مسلمان گجرات و کیرالہ میں محمود غزنوی کی امد سے پہلے سے موجود تھے – بنو امیہ اور بنو عباس کے دور سے مسلمان انڈیا میں آباد ہو رہے تھے اور وہاں مسجدیں بھی قائم کر رہے تھے – سلطان غزنوی ، افغانستان غزنی سے نکلا تھا اور وہاں سے گجرات تک لا تعداد مندر آتے ہیں – اس نے ان میں کسی بھی مندر کو یا بت کو مسمار نہ کیا اور انڈیا کے اور بھی مشہور مندروں کو چھوڑ کر وہ سومناتھ پہنچا
انڈيا کي تاریخ کی پروفيسر روميلا تھاپر
Prof Romila Thapar
کے مطابق سلطان غزنوی گجرات مندر لوٹنے یا بت توڑنے کے مقصد سے نہیں آیا تھا وہ مسجد کی تعمیر پر پابندی کا قضیہ مٹانے آیا تھا – پروفيسر روميلا تھاپر کے بقول سومنات کا مندر اصل ميں مسجد کا جھگڑا تھا کيونکہ سومنات کي حکومت نے ایک افغانی /ایرانی کو مسجد کي جگہ بيچي ليکن بعد ميں زمين دينے سے انکار کر ديا – دوم مندر وقت کے ساتھ خستہ حال ہوا نہ کہ کسي کے تباہ کرنے کي وجہ سے – گجرات کے علاقے کے جين مذھب کي کتب ميں کہيں نہيں لکھا کہ سومنات کا مندر توڑا گيا تھا بلکہ ان کے مطابق مندر وقت کے ساتھ خستہ حال ہوا تھا
https://www.youtube.com/watch?v=HdX0Xe6fC14
اسلامي مصادر ميں اس حوالے سے تضاد ہے کہ مندر میں بت کس حال میں تھا کہ بت مندر کے فرش پر نصب تھا یا معلق تھا وغیرہ – راقم کہتا ہے اس میں کوئی تضاد نہیں ہے کہ یہ بت مرد کا تھا اور عورت کا نہیں تھا – بعض لوگوں نے سوم ناتھ کو یعنی
Lord Som
چاند دیو
کو معرب کر کے سمجھا کہ سوم ناتھ کا نام سو مناة تھا – یہ نام سننے میں جاہلی دور کی دیوی مناة جیسا ہے لہذا یہ مندر کسی دیوی کا ہو گا – یہ شوشہ اغلبا کسی مستشرق نے چھوڑا – اس پر تصور پر کوئی دلیل نہیں ہے – مناة کی پوجا مکہ میں نہیں بلکہ جدہ میں کی جاتی تھی – مکہ میں عزی پوجا جاتی تھی-منات و لات و عزی انسانی شکل کی دیویان نہیں تھیں نہ کعبه میں موجود تھیں بلکہ یہ محض کعبہ کی شکل کی چکور چٹانیں تھیں جن میں ایام جاہلیت میں سمجھا جاتا تھا کہ فرشتوں کا آنا جانا ہے – محمود غزنوی المتوفی ١٠٣٠ ع کے دور کے ایک فارسی شاعر فرخی سیستانی المتوفی ١٠٣٧ ع بمطابق 428 ہجری نے اپنے اشعار میں کہا
کسی که بتکدهی سومنات خواهد کند
به جستگان نکند روزگار خویش هدر
ملک همی به تبه کردن منات شتافت
شتاب او هم ازین روی بوده بود مگر
منات و لات و عزی در مکه سه بت بودند
ز دستبرد بت آرای آن زمان آزر
همه جهان همی آن هر سه بت پرستیدند
جز آن کسی که بدو بود از خدای نظر
ان اشعار میں شاعرانہ انداز میں کہا گیا ہے کہ بت پرستی آزر (والد ابراہیم ) کے دور سے ہو رہی ہے اور مکہ میں منات ، عزی اور لات تک کی پوجا ہوتی تھی – اس اشعار میں یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ منات کا بت عرب سے اسمگل کر کے انڈیا میں گجرات کے ساحل پر لایا گیا اور وہاں پوجا ہونے لگی – اسلامی تاریخ کے مطابق سومنات پر کسی دیوی کی نہیں بلکہ سوم ناتھ کی پوجا کی جاتی تھی جو ایک مرد کی شکل کا دیو تا تھا یعنی اس مندر میں چندر دیو کی پوجا ہوتی تھی
تقسیم بند کے بعد انڈیا کی حکومت نے تاریخ کو مسخ کر کے سومناتھ کو ایک دیوی یعنی عورت کا مندر بنا دیا جبکہ یہ مندر عورت سے منسوب نہیں تھا