راقم نے مراجع اہل سنت میں اس کی سندین تلاش کی – ابھی تک تو نہیں ملی – پھر کتب شیعہ کو دیکھا – اس میں بھی نہیں ملی لیکن بعض شیعہ علماء نے اسی طرح اس واقعہ کو تعلیقا درج کیا ہے – راقم کہتا ہے جب تک سند نہ ہو یہ اہل بیت پر ایک اتہام ہے اس کو بیان نہیں کیا جانا چاہیے نہ لکھنا چاہیے
امام بخاری نے ذکر کیا ہے
فاطمة بنت الحسين بن علي زوجہ حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب نے اپنے شوہر کی وفات کے بعد ان کی قبر پر قبہ تعمیر کیا اور ایک سال تک وہ ان کی قبر پر رہا
امام بخاری نے صحیح باب مَا يُكْرَهُ مِنِ اتِّخَاذِ المَسَاجِدِ عَلَى القُبُورِ میں بلا سند لکھا ہے
وَلَمَّا مَاتَ الحَسَنُ بْنُ الحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ ضَرَبَتِ امْرَأَتُهُ القُبَّةَ عَلَى قَبْرِهِ سَنَةً، ثُمَّ رُفِعَتْ
جب حسن بن حسن بن علی کی وفات ہوئی تو ان کی بیوی نے قبہ (گنبد ) ان کی قبر پر بنایا جو ایک سال رہا پھر اس کو ہٹایا
راقم کہتا ہے یہ اثر عجیب و غریب ہے اس کا ذکر شیعہ کتب میں بھی ہے
تهذيب المقال – از السيد محمد على الأبطحى میں ہے
ولما مات الحسن بن الحسن (ع) ضربت زوجته فاطمة بنت الحسين بن علي عليهما السلام على قبره فسطاطا، وكانت تقوم الليل وتصوم النهار، وكانت تشبه بالحور العين لجمالها، فلما كان رأس السنة قالت لمواليها: إذا اظلم الليل فقوضوا هذا الفسطاط، فلما أظلم الليل سمعت قائلا يقول: ” هل وجدوا ما فقدوا ” فأجابه آخر: ” بل يئسوا فانقلبوا ” ذكره المفيد في إرشاده وابن زهرة في غاية الاختصار ص 42 و 59 وغيرهما.
جب حسن بن حسن کی وفات ہوئی تو ان کی بیوی فاطمہ بنت حسین نے قبر پر خیمہ لگایا اور وہ وہاں رات کو رکتیں اور دن میں روزہ رکھتیں اور ان کی خوبصورتی کی وجہ سے ان کو حور العين سے تشبیہ دی جاتی تھی پس جب ایک سال مکمل ہوا انہوں نے غلاموں سے کہا جب رات تاریک ہو جائے اس خیمہ کو ختم کرو اور رات کے اندھیرے میں سنا گیا کہ کسی نے کہا کیا تجھ کو ملا جو کھو گیا تھا ؟ دوسرے نے جواب دیا نہیں یہ مایوس ہو گئی اور چلی گئی اس کا ذکر مفید نے ارشاد میں کیا ہے اور ابن زهرة نے غاية الاختصار ص 42 و 59 میں ذکر کیا ہے
شیعہ کتاب بحار الانور از مجلسی میں یہی ہے
ولما مات الحسن ابن الحسن ضربت زوجته فاطمة بنت الحسين بن علي عليهما السلام على قبره فسطاطا وكانت تقوم الليل وتصوم النهار، وكانت تشبه بالحور العين لجمالها، فلما كان رأس السنة قالت لمواليها: إذا أظلم الليل فقوضوا هذا الفسطاط، فلما أظلم الليل سمعت صوتا يقول: ” هل وجدوا ما فقدوا ” فأجابه آخر يقول: ” بل يئسوا فانقلبوا
التوضيح لشرح الجامع الصحيح از ابن ملقن میں ہے
هذِه الزوجة هي فاطمة بنت الحسين بن علي، وهي التي حلفت له بجميع ما تملكه أنها لا تزوج عبد الله بن عمرو بن عثمان بن عفان ثم تزوجته، فأولدها محمد الديباج (1). وهذا المتكلم يجوز أن يكون من مؤمني الجن أو من الملائكة، قالاه موعظة، قاله ابن التين
یہ بیوی فاطمة بنت الحسين بن علي تھیں … ان کی شادی پھر عبد الله بن عمرو بن عثمان بن عفان سے ہوئی جن سے
محمد الديباج پیدا ہوئے –
راقم کہتا ہے کہ فاطمہ واقعہ کربلا کی عینی شاہد ہیں ان کو دمشق بھیجا گیا پھر مدینہ اور فاطمة بنت الحسين بن علي اہل سنت کی حدیث کی کتب سنن أبو داود ، الترمذي ، مسند علي از النسائي ، ابن ماجه وغیرہ کی راویہ بھی ہیں
امام بخاری نے ذکر کیا
فَسَمِعُوا صَائِحًا يَقُولُ: أَلاَ هَلْ وَجَدُوا مَا فَقَدُوا، فَأَجَابَهُ الآخَرُ: بَلْ يَئِسُوا فَانْقَلَبُوا
ایک کہنے والے نے کہا خبردار کیا تو نے پا لیا جو کھو گیا تھا ؟ دوسرے نے جواب دیا یہ مایوس ہوے اور پلٹ گئے
یہ کس نے کہا ؟ ابن التین نے کہا یہ وہ ہیں جو مومن جنات و فرشتے ہیں
عمدة القاري شرح صحيح البخاري میں العينى نے لکھا
قَالَ ابْن بطال: ضربت الْقبَّة على الْحسن وسكنت فِيهَا وَصليت فِيهَا فَصَارَت كالمسجد
ابْن بطال نے کہا حسن کی قبر پر قبہ بنانا گیا اور اس میں رکا گیا اور نماز پڑھی گئی اور اس کو مسجد کر دیا گیا
كوثَر المَعَاني الدَّرَارِي في كَشْفِ خَبَايا صَحِيحْ البُخَاري از الشنقيطي (المتوفى: 1354هـ) میں ہے
قال ابن المنير: إنما ضربت الخيمة هناك للاستماع بالميت بالقرب منه تعليلًا للنفس
زین ابن المنیر نے کہا انہوں نے قبر پر خیمہ لگایا کہ میت کو سن سکیں، اس کا قرب لینے
راقم کہتا ہے یہ خام خیالی ہے
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ملا علی القاری میں ہے
الظَّاهِرُ أَنَّهُ لِاجْتِمَاعِ الْأَحْبَابِ لِلذِّكْرِ، وَالْقِرَاءَةِ، وَحُضُورِ الْأَصْحَابِ لِلدُّعَاءِ وَالْمَغْفِرَةِ وَالرَّحْمَةِ
ظاہر ہے کہ یہ قبہ بنایا گیا کہ احباب یہاں ذکر و اذکار کریں اور حاضر ہوں قرات کرنے اور دعا و مغفرت
راقم کہتا ہے کہ اس واقعہ کی سند نہ کتب اہل سنت میں ملی ہے نہ اہل تشیع میں لہذا ایسا ہوا مشکوک ہے