الله تعالی نے قرآن میں بتایا ہے وہ انسانی جسم کو واپس روزمحشر تخلیق کرے گا اس میں انسان کا جسم واپس بنا دیا جائے گا – احادیث کے مطابق اس تخلیق نو میں انسانی جسم میں تبدیلی بھی ہو گی اس کی جسامت دنیا سے الگ ہو گی – جنتیوں کے قد ساٹھ ہاتھ تک ہوں گے (صحیح بخاری) – جبکہ جہنمیوں کے جسم اس قدر بڑے ہوں گے کہ ان کے شانوں کے درمیان کی مسافت تین دن کی ہو گی اور کھال احد پہاڑ جتنی موٹی ہو گی (صحیح مسلم) – یعنی جھنمی ، جنتیوں سے قد کاٹھ میں بڑے ہوں گے
یہ روایات دلالت کرتی ہیں کہ روح اس جسد عنصری کو چھوڑ کر روز محشر ایک نئے جسم میں جائے گی جو اس جسد عنصری سے بڑا ہے – روح اس بڑے جسم میں بھی سما جائے گی اور اس جسم کو اپنا لے گی
اشاعرہ کے امام فخر الدین رازی کتاب نہایہ العقول میں لکھتے ہیں
اور جان لو کہ تمام مسلمان …. اثبات کرتے ہیں نفس ناطقہ (روح) کا اور دعوی کرتے ہیں کہ یہی حقیقی انسان ہے جو مکلف ہے اطاعت گزار ہے گناہ گار ہے اور رجوع کرنے والا اور انجام پر پہنچنے والا ہے اور بدن اس کے لئے ایک آلہ کے طور چلتا ہے اور یہ دعوی کرتے ہیں کہ یہ نفس ناطقہ باقی رہتا ہے بدن کے خراب ہو جائے پر بھی پس جب الله کا ارادہ مخلوق کا حشر کرنے کا ہو گا وہ ان سب ارواح کے لئے ایک بدن بنائے گا اور ان میں ان کو لوٹائے گا
اور یہ مذھب ہے جمہور نصاری کا اور تناسخ والوں کا اور کثیر علمائے اسلام کا مثلا ابی حسین حلیمی اور امام غزالی اور ابی قاسم الراغب اور ابی زید الدبوسی اور قدماء متکلمین کا اور ابن الھیصم کا اور کرامیہ کا اور کثیر صوفیاء کا اور روافض کے جمہور کا
خبر دار اہل اسلام اور تناسخیہ کے قول میں فرق ہے دو طرح سے
اول : بے شک مسلمان کہتے ہیں کہ الله تعالی ارواح کو ابدان میں لوٹائے گا جو اس عالم (عنصری) کے نہیں بلکہ دار آخرت کے ہیں اور تناسخ والے کہتے ہیں کہ الله تعالی ان ارواح کو اسی عالم کے اجسام میں لوٹائے گا اور وہ دار آخرت کے منکر ہیں اور جنت اور جہنم کا بھی انکار کرتے ہیں
دوم : بے شک مسلمان ان ارواح کے لئے حدوث کا اثبات کرتے ہیں اور تناسخ والے ان کی قدامت کا اثبات کرتے ہیں
اور بے شک ہم نے اس فرق کو واضح کر دیا ہے
امام فخر الدین رازی واضح کہہ رہے ہیں کہ حشر پر جو اجسام ہوں گے وہ اس عالم عنصری سے الگ ہوں گے اور یہ بات احادیث کے مطابق ہے
اس سب میں الجھاؤ فرقہ غیر مقلدین کرتے ہیں ایک طرف تو احادیث کو ماننے کا دعوی کرتے ہیں دوسری طرف ان کے انکار پر منبی فلسفے ایسے پیش کرتے ہیں کہ گویا اس میں کوئی اور رائے ہے ہی نہیں
احادیث کے مطابق روح جسد عنصری کو چھوڑنے کے بعد بھی روز محشر تک ایک نئے جسم میں رہتی ہے جو عالم بالا یا برزخ ہے اس میں شہداء کو پرندوں جیسے اجسام ملتے ہیں جن کے پیٹوں میں ان کی روحیں رہتی ہیں – غیر مقلدین نے عقیدہ اختیار کیا ہے کہ شہداء کی روحیں ان پرندوں کو بطور جہاز استمعال کرتی ہیں ان پیٹوں سے نکلتی ہیں اور جب بھی کہیں جانا ہو اس پرندوں کو بطور سواری استمعال کرتی ہیں – اس کے برعکس احادیث میں روحوں کا ان جسموں کو چھوڑنا بیان ہی نہیں ہوا بلکہ روحیں جنت کے پھلوں کی لذت اسی جسم سے حاصل کرتی ہیں
