Questions answered by Abu Shahiryar
جواب البانی کتاب لآيات البينات في عدم سماع الأموات على مذهب الحنفية السادات
میں تعلیق میں لکھتے ہیں
علي بن أحمد بن سعيد بن حزم الأندلسي القرطبي من كبار حفاظ الحديث وأئمة الظاهرية ولكنه في الأسماء والصفات جهمي جلد
ابن حزم کھلے جھمی ہیں
اسی بات کو الصحیحہ میں بھی لکھتے ہیں
ہمارا موقف اس سلسلے میں افراط و تفریط سے الگ اعتدال پر مبنی ہے
انسان کو الله نے حواس خمسہ دیے ہیں اور اس کے لئے کہا
فجعلناه سَمِيعاً بَصِيراً
ہم نے اس کو سننے والا دیکھنے والا بنا دیا
لیکن البصیر نہیں کہا بصیر کہا لہذا البصیر الله ہے یہ ایسے ہی ہے کہ العلی الله کا نام ہے اور علی ایک صحابی کا
جب ابن حزم کہتے ہیں کہ الله کے لئے (قوت) سمع اور بصر کا اطلاق درست نہیں تو ان کا مقصد یہی ہوتا ہے انسانی حواس خمسہ سے الله کو بلند رکھیں
ابن حزم کتاب الفصل في الملل والأهواء والنحل میں کہتے ہیں
قَالَ الله تبَارك وَتَعَالَى {لَيْسَ كمثله شَيْء وَهُوَ السَّمِيع الْبَصِير} فَقُلْنَا نعم إِنَّه سميع بَصِير لَا كشيء من البصراء وَلَا السامعين مِمَّا فِي الْعَالم وكل سميع وبصير فِي الْعَالم فَهُوَ ذُو سمع وبصر فَالله تَعَالَى بِخِلَاف ذَلِك بِنَصّ الْقُرْآن فَهُوَ سميع كَمَا قَالَ لَا يسمع كالسامعين وبصير كَمَا قَالَ لَا يبصر كالمبصرين لَا يُسَمِّي رَبنَا تَعَالَى إِلَّا بِمَا سمى بِهِ نَفسه وَلَا يخبر عَنهُ إِلَّا بِمَا أخبر بِهِ عَن نَفسه فَقَط كَمَا قَالَ الله تَعَالَى {هُوَ السَّمِيع الْبَصِير} فَقُلْنَا نعم هُوَ السَّمِيع الْبَصِير وَلم يقل تَعَالَى إِن لَهُ سمعا وبصرا فَلَا يحل لأحد أَن يَقُول إِن لَهُ سمعا وبصراً فَيكون قَائِلا على الله تَعَالَى بِلَا علم وَهَذَا لَا يحل وَبِاللَّهِ تَعَالَى
الله تعالی کہتا ہے لَيْسَ كمثله شَيْء وَهُوَ السَّمِيع الْبَصِير اس کے جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ السَّمِيع الْبَصِير ہے پس ہم کہتے ہیں ہاں وہ سننے والا دیکھنے والا ہے لیکن کسی بینا کی طرح نہیں اور کسی سننے والے کی طرح نہیں جو اس عالم میں ہیں ، اور ہر سننے والا اور دیکھنے والا جو اس عالم میں ہے تو وہ سمع و بصر والا ہے- لیکن الله تعالی کے لئے اس کے خلاف قرآن میں نص ہے پس وہ سننے والا ہے جیسا اس نے کہا ، نہ کہ وہ سنتا ہے ایسے جسے کوئی (انسان یا جانور) سنّتا ہے، اور دیکھتا ہے جیسا اس نے کہا، مگر ایسے نہیں جسے کوئی دیکھنے والا دیکھتا ہے – ہمارے رب تعالی نے کوئی نام نہ رکھا سوائے وہ جو اس نے خود رکھا اور کسی دوسرے نام کی خبر نہیں دی سوائے ان کے جن کی اس نے خبر دی- الله نے کہا کہ هُوَ السَّمِيع الْبَصِير پس ہم کہتے ہیں ہاں وہ السَّمِيع الْبَصِير ہے اور الله نے اپنے لئے (قوت) سمع اور بصر نہیں کہا سو یہ حلال نہیں کسی کے لئے بھی کہ وہ الله کے لئے سمع و بصر کہے کیونکہ وہ الله پر وہ بات بولے گا جس کا علم نہیں اور یہ حلال نہیں ہے
ابن حزم کہہ رہے ہیں الله کے نام کا مطلب ہے لیکن اس کی کیفیت کا پتا نہیں۔ ابن حزم کی رائے میں چونکہ اسماء کا مفھوم انسان کی عقل سے دور ہے لہذا ان کو صرف اسم ہی کہنا صحیح ہے ان کی تاویل منع ہے اور چونکہ الله نے کہا ہے مجھ کو میرے ناموں سے پکارو تو اس کو ان ہی ناموں سے پکارا جائے گا- ان کے نزدیک الله کے ناموں کا مفھوم بھی ہے لیکن ان کی صحیح کیفیت الله کو پتا ہے
البانی سے سوال ہوا کہ هل آيات الصفات والأحاديث من المتشابهات أو من المحكمات ؟ کیا آیات صفات متشابھات ہیں؟
تو انہوں نے کہا
أما باعتبار الكيفية فهي متشابهة
کیفیت کے اعتبار سے متشابھات میں سے ہیں
بحوالہ موسوعة العلامة الإمام مجدد العصر محمد ناصر الدين الألباني
ابن حزم نے کہیں بھی نہیں کہا کہ الله کے ناموں کا مطلب نہیں، اس کو اپ اچھی طرح سمجھ لیں
الذھبی کتاب العَلو للعلي الغفار میں بتاتے ہیں کہ أبو معاذ خالد بن سلیمان کہتے ہیں
كَانَ جهم على معبر ترمذ وَكَانَ فصيح اللِّسَان لم يكن لَهُ علم وَلَا مجالسة لأهل الْعلم فَكلم السمنية فَقَالُوا لَهُ صف لنا رَبك عزوجل الَّذِي تعبده
فَدخل الْبَيْت لَا يخرج مِنْهُ ثمَّ خرج إِلَيْهِم بعد أَيَّام
فَقَالَ هُوَ هَذَا الهوا مَعَ كل شَيْء وَفِي كل شَيْء وَلَا يَخْلُو مِنْهُ شَيْء فَقَالَ أَبُو معَاذ كذب عَدو الله بل الله جلّ جَلَاله على الْعَرْش كَمَا وصف نَفسه
جھم (بن صفوان) ترمذ کی گزر گاہ پر تھا اور فصیح تھا لیکن صاحبِ عِلم نہ تھا اور نہ ہی عِلم والوں کے ساتھ اُسکا اُٹھنا بیٹھنا تھا ، لہذا وہ لوگوں کے ساتھ باتیں کیا کرتا ، لوگوں نے اُسے کہا جِس الله کی تم عِبادت کرتے ہو ہمیں اُسکی صفات بتاو تو وہ (جھم بن صفوان) اپنے گھر میں داخل ہوا اور کئی دِن کے بعد باہر نکلا اور لوگوں کو جواب دِیا کہ وہ جیسے کہ یہ ہوا ہر چیز کے ساتھ ہے ، اور ہر چیز میں ہے اور کوئی چیز اُس سے خالی نہیں تو أبو معاذ نے کہا اللہ کا دشمن جھوٹ بولتا ہے ، اللہ تو اپنے عرش پر ہے جیسا کہ خود اللہ نے اپنے بارے میں بتایا ہے
ابن حزم کے موقف کو جھمیت کہا جا سکتا ہے یا نہیں؟ ہماری رائے میں نہیں، یہ ایک رائے ضرور ہے لیکن اس میں مطلق انکار نہیں جو جھمی کرتے تھے
اہل سنت کے باقی علماء الله کو شی کہتے ہیں پھر الله کے ناموں کو صفات کہتے ہیں- یہ طریقہ استدلال فلسفہ کی وجہ سے رائج ہوا کیونکہ معتزلہ اس طریقہ کار کو استعمال کرتے تھے – یہ طریقہ فلسفہ یونان کے امہات میں سے ہے کہ اشیاء اپنی صفت اور ضد سے پہچانی جاتی ہیں- ابن حزم کے نزدیک الله کے نام کو صفت کہنا بدعت اور اس کے ناموں میں الحاد ہے- الله کو ضد اور صفت کی بجائے اس طرح سمجھا جائے گا جیسا اس نے کتاب الله میں بیان کیا ہے بس نہ اس سے زیادہ نہ اس سے کم
ابن حزم کتاب الفصل في الملل والأهواء والنحل میں کہتے ہیں
فَلَا يجوز القَوْل بِلَفْظ الصِّفَات وَلَا اعْتِقَاده بل هِيَ بِدعَة مُنكرَة
پس یہ صفات کا لفظ بولنا اور اس پر اعتقاد جائز نہیں بلکہ یہ بدعت منکر ہے
محدثین کی رائے اس مسئلہ میں الگ ہے- محدثین یونانی فلسفہ سے متاثر نہیں تھے لیکن معتزلہ کے رد میں وہ فلسفیانہ اصطلا حات کو استمعال کرتے رہے ہیں اور ایک روایت سے ان کو دلیل بھی ملی مثلا امام بخاری ایک حدیث بھی پیش کرتے ہیں جس میں صفة الرحمن کا لفظ ہے
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا عَمْرٌو، عَنِ ابْنِ أَبِي هِلاَلٍ، أَنَّ أَبَا الرِّجَالِ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَهُ عَنْ أُمِّهِ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَكَانَتْ فِي حَجْرِ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ رَجُلًا عَلَى سَرِيَّةٍ، وَكَانَ يَقْرَأُ لِأَصْحَابِهِ فِي صَلاَتِهِمْ فَيَخْتِمُ بِقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، فَلَمَّا رَجَعُوا ذَكَرُوا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «سَلُوهُ لِأَيِّ شَيْءٍ يَصْنَعُ ذَلِكَ؟»، فَسَأَلُوهُ، فَقَالَ: لِأَنَّهَا صِفَةُ الرَّحْمَنِ، وَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَقْرَأَ بِهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَخْبِرُوهُ أَنَّ اللَّهَ يُحِبُّهُ»
سعید بن ابی ھلال روایت کرتے ہیں کہ ابا الرجال نے روایت کیا کہ ان کی ماں عمرہ نے روایت کیا اور وہ حجرہ عائشہ میں تھیں کہ عائشہ رضی الله عنہا نے روایت کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک شخص کو سریہ پر بھیجا اور وہ نماز میں کو سوره الخلاص پر ختم کرتے واپس انے پر اس کا ذکر رسول الله سے ہوا آپ نے فرمایا کہ اس سے پوچھو ایسا کیوں کرتے تھے پس ان صاحب سے پوچھا تو انہوں کے کہا کہ اس میں صفت الرحمن کا ذکر ہے اور مجھ کو یہ پسند ہے لہذا اس کو پڑھتا تھا پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اس کو خبر دو کہ الله بھی اس کو پسند کرتا ہے
ابن حزم اس روایت میں راوی سعید بن ابی ھلال پر تنقید کرتے ہیں
إِن هَذِه اللَّفْظَة انْفَرد بهَا سعيد بن أبي هِلَال وَلَيْسَ بِالْقَوِيّ قد ذكره بالتخطيط يحيى وَأحمد بن حَنْبَل
3اور یہ لفظ بیان کرنے میں سعيد بن أبي هِلَال ( المتوفی ١٤٩ ھ ) کا تفرد ہے جو قوی نہیں اور اس کے اختلاط کا ذکر یحیی اور احمد نے کیا ہے
محدث الساجي نے بھی اس راوی کو الضعفاء میں ذکر کیا ہے امام احمد کے الفاظ کتاب سؤالات أبي بكر أحمد بن محمد بن هانئ الأثرم میں موجود ہیں
البانی اس صفت والی روایت کو صحیح کہتے ہیں لیکن کتاب سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها
میں ایک دوسری روایت پر جرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں
وفوق هذا كله؛ فإن أصل الإسناد- عند سائر المخرجين فيه سعيد بن أبي هلال، وهو مختلط
اور ان سب میں بڑھ کر اس کی اسناد میں سارے طرق میں سعيد بن أبي هلال جو مختلط ہے
کتاب سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة میں ایک دوسری روایت پر کہتے ہیں
الثانية: سعيد بن أبي هلال؛ فإنه كان اختلط؛ كما قال الإمام أحمد
دوسری علت سعيد بن أبي هلال بے شک مختلط ہے جیسا کہ امام احمد نے کہا
ایک اور روایت پر کتاب سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة لکھتے ہیں
وفي إسناده سعيد بن أبي هلال؛ وهو وإن كان ثقة؛ فقد كان اختلط
اور اس کی اسناد میں سعيد بن أبي هلال ہے اگر وہ ثقہ بھی ہو تو ان کو اختلاط تھا
صفة الرحمن کے الفاظ کو بولنے میں سعيد بن أبي هلال راوی کا تفرد ہے لہذا ابن حزم کی رائے اس روایت پر درست معلوم ہوتی ہے ویسے بھی تاریخ کے مطابق یہ فلسفیانہ اصطلا حات بنو امیہ کے آخری دور میں اسلامی لیٹرچر اور بحثوں میں داخل ہوئیں-
ابن حزم کا طریقہ استدلال المعتزلة جیسا بھی نہیں المعتزلة کے نزدیک الله کی صرف چھ صفت بذات تھیں اور باقی صفات بالفعل تھیں مثلا الله کسی کو رزق دیتا ہے اور کسی کو نہیں دیتا لہذا ان کے نزدیک الله ہر وقت نعوذ باللہ الرزاق نہیں – ابن حزم نے ایسی کوئی تقسیم نہیں کی
ہمارے نزدیک ابن حزم اور باقی اہل سنت کے موقف میں طریقہ استدلال کے فرق کی وجہ سے کچھ اختلاف ضرور ہے لیکن وہ اتنا نہیں کہ اس پر ابن حزم کو اہل سنت سے ہی خارج کر دیا جائے واللہ اعلم
وقال أبو عبد الرحمن بن مَنْدَه، عن حمزة العَقَبيّ المصريّ وغيره أنّ النّسائيّ خرج من مصر في آخر عُمَره إلى دمشق، فسُئِل بها عن معاوية وما رُوِيَ في فضائله فقال: لَا يرضى رأسًا برأس حتّى يُفَضَّلَ [2] .
قال: فما زالوا يدفعون في حضْنَيْه [3] حتَّى أُخْرِج من المسجد. ثمّ حُمِل إلى الرملة [4] ، وتُوُفّي بها، رحمة الله ورضي عنه [5] .
وقال الدَّارَقُطْنيّ: إنّه خرج حاجًا فامتُحِن بدمشق، وأدرك الشّهادة، فقال:
احملوني إلى مكّة. فَحُمِل وتوفي بها. وهو مدفون بين الصّفا والمَرْوَة.
المنتظم في تاريخ الأمم والملوك از المؤلف: جمال الدين أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد الجوزي (المتوفى: 597هـ) میں اس کی سند ہے
أَنْبَأَنَا زَاهِرُ بْن طَاهِرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو بكر البيهقي، أخبرنا أبو عبد الله محمد بْن عبد الله الحاكم، قَالَ: حدثني مُحَمَّد بْن إسحاق الأصبهاني، قَالَ: سمعت مشايخنا بمصر يذكرون أن أبا عبد الرحمن فارق مصر في آخر عمره، وخرج إلى دمشق، فسئل عن معاوية وما روي في فضائله، فَقَالَ: لا يرضى معاوية رأسا برأس حتى يفضل، قَالَ:
وَكَانَ يتشيع، فما زالوا يدفعون في خصيته حتى أخرج من المسجد، ثم حمل إلى الرملة [3] ، فمات فدفن بها سنة ثلاث وثلاثمائة.
سند میں مشايخنا بمصر مجہول ہیں
بغية الطلب في تاريخ حلب
المؤلف: عمر بن أحمد بن هبة الله بن أبي جرادة العقيلي، كمال الدين ابن العديم (المتوفى: 660هـ)
قال علي بن محمد المادرائي: وحدثني أهل بيت المقدس قالوا: قرأ علينا أبو عبد الرحمن النسائي كتاب الخصائص، فقلت «2» له: أين فضائل معاوية؟ فقال:
وما يرضى معاوية أن يسكت عنه، قال: فرجمناه وضغطناه، وجعلنا نضرب جنبه، فمات بعد ثلاث.
سند میں حدثني أهل بيت المقدس مجہول ہیں
بعض کے بقول یہ مصر میں ہوا اور بعض کے بقول یہ شام میں ہوا اور بعض کے بقول یہ مصر میں ہوا
لیکن صحیح سند سے ثابت نہیں ہے
صحیح سند سے صرف اتنا ہے کہ نسائی کو مسجد سے نکل جانے کو کہا گیا
قرأت بخط الحافظ أبي طاهر أحمد بن محمد السلفي، وأخبرنا به اجازة عنه أبو علي حسن بن أحمد بن يوسف وغيره، قال: قرأت على أبي عبد الله يعني محمد ابن أحمد بن ابراهيم الرازي بالاسكندرية عن أبيه أبي العباس قال: أخبرنا أبو عبد الله محمد بن الحسن بن عمر الصيرفي قال: حدثنا أبو اسحاق ابراهيم بن نصر البزاز، وكتبه لي بخطه، قال: حدثنا علي بن محمد الكاتب المادرائي قال: حدثني أبو منصور تكين الامير قال: قرأ علي أبو عبد الرحمن النسائي كتاب الخصائص فقلت له: حدثني بفضائل معاوية، فجاءني بعد جمعة بورقة فيها حديثان، فقلت:
أهذه بس؟ فقال: وليست بصحاح، هذه غرم معاوية عليها الدراهم، فقلت له:
أنت شيخ سوء، لا تجاورني، فقال: ولا لي في جوارك حظ، وخرج.
