قرآن میں ہے
وَمَا أَدْرَاكَ مَا عِلِّيُّونَ (19) كِتَابٌ مَرْقُومٌ (20) يَشْهَدُهُ الْمُقَرَّبُونَ
اورتم کیا جانو عِلِّيُّونَ کیا ہے- کتاب ہے رقم کی ہوئی- جس کی نگہبانی مقرب کرتے ہیں
فرمایا
وَمَا أَدْرَاكَ مَا سِجِّينٌ (8) كِتَابٌ مَرْقُومٌ
اور تم کیا جانو سجین کیا ہے- کتاب ہے رقم کی ہوئی
لیکن افسوس اقوال رجال کی بنیاد پر قرآن کی ان آیات کا مفہوم تبدیل کیا جاتا ہے تاکہ عقائد باطلہ کا اثبات کیا جا سکے اور یہ کوئی آج کل کی بات نہیں صدیوں سے چلی آئی روایت ہے کہ معنی و مفاہیم قرآن کو اپنے فرقوں کے سانچوں میں ڈھالا جائے
تفسير القرآن العظيم لابن أبي حاتم کے مطابق سجین کے لئے
عَنِ السُّدِّيِّ وَمَا تَحْتَ الثَّرَى قَالَ: هي الصخرة التي تحت الأَرْض السابعة، وهي خضراء وهو سجين الّذِي فيه كتاب الكفار
السدي نے کہا یہ تحت الثری میں ہے یہ چٹان ہے ساتویں زمین کے نیچے جو سبز ہے اور یہ سجین ہے جس میں کفار کی کتاب ہے
یہ سند ضعیف ہے السدی مجروح راوی ہے
تفسیر طبری کی روایت ہے
حدثني يونس، قال: أخبرنا ابن وهب، قال: أخبرني جرير بن حازم، عن سليمان الأعمش، عن شمر بن عطية، عن هلال بن يساف، قال: كنا جلوسا إلى كعب أنا وربيع بن خيثم وخالد بن عُرْعرة، ورهط من أصحابنا، فأقبل ابن عباس، فجلس إلى جنب كعب، فقال: يا كعب أخبرني عن سِجِّين، فقال كعب: أما سجِّين: فإنها الأرض السابعة السفلى، وفيها أرواح الكفار تحت حدّ إبليس.
هلال بن يساف نے کہا میں اور ربيع بن خيثم اور خالد بن عُرْعرة کعب کے پاس بیٹھے تھے اور ہمارے اصحاب کا ایک ٹولہ پس ابن عباس آئے اور کعب کے برابر بیٹھ گئے اور کہا اے کعب ہم کو سجین کی خبر دو پس کعب الاحبار نے کہا سجین یہ تو ساتویں زمین ہے نیچے جس میں کفار کی روحیں ہیں ابلیس کے قید خانہ کے نیچے
تفسیر طبری میں اسی سند سے ہے
حدثني يونس، قال: أخبرنا ابن وهب، قال: أخبرني جرير بن حازم، عن الأعمش، عن شمر بن عطية، عن هلال بن يساف، قال: سأل ابن عباس كعبًا وأنا حاضر عن العليين، فقال كعب: هي السماء السابعة، وفيها أرواح المؤمنين
ابن عباس نے العليين پر سوال کیا کعب نے کہا ساتواں آسمان جس میں مومنوں کی روحیں ہیں
دونوں کی سند منقطع ہے کتاب الاکمال کے مطابق
وفي كتاب «سؤالات حرب الكرماني» قال أبو عبد الله: الأعمش لم يسمع منه شمر بن عطية
اعمش کا سماع شمر بن عطية سے نہیں ہے
بعض جہلا نے اس کعب الاحبار کو کعب بن مالک رضی الله عنہ بنا دیا ہے یا کعب الاحبار کو صحابی سمجھا ہے جبکہ کعب الاحبار صحابی نہیں ہے
یہود کا قول ہے کہ جہنم زمین میں ہے اور اس کا ایک دروازہ ارض مقدس میں ہے
The statement that Gehenna is situated in the valley of Hinnom near Jerusalem, in the “accursed valley” (Enoch, xxvii. 1 et seq.), means simply that it has a gate there. It was in Zion, and had a gate in Jerusalem (Isa. xxxi. 9). It had three gates, one in the wilderness, one in the sea, and one in Jerusalem (‘Er. 19a).
Jewish Encyclopedia, GEHENNA
http://www.jewishencyclopedia.com/articles/6558-gehenna
یہ عبارت کہ جہنم ہنوم کی وادی میں یروشلم کے پاس ہے ، پھٹکار کی وادی میں (انوخ ٢٧ ، ١ ) کا سادہ مطلب ہے کہ وہاں اس (جہنم) کا دروازہ ہے- یہ (جہنم) صیہون (بیت المقدس کا ایک پہاڑ) میں تھی اور دروازہ یروشلم میں تھا (یسیاہ باب ٣١: 9 ). اس کے تین دروازے (کھلتے) تھے ایک صحرآ میں، ایک سمندر میں، ایک یروشلم میں
لہذا کعب الاحبار نے جو بھی بیان کیا یا جو اس سے منسوب کیا گیا وہ اسرائیلات میں سے ہے قول نبوی نہیں ہے
تفسیر طبری کی دوسری روایت ہے
حدثني محمد بن سعد، قال: ثني أبي، قال: ثني عمي، قال: ثني أبي، عن أبيه، عن ابن عباس، في قوله: (إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ) يقول: أعمالهم في كتاب في الأرض السفلى.
عطیہ عوفی نے ابن عباس سے روایت کیا کہ قول الله تعالی (إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ) کہا یہ کتاب ہے جس میں ان کے اعمال ہیں جو زمین سفلی میں ہے
محمد بن سعد بن محمد بن الحسن بن عطية العوفى شیخ طبری ہیں – کتاب المعجم الصغير لرواة الإمام ابن جرير الطبري از أكرم بن محمد زيادة الفالوجي الأثري کے مطابق
سعد بن محمد بن الحسن بن عطية بن سعد، العوفي، البغدادي، والد محمد بن سعد، شيخ الطبري ہے
عطية بن سعد، العوفي، سخت مجروح راوی ہے
حدثنا ابن حميد، قال: ثنا يعقوب القُمِّي، عن حفص بن حميد، عن شمر، قال: جاء ابن عباس إلى كعب الأحبار، فقال له ابن عباس: حدِّثني عن قول الله: (إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ … ) الآية، قال كعب: إن روح الفاجر يصعد بها إلى السماء، فتأبى السماء أن تقبلها، ويُهبط بها إلى الأرض فتأبى الأرض أن تقبلها، فتهبط فتدخل تحت
سبع أرضين، حتى ينتهي بها إلى سجين، وهو حدّ إبليس، فيخرج لها من سجين من تحت حدّ إبليس، رَقّ فيرقم ويختم ويوضع تحت حدّ إبليس بمعرفتها
شمر نے کہا ابن عباس کعب الاحبار کے پاس پہنچے اس سے کہا الله کے قول پر بیان کرو- کعب نے کہا فاجر کی روح آسمان کی طرف جاتی ہے تو آسمان اس کو قبول کرنے میں کراہت کرتا ہے اس کو زمین کی طرف بھیجا جاتا ہے تو زمین کراہت کرتی ہے تو اس کو ساتویں زمین میں داخل کر دیا جاتا ہے یہاں تک کہ سجین میں جا پہنچتی ہے جو ابلیس کی حد ہے .. وہاں ایک ورقه نکلتا ہے جس میں رقم کیا جاتا ہے اور مہر لگائی جاتی ہے اور رکھا جاتا ہے ابلیس کے قید کے نیچے جاننے کے لئے
اسی سند سے تفسیر طبری میں ہے
حدثنا ابن حميد، قال: ثنا يعقوب القُمِّي، عن حفص، عن شمر بن عطية، قال: جاء ابن عباس إلى كعب الأحبار فسأله، فقال: حدثْنِي عن قول الله: (إِنَّ كِتَابَ الأبْرَارِ لَفِي عِلِّيِّينَ … ) الآية، فقال كعب: إن الروح المؤمنة إذا قُبِضت، صُعد بها، فَفُتحت لها أبواب السماء، وتلقَّتها الملائكة بالبُشرَى، ثم عَرَجُوا معها حتى ينتهوا إلى العرش،
فيخرج لها من عند العرش فيُرقَم رَقّ، ثم يختم بمعرفتها النجاة بحساب يوم القيامة، وتشهد الملائكة المقرّبون.
ابن عباس نے کعب الاحبار سے عِلِّيِّينَ سے متعلق پوچھا تو کعب نے کہا مومنوں کی روحیں جب قبض ہوتی ہیں بلند ہوتی ہیں یہاں تک کہ آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور فرشتے بشارت دیتے ہیں پھر بلند ہوتی ہیں یھاں تک کہ عرش تک پہنچ جاتے ہیں پس عرش کے پاس ایک ورقه ہے جس میں رقم کرتے ہیں پھر مہر لگتی ہے معرفت کے لئے کہ قیامت میں حساب سے نجات ہو گی اور مقرب فرشتے گواہ بنتے ہیں
دونوں کی سند ایک ہے ضعیف ہے
میزان کے مطابق حفص بن حميد، أبو عبيد القمى کو ابن المديني: مجهول کہتے ہیں
دوسرے راوی يعقوب بن عبد الله القمي کو الدارقطني ليس بالقوي قوی نہیں کہتے ہیں
تفسیر طبری میں ہے
حدثنا ابن وكيع، قال: ثنا ابن نمير، قال: ثنا الأعمش، قال: ثنا المنهال بن عمرو، عن زاذان أبي عمرو، عن البراء، قال: (سِجِّينٍ) الأرض السفلى.