ارشد کمال کتاب المسند فی عذاب القبر میں لکھتے ہیں
مزید لکھتے ہیں
ارشد کمال نے ترجمہ میں ڈنڈی ماری ہے
ابن قیم کتاب الروح میں لکھتے ہیں
وَمَعْلُوم أَنَّهَا إِذا كَانَت فِي جَوف طير صدق عَلَيْهَا أَنَّهَا طير
اور معلوم ہے جب یہ (روح) پرندے کے پیٹ میں ہے تو اس پر سچ ہوا کہ یہ پرندہ ہی ہے
ابن قیم کتاب الروح میں کہتے ہیں سبز پرندے میں روح کا جانا تناسخ نہیں ہے
أَن تَسْمِيَة مَا دلّت عَلَيْهِ الصَّرِيحَة من جعل أَرْوَاح الشُّهَدَاء فِي أَجْوَاف طير خضر تناسخا لَا يبطل هَذَا الْمَعْنى وَإِنَّمَا التناسخ الْبَاطِل مَا تَقوله أَعدَاء الرُّسُل من الْمَلَاحِدَة وَغَيرهم الَّذين يُنكرُونَ الْمعَاد أَن الْأَرْوَاح تصير بعد مُفَارقَة الْأَبدَان إِلَى أَجنَاس الْحَيَوَان والحشرات والطيور الَّتِي تناسبها وتشاكلها فَإِذا فَارَقت هَذِه الْأَبدَان انْتَقَلت إِلَى أبدان تِلْكَ الْحَيَوَانَات فتنعم فِيهَا أَو تعذب ثمَّ تفارقها وَتحل فِي أبدان أخر تناسب أَعمالهَا وأخلاقها وَهَكَذَا أبدا فَهَذَا معادها عِنْدهم وَنَعِيمهَا وعذابها لَا معاد لَهَا عِنْدهم غير ذَلِك فَهَذَا هُوَ التناسخ الْبَاطِل الْمُخَالف لما اتّفقت عَلَيْهِ الرُّسُل والأنبياء من أَوَّلهمْ إِلَى آخِرهم وَهُوَ كفر بِاللَّه وَالْيَوْم الآخر
اور یہ جو(طیر) نام دیا گیا ہے یہ صاف دلالت کرتا ہے کہ شہداء کی ارواح کا سبز پرندوں کے پیٹوں میں تناسخ ہوا اس سے مفھوم باطل نہیں ہوتا – اور باطل تناسخ تو وہ ہے جو رسولوں کے دشمنوں اور ملحدوں اور دوسرے معاد کے انکآریوں نے بولا ہے کہ روحیں چلی جاتی ہیں بدن سے الگ ہونے پر حیوانات میں حشرات میں پرندوں میں اپنے تناسب کے مطابق اور شکلوں کے موافق پس جب وہ بدن سے نکلتی ہیں تو ان جانوروں کے جسم میں نعمت پاتی ہیں اور یہ باطل تناسخ ہے
ابن قیم نے اس کا اقرار کیا ہے کہ سبز پرندے میں شہید کی روح کا جانا تناسخ نہیں ہے
ابن القیم الجوزیہ کا یہ شعر بڑا برموقع ہے
العلم قال الله، قال رسوله‘ قال الصحابة، ليس بالتمويه
علم وہ ہے، جو اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور صحابہ کرام کا فرمان ہو، ملمہ سازی علم نہیں
ایک اہل حدیث عالم حافظ محمد یونس اثری صاحب، ماہنامہ دعوت اہل حدیث حیدر آباد، مارچ ٢٠١٦ میں لکھتے ہیں
حافظ صاحب کا ترجمہ بالکل صحیح ہے روحیں سنز پرندوں کے اندر ہیں نہ کہ ان پر سوار ہیں –
عالم آخرت – ڈاکٹر محمد بن عبدالرحمن العریفی – دارالسلام کی کتاب میں بھی ترجمہ دیکھتے ہیں
محب الله شاہ رشدی فتاویٰ راشدیہ میں جواب دیتے ہیں
شہیدوں کو سبز پرندوں کی صورت جنت میں رکھا گیا ہے
اقبال کیلانی کتاب قبر کا بیان میں اس حدیث کا ترجمہ کرتے ہیں