یعنی قتل نہیں ہوا تھا ان کو فضائل معاویہ نہ بیان کرنے پر مسجد سے چلتا کیا گیا
ابن عساکر کا تاریخ دمشق میں کہنا ہے
وهذه الحكاية لا تدل على سوء اعتقاد أبي عبد الرحمن في معاوية بن أبي سفيان، وإنما تدل على الكف عن ذكره بكل حال
اس حکایت سے یہ دلیل نہیں ملتی کہ امام نسائی ، معاویہ رضی الله عنہ سے سوء اعتقاد رکھتے تھے بلکہ وہ ان کے حوالے سے کوئی بھی ذکر کرنے سے رکتے تھے
جواب بعض محدثین زہد کی طرف مائل تھے اور ان کا عقیدہ ابدال پر تھا مثلا
ابن ماجہ، يَحْيَى بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ دِينَارٍ الْحِمْصِيُّ کہتے ہیں وَكَانَ يُعَدُّ مِنَ الْأَبْدَالِ ان کو ابدال میں گنا جاتا ہے
سنن ابی داود کی ایک روایت میں راوی کہتا ہے أَبُو جَعْفَرٍ ابْنَ عِيسَى، كُنَّا نَقُولُ إِنَّه مِنَ الأَبْدَالِ قَبْلَ أَنْ نَسْمَعَ أَنَّ الْأَبْدَالَ مِنَ المَوَالِي
امام دارمی المتوفی ٢٥٥ ھ ایک راوی کے لئے کہتے ہیں أَبُو عَقِيلٍ زُهْرَةُ بْنُ مَعْبَدٍ، وَزَعَمُوا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْأَبْدَالِ اس کا دعوی تھا کہ ابدال میں سے ہے
ایک راوی وزير بن صبيح کے لئے أبو نعيم الأصبهاني المتوفی ٤٣٠ ھ کہتے ہیں كان يعد من الأبدال، اسی طرح کتاب حلية الأولياء وطبقات الأصفياء
میں ان راویوں کو بھی ابدال کہا گیا ہے
مُحَمَّدُ بْنُ آدَمَ الْمِصِّيصِيُّ، وَكَانَ يُقَالُ إِنَّهُ مِنَ الْأَبْدَالِ
سَعِيدُ بْنُ صَدَقَةَ الْكَيْسَانِيُّ، وَكَانَ يُقَالُ أَنَّهُ مِنَ الْأَبْدَالِ
سَعِيدُ بْنُ صَدَقَةَ أَبُو مُهَلْهِلٍ وَكَانَ يُقَالُ إِنَّهُ مِنَ الْأَبْدَالِ
يَحْيَى الْجَلَّاءُ، وَكَانَ يُقَالُ إِنَّهُ مِنَ الْأَبْدَالِ
عَبْدِ الْحَمِيدِ الْعَطَائِرِيُّ، وَكَانَ مِنَ الْأَبْدَالِ
أبو نعيم الأصبهاني جو خود صوفی قسم کے انسان تھے انہوں نے روایات کی اسناد میں ان ابدال کا ذکر کیا ہے
البیہقی المتوفی ٤٥٨ ھ یہی کام شعب الإيمان میں کرتے ہیں کہتے ہیں
جَابِرُ بْنُ مَرْزُوقٍ، وَكَانَ، يُعَدُّ مِنَ الْأَبْدَالِ، ان کو ابدال میں شمار کیا جاتا ہے
الْحَارِثُ بْنُ مُسْلِمٍ الرَّازِيُّ، وَكَانُوا يَرَوْنَهُ مِنَ الْأَبْدَالِ، ان کو ابدال میں سے دیکھا جاتا ہے
ابن حبان صحیح میں باب قائم کرتے ہیں ذِكْرُ مَا يُسْتَحَبُّ لِلْمَرْءِ أَنْ يَسْأَلَ اللَّهَ جَلَّ وَعَلَا لِمَنْ يُصَلِّي عَلَيْهِ الْإِبْدَالَ لَهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ وَأَهْلًا خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ،
أبو بكر بن أبي عاصم کتاب السنہ میں زِيَادُ أَبُو عُمَرَ کے لئے کہتے ہیں – وَكَانَ يُقَالُ لَهُ إِنَّهُ مِنَ الْأَبْدَالِ.
ابدال کے لئے بعض ضعیف روایات بیان کی جاتیں ہیں کہ ابدال سے مراد لوگ ہیں جن کی دعائیں قبول ہوتی ہیں مثلا مسند احمد یہ احادیث جن کو محقق ضعیف کہتے ہیں
حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ، حَدَّثَنِي شُرَيْحٌ يَعْنِي ابْنَ عُبَيْدٍ، قَالَ: ذُكِرَ أَهْلُ الشَّامِ عِنْدَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَهُوَ بِالْعِرَاقِ، فَقَالُوا: الْعَنْهُمْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ. قَالَ: لَا، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: “الْأَبْدَالُ يَكُونُونَ بِالشَّامِ، وَهُمْ أَرْبَعُونَ رَجُلًا، كُلَّمَا مَاتَ رَجُلٌ أَبْدَلَ الله مَكَانَهُ رَجُلًا، يُسْقَى بِهِمُ الْغَيْثُ، وَيُنْتَصَرُ بِهِمْ عَلَى الْأَعْدَاءِ، وَيُصْرَفُ عَنْ أَهْلِ الشَّامِ بِهِمِ الْعَذَابُ” (مسند احمد) 896 , قال الشيخ شعيب الأرناؤوط: إسناده ضعيف.
– حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ، أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ ذَكْوَانَ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «الْأَبْدَالُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ ثَلَاثُونَ مِثْلُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلِ الرَّحْمَنِ كُلَّمَا مَاتَ رَجُلٌ أَبْدَلَ الله مَكَانَهُ رَجُلًا» فِيهِ: يَعْنِي حَدِيثَ عَبْدِ الْوَهَّابِ كَلَامٌ غَيْرُ هَذَا، وَهُوَ مُنْكَرٌ يَعْنِى حَدِيثَ الْحَسَنِ بْنِ ذَكْوَان. (مسند احمد) 22751 , قال الشيخ شعيب الأرنؤوط: منكر وإسناده ضعيف من أجل الحسن بن ذكوان
بعض محدثین نے راویوں کو ابدال کہا ہے جو زہد کی طرف مائل تھے لیکن در حقیقت یہ ایک اصطلاح ہی ہے جس کی دلیل قرآن و احادیث صحیحہ میں نہیں ہے- البانی کتاب سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة میں لکھتے ہیں
واعلم أن أحاديث الأبدال لا يصح منها شيء، وكلها معلولة، وبعضها أشد ضعفا من بعض
اور جان لو کہ ابدال سے متعلق کوئی حدیث صحیح نہیں اور سب معلول ہیں اور بعض میں کمزوری دوسروں سے زیادہ ہے
السیوطی نے اس کے حق میں باقاعدہ رسالہ الخبر الدال على وجود القطب والأوتاد والنجباء والأبدال لکھا تھا-
ابن تیمیہ ( مجموع الفتاوى ج ١١ ص ٤٤١) نے بھی سلسے میں گنجائش پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ابدال کے لئے لکھتے ہیں
فسروه بمعان: منها: أنهم أبدال الأنبياء. ومنها أنه كلما مات منهم رجل أبدل الله مكانه رجلا. ومنها: أنهم أبدلوا السيئات من أخلاقهم وأعمالهم وعقائدهم بحسنات. وهذه الصفات لا تختص بأربعين، ولا بأقل، ولا بأكثر، ولا تحصر بأهل بقية من الأرض
اس کے دو معنی کیے گئے ہیں ایک یہ کہ ابدال انبیاء کے لئے ہیں (یعنی ان کا بدل ہیں ) اور اس کے مفھوم میں سے ہے کہ جب وہ وفات پا جاتے ہیں تو الله ان کے بدلے میں دوسرا شخص ان کی جگہ بدلتا ہے اور اس کے مفھوم میں سے ہے کہ وہ گناہوں کو اخلاق و اعمال سے اور نیکیوں سے بدلتے ہیں اور یہ صفات صرف ٤٠ میں مختص نہیں، نہ زیادہ نہ کم …
سنن ابن ماجہ کی روایت ہے جس کو البانی کتاب تخريج أحاديث فضائل الشام ودمشق لأبي الحسن علي بن محمد الربعي میں حسن قرار دیتے ہیں
أبو هريرة -رضي الله عنه, أنه سمع رَسُولِ الله -صَلَّى الله عَلَيْهِ وسلم- يقول: “إذا وقعت الملاحِمُ بعث الله من دمشقَ بعثًا من الموالي, أكرمَ العرب فرسًا، وأجودهم سلاحًا، يؤيدُ الله بهم الدين”
أبو هريرة -رضي الله عنه سے مروی ہے کہ انہوں نے رَسُولِ الله -صَلَّى الله عَلَيْهِ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا جب جنگیں ہوں گی تو الله الموالی کو دمشق بھیجے گا … اللہ ان سے اس دین میں مدد لے گا-
الموالی سے مراد آزاد کردہ غلام ہیں جو مولی کا جمع ہے – سنن ابی داود کی ایک روایت میں أَبُو جَعْفَرٍ ابْنَ عِيسَى کہتا ہے
كُنَّا نَقُولُ إِنَّه مِنَ الأَبْدَالِ قَبْلَ أَنْ نَسْمَعَ أَنَّ الْأَبْدَالَ مِنَ المَوَالِي
ہم ان (ایک راوی) کو ابدال کہا کرتے تھے یہاں تک کہ ہم نے سنا کہ ابدال ، الموالی (آزاد کردہ غلام )میں سے ہیں-
اگرچہ یہ راوی مظبوط نہیں لیکن یہ اپنے دور کی ایک بات نقل کر رہا ہے جس کی تائید اوپر والی فضائل دمشق والی روایت سے بھی ہوتی ہے – لہذا ابدال ایک اصطلاح ہے جس کا مطلب آزاد کردہ غلام ہے
جواب
طبری ج ١١ ص ٥٣٥ پر ہےوقد روى نوفل بن معاويه عن النبي صلى الله تعالى عليه وعلى آله وسلم وتوفى نوفل بالمدينة في خلافه يزيد بن معاويه، لعنهما الله
طبری ج ١١ ص 529 پر ہےوجعفر بن أَبِي سُفْيَانَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بن هاشم، وكان جعفر ابن ابى سفيان ممن ثبت يوم حنين مع رسول الله ص من اصحابه، ولم يزل مع ابيه ملازما لرسول الله حتى قبض، وتوفى جعفر في وسط خلافه معاويه لعنه الله.
طبری میں جلد ١١ میں دو مقام پر قریب قریب معاویہ رضی الله عنہ پر لعنت کی گئی ہے——راقم سمجھتا ہے کہ کسی کاتب کی شرارت ہے کیونکہ ایک ہی جلد میں چند صفحات کے فاصلے پر لعنت لکھی ہے جبکہ معاویہ رضی الله عنہ کا نام ہزاروں بار اتا ہے- کاتب سے جب لکھوایا جاتا تھا تو اس کے مذھب کو نہیں دیکھا جاتا تھا
اگر طبری کو لعنت ہی کرنا ہوتی تو پہلی بار جب تاریخ میں ذکر کرتے تو لعنت کرتے یہ نہیں کہ کتاب کی گیارہوں جلد میں جا کر کرتے پھر تفسیر طبری میں معاویہ کے اقوال موجود ہیں جن سے ظاہر ہے کہ ایک لعنتی سے قرآن کی تفسیر کیوں لیتے- اس بنا پر تاریخ طبری میں دو مقام پر معاویہ پر لعنت کا ذکر الحاقی ہے
جواب اس میں جو بات ملتی ہے وہ امام احمد کا موقف ہے جو محدثین سے الگ ہے
کتاب مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه از إسحاق بن منصور بن بهرام، أبو يعقوب المروزي، المعروف بالكوسج (المتوفى: 251هـ) کے مطابق
قلت: لأحمد متعة النساء، تقول: إنه حرام؟
قال: أجتنبها أعجب إليّ
قال إسحاق: حرام بلا شك لما ثبت نهيه وتحريمه بعد إحلاله
إسحاق بن منصور کہتے ہیں میں نے امام احمد سے عورتوں سے متعہ کے بارے میں پوچھا کہ کیا یہ حرام ہے
امام احمد نے کہا میں اس سے اجتناب کو پسند کروں گا
امام اسحاق نے کہا حرام ہے کوئی شک نہیں جب اس کی مما نعت ثابت ہے اور اس کا حرام ہونا حلال ہونے کے بعد
فقہ حنبلی میں امام احمد کی رائے پیش کی جاتی ہے ابن قدامة المقدسي الجماعيلي الحنبلي، أبو الفرج، شمس الدين (المتوفى: 682هـ) کتاب الشرح الكبير على متن المقنع میں لکھتے ہیں
وقال أبو بكر فيها رواية أخرى أنها مكروهة غير حرام لأن ابن منصور سأل أحمد عنها فقال تجتنبها أحب إلي قال فظاهر هذا الكراهة دون التحريم
اور ابو بکر نے ایک دوسری روایت میں کہا کہ یہ مکروہ ہے حرام نہیں کیونکہ ابن منصور نے احمد سے سوال کیا تو انہوں نے اس سے اجتناب کو پسند کیا جو ظاہر ہے کہ کراہت ہے حرمت نہیں ہے
امام احمد کی رائے کو اہل علم نے نا پسند کیا ہے
امام احمد اور امام یحیی بن معین کا عبد الرَّحْمَن بن مهْدي اور وكيع بن الجراح پر اختلاف تھا کہ کون زیادہ بہتر ہے
أَبُو سعيد الْعَنْبَري عبد الرَّحْمَن بن مهْدي المتوفی ١٩٨ ھ کے لئے امام احمد نے کہا
قَالَ أَحْمد ابْن حَنْبَل هُوَ أفقه من يحيى بن سعيد وَإِذا اخْتلف هُوَ ووكيع فَابْن مهْدي أثبت لِأَنَّهُ أقرب عهدا بِالْكتاب
احمد نے کہا کہ وہ یحیی بن سعید سے زیادہ فقیہ تھے اور جب ان کا اور وکیع کا اختلاف تو ابن مہدی ثبت ہیں کیونکہ ان کا عہد کتاب کے قریب ہے
امام احمد کا یہ قول تاریخ دمشق، تاریخ البغداد اور سیر الاعلام النبلاء میں موجود ہے اور کتاب بحر الدم میں بھی ہے کہا جاتا ہے کہ جب امام یحیی ابن معین کو امام احمد کے اس قول کا علم ہوا تو انہوں نے کہا
الدوری تاریخ ابن معین میں کہتے ہیں
سَمِعت يحيى وَذكر لَهُ عبد الرَّحْمَن بن مهْدي ووكيع فَقَالَ لَهُ رجل قوم يقدمُونَ عبد الرَّحْمَن بن مهْدي فَقَالَ يحيى من قدم عبد الرَّحْمَن على وَكِيع فَدَعَا عَلَيْهِ فَعَلَيهِ لعنة الله وَالْمَلَائِكَة وَالنَّاس أَجْمَعِينَ
میں نے یحیی ابن معین کو سنا اور ان سے ذکر ہوا عبد الرَّحْمَن بن مهْدي اور وكيع کا کہ ان کی قوم میں ایک شخص عبد الرَّحْمَن بن مهْدي کو آگے کرتا ہے (یعنی عبد الرَّحْمَن بن مهْدي کو وكيع پر فوقیت دیتا ہے) تو یحیی نے کہا جو عبد الرَّحْمَن بن مهْدي کو وكيع پر فوقیت دے اس پر الله اس کے فرشتوں اور تمام انسانیت کی لعنت ہو
ابْنَ أَبِي خَيْثَمَةَ بھی یہی قول ابن معین سے نقل کرتے ہیں
جواب
کتاب الکامل از ابن عدی میں لکھتے ہیں
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ سليمان، حَدَّثَنا ابن أبي مريم، قالَ: سَألتُ يَحْيى بْنَ مَعِين، عَن أبي حنيفة؟ قَال: لاَ يكتب حديثه.
عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ سليمان کہتے ہیں ابن أبي مريم نے کہا میں نے يَحْيى بْنَ مَعِين سے أبي حنيفة کے بارے میں سوال کیا ؟ کہا اس کی حدیث نہ لکھو
اس کی سند میں راوی (احمد بن سعد بن الحکم) ابن ابی مریم (م ۲۵۳ھ) کے بارے میں نسائی کہتے ہیں
لابأس بہ اس میں کچھ حرج نہیں تھذیب التھذیب لابن حجر
ابن حجر نے صدوق کہا ہے جو ثقاہت کا ادنی درجہ ہے
الذھبی کتاب سیر الاعلام میں ان صاحب أحمد بن سعد کے ترجمہ میں لکھتے ہیں
وَتحرَّجَ بِيَحْيَى بنِ مَعِيْنٍ
اور یہ یحیی ابن معین سے دور رہا
یعنی ان سے روایت نہیں لی
الضعفاء الکبیر للعقیلی میں امام عقیلی لکھتے ہیں
حدّثنا محمّد بن عثمان (بن أبی شیبۃ) قال: سمعت یحیٰی بن معین وسئل عن أبی حنیفہ، قال: کان یضعّف فی الحدیث۔
محمد بن عثمان بن ابی شیبہ کہتے ہیں کہ میں نے امام یحیٰی بن معین سے سنا، ان سے امام ابو حنیفہ کے بارے میں میں سوال کیا گیا توا نہوں نے فرمایا، وہ حدیث میں ضعیف قرار دئیے گئے ہیں۔
الذھبی میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں کہ ان کو صالح جزرة ثقہ کہتے ہیں لیکن
وأما عبد الله بن أحمد بن حنبل فقال: كذاب. کذاب ہے
وقال ابن خراش: كان يضع الحديث. حدیثیں گھڑتا ہے
وقال مطين: هو عصا موسى تلقف ما يأفكون. یہ تو موسی کا عصی ہے سب ہڑپ کر جایا ہے
پر لطف بات ہے کہ امام معین اپنے خاص شاگردوں مثلا ابن جنید کو ابو حنیفہ کی رائے بتاتے تھے
کتاب سؤالات ابن الجنيد لأبي زكريا يحيى بن معين میں جنید کہتے ہیں
قلت ليحيى بن معين: ترى أن ينظر الرجل في شيء من الرأي؟ فقال: «أي رأي؟» ، قلت: رأي الشافعي وأبي حنيفة، فقال: «ما أرى لمسلم أن ينظر في رأي الشافعي، ينظر في رأي أبي حنيفة أحب إلي من أن ينظر في رأي الشافعي
میں نے ابن معین سے کہا اپ کیا کہتے ہیں اس شخص کے بارے میں جو رائے کے کو دیکھے؟ انہوں نے پوچھا کس کی رائے؟ کہا شافعی یا ابو حنیفہ! ابن معین نے کہا میرے مطابق مسلمان کے لئے شافعی کی رائے میں کچھ (برائی) نہیں اور ابو حنیفہ کی رائے جاننا میرے لئے شافعی کی رائے سے زیادہ محبوب ہے
اسی کتاب میں ابن معین یحیی بن سعید کی بات نقل کرتے ہیں
وسمعت يحيى يقول: «سمعت يحيى بن سعيد يقول: أنا لا أكذب الله، ربما بلغنا الشيء من قول أبي حنيفة، فنستحسنه فنأخذ به
یحیی کہتے ہیں بے شک میں جھوٹ نہیں کہتا بعض اوقات ہم کو ابو حنیفہ کی بات ملتی ہے اس کو پسند کرتے ہیں اور لیتے ہیں
امام ابن شیبہ نے اپنی مصنف ابن ابی شیبه میں ایک پورا باب امام ابو حنیفہ رحم الله کے رد میں لکھا ہے
ابن ابی شیبہ نے ابو حنیفہ کے اقوال کی سند نہیں دی-
ایسے بے سند اقوال سے کون کہہ سکتا ہے کہ یہ ابو حنیفہ نے ہی کہا ہے جبکہ ان سے متعلق ضعیف سے ضعیف راوی کی روایت کتاب السنہ میں عبد الله بن احمد نے نقل کر دی ہے
ابن ابی شیبہ کو محدث ہوتے ہوئے ایسی حرکت زیب نہیں دیتی کہ کسی کے بارے میں بھی رطب و یابس بلا سند نقل کر دیں
اب ایک مثال سے سمجھاتے ہیں
ابن ابی شیبہ روایات پیش کرتے ہیں کہ اہل بیت کے آزاد کردہ غلاموں پر صدقه حرام ہے پھر ابو حنیفہ کی رائے پیش کرتے ہیں کہ یہ حرام نہیں ہے
اس کی وجہ کیا ہے کہ ابو حنیفہ حدیث کے خلاف رائے ہے کبھی غور کریں تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اہل بیت نبی صلی الله علیہ وسلم کے خاندان والے تھے جو فدک کے باغات میں سے فے اور خمس کھاتے تھے لیکن وقت کے ساتھ وہ بڑھتے چلے گئے اور ایک خاندان نہیں سیکڑوں خاندانوں میں بنو عباس کے دور تک بٹ چکے تھے
اب نہ ان کو فے مل رہا تھا نہ خمس اور موالی پر صدقه کی پابندی کا حکم جو نبی صلی الله علیہ وسلم کے خاندان کے لئے خاص تھا اس پر عمل نا ممکن تھا کیونکہ اصل اہل بیت رہے ہی نہیں
ابو حنیفہ کی مخالفت کرنے والے یہ بتائیں کہ آج اہل بیت کو ڈھونڈھ کر ان کو مال فے اور خمس کیوں نہیں دیا جا رہا؟
اسی طرح ہر باب پر بحث ہو کر تفصیل میں جا کر سمجھا جا سکتا ہے کہ ابو حنیفہ کی رائے الگ کیوں تھی لیکن اس کام کے لئے کتاب لکھنی ہو گی بلاگ میں یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا
خطیب بغدادی نے کتاب الحیل کا تاریخ بغداد میں ذکر کیا ہے
محمد بن بشر أبو عبد الله الرقى حدث عن خلف بن بيان كتاب الحيل في الفقه لأبي حنيفة، رواه عنه أبو الطيب محمد بن الحسين بن حميد بن الربيع الكوفي، وذكر أنه سمعه منه في سنة ثمان وخمسين ومائتين، بسر من رأى.
محمّد بن بشر ابو عبد الله الرقی نے خلف بن بیان سے کتاب الحیل کو امام ابو حنیفہ کی فقہ کے لئے روایت کیا ہے
معلوم ہوا یہ کتاب خلف بن بیان کی سند سے ہے – خلف بن بیان خود ایک مجھول شخص ہے جس کا ترجمہ خطیب نے خود بھی پیش نہیں کیا
کتاب الحیل کے لئے خطیب بغدادی نے لکھا ہے
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدِ اللّٰہِ الحَنَّائِيُّ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الله الشَّافِعِيُّ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ السُّلَمِيُّ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبة الرَّبِیعُ بْنُ نَافِعٍ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الله بْنُ الْمُبَارَکِ، قَالَ : مَنْ نَّظَرَ فِي کِتَابِ الْحِیَلِ لِأَبِي حَنِیفَة أَحَلَّ مَا حَرَّمَ الله، وَحَرَّمَ مَا أَحَلَّ الله
(تاریخ بغداد : 13/426)
”ہمیں محمد بن عبیداللہ حنائی نے خبر دی ، وہ کہتے ہیں : ہمیں محمد بن عبد اللہ شافعی نے خبر دی، انہوں نے کہا : ہمیں محمدبن اسماعیل سلمی نے بیان کیا ، وہ بیان کرتے ہیں : ہمیں ابوتوبہ ربیع بن نافع نے خبر دی ، وہ کہتے ہیں : ہمیں امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے یہ بات بتائی کہ: جو شخص امام ابوحنیفہ کی
کتاب الحیل کا مطالعہ کرے گا ، وہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کوحلال کہنے لگے گا اور اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ
چیزوں کو حرام ٹھہرانے لگے گا۔
اس قول کی نسبت عبد الله ابن مبارک کی طرف ہے جن کے لئے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عمر کے آخری وقت تک فقہ حنفی کی تبلیغ کرتے تھے مخالفین امام ابو حنیفہ یعنی عبد الله بن احمد کتاب السنہ میں لکھتے ہیں
عبداللہ کتاب السنہ میں روایت کرتے ہیں
حَدَّثَنِي أَبُو الْفَضْلِ الْخُرَاسَانِيُّ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ شَمَّاسِ السَّمَرْقَنْدِيُّ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، بِالثَّغْرِ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ، قَالَ: فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ يُكْنَى أَبَا خِدَاشٍ، فَقَالَ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ لَا تَرْوِ لَنَا عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ، فَإِنَّهُ كَانَ مُرْجِئًا فَلَمْ يُنْكِرْ ذَلِكَ عَلَيْهِ ابْنُ الْمُبَارَكِ، وَكَانَ بَعْدُ إِذَا جَاءَ الْحَدِيثُ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ وَرَأْيهِ ضَرَبَ عَلَيْهِ ابْنُ الْمُبَارَكِ مِنْ كُتُبِهِ وَتَرَكَ الرِّوَايَةَ عَنْهُ، وَذَلِكَ آخِرُ مَا قَرَأَ عَلَى النَّاسِ بِالثَّغْرِ، ثُمَّ انْصَرَفَ وَمَاتَ
إِبْرَاهِيمُ بْنُ شَمَّاسِ السَّمَرْقَنْدِيُّ کہتے ہیں ہم سے الثَّغْرِ میں ابن مبارک نے ابو حنیفہ کے بارے بیان کیا پس ایک شخص کھڑا ہوا جسکی کنیت ابو خداش تھی اور بولا اے ابا عبد الرحمان ہم سے ابو حنیفہ کی روایت نہ کریں کیونکہ وہ مرجئہ تھے ابن مبارک نے اسکا انکار نہیں کیا پس اس کے بعد جب ابو حنیفہ کی روایت اوررائے اتی تو ابن مبارک نے اس کو ترک کیا اور یہ الثَّغْرِ میں آخر میں ہوا اس کے بعد ابن مبارک چلے گئے اور مر گئے
یہ واقعہ بھی مسلکی تعصب پر مبنی ہے ابن مبارک آخری وقت تک ابو حنیفہ کی روایت کرتے رہے الثَّغْرِ کے ایک مجھول شخص کے کہنے پر شرمندہ ہوئے اور ابو حنیفہ کی رائے چھوڑ دی، بہت عجیب بات ہے
اگر ابن مبارک ابو حنیفہ کو نا پسند کرتے تھے تو ساتھ نماز کیوں پڑھتے تھے پھر آخری عمر تک ان کی فقہ کی تروتج کیوں کرتے رہے
یہ متضاد قصے لوگوں نے مخالفت میں تو گھڑ لئے لیکن اس کو بیان کرنے والے علماء کو دیکھنا چاہیے کہ کیا نقل کرتے پھر رہے ہیں
آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات نقل کرے
کتاب الحیل کے الذھبی تاریخ الاسلام میں امام محمد کے ترجمہ میں لکھتے ہیں
قال أحمد بن أبي عِمران: إنّما وضعه إسماعيل بن حمّاد بن أبي حنيفة
احمد بن ابی عمران کہتے ہیں اس کو اسمٰعیل بن حماد بن ابن حنیفہ نے گھڑا تھا
الذھبی امام محمد کا قول بھی پیش کرتے ہیں کہ یہ ہماری کتاب نہیں ہم پر ڈالی گئی یا منسوب کی گئی ہے
کہا جاتا ہے کہ کتاب الحیل میں ایک مسئلہ پر ابو حنیفہ کی رائے پر امام بخاری نے جرح کی ہے
امام بخاری صحیح میں بَابٌ فِي الهِبَةِ وَالشُّفْعَةِ میں لکھتے ہیں کہ بعض لوگوں نے کہا
وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ: ” إِنْ وَهَبَ هِبَةً، أَلْفَ دِرْهَمٍ أَوْ أَكْثَرَ، حَتَّى مَكَثَ عِنْدَهُ سِنِينَ، وَاحْتَالَ فِي ذَلِكَ، ثُمَّ رَجَعَ الوَاهِبُ فِيهَا فَلاَ زَكَاةَ عَلَى وَاحِدٍ مِنْهُمَا. فَخَالَفَ الرَّسُولَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الهِبَةِ، وَأَسْقَطَ الزَّكَاةَ
العینی اس کو رد کرتے کہ اس سے مراد احناف ہیں مصطفی البغا کہتے ہیں
ورد عليه العيني بأن هذا الاحتيال لم يقل به أبو حنيفة ولا أصحابه رحمهم الله تعالى وإن كانوا يقولون بجواز الرجوع بالهبة فلذلك قيود وشروط وأدلة يعتمد عليها تحمي هذا الإمام وأصحابه رحمهم الله تعالى من مخالفة رسول الله صلى الله عليه وسلم أو الاحتيال للفرار من فريضة من فرائض الإسلام
بخاري نے تیس دفعہ بعض الناس کے الفاظ صحیح میں استعمال کیے ہیں اور ان سے ہر دفعہ احناف مراد نہیں ہوتے
جواب
امام ابو حنیفہ رحمہ الله تعالی علیہ کی قدر و منزلت فقہ میں سب سے زیادہ ہے. لیکن ان کے ہاتھ کی لکھی کوئی کتاب دنیا میں نہیں . امام ابو حنیفہ سے منسوب ایک کتاب کتاب الفقه الاکبر ہے
ارشد کمال کتاب المسند فی عذاب القبر میں ص ٧٨ پرلکھتے ہیں
ارشد کمال صاحب نے اس عبارت کا حوالہ حواشی میں فقہ الاکبر بتایا ہے
امام الذھبی کتاب تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام میں ص ١٣ ج ٨٧ پر لکھتے ہیں
أبو مطيع البلْخيّ، هُوَ الحَكَم بْن عبد الله الفقيه صاحب كتاب الفقه الأكبر
أبو مطيع البلْخيّ، وہ الحَكَم بْن عبد الله الفقيه ہیں صاحب كتاب الفقه الأكبر ہیں
معلوم ہوا کا یہ کتاب امام ابو حنیفہ کی ہے ہی نہیں
خير الدين بن محمود بن محمد بن علي بن فارس، الزركلي الدمشقي (المتوفى: ١٣٩٦ ھ) کتاب الاعلام میں امام ابو حنیفہ کے لئے لکھتے ہیں ـ
وتنسب إليه رسالة ” الفقه الأكبر ” ولم تصح النسبة
اور ان سے ایک تحریر الفقه الاکبر منسوب ھے اور اس کی نسبت ان سے صحیح نہیں
اس سے واضح ہے کہ اس کتاب اور اس میں بیان کردہ عقائد کی نسبت امام ابو حنیفہ رحمہ الله علیہ سے درست نہیں
جواب
کتاب آداب الشافعي ومناقبه از ابن ابی جاتم کی روایت ہے
أَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ الْوَاسِطِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِدْرِيسَ الشَّافِعِيَّ، يَقُولُ: «مَا أُشَبِّهُ رَأْيَ أَبِي حَنِيفَةَ إِلا بِخَيْطِ سَحَّارَةٍ، تَمُدُّهُ هَكَذَا فَيَجِيءُ أَصْفَرَ، وَتَمُدُّهُ هَكَذَا فَيَجِيءُ أَخْضَرَ»
امام شافعی نے فرمایا: میں ابوحنیفہ کی رائے کو جادو گر کے دھاگے کے سوا کچھ نہیں سمجھتا، کہ جسے ایک طرف کھینچیں تو پیلا ہوجائے اوردوسری طرف کھینچیں تو ہرا ہوجائے۔
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ مَرَّةً أُخْرَى، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ يَقُولُ: «مَا أُشَبِّهُ أَصْحَابَ الرَّأْيِ إِلا بِخَيْطِ سَحَّارَةٍ، تَمُدُّهُ هَكَذَا فَيَجِيءُ أَصْفَرَ، وَتَمُدُّهُ هَكَذَا فَيَجِيءُ أَخْضَرَ»
امام شافعی نے فرمایا: میں اصحاب الرئے (کی رائے) کو جادو گر کے دھاگے کے سوا کچھ نہیں سمجھتا، کہ جسے ایک طرف کھینچیں تو پیلا ہوجائے اوردوسری طرف کھینچیں تو ہرا ہوجائے۔
ان دونوں اقوال میں أحمد بن سنان بن أسد بن حبان الواسطی کا تفرد ہے الذھبی کے مطابق یہ ١٧٠ ہجری کے بعد پیدا ہوئے ہیں اور امام الشافعی سن ٢٠٤ ہجری میں فوت ہوئے -الذھبی باوجود یہ کہ خود الشافعی ہیں وہ احمد بن سنان کو اصحاب الشافعی میں شمار نہیں کرتے
امام الشافعی نے اپنی کتاب الام میں امام ابو حنیفہ کا ذکر کیا ہے ان کو رضی الله عنہ لکھا ہے اور ان کے بہت سے اقوال و ارا کو قبول بھی کیا ہے
امام ابو حنیفہ رحمه الله تعالی علیہ امت کی ایک جلیل القدر شخصیت ہیں دین میں ان کے تفقہ ایک مقام رکھتا ہے اور اس کی وجہ یہ تھی وہ روایت پرست نہیں بلکہ قرآن و حدیث کے نصوص کو سمجھ کر فتوی دیتے تھے
ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ امام ابو حنیفہ نے کچھ لوگوں کو قبروں پر پکارتے سنا
اہل حدیث عالم محمّد ابراہیم جونا گڑھی کتا ب آداب قبور اور فرمان محمدی میں لکھتے ہیں
محمد ابراہیم جونا گڑھی کا انتقال ١٩٤١ ع ہیں ہوا
سن ٨٠ کی دھائی ہیں ڈاکٹر عثمانی نے اس حوالے کو کتاب ایمان الخالص میں نقل کیا تو گویا ایک بھونچال آ گیا
