاطَةِ قَوْمٍ فَبَالَ قَائِمَاً)) قال أبي: منصور والأعمش أثبت من حماد وعاصم
عبد الله نے اس روایت پر سوال کیا تو احمد نے کہا اعمش حماد اور عاصم سے بہتر ہے

اسی کتاب میں ہے کہ اس کو حذیفہ اور مغیرہ رضی الله عنہما دونوں نے روایت کیا ہے

پلیز اس کی تحقیق اور ترجمہ کر دیں

أخبرنا عبد الرزاق عن بن جریج وبن عیینة عن عمرو بن دینار عن محمد بن طلحة بن یزید بن رکانة قال قال عمر لأن أکون سألت النبی صلى الله علیه وسلم عن ثلاثة أحب إلی من حمر النعم عن الکلالة وعن الخلیفة بعده وعن قوم قالوا نقر بالزکاة فی أموالنا ولا نؤدیها إلیک أیحل قتالهم أم لا قال وکان أبو بکر یرى القتال

جواب

أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ , وَابْنِ عُيَيْنَةَ , عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ , قَالَ: قَالَ عُمَرُ: ” لَأَنْ أَكُونَ سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , عَنْ ثَلَاثَةٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ عَنِ الْكَلَالَةِ , وَعَنِ الْخَلِيفَةِ بَعْدَهُ , وَعَنْ قَوْمٍ , قَالُوا: نُقِرُّ بِالزَّكَاةِ فِي أَمْوَالِنَا , وَلَا نُؤَدِّيهَا إِلَيْكَ أَيَحِلُّ قِتَالُهُمْ أَمْ لَا ” قَالَ: «وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يَرَى الْقِتَالَ»

مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ نے کہا عمر نے کہا اگر (پہلے خیال) ہوتا تو میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سوال تین پر کرتا جو مجھ کو سرخ بکریوں سے زیادہ محبوب ہے
ایک کلاله
اور ان کے بعد خلیفہ
اور قوم پر جو کہتے ہیں ہم اپنے اموال میں سے زَّكَاةِ دینے پر برقرار ہیں لیکن تم کو نہیں دیں گے کہ کیا ان سے قتال ہے یا نہیں
عمر نے کہا : ابو بکر اس پر قتال دیکھتے تھے
————–

محمد بن طلحة بن يزيد بن ركانة کا کسی صحابی سے سماع نہیں یہاں تک کہ تابعین میں سے بھی بعض سے یہ ارسال کرتے ہیں
سند میں انقطاع ہے

بہر حال راقم کو مزید ملا کہ امام الذھبی کی بھی یہی رائے ہے یہ روایت مستدرک حاکم میں ہے
هَكَذَا أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُقْبَةَ الشَّيْبَانِيُّ، بِالْكُوفَةِ، ثنا الْهَيْثَمُ بْنُ خَالِدٍ، ثنا أَبُو نُعَيْمٍ، ثنا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ طَلْحَةَ بْنَ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ، يُحَدِّثُ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَأَنْ أَكُونَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ «ثَلَاثٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ مَنِ الْخَلِيفَةُ بَعْدَهُ، وَعَنْ قَوْمٍ قَالُوا أَنُقِرُّ بِالزَّكَاةِ فِي أَمْوَالِنَا وَلَا نُؤَدِّيهَا إِلَيْكَ، أَيَحِلُّ قِتَالُهُمْ؟ وَعَنِ الْكَلَالَةِ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخْرِجَاهُ ”
[التعليق – من تلخيص الذهبي] 3186 – بل ما خرجا لمحمد شيئا ولا أدرك عمر

الذھبی نے کہا بلکہ مُحَمَّدَ بْنَ طَلْحَةَ بْنَ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ نے عمر سے کوئی چیز نہیں لی نہ ان کا دور پایا