ان کے برعکس
ارشد کمال یہ لکھتے ہیں
عبد الرحمان عاجز غیر مقلد الم کتاب عالم البرزخ میں لکھتے ہیں
صحیح عقیدہ یہی ہے کہ نہ صرف قبض موت کے بعد بلکہ محشر کے بعد بھی جنت و جہنم میں برزخ میں انسانی جسم ان اجزاء پر مشتمل نہیں ہو گا جو صرف جسد عنصری ہے
یاد رہے کہ
کتاب القائد إلى تصحيح العقائد میں عالم عبد الرحمن بن يحيى بن علي بن محمد المعلمي العتمي اليماني (المتوفى: 1386هـ) لکھتے ہیں
بلاشبہ بہت سے نصوص ميں آيا ہے جو دلالت کرتا ہے کہ اہل جنت و جہنم کے جسم کے بعض حصے يا تمام ان پر مشتمل نہيں ہوں گے جس پر وہ دنيا ميں تھے پس الصحيحين ميں قصہ ہے ان کا جن کو جہنم سے نکالا جائے گا پس وہ نکليں گے کہ جل بھن گئے ہوں گے ان کو نہر حيات ميں انڈيلا جائے گا پس يہ اگيں گے جيسے ايک بيج اگتا ہے اور بہت سي احاديث ميں آيا ہے کہ اہل جنت کے قد 60 ہاتھ ہوں گے صورت آدم پر … اور الله تبارک و تعالي کہتے ہيں اہل النار کے لئے جب بھي ان کي کھاليں جليں گي ہم ان کو دوسري سے بدلتے رہيں گے کہ عذاب کا مزہ ليں اور صحيح مسلم ميں ابو ہريرہ رضي الله عنہ سے مروي ہے کہ رسول الله صلي الله عليہ وسلم نے فرمايا کافر کے شانوں کے درميان تين دن کي مسافت ہو گي جہنم ميں – اور الله تعالي نے فرمايا جو الله کي راہ ميں قتل ہوئے ہيں ان کو مردہ گمان مت کرو بلکہ وہ زندہ ہيں اپنے رب کے پاس زرق پاتے ہيں ال عمران اور صحيح مسلم ميں ابن مسعود کي حديث ہے کہ ان سے اس آيت پر سوال ہوا تو انہوں نے کہا ہم نے بھي رسول الله صلي الله عليہ وسلم سے اس پر سوال کيا تھا پس اپ صلي الله عليہ نے فرمايا انکي روحيں سبز پرندوں کے پيٹ ميں ہيں ان کے لئے قنديليں ہيں جو عرش رحمان سے لٹک رہي ہيں جنت ميں جہاں کي سير چاھتے ہيں کرتے ہيں پھر واپس انہي قنديلوں ميں اتے ہيں پس ان کے رب نے ان سے پوچھا … اس کو ايک جماعت نے اعمش سے روايت کيا ہے انہوں نے عبد الله بن مرہ سے انہوں نے مسروق سے انہوں نے ابن مسعود سے اور اس کي تخريج کي ہے ابن جرير نے تفسير ميں ج 4 ص 106- 107 پر شعبہ کے طرق سے …. کہ انہوں نے ابن مسعود سے پوچھا تو انہوں نے کہا شہداء کي ارواح پس اعمش کا سماع ثابت ہے اس حديث پر عبد الله بن مرہ سے کيونکہ شعبہ نہيں روايت کرتے اعمش سے سوائے اسکے کہ سماع ہو … اس پر اہل مصطلح کي نص ہے اور ديگر کي اور اسي طرح اس حديث کي دارمي نے تخريج کي ہے … اور مسند احمد ميں ج 1 ص 265 پر … ابن عبّاس کي روايت ہے کہ رسول الله نے فرمایا کہ جب تمہارے بھائیوں کو احد میں شہادت ملی تو الله نے انکی روحوں کو سبز پرندوں کے پیٹوں میں کر دیا جس سے وہ جنت کی نہروں تک جاتے اور پھلوں میں سے کھاتے ہیں …. اور حاکم نے اس کي تخريج مستدرک ميں کي ہے … اور حاکم نے اس کو صحيح کہا ہے مسلم کي شرط پر اور الذھبي نے اقرار کيا ہے اور الله تعالي فرماتے ہيں اور ال فرعون کو برے عذاب نے گھير ليا اگ ہے جو ان پر صبح و شام پيش ہوتي ہے اور بروز قيامت – داخل کرو ال فرعون کو شديد عذاب ميں سوره المومن