اہل حدیث حضرات نے اس حوالہ کو جھوٹ قرار دیا. مقام حیرت ہے ابراہیم جونا گڑھی پر جھوٹ کا فتوی لگانے کے بجائے ڈاکٹر عثمانی پر لگایا گیا
امام ابو حنیفہ کے اس واقعہ کی تائید میں فقہ کی کتب بھی ہیں
فتح القدیر شرح الہدایہ — ابن الہمام الحنفی
إذا حلف لا يكلمه اقتصر على الحياة فلو كلمه بعد موته لا يحنث لأن المقصود منه الإفهام والموت ينافيه لأنه لا يسمع فلا يفهم
یعنی اگر کسی نے یوں قسم کھائی کہ میں فلاں سے کلام نہیں کروں گا تو یہ زندگی کے ساتھ محدود ہے – پس اگر بعد موت (لاشہ سے) کلام کیا تو قسم نہ ٹوٹے گی اس لئے کہ کلام سے مقصود سمجھانا ہوتا ہے اور موت اس سے روک دیتی ہے کیونکہ میت نہ سن سکتی ہے اور نہ سمجھ سکتی ہے
(فتح القدير ، جلد ٥ ، کتاب الایمان ، باب اليمين فی الضرب والقتل وغيره ، صفحہ ١٨٠)
اسی طرح یہ علمِ کلام اور فقہ کا اصول ہے کہ
ولا نزاع في أن الميت لا يسمع
اس بات میں کسی کا اختلاف نہیں کہ میت قوتِ سماع سے قطعی محروم ہے
(شرح المقاصد ، جلد ٥ ، صفحہ ١١٦)
مکتبہ اہل حدیث اس جھوٹی روایت کو دنیا میں پھیلاتا رہا اور کسی اہل حدیث نے روکا بھی نہیں لیکن اگر ہم
بیان کریں تو صریح جھوٹ بن جاتا ہے ابو جابر دامانوی عذاب قبر میں لکھتے ہیں
امام ابو حنیفہؒ کا ایک بے سند واقعہ جسے موصوف نے تکرار کے ساتھ ’’ یہ قبریں یہ آستانے‘‘ کعبتہ اللہ اور کعبے اور توحید خالص دوسری قسط میں بار بار دھرایا ہے حالانکہ موصوف بھی جانتے ہیں کہ اس واقعہ کی افسانے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں ہے۔ پہلے واقعہ ملاحظہ فرمایئے۔چنانچہ فرماتے ہیں:۔
’’امام ابو حنیفہؒ کا عقیدہ اور مسلک عدم سماع اور عدم حیات فی القبر کا ہے ثبوت یہ ہے :۔
’’امام ابو حنیفہؒ نے ایک شخص کو کچھ نیک لوگوں کی قبروں کے پاس آ کر سلام کر کے یہ کہتے ہوئے سنا کہ اے قبر والو! تم کو کچھ خبر بھی ہے اور کیا تم پر اس کا کچھ اثر بھی ہے کہ میں تمہارے پاس مہینوں سے آ رہا ہوں اور تم سے میرا سوال صرف یہ ہے کہ میرے حق میں دعا کر دو بتائو!تمہیں میرے حال کی کچھ خبر بھی ہے یا تم بالکل غافل ہو۔ابو حنیفہؒ نے اس کا یہ قول سن کر اس سے دریافت کیا کہ قبر والوں نے کچھ جواب دیا؟ وہ بولا نہیں دیا۔امام ابو حنیفہ ؒنے یہ سن کر کہا کہ تجھ پر پھٹکار۔ تیرے دونوں ہاتھ گرد آلود ہو جائیں تو ایسے جسموں سے کلام کرتا ہے جو نہ جواب ہی دے سکتے ہیں اور نہ وہ کسی چیز کے مالک ہی ہیں اور نہ آواز ہی سن سکتے ہیں۔پھر ابو حنیفہؒ نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی: وَمَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ (فاطر) کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم ان لوگوں کو جو قبروں میں ہیں کچھ نہیں سنا سکتے‘‘۔ (غرائب فی تحقیق المذاھب تفہیم المسائل ص ۱۷۱، ۱۷۲ محمد بشیر الدین توحید خالص دوسری قسط ص ۲۸)
اگر یہ واقعہ درست ہوتا تو عدم سماع موتٰی کے لئے تائید کے طور پر ذکر کیا جا سکتا تھامگر حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعہ من گھڑت ہے
خواجہ محمّد قاسم کتاب کراچی کا عثمانی مذھب میں لکھتے ہیں
اگریہ واقعہ من گھڑت ہے تو اپ اپنے مسلک کی اصلاح کیجئے کہ ابھی تک اس کو چھاپ کر عوام میں پیش کیا جا رہا ہے اور اگر یہ بے دلیل ہے تو پتا نہیں جونا صاحب کیا کیا غلط لکھ کر وفات پا گئے ہونگے
عبدللہ روپڑی فتاوی علمائے حدیث ج ٥ میں مقالہ سماع الموتی میں لکھتے ہیں
مولانا ثناء الله امرتسری ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں
امام اعظم (ابو حنیفہ) اور اکثر مشائخ کا عقیدہ عدم سماع کا ہے جیسا کہ کتاب غرائب میں لکھا ہے
کوئی اھل حدیث بتائے کہ یہ کتاب غرائب جس کا حوالہ ثناء الله صاحب نے دیا ہے یہ کون سی کتاب ہے
اب فتآوی نذیریہ ج ١ دیکھتے ہیں
نذیر حسین دھلوی صاحب المتوفی ١٣٢٠ ھ نے بھی فتوی میں غرائب فی تحقیق المذاھب نامی کتاب کا حوالہ دیا ہے
محمد اسحاق بھٹی نے کتاب فقہائے پاک و ہند میں بشیر احمد قنوجی پر پورا ایک باب لکھا ہے جو اہل حدیث عالم تھے اور انہی کی کتاب تفہیم المسائل کا ڈاکٹر عثمانی نے حوالہ دیا تھا
خود اہل حدیث علماء اس کتاب کو مستند سمجھ کر پیش کرتے رہے لیکن آج اہل حدیث کے جہلا اب سند کتاب مانگتے ہیں
جہلا کہتے ہیں کہ یہ افسانہ ہے تو پھر تمہارے ہم مسلک علماء نے ہی یہ فسانہ دنیا میں پھیلایا ہے اس لئے آج ان کی کتابوں سے برات کا اظہار کرو اور انہی پر فتوی لگاؤ
جواب یہ حدیث رسول نہیں بلکہ ابن عساکر کا کتاب تبيين كذب المفتري میں قول ہے- اس کا مفہوم ہے کہ علماء کا گوشت زہریلا ہے – یہ کنایہ ہے کہ جو علماء کی غیبت کر رہا ہے وہ ان کا گوشت کھا رہا ہے اور اس سے ہلاک ہو گا لہٰذا یہ قول علماء اور ذاکرین میں مقبول ہے – دین کو پیشہ بنانے والے مولویوں کو یہ قول بہت محبوب ہے وہ اس کو اپنے علماء پر ثبت کرتے رہتے ہیں- لیکن اس سے ضمنی سوالات پیدا ہوتے ہیں
کیا علماء معصوم ہیں ؟ کیا وہ خود دیگر علماء پر جرح نہیں کرتے مثلا اہل حدیث امام ابو حنیفہ کے بارے میں ہر طرح کی بات بیان کرتے ہیں- پھر متقدمین ائمہ جرح و تعدیل نے تو راویوں تک کو نہیں بخشا تو پھر آج یہ مطالبہ کیوں ہے ؟
الله سبحانہ و تعالی سوره فاطر ٢٨ میں کہتا ہے
إِنَّمَا يَخْشَى ٱللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ ٱلْعُلَمَاء
بے شک الله سے علم والے ڈرتے ہیں
الله تو ہر شخص کو عالم کہتا ہے جو اس سے ڈرے- اس میں سند والے اور کسی مدرسے سے فارغ التحصیل لوگوں کا ذکر نہیں ہے- ہاں وہ بھی عالم ہیں اگر الله سے ڈرتے ہوں اور دین کو پیشہ نہ سمجھتے ہوں صحیح عقیدہ رکھتے ہوں
حدیث قدسی ہے
قال الله عز وجل: من آذى لي ولياً فقد آذنته بالحرب
الله کہتا ہے جس نے میرے دوست کے لئے مجھے ایذا دی پس میں اس کو جنگ سے ایذا دوں گا
یعنی جس نے میرے ولی کو برا کہا میں اس سے دشمنی رکھوں گا – اس میں کس سند یافتہ مولوی کا ذکر ہے؟ ہاں اگر وہ الله کی کبریانی کی بات کریں تو وہ الله کے ولی ہیں اور الله کی پارٹی کے لوگ ہیں
جواب بیہقی کا متساہل ہونا معروف بات ہے
خواجہ محمّد قاسم اپنی کتاب کراچی کا عثمانی مذھب میں لکھتے ہیں
اس کے بر عکس البانی کتاب سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة میں اپنا فیصلہ لکھتے ہیں
وقد تبين لي بتتبعي لنقد البيهقي للأحاديث وأسانيدها ورجالها أنه متساهل
اور بیہقی کی احادیث اور اسناد اور رجال پر رائے دیکھ کر یہ مجھ پر واضح ہو گیا ہے کہ یہ متساہل ہیں
ذھبی کتاب ذكر من يعتمد قوله فى الجرح والتعديل للذهبى ص ١٥٨ پر ایک صاحب کے بارے میں کہتے ہیں
وقسم فى مقابلة هؤلاء كابى عيسى الترمذى وابى عبدالله الحاكم وابى بكر البيهقى متساهلون
اور ان کا تقابل امام ترمذی ، امام حاکم اور بیہقی جیسے متساھلوں سے ہے
احناف سنن الکبریٰ کی بیس رکعات والی تراویح کی روایت دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں. امام بیہقی بیس رکعات تراویح کی روایت کو صحیح قرار دیتے ہیں. اہل حدیث حضرات اس وقت اوپر دیئے گئے ذھبی اور البانی کے اقوال پیش کرتے ہیں
اگر بیہقی نے کوئی ایسی حدیث نہیں چھوڑی جس کو پرکھا نہ ہو تو ان کی بیس رکعات والی روایت پر بھی عمل کریں
بیہقی نے بلاشبہ دلائل النبوه اور حیات الانبیاء فی القبور جیسی کتابیں لکھ کر بے حساب ضعیف روایات جمع کی ہیں ان میں سے کچھ روایات پر البانی صاحب نے بھی جرح کی ہے .اگر روایات لکھتے وقت بیہقی نے تساہل نہ دکھایا ہوتا تو الذھبی ، البانی اور ڈاکٹر عثمانی کو یہ کہنے کی ضرورت نہ رہتی
شرک کو شرک کہنا صرف مجاہدوں کا کام ہے افسوس کہ اب یہ ہمت امت میں سے اٹھ چکی ہے اور مصلحت کوشی اور ذہن پرستی کا اثر عام ہے
زبیر علی زئی کتاب تحقیق اصلاحی اور مقالات علمی میں لکھتے ہیں
بیہقی نے ضعیف روایات کو بیان کیا جس پر اہل حدیث حضرات جرح کریں تو علمی مقالہ کہلایے اور ہم کریں تو اماموں کی تنقیص
کتاب کراچی کا عثمانی مذھب میں خواجہ محمّد قاسم ص ٢٠ لکھتے ہیں
موصوف ص ٧٨ پر ڈاکٹر عثمانی کے لئے لکھتے ہیں
یہ کتاب پڑھ کر ایک واقعہ یاد آیا.
التوبیخ لمن ذم التاریخ میں سخاوی لکھتے ہیں کہ امام یحییٰ بن سعید القطان سے کسی نے سوال کیا کہ آپ نے جو اتنے سارے راویوں پر جرح کی ہے تو آپ کو ڈر نہیں لگتا کہ قیامت کے دن یہ سب آپ سے جھگڑیں گے اس پر امام یحییٰ نے جواب دیا کہ یہ لوگ مجھ سے جھگڑیں مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ رسول الله مجھ سے ناراض ہوں کہ میں نے ان کی احادیث کا دفاع کیوں نہ کیا
یہ نام نہاد بزرگان دین جنہوں نے دنیا میں شرک پھیلایا وہ تو خود سموم و حمیم میں ہونگے اور اگر انہوں نے یہ نہیں کیا تو جب وہ جانیں گے کہ ان کے معتقدین لوگوں نے کیا تو وہ خود اس شرک سے برات کا اظھار کریں گے
امام البغوی کتاب شرح السنہ میں لکھتے ہیں کہ میت چاپ کو محسوس کرتی ہے؟
جواب
امام البغوی الشافعي (المتوفى: 516هـ) کتاب شرح السنہ میں حدیث پیش کرتے ہیں
أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَرَجِ الْمُظَفَّرُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ التَّمِيمِيُّ، أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ حَمْزَةُ بْنُ يُوسُفَ السَّهْمِيُّ، أَنا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَدِيٍّ الْحَافِظُ، نَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، نَا أَسَدُ بْنُ مُوسَى، نَا عَنْبَسَةُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي جَدِّي، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِنَّ الْمَيِّتَ يَسْمَعُ حِسَّ النِّعَالِ إِذَا وَلَّوْا عَنْهُ النَّاسُ مُدْبِرِينَ، ثُمَّ يُجْلَسُ وَيُوضَعُ كَفَنُهُ فِي عُنُقِهِ، ثُمَّ يُسْأَلُ»
كَثِيرٌ جَدُّ عَنْبَسَةَ: هُوَ كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ رَضِيعُ عَائِشَةَ مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ.
قَالَ رَحِمَهُ اللَّهُ: قَوْلُهُ «إِنَّ الْمَيِّتَ يَسْمَعُ حِسَّ النِّعَالِ» فِيهِ دَلِيلٌ عَلَى جَوَازِ الْمَشْيِ فِي النِّعَالِ بِحَضْرَةِ الْقُبُورِ، وَبَيْنَ ظَهْرَانَيْهَا.
عَنْبَسَةُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرٍ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں وہ ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بے شک میت چاپ محسوس کرتی ہے جب لوگ پلٹتے ہیں پھر وہ بیٹھتی ہے اور کفن اس کی گردن تک رکھا جاتا ہے پھر سوال ہوتا ہے
کثیر یہ عنسبہ کے دادا ہیں اور یہ کثیر بن عبید ہیں
بغوی کہتے ہیں کہ قول بے شک میت چاپ محسوس کرتی ہے اس میں دلیل ہے چپل پہن کر قبروں کے پاس چلنے کے جواز کی اور ان کے درمیان
بغوی نے چاپ محسوس کرنے کی روایت کو استثنا نہیں کہا بلکہ قبرستان میں کبھی بھی قبروں پر چلنے کی اس سے دلیل لی – یاد رہے کہ صحیح عقیدہ ہے کہ المیت لا یحس و لا یسمع میت نہ سنتی ہے نہ محسوس کرتی ہے
جواب
امام ابن حزم نے اس قول کو اپنی کتاب الایصال میں بیان کیا ہے جو مفقود ہے – کتاب المحلی بالآثار میں ابن حزم ابو الوفاء بن عبد السلام کی پیش کردہ ایک روایت کو رد کرتے ہیں اس کی سند میں امام ترمذی ہیں لیکن وہاں اسکو رد کرنے کی وجوہ الگ بتاتے ہیں
– ہمارے علم میں تین وجوہ ہیں
علماء امام ترمذی کی کنیت پر اعتراض کرتے ہیں کہ کوئی آدمی ابو عیسی کنیت رکھے کیونکہ عیسی علیہ السلام تو بن باپ پیدا ہوئے تھے امام ترمذی کی کنیت پر اختلاف ہے ابن دحية کے مطابق ابن الدهان ہے دیکھیے إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي
کہا جاتا ہے الترمذی نام کا کوئی شخص حنابلہ یعنی احمد بن حنبل کے متعقدین کے اس عقیدے کے خلاف تھا کہ روز محشر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کوعرش پر بٹھایا جائے گا جو اسی دور کا ہے جس میں سنن والے امام ترمذی موجود ہیں – اس پر حنابلہ کی طرف سے آج کہا جاتا ہے کہ یہ ترمذی مجھول ہے لیکن اس ترمذی کا اختلافی قول سنن ترمذی سے مماثلت رکھتا ہے مزید تفصیل اس ویب سائٹ کے عقائد پر سوالات میں ہے
امام ترمذی سے منسوب کتاب العلل کی سند نہیں ہے بہت سے علماء کے نزدیک یہ کتاب غیر ثابت ہے
ان تین وجوہ کی بنا پر شاید ابن حزم کے نزدیک امام ترمذی مجھول تھے
الذھبی میزان میں لکھتے ہیں
ولا التفات إلى قول أبي محمد بن حزم فيه في الفرائض من كتاب الايصال : إنه مجهول، فإنه ما عرفه ولا درى بوجود الجامع ولا العلل اللذين له
اور ابی محمد ابن حزم کے قول کی طرف مائل نہ ہو جو کتاب الايصال میں الفرائض میں ہے کہ یہ ترمذی مجھول ہے کیونکہ میں نہیں جانتا اور مجھے نہیں پتا کہ (کتاب) الجامع اور (کتاب) العلل اسی سے ہیں
تہذیب التہذیب میں ابن حجر کہتے ہیں
وأما أبو محمد بن حزم فإنه نادى على نفسه بعدم الاطلاع فقال في كتاب الفرائض من الاتصال محمد بن عيسى بن سورة مجهول
اور جہاں تک ابن حزم ہیں تو انہوں نے اپنے لئے بے خبری کا کتاب فرائض میں بیان کیا ہے کہ محمد بن عیسی بن سورہ مجھول ہے
الذھبی تاریخ الاسلام میں لکھتے ہیں
قَالَ أبو الفتح اليَعْمُريّ: قَالَ أبو الْحَسَن بن القطان في ” بيان الوهم والإيهام ” عقيب قول ابنِ حزْم: هَذَا كلام من لم يبحث عَنْهُ، وقد شهِدَ له بالإمامة والشُّهْرة الدّارَقُطْنِيّ، والحاكم.
