218 Downloads
اس کتابچہ میں غزوہ الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ کا ذکر ہے – غزوہ عربی میں تلوار سے جہاد کرنے کو کہتے ہیں – روم کے بہت سے بلاد و شہر تھے جن پر حملے دور عثمان سے شروع ہوئے اور یہ زمینی حملے تھے – ایک حملہ بحری تھا جس میں ام حرام رضی اللہ عنہا کی شہادت ہوئی –غزوہ الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ اہل سنت و اہل تشیع میں موضوع بحث بنی رہتی ہے کیونکہ اس میں یزید بن معاویہ کی شرکت کا ذکر ہے – چونکہ یزید کے دور میں قتل حسین ہوا ، یزید کے حوالے سے لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ یزید حدیث الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ کا مصداق نہیں ہو سکتا ورنہ وہ مغفور بن جائے گا اور لوگوں نے چاھا کہ یزید کو قاتل حسین ثابت کر کے جہنمی قرار دیں – اس مشق میں حدیث رسول ان کے رستہ میں آ کھڑی ہوئی – اس کتابچہ کا مقصد حدیث الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ سے متعلق اہل سنت و اہل تشیع کے اشکالات پر غور کرنا ہے اور صحیح سمت میں جانا ہے –
الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ پر حملہ اہل شام نے کیا تھا اور اللہ نے اہل شام کو باقی بلاد مسلمین پر فضیلت دی اور اس طرح اللہ تعالی نے اہل شام ، شیعان معاویہ کو جنتی کر دیا –
تاریخ کو مسخ کرنے والے بہت ہیں لہذا غلو پروروں کا رد قیامت تک ہوتا رہے گا – اسی سلسلے یہ ایک ادنی کاوش ہے –
ابو شہر یار
٢٠٢٠
سوال یہ ہے
کہ بخاری کی حدیث میں قیصر روم کے شہرکا ذکر ہے۔ متن میں۔ قسطنطنیہ کا لفظ موجود نہیں پھر یہ بھی موجود ہے کہ سمندر میں ہوگاپھر کہا پہلا لشکر جو جہاد کرے گا وہ مغفور ہے
پھر اپ نے ابتدائیے میں لکھا ہوا کہ ام حرام بھی ایک غزوہ میں موجود تھی جو سمندر میں تھا جو معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوا۔
اگر پہلا ام حرام والا تھا تو پھر یزید پہ کیوں فٹ کررہے یہ بشارت۔۔ کیونکہ باتپہلےلشکر کی ہوئی
سمندر میں ہو گا یہ کہا گیا
شارح بخاری کو غلطی بھی تو لگ سکتی
خواب میں دو سمندری لشکر دکھائے گئے تھے
۔ ام حرام رضی اللہ عنہ نے بیان کیا میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کس بات پر آپ ہنس رہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے اس طرح پیش کئے گئے کہ وہ اللہ کے راستے میں غزوہ کرنے کے لئے سمندر کے بیچ میں سوار اس طرح جارہے ہیں جس طرح بادشاہ تخت پرہوتے ہیں یا جیسے بادشاہ تخت رواں پر سوار ہوتے ہیں یہ شک اسحاق راوی کو تھا ۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرمایئے کہ اللہ مجھے بھی انہیں میں سے کردے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کےلئے دعا فرمائی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر رکھ کر سوگئے‘ اس مرتبہ بھی آپ بیدار ہوئے تو مسکرا رہے تھے ۔ میں نے پوچھا یا رسول اللہ ! کس بات پر آپ ہنس رہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے اس طرح پیش کئے گئے کہ وہ اللہ کی راہ میں غزوہ کے لئے جا رہے ہیں پہلے کی طرح
لہذا ایک میں ام حرام تھیں دوسرے میں یزید
مورخین و شارحین نے سب نے یہ مانا ہے کہ یزید بن معاویہ اس دوسرے لشکر کے سالار تھے
ان کو ماننے میں تامل کیوں ہے ؟
جب تک کوئی مخالف صریح دلیل نہ ہو اس منقبت کو رد نہیں کیا جائے گا
qasr k shehr mn phla lashkar jo jihad kare ga wo magfoor hai . yhn matan mn kustantunia ka zikr nahi or romi saltant bht bhari thi jis lashr ne phla behri jihad kia us mn umm e haram thi… kia woh qasr e room ka shahr nahi tha kia or phla behri lashkr yehi tha jis mn ameer mavia salar thy . es trh munqabt ameer mavia ki hoi na k yazeed ki….or agr bashrt agr 2sre lashkr k lie thi jis mn yazeed tha phle k lie nahi. to phir yazeed ki munqabt hoi…
lekin hadith mn phle lashkr ka zikr hai jis ne behri jihad ki woh magfoor hai. to es trh munqabt mavia ki hoi jis mn umm e haram thi
حدیث میں دو سمندری لشکروں کا ذکر ہے
پہلے سمندری لشکر میں ام حرام تھیں اس میں شہید ہو گئیں
دوسرا سمندری لشکر گیا اس میں یزید تھے