أور ابن جرير نے تفسير ميں تخريج کي ہے روايت ثقات سے صحيح سند کے ساتھ ، عن هزيل بن شرحبيل تابعين ميں سے ايک سے کہ ال فر عون کي ارواح کالے پرندوں ميں ہيں اگ پر سے اڑتے ہيں اور يہ ان پر پيش ہونا ہے
البانی کہتے ہیں
مولف نے یہاں اصرار کیا ہے قول پر کہ تمام اجزاء کا جمع ہونا ایک بدن میں یا پھر بہت سے ابدان میں اور اس پر جو گواہی ہے کہ ایک بدن ہے یا بہت سے بدن ہیں اس میں مولف کی عمیق نظری ہے جس کو مولف نے کثرت سے بیان کیا ہے اور ذکر کیا ہے ان مفاسد و شبھات کا جو متکلمین کو قرآن و سنت کی تصدیق سے دور لے گئے … اور سب سے اچھا مولف کا قول ہے جو گزرا کہ بدن تو صرف ایک آلہ ہے روح کا جس سے یہ اشکال حل ہو جاتا ہے اور غور کی پھر حآجت نہیں رہتی اور میں البانی کہتا ہوں بدن انسانی شخصیت کا مطیع ہوتا ہے اور اس کا لباس ہوتا ہے چاہے انسان کوئی اور لباس نیا یا پرانا پہنے … و الله اعلم
اپ دیکھ سکتے ہیں المعلمی کے مطابق نہ صرف محشر کے بعد بلکہ قیامت سے پہلے بھی روح کے جسم ہیں جن میں قالب بدل رہے ہیں ال فرعون اس دنیا میں جسد عنصری میں تھے البرزخ میں کالے پرندوں میں ہیں اور روز محشر بطور کافر ان کا جسم اتنا بڑا ہو گا کہ کھال ہی احد پہاڑ برابر حدیث میں بیان کی گئی ہے اور یہ تناسخ نہیں ہے
نعمان الوسی (المتوفى: 1270هـ) تفسیر ج ١١ ص ٨٣ آیت وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ کی تفسیر میں لکھتے ہیں
وذكر الشيخ إبراهيم الكوراني في بعض رسائله أن الأرواح بعد مفارقتها أبدانها المخصوصة تتعلق بأبدان أخر مثالية حسبما يليق بها وإلى ذلك الإشارة بالطير الخضر في حديث الشهداء
اور شیخ ابراہیم الکورانی ( الملا برهان الدين إبراهيم بن حسن بن شهاب الدين الكردي الشهرزوري الشهراني الكوراني (ت1101هـ)) نے اپنے بعض رسائل میں ذکر کیا ہے کہ ارواح اپنے مخصوص جسموں (جسد عنصری) کو چھوڑنے کے بعد ایک دوسرے اسی جیسے بدن سے تعلق اختیار کرتی ہیں اور اس کی طرف اشارہ ہے پرندوں والی حدیث میں جو شہداء سے متعلق ہے
کتاب الأعلام از الزركلي الدمشقي (المتوفى: 1396هـ) میں الکورانی کا ترجمہ ہے
الكُوراني (1025 – 1101 هـ = 1616 – 1690 م) إبراهيم بن حسن بن شهاب الدين الشهراني الشهرزوريّ الكوراني، برهان الدين: مجتهد، من فقهاء الشافعية. عالم بالحديث. قيل إن كتبه تنيف عن ثمانين
تفسير ابن أبي العز از صدر الدين محمد بن علاء الدين عليّ بن محمد ابن أبي العز الحنفي، الأذرعي الصالحي الدمشقي (المتوفى: 792هـ) میں آیت وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتاً کی تفسیر میں ہے
فإنهم لما بذلوا أبدانهم لله عز وجل حتى أتلفها أعداؤه فيه، أعاضهم منها في البرزخ أبداناً خيراً منها، تكون فيها إلى يوم القيامة، ويكون تنعمها بواسطة تلك الأبدان، أكمل من تنعم الأرواح المجردة عنها.