أبو الفتح اليَعْمُريّ نے کہا کہ أبو الْحَسَن بن القطان نے کتاب بيان الوهم والإيهام میں کہا ابن حزم کے قول پر کہ یہ بات اس قابل نہیں کہ اس پی بحث کریں انکی امامت و شہرت کی گواہی دارقطنی اور حاکم نے دی
دارقطنی چوتھی اور حاکم پانچویں صدی میں فوت ہوئے لہذا انکی گواہی خبر ہی ہے شواہد کی بنیاد پر نہیں
جواب
امام احمد کے پاس رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے کچھ بال تھے اس کا ذکر حنبل بن اسحاق نے اپنی کتاب میں کیا ہے کہ جب خلق قرآن کے مسئلہ پر الخليفة المعتصم کی طرف سے امام احمد کو کوڑے لگانے کا حکم دیا گیا تو اس وقت
کتاب التعريف بكتاب محنة الإمام أحمد بن حنبل از محمد نغش کے مطابق
قال أبو عبد الله: وأنا أنظر، وكان معي شعر النبي [صلى الله عليه وسلم] أعطانيه ابن الفضل بن الربيع، وكان في صرة من قميص، فقال: انزعوا عنه قميصه ولا تخرقوه، ثم قال: ما هذا في ثوبه؟ فقالوا لي: ما هذا في ثوبك؟ قلت: هذا شعر من شعر النبي صلى الله عليه وسم
امام احمد نے کہا اور میں دیکھ رہا تھا اور میرے پاس نبی صلی الله علیہ وسلم کے کچھ بال تھے جو الفضل بن الربیع نے دیے تھے اور وہ میری قمیص کے بٹوے میں تھے عباسیوں نے کہا اس کی قمیص اتارو اور اس کو خراب نہ کرو پھر پوچھا یہ تمہارے کپڑے میں کیا ہے ؟ میں نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے کچھ بال ہیں
الذھبی کتاب سیر الآعلام النبلاء میں لکھتے ہیں
الخَلاَّلُ: أَخْبَرَنِي عِصْمَةُ بنُ عِصَامٍ، حَدَّثَنَا حَنْبَلٌ، قَالَ: أَعطَى بَعْضُ وَلَدِ الفَضْلِ بنِ الرَّبِيْعِ أَبَا عَبْدِ اللهِ – وَهُوَ فِي الحَبْسِ – ثَلاَثَ شَعرَاتٍ، فَقَالَ: هَذِهِ مِنْ شَعْرِ النَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-. فَأَوْصَى أَبُو عَبْدِ اللهِ عِنْدَ مَوْتِهِ أَنْ يُجعَلَ عَلَى كُلِّ عَيْنٍ شَعرَةٌ، وَشَعرَةٌ عَلَى لِسَانِهِ، فَفُعِلَ ذَلِكَ بِهِ عِنْدَ مَوْتِهِ.
ابو بکر الخلال کہتے ہیں مجھ کو عِصْمَةُ بنُ عِصَامٍ نے خبر دی کہ حنبل بن اسحاق نے کہا الفَضْلِ بنِ الرَّبِيْعِ کے کسی لڑکے نے امام احمد کو قید میں تین بال دیے اور کہا یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ہیں پس امام احمد نے وصیت کی کہ انکی موت پر ایک ایک بال ان کی آنکھوں پر اور ایک زبان پر رکھا جائے پس یہ انکی موت پر کیا گیا
امام احمد کا یہ عمل بدعت تھا اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے عقیدت یہ نہیں کہ مقدس اشیاء کو ضائع کیا جائے
خبرنا محمد بن الحسين بن الفضل القطان , قال أخبرنا عبد اللہ بن جعفر بن درستويہ , قال حدثنا يعقوب بن سفيان , قال حدثني علي بن عثمان بن نفيل , قال حدثنا أبو مسهر , قال حدثنا يحيى بن حمزة , وسعيد يسمع , أن أبا حنيفة قال : لو أن رجلا عبد هذه النعل يتقرب بها إلى الله , لم أر بذلك بأسا , فقال سعيد : هذا الكفر صراحا
ترجمہ: يحيى بن حمزہ نے سعيد کے سامنے يہ بات بيان کي کہ أبو حنيفہ نے کہاہے: اگر کوئي شخص اس جوتے کي عبادت کرے اللہ کا تقرب حاصل کرنے کي نيت سے تو ميں اس ميں کوئي حرج نہيں سمجھتا ۔تو سعيد (بن عبد العزيز التنوخي ) نے (يہ سن کر ) کہا : يہ تو صريح کفر ہے۔
(المعرفۃ والتاریخ للفسوی ص 368، وتاریخ بغداد جلد 13 صفحہ 372 وغیرہ)
جواب
سُبْحَانَكَ هَذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ
تاریخ بغداد میں سند ہے
أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بن الحسين بن الفضل القطان، أخبرنا عبد الله بن جعفر بن درستويه ، حدّثنا يعقوب بن سفيان، حدثني علي بن عثمان بن نفيل، حدّثنا أبو مسهر، حَدَّثَنَا يَحْيَى بن حمزة- وَسَعِيد يسمع- أَنَّ أَبَا حنيفة قَالَ: لو أَنَّ رجلا عَبْد هذه النعل يتقرب بها إلى الله، لم أر بذلك بأسا. فَقَالَ سَعِيد: هَذَا الكفر صراحا
سند میں عبد الله بن جعفر بن درستويه ہے جو ضعیف ہے
خطیب بغدادی نے البرقاني کے حوالے سے اس کی تضعیف نقل کی ہے
—-
الفسوي «المعرفة والتاريخ» (ج2ص784): میں کہتے ہیں
حدثنا علي بن عثمان بن نفيل قال حدثنا أبو مسهر قال حدثنا يحيى بن حمزة وسعيد يسمع أن أبا حنيفة قال: لو أن رجلاً عبد هذه النعل يتقرب بها إلى لم أر بذلك بأساً.
فقال سعيد: هذا الكفر صراحاً.
يحيى بن حمزة اور سعید بن عبد العزيز کا سماع امام ابو حنیفہ سے نہیں ہے
—
خبرنا الثقفى قال : حدثنا أحمد بن الوليد الكرخي قال : حدثنا الحسن بن الصباح قال : حدثنا محفوظ بن أبى ثوبة قال : حدثنى ابن أبى مسهر قال : حدثنا يحيى ابن حمزة وسعيد بن عبد العزيز قالا : سمعنا أبا حنيفة يقول : لو أن رجلا عبد هذا البغل تقربا بذلك إلى الله جل وعلا لم أر بذلك بأسا
كتاب المجروحين – ابن حبان ج 3 ص 73
اس کی سند میں محفوظ بن أبى ثوبة ضعیف ہے
—
یہ پروپگنڈا دو افراد يحيى بن حمزة بن واقد الحضرمي الأصل الدمشقي اور سعيد بن عبد العزيز بن أبى يحيى التنوخى
الدمشقى کا ہے
يحيى بن حمزة بن واقد الحضرمي الأصل الدمشقي سن ١٠٨ ہجری میں پیدا ہوئے عباسی خلیفہ المَنْصُوْرُ کے دور میں سن ١٥٣ ہجری میں دمشق کے قاضی بھی رہے سن ١٨٣ ہجری میں فوت ہوئے المنصور ان کو جوان کہتے
سیر الاعلام النبلاء ج ٨ س ٣٥٥ پر
سعيد بن عبد العزيز بن أبى يحيى سن ١٦٧ ہجری میں فوت ہوئے سن ٩٠ میں پیدا ہوئے مشھور مدلس ہیں آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوئے
إمام أبو حنیفہ ٨٠ میں پیدا ہوئے اور ١٥٠ میں فوت ہوئے
یعنی یہ دونوں حمزہ اور سعید دمشقی دونوں امام صاحب کے ہم عصر تو تھے لیکن ان دونوں کو اکتساب علم کے لئے ابو حنیفہ کے منہ لگنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی اہل دمشق کی یہ منفرد روایت منکر ہے جو ان سے زیادہ معتبر ابو حنیفہ پر تعصب عصری کی مثال ہے
اہل دمشق میں سے ان دو کا سماع امام صاحب سے کب کیسے ہوا کہاں ملاقات ہوئی امام ابو حنیفہ کا دمشق جانا کسی نے بیان نہیں کیا
مخالفین نے اس قسم کے بے سروپا اقوال کو قبول کیا ہے لیکن جو اہل انصاف و عدل ہیں ان کے نزدیک یہ دونوں جھوٹ بول رہے ہیں
یا کسی وہم کا شکار ہیں
جواب
جواب
امام الذھبی سیر میں ج ١١ ص ٣٣٠ پر لکھتے ہیں
قَالَ ابْنُ الجَوْزِيِّ: وَلَهُ -يَعْنِي: أَبَا عَبْدِ اللهِ- مِنَ المُصَنَّفَاتِ: كِتَابُ (نَفْيِ التَّشبِيهِ) مُجَلَّدَةٌ، وَكِتَابُ (الإِمَامَةِ) مُجَلَّدَةٌ صَغِيْرَةٌ، وَكِتَابُ (الرَّدِّ عَلَى الزَّنَادِقَةِ) ثَلاَثَةُ أَجْزَاءٍ، وَكِتَابُ (الزُّهْدِ) مُجَلَّدٌ كَبِيْرٌ، وَكِتَابُ (الرِّسَالَةِ فِي الصَّلاَةِ) –
ابن جوزی نے کہا کہ ابو عبد الله (امام احمد) کی مصنفات میں سے ہیں کتاب (نَفْيِ التَّشبِيهِ) مجلد ہے، وَكِتَابُ (الإِمَامَةِ) چھوٹی مجلد ہے ، وَكِتَابُ (الرَّدِّ عَلَى الزَّنَادِقَةِ) تین أَجْزَاءٍ، وَكِتَابُ (الزُّهْدِ) مُجَلَّدٌ ، وَكِتَابُ (الرِّسَالَةِ فِي الصَّلاَةِ) –
اس کے بعد امام الذھبی اپنی رائے پیش کرتے ہیں
قُلْتُ: هُوَ مَوْضُوْعٌ عَلَى الإِمَامِ
میں کہتا ہوں یہ امام احمد پر گھڑی گئی ہے
راقم کی رائے میں ابن جوزی اور ان کے معاصرین حنابلہ ابویعلی اور غیرھم نے اس کو امام احمد کی کتاب مانا ہے اگرچہ متاخرین مثلا امام الذھبی نے اس کا انکار کیا ہے
اس کے بارے میں طبقات حنابلہ میں امام احمد کے شاگرد مهنا بْن يَحْيَى الشامي کہتے ہیں
كتبه أَبُو عَبْدِ اللَّهِ أَحْمَد بن محمد بْنِ حنبل إلى قوم صلّى معهم بعض الصلوات.
اس کتاب کو امام احمد نے ایک قوم کے لئے لکھا جو ان کے ساتھ نماز پڑھتے تھے
کتاب امام احمد سے ثابت ہے کیونکہ اس میں جو الفاظ ہیں وہی حنبلیوں نے اپنی کتابوں میں امام احمد سے منسوب کیے ہیں
اس پر محقق أَبُو عَبْدِ اللهِ، إبْرَاهِيمُ بنُ رَجَا الشمّريّ نے ثابت کیا ہے کہ یہ کتاب امام احمد کی ہی ہے
https://www.dropbox.com/s/cj60qg4vi0m9t5h/رسالة%20الصلاة.doc?dl=0
اس کتاب کے صفحہ ٤٨ سے وہ اقوال شروع ہوتے ہیں جو حنابلہ کے نزدیک امام احمد کے اقوال ہیں نماز کے سلسلے میں ہیں
المدونه امام مالک کے اقوال کا مجموعہ ہے جس کو امام سَحْنُوْنُ أَبُو سَعِيْدٍ عَبْدُ السَّلاَمِ بنُ حَبِيْبٍ التَّنُوْخِيُّ نے روایت کیا ہے یہ کتاب مالکیہ میں مستند ہے اور سَحْنُوْنُ أَبُو سَعِيْدٍ عَبْدُ السَّلاَمِ بنُ حَبِيْبٍ التَّنُوْخِيُّ کے ترجمہ میں الذھبی سیر میں لکھتے ہیں قَاضِي القَيْرَوَانِ، وَصَاحِبُ المُدَوَّنَةِ
سیر ہی میں امام مالک کے ترجمہ میں الذھبی کہتے ہیں
فَأَمَّا مَا نَقَلَ عَنْهُ كِبَارُ أَصْحَابِهِ مِنَ المَسَائِلِ، وَالفَتَاوَى، وَالفَوَائِدِ، فَشَيْءٌ كَثِيْرٌ.
وَمِنْ كُنُوْزِ ذَلِكَ: (المُدَوَّنَةُ) ، وَ (الوَاضِحَةُ) ، وَأَشْيَاءُ.
پس ان سے مسائل و فتوی اور فوائد امن اصحاب نے بہت سی چیزوں کو نقل کیا ہے ان خزانوں میں سے ہیں
المدونه اور الوَاضِحَةُ اور چیزیں
سَحْنُوْنُ کے ترجمہ میں الذھبی کہتے ہیں
وَأَصْلُ (المُدَوَّنَةِ) أَسْئِلَةٌ، سَأَلَهَا أَسَدُ بنُ الفُرَاتِ لاِبْنِ القَاسِمِ.
فَلَمَّا ارْتَحَلَ سَحْنُوْنُ بِهَا، عَرَضَهَا عَلَى ابْنِ القَاسِمِ، فَأَصْلَحَ فِيْهَا كَثِيْراً، وَأَسْقَطَ، ثُمَّ رَتَّبَهَا سَحْنُوْنُ، وَبَوَّبَهَا.
وَاحْتَجَّ لِكَثِيْرٍ مِنْ مَسَائِلِهَا بِالآثَارِ مِنْ مَرْوِيَّاتِهِ، مَعَ أَنَّ فِيْهَا أَشْيَاءَ لاَ يَنْهَضُ دَلِيْلُهَا، بَلْ رَأْيٌ مَحْضٌ.
مدونہ کی اصل سوالات ہیں جن کو اسد بن الفرات نے ابن القاسم سے کیا پھر جب سَحْنُوْنُ نے اس کے لئے سفر کیا اس کو ابن قاسم پر پیش کیا انہوں نے اصلاح کی جس میں دلیل نہیں صرف رائے تھی
ابن خلکان لکھتے ہیں
وكان أول من شرع في تصنيف ” المدونة ” أسد بن الفرات الفقيه المالكي بعد رجوعه من العراق وأصلها أسئلة سأل عنها ابن القاسم فأجابه عنها، وجاء بها أسد إلى القيروان وكتبها عنه سحنون، وكانت تسمى ” الأسدية ” ثم رحل بها سحنون إلى ابن القاسم في سنة ثمان وثمانين ومائة فعرضها عليه وأصلح فيها مسائل ورجع بها إلى القيروان في سنة إحدى وتسعين ومائة، وهي في التأليف على ما جمعه أسد ابن الفرات أولاً غير مرتبة المسائل ولا مرسمة التراجم، فرتب سحنون أكثرها وبوبه على ترتيب التصانيف واحتج لبعض مسائلها بالآثار من روايته من موطإ ابن وهب وغيره،
وفیات الاعیان جلد3صفحہ١٨١ پر
اور اسد بن الفرات وہ پہلے ہیں مالکی فقیہہ جنہوں نے مدونہ تصنیف کی عراق جانے کے بعد اور اس کا اصل وہ سوالات ہیں جو ابن القاسم سے کیے اور انہوں نے جواب دیا اس کو لے کے قیروان آئے اور سحنون کو اس پر لکھا اس کو الاسدیہ کا نام دیا پھر سحنون اس کو لے گئے ابن القاسم کے پاس سن ١٨٠ ہجری میں اس کو ان پر پیش کیا اس کی اصلاح کی اور واپس قیروان لائے سن ١٩١ ہجری میں اور یہ تالیف وہ تھی جو اولا اسد بن الفرات نے جو مسائل جمع کیے تھے ان مسائل پر مشتمل تھی اس میں مسائل کا مرتبہ اور تراجم کی رسم نہیں تھی پس سحنون نے اس کو مرتب کیا اور اس پر ابواب قائم کیے اور اس میں مسائل پر دلیل لی موطا ابن وھب کی روایت پر اور دیگر پر
البرذعي کی سؤالاته (۲|۵۳۳) کے مطابق : وذكرت لأبي زرعة (الرازي) مسائل عبد الرحمن بن القاسم عن مالك، فقال: «عنده ثلاث مئة جلدة أو نحوه عن مالك مسائل أسدية». قلت: «وما الأسدية»؟ فقال: «كان رجل من أهل المغرب يقال له أسد، رحل إلى محمد بن الحسن (صاحب أبي حنيفة) فسأله عن هذه المسائل. ثم قدم مصر، فأتى عبد الله بن وهب فسأله أن يسأله عن تلك المسائل: مما كان عنده فيها عن مالك أجابه، وما لم يكن عنده عن مالك قاس على قول مالك. فأتى عبد الرحمن بن القاسم، فتوسع له، فأجابه على هذا. فالناس يتكلمون في هذه المسائل»
البرذعي کہتے ہیں میں نے ابو زرعة سے مسائل ابن القاسم جو وہ مالک سے روایت کرتے ہیں ان کا ذکر کیا اس پر انہوں نے کہا اس کی ٣٠٠ جلدیں ہیں مسائل اسدیہ جو مالک سے ہیں- میں (البرذعي) نے کہا یہ الاسدیہ کیا ہے ابو زرعة نے کہا اہل مغرب کا ایک شخص تھا جس کو اسد (بن الفرات) کہا جاتا تھا اس نے محمد بن الحسن کی طرف سفر کیا ان سے مسائل پر سوال کیا- پھر مصر گیا اورعبد اللہ ابن وھب کے پاس آیا اور ان مسائل پر سوال کیا جو مالک کے تھے ان کے مطابق جواب دیا- جس پر مالک کا جواب نہیں تھا اس میں مالک کے قول پر قیاس کیا- پھر یہ (اسد) وہاں سے ابن القاسم کے پاس آیا جس سے اس (کتاب) میں اضافہ ہوا اور ابن القاسم نے جوابات دیے- پھر لوگوں نے ان مسائل میں کلام کیا
یعنی الاسدیہ از اسد بن الفرات کی نئی شکل المدونه از سحنون ہے
الغرض کتاب المدونه ثابت ہے یہ امام مالک کی نہیں بلکہ سَحْنُوْنُ کی ہے
جواب
المجروحین میں ابن حبان نے امام صاحب کا ترجمہ دیا ہے اور ان کو مجروح قرار دیا ہے
راقم کہتا ہے ابن حبان نے ایسا کر کے افراط کیا ہے ابو حنیفہ سے لوگوں کا بہت خنس تھی کیونکہ وہ اہل رائے و اجتہاد تھے اور اس امت میں ان کے مقام کے لوگ پیدا نہیں ہوئے روایت پسندوں نے ان کے خلاف محاذ بنائے رکھا اور ان کو حدیث کا مخالف بنا پر پیش کیا جبکہ وہ مشکل حدیث کی صنف میں اور ناسخ و منسوخ فی الحدیث کا علم رکھتے تھے
حدثنی ابراھیم ثنا ابو صالح محبوب بن موسیٰ الفرا عن یوسف بن اسباط حدثنی محمد بن ھارون نا ابو صالح سمعت یوسف یقول کان ابو حنیفۃ یقول لو ادرکنی النبی اوادرکتہ لاخذ بکثیر منی ومن قولی وھل الدین الا الرای؟ ( الحسن) (اسنادہ حسن) (کتاب السنۃ ج اول ص 206،226) اخرجہ ابن عدی الکامل فی ضعفاء الرجال جلد 7ص 7524) وخطیب فی تاریخ بغداد جلد 13 ص 407)
ترجمہ: امام صالح سے کہ میں نے امام یوسف سے سنا انہوں نے کہا ابو حنیفہ کہتا ہے اگر مجھے رسول اللہ پالیتے یا میں آپ کو پالیتا تو آپ میرے بہت سے اقوال کو لے لیتے۔ اور دین تو صرف اچھی رائے کا نام ہے۔
سند کی تحقیق
پہلی سند 1۔ محمد بن ھارون بن ابراھیم الربعی ابو جعفر البغدادی للبزار ابو نشیط ثقہ (خلاصہ تذھیب تھذیب الکمال جلد 2 ص 464
2۔ ابو صالح ھو محبوب بن موسی الانطا کی ابو صالح الفراء ثقہ (الکاشف جلد 3 ص 108
دوسری سند
1۔ ۔ ابراھیم بن سعید الجوھری ابو اسحاق الطبری نزیل بغداد ثقہ حافظ (تقريب التهذيب ص 20
2۔ ابو صالح ھو محبوب بن موسی الانطا کی ابو صالح الفراء ثقہ (الکاشف جلد 3 ص 108
تاريخ بغداد
جواب
کتاب السنہ از عبد الله بن امام احمد کی سند ہے
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ، ثنا أَبُو صَالِحٍ مَحْبُوبُ بْنُ مُوسَى الْفَرَّاءُ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ أَسْبَاطٍ، قَالَ: ” قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: لَوْ أَدْرَكَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَأَخَذَ بِكَثِيرٍ مِنْ قَوْلِي ”
اور
في (تاريخ بغداد) ج 13 ص386 « … محبوب بن موسى قال سمعت يوسف بن أسباط يقول: قال أبو حنيفة لو أدركني رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وآلِهِ وَسَلَّمَ أو أدركته لأخذ بكثير من قولي
يُوسُفَ بْنِ أَسْبَاطٍ المتوفی ١٩٥ ھ ایک شامی زاہد ہے اس نے اپنی کتابیں دفن کر دی تھیں اس پر جرح کرنے والے کہتے ہیں یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس کا سماع میں مسائل تھے اور اس کا دفاع کرنے والے کہتے ہیں کہ یہ بہت محتاط تھے
خطیب کہتے ہیں يغلط في الحديث كثيراً یہ حدیث میں بہت غلطیاں کرتا تھا
خود یہ موصوف أنطاكية کے ہیں ان کا سماع امام ابو حنیفہ سے کب ہوا کہاں ہوا؟
قَالَ أَبُو حَاتِمٍ: لاَ يُحْتَجُّ بِهِ.
