یسعیاہ، ابن سبا، الرجعة اورعود روح

قرن اول میں امت میں ایک عقیدہ پھیلایا گیا جس کو عقیدہ  الرجعة  یا رجعت کہا جاتا ہے – اس عقیدے کے اہل سنت انکاری ہیں  اور شیعہ اقراری ہیں-  عقیدہ الرجعة کیا ہے کتب شیعہ سے سمجھتے ہیں

سوره البقرہ کی آیت  ألم تر إلى الذين خرجوا من ديارهم وهم ألوف حذر الموت فقال لهم الله موتوا ثم أحياهم إن الله لذو فضل على الناس ولكن أكثر الناس لا يشكرون(243) پر بحث کرتے ہوئے شیعہ عالم  أبي جعفر محمد بن الحسن الطوسي المتوفی ٤٦٠ ھ  تفسیر التبيان في تفسير القرآن میں لکھتے ہیں

وفي الاية دليل على من أنكر عذاب القبر والرجعة معا، لان الاحياء في القبر، وفي الرجعة مثل إحياء هؤلاء الذين أحياهم للعبرة.

اور اس آیت میں دلیل ہے اس پر جو عذاب قبر کا اور رجعت کا انکار کرے کیونکہ قبر میں زندہ ہونا اور رجعت میں ان کی مثل ہے جن (کا ذکر آیت میں ہے جن کو) کو عبرت کے لئے زندہ کیا گیا

آیت فرحين بما آتاهم الله من فضله ويستبشرون بالذين لم يلحقوا بهم من خلفهم ألا خوف عليهم ولاهم يحزنون(170) کی تفسیر  میں  أبي على الفضل بن الحسن الطبرسي المتوفی ٥٤٨ ھ  لکھتے ہیں

وفي الآية دليل على أن الرجعة إلى دار الدنيا جائزة لاقوام مخصوصين

اور اس آیت میں دلیل ہے کہ دار دنیا میں مخصوص اقوام کی رجعت جائز ہے

آیت ثمَّ بَعَثْنَكُم مِّن بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكمْ تَشكُرُونَ(56) کی تفسیر میں شیعہ عالم تفسیر میں  تفسير مجمع البيان لکھتے ہیں

  و استدل قوم من أصحابنا بهذه الآية على جواز الرجعة و قول من قال إن الرجعة لا تجوز إلا في زمن النبي (صلى الله عليه وآله وسلّم) ليكون معجزا له و دلالة على نبوته باطل لأن عندنا بل عند أكثر الأمة يجوز إظهار المعجزات على أيدي الأئمة و الأولياء و الأدلة على ذلك مذكورة في كتب الأصول

اور ہمارے اصحاب کی ایک قوم نے اس آیت سے استدلال کیا ہے رجعت کے جواز پر  اور کہا کہ جس نے کہا رجعت جائز نہیں ہے سوائے  دور نبوی صلی الله علیہ و الہ وسلم کے کہ وہ معجزہ ہوتا ان کی نبوت کی دلیل پر تو یہ باطل قول ہے کیونکہ ہمارے اکثر ائمہ  اور اولیاء  کے ہاتھ پر  معجزات کا ظہور جائز  ہے جس پر دلائل مذکورہ کتب اصول میں موجود ہیں

ائمہ شیعہ کے مطابق الرجعة کا ایک خاص وقت ہے جس  کا انکار لوگوں نے کیا کیونکہ وہ اس کی تاویل تک نہیں پہنچ سکے

قرآن کی آیت ربنا أمتنا اثنتين وأحييتنا اثنتين وہ کہیں گے اے رب ہم کو دو بار زندہ کیا گیا اور دو بار موت دی گئی پر بھی اہل سنت اور اہل تشیع کا اختلاف ہے – اہل سنت اس کو عموم کہتے ہیں جبکہ اہل تشیع اس کو خاص – اہل سنت کے مطابق تمام لوگوں کو دو زندگیاں اور دو موتیں ملیں ہیں اور اہل تشیع کے مطابق صرف ان دشمنان اہل بیت کو ملی ہیں جن کے گناہوں کا عذاب ان کو دنیا میں نہیں ملا اور مر گئے لہذا ان کو زندہ کیا جائے گا اسی طرح اہل بیت کو بھی قیامت سے قبل زندہ کیا جائے گا