کہ ان شہداء نے جب اپنے بدن الله کے لئے لگا دیا جس کو ان کے دشمنوں نے تباہ کیا تو ان شہداء کو دوسرے بدن دیے گئے جو اس بدن (عنصری) سے بہتر ہیں اور یہ نعمتیں ان بدنوں کے واسطے سے پاتے ہیں جو صرف روحوں کے نعمت پانے سے زیادہ اکمل ہے
یعنی صاف صاف کہہ رہے ہیں کہ شہداء کی روحیں ان نئے بدنوں میں ہیں
المنهاج في شعب الإيمان از الحسين بن الحسن بن محمد بن حليم البخاري الجرجاني، أبو عبد الله الحَلِيمي (المتوفى: 403 هـ) کے مطابق
فأما الشهداء فإنه لا يفرق بين أرواحهم وأنفسهم، ولكنها تنقل إلى أجواف طير خضر، كما ورد به الحديث الذي هو أولى ما يقال به، ويستسلم له. وتعلق تلك الطير من ثمر الجنة، فتستمد روحه من غذاء بدن الطائر كما كان يستمد في بدن الشهيد من غذائه،
پس جہاں تک شہداء کا تعلق ہے تو ان کے نفوس اور ارواح میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ ان کو سبز پرندوں کے پیٹوں میں منتقل کر دیا جاتا ہے جیسا حدیث میں آیا ہے جو اولی ہے کہ اس میں جو کہا گیا ہے اس کو تسلیم کریں اور ان پرندوں کو جنت کے پھلوں سے ملا دیا جاتا ہے پس روح پاتی ہے غذا پرندے کے پیٹ سے جیسا شہید کا بدن غذا پاتا تھا
مزید تفصیل کے لئے دیکھئے
السلام و علیکم بھائی ۔۔سورہ عبس کے بارے میں اک صاحب کا کہنا ہے کہ اس میں جب آیا ہے کہ ہم نے موت دی اور قبر دی تو اس سے مراد تمام انسان نہیں کیونکہ اسی آیت کے آغاز، میں ہے کہ مارا جائے انسان کیسا ناشکرا ہے تو کیا تمام انسان نا شکرے ہیں ۔۔اسی طرح قرآن مجید میں آیا کہ ہم نے انسان کو دیکھنے والا اور سننے والا بنایا کیا تمام انسان دیکھنے والے اور سننے والے ہوتے ہیں ۔۔لہٰذا یہ معروفن بیان کیا گیا ہے ۔اور اس آیت سے ڈاکٹر عثمانی صاحب نے غلط استدلال کیا ہے ۔۔کہ اس سے مراد وہ اصلی قبر ہے جو تمام انسانوں کو ضرور ملتی ہے
إِنَّا عَرَضْنَا الأَمَانَةَ عَلَى السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا [الأحزاب:72]
ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین پر پیش کیا ، انہوں نے اس کو اٹھانے سے پس و پیش کیا ، اور انسان نے اس کو اٹھا لیا بے شک یہ جاہل و ظلم کرتا ہے
یہ امانت اس قدر خاص تھی کہ سات آسمان اور زمین سب اس کو اٹھانے سے پیچھے رہے صرف انسان نے اس کو اٹھا لیا
ظاہر ہے یہ کوئی معمولی امانت نہیں ہے
اس امانت کا حق کفار ادا نہ کر سکے لیکن انبیاء و رسل نے اس امانت کو اٹھایا
لیکن جب آیت میں جرح ہوئی تو تمام پر کی گئی کہ انسان جاہل و ظالم ہے یہاں استثناء کا ذکر نہیں کیا گیا
اسی طرح سورہ عبس میں جو ذکر ہوا کہ انسان نا شکرا ہے تو اس میں بھی عام پر حکم لگایا گیا ہے استثناء پر نہیں
اور وہاں جو موت دی تو سب کو دی گئی عام ہے
اور موت دینا اللہ اور اس کے فرشتوں کا عمل ہے
لہذا فورا قبر دینا بھی اللہ اور اس کے فرشتوں کا عمل ہے
سورہ الدہر میں ہے
اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍۖ نَّبْتَلِيْهِ فَجَعَلْنَاهُ سَـمِيْعًا بَصِيْـرًا (2)
بے شک ہم نے انسان کو ایک مرکب بوند سے پیدا کیا، ہم اس کی آزمائش کرنا چاہتے تھے پس ہم نے اسے سننے والا دیکھنے والا بنا دیا۔
اب کیا اس کا مطلب ہے کہ اندھوں اور گونگوں کی آزمائش نہیں ہو رہی صرف بینا اور سیمع کی ہو رہی ہے ؟ ظاہر ہے ایسا نہیں ہے
اللہ تعالی نے یہ بھی کہا ہے
سورہ حج
فَاِنَّـهَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَلٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِىْ فِى الصُّدُوْرِ (46)
، پس تحقیق بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل جو سینوں میں ہیں اندھے ہو جاتے ہیں۔
اب چاہے آنکھ کا اندھا بھی ہو لیکن دل کا بینا ہونا اصل بات ہے
و اللہ اعلم
اسلام علیکم
یہ سنئیں کیا کہہ رہی ہے کہ روح رات کو جسم سے نکل کر سیر کرتی ہے اور فوت شدگان سے ملاقات کرتی ہیں
و علیکم السلام
ان تمام روایات پر کتاب الرویا میں بات کی گئی ہے
جسم سے روح نکلنا موت ہے
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
یہ ایک حدیث پیش کی جاتی ہے کہ سوتے وقت روح نکل کر دوسری روح سے ملاقات کرتی ہے کیا یہ روایت درست البانی نے صحیح کہا ہے اسے
حدیث
سلسله احاديث صحيحه
الاخلاق والبروالصلة
(إن الروح لتلقى الروح (وفي رواية: اجلس واسجد واصنع كما رايت). قاله لخزيمة بن ثابت).
سیدنا عمارہ بن خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس کے باپ نے کہا: میں نے خواب میں دیکھا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی پر سجدہ کر رہا ہوں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس چیز کی خبر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یقیناً روح، روح سے ملاقات کرتی ہے۔“ ایک روایت میں ہے: ”بیٹھ اور سجدہ کر اور اس طرح کر جس طرح تو نے دیکھا۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر اس طرح جھکایا ( اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے عفان نے اپنا سر پیچھے کی طرف کیا)، پھر اس نے اپنی پیشانی رسول اللہ کی پیشانی پر رکھی۔
و علیکم السلام
الرویا عربی میں خواب کو کہتے ہیں
اس قسم کی روایات کی سند ضعیف ہے
اور ان پر تحقیق کتاب الرویا میں ہے جو اس پیج سے ڈونلوڈ کر سکتے ہیں
https://www.islamic-belief.net/literature/%da%a9%d8%aa%d8%a8-%d8%af%da%a9%d8%aa%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d8%a8%d9%88-%d8%b4%db%81%d8%b1%db%8c%d8%a7%d8%b1/
صفحہ ١٦ سے اس پر بات ہے