ابو حاتم کہتے ہیں اس سے دلیل نہ لی جائے
امام بخاری کہتے ہیں
كان قد دفن كتبه فكان لا يجيء بحديثه كما ينبغي
اس نے کتابیں دفن کیں پس یہ اپنی روایات ایسے نہیں لایا جیسا آنا چاہیے تھا
عبد الرحمن بن يحي المعلمي اليماني نے کتاب النكت الجياد المنتخبة من كلام شيخ النقاد ذهبي یا التنکیل میں اس پر لیپا پوتی کی ہے لیکن ان کا جواب حماقت کے سوا کچھ نہیں کہتے ہیں
أما دفن كتبه فصحيح، وكذلك فعل آخرون من أهل الورع
اس کا کتابوں کو دفن کرنا صحیح ہے اور ایسا دوسروں نے بھی کیا ہے جو اہل خوف ہیں
المعلمی کہتے ہیں
ثم لم يتصد يوسف للرواية بعد أن دفن كتبه
دفن کے بعد یوسف نے روایت نہیں کیا
جبکہ الکامل میں ابن عدی کہتے ہیں
إلا أنه لما عدم كتبه كان يحمل على حفظه فيغلط ويشبه عليه
بلاشبہ جب کتب معدوم ہوئیں تو انہوں نے حافظہ سے روایت کیا اس میں غلطیاں کیں اور اس میں اشتباہ ہوا
دوسرے صاحب محبوب بن موسى الانطاكي، أبو صالح الفراء المتوفی ٢٣٠ ھ ہیں یہ بھی شامی ہیں
دارقطنی کہتے ہیں وليس بالقوى قوی نہیں ہیں
اس کو ثقہ بھی کہا گیا ہے
لہذا امام ابو حنیفہ پر جرح کرنے والے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ لوگ ثقہ تھے اور جو اس جرح کو قبول نہیں کرتے وہ ان دونوں کو اس قدر مظبوط نہیں پاتے کہ ان کے منفرد قول کو قبول کیا جائے
—–
ابو حنیفہ سے منسوب قول مشھور ہے
کتاب التخريج عند الفقهاء والأصوليين از يعقوب بن عبد الوهاب بن يوسف الباحسين التميمي کے مطابق
إذا صح الحديث فهو مذهبي. وقد حكى ذلك ابن عبد البر عن أبي حنيفة وغيره من الأئمة
جب صحیح حدیث ہو تو وہی میرا مذہب ہے
ائمہ کا اختلاف اس میں تھا کہ اگر حدیث صحیح ہے تو کیا وہ منسوخ ہے یا اس میں فقہ کا کوئی اور نکتہ پوشیدہ ہے یہ بات مجتہد کی رائے کی ہے لہذا ابو حنیفہ کا قول بعض احادیث پر اجتہاد ہے جو باقی ائمہ بھی کرتے ہیں
سمعت محمود بن غيلان قال سمعت المقري يقول سمعت أبا حنيفة يقول : عامة ما أحدثكم خطاء
امام ترمذی رحمہ فرماتے ہیں کہ میں نے محمود بن غیلان کو سنا وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے ابو عبد الرحمن عبد اللہ بن یزید المقری کو سنا انہوں نے فرمایا کہ میں نے ابو حنیفہ کو یہ کہتے سنا کہ ” اکثر وہ باتیں جو میں تمہیں بیان کرتا ہوں غلط ہوتی ہیں ”
علل الترمذي الكبير ص 388
جواب
المقری = عبد الله بن يزيد المقري المتوفی ٢١٣ھ ہیں یہ مکہ میں رہے اور یہ امام ابو حنیفہ سے بہت چھوٹے ہیں
سیر از الذھبی کے مطابق مَوْلِدُهُ: فِي حُدُوْدِ سَنَةِ عِشْرِيْنَ وَمائَةٍ یہ سن ہجری١٢٠ کی حدود میں پیدا ہوئے
کتاب طبقات علماء إفريقية، وكتاب طبقات علماء تونس کے مطابق
حَدَّثَنِي بَكْرُ بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَّ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِي، قَالَ: قَدِمْتُ إِفْرِيقِيَّةَ سَنَةَ سِتٍّ وَخَمْسِينَ وَمِائَةٍ
المقری سن ہجری ١٥٦ میں افریقہ منتقل ہو گئے تھے
امام ابو حنیفہ پیدائش ٨٠ ہجری اور المتوفی ١٥٠ ہجری ہیں جو عراق میں رہے یعنی المقری ٣٠ سال کے اس پاس ہوں گے جب ابو حنیفہ کی وفات ہوئی ہو گی
اب یہ قول واقعی تعصب عصری ہے یا اس میں کیا پس منظر ہے کچھ واضح نہیں ہے
اس قسم کے مبہم جملوں سے کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا جب تک پورا مقدمہ پیش نہ کیا جائے کہ کس بات پر کہا گیا
بعض اوقات از راہ تفنن بھی آدمی کسی سے کچھ کہہ دیتا ہے جس کا کوئی تیسرا شخص مطلب مذاق کے بجائے سنجیدہ انداز میں لے لیتا ہے
امام ابو حنیفہ کی موت کے بعد المقری کو ان سے کچھ بھی روایت نہیں کرنا چاہیے لیکن ہم کو روایات ملتی ہیں
کتاب ترتيب الأمالي الخميسية للشجري کی روایت ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو مَنْصُورٍ مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ السَّوَّاقِ، بِقِرَاءَتِي عَلَيْهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ حَمْدَانَ بْنِ مَالِكٍ الْقَطِيعِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَلِيٍّ بِشْرُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، فِي قَوْلِهِ عَزّ وَجَلَّ: {وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ} [البقرة: 203] .
قَالَ: الْمَعْدُودَاتُ: أَيَّامُ الْعَشْرِ، وَالْمَعْلُومَاتُ: أَيَّامُ النَّحْرِ.
—–
سنن الکبری بیہقی کی روایت ہے
وَأَخْبَرَنَا أَبُو طَاهِرٍ الْفَقِيهُ، ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ أَحْمَدُ بْنُ هَارُونَ الْفَقِيهُ , ثنا بِشْرُ بْنُ مُوسَى، ثنا الْمُقْرِيُّ، ثنا أَبُو حَنِيفَةَ، عَنِ الْهَيْثَمِ وَكَانَ صَيْرَفِيًّا بِالْكُوفَةِ , عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ أَخِي مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ قَالَ: جَعَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ عَلَى صَدَقَةِ الْبَصْرَةِ، فَقَالَ لِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: أَبْعَثُكَ عَلَى مَا بَعَثَنِي عَلَيْهِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ. فَقُلْتُ: لَا أَعْمَلُ ذَلِكَ حَتَّى تَكْتُبَ لِي عَهْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ الَّذِي عَهِدَ إِلَيْكَ , فَكَتَبَ لِي أَنْ خُذْ مِنْ أَمْوَالِ الْمُسْلِمِينَ رُبْعَ الْعُشْرِ , وَمِنْ أَمْوَالِ أَهْلِ الذِّمَّةِ إِذَا اخْتَلَفُوا [ص:354] لِلتِّجَارَةِ نِصْفَ الْعُشْرِ , وَمِنْ أَمْوَالِ أَهْلِ الْحَرْبِ الْعُشْرَ
—–
ان روایات میں المقری ، ابو حنیفہ سے روایت کر رہے ہیں
ایسا کیوں ہے اگر ابو حنیفہ سب غلط سلط کہتے تھے ؟
جواب
کتاب مناقب الشافعي للبيهقي میں اس کی سند ہے
أخبرنا أبو زكريا بن أبي إسحاق المزّكِّي حدثنا الزبير بن عبد الواحد الحافظ أخبرني محمد بن محمد بن الأشعث، حدثنا الربيع قال: أنشدنا الشافعي رضي الله عنه:
يا راكباً قِف بالمُحَصَّبِ من مِنى … واهتف بقاعد خِيفها والناهِض
سَحَراً إذا فاض الحجيجُ إلى مِنى … فَيضاً كمُلْتَطم الفُرَاتِ الفائض
إن كان رَفْضاً حبُّ آلِ محمدٍ … فَلْيَشْهَدِ الثقلانِ أني رافضي
اگر ال محمد سے محبت رفض ہے تو ثقلان گواہ ہیں میں رافضی ہوں
اس کی سند میں محمد بن محمد بن الأشعث الكوفي ہے جس پر دارقطنی کہتے ہیں کہ یہ
قال السهمى: سألت الدارقطني عنه، فقال: آية من آيات الله، وضع ذاك الكتاب – يعنى العلويات.
الله کی نشانیوں میں سے ایک ہے جس نے اس کتاب کو گھڑا یعنی العلویات
یعنی اس نے علی کی منقبت میں روایات اور اشعار گھڑے
ابن عدی کہتے ہیں حمله شدة تشيعه اس نے شیعیت کی شدت میں اٹھا رکھا تھا
کتاب ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين میں الذھبی کہتے ہیں محمد بن محمد بن الأشعث الكوفي: بمصر، شيعي جلد، اتهمه ابن عدي مصری کھلا شیعہ ہے
یعنی یہ اشعار امام الشافعی پر جھوٹ گھڑا کیا گیا ہے
کتاب طبقات الشافعيين از ابن کثیر کے مطابق سند ہے
وقال الحافظ أبو القاسم ابن عساكر: أخبرنا أبو الحسن الموازيني، قراءة عليه، عن أبي عبد الله القضاعي، قال: قرأت على أبي عبد الله محمد بن أحمد بن محمد، حدثنا الحسين بن علي بن محمد بن إسحاق الحلبي، حدثني جدي محمد وأحمد ابنا إسحاق بن محمد، قالا: سمعنا جعفر بن محمد بن أحمد الرواس، بدمشق، يقول: سمعت الربيع،
اس سند میں جعفر بن محمد مجھول ہے
بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ ابن کثیر کی غلطی ہے نام اصل میں جعفر بن احمد ابن الرواس ہے
جعفر مجھول کا کہنا ہے کہ اس نے الربیع سے اس کو سنا ہے
جعفر بن محمد بن أحمد الرواس، بدمشق، يقول: سمعت الربيع،
جبکہ محققین نے جعفر بن أحمد بن عاصم الدمشقي ابن الرّوّاس، أبو محمد البَزَّاز [المتوفى: 307 هـ] کے ترجمہ میں کہیں بھی الربيع کا جعفر کے شیخ کے طور پر ذکر نہیں کیا ہے
جعفر بن أحمد بن عاصم الدمشقي ابن الرّوّاس کے لئے کہا جاتا ہے قدم بغداد، وحدث بها- شام سے بغداد پہنچے اور وہاں روایت کیا ہے جبکہ الربیع مصر میں رہے – الربيع بن سليمان بن عبد الجبار بن كامل المرادى صاحب الشافعى المتوفی ٢٧٠ ہجری کے لئے امام الذھبی الشافعی نے کتاب سير أعلام النبلاء میں لکھا ہے لَمْ يَكُنْ صَاحِبَ رِحلَةٍ یہ سفر کرنے والے صاحب نہیں تھے اسی طرح اس بات کو بھی غیر صحیح قرار دیا ہے کہ امام شافعی نے الربیع کو کبھی بغداد بھیجا – لہذا یہ جعفر بن احمد ہو بھی تو اس کا سماع امام الرَّبِيْعُ بنُ سُلَيْمَانَ سے نہیں ہے اور نہ ہی کسی نے الرَّبِيْعُ بنُ سُلَيْمَانَ کو جعفر بن احمد ابن الرواس کے شیوخ میں ذکر کیا ہے
تاریخ الدمشق میں إسماعيل بن علي بن الحسين ابن بندار بن المثنى أبو سعد الاستراباذي الواعظ کے ترجمہ میں ابن عساکر لکھتے ہیں
قال الخطيب: ولم يكن موثوقاً في الرواية.