منہال بن عمرو نے زاذان سے روایت کیا کہ البراء، رضی الله عنہ نے کہا سجین نچلی زمین ہے
دوسری سند ہے
حدثنا أبو كُرَيب، قال: ثنا أبو بكر، عن الأعمش، عن المنهال، عن زاذان، عن البراء، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: وذكر نفس الفاجر، وأنَّهُ يُصعَدُ بها إلى السَّماء، قال: ” فَيَصْعَدُون بها فَلا يمُرُّونَ بِها عَلى مَلإ مِنَ المَلائِكَة إلا قالُوا: ما هَذَا الرُّوحُ الخَبِيثُ؟ قال: فَيَقُولُونَ: فُلانٌ بأقْبَحِ أسمَائِهِ التي كان يُسَمَّى بها في الدنيا
حتى يَنْتَهوا بِهَا إلى السَّماء الدُّنْيا، فيَسْتَفْتِحُونَ لَهُ. فَلا يُفْتَحُ لَهُ، ثم قرأ رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” (لا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ) فَيَقُولُ اللهُ: اكْتُبُوا كِتَابَهُ فِي أسْفَلِ الأرْضِ فِي سجِّينٍ فِي الأرْضِ السُّفْلَى”.
زاذان نے روایت کیا کہ البراء، رضی الله عنہ نے کہا … اس کی کتاب کو زمین میں نیچے سجین میں لکھو جو الأرْضِ السُّفْلَى ( زمین کا نچلا حصہ) ہے
زاذان اہل علم کے نزدیک مضبوط راوی نہیں اور غلطیاں کرتا ہے
البتہ اس کو صحیح کہنے والوں کو دیکھنا چاہیے کہ سجین ایک مقام کہا جا رہا ہے جبکہ قرآن میں صریح اس کو کتاب کہا گیا ہے
مصنف عَبْدُ الرَّزَّاقِ میں ہے
3539 – عَنْ مَعْمَرٍ , عَنْ قَتَادَةَ , فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: عِلِّيِّينَ قَالَ: «فَوْقَ السَّمَاءِ السَّابِعَةِ عِنْدَ قَائِمَةِ الْعَرْشِ الْيُمْنَى»
معمر نے قتادہ بصری سے روایت کیا کہ عِلِّيِّينَ ساتویں آسمان پر ہے عرش کے داہنا پایہ کے پاس
راقم کہتا ہے عرش کو تو مسلسل فرشتوں نے اٹھایا ہوا ہے
محدثین کہتے ہیں
قَالَ أَبُو حَاتِم مَا حدث معمر بن رَاشد بِالْبَصْرَةِ فَفِيهِ أغاليط
ابو حاتم نے کہا معمر نے جو بصرہ میں روایت کیا اس میں غلطیاں ہیں
پھر معمر مدلس اور قتادہ بھی مدلس – یہ قول قابل رد ہے
کتاب صفة النار از ابن ابی الدنیا میں ہے
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو هِلَالٍ، عَنْ قَتَادَةَ قَالَ: ” كَانُوا يَقُولُونَ: إِنَّ الْجَنَّةَ فِي السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ، وَإِنَّ جَهَنَّمَ فِي الْأَرَضِينَ السَّبْعِ
عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ کہتے ہیں ان کو ابو ہلال نے خبر دی انہوں نے قتادہ سے روایت کیا کہ کہا کہ وہ کہتے جنت ساتویں آسمان پر اور جہنم ساتویں زمین پر ہے
قتادہ نے واضح نہیں کیا کہ وہ کہتے ہیں میں کون مراد ہے – ایسے مجہول لوگوں کے اقوال بیان بھی نہیں کرنے چاہییں
ایک شاذ قول عبد اللہ بن سلام رضی الله عنہ سے منسوب کیا گیا ہے
وَإِنَّ الْجَنَّةَ فِي السَّمَاءِ، وَإِنَّ النَّارَ فِي الْأَرْضِ
اور بے شک جنت آسمان میں اور جہنم زمین میں ہے
اس قول کی ایک سند کتاب صفة الجنة از ابی نعیم میں ہے
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ أَبِي نَصْرٍ الطُّوسِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الرَّقِّيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْقُرْدُوَانِيُّ، ثنا خَضِرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، ثنا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ مَهْدِيِّ بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ، عَنْ بِشْرِ بْنِ شَغَافٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَّامٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: ، الْجَنَّةُ فِي السَّمَاءِ وَالنَّارُ فِي الْأَرْضِ
سند میں مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْقُرْدُوَانِيُّ ہے جس کے لئے الذھبی کہتے ہیں
قال ابن عروبة: … ولم يكن يعرف الحديث
ابن عروبة نے کہا یہ حدیث نہیں جانتا
اور میزان میں کہا
قال أبو أحمد الحاكم: ليس بالمتين عندهم.
أبو أحمد الحاكم نے کہا مضبوط نہیں ہے
دوسری سند مسند الحارث میں ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبَانَ , ثنا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ , ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ , عَنْ بِشْرِ بْنِ شَغَافٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَامٍ يَقُولُ: إِنَّ ” أَكْرَمَ خَلِيقَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَإِنَّ الْجَنَّةَ فِي السَّمَاءِ وَالنَّارَ فِي الْأَرْضِ , فَإِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ بَعَثَ اللَّهُ الْخَلِيقَةَ أُمَّةً أُمَّةً وَنَبِيًّا نَبِيًّا , حَتَّى يَكُونَ أَحْمَدُ وَأَمَّتُهُ آخِرَ الْأُمَمِ مَرْكَزًا , ثُمَّ يُوضَعُ جِسْرٌ عَلَى جَهَنَّمَ ثُمَّ يُنَادِي مُنَادٍ: أَيْنَ أَحْمَدُ وَأُمَّتُهُ , فَيَقُومُ وَتَتْبَعُهُ أُمَّتُهُ بَرُّهَا وَفَاجِرُهَا “
یھاں سند میں عبد العزيز بن أبان ہے جو متروک مشہور ہے
تیسری سند کتاب الکنی از الدولابی میں ہے
حَدَّثَنَا هِلَالُ بْنُ الْعَلَاءِ قَالَ:، ثَنَا الْخَضِرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ شُجَاعٍ قَالَ:، ثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ مَهْدِيِّ بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ [ص:7]، عَنْ بِشْرِ بْنِ شَغَافٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَّامٍ قَالَ: قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْجَنَّةُ فِي السَّمَاءِ وَالنَّارُ فِي الْأَرْضِ»
یہاں هلال بن العلاء بن هلال مضبوط نہیں ہے جو منکرات بیان کرتا ہے
چوتھی سند مستدرک الحاکم کی ہے
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَالَوَيْهِ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ غَالِبٍ، ثَنَا عَفَّانُ، وَمُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَا: ثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ، عَنْ بِشْرِ بْنِ شَغَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ
یہاں سند میں محمد بن غالب بن حرب الضبي، تمتام ہے جس کے لئے ہے کہ دارقطنی نے کہا
وكان وهم في أحاديث
ان کی احادیث میں وہم ہے
اس کی ایک روایت شَيَّبَتْنِي هُودٌ کو موسى بن هَارُون کی طرف سے موضوع بھی کہا گیا ہے
مجاہد جو ابن عباس کے شاگرد ہیں ان کے لئے اعمش نے کہا – سیر الاعلام النبلاء میں الذھبی، مجاہد کے ترجمہ میں لکھتے ہیں
مُحَمَّدُ بنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ الحَافِظُ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللهِ بنُ عَبْدِ القُدُّوْسِ، عَنِ الأَعْمَشِ، قَالَ: كَانَ مُجَاهِدٌ لاَ يَسْمَعُ بِأُعْجُوْبَةٍ، إِلاَّ ذَهَبَ فَنَظَرَ إِلَيْهَا، ذَهَبَ إِلَى بِئْرِ بَرَهُوْتَ بِحَضْرَمَوْتَ
اعمش نے کہا کہ مجاہد عجوبہ بات نہیں سنتے تھے الا یہ کہ وہاں جا کر اس کو دیکھتے لہذا برھوت حضر الموت گئے کہ اس کو جا کر دیکھیں
تفسیر طبری میں ہے
حدثنا ابن حميد، قال: ثنا مهران، عن سفيان، عن منصور، عن مجاهد، عن مغيث بن سميّ، قال: (إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ) قال: الأرض السفلى، قال: إبليس مُوثَق بالحديد والسلاسل في الأرض السفلى.
مجاہد نے مغیث سے روایت کیا کہ آیت میں سجین سفلی زمین ہے کہا اس میں ابلیس ہے جو لوہے کی زنجیر سے جکڑا ہوا ہے نچلی زمین میں
معلوم هوا کہ مفسرین میں مجاہد یہ بھی روایت کرتے تھے کہ ابلیس زمین میں قید ہے جبکہ قرآن کہتا ہے کہ ابلیس کو محشر تک چھوٹ دی گئی ہے
اسی طرح الجامع لتفسير الإمام ابن رجب الحنبلي کے مطابق
وخرج ابن مندة ، من حديث أبي يحيى القتات عن مجاهد ، قال: قلت لابن عباس: أين الجنة ؟ قال : فوق سبع سموات ، قلت : فأين النار؟ قال: تحت سبعة أبحر مطبقة .
