ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ کے جوابات
جواب : واقعہ معراج بالکل یقینی ہے .قرآن اس پر شاہد ہے کے الله کے نبی کو ان کے رب نے اپنی بارگاہ میں بلایا اور آپ اپنے عنصری جسم کے ساتھ گئے .یہ کوئی خواب کا معاملہ نہیں تھا .شیعوں کے نزدیک یہ روحانی معراج تھی .محمّد بن اسحاق نے اپنی شیعت کا ثبوت دیتے ہوتے روایت کیا ہے کے عائشہ اسے روحانی معاملہ سمجھتی ہیں کے معراج کے موقعے پر آپ کا جسم اپنے بستر سے غائب نہیں ھوا تھا .یہ شخص یہ بات امیر معاویہ سے بھی منسوب کرتا ہے یہ بلکل جھوٹا شخص ہے .معراج سے متعلق صحابہ میں کوئی اختلاف نہیں تھا .سب کا عقیدہ تھا کے نبی اپنے جسم کے ساتھ جبرائیل کے ساتھ براق پر بیت المقدس گۓ اور وہاں سے آسمانوں تک اور جبرائیل کی معیت میں ساتوں آسمانوں کی سیر کی .یہ بلکل حقیقی بات ہے .لیکن یہ بات محقق و معلوم نہیں کہ معراج کس زمانے کا واقعہ ہے .بعض نے کہا کہ مکّے کے شروع دور کا واقعہ ہے .بعض نے درمیانی کہا اور زیادہ تر یہ کہتے ہیں کہ ھجرت سے ایک سال پہلے کا واقعہ ہے .جب سال ہی صحیح طور پر معلوم نہیں تو مہینہ اور تاریخ کا تعین کیسے درست ہوسکتا ہے .اور جس طرح اس واقعہ کو منایا جاتا ہے ، یہ کسی ایک حدیث سے بھی ثابت نہیں .یہ صوفیوں اور شیعوں کی خالص اختراع ہے .عبدالقادر جیلانی صاحب نے غنیتہ الطالبین میں اس کی بڑی تعریف کی ہے .اور جتنے بھی صوفی ہیں سب ہی اس کو مانتے ہیں لیکن اس سلسلے میں کوئی بھی روایت درست نہیں کسی صحیح روایت میں اس کی کوئی فضیلت نہیں بیان ہوئی نہ اس کے روزے اور رت جگے کے بارے میں کچھ بتایا گیا ہے . بات دراصل یہ ہے کہ جب ان لوگوں میں اصل دین باقی نہ رہا تو کچھ نہ کچھ تو ان کو کرنا ہی ہے . کچھ رسمیں اور رواج ایجاد کرلئے تا کہ لوگ مشغول رہیں . اور اس طرح سے دین کے بیوپاریوں کا کاروبار بھی چلتا رہے اور وہ اپنی کمائی کھری کرتے رہیں
Questions answered by Abu Shahiryar
کعبہ کو یمنی چادروں سے ڈھکا جاتا تھا اس کے بعد عبد الملك بن مروان کے دور میں دیباج سے غلاف تیار کیا گیا اور بنی امیہ کے دور میں یہ دیباج کا ہی ہوتا تھا – خلیفہ المہدی نے سب سے پہلے غلاف کعبہ پر ابو بکر کا نام لکھوایا
وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شُعَيْبٍ الْحَجَبِيُّ: إِنَّ الْمَهْدِيَّ لَمَّا جَرَّدَ الْكَعْبَةَ كَانَ فِيمَا نُزِعَ عَنْهَا كِسْوَةٌ من ديباج، مكتوب عليها لعبد الله أَبِي بَكْرٍ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (السير “3/ 374
بنو عبّاس کے خلیفہ المہدی نے کعبہ کا غلاف دیباج کا بنوایا جس پر … لکھا ہوا تھا عبد الله ابی بکر امیر المومنین کے لئے
کتاب تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام از الذھبی ج ١٦ ص ٣ کے مطابق
وفيها حجّ حنبل بن إسحاق، فيما حَدَّث أبو بكر الخلّال، عن عصمة بن عصام، عنه، قال: رأيت كِسْوَة البيت الدِّيباج وهي تخفُق في صحن المسجد، وقد كُتِب في الدّارات: {لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِير} [الشورى: 11] . فلمّا قدِمت أخبرت أحمدَ بنَ حنبل، فقال: قاتَلَه الله، الخبيثَ عمد إلى كتاب الله فغيَّره، يعني ابن أبي دؤاد، فإنّه أمر بذلك
حنبل بن اسحاق کہتے ہیں انہوں نے عباسیوں کے دور میں کعبہ کا غلاف دیکھا جس پر سوره الشوری کی آیت لکھی تھی لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِير اس کی خبر امام احمد کو دی تو انہوں نے کہا الله کی مارہو ان پر خبیث نے جان بوجھ کر کتاب الله کو بدلا یعنی ابن ابی داود نے جس نے اس کا حکم دیا
سیر الاعلام النبلا میں اسی حوالے کا ذکر ہے کہ سن ٢٢١ میں
وحج فيها حنبل ، فقال : رأيت كسوة الكعبة ، وقد كتب فيها في الدارات : ليس كمثله شيء وهو اللطيف الخبير ، فحدثت به أبا عبد الله ، فقال : قاتل الله الخبيث ، عمد إلى كلام الله ، فغيره عنى ابن أبي داود .
اس کے مطابق ابن ابی داود نے آیت میں تحریف کی اور سمیع بصیر کے الفاظ ہٹا دے
بحر الحال غلاف کعبہ پر آیات الله لکھنے کا اور خلفاء کے نام لکھنے کا آغاز عباسی دور میں ہوا
امام اسحاق بن راہویہ سے إسحاق بن منصور المروزي نے سوال کیا کہ
قلت: يكره أن يزين المصحف بالذهب أو يُعَشّر؟
میں نے پوچھا کیا آپ کراہت کرتے ہیں کہ مصحف کو سونے سے مزین کیا جائے
قال إسحاق: كل ذلك مكروه. لأنه محدث
اسحاق نے کہا یہ سب مکروہ ہے اور بے شک بدعت ہے
ایک طرف تو یہ احتیاط اور دوسری طرف حکمرانوں کا عمل ہے کہ پورے غلاف پر آیات الله لکھی جاتی ہیں اور وہ بھی سونے کے تاروں سے- کعبہ کے لکڑی کے سادہ دروازے کو سونے سے بدل دیا گیا ہے جو ایک بدعت ہے اور اسراف ہے – اس کے گرد امت کے غریب لوگ طواف کرتے ہیں کیا افراط و تفریط ہے
کعبہ کے سونے کے دروازے کا تعظیم سے تعلق نہیں اگر ایسا ہوتا تو نبی علیہ السلام نے ایسا کیا ہوتا لیکن حدیث میں اتا ہے
کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نماز پڑھانے کے فورا بعد لوگوں کو پھلانگتے ہوئے واپس حجرے میں گئے پھر تھوڑی دیر بعد
واپس آئے صحابہ نے پوچھا اے رسول الله اس کی کیا وجہ تھی آپ نے فرمایا کہ میرے پاس سونے کی ایک ڈلی تھی جس کو میں صدقه کرنا بھول گیا تھا لہذا میں نے وہ جا کرصدقه کی
جواب تدفین سے پہلے نماز جنازہ ہو چکی ہے لہذا اس کی ضرورت نہیں دوم یہ حدیث سے ثابت نہیں لہذا بدعت ہے
اس سلسلے میں ایک حدیث پیش کی جاتی ہے ابی داود کی روایت ہے
عن عثمان بن عفان قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم ” إذا فرغ من دفن الميت وقف عليه فقال: استغفروا لاخيكم وسلوا له بالتثبيت فإنه الآن يسال ” .
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کے دفن سے فارغ ہوتے تو وہاں کچھ دیر رکتے اور فرماتے: ”اپنے بھائی کی مغفرت کی دعا مانگو، اور اس کے لیے ثابت قدم رہنے کی دعا کرو، کیونکہ ابھی اس سے سوال کیا جائے گا“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: بحیر سے بحیر بن ریسان مراد ہیں۔۔قال الشيخ الألباني: صحيح (تحفة الأشراف: ۸۹۴۰
یہ روایت صحیح نہیں منکر ہے سنن ابو داود میں اسکی سند ہے
حدَّثنا إبراهيمُ بن موسى الرازيُّ، حدَّثنا هشامٌ -يعني: ابن يوسف-، عن عبدِ الله بن بَحِير، عن هانىء مولى عثمانَ عن عثمان بن عفان،
عثمان رضی الله تعالی عنہ کی روایت کے اس راوی عبد الله بن بحیر أبو وائل القاص اليمانى الصنعانى کے لئے الذھبی میزان میں لکھتے ہیں
وقال ابن حبان: يروى العجائب التي كأنها معمولة، لا يحتج به
اور ابن حبان کہتے ہیں یہ عجائب روایت کرتا ہے جو ان کا معمول تھا ، اس سے احتجاج نہ کیا جائے
الذھبی تاریخ الاسلام میں کہتے ہیں
فِيهِ ضَعْفٌ
ان میں کمزوریہے
یہ بھی کہتے ہیں
وله غرائب
غریب روایات بیان کرتے ہیں
الذھبی اپنی دوسری کتاب ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين میں ان کو منکر الحدیث بھی کہتے ہیں
الذھبی تاریخ الاسلام میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ یہ
عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَحِيرٍ، الصَّنعائيّ، الْقَاصُّ -د. ت. ق- وَهِمَ مَنْ قَالَ: هُوَ ابْنُ بَحِيرِ بْنِ رَيْسَانَ
عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَحِيرٍ، الصَّنعائيّ، الْقَاصُّ ہے (جس سے ابو داود اور ابن ماجہ نے روایت لی ہے ) اور وہم ہے جس نے کہا کہ یہ ابْنُ بَحِيرِ بْنِ رَيْسَان ہے
الذہبی یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے شیخ (کو وہم ہوآ) کہتے ہیں
قَالَ شَيْخُنَا فِي تَهْذِيبِهِ: وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَحِيرِ بْنِ رَيْسَانَ الْمُرَادِيُّ، أَبُو وَائِلٍ الصَّنعانيّ.