وأنشد، بسنده عن الربيع بن سليمان، أنشدنا الشافعي: من الكامل؟ يا راكباً قف بالمحصب من منى واهتف بقاطن خيفها والناهض
سحراً إذا فاض الحجيج إلى منى … فيضاً كملتطم الفرات الفائض
إن كان رفضاً حب آل محمدٍ فليشهد الثقلان أني رافضي قال حمد الرهاوي: لما ظهر لأصحابنا كذب إسماعيل بن المثنى أحضروا جميع ما كتبوا عنه وشققوه ورموا به بين يديه
خطیب بغدادی نے کہا یہ روایت میں موثق نہیں ہے اور شعر عن الربيع بن سليمان، أنشدنا الشافعي کی سند سے بتائے … ان كان رفضاً حب آل محمدٍ فليشهد الثقلان أني رافضي
حمد الرهاوي نے کہا کہ جب إسماعيل بن المثنى الاستراباذي کا یہ کذب ظاہر ہوا ہم نے جو لکھا اس کو جمع کیا اور اپنے سامنے مٹایا
سیر الاعلام النبلاء میں الذھبی نے اس قول کی سند دی ہے
قَالَ الزُّبَيْرُ بنُ عَبْدِ الوَاحِدِ الإِسْتِرَابَاذِيُّ: أَخْبَرَنَا حَمْزَةُ بنُ عَلِيٍّ الجَوْهَرِيُّ حَدَّثَنَا الرَّبِيْعُ بنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَجَجْنَا مَعَ الشَّافِعِيِّ فَمَا ارْتَقَى شَرَفاً، وَلاَ هَبَطَ وَادِياً إلَّا، وَهُوَ يَبْكِي وَيُنْشِدُ:
يَا رَاكِباً قِفْ بِالمُحَصَّبِ مِنْ مِنَى … وَاهْتِفْ بِقَاعِدِ خَيْفِنَا وَالنَّاهِضِ
سَحَراً إِذَا فَاضَ الحَجِيْجُ إِلَى مِنَىً … فيضًا كملتط الفُرَاتِ الفَائِضِ
إِنْ كَانَ رَفْضاً حُبُّ آلِ محمد … فليشهد الثقلان أني رافضي
یہاں غلطی ہے اصل میں الزبير بْن عَبْد الواحد الأسداباذي ہے اور انہوں نے حمزہ بن علی سے سنا ہے جو مجھول الحال ہے
کتاب تاریخ الاسلام میں امام الذھبی نے اس کی سند دی ہے
قَالَ الحاكم: أخبرني الزُّبَيْر بن عبد الواحد الحافظ، قال: أخبرنا أبو عمارة حمزة بن علي الجوهري، قال: حدثنا الربيع بْن سليمان قَالَ: حَجَجْنا مَعَ الشّافعيّ، فما ارتقى شُرُفًا، ولا هبط واديًا، إلّا وهو يبكي وينشد:
يا راكبًا قفْ بالمُحَصَّبِ من منى … واهتف بقاعد خيفنا والنّاهضِ
سَحَرًا إذا فاض الحَجيجُ إلى مِنَى … فَيْضًا كمُلْتَطَم الفُرات الفائضِ
إنّ كَانَ رفضًا حُبُّ آلِ محمّدٍ … فلْيَشْهَد الثَّقَلان أنّي رافضي
اس کی سند میں أبو عمارة حمزة بن علي الجوهري لا معلوم ہے
کتاب مجمع الآداب في معجم الألقاب میں قوام الدين أبو سعد المظفر بن عبد الرحيم کے ترجمہ میں كمال الدين أبو الفضل عبد الرزاق بن أحمد المعروف بابن الفوطي الشيباني (المتوفى: 723 هـ) ان اشعار کو لکھتے ہیں
ذكره الحافظ أبو طاهر أحمد بن محمد السلفي في كتابه وقال: رأيته بالريّ وروى لنا عن أبي الفضل ظفر بن الداعي بن مهدي العلوي (1) وأنشد عنه للشافعي:
يا راكبا قف بالمحصّب من منى … واهتف بقاعد خيفها والناهض
قف ثم ناد يا بنيّ محمّد … ووصيّه وبنيه لست بباغض
إن كان رفضا حبّ آل محمد … فليشهد الثقلان أني رافضي
ظفر بن الداعي بن مهدي العلوي مجھول ہے البتہ الأنساب السمعاني کے مطابق ان کے پوتے أبو طاهر محمد بن يحيى بن ظفر بن الداعي بن مهدي [بن محمد-[3]] ابن جعفر بن محمد بن عبد الله بن محمد بن [4] عمر بن [4] على بن أبى طالب العلويّ العمرى، من أهل أستراباذ، شيخ الإمامية بها – شیعہ امامیہ کے عالم ایک تھے جس سے معلوم ہوتا ہے یہ شخص شیعہ تھا
یہ بھی ثابت نہیں ہو سکا کہ اس شخص کی ملاقات امام الشافعی سے ہے بھی یا نہیں
الغرض مجھول لوگوں کی روایت کردہ باتوں سے ائمہ کو رفض کا شوقین نہیں کہا جا سکتا
اس کی اسناد میں کوئی بھی ثابت نہیں ہے
بیہقی جو پانچویں صدی کے آدمی ہیں ان تک یہ مجہولین کے قول پہنچے تو انہوں نے جواب دیا
وَإِنَّمَا قَالَ الشَّافِعِي فِي ذَلِك حِين نسبه الْخَوَارِج إِلَى الرَّفْض حسدا وبغيا
شافعی نے ایسا صرف تب کہا تھا جب خوارج نے حسد اور غصے میں انہیں رافضی کہا تھا۔ مناقب الشافعی 2:71
انہی کے ہم عصر ابو نعیم الاصبہانی، ابو بکر السبائی سے روایت کرتے ہیں کہ
سمعت بعض، مشايخنا يحكي أن الشافعي، عابه بعض الناس؛ لفرط ميله إلى أهل البيت، وشدة محبته لهم، إلى أن نسبه إلى الرفض، فأنشأ الشافعي في ذلك يقول: « قف بالمحصب من منى فاهتف بها … واهتف بقاعد خيفها والناهض إن كان رفضا حب آل محمد … فليشهد الثقلان أني رافضي
میں نے بعض مشائخ کو کہتے سنا کہ بعض لوگوں نے شافعی کو ان کی اہل بیت سے محبت اور میل کی وجہ سے بُرا بھلا کہا اور انہیں رافضی کہنے لگے، تو شافعی نے انہیں اس طرح جواب دیا۔۔۔ (حلیۃ الاولیاء: 9:152)
یہ قول بھی سندا ثابت نہیں کیونکہ اس میں بعض مشایخ لکھا ہے
باقی ابن عبد البر ، ابن تیمیہ یا النجدی کے حوالے اس سلسلے میں دینا بےکار ہے کیونکہ یہ تو بہت بعد کے ہیں
رفض کا مطلب علی رضی الله عنہ کو ابی بکر اور عمر رضی الله عنہم سے ایسا بلند کرنا ہے جو شیخین کی تنقیص بنے یہ امام الشافعی نے کبھی بھی نہیں کیا- رفض کا تعلق حب اہل بیت سے ہے ہی نہیں
جبکہ امام الشافعی کا قول تو یہ ہے-
قَالَ البُوَيْطِيُّ: سَأَلْتُ الشَّافِعِيَّ: أُصَلِّي خَلْفَ الرَّافِضِيِّ؟ قَالَ: لاَ تُصَلِّ خَلْفَ الرَّافِضِيِّ
کیا رافضی کے پیچھے نماز پڑھ لیں کہا نہیں پڑھو
الكتاب: الإمام الشافعي وموقفه من الرافضة
المؤلف: أبو عبد البر محمد كاوا
متقدمین کی جو کتابیں ہم تک آئی ہیں وہ سند سے ہی آئیں ہیں جس میں ناقل سے لے کر مولف تک سند ہوتی ہے اور اس بنیاد پر اس کتاب کو اس عالم سے ثابت مانا جاتا ہے یہ بات تمام اہل علم جانتے ہیں اب اس دیوان کو دیکھیں اس کی کوئی سند نہیں ہے لہذا یہ ثابت نہیں
صالح المنجد کی بھی اس منسوب دیوان کے بارے ،میں یہی رائے ہے
http://islamqa.info/ar/154451
فلو كان عنده عن الشافعي – وهو من أعلم الناس به وبنصوصه – لرواه عنه .
وأما ما يسمى بـ “ديوان الشافعي” ففيه كثير من الشعر المنحول عليه ، والذي لا تصح نسبته
للإمام رحمه الله ، بل فيها كثير من الأقوال المخالفة التي يتنزه الإمام عن مثلها .
اگر یہ شافعی کے اشعار ہوتے اور وہ لوگوں میں سب سے زیادہ نص کو جانتے تھے اور جہاں تک اس دیوان کا تعلق ہے تو اس میں اکثر اشعار ان پر ڈالے گئے ہیں اور اس کی نسبت ان سے صحیح نہیں بلکہ بہت سے ان کے اقوال کے خلاف ہیں-
جواب
کتاب السنہ از عبد الله بن امام احمد میں اس طرح کے اقوال ہیں کہ دوبار توبہ کرائی گئی لیکن کس بات پر یہ ایک روایت میں بیان کیا گیا ہے
یہ قول امام احمد کے بیٹے نے السنہ میں لکھا ہے
اسْتُتِيبَ أَبُو حَنِيفَةَ مِنْ كُفْرِهِ مَرَّتَيْنِ مِنْ كَلَامِ جَهْمٍ وَمِنَ الْإِرْجَاءِ
ابو حنیفہ سے جھمی کلام اور الْإِرْجَاءِ پر دو بار توبہ کرائی گئی
یہ قول قابل رد ہے کیونکہ
میزان الاعتدال میں الذھبی کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفه نے کہا
قال أبو حنيفة: أفرط جهم في نفى التشبيه، حتى قال: إنه تعالى ليس بشئ. وأفرط مقاتل – يعنى في الاثبات – حتى جعله مثل خلقه
جھم نے افراط کیا تشبیہ کی نفی میں یہاں تک کہ کہا الله تعالی کوئی چیز نہیں اور مقاتل نے اثبات میں افراط کیا یہاں تک کہ اس کو مخلوق کے مثل کر دیا
امام ابو حنیفہ تو جھم کے سخت خلاف تھے اور جہاں تک الْإِرْجَاءِ کا تعلق ہے تو اس پر توبہ کی کوئی ضرورت نہیں
یہ تو بہت سے سلف کا رجحان تھا ان کا کہنا تھا کہ ایمان صرف بڑھتا ہے کم نہیں ہوتا اور ابو حنیفہ کا قول مشھور ہے ایمان نہ بڑھتا ہے نہ کم ہوتا ہے – بہرحال اس کنفیوژن کا شکار بہت سے محدثین ہوئے جو امام ابو حنیفہ پر بلا وجہ جرح کرتے تھے
بہت سے محدثین ہیں جن کو الْإِرْجَاءِ کی رائے والے یا الْمُرْجِئَةِ کہا جاتا ہے إِسْمَاعِيلَ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: سَأَلْتُ أَحْمَدَ عَنْ مَنْ قَالَ: الْإِيمَانُ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ؟ قَالَ: هَذَا بَرِيءٌ مِنَ الْإِرْجَاءِ
امام احمد سے سوال ہوا اس کے بارے میں جو کہے کہ ایمان بڑھتا ہے، کم ہوتا ہے – انہوں نے کہا یہ الْإِرْجَاءِ سے بَرِيءٌ (پاک) ہیں
بہت سے مشھور محدثین مرجی تھے یعنی ان کے نزدیک ایمان کم نہیں ہوتا صرف بڑھتا ہے مثلا امام احمد نے الْمُرْجِئَةِ میں قيس بن مُسلم المتوفی ١٢٠ ھ ،علقمة بن مرْثَد الکوفی المتوفی ١٢٠ ھ ،عَمْرو بن مرّة المتوفی 116 ھ اور مسعربن کدام الکوفی ١٥٥ ھ کو شمار کیا – عراق میں اہل حران میں سے عبد الكريم الجزري، خصيف بن عبد الرحمن الجزري المتوفی ١٤٠ ھ ، سالم بن عجلان الأفطس المتوفی 132 ھ ، علي بن بذيمة المتوفی ١٣٦ ھ (ان میں شیعیت تھی) کو امام احمد نے الْمُرْجِئَةِ میں شمار کیا – اس کے علاوہ کوفہ کے محمد بن أبان الجعفي المتوفی ١٧٠ ھ کو ان میں شمار کیا – المَدَائِنِ کے محدث شَبَابَةُ بنُ سَوَّارٍ کو الْمُرْجِئَةُ میں شمار کیا – امام ابو حنیفہ کے لئے بھی کی رائے کو بیان کیا جاتا ہے – ابو بکر الخلال کے مطابق امام احمد الْمُرْجِئَةُ کی رائے کو قَوْلٌ خَبِيثٌ کہتے تھے-
ظاہر ہے یہ کوئی گناہ نہیں جس پر توبہ کا حکم لگے
تحقیق چاہیے
تفقه على أبي إسحاق، وبرع في الفقه، وكان من أهل الدين. أَنْبَأَنَا أَبُو الْمَعْمَرِ الأَنْصَارِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْقَاسِمِ يُوسُفَ بْنَ عَلِيٍّ الزَّنْجَانِيَّ، يَقُولُ سَمِعْتُ شَيْخَنَا أَبَا إِسْحَاقَ بْنَ عَلِيِّ ابن الفيروزآبادي، يَقُولُ: سَمِعْتُ الْقَاضِي أَبَا الطَّيِّبِ يَقُولُ: كُنَّا فِي حَلَقَةِ النَّظَرِ بِجَامِعِ الْمَنْصُورِ فَجَاءَ شَابٌّ خُرَاسَانِيٌّ فَسَأَلَ مَسْأَلَةَ الْمُصَرَّاةِ وَطَالَبَ بِالدَّلِيلِ، فَاحْتَجَّ الْمُسْتَدِلُّ بِحَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ الْوَارِدِ فِيهَا، فَقَالَ الشَّابُّ وَكَانَ خَبِيثًا: أَبُو هُرَيْرَةَ غَيْرُ مَقْبُولِ الْحَدِيثِ، قَالَ الْقَاضِي: فَمَا اسْتَتَمَّ كَلامَهُ حَتَّى سَقَطَتْ عَلَيْهِ حَيَّةٌ عَظِيمَةٌ مِنْ سَقْفِ الْجَامِعِ فَوَثَبَ النَّاسُ مِنْ أَجْلِهَا، وَهَرَبَ الشَّابُّ مِنْ يَدِهَا فَلَمْ يُرَ لَهَا أَثَرٌ. توفي يوسف في صفر هذه السنة، ودفن عند أبي حامد الأسفراييني.
قاضی ابوالطیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم جامع منصور میں ایک حلقے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک خراسانی نوجوان آیا تو اس نے جانور کے تھنوں میں دودھ روکنے کے مسئلے کے بارے میں پوچھا اور دلیل کا مطالبہ کیا تو ایک استدلال کرنے والے(محدث)نے اس مسئلے میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی کی بیان کردہ حدیث پیش کی تو وہ خبیث نوجوان بولا:[ أَبُو هُرَيْرَةَ غَيْرُ مَقْبُولِ الْحَدِيثِ]ابوہریرہ کی حدیث مقبول نہیں ہے قاضی ابوالطیب نے فرمایا:اس نوجوان نے اپنی بات پوری نہیں کی تھی کہ اتنے میں جامع مسجد کی چھت سے ایک بہت بڑا سانپ گرپڑا تو لوگ بھاگنے لگے اور وہ نوجوان بھی اس سانپ کے آگے بھاگنے لگا (لوگوں نے بولا تب تب تو اس نے توبہ کی تو)بعد میں یہ سانپ غائب ہو گیا۔
(المنتظم لابن الجوزی17/106وسندہ صحیح)
قال شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ فتاوی علمیہ وسنده صحیح جلد 2 پیج 266
جواب
فيض الباري على صحيح البخاري
المؤلف: (أمالي) محمد أنور شاه بن معظم شاه الكشميري الهندي ثم الديوبندي (المتوفى: 1353هـ)
کہتے ہیں
ونقل في «شرح الإِحياء» (2) حكايةً عن الشافعية: أنه جرى ذكر حديث المُصَرَّاة بين حنفيًّ، وشافعيًّ، فقال الحنفيُّ: إن أبا هُرَيْرَة لم يكن فقيهًا، فلم يَفْرُغ من مقالته، حتى وَثَبَتْ عليه حيةٌ، ففرَّ منها، فقال له رجلٌ منهم: تُبْ إلى الله، فتاب، فَتَرَكَتْهُ. قلتُ: ولا أصلَ لها عندي، وإنما تَفُوحُ منها رائحةُ التعصُّب
انور شاہ کہتے ہیں میرے نزدیک اس قصہ کی کوئی اصل نہیں اس میں سے تعصب کی بو اٹھ رہی ہے
یہ بات کہ بعض احناف نے کہا ابو ہریرہ فقیہہ نہیں اس کو مبارک پوری نے رد کیا اور کہا احناف کے جید علماء کا اس کے خلاف قول بھی ہے
: تحفة الأحوذي بشرح جامع الترمذي
المؤلف: أبو العلا محمد عبد الرحمن بن عبد الرحيم المباركفورى (المتوفى: 1353هـ)
فَائِدَةٌ قَدْ تَفَوَّهَ بَعْضُ الْفُقَهَاءِ الْحَنَفِيَّةِ بِأَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ لَمْ يَكُنْ فَقِيهًا وَقَوْلُهُمْ هَذَا بَاطِلٌ مَرْدُودٌ عَلَيْهِمْ وَقَدْ صَرَّحَ أَجِلَّةُ الْعُلَمَاءِ الْحَنَفِيَّةِ بِأَنَّهُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ فَقِيهًا قَالَ صَاحِبُ السِّعَايَةِ شَرْحِ شَرْحِ الْوِقَايَةِ وَهُوَ مِنْ الْعُلَمَاءِ الْحَنَفِيَّةِ رَدًّا عَلَى مَنْ قَالَ مِنْهُمْ إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ كَانَ غَيْرَ فَقِيهٍ مَا لَفْظُهُ كَوْنُ أَبِي هُرَيْرَةَ غَيْرَ فَقِيهٍ غَيْرُ صَحِيحٍ بَلْ الصَّحِيحُ أَنَّهُ مِنْ الْفُقَهَاءِ الَّذِينَ كَانُوا يُفْتُونَ فِي زَمَانِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلم كما صرح به بن الهمام في تحرير الأصول وبن حَجَرٍ فِي الْإِصَابَةِ فِي أَحْوَالِ الصَّحَابَةِ انْتَهَى
جس میں انہوں نے ابن الھمام کا نام لیا
===========
ابو حنیفہ بعض اصحاب رسول کا قول فورا نہیں لیتے تھے
أما انس: فقد بلغني أنه اختلط عقله في آخر عمره، فكان يستفی من علقمة، وأنا لا أقلد علقمة، فكيف اقلد من يستفی من علقمة.
واما أبو هريرة فكان يروي كل ما بلغه وسمعه من غير أن يتأمل في المعنی ومن غير أن يعرف الناسخ والمنسوخ.
واما سمرة بن جندب، فقد بلغني عنه أمر ساءني، والذي بلغه عنه أنه كان يتوسع في الاشربة المسكرة سوی الخمر فلم يقلدهم في فتواهم.