جواب

صحیح بخاری میں ہے
حَدَّثَنِي الصَّلْتُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ: {وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ} [الأعراف: 43] قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي المُتَوَكِّلِ النَّاجِيِّ، أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَخْلُصُ المُؤْمِنُونَ مِنَ النَّارِ، فَيُحْبَسُونَ عَلَى قَنْطَرَةٍ بَيْنَ الجَنَّةِ وَالنَّارِ، فَيُقَصُّ لِبَعْضِهِمْ مِنْ بَعْضٍ مَظَالِمُ كَانَتْ بَيْنَهُمْ فِي الدُّنْيَا، حَتَّى إِذَا هُذِّبُوا وَنُقُّوا أُذِنَ لَهُمْ فِي دُخُولِ الجَنَّةِ، فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَأَحَدُهُمْ أَهْدَى بِمَنْزِلِهِ فِي الجَنَّةِ مِنْهُ بِمَنْزِلِهِ كَانَ فِي الدُّنْيَا»
__________
ابو سعید رضی الله عنہ نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اگ سے مومن جو خلاصی پائیں گے ان کو قَنْطَرَةٍ ( پل صراط) پر قید کر دیا جائے گا جنت و جہنم کے بیچ- پس یہ ایک دوسرے پر مظالم کا ذکر کریں گے جو ان کے بیچ یعنی اپس میں ایک دوسرے پر دنیا میں ہوئے یہاں تک کہ جب اس سے پاک ہوں گے تو جنت میں داخل ہوں گے

یہ روایت يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ اور روح بن عبادہ نے سعید بن ابی عروبہ سے لی ہے جو مختلط تھے
اس پر بحث یہان ہے
https://www.islamic-belief.net/حدیث-قرع-النعال-پر-ایک-نظر-٢/

جواب

مصنف عبد الرزاق میں ہے
عَبْدُ الرَّزَّاقِ،

6778 – عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ قَتَادَةَ قَالَ: قَامَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ يَبُولُ ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ: ” إِنِّي لَأَجِدُ فِي ظَهْرِي شَيْئًا فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ مَاتَ، فَنَاحَتْهُ الْجِنُّ فَقَالُوا:
[البحر السريع] قَتَلْنَا سَيِّدَ الْخَزْرَجِ … سَعْدَ بْنَ عُبَادَةْ
وَرَمَيْنَاهُ بِسَهْمَيْنِ … فَلَمْ نُخْطِئْ فُؤَادَهُ ”
قتادہ بصری نے کہا سعد پیشاب کرنے گئے پھر لوٹے تو کہا میں اپنی پیٹھ میں کچھ پاتا ہوں پھر پنپ نہ سکے اور مر گئے پس جنات نے پکارا
ہم نے خزرج کے سردار کا قتل کیا — سعد بن عبادہ کا
اس کو دو تیر مارے —- جنہوں نے اس کے دل تک پہنچے میں غلطی نہیں کی

سند میں انقطاع ہے
——-
العظمة
المؤلف: أبو محمد عبد الله بن محمد بن جعفر بن حيان الأنصاري المعروف بأبِي الشيخ الأصبهاني (المتوفى: 369هـ)

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زَكَرِيَّا الْقُرَشِيُّ، حَدَّثَنَا بَكَّارُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ [ص:1673] السِّيرِينِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، «أَتَى سُبَاطَةَ قَوْمٍ فَبَالَ قَائِمًا فَخَرَّ مَيِّتًا» فَقَالَتِ الْجِنُّ:
نَحْنُ قَتَلْنَا سَيِّدَ الْخَزْرَجِ … سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ
رَمَيْنَاهُ بِسَهْمَيْن … فَلَمْ نُخْطِ فُؤَادَهُ”

مسند الحارث
حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، ثنا ابْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَاهُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، قَالَ: بَيْنَمَا سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ ” قَائِمًا يَبُولُ اتَّكَأَ فَمَاتَ، قَتَلَتْهُ الْجِنُّ فَقَالُوا:
[البحر السريع] نَحْنُ قَتَلْنَا سَيِّدَ الْخَزْرَجِ … سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ
رَمَيْنَاهُ بِسَهْمَيْنِ … فَلَمْ نُخْطِئْ فُؤَادَهُ ”

طبرانی کبیر
حَدَّثَنَا أَبُو مُسْلِمٍ الْكَشِّيُّ، ثنا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ قَالَ: ” بَيْنَا سَعْدٌ يَبُولُ قَائِمًا، إِذِ اتَّكَأَ فَمَاتَ، قَتَلَتْهُ الْجِنُّ، فَقَالُوا:
[البحر السريع]

نَحْنُ قَتَلْنَا سَيِّدَ الْخَزْرَجِ … سَعْدَ بْنَ عُبَادَهْ
وَرَمَيْنَاهُ بِسَهْمَيْنِ … فَلَمْ نُخْطِئْ فُؤَادَهْ ”
سند میں انقطاع ہے