ہمارے شیخ (المزی ) نے تہذیب (الکمال) میں (ایسا) کہا
ابن ماکولا کہتے ہیں
ابْنُ مَاكُولا الکمال میں کہتے ہیں : عبد اللَّهِ بْنُ بَحِيرٍ نُسِبَ إِلَى جَدِّهِ
عبد الله بن (عِيسَى بن ) بحير بن ريسان ہے ،اس کی نسبت دادا کی طرف ہے
یعنی وہ دادا کے نام سے مشھور ہے
الذھبی کے نزدیک محدثین (ابن حبان، المزی وغیرہ ) کو وہم ہوا اور انہوں نے اس کو دو الگ راوی سمجھ لیا
الذھبی اس کی وجہ کتاب المغني في الضعفاء میں ترجمہ عبد الله بن بحير الصَّنْعَانِيّ الْقَاص میں لکھتے ہیں
وَلَيْسَ هُوَ ابْن بحير بن ريسان فان بحير بن ريسان غزا الْمغرب زمن مُعَاوِيَة وَسكن مصر وروى عَن عبَادَة بن الصَّامِت وَعمر دهرا حَتَّى لقِيه ابْن لَهِيعَة وَبكر بن مُضر وَقَالَ ابْن مَا كولا فِي شيخ عبد الرَّزَّاق أَنا أَحْسبهُ عبد الله بن عِيسَى بن بحير نسب إِلَى جده وكنيته أَبُو وَائِل قلت لَهُ مَنَاكِير
اور یہ ابن بحیر بن ريسان نہیں کیونکہ عبد الله ابن بحیر بن ريسان نے مغرب میں جہاد کیا مُعَاوِيَة کے زمانے میں اور عبَادَة بن الصَّامِت سے روایت کیا اور عمر کا ایک حصہ گزارا حتی کہ ابن لَهِيعَة سے ملاقات ہوئی اور بکر بن مُضر سے اور ….. (عبد الله بن بحير الصَّنْعَانِيّ الْقَاص) شيخ عبد الرَّزَّاق کے لئے میں سمجھتا ہوں کہ یہ عبد الله بن عِيسَى بن بحير ہے جس کی نسبت دادا کی طرف ہے اور کنیت أَبُو وَائِل ہے میں کہتا ہوں ان کے پاس منکر روایات ہیں
اس روایت کے دفاع میں کہا جاتا ہے کہ البانی صاحب نے کتاب احکام الجنائز میں اس کو صحیح کہا ہے اور امام الحاکم اور الذھبی نے بھی
حالانکہ امام الحاکم کی تصحیح کون مانتا ہے ان پر محدثین کی شدید جرح ہے .وہ تو اس روایت تک کو صحیح کہتے ہیں جس میں آدم علیہ السلام پر وسیلہ کے شرک کی تہمت لگائی گئی ہے
الذھبی نے اس روایت پر تلخیص مستدرک میں سکوت کیا ہے نہ کہ تصحیح اور الذھبی کی اس راوی کے بارے میں رائے اوپر دیکھ سکتے ہیں
صحیح مسلم میں یہ بات عمرو بن العاص کی روایت میں بیان ہوئی ہے کہ مرض وفات میں حالت سکرات کے قریب انہوں نے اس کی وصیت کی لیکن یہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے ثابت نہیں
یہ کرنا بدعت کے زمرے میں آ جائے گا ، اہل علم کا یہی کہنا ہے اس مسئلہ میں
جواب یہ امام حاکم نے مستدرک میں روایت کیا ہے
حَدَّثَنَا أَبُو حُمَيْدٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَامِدٍ الْعَدْلُ بِالطَّابرَانِ، ثنا تَمِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ، ثنا أَبُو مُصْعَبٍ الزُّهْرِيُّ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي فُدَيْكٍ، أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَتْ «تَزُورُ قَبْرَ عَمِّهَا حَمْزَةَ كُلَّ جُمُعَةٍ فَتُصَلِّي وَتَبْكِي عِنْدَهُ» هَذَا الْحَدِيثُ رُوَاتُهُ عَنْ آخِرِهِمْ ثِقَاتٌ، وَقَدِ اسْتَقْصَيْتُ فِي الْحَثِّ عَلَى زِيَارَةِ الْقُبُورِ تَحَرِّيًا لِلْمُشَارَكَةِ فِي التَّرْغِيبِ، وَلِيَعْلَمَ الشَّحِيحُ بِذَنَبِهِ أَنَّهَا سُنَّةٌ مَسْنُونَةٌ، وَصَلَّى اللَّهُ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَآلِهِ أَجْمَعِينَ
حسین رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ فاطمہ بنت نبی صلی الله علیہ وسلم ہر جمعہ کو حمزہ رضی الله عنہ کی قبر کی زیارت کرتیں وہاں نماز پڑھتیں اور روتیں امام حاکم کہتے ہیں اس کو ثقات نے روایت کیا ہے اور اس روایت سے زیارت قبور پر غور کیا جا سکتا ہے اور اس میں شامل ہونے کی ترغیب دی جا سکتی ہے اور گناہوں میں کمی کی جا سکتی ہے اور یہ سنت مسنون ہے
إمام حاكم كي عقلي حالت دیکھیے کہ اسی کتاب میں اس کی دوسری سند ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الصَّفَّارُ، ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي الدُّنْيَا الْقُرَشِيُّ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ شُعَيْبٍ، ثنا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ أَبَاهُ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ، حَدَّثَهُ عَنْ أَبِيهِ، «أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ تَزُورُ قَبْرَ عَمِّهَا حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فِي الْأَيَّامِ فَتُصَلِّي وَتَبْكِي عِنْدَهُ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ
ایک دفعہ سند میں سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّد آتا ہے اور دوسری سند میں سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ جَعْفَرِ ہے
سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ نے ایک دفعہ اس کو امام جعفر سے نقل کیا اور دوسری سند ہے کہ اپنے باپ سے اور اس نے امام جعفر سے نقل کیا لہذا سند منقطع ہو گئی لیکن اس کو پھر بھی صحیح کہہ رہے ہیں
الذھبی لکھتے ہیں
سليمان بن داود مدني تكلم فيه
سليمان بن داود مدني خود متکلم فيه راوی ہے لہذا یہ روایت ضعیف ہے
راقم کی رائے میں سلیمان مجھول ہے کیونکہ اغلبا امام الذھبی اس کو سُليمان بْنِ دَاوُدَ بْنِ قَيس سمجھا ہے لیکن وہ اپنے باپ سے اور وہ یحیی بن سعید سے روایت کرتے ہیں اور جعفر ان سے پہلے کے ہیں
جواب دعا کرنا عبادت ہے- لیکن اگر دعا کو نماز میں ان مواقع پر کیا جائے جن کے لئے حدیث میں کوئی روایت نہیں تو یہ دین میں اضافہ ہے- نبی صلی الله علیہ وسلم نے وتر کی دعا کی ہے اور وہ صرف چند الفاظ پر مشتمل ہوتی تھی جو حدیث میں آئے ہیں کہ اللهم اهدني فيمن هديت … اس سے زیادہ بدعت ہے-
رات کی نماز میں نبی صلی الله علیہ وسلم قرات میں ہی دعا کرتے تھے یعنی جب عذاب کی آیت اتی تو الله کی پناہ مانگتے اور اب جنت کی آیت اتی تو قرات میں ہی الله سے جنت طلب کرتے لہذا قرات کرتے جاتے اور دعائیں کرتے جاتے یہ سنت تھی جو حدیث میں آئی ہے- یہی بات نماز کسوف کے لئے آئی ہے / مسلم کی حدیث ہے
عبد الرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: “میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اپنے تیروں سے مدینہ میں تیر اندازی کر رہا تھا،اچانک سورج گرہن ہو گیا، میں نے اپنے تیروں کو پھینکا، اور کہا: “اللہ کی قسم آج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سورج گرہن کے موقع پر کیے جانے والے اعمال ضرور دیکھوں گا” عبد الرحمن بن سمرہ کہتے ہیں: میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نماز میں ہاتھ اٹھائے کھڑے تھے، اور تسبیح ،تحمید، تہلیل ، تکبیر، اور دعائیں کر رہے تھے، آپ نے یہ عمل سورج صاف ہونے تک جاری رکھا”
یعنی نماز میں قرات میں ہی نبی صلی الله علیہ وسلم دعائیں کرتے تھے
ابی داود کی روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
سيكون قوم يعتدون في الدعاء
ایک قوم آئے گی جو دعا کو لمبا کریں گے
پھر دعا قنوت کو قرآن کی قرات کی طرح پڑھنا بھی ثابت نہیں- – دعا میں لاؤڈ اسپیکر پر شور کرنا بھی اسی صدی کی بدعت ہے- ایک موقعہ پر نبی صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کو تکبیر اونچی آواز میں کرنے سے منع کیا اور کہا
إنكم لا تدعون أصم ولا غائباً إنكم تدعون سميعاً بصيرا
تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے تم سننے والے اور دیکھنے والے کو پکار رہے ہو
سنن نسائی کی حدیث ہے
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: “رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی عمرو بن عوف میں صلح کروانے کیلئے گئے ہوئےتھے ، تو نماز کا وقت ہوگیا، چنانچہ مؤذن نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اطلاع دی، تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں جمع کرنے کا حکم دیا، اور ابو بکر نے انکی امامت کے فرائض سر انجام دیے، اسی دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم آ گئے اور صفوں کو چیرتے ہوئے پہلی صف میں کھڑے ہوگئے، لوگوں نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمدسے متنبہ کرنے کیلئے ہاتھ پر ہاتھ مارنا شروع کیے[تالیاں]، لیکن ابو بکر رضی اللہ عنہ جب نماز میں ہوتے تو ادھر ادھر نہیں دیکھتے تھے، جب لوگوں نے [تالیاں] زیادہ کیں تو ابو بکر رضی اللہ عنہ کو محسوس ہوا کہ لوگوں کو نماز میں کوئی مسئلہ درپیش ہے، چنانچہ جب انہوں نے جھانکا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انکے پیچھے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے سمجھایاکہ: اپنے عمل پر جاری رہو، تو ابو بکر نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس اجازت مرحمت فرمانے پر اللہ کی حمد و ثنا بیان کی۔۔
نسائی اس سے دلیل لیتے ہیں کہ نماز میں ہاتھ اٹھا سکتے ہیں لیکن یہ دعا کے لئے نہیں حمد کے لئے اٹھائے گئے تھے لہذا اس سے قنوت میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کی دلیل نہیں لی جا سکتی
بعض مسلکی ہوشیار مفتیوں نے کھینچ تان کرکے حمد کو دعا سے ملا کر اس روایت سے ہاتھ اٹھانے کی دلیل بنا لی ہے
رمضان کے وتر کو قنوت نازلہ کی طرح کرنا دین میں بدعت ہے جو عین حرم میں کی جاتی ہے- قنوت نازلہ فرض نماز میں کیا جاتا ہے جب کوئی اجتماعی مصیبت یا جنگ ہو
ایک بدعت کو روکنا ایک سنت کو زندہ کرنا ہے
جس روز قرآن مکمل ہوتا ہے اس میں تو دعا قنوت اس قدر طویل کی جاتی ہے کہ شاید ابی داود کی حدیث ہی بھول جاتے ہیں کہ لمبی دعائیں منع ہیں
یہ بدعت بھی رمضان کے بزنس کا حصہ ہے لوگ اس دعا ختم القرآن میں شامل ہونے کے لئے مکہ کا سفر کرتے ہیں یعنی
اس کو اس قدر اہم سمجھا جانے لگا ہے خبردار
من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھو رد
جس نے ایسا عمل کیا جس پر حکم نہیں تو وہ رد ہو جائے گا
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بات یاد رہے
جواب یہ بدعت ہے
اس میں اختلاف رہا ہے
امام احمد کا ابتداء میں موقف اس کے خلاف تھا
کتاب مسائل الإمام أحمد رواية أبي داود السجستاني کے مطابق
سَمِعْتُ أَحْمَدَ، ” سُئِلَ عَنِ الْقِرَاءَةِ عِنْدَ الْقَبْرِ؟ فَقَالَ: لَا
ابو داود کہتے ہیں احمد سے سوال کیا کہ کیا قبر کے پاس قرات ہے؟ کہا: نہیں
البتہ ایک دوسری خبرکے مطابق اس موقف سے رجوع کیا اس کی خبر ابو بکر الخلال نے دی ہے جنہوں نے اس مسئلہ پر پوری کتاب مرتب کی کہتے ہیں
کتاب القراءة عند القبور از أبو بكر أحمد بن محمد بن هارون بن يزيد الخَلَّال البغدادي الحنبلي (المتوفى: 311هـ) کے مطابق
وَأَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ أَحْمَدَ الْوَرَّاقُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ مُوسَى الْحَدَّادُ، وَكَانَ صَدُوقًا، وَكَانَ ابْنُ حَمَّادٍ الْمُقْرِئُ يُرْشِدُ إِلَيْهِ، فَأَخْبَرَنِي قَالَ: ” كُنْتُ مَعَ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، وَمُحَمَّدِ بْنِ قُدَامَةَ الْجَوْهَرِيِّ فِي جِنَازَةٍ، فَلَمَّا دُفِنَ الْمَيِّتُ جَلَسَ رَجُلٌ ضَرِيرٌ يَقْرَأُ عِنْدَ الْقَبْرِ، فَقَالَ لَهُ أَحْمَدُ: يَا هَذَا، ” إِنَّ الْقِرَاءَةَ عِنْدَ الْقَبْرِ بِدْعَةٌ فَلَمَّا خَرَجْنَا مِنَ الْمَقَابِرِ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ لِأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، مَا تَقُولُ فِي مُبَشِّرٍ الْحَلَبِيِّ؟ قَالَ: ثِقَةٌ، قَالَ: كَتَبْتَ عَنْهُ شَيْئًا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَخْبَرَنِي مُبَشِّرٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْعَلَاءِ بْنِ اللَّجْلَاجِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ أَوْصَى إِذَا دُفِنَ أَنْ يُقْرَأَ عِنْدَ رَأْسِهِ بِفَاتِحَةِ الْبَقَرَةِ وَخَاتِمَتِهَا، وَقَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ يُوصِي بِذَلِكَ. فَقَالَ لَهُ أَحْمَدُ: فَارْجِعْ، فَقُلْ لِلرَّجُلِ يَقْرَأْ
الْحَسَنُ بْنُ أَحْمَدَ الْوَرَّاقُ نے خبر دی کہا مجھ کو عَلِيُّ بْنُ مُوسَى الْحَدَّادُ نے خبر دی اور وہ صدوق تھے کہ میں احمد بن حنبل اور محمد بْنِ قُدَامَةَ الْجَوْهَرِيِّ ایک جنازہ میں تھے پس جب میت دفن کی تو ایک اندھے شخص نے قبر پر قرات شروع کی پس امام احمد نے کہا یہ کیا بے شک قبر پر قرات بدعت ہے پس جب ہم قبرستان سے نکلنے لگے تو مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ نے احمد سے کہا اے ابو عبد الله اپ کی مُبَشِّرٍ الْحَلَبِيِّ کے بارے میں کیا رائے ہے ؟ انہوں نے کہا ثقہ ہے میں نے پوچھا اپ نے اس سے لکھا کہا ہاں میں نے کہا کہ مجھے مُبَشِّرٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْعَلَاءِ بْنِ اللَّجْلَاجِ، نے اپنے باپ سے خبر دی کہ انہوں نے وصیت کی کہ جب دفن کرو تو سوره البقرہ کا شروع اور آخر پڑھو اور کہا میں نے ابن عمر سے سنا انہوں نے بھی اسی طرح کی وصیت کی- پس احمد نے ان سے کہا آؤ واپس چلیں اور اس شخص سے کہیں کہ پڑھے
ابو بکر الخلال حنابلہ کے مشھور امام ہیں
فقہ حنفی میں قرات حرام ہے جبکہ بریلوی فرقہ قبروں پر قرآن بھی پڑھتا ہے- حالانکہ کتاب مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر از عبد الرحمن بن محمد بن سليمان المدعو بشيخي زاده, يعرف بداماد أفندي (المتوفى: 1078هـ) میں ہے
وَكَرِهَ الْإِمَامُ الْقِرَاءَةَ عِنْدَ الْقَبْرِ لِأَنَّ أَهْلَ الْقَبْرِ جِيفَةٌ
اور امام نے کراہت کی ہے کہ قبر پر قرات کی جائے کیونکہ اہل قبر تو گل سڑ جاتے ہیں
بریلویوں کی طرح امام ابن تیمیہ بھی قرات عند القبر کے قائل تھے
ابن حجر کتاب الإمتاع بالأربعين المتباينة السماع / ويليه أسئلة من خط الشيخ العسقلاني میں لکھتے ہیں
إِن الْمَيِّت يعرف من يزوره وَيسمع من يقْرَأ عِنْده إِذْ لَا مَانع من ذَلِك
بے شک میت زیارت کرنے والے کو جانتی ہے اور قرات سنتی ہے اس میں کوئی بات مانع نہیں ہے
چونکہ یہ علماء میت کے سماع کے قائل ہیں لہذا ان کے نزدیک میت قرات سنتی ہے اور اس سننے کا
ثواب پاتی ہے
جواب
فتح الباری میں ابن حجر نے لکھا ہے
وَقَالَ الْحَافِظ أَبُو ذَر الْهَرَوِيّ سَمِعت أَبَا الْهَيْثَم مُحَمَّد بن مكي الْكشميهني يَقُول سَمِعت مُحَمَّد بن يُوسُف الْفربرِي يَقُول قَالَ البُخَارِيّ مَا كتبت فِي كتاب الصَّحِيح حَدِيثا الا اغْتَسَلت قبل ذَلِك وَصليت رَكْعَتَيْنِ
الْحَافِظ أَبُو ذَر الْهَرَوِيّ کہتے ہیں میں نے أَبَا الْهَيْثَم مُحَمَّد بن مكي الْكشميهني کو سنا انہوں نے مُحَمَّد بن يُوسُف الْفربرِي کو کہتے سنا کہ امام بخاری نے کہا کہ میں نے کوئی حدیث کتاب الصحیح میں نہ لکھی الا یہ کہ اس سے قبل دو رکعت پڑھی
اس روایت میں مُحَمَّد بن مكي الْكشميهني المتوفی ٣٨٩ ھ ، محَمَّد بن يُوسُف الْفربرِي پیدائش ٢٣١ ھ اور المتوفی ٣٢٠ ھ سے سن کر امام بخاری کا ایک عمل بتا رہے ہیں جو بدعت ہے- حدیث رسول لکھنے پر استخارہ کرنے سے کوئی حدیث صحیح متصور نہیں ہو گی کیونکہ استخارہ ان کاموں میں کیا جاتا ہے جن میں مشورہ ممکن ہو مثلا کوئی کام کرنے کا ارادہ کرنا اور اس میں اطمینان قلب کے لئے کوئی کام کرنا
اصل میں اس قول کا دارومدار عَبْدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْهَرَوِيُّ الْحَافِظُ أَبُو ذَرٍّ پر ہے جس کی وفات سن ٤٣٠ ھ کی ہے
کتاب المنتخب من كتاب السياق لتاريخ نيسابور از : تَقِيُّ الدِّيْنِ، أَبُو إِسْحَاقَ إِبْرَاهِيْمُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ الأَزْهَرِ بنِ أَحْمَدَ بنِ مُحَمَّدٍ العِرَاقِيُّ، الصَّرِيْفِيْنِيُّ، الحَنْبَلِيُّ (المتوفى: 641هـ) کے مطابق
مَعْرُوفٌ مَشْهُورٌ مِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ، صُوفِيٌّ مَالِكِيٌّ مِنَ الْمُجَاوِرِينَ بِمَكَّةَ، حَرَسَهَا اللَّهُ، كَانَ وَرِعًا زَاهِدًا عَالِمًا سَخِيًّا بِمَا يَجِدُ، لا يَدَّخِرُ شَيْئًا لِلْغَدِ، صَارَ مِنْ كِبَارِ مَشَايِخِ الْحَرَمَيْنِ، مُشَارٌ إِلَيْهِ فِي التَّصَوُّفِ،
مشھور و معروف اہل حدیث ہیں صوفی مالکی ہیں اور … تصوف کی طرف مائل ہیں
اس قول سے امام بخاری پر بدعت کا الزام لگتا ہے اور اس میں صوفی منش ابو ذر الھروی کی غلطی ہے
بدعت پر استخارہ خود ایک بدعت ہے
امام بخاری نے صحیح تالیف کرنے کا ارادہ کیا تو بہت ممکن سے اس پر استخارہ کیا ہو لیکن روایت کی صحت کا تعیّن علم جرح و تعدیل اور علم علل پر منبی ہے اس میں ہر روایت پر وہبی اشارہ لینا نا ممکن ہے
ہر روایت پر استخارہ ہونے کے باوجود علماء نے صحیح بخاری کی کچھ احادیث کو معلول بھی قرار دیا ہے جس میں البانی بھی ہیں لہذا استخارہ والی بات اس زاویہ سے بھی صحیح نہیں
جواب قرآن کو پڑھنے کے دوران ہی دعا کی جاتی ہے رات کی نماز میں صحیح مسلم کے مطابق یہی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا طریقه تھا اور قرآن ٢٣ سال میں مکمل ہوا لہذا صرف ١١ ہجری میں جا کر مکمل ہوا قرآن مکمل ہونے پر کوئی دعا کرنا کسی صحیح حدیث میں نہیں البتہ ایک اثر جو انس رضی الله عنہ سے متعلق ہے اس کے مطابق وہ دعا کرتے تھے
مسند الدارمی کی روایت ہے
أَخْبَرَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ قَالَ: كَانَ أَنَسٌ إِذَا خَتَمَ الْقُرْآنَ جَمَعَ وَلَدَهُ وَأَهَلَ بَيْتِهِ, فَدَعَا لَهُمْ.