اما في ما رووا عن رسول الله صلی الله عليه وسلم، فياخذ برواتهم؛ لأن كل واحد منهم موثوق به في ما يروي.
https://archive.org/stream/hanafi_04_201507/01#page/n181/mode/2up
صفحه 183 – 186 جلد 01 شرح أدب القاضي للخصاف الحنفي (المتوفى: 261هـ) عمر بن عبد العزيز ابن مازة الحنفي المعروف بالصدر الشهيد (المتوفى: 536هـ)- وزارة الأوقاف العراقية – مطبعة الإرشاد، بغداد
ان سے اس پر پوچھا گیا تو ابو حنیفہ نے کہا : جہاں تک انس ہیں تو مجھ تک پہنچا ہے کہ آخری عمر میں وہ اختلاط کا شکار تھے پس علقمہ سے پوچھتے اور میں علقمہ کی تقلید نہیں کرتا تو پھر اس کی کیوں کروں جو علقمہ سے پوچھے اور جہاں تک ابو ہریرہ ہیں تو یہ ہر چیز بیان کر دیتے ہیں جو پہنچی اور سنی ہو اس کے معنی پر غور کیے بغیر اور نہ ناسخ و منسوخ کو سمجھتے ہوئے
سوال یہ ہے کہ ابو حنیفہ کے پیچھے کوئی سانپ کیوں نہ لگا جبکہ حديث المُصَرَّاة کو رد انہوں نے کیا ایک غیر معروف مقلد شخص کے پیچھے لگا عجیب بات ہے
کیا یہاں پر زبیر علی زئی نے صحیح کہا ہے
لنک
جواب
کہا جاتا ہے کہ عَضُدُ الدَّوْلَةِ (فَنَّاخُسْرُو بنُ حَسَنِ بنِ بُوَيْه ) جس نے ٣٦٦ھ تا ٣٧٢ھ حکومت کی، نے ایک سفارت وفد شاہ روم کے پاس بھیجا جس میں القاضي أبو بكر الباقلاني (338 هـ – 402 هـ / 950م – 1013م) کو بھی بھیجا
الباقلاني جب پیدا ہوئے تو عَضُدُ الدَّوْلَةِ بادشاہ ہوا اور جب یہ ہٹا تو الباقلانی ٣٤ سال کے تھے
عَضُدُ الدَّوْلَةِ ، آل بویہ میں سے شیعہ تھا وہ ایک سنی متکلم عالم کو کیوں بھیجتا؟
پھر سفارتی وفد میں علماء کو نہیں بھیجا جاتا ہے سفارت کاروں کو بھیجا جاتا ہے کیا شیعہ بادشاہ کے پاس شیعہ علماء کم پڑ گئے تھے جو الباقلانی کو بھیج دیا
راقم کہتا ہے الباقلانی فارغ شخص نہیں تھے کہ سیر و سیاحت کے لئے روم کا سفر کرتے وہ سنجیدہ علم رکھتے تھے اور ایسا ان کی سیرت میں کسی نے بیان نہیں کیا کہ کبھی روم بھی گئے ہوں
میں نے کہیں پڑھا تھا ابھی یاد نہیں کہاں – بعض نے مطلقا اس کا انکار کیا ہے کہ الذہبی کی اس نام کی کوئی کتاب تھی
قیل لیحیى بن معین: یا أبا زکریا أبو حنیفة کان یصدق فی الحدیث؟ قال: نعم صدوق. وقیل له: والشافعی کان یکذب؟ قال: ما أحب حدیثه ولا ذکرهقال: وقیل لیحیى بن معین: أیما أحب إلیک أبو حنیفة أو الشافعی أو أبو یوسف القاضی؟فقال: أما الشافعی فلا أحب حدیثه، وأما أبو حنیفة فقد حدث عنه قوم صالحون، وأبو حنیفة لم یکن من أهل الکذب وکان صدوقا
اور آگے چل کر صفحہ ١١١٤ پر لکھتے ہیں کہ
ومما نقم على ابن معین وعیب به -أیضا- قوله فی الشافعی: إنه لیس بثقة
ما کان فی أصحابنا أعلم بالإسناد من یحیى بن معین
تهذیب التهذیب از ابن ھجر
جواب
جامع بيان العلم وفضله از المؤلف: أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى: 463هـ) کے مطابق
وَذَكَرَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ الْأَزْدِيُّ الْحَافِظُ الْمَوْصِلِيُّ فِي الْأَخْبَارِ الَّتِي فِي آخِرِ كِتَابِهِ فِي الضُّعَفَاءِ قَالَ: يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، «مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أُقَدِّمُهُ عَلَى وَكِيعٍ» وَكَانَ يُفْتِي بِرَأْيِ أَبِي حَنِيفَةَ وَكَانَ يَحْفَظُ حَدِيثَهُ كُلَّهُ، وَكَانَ قَدْ سَمِعَ مِنَ أَبِي حَنِيفَةَ حَدِيثًا كَثِيرًا قَالَ الْأَزْدِيُّ: هَذَا مِنْ يَحْيَى بْنِ مَعِينٍ تَحَامُلٌ وَلَيْسَ وَكِيعٌ كَيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ وَقَدْ رَأَى يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ هَؤُلَاءِ وَصَحْبِهِمْ، [ص:1083] قَالَ: وَقِيلَ لِيَحْيَى بْنِ مَعِينٍ يَا أَبَا زَكَرِيَّا، أَبُو حَنِيفَةَ كَانَ يَصْدُقُ فِي الْحَدِيثِ؟ قَالَ: نَعَمْ صَدُوقٌ، قِيلَ لَهُ: وَالشَّافِعِيُّ كَانَ يَكْذِبُ؟ قَالَ: مَا أُحِبُّ حَدِيثَهُ وَلَا ذِكْرَهُ، قَالَ: وَقِيلَ لِيَحْيَى بْنِ مَعِينٍ: أَيُّمَا أَحَبُّ إِلَيْكَ أَبُو حَنِيفَةَ أَوِ الشَّافِعِيُّ أَوْ أَبُو يُوسُفُ الْقَاضِي؟ فَقَالَ: أَمَّا الشَّافِعِيُّ فَلَا أُحِبُّ حَدِيثَهُ،
مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ الْأَزْدِيُّ الْحَافِظُ الْمَوْصِلِيُّ نے اپنی کتاب الضُّعَفَاءِ میں امام شافعی پر یہ قول نقل کیا گویا کہ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ الْأَزْدِيُّ الْحَافِظُ الْمَوْصِلِيُّ نے ان کا شمار ضعیف راوی میں کیا
شوافع میں الذھبی نے چڑ کر ازدی کو ہی برا کہا
لا يُلتفت إلى قول الأزدي، فإن في لسانه في الجرح رهقا. [ ميزان الأعتدالالأزدي کے قول کی طرف التفات نہ کرو کیونکہ ان کی زبان پر حرج رہتی
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام شافعی حدیث میں ضعیف تھے امام ابن معین کے مطابق جس کا ذکر الازدی نے کیا
(تهذیب التهذیب ، ابن حجر ، ج 10 ، ص 384 و تهذیب الکمال ، المزی ، ج 29 ، ص 360 و تاریخ بغداد ، الخطیب البغدادی
جواب
یہ روایت مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، حَدَّثَنِي نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْأَزْدِيُّ، أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ، حَدَّثَنِي أَخِي مُوسَى بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ [ص:18] أَبِيهِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ بِيَدِ حَسَنٍ وَحُسَيْنٍ فَقَالَ: «مَنْ أَحَبَّنِي وَأَحَبَّ هَذَيْنِ، وَأَبَاهُمَا وَأُمَّهُمَا كَانَ مَعِي فِي دَرَجَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ»
اس کی سند ضعیف ہے
شعيب الأرنؤوط کہتے ہیں : ضعيف، علي بن جعفر بن محمد روى عنه جمع، ولكنه لا يعْرَف بجرحٍ ولا تعديل
ضعیف ہے ، علي بن جعفر بن محمد سے روایت لی گئی ہے لیکن علم حرج و تعدیل میں جانا نہیں جاتا
ترمذی میں بھی ہے
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الجَهْضَمِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَخِي مُوسَى بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيهِ عَلِيِّ بْنِ الحُسَيْنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ بِيَدِ حَسَنٍ [ص:642] وَحُسَيْنٍ فَقَالَ: «مَنْ أَحَبَّنِي وَأَحَبَّ هَذَيْنِ وَأَبَاهُمَا وَأُمَّهُمَا كَانَ مَعِي فِي دَرَجَتِي يَوْمَ القِيَامَةِ». «هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ إِلَّا مِنْ هَذَا الوَجْهِ
البانی کہتے ہیں ضعیف ہے
التَّكْميل في الجَرْح والتَّعْدِيل ومَعْرِفة الثِّقَات والضُّعفاء والمجَاهِيل
المؤلف: أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي البصري ثم الدمشقي (المتوفى: 774هـ)
میں ہے کہ نصر بن علی خلیفہ متوکل کی مجلس میں رہتے ان سے اشعار سنتے
ذكر الخطيب البغدادي: أن نصر بن علي دخل يوماً على المتوكل (1) وهو يمدح الرفق، فقال: يا أمير المؤمنين أنشدني الأصمعي:
لم أر مثل الرِّفق في لينه … أخرج للعَذْراءِ من خِدْرِها
من يستعن بالرِّفق في أمره … يستخرجُ الحية من جُحْرِها
فقال المتوكل: يا غُلام الدَّواة والقرطاس، فكتبهما.
اور خلیفہ نے ان کو قاضی بھی مقرر کیا
تاریخ اسلام از الذھبی میں ہے
وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ: حَدَّثَنِي نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ: أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ محمد: حَدَّثَنِي أَخِي مُوسَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِيهِ محمد بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ بِيَدِ حَسَنٍ وَحُسَيْنٍ وَقَالَ: «مَنْ أَحَبَّنِي وَأَحَبَّ هَذَيْنِ [2] وَأَبَاهُمَا وَأُمَّهُمَا كَانَ مَعِي فِي دَرَجَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ» [3] . قال عبد الله: لمّا حَدَّث نصر بهذا الحديث أمر المتوكًل بضرْبه ألفَ سَوط، فكلَّمَه جَعْفَر بْن عَبْد الواحد، وجعل يقول له: هذا الرّجل من أهل السنة. ولم يزل به حَتَّى تركه
تاریخ بغداد از خطیب میں ہے
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عبد الله الواعظ، حدثنا أبو علي محمد بن أحمد ابن الحسن الصّوّاف، حدّثنا عبد الله بن أحمد، حَدَّثَنِي نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ قَالَ: أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّد بْنِ عَلِيِّ بْنِ حسين بن علي، حَدَّثَنِي أَخِي مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِيهِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ [1] عَلِيٍّ بْنِ حُسَيْنٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ بِيَدِ حَسَنٍ وَحُسَيْنٍ فَقَالَ: «مَنْ أَحَبَّنِي وَأَحَبَّ هَذَيْنِ وَأَبَاهُمَا وَأُمَّهُمَا كَانَ مَعِي فِي دَرَجَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ» [2] .
قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَن عبد الله: لما حدث بهذا الحديث نصر بن علي أمر المتوكل يضربه ألف سوط، وكلمه جعفر بن عبد الواحد وجعل يقول له: هذا الرجل من أهل السنة، ولم يزل به حتى تركه، وكان له أرزاق فوفرها عليه موسى.
یہ قول جعْفَر بْن عَبْد الواحد بْن جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاس الْعَبَّاسي الهاشمي [الوفاة: 251 – 260 ه] کی سند سے ہے
قال ابن عدي: متهم بوضع الحديث.
وقال الدارقطني: متروك.
یہ روایت گھڑتا ہے لہذا پورا قصہ لائق دلیل نہیں
عثمانی صاحب کے دور میں امام احمد کی کتاب الصَّلاة کے ساتھ پبلشر نے امام احمد کا عقیدہ بھی درج کیا جس میں عود روح کا ذکر ہے – فرقوں کے جہلاء نے بجائے اس عقیدے پر بات کرنے کے اپنے تماش بنیوں کو شوشہ دیا کہ کتاب الصَّلاة ثابت نہیں ہے
یہ شوشہ اٹک کے ایک گاؤں کے مولوی زبیر علی زئی نے پیش کیا – اصلا اس مولوی کی یہ کوئی نئی تحقیق نہیں تھی بلکہ اس بات سے اہل علم واقف تھے کہ الذھبی نے اس کتاب کی امام احمد سے نسبت پر کلام کیا ہے مثلا
امام الذھبی نے کتاب سير أعلام النُّبلاء (11/287) میں اپنی رائے دی کہ امام احمد سے منسوب رسالة المسيء في الصَّلاة باطلةٌ – ایک تحریر ہے نماز کے بارے میں جو باطل ہے
یہ بھی کہا (11/330): «قلتُ: هو موضوعٌ على الإمام». میں کہتا ہوں وہ امام پر گھڑی ہوئی ہے
البتہ امام الذھبی کا زبر دست رد وہابی کرتے آئے ہیں کہ ان یہ بات بے پروپا ہے کیونکہ اس حوالے سے کوئی دلیل بھی الذھبی نے نہیں دی – چونکہ اردو بولنے والوں کے علم میں یہ تحقیقات نہیں ہوتیں وہ فورا زبیر علی جیسے مولویوں کے جھانسوں میں آ جاتے ہیں
قارئین کی آسانی کے لئے یہ حوالہ جات پیش خدمت ہیں
یہاں تین محققین کے حوالہ جات لگائے جا رہے ہیں
امام الذہبی نے اس رسالے کی نسبت امام احمد سے ضعیف کی ہے اور اس پر موضوع کا حکم لگایا ہے اور میں نہیں جانتا کہ اس کی کیا وجہ ہے ؟ اس کے ساتھ یہ رسالہ مشہور ہے ائمہ حنبلی مذھب میں اور ان کا اس پر اعتماد ہے اس میں احمد کے اقوال پر- اور اگر اسناد میں مجہول ہو بھی تو کتاب تو مشہور ہے اور ایک شخص معین سے اس کی نسبت چلی آئی ہے جو اس کی صحت پر کافی ہے اور الذھبی تو متاخرین میں سے ہے اور اس نے اپنے قول پر کوئی دلیل نہیں دی تو اس کو شک قرار دیا جائے گا اور جہاں پر اس کے گھڑے ہونے پر جزم ہے تو یہ بعید ہے اور پھر علماء نے اس کتاب میں احمد کے اقوال پر اعتماد کیا ہے جن میں ابن قدامہ ہیں مغنی میں اور ابن قیم ہیں کتاب الصلاة مين
الزهراني نے کہا الذھبی نے اپنی بات کی کوئی دلیل نہیں دی اور اس کتاب کی نسبت امام احمد سے نسبت ہے اس کو ابن قدامہ اور ابن قیم قبول کرتے ہیں
اب ایک دوسرے محقق صبری شاہین کی تحقیق دیکھتے ہیں
صبری شاہین کہتے ہیں اور جو بات اس کی تاکید کرتی ہے کہ اس کتاب کی نسبت کی صحت امام احمد سے ہے وہ یہ ہے کہ امام ابن قیم نے اس کا ذکر اپنی نماز کی کتاب میں کیا ہے اور امام احمد کی کتاب سے اقتباس نقل کیا ہے کہ قال احمد
صبری شاہین مزید کہتے ہیں
ہمارے فاضل دوست عبد اله بن سالم نے کتاب المسائل و الرسائل مروی عن امام احمد فی العقیدہ میں لکھا ہے
کتاب صلاة مشہور و معروف ہے اس پر علماء کا اعتماد ہے اور … ان کی نسبت کی صحت امام احمد سے قوی ہوتی ہے اور اس پر کثرت سے شواہد ہیں
تیسرے محقق عبد العزیز عبد اللہ الراجحی ہیں
عبد العزیز عبد اللہ الراجحی کی تحقیق میں اس شک کرنے والے وہ ہیں جن کو ہر چیز پر شک ہوتا ہے اور تجویری کی تحقیق بھی یہی ہے کہ یہ کتاب امام احمد کی ہے اور قدماء حنابلہ کی بھی
اس طرح ثابت ہوا کہ یہ کتاب جنبلیؤن میں چلی آئی ہے اس کی نبسبت احمد سے ثابت ہے اور امام الذھبی کی رائے کو بلا دلیل نہیں لیا جا سکتا
إس نام کی امام احمد کی ایک کتاب تھی
پانچویں صدی تک لوگ اس کو مانتے تھے لیکن آٹھویں صدی میں لوگوں نے اس کا انکار کیا مثلا سیر الاعلام النبلا میں امام الذھبی نے اس کو موضوع قرار دیا ہے اس پر محقق الشيخ شعيب الأرناؤوط کہتے ہیں
يرى الذهبي المؤلف أن كتاب ” الرد على الجهمية ” موضوع على الامام أحمد.
وقد شكك أيضا في نسبة هذا الكتاب إلى الامام أحمد بعض المعاصرين في تعليقه على ” الاختلاف في اللفظ، والرد على الجهمية ” لابن قتيبة.
ومستنده أن في السند إليه مجهولا، فقد رواه أبو بكر
غلام الخلال، عن الخلال، عن الخضر بن المثنى، عن عبد الله بن أحمد، عن أبيه … والحضر بن المثنى هذا مجهول، والرواية عن مجهول مقدوح فيها، مطعون في سندها.
وفيه ما يخالف ماكان عليه السلف من معتقد، ولا يتسق مع ما جاء عن الامام في غيره مما صح عنه وهذا هو الذي دعا الذهبي هنا إلى نفي نسبته إلى الامام أحمد ومع ذلك فإن غير واحد من العلماء قد صححوا نسبة هذا الكتاب إليه، ونقلوا عنه، وأفادوا منه، منهم القاضي أبو يعلى، وأبو الوفاء بن عقيل، والامام البيهقي، وابن تيمية، وتلميذه ابن القيم، وتوجد من الكتاب نسخة خطية في ظاهرية دمشق، ضمن مجموع رقم (116) ، وهي تشتمل على نص ” الرد على الجهمية ” فقط، وهو نصف الكتاب، وعن هذا الأصل نشر الكتاب في الشام، بتحقيق الأستاذ محمد فهر الشقفة.
لب لباب یہ ہے کہ الشيخ شعيب الأرناؤوط نے کہا
اس کو موضوع اس لئے کہا گیا کہ اس کتاب کی سند میں ایک مجھول الحضر بن المثنى ہے …. لیکن القاضي أبو يعلى، وأبو الوفاء بن عقيل، والامام البيهقي، وابن تيمية، وتلميذه ابن القيم، وغیرہ نے اس کو امام احمد کی کتاب مانا ہے
یعنی شعیب کی رائے میں یہ امام احمد کی ہی کتاب ہے الذھبی کی رائے سے انہوں نے موافقت نہیں کی