یہ اصول و کلیہ ہے کہ غیبی معاملات تک کسی صحابی یا امتی کی رسائی نہیں ہے – حیات النبی میں اس کی کوئی دلیل نہیں کہ صحابی رسول نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح غیب کی کسی بات کو دیکھا ہو بلکہ تمام صحیح احادیث میں یہ خبر دی گئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان غیبی باتوں کا مشاہدہ کیا اور اصحاب رسول نے صرف سنا اور ایمان لائے
عذاب قبر کے حوالے سے قرآن سے معلوم ہے کہ یہ عذاب جہنم النار کی شکل ہے – ال فرعون وہاں برزخ میں جہنم کی آگ پر پیش ہوتے ہیں – یہ اس دنیا کا معاملہ نہیں ہے کہ زمین کے سانپ بچھو اس عذاب قبر کو بر سر انجام دیں جیسا کہ بعض روایات منکرہ میں بیان ہوا ہے
اس حوالے سے اہل حدیث صحیح کے علاوہ حسن یعنی ضعیف روایات پر بھی عقیدہ استوار کیے ہوئے ہیں – البانی کہتے کہ کہ حسن سے عقائد لئے جا سکتے ہیں
عذاب قبر کے حوالے سے بیہقی کی پیش کردہ ایک روایت کا ترجمہ اہل حدیث عالم زبیر علی کرتے ہیں
قال الامام ابوبكر البيهقي
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، وأبو عبد الرحمن السلمي، وأبو سعيد بن أبي عمرو قالوا: ثنا أبو العباس محمد بن يعقوب، ثنا الحسن بن علي، يعني ابن عفان العامري، ثنا عباءة بن كليب الليثي، عن جويرية بن أسماء، عن نافع، عن ابن عمر قال: ” بينا أنا صادر عن غزوة الأبواء، إذ مررت بقبور فخرج علي رجل من قبر يلتهب نارا وفي عنقه سلسلة يجرها، وهو يقول يا عبد الله اسقني سقاك الله قال: فوالله ما أدري، باسمي يدعوني أو كما يقول الرجل للرجل: يا عبد الله، إذ خرج على أثره أسود بيده ضغث من شوك وهو يقول: يا عبد الله لا تسقه، فإنه كافر فأدركه فأخذ بطرف السلسلة، ثم ضربه بذلك الضغث ثم اقتحما في القبر، وأنا أنظر إليهما، حتى التأم عليهما وروي في ذلك قصة عن عمرو بن دينار قهرمان آل الزبير، عن سالم بن عبد الله بن عمر عن أبيه وفي الآثار الصحيحة غنية “
زبیر کی موت اس عقیدے پر نہ ہوئی جو آجکل جمہور اہل حدیث کا ہے کہ عود روح استثنائی ہے بلکہ ان کے ہاں مردے قبروں سے باہر چھلانگ بھی لگاتے ہیں – اس روایت کی بنیاد پر زبیر علی منکر عقیدے کا پرچار کرتا رہا کہ قبر میں روح انے کے بعد نکلتی یا نہیں نکلتی معلوم ہی نہیں
حال میں ان کے ایک شاگرد نے اس واقعہ کی تحسین کی اور اس کو خاص واقعہ قرار دیا کہ صحابی ابن عمر پر پردہ غیب چاک ہو گیا اور عذاب قبر کو دیکھا
بقول نورپوری یہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی کرامت تھی – اس کو ولی اللہ کی کرامت کا درجہ دے دیا ہے
راقم کہتا ہے اس کي سند ميں جويرية بن أسماء ہيں جن کا ذکر تدليس کي ايک کتاب ميں ہے
جامع التحصيل في أحكام المراسيل از صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق
جويرية بن أسماء مكثر عن نافع وقد تقدم قول بن عمار الحافظ في حديثه عنه وافقت ربي في ثلاث وإن بينهما فيه رجلا غير مسمى
جويرية بن أسماء يہ نافع سے بہت روايت کرتے ہيں اور ابن عمار کا قول ان کي حديث کہ ميرے رب نے تين ميں … کہ جويرية بن أسماء اور نافع کے درميان کوئي اور شخص ہے جس کا نام نہيں ليا گيا
يعني جويرية بن أسماء نے نافع سے روايات ميں تدليس بھي کي ہے
اور يہاں سند ميں عَنْ جُوَيْرِيَةَ بْنِ أَسْمَاءٍ، عَنْ نَافِعٍ، ہي ہے
عباءة بن كليب الليثى کو کمزور قرار ديا ہے
يہ اصل ميں جويرية کا پوتا ہے اس کا نام ہے عباءة بن كليب بن جويرية بن أسماء – ميزان ميں الذھبي نے ذکر کيا ہے
عن جويرية بن أسماء، صدوق، له ما ينكر، وغيره أوثق منه.
حدث عنه أبو كريب، وأخرجه البخاري في كتاب الضعفاء.
فقال أبو حاتم: يحول
يہ صدوق ہے اور اس کي روايت منکر بھي ہے اور ديگر اس سے زيادہ ثقہ ہيں … امام بخاري نے اس کو كتاب الضعفاء ميں شامل کيا ہے
الغرض يہ سند ضعيف ہے اس ميں تدليس کا امکان ہے اور عباءة بن كليب اتنا مضبوط نہيں کہ عقيدہ ليا جا سکے