جعفر بن سلیمان روایت کرتے ہیں کہ ثابت البنانی روایت کرتے ہیں کہ انس رضی الله عنہ جب قرآن ختم کرتے تو اپنے بچوں اور گھر والوں کو جمع کرتے اور ان کے لئے دعآ کرتے
الذھبی کی سیر الاعلام النبلاء کے مطابق اس کی سند میں جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ہیں جن سے بخاری نے کوئی روایت نہیں لی شیعہ ہیں
قَالَ ابْنُ المَدِيْنِيِّ: أَكْثَرَ عَنْ ثَابِتٍ البُنَانِيِّ، وَكَتَبَ عَنْهُ مَرَاسِيْلَ، فِيْهَا مَنَاكِيْرُ.
علی المدینی کہتے ہیں یہ اکثر ثابت البنانی سے روایت کرتے ہیں اور ان سے مراسل لکھی ہیں جن میں اکثر منکرات ہیں
يَحْيَى بنِ مَعِيْنٍ، قَالَ: كَانَ يَحْيَى القَطَّانُ لاَ يُحَدِّثُ عَنْ جَعْفَرِ بنِ سُلَيْمَانَ، وَلاَ يَكْتُبُ حَدِيْثَهُ، وَكَانَ عِنْدَنَا ثِقَةً.
يَحْيَى بنِ مَعِيْنٍ کہتے ہیں یحیی القطان جعفر بن سلیمان سے روایت نہیں لکھتے لیکن ہمارے نزدیک ثقہ ہیں
البانی کتاب الضعيفة 13/ 315: میں کہتے ہیں ومما لا شك فيه أن التزام دعاء معين بعد ختم القرآن من البدع التي لا تجوز
اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ختم القران کے بعد دعا معین کرنا بدعت ہے جو جائز نہیں
غیر مقلد اہل حدیث عالم البانی صاحب نماز التراویح کے بعد دعا ختم القران کے بھی خلاف تھے دیکھئے الضعیفہ ج ١٣
عجیب بات یہ ہے کہ انس رضی الله عنہ کے اس موقوف اثر کو تو قبول کیا جاتا ہے اور عرب اس بنیاد پر ختم القران کی دعائیں کرتے ہیں لیکن جب اذان ،میں حی علی خیر العمل کے الفاظ کا ذکر اتا ہے کہ ابن عمر اور حسین رضی الله عنہما اس کو کہتے تھے تو اس بات کو موقوف کہہ کر رد کیا جاتا ہے
جواب
جواب
فرض نماز کے فورا بعد اجتماعی دعا کا کسی حدیث میں ذکر نہیں
لہذا مسجد میں اس کو نہیں کرنا چاہیے ایک حدیث پیش کی جاتی ہے جو صحیح بخاری میں ہے
انس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے اور میں گھر میں تھا اور میری ماں اور خالہ اپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کھڑے ہو میں تمہارے لئے نماز پڑھوں اور اس وقت فرض نماز کا وقت نہ تھا پھر اپ نے نماز پڑھی اور ایک شخص نے ثابت سے پوچھا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے انس کو کہاں کھڑا کیا انہوں نے کہا داہنی طرف پھر دعا کی سب کے لئے میری والدہ نے کہا یا رسول الله یہ اپ کا چھوٹا خادم ہے اس کے لئے دعا کریں سو رسول الله نے میرے لئے ہر چیز مانگی اور آخر میں کہا اے الله اس کا مال زیادہ کر اور اولاد میں برکت دے
اس سے دلیل لی جاتی ہے کہ فرض نماز کے بعد دعا کر سکتے ہیں حالانکہ اس حدیث میں ہے کہ یہ نماز نفلی تھی اور اس وقت فرض نماز کا وقت نہ تھا دوم یہ دعا اجتماعی ہونے کی بھی کوئی دلیل نہیں ہے
کچھ اور روایات بھی پیش کی جاتی ہیں
سنن الترمذی کی راویت ہے
سنن الترمذي: كِتَاب الدَّعَوَات: بَاب مَا جَاءَ فِي عَقْدِ التَّسْبِيحِ بِالْيَدِ
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ أَيُّ الدُّعَاءِ أَسْمَعُ قَالَ جَوْفَ اللَّيْلِ الْآخِرِ وَدُبُرَ الصَّلَوَاتِ الْمَكْتُوبَاتِ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کونسی دعاء قبول ہوتی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رات کے آخر کی اور فرض نمازوں کے بعد کی ۔
روایت سندا ضعیف ہے اسکی سند میں عبد الرحمن بن سابط القرشي ہے جو ارسال کرنے کے لئے مشھور ہیں کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق
وقال يحيى بن معين لم يسمع من سعد بن أبي وقاص ولا من أبي أمامة
امام یحیی بن معین کہتے ہیں انہوں نے سعد بن أبي وقاص اور أبي أمامة سے نہیں سنا
لہذا روایت منقطع ہو گئی اور کتب احادیث میں اس کی تمام اسناد میں یہ منقطع ہی ہے
سنن أبي داود: كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب فِي صَلَاةِ النَّهَارِ
حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ حَدَّثَنَا النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الصَّلَاةُ مَثْنَى مَثْنَى أَنْ تَشَهَّدَ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ وَأَنْ تَبَاءَسَ وَتَمَسْكَنَ وَتُقْنِعَ بِيَدَيْكَ وَتَقُولَ اللَّهُمَّ اللَّهُمَّ فَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَهِيَ خِدَاجٌ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز دو دو رکعت ہے اور ہر دو رکعت کے بعد تشہد ہے اور عاجزی او مسکینی کا اظہار ہے اور ہاتھوں کو دعاء کے لئے اٹھا اور کہ اے ہمارے اللہ اے ہمارے اللہ۔ پس جس نے ایسا نہ کیا پس وہ ناقص ہے ۔
اس روایت میں عبد الله بن نافع بن العمياء کا تفرد ہے امام بخاری کہتے ہیں اس کی روایت صحیح نہیں ہے عصر حاضر کے محقق شعَيب الأرنؤوط اس کو ضعیف کہتے ہیں
سنن الترمذي: كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب مَا جَاءَ فِي التَّخَشُّعِ فِي الصَّلَاةِ: حدیث نمبر 351
عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةُ مَثْنَى مَثْنَى تَشَهَّدُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ وَتَخَشَّعُ وَتَضَرَّعُ وَتَمَسْكَنُ وَتَذَرَّعُ وَتُقْنِعُ يَدَيْكَ يَقُولُ تَرْفَعُهُمَا إِلَى رَبِّكَ مُسْتَقْبِلًا بِبُطُونِهِمَا وَجْهَكَ وَتَقُولُ يَا رَبِّ يَا رَبِّ وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَهُوَ كَذَا وَكَذَا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز دو دو رکعت ہے اور ہر دو رکعت کے بعد تشہد ہے اور خشوع اور زاری اور عاجزی اور اللہ تعالیٰ کی طرف وسیلہ پکڑنا ہے اور ہاتھوں کو دعاء کے لئے اٹھا اور کہا کہ ہاتھوں کو اپنے رب کی طرف بلند کر اس طرح کہ ہتھیلیوں کا رخ تیرے منہ کی طرف ہو اور کہ اے رب اے رب۔ اور جس نے ایسا نہ کیا پس وہ ایسا ویسا ہے ۔
اسکی سند میں بھی عبد الله بن نافع بن العمياء ہے البانی اس کو ضعیف کہتے ہیں
مسند أحمد: مُسْنَدُ الشَّامِيِّينَ: حَدِيثُ الْمُطَّلِبِ
حَدَّثَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ نَافِعِ ابْنِ الْعَمْيَاءِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْحَارِثِ
عَنْ الْمُطَّلِبِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الصَّلَاةُ مَثْنَى مَثْنَى تَشَهَّدُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ وَتَبَأَّسُ وَتَمَسْكَنُ وَتُقْنِعُ يَدَيْكَ وَتَقُولُ اللَّهُمَّ اللَّهُمَّ فَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَهِيَ خِدَاجٌ قَالَ شُعْبَةُ فَقُلْتُ صَلَاتُهُ خِدَاجٌ قَالَ نَعَمْ فَقُلْتُ لَهُ مَا الْإِقْنَاعُ فَبَسَطَ يَدَيْهِ كَأَنَّهُ يَدْعُو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز دو دو رکعت ہے اور ہر دو رکعت کے بعد تشہد ہے اور مسکینی کا اظہار ہے اور عاجزی ہے اور ہاتھوں کو دعاء کے لئے اٹھا اور کہ اے ہمارے اللہ اے ہمارے اللہ۔ پس جس نے ایسا نہ کیا پس وہ ناقص ہے۔ شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے (عبد ربہ بن سعید سے)پوچھا کیا نماز ناقص ہے انہوں نے کہا ہاں۔ (شعبہ فرماتے ہیں کہ) میں نے (عبد ربہ بن سعید سے) پوچھا کہ “الْإِقْنَاعُ” سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے ہاتھوں کو پھیلایا جیسے کہ مانگنے کے لئے پھیلاتے ہیں ۔
اس کی سند میں بھی عَبْدِ اللهِ بْنِ نَافِعِ ابْنِ الْعَمْيَاءِ ہے اور شعيب الأرنؤوط کہتے ہیں ضعیف ہے
سنن الکبری نسائی کی روایت ہے
مَا يُسْتَحَبُّ مِنَ الدُّعَاءِ دُبُرَ الصَّلَوَاتِ الْمَكْتُوبَاتِ
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي قَالَ: حَدَّثَنَا حَيْوَةُ قَالَ: سَمِعْتُ عُقْبَةَ بْنَ مُسْلِمٍ التُّجِيبِيَّ يَقُولُ: حَدَّثَنِي أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيُّ، عَنْ الصُّنَابِحِيِّ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ بِيَدِهِ يَوْمًا ثُمَّ قَالَ: «يَا مُعَاذُ، وَاللهِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ» فَقَالَ لَهُ مُعَاذٌ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللهِ، وَأَنَا وَاللهِ أُحِبُّكَ قَالَ: ” أُوصِيكَ يَا مُعَاذُ لَا تَدَعَنَّ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ أَنْ تَقُولَ: اللهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ وَأَوْصَى بِذَلِكَ مُعَاذٌ الصُّنَابِحِيَّ، وَأَوْصَى بِهِ الصُّنَابِحِيُّ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَأَوْصَى بِهِ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ عُقْبَةَ بْنَ مُسْلِمٍ
معاذ رضی الله عنہ کہتے ہیں ایک روز رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا پھر کہا اے معاذ الله کی قسم میں تم سے محبت کرتا ہوں پس معاذ نے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اے رسول الله میں بھی آپ سے محبت کرتا ہوں آپ صلی الله علیہ وسلم نے نصیحت کی کہ اے معاذ میں وصیت کرتا ہوں کہ نماز کی دبر میں دعا نہ کرنا مگر ان الفاظ سے
اللهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ
اسکی سند صحیح ہے اور فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ کا مطلب ہے نماز کے بعد اور اس میں انفرادی دعا کا ذکر ہے نہ کہ اجتماعی دعا کا
دعائیں کرنا عبادت ہے لہذا ان کو کیا جا سکتا ہے لیکن فرض نماز کے بعد خاص طور پر مستقلا اجتماعی دعا کرنا صحیح حدیث میں نہیں آیا
جواب
امام الطحطاوي کتاب حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح
میں کہتے ہیں
أحدث عثمان رضي الله عنه الأذان الأول على دار بسوق المدينة مرتفعة يقال لها الزورا
عثمان رضی الله عنہ نے جمعہ کے دن پہلی اذان شروع کی مدینہ کے اوپر والے بازار کے دروازے پر جس کو الزوراء کہا جاتا تھا
یعنی اصلا یہ ایک ہی اذان تھی جو مدینہ کے دور کے بازار میں دی جاتی تھی کیونکہ ان کے دور میں شہر پھیل گیا تھا یہ دو اذانیں نہیں تھیں جو ایک ہی مقام یا مسجد سے دی جاتی ہوں اس کی وجہ تھی کہ نہ گھڑیاں تھیں نہ لاؤڈ اسپکیر تھا لہذا اس کو دور مرتفع مقام میں دیا جاتا
مدینہ کا یہ الزوراء بازار مسجد النبی سے جڑآ ہوا نہ تھا بلکہ دور تھا وہاں تک مسجد کے اندر ہونے والی اذان کی آواز نہ جاتی ہو گی- بازار ویسے بھی شور کی جگہ ہوتا ہو جہاں بھاو تاؤ ہو رہا ہوتا ہے اس لئے یہ پہلی اذان زوال کے فورا بعد اس الزوراء بازار میں دی جاتی اور بعد میں موذن مسجد آ کر اذان دیتا
خلیفہ ہشام بن عبد الملک کے دور میں مسجد والی اذان الْمَنَارِ (ایک پلیٹ فارم) پر دی جاتی
ایسا ہی ہوتا رہا یہاں تک کہ کتاب الفواكه الدواني على رسالة ابن أبي زيد القيرواني کے مطابق
ثُمَّ لَمَّا تَوَلَّى هِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بِالْمَدِينَةِ أَمَرَ بِنَقْلِ الَّذِي عَلَى الزَّوْرَاء إلَى الْمَنَارِ وَاَلَّذِي عَلَى الْمَنَارِ بَيْنَ يَدَيْهِ وَاسْتَمَرَّ الْعَمَلُ عَلَيْهِ.