تفسیر نور ثقلین  از عبد على بن جمعة العروسى الحويزى  المتوفی ١١١٢ ھ کے مطابق

وقال على بن ابراهيم رحمه الله في قوله عزوجل : ربنا أمتنا اثنتين و أحييتنا اثنتين إلى قوله من سبيل قال الصادق عليه السلام : ذلك في الرجعة

علی بن ابراہیم نے کہا الله کا قول ربنا أمتنا اثنتين و أحييتنا اثنتين تو اس پر امام جعفر نے کہا یہ رجعت سے متعلق ہے

اہل تشیع میں یہ عقیدہ اصلا ابن سبا سے آیا- یہود بھی رجعت کا عقیدہ رکھتے ہیں اور ان کے مطابق مسیح آ کر مردوں کو زندہ کرے گا

http://www.come-and-hear.com/sanhedrin/sanhedrin_90.html

اس کی دلیل بائبل کی کتاب  یسعیاہ    باب ٢٦ آیت  ١٩ ہے

Your dead shall live; their bodies shall rise.

                     You who dwell in the dust, awake and sing for joy

           For your dew is a dew of light,

                     and the earth will give birth to the dead.

تمھارے مردے جی اٹھیں گے ان کے اجسام زندہ ہوں گے

تم وہ جو خاک میں ہو اٹھو اور گیت گاؤ

کیونکہ تمہاری اوس، روشنی کی شبنم ہے

اور زمیں مردہ کو جنم دے گی

حزقی ایل کی کتاب میں رجعت کا ذکر ہے کہ یہود کو کس طرح جی بخشا جائے گا

Behold I will open your graves and raise you from your graves, My people; and I will bring you into the Land of Israel. You shall know that I am G‑d when I open your graves and when I revive you from your graves, My people. I shall put My spirit into you and you will live, and I will place you upon your land, and you will know that I, G‑d, have spoken and done, says G‑d.” (Ezekiel 37:12-14)

خبردار میں تمہاری قبریں کھول دوں گا اور تم کو جی بخشوں گا میرے لوگ! اور میں تم کو ارض مقدس لاؤں گا

تم جان لو گے کہ میں ہی الله ہوں میں  قبروں کو کھولوں گا

آور تم کو ان میں سے اٹھاؤں گا میرے لوگ ! میں اپنی روح تم میں ڈالوں گا

اور تم زندہ ہو گے اور میں تم کو تمہاری زمین پر رکھوں گا اور تم جان لو گے کہ میں رب نے جو کہا پورا کیا

 

ان آیات کی بنیاد پر یہود کہتے ہیں کہ مسیح مردوں کو بھی زندہ کرے گا اور یہی عقیدہ اہل تشیع کا بھی ہے جس کی قلمیں قرانی آیات میں لگائی گئیں تاکہ اس عقیدہ کو ایک اسلامی عقیدہ  ثابت کیا جا سکے

لہذا قرن اول میں یہ عقیدہ شیعوں میں پھیل چکا تھا اور اہل سنت اس  کا انکار کرتے تھے کہ رجعت ہو گی البتہ  کچھ شیعہ عناصر نے اس کو بیان کیا جو کوفہ کے عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ کے شاگرد تھے- اب اپ کبری صغری کو ملائیں – ابن سبا عثمان رضی الله عنہ کے دور میں یمن سے حجاز آیا اپنا عقیدہ پھیلانے لگا اور وہاں سے مصر اور عراق میں آیا- اسی دوران ابن مسعود کی وفات ہوئی عثمان کی شہادت ہوئی اور علی خلیفہ ہوئے – تاریخ دمشق کے مطابق وہاں کوفیوں میں ابن سبا بھی تھا جس نے ایک دن مجمع میں علی سے کہا

انت انت

تو، تو ہے

یعنی تو اے علی رب العالمین ہے – اس کی وضاحت کے لئے ویب سائٹ پر کتاب مجمع البحرین دیکھیں