الذھبی نے تلخیص مستدرک میں اس کو ضعیف ہونے کی وجہ سے حذف کر دیا ہے

سعد کا انتقال
castor oil
ضرورت سے زیادہ پینے سے ہوا یہ بھی روایات میں ہے

———–

ابن مسعود والی روایت کا علم نہیں

جواب

اہل حدیث کا مطلب ہے اہل نقل یا اہل روایت – اس میں جو محدث نہیں ہوتا لیکن روایت بیان کرتا اس کے لئے کہا جاتا ہے کہ یہ اہل حدیث میں سے نہیں یعنی یہ کوئی محدث نہیں تھا
اس کی مثالیں ہیں کہ اگر کوئی اھل حدیث نہیں تو یہ کوئی عیب بھی نہیں الا یہ کہ وہ کوئی جاہل ہو

مثلا تذكرة الموضوعات میں محمد طاهر بن علي الصديقي الهندي الفَتَّنِي (المتوفى: 986هـ) ایک موضوع روایت کا ذکر کر کے کہتے ہیں
قَالَ الْمُؤلف ذكره الثَّعْلَبِيّ فِي تَفْسِيره عِنْد كل سُورَة وَتَبعهُ الواحدي وَلَا يعجب مِنْهُمَا لِأَنَّهُمَا ليسَا من أهل الحَدِيث
الْمُؤلف نے کہا اس کا ذکر مفسر الثَّعْلَبِيّ اور الواحدي نے کیا ہے اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ یہ اہل حدیث نہیں ہیں
یہ کہنا مفسر الثَّعْلَبِيّ اور الواحدي پر جرح ہرگز نہیں ہے بلکہ کہنے کا مقصد ہے کہ یہ دونوں محدث نہیں مفسر تھے

کتاب أحاديث معلة ظاهرها الصحة میں أبي عبدالرحمن مقبل بن هادي الوادعي ذکر کرتے ہیں کہ
ثم ذكر الحافظ عن الشافعي أنه قال: أهل الحديث يوهنون هذا الحديث
حافظ ابن حجر نے امام شافعی سے روایت کیا ہے کہ اہل حدیث کو اس حدیث میں وہم ہوا ہے

یعنی اہل حدیث نے ہی حدیث میں وہم کر دیا یعنی بعض محدثین کو اس میں وہم ہوا

⇓ کیا روایت میری امت کے کچھ لوگ ہمیشہ غالب رہیں گے ، یہاں تک کہ قیامت یا موت آئے گی اس وقت بھی وہ غالب ہی ہوں گے ۔ صحیح ہے ؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/علم-الحدیث/

http://mohaddis.com/View/Sahi-Bukhari/5499

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الذَّبَائِحِ وَالصَّيْدِ (بَابُ مَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَالأَصْنَامِ) صحیح بخاری: کتاب: ذبیح اور شکار کے بیان میں

(باب: وہ جانور جن کو تھانوں اور بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہوان کا کھانا حرام ہے)

5499 .

حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ المُخْتَارِ، أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمٌ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ، يُحَدِّثُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّهُ لَقِيَ زَيْدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ بِأَسْفَلِ بَلْدَحٍ، وَذَاكَ قَبْلَ أَنْ يُنْزَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الوَحْيُ، فَقَدَّمَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُفْرَةً فِيهَا لَحْمٌ، فَأَبَى أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا، ثُمَّ قَالَ: «إِنِّي لاَ آكُلُ مِمَّا تَذْبَحُونَ عَلَى أَنْصَابِكُمْ، وَلاَ آكُلُ إِلَّا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ»

حکم : صحیح 5499

ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالعزیز یعنی ابن المختار نے بیان کیا ، انہیں موسیٰ بن عقبہ نے خبردی ، کہا کہ مجھے سالم نے خبر دی ، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زید بن عمرو بن نوفل سے مقام بلد کے نشیبی حصہ میں ملاقات ہوئی ۔ یہ آپ پر وحی نازل ہونے سے پہلے کا زمانہ ہے ۔ آپ نے وہ دستر خوان جس میں گوشت تھا جسے ان لوگوں نے آپ کی ضیافت کے لیے پیش کیا تھا مگر ان پر ذبح کے وقت بتوں کا نام لیا گیا تھا ، آپ نے اسے زید بن عمرو کے سامنے واپس فرمادیا اور آپ نے فرمایا کہ تم جو جانور اپنے بتوں کے نام پر ذبح کرتے ہو میں انہیں نہیں کھاتا ، میں صرف اسی جانور کا گوشت کھاتا ہوں جس پر ( ذبح کرتے وقت ) اللہ کا نام لیا گیا ہو ۔