ہشام بن عبد الملک کے دور بازار الزَّوْرَاء والے موذن کو حکم دیا گیا کہ وہ المنار کی طرف جائیں اور المنار والے موذن کو حکم دیا گیا کہ بازار کی طرف جائیں اور اس طرح بیچ میں اذان دی جانی لگی اور اسی پر عمل جاری رہا
اس طرح خلیفہ ہشام بن عبد الملک نے اذان کی حکمت و مقصد کو سمجھتے ہوئے دو اذانوں کو تین کر دیا
دیکھئے شرح ابن ناجي التنوخي على متن الرسالة لابن أبي زيد القيرواني
امام شافعی کہتے ہیں کہ مجھے وہ پسند ہے جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے دور میں تھا اور ابو بکر اور عمر کا عمل پسند ہے
وأحب ما كان يفعل على عهد رسول الله – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – وأبي بكر وعمر
دیکھئے البيان في مذهب الإمام الشافعي از أبو الحسين يحيى بن أبي الخير بن سالم العمراني اليمني الشافعي (المتوفى: 558هـ) میں
راقم کی رائے میں اس کو دو یا تین اذان کہنا غلط ہے یہ اصلا ایک ہی اذان ہے لیکن چونکہ آواز ایک مقام سے دوسرے مقام بغیر اسپیکر نہیں جاتی لہذا اس کو دیا جاتا تھا آج اس کی ضرورت ختم ہے
البتہ جن علاقوں میں بجلی یا لاوڈ اسپیکر نہیں وہ گاؤں یا دیہات کی مناسبت سے دو اذان دے سکتے ہیں
تراویح رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے تین دن پڑھی بعد میں کہیں یہ فرض نہ ہو جائے اور امت کو مشکل ہو اس کو عوام میں ادا نہ کیا لیکن رمضان میں انفرادنی رات کی نماز کا حکم جاری رہا یہاں تک کہ عمر رضی الله عنہ کے دور میں اس کو جماعت کے ساتھ کیا جائے لگا
یاد رہے کہ اس سے قبل جنگ یمامہ میں بہت سے قاری شہید ہوئے اور ہر کوئی قرآن کا یاد کرنے والا حافظ نہ تھا ایران فتح ہو گیا تھا اور مدینہ النبی غلآموں سے بھر گیا لہذا ایک قاری کے پیچھے انہوں نے لوگوں کو جمع کیا جو ابی بن کعب تھے اس طرح اس کا واپس اجرا ہوا
چونکہ یہ ایک سنت تھی لیکن ایک حکمت کے تحت رکی ہوئی تھی اس کو واپس شروع کرنے کا ثواب ہو گا
ان شاء الله
اجتہاد کر کے بدعت حسنہ کو مشروع کرنے کے لئے بھی دلیل چاہیے
ایسا کام نبی نے کیا ہو تو اس کو کیا جائے گا
جمعہ کی اذان رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دی اس میں اجتہاد کر کے اس کو دو یا تین کیا گیا
تراویح نبی صلی الله علیہ وسلم نے پڑھائے اس میں اجتہاد کر کے اس کو شروع کیا گیا
جواب اس میں اختلاف ہے – اس کی اسناد حسن لغیرہ کے درجہ کی ہیں
سنن ابو داود میں ہے ابوداود، السنن، کتاب الأدب، باب فی الصبی يولد فيؤذن فی أذنه
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَاصِمُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَذَّنَ فِي أُذُنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ حِينَ وَلَدَتْهُ فَاطِمَةُ بِالصَّلَاةِ
ابو رافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حسن بن علی رضی اﷲ عنہ کے کان میں نماز جیسی اذان کہتے ہوئے سنا ہے
طبقات ابن سعد کے مطابق
عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي رَافِعٍ مَوْلَى النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلَامُ. رَوَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ , وَكَتَبَ لَهُ وَكَانَ ثِقَةً كَثِيرَ الْحَدِيثِ
عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي رَافِعٍ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلَامُ کے آزاد کردہ غلام تھے یہ ْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ سے روایت کرتے ہیں اور کثیر الحدیث تھے
ابو حاتم ان کو ثقہ کہتے ہیں
ترمذی اس روایت کو هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ کہتے ہیں
البانی اس کو الكلم الطيب میں حسن کہتے ہیں البتہ بعد میں صحيح الكلم (ص 16) والضعيفة (6121) میں اس سے رجوع کرتے ہیں اور اس کو ضعیف کہتے ہیں – شعيب الأرناؤوط مسند احمد کی تحقیق میں اس کو ضعیف کہتے ہیں
مسند ابو یعلی کی روایت ہے کہ
حَدَّثَنَا جُبَارَةُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْعَلَاءِ، عَنْ مَرْوَانِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ حُسَيْنٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ وُلِدَ لَهُ فَأَذَّنَ فِي أُذُنِهِ الْيُمْنَى وَأَقَامَ فِي أُذُنِهِ الْيُسْرَى لَمْ تَضُرَّهُ أُمُّ الصِّبْيَانِ
حسین رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
جس کے ہاں بچے کی ولادت ہو تو وہ اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اِقامت کہے، اس کی برکت سے بچے کی ماں کو کوئی چیز نقصان نہ پہنچا سکے گی
محقق حسين سليم أسد کہتے ہیں إسناده تالف یعنی سند ضعیف یا موضوع ہے
مولود نہ تو اذان سمجھ سکتا ہے نہ اس سے ایمان دار ہو سکتا ہے یہ اذان دینے کاعمل صرف علامتی ہے
نبی صلی الله علیہ وسلم نے بھی اس کو صرف حسن رضی الله عنہ کے ساتھ کیا کسی اور نو مولود کے لئے نہیں اتا کہ آپ نےکیا ہو
امام ترمدی سنن میں کہتے ہیں اس پر عمل چلا آ رہا ہے
امام مسلم نے سَعْدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ قَيْسٍ الْأَنْصَارِيُّ کی سند سے صحیح میں روایت کیا
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، جَمِيعًا عَنْ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ ابْنُ أَيُّوبَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، أَخْبَرَنِي سَعْدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ ثَابِتِ بْنِ الْحَارِثِ الْخَزْرَجِيِّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ، كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ»
ابو ایوب الانصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’ جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ(اجرمیں) ایسا ہے جیسے پورے سال کے روزے ہوں‘‘{صحيح مسلم: ١١٦٤}
جواب
بہت سے علماء کے نزدیک شوال کے چھے روزے بدعت ہیں
مثلا امام مالک برواية أَبُو مُصْعَبٍ أحمد بن أبي بكر الزهري
وقال مَالِك: فِي صِيَامِ سِتَّةِ أَيَّامٍ بَعْدَ الْفِطْرِ مِنْ رَمَضَانَ: إِنَّهُ لَمْ يَرَ أَحَدًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالْفِقْهِ يَصُومُهَا، وَلَمْ يَبْلُغْه ذَلِكَ عَنْ أَحَدٍ مِنَ السَّلَفِ، وَإِنَّ أَهْلَ الْعِلْمِ يَكْرَهُونَ ذَلِكَ، وَيَخَافُونَ بِدْعَتَهُ، وَأَنْ يُلْحِقَ بِرَمَضَانَ أهل الْجَفَاءِ وَأَهْلُ الْجَهَالَةِ، مَا لَيْسَ فيهُ لَوْ رَأَوْا فِي ذَلِكَ رُخْصَةً من أَهْلِ الْعِلْمِ، وَرَأَوْهُمْ يَعْمَلُونَ ذَلِكَ.
امام مالک بن انس رمضان کے بعد شوال کے چھ روزوں کے بارے میں فرماتے ہیں:’’ میں نے کسی اہل علم یا فقیہ کو نہیں دیکھا جو یہ روزے رکھتا ہو اور نہ سلف (صحابہ و تابعین) سے مجھے یہ پہنچا، بلکہ اہل علم اسے مکروہ سمجھتے ہیں اور اس بدعت سے خوف کرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو جاھل لوگ اہل علم سے رخصت پائیں اور ان کو یہ روزے رکھتے ہوئے دیکھیں تو رمضان کے روزوں میں ان روزوں کو ملا دیں‘‘{مؤطا امام مالک: ۸۵۷
راقم کہتا ہے مدینہ میں اس روایت کا دار و مدار سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ پر ہے جس سے امام مالک نے روایت نہیں لی ہے
کتاب الشرح الكبير على متن المقنع از عبد الرحمن بن محمد بن أحمد بن قدامة المقدسي الجماعيلي الحنبلي، أبو الفرج، شمس الدين (المتوفى: 682هـ) کے مطابق
وكرهه مالك وقال: ما رأيت أحداً من أهل الفقه صومها ولم يبلغني ذلك عن أحد من السلف، وإن أهل العلم يكرهون ذلك ويخافون بدعته وإن يلحق برمضان ما ليس منه
اور امام مالک نے اس سے کراہت کی اور کہا میں نے فقہاء میں کسی کو نہ دیکھا جو ان روزوں کو رکھتا ہو اور نہ مجھ کو یہ سلف سے پہنچا ہے اور اہل علم نے اس سے کراہت کی اور خوف کیا کہ یہ بدعت ہے اور یہ رمضان میں مل جائیں گے جو اس میں سے نہیں ہیں
کتاب المبدع في شرح المقنع از ابن مفلح (المتوفى: 884هـ) کے مطابق امام احمد کے نزدیک روایت موقوف ہے
أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ مَرْفُوعًا مِنْ رِوَايَةِ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ ضَعَّفَهُ أَحْمَدُ، وَقَوَّاهُ آخَرُونَ، وَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ، وَإِلَيْهِ مَالَ أَحْمَدُ: إِنَّهُ مَوْقُوفٌ
امام ابو حنیفہ
صوم ست من شوال مكروه عند أبي حنيفة رحمه الله متفرقاً كان أو متتابعاً
شوال کے چھ روزے رکھنا ابو حنیفہ کے نزدیک مکروہ ہیں خواہ علیحدہ علیحدہ رکھے جائیں یا اکٹھے۔
فتاوی عالمگیر:ص١٠١،المحيط البرهاني في الفقه النعماني:کتاب الصوم،ج٢ص٣٩٣
ابو ایوب رضی الله عنہ سے منسوب روایت
ابو ایوب الانصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’ جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ(اجرمیں) ایسا ہے جیسے پورے سال کے روزے ہوں‘‘{صحيح مسلم: ١١٦٤}
اس روایت کو امام الطحاری نے {شرح مشكل الاثار: ٢٣٤٠}، ابن رشد نے {بداية المجتهد: ٣٠٨/١}، الباجی المالکی نے {شرح المؤطا: ٩٢/٣}، ابو العباس القرطبي نے {المفهم: ٢٣٩/٣} میں ضعیف قرار دیا ہے اور عمر بن دحية نے فرمایا:
رسول اللہﷺ سے اس بارے میں کوئی حدیث ثابت و صحیح نہیں ہے‘‘{رفع الاشكال: ١٧}
قال مرة في حديث صيام ست شوال: “فإن قيل: مداره على عمر بن ثابت الأنصاري، لم يروه عن أبي أيوب غيره، فهو شاذ، فلا يحتجُّ به.