کتاب رجال ابن داود از ابن داوود الحلي کے مطابق

 عبدالله بن سبا ي (جخ) رجع إلى الكفر وأظهر الغلو (كش) كان يدعي النبوة وأن عليا عليه السلام هو الله، فاستتابه عليه السلام (ثلاثة أيام) فلم يرجع فأحرقه في النار في جملة سبعين رجلا ادعوا فيه ذلك

عبد الله بن سبا ان ستر میں تھا جن کو جلا دیا گیا

الکشی کہتے ہیں امام جعفر نے کہا

أن عبدالله بن سبأ كان يدعي النبوة ويزعم أن أمير المؤمنين ( عليه السلام ) هو الله

ابن سبا نبوت کا مدعی تھا اور دعوی کرتا تھا کہ علی وہ الله ہیں

کتاب   خلاصة الاقوال از  الحسن بن يوسف بن علي بن المطهر الحلي کے مطابق

عبدالله بن سبا بالسين المهملة والباء المنقطة تحتها نقطة واحده غال ملعون حرقه أميرالمؤمنين عليه السلام بالنار كان يزعم أن عليا عليه السلام إله وأنه نبي لعنه الله.

عبد الله بن سبا کو علی نے جلوا دیا کیونکہ اس نے ان کو الہ کہا

بعض مستشرقین نے یہودی سازش کی چھپانے کے لئے یہ شوشہ چھوڑا کہ اس ابن سبا کی حکایت میں سَيْفُ بْنُ عُمَرَ التَّمِيمِيُّ  ضعیف ہے اس کے بعد شیعہ حضرات بہت خوش ہوئے اور اپنے ائمہ پر جھوٹ گھڑنے کا اتہام لگا دیا جو ابن سبا کا ذکر کرتے آئے ہیں – اہل سنت میں سَيْفُ بْنُ عُمَرَ التَّمِيمِيُّ  سے بعض روایات ابن سبا سے متعلق لی گئی ہیں لیکن کیا کتب شیعہ میں ابن سبا کی تمام خبریں سَيْفُ بْنُ عُمَرَ التَّمِيمِيُّ  کی سند سے ہیں ؟ نہیں ان کے مختلف راوی ہیں جو ثقہ سمھجے جاتے ہیں اور متقدمیں شیعہ ابن سبا کو ایک حقیقی شخص سمجھتے آئے ہیں- اس کے علاوہ اہل سنت کی کتب میں ٢٠ سے ٣٠ راوی ایسے ہیں جو کھلم کھلا اپنے اپ کو سبائی کہتے ہیں یا محدثین إن کو السبئية یا السبائية مين شمأر کرتے ہیں یا وہ رجعت کا عقیدہ رکھتے ہیں – جن  میں سے بعض سَيْفُ بْنُ عُمَرَ التَّمِيمِيُّ  سے پہلے کے ہیں

 السبئية سے متعلق  روایات کو محمد بن حنفیہ کے  بیٹے علی بن محمد بن علی نے جمع کیا تھا یعنی علی رضی الله عنہ کے پوتے نے اس کی خبر امام فسوی المعروفة والتاريخ میں دیتے ہیں

 وكان عَبد الله جمع أحاديث السبئية

اور عبد الله نے  السبئية کی روایات جمع کیں

مورخین کے نزدیک السبئية  سے مراد وہ قبائل بھی ہیں جو یمن میں آباد تھے اور وہیں سے ابن سبا کا تعلق تھاجو یمن سے کوفہ پہنچا اور مورخین کے مطابق اس کی ماں کالی تھی – یہ ایک لطیف نکتہ ہے کہ یہ اصلی یہودی بھی نہیں تھا کیونکہ یہود کے مطابق  کالے لوگ اصلی یہود نہیں اگرچہ اتھوپیا میں کالے یہودی ہیں لیکن باقی یہودی ان کو اصل نہیں مانتے دوسرا یہود میں نسل باپ سے نہیں ماں سے چلتی ہے