ابن مندہ ایک روایت بیان کی ہے کہ أبي يحيى القتات نے مجاہد سے روایت کیا کہ انہوں نے ابن عباس رضی الله عنہ سے پوچھا کہ جنت کہاں ہے بولے سات آسمانوں سے اوپر .- پوچھا اور جہنم؟ بولے سات سمندر کے اندر
اس کی سند میں أبو يحيى القتات المتوفی 130 ھ ہے ابن سعد طبقات میں کہتے ہیں وفيه ضعف اس میں ضعف ہے – الكامل في ضعفاء الرجال از ا بن عدي کے مطابق نسائی کہتے ہیں ليس بالقوي – الذھبی نے ديوان الضعفاء میں ذکر کیا ہے
لہذا یہ ایک ضعیف روایت ہے
ان اقوال کی بنیاد پر ابن کثیر تفسیر میں لکھتے ہیں
والصحيح أن سجِّيناً مأخوذ من السجن، وهو الضيق ….. والمحل الأضيق إلى المركز في وسط الأرض السابعة
اور صحیح بات ہے کہ سجین ماخوذ ہے سجن قید خانہ سے اور یہ تنگ ہے … اور اس کا مقام ساتویں زمین کا وسط کا مرکز ہے
یعنی سجین ارض کا
CORE
ہے جہاں زمین کا مرکز ووسط ہے
کتاب شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة از اللالكائي (المتوفى: 418هـ) کی روایت ہے
أنا جَعْفَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَعْقُوبَ، قَالَ: أنا مُحَمَّدُ بْنُ هَارُونَ الرُّويَانِيُّ، قَالَ: نا الرَّبِيعُ، قَالَ: نا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى، أَنَّهُ قَالَ: ” تَخْرُجُ رُوحُ الْمُؤْمِنِ وَهِيَ أَطْيَبُ مِنَ الْمِسْكِ، فَتَعْرُجُ بِهِ الْمَلَائِكَةُ الَّذِينَ يَتَوَفَّوْنَهُ فَتَلْقَاهُ مَلَائِكَةٌ دُونَ السَّمَاءِ فَيَقُولُونَ: مَا هَذَا الَّذِي جِئْتُمْ بِهِ؟ فَتَقُولُ الْمَلَائِكَةُ: تَوِّجُوهُ، هَذَا فُلَانٌ ابْنُ فُلَانٍ كَانَ يَعْمَلُ كَيْتَ وَكَيْتَ لِأَحْسَنِ عَمَلٍ لَهُ , قَالَ: فَيَقُولُونَ: حَيَّاكُمُ اللَّهُ، وَحَيَّا مَا جِئْتُمْ بِهِ، فَتَقُولُ الْمَلَائِكَةُ الَّذِي يَصْعَدُ فِيهِ قَوْلُهُ وَعَمَلُهُ، فَيُصْعَدُ بِهِ إِلَى رَبِّهِ حَتَّى يَأْتِيَ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَهُ بُرْهَانٌ مِثْلُ الشَّمْسِ، وَرُوحُ الْكَافِرِ أَنْتَنُ يَعْنِي: مِنَ الْجِيفَةِ وَهُوَ بِوَادِي حَضْرَ مَوْتَ، ثُمَّ أَسْفَلَ الثَّرَى مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ “
ابو موسی رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ مومن کی روح جب نکلتی ہے تو اس میں سےمشک کی سی خوشبو اتی ہے پس فرشتے اس کو لے کر بلند ہوتے ہیں اور آسمان کے فرشتوں سے ملتے ہیں تو وہ کہتے ہیں یہ تم کیا لے کر آئے ہو ؟ پس فرشتے کہتے ہیں ادھر دیکھو یہ فلاں بن فلاں ہے اس نے ایسا ایسا عمل کیا ہے اچھا – پس فرشتے کہتے ہیں الله تم پر سلامتی کرے اور جو تم لائے ہو اس پر پس فرشتے اس کو لے کر بلند ہوتے ہیں یہاں تک کہ رب تعالی کے پاس جاتے ہیں اور ان کے لئے سورج کی طرح یہ ثبوت ہوتا ہے اور کافر کی روح سڑتی ہے یعنی سڑی ہوئی جو حضر الموت کی وادی میں ہے الثری کی تہہ ہیں سات زمین نیچے
اس میں حضر الموت میں وادی کا ذکر ہے جس میں برھوت ہے لیکن یھاں روایت برھوت کا ذکر نہیں ہے
اس سند کی علت یہ ہے کہ اس میں الربیع مجہول ہے – یہ الرویانی نے روایت کی ہے اور اس نام کا ان کا کوئی شیخ نہیں ہے اور یہ روایت مسند الرویانی میں بھی نہیں ہے
یہ منکر متن رکھتی ہے
ابو موسی ألاشعري رضي الله تعالى عنه سے منسوب ایک اور روایت میں ان الفاظ کی تشریح ہے کہ الله تعالی نعوذ باللہ سورج کی طرح چمک رہا ہوتا ہے
یہی بات رب العالمین کے لئے أبو موسى ألاشعري رضي الله تعالى عنه کے حوالے سے ارشد کمال نے المسند فی عذاب القبر میں لکھی ہے
کیا رب العالمین کے چہرے کی چمک ، سورج کی چمک کے برابر ہے. کیا الله تعالی نے یہ نہیں کہ ليس كمثله شئ کہ اس کی مثل کوئی شی نہیں
لھذا یہ روایات منکر ہیں
مصنف ابن ابی شیبہ میں اس کی سند ہے
حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: «تَخْرُجُ نَفْسُ الْمُؤْمِنِ وَهِيَ أَطْيَبُ رِيحًا مِنَ الْمِسْكِ»، قَالَ: ” فَيَصْعَدُ بِهَا الْمَلَائِكَةُ الَّذِينَ يَتَوَفَّوْنَهَا فَتَلَقَّاهُمْ مَلَائِكَةٌ دُونَ السَّمَاءِ فَيَقُولُونَ: مَنْ هَذَا مَعَكُمْ؟ فَيَقُولُونَ: فُلَانٌ وَيَذْكُرُونَهُ بِأَحْسَنِ عَمَلِهِ، فَيَقُولُونَ: حَيَّاكُمُ اللَّهُ وَحَيَّا مَنْ مَعَكُمْ “، قَالَ: «فَتُفْتَحُ لَهُ أَبْوَابُ السَّمَاءِ»، قَالَ: «فَيُشْرِقُ وَجْهُهُ فَيَأْتِي الرَّبَّ وَلِوَجْهِهِ بُرْهَانٌ مِثْلُ الشَّمْسِ»، قَالَ: ” وَأَمَّا الْآخَرُ فَتَخْرُجُ نَفْسُهُ وَهِيَ أَنْتَنُ مِنَ الْجِيفَةِ، فَيَصْعَدُ بِهَا الْمَلَائِكَةُ الَّذِينَ يَتَوَفَّوْنَهَا فَتَلَقَّاهُمْ مَلَائِكَةٌ دُونَ السَّمَاءِ فَيَقُولُونَ: مَنْ هَذَا مَعَكُمْ؟ فَيَقُولُونَ: فُلَانٌ وَيَذْكُرُونَهُ بِأَسْوَأِ عَمَلِهِ “، قَالَ: ” فَيَقُولُونَ: رُدُّوهُ فَمَا ظَلَمَهُ اللَّهُ شَيْئًا “، قَالَ: وَقَرَأَ أَبُو مُوسَى: ” {وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ} [الأعراف: 40]
اس کی سند میں عاصم بن بھدلہ کا تفرد ہے جو آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوئے اور رب تعالی کو سورج کے مثال قرار دینا اسی کی وجہ لگتا ہے
اس میں متن صحیح مسلم کی ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی روایت کے خلاف ہے
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا بُدَيْلٌ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: «إِذَا خَرَجَتْ رُوحُ الْمُؤْمِنِ تَلَقَّاهَا مَلَكَانِ يُصْعِدَانِهَا» – قَالَ حَمَّادٌ: فَذَكَرَ مِنْ طِيبِ رِيحِهَا وَذَكَرَ الْمِسْكَ – قَالَ: ” وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَاءِ: رُوحٌ طَيِّبَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ، صَلَّى الله عَلَيْكِ وَعَلَى جَسَدٍ كُنْتِ تَعْمُرِينَهُ، فَيُنْطَلَقُ بِهِ إِلَى رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ يَقُولُ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ “، قَالَ: ” وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا خَرَجَتْ رُوحُهُ – قَالَ حَمَّادٌ وَذَكَرَ مِنْ نَتْنِهَا، وَذَكَرَ لَعْنًا – وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَاءِ رُوحٌ: خَبِيثَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ. قَالَ فَيُقَالُ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ “، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَرَدَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَيْطَةً كَانَتْ عَلَيْهِ، عَلَى أَنْفِهِ، هَكَذَا
عبد الله بن شقیق نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کیا کہ … جب کافر کی روح نکلتی ہے … اہل آسمان کہتے ہیں خبیث روح ہے جو زمین کی طرف سے آئی ہے کہا پھر وہ کہتے ہیں اس کو آخری اجل تک کے لئے لے جاؤ
محدثین : زمیں کے وسط میں مچھلی ہے
دوسری طرف محدثین کہتے ہیں کہ زمین کے مرکز میں ایک مچھلی ہے
مستدرک الحاکم کی روایت ہے جس کو امام حاکم صحیح کہتے ہیں
حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ، ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ دَرَّاجٍ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ عِيسَى بْنِ هِلَالٍ الصَّدَفِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ الْأَرَضِينَ بَيْنَ كُلِّ أَرْضٍ إِلَى الَّتِي تَلِيهَا مَسِيرَةُ خَمْسُمِائَةِ سَنَةٍ فَالْعُلْيَا مِنْهَا عَلَى ظَهْرِ حُوتٍ قَدِ التَّقَى طَرَفَاهُمَا فِي سَمَاءٍ، وَالْحُوتُ عَلَى ظَهْرِهِ عَلَى صَخْرَةٍ، وَالصَّخْرَةُ بِيَدِ مَلَكٍ، وَالثَّانِيَةُ مُسَخَّرُ الرِّيحِ، فَلَمَّا أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يُهْلِكَ عَادًا أَمَرَ خَازِنَ الرِّيحِ أَنْ يُرْسِلَ عَلَيْهِمْ رِيحًا تُهْلِكُ عَادًا، قَالَ: يَا رَبِّ أُرْسِلُ عَلَيْهِمُ الرِّيحَ قَدْرَ مِنْخَرِ الثَّوْرِ، فَقَالَ لَهُ الْجَبَّارُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: إِذًا تَكْفِي الْأَرْضَ وَمَنْ عَلَيْهَا، وَلَكِنْ أَرْسِلْ عَلَيْهِمْ بِقَدْرِ خَاتَمٍ، وَهِيَ الَّتِي قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي كِتَابِهِ الْعَزِيزِ: {مَا تَذَرُ مِنْ شَيْءٍ أَتَتْ عَلَيْهِ إِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِيمِ} [الذاريات: 42] ، وَالثَّالِثَةُ فِيهَا حِجَارَةُ جَهَنَّمَ، وَالرَّابِعَةُ فِيهَا كِبْرِيتُ جَهَنَّمَ ” قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلِلنَّارِ كِبْرِيتٌ؟ قَالَ: «نَعَمْ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ فِيهَا لَأَوْدِيَةٌ مِنْ كِبْرِيتٍ لَوْ أُرْسِلَ فِيهَا الْجِبَالُ الرُّوَاسِي لَمَاعَتْ، وَالْخَامِسَةُ فِيهَا حَيَّاتُ جَهَنَّمَ إِنَّ أَفْوَاهَهَا كَالْأَوْدِيَةِ تَلْسَعُ الْكَافِرَ اللَّسْعَةَ فَلَا يَبْقَى مِنْهُ لَحْمٌ عَلَى عَظْمٍ، وَالسَّادِسَةُ فِيهَا عَقَارِبُ جَهَنَّمَ إِنَّ أَدْنَى عَقْرَبَةٍ مِنْهَا كَالْبِغَالِ الْمُؤَكَّفَةِ تَضْرِبُ الْكَافِرَ ضَرْبَةً تُنْسِيهِ ضَرْبَتُهَا حَرَّ جَهَنَّمَ، وَالسَّابِعَةُ سَقَرُ وَفِيهَا إِبْلِيسُ مُصَفَّدٌ بِالْحَدِيدِ يَدٌ أَمَامَهُ وَيَدٌ خَلْفَهُ، فَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يُطْلِقَهُ لِمَا يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ أَطْلَقَهُ» هَذَا حَدِيثٌ تَفَرَّدَ بِهِ أَبُو السَّمْحِ، عَنْ عِيسَى بْنِ هِلَالٍ وَقَدْ ذَكَرْتُ فِيمَا تَقَدَّمَ عَدَالَتَهُ بِنَصِّ الْإِمَامِ يَحْيَى بْنِ مَعِينٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَالْحَدِيثُ صَحِيحٌ وَلَمْ يُخْرِجَاهُ “
عبد الله بن عمرو نے کہا نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : زمینیں ایک مچھلی کی پیٹھ پر ہیں
تفسیر ابن کثیر میں ہے
حدیث میں ہے ہر دو زمینوں کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے۔ سب سے اوپر کی زمین مچھلی کی پشت پر ہے جس کے دونوں بازوں آسمان سے ملے ہوئے ہیں، یہ مچھلی ایک پتھر پر ہے، وہ پتھر فرشتے کے ہاتھ میں ہے۔ دوسری زمین ہواؤں کا خزانہ ہے۔ تیسری میں جہنم کے پتھر ہیں، چوتھی میں جہنم کی گندھک ہے، پانچویں میں جہنم کے سانپ ہیں، چھٹی میں جہنمی بچھو ہیں۔ ساتویں میں دوزخ ہے وہیں ابلیس جکڑا ہوا ہے ایک ہاتھ آگے ہے ایک پیچھے ہے، جب اللہ چاہتا ہے اسے چھوڑ دیتا ہے
حاکم اپنی وضاحت دیتے ہیں
” وقالَ: تفرد به أبو السمح، وقد ذكرتْ عدالتُه بنصِ الإمامِ يحيى بنِ معين، والحديثُ صحيحٌ ولم يخرِّجاه
اس میں ابو السمح کا تفرد ہے جس کی عدالت پر ابن معین کی نص ہے اور حدیث صحیح ہے لیکن بخاری و مسلم نے اس کو بیان نہیں کیا
ابن کثیر کہتے ہیں
وهذا حَدِيثٌ غَرِيبٌ جِدًّا، وَرَفْعُهُ فِيهِ نَظَرٌ.
یہ منفرد بہت سے اس کے مرفوع ہونے پر نظر ہے
لیکن ابن کثیر نے اس کو ضعیف یا موضوع یا منکر قرار نہیں دیا
تفسیر طبری کی روایت ہے
حدثني أبو السائب، قال: ثنا ابن إدريس، عن الأعمش، عن المنهال، عن عبد الله بن الحارث، قال: الصخرة خضراء على ظهر حوت.
المنھال بن عمرو نے عبد الله بن الحارث رضی الله عنہ سے روایت کیا کہ چٹان سبز ہے جس کی پیٹھ پر مچھلی ہے
یعنی زمیں کے اندر تین چیزیں ہوئیں
ایک سجین یا جہنم
دوسری مچھلی
تیسرا ابلیس جو قید میں ہے
فرقہ پرست آج کل مچھلی والی حدیث ہے ابلیس کا قید خانہ والا کعب کا قول چھپا دیتے ہیں لیکن جب کعب الاحبار سجین کا ذکر کرتا ہے تو بہت ادب کے ساتھ کعب الاحبار کو کعب رضی الله عنہ لکھ کر عوام کو دھوکہ دیتے ہیں
اب قرآن دیکھتے ہیں
قرآن: جس کا وعدہ ہے وہ آسمان میں ہے
قرآن میں سوره الذاریات میں ہے
وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا توعَدُونَ
اور آسمان ہی میں ہے تمہارا رزق اور وہ جس کا وعدہ کیا گیا ہے
الله تعالی نے انسانوں سے جنت و جہنم کا وعدہ کیا ہے کہ اہل ایمان کو جنت اور کفار کو جہنم میں ڈالے گا
سوره التین میں ہے
ثم رَدَدْنَاہُ اَسْفَلَ سَافِلِیْنَ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ
پھر ہم نے اسے نیچوں کا نیچ کر دیا، ہاں جو ایمان لائے اور نیک اعمال والے ہیں
بعض کے نزدیک یہ استعارہ نہیں بلکہ حقیقی مطلب ہے کہ جہنمی کو زمین کے اندر کر دیا جو الثری یا السفلی ہے
جبکہ یہ نرا گمان ہے
فرقہ پرست : سجین کتاب ہے نہیں روحوں کا مسکن ہے
رفیق طاہر لکھتے ہیں
علیین اور سجین کسی جگہ کا نام نہیں بلکہ “کتاب مرقوم” ہے جن میں نیک وبد کا اندراج کیا جاتا ہے
دامانوی صاحب دین الخالص قسط اول میں لکھتے ہیں
سلف صالحین نے علیین اور سجین کو اعمال ناموں کے دفتر کے علاوہ روحوں کامسکن کہا ہےتوانکی یہ بات بالکل بے بنیاد نہیں
شمس الدين محمد بن عمر بن أحمد السفيري الشافعي (المتوفى: 956هـ) کتاب المجالس الوعظية في شرح أحاديث خير البرية صلى الله عليه وسلم من صحيح الإمام البخاري میں لکھتے ہیں کہ
قال شيخ الإسلام ابن حجر وغيره: إن أرواح المؤمنين في عليين، وهو مكان في السماء السابعة تحت العرش وأرواح الكفار في سجين وهو مكان تحت الأرض السابعة، وهو محل إبليس وجنوده.
شیخ الاسلام ابن حجر اور دیگر کہتے ہیں: بے شک مومنین کی ارواح عليين میں ہیں، اور وہ ساتوے آسمان پر عرش کے نیچے ہے اور کفار کی ارواح سجين میں ہیں اور وہ جگہ ساتویں زمین کے نیچے ہے جو ابلیس اور اسکے لشکروں کا مقام ہے
فتاوی علمائے حدیث میں ہے
اسی کتاب میں ج ١٠ میں ہے
فتاوی علمائے حدیث ج ٥ میں یہ بھی ہے کہ سجین جہنم کا پتھر ہے
زبیر علی زئی کتاب توضیح الاحکام میں لکھتے ہیں
ایک ہی فرقہ کے لوگ اس قدر متضاد عقائد رکھتے ہیں اور سب اپنے اپ کو سلف کا متبع بھی کہتے ہیں
ابن قیم کا عقیدہ سجین اور علیین ارواح کا مقام ہے
ابن قیم کتاب الروح میں لکھتے ہیں
فصل وَأما قَول من قَالَ إِن أَرْوَاح الْمُؤمنِينَ فِي عليين فِي السَّمَاء السَّابِعَة وأرواح الْكفَّار فِي سِجِّين فِي الأَرْض السَّابِعَة فَهَذَا قَول قد قَالَه جمَاعَة من السّلف وَالْخلف وَيدل عَلَيْهِ قَول النَّبِي اللَّهُمَّ الرفيق الْأَعْلَى وَقد تقدم حَدِيث أَبى هُرَيْرَة أَن الْمَيِّت إِذا خرجت روحه عر ج بهَا إِلَى السَّمَاء حَتَّى يَنْتَهِي بهَا إِلَى السَّمَاء السَّابِعَة الَّتِي فِيهَا الله عز وَجل وَتقدم قَول أَبى مُوسَى أَنَّهَا تصعد حَتَّى تَنْتَهِي إِلَى الْعَرْش وَقَول حُذَيْفَة أَنَّهَا مَوْقُوفَة عِنْد الرَّحْمَن وَقَول عبد الله بن عمر إِن هَذِه الْأَرْوَاح عِنْد الله وَتقدم قَول النَّبِي أَن أَرْوَاح الشُّهَدَاء تأوي إِلَى قناديل تَحت الْعَرْش وَتقدم حَدِيث الْبَراء بن عَازِب أَنَّهَا تصعد من سَمَاء إِلَى سَمَاء ويشيعها من كل سَمَاء مقربوها حَتَّى يَنْتَهِي بهَا إِلَى السَّمَاء السَّابِعَة وَفِي لفظ إِلَى السَّمَاء الَّتِي فِيهَا الله عز وَجل
وَلَكِن هَذَا لَا يدل على استقرارها هُنَاكَ بل يصعد بهَا إِلَى هُنَاكَ للعرض على رَبهَا فَيقْضى فِيهَا أمره وَيكْتب كِتَابه من أهل عليين أَو من أهل سِجِّين ثمَّ تعود إِلَى الْقَبْر للمسألة ثمَّ ترجع إِلَى مقرها الَّتِي أودعت فِيهِ فأرواح الْمُؤمنِينَ فِي عليين بِحَسب مَنَازِلهمْ وأرواح الْكفَّار فِي سِجِّين بِحَسب مَنَازِلهمْ
بیان کہ کہنے والے کا قول بے شک ارواح المومنین عليين میں ساتویں آسمان پر ہیں اور کفّار کی اورح سجین میں ساتویں زمین میں ہیں پس یہ قول ہے جو سلف و خلف نے کہا ہے اور اس پر دلالت کرتا ہے نبی کا قول کہ اللَّهُمَّ الرفيق الْأَعْلَى اور پیش کی ہے ابو ھریرہ کی حدیث کہ جب میت کی روح نکلتی ہے تو وہ آسمان پر چڑھتی ہے یہاں تک کہ ساتویں آسمان پر پہنچتی ہے جس پر الله عز وَجل ہے اور پیش کرتے ہیں ابو موسیٰ کا قول کہ وہ اوپر جاتی ہے یہاں تک کہ عرش تک اور حذیفہ کا قول کہ وہ رحمان کے پاس رکی ہوئی ہے اور عبد الله ابن عمر کا قول کہ بے شک یہ ارواح الله کے پاس ہیں اور نبی کا قول ہے کہ شہداء کی ارواح قندیلوں میں عرش رحمان کے نیچے ہیں اور الْبَراء بن عَازِب کی حدیث پیش کرتے ہیں کہ یہ ارواح ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک جاتی ہیں .. یہاں تک کہ ساتویں آسمان تک پہنچتی ہیں جس پر الله عز وَجل ہے
لیکن یہ اس پر دلالت نہیں کرتیں کہ ارواح وہاں روکتی بھی ہیں بلکہ وہ تو اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لئے چڑھتی ہیں پس ان کا فیصلہ ہوتا ہے اور ان کی کتاب اہل عليين یا اہل سجیں میں لکھی جاتی ہے پھر قبر میں لوٹایا جاتا ہے سوال کے لئے پھر لوٹایا جاتا ہے اور انکی جگہ جمع کیا جاتا ہے ، پس ارواح المومنین عليين میں حسب منازل ہوتی ہیں اور کفار کی ارواح سجین میں حسب منازل ہوتی ہیں
ابن قیم کے بقول روح تو اب جہاں جانا چاہتی ہے جاتی ہے
ابن تیمیہ : کفار کی روحیں برھوت میں ہیں
ابن تیمیہ : مجموع الفتاوى ج ٤ ص ٢٢١ میں لکھتے ہیں
وَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ {أَرْوَاحُ الشُّهَدَاءِ فِي حَوَاصِلِ طَيْرٍ خُضْرٍ تَرْتَعُ فِي الْجَنَّةِ وَتَأْوِي فِي فِنَاءِ الْعَرْشِ. وَأَرْوَاحُ الْكُفَّارِ فِي برهوت
نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا شہداء کی ارواح سبز پرندوں کے پیٹ میں ہیں جنت میں بلند ہوتی ہیں اور عرش تک جاتی ہیں اور کفار کی روحیں برھوت میں ہیں
فتوی میں کہتے ہیں
وَإِنَّمَا فِي أَسْفَلِ سَافِلِينَ مَنْ يَكُونُ فِي سِجِّينٍ لَا فِي عِلِّيِّينَ كَمَا قَالَ تَعَالَى {إنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ}
اور اسفل سافلین میں وہ ہے جو سجین میں ہے نہ کہ علیین میں جیسا الله کا قول ہے کہ منافقین اگ کے اسفل میں ہیں
یعنی ابن تیمیہ نے سجین کو مقام قرار دیا
کبری و صغری ملا لیں سجین ابن تیمیہ کے نزدیک برھوت ہوا
کتاب الجامع الصحيح للسنن والمسانيد کے مطابق
وَعَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ – رضي الله عنهما – قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ – صلى الله عليه وسلم -: ” خَيْرُ مَاءٍ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ , مَاءُ زَمْزَمَ , فِيهِ طَعَامٌ مِنَ الطُّعْمِ , وَشِفَاءٌ مِنَ السُّقْمِ، وَشَرُّ مَاءٍ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ , مَاءٌ بِوَادِي بَرَهوتٍ , بِقُبَّةِ حَضْرَمَوْتَ , كَرِجْلِ الْجَرَادِ مِنَ الْهوامِّ , تُصْبِحُ تَدَفَّقُ , وَتُمْسِي لَا بَلالَ بِهَا
ابن عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا زمین کے اوپر سب سے اچھا پانی زمزم کا ہے اس میں غذائیت ہے اور بیماری سے شفا ہے اور سب سے برا پانی وادی برھوت کا ہے حضر الموت میں ایک قبہ
البانی صَحِيح الْجَامِع: 3322 والصحيحة: 1056 میں اس کو صحیح کہتے ہیں
مصنف عَبْدُ الرَّزَّاقِ، کی روایت 9118 ہے
عبد الرزاق عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ فُرَاتٍ الْقَزَّازِ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: ” خَيْرُ وَادِيَيْنِ فِي النَّاسِ ذِي مَكَّةُ، وَوَادٍ فِي الْهِنْدِ هَبَطَ بِهِ آدَمُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ هَذَا الطِّيبُ الَّذِي تَطَّيَّبُونَ بِهِ، وَشَرُّ وَادِيَيْنِ فِي النَّاسِ وَادِي الْأَحْقَافِ، وَوَادٍ بِحَضْرَمَوْتَ يُقَالُ لَهُ: بَرَهَوْتُ، وَخَيْرُ بِئْرٍ فِي النَّاسِ زَمْزَمُ، وَشَرُّ بِئْرٍ فِي النَّاسِ بَلَهَوْتُ، وَهِيَ بِئْرٌ فِي بَرَهَوْتَ تَجْتَمِعُ فِيهِ أَرْوَاحُ الْكُفَّارِ “
علی رضی الله عنہ نے فرمایا … شری وادیوں میں سے ہے وادی جو حضر الموت میں ہے جس کو برھوت کہا جاتا ہے … اور یہ کنواں ہے جس میں کفار کی روحیں جمع ہوتی ہیں
مسلک پرستوں کے اصول پر اس کی سند صحیح ہے اور یہ قول علی پر موقوف ہے لہذا اس کو ان کے اصول پر حدیث رسول سمجھا جائے گا
صحیح ابن حبان میں ہے
قَالَ قَتَادَةَ: وَحَدَّثَنِي رَجُلٌ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: أَرْوَاحُ الْمُؤْمِنِينَ تُجْمَعُ بِالْجَابِيَتِيْنِ وَأَرْوَاحُ الْكُفَّارِ تُجْمَعُ بِبُرْهُوتَ سَبِخَةٌ بِحَضْرَمَوْتَ قَالَ أَبُو حَاتِمٍ رَضِيَ الله تعالى عَنْهُ: هَذَا الْخَبَرُ رَوَاهُ مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ نَحْوَهُ مَرْفُوعًا الْجَابِيَتَانِ باليمن وبرهوت: من ناحية اليمن.
قتادہ نے ایک رجل سے روایت کیا اس نے ابن مسیب سے کہ ابن عمرو رضی الله عنہ نے کہا مومنوں کی روحیں جابیہ میں جمع ہوتی ہیں اور کفار کی روحیں برھوت حضر الموت میں جو وہاں ایک چٹیالی گھڑا ہے- ابن حبان نے کہا اس خبر کو مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ کی سند سے مرفو عا روایت کیا گیا ہے -الْجَابِيَتَانِ یمن میں ہے اور برھوت اس کے قرب میں
یعنی ابن حبان کے نزدیک برھوت ارواح کا مقام ہوا یہ مرفوع قول نبوی ہے
اوپر والی روایت کے بعد ابن حبان میں صحیح میں قَتَادَةَ عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ کی سند سے روایت بیان کی
أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْهَمْدَانِيُّ حَدَّثَنَا زَيْدُ بن أخزم حَدثنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: “إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا قُبِضَ أَتَتْهُ مَلائِكَةُ الرَّحْمَةِ بحريرة بَيْضَاء فَيَقُولُونَ اخْرُجِي إِلَى رَوْحِ اللَّهِ فَتَخْرُجُ كَأَطْيَبِ رِيحِ الْمسك حَتَّى إِنَّه ليناوله بَعضهم بَعْضًا فيشمونه حَتَّى يَأْتُونَ بِهِ بَابَ السَّمَاءِ فَيَقُولُونَ مَا هَذِهِ الرِّيحُ الطَّيِّبَةُ الَّتِي جَاءَتْ مِنَ الأَرْضِ وَلا يَأْتُونَ سَمَاءً إِلا قَالُوا مِثْلَ ذَلِكَ حَتَّى يَأْتُوا بِهِ أَرْوَاحَ الْمُؤْمِنِينَ فَلَهُمْ أَشَدُّ فَرَحًا بِهِ مِنْ أَهْلِ الْغَائِبِ بِغَائِبِهِمْ فَيَقُولُونَ مَا فَعَلَ فُلانٌ فَيَقُولُونَ دَعُوهُ حَتَّى يَسْتَرِيحَ فَإِنَّهُ كَانَ فِي غَمِّ الدُّنْيَا فَيَقُولُ قَدْ مَاتَ أَمَا أَتَاكُم فَيَقُولُونَ ذُهِبَ بِهِ إِلَى أُمِّهِ الْهَاوِيَةِ وَأَمَّا الْكَافِر فَتَأْتِيه مَلائِكَةُ الْعَذَابِ بِمُسْحٍ فَيَقُولُونَ اخْرُجِي إِلَى غَضِبِ الله فَتخرج كأنتن ريح جيفة فَيذْهب بِهِ إِلَى بَاب الأَرْض
اس میں باب الارض کا ذکر ہے اور محدث ابن حبان کے مطابق یہ برھوت کی خبر ہے
کتاب حلية الأولياء وطبقات الأصفياء از ابو نعیم کی روایت ہے
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ، ثنا الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّا قَالَ: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَنَانٍ، ثنا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْعَطَّارُ الدِّمَشْقِيُّ، ثنا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيمَانِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لَتَقْصِدَنَّكُمْ نَارٌ هِيَ الْيَوْمَ خَامِدَةٌ فِي وَادٍ يُقَالُ: لَهُ بَرْهُوتُ، يَغْشَى النَّاسَ فِيهَا عَذَابٌ أَلِيمٌ،
حُذَيْفَةَ بْنِ الْيمَانِ رضی الله عنہ نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں تصدیق کرتا ہوں اس اگ کی جو … وادی برھوت میں ہے اس میں لوگ بے ہوش عذاب الیم میں ہیں
اس کی سند میں يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْعَطَّارُ الدِّمَشْقِيُّ جس کو ثقہ و ضعیف کہا گیا ہے لیکن اغلبا اسی کی بنیاد پر ابن تیمیہ نے فتوی میں برھوت کو ارواح کفار کا مقام کہا ہے
ماتریدی عقیدہ : روحیں زمیں و آسمان کے بیچ ہیں؟
بحر الکلام نامی کتاب أبو المعين ميمون بن محمد ﺍﻟﻨﺴﻔﻲ ﺍﻟﺤﻨﻔﻲ المتوفی ٥٠٨ ھ کی تصنیف ہے جس میں ماتریدی مسلک
کے مطابق عقائد کی شرح ہے اس کتاب میں مستقر ارواح پر لکھا ہے
مومن گناہ گاروں کی روحیں آسمان و زمین کے درمیان ہوا میں ہیں
کفار کی روحیں سیاہ پرندوں کے پیٹ میں سجین میں ہیں اور سجین ساتویں زمین کے نیچے ہے اور یہاں سے روحیں جسموں سے کنکشن میں ہیں جس میں روحیں عذاب میں ہیں تو جسم کو الم ہوتا ہے جیسے سورج آسمان میں ہے اور اس کا نور زمین پر
اور جہاں تک مومنوں کی روحوں کا تعلق ہے تو وہ علیین میں ہیں اور ان کا نور ان کے جسم سے کنکشن میں ہے اور ایسا
جائز ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ سورج آسمان میں ہے اور اس کا نور زمین پر ہے
أبو المعين النسفي کے قول کہ روحیں آسمان و زمین کے درمیان میں ہے پر کوئی نص نہیں ہے – دوم سورج پر قیاس کر کے روح کو ایک انرجی تصور کیا گیا ہے جو جسد سے ملی ہوئی ہے لیکن دونوں میں میلوں کا فاصلہ ہے
عبد الوھاب النجدی : ارواح برھوت یا جابیہ میں ہیں
عبد الوہاب النجدی اپنی کتاب احکام تمنی الموت میں روایات پیش کرتے ہیں
وأخرج سعيد في سننه وابن جرير عن المغيرة بن عبد الرحمن قال: “لقي سلمان الفارسي عبد الله بن سلام، فقال: إن أنت مت قبلي فأخبرني بما تلقى، وإن أنا مت قبلك أخبرتك، قال: وكيف وقد مت؟ قال: إن أرواح الخلق إذا خرجت من الجسد كانت بين السماء والأرض حتى ترجع إلى الجسد. فقضي أن سلمان مات، فرآه عبد الله بن سلام في منامه، فقال: أخبرني أي شيء وجدته أفضل؟ قال: رأيت التوكل شيئا عجيبا”.
ولابن أبي الدنيا عن علي قال: “أرواح المؤمنين في بئر زمزم”.
ولابن منده وغيره عن عبد الله بن عمرو: “أرواح الكفار تجمع ببرهوت، سبخة بحضرموت، وأرواح المؤمنين تجمع بالجابية”. وللحاكم في المستدرك عنه: “أما أرواح المؤمنين فتجمع بأريحاء، وأما أروح أهل الشرك فتجمع بصنعاء”
اور سنن سعید بن منصور میں ہے اور ابن جریر طبری میں مغیرہ بن عبد الرحمان سے روایت ہے کہ سلمان فارسی کی ملاقات عبد الله بن سلام سے ہوئی پس کہا اگر اپ مجھ سے پہلے مر جائیں تو خبر دیجئے گا کہ کس سے ملاقات ہوئی عبد اللہ بن سلام نے کہا کیسے میں خبر دوں گا جبکہ میں مر چکا ہوں گا؟ سلمان نے کہا مخلوق کی روحیں جب جسد سے نکلتی ہیں تو وہ جب آسمان و زمین کے بیچ پہنچتی ہیں ان کو جسد میں لوٹا دیا جاتا ہے پس لکھا تھا کہ سلمان مریں گے پس عبد الله بن سلام نے ان کو نیند میں دیکھا پوچھا مجھ کو خبر دو کس چیز کو افضل پایا ؟ سلمان نے کہا میں نے توکل کو ایک عجیب چیز پایا
اور ابن ابی دنیا نے علی سے روایت کیا ہے کہ مومنوں کی روحیں زمزم کے کنواں میں ہیں اور ابن مندہ اور دوسروں نے عبد الله بن عمرو سے روایت کیا ہے کفار کی روحیں برھوت میں جمع ہوتی ہیں جو حضر الموت میں دلدل ہے اور مومنوں کی روحیں جابیہ میں جمع ہوتی ہیں اور مستدرک حاکم میں ہے جہاں تک مومنوں کی روحیں ہیں وہ اریحا میں جمع ہوتی ہیں اور مشرکوں کی صنعاء میں
یہ کس قدر بے سر و پا روایات ہیں شاید ہی کوئی سلیم طبع شخص ان کو بلا جرح نقل کرے
برھوت یمن میں ہے
جابیہ شام میں ہے
اریحا (جیریکو ) فلسطین میں
صنعاء یمن میں
یعنی عبد الوھاب النجدی کے مطابق روحیں دنیا میں اتی ہیں کفار کی یمن میں برھوت میں اور مومنوں کی جابیہ شام میں
راقم کہتا ہے یہ روایت مستدرک الحاکم میں ہے
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّيْدَلَانِيُّ، ثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ قُتَيْبَةَ، ثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، أَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عُمَارَةَ، عَنِ الْأَخْنَسِ بْنِ خَلِيفَةَ الضَّبِّيِّ، قَالَ: رَأَى كَعْبُ الْأَحْبَارِ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو يُفْتِي النَّاسَ، فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: هَذَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِهِ قَالَ: قُلْ لَهُ: يَا عَبْدِ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، لَا تَفْتَرِ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا فَيُسْحِتَكَ بِعَذَابٍ، وَقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرَى. قَالَ: فَأَتَاهُ الرَّجُلُ فَقَالَ لَهُ ذَلِكَ. قَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَصَدَّقَ كَعْبٌ، قَدْ خَابَ مَنِ افْتَرَى وَلَمْ يَغْضَبْ. قَالَ: فَأَعَادَ عَلَيْهِ كَعْبٌ الرَّجُلَ، فَقَالَ: سَلْهُ عَنِ الْحَشْرِ مَا هُوَ؟ وَعَنْ أَرْوَاحِ الْمُسْلِمِينَ أَيْنَ تَجْتَمِعُ؟ وَأَرْوَاحُ أَهْلِ الشِّرْكِ أَيْنَ تَجْتَمِعُ؟ فَأَتَاهُ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: «أَمَّا أَرْوَاحُ الْمُسْلِمِينَ فَتَجْتَمِعُ بِأَرِيحَاءَ، وَأَمَّا أَرْوَاحُ أَهْلِ الشِّرْكِ فَتَجْتَمِعُ بِصَنْعَاءَ، وَأَمَّا أَوَّلُ الْحَشْرِ، فَإِنَّهَا نَارٌ تَسُوقُ النَّاسَ يَرَوْنَهَا لَيْلًا، وَلَا يَرَوْنَهَا نَهَارًا» ، فَرَجَعَ رَسُولُ كَعْبٍ إِلَيْهِ فَأَخْبَرَهُ بِالَّذِي قَالَ: فَقَالَ: صَدَقَ هَذَا عَالِمٌ فَسَلُوهُ
الْأَخْنَسِ بْنِ خَلِيفَةَ الضَّبِّيِّ کہتا ہے کہ کعب الاحبار نے عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ کو فتوی دیتے دیکھا – پوچھا یہ کون ہے ؟ پس کہا یہ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ہیں- کعب الاحبار نے اپنے اصحاب میں سے لوگ ان کی طرف بھیجے اور کہا ان سے کہو اے عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ الله پر جھوٹ نہ بولو وہ تم کو عذاب دے گا اور برباد ہوا جس نے جھوٹ کہا – کہا پس ایک آدمی گیا اس نے عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ سے یہ کہا – عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ نے کہا سچ کہا کعب الاحبار نے برباد ہوا جس نے جھوٹ گھڑا اور ان کو غصہ نہیں آیا – پس کعب الاحبار نے عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ کی طرف آیا ایک اور شخص کو بھیجا اور کہا ان سے حشر پر سوال کرنا کہ یہ کیا ہے ؟ مسلمانوں کی روحیں کہاں جمع ہیں اور اہل شرک کی کہاں جمع ہیں ؟ پس وہ گیا اور سوال کیا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ نے کہا مومنوں کی روحیں یہ أَرِيحَاءَ میں جمع ہوتی ہیں اور اہل شرک کی روحیں یہ صَنْعَاءَ میں اور حشر تو ایک اگ ہے جو لوگوں کو دن اور رات میں ہانکے گی پس کعب کا سفیر واپس آیا اور خبر کی اس پر کعب بولا سچ کہا یہ عالم ہے اس سے سوال کرو
یہ حال ہے امام حاکم کا – یہ ان کا استدراک ہے ! کہاں ہیں وہ جو کہتے ہیں مومنوں کی روحیں علیین میں آسمان میں ہیں ؟ یہاں تو کہا گیا ہے کہ ارواح آسمان میں نہیں ہیں وہ تو زمین میں ہی ہیں
اب یہ ایک یہودی طے کرے گا کہ اصحاب رسول میں کون سچا ہے ؟
معلوم ہوا کہ سلف کا عقیدہ تھا کہ روحیں صنعا اور اریحا میں جمع ہوتی ہیں
اہل حدیث کا عقیدہ ارتقاء: روحیں قیدی ہیں
صادق سیالکوٹی کتاب مسلمان کا سفر آخرت میں لکھتے ہیں
سیالکوٹی کے بقول روحیں قید ہیں ؟
جبکہ ابن تیمیہ و ابن قیم کے بقول یہ تو سورج کی روشنی کی طرح ہیں آنا فانا یھاں سے عالم بالا اور وہاں سے زمین
ابن قیم کتاب الروح میں خواب مين ارواح کی ملاقات والی روایات پر کہتے ہیں
فَفِي هَذَا الحَدِيث بَيَان سرعَة انْتِقَال أَرْوَاحهم من الْعَرْش إِلَى الثرى ثمَّ انتقالها من الثرى إِلَى مَكَانهَا وَلِهَذَا قَالَ مَالك وَغَيره من الْأَئِمَّة أَن الرّوح مُرْسلَة تذْهب حَيْثُ شَاءَت
ان احادیث میں ارواح کا عرش سے الثرى تک جانے میں سرعت کا ذکر ہے پھر الثرى سے اس روح کے مکان تک جانے کا ذکر ہے اور اسی وجہ سے امام مالک اور دیگر ائمہ کہتے ہیں کہ چھوڑی جانے والے روح جہاں جانا چاہتی ہے جاتی ہے
خوارج : ارواح برھوت یا جابیہ میں ہیں
کتاب مشارق أنوار العقول از نور الدين أبو محمد عبد الله بن حميد السالمي کے مطابق خارجی عالم الباجوري نے کہا
قال الباجوري: وأما بعد الموت فأرواح السعداء بأفنية القبور على الصحيح وقيل عند آدم عليه السلام في سماء الدنيا، لكن لا دائما فلا ينافي إنها تسرح حيث شاءت وأما أرواح الكفار ففي سجين في الأرض السابعة السفلى محبوسة، وقيل أرواح السعداء بالجابية في الشام، وقيل ببئر زمزم، وأرواح الكفار ببئر برهوت في حضرموت التي هي مدينة في اليمن
الباجوري نے کہا اور موت کے بعد نیک لوگوں ک روحیں قبرستان کے میدان میں ہیں صحیح ہے – اور کہا گیا ہے آدم علیہ السلام کے پاس ہیں آسمان دنیا پر لیکن وہاں مستقل نہیں ہیں اور اس میں نفی نہیں ہے کہ وہاں جہاں جانا چاہیں جا سکیں – اور کفار کی روحیں یہ سجین میں ساتویں زمین میں قید ہیں اور نیکو کاروں کی جابیہ میں شام میں ہیں اور کہا جاتا ہے زمزم کے کنواں میں اور کفار کی روحیں یہ یمن میں حضرموت میں برھوت کے کنواں میں ہیں
یہ عقیدہ خوارج میں بھی چل رہا ہے
شیعہ روحیں سجین یعنی برھوت میں ہیں
تفسیر :التبيان في تفسير القرآن المؤلف :شيخ الطائفة أبي جعفر محمد بن الحسن الطوسی کے مطابق
وقال أبوجعفر (ع) أما المؤمنون فترفع أعمالهم وأرواحهم إلى السماء، فتفتح لهم أبوابها. وأما الكافر، فيصعد بعمله وروحه حتى اذا بلغ السماء نادى مناد: اهبطوا بعمله إلى سجين، وهوواد بحضر موت يقال له: برهوت.
اور امام ابو جعفر الباقر ع نے کہا جہاں تک مومن ہیں تو ان کے اعمال اور ارواح آسمان تک بلند ہوتے ہیں پس دروازے کھل جاتے ہیں اور جہاں تک کافر ہیں تو ان کا عمل بلند ہوتا اور روح یہاں تک آسمان پر پہنچتے ہیں تو سدا اتی ہے اس کو اس کے عمل کے ساتھ سجین کی طرف لے جاؤ جو حضرالموت میں ایک وادی ہے اس کو برھوت کہا جاتا ہے
معلوم ہوا کہ سجین تک جانے کا راستہ برھوت سے ہے
چلیں آج برھوت کی سیر کریں
ہوائی جہاز سے برھوت کی تصویر
برھوت (سرخ نشان) اور جابیہ (سبز نشان) میں فاصلہ
برھوت کی خبر یمنی لوگوں نے دی اور اہل تشیع کے مطابق یہ سجین کا رستہ ہے-
یہود کے مطابق جہنم کا ایک دروازہ سمندر میں ہے – اغلبا یمنی یہود مثلا کعب الاحبار کے نزدیک یہ دلیل تھا کہ جہنم تک رستہ یہاں سے ہے جو زمین کے وسط میں ہے جہاں شیطان قید ہے اس قول کو قبولیت عامہ ملی یہاں تک کہ عبد الوہاب النجدی اور خوارج اور شیعہ کے مطابق یہ مستقر ارواح ہے – غور طلب ہے کہ وہ فرقے جو عرب سے نکلے ان کے نزدیک برھوت اور سجین ایک ہیں لیکن وہ فرقے جو برصغیر کے ہیں وہ برھوت کا ذکر نہیں کرتے صرف سجین کہتے ہیں
قارئیں یہ سب پڑھ کر اپ کو اب تک سمجھ آ چکا ہو گا کہ برھوت کو سجین قرار دیا گیا جو یمن میں ایک کنواں ہے جو زمین کی تہہ تک جانے کا رستہ ہے – اب سنن نسائی کی ایک روایت دیکھتے ہیں جس کا ذکر ارشد کمال نے کتاب المسند فی عذاب القبر میں کیا ہے اور اسی روایت کو ابن حبان کہتے کہ برھوت کی خبر ہے
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:
یہاں روایت میں خاص باب الارض کا ذکر ہے کہ کفار کی روحیں زمین کے دروازے پر لائی جاتی ہیں اور وہاں سے ان کو کفار کی روحوں تک لے جایا جاتا ہے
یہ روایت ابن حبان کے مطابق برھوت کی ہی خبر ہے کیونکہ یہ زمین میں کنواں ہے جس سے اندر جا سکتے ہیں
تہذیب الکمال از المزی میں قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ کے ترجمہ میں اس روایت کے متن میں ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ بْنُ الْبُخَارِيِّ، قال: أَنْبَأَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الصَّيْدَلانِيُّ، قال: أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِيٍّ الحداد، قال: أَخْبَرَنَا أبو نعيم الْحَافِظُ، قال: حَدَّثَنَا سُلَيْمان بْنُ أَحْمَدَ: قال: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ الأَبَّارُ، قال: حَدَّثَنَا سُلَيْمان بْنُ النُّعْمَانِ الشَّيْبَانِيُّ، قال: حَدَّثَنَا الْقَاسِم بْن الفضل الحداني، عن قَتَادَةَ، عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ، عَن أَبِي هُرَيْرة أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قال: إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا حُضِرَ أَتَتْهُ الْمَلائِكَةُ بِحَرِيرَةٍ فِيهَا مَسْكٌ ومِنْ صَنَابِرَ الرَّيْحَانِ وتَسَلُّ رُوحَهُ كما تَسَلُّ الشَّعْرَةَ مِنَ الْعَجِينِ، ويُقال: يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ اخْرُجِي رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً مَرْضِيًّا عَنْكِ، وطُوِيَتْ عَلَيْهِ الْحَرِيرَةُ، ثُمَّ يُبْعَثُ بِهَا إِلَى عِلِّيِّينَ، وإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا حُضِرَ أَتَتْهُ الْمَلائِكَةُ بِمِسْبَحٍ فِيهِ جَمْرٌ فَتَنْزِعُ رُوحَهُ انْتِزَاعًا شَدِيدًا، ويُقال: يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِيثَةُ اخْرُجِي سَاخِطَةً مَسْخُوطًا عَلَيْكِ إِلَى هَوَانٍ وعَذَابٍ، فَإِذَا خَرَجَتْ رُوحُهُ وضِعَت عَلَى تِلْكَ الْجَمْرةِ، فَإِنَّ لَهَا نَشِيشًا فَيُطْوَى عَلَيْهَا الْمِسْبَحُ ويُذْهَبُ بِهَا إِلَى سِجِّينَ
فرشتے روح کو لے کر سجین جاتے ہیں
ابن رجب اپنی کتاب أهوال القبور میں حنابلہ کے لئے لکھتے ہیں
ورجحت طائفة من العلماء أن أرواح الكفار في بئر برهوت منهم القاضي أبو يعلى من أصحابنا في كتابه المعتمد وهو مخالف لنص أحمد: أن أرواح الكفار في النار.
ولعل لبئر برهوت اتصالا في جهنم في قعرها كما روي في البحر أن تحته جهنم والله أعلم ويشهد لذلك ما سبق من قول أبي موسى الأشعري: روح الكافر بوادي حضرموت في أسفل الثرى من سبع أرضين.
اور علماء کا ایک گروہ اس طرف گیا ہے کہ کفار کی روحیں برھوت میں کنواں میں ہیں جن میں قاضی ابو یعلی ہیں ہمارے اصحاب میں سے اپنی کتاب المعتمد میں اور یہ مخالف ہے نص احمد پر کہ کفار کی روحیں اگ میں ہیں اور ہو سکتا ہے کہ برھوت جہنم سے تہہ میں ملا ہو جیسا کہ روایت ہے کہ سمندر کے لئے کہ اس کے نیچے جہنم ہے و الله اعلم اور اس پر گواہی ہے ابو موسی رضی الله عنہ کے قول کی کہ کافر کی روح حضر الموت کی ایک وادی میں ہے تحت الثری کے پیندے میں ساتویں زمین میں
اخبار مکہ کی روایت ہے جو ضعیف ہے لیکن دلچسپ ہے
وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، عَنْ أَبَانَ بْنِ تَغْلِبَ، [ص:44] عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ قَالَ: ” أَمْسَى عَلَيَّ اللَّيْلُ وَأَنَا بِبَرَهُوتَ، فَسَمِعْتُ فِيهِ أَصْوَاتَ أَهْلِ الدُّنْيَا، وَسَمِعْتُ قَائِلًا يَقُولُ: يَا دُومَةُ، يَا دُومَةُ، قَالَ: فَسَأَلْتُ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي سَمِعْتُ، فَقَالَ: إِنَّ الْمَلَكَ الَّذِي عَلَى أَرْوَاحِ الْكُفَّارِ يُقَالُ لَهُ دُومَةُ “
أَبَانَ بْنِ تَغْلِبَ نے کہا مجھ کو یمن کے ایک رجل نے خبر دی کہا میں نے ایک رات برھوت کے پاس گزاری تو میں نے وہاں آوازیں سنیں اہل دنیا کی اور ایک کہنے والے کو کہتے سنا اے دومہ اے دومہ پس میں نے اہل کتاب میں سے کسی سے پوچھا اور اس کو خبر کی جو سنا تھا اس نے کہا یہ فرشتہ ہے جو کفار کی روحوں پر مقرر ہے جس کو دومہ کہا جاتا ہے
اب تلمود دیکھتے ہیں
موت کے مراحل کا ذکر تلمود میں اسطرح کیا گیا ہے کہ جب آدمی اس جہان کو چھوڑ رہا ہوتا ہے تو ملک الموت اتا ہے جو روح یا نسمہ کو نکالتا ہے – نسمہ ایک خون سے بھری رگ جیسا ہوتا ہے جو تمام بدن میں بکھری ہے ملک الموت اس کا اوپر پکڑتا ہے اور کھینچتا ہے نیک کے جسم سے اس کو آہستگی سے جیسے دودھ میں بال ہو لیکن بدکار کے بدن میں ایسے کھینچتا ہے جیسے روئی کے گالے کو کانٹوں پر گھسیٹا جائے جس سے وہ ٹوٹ جائے- جیسی ہی نسمہ نکلتا ہے آدمی مر جاتا ہے اور روح ناک میں ا جاتی ہے جب یہ ہوتا ہے تو وہ روتی اور چیختی ہے کہ اے مالک اے رب العالمین مجھ کو کہاں لے جایا جا رہا ہے ؟ فورا ہی دومہ فرشتہ اس کو لیتا ہے اور روحوں کے مقام پر لے جاتا ہے
زاذان کی عود روح کی روایت میں یہ بیان ہوا ہے
ثُمَّ يَجِيءُ مَلَكُ الْمَوْتِ، حَتَّى يَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِهِ، فَيَقُولُ: أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِيثَةُ، اخْرُجِي إِلَى سَخَطٍ مِنَ اللَّهِ وَغَضَبٍ “. قَالَ: ” فَتُفَرَّقُ فِي جَسَدِهِ فَيَنْتَزِعُهَا كَمَا يُنْتَزَعُ السَّفُّودُ مِنَ الصُّوفِ الْمَبْلُولِ، فَيَأْخُذُهَا، فَإِذَا أَخَذَهَا لَمْ يَدَعُوهَا فِي يَدِهِ طَرْفَةَ [ص:502] عَيْنٍ حَتَّى يَجْعَلُوهَا فِي تِلْكَ الْمُسُوحِ، وَيَخْرُجُ مِنْهَا كَأَنْتَنِ رِيحِ جِيفَةٍ وُجِدَتْ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ
پھر ملک الموت آ کر اس کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ اے نفس خبیثہ ! اللہ کی ناراضگی اور غصے کی طرف چل یہ سن کر اس کی روح جسم میں دوڑنے لگتی ہے اور ملک الموت اسے جسم سے اس طرح کھینچتے ہیں جیسے گیلی اون سے سیخ کھینچی جاتی ہے اور اسے پکڑ لیتے ہیں فرشتے ایک پلک جھپکنے کی مقدار بھی اسے ان کے ہاتھ میں نہیں چھوڑتے
الغرض برھوت کو سجین قرار دیا گیا اور وہاں جا کر آواز سنی گئی اس کو باب الارض سمجھا گیا یہاں تک کہ فرشتہ کا عمل بھی تلمود سے لے کر حدیث رسول کے طور پر بیان کیا گیا
جہنم کے طبقات میں اس قدر فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان کے درمیان یا مشرقین کے درمیان اقبال کیلانی کی کتاب جہنم کا بیان میں ہے
اب اگر یہ عالم ہے تو جہنم برھوت میں یا زمین کے اندر نہیں ہو سکتی
والله بكل شيء عليم
سنا تو یہی ہے کہ الاحبار یہود کا مفتی ہوتا ہے – پھر ان کے نام کو ساتھ رضی الله کیوں لکھا جاتا ہے
یہ کعب الاحبار کون تھے – کیا محدثین کو یہ ندازہ نہیں تھا کہ وہ کیا لکھ رہے ہیں – اس کی روایات کو کیوں شامل کیا گیا
کعب الاحبار کا شمار اصحاب رسول میں نہیں ہوتا اس لئے اس کو رضی الله عنہ کی دعا نہیں دی جا سکتی
محدثین کو کتب اہل کتاب کی الف ب بھی پتا نہیں تھی ان کو ایک سابق یہودی ملا وہ جو بولتا محدثین اس کو لکھ لیتے
اور کتب یہود تک مسلمانوں کی رسائی بھی نہیں تھی نہ بائبل کا ترجمہ موجود تھا یہ سب تو ١٨٠٠ صدی عیسوی کے بعد ہوا کہ ان کتب کو چھاپا گیا اور آج یہ تحقیق ممکن ہے کہ جان سکیں کہ کعب احبار کیا لکھتا اور کہتا تھا اس کا مصدر کیا تھا
لیکن اس کے علاوہ اور لوگ بھی تو ہوں گے نا – آپ ایک پوسٹ کیوں نہیں بناتے جس میں ان لوگوں کے نام اور کچھ کچھ حوالے جو اسرائیلی روایات کرتے تھے – اور محدثین کو اہل کتاب کی تو الف ب معلوم نہیں تھی – لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کو جپ لکھ رہے ہیں اس کی بھی الف ب معلوم نہیں تھی – ان کا کام صرف لکھنا تھا – اب آپ دیکھیں تاریخ کی کتب وہی ہیں ، احادیث کی کتب ووہی ہیں لیکن ان پر رائے الگ الگ ہے – جب کچھ باتیں اس وقت کے محدثین کو بھی پتا نہیں تھیں تو آج کل ہماری تحقیق بھی تو ان کی محتاج ہے – کسی بھی روایت کو صحیح یا ضعیف کہنے پر ہم ان کے محتاج ہیں – فلاں نے کہا وہ ضعیف ہے – فلاں نے کہا وہ صحیح ہے – بعض اوقات اس پر ہنسی آتی ہے کہ اگر ان محدثین کے اپنے عقائد دیکھیں تو وہ کفریہ تھے تو وہ ہمارے لیے حجت کیسے بن گیۓ – اب اگر ایک محدث کسی راوی کو ضعیف کہتا ہے تو ہم مان لیتے ہیں – لیکن اب محدث کے دل کی بات کون جان سکتا ہے کہ وہ جس راوی کو ضعیف کہہ رہا ہے کیا وہ واقعی ضعیف ہے یا کبھی وہ سچا بھی تھا یا محدث کے لکھنے کی وجہ سے ساری زندگی ضعیف ہی رہا – اور اگر محدث نے اس کو ثقہ کہا تو وہ ساری زندگی ثقہ ہی رہا یا ضعیف بھی ہوا
ہمارے محدثین ساری زندگی روایات کی سند ہی دیکھتے رہے اور روایات میں نام کو فلاں سے بدلتے رہے یا کبھی روایات کو مختصر کرتے رہے
———–
کیا ان محدثین جن میں امام ذھبی ، أحمد بن محمد بن إسماعیل الطهطاوی، احمد بن حنبل ، ابن عابدین
احناف کی بھی کی اقسام ہیں
بریلوی
دیوبندی حیاتی
وسیلہ کے قائل
====
دیوبندی مماتی
یہ وسیلہ کا انکار کرتے ہیں
=====
اسی طرح اہلحدیث حضرات کے علماء بھی ہیں
عقیدے کفریہ اور شرکیہ نہیں – قرآن اور احادیث میں واضح فرما دیا گیا ہے کہ شرک کی کوئی بخشش نہیں لیکن پھر بھی ہم ان کی کتابوں کے محتاج ہیں اپنی تحقیق میں – جرح و تعدیل میں اسما رجال میں
اور معذرت کے ساتھ یہ بد عقیدگی دونوں طرف ہے اہلسنت میں بھی اور شیعہ میں بھی
جب شرک کی معافی ہے ہی نہیں تو ان محدثین کا کیا ہو گا
الله ہمیں سچ سمجھنے، سچ کہنے، سچ لکھنے اور سچ پر عمل کی توفیق عطا کرے – آمین ثم آمین