کتاب خبار المكيين من كتاب التاريخ الكبير لابن أبي خيثمة
کے مطابق محدثین اس کو رفع کی گئی روایت سمجھتے تھے یعنی اس کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم تک لے جایا گیا ہے
حَدثنَا عبد الله بن الزبير الْحميدِي: قَالَ نَا سُفْيَان قَالَ: نَا سعد بن سعيد عَن عمر بن ثَابت الْأنْصَارِيّ، عَن أبي أَيُّوب الْأنْصَارِيّ قَالَ: ” من صَامَ رَمَضَان وَأتبعهُ ستًّا من شَوَّال فَكَأَنَّمَا صَامَ الدَّهْر كُله “. قلت لِسُفْيَان أَو قيل لَهُ: إِنَّهُم يَرْفَعُونَهُ فَقَالَ: أسكت عَنهُ فقد عرفت ذَاك
الْحميدِي کہتے ہیں میں نے سفیان سے پوچھا ان لوگوں نے اس کو مرفوع کر دیا ہے ؟ سفیان نے کہا اس پر بس چپ رہو یہ تم جان گئے ہو
یعنی روایت پھیل گئی تھی لوگ اس پر عمل کر رہے تھے لیکن محدثین کے اساتذہ کے نزدیک روایت مرفوع نہیں تھی یعنی نبی صلی الله علیہ وسلم تک سند نہیں جاتی تھی
تعليقات الدارقطني على المجروحين لابن حبان کے مطابق امام احمد اس روایت کے کے ایک راوی کو ضعیف کہتے تھے
سعد بْن سعيد بْن أبي سعيد المَقْبُري
يَقُول إِبْرَاهِيم بْن أَحْمد: أَظن أَنه سعد بْن سعيد الْمدنِي.
رَوَى عَنْ عُمَرَ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، عَن ِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، «مَنْ صَامَ رَمَضَانَ، وَأَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ، فَكَأَنَّمَا صَامَ الْأَبَدَ»
بَلغنِي عَن أَحْمد بْن حَنْبَل، أَنه قَالَ: هُوَ ضَعِيف.
والأغلب عَليّ أَنه غَيره، بل لَا أَشك، وَكِلَاهُمَا ضَعِيف.
سند میں سَعْدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ قَيْسٍ الْأَنْصَارِيُّ ہے جس کو ضعیف کہا گیا ہے النَّسَائِيُّ: لَيْسَ بِالقَوِيِّ
ابن عدی نے الکامل میں اس کو ضعیف راویوں میں شمار کیا اور کہا
قَالَ الشَّيْخُ: حَدِيثُ سَعْدِ بْنِ سَعِيد عَنِ عُمَر بْنِ ثَابِتٍ، عَن أَبِي أيوب من صام رمضان فهو مشهور، وَمَدار هذا الحديث عليه قد حدث به، عَن يَحْيى بْن سَعِيد أخوه، وشُعبة والثوري، وابن عُيَينة وغيرهم من ثقات الناس
اس کی شوال کے ٦ روزوں والی روایت مشھور ہے اور اس کا مدار اس راوی سَعْدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ قَيْسٍ الْأَنْصَارِيُّ پر ہے اس سے یحیی اور ان کے بھائی اور شعبہ اور ثوری اور ابن عیینہ اور لوگوں میں دیگر ثقات نے روایت کیا ہے
الاکمال از مغلطاي کے مطابق الساجي، والعقيلي، وأبو علي بن السكن وأبو العرب نے اس کا ذکر ضعیف راویوں میں کیا ہے
وذكره الساجي، والعقيلي، وأبو علي بن السكن وأبو العرب في «جملة الضعفاء».
ثوبان رضی الله عنہ سے منسوب روایت
ایک روایت ثوبان رضی الله عنہ سے بھی منسوب ہے مسند الشاميين از طبرانی اور السنن الكبرى از نسائی میں ہے
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ دُحَيْمٍ، ثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ الْحَارِثِ الذِّمَارِيِّ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ الرَّحَبِيِّ، عَنْ ثَوْبَانَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ صَامَ شَهْرَ رَمَضَانَ فَعَشَرَةُ أَشْهُرٍ، وَسِتَّةَ أَيَّامٍ بَعْدَ الْفِطْرِ، فَذَلِكَ صِيَامُ الدَّهْرِ»
علل ابی حاتم میں ہے
وسمعتُ (5) أَبِي وذكَرَ حَدِيثًا رَوَاهُ سُوَيد بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ الذِّمَاري، عَنْ أَبِي الأَشْعَث الصَّنْعاني (6) ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ الرَّحَبي (7) ، عَنْ ثَوْبان؛ قَالَ: قَالَ رسولُ اللَّهِ (ص) : مَنْ صَامَ رَمَضَانَ وَأَتْبَعَهُ بِسِتٍّ (1) مِنْ شَوَّالٍ … .
قَالَ أَبِي: هَذَا وَهَمٌ شديدٌ (2) ؛ قَدْ سَمِعَ يَحْيَى بْنُ الْحَارِثِ الذِّمَاري هَذَا الحديثَ (3) مِنْ أَبِي أَسْمَاءَ؛ وَإِنَّمَا (4) أَرَادَ (5) سُوَيْدٌ: مَا حدَّثنا صَفْوان بْنُ صَالِحٍ؛ قَالَ: حدَّثنا مَرْوَانُ الطَّاطَرِي (6) ، [عَنْ يَحْيَى بْنِ حَمْزَةَ] (7) ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِي الأَشْعَث الصَّنْعاني، عَنْ شَدَّاد بْنِ أَوْسٍ، عن النبيِّ (ص) : مَنْ صَامَ رَمَضَانَ وَأَتْبَعَهُ بِسِتٍّ (8) مِنْ شَوَّالٍ … .
وحديثُ ثَوْبان: الصَّحيحُ: يحيى بن الحارث؛ أنه (9) سَمِعَ أَبَا (10) أَسْمَاءَ الرَّحَبِيَّ، عَنْ ثَوْبان، عن النبيِّ (ص)
ابن ابی حاتم کے مطابق اس سند میں شدید وہم ہوا ہے لیکن ان کے مطابق ثوبان کی سند سے صحیح ہے
اس طرح ابی حاتم کے مطابق شداد بن اوس کی سند سے صحیح ہے اور ثوبان اور شداد رضی الله عنہما کی اسناد کو ابی حاتم نے صحیح قرار دیا ہے
راقم کہتا ہے ان دونوں کی سند میں يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ الذِّمَاري المتوفی ١٤٥ ھ کا تفرد ہے جو کبھی اس کو شداد کی سند سے اور کبھی ثوبان کی سند سے بیان کرتا ہے – عباسی خلفاء کے دور میں يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ الذِّمَاري جامع دمشق کے امام تھے اور عباسیوں کے دور میں لوگوں کو زہد کی طرف مائل کرنا حکومت کا ایجنڈا تھا جو شخص بھی شب برات سے متعلق احادیث پر تحقیق کرے وہ جان سکتا ہے کہ اس کی روایات حکومت کے قاضی اور مسجدوں کے امام بیان کرتے ہیں اور یہاں بھی یہی حال ہے کہ یحیی بن الحارث نے اس کو کبھی شداد سے اور کبھی ثوبان سے منسوب کیا ہے
ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے منسوب روایت
علل ابی حاتم میں ہے
وسألتُ أَبِي عَنْ حديثٍ رواه عَمْرُو ابن أَبِي سَلَمة ، عَنْ زُهَيْرِ بْنِ محمَّد، عَنْ سُهَيل بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هريرة، عن النبيِّ (ص) قَالَ: مَنْ صَامَ رَمَضَانَ وَأَتْبَعَهُ بِسِتٍّ مِنْ شَوَّالٍ، فَذَلِكَ صِيَامُ الدَّهْرِ؟ قَالَ أَبِي: المِصْريُّون يَرْوُونَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ زُهَيْرٍ ، عَنِ الْعَلاءِ ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عن النبيِّ
ابی حاتم کے مطابق اس روایت کو مصریوں نے بھی روایت کیا ہے ابی حاتم کے مطابق اہل شام کی زهير بن محمد سے روایت منکر ہے اور عمرو بن أبي سلمة شامی ہے – دارقطنی نے العلل میں ان دونوں طرق کو وكلاهما غير محفوظ قرار دیا ہے
دارقطنی نے علل میں کہا
وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ يزيد الخوزي، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عبد الرحمن بن أبي هريرة، عن أبيه، عن النبي (ص) ، ولم يُتابَع عليه، وهو ضعيف. وروي عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، موقوفًا، ولا يثبت عن أبي هريرة
ابو ہریرہ سے اس روایت کی متابعت نہیں ہے اور راوی سند ضعیف ہے اور یہ ابو ہریرہ سے ثابت بھی نہیں ہے
—————–
الغرض صحیح مسلم کی روایت کی سند ضعیف ہے اور وہ موقوف بھی ہے – ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی روایت محفوظ نہیں ہے – ثوبان رضی الله عنہ سے منسوب روایت میں اہل شام کا تفرد ہے- امام مالک کو نہیں ملی یا ان کے نزدیک ثابت نہیں تھی البانی، مختصر سنن أبي داود از المنذری کی تعلیق میں کہتے ہیں
وقال بعضهم: لعل الحديث لم يبلغه، أو لم يثبت عنده
اور بعض کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے امام مالک کو یہ حدیث نہ ملی ہو یا ان کے نزدیک ثابت ہی نہ ہو
اسی طرح عراق میں بھی امام ابو حنیفہ اس پر عمل نہیں کرتے تھے
راقم کہتا ہے یہ اختلاف اب ختم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس پر امت بٹ چکی ہے بڑے فقہاء و محدثین کے نزدیک شوال کے چھ روزے بدعت ہیں اور اسی طرح بڑے محدثین مثلا ابی حاتم کے نزدیک ثابت ہیں – راقم خود یہ روزے نہیں رکھتا
خیال رہے کہ جس شخص پر رمضان کے روزے باقی ہوں وہ نفلی روزے ان سے قبل نہیں رکھ سکتا
جواب
ایصال ثواب کا مطلب کسی اور کو ثواب ٹرانسفر کرنے کی دعا کرنا ہے اس پر فقہا و اہل علم کا اختلاف چلا ا رہا ہے کہ یہ کرنا صحیح ہے یا نہیں
اس کی مثال قرون اول اور دوم میں نہیں ملتی لیکن چوتھی صدی سے اس کا ذکر ملتا ہے جس میں سب سے آگے جنابلہ اور شوافع تھے اور اس کے بعد یہ مالکیہ اور احناف بھی کرنے لگ گئے
لیکن اس میں ضمنی سوالات ہیں
کیا اپ کو اپ کے عمل کا ثواب ملا پہلے یہ تو ثابت ہوا نہیں کہ ثواب ملا یا گناہ اپ اس کے ٹرانسفر کی دعا کر رہے ہیں
میت پر قرض جو مال ہو یا منت ہو اس کو پورا کرنا ورثا کا کام ہے
اس کا اس ایصال ثواب کے عمل سے کوئی تعلق نہیں تھا
لیکن لوگوں نے ان کو ملا کر ایک کھچڑی بنا دی ہے
جواب
سالگرہ منانے پر لوگ مختلف الخیال ہیں
منع کرنے والے
جو منانے سے منع کرتے ہیں ان کے مطابق یہ مسلمانوں میں جاری عمل نہیں ہے یہ بدعت ہے اور دیگر ادیان کی تقریب ہے
زندگی کا ایک سال کم ہو رہا ہے تو اس پر خوشی نہیں منائی جا سکتی وغیرہ
حدیث میں ہے جس نے کوئی ایسا کام کیا جس کے بارے میں ہمارا امر نہ ہو تو وہ بھی مردود ہے
جواز والے
جو اس کے جواز کے قائل ہیں ان کے نزدیک یہ کوئی دینی کام نہیں ہے نہ اس کو دین کا حصہ سمجھا جا رہا ہے
یہ صرف ایک خوشی کی تقریب ہے
—————————–
راہ اعتدال
راقم کے نزدیک یہ ہے کہ اس میں کوئی برائی نہیں ہے
ایام جاہلیت میں کیے جانے والے تمام اقدار و کلچر غلط نہیں سمجھا گیا مثلا عقیقہ جو پیدائش پر کیا جاتا ہے اس پر ایام جاہلیت میں عمل ہوتا تھا اسلام نے اس سے منع نہیں کیا اس کو جائز کیا کہ جو چاہے کرے لہذا جب مسلمان سالگرہ مناتے ہیں تو نہ تو کوئی مشرکانہ عمل ہوتا نہ بدعت ہوتی ہے کیونکہ اس کو نیکی سمجھ کر نہیں کیا جا رہا ہوتا
حدیث میں ہے
خالفوا الیھود والنصاری۔ یعنی یھود ونصاری کی مخالفت کرو
اگر کسی چیز کا تصور کسی خاص قوم یا مذھب سے منسلک سے نہ رہے تو پھر وہ خاص اس قوم کا کلچر نہیں رہتا
مثلا لباس میں سوٹ ٹائی پہنا آج مغربی کلچر کا خاصہ نہیں ہے چینی جاپانی افریقی سب سوٹ پہن رہے ہیں بشمول مسلمانوں کے
اسی طرح سالگرہ منانا صرف اہل مغرب یھود ونصاری کا خاصہ نہیں ہے تمام دنیا میں لوگ اس کو کر رہے ہیں اور کوئی اس کو مذھب کا حصہ نہیں سمجھتا
انبیاء کا کلچر بھی بدلتا رہا ہے شیخ مدین کی بیٹیاں بکریوں کو پانی پلانے ہانک کر کنواں پر لے جاتی ہیں جہاں موسی سے ملتی ہیں لیکن عربوں میں یہ روایت نہیں ملتی کہ عورتیں بکریاںوں کی گلہ بانی کرتی ہوں
دنیا کا کلچر تبدیل ہوتا رہا ہے اور رہے گا لہذا اس میں جو چیز غلط نہ ہو اس کو کرنے میں کوئی عیب نہیں ہے
حدیث جس نے کوئی ایسا کام کیا جس کے بارے میں ہمارا امر نہ ہو میں امر سے مراد دینی حکم ہے
اسی طرح وَمَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ؛ فَهُوَ مِنْهُمْ جس نے کسی قوم کی مشابہت لی وہ انہی میں سے ہے
یہ روایت صحیح بخاری و مسلم میں نہیں اور اس کی ایک بھی سند صحیح نہیں ہے
شعيب الأرناؤوط: إسناده ضعيف. کہتے ہیں
امام احمد کے استاد امام دحیم کہتے ہیں هَذَا الحديثُ ليسَ بشيء یہ حدیث کوئی چیز نہیں
اس میں محدثین عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَابِتِ بْنِ ثَوْبَانَ پر جرح کرتے ہیں
اس کی ایک منفرد سند مسند البزار میں ہے جس میں على بن غراب ہے جو ضعیف ہے اس کے علاوہ ہشام بن حسان بصری ہے جو ضعیف ہے اور ابن سیرین سے روایت کرتا ہے
لہذا اس روایت کی ایک بھی سند مناسب نہیں
واضح رہے کہ عید میلاد النبی منانا بدعت ہی رہے گا کیونکہ اس کو نیکی ہی سمجھ کر کیا جاتا ہے