قرن اول میں  کوفہ میں ابن سبا رجعت کا عقیدہ بھی پھیلا رہا ہے اور وہاں   شیعہ  زاذان ہیں جو عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ کی وفات کے بعد اب   اصحاب علی  میں سے ہیں،  وہ روایت کرتے ہیں کہ مردہ میں عود روح ہوتا ہے – اس بات کو زاذان  سے پہلے،  نہ بعد میں ، کوئی روایت نہیں کرتا – عود روح کی یہ واحد روایت ہے جس میں صریحا جسد میں روح کے لوٹنے کا ذکر ہے

اس روایت کو زاذان سے ایک  اور متعصب شیعہ المنھال بن عمرو روایت کرتا ہے  یا عدی بن ثابت روایت کرتا ہے  یہ بھی شیعہ ہیں

اس طرح ابن سبا کے  عقیدہ رجعت کا  اسلامی عقیدہ کے طور پر ظہور ہوتا  ہے اور اب اہل سنت میں بھی مردہ قبر میں زندہ ہو جاتا ہے- عود روح کی روایت کے مطابق  روح آسمان پر نہیں جا سکتی لھذا وہ قبر میں ہی رہتی ہے گویا اب صرف انتظار ہے کہ    الساعہ  (وہ گھڑی) کب ہو گئی – اہل سنت جب اس روایت کو دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں اس میں الساعہ  سے مراد روز محشر ہے جبکہ  الساعہ  سے مراد رجعت ہے اسی لئے امام المہدی کو القائم کہا جاتا ہے جو صحیح غلط کا فیصلہ کریں گے اور انتقام لیں گے

شیعہ کتب کے مطابق  ابوحمزہ ثمالي کہتے ہیں: میں نے امام باقر علیہ السلام سے پوچھا: اے  فرزند رسول    کیا آپ سارے ائمہ قائم بالحق نہیں ہیں؟  فرمایا: کیوں نہیں؟  میں نے عرض کیا: تو پھر صرف امام مہدی  کیوں القائم قرار دیئے گئے ہیں اور صرف امام مہدی   کو ہی کیوں القائم کہا جاتا ہے؟  فرمایا: جب میرے جد امجد امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے تو کائنات کے فرشتوں کے رونے کی صدائیں بلند ہوئیں اور سارے فرشتے بارگاہ الہی میں شدت سے روئے اور عرض کیا: پروردگارا  کیا آپ بہترین بندے اور اشرف مخلوقات کے فرزند اور مخلوقات میں پسندیدہ ترین ہستی کے قاتلوں کو ان کے اپنے حال پر چھوڑ دے گا؟  اللہ تعالی نے انہیں وحی فرمائی کہ: میرے فرشتوں  پرسکون ہوجاؤ۔ میں اپنی عزت و جلال کی قسم کھاتا ہوں کہ ان سے انتقام لونگا خواہ یہ انتقال طویل زمانے گذرنے کے بعد ہی کیوں نہ ہو؛ اس کے بعد اللہ تعالی نے فرشتوں کو امام حسین علیہ السلام کی اولاد سے آنے والے ائمہ کا دیدار کرایا تو فرشتے مسرور ہوئے اور سب نے اچانک دیکھا کہ ائمہ میں سے ایک امام کھڑے ہوئے ہیں اور نماز ادا کررہے ہیں۔ اللہ تعالی نے فرشتوں سے خطاب کرکے فرمایا: میں اس القائم کے ذریعے ان سے انتقام لوں گا

اس طرح عقیدہ عود روح ابن سبا  کے دور میں ہی کوفہ میں شیعان علی میں پھیل چکا تھا – یہ ایک خفیہ تحریک تھی علی رضی الله عنہ  کو بھی اس  تحریک کا احساس دیر سے ہوا جب ابن سبا نے کھلم کھلا ان کو مجمع میں  رب العالمین کہا- علی نے اس  کے اصحاب کو مدائن کی طرف ملک بدر کر دیا  اور بعض اور کو جلا ڈالا – جس کی خبر،  علی کے گورنر ، ابن عباس رضی الله عنہ کو بصرہ میں ہوئی لیکن دیر ہو چکی تھی ابن عباس نے کہا اس  عمل سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے منع کیا تھا

الغرض عقیدہ رجعت اور عقیدہ عود روح ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں- اس بات کو خوب اچھی طرح سمجھ لیں

3 thoughts on “یسعیاہ، ابن سبا، الرجعة اورعود روح

  1. Fiza

    Buhat ilmi mazmoon hai. Allah aap ko jizaiyay khair dy. Aameen.