جواب

صحیح بخاری میں ہے

فَقَدَّمَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُفْرَةً فِيهَا لَحْمٌ، فَأَبَى أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَ
رسول الله نے دستر خوان پیش کیا جس میں گوشت تھا تو زید نے کھانے سے انکار کیا

شعیب کہتے ہیں
والصواب ما في رواية وهيب بن خالد وغيره عن موسى بن عقبة من أن رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هو الذي قدم إلى زيد بن عمرو بن نفيل سفرة فيها لحم، فأبى الأخير أن يأكل منها
اور ٹھیک وہ روایت ہے جو وھیب کی اور دوسروں کی موسی سے ہے جس میں ہے کہ رسول الله نے زید بن عمرو پر پیش کیا دستر خوان جس میں گوشت تھا اور انہوں نے انکار کیا کھانے سے

قال الخطابي في “أعلام الحديث” 3/1657: امتناع زيد بن عمرو من كل ما في السفرة إنما كان من أجل خوفه أن يكون اللحم الذي فيها مما ذُبح على الأنصاب فتنزه من أكْلِه، وقد كان رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لا يأكل من ذبائحِهم التي كانوا يذبحونها لأصنامهم
خطابی نے کہا زید کا انکار کرنا تھا ہر اس دستر خوان سے جس میں گوشت ہو اس خوف سے کہیں یہ بت پر ذبح کردہ نہ ہو پس اس سے دور رہتے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم بھی ان ذبح کردہ کو نہیں کھاتے تھے

زید ہر گوشت والی چیز سے دور رہتے جب نبی نے ان کو کھانا دیا تو انہوں نے صاف انکار دیا
اس روایت میں یہ کہیں نہیں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم بت پر ذبح کردہ گوشت لے کر گئے تھے نبی صلی الله علیہ وسلم نے خبر دی کہ زید بھی ایسا ہی کرتے تھے

اب اس کی مخالف روایت مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا يَزِيدُ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ، عَنْ نُفَيْلِ بْنِ هِشَامِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ هُوَ وَزَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ، فَمَرَّ بِهِمَا زَيْدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ، فَدَعَوَاهُ إِلَى سُفْرَةٍ لَهُمَا، فَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي، إِنِّي لَا آكُلُ مِمَّا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ، قَالَ: فَمَا رُئِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَعْدَ ذَلِكَ أَكَلَ شَيْئًا مِمَّا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ. (حم) 1648
مورخ الْمَسْعُودِيُّ نے نُفَيْلِ بْنِ هِشَامِ سے انہوں نے باپ سے انہوں نے دادا سے روایت کیا ہے کہ رسول الله مکہ میں تھے اور زید بن حارثہ بھی پس یہ زید بن عمرو کے پاس گئے ان کو دستر خوان پر بلایا تو زید بن عمرو نے کہا اے بھائی میں وہ نہیں کھاتا جو بت پر ذبح کیا گیا ہو- پس کہا : میں نے نبی کو نہیں دیکھا کہ اس کے بعد بتوں پر ذبح کیا ہوا کچھ کھایا ہو

یہ روایت عبد الرحمن بن عبد الله المسعودی نے روایت کی ہے لیکن یہ ان کے دور اختلاط کی ہے صحیح نہیں ہے

پس معلوم ہوا کہ نہ نبی صلی الله علیہ وسلم نہ زید بن عمرو دونوں بتوں پر ذبح کردہ جانور نہیں کھاتے تھے
جو شیعوں نے کہا ہے وہ ان کی اپنی ذہن سازی ہے متن میں
Extrapolation
ہے

جواب

وہ کون سی روایت ہے ؟

عربی کا ایک لفظ ہے نرد کبھی اس کو علماء جوا بولتے ہیں کبھی چوسر کبھی لیڈو کبھی شطرنج

اب اس پر روایات دیکھتے ہیں
سنن ابو داود میں ہے
حدثنا عبد الله بن مسلمة عن مالك عن موسى بن ميسرة عن سعيد بن أبي هند عن أبي موسى الأشعري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال من لعب بالنرد فقد عصى الله ورسوله.
جس نے نرد کھیلا، اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی
حسن ابن ماجة (3762) //، الإرواء (2670) ، صحيح الجامع الصغير (6529) //

موطا امام مالک میں ہے
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ مُوسَى بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ لَعِبَ بِالنَّرْدِ فَقَدْ عَصَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ» .
قَالَ مُحَمَّدٌ: لا خَيْرَ بِاللَّعِبِ كُلِّهَا مِنَ النَّرْدِ، وَالشِّطْرَنْجِ، وَغَيْرِ ذَلِكَ
امام محمد نے کہا اس کھیل نرد اور شطرنج میں کوئی خیر نہیں
یعنی احناف میں مکروہ ہے

یہ روایت امام ابن ابی حاتم کے نزدیک منقطع ہے
سعيد بن أبي هند قال أبو حاتم لم يلق أبا موسى الأشعري

مغلطاي کتاب إكمال تهذيب میں کہتے ہیں
فإن سعيدا (أكثر بينه) بينه وبين أبي موسى انقطاع
سعید اور ابو موسی کے درمیان اکثر انقطاع ہے

قال الدَّارَقُطْنِيّ: لم يسمع من أبي موسى شيئًا. «العلل»
دارقطنی کہتے ہیں اس نے ابو موسی سے کچھ نہیں سنا

اسی سند کو مسند ابو یعلی پر تحقیق میں ضعیف بھی کہا گیا ہے
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْجُشَمِيُّ، حَدَّثَنَا [ص:275] يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَبِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدَ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ لَعِبَ بِالنَّرْدِ فَقَدْ عَصَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ»
[حكم حسين سليم أسد] : إسناده ضعيف

کھیل کی خودساختہ تعریف کی جاتی ہے کھیل کا اصل مقصد ذہنی آرام اور جسمانی ورزش ہوتا ہے
شطرنج ذہنی ورزش ہے اس کو ہر کوئی نہیں کھیل سکتا لہذا جو کھیل رہے ہیں ان کو منقطع الاسناد روایات سنانا کہاں کا انصاف ہے؟

اسلام میں جوا کھیلنا منع ہے کیونکہ اس کے معاشرتی اثرات ہیں لیکن اس بنا پر دیگر کھیلوں کی ممانعت پر کوئی صحیح حدیث نہیں ہے
جو لوگ لڈو یا شترنج کو حرام کیہ رہے ہیں ان کا انداز ایسا ہے کہ شراب چونکہ جام و گلاس میں پی جاتی ہے لہذا جام و گلاس میں پانی پینا بھی حرام ہے

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَلَّامُ بْنُ مِسْكِينٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: «مَنْ لَعِبَ بِالنَّرْدِ قِمَارًا كَانَ كَآكِلِ لَحْمِ الْخِنْزِيرِ، وَمَنْ لَعِبَ بِهَا مِنْ غَيْرِ قِمَارٍ كَانَ كَالْمُدَّهِنِ بِوَدَكِ الْخِنْزِيرِ»
اس میں ایوب مدلس ہے عن سے روایت ہے

صحیح مسلم میں حدیث ہے:حَدَّثَني زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: “مَنْ لَعِبَ بِالنَّرْدَشِيرِ، فَكَأَنَّمَا صَبَغَ يَدَهُ فِي لَحْمِ خِنْزِيرٍ وَدَمِهِ”

جو نرد شیر سے کھیلا، گویا اس نے اپنے ہاتھ کو خنزیر کے گوشت اور اس کے خون میں ڈبو دیا۔

امام مسلم نے اس کو صحیح سمجھا ہے جبکہ اس کی سند میں سُليمان بْن بُريدة ہے جس پر امام بخاری نے تاریخ الکبیر میں کہا ہے
قَالَ نُعيم بْن حَماد: حدَّثنا أَبو مُحَمد المَروَزِيّ، عَنْ عَبد اللهِ بْن بُريدة، عَنْ أخيه سُليمان بْن بُريدة، وَكَانَا وُلِدا فِي بطنٍ واحدٍ، على عهد عُمر، ولم يذكر سُليمان سماعا من أَبِيه.
نُعيم بْن حَماد نے کہا … سُليمان بْن بُريدة نے اپنے باپ سے سماع کا ذکر نہیں کیا ہے
یہی بات امام الذھبی نے میزان میں کہی ہے
قال البخاري: لم يذكر أنه سمع أباه.
سلیمان نے باپ سے نہیں سنا

مسند احمد میں ایک اور روایت ہے لیکن وہ بھی ضعیف ہے
حَدَّثَنَا مَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا الْجُعَيْدُ، عَنْ مُوسَى بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْخَطْمِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ كَعْبٍ وَهُوَ يَسْأَلُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ يَقُولُ: أَخْبِرْنِي مَا سَمِعْتَ أَبَاكَ يَقُولُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَثَلُ الَّذِي يَلْعَبُ بِالنَّرْدِ ثُمَّ يَقُومُ فَيُصَلِّي مَثَلُ الَّذِي يَتَوَضَّأُ بِالْقَيْحِ وَدَمِ الْخِنْزِيرِ ثُمَّ يَقُومُ فَيُصَلِّي» (حم) 23138 , قال الشيخ شعيب الأرناؤوط: إسناده ضعيف.

مصنف ابن ابی شیبہ میں علی کا قول ہے
حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ: «النَّرْدُ أَوِ الشِّطْرَنْجُ مِنَ الْمَيْسِرِ»
علی نے کہا شطرنج جوا ہے

سند میں جعفر اگر امام جعفر ہیں تو وہ مضطرب الحدیث ہیں حدیث میں ضعیف ہیں
بیہقی سنن الکبری میں اسی روایت کو هَذَا مُرْسَلٌ کہتے ہیں
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ , وَأَبُو سَعِيدِ بْنُ أَبِي عَمْرٍو قَالَا: ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ , ثنا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ , ثنا ابْنُ وَهْبٍ , ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ , عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَلِيٍّ , رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: ” الشِّطْرَنْجُ هُوَ مَيْسِرُ الْأَعَاجِمِ “. هَذَا مُرْسَلٌ

سنن الکبری بیہقی میں ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ بِشْرَانَ , بِبَغْدَادَ , أنبأ أَبُو عَلِيٍّ الْحُسَيْنُ بْنُ صَفْوَانَ , ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي الدُّنْيَا , ثنا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ , ثنا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ , عَنْ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ , عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ , قَالَ: مَرَّ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَلَى قَوْمٍ يَلْعَبُونَ بِالشِّطْرَنْجِ فَقَالَ: ” {مَا هَذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنْتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ} [الأنبياء: 52]؟ ”
علی نے شطرنج پر کہا یہ کیا تماثیل ہیں؟
سند میں فضيل بن مرزوق الكوفي ہے جس کو ضعیف نسائی نے کہا ہے

===========
سبکی فتاوى السبكي میں کہتے ہیں
وَلِعْبُ الشِّطْرَنْجِ لَيْسَ مُحَرَّمًا عِنْدَ الشَّافِعِيِّ
شطرنج کا کھیل امام شافعی کے نزدیک حرام نہیں ہے

ابن حزم کے لئے بن بار کہتے ہیں
الحافظ أبو محمد ابن حزم: بيع الشطرنج …. حلال كله
شطرنج حلال ہے

نووی فتوی دیتے ہیں
مسألة: لعب الشطرنج، هل يجوز أم لا، وهل يأثم اللاعب به؟.
أجاب رضي الله تعالى عنه: إِن فوَّت به صلاةً عن وقتها، أو لعب على عِوَضٍ فهو حرام؛ وإِلا فمكروه: عند الشافعي رضي الله تعالى عنه وحرام: عند غيره “والله أعلم، كتبتهما عنه”
اگر کھیل سے نماز وقت پر فوت ہو جائے تو یہ حرام ہے ورنہ مکروہ ہے امام شافعی کے نزدیک دیگر کے نزدیک حرام ہے

مختصر الفتاوى المصرية لابن تيمية کے مطابق
توقف الشَّافِعِي فِي الشطرنج
امام شافعی نے شطرنج میں توقف کیا ہے

یعنی اس پر کوئی حکم نہیں لگایا

اداب از بیہقی میں ہے
الشَّطْرَنْجُ قَالَ الشَّافِعِيُّ رَحِمَهُ اللَّهُ: وَهِيَ أَحَبُّ مِنَ النَّرْدِ
شافعی نے شطرنج پر کہا یہ مجھے نرد سے بڑھ کر محبوب ہے

موطأ الإمام مالك میں ہے
قَالَ يَحْيَى: وَسَمِعْتُ مَالِكًا يَقُولُ: ” لَا خَيْرَ فِي الشَّطْرَنْجِ، وَكَرِهَهَا، وَسَمِعْتُهُ يَكْرَهُ اللَّعِبَ بِهَا
امام مالک کہتے شطرنج میں کوئی خیر نہیں ہے وہ اس سے کراہت کرتے

یعنی کراہت کرتے نہ کہ مطلقا حرام کہتے

یعنی امام مالک اور امام محمد اس کو مکروہ کہتے اور امام شافعی شطرنج کو پسند کرتے انہوں نے اس کو حرام نہیں کہا
لیکن متاخرین احناف اور حنابلہ و مالکیہ نے ان کھیلوں کو حرام قرار دے دیا ہے

جواب

جواب

جواب

جواب

جواب

جواب

جواب

جواب