اسلام اس دینا میں اخروی فلاح کے لئے ہے لوگوں کو عرب بنانے کے لئے نہیں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: «مَعَ الغُلاَمِ عَقِيقَةٌ» وَقَالَ حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ، وَقَتَادَةُ، وَهِشَامٌ، وَحَبِيبٌ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ سَلْمَانَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ عَاصِمٍ، وَهِشَامٍ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنِ الرَّبَابِ، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ الضَّبِّيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَوَاهُ يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ سَلْمَانَ قَوْلَهُ، وَقَالَ أَصْبَغُ: أَخْبَرَنِي ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ، عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، حَدَّثَنَا سَلْمَانُ بْنُ عَامِرٍ الضَّبِّيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [ص:85] يَقُولُ: «مَعَ الغُلاَمِ عَقِيقَةٌ، فَأَهْرِيقُوا عَنْهُ دَمًا، وَأَمِيطُوا عَنْهُ الأَذَى»
اور اصبغ بن فرج نے بیان کیا کہ مجھے عبداللہ بن وہب نے خبر دی، انہیں جریر بن حازم نے، انہیں ایوب سختیانی نے، انہیں محمد بن سیرین نے کہ ہم سے سلمان بن عامر الضبی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لڑکے کے ساتھ اس کا عقیقہ ہے اس لیے اس کی طرف سے خون بہاؤ اور وَأَمِيطُوا عَنْهُ الأَذَى
جواب
یہ روایت امام بخاری کے نزدیک صحیح ہے لیکن اس میں کچھ مسائل ہیں
اس کے متن میں الفاظ کا مفھوم نہیں پتا کتاب مشکل الآثار میں طحاوی لکھتے ہیں
فَحَرَصْتُ أَنْ أَعْلَمَ مَا ” أَمِيطُوا عَنْهُ ” فَلَمْ أَجِدْ أَحَدًا يُخْبِرُنِي
ہمیں کوئی نہیں ملا جس کو وَأَمِيطُوا کی خبر ہو
پھر وہ ایک قول پیش کرتے ہیں
الَّذِي أُمِرَ بِإِمَاطَتِهِ عَنْ رَأْسِ الْمَوْلُودِ هُوَ الدَّمُ الَّذِي كَانَ يُلَطَّخُ بِهِ رَأْسُهُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ
کہ حکم دیا گیا ہے کہ مولود کے سر پر خون لیپا جاتا ہے جیسا ایام جاہلیت میں ہوتا تھا
اس روایت کو ابن سیرین نے صحابی عامر الضبی سے روایت کیا ہے
یہی روایت ان کی بہن بھی عامر الضبی سے روایت کرتی ہیں لیکن ان کے درمیان ایک راوی ہے
حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنِ الرَّبَابِ، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ الضَّبِّيِّ
جس سے گمان غالب ہے کہ ابن سیرین نے بھی کسی واسطے سے عامر رضی الله عنہ سے سنا ہو گا
الرباب أم الرائح مجھول ہیں جن سے ابن سیرین کی بہن نے روایت کیا ہے
حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ اپنے بھائی سے روایت نہیں کرتیں لیکن ابن سیرین ان سے روایت کرتے ہیں
حفصہ گمان غالب ابن سرین سے بڑی ھیں ان کی وفات بھی ابن سیرین سے پہلے ھوئی ھے
راقم کے علم میں ایسا ہی ہے
و الله اعلم
====
اس کی دلیل پر روایات پیش کی جاتی ہیں
سنن ابو داود سنن ابن ماجہ میں ہے
حدَّثنا عبدُ العزيز بن يحيى الحَرَّانيُّ، حدَّثني محمد -يعني ابنَ سلمةَ- عن محمد بن إسحاقَ، عن محمدِ بن إبراهيمَ، عن أبي سلمةَ بن عبد الرحمن
عن أبىِ هريرةَ، سمعتُ النبي -صلَّى الله عليه وسلم- يقول: “إذا صلَّيتُم على الميِّتِ فأخلِصُوا له الدعاء”
جب تم میت پر جنازہ پڑھو تو اس کے لیے خلوص کے ساتھ دعا کرو۔
سند میں مدلس ابن اسحاق ہے
روایت اس سند سے ضعیف ہے لیکن ابن حبان میں اس میں تحدیث ہے
أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْهَمْدَانِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ الْأَعْرَجُ قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: حدثنا أبي عن بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ وَأَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَسَلْمَانَ الْأَغَرِ مَوْلَى جُهَيْنَةَ كُلُّهُمْ حَدِّثُونِي
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: “إِذَا صَلَّيْتُمْ عَلَى الجنازة فأخلصوا لها الدعاء”
جب تم جنازہ پر نماز پڑھو تو اس میں دعا میں خلوص کرو
یہ حسن ہے
اس میں کہیں نہیں ہے کہ یہ دعا نماز جنازہ کےبعد والی ہے یہ دعا نماز جنازہ کے اندر کی ہی ہے
اسلام علیکم
من قرأ آية الكرسي عقب كل صلاة لم يمنعه من دخول الجنة الا أن يموت« رواه النسایی
کیا اے روایت صحيح ہے؟
جواب
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ، صلى الله عليه وسلم:
مَنْ قَرَأَ آيَةَ الْكُرْسِيِّ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلاَةٍ مَكْتُوبَةٍ، لَمْ يَمْنَعْهُِ مِنْ دُخُولِ الْجَنَّةِ إِلاَّ أَنْ يَمُوتَ.
أخرجه النسائي في “عمل اليوم والليلة”
———
وقال الهيثمي (10/ 102): رواد الطبراني في الكبير والأوسط بأسانيد، وأحدها جيد. ا. هـ. وممن صحح هذا الحديث: المزى، والذهبي، والضياء، وابن عبد الهادي، وابن حجر وغيرهم
——-
وعن أَبي أُمامة – رضي الله عنه – قال: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -:
“مَنْ قَرَأَ آيةَ الْكُرْسِيِّ دُبُرَ كُلِّ صَلَاةٍ لَمْ يَمْنَعْهُ مِنْ دُخُولِ الْجَنَّةِ إِلَّا أَنْ يَمُوتَ”.
رواه النسائي (4)، والطبراني بأسانيدَ أحَدُها صحيحٌ (5)، وقال شيخنا أبو الحسن: هو على شرط البخاري، وابن حبان، في كتاب الصلاة، وصححه.
————
وعن الحسن بن عليِّ – رضي الله عنهما – قال: قال النبي – صلى الله عليه وسلم -:
“مَنْ قَرَأَ آيةَ الْكُرْسِيِّ في دُبُرِ الصَّلَاةِ المَكْتُوبَةِ كَانَ فِي ذِمَّةِ اللِه إِلَى الصَّلَاةِ اْلأُخْرَى”.
رواه الطبراني بإسنادٍ حسنٍ
إس روایت کو البانی صحیح کہتے ہیں ابن حبان صحیح کہتے ہیں ہیثمی کہتے ہیں سند جید ہے
البابی کے بقول عمل یوم و لیلہ از نسائی میں سند صحیح ہے
أخبرنَا الْحُسَيْن بن بشر بطرسوس كتبنَا عَنهُ (قَالَ) آح حَدثنَا مُحَمَّد بن (حمير) قَالَ حَدثنَا مُحَمَّد بن زِيَاد عَن أبي أُمَامَة قَالَ قَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم
من قَرَأَ آيَة الْكُرْسِيّ فِي دبر كل صَلَاة مَكْتُوبَة لم يمنعهُ من دُخُول الْجنَّة إِلَّا أَن يَمُوت
الحافظ ابن حجر في تخريج أحاديث المشكاة: غفل ابن الجوزى فأورد هذا الحديث في الموضوعات
ابن حجر کہتے ہیں اس کو موضوع کہنا ابن جوزی کی غفلت ہے
============روایت کا انکار کرنے والے =====
شعيب الأرنؤوط مسند احمد میں ابو امامہ کی اوپر والی روایت پر کہتے ہیں ضعیف ہے اس میں کذاب ہے
وأخرج الطبراني (7532) من طرق عن محمد بن حِمْيَر، عن محمد بن زياد الألهاني، عن أبي أمامة قال: قال رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “من قرأ آية الكرسي دبر كل صلاة مكتوبة لم يمنعه من دخول الجنة إلا الموت”. زاد في إحدى طرقه: و (قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ) . قلنا: وإسناد هذه الزيادة تالف، فيه محمد بن إبراهيم بن العلاء كذبه الدارقطني، وقال ابن عدي: منكر الحديث، عامة
أحاديثه غير محفوظة.
——-
شعب ایمان میں علی سے مروی ہے محقق مختار أحمد الندوي کہتے ہیں ضعیف ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ غَانِمِ بْنِ حَمُّويَهِ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ [ص:57] مُعَاذٍ، حدثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ الصَّبَّاحِ، حدثنا أَبِي، حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الْقُرَشِيُّ، عَنْ نَهْشَلِ بْنِ سَعِيدٍ الضَّبِّيِّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيِّ، عَنْ حَبَّةَ الْعُرَنِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَعْوَادِ الْمِنْبَرِ يَقُولُ: ” مَنْ قَرَأَ آيَةَ الْكُرْسِيِّ دُبُرَ كُلِّ صَلَاةٍ لَمْ يَمْنَعْهُ مِنْ دُخُولِهِ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمَوْتُ، وَمَنْ قَرَأَهَا حِينَ يَأْخُذُ مَضْجَعَهُ أَمَّنَهُ اللهُ عَلَى دَارِهِ وَدَارِ جَارِهِ وَالدُوَيْرَاتِ حَوْلَهُ ” إِسْنَادُهُ ضَعِيفٌ
————-
کتاب أسنى المطالب في أحاديث مختلفة المراتب از محمد بن محمد درويش کے مطابق
أوردهُ ابْن الْجَوْزِيّ فِي الْمَوْضُوع، وَأنكر ابْن حجر عَلَيْهِ ذَلِك وَقَالَ ابْن الْقيم: لَهُ عدَّة طرق كلهَا ضَعِيفَة.
ابن جوزی اس کو موضوع روایت کہتے ہیں ابن حجر اس قول کا انکار کرتے ہیں اور ابن قیم کہتے ہیں کہ تمام طرق ضعیف ہیں
—-
جس طرق کو صحیح کہا گیا ہے اس میں مُحَمَّدُ بنُ حِمْيَرِ بنِ أُنَيْسٍ القُضَاعِيُّ ہے جو صحیح کا راوی ہے الذھبی اس کا ذکر سیر الاعلام النبلاء میں کرتے ہیں اس پر جرح و تعدیل کرنے کے بعد اسی ابو امامہ کی روایت کا حوالہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ حجت نہیں ہے
قُلْتُ: مَا هُوَ بِذَاكَ الحُجَّةِ، حَدِيْثُهُ يُعَدُّ فِي الحِسَانِ، وَقَدِ انْفَرَدَ بِأَحَادِيْثَ، مِنْهَا مَا رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ فِي (صَحِيْحِهِ) لَهُ، عَنْ مُحَمَّدِ بنِ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ:
عَنِ النَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- قَالَ: (مَنْ قَرَأَ آيَةَ الكُرْسِيِّ دُبُرَ كُلِّ صَلاَةٍ مَكْتُوْبَةٍ، لَمْ يَكُنْ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَنْ يَدْخُلَ الجَنَّةَ إِلاَّ أَنْ يَمُوْتَ (3)) .
اور تاریخ اسلام میں کہتے ہیں
قُلْتُ: انْفَرَدَ بِحَدِيثِهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: ” مَنْ قَرَأَ آيَةَ الْكُرْسِيِّ دُبُرَ كُلِّ صَلاةٍ مَكْتُوبَةٍ لَمْ يَكُنْ بَيْنَهُ وَبَيْنَ دُخُولِ الْجَنَّةِ إِلا أَنْ يَمُوتَ “.
اس میں اس کا تفرد ہے
الغرض روایت صحیح تو نہیں حسن کہی جا سکتی ہے اور یہ اس راوی کی غریب روایت ہے جس میں اس کا تفرد ہے
ایک قلیل عمل پر کثیر نیکی والی روایات کو بہت سے لوگوں کو بیان کرنا چاہیے لہذا اس کا متن صرف ایک راوی کیوں بیان کر رہا ہے؟
اكثروالصلاة على يوم الجمعةوليلة الجمعة فمنى صلى على صلاة صلى الله عليه عشرا.رواه بيهقى
جمعہ رات اور جمعہ کا دن خاص درود پرہنا صحيح حديث سے ثابت ہے ؟اور کیا اے روایت صحیح ہے ؟
: فضائل الأوقات از البیہقی میں اس کی سند ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ الْإِسْفِرَايِينِيُّ، حَدَّثَنِي وَالِدِي أَبُو عَلِيٍّ الْحَافِظُ، حَدَّثَنَا أَبُو رَافِعٍ أُسَامَةَ بْنُ عَلِيِّ بْنِ سَعِيدٍ الرَّازِيُّ بِمِصْرَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الصَّائِغُ، حَدَّثَتْنَا [ص:499] حَكَّامَةُ بِنْتُ عُثْمَانَ بْنِ دِينَارٍ، أَخِي مَالِكِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، خَادِمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ أَقْرَبَكُمْ مِنِّي يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي كُلِّ مَوْطِنٍ أَكْثَرُكُمْ عَلَيَّ صَلَاةً فِي الدُّنْيَا، مَنْ صَلَّى عَلَيَّ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ وَلَيْلَةِ الْجُمُعَةِ قَضَى اللَّهُ لَهُ مِائَةَ حَاجَةٍ، سَبْعِينَ مِنْ حَوَائِجِ الْآخِرَةِ وَثَلَاثِينَ مِنْ حَوَائِجِ الدُّنْيَا، ثُمَّ يُوَكِّلُ اللَّهُ بِذَلِكَ مَلَكًا يُدْخِلَهُ فِي قَبْرِي كَمَا تَدْخُلُ عَلَيْكُمُ الْهَدَايَا يُخْبِرُنِي مَنْ صَلَّى عَلَيَّ بِاسْمِهِ وَنَسَبِهِ إِلَى عِتْرَتِهِ، فَأُثْبِتُهُ عِنْدِي فِي صَحِيفَةٍ بَيْضَاءَ»
عقیلی کتاب ضعفا میں کہتے ہیں
أحاديث حكامة تشبه أحاديث القصاص وليس لها أصل.
حکامہ کی احادیث قصہ گو جیسی ہیں ان کا اصل نہیں ہے
ابن حجر لسان المیزان میں کہتے ہیں
حكامة لا شيء
یہ کوئی چیز نہیں ہے
————
اسی کتاب میں اور السنن الكبرى البیہقی میں ایک دوسری سند ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو سَهْلٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْمِهْرَانِيُّ [ص:500]، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ السَّخْتِيَانِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو خَلِيفَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَلَامٍ، أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَكْثِرُوا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَلَيْلَةَ الْجُمُعَةِ فَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عَشْرًا»
اس میں أَبِي إِسْحَاقَ مدلس ہے روایت ضعیف ہے
————
مسند الشافعی میں ہے
أَخْبَرَنَا الشَّافِعِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي صَفْوَانُ بْنُ سُلَيْمٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا كَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ وَلَيْلَةُ الْجُمُعَةِ، فَأَكْثِرُوا الصَّلاةَ عَلَيَّ» .
اس میں صفوان ایک تابعی ہیں اور صحابی کا نام نہیں لیا گیا
روایت ضعیف ہے
———
مسند ابی یعلی میں ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ، حَدَّثَنَا أَبِي عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ عَوَّامٍ الْبَصْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ يَوْمَ الْجُمُعَةَ وَلَيْلَةَ الْجُمُعَةِ أَرْبَعَةٌ وَعِشْرُونَ سَاعَةً، لَيْسَ فِيهَا سَاعَةٌ إِلَّا وَلِلَّهِ فِيهَا سِتُّمِائَةِ عَتِيقٍ مِنَ النَّارِ» قَالَ: ثُمَّ خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِهِ فَدَخَلْنَا عَلَى الْحَسَنِ فَذَكَرْنَا لَهُ حَدِيثَ ثَابِتٍ، فَقَالَ: سَمِعْتُهُ، وَزَادَ فِيهِ: «كُلُّهُمْ قَدِ اسْتَوْجَبَ النَّارَ»
اس کے محقق : حسين سليم أسد کہتے ہیں
إسناده تالف
سند خراب ہے
مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زَحْرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: لَمَّا وُضِعَتْ أُمُّ كُلْثُومٍ ابْنَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقَبْرِ. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” {مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ، وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى} [طه: 55] “، قَالَ: ثُمَّ لَا أَدْرِي أَقَالَ: بِسْمِ اللَّهِ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللَّهِ؟ أَمْ لَا، فَلَمَّا بَنَى عَلَيْهَا لَحْدَهَا طَفِقَ يَطْرَحُ لَهُمُ الْجَبُوبَ وَيَقُولُ: «سُدُّوا خِلَالَ اللَّبِنِ» . ثُمَّ قَالَ: «أَمَا إِنَّ هَذَا لَيْسَ بِشَيْءٍ وَلَكِنَّهُ يَطِيبُ بِنَفْسِ الْحَيِّ»
”ابوامامہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی ام کلثوم قبرمیں اتاری گئیں تو آپ نے یہ آیت پڑھی: {مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ، وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى} [طه: 55] یعنی ہم نے اسی مٹی سے تم کو پیدا کیا، اسی میں ہم تم کو لوٹائیں گے اور اسی سے دوبارہ زندہ کرکے اٹھائیں گے۔“
جواب
شعيب الأرنؤوط – عادل مرشد، وآخرون کہتے ہیں سند ضعیف ہے
امام الذھبی تلخیص مستدرک میں کہتے ہیں
خبر واه لأن علي بن يزيد متروك
خبر واہیات ہے
بیہقی سنن الکبری میں کہتے ہیں
وَهَذَا إِسْنَادٌ ضَعِيفٌ.
* اگرآپ نے صدقہ کیا، کسی بھوکے کو کھانا کھلایا، کسی کو کپڑا دیا، کسی غریب مسکین کو نقد رقم دی۔۔۔۔۔۔۔
* نفلی عبادت کی جیسے نفلی نماز پڑھی یا نفلی روزے رکھے یا نفلی عمرے نفلی حج کیے۔۔۔۔۔۔
* قرآن پاک کی تلاوت کی اور یاد رکھیں کہ اس میں پورا قرآن شامل ہے۔۔۔۔۔
* تسبیحات کیں۔۔۔۔۔۔۔۔
* محض سبحان اللہ کہہ کر بھی اس کا ثواب بھیجا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔
* مسجد کی تعمیر یا انتظام میں حصہ لیا، رفاہِ عامہ کے لیے پانی کا انتظام کیا، رفاہ عامہ کا کوئی بھی کام کیا۔۔۔۔۔
تو ان کا ثواب آپ اپنے مرحومین کو بخش سکتے ہیں، اس کا ثواب نہ صرف اُنکو ملے گا بلکہ آپ کو بھی ملے گا۔۔۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ پرانے نیک اعمال جو کافی عرصہ پہلے کیے ہوں، اُن کا ثواب بھی بخشا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔۔
کیا ایصال ثواب کے لئے یہ باتیں صحیح ہیں
جواب
ایصال ثواب یا ثواب ٹرانسفر کرنا ایک بدعت ہے
بعض انسانوں کا عمل ان کی ذات تک محدود نہیں ہوتا مثلا ایک شخص اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرتا ہے والدین کی خدمت کرتا ہے تو جو نیکی سکھا رہا ہے اس کا ثواب کرنے والے کو بھی ہو گا اور اس کو بھی ہو گا لہذا یہ چونکہ اس شخص کے عمل کی بدولت ہوا اس کو ثواب ملے گا اسی طرح گناہ بھی مثلا قابیل کو قتل کا گناہ ملتا رہے گا کیونکہ اس نے اس کو شروع کیا
اب ایک اور بحث ہے وہ ہے میت کے اوپر کوئی منت باقی ہے یا روزے باقی ہیں یا قرض باقی ہے تو ان سب کو پورا کرنا ورثاء کا کام ہے جس میں وہ لوگ ہیں جو شرعا جائیداد میں حق دار ہیں یہی ورثاء ہیں ان کی ذمہ داری ہے کہ یہ میت کی منت کو پورا کریں کسی اور کی یہ ذمہ داری نہیں ہے
ان دو مختلف چیزوں کو ملا کر ایصال ثواب کا نظریہ ایجاد کیا گیا ہے
جب انسان مر گیا اس کا عمل منقطع ہوا اب اس کو ثواب انہی چیزوں کا ملے گا جو اس نے کیں لھذا اس میں اگر ورثاء خاندان والوں کو جمع کریں اور قرآن پڑھ پڑھ کر میت کو بخشیں تو یہ عمل بدعت ہے ایسا
نہ سنت نبوی میں ہے نہ سنت صحابہ میں ہے – ہاں اگر معمول میں ورثاء نیکی کر رہے ہیں تو اس کا ثواب اس شخص کو ہو گا لیکن اس کی باقاعدہ تقریب کرنا ثابت نہیں ہے اور نہ ہی اس شخص کو دعا کی حاجت ہے کہ یہ کہے کہ میری اس نیکی کا ثواب رسول اللہ کو ان کے اصحاب کو یا کسی اور میت کو ملے
جواب
مصنف ابن ابی شیبہ میں اس کی سند ہے
حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ الْغَازِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: «الْأَذَانُ الْأَوَّلُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ بِدْعَةٌ»
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ الْغَازِ، قَالَ: سَأَلْتُ نَافِعًا، مَوْلَى ابْنِ عُمَرَ، الْأَذَانُ الْأَوَّلُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ بِدْعَةٌ؟ فَقَالَ: قَالَ ابْنُ عُمَرَ: «بِدْعَةٌ»
یہ اسناد صحیح ہیں
یہ اصحاب رسول کا اختلاف ہے کیونکہ یہ اذان دور نبوی میں کبھی نہیں ہوئی
جواب
مسند احمد کی روایت ہے
حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” الْبَسُوا مِنْ ثِيَابِكُمِ الْبِيضَ، فَإِنَّهَا مِنْ خَيْرِ ثِيَابِكُمْ، وَكَفِّنُوا فِيهَا مَوْتَاكُمْ، وَإِنَّ مِنْ خَيْرِ أَكْحَالِكُمُ الْإِثْمِدَ، إِنَّهُ يَجْلُو الْبَصَرَ، وَيُنْبِتُ الشَّعْرَ ”
ابن عباس کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا سفید کپڑے پہنو کہ یہ سب سے بہتر لباس ہے اسی میں کفن دو
یہ روایت قوی ہے اس کے مقابلے پر مسند البزار کی روایت ہے
حَدَّثنا الحسن بن يَحْيَى، حَدَّثنا إسحاق بن إدريس، حَدَّثنا سُوَيْدٌ، عَن قَتادة، عَن أَنَس؛ أَن النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم كَانَ يُحِبُّ الْخُضْرَةَ، أَوْ قَالَ – كَانَ أَحَبُّ الأَلْوَانِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم الْخُضْرَةَ.
انس سے مروی ہے کہ رسول الله کو سبز رنگ پسند تھا اور ان کا پسندیدہ رنگ تھا
اس کی سند میں سويد بن إبراهيم البصري العطار، أبو حاتم ہے جو ضعیف ہے
نسائی اس کو ليس بثقة کہتے ہیں
کتاب المعجم الأوسط از طبرانی کی روایت ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَضْرَمِيُّ قَالَ: ثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ قَالَ: ثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى، عَنْ سَعِيدِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، [ص:40] عَنْ أَنَسٍ قَالَ: «كَانَ أَحَبُّ الْأَلْوَانِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْخُضْرَةَ»
انس سے مروی ہے کہ رسول الله کا پسندیدہ رنگ سبز تھا
اس کی سند میں سَعِيْدُ بنُ بَشِيْرٍ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الأَزْدِيُّ جس کو منکر الحدیث کہا گیا ہے
ابْنُ مَهْدِيٍّ اس کو متروک قرار دیتے تھے اور ابْنُ مَعِيْنٍ، وَالنَّسَائِيُّ اس کو ضعیف کہتے ہیں
خطابی کہتے ہیں
الخطابي: قد نهى رسول الله – صلَّى الله عليه وسلم – الرجال عن لبس المعصفر، وكره لهم الحُمرة في اللباس
رسول الله نے مردوں کو منع کیا کہ پیلا لباس پہنن اور لال رنگ سے کراہت کی
راقم کہتا ہے پیلا رنگ نصرانی بپتسمہ میں استمعال کرتے تھے
فتح مکہ کے روز کالا عمامہ تھا
حَدَّثَنا عبد الله بن جعفر، حَدَّثَنا يونس بن حبيب، حَدَّثَنا أبو داود، حَدَّثَنا حماد بن سلمة، عَن أَبِي الزبير، عَن جابر: أن النبي صَلَّى الله عَليْهِ وَسلَّم دخل يوم فتح مكة وعليه عمامة سوداء.
سبز لباس عورتوں کا بھی ہوتا تھا صحیح بخاری کی حدیث ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَهَّابِ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ: أَنَّ رِفَاعَةَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ، فَتَزَوَّجَهَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الزَّبِيرِ القُرَظِيُّ، قَالَتْ عَائِشَةُ: وَعَلَيْهَا خِمَارٌ أَخْضَرُ
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس عورت (یعنی زوجہ رفاعہ ) پر سبز اوڑھنی تھی
مسند ابن ابی شیبہ، مسند احمد، ترمذی سنن دارمی، سنن النسائی کی روایت ہے
نا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ صَالِحٍ، قَالَ: نا إِيَادُ بْنُ لَقِيطٍ [ص:301]، عَنْ أَبِي رِمْثَةَ، قَالَ: حَجَجْتُ فَرَأَيْتُ رَجُلًا جَالِسًا فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ فَقَالَ أَبِي: أَتَدْرِي مَنْ هَذَا؟ هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا انْتَهَيْنَا إِلَيْهِ «إِذَا رَجُلٌ ذُو مِرَّةٍ بِهِ رَدْعُ زَعْفَرَانٍ وَعَلَيْهِ ثَوْبَانِ أَخْضَرَانِ
ابی رمثہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اس حال میں کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر دو سبز رنگ کے کپڑے تھے۔
اس کی سند کو صحیح کہا گیا ہے
یعنی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے سبز لباس پہنا ہے لیکن پسندیدہ رنگ سفید تھا
معانی الاثار میں ہے کہ اذان کیسے شروع ہوئی اس میں روایت ہے کہ ایک صحابی نے فرشتہ دیکھا جو آسمان سے آیا جس نے سبز لباس پہنا ہوا تھا
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَرْزُوقٍ، قَالَ: ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ دَاوُدَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ زَيْدٍ، رَأَى رَجُلًا نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ , عَلَيْهِ ثَوْبَانِ أَخْضَرَانِ , أَوْ بُرْدَانِ أَخْضَرَانِ
مسند البزار اور مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ہے بدر کے دن
أَنَّ الزُّبَيْرَ بْنَ الْعَوَّامِ كَانَتْ عَلَيْهِ عِمَامَةٌ صَفْرَاءُ مُعْتَجِرًا بِهَا، فَنَزَلَتِ الْمَلَائِكَةُ وَعَلَيْهِمْ عَمَائِمُ صُفْرٌ
الزُّبَيْرَ بْنَ الْعَوَّامِ نے پیلا عمامہ پہنا ہوا تھا اور فرشتوں نے بھی
طبرانی الکبیر کی روایت ہے
وَكَانَتْ سِيمَاءُ الْمَلَائِكَةِ يَوْمَ بَدْرٍ عمائمَ سُودٍ، وَيَوْمَ أَحَدٍ عمائمَ حُمْرٍ
بدر کے روز فرشتوں نے کالا عمامہ اور احد میں سرخ عمامہ پہنا ہوا تھا
سوره کہف میں جنتیوں کا لباس سبز بتایا گیا ہے
وَيَلْبَسُونَ ثِيَابًا خُضْرًا مِنْ سُنْدُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ
سوره الانسان میں بھی سبز ہے
عَالِيَهُمْ ثِيَابُ سُنْدُسٍ خُضْرٌ وَإِسْتَبْرَقٌ
سوره الرحمان میں بھی سبز ہے
مُتَّكِئِينَ عَلَى رَفْرَفٍ خُضْرٍ، وَعَبْقَرِيٍّ حَسَّانَ
الغرض رنگ سب الله کے ہیں اس کی تخلیق ہیں لیکن سنت میں سفید رنگ پسند کیا گیا ہے کسی رنگ کو مخصوص نہیں کیا گیا
بریلوی فرقہ کا سبز کو عمامہ کے لئے خاص کرنا ان کے تشخص کا اظھار ہے لیکن یہ سنت میں مخصوص نہیں ہے لہذا یہ ان کا فرقہ وارانہ غلو ہے
جواب
البانی السلسلۃ الصحیحۃ، ج:٣، ص:١٣٥۔١٣٨۔ ١٣٩ میں کہتے ہیں
وجملة القول أن الحديث بمجموع هذه الطرق صحيح بلا ريب والصحة تثبت بأقل منها
عددا ما دامت سالمة من الضعف الشديد كما هو الشأن في هذا الحديث، فما نقله
الشيخ القاسمي رحمه الله تعالى في ” إصلاح المساجد ” (ص 107) عن أهل التعديل
والتجريح أنه ليس في فضل ليلة
النصف من شعبان حديث صحيح، فليس مما ينبغي
الاعتماد عليه، ولئن كان أحد منهم أطلق مثل هذا القول فإنما أوتي من قبل
التسرع وعدم وسع الجهد لتتبع الطرق على هذا النحو الذي بين يديك. والله
تعالى هو الموفق.
خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ حدیث بلاشبہ ان تمام طرق کی بنا پر صحیح ہے اور حدیث کی صحت ان شواہد کی تعداد سے کم بھی ثابت ہوجاتی ہے جب تک وہ شدید ضعف سے دوچار نہ ہو، جیسا کہ یہ حدیث ہے پس شیخ القاسمی نے نقل کیا ہے اصلاح المساجد میں اہل جرح و تعدیل سے کہ نصف شعبان سے متعلق کوئی حدیث صحیح نہیں ہے پس یہ قول قابل اعتماد نہیں ہے اور اگر کوئی اس قول کا اطلاق کرتا ہے تو وہ ہیں جنہوں ے جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہے اور ان میں محنت معدوم ہے کہ اس رستے پر جاتے جو اب اپ کے سامنے ہے
یہ البانی صاحب کا کہنا ہے اس طرح انہوں نے الصحیحہ 1144 اور 1563 میں ١٥ شعبان کی رات کی روایت کی تصحیح کر دی ہے
یہ حال ہے غیر مقلدین کا – بر صغیر میں بریلویوں کی مخالفت میں یہ بدعت ہے اور عرب میں خالص سنت
راقم کہتا ہے البانی غیر مقلد کا قول باطل اور تحقیق تناقص سے بھرپور ہے
شب برات سے متعلق ان روایات پر تحقیق یہاں ہے
جواب
کوئی ایسا کام جو رسول الله نے نہ کیا ہو اس کو دین کا حصہ سمجھ کر کرنا اور نہ کرنے پر افسوس ہونا اور اس نئے کام کو نیکی سمجھنا بدعت ہے
بعض کلمات دعا ہیں مثلا جمعہ مبارک یعنی جمعہ مبارک ہو ایسا کرنا دعا ہے- اگر کوئی جمعہ مبارک بولتا ہے لیکن اس کو دین کا ضروری حصہ قرار نہیں دیتا تو یہ بولنا جائز ہے بدعت نہیں
اسی طرح باقی مبارک باد کے الفاظ دعا ہیں جو کسی بھی موقعہ پر کی جا سکتی ہے
عید مبارک شادی مبارک جمعہ مبارک شعبان مبارک رمضان مبارک سالگرہ مبارک بیٹا مبارک کلمات دعا کے ہیں راقم ان کو بدعت نہیں کہتا
دعا کے لئے یہ کہاں لکھا ہے کہ صرف وہی الفاظ بولے جائیں جو نبی صلی الله علیہ وسلم نے بولے ہوں
دنیا کے لا تعداد معاملات ہیں ان میں دعا کسی بھی طرح دی جا سکتی ہے
جواب
حج بدل یعنی کسی اور کی جانب سے حج کرنا جو معذور ہوں یا کمزور ہوں لیکن استطاعت مالی رکھتے ہوں ان کی جانب سے اہل و عیال کا حج کرنا
یہ ایصال ثواب نہیں کیونکہ یہ ایک روایت ہے کہ ایک صحابی کی والدہ حج کرنا چاہتی تھیں نہ کر سکیں انتقال کر گئیں انہوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے اس پر سوال کیا تو اپ نے اجازت دی
یہ مخصوص واقعہ ہوا ہمارے نزدیک
جو ایصال ثواب کے قائل ہیں ان کے نزدیک یہ عموم ہوا کسی بھی طرح کا نیک کام کر کے اس کا ثواب دوسرے کو دینا جائز ہوا
——-
سوال ہے کہ
کیا اپ جب بھی نیکی کرتے ہیں اس کا ثواب ہوتا ہے ؟ وہ واقعی الله تعالی قبول کرتے ہیں ؟ ہم کو تو معلوم ہی نہیں کہ اس کو نیکی سمجھا گیا بھی کہ نہیں مثلا کسی نے نماز پڑھی لیکن دل میں دکھاوا تھا تو ثواب تو نہیں مل سکتا اسی طرح صدقه کیا لیکن جگ نمائی مقصد دل میں تھا اس میں تو ایصال عذاب بھی ہو جائے گا ؟
جواب
شلوار ٹخنوں سے اوپر رکھنے میں راقم رائے دے چکا ہے کہ بعض تک روایت پہنچی انہوں نے دور نبوی میں معاشرہ میں اس کا مقصد نہیں سمجھا صرف حکم کو اپنے اوپر نافذ کر دیا اب یہ پانبدی جو وقتی تھی اس کو آج تک کر رہے ہیں تو اس میں بحث بے کار ہے کیونکہ یہ فہم ہے ان کے نزدیک یہ ہمشیہ کرنا ہے راقم کے نزدیک یہ نیت ہے
مثلا حدیث میں ہے نبی صلی الله علیہ وسلم کو خبر ملی کہ کسوف یا گرہن ہو رہا ہے
فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجُرُّ رِدَاءَهُ حَتَّى دَخَلَ الْمَسْجِدَ
صحیح بخاری
ہم سے عمرو بن عون نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے خالد بن عبداللہ نے یونس سے بیان کیا، ان سے امام حسن بصری نے بیان کیا، ان سے ابوبکرہ نفیع بن حارث رضی اللہ عنہ نے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ سورج کو گرہن لگنا شروع ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (اٹھ کر جلدی میں) چادر گھسیٹتے ہوئے مسجد میں گئے
سنن نسائی
فَانْكَسَفَتِ الشَّمْسُ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجُرُّ رِدَاءَهُ، حَتَّى انْتَهَى إِلَى الْمَسْجِدِ
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ سورج گرہن لگا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے نکلے یہاں تک کہ آپ مسجد پہنچے،
چادر زمین پر رگڑتی رہی لیکن یھاں نبی صلی الله علیہ وسلم کا مقصد الگ ہے
—-
سنن ابو داود میں ہے کہ ایکصحابی نے اذان خواب میں دیکھی
۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ان شاءاللہ یہ خواب سچا ہے”، پھر فرمایا: “تم بلال کے ساتھ اٹھ کر جاؤ اور جو کلمات تم نے خواب میں دیکھے ہیں وہ انہیں بتاتے جاؤ تاکہ اس کے مطابق وہ اذان دیں کیونکہ ان کی آواز تم سے بلند ہے”۲؎۔ چنانچہ میں بلال کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا، میں انہیں اذان کے کلمات بتاتا جاتا تھا اور وہ اسے پکارتے جاتے تھے۔ وہ کہتے ہیں: تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے گھر میں سے سنا تو وہ اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے نکلے اور کہہ رہے تھے
———
سنن نسائی میں ہے
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی تین رکعت پر سلام پھیر دیا، پھر آپ اپنے حجرے میں چلے گئے، تو آپ کی طرف اٹھ کر خرباق نامی ایک شخص گئے اور پوچھا: اللہ کے رسول! کیا نماز کم ہو گئی ہے؟ تو آپ غصہ کی حالت میں اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے باہر تشریف لائے، اور پوچھا:”کیا یہ سچ کہہ رہے ہیں؟” لوگوں نے کہا: جی ہاں، تو آپ کھڑے ہوئے، اور (جو چھوٹ گئی تھی) اسے پڑھایا پھر سلام پھیرا، پھر اس رکعت کے (چھوٹ جانے کے سبب) دو سجدے کیے، پھر سلام پھیرا۔
انگوٹھوں کو آنکھوں پر مسح کرنے یا عرف عام میں انگوٹھے چومنے والی تمام روایات ضعیف ہیں
کتاب النخبة البهية في الأحاديث المكذوبة على خير البرية از محمد الأمير الكبير المالكي (المتوفى: 1228هـ) کے مطابق
مسح الْعَينَيْنِ بباطن أنملتي السبابتين بعد تقبيلهما عِنْد قَول الْمُؤَذّن: أشهد أَن مُحَمَّدًا رَسُول الله “. لَا يَصح، وَلَا عَن الْخضر.
موذن کے قول پر آنکھوں پر مسح کرنے والی روایت صحیح نہیں اور نہ ہی خضر والی صحیح ہے
ایسا قول ابن حجر کے شاگرد السخاوی سے بھی منقول ہے اور ملا علی القاری سے بھی یہ سب ان روایات کو ضعیف کہتے ہیں
کتاب النخبة البهية في الأحاديث المكذوبة على خير البرية از محمد الأمير الكبير المالكي (المتوفى: 1228هـ) کے مطابق
لَا أَصْلَ لَهُ فِي الْمَرْفُوعِ نَعَمْ يُرْوَى عَنْ بَعْضِ السَّلَفِ
اس کی کوئی مرفوع اصل نہیں ہاں بعض سلف نے اس کو روایت کیا ہے
افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کی سند مفقود ہے اور معلوم نہیں یہ رسول الله کا کیسے قول بن گئی
ایک صاحب نے اس کا دفاع کیا ہے اور کتاب لکھی ہے
http://www.islamieducation.com/anghothey-choomney-ki-hadith/
لیکن ایک جگہ بھی اس کی سند نہیں دی ساری بحث اس پر ہے کہ اگر یہ ضعیف ہے تو کیا ہوا عمل کی فضیلت کی بنا پر اس پر عمل جائز ہے
یہ نقطۂ نظر خود محدثین کا تھا کہ فضائل میں ضعیف حدیث پیش کی جا سکتی ہے اور انہوں نے اسی بنیاد پر زہد کی کتب لکھی تھیں جن میں ضعیف روایات کی بھرمار ہے اس بنا پر بریلوی فرقہ کی بات صحیح ہے لیکن ہم اس کے خلاف ہیں اور محدثین کے اس عمل کو صحیح نہیں سمجھتے ان سے غلطی ہوئی اور ضعیف احادیث سے نہ صرف بدعات کو فروغ ملا بلکہ عقائد بھی خراب ہوئے لہذا ضعیف کو چھوڑنا ہی اصل دین پر پلٹنا ہے
٢٠٠ ہجری کے قریب بعض محدثین کے پاس ہزاروں حدیث جمع تھیں اور ان میں یہ شوق پیدا ہوا کہ زیادہ کتب لکھیں لہذا امام احمد نے فضائل صحابہ کتاب الزہد وغیرہ لکھیں ان سے قبل یہ کام عبد الله بن المبارک نے کیا
لیکن کتاب میں موضوع اور ضعیف روایات کی بھرمار تھی ان کتب سے ان محدثین کا قد تو بڑھ گیا لیکن اعمال میں فضائل کے حوالے سے بعد والوں کو ضعیف کے لیے دلیل دے گیا اور پھر ہر وہ شخص جو ضعیف روایت کو پسند کرتا تھا اس کو فضائل کی بنیاد پر بیان کرنے لگا لیکن اس سے عقائد میں مسائل پیدا ہوئے مثلا
انبیا قبروں میں زندہ ہیں نماز پڑھتے ہیں ایک منکر روایت ہے نماز کی فضیلت پر پیش کی گئی لیکن عقائد خراب کر گئی
اسی طرح درود کی فضیلت پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر عمل پیش ہونے کا عقیدہ فضائل درود کی وجہ سے پیدا ہوا
لہذا ہر فرقہ اپنے من پسند عقائد اور اعمال کو فضائل کی بنیاد پر کتابوں میں داخل کرتا گیا اس بنا پر تبلیغی نصاب لکھا گیا جس میں فضائل والی ضعیف روایات ہیں اور حاشیہ میں اس کی وضاحت بھی ہے لیکن جو غلط بات چلی ا رہی تھی اس کو جڑ سے ہی کاٹنا پڑتا ہے شاخوں کو چھآٹنے کا کوئی فائدہ نہیں