    Reply
  2. Shakeel Ahmed

    اسلام علیکم

    بھائی زاذان کی اس روایت کی سند پر روشنی ڈالیں
    زاذان
    يحيى بن معين .:قال ابن الجنيد عنه : ثقة .

    وقال محمد بن الحسين البغدادي : قلت لابن معين : ما تقول في زاذان ، روى عن سلمان ؟ قال : نعم ، روى عن سلمان ، وغيره ، وهو ثبت في سلمان .
    وقال يزيد بن الهيثم ، عنه : ثقة .
    ابن حبان:ذكره في طبقة التابعين من كتابه الثقات ، وقال : يخطئ كثيرًا .
    وقال في المشاهير : كان يهم في الشيء بعد الشيء .
    العجلي:كوفى تابعي ثقة .
    الذهبي:قال في (الكاشف) : ثقة

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      یہ اقوال قبول کیے جاتے ہیں ان میں سند کم ہی دیکھی جاتی ہے
      ایک تو محدث کی اپنی کتاب ہوتی ہے مثلا ابن حبان کی ثقات تو اس میں زاذان کو ثقہ کہا گیا ہے
      ابن حبان نے زاذان کو وہمی بھی قرار دیا ہے اور ثقہ بھی کہا ہے کیونکہ ان کے ثقہ کی تعریف میں بہت وسعت ہے
      وہ تو مجہول الحال تک کو ثقہ کہتے ہیں

      عجلی بھی متساہل ہیں اور ابن حبان کی طرح چوتھی صدی کے ہیں

      ——–
      پھر جرح و تعدیل میں سوالات پر بھی کتب ہیں
      جب کوئی راوی پر سوالات کرتا ہے تو اس پر بھی کتب میں
      ابن معین کی زاذان کی توثیق اس قسم کی کتب سے ملی ہے

      ابن معین نے زاذان کو ثقہ کہا یہ قول کتاب المنتجالی کا ہے جو اب معدوم ہے
      وفي «كتاب المنتجالي»: زاذان أبو عمر كان صاحب علي، وذكر عن محمد بن الحسين قال: قلت ليحيى بن معين: ما تقول في زاذان أبي عمر روى عن سلمان؟ قال: نعم، روى عن سلمان وغيره، وهو ثبت في سلمان.

      اس کی سند کا معلوم نہیں ہو سکا صحیح ہے یا نہیں
      ———-
      سؤالات ابن الجنيد لأبي زكريا يحيى بن معين
      المؤلف: أبو زكريا يحيى بن معين بن عون بن زياد بن بسطام بن عبد الرحمن المري بالولاء، البغدادي (المتوفى: 233هـ)
      یہ کتاب موجود ہے

      وسمعت أبا طالب يسأل يحيى بن معين عن زاذان أبي عمر، فقال: «ثقة»

      ابن جنید امام ابن معین کے شاگرد تھے انہوں نے ابو طالب نام کے ایک ہم مکتب کو سنا اس نے ابن معین سے زاذان پر سوال کیا تو کہا ثقہ ہے
      یہ قول براہراست نہیں ہوا بلکہ کسی اور کو کلام کرتے سنا
      لیکن اس قسم کے اقوال کو محدثین نے قبول کیا ہے
      ———

      ثقہ اور بدعت دو الگ چیزیں ہیں
      زاذان ثقہ ہے اور اس کی وہ روایت جو صحیح مسلم میں ہے اس پر ہم کو اعتراض نہیں ہے
      لیکن جب یہ اپنی بدعت کی موافق روایت لاتا ہے تو اس کی بدعت کی وجہ سے روایت قابل رد ہوتی ہے
      ——–
      یہ واحد راوی نہیں جو ایسا کرتا ہے
      اس قسم کے اور راوی بھی ہیں

      Reply

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *